Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   79   الحديث
الأهمية: نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ


Tema:

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور کھایا۔

عن أَسْمَاء بِنْت أَبِي بَكْرٍ-رضي الله عنهما- قالت: «نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله-صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ». وَفِي رِوَايَةٍ «وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ».

اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ”ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور اُس کو کھایا“۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تُخبِرُ أَسْمَاءُ بِنْت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- أنهم نَحَرُوا فَرَساً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَكَلُوهُ، وفي ذلك دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ أَكْلِ لُحُومِ الخَيْلِ، ولا يَتَوَهَم أَحَدٌ مَنْعَ أَكْلِهَا لاقْتِرَانِهَا مَعَ الحَمِيرِ والْبِغَالِ في الآية، وهي قوله تعالى: (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ)، [ النحل : 8 ].
575;سماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بتا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا۔ اس میں اس بات کی دلالت ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انہیں گدھوں اور خچروں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس لیے ان کا کھانا ممنوع ہے۔ (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ) [ النحل :8]۔
ترجمہ:”گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا تاکہ تم ان کی سواری لو اور وه باعثِ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3000

 
 
Hadith   80   الحديث
الأهمية: نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ


Tema:

میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

عن عُقْبَة بْن عَامِرٍ -رضي الله عنه- قال: «نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مِنْ طَبِيعَةِ الإنسَان أنَّه يَنْدَفِعُ أحياناً فَيُوجِبُ على نفسه مَا يَشُقُّ عليه، وقد جاء شَرْعُنا بالاعتدَال، وعدمِ المشَقَّة عَلى النَّفس في العِبادة حتى تَسْتَمِر، وفي هذا الحدِيثِ طلبت أخت عقبة بن عامر منه، أن يسأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنها نذرت أن تذهب إلى البيت الحرام ماشية حافية، فرَأَى النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أنَّ هذه المرأة تُطِيقُ شَيئاً مِن المشي، فَأمَرَها أَنْ تَمشِي مَا أَطَاقَت المشي، وأَنْ تَرْكَبَ إذا عَجَزَت عَن المشي.
575;نسان کی یہ طبیعت ہے کہ وہ بعض اوقات جذبات کی رو میں اپنے آپ پر کوئی ایسی شے واجب کر بیٹھتا ہے جس کا کرنا اس کے لیے باعثِ مشقت ہوتا ہے۔ ہماری شریعت میں عبادت کے سلسلے میں اعتدال اور عدم مشقت کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ ہمیشہ جاری رہے۔ اس حدیث میں ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں کہ انہوں نے بیت الحرام کی طرف ننگے پاؤں پیدل جانے کی نذر مانگی تھی؟ (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہ عورت کچھ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اس لیے آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اتنا چلے جتنا وہ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اور جب نہ چل سکے تو پھر سوار ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3001

 
 
Hadith   81   الحديث
الأهمية: نَهَى رَسُولُ الله عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إلاَّ مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أَوْ ثَلاثٍ، أَوْ أَرْبَعٍ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے دو یا تین یا چار انگشت کے برابر۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- أَنَّ رَسُولَ الله -صلى الله عليه وسلم- «نهى عن لُبُوسِ الحَرِيرِ إلا هكذا، ورَفَعَ لنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أُصْبُعَيْهِ: السَّبَّابَةَ، والوُسْطَى».
ولمسلم «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن لُبْس ِالحَرِيرِ إلا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أو ثلاثٍ، أو أربعٍ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے۔ (یہ فرما کر) رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو اوپر اٹھایا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے جو دو یا تین یا چار انگشت کے برابر ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى الذكور عن لبس الحرير إلا ما استثني، والمستثنى في الحديث المتفق عليه أصبعين، وفي رواية مسلم أو ثلاث أو أربع، فيؤخذ بالأكثر؛ فلا بأس من مقدار أربعة أصابع من الحرير في اللباس.
585;سول اللہ ﷺ نے مردوں کو ریشم پہننے سے منع فرمایا ماسوا اس مقدار کے جسے اس ممانعت سے مستثنیٰ کیا گیا ۔ متفق علیہ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی) حدیث میں جس مقدار کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ دو انگشت کے برابر ہے، جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں (دو) یا تین یا چار انگشت کا استثناء ہے۔ جو مقدار زیادہ ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ لباس میں چار انگشت کے برابر ریشم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3002

 
 
Hadith   82   الحديث
الأهمية: أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عن لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأذن في لحوم الخيل


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-: (أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن لحوم الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأَذِنَ في لحوم الخيل).
ولمسلم وحده قال: (أكلنا زمن خيبر الخيل وحُمُرَ الوَحْشِ، ونهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الحمار الأَهْلِيِّ).
عن عبد الله بن أبي أوفى -رضي الله عنه- قال: (أصابتنا مجاعة ليالي خيبر، فلما كان يوم خيبر: وقعنا في الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ فانْتَحَرْنَاهَا، فلما غَلَتِ بها القُدُورُ: نادى مُنَادِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أَكْفِئُوا القُدُورَ، وربما قال: ولا تأكلوا من لحوم الحُمُرِ شيئا).
عن أبي ثعلبة -رضي الله عنه- قال: (حَرَّمَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لحوم الحُمُر الأَهْلِيَّةِ).

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔
مسلم کی روایت کے مطابق :خیبر کے موقعے پر ہم نے گھوڑے اور جنگلی گدھے کا گوشت کھایا، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جنگ خیبر کی راتوں میں ہم بھوک کےشکار ہو گئے۔ جب خیبر کی جنگ کا دن آیا، تو ہم پالتو گدھوں پر ٹوٹ پڑے، جب ہماری ہانڈیوں میں گوشت ابلنے لگا، تو اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کردیا کہ ہانڈیاں الٹ دو، پالتو گدھوں کے گوشت میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا ہے

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخبرُ جابرُ بنُ عبدالله -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهَى عن لحُومِ الحُمُرِ الأهْلِيةِ، أي: نَهَى عَنْ أَكْلِهَا، وَأَنَّه أبَاحَ وأَذِنَ في لُحُومِ الْخَيلِ والْحِمَارِ الوَحْشِي، ويُخبر عبدالله بن أبي أوفى -رضي الله عنهما- بأنَّهم حَصَلَتْ لهم مَجَاعَةٌ في لَيَالي مَوْقِعَةِ خَيْبَر، ولما فُتِحَت انْتَحَرُوا مِنْ حُمُرِها، وأَخَذُوا مِنْ لَحْمِها وطَبَخُوهُ، ولما طَبَخُوه أَمَرَهُم النبي -صلى الله عليه وسلم- بكفْئ ِالقدورِ أي قلبها، وعَدَمِ الأَكل من ذلك اللحم.
580;ابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما یہ بتا رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جب کہ گھوڑے اور جنگلی گدھے کے گوشت کو حلال قرار دیتے ہوئے کھانے کی اجازت دی ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ غزوۂ خیبر کےموقع پر ان کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جب فتح حاصل ہو گئی، تو انھوں نے حاصل ہونے والے گدھوں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت لے کر پکایا۔ جب پکا چکے، تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہانڈیاں الٹ دینے اور کھانے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3003

 
 
Hadith   83   الحديث
الأهمية: يا عبدَ الرحمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لا تَسْأَلْ الإِمَارَةَ؛ فَإِنَّكَ إن أُعْطِيتَها عن مسأَلَةٍ وُكِّلْتَ إليها


Tema:

اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔

عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال له: «يا عبد الرحمن بن سَمُرَة، لا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ؛ فإنك إن أُعْطِيتَها عن مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إليها، وإن أُعْطِيتَهَا عن غير مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عليها، وإذا حَلَفْتَ على يمينٍ فرأيتَ غيرها خيرًا منها، فَكَفِّرْ عن يمينك، وَأْتِ الذي هو خير».

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: ”اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔ اور اگر بغیر مانگے تمہیں مل جائے تو اس میں (اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن سؤال الإمارة؛ لأنَّ مَن أعطيها عن مسألةٍ خُذِلَ وتُرِكَ لِرَغْبَتِه في الدنيا وتفضيلها على الآخرة، وأن من أُعْطِيَها عَنْ غَيْرِ مسألةٍ أعانَهُ اللهُ علَيها، وأنَّ الحَلف على شيء لا يكون مانعًا عن الخير، فإن رأى الحالفُ الخيرَ في غيرِ الحلف فلَه التَّخَلُص من الحلف بالكفارة ثم يأت الخير.
585;سول اللہ ﷺ نے امارت مانگنے سے منع فرمایا ہے کیوں کہ جس کو مانگنے سے امارت ملے وہ رسوا کر دیا جائے گا اور اس کو دنیا کی رغبت رکھنے اور اُس کو آخرت پر ترجیح دینے والا مان کر چھوڑ دیا جائے گا۔ اور جس کو بغیر مانگے ملے تو اس پر اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کی جائے گی۔ کسی چیز پر قسم اٹھانا خیر وبھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے اگر قسم اٹھانے والا دیکھتا ہے کہ جس پر قسم اٹھائی گئی ہے اس سے ہٹ کر معاملے میں خیر ہو تو اپنی قسم کا کفارہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرے اور جس میں خیر ہو اسے اختیار کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3004

 
 
Hadith   84   الحديث
الأهمية: ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه


Tema:

کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا۔

عن أبي واقد الحارث بن عوف -رضي الله عنه- أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بينما هو جالس في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ نَفَرٍ، فأقبل اثنان إلى رسول الله، -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد، فوقفا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى فُرْجَةً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فأدْبَر ذاهبٍا، فلما فرغ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه».

ابو واقد حارث بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں تین افراد آئے۔ دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑے ہو گیے۔ ان میں سے ایک نے حلقے میں کچھ کشادگی دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا جب کہ تیسرا واپس لوٹ گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاوں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی (کہ اسے مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا) اورتیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان جالسا في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ رجال، فأقبل اثنان إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد؛ فوقفا عند حلقة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى مكاناً فارغاً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، والحلقة رجال جالسون على شكل دائرة أمام النبي -صلى الله عليه وسلم- وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فرجع وانصرف، فلما فرغ وانتهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من حديثه الذي كان فيه، قال للصحابة ألا أُخْبِرُكُم عن الرجال الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه أي جلس في المكان الفارغ يستمع ذكر الله فأكرمه الله بفضيلة ذلك المجلس المبارك، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه أي امتنع من المزاحمة؛ فجلس خلف الحلقة فلم يُمنع من بركة المجلس، وأما الآخر فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه أي ذهب بلا عذر فمُنع بركة المجلس.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں لوگوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں تین آدمی وہاں آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کےحلقے کے پاس آکر کھڑے ہوگیے۔ ان میں سے ایک کو حلقے میں خالی جگہ نظر آئی تو وہ وہاں بیٹھ گیا۔ اس حلقے میں کچھ لوگ تھے جو نبی ﷺ کے سامنے گول دائرے کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ دوسرا شخص ان کے پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا شخص واپس لوٹ گیا۔ نبی ﷺ جو گفتگو فرما رہے تھے اس سے جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا یعنی اس نے خالی جگہ پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر سننا شروع کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس مبارک مجلس کی فضیلت سے نوازا۔ جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی یعنی (کسی کو ) دھکیلے بغیر وہ حلقے کے پیچھے بیٹھ گیا چنانچہ اسے بھی اس مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا گیا۔ جب کہ تیسرے شخص نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا یعنی وہ بلا کسی عذر کے واپس چلا گیا اس لیے مجلس کی برکت سے محروم کر دیا گیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3005

 
 
Hadith   85   الحديث
الأهمية: قال قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ


Tema:

آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو:”اے اللہ!،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے، اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شراوراس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن أبا بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: يا رسول الله مُرني بكلمات أقُولُهُنَّ إذا أصبَحتُ وإذا أمسَيتُ، قال: «قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة، ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ وأن أقترف على نفسي سوءًا أو أجرُّه إلى مسلم» قال: «قلها إذا أصبحت، وإذا أمسيت، وإذا أخذْتَ مَضْجَعَك».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیں جنھیں میں صبح شام پڑھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: ((اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالمَ الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهدُ أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ)) ترجمہ: ”اے اللہ،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے،اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر نیز شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب صبح کرو تب یہ (دعا) پڑھو، جب شام کرو تب بھی پڑھو اور جب اپنے بستر پر جاؤ اس وقت بھی پڑھو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الذكر من الأذكار التي تقال في الصباح والمساء، والذي علَّمها النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر -رضي الله عنه- حيث قال: علمني.   فعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم- ذكرًا ودعاءً يدعو به كلما أصبح وكلما أمسى، وأمره أن يقول: (اللهم فاطر السماوات والأرض) يعني: يا الله يا فاطر السماوات والأرض وفاطرهما، يعني أنه خلقهما عز وجل على غير مثال سبق، بل أبدعهما وأوجدهما من العدم على غير مثال سبق.
(عالم الغيب والشهادة) أي: عالم ما غاب عن الخلق وما شاهدوه؛ لأن الله تعالى يعلم الحاضر والمستقبل والماضي.
(رب كل شيء ومليكه)، يعني: يا رب كل شيء ومليكه، والله تعالى هو رب كل شيء وهو مليك كل شيء.
(أشهد أن لا إله إلا أنت): أعترف بلساني وقلبي أنه لا معبود حق إلا أنت، فكل ما عبد من دون الله فإنه باطل لا حق له في العبودية ولا حق في العبودية إلا لله وحده -عز وجل-.
قوله: أ(عوذ بك من شر نفسي)؛ لأن النفس لها شرور كما قال -تعالى-: (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)، فإذا لم يعصمك الله من شرور نفسك فإنها تضرك وتأمرك بالسوء، ولكن الله إذا عصمك من شرها وفقك إلى كل خير.
وختم النبي -عليه الصلاة والسلام- بقوله: (ومن شر الشيطان وشِرْكه) وفي لفظ وشَرَكه، يعني: تسأل الله أن يعيذك من شر الشيطان ومن شر شِركه، أي: ما يأمرك به من الشِّرك أو شَرَكه، والشَرَك: ما يصاد به الحوت والطير وما أشبه ذلك؛ لأن الشيطان له شرَك يصطاد به بني آدم إما شهوات أو شبهات أو غير ذلك، (وأن أقترف على نفسي سوءًا)، أي: أجر على نفسي سوءًا (أو أجره إلى مسلم).
فهذا الذكر أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر أن يقوله إذا أصبح وإذا أمسى وإذا أخذ مضجعه.
740;ہ ذکر ان اذکار میں سے ہے جنہیں صبح و شام کیا جاتا ہے اور جس کی تعلیم نبی ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی جب انھوں نے عرض کیا کہ: "مجھے سکھائیں"۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انھیں صبح و شام کیا جانے والا ذکر اور دعا سکھائی اور ان سے کہا کہ وہ یوں کہا کریں: " اللهم فاطرَ السماواتِ والأرضِ"۔ یعنی اے اللہ، اے آسمانوں اور زمین دونوں کے پیدا کرنے والے!۔ "فاطر" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کیا اور بنا کسی پیشگی مثال کے انھیں عدم سے وجود بخشا۔
"عالم الغيب و الشهادة"۔ یعنی ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے جنھیں وہ دیکھتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ حال، مستقبل اور ماضی سب سے واقف ہے۔
"رب كل شئ و مليكه"۔ یعنی اے ہر چیز کے رب اور ہر چیز کے مالک!۔ اللہ تعالی ہر چیز کے رب اور مالک ہیں۔
"أشهد أن لا إله إلا أنت"۔ میں اپنی زبان اور دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اللہ کے علاوہ جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور عبودیت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ عبودیت کے حق دار صرف اور صرف اللہ عز و جل ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "أعوذ بك من شر نفسي"۔ کیوں کہ نفس کی شر انگیزیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي‘‘ (یوسف: 53)۔ ترجمہ: "اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے اِلاّ یہ کہ جس پر میرا رب مہربانی کرے"۔ جب اللہ آپ کو آپ کے نفس کی شر انگیزیوں سے نہ بچائے تو وہ آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور برائی پر اکساتا ہے۔ لیکن اگر اللہ آپ کو اس کے شر سے محفوظ کر دے تو آپ کو ہر نیکی کی توفیق دیتا ہے۔
نبی ﷺ نے اپنی دعا کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ فرمایا: " ومن شر الشيطان وشِرْكه"۔ ایک اور روایت میں " و شَرَكه" کے الفاظ ہیں۔ یعنی آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ آپ کو شیطان کے شر اور اس شرک سے پناہ دے جس پر وہ اکساتا ہے یا اس کے جال سے بچائے۔ "الشَرَک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے مچھلیاں اور پرندے وغیرہ شکار کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ شہوات و شبہات وغیرہ شیطان کے جال ہیں جن سے وہ انسانوں کا شکار کرتا ہے۔
" وأن اَقترفُ على نفسي سوءا"۔ یعنی خود اپنے آپ کے ساتھ کچھ برا کروں یا پھر کسی مسلمان کو برائی پہنچاؤں۔ نبی ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس ذکر کو صبح و شام اور اس وقت کیا کریں جب اپنے بستر پر لیٹ جائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3006

 
 
Hadith   86   الحديث
الأهمية: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله


Tema:

معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

عن أبي  سعيد الخدري –رضي الله عنه- قال: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله، قال: آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟ قالوا: ما أجلسنا إلا ذاك، قال: أما إنّي لم استَحْلِفْكُم تُهْمَةً لكم، وما كان أحد بمنزلتي من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أقَلَّ عنه حديثاً مِنِّي: إنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خَرَجَ على حَلْقَةٍ من أصحابه فقال: «ما أَجْلَسَكم؟» قالوا: جلسنا نذكر الله ونَحْمَدُهُ على ما هَدَانا للإسلام؛ ومَنَّ بِهِ علينا، قال: «آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟» قالوا: والله ما أجلسنا إلا ذاك، قال: «أما إنّي لم أستحلفكم تُهْمَةً لكم، ولكنه أتاني جبريل فأخبرني أن الله يُبَاهِي بكم الملائكة».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا: قسم کھاؤ کہ تم صرف اس غرض سے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے کہا: ہم صرف اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک تھا۔کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو( رسول اللہ ﷺ سے) احادیث کو روایت کرنے میں مجھ سے کم ہو۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے کے پاس آئے اور فرمایا: تم کس لیے بیٹھے ہو؟ ۔ انھوں نے جواب دیا:ہم بیٹھے اللہ کا ذکر کر ر ہے ہیں اور اس نے دین اسلام کی طرف ہدایت بخش کر ہم پر جو احسان کیا اس پراس کی حمد بیان کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم کھاؤ کہ تم اسی غرض سے بیٹھے ہو۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک ہے۔ بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کر تے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث من الأحاديث التي تدل على فضيلة الاجتماع على ذكر الله -عز وجل-، وهو ما رواه أبو سعيد الخدري عن معاوية -رضي الله عنهما- أنه خرج على حلقة في المسجد فسألهم على أي شيء اجتمعوا، فقالوا: نذكر الله، فاستحلفهم -رضي الله عنه- أنهم ما أرادوا بجلوسهم واجتماعهم إلا الذكر، فحلفوا له، ثم قال لهم: إني لم أستحلفكم تهمة لكم وشكًّا في صدقكم، ولكني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج على قوم وذكر مثله، وأخبرهم أن الله -عز وجل- يباهي بهم الملائكة، فيقول مثلا: انظروا إلى عبادي اجتمعوا على ذكري، وما أشبه ذلك، مما فيه المباهاة، ولكن ليس هذا الاجتماع أن يجتمعوا على الذكر بصوت واحد، ولكن يذكرون أي شيء يذكرهم بالله -تعالى- من موعظة وذكرى أو يتذكرون نعمة الله عليهم بما أنعم عليهم من نعمة الإسلام وعافية البدن والأمن، وما أشبه ذلك، فإن ذكر نعمة الله من ذكر الله -عز وجل-، فيكون في هذا دليل على فضل جلوس الناس ليتذاكروا نعمة الله عليهم.
740;ہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جو اللہ عز و جل کے ذکر کے لیے جمع ہونے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حدیث کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ مسجد میں لگے ایک حلقے کے پاس آئے اور ان لوگوں سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بات پر قسم اٹھوائی کہ وہ اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور صرف اسی مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس بات پر انھوں نے قسم اٹھا لی۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے تم سے اس وجہ سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تمہاری سچائی میں کچھ شک تھا بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے ان سے اسی طرح قسم اٹھوائی تو انھوں نے قسم کھا لی۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ عز و جل ان پر فرشتوں کے سامنے فخر کر تا ہے، مثلاً وہ کہتا ہے: میرے بندوں کو دیکھوکہ وہ میرا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور بات کہتا ہے جس سے اظہارِ فخر ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ یہ کوئی ایسا اجتماع نہیں تھا جس میں وہ یک آواز ہو کر ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہوں بلکہ وہ ہر اس چیز کا ذکر کر رہے تھے جو انہیں اللہ کی یاد دلاتی جیسے کوئی نصیحت و موعظت یا پھر اللہ نے انھیں جس نعمت اسلام، جسمانی عافیت اور امن سے نوازا تھج، اسے یاد کر رہے تھے۔ اللہ کی کسی نعمت کا ذکر کرنا خود اللہ عز و جل کا ذکر کرنا ہے۔ اس حدیث میں لوگوں کا اکٹھے ہو کر آپس میں ان پر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3007

 
 
Hadith   87   الحديث
الأهمية: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له


Tema:

جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"

عن عبد الله بن مسعود-رضي الله عنه- قال: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: «أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له» قال الراوي: أَرَاهُ قال فِيهِنَّ: «له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، ربِّ أسألك خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها، وأعوذ بك من شر ما في هذه الليلة وشر ما بعدها، رب أعوذ بك من الكسل، وسُوءِ الكِبَرِ، رب أعوذ بك من عذاب في النار، وعذاب في القبر»، وإذا أصبح قال ذلك أيضا «أصبحنا وأصبح الملك لله».
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"
ترجمہ: ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام حاصل رہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ ان کے ساتھ یہ کلمات بھی کہتے: "لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ربِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ "۔
ترجمہ: بادشاہی اسی کی ہے اور ہر قسم کی حمد بھی اُسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے میرے رب! میں تجھ سے اِس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اُس کی بھی جو اس کے بعد ہے۔ اور اس رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اُس سے بھی جو اس کے بعد ہے۔ اے رب! میں سستی سے اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے رب ! میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اور جب صبح کرتے، تو بھی یہی دعا پڑھتے، لیکن "أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ" فرماتے۔ترجمہ: ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هديه -عليه الصلاة والسلام- عند دخول الصباح والمساء أن يقول هذه الأدعية المباركة، فقوله: (أمسينا وأمسى الملك لله) أي :دخلنا في المساء ودام الملك فيه لله مختصًا به، (والحمد لله) أي: جميع الحمد لله، أي: أمسينا وعرفنا فيه أن الملك لله وأن الحمد لله لا لغيره، (ولا إله إلا الله) أي: منفردًا بالألوهية.
قوله: (رب أسألك من خير هذه الليلة) أي ذاتها وعينها (وخير ما فيها) أي: من خير ما ينشأ ويقع ويحدث فيها وخير ما يسكن فيها، (وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) أي من الليالي وما فيها من شر يلحق الدين والدنيا.
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) أي التثاقل في الطاعة مع الاستطاعة، ويكون ذلك لعدم انبعاث النفس للخير مع ظهور الاستطاعة.
(وسوء الكِبَر) بمعنى الهرم والخرف وكبر السن المؤدي إلى تساقط بعض القوى وضعفها وهو الرد إلى أرذل العمر؛ لأنه يفوت فيه المقصود بالحياة من العلم والعمل، لما يورثه كبر السن من ذهاب العقل، واختلاط الرأي والتخبط فيه، والقصور عن القيام بالطاعة وغير ذلك مما يسوء الحال، وروي بإسكان الباء بمعنى البطر أي الطغيان عند النعمة والتعاظم على الناس، (وعذاب القبر) أي من نفس عذابه أو مما يوجبه.
(وإذا أصبح) أي دخل -صلى الله عليه وسلم- في الصباح (قال ذلك) أي: ما يقول في المساء (أيضًا) أي لكن يقول بدل "أمسينا وأمسى الملك لله" (أصبحنا وأصبح الملك لله) ويبدل اليوم بالليلة فيقول: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم، ويذكر الضمائر بعده.
589;بح وشام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں پڑھا کرتے تھے۔
آپ ﷺ فرماتے: (أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ): یعنی ہم شام کے وقت میں داخل ہوئے اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا اور وہ اسی کے لیے خاص ہے۔
(وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) یعنی ہم شام میں داخل ہوئے اور تعریف سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی شام کے آنے پر ہم نے جان لیا کہ بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور حمد کا سزاوار بھی صرف وہی ہے۔
(وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) یعنی الوہیت میں وہ یکتا ہے۔
(رب إني أسألك من خير هذه الليلة) یعنی میں تجھ سے اس رات کی ذات کی بھلائی طلب کرتا ہوں۔
(وخير ما فيها) یعنی ہر اس شے کی بھلائی مانگتا ہوں، جو اس میں وجود میں آتی اور وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس میں ٹھہرتی ہے۔
(وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) یعنی راتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور ان میں دین و دنیا کو لاحق ہونے والے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) یعنی استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی نیکیوں میں سستی سے پناہ چاہتا ہوں۔ ایسا تب ہوتا ہے، جب استطاعت کے با وجود نفس نیکی پر آمادہ نہ ہو۔
(وسوء الكِبَر) یعنی بڑھاپے اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگتا ہوں۔ یعنی کبر سنی سے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کام چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتا ہے: کیوںکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم وعمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔
ایک روایت میں ”الکبر“ باء پر سکون کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو   ‎   ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔
(وعذاب القبر) یعنی خود قبر کے عذاب سے یا پھر جن باتوں کی وجہ سے یہ ہوتا ہے، ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(وإذا أصبح) یعنی آپ ﷺ جب صبح کرتے، تو اسی طرح کہتے یعنی وہی کچھ کہتے، جو شام کو کہتے تھے، لیکن ”أمسينا و أمسى الملك لله“ کی بجائے ”أصبحنا و أصبح الملك لله“ کہتے اور ”الليلة“ کو ”اليوم“ سے بدل دیتے اور فرماتے: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم۔ اور اس کے بعد دن کے ضمائر کو ذکر کرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3008

 
 
Hadith   88   الحديث
الأهمية: بينما الناس بقباء في صلاة الصبح إذ جاءهم آت، فقال: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل القبلة، فاستقبلوها


Tema:

لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبی ﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «بَينَمَا النَّاس بِقُبَاء في صَلاَة الصُّبحِ إِذْ جَاءَهُم آتٍ، فقال: إِنَّ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزِل عليه اللَّيلةّ قرآن، وقد أُمِرَ أن يَستَقبِل القِبْلَة، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وكانت وُجُوهُهُم إلى الشَّام، فَاسْتَدَارُوا إِلى الكَّعبَة».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبیﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں۔ (اس وقت) ان لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے، تو (يہ سن کر) سب کعبہ کی طرف گھوم گئےـ

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج أحد الصحابة إلى مسجد قباء بظاهر المدينة، فوجد أهله لم يبلغهم نسخ القبلة، ولا زالوا يصلون إلى القبلة الأولى، فأخبرهم بصرف القبلة إلى الكعبة، وأنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزل عليه قرآن في ذلك -يشير إلى قوله تعالى:{ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}، [البقرة: 144] وأنه -صلى الله عليه وسلم- استقبل الكعبة، فمن فقههم وسرعة فهمهم وصحته استداروا عن جهة بيت المقدس -قبلتهم الأولى- إلى قبلتهم الثانية، الكعبة المشرفة.
575;يک صحابي مدينہ کے نواح میں مسجد قباء کی طرف گئے تو پتہ چلا کہ وہاں کے لوگوں کواب تک قبلہ کی تبديلی کا علم نہيں ہوا ہے اور وہ لوگ ابھی بھی قبلۂ اول (بيت المقدس) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے ہيں، تو انہيں بتلايا کہ قبلہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا گيا ہے، اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، صحابی رضی اللہ عنہ کا اشارہ اللہ تعالیٰٰ کے اس فرمان کی طرف تھا: { قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}[البقرة: 144] ''ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔''(سورہ بقرہ:144) اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہء کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ لہذا ان لوگوں نے دین کی گہری سمجھ، تيز فہمی اور صحيح فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے قبلہ بيت المقدس کی طرف سے اپنا رخ موڑ کر اپنے دوسرے قبلہ خانہءکعبہ کی طرف کرليا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3009

 
 
Hadith   89   الحديث
الأهمية: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة


Tema:

ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: "ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہاہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے؛ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: «إنهما ليُعذَّبان، وما يُعذَّبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: ”ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہاہے؛ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مرَّ النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومعه بعض أصحابه بقبرين، فكشف الله -سبحانه وتعالى- له عن حالهما، وأنهما يعذبان، فأخبر أصحابه بذلك؛ تحذيراً لأمته وتخويفاً، فإنَّ صاحبي هذين القبرين، يعذَّب كل منهما بذنب  تركُه والابتعادُ عنه يسيرٌ على من وفقه الله لذلك.
فأحَدُ المعذَّبَيْن كان لا يحترز من بوله عند قضاء الحاجة، ولا يتحفّظ منه، فتصيبه النَجاسة فتلوث بدنه وثيابه ولا يستتر عند بوله، والآخر يسعى بين الناس بالنميمة التي تسبب العداوة والبغضاء بين الناس، ولاسيما الأقارب والأصدقاء، يأتي إلى هذا فينقل إليه كلام ذاك، ويأتي إلى ذاك فينقل إليه كلام هذا؛ فيولد بينهما القطيعة والخصام. والإسلام إنما جاء بالمحبة والألفة بين الناس وقطع المنازعات والمخاصمات.
ولكن الكريم الرحيم -صلى الله عليه وسلم- أدركته عليهما الشفقة والرأفة، فأخذ جريدة نخل رطبة، فشقَّها نصفين، وغرز على كل قبر واحدة، فسأل الصحابة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن هذا العمل الغريب عليهم، فقال: لعل الله يخفف عنهما بشفاعتي ما هما فيه في العذاب، ما لم تيبس هاتان الجريدتان، أي مدة بقاء الجريدتين رطبتين، وهذا الفعل خاص به -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی کریم ﷺ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ دو قبروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے حالات سے آگاہ فرما دیا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپﷺ نے اپنی امت کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لیے صحابہ کو بتادیا کہ ان دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور جن گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، اللہ کی توفیق سے ان کو چھوڑنا اور ان سے بچنا بھی چنداں مشکل نہیں۔
ان میں سے ایک کو عذاب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ قضائے حاجت کے وقت پیشاب کے چھینٹوں سےاجتناب نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ پیشاب کی نجاست سے اس کے کپڑے اور بدن آلودہ ہو جاتے تھے، نیز پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ جب کہ دوسرا شخص لوگوں میں چغلی کرتا پھرتا تھا، جو لوگوں بالخصوص رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا سبب بنتی تھی۔ اس کے پاس آتا تو اس کی باتیں بتاتا اور اس کے پاس جاتا تو اس کی باتیں بتاتا؛ اس طرح ان کے درمیان قطع تعلقی اور جھگڑا پیدا کرتا۔ جب کہ اسلام لوگوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے اور تنازع و جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔
رحم وکرم کے پیکر نبیﷺ کو ان پر شفقت اور رحم آیا۔ چنانچہ کھجور کی ایک تر شاخ پکڑی، اسے چیر کر دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عجیب وغریب عمل کے بارے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شاید میری سفارش کی وجہ سے ان پر ہونے والے عذاب میں اللہ تعالیٰ اس وقت تک تخفیف فرما دے، جب تک یہ خشک نہیں ہو جاتیں۔ یعنی جب تک ان میں تری باقی رہے۔ واضح رہے کہ یہ فعل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3010

 
 
Hadith   90   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بالأمير خيرا، جعل له وزير صدق، إن نسي ذكره، وإن ذكر أعانه، وإذا أراد به غير ذلك جعل له وزير سوء، إن نسي لم يذكره، وإن ذكر لم يعنه


Tema:

جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعًا: «إِذَا أَرَادَ اللهُ بِالأمِيرِ خَيرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدقٍ، إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ بِهِ غَيرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ، إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أنّ الله تعالى: "إذا أراد  بالأمير خيراً"، وفسِّرت هذه الخيرية لمن وُفِّق لوزير صدق من الأمراء بخيرية التوفيق لخيري الدارين، كما فسرت هذه الخيرية بالجنة.
وقوله: "جعل له وزير صدق" أي في القول والفعل، والظاهر والباطن، وأضافه إلى الصدق؛ لأنَّه الأساس في الصُحبة وغيرها.
فــ"إن نسي" أي: هذا الأمير، فإن نسي ما يحتاج إليه -والنسيان من طبيعة البشر-، أو ضلّ عن حكم شرعي، أو قضية مظلوم، أو مصالح لرعية، "ذكَّره" أي: هذا الوزير الصادق وهداه.
"وإن ذكر" الأمير ذلك، "أعانه" عليه بالرأي والقول والفعل.
608;أما قوله: "وإذا أراد به غير ذلك" أي: غير الخير، بأن أراد به شرّاً، كانت النتيجة "جعل له وزير سوء" والمراد: وزير سوء في القول، والفعل، نظير ما سبق في ضده.
"إن نسي" أي: ترك مالا بد منه "لم يذكِّره" به؛ لأنه ليس عنده من النور القلبي ما يحمله على ذلك.
"وإن ذكر لم يعنه" بل يسعى في صرفه عنه؛ لشرارة طبعه، وسوء صنعه.


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے“۔ اس حدیث میں ارادے سے مراد کونی و قدری ارادہ ہے۔ اسی لیے اس میں خیر و شر دونوں ہی اقسام کے ساتھ تعلق کا ذکر ہوا ہے؛ کیونکہ اللہ اسے کبھی پسند کرتا ہے اور کبھی ناپسند کرتا ہے۔ یہ ارادہ اپنی وسعت کے ذریعے شرعی ارادے کو بھی شامل ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے۔ حکمرانوں میں سے جسے راست باز و خیر خواہ وزیر مل جائے اس کو ملنے والی اس خیر کی تفسیر دونوں جہانوں کی بھلائی کی توفیق ملنے سے کی گئی ہے، اسی طرح اس خیر کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد جنت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ راست باز وزیر عطا کر دیتا ہے۔" یعنی جو قول و فعل اور ظاہر و باطن میں سچا ہوتا ہے۔ وزیر کی اضافت سچ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ صحبت وغیرہ میں سچائی ہی بنیاد ہوتی ہے۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی وہ امیراگر اپنی کسی ضرورت کی بات کو بھول جائے – اور بھولنا انسان کی فطرت ہے - ، یا کسی شرعی حکم یا مظلوم کے معاملے یا رعیت کے مفاد کا خیال کرنے سے بھٹک جائے تو ”وہ اس کو یاد دہانی کرا دیتا ہے“۔ یعنی یہ سچا وزیر اسے یاد کرا دیتا ہے اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔
اگر حاکم کو وہ یاد ہو تو پھر رائے اور قول و فعل کے ذریعے سے اس کی مدد کرتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کا اس کے علاوہ کسی اور شے کا ارادہ ہو“۔ یعنی خیر کے بجائے کسی اور شے کا ارادہ ہو جیسے کہ شر کا ارادہ ہو۔ آپ ﷺ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اس کو بیان کیا تا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ شر سے اجتناب کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب آپ ﷺ اس کی قباحت اور شناعت کی وجہ سے اس کے نام یعنی شر کے ذکر سے بھی اجتناب کر رہے ہیں تو اس کے مدلول سے تو بطریق اولی اجتناب کرنا چاہیے۔ خیر کے لئے اسم اشارہ "ذلک" استعمال کیا گیا جو کہ بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی تعظیم اور اس کے علو مرتبت کا بیان ہے اور اسے پانے اورحاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
خیر کے علاوہ کے ارادہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ”اللہ اس کے لیے برا وزیر مقرر کر دے گا“۔ یعنی ایسا وزیر جو قول و فعل میں برا ہو گا۔ یعنی سابق الذکر وزیر کا الٹا ہو گا۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی کسی ضروری شے کو چھوڑ دے تو ”وہ اسے یاد نہیں کراتا“ کیونکہ اس کے پاس وہ قلبی نور نہیں ہوتا جو اسے اس کام پر ابھارے۔
”اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا“ بلکہ وہ اپنی فطری برائی اور بد کرداری کی وجہ سے اسے اس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3011

 
 
Hadith   91   الحديث
الأهمية: ما بعث الله من نبي، ولا استخلف من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتحضه عليه، وبطانة تأمره بالشر وتحضه عليه


Tema:

اللہ نے کوئی ایسا نبی اور خلیفہ نہیں بھیجا کہ اس کے مشیر (صلاح کار)دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسے نیکی اوربھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے برائی کا حکم دیتے ہیں اوراس پر اسے ابھارتے رہتے ہیں۔

عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "ما بعث الله من نبي ولا اسْتَخْلَفَ من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتَحُضُّهُ عليه، وبطانة تأمره بالشر وتَحُضُّهُ عليه، والمعصوم من عصم الله".

ابوسعید خدری - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم و محفوظ تو وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم و محفوظ رکھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- أن الله ما بعث من نبي ولا استخلف من خليفة إلا كان له بطانتان: بطانة خير تأمره بالخير وتحثه عليه، وبطانة سوء تدله على السوء وتأمره به، والمحفوظ من تأثير بطانة الشر هو من حفظه الله -تعالى-.
606;بی علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہےاور برائی کے مشیر کی تاثیر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3012

 
 
Hadith   92   الحديث
الأهمية: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول


Tema:

جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِذَا سَمِعتُم المُؤَذِّن فَقُولُوا مِثلَ مَا يَقُول».

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا سمعتم المؤذن للصلاة فأجيبوه، بأن تقولوا مثل ما يقول، جملة بجملة، فحينما يكبر فكبروا بعده، وحينما يأتي بالشهادتين، فأتوا بهما بعده، فإنه يحصل لكم من الثواب ما فاتكم من ثواب التأذين الذي حازه المؤذن، والله واسع العطاء، مجيب الدعاء.
يستثنى من الحديث لفظ: (حي على الصلاة، حي على الفلاح) فإنه يقول بعدها: لا حول ولا قوة إلا بالله.
580;ب تم مؤذّن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اس کا جواب دو بایں طور کہ جملہ بجملہ ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ جب وہ ’’اللہُ اَکبَرْ‘‘ کہے تو اس کے پیچھے پیچھے تکبیر کہو، جب شہادتین کو ادا کرے تو تم بھی اس کے بعد انہیں ادا کرو۔ مؤذّن کو اذان دینے کا جو ثواب حاصل ہوا ہے اور جس سے تم محروم رہے ہو وہ تمہیں بھی حاصل ہو جائے گا۔ اللہ بہت زیادہ دینے والا اور دعا کو قبول کرنے والا ہے۔
اس حدیث (ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے) سے ”حيّ علی الصلاۃ“ اور ”حيّ علی الفلاح“ مستثنی ہیں، اذان کا جواب دینے والا ان کلمات کی جگہ ”لا حول ولا قوّۃ الا باللہ“ کہے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3013

 
 
Hadith   93   الحديث
الأهمية: كنت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في سفر، فأهويت لأنزع خفيه، فقال: دعهما؛ فإني أدخلتهما طاهرتين، فمسح عليهما


Tema:

میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا ۔

عن المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- قال: ((كُنت مع النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- في سَفَر، فأهْوَيت لِأَنزِع خُفَّيه، فقال: دَعْهُما؛ فإِنِّي أدخَلتُهُما طَاهِرَتَين، فَمَسَح عليهما)).

مغیر بن شعبہ - رضی اللہ عنہ- بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالتِ طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان المغيرة -رضي الله عنه- مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في أحد أسفاره -وهو سفره في غزوة تبوك-، فلما شرع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الوضوء، وغسل وجهه ويديه، ومسح رأسه، أهوى المغيرة إلى خفي النبي -صلى الله عليه وسلم- لينزعهما؛ لغسل الرجلين، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- اتركهما ولا تنزعهما، فإني أدخلت رجلي في الخفين وأنا على طهارة، فمسح النبي -صلى الله عليه وسلم- على خفيه بدل غسل رجليه.
وكذلك الجوارب ونحوها تأخذ حكم الخفين.
605;غیرہ - رضی اللہ عنہ- ایک سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ کا یہ سفر غزوۂ تبوک کا سفر تھا۔ جب نبی ﷺ نے وضو کرنا شروع کیا اور آپ ﷺ اپنا چہرہ انوراور اپنے ہاتھ دھو چکے اور آپ ﷺ نے اپنے سر کا مسح کرلیا تو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے موزوں کو اتارنے کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ پاؤں دھوئے جا سکیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو اور انہیں نہ اتارو۔ میں ںے اپنے پاؤں کو موزوں میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے پاؤں کو دھونے کے بجائے اپنے موزوں پرمسح فرمایا۔
جرابوں وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو موزوں کا ہے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3014

 
 
Hadith   94   الحديث
الأهمية: إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم


Tema:

بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ بِلالاً يُؤَذِّن بِلَيلٍ، فَكُلُوا واشرَبُوا حتَّى تَسمَعُوا أَذَان ابنِ أُمِّ مَكتُوم».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان للنبي -صلى الله عليه وسلم- مؤذنان: بلال بن رباح وعبد الله بن أم مكتوم -رضي الله عنهما- وكان ضريرًا، فكان بلال يؤذن لصلاة الفجر قبل طلوع الفجر؛ لأنها تقع وقت نوم ويحتاج الناس إلى الاستعداد لها قبل دخول وقتها، فكان -صلى الله عليه وسلم-  يُنَبِّه أصحابه إلى أن بلالًا -رضي الله عنه- يؤذن بليل، فيأمرهم بالأكل والشرب حتى يطلع الفجر، ويؤذن المؤذن الثاني وهو ابن أم مكتوم -رضي الله عنه- لأنه كان يؤذن مع طلوع الفجر الثاني، وذلك لمن أراد الصيام، فحينئذ يكف عن الطعام والشراب ويدخل وقت الصلاة، وهو خاص بها، ولا يجوز فيما عداها أذان قبل دخول الوقت، واختلف في الأذان الأول لصلاة الصبح، هل يكتفي به أو لابد من أذان ثان لدخول الوقت؟ وجمهور العلماء على أنه مشروع ولا يكتفى به.
606;بی ﷺ کے دو موذن تھے۔ ایک بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور دوسرے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ نا بینا تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے پہلے فجر کی اذان دیا کرتے تھے، کیونکہ فجر کی نماز سونے کے وقت میں پڑتی ہے اور لوگوں کو اس کا وقت ہونے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لھٰذا نبی ﷺ لوگوں کو تنبیہ فرمایا کرتے تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ انہیں اس وقت تک کھانے پینے کاحکم دیتے جب تک فجر طلوع نہ ہو جائے اور دوسرے موذن، جو کہ ابن ام مکتوم ہیں، اذان نہ دے دیں، کیونکہ وہ فجر ثانی کے طلوع پر اذان دیا کرتے تھے۔ یہ حکم اس کے لیے ہے جو روزہ رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس وقت وہ کھانے پینے سے رک جائے گا اور اسی پر نماز کا وقت ہو جائے گا۔ یہ صرف نماز فجر کے ساتھ خاص ہے اور اس کے علاوہ دیگر نمازوں میں نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے۔ صبح کی نماز کی پہلی اذان کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا پھر وقت ہونے پر دوسری اذان دینا ضروری ہے؟ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ پہلی اذان دینا مشروع ہے اور اس پر اکتفا نہیں کیا جائے گا (بلکہ طلوع فجر ثانی پر دوسری اذان بھی دی جائے گی۔)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3015

 
 
Hadith   95   الحديث
الأهمية: ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل الوكت، ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل أثر المجل


Tema:

آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنه- قال: حَدَثَنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حدِيثَين قَد رَأَيتُ أَحَدَهُما وأنا أنتظر الآخر: حدثنا أنَّ الأمَانة نَزَلَت في جَذر قُلُوب الرِّجال، ثمَّ نزل القرآن فَعَلِموا مِن القرآن، وعَلِمُوا مِن السُنَّة، ثمَّ حدَّثنا عن رفع الأمانة، فقال: «يَنَامُ الرَّجُلُ النَّومَة فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثلَ الوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّومَةَ فَتُقبَض الأَمَانَة مِن قَلْبِه، فَيَظَلُّ أَثَرُها مِثل أَثَر المَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِراً وَلَيس فِيه شَيء»، ثم أَخَذ حَصَاةً فَدَحْرَجَه على رجله «فَيَصبَح النَّاس يَتَبَايَعُون، فَلاَ يَكَاد أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ حَتَّى يُقَال: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَن رَجُلاً أَمِيناً، حَتَّى يُقَال للرَّجُل: مَا أَجْلَدَهُ! مَا أَظْرَفَه! مَا أَعْقَلَه! وَمَا فِي قَلبِه مِثْقَالُ حَبَّة مِن خَرْدَل مِنْ إيمان»، ولَقَد أتى عَلَيَّ زَمَان وما أُبَالي أَيُّكُم بَايعت: لئِن كان مُسلِمًا لَيَرُدَنَّه عَلَيَّ دِينه، وَإِن كان نصرانيا أو يهوديا ليَرُدنَّه عَلَيَّ سَاعِيه، وأَمَّا اليوم فَمَا كُنت أَبَايِعُ مِنكُم إِلاَّ فُلاَنا وفُلاَناً».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو باتیں بیان فرمائیں: ان میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے اور دوسری کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ (گہرائی) میں اتری (یعنی اسے فطرت کا حصہ بنایا) پھر قرآن کا نزول ہوا اور انہوں نے اسے (یعنی امانت کو) قرآن اور سنت سے جانا۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(اس طرح کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔ جیسے ایک انگارہ ہو، جسے تو اپنے پیر پر لڑھکائے تو اس سے چھالہ نمودار ہو جائے، چنانچہ تو اسے ابھرا ہوا تو دیکھتا ہے لیکن اس میں کوئی چیز باقی نہیں ہوتی’’۔ پھرآپ ﷺ نے ایک کنکری کو لیا اور (مثال سمجھانے کے لیے) اسے پاؤں پر لڑھکایا۔ ‘‘پس لوگ صبح کے وقت آپس میں خرید وفروخت کرتے ہوں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہ پھٹکتا ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کی اولاد میں ایک امانت دار آدمی تھا، حتی کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط، کس قدر ہشیار اور کس قدر عقل مند ہے! حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا’’۔ (راوی حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) ‘‘بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزرچکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں، اس لیے کہ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر مسلمان ہے تو اس کو اس کا دین مجھ پر میری چیز لوٹا دے گا اور اگر عیسائی یا یہودی ہے تو اس کا ذمے دار (نگراں) مجھے میری چیز واپس کر دے گا، لیکن آج میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی (یعنی خاص لوگوں) سے خرید وفروخت کرتا ہوں۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوضح الحديث أنَّ الأمانة تزول عن القلوب شيئاً فشيئا، فإذا زال أول جزء منها زال نوره وخلفه ظلمة كالوَكْت وهو أعراض لون مخالف اللون الذي قبله، فإذا زال شيء آخر صار كالمجل وهو أثر محكم لا يكاد يزول إلا بعد مدة، وهذه الظلمة فوق التي قبلها ثم شبَّه زوال ذلك النور بعد وقوعه في القلب وخروجه بعد استقراره فيه واعتقاب الظلمة إيَّاه بجمر يدحرجه على رجله حتى يؤثر فيها ثم يزول الجمر ويبقى النفط؛ وأخذه الحصاة ودحرجته إياها أراد به زيادة البيان والإيضاح.
(فيصبح الناس) بعد تلك النومة التي رفع فيها الأمانة (يتبايعون فلا يكاد) أي: يقارب (أحد) منهم (يؤدي الأمانة) فضلاً عن أدائها بالفعل.
(حتى يقال) لعزة هذا الوصف وشهرة ما يتصف به.
(إن في بني فلان رجلاً أميناً) ذا أمانة.
(حتى يقال للرجل ما أجلده) على العمل (ما أظرفه) من الظرف (ما أعقله) أي: ما أشد يقظته وفطانته (وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان) فضلاً عن الأمانة التي هي من شعبه.
(ولقد أتى عليّ زمان وما أبالي أيكم بايعت) أي: لا أبالي بالذي بايعته لعلمي بأن الأمانة لم ترتفع وأن في الناس وفاء بالعهد، فكنت أقدم على مبايعة من لقيت غير باحث عن حاله وثوقاً بالناس وأمانتهم.
(وأما اليوم) فقد ذهبت الأمانة إلا القليل فلذا قال:
(فما كنت أبايع منكم إلا فلاناً وفلاناً) يعني أفراداً أعرفهم وأثق بهم.
740;ہ حديث وضاحت کرتی ہے کہ امانت لوگوں کے دلوں سے دھيرے دھيرے ختم ہو جائے گی۔ جب پہلی بار امانت کا کچھ حصہ ختم ہوگا تو اس کا نور ختم ہوجاے گا اور اس کی جگہ داغ کی طرح ایک دھندلا سا نشان رہ جائے گا یعنی پہلے رنگ کے برخلاف دوسرا رنگ چڑھ جائے گا۔ اور جب امانت کا کچھ اور حصہ ختم ہوگا تو اس کا نشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا، اوریہ ایسا مستحکم نشان ہے جو کچھ مدت کے بعد ہی ختم ہو گا، اور يہ تاريکی پہلے والی تاريکی کے اوپر ہوگی، پھر اس نور کے دل ميں پيدا ہونے کے بعد زائل ہونے کو، اور اس کے دل ميں جگہ بنانے کے بعد اس سے نکل جانے اور اس کی جگہ تاريکی کے لے لینے کو، اس انگارہ سے تشبيہ دی گئی ہے جس کو آدمی اپنے پیر پر لڑھکائے يہاں تک کہ اس کے پیر ميں اثر انداز ہونے کے بعد وہ چنگاری ٗختم ہو جائے اورصرف داغ باقی رہ جائے، اور آپ ﷺ کا کنکری لے کر اسے لڑھکانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے لیے یہ بات خوب واضح ہو جائے۔
(فيصبح الناس) اس نيند کے بعد جس ميں امانت اٹھا لی جاے گی (لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے) تو کوئی بھی شخص امانت کے قریب بھی نہ پھٹکے گا، چہ جائے کہ وہ عملاً امانت کی ادائیگی کرے۔
(یہاں تک کہ کہا جائے گا) امانت کی برتری اور جو اس وصف سے متصف ہوگا اس کی شہرت کے لیے۔
(بے شک فلاں شخص کی اولاد میں سے ایک آدمی امین تھا) یعنی امانت دار تھا۔
(یہاں تک کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط ہے) عمل میں، (کس قدر ہشیار ہے) بمعنی مہارت و ہوشیاری اور (کس قدر عقل مند ہے) یعنی وہ انتہائی ذہین و فطین شخص ہے۔ (جب کہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا) چہ جائے کہ اس کے اندر مانت پائی جائے جو کہ ایمان کی شاخوں میں سے ہے۔
(بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزر چکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں) یعنی مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کر رہا ہوں کيوں کہ مجھے معلوم تھا کہ امانت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ لوگ وفادار ہیں، تو جس سے بھی ملاقات ہوتی اس کے حالات کی چھان بین کیے بغیر اس سے خرید و فروخت کر لیتا تھا اس لیے کہ لوگوں کے اندر امانت و دیانت عام تھی۔
(اور رہا آج کا وقت) تو امانت داری بہت کم باقی بچی ہے اسی لیے آپ نے کہا:
(میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی سے خرید وفروخت کرتا ہوں) یعنی چند افراد سے خرید و فروخت کرتا ہوں جنہیں میں پہچانتا ہوں اور جن پر مجھے بھروسہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3016

 
 
Hadith   96   الحديث
الأهمية: إذا أحب الرجل أخاه فليخبره أنه يحبه


Tema:

جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔

عن أبي كريمة المقداد بن معد يكرب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ».

ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعت أحاديث كثيرة إلى التحابب في الله -تعالى-، وأخبرت عن ثوابه، وهذا الحديث يشير إلى معنى مهم يُحْدِث الأثر الأكبر في علاقة المؤمنين بعضهم ببعض، كما  ينشر المحبة، وهو أن يخبر أخاه أنه يحبه، وهذا يفيد المحافظة على البناء الاجتماعي من عوامل التفكك والانحلال؛ وهذا من خلال إشاعة المحبة بين أفراد المجتمع الإسلامي، وتقوية الرابطة الاجتماعية بالأخوة الإسلامية، وهذا كله يتحقق بفعل أسباب المحبة كتبادل الإخبار بالمحبة بين المتحابين في الله -تعالى-.
575;یک دوسرے سے محبت رکھنے کی ترغیب بہت سی احادیث میں دی گئی ہے اور اس کے ثواب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ حدیث ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کا مؤمنوں کے باہمی تعلقات پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور باہمی محبت کو فروغ ملتا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اس سے معاشرے کی عمارت ٹوٹ پھوٹ اور بگاڑ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اسلامی معاشرے کے افراد کے مابین محبت کو فروغ دے کر اور اسلامی بھائی چارے کے ذریعے اجتماعی معاشرتی تعلق کو مضبوط بنا کر ممکن ہے۔ یہ سب تب ہوتا ہے، جب محبت کے اسباب کو اختیار کیا جائے، مثلا اللہ کی خاطر دو محبت کرنے والوں کا ایک دوسرے کو بتادینا کہ وہ باہم محبت کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3017

 
 
Hadith   97   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمن في تنعله، وترجله، وطهوره، وفي شأنه كله


Tema:

رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمُّن في تَنَعُّلِّه, وترجُّلِه, وطُهُورِه, وفي شَأنه كُلِّه».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: ”رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- عن عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- المحببة إليه، وهى تقديم الأيمن في لبس نعله، ومشط شعره، وتسريحه، وتطهره من الأحداث، وفى جميع أموره التي من نوع ما ذكر كلبس القميص والسراويل، والنوم، والأكل والشرب ونحو ذلك.
كل هذا من باب التفاؤل الحسن وتشريف اليمين على اليسار.
وأما الأشياء المستقذرة فالأحسن أن تقدم فيها اليسار؛ ولهذا نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الاستنجاء باليمين، ونهى عن مس الذكر باليمين، لأنها للطيبات، واليسار لما سوى ذلك.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں نبی ﷺ کی ایک پسندیدہ عادت کے بارے میں بتلا رہی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے پہننے، اپنے بالوں میں کنگھی کرنے اور انہیں سنوارنے میں اور ناپاکی سے طہارت حاصل کرنے میں اور مذکورہ قسم کے اپنے تمام کاموں جیسے قیمض اور پاجاما پہنتے، سونے، کھانے پینے اور اسی طرح کے دیگر امور میں دائیں طرف کو مقدم رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ اچھے شگون اور دائیں طرف کو بائیں پر عزت دینے کے قبیل سے ہے۔ غیر پاکیزہ چیزوں میں بہتر یہ ہے کہ بائیں طرف کو مقدم رکھا جائے۔ اسی لئے نبی ﷺ نے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے اور عضوِ مخصوص کو چھونے سے منع فرمایا ہے کیونکہ دایاں ہاتھ پاکیزہ اشیاء کے لئے ہے اور ان کے علاوہ دیگر اشیاء کے لئے بایاں ہاتھ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3018

 
 
Hadith   98   الحديث
الأهمية: كانت يد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اليمنى لطهوره وطعامه، وكانت اليسرى لخلائه وما كان من أذى


Tema:

رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "كَانَت يَدُ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليُمنَى لِطُهُورِهِ وطَعَامِهِ، وكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ، ومَا كَانَ مِنْ أَذَى".
عن حفصة -رضي الله عنها- "أَنَّ رَسُولَ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَجْعَلُ يَمِينَهُ لِطَعَامِهِ وَشَرَابِهِ وَثِيَابِهِ، وَيَجْعَلُ يَسَارَهُ لِمَا سِوَى ذَلِك".

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑے پہنے کے لیے استعمال کرتے اور بائیں ہاتھ کو اس کے علاوہ کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيَّنت عائشة -رضي الله عنها-، ما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يستعمل فيه اليمين، وما كان يستعمل فيه اليسار، فذكرت أن الذي يستعمل فيه اليسار ما كان فيه أذى؛ كالاستنجاء، والاستجمار، والاستنشاق، والاستنثار، وما أشبه ذلك، كل ما فيه أذى فإنه تقدم فيه اليسرى، وما سوى ذلك؛ فإنه تقدم فيه اليمنى؛ تكريمًا لها؛ لأن الأيمن أفضل من الأيسر.   وهذ الحديث داخل في استحباب تقديم اليمنى فيما من شأنه التكريم فقولها -رضي  الله عنها-.
قولها: "لطهوره": يعني إذا تطهر يبدأ باليمين، فيبدأ بغسل اليد اليمنى قبل اليسرى، وبغسل الرجل اليمنى قبل اليسرى، وأما الأذنان فإنهما عضوٌ واحدٌ، وهما داخلان في الرأس، فيمسح بهما جميعًا إلا إذا كان لا يستطيع أن يمسح إلا بيد واحدة، فهنا يبدأ بالأذن اليمنى للضرورة.
قولها: "وطَعَامِهِ": أي تناوله الطعام.
"وكانت يده اليسرى لخلائه": أي لما فيه من استنجاء وتناول أحجار وإزالة أقذار.
"وما كان من أذى" كتنحية بصاق ومخاط وقمل ونحوها.
وحديث حفصة مؤكد لما سبق من حديث عائشة، الذي جاء في بيان استحباب البداءة باليمين فيما طريقه التكريم، وتقديم اليسار فيما طريقه الأذى والقذر؛ كالاستنجاء والاستجمار وما أشبه ذلك.
575;م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کی کہ نبی ﷺ کن کاموں میں اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے اور کن میں بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ کہا جن کاموں میں گندگی ہوتی جیسے استنجاء کرنا، استنجاء میں پتھر کا استعمال، ناک میں پانی ڈالنا اور ناک کو صاف کرنا جیسے کاموں میں جن میں گندگی ہوتی آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ اور ان کے علاوہ کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ اس میں دائیں ہاتھ کی تکریم ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں سے افضل ہے۔
اس حدیث کی رو سے ان تمام کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرنا مستحب ہے جو قابلِ تکریم ہوں۔
”لِطُهُورِهِ “ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نبی ﷺ طہارت حاصل کرتے تو آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے آغاز کرتے۔ چنانچہ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہلے دھوتے تھے اور اسی طرح آپ ﷺ دائیں پاؤں کو بائیں پاؤں سے پہلے دھویا کرتے تھے۔ جب کہ دونوں کان ایک ہی عضو شمار ہوتے ہیں جو سر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ ان کو اکھٹے ہی مسح کیا جائے گا بجز اس کے کہ ایک ہاتھ سے مسح کرنا ہو۔ اس صورت میں ضرورت کے تحت دائیں کان سے مسح کا آغاز کیا جائے گا۔
”وطَعَامِهِ“ یعنی جب آپ ﷺ کھانا کھایا کرتے تھے۔
”وَكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ “یعنی قضائے حاجت کے وقت استنجاء کرنے، پتھر اٹھانے اور گندگی کے ازالے کے لیے بائیں کو استعمال کرتے تھے۔
”ومَا كَانَ مِنْ أَذَى“جیسے تھوک اور بلغم وغیرہ کو دور کرنے کے لیے۔چیچڑی وغیرہ کو دور کرنا بھی اسی میں آتا ہے۔
حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دراصل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کی تصدیق کر رہی ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کام قابلِ تکریم ہوتے ان میں آپ ﷺ کا طریقہ کار دائیں ہاتھ کو استعمال کرنا تھا اور جن کاموں میں گندگی کا عمل دخل ہوتا تھا ان کاموں میں آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے جیسے استنجاء کرتے ہوئے یا استنجاء کے لیے پتھر اٹھاتے ہوئے وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3019

 
 
Hadith   99   الحديث
الأهمية: لما قدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه مكة قال المشركون: إنه يقدم عليكم قوم وهنتهم حمى يثرب، فأمرهم أن يرملوا الأشواط الثلاثة، وأن يمشوا ما بين الركنين


Tema:

جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ: تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «لَمَّا قَدِم رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وأصحابه مكة، فقَال المُشرِكُون: إِنَّه يَقدَمُ عَلَيكُم قَومٌ وَهَنَتهُم حُمَّى يَثرِب، فَأَمَرَهُم النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ الثلاَثَة، وأن يَمشُوا ما بَين الرُّكنَين، ولم يَمنَعهُم أَن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ كُلَّها: إلاَّ الإِبقَاءُ عَليهِم».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ”جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ ﷺ نے ان پر شفقت و نرمی کرتے ہوئے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء النبي -صلى الله عليه وسلم- سنة ست من الهجرة إلى مكة معتمرًا، ومعه كثير من أصحابه، فخرج لقتاله وصده عن البيت كفار قريش، فحصل بينهم صلح، من مواده أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه يرجعون في ذلك العام، ويأتون في العام القابل معتمرين، ويقيمون في مكة ثلاثة أيام، فجاءوا في السنة السابعة لعمرة القضاء. فقال المشركون، بعضهم لبعض -تشفيا وشماتة-: إنه سيقدم عليكم قوم قد وهنتهم وأضعفتهم حمى يثرب.
فلما بلغ النبي -صلى الله عليه وسلم- قولهم، أراد أن يرد قولهم ويغيظهم، فأمر أصحابه أن يسرعوا إلا فيما بين الركن اليماني والركن الذي فيه الحجر الأسود فيمشوا، رفقًا بهم وشفقة عليهم، حين يكونوا بين الركنين لا يراهم المشركون، الذين تسلقوا جبل "قعيقعان" لينظروا إلى المسلمين وهم يطوفون فغاظهم ذلك حتى قالوا: إن هم إلا كالغزلان، فكان هذا الرمل سنة متبعة في طواف القادم إلى مكة، تذكرا لواقع سلفنا الماضين، وتأسيًا بهم في مواقفهم الحميدة، ومصابرتهم الشديدة، وما قاموا به من جليل الأعمال، لنصرة الدين، وإعلاء كلمة الله، رزقنا الله اتباعهم واقتفاء أثرهم.
 والمشي بين الركنين وترك الرمل منسوخ؛ لنه في حجة الوداع رمل من الحجر إلى الحجر، روى مسلم عن جابر وابن عمر -رضي الله عنهم- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رمل من الحجر إلى الحجر ثلاثًا، ومشى أربعًا».
606;بی ﷺ ہجرت کے چھٹویں سال صحابہ کی کثیر تعداد کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ آئے، تو کفار قریش آپ سے لڑنے اور آپ کو اللہ کے گھر سے روکنے کے لئے نکلے، چناں چہ ان کے درمیان صلح ہوئی جس کے مضمون میں یہ تھا کہ نبی ﷺ اس سال اپنے اصحاب کے ہمراہ واپس لوٹ جائیں اور اگلے سال عمرہ کی نیت سے آئیں اور مکہ میں صرف تین دن تک قیام کریں، چناں چہ سن سات ھجری میں جب وہ دوبارہ عمرہ کی قضا کے لئے آئے تو مشرکین نے -تسکین خاطر اور بطور ہنسی اور ٹھٹھا- آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آرہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نےتوڑ دیا اور کمزور بنا دیا ہے۔
جب نبی ﷺ کو ان کی یہ بات پہونچی تو آپ ﷺ نےان کے جواب میں اور ان کو برانگیختہ کرنے کے لئے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ تیز چلیں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں عام چال چلیں۔ یہ حکم صحابہ کے ساتھ نرمی اور شفقت کے باب سے تھا جب کہ وہ دونوں رکنوں کے درمیان ہوں اور وہ مشرکین انہیں نہ دیکھ سکیں جو"قعيقعان" نامی پہاڑ پر اس لئے چڑھ آئے تھے کہ وہ مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئےدیکھ سکیں۔ لیکن تیز چال نے انہیں آگ بگولہ کردیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کہ یہ سب تو ہرن کے مانند ہیں۔ اس طرح دلکی چال طوافِ قدوم میں سنت جاریہ قرار پائی۔ تاکہ اپنے گزرے ہوئے اسلاف کے واقعہ کو یاد کیا جائے اور ان کے قابل تعریف مواقف اور زبردست صبر اور جو کچھ دین کی مدد اور اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے انہوں نے اچھے کام انجام دئے ہیں ان میں ان کی اقتدا کی جائے۔ اللہ ہمیں ان کی پیروی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔
دنوں یمانی رکنوں کے درمیان رمل نہیں کرنے کا حکم منسوخ ہے اس لیے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ پورا طواف رمل کیے۔ امام مسلم نے جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار چکروں میں اپنی رفتار معمول کے مطابق رکھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3020

 
 
Hadith   100   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، أيرقد أحدنا وهو جنب؟ قال: نعم، إذا توضأ أحدكم فليرقد


Tema:

یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سے کوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

عن عبد الله بنِ عمر -رضي الله عنهما- أن عمرَ بْن الخطاب -رضي الله عنه- قال: ((يا رسول الله، أّيَرقُدُ أَحَدُنا وهو جُنُب؟ قال: نعم، إِذَا تَوَضَّأ أَحَدُكُم فَليَرقُد)).

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سےکوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم-: إن أصابت أحدهم الجنابة من أول الليل، بأن جامع امرأته ولو لم ينزل أو احتلم، فهل يرقد أي ينام وهو جنب؟ فأذن لهم -صلى الله عليه وسلم-  بذلك، على أن يخفف هذا الحدث الأكبر بالوضوء الشرعي؛ وحينئذ لا بأس من النوم مع الجنابة.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر کسی شخص کو رات کے ابتدائی حصے میں جنابت لاحق ہو جائے، بایں طور کہ اپنی بیوی سے جماع کر لے، اگرچہ انزال نہ ہواہو یا اسے احتلام ہو جائے تو کیا وہ حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے انھیں اس کی اجازت دے دی، بشرطے کہ وہ شرعی طریقے سے وضو کر کے حدث اکبر کو کچھ کم کر لے۔ اس صورت میں جناب کی حالت میں سونے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3021

 
 
Hadith   101   الحديث
الأهمية: أنَّ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دخل مكة من كداء، من الثنية العليا التي بالبطحاء، وخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- «أنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دَخَل مكَّة مِن كَدَاٍء، مِن الثَنِيَّة العُليَا التِّي بالبَطحَاءِ، وخرج من الثَنِيَّة السُفلَى».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حجَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- حجة الوداع، فبات ليلة دخوله بـ"ذي طوى" لأربع خلون من ذي الحجة، وفي الصباح دخل مكة من الثنية العليا؛ لأنه أسهل لدخوله؛ لأنه أتى من المدينة، فلما فرغ من مناسكه خرج من مكة إلى المدينة من أسفل مكة، وهي الطريق التي تأتي على "جرول"، ولعل في مخالفة الطريقين تكثيرا لمواضع العبادة، كما فعل -صلى الله عليه وسلم-  في الذهاب إلى عرفة والإياب منها، ولصلاة العيد والنفل، في غير موضع الصلاة المكتوبة؛ لتشهد الأرض على عمله عليها يوم تحدث أخبارها، أو لكون مدخله ومخرجه مناسبين لمن جاء من المدينة، وذهب إليها. والله أعلم.
606;بی ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ذی الحجہ کی چار تاریخ کو جب آپ ﷺ (مکہ میں) داخل ہوئے تو وہ رات آپ ﷺ نے مقام ذی طوی پر گزاری اور صبح کو آپ ﷺ ثنیہ علیا (بالائی حصے) کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے کیوں کہ اس جگہ سے داخل ہونا آسان ہے اس لیے کہ آپ ﷺ مدینہ سے تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ ﷺ مناسک حج سے فارغ ہوئے تو مکہ کے نشیبی علاقے سے ہوتے ہوئے مدینہ کی طر ف نکلے۔ یہ وہ راستہ ہے جو جرول کے مقام سے گزرتا ہے۔ شاید آپ ﷺ نے دو مختلف راستے اس لیے اپنائے تاکہ عبادت کے مقامات کی کثرت ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے عرفہ جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے کیا یا جیسا آپ ﷺ کا نماز عید اور نوافل میں معمول تھا کہ انھیں آپ فرض نماز کی جگہ کے بجائے دوسری جگہ پر ادا کرتے تھے تاکہ روزِ قیامت جس دن زمین اپنی خبریں دے گی اس دن وہ آپ ﷺ کے عمل کی گواہی دے یا پھر ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کی جس راستے سے آپ داخل ہوئے تھے یا جس راستے سے نکلے تھے وہ مدینے سے آنے اور اس کی طرف جانے والوں کے لیےموزوں ترین تھے۔ واللہ اعلم   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3022

 
 
Hadith   102   الحديث
الأهمية: رَقِيت يومًا على بيت حفصة، فرأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقضي حاجته مستقبل الشام، مستدبر الكعبة


Tema:

میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: ((رَقيت يومًا على بيت حفصة، فرَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-يَقضِي حاجته مُسْتَقبِل الشام، مُسْتَدبِر الكعبة)).

وفي رواية: ((مُسْتَقبِلا بَيتَ المَقدِس)) .


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضاے حاجت کر رہے ہیں“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”بیت المقدس کی طرف منہ کر کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر ابن عمر -رضي الله عنهما-: أنه جاء يوماً إلى بيت أخته حفصة، زوج النبي -صلى الله عليه وسلم-، فصعد فوق بيتها، فرأى النبي -صلى الله عليه وسلم-، يقضى حاجته وهو متَجه نحو الشام، ومستدبر القبلة.
وكان ابن عمر -رضي الله عنه- قال ذلك ردًّا على من قالوا: إنه لا يستقبل بيت المقدس حال قضاء الحاجة، ومن ثمَّ أتى المؤلف بالرواية الثانية: مستقبلا بيت المقدس.
فإذا استقبل الإنسان القبلة داخل البنيان فلا حرج.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن اپنی بہن اور نبی ﷺ کی زوجہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ جب گھر کی چھت پرچڑھے، تو نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ شام کی طرف رخ اور قبلے کی طرف پیٹھ کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے رد میں یہ حدیث سنائی، جن کا کہنا تھا کہ قضاے حاجت کے دوران بیت المقدس کی طرف رخ نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے مولف نے دوسری روایت بھی ذکر کی جس میں "بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے" کے الفاظ ہیں۔
چنانچہ اگر انسان عمارت کے اندر قبلہ کی طرف منہ کرکے قضاے حاجت کر لے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3023

 
 
Hadith   103   الحديث
الأهمية: أنه جاء إلى الحجر الأسود، فقبَّله، وقال: إني لأعلم أنك حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقبلك ما قبلتك


Tema:

وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- «أنَّه جَاء إِلى الحَجَر الأَسوَدِ، فَقَبَّلَه، وقال: إِنِّي لَأَعلَم أَنَّك حَجَرٌ، لا تَضُرُّ ولا تَنفَعُ، ولَولاَ أَنِّي رَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُقَبِّلُك مَا قَبَّلتُك».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الأمكنة والأزمنة وغيرها من الأشياء، لا تكون مقدسة معظمة تعظيم عبادةٍ لذاتها، وإنَّما يكون لها ذلك بشرع؛ ولهذا جاء عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إلى الحجر الأسود وقبله بين الحجيج، الذين هم حديثو عهد بعبادة الأصنام وتعظيمها، وبين أنَّه ما قبل هذا الحجر وعظمه من تلقاء نفسه، أو لأن الحجر يحصل منه نفع أو مضرة؛ وإنما هي عبادة تلقَّاها من المشرِّع -صلى الله عليه وسلم-  فقد رآه يقبله فقبله؛ تأسيا واتباعا، لا رأيا وابتداعا.
575;وقات، مقامات اور دیگر اشیاء بذات خود اس قدر مقدس و معظم نہیں ہوتے بایں طور کہ یہ ذاتی طور پر عبادت کی تعظیم کے حقدار ہوں، بلکہ ان کی تعظیم شریعت کی بنا پر ہوتی ہے۔ اسی لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور حاجیوں کے سامنے اس کا بوسہ لیا جنھیں بتوں کی پوجا اور ان کے احترام کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور وضاحت فرمائی کہ اس پتھر کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا ان کی اپنی اپچ نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہے کہ اس سے کوئی نفع یا نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جسے انھوں نے شارع علیہ السلام سے لیا ہے۔ انھوں نے نبی ﷺ کو ا س کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ کی اقتداء میں انھوں نے بھی اس کا بوسہ لیا نہ کی اپنی ذاتی رائے کی بنا پر یا خود ساختہ طور پر ایسا کیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3024

 
 
Hadith   104   الحديث
الأهمية: طاف النبي في حجة الوداع على بعير، يستلم الركن بمحجن


Tema:

نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کو چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «طَافَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ على بَعِير، يَستَلِم الرُّكنَ بِمِحجَن».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ”نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کا ایک چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طاف النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع، وقد تكاثر عليه الناس: منهم من يريد النظر إلى صفة طوافه، ومنهم من يريد النظر إلى شخصه الكريم؛ فازدحموا عليه، ومن كمال رأفته بأمته ومساواته بينهم: أن ركب على بعير، فأخذ يطوف عليه؛ ليتساوى الناس في رؤيته، وكان معه عصا محنية الرأس، فكان يستلم بها الركن، ويقبل العصا كما جاء في رواية مسلم لهذا الحديث.
606;بی ﷺ نے حجۃُ الوداع کے موقع پر طواف فرمایا۔ آپ ﷺ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے۔ ان میں سے کچھ تو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آپﷺ کیسے طواف کر رہے ہیں اور کچھ آپ ﷺ کی کریم ذات کو دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے آپ ﷺ کے پاس بھیڑ لگا دیا۔ اپنی امت پر کمالِ شفقت اور ان کے ساتھ مساویانہ سلوک رکھنے کے لیے آپ ﷺ ایک اونٹ پر سوار ہو گیے اور اس پر طواف کرنے لگے تاکہ لوگ یکساں طور پر آپ ﷺ کو دیکھ سکیں۔ آپ ﷺ کے پاس ایک عصا تھا جس کا سرا مڑا ہوا تھا اور آپ ﷺ اس کے ساتھ رکن کو چھو رہے تھے اور عصا ہی کا بوسہ لے رہے تھے جیسا کہ اس حدیث کی مسلم شریف والی روایت میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3025

 
 
Hadith   105   الحديث
الأهمية: لم أر النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين


Tema:

میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «لَمْ أَرَ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم يَستَلمُ- منَ البيتِ إِلا الرُّكنَينِ اليَمَانِيَينِ».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من الأركان الأربعة للكعبة إلا الركن الأسود والركن اليماني، فللبيت أربعة أركان، فللركن الشرقي منها فضيلتان:
1. كونه على قواعد إبراهيم.
2. وكون الحجر الأسود فيه. والركن اليماني له فضيلة واحدة، وهو كونه على قواعد إبراهيم.
وليس للشامي والعراقي شيء من هذا، فإن تأسيسهما خارج عن أساس إبراهيم حيث أخرج الحجر من الكعبة من جهتهما؛ ولهذا فإنه يشرع استلام الحجر الأسود وتقبيله، ويشرع استلام الركن اليماني بلا تقبيل، ولا يشرع في حق الركنين الباقيين استلام ولا تقبيل، والشرع مبناه على الاتباع، لا على الإحداث والابتداع، ولله في شرعه حكم وأسرار.
606;بی ﷺ کعبہ کے چاروں ارکان (کونوں) میں سے صرف رکنِ اسود (وہ کونا جس میں حجرٍ اسود نصب ہے) اور رکنِ یمانی کا استلام کرتے۔ بیت اللہ کے چار ارکان (کونے) ہیں۔ ان میں سے مشرقی رکن کے دو فضائل ہیں:
1۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی گئی بنیادوں پر ہے۔
2۔ اس میں حجرِ اسود ہے۔
جب کہ رکنِ یمانی کی صرف ایک ہی فضیلت ہے اور وہ ہے اس کا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیادوں پر ہونا۔
رکنِ شامی اور رکنِ عراقی کو ان فضائل میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ہے کیوں کہ یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیاد سے اندر واقع ہیں بایں طور کہ ان کی طرف سے کعبہ میں سے پتھر نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے حجرِ اسود کا استلام اور بوسہ دونوں مشروع ہے جب کہ رکن یمانی کا بغیر بوسے کے استلام (چھونا) مشروع ہے۔ باقی دونوں ارکان کے لیے نہ تو استلام مشروع ہے اور نہ ہی بوسہ۔ شریعت کا مدار اتباع پر ہے نہ کہ نئی خودساختہ اور من گھڑت باتوں پر۔ اللہ کی شریعت میں اس کی بے پناہ حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3026

 
 
Hadith   106   الحديث
الأهمية: إني أحبك في الله، فقال: أحبك الذي أحببتني له


Tema:

میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں، اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ رَجُلاً كَانَ عِند النَبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ، فقال: يا رسول الله، أنِّي لَأُحِبُّ هَذَا، فَقَال لَهُ النَبِيُّ -صلى الله عليه وسلم-: «أَأَعْلَمْتَهُ؟» قال: لا. قال: «أَعْلِمْهُ»، فَلَحِقَهُ، فقال: إِنِّي أُحِبُّك فِي الله، فقال: أّحَبَّك الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک شخص کا اس کے قریب سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟۔ اس نے جواب دیا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے یہ بات بتادو۔ چنانچہ اس آدمی نے اس شخص کے پیچھے جا کر اسے بتایا کہ : میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء هذا الحديث النبوي الشريف تطبيقا لأمره -صلى الله عليه وسلم- بأن يُعلِم الإنسان أخاه إذا أحبَّه، لَمَّا قال له رجلٌ جالسٌ عنده: إنِّي أحب هذا الرجل. يقصد رجلًا آخر مرَّ بهما، فقال له -صلى الله عليه وسلم-: " أأعلمته" فدل هذا على أنه من السنَّة إذا أحبَّ المسلم شخصا أن يقول له: إني أحبك، وذلك لما في هذه الكلمة من إلقاء المحبة في قلبه؛ لأنَّ الإنسان إذا علم من أخيه أنَّه يحبه أحبَّه، مع أن القلوب لها تعارف وتآلف وإن لم تنطق الألسن.
وكما قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "الأرواح جنود مجندة ما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف" لكن إذا قال الإنسان بلسانه، فإن هذا يزيده محبة في القلب فيقول: إني أحبك في الله.
575;س حدیث شریف میں نبی ﷺ کے فرمان کی عملی تطبیق کا بیان ہے کہ انسان اگر اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس کے بارے میں بتائے۔ جب آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ایک آدمی نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں، جو ان کے پاس سے گزرا تھا، تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: "کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟"۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی کسی مسلمان سے محبت کرتا ہو، تو اس کا یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" سنت ہے؛ کیوں کہ اس سے اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جب اپنے بھائی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے، تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اگرچہ زبانوں سے اظہار نہ بھی ہو، تب بھی دلوں میں باہم جان پہچان اور مانوسیت ہوتی ہی ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "روحیں لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں، چنانچہ جو روحیں ایک دوسرے سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں اور جو روحیں ایک دوسرے سے ان جان و نامانوس تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) اختلاف رکھتی ہیں"۔ لیکن انسان کا اپنی زبان سے اظہار محبت کرنا دوسرے کے دل میں محبت کو بڑھاتا ہے۔ چنانچہ اسے کہنا چاہیے کہ میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3028

 
 
Hadith   107   الحديث
الأهمية: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي


Tema:

فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: ((أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي)).
وَفِي رِوَايَةٍ ((وَلَيْسَت بِالحَيضَة، فَإِذَا أَقْبَلَت الحَيْضَة: فَاتْرُكِي الصَّلاة فِيهَا، فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا فَاغْسِلِي عَنْك الدَّمَ وَصَلِّي)).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: یہ حیض کا خون نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے، تو ان دنوں میں نماز چھوڑ دو اور جب اتنے ایام ختم ہوجائیں، تو اپنے بدن سے خون دھولو اور نماز پڑھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت فاطمة بنت أبي حُبَيْش -رضي الله عنها- للنبي -صلى الله عليه وسلم- أن دم الاستحاضة يصيبها، فلا ينقطع عنها، وسألته هل تترك الصلاة لذلك؟
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لا تتركي الصلاة؛ لأن الدم الذي تُترك لأجله الصلاة، هو دم الحيض.
وهذا الدم الذي يصيبك، ليس دم حيض، إنما هو دم عرق منفجر.
وإذا كان الأمر كما ذكرت من استمرار خروج الدم في أيام حيضتك المعتادة، وفي غيرها، فاتركي الصلاة أيام حيضك المعتادة فقط.
فإذا انقضت، فاغتسلي واغسلي عنك الدم، ثم صلّي، ولو كان دم الاستحاضة معك.
601;اطمہ بن ابی حُبیش رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے اور ختم نہیں ہوتا تو کیا ایسی صورت میں وہ نماز ترک کردے؟
نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ نماز نہ چھوڑے، اس لیے کہ جس خون کے سبب نماز چھوڑی جاتی ہے وہ حیض کا خون ہے، اور یہ جو خون انہیں آرہا ہے وہ حیض نہیں، یہ تو ایک رگ ہے جو کہ پھٹ پڑی ہے۔
ہاں اگر صورت حال ایسی ہے جیسے تم نے ذکر کیا ہے کہ تمہارے ماہواری کے ایام میں خون جاری رہتا ہے اور اس کے بعد بھی تو صرف ماہواری کے ایام میں نماز کو چھوڑ دو۔
اور جب وہ ماہواری کے ایام ختم ہوجائیں تو غسل کرو اور جسم سے خون کو پاک صاف کردو اور پھر نماز ادا کرو اگرچہ استحاضہ کا خون جاری ہی کیوں نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3029

 
 
Hadith   108   الحديث
الأهمية: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نحوي إداوة من ماء وعنزة؛ فيستنجي بالماء


Tema:

رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ آپ ﷺ پانی کے ذریعے استنجا کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: ((كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نَحوِي إِدَاوَةً مِن ماء وَعَنَزَة؛ فيستنجي بالماء)).

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ چنانچہ آپ ﷺ پانی سے استنجا کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر خادم النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حينما يدخل موضع قضاء الحاجة، كان يجيء هو وغلام معه بطهوره، الذي يقطع به الأذى، وهو ماء في جلد صغير، وكذلك يأتيان بما يستتر به عن نظر الناس، وهو عصا قصيرة في طرفها حديدة، يغرزها في الأرض، ويجعل عليها شيئًا مثل: الرداء أو نحوه يقيه من نظر المارين، ويستتر به أيضًا إذا أراد أن يصلي.
606;بی ﷺ کے خادم انس بن مالک بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ جایا کرتے، تو وہ اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکا آپ ﷺ کی طہارت کے لیے پانی لایا کرتے، جس سے آپ ﷺ نجاست صاف کیا کرتے تھے۔ یہ پانی چمڑے سے بنے ایک چھوٹے سے برتن میں ہواکرتا تھا۔ اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپنے کے لیے ایک چھوٹی سی لاٹھی بھی لایا کرتے، جس کے ایک کنارے پر لوہے کا پھل لگا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ اسے زمین میں گاڑ کر اس پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ ڈال دیاکرتے، جس سے آپ راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ رہتے اور جب نماز کا ارادہ ہوتا، تو اسے بطور سترہ استعمال کرلیتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3030

 
 
Hadith   109   الحديث
الأهمية: سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من تمام الصلاة


Tema:

اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَوُّوا صُفُوفَكُم، فإِنَّ تَسوِيَة الصُّفُوف من تَمَام الصَّلاَة».

انس بن مالک - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته إلى ما فيه صلاحهم وفلاحهم، فهو -هنا- يأمرهم بأن يسووا صفوفهم، بحيث يكون سمتهم نحو القبلة واحدا، ويسدوا خلل الصفوف، حتى لا يكون للشياطين سبيل إلى العبث بصلاتهم، وأرشدهم -صلى الله عليه وسلم- إلى بعض الفوائد التي ينالونها من تعديل الصف، وذلك أن تعديلها علامة على تمام الصلاة وكمالها، وأن اعوجاج الصف خلل ونقص فيها.
606;بی ﷺ اپنی امت کی ایسے کام کی طرف راہنمائی فرما رہے ہیں جس میں ان کا فائدہ اور فلاح ہے۔ چنانچہ - یہاں - آپ ﷺ انہیں حکم دے رہے ہیں کہ وہ اپنی صفوں کو درست کیا کریں بایں طور کہ وہ قبلہ کی طرف یک سو ہوں اور صفوں کے مابین کوئی خالی جگہ نہ رہنے دی جائے تاکہ شیاطین کو ان کی نماز خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ نیز آپ ﷺ نے ان کو بعض فوائد کی طرف توجہ دلائی جنہیں وہ صف کو سیدھا کر کے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ صفوں کا سیدھا ہونا نماز کے تمام و کمال کی نشانی ہے اور صف کا ٹیڑھا ہونا نماز میں خلل اور نقص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3031

 
 
Hadith   110   الحديث
الأهمية: إن من إجلال الله -تعالى-: إكرام ذي الشيبة المسلم، وحامل القرآن غير الغالي فيه، والجافي عنه، وإكرام ذي السلطان المقسط


Tema:

بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کی توقیر کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قَالَ: قالَ رسول اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ الله -تَعَالَى-: إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ المُسْلِمِ، وَحَامِلِ القُرْآنِ غَيرِ الغَالِي فِيه، وَالجَافِي عَنْه، وَإِكْرَام ذِي السُّلْطَان المُقْسِط».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کا احترام کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد هذا الحديث أن مما يحصل به إجلال الله -سبحانه- وتعظيمه وتوقيره أمور ذكرت في هذا الحديث وهي:
(إكرام ذي الشيبة المسلم): أي تعظيم الشيخ الكبير في الإسلام بتوقيره في المجالس والرفق به والشفقة عليه ونحو ذلك، وكل هذا من كمال تعظيم الله لحرمته عند الله.
(وحامل القرآن): أي وإكرام حافظه وسماه حاملا لأنه محمول في صدره ولما تحمل من مشاق كثيرة تزيد على الأحمال الثقيلة، ويدخل في هذا الإكرام المشتغل بالقرآن قراءة وتفسيرا.
وحامل القرآن الذي جاء ذكره في هذا الحديث النبوي، جاء تمييزه بوصفين:
(غير الغالي): والغلو التشديد ومجاوزة الحد، يعني غير المتجاوز الحد في العمل به وتتبع ما خفي منه واشتبه عليه من معانيه وفي حدود قراءته ومخارج حروفه. وقيل الغلو: المبالغة في التجويد أو الإسراع في القراءة بحيث يمنعه عن تدبر المعنى.
(والجافي عنه): أي وغير المتباعد عنه المعرض عن تلاوته وإحكام قراءته وإتقان معانيه والعمل بما فيه، وقيل في الجفاء: أن يتركه بعد ما علمه لا سيما إذا كان نسيه تساهلا وإعراضا.
وآخر ما جاء الذكر النبوي بالاشتغال بإكرامه (ذي السُّلطان المقسط): أي صاحب السلطة والمنصب الذي اتصف بالعدل، فإكرامه لأجل نفعه العام وإصلاحه لرعيته.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ چند امور ایسے ہیں جن سے اللہ کی تعظیم و توقیر ہوتی ہے۔ ان امور کا ذکر اس حدیث میں ہے جو یہ ہیں: ”إكرام ذي الشيبة المسلم“: یعنی بڑی عمر کے مسلمان بزرگ کی تعظیم بایں طور کہ مجالس میں اس کی توقیر کرنا، اس سے نرمی اور شفقت بھرا معاملہ کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ کی کامل طور پر تعظیم کرنے میں آتا ہے کیونکہ بوڑھے شخص کا اللہ کے نزدیک بہت احترام ہے۔ ”وحامل القرآن“: یعنی قرآن کے حافظ کا اکرام کرنا۔ اسے حامل قرآن کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ قرآن اس کے سینے میں ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے بہت مشقتیں برداشت کی ہوتی ہیں جو بڑے بڑے بوجھ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس تعظیم کے دائرے میں وہ شخص بھی آتا ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کی تفسیر میں مشغول رہتا ہے۔ وہ حامل قرآن جس کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے اس کی دو امتیازی صفات بیان ہوئی ہیں: ”غير الغالي“: غلو کا معنی ہے سختی برتنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یعنی وہ حامل قرآن جو قرآن پر عمل کرنے میں اور اس کےمعانی میں سے جو اس پر مخفی اورمشتبہ ہوں ان کی ٹوہ میں لگنے میں اور اس کی قرأت کی حدود اور حروف کے مخارج میں حد سے تجاوز نہ کرنے والا ہو۔ ایک قول کی رو سےغلو کا معنیٰ تجوید میں اور جلدی پڑھنے میں مبالغہ کرنا ہے بایں طور کہ یہ بات اس کے معانی پر غور وتدبر میں آڑے آ جائے۔ ”والجافي عنه“: یعنی اس سے دور نہ ہٹنے والا اور اس کی تلاوت اور اچھے انداز میں اسے پڑھنے، اس کے معانی میں مہارت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے رو گردانی نہ کرنے والا۔ایک اور قول کی رو سے جفاء کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے خاص طور پر جب کہ وہ سستی اور اعراض کرنے کی وجہ سے اسے بھول جائے۔ آخری شے جس کے اکرام کرنے کا حدیث نبوی ﷺ میں ذکر آیا وہ عادل حکمران ہے۔ یعنی وہ صاحب اقتدار اور صاحب منصب جو عدل سے متصف ہو۔ اس کی عزت اس لیے ہے کیونکہ وہ سب کے لیے نفع بخش ہے اور اپنی رعایا کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3032

 
 
Hadith   111   الحديث
الأهمية: إذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ماء، ثم لينتثر، ومن استجمر فليوتر، وإذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يديه قبل أن يدخلهما في الإناء ثلاثا، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده


Tema:

جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے جھاڑے اور جو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا توضَّأ أحدُكُم فَليَجعَل في أنفِه ماءً، ثم ليَنتَنْثِر، ومن اسْتَجمَر فَليُوتِر، وإذا اسْتَيقَظَ أَحَدُكُم من نومِه فَليَغسِل يَدَيه قبل أن يُدْخِلهُما في الإِنَاء ثلاثًا، فإِنَّ أَحدَكُم لا يَدرِي أين بَاتَت يده».
وفي رواية: «فَليَستَنشِق بِمِنْخَرَيه من الماء».
وفي لفظ: «من توضَّأ فَليَسْتَنشِق».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اورپھراسے جھاڑے اورجو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ:”وہ اپنے نتھنوں سے پانی چڑھائے“۔
اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ ”جو وضو کرے وہ (ناک میں) پانی چڑھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشتمل هذا الحديث على ثلاث فقرات، لكل فقرة حكمها الخاص بها.
1.فذكر أن المتوضىء إذا شرع في الوضوء أدخل الماء في أنفه، ثم أخرجه منه وهو الاستنشاق والاستنثار المذكور في الحديث؛ لأن الأنف من الوجه الذي أُمِر المتوضىء بغسله، وقد تضافرت الأحاديث الصحيحة على مشروعيته؛ لأنه من النظافة المطلوبة شرعًا.
2.ثم ذكر أيضا أن من أراد قطع الأذى الخارج منه بالحجارة، أن يكون قطعه على وتر، أقلها ثلاث وأعلاها ما ينقطع به الخارج، وتنقي المحل إن كان وترًا، وإلا زاد واحدة، توتر أعداد الشفع.
3.وذكر أيضًا أن المستيقظ من نوم الليل لا يُدْخِلُ كفَّه في الإناء، أو يمس بها رطبًا، حتى يغسلها ثلاث مرات؛ لأن نوم الليل -غالبًا- يكون طويلا، ويده تطيش في جسمه، فلعلها تصيب بعض المستقذرات وهو لا يعلم، فشرع له غسلها للنظافة المشروعة.
575;س حدیث میں تین جملے ہیں جن میں سے ہر ایک کا خاص حکم ہے:
1۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی وضو شروع کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے اس سے باہر نکالے۔ یہی وہ اسنتشاق اور استنثار ہے جو حدیث میں مذکور ہے۔ کیونکہ ناک چہرے کا حصہ جس کے بارے میں وضو کرنے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے دھوئے۔ بہت سی ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی صفائی ہے جو شرعا مطلوب ہے۔
2۔ پھرآپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے سے نکلنے والی گندگی کو پتھر سے دور کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے طاق عدد میں پتھروں کے ساتھ دور کرے جو کم از کم تین ہوں اور زیادہ سے زیادہ اتنے ہوں کہ ان سے خارج شدہ گندگی دور ہو جائے اور جگہ صاف ہو جائے۔ اگر یہ طاق ہوں تو ٹھیک ورنہ ایک اور پتھر زیادہ کر دے جس سے جفت عدد طاق ہو جائے۔
3۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نیند سے بیدار ہونے والا اپنی ہتھیلی کو برتن کے اندر نہ لے جائے اور نہ ہی اس کے ساتھ تری کو چھوئے یہاں تک کہ اسے تین دفعہ دھو لے۔ کیونکہ رات کی نیند عموماً لمبی ہوتی ہے اور سونے والے کا ہاتھ جسم میں اِدھر اُدھرگھومتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گندگی کو چھو جائے اور اسے اس کا علم ہی نہ ہو۔ اس لیے شرعی نظافت کے حصول کے لیے اس کے لیے اسے دھونا مشروع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3033

 
 
Hadith   112   الحديث
الأهمية: يا أيها الناس، عليكم بالسكينة، فإن البر ليس بالإيضاع


Tema:

اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تیز رفتاری نیکی نہیں ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: دَفَعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يومَ عَرَفَة فَسَمِعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَربًا وَصَوتًا لِلإِبِل، فَأَشَارَ بِسَوطِهِ إِلَيهِم، وقال: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيكُم بِالسَّكِينَةِ، فَإِنَّ البِرَّ لَيسَ بِالإيضَاعِ».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفہ کے دن (عرفات سے ) روانہ ہوئے ، تو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے سخت ڈانٹ، مار اور اونٹوں کی آواز سنی تو آپ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تيز رفتاری نیکی نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- أفاض من عرفة فسمع وراءه صوتًا شديدًا وضربًا وزجرًا للإبل وأصواتًا للإبل، وكان هذا المشهد من الناس نتيجة ما تعودوه زمن الجاهلية؛ لأنهم كانوا في أيام الجاهلية إذا دفعوا من عرفة أسرعوا إسراعًا عظيمًا يبادرون النهار قبل أن يظلم الجو، فكانوا يضربون الإبل ضربًا شديدًا، فأشار النبي -صلى الله عليه وسلم- إليهم بسوطه، وقال: أيها الناس الزموا الطمأنينة والهدوء، فإن البر والخير ليس بالإسراع والإيضاع وهو نوع من السير سريع.
606;بی کریم ﷺ عرفات سے (مزدلفہ کی طرف ) روانہ ہوئے، آپ نے اپنے پیچھے بلند آوازوں کے ساتھ اونٹوں کے ہانکنے اور مارنے کا شور و غل سنا، لوگوں نے ايسا اس ليے کيا کيونکہ وہ زمانۂ جاہليت ميں اسی کے عادی تھے. زمانۂ جاہليت ميں لوگ جب عرفہ سے نکلتے تھے تو بہت تيز چلتے تھے تاکہ تاريکی چھا جانے سے پہلے ہی وہاں سے کوچ کرجائیں، اس لیے وہ انٹوں کو بری طرح مارتے تھے۔ لہذا نبی ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! سکون واطمینان کو لازم پکڑو کیونکہ تيز رفتاری اور تیزروی نیکی اور بھلائی کا کام نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3034

 
 
Hadith   113   الحديث
الأهمية: ما أبكي أن لا أكون أعلم أن ما عند الله -تعالى- خير لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولكن أبكي أن الوحي قد انقطع من السماء، فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها


Tema:

میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قَال أَبُو بَكر لِعُمَر-رضي الله عنهما- بَعْدَ وَفَاةِ رَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-: انْطَلِق بِنَا إِلَى أُمِّ أَيمَنَ -رَضِي الله عنها- نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَزُورُها، فَلَمَّا انتَهَيَا إِلَيهَا، بَكَت، فَقَالاَ لَهَا: مَا يُبكِيك؟ أَمَا تَعْلَمِين أَنَّ ما عِنْد الله خَيرٌ لِرَسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فَقَالَت: مَا أَبْكِي أَنْ لاَ أَكُون أَعلَم أَنَّ مَا عِندَ الله -تعالى- خَيرٌ لِرَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-، وَلَكِن أَبكِي أَنَّ الوَحي قَدْ انْقَطَع مِنَ السَّمَاء؛ فَهَيَجَتْهُمَا عَلَى البُكَاء؛ فَجَعَلاَ يَبْكِيَان مَعَهَا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کہا کہ چلو ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لیے چلتے ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے ان سے کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة -رضي الله عنهم- أحرص الناس على متابعة الرسول -صلى الله عليه وسلم- في كل صغيرة وكبيرة، حتى إنهم يتتبعون ممشاه في حياته، ومجلسه، وموطئه، وكل فعل علموا أنه فعله.
وهذا الحديث يُؤَكِّد ذلك، ويحكي قصة أبي بكر وعمر، حيث زارا امرأة كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزورها، فزاراها من أجل زيارة النبي -صلى الله عليه وسلم- إياها.
فلما جلسا عندها بكت، فقالا لها: ما يبكيك؟ أما تعلمين أن ما عند الله -سبحانه وتعالى- خير لرسوله؟ أي: خير له من الدنيا.
فقالت: إني لا أبكي لذلك ولكن لانقطاع الوحي؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- لما مات انقطع الوحي، فلا وحي بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولهذا أكمل الله شريعته قبل أن يتوفى، فقال -تعالى- {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}، فجعلا يبكيان؛ لأنها ذكرتهما بما كانا قد نسياه.
589;حابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہر چھوٹے بڑے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کے بہت زیادہ حریص تھے، یہاں تک کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آپ ﷺ کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور آنے جانے کے انداز میں، غرض ہر اس فعل میں آپ کی پیروی کرتے تھے، جس کے بارے میں انہیں علم ہو جاتا کہ یہ آپ ﷺ کا عمل ہے۔
یہ حدیث اس کی تایید کرتی ہے۔ اس حدیث میں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک ایسی خاتون سے ملاقات کے لیے گئے، جن سے نبی ﷺ ملنے جایا کرتے تھے۔ ان دونوں نے صرف اس وجہ سے ان سے ملاقات کی کہ نبی ﷺ بھی ان سے ملا کرتے تھے۔
جب وہ اس خاتون کے پاس بیٹھے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے پوچھاکہ آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ کیا آپ جانتی نہیں کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کے رسول ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یعنی وہ دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی ہوں، بلکہ میرے رونے کی وجہ تو یہ ہے کہ سلسلۂ وحی منقطع ہو گیا ہے۔ کیوںکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد اب کبھی وحی نہیں آئے گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی وفات سے پہلے اپنی شریعت کو مکمل فرما دیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} المائدة: 3۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
اس پر وہ دونوں بھی رونا شروع ہو گئے کیوںکہ انہوں نے انہیں بھولی ہوئی بہت سی باتیں یاد دلا دی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3035

 
 
Hadith   114   الحديث
الأهمية: جاء أعرابي فبال في طائفة المسجد


Tema:

ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه-قال: «جاء أعرابِيُّ، فبَالَ في طَائِفَة المَسجد، فَزَجَرَه النَّاسُ، فَنَهَاهُمُ النبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- فَلمَّا قَضَى بَولَه أَمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بِذَنُوب من ماء، فَأُهرِيقَ عليه».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اسے ڈانٹا تو آپ ﷺ نے انہیں منع کر دیا۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو نبی ﷺ نے پانی کا ایک ڈول لانے کا حکم دیا جسے اس پر بہا دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من عادة الأعراب، الجفاء والجهل، لبعدهم عن تعلم ما أنزل الله على رسوله -صلى الله عليه وسلم-.
فبينما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- في أصحابه في المسجد النبوي، إذ جاء أعرابي وبال في أحد جوانب المسجد، ظناً منه أنه كالفلاة، فعظم فعله على الصحابة -رضي الله عنهم- لعظم حرمة المساجد، فنهروه أثناء بوله، ولكن صاحب الخلق الكريم، الذي بعث بالتبشير والتيسير نهاهم عن زجره، لما يعلمه من حال الأعراب، لئلا يُلوث بقعاً كثيرة من المسجد، ولئلا يلوث بدنه أو ثوبه، ولئلا يصيبه الضرر بقطع بوله عليه، وليكون أدعى لقبول النصيحة والتعليم حينما يعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأمرهم أن يطهروا مكان بوله بصب دلو من ماء عليه.
575;عرابی لوگ عموماً سخت مزاج اور جاہل ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان باتوں کو نہیں سیکھ پاتے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کی ہیں۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی نے آکر مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ اس کے خیال میں یہ مسجد بھی ویرانے ہی کی مانند تھی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا یہ فعل بہت گراں گزرا کیونکہ مساجد تو بہت حرمت والی جگہیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ پیشاب کرنے کے دوران ہی انہوں نے اسے جھڑکنا شروع کر دیا۔ تاہم نبی ﷺ نے جو بہت بلند اخلاق سے متصف تھے اور جنہیں خوشخبری دینے اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا انہیں اسے جھڑکنے سے منع کر دیا کیونکہ آپ ﷺ اعرابی لوگوں کے احوال سے خوب آگاہ تھے۔آپ ﷺ کے منع کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ مسجد کی مختلف جگہوں، اپنے جسم اور کپڑوں کو خراب نہ کرے اور اس لیے کہ اسے پیشاب سے روکنے کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق نہ ہو اور جب نبی ﷺ اسے تعلیم دیں اور نصیحت کریں تو وہ پورے طریقے سے اسے قبول کرے۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ پیشاب والی جگہ پر پانی کا ڈول بہا کر اسے صاف کر دیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3036

 
 
Hadith   115   الحديث
الأهمية: إذا دخل الرجل بيته، فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه: لا مبيت لكم ولا عشاء، وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله، قال الشيطان: أدركتم المبيت والعشاء


Tema:

جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إِذَا دَخَل الرَّجُل بَيتَه، فَذَكَرَ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، وَعِندَ طَعَامِهِ، قَالَ الشَّيطَانُ لِأَصْحَابِهِ: لاَ مَبِيتَ لَكُم وَلاَ عَشَاءَ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَم يَذْكُر الله -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، قَالَ الشَّيطَان: أَدْرَكْتُمُ المَبِيت؛ وَإِذا لَمْ يَذْكُرِ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ طَعَامِه، قالَ: أَدرَكتُم المَبِيتَ وَالعَشَاءَ».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنے گھر داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے رات گزارنےکی جگہ پالی۔ اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جابر -رضي الله عنه- جاء في موضوع أدب الطعام، حيث أخبر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا دخل الرجل بيته فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ ذلك لأن الإنسان ذكر الله.


وذِكر الله -تعالى- عند دخول البيت أن يقول: "بسم الله ولجنا، وبسم الله خرجنا، وعلى الله ربِّنا توكلنا، اللهم إني أسألك خير المولج وخير المخرج"، كما جاء في حديث في إسناده انقطاع، وأما الذكر عند العشاء فأن يقول: "بسم الله".
فإذا ذكر الله عند دخوله البيت، وذكر الله عند أكله عند العشاء، قال الشيطان لأصحابه: "لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ لأن هذا البيت وهذا العشاء حُمِيَ بذكر الله -عز وجل-، حماه الله -تعالى- من الشياطين.
وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله قال الشيطان: "أدركتم المبيت"، وإذا قُدِّم إليه الطعام فلم يذكر الله -تعالى- عند طعامه قال: "أدركتم المبيت والعشاء"، أي: أن الشيطان يشاركه المبيت والطعام؛ لعدم التحصُّن بذكر الله.   وفي هذا حث على أن الإنسان ينبغي له إذا دخل بيته أن يذكر اسم الله، وكذلك عند طعامه.
580;ابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کھانے کے آداب کے موضوع سے متعلق ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اُس وقت شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے“۔ اس لیے کہ اس بندے نے اللہ کا ذکر کیا ہے۔
گھر میں داخلے ہوتے وقت اللہ کا ذکر یہ ہے کہ یوں کہے: ”‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ “ (ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں، اے اللہ! ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں) جس طرح کہ اس حدیث میں آیا ہے جس کی سند میں انقطاع ہے۔
جب کہ رات کے کھانے کے وقت کا ذکر ”بِسْمِ اللَّه“ کہنا ہے۔
پس جب بندہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور رات کا کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان اپنے ساتھیوں کو کہتا ہے: نہ تو تمہاری لیے رات بسر کرنے کی جگہ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔ کیونکہ اس گھر اور اس کھانے کو اللہ عز و جل کے ذکر کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے اسے شیطانوں سے محفوظ کر دیا ہے۔
اور جب داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے:”تمہیں رات گزارنے کی جگہ مل گئی“۔
اور جب اس کے سامنے کھانا پیش کیا جائے اور وہ کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: ”تمہیں رات گزارنے کے لیے جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی“۔ یعنی شیطان اس کے ساتھ سونے کی جگہ اور رات کے کھانے میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے ذکر کے ساتھ اسے محفوظ نہیں کیا گیا۔
اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ جب اپنے گھرمیں داخل ہو اور جب وہ کھنا کھائے تو اللہ کا نام لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3037

 
 
Hadith   116   الحديث
الأهمية: ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟


Tema:

جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: «قال النبي -صلى الله عليه وسلم- لجبريل: «مَا يَمْنَعُك أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَر مِمَّا تَزُورَنَا؟» فنزلت: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك ).

ابن عباس رضي الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے فرمایا: ”جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟“ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك )[مريم: 64]
ترجمہ: ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے مابین ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي الحديث شوق النبي -صلى الله عليه وسلم-  لجبريل -عليه السلام-؛ لأنَّه يأتيه من الله -عز وجل-، حيثُ أبطأ جبريل في النزول أربعين يوما فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- يا جبريل: (ما يمنعك أن تزورنا)؟، أي: ما نزلت حتى اشتقت إليك، وأوحى الله إلى جبريل قل له: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) أي قال الله -سبحانه- قل يا جبريل ما نتنزل في أوقات متباعدة إلا بإذن الله على ما تقتضيه حكمته، فهو سبحانه: (له ما بين أيدينا) أي: أمامنا من أمور الآخرة، (وما خلفنا): من أمور الدنيا، وتمام الآية "وما بين ذلك" أي: ما يكون من هذا الوقت إلى قيام الساعة، أي: له علم ذلك جميعه وما كان ربك نسيا أي: ناسيا يعني تاركا لك بتأخير الوحي عنك.
فالحاصل أن هذ الحديث يدل على أنه ينبغي للإنسان أن يصطحب الأخيار، وأن يزورهم ويزوروه لما في ذلك من الخير.
740;ہ حدیث نبی ﷺ کے جبریل علیہ السلام سے شوقِ ملاقات کو بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ عز و جل کے ہاں سے آتے ہیں۔ جب جبریل علیہ السلام نے آنے میں چالیس دن دیر کر دی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اے جبریل! آپ ہم سے ملاقات کے لئے کیوں نہیں آتے؟ یعنی آپ نازل نہ ہوئے یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ آپ ﷺ سے کہیں: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) یعنی اللہ سبحانہ نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کہو کہ ہم دیر دیر سے اللہ کے حکم ہی سے آتے ہیں جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہمارے آگے جو امور آخرت ہیں اور ہمارے پیچھے جو امور دنیا ہیں، اور آیت کا تکملہ "وما بين ذلك" (اور جو کچھ ان کے درمیان ہے) یعنی اس وقت سے لے کر قیامت آنے تک جو کچھ بھی ہو گا ان سب کا علم اسے ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں یعنی وحی میں تاخیر کر کے آپ کو چھوڑ دینے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو اپنا ہم نشین بنائے، اور وہ ان کی زیارت کرےاور وہ لوگ اس سے ملاقات کرنے آئیں کیونکہ اس میں بہت خیر مضمر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3038

 
 
Hadith   117   الحديث
الأهمية: رأيتك تصلي لغير القبلة؟ فقال: لولا أني رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يفعله ما فعلته


Tema:

میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔

عن أنس بن سيرين قال: «اسْتَقبَلنَا أَنَسًا حِين قَدِم مِن الشَّام، فَلَقِينَاه بِعَينِ التَّمرِ، فَرَأَيتُهُ يُصَلِّي على حِمَار، وَوَجهُهُ مِن ذَا الجَانِب -يعني عن يَسَارِ القِبلَة- فقلت: رَأَيتُك تُصَلِّي لِغَيرِ القِبلَة؟ فقال: لَولاَ أنِّي رَأيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَفْعَلُه ما فَعَلتُه».

انس بن سیرین روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب واپس ہوئے، تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا، تو میں بھی نہ کرتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قدم أنس بن مالك الشام، ولجلالة قدره وسعة علمه، استقبله الناس، وهكذا رواية مسلم (قدم الشام) ولكن معناها: تلقيناه في رجوعه حين قدم الشام، وإنما حذف ذكر الرجوع؛ للعلم به؛ لأنهم خرجوا من البصرة للقائه حين قدم من الشام.
فذكر الراوي -وهو أحد المستقبلين- أنَّه رآه يصلى على حمار، وقد جعل القبلة عن يساره، فسأله عن ذلك، فأخبرهم أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- يفعل ذلك، وأنه لو لم يره يفعل هذا، لم يفعله.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے۔ ان کی جلالت قدر اور علمی وسعت کی وجہ سے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم کی روایت میں ”قَدِمَ الشَّامَ“ یعنی جب شام تشریف لائے ہی ہے، لیکن اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ کی شام سے واپسی پر ملاقات کی، اس روایت میں ان کے رجوع کا ذکر حذف کر دیا گیا کیوں کہ یہ بات معلوم ہے اس لیے کہ وہ سب ان کی ملاقات کے لیے بصرہ سے باہر آئے جبکہ وہ شام سے واپس ہوئے تھے۔
راوی جو کہ استقبال کرنے والوں میں شامل تھے، کا بیان ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے، بایں طور کہ قبلہ ان کے بائیں جانب تھا۔ راوی نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو وہ بھی ایسا نہ کرتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3039

 
 
Hadith   118   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يخرج من طريق الشجرة، ويدخل من طريق المعرس، وإذا دخل مكة، دخل من الثنية العليا، ويخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ جب مکہ میں داخل ہو تے تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- "أَنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَخرُجُ مِنْ طَرِيقِ الشَّجَرَةِ، وَيَدْخُلُ مِنْ طَرِيقِ الْمُعَرَّس، وَإِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنَ الثَنِيَّةِ العُلْيَا، وَيَخْرُجُ مِنَ الثَنِيَّةِ السُّفْلَى".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ اور جب مکے میں داخل ہو تے، تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- في موضوع استحباب مخالفة الطريق في العيد والجمعة وغيرها من العبادات.
ومعنى مخالفة الطريق: أن يذهب المسلم إلى العبادة من طريق ويرجع من الطريق الآخر؛ فمثلًا يذهب من الجانب الأيمن ويرجع من الجانب الأيسر، وهذا ثابت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في العيدين، كما رواه جابر -رضي الله- عنه كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا كان يوم عيد خالف الطريق؛ يعني خرج من طريق ورجع من طريق آخر، وكذلك في الحديث الذي معنا.
وتنوعت أقوال العلماء في الحكمة في المخالفة في الطريق على أقوال أشهرها:
1. ليشهد له الطريقان يوم القيامة؛ لأن الأرض يوم القيامة تشهد على ما عمل فيها من خير وشر، فإذا ذهب من طريق ورجع من آخر؛ شهد له الطريقان يوم القيامة بأنه أدى صلاة العيد.
2. من أجل إظهار الشعيرة، شعيرة العيد؛ حتى تكتظ الأسواق هنا وهناك، فإذا انتشر في طرق المدينة صار في هذا إظهار لهذه الشعيرة؛ لأن صلاة العيد من شعائر الدين، والدليل على ذلك أن الناس يؤمرون بالخروج إلى الصحراء؛ إظهارًا لذلك، وإعلانًا لذلك.
3. إنما خالف الطريق من أجل المساكين الذين يكونون في الأسواق، قد يكون في هذا الطريق ما ليس في هذا الطريق، فيتصدق على هؤلاء وهؤلاء.
ولكن الأقرب والله أعلم أنه: من أجل إظهار تلك الشعيرة، حتى تظهر شعيرة صلاة العيد بالخروج إليها من جميع سكك البلد.
أما في الحج كما جاء في الحديث الذي معنا، فإن الرسول -صلى الله عليه وسلم- خالف الطريق في دخوله إلى مكة دخل من أعلاها، وخرج من أسفلها، وكذلك في ذهابه إلى عرفة، ذهب من طريق ورجع من طريق آخر.
واختلف العلماء أيضا في هذه المسألة، هل كان النبي -صلى الله عليه وسلم- فعل ذلك على سبيل التعبُّد؛ أو لأنُّه أسهل لدخوله وخروجه؟ لأنه كان الأسهل لدخوله أن يدخل من الأعلى ولخروجه أن يخرج من الأسفل.
فمَنْ قال من العلماء قال بالأول قال: إنه سنة أن تدخل من أعلاها: أي أعلى مكة وتخرج من أسفلها، وسنة أن تأتي عرفة من طريق وترجع من طريق آخر.
ومنهم من قال: إن هذا حسب تيسر الطريق، فاسلك المتيسر سواء من الأعلى أو من الأسفل.
وعلى كل حال إن تيسر للحاج والمعتمر أن يدخل من أعلاها ويخرج من أسفلها فهذا طيب؛ فإن كان ذلك عبادة فقد أدركه، وإن لم يكن عبادة لم يكن عليه ضرر فيه، وإن لم يتيسر فلا يتكلف ذلك كما هو الواقع في وقتنا الحاضر، حيث إن الطرق قد وجهت توجيهًا واحدًا، ولا يمكن للإنسان أن يخالف ولي الأمر والحمد لله الأمر واسع.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث عید، جمعہ اور دیگر عبادات میں راستہ بدل کر آنے جانے کے استحباب کے موضوع پر ہے۔ راستہ بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک راستے سے عبادت کے لیے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے۔ مثال کے طور پر وہ دائیں جانب سے جائے اور بائیں جانب سے واپس آئے۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے عیدین میں ثابت ہے۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کے دن راستہ تبدیل کرتےتھے۔ یعنی ایک راستے سے جاتے اور دوسرے سے واپس آتے۔ اس حدیث میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ علما نے راستہ تبدیل کرنے کی بہت ساری حکمتیں بیان کی ہیں، جن میں چند ایک مشہور یہ ہیں:
1۔ دونوں راستے قیامت کے دن اس کے لیے گواہ بنیں گے؛ کیوں کہ قیامت کے دن زمین انسان کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی۔ اس لیے جب وہ ایک راستے سے جائےگا اور دوسرے سے واپس آ ئے گا، تودونوں راستے اس بات کے گواہ بن جائیں گے کہ اس نے نمازعید ادا کی تھی۔
2۔ عید جیسے اہم ترین اسلامی شعار کے اظہار کے لیے۔ جب ہر طرف بازار بھرجائیں گے اور لوگ شہر کے راستوں میں پھیل جائيں گے، تو اس اسلامی شعار کا اظہار ہوگا۔ عید اسلامی شعار ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے اظہار اور اعلان کے لیے لوگوں کو صحرا میں نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
3۔ اس کی ایک وجہ مساکین بھی ہیں، جو بازاروں میں کبھی اس راستے پر ہوتے ہیں، تو کبھی اس راستے پر۔ ایسے راستہ بدل لیا جائے، تاکہ سب پر صدقہ کیا جا سکے۔
لیکن قریب تر بات یہ ہے کہ اصل وجہ اس شعار کا اظہار ہے؛ تاکہ نماز عید کے لیے نکلنے سے شہر کی تمام سڑکوں سے نماز عید کے شعار کا اظہار ہو۔ جہاں تک حج کی بات ہے، تو جیساکہ اس حدیث میں مذکور ہے، رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں داخل ہوتے وقت راستہ تبدیل کیا؛ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوئے اور نچلی جانب سے نکلے۔ اسی طرح عرفہ جاتے وقت آپ ایک راستے سے گئے اور دوسرے راستے سے واپس ہوئے۔ علما کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ بطور عبادت کیا تھا یا اپنے داخل ہونے اور نکلنے کی سہولت کے مدنظر؟ کیوں کہ ممکن ہے کہ اوپری جانب سے داخل ہونا آسان ہو اور نچلی جانب سے نکلنا۔ پہلے موقف کے قائلین کا کہنا ہے کہ یہ سنت ہے کہ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوا جائے اور نچلی جانب سے نکلا جائے اور یہ بھی سنت ہے کہ عرفہ میں ایک راستہ سے آیا جائے اور دوسرے سے واپس جایا جائے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ راستے کی فراہمی اور آسان ہونے کا ہے۔ جو راستہ سہل لگے، اسے اختیار کیا جائے، بالائی والا ہو یا زیریں والا۔
بہرحال اگر حاجی بالائی حصے سے داخل ہونے اور زیریں حصے سے نکلنے کا اہتمام کر سکے، تو یہ بہتر ہے؛ کیوں کہ اگر یہ عبادت ہے، تو ادا ہو گئی اور اگر عبادت نہیں ہے تو کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا، تو اسے اس کا مکلف نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ موجودہ صورت حال ہے۔ آج راستے یک رخی بنا دیے گئے ہیں اور اولیاء الامور کی مخالفت بھی ممکن نہیں ہے۔ اور الحمد للہ مسئلے میں بڑی گنجائش بھی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3040

 
 
Hadith   119   الحديث
الأهمية: ارقبوا محمدًا -صلى الله عليه وسلم- في أهل بيته


Tema:

محمد ﷺ کا خیال آپ کے اہلِ بیت میں رکھو۔

عن أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: ارْقَبُوا محمَّدًا -صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم- فِي أَهلِ بَيتِهِ.

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: تم محمد ﷺ کا ان کے اہل بیت کے بارے میں خیال رکھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في أثر أبي بكر -رضي الله عنه- دليل على معرفة الصحابة -رضي الله عنهم- بحق أهل بيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وتوقيرهم واحترامهم، فمن كان من أهل البيت مستقيما على الدين مُتَّبِعًا لِسنَّة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فله حقان: حق الإسلام وحق القرابة من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وفيه أن أبا بكر والصحابة كانوا يحبون آل البيت ويوصون بهم خيرًا.
575;بو بکر رضی اللہ عنہ کے اس اثر میں دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول ﷺ کے اہل بیت کے حق سے اور ان کی توقیر و احترام سے آگاہ تھے۔ اہل بیت میں سے جو شخص راست روی سے دین پر قائم ہو اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا پیرو ہو اس کے دو حق ہیں: ایک اسلام کا حق اور دوسرا رسول اللہ ﷺ سے رشتہ داری کا حق۔ اس میں اس بات کا (بھی) بیان ہے کہ ابو بکر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل بیت سے محبت رکھتے تھےاور ان کے بارے میں خیر خواہی کی تلقین کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3041

 
 
Hadith   120   الحديث
الأهمية: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته
قالوا: وما جائزته؟ يا رسول الله، قال: يومه وليلته، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه


Tema:

جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔

عن أبي شُريح خُويلد بن عمرو الخزاعي عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «مَنْ كَان يُؤمِن بِاللهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِم ضَيفَه جَائِزَتَه»، قَالوا: وما جَائِزَتُهُ؟ يَا رسول الله، قال: «يَومُهُ ولَيلَتُهُ، والضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلك فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيه».
وفي رواية: «لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يؤْثِمَهُ» قالوا: يَا رَسول الله، وَكَيفَ يُؤْثِمَهُ؟ قال: «يُقِيمُ عِندَهُ ولاَ شَيءَ لَهُ يُقرِيهِ بهِ».

ابو شریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اس حد تک ٹھہرے کہ اسے گناہ گار ہی کردے۔لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ اسے گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اس کے پاس ٹھہرے حالانکہ اس کی مہمان نوازی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي شريح الخزاعي -رضي الله عنه- يدل على إكرام الضيف وقراه، فلقد جاء عنه أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلَّم- قال: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه"، وهذا من باب الحث والإغراء على إكرام الضيف، يعني أنَّ إكرام الضيف من علامة الإيمان بالله واليوم الآخر، ومن تمام الإيمان بالله واليوم الآخر.
ومما يحصل به إكرام الضيف: طلاقة الوجه، وطيب الكلام، والإطعام ثلاثة أيام، في الأول بمقدوره وميسوره، والباقي بما حضره من غير تكلف، ولئلا يثقل عليه وعلى نفسه، وبعد الثلاثة يُعد من الصدقات، إن شاء فعل وإلا فلا.
وأما قوله: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام" قال العلماء في معنى الجائزة: الاهتمام بالضيف في اليوم والليلة، وإتحافه بما يمكن من بر وخير، وأما في اليوم الثاني والثالث فيطعمه ما تيسر ولا يزيد على عادته، وأما ما كان بعد الثلاثة فهو صدقة ومعروف إن شاء فعل وإن شاء ترك.
وفي رواية مسلم "ولا يحل له أن يقيم عنده حتى يؤثمه" معناه: لا يحل للضيف أن يقيم عنده بعد الثلاث حتى يوقعه في الإثم؛ لأنه قد يغتابه لطول مقامه، أو يعرض له بما يؤذيه، أو يظن به مالا يجوز، وهذا كله محمول على ما إذا أقام بعد الثلاث من غير استدعاء من المضيف.
ومما ينبغي أن يعلم أن إكرام الضيف يختلف بحسب أحوال الضيف، فمن الناس من هو من أشراف القوم ووجهاء القوم، فيكرم بما يليق به، ومن الناس من هو من متوسط الحال فيكرم بما يليق به، ومنهم من هو دون ذلك.
575;بو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث دلالت کرتی ہے کہ مہمان کا اکرام اور اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے"۔ اس میں مہمان کے اکرام کی ترغیب ہے اور اس پر ابھارا گیا ہے یعنی مہمان کا اکرام کرنا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی علامت ہے اور اس سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان کامل ہوتا ہے۔
جن باتوں سے مہمان کی تکریم ہوتی ہے وہ یہ ہیں: چہرے کی بشاشت، خوشگوار گفتگو، تین دن کھانا کھلانا، پہلے دن حسب استطاعت اور جس قدر میسر ہو اور باقی دنوں میں بلا تکلف جو ہو پیش کرنا تاکہ اس سے نہ تو مہمان پر بوجھ آئے اور نہ خود اس پر۔تین دن کے بعد مہمان نوازی صدقہ شمار ہوتی ہے، چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام"۔ اس میں ’جائزہ‘ کے لفظ کے معنی میں علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دن اور ایک رات مہمان کا خوب خیال رکھے اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی اچھائی اور بھلائی ممکن ہو وہ کرے۔ جب کہ دوسرے اور تیسرے دن میں جو کچھ میسر ہو وہ اسے کھلائے اور اپنے معمول سے نہ بڑھے۔ جب کہ تین دن کے بعد یہ صدقہ اور نیکی ہے اگر چاہے تو کرلے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ: " اس (مہمان) کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اس حد تک قیام کرے کہ اسے گناہ گار ہی کر دے"۔ یعنی مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد بھی قیام جاری رکھے یہاں تک کہ اسے گناہ گار کر دے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لمبے قیام کی وجہ سے اس کی غیبت کر بیٹھے یا اس کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کرے جس سے اس کو تکلیف ہو یا پھر اس کے بارے میں کوئی گمان رکھے جو کرنا جائز نہیں۔ یہ سب اس صورت پر محمول ہے جب وہ میزبان کی دعوت کے بغیر اس کے ہاں تین دن کے بعد تک ٹھہرا رہے۔
یہاں یہ جان لینا مناسب ہے کہ مہمان کا اکرام مہمان کی حالت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بڑے اور معزز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کا اکرام ان کے شایانِ شان کرے۔ بعض لوگ متوسط درجے کے ہوتے ہیں ان کا اکرام ان کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ ان سے بھی کم تر درجے کے ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3042

 
 
Hadith   121   الحديث
الأهمية: إني قد رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا آليت على نفسي أن لا أصحب أحدًا منهم إلا خدمته


Tema:

میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: خَرَجتُ معَ جَرِير بنِ عَبدِ الله البَجَلِي -رضي الله عنه- في سَفَرٍ، فَكَانَ يَخْدُمُنِي، فقُلتُ لَهُ: لا تفْعَل، فقَال: إِنِّي قَدْ رَأَيتُ الأَنْصَارَ تَصْنَعُ بِرَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- شَيئًا آلَيتُ عَلَى نَفْسِي أَنْ لاَ أَصْحَبَ أَحدًا مِنْهُم إِلاَّ خَدَمْتُه.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر پر تھا۔ وہ میری خدمت کرتےتھے۔ میں نے کہا کہ ایسا نہ کرو، تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب مجھے ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- فيه أنه -رضي الله عنه- كان في سفر فجعل يخدم رفقته وهم من الأنصار، ومنهم أنس -رضي الله عنه- وهو أصغر سنًّا منه، فقيل له في ذلك، يعني: كيف تخدمهم وأنت صاحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟
فقال: إني رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عيه وسلم- شيئًا؛ حلفت على نفسي ألا أصحب أحدا منهم إلا خدمته، وهذا من إكرام من يكرم النبي -صلى الله عليه وسلم-، فإكرام أصحاب الرجل إكرام للرجل، واحترامهم احترام له، ولهذا جعل -رضي الله عنه- إكرام هؤلاء من إكرام النبي -صلى الله عليه وسلم-.
580;ریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ ایک سفر میں تھے۔ دوران سفر وہ اپنے ساتھ موجود انصار کی خدمت کرنے لگے۔ ان میں انس رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ آپ صحابئ رسول ہونے کے باوجود ان کی خدمت کیوں کرتے ہیں؟
تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا (عقیدت مندانہ) برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ دل میں قسم اٹھالی تھی کہ مجھے ان میں سے جو بھی ملے گا، میں اس کی خدمت اسی طرح کروں گا۔ یہ اس کا اکرام ہے، جو رسول اللہﷺ کا اکرام کرتا تھا۔ کسی کے دوستوں کا اکرام در حقیقت اسی کا اکرام اور ان کا احترام اصل میں اسی کا احترام ہوتا ہے۔ اسی لیے جریر رضی اللہ عنہ نے انصار کے اکرام کو نبی کریم ﷺ کا اکرام سمجھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3043

 
 
Hadith   122   الحديث
الأهمية: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس


Tema:

کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الكبائر: الإشراك بالله، وعُقُوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغَمُوس».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین دن کا روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يتناول هذا الحديث عددًا من الذنوب التي وصفت بأنها من الكبائر، وسميت بذلك لضررها الكبير على فاعلها وعلى الناس في الدنيا والآخرة.
فأولها "الإِشرَاكُ بِالله": أي: الكفر بالله بأن، يعبد معه غيره ويجحد عبادة ربه.   وثانيها "عُقُوقُ الوَالِدَينِ": والعقوق حقيقته: أن يفعل مع والديه أو مع أحدهما، ما يتأذى به عرفاً، كعدم احترامهما وسبهما وعدم القيام عليهما ورعايتهما عند حاجتهم إلى الولد.
وثالثها "قَتْل النَّفْس": بغير حق كالقتل ظلماً وعدواناً، أما إذا استحق الشخص القتل بحق من قصاص وغيره فلا يدخل في معنى هذا الحديث.
ثم خُتِم الحديث بالترهيب من "اليَمِين الغَمُوسُ": وسُمِيت بالغموس لأنَّها تغمس صاحبها في الإِثم أو في النار؛ لأنه حلف كاذباً على علم منه.
575;س حدیث میں متعدد گناہوں کا بیان ہے، جن کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ وہ کبیرہ گناہ ہیں۔ انھیں یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے شخص اور لوگوں کو دنیا اور آخرت میں ان کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
پہلا : ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا“ ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ کفر کرنا، بایں طور کہ اس کے ساتھ ساتھ بندہ کسی اور کی بھی عبادت کرے اور اپنے رب کی عبادت سے انکاری ہو جائے۔
دوسرا: ”والدین کی نافرمانی کرنا“ عقوق کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے، جو عرف کے اعتبار سے ان کے لیے تکلیف دہ ہو، جیسے ان کا احترام نہ کرنا، انھیں برا بھلا کہنا اور بوقت ضرورت اولاد کا ان کی دیکھ بھال نہ کرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا۔
تیسرا: ”کسی جان کو قتل کرنا“ یعنی ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ناحق قتل کرنا۔ تاہم اگر آدمی قصاص وغیرہ کی وجہ سے قتل کا مستحق ہو، تو اس پر اس حدیث کے معنی کا اطلا ق نہیں ہو گا۔
حدیث کا اختتام جھوٹی قسم کھانے سے ڈرا کر کیا گیا۔ جھوٹی قسم کو ”الیمین الغموس“ اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اپنے اٹھانے والے کو گناہ یا جہنم میں ڈبو دیتی ہے۔ کیوںکہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3044

 
 
Hadith   123   الحديث
الأهمية: أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر


Tema:

سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «أفضل الجهاد كلمة عَدْلٍ عند سُلْطَانٍ جَائِر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن أعظم جهاد المرء أن يقول كلمة حق عن صاحب سلطة ظالم؛ لأنه ربما ينتقم منه بسببها ويؤذيه أو يقتله، فالجهاد يكون باليد كقتال الكفار، وباللسان كالإنكار على الظلمة، وبالقلب كجهاد النفس.
606;بی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ وہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس حق گوئی کی وجہ سے وہ بادشاہ کے انتقام اور ایذا کا شکار ہو جائے اور بادشاہ اسے تکلیف پہنچائے یا قتل کردے۔ جہاد ہاتھ سے کیا جاتا ہے جیسے کفار سے قتال کرنا اسی طرح جہاد زبان سے بھی کیا جاتا ہے جیسے کہ ظالموں پر نکیر کرنا نیز جہاد دل سے بھی کیا جاتا ہے جیسے نفس سے مجاہدہ کرنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3045

 
 
Hadith   124   الحديث
الأهمية: أن أم حبيبة استحيضت سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل


Tema:

ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "إن أم حبيبة اسْتُحِيضَتْ سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل، قالت: فكانت تغتسل لكل صلاة".

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں، تو وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أم حبيبة حين سألته عن ما يلزمها في استحاضتها أن تغتسل، فكانت تغتسل لكل صلاة، وقد كانت استحيضت سبع سنين، والاستحاضة أمر عارض قليل في النساء، والأصل هو الحيض الذي يكون في أيام معدودة في الشهر وتصحبه علامات يعرفها النساء.
وكانت تغتسل لكل صلاة تطوعًا منها.
575;م حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ استحاضہ میں انہیں کیا کرنا چاہئے تو آپ ﷺ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ ہر نماز کے لئے غسل کیا کرتی تھیں۔ انہیں سات سال تک استحاضہ کا خون آیا تھا۔
استحاضہ ایک عارضی امر ہے جو کم ہی عورتوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اصل تو حیض ہے جو مہینے کے چند گنے چنے دنوں میں آتا ہے اور اس کی کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جسے عورتیں پہچانتی ہیں۔
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنی جانب سے ہی تطوّعاً ہر نماز کے لیے غسل کرلیا کرتی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3046

 
 
Hadith   125   الحديث
الأهمية: لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري، ثم يغتسل منه


Tema:

تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا يَبُولَنَّ أحَدُكم في الماء الدَّائِم الذي لا يجْرِي, ثمَّ يَغتَسِل مِنه".   وفي رواية: "لا يغتسل أحدكُم في الماء الدَّائم وهو جُنُب".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے، اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول ﷺ نے فرمایا) ”تم میں سے کوئی بھی حالتِ جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن البول في الماء الراكد الذي لا يجري؛ لأن ذلك يقتضي تلوثه بالنجاسة والأمراض التي قد يحملها البول فتضر كل من استعمل الماء، وربما يستعمله البائل نفسه فيغتسل منه، فكيف يبول بما سيكون طهورًا له فيما بعد.
كما نهى عن اغتسال الجنب في الماء الراكد؛ لأن ذلك يلوث الماء بأوساخ وأقذار الجنابة.
606;بی ﷺ نے ایسے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا جو ٹھہرا ہوا ہو اورجاری نہ ہو۔ کیونکہ اس کی وجہ سے یہ نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ وہ امراض جو پیشاب کے بسبب در آ سکتے ہیں ہر اس شخص کو نقصان دے سکتے ہیں جو پانی کو استعمال کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود پیشاب کرنے والا ہی اس پانی کو استعمال کرے اور اس سے غسل کرے۔ چنانچہ اس کے لیے کیسے روا ہے کہ وہ ایسی شے میں پیشاب کرے جو بعد میں اس کے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ ہو گی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ایسا کرنا پانی کو جنابت کی گندگی سے آلودہ کر دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3047

 
 
Hadith   126   الحديث
الأهمية: استوصوا بالنساء خيرا؛ فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج ما في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء


Tema:

عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے، اب اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے، اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑدو تو ٹیڑھی رہے گی، لہٰذا عورتوں سے اچھا برتاؤ کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا؛ فَإِنَّ المرأة خُلِقَتْ مِن ضِلعٍ، وَإنَّ أعْوَجَ مَا في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فَإنْ ذَهَبتَ تُقيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء».
وفي رواية: «المرأة كالضِّلَعِ إنْ أقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَإن اسْتَمتَعْتَ بها، استمتعت وفيها عوَجٌ».
وفي رواية: «إنَّ المَرأةَ خُلِقَت مِنْ ضِلَع، لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَريقة، فإن استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج، وإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَها، وَكَسْرُهَا طَلاَقُهَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیوں کہ عورت کو پسلی سے پیداکیاگیاہے اورپسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھاپن اس کے اوپروالے حصے میں ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگ جاؤگے،تواسے توڑ بیٹھو گے اور اگر اس کو یوں ہی چھوڑدوگے،تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”عورت پسلی کی مانند ہے۔اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے،تواسے توڑ بیٹھوگے۔اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہو،تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو“۔
ایک دوسری روایت میں ہے:”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ کسی طریقے سے بھی تمھارے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کاارادہ رکھتے ہو، تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے میں لگ گئے، تو اسے توڑ بیٹھوگے۔ اس کے توڑنے سے مراد اسے طلاق دینا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- في معاشرة النساء أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: اقبلوا هذه الوصية التي أوصيكم بها، وذلك أن تفعلوا خيرًا مع النساء؛ لأن النساء قاصرات في العقول، وقاصرات في الدين، وقاصرات في التفكير، وقاصرات في جميع شؤونهن، فإنهن خلقن من ضلع.
وذلك أن آدم -عليه الصلاة والسلام- خلقه الله من غير أب ولا أم، بل خلقه من تراب، ثم قال له كن فيكون، ولما أراد الله -تعالى- أن يبث منه هذه الخليقة، خلق منه زوجه، فخلقها من ضلعه الأعوج، فخلقت من الضلع الأعوج، والضلع الأعوج إن استمتعت به استمتعت به وفيه العوج، وإن ذهبت تقيمه انكسر.
فهذه المرأة أيضا إن استمتع بها الإنسان استمتع بها على عوج، فيرضى بما تيسر، وإن أراد أن تستقيم فإنها لن تستقيم، ولن يتمكن من ذلك، فهي وإن استقامت في دينها فلن تستقيم فيما تقتضيه طبيعتها، ولا تكون لزوجها على ما يريد في كل شيء، بل لابد من مخالفة، ولابد من تقصير، مع القصور الذي فيها، فإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها، ومعناه أنك إن حاولت أن تستقيم لك على ما تريد فلا يمكن ذلك، وحينئذ تسأم منها وتطلقها.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ عورتوں کے ساتھ معاشرت کے بارے بتا رہے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:میں تمھیں جو وصیت کرنے جا رہا ہوں، اسے پلے سے باندھ لو۔وصیت یہ ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ کیوںکہ عورتیں عقلی، دینی اور غور وفکر کی صلاحیت کے اعتبار سے کم تر ہوتی ہں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام امور میں نا پختہ ہوتی ہیں۔ کیوںکہ انھیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
وہ اس طرح کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر باپ اور ماں کے پیدا فرمایا؛بلکہ انھیں مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر فرمایا کہ"ہوجا"تو وہ عالم وجود میں آ گئے۔جب اللہ تعالی نے ان سے ان کی نسل پھیلانے کا ارادہ فرمایا، تو انہی سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا۔اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی زوجہ کو ان کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا فرمایا۔چنانچہ معلوم ہواکہ عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے۔
اگر آپ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگر اسے سیدھا کرنے لگ جائیں گے،تو وہ ٹوٹ جائے گی۔یہی حال عورت کا بھی ہے۔اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،تو اس میں موجود کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھانا ہوگا۔جتنا فائدہ حاصل ہو جائے، اسی پر راضی ہونا ہوگا۔اگر وہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا،تو وہ سیدھی نہیں ہوگی۔انسان اپنی کوشش میں ناکام رہے گا۔دین کے معاملے میں درست ہو بھی جاۓ،تو طبعی میلانات کے معاملے میں کجی باقی رہے گی۔ ہر بات میں شوہرکی چاہت پرپورانہیں اترسکتی؛بلکہ مخالفت اورکوتاہی ناگزیرہے۔ جوکجی ہے،وہ رہنی ہی ہے۔اگر آپ اسے سیدھاکرنے جائیں گے،تواسے توڑ بیٹھیں گے۔یہاں توڑنے سے مراداسے طلاق دیناہے۔مطلب یہ ہے کہ اگرآپ یہ کوشش کریں گے کہ آپ جو چاہیں،وہ اس کے موافق ہوجائے،توایساممکن نہیں ہے۔ایسی صورت میں آپ اس سے اکتاکراسے طلاق دے بیٹھیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3049

 
 
Hadith   127   الحديث
الأهمية: أن رسول الله  -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا معتزلًا، لم يصل في القوم، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله أصابتني جنابة، ولا ماء، فقال: عليك بالصعيد، فإنه يكفيك


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا مُعتزلًا، لم يُصَلِّ في القوم، فقال: (يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟) فقال: يا رسول الله أصابتني جنابةٌ، ولا مَاءَ، فقال: (عليك بالصَّعِيدِ، فإنه يَكْفِيَكَ).

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بالصحابة صلاة الصبح، فلما فرغ من صلاته رأى رجلا لم يصل معهم، فكان من كمال لطف النبي -صلى الله عليه وسلم-، وحسن دعوته إلى الله، أنه لم يعنفه على تخلفه عن الجماعة، حتى يعلم السبب في ذلك، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلى مع القوم؟، فشرح عذره -في ظنه- للنبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه قد أصابته جنابة ولا ماء عنده، فأخر الصلاة حتى يجد الماء ويتطهر، فقال -صلى الله عليه وسلم- إن الله تعالى قد جعل لك -من لطفه- ما يقوم مقام الماء في التطهر، وهو الصعيد، فعليك به، فإنه يكفيك عن الماء.
606;بی ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو صبح کی نماز پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نےایک آدمی کو دیکھا جس نے صحابہ کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی۔ یہ نبی ﷺ کا کمالِ لطف ومہربانی اور دعوت الی اللہ میں خوش اسلوبی ہی تھی کہ آپ نے اس کے جماعت سے پیچھے رہ جانے پر سختی نہیں برتی یہاں تک کہ تاخیر کی وجہ جان لی۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟ اپنی گمان کے مطابق اس نے اپنا عذر نبی ﷺ کے سامنے پیش کیا کہ اسے جنابت لاحق ہو گئی تھی اور پانی نہیں تھا اس لیے پانی کے ملنے اور طہارت حاصل کرنے تک اس نے نماز کو مؤخر کر دیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی نےاپنی لطف ومہربانی سے طہارت حاصل کرنے میں پانی کےقائم مقام ایک چیز رکھی ہے اور وہ مٹی ہے۔ تو تم مٹی کو استعمال کرو کیوں کہ یہ تمہارے لیے پانی کےقائم مقام ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3051

 
 
Hadith   128   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى منى، فأتى الجمرة فرماها، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق: خذ، وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس


Tema:

رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی ،پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى مِنَى، فأتى الجَمْرَةَ فرماها، ثم أتى منزله بمِنَى ونحر، ثم قال للحلاق: «خُذْ» وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناسَ.
وفي رواية: لما رمى الجَمْرَةَ، ونحر نُسُكَهُ وحلق، ناول الحلاق شِقَّهُ الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري -رضي الله عنه- فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأَيْسَرَ، فقال: «احْلِقْ»، فحلقه فأعطاه أبا طلحة، فقال: «اقْسِمْهُ بين الناس».

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لائے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی، پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔ اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رمی جمرہ کے بعد آپ ﷺ نے قربانی کی اور سر منڈایا؛ نائی کو سر کا دایاں حصہ (مونڈنے کے لیے) دیا اُس نے اسے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا کر وہ بال دے دیے، پھر نائی کو بایاں حصہ دیا اور اُس سے فرمایا مونڈ دو، اُس نے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے اُسے بھی ابوطلحہ کو دے دیا اور فرمایا ’’اسے لوگوں کے مابین تقسیم کردو‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع إلى منى يوم العيد رمى الجمرة، ثم ذهب إلى منزله ونحر هديه، ثم دعا بالحلاَّق فحلق رأسه؛ وأشار -صلى الله عليه وسلَّم- إلى الشق الأيمن فبدأ الحلاَّق بالشقِّ الأيمن، ثم دعا أبا طلحة -رضي الله عنه الأنصاري- وأعطاه شعر الشق الأيمن كله، ثم حلق بقية الرأس، ودعا أبا طلحة وأعطاه إياه، وقال: "اقسمه بين الناس" فقسمه، فمن الناس من ناله شعرة واحدة، ومنهم من ناله شعرتان، ومنهم من ناله أكثر حسب ما تيسر؛ وذلك لأجل التبرك بهذا الشعر الكريم؛ شعر النبي -صلى الله عليه وسلم-.
وهذا جائز وخاص بآثاره -صلى الله عليه وسلم-.
585;سول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پرجب عید کے دن منیٰ آئے توجمرات کی رمی کی، پھر اپنے ٹھکانے کی طرف گیے اور اپنے قربانی کے جانور کی نحر کی، اس کے بعد نائی کو بلایا اس نے آپ کے سر کے بال مونڈے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں جانب اشارہ کیا تو حلاق(نائی) نے دائیں جانب سے بال مونڈنا شروع کیا۔ پھرآپﷺ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنی دائیں جانب کے کٹے ہوئے تمام بال ان کو دے دیے۔ پھر باقی سر مونڈا گیا اور آپ نے ابو طلحہ کو بلایا اور وہ بھی ان کو دے دیے اور فرمایا کہ اس کو لوگوں میں تقسیم کر دو۔ انھوں نے وہ بال لوگوں میں تقسیم کر دیے کسی کو ایک بال ملا، کسی کو دو اور کسی کو اس سے زیادہ جو میسر ہوا ملا۔ اور یہ نبی ﷺ کے اس مبارک بال کے تبرک کی وجہ سے ہوا۔ اور یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے آثار کے ساتھ خاص اور جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3052

 
 
Hadith   129   الحديث
الأهمية: إن الدنيا حُلوة خَضِرَة، وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء


Tema:

بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «إن الدنيا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وإن الله مُسْتَخْلِفُكُمْ فيها فينظرَ كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
شبَّه النبي -صلى الله عليه وسلم- الدنيا بالفاكهة الحلوة الخضرة، للرغبة فيها والميل إليها، وأخبر أن الله جعلنا خلفاء يخلف بعضنا بعضا فيها؛ فإنها لم تصل إلى قوم إلا بعد آخرين، فينظر الله -تبارك وتعالى- كيف نعمل فيها هل نقوم بطاعته أم لا.
ثم أمرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نحذر فتنة الدنيا وأن لا نغتر بها ونترك أوامر الله -تعالى- واجتناب مناهيه فيها.
ولما كان للنساء النصيب الأوفر في هذا الافتتان، نبَّه -صلى الله عليه وسلم- إلى خطورة الافتتان بهن وإن كان داخلا في فتن الدنيا؛ وأخبر أن أول فتنة بني إسرائيل كانت بسبب النساء، وبسببهن هلك كثير من الفضلاء.
606;بی ﷺ نے دنیا کو شیریں اور سرسبز میوے سے تشبیہ دی اس لیے کہ (انسان میں) اس کی چاہت اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ اللہ نے ہمیں ایک دوسرے کا جانشین بنایا بایں طور کہ ہم ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ یہ کچھ لوگوں کے بعد دوسرے لوگوں کی ہاتھ میں آ جاتی ہے اور اس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ہم کیسے عمل کرتے ہیں، ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں؟۔
پھر نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم دنیا کے فتنے سے بچ کر رہیں اور اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرنا چھوڑ دیں۔ چونکہ دنیا کی فتنہ انگیزی میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ ہے اس لیے نبی ﷺ نے ان کے فتنے کا شکار ہونے کے خطرے سے متنبہ فرمایا اگرچہ یہ بھی دنیا ہی کے فتنے میں آتی ہیں۔ آپ ﷺ نے خبر دی کہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے صاحبِ فضیلت لوگ ہلاکت کا شکار ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3053

 
 
Hadith   130   الحديث
الأهمية: من حلف على يمين ثم رأى أتقى لله منها فليأت التقوى


Tema:

جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے۔

عن أبي طَرِيف عدي بن حاتم -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَن حَلَف على يَمِين ثم رأى أَتقَى لله مِنها فَلْيَأت التَّقوَى».

ابو طریف عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث: أنَّ من حلَف على ترك شيء، أو فعله فرأى مخالفة ذلك خيرًا من الاستمرار على اليمين وأتقى، ترك يمينه وفعل ما هو خير، على الاستحباب والندب، فإن كان المحلوف عليه مما يجب فعله أو تركه كأن حلف ليتركنّ الصلاة أو ليشربنّ المسكر، وجب عليه الحنث والإتيان بما هو التقوى من فعل المأمور به، وترك المنهيّ عنه.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جس نے کسی شے کو چھوڑنے یا کرنے کی قسم اٹھائی، پھر اسے لگا کہ اس کی مخالفت کرنا قسم کو پورا کرنے سے بہتر اور زیادہ تقوی والا ہے، تو ایسے شخص کا قسم کو توڑ کر اس سے زیادہ بہتر عمل کو کرنا مستحب اور مندوب ہے۔ اگر جس شے پر قسم اٹھائی گئی ہو ایسی ہو جس کا کرنا یا چھوڑنا واجب ہے جیسے کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ نماز کو چھوڑ دے گا یا پھر کسی نشہ آور شے کو پئے گا، تو اس صورت میں اس پر قسم توڑ کر اس فعل کو سر انجام دینا واجب ہے جو تقویٰ وپرہیزگاری کا کام ہے یعنی جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے بجا لانا اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے باز رہنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3054

 
 
Hadith   131   الحديث
الأهمية: الحياء لا يأتي إلا بخير


Tema:

حیا تو خیر ہی لاتی ہے۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «الحَيَاءُ لاَ يَأْتِي إِلاَّ بِخَيرٍ».
وفي رواية : «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» أو قال: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ».

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیا تو خیر ہی لاتی ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» یعنی حیا سراپا خیر ہے۔ یا پھر آپﷺ نے یہ فرمایا: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ» یعنی حیا سرتاپا خیر ہے۔

575;لحياء صفة في النفس تحمل الإنسان على فعل ما يجمل ويزين، وترك ما يدنس ويشين، فلذلك لا يأتي إلا بالخير، وسبب ورود الحديث أن رجلًا كان ينصح أخاه في الحياء، وينهاه عن الحياء، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا الكلام.
581;یا نفس کی ایک صفت ہے، جو انسان کو ایسے عمل پر ابھارتی ہے جو عمدگی اور زیبائش کا سبب ہو اور ایسے عمل کو ترک کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو گندگی اور عار کا سبب ہو۔ اس لیے حیا خیر ہی کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے بھائی کو حیا نہ کرنے کی نصیحت کر رہا تھا کہ نبی ﷺ نے اس سے یہ بات ارشاد فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3055

 
 
Hadith   132   الحديث
الأهمية: اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، اللهم أعوذ بعزتك لا إله إلا أنت أن تضلني، أنت الحي الذي لا يموت، والجن والإنس يموتون


Tema:

"اے اللہ! میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں ـــــــــــ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ـــــــــــ کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا (گمراہ کر) دے ۔تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «اللهم لك أَسْلَمْتُ، وبك آمنتُ، وعليك توكلتُ، وإليك أَنَبْتُ، وبك خَاصَمْتُ، اللهم أعوذ بِعِزَّتِكَ لا إله إلا أنت أن تُضِلَّنِي، أنت الحيُّ الذي لا يموتُ، والجِنُّ والإِنْسُ يموتون».

عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:«اللَّهُم لَكَ أسْلَمْتُ وبِكَ آمنْتُ، وعليكَ توَكَّلْتُ، وإلَيكَ أنَبْتُ، وبِكَ خاصَمْتُ. اللَّهمَّ أعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لا إلَه إلاَّ أنْتَ أنْ تُضِلَّنِي أنْت الْحيُّ الَّذي لاَ يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالإِنْسُ يمُوتُونَ»۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے ہی سامنے سر جھکایا، تجھ ہی پر ایمان لایا، میں نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا ۔ میں نے تیری ہی مدد کے ساتھ مقابلہ کیا۔ میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیسرے سوا کوئی دوسرا معبودِ برحق نہیں، یہ کہ تو مجھے گمراہ ہونے کے لیے چھوڑ دے، تو زندہ ہے، تجھے موت نہیں آئے گی جب کہ تمام جن و انس مر جائیں گے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يلتجئ النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ربه ويتقرب إليه في الدعاء، فيخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه إلى ربه انقاد، وأنه فوَّض أمره كله لله ولم يعتمد على غيره، وأنه قد رجع إليه مقبلا عليه بقلبه، وأنه بقوة الله ونصره وإعانته إياه حاجج أعداء الله بما آتاه من البراهين والحجج، ثم يستعيذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بغلبة الله ومنعته أن يهلكه بعدم التوفيق للرشاد والهداية والسداد، ويؤكد ذلك بقوله لا إله إلا أنت؛ فإنه لا يستعاذ إلا بالله، ثم يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن لربه الحياة الحقيقية التي لا يأتيها الموت بحال، وأما الإنس والجن فيموتون، وخصهما بالذكر؛ لأنهما المكلفان المقصودان بالتبليغ فكأنهما الأصل.
606;بی ﷺ دعا میں اپنے رب کی پناہ اور اس کے قرب میں آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ بیان فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کے مطیع وفرماں بردار ہیں اور آپ نے اپنے سارے امور اللہ کو سونپ دیے ہیں اور اس کے علاوہ آپ کو کسی پر بھروسہ نہیں ہے اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے دل و جان کے ساتھ اس کی طرف لوٹ آئے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں اور اللہ ہی کی دی گئی قوت، اس کی مدد و نصرت اور آپ ﷺ کو جو دلائل اور حجتیں دی گئی تھیں ان سے آپ ﷺ نے اس کے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔پھر نبی ﷺ اللہ کی غالبیت اور قوت کی پناہ لیتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ یہ نہ ہو کہ وہ ہدایت و راستگی کی توفیق نہ دے کر آپ ﷺ کو ہلاک کردے۔ ’’لا إله إلا أنت‘‘ کہہ کر آپ ﷺ اس کی مزید تاکید فرما رہے ہیں کہ پناہ صرف اللہ ہی سے طلب کی جاتی ہے۔ پھر نبی ﷺ بیان کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ کے رب کی زندگی حقیقی زندگی ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی جب کہ انسان اور جنات مر جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بطور خاص انہیں ذکر کیا کیونکہ وہی مکلف ہیں اور احکامِ دین کی تبلیغ بھی انہیں کو مقصود ہے۔ گویا کہ وہ اصل ہوئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3056

 
 
Hadith   133   الحديث
الأهمية: اللهم إني أسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم ِإنِّي أَسأَلُك الهُدَى، والتُّقَى، والعَفَاف، والغِنَى».

ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى“. یعنی اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- ربه العلمَ والتوفيق للحق، وأن يُوفِّقه إلى امتثال ما أمر به وترك ما نهى عنه، وأن يعفه عن كل ما حرَّم عليه فيما يتعلق بجميع المحارم التي حرَّمها -عز وجل-، وسأله كذلك الغنى عن الخلق، بحيث لا يفتقر إلى أحد سوى ربَّه -عز وجل-.
606;بی ﷺ نے اپنے رب سے علم اور حق کی توفیق مانگی اور یہ کہ اپنے احکام کو پورا کرنے اور نواہی سے بچنے کی توفیق دے اور یہ کہ اللہ ہر قسم کے حرام سے بچائے جن کا تعلق ان تمام حرام کاموں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے مخلوق سے استغناء و بے نیازی کا سوال کیا کہ اللہ عزّ وجلّ کے سوا کسی کا محتاج نہ بنانا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3057

 
 
Hadith   134   الحديث
الأهمية: أستودع الله دينك، وأمانتك، وخواتيم عملك


Tema:

میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، فَيقُول: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ».
وعن عبد الله بن يزيد الخطمي رضي الله عنه- قال: كَانَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَدِّعَ الجَيشَ، قال: «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم».

جب کوئی آدمی سفر کا ارادہ کرتا تو ابن عمر رضی الله عنہما اس سے کہتے، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کرتے تھے چنانچہ وہ کہتے تھے: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ» یعنی ”میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر کو رخصت فرماتے تو کہتے «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم» یعنی ”میں تمہارے دین، تمہاری امانت، اور تمہاری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، وهذا من ابن عمر بيان لكمال حرص الصحابة -رضي الله عنهم- على التزام هدي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وقوله: (إذا ودع رجلا) أي مسافرا، (أخذ بيده فلا يدعها): وهذا ما جاء في بعض الروايات، أي: فلا يترك يد ذلك الرجل من غاية التواضع ونهاية إظهار المحبة والرحمة.   ويقول -صلى الله عليه وسلم-: أي للمودع: "أستودع الله دينك" أي أستحفظ وأطلب منه حفظ دينك.   و"أمانتك" أي حفظ أمانتك، وهي شاملة لكل ما استحفظ عليه الإنسان من حقوق الناس وحقوق الله من التكاليف، ولا يخلو الرجل في سفره ذلك من الاشتغال بما يحتاج فيه إلى الأخذ والإعطاء والمعاشرة مع الناس، فدعا له بحفظ الأمانة والاجتناب عن الخيانة، ثم إذا انقلب إلى أهله يكون مأمون العاقبة عما يسوءه في الدين والدنيا.
وكان هذا من هديه أيضاً -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد توديع الجماعة الخارجة للقتال في سبيل الله  يودعهم بهذا الدعاء الجامع ليكون أدعى إلى إصابتهم التوفيق والسداد والتغلب على الأعداء والحفاظ على فرائض الله في الغزو.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہتے تھے جو سفر کرنا چاہتا، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر نبی مکرم ﷺ کی سنت کے اپنانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اور ان کا کہنا (إذا ودع رجلا) جب کسی آدمی کو رخصت کیا کرتے تھے یعنی مسافر کو۔ (أخذ بيده فلا يدعها) اس کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے، جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے یعنی نبی مکرم ﷺ انتہا درجے کی تواضع اور شفقت و محبت کا اظہار فرماتے ہوئے اس شخص کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے ، اور اُسے رخصت کرتے ہوئے کہتے’’أستودِعُ اللهَ دينكَ“یعنی میں اللہ سے تمہارے دین کی حفاظت طلب کرتا ہوں۔ ”وأمانتک‘‘یعنی تمہاری امانت کی حفاظت، یہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی حفاظت انسان سے مطلوب ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کے حقوق ہوں یا اللہ کے مکلف کردہ حقوق۔
چونکہ آدمی جب سفر میں ہوتا ہے تو لوگوں کے ساتھ ضروری لین دین اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں مشغول ہوتا ہے جس کی بناء پر اس کے لیے امانت داری کی ذمہ داری کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ خیانت سے بچنے کے لیے دعا فرمائی ہے، پھر جب وہ اپنے گھر لوٹے گا تو وہ ان تمام نتائج وعواقب سے محفوظ ہو گا جو اسے دین اور دنیا کے اعتبار سے ناپسند ہوتے۔
یہی نبی مکرم ﷺ کا طریقہ تھا کہ جب آپ کسی جماعت کو جنگ کے لیے رخصت فرماتے تھے تو اس جامع دعا کے ذریعہ رخصت کرتے تھے تاکہ وہ بھلائی اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں اور دشمنوں پر غالب رہیں اور میدان جنگ میں بھی اللہ کے فرائض کی حفاظت کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3058

 
 
Hadith   135   الحديث
الأهمية: ارجعوا إلى أهليكم، فأقيموا فيهم، وعلموهم ومروهم، وصلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلوا كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم


Tema:

تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

عن أبي سليمان مالك بن الحويرث -رضي الله عنه- قال: أَتَينَا رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- ونَحنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُون، فَأَقَمْنَا عِندَهُ عِشْرِينَ لَيلَةً، وَكَان رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- رَحِيمًا رَفِيقًا، فَظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَقْنَا أَهْلَنَا، فَسَألَنا عمَّنْ تَرَكْنا مِنْ أَهلِنا، فأَخبَرنَاه، فقال: «ارْجِعُوا إلى أَهْلِيكُم، فَأَقِيمُوا فيهم، وَعَلِّمُوهُم وَمُرُوهُم، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا في حِينِ كذَا، وصَلُّوا كَذَا في حِينِ كَذَا، فَإِذا حَضَرَتِ الصلاةُ فَلْيُؤذِّن لكم أَحَدُكُم وَلْيَؤُمَّكُم أكبركم».
زاد البخاري في رواية له: «وصَلُّوا كَمَا رَأَيتُمُونِي أُصَلِّي».

ابو سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیس راتیں رہے۔ آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ”اور نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال مالك -رضي الله عنه-: "أتينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن شببة متقاربون"، وهذا في عام الوفود في السنة التاسعة من الهجرة، وكانوا شبابا فأقاموا عند النبي -صلى الله عليه وسلم- عشرين ليلة.
جاءوا من أجل أن يتفقهوا في دين الله، قال مالك: "وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رحيما رفيقا فظن أنا قد اشتقنا أهلنا" يعني اشتقنا إليهم، "فسألنا عمن تركنا من أهلنا فأخبرناه فقال: ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وصلوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم" زاد البخاري "وصلوا كما رأيتموني أصلي".
فدل هذا أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان مشهورا بالرحمة والرفق، فكان أرحم الناس بالناس، وكان أرفق الناس بالناس -عليه الصلاة والسلام- رحيما رفيقا، فلما رأى أنهم اشتاقوا إلى أهلهم وسألهم من خلَّفوا وراءهم وأخبروه، أمرهم أن يرجعوا إلى أهليهم.   "وليؤمكم أكبركم" دليل على تقديم الكبير في الإمامة، وهذا لا ينافي قوله -عليه الصلاة والسلام-: "يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله"؛ لأن هؤلاء الشباب كلهم وفدوا في وقت واحد، والظاهر أنه ليس بينهم فرق بيِّن في قراءة القرآن، وأنهم متقاربون ليس بعضهم أقرأ من بعض؛ ولهذا قال: "وليؤمكم أكبركم" لأنهم متساوون في القراءة أو متقاربون، فإذا تساووا في القراءة والسنة والهجرة، فإنه يرجع إلى الأكبر سنا ويقدمونه.
وفي قوله -صلى الله عليه وسلم-: "صلوا كما رأيتموني أصلي" وهذا مؤكد لما كان عليه الهدي النبوي من تعليم الناس بالقول وبالفعل.
فعلَّم الذي صلَّى بغير طمأنينة بالقول قال: "إذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة، فكبر، ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن، ثم اركع" إلى آخره.   أما هؤلاء الشباب فعلمهم بالفعل.
605;الک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے“۔ یہ عام الوفود یعنی ہجرت کے نویں سال کا واقعہ ہے۔ یہ سب لوگ نوجوان تھے اور نبی ﷺ کے پاس انہوں نے بیس راتوں تک قیام کیا۔ یہ لوگ اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے آئے تھے۔ مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں“۔ یعنی ہمارا ان سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو۔ اورجب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ رحم دلی و نرمی میں مشہور تھے۔ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر رحم دل تھے اور سب سے زیادہ نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ آپ ﷺ رحیم بھی تھے اور شفیق بھی۔ آپ ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ ان لوگوں کو اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جائیں۔ ”اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے“۔ یہ امامت کے لیے بڑے کو مقدم کرنے کی دلیل ہے۔ یہ بات نبی ﷺ کے اس فرمان کے منافی نہیں ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ: لوگوں کو وہ شخص امامت کرائے جو سب سے زیادہ قرآن کا قاری ہو۔ کیونکہ یہ سب نوجوان ایک ہی وقت میں آئے تھے اور ظاہر ہے کہ قرأتِ قرآن کے لحاظ سے ان کے مابین کوئی واضح فرق نہیں تھا اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے کے قریب قریب ہی تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے زیادہ قرآن کا قاری نہیں تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے“۔ کیونکہ قرأت کے معاملے میں وہ سب برابر یا قریب قریب تھے۔ جب یہ لوگ قرأت، سنت اور ہجرت کے معاملے میں برابر ہو گئے تو پھر امامت کا حق بڑے کا ہو گا اور وہ اسے ہی مقدم کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نماز ویسے پڑھو جیسے تم میں نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے“۔ یہ اس نبوی طریقۂ کار کی تاکید ہے کہ آپ ﷺ قول و فعل دونوں کے ذریعے تعلیم دیا کرتے تھے۔ جس شخص نے سکون کے ساتھ نماز نہ پڑھی اسے آپ ﷺ نے یہ فرما کر تعلیم دی کہ ”جب نماز کے لیے تمہارا کھڑا ہونے کا ارادہ ہو تو اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوجاؤ اور پھر قرآن کا جو بھی حصہ چاہو اسے پڑھو اور پھر رکوع کرو...الخ“۔ جب کہ ان نوجوانوں کو آپ ﷺ نے فعل (عمل) کے ذریعے تعلیم دی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3059

 
 
Hadith   136   الحديث
الأهمية: ما رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مستجمعًا قط ضاحكًا حتى ترى منه لهواته، إنما كان يتبسم


Tema:

میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: مَا رَأَيتُ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى تُرَى مِنْهُ لَهَوَاتُهُ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّم.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں: ”میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عائشة -رضي الله عنها- يصور بعض جوانب الهدي النبوي في خُلُق الوقار والسكينة فقالت -رضي الله عنها-: "مَا رَأَيتُ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى تُرَى مِنْهُ لَهَوَاتُهُ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّم": تعني ليس يضحك ضحكًا فاحشًا بقهقهة، يفتح فمَه حتى تبدو لهاته، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- كان يبتسم أو يضحك حتى تبدو نواجذه، أو تبدو أنيابه، وهذا من وقار النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث وقار اور سنجیدگی سے متعلق سیرت نبوی کے بعض پہلووں کی تصویر کشی کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ”میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے“۔ یعنی آپ ﷺ اپنا منہ کھول کر اس طرح زور سے قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے کہ حلق کا کوا نظر آنے لگے؛ بلکہ آپ ﷺ مسکرایا کرتے تھے یا پھر اگر ہنستے تو اس قدر کہ( زیادہ سے زیادہ) آپ ﷺ کی داڑھیں یا کچلیاں ظاہر ہو جاتیں۔ یہ نبی ﷺ کے وقار اور متانت کا ایک مظہر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3060

 
 
Hadith   137   الحديث
الأهمية: بايعنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السمع والطاعة في العسر واليسر، والمنشط والمكره، وعلى أثرة علينا، وعلى أن لا ننازع الأمر أهله


Tema:

ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، چستی و سستی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: بَايَعْنَا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السَّمع والطَّاعَة في العُسْر واليُسْر، والمَنْشَطِ والمَكْرَه، وعلَى أَثَرَةٍ عَلَينا، وعلى أَن لاَ نُنَازِعَ الأَمْر أَهْلَه إِلاَّ أَن تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِندَكُم مِن الله تَعَالى فِيه بُرهَان، وعلى أن نقول بالحقِّ أينَما كُنَّا، لا نخافُ فِي الله لَوْمَةَ لاَئِمٍ.

عبادہ بن صامت رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، چستی وسستی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔ (آپ نے فرمایا:) سوائے اس کے کہ تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو، جس کے (کفر ہونے پر) تمھارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں! نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔

Esin Hadith Caption Urdu


(بايعنا) أي بايع الصحابة -رضي الله عنهم- الرسول -صلى الله عليه وسلم- على السمع والطاعة؛ لأن الله -تعالى- قال: (يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم)، وبعده -صلى الله عليه وسلم- أولو الأمر طائفتان: العلماء والأمراء، لكن العلماء أولياء أمر في العلم والبيان، وأما الأمراء فهم أولياء أمر في التنفيذ والسلطان.
يقول: بايعناه على السمع والطاعة، وقوله: "في العسر واليسر" يعني سواء كانت الرعية معسرة في المال أو كانت موسرة، يجب على جميع الرعية أغنياء كانوا أوفقراء أن يطيعوا ولاة أمورهم ويسمعوا لهم في المنشط والمكره، يعني سواء كانت الرعية كارهين لذلك لكونهم أمروا بما لا تهواه ولا تريده أنفسهم أو كانوا نشيطين في ذلك؛ لكونهم أُمِروا بما يلائمهم ويوافقهم.
"وأثرة علينا" أثرة يعني استئثارًا علينا، يعني لو كان ولاة الأمر يستأثرون على الرعية بالمال العام أو غيره، مما يرفهون به أنفسهم ويحرمون من ولاهم الله عليهم، فإنه يجب السمع والطاعة.
ثم قال: "وألا ننازع الأمر أهله" يعني لا ننازع ولاة الأمور ما ولاهم الله علينا، لنأخذ الإمرة منهم، فإن هذه المنازعة توجب شرًّا كثيرًا، وفِتَنًا عظيمةً وتفرقًا بين المسلمين، ولم يدمر الأمة الإسلامية إلا منازعة الأمر أهله، من عهد عثمان -رضي الله عنه- إلى يومنا هذا.
قال: " إلا أن تروا كفرًا بواحًا عندكم فيه من الله برهان" هذه أربعة شروط، فإذا رأينا هذا وتمت الشروط الأربعة فحينئذ ننازع الأمر أهله، ونحاول إزالتهم عن ولاية الأمر، والشروط هي:
الأول: أن تروا، فلابد من علم، أما مجرد الظن، فلا يجوز الخروج على الأئمة.
الثاني: أن نعلم كفرًا لا فسقًا، الفسوق، مهما فسق ولاة الأمور لا يجوز الخروج عليهم؛ لو شربوا الخمر، لو زنوا، لو ظلموا الناس، لا يجوز الخروج عليهم، لكن إذا رأينا كفرًا صريحًا يكون بواحًا.
الثالث: الكفر البواح: وهذا معناه الكفر الصريح، البواح الشيء البين الظاهر، فأما ما يحتمل التأويل فلا يجوز الخروج عليهم به، يعني لو قدرنا أنهم فعلوا شيئا نرى أنه كفر، لكن فيه احتمال أنه ليس بكفر، فإنه لا يجوز أن ننازعهم أو نخرج عليهم، ونولهم ما تولوا، لكن إذا كان بواحا صريحا، مثل: لو اعتقد إباحة الزنا وشرب الخمر.
الشرط الرابع: "عندكم فيه من الله برهان"، يعني عندنا دليل قاطع على أن هذا كفر، فإن كان الدليل ضعيفًا في ثبوته، أو ضعيفًا في دلالته، فإنه لا يجوز الخروج عليهم؛ لأن الخروج فيه شر كثير جدا ومفاسد عظيمة.
وإذا رأينا هذا مثلا فلا تجوز المنازعة حتى يكون لدينا قدرة على إزاحته، فإن لم يكن لدى الرعية  قدرة فلا تجوز المنازعة؛ لأنه ربما إذا نازعته الرعية وليس عندها قدرة يقضي على البقية الصالحة، وتتم سيطرته.
فهذه الشروط شروط للجواز أو للوجوب -وجوب الخروج على ولي الأمر- لكن بشرط أن تكون القدرة موجودة، فإن لم تكن القدرة موجودة، فلا يجوز الخروج؛ لأن هذا من إلقاء النفس في التهلكة؛ لأنه لا فائدة في الخروج

Esin Hadith Caption Urdu


”بَایَعْنا“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺکی اس بات پر بیعت کی کہ وہ (اولی الامر کی) سمع و طاعت کریں گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾ (النساء:59)(ترجمہ: اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی)۔ رسول اللہﷺکے بعد اولی الامر کے دو گروہ ہیں۔علماء اور حکمران۔علماء علم و (احكام شريعت كو)بیان كرنےکے ذمہ دار ہیں اور حکمران احکاماتِ شریعت کی تنفیذ اور عمل درآمدگی کے ذمہ دار ہیں۔
”فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ“(تنگی اور خوشحالی میں)یعنی چاہے رعیت مالی طور پر تنگی کا شکار ہو یا خوشحال ہو۔تمام رعایا پر چاہے وہ مالی طور پر امیر ہوں یا غریب یہ واجب ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔
”وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ“ یعنی چاہے رعایا بادل نا خواستہ ان کی اطاعت کرے بایں طور کہ انہیں کسی ایسی بات کا حکم دے دیا جائے جو ان کے لئے ناگوار و ناپسند ہو یا پھر خوشدلی سے ان کی فرمانبرداری کرے بایں طور کہ جس حکم کو بجا لانے کا انہیں کہا جائے وہ ان کے مزاج سے مناسبت اور موافقت رکھتا ہو۔
” وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا“ (خود کو ہم پر ترجیح دیں) اگر حکمران رعیت کو محروم رکھتے ہوئے عوامی دولت وغیرہ پر تن تنہا قابض ہو کر بیٹھ جائیں اور اس کی بدولت خود تو خوشحال ہوتے جائیں اور جن لوگوں پر اللہ نے انہیں حکمران بنایا تھا انہیں اس سے محروم رکھیں تو اس صورت میں بھی ان کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔
”وَأَلا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ“ یعنی حکمرانوں سے ہم اس اقتدار میں جھگڑا نہ کریں جو اللہ نے انہیں ہم پر بخشا ہے بایں طور کہ ہم ان سے اقتدار چھیننے کے درپے ہو جائیں کیونکہ اس قسم کا جھگڑا شدید قسم کی شرانگیزی اور فتنوں کا باعث بنتا ہے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پیدا کرتا ہے۔عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر آج تک امت مسلمہ کو حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے معاملہ میں اسی کشاکشی نے ہی تو تباہ کیا ہے۔
”إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ“ یہ چار شرائط ہیں۔جب ہم یہ دیکھ لیں اور یہ چاروں شرائط پوری ہو جائیں تو اس وقت ہم حکمرانوں سے لڑیں گے اور انہیں حکومت سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔وہ چارشرائط یہ ہیں:
پہلی شرط: ” أَنْ تَرَوْا“ (تم دیکھ لو) چنانچہ یقینی علم کا ہونا ضروری ہے۔محض گمان کی بنا پر حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں۔
دوسری: ہمیں ان کی طرف سے کفر کے ارتکاب کا علم ہو نہ کہ فسق کا۔کیونکہ حکمران چاہے جتنے بھی فاسق ہو جائیں،ان کے فسق کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ شراب نوشی کریں، زنا کریں اور لوگوں پر ظلم و ستم ڈھائیں،بہرحال ان باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔تاہم جب ہمیں ان کی طرف سے صریح کفر کے ارتکاب کا علم ہو تو یہ’کفر بواح‘ہو گا۔
تیسری: کفر بواح:اس کا معنی ہے:صریح کفر۔’بواح‘سے مرادوہ شے ہے جو واضح اورظاہر ہو۔تا ہم اگر بات ایسی ہو جس میں تاویل کا احتمال ہو تو اس کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گا۔یعنی اگر ہمیں لگے کہ انہوں نے کسی ایسی شے کا ارتکاب کیا ہے جو ہمارے نزدیک کفر ہے تاہم احتمال ہو کہ ہو سکتا ہے وہ کفر نہ ہو تو اس صورت میں ہمارا ان سے لڑنا اور ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گااور جب تک وہ حکمران رہیں گے ہم انہیں حکمران تسلیم کرتے رہیں گے۔تا ہم اگر کفر بالکل صریح اور کھلا ہو مثلا حکمران رعیت کے لئے زنا اور شراب نوشی کو جائز قرار دے دے۔
چوتھی شرط:”عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ“ یعنی ہمارے پاس اس بات کے کفر ہونے کی قطعی دلیل ہو۔ اگر دلیل کے ثبوت میں ضعف ہو یا پھر معنی کے اعتبار سے وہ ضعیف ہو تو اس صورت میں بھی ان کے خلاف خروج کرناجائز نہیں ہو گا۔کیونکہ خروج میں بہت زیادہ شر اور مفاسد ہیں۔
اگر ہمیں کسی ایسی بات کا علم ہو (جس میں یہ چاروں شرائط پائی جائیں)تو اس صورت میں بھی صرف تب ہی حکمران سے لڑنا جائز ہو گا جب ہم میں اسے ہٹا دینے کی طاقت ہو۔اگر رعایا میں یہ قدرت نہ ہو تو پھر لڑنا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قدرت نہ رکھتے ہوئے اگر رعایا حکمران سے لڑائی مول لے تو اس سے بچی کچی بھلائی بھی جاتی رہے اور اس کا پوری طرح سے تسلط قائم ہو جائے۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ شرائط یا تو خروج کے جواز کی شرائط ہیں یا اس کے وجوب کی بشرطیکہ اس کی قدرت پائی جائے۔اگر قدرت نہ ہو تو اس صورت میں خروج کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور ایسے حالات میں خروج سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3061

 
 
Hadith   138   الحديث
الأهمية: صليت مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد الجمعة، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے، دور کعت ظہر کے بعد، دو رکعت جمعہ کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد پڑھیں۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- قال: «صَلَّيتُ معَ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- رَكعَتَين قَبل الظُّهر، وَرَكعَتَين بَعدَها، ورَكعَتَين بعد الجُمُعَةِ، ورَكعَتَينِ بَعدَ المَغرِب، وَرَكعَتَينِ بَعدَ العِشَاء».
وفي لفظ: «فأمَّا المغربُ والعشاءُ والجُمُعَةُ: ففي بَيتِه».
وفي لفظ: أنَّ ابنَ عُمَر قال: حدَّثَتنِي حَفصَة: أنَّ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-: «كان يُصَلِّي سَجدَتَين خَفِيفَتَينِ بَعدَمَا يَطلُعُ الفَجر، وكانت سَاعَة لاَ أَدخُلُ على النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم- فِيهَا».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے، دورکعت ظہر کے بعد، دو رکعت جمعے کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد پڑھی۔
اور ایک روایت میں ہے: مغرب، عشا اور جمعے کی سنت اپنے گھر میں ادا فرماتے تھے۔
اورایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ فجر طلوع ہونے کے بعد دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا تھا کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں جاتی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان للسنن الراتبة للصلوات الخمس، وذلك أن لصلاة الظهر أربع ركعات، ركعتين قبلها، وركعتين بعدها، وأن لصلاة الجمعة ركعتين بعدها، وأن للمغرب ركعتين بعدها، وأن لصلاة العشاء ركعتين بعدها وأن راتبتي صلاتي الليل، المغرب والعشاء، وراتبة الفجر والجمعة كان يصليها الرسول -صلى الله عليه وسلم- في بيته.
وكان لابن عمر -رضي الله عنهما- اتصال ببيت النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لمكان أخته "حفصة" من النبي -صلى الله عليه وسلم-، فكان يدخل عليه وقت عباداته، ولكنه يتأدَّب فلا يدخل في بعض الساعات، التي لا يُدخل على النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها، امتثالا لقوله -تعالى-: "يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاه الفجر" الآية، فكان لا يدخل عليه في الساعة التي قبل صلاة الفجر، ليرى كيف كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلي، ولكن -من حرصه على العلم- كان يسأل أخته "حفصة" عن ذلك، فتخبره أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلى سجدتين خفيفتين بعدما يطلع الفجر، وهما سنة صلاة الصبح.
575;س حدیث میں پانچوں نمازوں کی سنن مؤکدہ کا بیان ہے۔ ان کی تفصیل اس طرح ہیں: ظہر کی سنت مؤکدہ چار رکعت ہے؛ دو رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، جمعے کی سنت جمعے کے بعد دو رکعت ہے، مغرب کے بعد دو رکعت اور عشا کے بعد دور رکعت۔ رات کی نمازوں کی سنتوں یعنی مغرب اور عشا، اسی طرح فجر اور جمعے کی سنتوں کو نبیﷺ اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حفصہ رضی اللہ عنھا چوں کہ آپ کے نکاح میں تھیں، اس لیے ان آپ کے گھر میں آنا جانا تھا۔ وہ عبادت کے اوقات میں آپ کے گھر میں آ جاتے، لیکن ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اللہ تعالی کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے، ان اوقات میں داخل نہیں ہوتے، جن میں داخل ہونے سے احتراز کرنا چاہیے: "يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاه الفجر"الآية چوں کہ وہ نماز فجر سے پہلے آپ کے گھر نہیں آتے تھے کہ دیکھ سکیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے نماز پڑھتے ہیں، اس لیے علم کی حرص کی وجہ سے اپنی بہن حفصہ رضی اللہ عنھا سے اس بارے میں پوچھ لیا کرتے، تو وہ بتاتیں کہ نبی کریم ﷺ طلوع فجر کے بعد دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے۔ یہ فجر کی دوسنتیں تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3062

 
 
Hadith   139   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) بیدار ہوتے، تو اپنے منہ کو مسواک سے خوب صاف فرماتے۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَام من اللَّيل يُشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاك».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) بیدار ہوتے، تو اپنے منہ کو مسواک سے خوب صاف فرماتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من محبة النبي -صلى الله عليه وسلم- للنظافة وكراهته للرائحة الكريهة أنه كان إذا قام من نوم الليل الطويل الذي هو مظنة تغير رائحة الفم دلك أسنانه -صلى الله عليه وسلم- بالسواك، ليقطع الرائحة، ولينشط بعد مغالبة النوم على القيام؛ لأنَّ من خصائص السواك أيضا التنبيه والتنشيط.
606;بی ﷺ کا صفائی کو پسند اور ناگوار بو کو ناپسند کرنے کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ جب رات کی لمبی نیند، جس سے عموما منہ کی بو تبدیل ہو جانے کا امکان ہوتا ہے، سے بیدار ہوتے، تو اپنے دانتوں کو مسواک کے ساتھ رگڑتے؛ تا کہ اس سے بو جاتی رہے اور نیند پر غلبہ پا لینے کے بعد قیام اللیل کے لیے چاق و چوبند ہو جائیں؛ کیوںکہ مسواک کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ یہ چاق و چوبند اور چست کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3063

 
 
Hadith   140   الحديث
الأهمية: شكي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- الرجل يخيَّل إليه أنه يجد الشيء في الصلاة، فقال: لا ينصرف حتى يسمع صوتًا، أو يجد ريحًا


Tema:

نبی ﷺ سے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی، جسے یہ خیال گزرتا تھا کہ نماز میں اس کی ہوا نکل رہی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ (اپنی نماز سے) نہ پلٹے، جب تک آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرے۔

عن عبد الله بن زيد بن عاصم المازني -رضي الله عنه- قال: (شُكِيَ إلى النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- الرَّجلُ يُخَيَّلُ إِليه أنَّه يَجِد الشَّيء في الصَّلاة، فقال: لا ينصرف حتَّى يَسمعَ صَوتًا، أو يَجِد رِيحًا).

عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی ﷺ سے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی، جسے یہ خیال گزرتا تھا کہ نماز میں اس کی ہوا نکل رہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ (اپنی نماز سے) نہ پلٹے، جب تک آواز نہ سن لے یا اسے بو محسوس نہ کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث- كما ذكر النووي -رحمه الله- من قواعد الإسلام العامة وأصوله التي تبنى عليها الأحكام الكثيرة الجليلة، وهي أن الأصل بقاء الأشياء المتيقنة على حكمها، فلا يعدل عنها لمجرد الشكوك والظنون، سواء قويت الشكوك، أو ضعفت، مادامت لم تصل إلى درجة اليقين أو غلبة الظن، وأمثلة ذلك كثيرة لا تخفى، ومنها هذا الحديث، فما دام الإنسان متيقنا للطهارة، ثم شك في الحدث فالأصل بقاء طهارته، وبالعكس فمن تيقن الحدث، وشك في الطهارة فالأصل بقاء الحدث، ومن هذا الثياب والأمكنة، فالأصل فيها الطهارة، إلا بيقين نجاستها، ومن ذلك عدد الركعات في الصلاة، فمن تيقن أنه صلى ثلاثًا مثلًا، وشك في الرابعة، فالأصل عدمها، وعليه أن يصلي ركعة رابعة، ومن ذلك من شك في طلاق زوجته فالأصل بقاء النكاح، وهكذا من المسائل الكثيرة التي لا تخفى.
740;ہ حدیث جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، اسلام کے عمومی قواعد اور اصولوں میں سے ایک ہے، جن پر بہت سے اہم ترین احکامات کی بنیاد کھڑی ہے۔ اصول یہ ہےکہ یقینی چیزیں اپنے حکم پر باقی رہیں کی، محض شک اور گمان کی بنا پر انھیں اس سے الگ نہیں کیا جاۓ گا؛ شک چاہے قوی ہو یا کمزور، جب تک یہ شک یقین یا ظن غالب کے درجے تک نہ پہنچ جائے۔ اس کی بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال خود اس حدیث میں موجود ہے کہ جب انسان کو اپنی طہارت کا یقین ہو، پھر طہارت زائل ہونے کا شک ہونے لگے، تو اصولی طور پر یہی سمجھا جائے گا کہ اس کی طہارت باقی ہے۔ اس کے برعکس جسے عدم طہارت کا یقین ہو، اور طہارت ہونے کا شک ہو، اس کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ حالت حدث میں ہے۔ کپڑے اور مقامات بھی اسی اصول کے تحت آتے ہیں کہ ان میں بھی طہارت ہی اصل ہوگی، ماسوا اس کے کہ نجاست کا یقین ہوجائے۔ اسی کی ایک مثال نماز میں رکعتوں کی تعداد ہے۔ جسے یہ یقین ہو کہ اس نے مثلا تین رکعتیں ادا کی ہیں اور چوتھی کا شک ہو، تو اصولا چوتھی کو معدوم سمجھا جائے گا اور اس شخص پر لازم ہو گا کہ وہ چوتھی رکعت پڑھے۔ اسی طرح ایک مثال طلاق کی ہے۔ جسے یہ شک ہو کہ اس نے اپنے بیوی کو طلاق دی ہے یا نہیں؟ تو اصولا اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے مسائل میں بھی یہ اصول کار فرما ہوتا ہے، جو مخفی نہیں ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3064

 
 
Hadith   141   الحديث
الأهمية: أمرني رسول الله  -صلى الله عليه وسلم- أن أقوم على بدنه، وأن أتصدق بلحمها وجلودها وأجلتها، وأن لا أعطي الجزار منها شيئًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرا نی کروں اور ان کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو صدقہ کروں، نیز ان میں سے قصاب کو بہ طور اجرت کچھ بھی نہ دوں۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: «أَمَرَنِي رَسُول اللَّهِ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أَن أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَن أَتَصَدَّقَ بِلَحمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا، وَأَن لا أُعْطِيَ الجَزَّارَ مِنهَا شَيْئًا».

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرا نی کروں اور ان کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو صدقہ کروں، نیز ان میں سے قصاب کو بہ طور اجرت کچھ بھی نہ دوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قَدِمَ النبي -صلى الله عليه وسلم- مكة في حجة الوداع ومعه هديه وقدم علي بن أبى طالب -رضي الله عنه- من اليمن، ومعه هدي، وبما أنها صدقة للفقراء والمساكين، فليس لمهديها حق التصرف بها، أو بشيء منها على طريقة المعاوضة، فقد نهاه أن يعطي جازرها منها، معاوضة له على عمله، وإنما أعطاه أجرته من غير لحمها وجلودها وأجلتها.
606;بی کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ کی طرف چلے۔ قربانی کے جانور ساتھ تھے۔ (اسی موقعے پر) علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے آئے۔ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے۔ چوں کہ یہ فقرا اور مساکین کے لیے صدقہ تھے، اس لیے قربانی کرنے والے کو اس میں تصرف کرنے یا اس میں سے کچھ بطور معاوضہ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے انھیں ذبح کرنے والے کو بطور معاوضہ اس میں سے کچھ دینے سے منع فرمایا۔ بلکہ بطور اجرت گوشت، کھال اورجھول کے علاوہ کوئی دوسری چیز دی جائے گی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3065

 
 
Hadith   142   الحديث
الأهمية: إذا أُقِيمت الصلاة وحضر العَشاء فابدأوا بالعَشاء


Tema:

جب نماز کھڑی ہو جائے اور رات کا کھانا بھی سامنے آ جائے، تو رات کے کھانے سے پہل کرو۔

عن عائشة وعبد الله بن عمر وأنس بن مالك -رضي الله عنهم- مرفوعاً: «إِذَا أُقِيمَت الصَّلاَة، وحَضَرَ العَشَاء، فَابْدَءُوا بِالعَشَاء».

عائشہ رضی اللہ عنہا، عبد اللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی ہو جائے اور رات کا کھانا بھی سامنے آ جائے، تو رات کے کھانے سے پہل کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا أقيمت الصلاة، والطعام أو الشراب حاضر، فينبغي البداءة بالأكل والشرب حتى تنكسر نهمة المصلي، ولا يتعلق ذهنه به، ويقبل على الصلاة، وشرط ذلك عدم ضيق وقت الصلاة، ووجود الحاجة والتعلق بالطعام، وهذا يؤكد كمال الشريعة ومراعاتها لحقوق النفس مع اليسر والسماحة.
580;ب نماز کھڑی ہوجائے اورکھانے پینے کی اشیا سامنے موجود ہوں، تو مناسب یہ ہے کہ کھانے پینے سے پہل کی جائے؛ تاکہ نمازی کی بھوک ختم ہوجائے اور اس کا ذہن دوران نماز کھانے کی طرف نہ لگا رہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ نمازکا وقت تنگ نہ ہو اور کھانے کی ضرورت اوراس کی چاہت بھی ہو۔ اس میں اس بات کی تاکید ہے کہ یہ شریعت کامل ہے اورآسانی وکشادگی کے ساتھ انسانی جان کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3066

 
 
Hadith   143   الحديث
الأهمية: نزلت آية المتعة -يعني متعة الحج- وأمرنا بها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم لم تنزل آية تنسخ آية متعة الحج، ولم ينه عنها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى مات


Tema:

تمتع کی آیت نازل ہوئی یعنی حج تمتع کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر حج تمتع کی منسوخی پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع فرمایا۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- قال: «أُنْزِلَت آيَةُ المُتْعَةِ في كتاب اللَّه -تعالى-، فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-، وَلَم يَنْزِلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهَا، وَلَم يَنْهَ عَنهَا حَتَّى مات، قال رجل بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ»، قال البخاري: «يقال إنه عمر».
وفي رواية: « نَزَلَت آيَةُ المُتْعَةِ -يَعْنِي مُتْعَةَ الحَجِّ- وَأَمَرَنا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-، ثُمَّ لَم تَنْزِل آيَةٌ تَنْسَخُ آيَةَ مُتْعَةِ الْحَجِّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى مَاتَ». ولهما بمعناه.

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کتاب اللہ میں حج تمتع کے بارے میں آیت نازل ہوئی ۔ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا اور قرآن میں اس کی حرمت اور ممانعت کی کوئی دلیل نازل نہ ہوئی یہاں تک کہ آپﷺ فوت ہو گیے۔ صرف ایک صاحب ہیں جو اپنی رائے علیحده رکھتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ صاحب عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔
اور دوسری روایت میں ہے:تمتع کی آیت نازل ہوئی یعنی حج تمتع کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر کوئی ایسی آیت بھی نازل نہیں ہوئی جوحجِ تمتع کے حکم کو منسوخ کرتی۔ اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع کیا تھا۔ (بخاری ومسلم میں اس معنی کی حدیث موجود ہے)

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر عمران بن حصين -رضي الله عنهما- المتعة بالعمرة إلى الحج، فقال: إنها شرعت بكتاب الله وسنة رسوله -صلى الله عليه وسلم-، فأما الكتاب، فقوله -تعالى-: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}. وأما السنة: ففعل النبي -صلى الله عليه وسلم- لها، وإقراره عليها، ولم ينزل قرآن يحرمها، ولم ينه عنها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وتوفي النبي -صلى الله عليه وسلم-، وهي باقية لم تنسخ بعد هذا، فكيف يقول رجل برأيه وينهى عنها؟ يشير بذلك إلى نهي عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- عنها في أشهر الحج؛ اجتهادا منه ليكثر زوار البيت في جميع العام؛ لأنهم إذا جاءوا بها مع الحج، لم يعودوا إليه في غير موسم الحج، وليس نهي عمر -رضي الله عنه- للتحريم أو لترك العمل بالكتاب والسنة، وإنما هو منع مؤقت للمصلحة العامة.
593;مران بن حصین رضی اللہ عنہ عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع) کرنے کےبارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول میں مشروع قرار دیا گیا ہے۔ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}.’’جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے۔‘‘ جب کہ سنت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حج تمتع کیا،اس کو برقرار رکھا ،قرآن میں اس کی حرمت پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ دنیا سے چلےگیے اور یہ حکم باقی رہا اس کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ تو پھر ایک آدمی اپنی رائے سے (ممانعت کی بات) کیسے کہہ سکتا اور اس سے (کیسے) روک سکتا ہے۔؟ اس سے ان کا اشارہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف تھا جنھوں نے ایامِ حج میں اپنی اجتہاد سے اس سے منع کر دیا تھا تاکہ پورے سال زائرینِ بیت اللہ کثرت سے آتے رہیں، اس لیے کہ ان ایام میں جس تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں موسم حج کے علاوہ اس طرح نہیں آتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منع کرنا بطورِ تحریم یا کتاب و سنت پرعمل کو ترک کرتے ہوئے نہیں تھا بلکہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے ہوئے عارضی طور پر منع کردیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3067

 
 
Hadith   144   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث بعثا إلى بني لحيان من هذيل، فقال: لينبعث من كل رجلين أحدهما، والأجر بينهما


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے مقابلہ پر جہاد (کے لئے ) ایک لشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد میں جانے کے لیے نکلے جب کہ جہاد کا ثواب دونوں کے مابین تقسیم ہوگا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بَعَث بَعْثاً إلى بني لحيان من هُذَيل، فقال: «لِيَنْبَعِث مِن كُلِّ رَجُلَين أَحَدُهُما، والأَجْرُ بَينهُما».

ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے مقابلہ پر جہاد (کے لیے) ایک لشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو حکم دیا کہ ”ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد میں جانے کے لیے نکلے جب کہ جہاد کا ثواب دونوں کے مابین تقسیم ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه-، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أراد أن يبعث جيشاً إلى بني لحيان، وهم من أشهر بطون هذيل.
واتفق العلماء على أن بني لحيان كانوا في ذلك الوقت كفاراً، فبعث إليهم بعثاً يغزوهم، (فقال) لذلك الجيش: (لينبعث من كل رجلين أحدهما)، مراده من كل قبيلة نصف عددها، (والأجر) أي: مجموع الأجر الحاصل للغازي والخالف له بخير (بينهما)، فهو بمعنى قوله في الحديث قبله: «ومن خلف غازياً فقد غزا»، وفي حديث مسلم: «أيكم خلف الخارج في أهله وماله بخير كان له مثل نصف أجر الخارج»، بمعنى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمرهم أن يخرج منهم واحد، ويبقى واحد يخلف الغازي في أهله، فيقوم على شؤونهم واحتياجاتهم، ويكون له نصف أجره؛ لأنَّ النصف الثاني للغازي.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی طرف لشکر بھیجنے کا ارادہ فرمایا جو قبیلہ ہذیل کا ایک مشہور قبیلہ ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنو لحیان اس وقت کافر تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے جنگ کے لیے ان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اس لشکر والوں سے کہا "ہر دو آدمیوں میں سے ایک لشکر کے ساتھ جانے کے لیے اٹھے۔" آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ ہر قبیلے سے آدھے مرد لشکر کے ساتھ جائیں۔
(والأجر): یعنی مجموعی اجر لڑنے والے اور اچھے انداز میں اس کی جانشینی کرنے والے دونوں کا ہو گا۔
(بينهما) : یہ آپ ﷺ کے اس قول کی طرح ہے جو سابقہ حدیث میں گزرا ہے کہ ”وَمَنْ خَلَفَ غَازيًا فَقَدْ غزَا“۔ جس نے لڑنے والے مجاہد (کے امور میں اس) کی جانشینی کی وہ گویا بذاتِ خود لڑائی میں شریک ہوا۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے «أَيُّكُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ بِخَيْرٍ، كَانَ لَهُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ» یعنی جس نے بھی جہاد پر نکلنے والے کے اہل عیال اور مال میں اچھے انداز میں اس کی جانشینی کی اس کے لیے جہاد پر جانے والے کے اجر کا نصف ہے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ ان میں ایک شخص لشکر کے ساتھ جائے اور ایک مجاہد کے گھر والوں کے لیےاس کا جانشین بن جائے بایں طور کہ ان کے معاملات کو نپٹائے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اس صورت میں اس کے لیے اس مجاہد کا نصف اجر ہو گا کیونکہ باقی آدھا خود مجاہد کو ملے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3068

 
 
Hadith   145   الحديث
الأهمية: فعن معادن العرب تسألوني؟ خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا


Tema:

تو کیا پھر تم مجھ سے عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ (تو سنو!) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قِيلَ: يا رسُول الله، مَن أَكرم النَّاس، قال: اتقاهم، فقالوا: لَيس عن هذا نَسأُلُك، قال: «فَيُوسُفُ نَبِيُّ الله ابنُ نَبِيِّ الله ابنِ نَبِيِّ الله ابنِ خَلِيلِ اللهِ» قالوا: لَيس عَن هذا نَسأَلُك، قال: «فعَن مَعَادِن العَرَب تسأَلُوني؟ خِيَارُهُم في الجاهِليَّة خِيَارُهُم في الإِسلام إذا فَقُهُوا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اس کے بارے ہم آپ سے نہیں پوچھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر (سب سے زیادہ معزز) یوسف علیہ السلام ہیں جو خود بھی اللہ کے پیغمبر ہیں، اور باپ بھی اللہ کے پیغمبر، اور دادا بھی اللہ کے پیغمبر اور پردادا بھی اللہ کے پیغمبر اور اس کے خلیل ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق (بھی) آپ سے نہیں پوچھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو کیا پھر تم مجھ سے عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ (تو سنو!) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنَّ أكرم الناس من حيث النسب والمعادن والأصول، هم الخيار في الجاهلية، لكن بشرط إذا فقهوا، فمثلا بنو هاشم من المعروف هم خيار قريش في الإسلام، لكن بشرط أن يفقهوا في دين الله، وأن يتعلموا أحكامه، فإن لم يحصل لهم الفقه في الدين، فإنَّ شَرَف النَّسب لا يشفع لصاحبه، وإن عَلاَ نسبه وكان من خيار العرب نسبا ومعدِنا، فإنَّه ليس مِن أكرم الخلق عند الله، وليس مِن خيار الخلق، وعليه فالإنسان يشرف بنسبه، لكن بشرط الفقه في الدين.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ حسب و نسب اور خاندانی اعتبار سے سب سے معزز و شریف لوگ وہ ہیں جو جاہلیت میں بہتر تھے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں۔ مثلا مشہور ہے کہ اسلام میں بنو ہاشم قریش میں سے سب سے بہتر خاندان ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کر لیں اور اس کے احکامات کو سیکھ لیں۔ اگر دین کی سمجھ انہیں حاصل نہ ہوئی تو نسبی شرافت انسان کو کچھ فائدہ نہ دے گی اگرچہ اس کا نسب کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اور وہ نسب و خاندان کے اعتبار سے عرب میں سے بہترین ہو۔ اللہ کے نزدیک وہ لوگوں میں سب سے معزز نہیں ہے، اور بہترین لوگوں میں سے نہیں ہے۔ اس بنا پر معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے نسب کی وجہ سے بزرگی ملتی ہے بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3069

 
 
Hadith   146   الحديث
الأهمية: يعمد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد، فلعله يضاجعها من آخر يومه


Tema:

تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے، حالانکہ (یہ نہیں سوچتا کہ) شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر بھی ہو۔

عن عبد الله بن زمعة -رضي الله عنه- أنّه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب، وذكر الناقة والذي عقرها، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذِ انبَعَثَ أشقاها: انْبَعَثَ لَهَا رجل عزِيز، عَارِم منيع في رَهطِه»، ثم ذكر النساء، فوعظ فيهنَّ، فقال: «يَعمِد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد، فلعلَّه يُضَاجِعُهَا من آخر يومه» ثمَّ وعظهم فِي ضَحِكِهم من الضَّرطَة، وقال: «لم يضحك أحدكم ممَّا يفعل؟!».

عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن دوران خطبہ (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی اور اس کی کوچیں کاٹنے والے کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت {إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ} تلاوت کی (اور فرمایا:) "اس کام کے لیے ایک سخت دل، طاقت ور، قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا"۔ پھرآپ نےعورتوں کے متعلق نصیحت فرمائی۔ فرمایا: ”آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے، جب کہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ وہ دن کے آخری حصے میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی“۔ پھر ہوا خارج ہوجانےکی وجہ سے ہنسنے پر نصیحت کی۔ فرمایا: ”تم میں سے کوئی اس کام پر کیوں ہنستا ہے، جو وہ خود بھی کرتاہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان -صلى الله عليه وسلم- يخطب، وسمعه عبد الله بن زمعة، ومن جملة ما خطب أنه سمع النبي ذكر الناقة التي كانت معجزة لنبي الله صالح -على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام-، وكان من جملة ما ذكره أيضا الذي عقرها، يقال له قُدَار بن سالف والذي كان أشقى القوم، وجاء من أوصافه: أنه قليل المثل، شديد الإفساد، ذو منعة في قومه.
 ثم قال -عليه الصلاة والسلام- في خطبته: "يعمد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد" وهو في العادة ضرب شديد، وفي سياق الحديث استبعاد وقوع الأمرين من العاقل، أن يُبَالِغَ في ضرب امرأته ثم يجامعها من بقية يومه أو ليلته؛ والمجامعة أو المضاجعة إنما تستحسن مع الميل والرغبة في العشرة، والمجلود غالباً ينفر ممن جلده، فوقعت الإشارة إلى ذَمِّ ذلك، وأنه إذا كان ولا بد فليكن التأديب بالضرب اليسير بحيث لا يحصل معه النفور التام، فلا يفرط في الضرب ولا يفرط في التأديب.
ثم (وعظهم) أي: حذَّرهم في (ضحكهم من الضرطة)؛ وذلك لأنه خلاف المروءة، ولما فيه من هتك الحُرمة، وقال في تقبيح ذلك: (لِم يضحك أحدكم مما يفعل؟)؛ وذلك لأنَّ الضحك إنما يكون من الأمر العجيب والشأن الغريب، يبدو أثره على البشرة فيكون التبسم، فإن قوي وحصل معه الصوت كان الضحك، فإن ارتقى على ذلك كانت القهقهة، وإذا كان هذا الأمر معتاداً من كل إنسان فما وجه الضحك من وقوع ذلك ممن وقع منه؟.
606;بیﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جسے عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ نے سنا، آپﷺ نے جو خطبہ دیا اس میں انھوں نے آپﷺ کو اس اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے سنا جو حضرت صالح-على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام- کو بطور معجزہ دی گئی تھی۔ آپﷺ نے دوران خطبہ اس بدبخت شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں۔ اس کا نام قُدار بن سالف تھا جو کہ قوم کا سب سے بدبخت شخص تھا۔ اس بدبخت کے من جملہ اوصاف میں اس کا بھی ذکر آیا ہے کہ اس کے جیسا کوئی دوسرا بدبخت نہیں تھا، فسادی اور اپنی قوم میں اثر ورسوخ رکھنے والا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا: تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہ، جو کہ عام طور پر ضربِ شدید (سخت مار) ہوا کرتی ہے۔ حدیث کا سیاق ایک عقل مند کی طرف سے دو امور کے صدور کو بعید تر قرار دیا گیا ہے؛ اپنی بیوی کی سخت پٹائی بھی کرے اور اسی دن یا اسی رات مجامعت بھی کرے۔ کیوں کہ جماع اور بیوی سے ہمبستری یہ اس وقت ہی اچھا لگتا ہے، جب رہن سہن میں ایک دوسرے کے ساتھ رغبت اور باہمی میلان ہو، جب کہ پٹائی سے دوچار ہونے والا شخص عام طور پر پٹائی کرنے والے سے متنفر رہتا ہے۔ اس طرح یہاں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک مذموم کام ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو جائے، تو پھر ہلکی مار ماری جائے کہ باہمی نفرت کی فضا نہ پیدا ہو۔ مارنے اور ادب سکھانے میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ پھر آپﷺ نے ان کو نصیحت کی یعنی انہیں خبردار کیا۔ ہوا خارج ہوجانے پر ہنسنے سے۔ کیوں کہ یہ خلاف مروت ہے اور اس میں ہتک عزت بھی ہے۔ اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسے عمل پر کیوں ہنستا ہے، جسے وہ خود بھی کرتاہے؟۔ کیوں کہ ہنسی تو کسی عجیب وغریب بات پر آتی ہے! اگر صرف ہنسی کے آثار ظاہر ہوں، تو اسے تبسم کہا جاتاہے، اگر اس میں تھوڑی سے زیادتی ہو جائے اور ساتھ میں آواز پیدا ہو جائے، تو اس کو (ضحک) ہنسی کہا جاتا ہے اور اگر آواز بلند ہو جائے تو اسے قہقہہ کہا جاتا ہے۔ جب ریح کا خروج فطری طور پر ہر انسان سے ہوتاہے، تو اس پر ہنسنے کی کیا بات ہے؟   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3070

 
 
Hadith   147   الحديث
الأهمية: لا يفرك مؤمن مؤمنة إن كره منها خلقا رضي منها آخر.
أو قال: غيره


Tema:

کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی۔ یا پھر آپ ﷺ نے 'آخر' کے بجائے غیرہ (دوسری عادت) فرمایا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لاَ يَفْرَك مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَة إِنْ كَرِه مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَر»، أو قال: «غَيرُه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی‘‘۔ یا پھر آپ ﷺ نے ''آخر'' کے بجائے "غیرہ" (دوسری عادت) فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لا يفرك مؤمن مؤمنة، إن كره منها خلقًا رضي منها خلقًا آخر" معناه: لا يبغضها لأخلاقها، إن كره منها خلقا رضي منه خلقا آخر.
الفرك: يعني البغضاء والعداوة، يعني لا يعادي المؤمن المؤمنة كزوجته مثلا، لا يعاديها ويبغضها إذا رأى منها ما يكرهه من الأخلاق، وذلك لأن الإنسان يجب عليه القيام بالعدل، وأن يراعي المعامل له بما تقتضيه حاله، والعدل أن يوازن بين السيئات والحسنات، وينظر أيهما أكثر وأيهما أعظم وقعا، فيغلب ما كان أكثر وما كان أشد تأثيرا؛ هذا هو العدل.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی کسی عادت کی وجہ سے اس سے نفرت نہ کرے۔ اگر اسے اس کی کوئی اخلاقی صفت (عادت) ناپسند ہے تو ضرور کوئی اورصفت پسند بھی ہو گی۔
”الفرك“ کا معنی ہے: نفرت اور دشمنی۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت مثلاً اپنی بیوی میں اگر کوئی ایسی عادت دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو وہ اس سے عداوت اور نفرت نہ رکھے، کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل سے کام لے اور جس شخص سے اس کا سامنا ہے اس کی حالت کی رعایت کرے۔ اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ برائیوں اور اچھائیوں کا موازنہ کرے اور دیکھے کہ برائیوں اور اچھائیوں میں سے کون سی زیادہ ہیں اور کن کا اثر بڑھ کر ہے، اور پھر ان میں سے جو زیادہ ہوں اورجن کا اثر بڑھ کر ہو ان کو فوقیت دے، یہی عدل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3071

 
 
Hadith   148   الحديث
الأهمية: سألت ابن عباس عن المتعة ؟ فأمرني بها، وسألته عن الهدي؟ فقال: فيه جزور، أو بقرة، أو شاة، أو شرك في دم، قال: وكان ناس كرهوها


Tema:

میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ:تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے) یا کسی (اونٹ یا گائے وغیرہ کی) قربانی میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔

عن أبي جَمرة -نصر بن عمران الضُّبَعي- قال: «سألت ابن عباس عن المُتْعَةِ؟ فأمرني بها، وسألته عن الهَدْيِ؟ فقال: فيه جَزُورُ، أو بقرةٌ، أو شَاةٌ، أو شِرْكٌ في دم، قال: وكان ناس كرهوها، فنمت، فرأيت في المنام: كأن إنسانا ينادي: حَجٌّ مَبْرُورٌ، ومُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ. فأتيت ابن عباس فحدثته، فقال: الله أكبر! سُنَّةُ أبي القاسم -صلى الله عليه وسلم-».

ابوجمرہ نصر بن عمران الضبعی بیان کرتے ہیں کہ میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا؟ آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے ) یا کسی (اونٹ، یا گائے کی) قربانی میں شریک ہو جائے۔ ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ حجِ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے:یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : ”اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم ﷺ کی سنت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو جمرة ابن عباس -رضي الله عنهما- عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فأمره بها، ثم سأله عن الهدي المقرون معها في الآية في قوله -تعالى- {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}، فأخبره أنه جزور، وهي أفضله، ثم بقرة، ثم شاة، أو سُبع البدنة أو البقرة، أي: أن يشترك مع من اشتركوا فيهما للهدي أو الأضحية، حتى يبلغ عددهم سبعة.   فكأن أحدا عارض أبا حمزة في تمتعه، فرأى هاتفا يناديه في المنام "حج مبرور، ومتعه متقبلة" فأتى ابن عباس -رضي الله عنهما-؛ ليبشره بهذه الرؤيا الجميلة، ولما كانت الرؤيا الصالحة جزءا من أجزاء النبوة، فرح ابن عباس  -رضي الله عنهما- بها واستبشر أن وفقه الله -تعالى- للصواب، فقال: الله أكبر، هي سنة أبى القاسم -صلى الله عليه وسلم-.
575;بو جمرہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع کرنے) کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ پھر ان سے قربانی کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں حکم موجو د ہے: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي} ’’پس جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے‘‘۔تو انھوں نے بتایا کہ اونٹ کی قربانی سب سے افضل ہے پھر اس کے بعد گائے، پھر بکری یا پھر اونٹ یا گائے میں سات افراد کی شراکت۔یعنی سات افراد ایک قربانی یا ہدی میں شریک ہوجائیں۔
ان میں سے ایک شخص کو ابو حمزہ کے تمتع پر اعتراض تھا۔ انھوں نے خواب میں ایک منادی لگانے والے کو دیکھا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا "حج مبرور، ومتعۃ متقبلة" (حج مبرور ،تمتع قبول) تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تاکہ ان کو یہ خوبصورت خواب بتائیں کیوں کہ اچھا خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما خوش ہو گیے اور یہ خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں درست کام کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ”اللہ اکبر ! یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3072

 
 
Hadith   149   الحديث
الأهمية: لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليَومَ، فجَاءَ أَبُو بَكر -رضِيَ الله عنْهُ- فَدَفَعَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ ذَهَبتُ، فَقُلْتُ: يَا رسُولَ الله، هَذَا أبُو بكرٍ يَسْتَأذِنُ، فقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ


Tema:

میں آج رسول اللہ ﷺ کے دربان کی ذمہ داری سر انجام دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے دروازے کو دھکیلا، تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر!۔ میں نے کہا: ذراٹھہریے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أَنَّهُ تَوَضَّأ في بيتِهِ، ثُمَّ خَرَج، فقَال: لَأَلْزَمَنَّ رسُول الله -صلَّى الله علَيه وسلَّم- ولَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَومِي هَذَا، فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَألَ عَنِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَقَالُوا وَجَّهَ هَاهُنَا، قال: فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسأَلُ عنْهُ، حتَّى دخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، فَجَلَستُ عِندَ البَابِ حتَّى قَضَى رسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأ، فَقُمتُ إِلَيهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ وَدلَّاهُمَا فِي البِئرِ، فَسَلَّمتُ علَيه ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَجَلَسْتُ عِند البَابِ، فقُلتُ: لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليَومَ، فجَاءَ أَبُو بَكر -رضِيَ الله عنْهُ- فَدَفَعَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ ذَهَبتُ، فَقُلْتُ: يَا رسُولَ الله، هَذَا أبُو بكرٍ يَسْتَأذِنُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَأَقْبَلْتُ حتَّى قُلتُ لَأَبِي بَكْرٍ: ادْخُلْ وَرَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ أَبُو بَكرٍ حَتَّى جَلَسَ عَن يَمِينِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- مَعَهُ فِي القُفِّ، ودَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَجَلَسْتُ، وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ - يُريِدُ أَخَاهُ - خَيرًا يَأتِ بِهِ، فَإِذَا إِنسَانٌ يُحَرِّكُ البَّابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُمَرُ بن الخَطَّابِ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَسَلَّمْتُ عَلَيهِ وقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ؟ فَقَال: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَجِئْتُ عُمَرَ، فَقُلتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي القُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلتُ: إِن يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ خَيرًا -يعنِي أَخَاهُ- يَأتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنسَانٌ فَحَرَّكَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُثمَانُ بنُ عَفَّان، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، وَجِئتُ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَأَخبَرتُهُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرهُ بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُهُ» فَجِئتُ، فقُلتُ: ادْخُل وَيُبَشِّرُكَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُكَ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ القُفَّ قَدْ مُلِئَ، فَجَلَسَ وِجَاهَهُم مِنَ الشِقِّ الآخَرِ.   قال سعيد بنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُم.   وزاد في رواية: وَأَمَرَنِي رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِحفظِ البابِ، وفيها: أنَّ عُثمَانَ حِينَ بَشَّرَهُ حَمِدَ الله -تَعَالَى-، ثُمَّ قَالَ: اللهُ الْمُسْتَعَانُ.

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گھر میں وضو کیا اور جب باہر آئے، تو ارادہ کیا کہ آج دن بھر رسول اللہ ﷺکا ساتھ نہ چھوڑوں گا اور آپ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی ﷺ کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ آپ ﷺ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ ابوموسی اشعری کہتے ہیں: میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا، حتی کہ (میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بئر اریس میں داخل ہوگئے ہیں۔ میں دروازے پر بیٹھ گیا۔ جب آپ ﷺ قضاے حاجت کر چکے اور آپ ﷺ نے وضو بھی کر لیا، تو میں آپﷺ کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئر اریس کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں کھول رکھی ہیں اور انھیں کنویں میں لٹکایا ہوا ہے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ ﷺ کے دربان کی ذمہ داری سر انجام دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے دروازے کو دھکیلا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر!۔ میں نے کہا: ذراٹھہریے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر نبی ﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں ویسے ہی کنویں میں لٹکالیے، جس طرح رسول اللہ لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا۔ میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ جو میرےپیچھے ہی آ رہا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ کاش اللہ فلاں( یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کر لے اور اسے یہاں تک لے آئے۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون ہیں؟ جواب ملا کہ عمر بن خطاب۔میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب دروازے پر کھڑے ہیں اوراندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی ہے اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ چنانچہ وہ اندر آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔ میں پھر دروازے پر آ بیٹھا اور دل میں سوچا کہ کاش اللہ فلاں (یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کرلے تو اسے یہاں لے آئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا: تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ اس آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آئے گی۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہےاور ساتھ ہی ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتایا ہے، جو آپ پر آئے گی۔ وہ جب داخل ہوئے، تو دیکھا منڈیر پر جگہ نہیں ہے، اس لیے وہ دوسری جانب ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ وہ اسی طرح بنیں گی)۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ: "اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے دروازے کی نگہبانی پر مامور فرمایا"۔ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ: "جب انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بشارت دی، تو انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا: اللہ ہی وہ ذات ہے، جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في حديث أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أنَّه في يوم من الأيام توضَّأ في بيته وخرج يطلب النبي -صلى الله عليه وسلم- ويقول: لألزمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومي هذا، أي: أكون معه ذاهبا وآتيا.   فخرج -رضي الله عنه- يطلب النبي -صلى الله عليه وسلم- فأتى المسجد؛ لأنَّ الرسول عليه الصلاة والسلام إمَّا في المسجد وإمَّا في بيته في مِهنة أهله، وإمَّا في مصالح أصحابه -عليه الصلاة والسلام-، فلم يجده في المسجد فسأل عنه فقالوا: وجَّه هاهنا، وأشاروا إلى ناحية أريس وهي بئر حول قباء، فخرج أبو موسى في إثره حتى وصل إلى البئر، فوجد النبي -صلى الله عليه وسلم- هنالك فلزم باب البستان الذي فيه البئر -رضي الله عنه-.   فقضى النبي -صلى الله عليه وسلم- حاجته وتوضأ ثم جلس -عليه الصلاة والسلام- متوسطا للقف أي حافة البئر، ودلَّى رجليه، وكشف عن ساقيه، وكان أبو موسى على الباب يحفظ باب البئر كالحارس لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فاستأذن أبو بكر -رضي الله عنه-، لكن لم يأذن له أبو موسى حتى يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: هذا أبو بكر يستأذن، فقال: "ائذن له وبشِّره بالجنة"، فأذن له وقال له: يبشرك رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالجنة.
وهذه بشارة عظيمة، يبشره بالجنة ثم يأذن له أن يدخل ليكون مع الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
فدخل ووجد النبي -صلى الله عليه وسلم- متوسطا القف فجلس عن يمينه؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيامن في كل شيء، فجلس أبو بكر عن يمينه وفعل مثل فعل النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ دلَّى رجليه في البئر، وكشف عن ساقيه كراهة أن يخالف النبي -صلى الله عليه وسلم-، في هذه الجلسة.
فقال أبو موسى -وكان قد ترك أخاه يتوضأ ويلحقه- إن يرد الله به خيرا يأت به، وإذا جاء واستأذن فقد حصل له أن يبشر بالجنة، ولكن استأذن الرجل الثاني، فجاء أبو موسى إلى الرسول -عليه الصلاة والسلام- وقال هذا عمر قال: "ائذن له وبشره بالجنة"، فأذن له وقال له: يبشرك رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالجنة.
فدخل فوجد النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر على القف، فجلس عن يسار الرسول -عليه الصلاة والسلام- والبئر ضيقة، ليست واسعة فهؤلاء الثلاثة كانوا في جانب واحد.
ثم استأذن عثمان وصنع أبو موسى مثل ما صنع من الاستئذان فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "ائذن له وبشره بالجنة مع بلوى تصيبه"، فأذن له وقال: يبشرك الرسول -صلى الله عليه وسلم- بالجنة مع بلوى تصيبك، فاجتمع في حقه نعمة وبلوى، فقال -رضي الله عنه-: الحمد لله، الله المستعان، على هذه البلوى، والحمد لله على هذه البشرى، فدخل فوجد القف قد امتلأ؛ لأنَّه ليس واسعا كثيرا فذهب إلى الناحية الأخرى تجاههم، وجلس فيها ودلى رجليه وكشف عن ساقيه.
أوَّلها سعيد بن المسيب -أحد كبار التابعين- على أنها قبور هؤلاء؛ لأن قبور الثلاثة كانت في مكان واحد، فالنبي -صلى الله عليه وسلم- أبو بكر وعمر كلهم كانوا في حجرة واحدة، دُفِنُوا جميعا في مكان واحد، وكانوا في الدنيا يذهبون جميعا ويرجعون جميعا، ودائما يقول النبي -صلى الله عليه وسلم-: ذهبت أنا وأبو بكر وعمر، وجئت أنا وأبو بكر وعمر، فهما صاحباه ووزيراه، ويوم القيامة يخرجون من قبورهم جميعا، فهم جميعا في الدنيا والآخرة.
فجلس عثمان -رضي الله عنه- تجاههم، وبشَّره -صلى الله عليه وسلم- بالجنَّة مع بلوى تصيبه، وهذه البلوى هي ما حصل له -رضي الله عنه- من اختلاف الناس عليه وخروجهم عليه، وقتلهم إِيَّاه في بيته -رضي الله عنه-، حيث دخلوا عليه في بيته في المدينة وقتلوه وهو يقرأ القرآن، وكتاب الله بين يديه.
575;بو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا بیان ہےکہ ایک دن انھوں نے گھر میں وضو کیا اور نبی ﷺ کی تلاش میں نکل پڑے۔ انھوں نے دل میں سوچا کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ یعنی آپ ﷺ جہاں بھی آئیں جائیں گے، میں آپ ﷺ کے ساتھ ہی رہوں گا۔
چنانچہ وہ نبی ﷺ کی تلاش میں نکلے اور مسجد آ پہنچے، کیوںکہ آپ ﷺ یا تو مسجد میں ہوتے یا اپنے گھر میں اہل خانہ کا کام کاج کر رہے ہوتے یا پھر اپنے صحابہ کے کاموں میں مصروف ہوتے۔ جب مسجد میں انھیں آپ ﷺ نہ ملے، تو انھوں نے آپ ﷺ کے بارےمیں دریافت کیا۔ لوگوں نے "اریس "کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ اس جانب تشریف لے گئے ہیں۔ یہ قبا کے گرد ونواح میں واقع ایک کنواں ہے۔ چنانچہ ابو موسی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے کنویں تک پہنچ گئے۔ انھیں وہاں نبی ﷺ مل گئے اور وہ اس باغ کے دروازے پربیٹھ گئے، جس میں کنواں واقع تھا۔ رضی اللہ عنہ۔
نبی ﷺ نے قضاے حاجت کے بعد وضو فرمایا اور پھر کنویں کی منڈیر یعنی کنویں کے کنارے کے درمیان میں بیٹھ گئے اور پنڈلیوں کو کھول کر اپنے پاؤں اس میں لٹکالیے۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ کنویں کے دروازے پر رسول اللہ ﷺ کے پہرے دار کے طور پر موجود تھے۔ ایسے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، لیکن ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں تب تک اجازت نہیں دی، جب تک انھوں نے نبی ﷺ کو نہ بتا دیا کہ ابوبکر اجازت طلب کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں آنے کی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی "۔ چنانچہ انھوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی اور ساتھ ہی انہھیں بتایا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے انھیں بشارت بھی دی اور اندر آنے کی اجازت بھی، تا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو جائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور دیکھا کہ نبی ﷺ منڈیر کے درمیان میں تشریف فرما ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور انھوں نے ویسا ہی کیا، جیسا آپ ﷺ نے کر رکھا تھا کہ اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں؛ کیوںکہ انھيں یہ گوارا نہ تھا کہ بیٹھنے کی اس ہیئت میں وہ نبی ﷺ کی مخالفت کریں۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ جب (آپ ﷺ کی تلاش میں) نکلے تھے، تو ان کا بھائی وضو کر رہا تھا اور اسے ان کے پیچھے ہی آنا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر اللہ ان کے بھائی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہوئے اسے بھی یہاں تک لے آئے، تو بہت اچھا ہوگا۔ تاکہ آنے پر وہ بھی اجازت طلب کرے اور اسے بھی جنت کی بشارت مل جائے۔ لیکن (ان کی بجائے) کسی اور شخص نے اجازت چاہی۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بتایا کہ عمر رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں اجازت دے دو اور ساتھ ہی انھیں جنت کی بشارت بھی سنا دو"۔ چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں داخلےکی اجازت دے دی اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔
عمر رضی اللہ عنہ اندار داخل ہوئے اور دیکھا کہ نبی ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ منڈیر پر بیٹھے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ کنواں تنگ تھا اور اتنا کھلا نہیں تھا۔ یہ تینوں ایک طرف تشریف فرما تھے۔
اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلے اجازت مانگے جانے پر کیاتھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”انھیں اجازت دے دو، انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آنے والی ہے“۔ چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں اجازت دے دی اور بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں اور ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا رہے ہیں، جو آپ پر آنے والی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیےنعمت اور آزمائش دونوں اکٹھی تھیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”الحمدللہ، اس آزمائش پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے اور اس بشارت پر میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں“۔ جب اندر داخل ہوئے، تو دیکھا کہ منڈیر بھری ہوئی ہے، کیوںکہ وہ زیادہ کشادہ نہیں تھی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے دوسری طرف چلے گئے اور اس پر بیٹھ کر اپنے پاؤں لٹکا لیے اور پنڈلیوں کو کھول لیا۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں، اس سے یہ تاویل لیتے ہیں کہ ان کی قبریں اس طرح سے ہوں گی؛ کیوںکہ ان تینوں کی قبریں ایک ہی جگہ پر تھیں۔ نبی ﷺ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب ایک حجرے میں تھے اور سب ایک ہی جگہ دفن ہوئے۔ دنیا میں یہ لوگ (جہا ں بھی آتے جاتے) اکٹھے آتے جاتے۔ نبی ﷺ ہمیشہ کہا کرتے تھے: ”میں، ابو بکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر آئے“۔ یہ دونوں آپ ﷺ کے ساتھی اور وزیر تھے اور روزِ قیامت اپنی قبروں سے بھی یہ اکٹھے ہی اٹھیں گے۔ چنانچہ یہ دنیا اور آخرت میں ایک ساتھ رہیں گے۔
عثمان رضی اللہ عنہ ان کے سامنے بیٹھ گے۔ نبی ﷺ نے انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ انھیں پیش آنے والی ایک آزمائش کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ یہ آزمائش وہی تھی، جس میں لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اختلاف کے شکار ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےاور آپ کے گھر میں آپ کو شہید کر دیا۔ لوگ مدینے میں واقع ان کے گھر میں گھس آئے۔ قرآن کریم عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا اور وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے۔ اسی حالت میں ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3073

 
 
Hadith   150   الحديث
الأهمية: المرء مع من أحب


Tema:

آدمی اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: « المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ».
وفي رواية: قِيلَ لِلنبي -صلى الله عليه وسلم-: الرَّجُلُ يُحِبُّ القَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَق بهم؟ قال: « المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ».
 عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، كَيفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أحَبَّ قَومًا ولم يَلحَق بِهم؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا۔(اس کا کیا ہو گا؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا ہے“۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ: یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإنسان في الآخرة مع من أحبهم في الدنيا.
الحديث فيه الحث على قوة محبَّة الرسل والصالحين، واتباعهم بحسب مراتبهم، والتحذير من محبة ضِدِّهم، فإنَّ المحبَّة دليل على قُوَّة اتصال المحب بمن يحبه، ومناسبته لأخلاقه، واقتدائه به، فهي دليل على وجود ذلك، وهي أيضا باعثة على ذلك، وأيضا من أحب الله تعالى، فإن نفس محبته من أعظم ما يُقرِّبه إلى الله، فإن الله -تعالى- شكور، يعطي المتقرب أعظم من ما بذل بأضعاف مضاعفة.
وكون المحِّب مع من أحب لا يستلزم مساواته له في منزلته وعلوّ مرتبته؛ لأن ذلك متفاوت بتفاوت الأعمال الصالحة والمتَاجِر الرابحة، ذلك أنَّ المعية تحصل بمجرد الاجتماع في شيء ما، ولا تلزم في جميع الأشياء، فإذا اتفق أنَّ الجميع دخلوا الجنَّة صدقت المعية وإن تفاوتت الدرجات، فمن أحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أو أحداً من المؤمنين كان معه في الجنة بحسن النية لأنها الأصل، والعمل تابع لها ولا يلزم من كونه معهم كونه في منزلتهم، ولا أن يُجزَى مثل جزائهم من كل وجه.
575;نسان آخرت میں انہی لوگوں کے ساتھ ہو گا جن سے وہ دنیا میں محبت کرتا ہے۔
مذکورہ حدیث میں انبیاء ورسل اور نیک لوگوں سے بہت زیادہ محبت رکھنے اور حسب مراتب ان کی اتباع کرنے کی ترغیب ہے اور ان کے مخالفین سے محبت کرنے سے ڈرایا گیا ہے۔ اس لیے کہ محبت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب سے کس قدر تعلق رکھتا ہے، کس قدر اس کے اخلاق محبوب کے اخلاق سے مناسبت رکھتے ہیں اور کس حد تک وہ اس کی اقتدا کرتا ہے؟ چنانچہ محبت ان سب باتوں کے وجود کی دلیل ہے اوران پر آمادہ بھی کرتی ہے۔ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے، اس کی یہ محبت ہی وہ سب سے بڑی چیز ہے، جو اسے اللہ تعالی سے قریب کرتی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان ہے۔ وہ نیکی کرنے والے کو اس کی کاوش سے کہیں بڑھ کر بدلہ دیتاہے۔
واضح رہے کہ محبت کرنے والے کا اس شخص کے ساتھ ہونا، جس سے وہ محبت کرتا ہے، اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ دونوں مقام ومرتبہ میں بھی برابر ہوں۔ کیوںکہ مراتب تو نیک اعمال اور نفع بخش تجارتوں کے تفاوت کے لحاظ سے مختلف ہوں گے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ معیت تو کسی بھی چیز پر مجتمع ہونے کی وجہ سے حاصل ہو جاتی ہے، ضروری نہیں کہ اجتماع تمام چیزوں میں ہو۔ چنانچہ جب سب جنت میں چلے جائیں گے، تو اس سے معیت ثابت ہو جائے گی؛ اگرچہ درجات مختلف ہوں گے۔ جس نے رسول اللہ ﷺ سے یا پھر مومنین میں سے کسی سے محبت کی، وہ جنت میں اس کے ساتھ ہو گا؛ بشرطے کہ نیت اچھی رہی ہو؛ کیوں کہ نیت ہی اصل ہے اور عمل اس کے تابع ہے۔ البتہ اس کا ان کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا مقام ومرتبہ بھی وہی ہو، جو ان کا ہے اور نہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ اسے ہر اعتبار سے وہی انعامات ملے، جو ان کو ملے ہیں۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3074

 
 
Hadith   151   الحديث
الأهمية: كنت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فبال، وتوضأ، ومسح على خفيه


Tema:

میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرکے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: «كنتُ مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فبَالَ, وتوَضَّأ, ومَسَح على خُفَّيه».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرکے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر حذيفة بن اليمان -رضي الله عنه- أنه كان مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وذلك في المدينة، فأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يقضي حاجته، فأتى زبالة قوم خلف حائط، فبال وتوضأ ومسح على خفيه، وكان وضوؤه بعد الاستجمار، أو الاستنجاء، كما هي عادته -صلى الله عليه وسلم-.
581;ذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ یہ مدینہ شریف کی بات ہے۔ آپ ﷺ نے قضائے حاجت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ دیوار کے پیچھے لوگوں کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کے بعد وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ آپ ﷺ نے پتھر استعمال کر کے یا استنجا کرنے کے بعد وضو کیا تھا، جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3075

 
 
Hadith   152   الحديث
الأهمية: كنت جنبا فكرهت أن أجالسك على غير طهارة، فقال: سبحان الله، إن المؤمن لاينجس


Tema:

میں جنابت کی حالت میں تھا چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ میں آپ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-:"أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- لَقِيَه في بَعض طُرُقِ المدينَة وهو جُنُبٌ، قال: فَانْخَنَسْتُ مِنه، فذهبت فَاغْتَسَلْتُ ثم جِئْتُ، فقال: أين كنت يا أبا هريرة؟ قال: كُنتُ جُنُبًا فَكَرِهتُ أن أُجَالِسَك على غيرِ طَهَارَة، فقال: سبحان الله، إِنَّ المُؤمِنَ لا يَنجُس".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ مدینہ کے کسی راستے پر ان کی نبی ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چپکے سے لوٹ گیا اور غسل کر کے واپس آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں جنابت کی حالت میں تھا چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ میں آپ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لقي أبو هريرة النبي -صلى الله عليه وسلم- في بعض طرق المدينة، وصادف أنه جنب فكان من تعظيمه للنبي -صلى الله عليه وسلم- وتكريمه إياه، أن كره مجالسته ومحادثته وهو على تلك الحال.
فانسل في خفية من النبي -صلى الله عليه وسلم- واغتسل، ثم جاء إليه.
فسأله النبي -صلى الله عليه وسلم- أين ذهب -رضي الله عنه- فأخبره بحاله، وأنه كره مجالسته على غير طهارة.
فتعجب النبي -صلى الله عليه وسلم- من حال أبي هريرة -رضي الله عنه- حين ظن نجاسة الجنب، وذهب ليغتسل وأخبره: أن المؤمن لا ينجس على أية حال.
605;دینہ کے ایک راستے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے وہ اس وقت جنبی تھے۔ نبی ﷺ کی تعظیم وتکریم کے تقاضے کے تحت انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ اس حالت میں آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھیں اور آپ سے گفتگو کریں۔ چنانچہ وہ چپکے سے نبیﷺ کے ہاں سے نکل گئے اور غسل کر کے واپس آئے۔ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں چلے گئے تھے؟ انہوں نے آپ ﷺ کو ساری بات بتا دی کہ انہیں اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھیں۔
آپﷺ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر تعجب کا اظہار کیا کہ وہ جنبی کو نجس خیال کر رہے تھے چنانچہ اس وجہ سے غسل کرنے چلے گئے۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ:مومن کسی بھی حال میں نجس نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3076

 
 
Hadith   153   الحديث
الأهمية: إذا أتيتم الغائط، فلا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول، ولا تستدبروها، ولكن شرقوا أو غربوا


Tema:

جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ، تو پیشاب پاخانہ کرتے وقت نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پشت۔ بلکہ یا تو مشرق کی طرف منہ کیا کرو یا مغرب کی طرف۔

عن أبي أيوب الانصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "إذا أَتَيتُم الغَائِط, فَلاَ تَستَقبِلُوا القِبلَة بِغَائِط ولا بَول, ولا تَسْتَدْبِرُوهَا, ولكن شَرِّقُوا أو غَرِّبُوا".   قال أبو أيوب: «فَقَدِمنَا الشَّام, فَوَجَدنَا مَرَاحِيض قد بُنِيَت نَحوَ الكَّعبَة, فَنَنحَرِف عَنها, ونَستَغفِر الله عز وجل» .

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ، تو پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پشت۔ بلکہ یا تو مشرق کی طرف منہ کیا کرو یا مغرب کی طرف“۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم شام میں آئے، تو ہم نے دیکھا کہ بیت الخلا کعبہ رخ بنائے گئے تھے۔ چنانچہ ہم (جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو) کعبہ کی سمت سے ہٹ کر بیٹھتے اور اللہ عز و جل سے استغفار کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي صلى الله عليه وسلم إلى شيء من آداب قضاء الحاجة بأن لا يستقبلوا القبلة، وهى الكعبة المشرفة، ولا يستدبروها حال قضاء الحاجة؛ لأنها قبلة الصلاة، وموضع التكريم والتقديس، وعليهم أن ينحرفوا عنها قِبَلَ المشرق أو المغرب إذا كان التشريق أو التغريب ليس موجَّها إليها، كقبلة أهل المدينة.
ولما كان الصحابة رضي الله عنهم أسرع الناس قبولا لأمر النبي صلى الله عليه وسلم ، الذي هو الحق، ذكر أبو أيوب رضي الله عنه أنهم لما قدموا الشام إثر الفتح وجدوا فيها المراحيض المعدة لقضاء الحاجة، قد بنيت متجهة إلى الكعبة، فكانوا ينحرفون عن القبلة، ويستغفرون تورعا واحتياطا.
606;بی ﷺ قضائے حاجت کے کچھ آداب سکھلا رہے ہیں کہ لوگ قضائے حاجت کرتے ہوئے قبلے کی طرف جو کہ کعبہ مکرمہ ہے نہ تو منہ کریں اور نہ ہی اس کی طرف پشت کریں کیونکہ یہ نماز کا قبلہ ہے اور مکرم و مقدس جگہ ہے اوران کے لئے ضروری ہے کہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف مڑجائیں جب کہ مشرق و مغرب کعبہ کی سمت میں نہ ہوں جیسا کہ اہل مدینہ کا قبلہ ہے۔ چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے حکم کی فورا تعمیل کرتے تھے جو کہ حق ہے اس لئے ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لوگ شام کی فتح کے بعد وہاں آئے تو انہیں وہاں قضائے حاجت کے لئے تیار کئے گئے بیت الخلاء ملے جو اس طرح تیار کئے گئے تھے کہ ان کا رخ کعبہ کی طرف تھا۔ چنانچہ وہ قبلہ کی سمت سے مڑ جاتے اور ازراہ تقویٰ واحتیاط استغفار کرتے رہتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3078

 
 
Hadith   154   الحديث
الأهمية: لا يمسكن أحدكم ذكره بيمينه وهو يبول ولا يتمسح من الخلاء بيمينه ولا يتنفس في الإناء


Tema:

تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضوِ مخصوص کو نہ پکڑے، اور نہ قضائے حاجت کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور نہ (پانی پیتے وقت) برتن میں سانس لے۔

عن أبي قتادة الأنصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُم ذَكَره بَيمِينِه وهو يبول، ولا يَتَمَسَّحْ من الخلاء بيمينه، ولا يَتَنَفَّس في الإناء".

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضوِ مخصوص کو نہ پکڑے، اور نہ قضائے حاجت کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور نہ (پانی پیتے وقت) برتن میں سانس لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- المسلمَ أن لا يمس ذكره حال بوله، ولا يزيل النجاسة من القبل أو الدبر بيمينه، وينهى كذلك عن التنفس في الإناء الذي يشرب منه لما في ذلك من الأضرار الكثيرة.
606;بی ﷺ حکم دے رہے ہیں کہ کوئی مسلمان اپنے عضوِ مخصوص کو پیشاب کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ ہی نجاست کو آگے اور پیچھے کی شرم گاہ سے اپنے دائیں ہاتھ سے دور کرے۔ اسی طرح آپ ﷺ اس برتن میں سانس لینے سے منع فرما رہے ہیں جس سے انسان پانی پی رہا ہو کیونکہ اس میں بہت سے نقصانات ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3079

 
 
Hadith   155   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الخذف، وقال: إنه لا يقتل الصيد، ولا ينكأ العدو، وإنه يفقأ العين، ويكسر السن


Tema:

رسول الله ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا کہ یہ نہ تو شکار کو مار سکتی ہے، نہ دشمن کو زخمی کرسکتی ہے؛ بلکہ یہ آنکھ کو پھوڑ اور دانت کو توڑ سکتی ہے۔

عن عبد الله بن مغفل -رضي الله عنهما- قال: نَهَى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الخَذْف، وقال: «إِنَّه لاَ يَقتُلُ الصَّيدَ، ولاَ يَنْكَأُ العَدُوَّ، وإِنَّهُ يَفْقَأُ العَيْنَ، ويَكسِرُ السِّنَ».
وفي رواية: أن قَرِيباً لابن مغفل خَذَفَ فنَهَاه، وقال: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخَذْفِ، وقال: «إِنَّهَا لاَ تَصِيدُ صَيداً» ثم عاد، فقال: أُحَدِّثُك أنَّ رسول الله نهى عنه، ثم عُدتَ تَخذِفُ! لا أُكَلِّمُكَ أَبَداً.

عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا کہ (اس طرح کنکری پھینک کر) نہ تو شکار کو مارا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جاسکتا ہے؛ البتہ اس کے ذریعے صرف آنکھ کو پھوڑا جاسکتا ہے اور دانت کو توڑا جاسکتا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے کسی قریبی رشتے دار نے انگلی میں پھنسا کر کنکری پھینکی، تو انھوں نے اسے منع کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ”یہ شکار کو نہیں مار سکتی“۔ ان کے اس رشتے دار نے دوبارہ یہ حرکت کی تو عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) کہا: میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر کنکری مارنے لگ گئے ہو؟ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا!

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر عبد الله بن مغفلٍ ـرضي الله عنه- بأن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الحذف، وقال: (إنه لا يقتل صيداً) وفي لفظ: (لا يصيد صيداً) (ولا ينكأ عدواً، وإنما يفقأ العين ويكسر).
والحذف: قال العلماء: معناه أن يضع الإنسان حصاة بين السبابة اليمنى والسبابة اليسرى أو بين السبابة والإبهام، فيضع على الإبهام حصاة يدفعها بالسبابة، أو يضع على السبابة ويدفعها بالإبهام.
وقد نهى عنه النبي -صلى الله عليه وسلم- وعلَّل ذلك بأنَّه يفقأ العين ويكسر السن إذا أصابه، (ولا يصيد الصيد)؛ لأنه ليس له نفوذ (ولا ينكأ العدو) يعني لا يدفع العدو؛ لأن العدو إنما ينكأ بالسهام لا بهذه الحصاة الصغيرة.
ثم إن قريباً له خذف، فنهاه عن الخذف وأخبره أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخذف، ثم إنه رآه مرة ثانية يخذف، فقال له: (أخبرتك أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخذف، فجعلت تخذف!! لا أكلمك أبداً) فهجره؛ لأنه خالف نهي النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;بد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا: ”یہ نہ تو شکار کو مارتی ہے“۔ اورایک روایت کے الفاظ ہیں:”نہ یہ شکار کا شکار کرتی ہے اور نہ دشمن کو زخمی کرتی ہے،البتہ اس کے ذریعے صرف آنکھ کو پھوڑا جاسکتا ہے اور دانت کو توڑا جاسکتا ہے“۔
”الحذف“: علما کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کنکری کو اپنی دائیں اور بائیں شہادت کی انگلیوں کے درمیان یا شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان رکھے، پھر انگوٹھے پر کنکری رکھ کر شہادت کی انگلی سے اسے مارے یا شہادت کی انگلی پر رکھ کر انگوٹھے کے ذریعے مارے۔
نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور اس کی علت یہ بیان کی کہ کنکری اگر لگ جائے تو یہ کسی کی آنکھ پھوڑنے اور دانت توڑنے کا سبب بنتی ہے۔ ”اس سے شکار نہیں ہوتا“ کیونکہ یہ جسم کے اندر نہیں گھستی۔ ”اور نہ ہی یہ دشمن کو روکتی ہے“ کیونکہ دشمن کو تیروں سے مجروح کیا جاتا ہے، ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے نہیں۔
عبد اللہ بن مغفل کا ایک رشتے دار اس طرح کنکریاں پھینکتے ہو   ‎ دیکھا گیا تو انھوں نے اسے اس سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ نبی ﷺ نے کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن جب انھوں نے دوبارہ کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا: ”میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، اس کے باوجود تم کنکری مارنے رہے ہو؟ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا“ چنانچہ انھوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا؛ کیونکہ اس نے نبی ﷺ کے طرف سے ہونے والی ممانعت کی خلاف ورزی کی تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3080

 
 
Hadith   156   الحديث
الأهمية: نهى -صلى الله عليه وسلم- عن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس, وبعد العصر حتى تغرب


Tema:

نبی ﷺنے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو جانے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنه- قال: «شَهِد عِندِي رِجَال مَرْضِيُون - وأَرْضَاهُم عِندِي عُمر- أنَّ النَبِي صلى الله عليه وسلم نَهَى عن الصَّلاة بَعد الصُّبح حتَّى تَطلُعَ الشَّمسُ، وبعد العصر حتَّى تَغرُب».
وعن أبي سعيد -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «لا صَلاَة بعد الصُّبح حتَّى تَرتَفِعَ الشَّمسُ، ولا صَلاَة بعد العَصرِ حتَّى تَغِيبَ الشَّمس».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے سامنےچند معتبر افراد نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی ﷺنے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو جانے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نماز فجر کے بعد جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے اور عصر کے بعد جب تک سورج غروب نہ ہو جائے، کوئی نماز پڑھنا جائز نہیں"۔

نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذين الحديثين عن الصلاة بعد صلاة الصبح حتى تشرق الشمس وترتفع عن خط الأفق في نظر العين بقدر طول رمح مركوز في الأفق، وهذا يقدر ببِضْع دقائق، تفاوت العلماء في تحديدها، من 5 إلى 15 دقيقة.
ونهى أيضا عن الصلاة بعد صلاة العصر حتى تغيب الشمس، أي قبل أذان المغرب بدقائق؛ لأن في الصلاة في هذين الوقتين تشبهًا بالمشركين الذين يعبدونها عند طلوعها وغروبها، وقد نهينا عن مشابهتهم في عباداتهم؛ لأن من تشبه بقوم فهو منهم.

575;ن دونوں احادیث میں نبی ﷺ نے نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور دیکھنے میں یوں لگے کہ وہ افق پر گاڑے ہوئے ایک نیزے کی لمبائی کے بقدر اس سے بلند ہو چکا ہے۔ اس وقت کی مقدار چند منٹ ہے، جن کے تعین میں علما کے مابین 5 سے 15 منٹ وقت تک کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔ یعنی مغرب کی اذان سے کچھ منٹ پہلے تک۔ کیوں کہ ان دونوں اوقات میں نماز پڑھنے سے مشرکین کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے، جو طلوع و غروب کے اوقات میں سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ مشرکین کی عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے؛ کیوں کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں سے گردانا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3081

 
 
Hadith   157   الحديث
الأهمية: كان ابن مسعود -رضي الله عنه- يذكرنا في كل خميس


Tema:

عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن ہمیں وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔

عن شقيق بن سلمة -رحمه الله- قال: كان ابن مسعود -رضي الله عنه- يُذَكِّرُنا في كل خميس، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، لَوَدِدْتُ أنك ذَكَّرْتَنا كل يوم، فقال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أُمِلَّكُم، وإني أَتَخَوَّلُكُم بالمَوْعِظَةِ، كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَخَوَّلُنَا بها مَخَافَةَ السَّآمَةِ علينا.

شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو ایک مرتبہ وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔ تو ان سے ایک شخص نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! میری بڑی خواہش ہے کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ فرمایا کریں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے روزانہ وعظ کرنے سے یہ چیز روکتی ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا پسند نہیں کرتا، اور میں وعظ میں تمہارا خیال رکھتا ہوں، جس طرح رسول اکرم ﷺ ہمارا خیال رکھتے تھےکہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر شقيق بن سلمة -رحمه الله- أن ابن مسعود -رضي الله عنه- كان يعظهم كل خميس، فقال له رجل: إننا لنحب أن تعظنا كل يوم، فقال: إن الذي يمنعني من ذلك كراهية أن أوقعكم في الملل والضجر، وإني أتعهدكم بالموعظة وأتفقد حال احتياجكم إليها كما كان يفعل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- معنا، خشية أن يوقعنا في الملالة، إذ لا تأثير للموعظة عند الملالة.
588;قیق بن سلمہ رحمہ اللہ نے خبر دی کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ کیا کریں۔ انھوں نے جواب دیا: ایسا کرنے سے مجھے ایک ہی بات روکتی ہے کہ میں تمھیں اکتاہٹ اور بیزاری میں مبتلا کردوں۔ میں موقع و محل دیکھ کر تمھیں نصیحت کرتا ہوں جیسا کہ نبی ﷺ اس خیال سے کہ ہم اکتا نہ جائیں نصیحت کرنے میں وقت اور موقع کا لحاظ فرماتے تھے, کیوں کہ اکتاہٹ کے وقت وعظ کا کوئی فائدہ نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3082

 
 
Hadith   158   الحديث
الأهمية: ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ويعرف شرف كبيرنا


Tema:

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ليس منا من لم يَرحمْ صغيرنا، ويَعرفْ شَرَفَ كبيرنا».

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ليس من المسلمين المتمسكين بالسنة الملازمين لها من لا يرحم الصغير من المسلمين فيشفق عليه ويحسن إليه ويلاعبه، ومن لا يعرف للكبير ما يستحقه من التعظيم والإجلال، ولفظة (ليس منا) من باب الوعيد والتحذير، ولا يعني خروج الشخص من الإسلام.
608;ہ شخص پابندِ سنت مسلمانوں میں سے نہیں جو مسلمانوں میں سے چھوٹے پر رحم اور شفقت نہیں کرتا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک اور کھیل کود نہیں کرتا، اور جو یہ نہیں جانتا کہ بڑا شخص کس تعظیم اور عزت کا مستحق ہے۔
”ہم میں سے نہیں ہے“' کا لفظ وعید اور تنبیہ کے باب سے ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3083

 
 
Hadith   159   الحديث
الأهمية: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خُمًّا بين مكة والمدينة، فحمد الله، وأثنى عليه، ووعظ وذكر


Tema:

رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چشمے کے پاس، جسے خُم کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہمیں خطبہ ارشاد کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت کیا۔

عن يزيد بن حيان قال: انطلقت أنا وحُصين بن سَبْرَة وعمرو بن مسلم إلى زيد بن أرقم -رضي الله عنه- فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيتَ يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيتَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وسمعتَ حديثه، وغزوتَ معه، وصليتَ خلفه: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: يا ابن أخي، والله لقد كَبِرَتْ سني، وقَدُمَ عهدي، ونسيتُ بعض الذي كنت أَعِي من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا فلا تُكَلِّفُونِيهِ. ثم قال: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا بماء يُدعى خُمًّا بين مكة والمدينة، فحمد الله، وأثنى عليه، ووعظ وذكَّر، ثم قال: «أما بعد، ألا أيها الناس، فإنما أنا بشر يُوشِكُ أن يأتي رسول ربي فأُجِيبَ، وأنا تاركٌ فيكم ثَقَلَيْنِ: أولهما كتاب الله، فيه الهدى والنور، فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به»، فحَثَّ على كتاب الله، ورغَّبَ فيه، ثم قال: «وأهل بيتي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي» فقال له حصين: ومن أهل بيته يا زيد، أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حُرِمَ الصدقةَ بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس. قال: كل هؤلاء حُرِمَ الصدقةَ؟ قال: نعم.
وفي رواية: «ألا وإني تاركٌ فيكم ثَقَلَيْنِ: أحدهما كتاب الله وهو حبل الله، من اتبعه كان على الهدى، ومن تركه كان على ضلالة».

یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں، حُصین بن سَبرہ اور عمرو بن مسلم، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے، تو حُصین نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! آپ کو بڑی سعادتیں حاصل ہوئی ہیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، آپ ﷺ سے حدیث سنی ہے، آپ ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا ہے اور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اے زید! آپ نے بہت بڑی بھلائی پائی ہے، اے زید! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث سنی ہیں، وہ ہم سے بیان کریں۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم میں بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوں اور رسول ﷺ کی معیت کو ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد رکھی تھیں، بھول گیا ہوں۔ اس وجہ سے جو میں تم سے بیان کروں، اسے قبول کرلو اور جو میں تم سے بیان نہ کر سکوں، مجھے اس کا مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چشمے کے پاس، جسے خُم کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہمیں خطبہ ارشاد کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا: ”بعد حمد و صلوٰۃ! آگاہ رہو اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے اور میں اسے قبول کرلوں۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی اس کتاب کو پکڑے رہو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو“ چنانچہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی خوب رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: ”(دوسری چیز) میرے اہلِ بیت ہیں۔ میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں“ حُصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے ہی ہیں، اور وہ سب لوگ اہل بیت میں سے ہیں، جن پر آپ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ حُصین نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ آپ نے بتایا: علی کا خاندان، عقیل کا خاندان، جعفر کا خاندان اور عباس کا خاندان۔ پوچھا: ان سب پر صدقہ وغیرہ حرام ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں!۔ اور ایک روایت میں ہے: ”آگاہ رہو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے اور وہ اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا، وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہی پر رہے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن يزيد بن حيان قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة وعمرو بن مسلم إلى زيد بن أرقم -رضي الله عنه-، فلما جلسنا عنده قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وسمعت حديثه من فِيه، وجاهدت معه في سبيل الله، وصليت خلفه؛ لقد أوتيت خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد بما سمعت من رسول الله شِفاهًا، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أحفظ من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فما حدثتكموه فاقبلوه، وما لا فلا تكلفوني تحديثكم إياه، ثم قال محدثًا لنا: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا عند واد فيه ماء اسمه خُم بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، وذكرهم ما قد غفلوا عنه بمزاولة الأهل والعيال من التوجه للخدمة وأداء حق العبودية، ثم قال: أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يقرب إتيان رسول ربي يعني ملك الموت لقبض روحي فأجيبه، وأنا تارك فيكم شيئين عظيمين، أولهما القرآن فيه الهدى والنور، فخذوا به واطلبوا من أنفسكم الإمساك به.
فحرض على الأخذ بالقرآن والتمسك بحبله، ورغب فيه، ثم قال: وأهل بيتي، آمركم بطاعة الله فيهم وبالقيام بحقهم قالها مرتين، فقال حصين ومن أهل بيته يا زيد؟ أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته الذين يساكنونه ويعولهم وأمرنا باحترامهم وإكرامهم، ولكن أهل بيته المرادون عند الإطلاق من حرم عليهم الصدقة الواجبة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل عليّ وآل عقيل وآل جعفر أولاد أبي طالب، وآل عباس، كل هؤلاء منعوا من أخذ الصدقة الواجبة من زكاة ونذر وكفارة.
وفي رواية: ألا وإني تارك فيكم شيئين عظيمين، أحدهما كتاب الله، وهو عهده، والسبب الموصل إلى رضاه ورحمته، ونوره الذي يهدى به، من اتبعه مؤتمرًا بأوامره منتهيًا عن نواهيه كان على الهدى الذي هو ضد الضلالة، ومن أعرض عن أمره ونهيه كان على الضلالة.
740;زید بن حیان کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمرو بن مسلم، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی طرف چلے، جب ہم ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے تو حصین نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! آپ کو بڑی سعادتیں حاصل ہوئی ہیں؛ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے۔ آپ ﷺ سے حدیث سنی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یقینا آپ کو بہت بڑی بھلائی دی گئی۔ اے زید! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث زبانى سنی ہیں، وہ ہمیں بیان کریں۔ زید نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم! میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اللہ کے رسول کی صحبت میں رہے ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کر رکھی تھیں، بھول گیا ہوں۔ اس لیے میں تم سے جو کچھ بیان کروں، اسے قبول کرلو اور جو تم سے بیان نہ کر سکوں، مجھے اس کا مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر حدیث بیان کرتے ہوئے ان سے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان، ایک وادی کے پاس جس میں پانی تھا اور اس کا نام خُم تھا، ہمارے لیے خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور خدمت پر توجہ نیز حق عبودیت کی ادائیگی وغیرہ باتوں کا ذکر فرمایا، جن سے لوگ اپنے اہل و عیال میں مشغولیت کی وجہ سےغافل ہو گئے تھے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: بعد حمد و صلوٰۃ، آگاہ رہو اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے۔ یعنی ملک الموت میری روح قبض کرنے کے لیے آئے اور میں اسے قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی قرآن ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اس کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو۔
آپ ﷺ نے قرآن کو پکڑے رہنے اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی خوب رغبت دلائی۔ پھر فرمایا:اور میرے اہلِ بیت، میں تم لوگوں کو ان کے بارے میں اللہ کی فرماں برداری اور ان کے حق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے یہ بات دو بار فرمائي۔ حُصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ ﷺ کی بیویاں اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ﷺ کی بیویاں جنھوں نے آپ کے ساتھ سکونت اختیار کی اور جن کی کفالت کی ذمے داری آپ نے اٹھائی، آپ کے اہل بیت میں سے ہیں، ہمیں ان کے احترام و اکرام کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن جب اہل بیت مطلقا بولا جائے، تو وہ سارے لوگ شامل ہوتے ہیں، جن پر آپ ﷺ کے بعد وجوبی صدقہ حرام ہے۔ حُصین نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے بتایا: علی کا خاندان، عقیل کا خاندان، جعفر کا خاندان، یہ سب ابو طالب کی اولاد ہیں اور عباس کا خاندان۔ یہ سب لوگ زکوٰۃ، نذر اور کفارہ وغیرہ وجوبی صدقہ لینے سے منع کیے گیے ہیں۔
اور ایک روایت میں ہے:آ گاہ رہو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے۔ وہ اس کا عہد اور اس کی رضا و رحمت تک پہنچنے کا ذریعہ اور اس کا وہ نور ہے جس سے ہدایت حاصل کی جائے۔ چنانچہ جو اس کے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے رک کر اس کی اتباع کرے گا، وہ اس ہدایت پر رہے گا، جو گمراہی کی ضد ہے اور جو اس کے حکم و نہی سے اعراض کرے گا، وہ گمراہی پر رہے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3084

 
 
Hadith   160   الحديث
الأهمية: لَتُسَوُّنَّ صفوفَكم أو ليخالِفَنَّ اللهُ بين وُجُوهِكم


Tema:

اپنی صفوں کو سیدھا کر لو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین تفرقہ ڈال دے گا۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُم أو لَيُخَالِفَنَّ الله بين وُجُوهِكُم».
وفي رواية: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُسَوِّي صُفُوفَنَا، حتى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بها القِدَاح، حتَّى إِذَا رأى أَنْ قد عَقَلْنَا عَنهُ، ثم خَرَج يومًا فَقَام، حتَّى إِذَا كاد أن يُكَبِّرُ، فَرَأَى رَجُلاً بَادِيًا صَدرُهُ، فقال: عِبَادَ الله، لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُم أو لَيُخَالِفَنَّ الله بين وُجُوهِكُم».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی صفوں کو سیدھا کر لو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین تفرقہ ڈال دے گا“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو سیدھا فرماتے، اتنا سیدھا کہ یوں لگتا کہ آپ ﷺ ان سے تیر سیدھے کریں گے۔ یہاں تک کہ جب آپ ﷺ كو محسوس ہوا کہ ہم آپ کے فرمان کو سمجھ چکے ہیں۔ پھر ایک دن آپ ﷺ باہر آئے اور (نماز كے لیے) کھڑے ہو گئے۔ آپ ﷺ تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا، جو اپنا سینہ باہر نکالے ہوئے تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھا کرو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین اختلاف ڈال دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكد -صلى الله عليه وسلم- أَّنَّه إن لم تعدل الصفوف وتسوى فليخالفنَّ الله بين وجوه الذين اعوجت صفوفهم فلم يعدلوها، وذلك بأنه حينما يتقدم بعضهم على بعض في الصف، ويتركون الفرجات بينهم.
وكان -صلى الله عليه وسلم- يعلم أصحابه بالقول ويهذبهم بالفعل، فظل يقيمهم بيده، حتى ظن -صلى الله عليه وسلم- أنهم قد عرفوا وفهموا، وفي إحدى الصلوات رأى واحدا من الصحابة قد بدا صدره في الصف من بين أصحابه، فغضب -صلى الله عليه وسلم- وقال "لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم".
606;بی ﷺ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگرصفیں برابر اور سیدھی نہ کی گئیں، تواللہ تعالیٰ ان لوگوں کے مابین اختلاف پیدا فرما دیں گے، جن کی صفیں ٹیڑھی ہیں اور جنھوں نے ان کو سیدھا نہ کیا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے، جب صف میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنے مابین خالی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ نبی ﷺ قول کے ذریعے سے اپنے صحابہ کو تعلیم دیتے اور فعل کے ذریعے سے ان کی تہذیب فرماتے۔ چنانچہ آپ ﷺ انھیں اپنے ہاتھ سے درست فرماتے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اس بات کو جان چکے ہیں اورسجمھ گئے ہیں۔ ایک نماز میں آپ ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا کہ صف میں ان کا سینہ اپنے ساتھیوں کے مابین کچھ ابھرا ہوا ہے اور باہر آ رہا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ غصہ میں آ گئے اور فرمایا: ”اپنی صفوں کو سیدھا کر لو، ورنہ اللہ تمھارے مابین اختلاف ڈال دیں گے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3085

 
 
Hadith   161   الحديث
الأهمية: أما يخشى الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يحول الله رأسه رأس حمار, أو يجعل صورته صورة حمار؟


Tema:

وہ آدمی جو امام سے پہلے سر اٹھا لیتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے؟

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أما يخشى الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يُحَوِّلَ الله رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صُورة حمار؟».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص جو امام سے پہلے (رکوع و سجود میں) سر اٹھا لیتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إنَّما جعل الإمام في الصلاة ليُقتدى به ويؤتم به، بحيث تقع تنقلات المأموم بعد تنقلاته، وبهذا تحقق المتابعة، فإذا سابقه المأموم، فاتت المقاصد المطلوبة من الإمامة، لذا جاء هذا الوعيد الشديد على من يرفع رأسه قبل إمامه، بأن يجعل الله رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صورة حمار، بحيث يمسخ رأسه من أحسن صورة إلى أقبح صورة، جزاء لهذا العضو الذي حصل منه الرفع والإخلال بالصلاة.
606;ماز میں امام کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اقتداء اور اس کی پیروی کی جائے بایں طور کہ مقتدی کی نقل و حرکت اس کی نقل و حرکت کے بعد واقع ہو۔ اور اس سے امام کی پیروی حاصل ہوتی ہے۔پس اگر مقتدی اس سے پیش قدمی کر لے تو اس سے امامت کے مطلوبہ مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس شخص کے بارے میں یہ سخت وعید آئی ہے جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے، بایں طور کہ اس کے سر کو بہترین صورت سے بدترین صورت میں مسخ کر دے تا کہ یہ عضو جو پہلے اٹھا ہے اور جس نے نماز میں خلل ڈالا ہے اس کو اس کے کیے کی سزا مل سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3086

 
 
Hadith   162   الحديث
الأهمية: أنت مع من أحببت


Tema:

بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ أَعْرَابِيًا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: مَتَى السَّاعَة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» قال: حُبُّ الله ورَسُولِه، قال: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل الأعرابي (متى الساعة؟) ولو قال له الرسول -صلى الله عليه وسلم-: ما أعلمها، لما شفى نفس الأعرابي، ولكن حكمة الرسول -صلى الله عليه وسلم- مالت عن أصل السؤال إلى إجابته بما يجب عليه دون ما ليس له، وهو ما يسمى بأسلوب الحكيم، فقال الرسول -صلى الله عليه وسلم-: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» وهو سؤال تنبيه، وتذكير بما يجب عليه التفكير فيه، والانشغال به، فقال الأعرابي: "حُبُّ الله ورَسُولِه"، فجاءت إجابة الأعرابي بعفوية تفيض بالمودة والمحبة، والإيمان، والانخلاع عن الاتكال على عمله والرواية الثانية تؤكد هذه المعاني في قول الأعرابي: " مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَومٍ، ولاَ صَلاَةٍ، وَلاَ صَدَقَةٍ، ولَكِنِّي أُحِبَّ الله ورَسُولَه"؛ فلذا جاء جواب الرسول -صلى الله عليه وسلم-: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ».   ففي الحديث الحث على قوة محبة الرسل، واتباعهم بحسب مراتبهم، والتحذير من محبة ضدهم، فإن المحبة دليل على قوة اتصال المحب بمن يحبه، ومناسبته لأخلاقه، واقتدائه به.
575;یک اعرابی (دیہاتی) نے سوال کیا کہ: ” قیامت کب آئے گی؟“
اس کے جواب میں اگر آپ ﷺ یہ فرما دیتے کہ: ”میں نہیں جانتا“ تو اعرابی کا دل مطمئن نہ ہوتا۔ نبی ﷺ نے بڑے حکیمانہ انداز میں اصل سوال سے ہٹتے ہوئے ایسا جواب دیا جس کو اپنانا اس پر واجب تھا اور اس بات کو چھوڑ دیا جس کا جاننا اس پر واجب نہیں تھا۔ یہی وہ انداز ہے جسے (علم بلاغت کی اصطلاح میں) ”اسلوب حکیم“ کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟“ یہ سوال ایسے کام کی طرف متنبہ کرنے اور اس کی یاد دہانی کے لئے تھا جس میں غور و فکر کرنا اور جس میں مشغول رہنا اس پر واجب تھا۔
اعرابی نے جواب دیا کہ: ”اللہ اور اس کے رسول کی محبت“۔ اعرابی نے بے ساختہ یہ جواب دیا جو مودت و محبت اور ایمان کے جذبات سے لبریز اور صرف اپنے عمل پر بھروسے سے بالکل تہی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ان معانی کی مزید تاکید ہوتی ہے جس میں اعرابی کہتا ہے کہ: ”میں نے اس (قیامت) کے لئے نہ تو زیادہ (نفلی) روزے تیار کیے ہیں، نہ زیادہ (نفلی) نمازیں اور نہ زیادہ صدقہ۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں“۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ” بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے“۔
مذکورہ حدیث میں رسولوں اور ان کے متبعین سے ان کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے بہت زیادہ محبت رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز ان کے مخالفین سے محبت رکھنے سے ڈرایا گیا ہے۔ محبت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ محبت کرنے والا محبوب سے کس حد تک تعلق رکھتا ہے، اس کے اخلاق کس حد تک ان سے مطابقت رکھتے ہیں اور وہ کہاں تک ان کی پیروی کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3087

 
 
Hadith   163   الحديث
الأهمية: لا صلاة بحضرة طعام، ولا وهو يدافعه الأخبثان


Tema:

کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی جب انسان کو پیشاب پاخانہ کی سخت حاجت ہو۔

عن عائِشَة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «لا صلاة بِحَضرَة طَعَام، وَلا وهو يُدَافِعُه الأَخبَثَان».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی جب انسان کو پیشاب پاخانہ کی سخت حاجت ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يؤكِّد هذا الحديث رغبة الشارع في حضور قلب المكلَّف في الصلاة بين يدي ربِّه، ولا يكون ذلك إلا بقطع الشواغل؛ التي يسبب وجودها عدم الطمأنينة والخشوع؛ لهذا: فإن الشارع ينهي عن الصلاة بحضور الطعام الذي تتوق نفس المصلي إليه، ويتعلق قلبه به، وكذلك ينهى عن الصلاة مع مدافعة الأخبثين، -اللذين هما البول والغائط-؛ لانشغال خاطره بمدافعة الأذى.
575;س حدیث میں اس بات کی تاکید ہے کہ شارع کی خواہش ہے کہ بندہ نماز میں اپنے رب کے سامنے پورے حضورِ قلب کے ساتھ کھڑا ہو۔ ایسا صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب توجہ ہٹانے والی ان تمام اشیاء سے ناطہ توڑ لیا جائے جن کی موجودگی اطمینان اور خشوع کے ختم ہونے کا سبب ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے کھانے کی موجودگی میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا جس کی طرف نمازی کا دل کھنچا جاتا ہے اور اسی میں اُس کا دل لگا رہتا ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ اس وقت بھی نماز پڑھنے سے منع فرما رہے ہیں جب انسان کو پیشاب اور پاخانے کی سخت حاجت ہو رہی ہو کیونکہ اس پریشر کی وجہ سے اس کی توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3088

 
 
Hadith   164   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى بهم الظهر فقام في الركعتين الأُولَيَيْنِ، ولم يَجْلِسْ فقام الناس معه، حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كَبَّر وهو جالس فسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ


Tema:

نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہو گئے، اور مقتدی لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گیے ، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ ﷺ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے ”اللہ أكبر‏“ کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔

عن عبد الله بن بُحَيْنَةَ -رضي الله عنه- وكان من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى بهم الظهر فقام في الركعتين الأُولَيَيْنِ، ولم يَجْلِسْ، فقام الناس معه، حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه: كَبَّرَ وهو جالس فسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ».

عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ہیں، نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے انھیں ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں پر بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے۔ چنانچہ سارے لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب نماز ختم ہونے لگی اور لوگ آپ ﷺ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو آپ ﷺ نے ”اللہ أكبر‏“ کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے۔ پھر سلام پھیرا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بأصحابه صلاة الظهر، فلما صلى الركعتين الأُولَيَيْن قام بعدهما، ولم يجلس للتشهد الأول، فتابعه المأمومون على ذلك.
حتى إذا صلى الركعتين الأُخريين، وجلس للتشهد الأخير، وفرغ منه، وانتظر الناس تسليمه، كبَّر وهو في جلوسه، فسجد بهم سجدتين قبل أن يسلم مثل سجود صُلْبِ الصلاة، وهي سجدتي السهو، ثم سلم، وكان ذلك السجود جبراً للتشهد المتروك.
606;بی ﷺ نے صحابۂ کرام کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ جب پہلی دو رکعتیں پڑھ چکے، تو ان کے بعد تشہد اوّل کے لیے بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے۔ مقتدیوں نے بھی آپ کی اقتدا کی۔ یہاں تک کہ جب آخری دو رکعتیں پڑھ کر آخری تشہد کے لیے بیٹھ کر دعائے تشہد سے فارغ ہو گئے اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو بیٹھنے ہی کی حالت میں آپ نے ‘‘اللہ اکبر’’ کہا، پھر لوگوں کے ساتھ سلام پھیرنے سے پہلے نماز کے سجدوں کی طرح دو سجدے کیے، پھر سلام پھیر دیا۔ یہ دونوں سجدے (در اصل) چھوٹے ہوئے تشہد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3089

 
 
Hadith   165   الحديث
الأهمية: أقبلت راكبا على حِمار أَتَانٍ، وأنا يومئذ قد نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلِّي بالناس بِمِنًى إلى غير جِدار


Tema:

میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔

عن عبد الله بن عَبَّاس -رضي الله عنهما- قال: أقبلْتُ راكبا على حِمار أَتَانٍ، وأنا يومئذ قد نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلِّي بالناس بِمِنًى إلى غير جِدار، مررتُ بين يدي بعض الصفّ، فنزلت، فأرسلتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، ودخلتُ في الصفّ، فلم يُنْكِرْ ذلك عليَّ أحد.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔ میں صف کے سامنے سے گزرا اور پھر اتر کر گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑدیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھے اس پر نہیں ٹوکا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أنه لما كان مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في مِنى في حجة الوداع، أقبل راكباً على أَتَان -حمار أنثى- فمرّ على بعض الصف، والنبي -صلى الله عليه وسلم- يصلى بأصحابه ليس بين يديه جِدار، فنزل عن الأَتَان وتركها ترعى، ودخل هو في الصف.
وأخبر -رضى الله عنه- أنه في ذلك الوقت قد قارب البلوغ، يعنى في السن التي ينكر عليه فيها لو كان قد أتى مُنكراً يفسد على المصلين صلاتهم، ومع هذا فلم ينكر عليه أحد، لا النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولا أحد من أصحابه.
593;بد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب وہ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو وہ ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے اور صف کے سامنے سے گزرے۔ نبی ﷺ اس وقت اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ گدھی سے نیچے اترے اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گئے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت بلوغت کے قریب تھے یعنی وہ ایسی عمر میں تھے کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کے مرتکب ہوئے ہوتے جس سے نمازیوں کی نماز خراب ہو جاتی تو ان پر نکیر کی جاتی۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی نکیر نہیں کی، نہ نبی ﷺ نے اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3090

 
 
Hadith   166   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يرفع يديه حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إذا افْتَتَحَ الصلاة، وإذا كبّر للرُّكُوعِ، وإذا رفع رأسه من الركوع رَفَعَهُمَا كذلك


Tema:

نبیﷺ جب نماز شروع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اورجب رکوع سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسا ہی کرتے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يرفع يديه حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إذا افْتَتَحَ الصلاة، وإذا كبّر للرُّكُوعِ ، وإذا رفع رأسه من الركوع رَفَعَهُمَا كذلك، وقال: سَمِعَ الله لمن حَمِدَهُ رَبَّنَا ولك الحمد، وكان لا يفعل ذلك في السُّجُودِ.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب نماز شروع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسا ہی کرتے اور ”سَمِعَ الله لمن حَمِدَهُ رَبَّنَا ولَكَ الحَمْدُ“ کہتے۔ آپ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة عبادة عظيمة، فكل عضو في البدن له فيها عبادة خاصة.
ومن ذلك، اليدان فلهما وظائف، منها رفعهما عند تكبيرة الإحرام، والرفع زينة للصلاة وتعظيم لله -تعالى-، ويكون رفع اليدين إلى مقابل منكبيه، ورفعهما أيضاً للركوع في جميع الركعات، وإذا رفع رأسه من الركوع، في كل ركعة، وفي هذا الحديث، التصريح من الراوي: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لا يفعل ذلك في السجود حيث إنه هوي ونزول.
606;ماز ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ چنانچہ اس کے اندر جسم میں موجود ہر عضو کی ایک خاص عبادت ہے۔ ان اعضا میں سے دو ہاتھ بھی ہیں، جن کے اپنے وظائف ہیں۔ انہی میں سے ایک وظیفہ تکبیر تحریمہ کے وقت انھاںاٹھانا ہے۔ دراصل ہاتھوں کو اٹھانا نماز کی زینت ہے اور اس سے اللہ تعالی کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے۔ ہاتھوں کو دونوں کندھوں کے برابر اٹھایا جاتا ہے۔ اور تمام رکعتوں میں ہر رکعت کے اندر رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا جاتا ہے۔ اس حدیث میں راوی کی طرف سے تصریح ہے کہ نبی ﷺ سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے؛ کیوں کہ یہ جھکنے اور نیچے جانے کا مظہر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3095

 
 
Hadith   167   الحديث
الأهمية: عَلَّمَنِي رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- التَّشَهُّد، كفِّي بين كفيه، كما يُعَلِّمُنِي السورة من القرآن


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا اور اس طرح سکھایا جس طرح آپ ﷺ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن مَسْعُود -رضي الله عنه- قال: عَلَّمَنِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- التَّشَهُّد، كَفِّي بين كفيه، كما يُعَلِّمُنِي السورة من القرآن: التَّحِيَّاتُ للَّه, وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله».
وفي لفظ: «إذا قعد أحدكم في الصلاة فليقل: التحيات لله...» وذكره، وفيه: «فإنكم إذا فعلتم ذلك فقد سَلَّمْتُمْ على كل عبد صالح في السماء والأرض ...» وفيه: « ... فَلْيَتَخَيَّرْ من المسألة ما شاء».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا اور اس طرح سکھایا جس طرح آپ ﷺ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے، ”التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ“۔
ترجمہ: ”تمام بزرگیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، تمام دعائیں اور صلاتیں اور تمام پاکیزہ چیزیں بھی۔ اے نبی! آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔
ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھ جائے تو یوں کہے: التحیات للہ ...الخ“۔
اسی حدیث میں ہے کہ تمہارے ایسا کرنے پر زمین و آسمان میں موجود ہر نیک بندے پر تمہاری طرف سے سلام ہوجائے گا۔ اور اس میں مزید یہ ہے کہ ”...پھر نمازی جو دعا مانگنا چاہے مانگے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- علمه التَّشَهُّد، الذي يقال في جلوس الصلاة الأول والأخير في الصلاة الرباعية، والثلاثية، وفي الجلوس الأخير في الصلاة الثنائية، وأن النبي -صلى الله عليه وسلم- اعتنى بتعليمه التشهد، فجعل يده في يده.
فقد ابتدأت بتعظيم الله -تعالى-، التعظيم المطلق، وأنه المستحق للصلوات وسائر العبادات، والطيبات من الأقوال والأعمال والأوصاف.
وبعد أن أثنى على الله -تعالى- ثنّى بالدعاء للنبي -صلى الله عليه وسلم- بالسلامة من النقائص والآَفات، وسأل الله له الرحمة والخير، والزيادة الكاملة من ذلك، ثم دعا لنفسه والحاضرين من الآدميين والملائكة.
ثم عم بدعائه عباد الله الصالحين كلهم، من الإنس، والجن، والملائكة أهل السماء والأرض، من السابقين واللاحقين، فهذا من جوامع كلمه -صلى الله عليه وسلم-.
ثم شهد الشهادة الجازمة بأنه لا معبود بحق إلا الله، وأن محمداً -صلى الله عليه وسلم- له صفتان:
إحداهما: أنه متصف بصفة العبودية.
والثانية: صفة الرسالة.
وكلا الصفتين، صفة تكريم وتشريف، وتوسط بين الغُلُوِّ والجفاء.
وقد ورد للتشهد صفات متعددة، ولكن أفضلها وأشهرها تَّشَهُّد ابن مسعود الذي ساقه المصنف، ويجوز الإتيان بما صح من باقي الصفات.
593;بد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں تشہد سکھایا جو چار اور تین رکعت والی نماز کے پہلے اور دوسرے قعدے میں اور دو رکعت والی نماز کے آخری قعدے میں پڑھا جاتا ہے اور یہ کہ نبی ﷺ نے بہت اہتمام کے ساتھ انہیں تشہد سکھایا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا۔
تشہد کا آغاز اللہ تعالی کی عظمت کے بیان سے ہوتا ہے کہ جو مطلق تعظیم کا حامل ہے یعنی اس بات کے بیان کے ساتھ کہ وہ تمام قسم کی قولی و فعلی عبادات اور ہر قسم کے پاکیزہ اعمال و اوصاف کا مستحق ہے۔
اللہ تعالی کی ثناء کے بعد دوسرے نمبر پر نبی ﷺ کے لیے نقائص اور آفات سے سلامتی کی دعا ہے اور اس بات کا سوال ہے کہ اللہ تعالی انہیں رحمت اور خیر وبھلائی عطا کرے، اور یہ کہ اپنی طرف سے بھر پور طور پر بڑھا کر دے، پھر نمازی کی خود اپنے لیے اور وہاں موجود انسانوں اور فرشتوں کے لیے دعا ہے۔
پھر نمازی کی طرف سے زمین و آسمان کے تمام اگلے پچھلے جن و انس اور فرشتوں کی صورت میں اللہ کے بندوں کے لیے دعا ہے۔ یہ دعائے تشہد نبی ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے۔
پھر اس کے بعد قطعی شہادت ہے کہ معبودِ برحق اللہ کے سوا کوئی نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ کی دو صفات ہیں۔
اول: یہ کہ وہ بندگی کی صفت سے متصف ہیں۔
دوم: صفتِ رسالت، یہ دونوں صفات میں اکرام و اعزاز ہے اور حد سے زیادہ بلند کرنے اور ناقدری کرنے کے مابین توسط برتا گیا ہے۔
تشہد کی دعا کئی انداز میں آئی ہیں تاہم افضل ترین اور مشہور وہی ہے جو مصنف نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ذکر کی ہے ۔ تاہم دوسرے ثابت شدہ الفاظ کے ساتھ تشہد پڑھنا بھی درست ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3096

 
 
Hadith   168   الحديث
الأهمية: لو يعلم المار بين يدي الْمُصَلِّي ماذا عليه من الإثم، لكان أن يَقِفَ أربعين خيرا له من أن يَمُرَّ بين يديه


Tema:

اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کا چالیس سال تک کھڑا رہ کر انتظار کرنا اس سے بہتر ہو گا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔

عن أبي جُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأنصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لو يعلم المار بين يدي الْمُصَلِّي ماذا عليه  لكان أن يَقِفَ أربعين خيرا له من أن يَمُرَّ بين يديه».
قال أَبُو النَّضْرِ: لا أدري: قال أربعين يوما أو شهرا أو سنة.

ابو جُہیم بن حارث بن صَمّہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کا چالیس سال تک کھڑا رہنا اس سے بہتر ہو کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے“۔
ابو نضر راوی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آیا انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس ماہ کہا یا پھر چالیس سال کہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المصلي واقف بين يدي ربه يناجيه ويناديه، فإذا مرَّ بين يديه في هذه الحال مارٌّ قطع هذه المناجاة وشوّش عليه عبادته، لذا عَظُم ذنب من تسبب في الإخلال بصلاة المصلي بمروره.
فأخبر الشارع: أنه لو علم ما الذي ترتب على مروره، من الإثم والذنب، لفضل أن يقف مكانه الآماد الطويلة على أن يمر بين يدي المصلي، مما يوجب الحذر من ذلك، والابتعاد منه.
606;ماز پڑھنے والا اپنے رب کے حضور کھڑا ہو کر اس سے مناجات کررہا ہوتا ہے اور اسے پکار رہا ہوتا ہے۔ جب اس حالت میں کوئی گزرنے والا اس کے آگے سے گزرتا ہے تو وہ مناجات میں انقطاع پیدا کرتا ہے اور نمازی کی عبادت میں خلل ڈالتا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے گزرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز میں خلل انداز ہوتا ہے اس کا گناہ بہت بڑا ہے۔
شارع نے بتایا کہ اگر اسے علم ہو جائے کہ اس کے گزرنے پر اُسے کتنا گناہ ملتا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے لمبی مدت تک اپنی جگہ پر کھڑا رہنے کو ترجیح دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل سے بچنا چاہیے اور اس سے دور رہنا چاہیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3097

 
 
Hadith   169   الحديث
الأهمية: إذا صلَّى أحدكم إلى شيء يَسْتُرُهُ من الناس، فأراد أحد أن يَجْتَازَ بين يديه فَلْيَدْفَعْهُ، فإن أبى فَلْيُقَاتِلْهُ؛ فإنما هو شيطان


Tema:

جب تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو، جو اس کے لیے لوگوں سے سترہ ہو اور کوئی اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اسے روک دے۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔

عن أبي سعيد الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه- مرفوعًا: (إذا صلَّى أحدكم إلى شيء يَسْتُرُهُ من الناس، فأراد أحد أن يَجْتَازَ بين يديه فَلْيَدْفَعْهُ، فإن أبى فَلْيُقَاتِلْهُ؛ فإنما هو شيطان).

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی ایسی شے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہا ہو جو اس کے اور لوگوں کے مابین حائل ہو اور پھر بھی کوئی اس کے سامنے سے گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے روکے اور اگر وہ نہ رُکے تو اس سے لڑے اس لیے کہ وہ شیطان ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر الشرع باتخاذ الحزم والحيطة في الأمور كلها، وأهم أمور الدين والدنيا الصلاة، لذا حثَّ الشارع الحكيم على العناية بها واتخاذ السُتْرة لها إذا دخلَ المصلي في صلاته لتستره من الناس، حتى لا ينقصوا صلاته بمرورهم بين يديه، وأقبل يناجي ربه، فإذا أراد أحد أن يجتاز بين يديه، فليدفع بالأسهل فالأسهل، فإن لم يندفع بسهولة ويسر، فقد أسقط حرمته، وأصبح معتدياً، والطريق لوقف عدوانه، المقاتلة بدفعه باليد، فإن عمله هذا من أعمال الشياطين، الذين يريدون إفساد عبادات الناس، والتلبيس عليهم في صلاتهم.
588;ریعت نے تمام امور میں پختگی اور احتیاط کا حکم دیا ہے۔ دین و دنیا کا سب سے اہم کام نماز ہے۔ اس وجہ سے نبی ﷺ نے اس کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی اور اس کے لیے سترہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ جب نمازی نماز شروع کرے تو اس کے اور لوگوں کے مابین وہ آڑ بن جائے اور وہ اس کے سامنے سے گزر کر اس کی نماز میں خلل انداز نہ ہوں اور وہ پوری توجہ سے اپنے رب سے مناجات کرے۔ جب کوئی شخص اس کے سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نرم سے نرم تر انداز میں اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ نرمی اور آسانی سے نہ ہٹے تو پھر اس کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور وہ حد سے تجاوز کرنے والا بن جاتا ہے اور ایسے شخص کی زیادتی کو روکنے کا راستہ یہی ہے کہ اس سے ہاتھ کے ذریعے لڑا جائے کیونکہ اس کا یہ عمل شیاطین کی طرح کا عمل ہے جو لوگوں کی عبادات میں بگاڑ پیدا کرنے کے درپے رہتے ہیں اور ان کی نماز میں ان کی ترکیز کو گڈ مڈ کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3098

 
 
Hadith   170   الحديث
الأهمية: أكل المحرم من صيدٍ لم يُصَد لأجله ولا أعان على صيده


Tema:

محرم شخص کا ایسے شکار کے گوشت کو کھانا جو اس کے لیے شکار نہ کیا گیا ہو اور نہ ہی اس نے اس کے شکار میں کوئی مدد کی ہو۔

عن أبي  قَتَادَةَ الأنصاري -رضي الله عنه- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خرج حاجًّا، فخرجوا معه، فصرف طائفة منهم -فيهم أبو قَتَادَةَ- وقال: خذوا ساحِل البحر حتى نَلْتَقِيَ. فأخذوا ساحل البحر، فلما انصرفوا أحرموا كلهم، إلا أبا قَتَادَةَ فلم يُحرم، فبينما هم يسيرون إذ رأوا حُمُرَ وَحْشٍ، فحمل أبو قَتَادَةَ على الْحُمُرِ، فَعَقَرَ منْها أَتَانَاً، فنزلنا فأكلنا من لحمها، ثم قلنا: أنأكل لحم صيد، ونحن محرمون؟ فحملنا ما بقي من لحمها فأدركنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فسألناه عن ذلك؟ فقال: منكم أحد أمره أن يحمل عليها، أو أشار إليها؟ قالوا: لا، قال: فكلوا ما بقي من لحمها»، وفي رواية: «قال: هل معكم منه شيء؟ فقلت: نعم، فناولته الْعَضُدَ ، فأكل منها».

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کے ارادے سے نکلے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو جس میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے یہ ہدایت دے کر واپس بھیج دیا کہ تم لوگ ساحل سمندر کے راستہ پکڑ کر چلو یہاں تک کہ ہم سےآملو۔ چنانچہ انہوں نے ساحلِ سمندر کا راستہ اختیار کیا۔ جب واپس ہوئے تو سوائے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے سب نے احرام باندھ لیا۔ وہ جب چلے آ رہے تھے تو انہیں کچھ نیل گائیں دکھائی دیں۔ ابوقتادہ نے نیل گایوں پر حملہ کر کے ایک مادہ کا شکار کر لیا۔ ہم نے (ایک جگہ) پڑاؤ کیا اور اس کا گوشت کھایا۔ پھر ہمیں خیال آیا کہ کیا ہم حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کا گوشت کھا سکتے ہیں؟ چنانچہ جو کچھ گوشت بچا وہ ہم نے ساتھ لے لیا اور جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺنے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو اس پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا تھا؟ یا کسی نے اس شکار کی طرف اشارہ کیا تھا؟ سب نے کہا نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بچا ہوا گوشت بھی کھا لو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس (شکار کے گوشت) میں سے کچھ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ کہہ کر میں نےآپ ﷺ کو شانے کا گوشت دیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- عام الْحُدَيْبِيَة، يريد العُمْرة.
وقبل أن يصل إلى محرم المدينة، القريب منها، وهو "ذو الحليفة" بلغه أنَّ عَدُوُّاً أتى من قِبَل ساحل البحر يريده، فأمر طائفة من أصحابه -فيهم أبو قتادة- أن يأخذوا ذات اليمين، على طريق الساحل، ليصدُّوه، فساروا نحوه. فلما انصرفوا لمقابلة النبي -صلى الله عليه وسلم- في ميعاده، أحرموا إلا أبا قتادة فلم يحرم، وفي أثناء سيرهم، أبصروا حُمُر وَحْش، وتمنوا بأنفسهم لو أبصرها أبو قتادة لأنه حلال، فلما رآها حمل عليهاْ فعقر منها أَتاناً، فأكلوا من لحمها.
ثم وقع عندهم شكٌّ في جوازِ أكلهم منها وهم محرمون، فحملوا ما بقي من لحمها حتى لحقوا بالنبي -صلى الله عليه وسلم-، فسألوه عن ذلك فاستفسر منهم: هل أمره أحد منهم، أو أعانه بدلالة، أو إشارة؟ قالوا: لم يحصل شيء من ذلك.
فَطَمْأَن قلوبهم بأنها حلال، إذ أمرهم بأكل ما بقي منها، وأكل هو -صلى الله عليه وسلم- منها تطييبًا لقلوبهم.
589;لح حدیبیہ کے سال نبی ﷺ عمرہ کے ارادے سے نکلے۔ اہل مدینہ کا میقات یعنی ذو الحلیفہ،جو مدینہ کے قریب ہی واقع ہے، تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ ﷺ تک یہ خبر پہنچی کہ ساحلِ سمندر کی طرف سے دشمن ان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺنے اپنےصحابہ کے ایک گروہ کوجس میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حکم دیا کہ وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ داہنی طرف والا راستہ لے لیں تا کہ دشمن کو روک سکیں۔ چنانچہ وہ اس طرف چلے گیے۔ جب مقررہ وقت پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے وہ واپس ہوئے تو سوائے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے سب نے احرام باندھ لیا۔ دورانِ سفر انھیں کچھ نیل گائیں نظر آئیں اور دل ہی دل میں انھوں نے چاہا کہ کاش ابوقتادہ اسے دیکھ لیں کیوں کہ وہ حالتِ احرام میں نہیں ہیں۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جب نیل گایوں کو دیکھا تو ان پر حملہ آور ہوئے اور ایک مادہ نیل گائے کو شکار کر لیا اور سب نے اس کا گوشت کھایا۔
پھر انہیں کچھ شک لاحق ہوا کہ کیا حالت احرام میں ان کے لیے اسے کھانا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس کے باقی ماندہ گوشت کو اپنے ہمراہ لیا یہاں تک کہ نبی ﷺ کے پاس آن پہنچے اور آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کسی نے ابو قتادہ کو شکار کرنے کو کہا تھا؟ یا پھر انھیں بتا کر یا اشارہ کر کےان کی مدد کی تھی؟ انھوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔
اس پر آپ ﷺ نے انھیں اطمئنان دلایا کہ یہ ان کے لیے حلال ہے بایں طور کہ آپ ﷺ نے اس کے باقی ماندہ گوشت کو بھی کھانے کا حکم دیا اور ان کی طیب خاطر کے لیے آپ ﷺ نے خود بھی اس کا گوشت تناول فرمایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3099

 
 
Hadith   171   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في الركعتين الأُولَيَيْنِ من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين، يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، و يُسْمِعُ الآية أحيانًا


Tema:

اللہ کے رسول ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر۔ البتہ کبھی کبھار کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے۔

عن أبي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في الركعتين الأُولَيَيْنِ من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين، يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، و يُسْمِعُ الآية أحيانا، وكان يقرأ في العصر بفاتحة الكتاب وسورتين يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، وفي الركعتين الأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الكتاب، وكان يُطَوِّلُ في الركعة الأولى من صلاة الصبح، ويُقَصِّرُ في الثانية.

ابو قتادۃ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر۔ البتہ کبھی کبھار کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے۔ اسی طرح عصر میں فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری میں مختصر کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھتے۔ صبح کی پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- من عادته أن يقرأ بعد سورة الفاتحة غيرها من القرآن في الركعتين الأُوليين من صلاة الظهر والعصر، ويطول في الأولى عن الثانية، ويسمع أصحابه ما يقرأ أحيانا، ويقرأ في الثالثة والرابعة بالفاتحة فقط، وكان يطول في صلاة الصبح في القراءة ويقصر في الثانية.
لكن لو قرأ الإنسان أحيانًا في الثالثة أو الرابعة بسورة بعد الفاتحة جاز؛ لورود أدلة أخرى بذلك.
570;پ ﷺ کی عادت یہ تھی کہ ظہر و عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن کی کوئی سورت تلاوت فرماتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری میں مختصر کرتے۔ کبھی کبھی صحابہ کو آپ ﷺ جو تلاوت فرما رہے ہوتے، سنا دیتے تھے۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف فاتحہ پڑھتے تھے۔ فجر کی پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری مختصر کرتے۔
تاہم اگر کبھی کوئی شخص تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت تلاوت کر لے، تو جائز ہے؛ اس لیے کہ اس سلسلے میں دوسرے بہت سارے دلائل وارد ہوئے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3100

 
 
Hadith   172   الحديث
الأهمية: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، يُخَوِّفُ الله بهما عباده، وإنهما لا يَنْخَسِفَان لموت أحد من الناس، فإذا رأيتم منها شيئا فَصَلُّوا، وَادْعُوا حتى ينكشف ما بكم


Tema:

سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ان کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تمہیں اللہ کی ان نشانیوں میں سے کوئی نظر آئے تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں لاحق ہونے والی وہ کیفیت دور ہوجائے۔

عن أبي مسعود عُقبة بن عَمْرو الأنصاري البَدْري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، يُخَوِّفُ الله بهما عباده، وإنهما لا يَنْخَسِفَان لموت أحد من الناس، فإذا رأيتم منها شيئا فَصَلُّوا، وَادْعُوا حتى ينكشف ما بكم»

ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ان کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تمہیں اللہ کی ان نشانیوں میں سے کوئی نظر آئے تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں لاحق ہونے والی وہ کیفیت دور ہوجائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيَّن -صلى الله عليه وسلم- أن الشمس والقمر من آيات الله الدالة على قدرته وحكمته، وأن تغيُّر نظامهما الطبيعي، لا يكون لحياة العظماء أو موتهم كما يعتقد أهل الجاهلية فلا تؤثر فيهما الحوادث الأرضية.
وإنما يكون ذلك لأجل تخويف العباد، من أجل ذنوبهم وعقوباتهم فيجددوا التوبة والإنابة إلى الله تعالى.
ولذا أرشدهم أن يفزعوا إلى الصلاة والدعاء، حتى ينكشف ذلك عنهم وينجلي، ولله في كونه أسرار وتدبير.
606;بی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جو اس کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ ان کے فطری نظام میں تبدیلی بڑے لوگوں کی زندگی یا موت کی وجہ سے نہیں ہوتی جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا۔ لہٰذا زمین پر رونما ہونے والے واقعات ان پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں
ایسا تو بندوں کو ان کے گناہوں اور ان پر ملنے والی سزاؤں سے ڈرانے کے لئے ہوتا ہے تا کہ وہ نئے سرے سے اللہ سے توبہ کریں اور اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اسی لئے نبی ﷺ نے ان کی راہنمائی فرمائی کہ جب تک یہ گرہن زائل نہ ہو جائے اور چھٹ نہ جائے تب تک وہ نماز اور دعا میں لگے رہیں۔ اور اللہ تعالی کے اپنی کائنات میں بہت سے اسرار اور انداز تصرف ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3101

 
 
Hadith   173   الحديث
الأهمية: إن هذه الآيات التي يُرْسِلُهَا الله -عز وجل-: لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن الله يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بها عباده، فإذا رأيتم منها شيئا فَافْزَعُوا إلى ذكر الله ودُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ


Tema:

بے شک یہ نشانیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو، تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر، دعا اور استغفار میں لگ جاؤ۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: خَسَفَت الشمس على زمان رسول الله -صلى الله عليه وسلم-. فقام فَزِعًا، ويخشى أن تكون الساعة، حتى أتى المسجد، فقام، فصلى بأطول قيام وسجود، ما رأيته يفعله في صلاته قطُّ، ثم قال: إن هذه الآيات التي يُرْسِلُهَا الله -عز وجل-: لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن الله يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بها عباده، فإذا رأيتم منها شيئا فَافْزَعُوا إلى ذكر الله و دُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے، اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے مسجد میں آ کر بہت ہی لمبے قیام اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ ﷺ کو ایسی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا: بے شک یہ نشانیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو، تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر، دعا اور استغفار میں لگ جاؤ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما ذهب ضوء الشمس أو شيء منه في عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- قام فزعًا، لأن معرفته الكاملة بربه -تعالى- أوجبت له أن يصير كثير الخوف وشديد المراقبة؛ لضلال أكثر أهل الأرض وطغيانهم أو أن ساعة النفخ في الصور حضرت فدخل المسجد، فصلى بالناس صلاة الكسوف، فأطال إطالة لم تعهد من قبلُ إظهارا للتوبة والإنابة، فلما فرغ المصطفى من مناشدته ربه ومناجاته، توجه إلى الناس يعظهم، ويبين لهم أن هذه الآيات يرسلها الله عبرة لعباده، وتذكيرا وتخويفا، ليبادروا إلى الدعاء والاستغفار والذكر والصلاة.
606;بی ﷺ کے عہد میں جب (ایک بار) سورج کی روشنی غائب ہوگئی یا مدھم پڑ گئی، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے؛ اس لیے کہ آپ اپنے رب کی کامل معرفت کی وجہ سے، روئے زمین پر آباد اکثر لوگوں کی گم راہی اور سر کشی کے پیش نظر سخت خوف زدہ رہا کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں صور میں پھونک مارنے کی گھڑی نہ آجائے۔ چنانچہ آپ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز کسوف ادا فرمائی۔ توبہ اور انابت کے اظہار کے لیے نماز اس قدر لمبی پڑھی کہ اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے تھے۔ پھر جب نبی مصطفیٰ ﷺ رب کی بارگاہ میں فریاد اور اس سے مناجات سے فارغ ہوئے، تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور انھیں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو بندوں کی عبرت، یاد دہانی اور خوف دلانے کے لیے بھیجتا ہے؛ تاکہ وہ دعا و استغفار اور ذکر و نماز کی طرف سبقت کریں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3102

 
 
Hadith   174   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدعو: اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن فتنة الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، ومن فتنة الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے: ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدعو: اللَّهُمَّ  إني أعوذ بك من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن فتنة الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، ومن فتنة الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ».
وفي لفظ لمسلم: «إذا تَشَهَّدَ أحدكم فَلْيَسْتَعِذْ بالله من أَرْبَعٍ، يقول: اللهُمَّ إني أعوذ بك من عذاب جَهَنَّم...». ثم ذكر نحوه.

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ دعا فرماتے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ» ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔
صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: ”جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے، تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ...“ یعنی اے اللہ میں تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں... پھر باقی حدیث اسی طرح بیان کی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
استعاذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله من أربع، وأمرنا أن نستعيذ بالله في تشهدنا في الصلاة من تلك الأربع، من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن شهوات الدنيا وشبهاتها، ومن فتنة الْمَمَات، استعاذ منها؛ لعظم خطرها، وفتن القبر التي هي سبب عذابه، ومن فتن المحيا فتنة الدَّجَّالين الذين يظهرون على الناس بصورة الحق، وهم متلبسون بالباطل، وأعظمهم فتنة، الذي صحت الأخبار بخروجه في آخر الزمان، وهو المسيح الدَّجَّال؛ ولذلك خصه بالذكر.
606;بی علیہ الصلاۃ والسلام نے چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگی اور ہمیں حکم دیا کہ ہم بھی نماز کے دوران تشہّد میں چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں، قبر اور جہنم کے عذاب سے، دنیا کی شہوتوں اور شبہات سے، موت کے فتنوں سے۔ ان سے اس لیے پناہ مانگی کہ ان کا خطرہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ قبر کے فتنے سے مُراد عذابِ قبر کے اسباب ہیں۔ زندگی کے فتنوں سے مُراد دجّالوں کا فتنہ ہے، جو سچی شکلوں کے ساتھ لوگوں پر ظاہر ہوںگے اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کریں گے۔ ان میں سب سے بڑا فتنہ کانا دجال کا فتنہ ہے، جس کے آخری زمانے میں نکلنے کے بارے میں صحیح احادیث وارد ہوئیں ہیں اور اسی وجہ سے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3103

 
 
Hadith   175   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بين التكبير والقراءة: ما تقول؟ قال: أقول: اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثَّلْجِ وَالْبَرَدِ


Tema:

یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ بتائیں کہ تکبیرِ تحریمہ اور قرأت کے مابین سکتہ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ”اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغسلني من خطاياي بالماء الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.“

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كَبَّرَ في الصلاة سكت هُنَيْهَةً قبل أن يقرأ، فقلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بين التكبير والقراءة: ما تقول؟ قال: أقول: اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغْسِلْني من خطاياي بالماء والثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں تکبیر تحریمہ کہتے تو قرأت کو شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ بتائیں کہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے مابین سکتہ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ”اللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔ اللهم اغسلني من خَطَایَایَ بِالْمَاء وَ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ“۔
ترجمہ: اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كبر للصلاة تكبيرة الإحرام، خفض صوته مدة قليلة قبل أن يقرأ الفاتحة.
وكان الصحابة يعلمون أنه يقول شيئاً في هذه السكتة، إما لأن الصلاة كلها ذكر لا سكوت فيها لغير استماع, وإما لحركة من النبي صلى الله عليه وسلم يعلم بها أنه يقرأ، ولحرص أبي هريرة-رضي الله عنه- على العلم والسنة قال: أفديك يارسول الله بأبي وأمي، ماذا تقول في هذه السكتة التي بين التكبير والقراءة؟
فقال: أقول: " اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد ".
وهذا دعاء في غاية المناسبة في هذا المقام الشريف، موقف المناجاة، لأن المصلي يتوجه إلى الله-تعالى- في أن يمحو ذنوبه وأن يبعد بينه وبينها إبعاداً لا يحصل معه لقاء، كما لا لقاء بين المشرق والمغرب أبدًا, وأن يزيل عنه الذنوب والخطايا وينقيه منها، كما يزال الوسخ من الثوب الأبيض، وأن يغسله من خطاياه ويبرد لهيبها وحرها، - بهذه المنقيات الباردة؛ الماء، والثلج، والبرد. وهذه تشبيهات، في غاية المطابقة.   وبهذا الدعاء يكون متخلصا من آثار الذنوب فيقف بين يدي الله عز وجل على أكمل الحالات، والأولى أن يعمل الإنسان بكل الاستفتاحات الصحيحة الواردة، يعمل بهذا تارة، وبهذا تارة، وإن كان حديث أبي هريرة هذا أصحها. والله أعلم.
606;بی ﷺ جب نماز کے لیے تکبیرِ تحریمہ کہتے تو سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے کچھ دیر اپنی آواز کو پست رکھتے۔ صحابہ کرام جانتے تھے کہ آپ ﷺ اس سکتے میں کچھ پڑھتے ہیں۔ انہیں یہ علم یا تو اس وجہ سے تھا کہ نماز ساری کی ساری ذکر ہے اور سماعت (قرآن) کےعلاوہ اس میں کوئی خاموشی نہیں ہوتی، یا پھر آپ ﷺ کی حرکت کی وجہ سے معلوم ہو جاتا کہ آپ ﷺ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حصول علم اور سنت کو سیکھنے کے بہت حریص تھے اس لیے انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ تکبیرتحریمہ اور قرأت کے درمیان والے سکتے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ’’ اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد‘‘۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے‘‘۔
یہ دعا اس اعلیٰ مقام مناجات سے بہت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نمازی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس غرض سے کہ وہ اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے اور گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ پیدا کر دے کہ وہ ایک دوسرے سے مل ہی نہ سکیں جیسا کہ مشرق و مغرب کبھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے اور یہ کہ وہ اس کے گناہوں اور خطاؤں کو ختم کر دے اور اسے ان سے پاک صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے سے گندگی صاف کی جاتی ہے اور یہ کہ وہ اس سے اس کی خطائیں دھو دے اور ان کی لپٹ اور تپش کو ان ٹھنڈی صفائی کرنے دینے والی اشیاء یعنی پانی، برف اور اولوں سے ٹھنڈا کر دے۔ یہ ایسی تشبیہات ہیں جن میں بہت ہی زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ اس دعا کے ساتھ وہ گناہوں کے آثار سے خلاصی پا لے گا اور بہترین حالت میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اور بہتر یہ ہے کہ انسان ان تمام افتتاحی کلمات (ثنا کی دعاؤں) کو پڑھے جو صحیح احادیث میں آئے ہیں۔کبھی کسی کو پڑھ لے اور کبھی کس کو۔ اگرچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ و اللہ اعلم۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3104

 
 
Hadith   176   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يُكَبِّرُ حين يقوم، ثم يُكَبِّرُ حين يركع، ثم يقول: سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ، حين يَرْفَعُ  صُلْبَهُ من الرَّكْعَةِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے، پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يُكَبِّرُ حين يقوم، ثم يُكَبِّرُ حين يركع، ثم يقول: سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ، حين يَرْفَعُ  صُلْبَهُ من الرَّكْعَةِ، ثم يقول وهو قائم: ربنا ولك الحمد، ثم يُكَبِّرُ حين يَهْوِي، ثم يُكَبِّرُ حين يَرْفَعُ  رأسه، ثم يُكَبِّرُ حين  يَسْجُدُ، ثم يُكَبِّرُ حين يَرْفَعُ  رأسه، ثم يفعل ذلك في صلاته كلها حتى يقضيها، ويُكَبِّرُ حين يقوم من الثِّنْتَيْنِ  بعد الجلوس،  ثم يقول: أبو هريرة «إني لأشَبَهُكم صلاة برسول الله -صلى الله عليه وسلم-».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے، پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے۔ پھر کھڑے ہونے کی حالت میں ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہتے۔ پھر جب (سجدہ کے لئے) جھکتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر پوری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اس کو پورا کر لیتے۔ اسی طرح جب دو رکعتوں سے، بیٹھنے کے بعد اٹھتے (تب بھی) تکبیر کہتے۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة كلها تعظيم لله بالقول والفعل، في هذا الحديث الشريف بيان شعار الصلاة، وهو إثبات الكبرياء لله -سبحانه وتعالى- والعظمة، فما جعل هذا شعارها وسمتها، إلا لأنها شرعت لتعظيم الله وتمجيده.
فحين يدخل فيها، يكبر تكبيرة الإحرام، وهو واقف معتدل القامة.
وبعد أن يفرغ من القراءة ويهوى للركوع يكبر.
فإذا رفع من الركوع، قال: "سمع الله لمن حمده" واستتم قائماً، ثم حمد الله وأثنى عليه في القيام.
ثم يكبر في هُوِيه إلى السجود، ثم يكبر حين يرفع رأسه من السجود، ثم يفعل ذلك في صلاته كلها، حتى يفرغ منها، وإذا قام من التشهد الأول في الصلاة ذات التشهدين، كبر في حال قيامه، فخص الشارع كل انتقال بالتكبير إلا الرفع من الركوع.
606;ماز پوری کی پوری قول و فعل کے ذریعے اللہ کی تعظیم پر مشتمل ہے۔ اس حدیث میں نماز کے شعار کا بیان ہے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اثبات ہے۔ اللہ نے اس کو نماز کا شعار اور خصوصیت بنایا کیونکہ نماز مشروع ہی اللہ کی عظمت و بزرگی کے بیان کے لئے ہوئی ہے۔
چنانچہ جب آدمی نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہتا ہے۔
اور جب قراءت سے فارغ ہوتا ہے اور رکوع کے لئے جھکتا ہے تو تکبیر کہتا ہے۔
جب رکوع سے اٹھتا ہے تو "سمع اللہ لمن حمدہ" کہتا ہے۔اور پوری طرح سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے، پھر حالتِ قیام میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔
پھر سجدے میں جانے کے لئے جھکتے ہوئے تکبیر کہتا ہے، پھر جس وقت سجدے سے اپنا سر اٹھاتا ہے تب بھی تکبیر کہتا ہے۔ پھر وہ اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرتا ہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب دو تشہد والی نماز میں پہلی تشہد سے اٹھتا ہے تو کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر کہتا ہے۔ چنانچہ شارع علیہ السلام نے ہر انتقال کو تکبیر کے ساتھ مخصوص کیا ہے سوائے رکوع سے اٹھنے کے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3105

 
 
Hadith   177   الحديث
الأهمية: إذا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا  بالصلاة، فإن شدة الْحَرِّ من فَيْحِ جَهَنَّمَ


Tema:

جب گرمی کی شدت زیادہ ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

عن عبد الله بن عُمَرَ وأبي هُرَيْرَةَ وأبي ذر -رضي الله عنهم- عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا  بالصلاة. فإن شدة الْحَرِّ من فَيْحِ جَهَنَّمَ».

عبد اللہ بن عمر، ابوہریرہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب گرمی کی شدت زیادہ ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تؤخر صلاة الظهر عند اشتداد الحر -الذي هو من تنفس ووهج جهنم- إلى وقت البرد لئلا يشغله الحر والغم عن الخشوع.
606;بی ﷺ نے حکم دیا کہ جب گرمی کی شدت بڑھ جائے جو کہ جہنم کی سانس و جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے تو نمازِ ظہر کو ٹھنڈے وقت تک موخر کر دیا جائے تا کہ گرمی اور بے چینی کی وجہ سے نمازی کا خشوع نہ جاتا رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3106

 
 
Hadith   178   الحديث
الأهمية: إذا قلت لصاحبك: أَنْصِتْ يوم الجمعة والإمام يَخْطُبُ، فقد لَغَوْتَ


Tema:

جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ "خاموش ہو جاؤ" تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی۔

عن أبي هُريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إذا قلتَ لصاحبك: أَنْصِتْ يوم الجمعة والإمام يَخْطُبُ، فقد لَغَوْتَ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ "خاموش ہو جاؤ" تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أعظم شعائر الجمعة الخطبتان، ومن مقاصدها وعظ الناس وتوجيههم، ومن آداب المستمع الواجبة: الإنصات فيهما للخطيب، ليتدبر المواعظ، ولذا حذر النبي -صلى الله عليه وسلم- من الكلام، ولو بأقل شيء، مثل نهي صاحبه عن الكلام ولو بقوله: " أنصت"، ومن تكلم والإمام يخطب فقد لغا فيحرم من فضيلة الجمعة؛ لأنه أتى بما يشغله ويشغل غيره عن سماع الخطبة.
580;معہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ خطبہ سننے والوں کے لیے جن آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ان میں سے ایک خطیب کو خاموشی سے سننا بھی ہے تاکہ وہ وعظ و نصیحت پر غور و تدبر کر سکیں۔ اسی لیے نبی ﷺ نے گفتگو کرنے سے منع فرمایا اگرچہ انتہائی کم ہی کیوں نہ ہو مثلاً اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو یہ کہہ کر بولنے سے منع کرنا کہ ”خاموش ہو جاؤ“۔ جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت اگر کوئی بات کرے تو وہ ایک لغو حرکت کا مرتکب ہوتا ہے اور یوں جمعہ کی فضیلت سےمحروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسی حرکت کی جس نے نہ صرف اسے خطبہ سننے سے بے گانہ کردیا بلکہ دوسروں کی توجہ بھی اس سے ہٹا دی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3107

 
 
Hadith   179   الحديث
الأهمية: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بن عَبْدِ الْمُطَّلِب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أن يبيت بمكة ليالي مِنى، من أجل سِقَايَتِه فأذن له


Tema:

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے (حجاج کو) پانی پلانے کے لیے ایامِ منیٰ میں، مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی۔

عن عبد الله بن عُمَر -رضي الله عنه- قال: «اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بن عَبْدِ الْمُطَّلِب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أن يبيت بمكة ليالي مِنى، من أجل سِقَايَتِه فأذن له».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے (حجاج کو) پانی پلانے کے لیے ایامِ منیٰ میں، مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المبيت بمِنى ليالي التشريق أحد واجبات الحج التي فعلها النبي -صلى الله عليه وسلم-، فإن الإقامة بـ"منى" تلك الليالي والأيام من الطاعة لله -تعالى- ومن شعائر الحج.
ولما كانت سِقاية الحجيج من القُرَبِ المفضلة، لأنها خدمة لحجاج بيته وأضيافه، رخص -صلى الله عليه وسلم- لعمه العباس في ترك المبيت بـمِنى؛ لكونه قائماً على السقاية، فيقوم بِسَقْي الحجاج، وهي مصلحة عامة، مما دلَّ على أن غيره، ممن لا يعمل مثل عمله وليس له عذر ليس له هذه الرخصة.
575;یامِ تشریق کے دوران منیٰ میں رات گزارنا حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، جنھیں نبی ﷺ نے سرانجام دیا۔ ان راتوں اور ایام میں مقامِ منیٰ میں قیام کرنا اللہ کی اطاعت اور شعائرِ حج میں سے ہے۔
چوں کہ حاجیوں کو پانی پلانا بہت ہی گراں پایہ نیکیوں میں سے ہے اس لیے کہ یہ اللہ کے گھر کے زائرین اور اس کے مہمانوں کی خدمت ہے اسی لیے آ پﷺ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو منیٰ میں رات نہ گزارنے کی رخصت دے دی کیونکہ ان پر سقایہ کی ذمہ داری تھی اور انھیں حاجیوں کو پانی پلانا تھا۔ یہ ایک عمومی مصلحت تھی جس سے معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص جس کو کوئی ایسا کام نہ کرنا ہو اور نہ ہی اسے کوئی عذر لاحق ہو اس کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3108

 
 
Hadith   180   الحديث
الأهمية: أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فإنها إن تَكُ صالحة: فخير تُقَدِّمُونَهَا إليه، وإن تَكُ سِوى ذلك: فشرٌ تَضَعُونَهُ عن رِقَابِكُمْ


Tema:

جنازے میں جلدی کرو ۔اگر وہ اچھا شخص تھا تو تم اس کو بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر کچھ اور تھا تو شر کو اپنی گردنوں سے ہٹا رہے ہو۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فإنها إن تَكُ صالحة: فخير تُقَدِّمُونَهَا إليه. وإن تَكُ سِوى ذلك: فشرٌ تَضَعُونَهُ عن رِقَابِكُمْ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنازے (کو لے جانے) میں جلدی کرو ۔اگر وہ اچھا شخص تھا تو تم اس کو بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر کچھ اور تھا تو شر کو اپنی گردنوں سے ہٹا رہے ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر الشارع الحكيم بالإسراع بدفن الجنازة، والاحتمال الآخر أن المراد الإسراع في تجهيز الميت، من التغسيل والصلاة والحمل والدفن، وذلك لأنها إذا كانت صالحة، فإنها ستقدم إلى الخير والفلاح، ولا ينبغي تعويقها عنه، وهي تقول: قَدِّموني قدموني، وإن كانت سوى ذلك، فهي شر بينكم، فينبغي أن تفارقوه، وتريحوا أنفسكم من عنائه ومشاهدته، فتخففوا منه بوضعه في قبره.
588;ارع نے جنازے کو دفن کرنے میں جلدی کرنے کا حکم دیا۔ ایک دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد اس کی تجہیز و تکفین، غسل دینے، نمازِ جنازہ پڑھنے، اٹھا کر لے جانے اور دفن میں جلدی کرنا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شخص اگر نیک ہے تو (جلدی کر کے) اسے بھلائی اور کامیابی کی طرف بڑھایا جا رہا ہو گا اور یہ مناسب نہیں کہ اس کے اور بھلائی کے مابین رکاوٹ بنا جائے جب کہ جنازہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے آگے لے کر چلو، مجھے آگے لے کر چلو۔ اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور ہو تو پھر یہ تمہارے درمیان موجود ایک شر ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ تم اس سے الگ ہو جاؤ اور اس کی مصیبت اور اس کے مشاہدے سے اپنے کو آپ کو چھٹکارا دلاؤ اور اسے قبر میں رکھ کر جلد سبکدوش ہو جاؤ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3109

 
 
Hadith   181   الحديث
الأهمية: ألا أحدثكم حديثا عن الدجال ما حدث به نبي قومه! إنه أعور، وإنه يجيء معه بمثال الجنة والنار، فالتي يقول إنها الجنة هي النار


Tema:

میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات نہ بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کونہیں بتائی !۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: ألا أُحَدِّثُكُمْ حديثا عن الدجال ما حدَّثَ به نبيٌّ قومه! إنه أعور، وإنه يَجيءُ معه بمثالِ الجنة والنار.

ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات نہ بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کونہیں بتائی! وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ما من نبي من الأنبياء إلا أنذر قومه الدجال الأعور، وأنه لا يأتي إلا في آخر الزمان، أما نبينا -صلى الله عليه وسلم- فهو الذي فصل البيان في الدجال بما لم يقله الأنبياء والمرسلين قبله، وأنه يوهم الناس، ويُلبِّس عليهم فيحسبون أن هذا الذي أطاعه أدخله الجنة، وأن هذا الذي عصاه أدخله النار، والحقيقة بخلاف ذلك.
729;ر نبی نے اپنی قوم کو کانے دجال سے ڈرایا ہے اور انہیں خبر دی ہے کہ وہ آخری زمانے میں آئے گا۔ ہمارے نبی ﷺ نے تو دجال کے بارے میں اتنی تفصیل بتائی ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی اور رسول نے اتنی تفصیل نہیں بتائی۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ وہ لوگوں کو وہم میں ڈالے گا اور حقائق کو ان کے سامنے گڈ مڈ کر کے پیش کرے گا بایں طور کہ وہ سمجھیں گے کہ جس نے اس کی اطاعت کی اسے وہ جنت میں داخل کر دے گا اور جس نے اس کی نافرمانی کی اسے وہ جہنم میں جھونک دے گا حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3110

 
 
Hadith   182   الحديث
الأهمية: اعْتَدِلُوا في السجود، ولا يَبْسُطْ أحدكم ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الكلب


Tema:

سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اورتم میں سے کوئی بھی شخص اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔

عن أَنَس بن مالك -رضي الله عنه- عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: «اعْتَدِلُوا في السجود، ولا يَبْسُطْ أحدكم ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الكلب».

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بالاعتدال في السجود، وذلك بأن يكون المصلي على هيئة حسنة في السجود، حيث يجعل كفيه على الأرض، ويرفع ذراعيه ويبعدهما عن جَنْبيه، لأن هذه الحال عنوان النشاط والرغبة المطلوبين في الصلاة، ولأن هذه الهيئة الحسنة تُمكِّن أعضاء السجود كلها من الأخذ بحظها من العبادة.
ونُهِيَ عن بسط الذراعين في السجود؛ لأنه دليل الكسل والملل، وفيه تشبه بالكلب، وهو تشبه بما لا يليق.
606;بی ﷺ نے سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ نمازی سجدے میں اچھی ہیئت اختیار کرے بایں طور کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا لے، اپنے بازوؤں کو اوپر اٹھا لے اور انھیں پہلوؤں سے دور رکھے۔ کیوں کہ یہ حالت نماز میں چستی اور دلچسپی کی غمازی کرتی ہے اور ا س اچھی ہیئت میں تمام اعضاء اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اپنے اپنے حصے کی عبادت سر انجام دے سکیں۔ سجدے میں بازوؤں کو بچھانے سے منع کیا گیا کیوں کہ یہ سستی اور اکتاہٹ کی دلیل ہے اور اس میں کتے کی مشابہت ہوتی ہے جو کہ ایک غیر مناسب مشابہت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3111

 
 
Hadith   183   الحديث
الأهمية: سألت أنس بن مالك: أكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي في نَعْلَيْهِ؟ قال: نعم


Tema:

میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے کہا ’ہاں‘۔

عن مَسْلَمَةَ سَعِيدِ بْنِ يَزِيد قال: سألت أنس بن مالك: أكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي في نَعْلَيْهِ؟ قال: «نعم».

ابومسلمہ سعید بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے کہا ’ہاں‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من المقاصد الشرعية مخالفة أهل الكتاب، وإزالة كل شيء فيه مشقة وحرج على المسلم، وقد سأل سعيد بن يزيد وهو من ثقات التابعين أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم: أكان يصلى في نعليه؛ ليكون له قدوة فيه؟ أو كأنه استبعد ذلك لما يكون فيها من القذر والأذى غالبًا، فأجابه أنس: نعم، كان يصلى في نعليه، وأن ذلك من سنته المطهرة، وهذا ليس خاصًّا بأرض أو زمن معين.
740;ہود کی مخالفت اور اس چیز کا ازالہ جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی تنگی یا مشقت ہو اس کو دور کرنا مقاصدِ شریعت میں شامل ہے۔ سعید بن یزید جو کہ ثقات تابعین میں سے ہیں انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کےبارے میں پوچھا کہ کیا آپ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے، تاکہ یہ ان کے لیے اس سلسلے میں قابلِ تقلید نمونہ بن جائے؟ یا آپ ﷺ جوتے دور رکھتے کیوں کہ ان میں زیادہ طور پر گندگی اور تکلیف دہ چیزیں لگی ہوتی ہیں! تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ: ہاں رسول اللہ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے اور یہ آپ کی سنت مطہرہ سے ہے، یہ کسی خاص جگہ یا مخصوص وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3112

 
 
Hadith   184   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا حتى يمر الرجل على القبر، فيتمرغ عليه ويقول: يا ليتني كنت مكان صاحب هذا القبر، وليس به الدين، ما به إلا البلاء


Tema:

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک یہ صورت حال نہ ہوجائے کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا!۔ اس کا سبب دین نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی مصیبت کی وجہ سے یہ تمنا کر ے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا حتى يمر الرجل على القبر، فَيَتَمَرَّغَ عليه ويقول: يا ليتني كنت مكان صاحب هذا القبر، وليس به الدِّينُ، ما به إلا البلاء».

ٍّؓ!ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہوجائے کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا!۔ اس کا سبب دین نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی مصیبت کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يمر الرجل بقبر الرجل فيتقلب في التراب يريد أن يكون مكانه مما أصابه من الأنكاد الدنيوية وكثرة الفتن والمحن، وذلك لاستراحة الميت من نصب الدنيا وعنائها.
وليس في الحديث تمني الموت وإنما هو إخبار عما سيقع في آخر الزمان.
606;بی کریم ﷺ ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ آخری زمانے میں ایسی صورتِ حال ہو گی کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا اور جن دنیوی پریشانیوں اور ان گنت فتنوں اور آزمائشوں میں وہ مبتلا ہوگا ان کی وجہ سے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ وہ اس قبر والے کی جگہ پر ہوتا کیونکہ مرنے والا دنیا کی تھکان اور مشقت سے خلاصی پا گیا ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ موت کی تمنا کرنی چاہیے بلکہ اس میں تو صرف اس بات کی خبر دی گئی ہے جو آخرے زمانے میں واقع ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3114

 
 
Hadith   185   الحديث
الأهمية: لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يقتتل عليه، فيقتل من كل مائة تسعة وتسعون


Tema:

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو».   وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا نبينا الكريم -صلى الله عليه وسلم- أن قرب قيام الساعة يكشف نهر الفرات عن كنز من ذهب أو جبل من ذهب بمعنى أن الذهب يخرج جبلا, وأن الناس سيقتتلون عليه لأن ذلك من الفتن, ثم ينهانا -صلى الله عليه وسلم- عن الأخذ منه لمن أدرك ذلك؛ لأنه لا أحد ينجو منه، وربما يتأول بعض من يحضر ذلك هذا الحديث ويصرفه عن معناه ليسوغ لنفسه الأخذ منه، نعوذ بالله من الفتن.
662;یارے نبی ﷺ ہمیں بتلا رہے ہیں کہ قیامت کے قریب دریائے فرات سونے کا ایک خزانہ یا سونے کا ایک پہاڑ ظاہرکرے گا، یعنی سونا ایک پہاڑ کی شکل میں نکلے گا اور لوگ اس کے حصول کے لیے باہم لڑیں گے کیونکہ یہ ایک فتنہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ ہم میں سے اس شخص کو جو اس وقت موجود ہو اس کے لینے سے منع کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت موجود ہوں ان میں سے کچھ لوگ اس حدیث کی تاویل کریں اور حديث کو اس کی حقیقی معنی سے پھیر کر کوئی اور معنی مراد ليں تاکہ اپنے لئے اس خزانے سے کچھ لينے کو جائز ٹھہرا سکیں۔ ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3115

 
 
Hadith   186   الحديث
الأهمية: يتركون المدينة على خير ما كانت، لا يغشاها إلا العوافي


Tema:

لوگ مدینے کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ جائیں گے، البتہ وہ ایسے اجڑا ہوا ہوگا کہ وہاں وحشی جانور ہی بسیں گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعتُ رسولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يقولُ: (يتركون المدينة على خير ما كانت، لا يَغْشَاهَا إلا العَوَافِي يريد -عوافي السِّباع والطير-، وآخِر من يُحْشَرُ راعيان من مُزَيْنَةَ، يُرِيدَانِ المدينةَ يَنْعِقَانِ بغنمهما، فيَجِدَانِها وُحُوشًا، حتى إذا بلغا ثَنِيَّةَ الوَدَاعِ خَرَّا على وُجوههما).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ مدینے کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ جائیں گے، البتہ وہ ایسے اجڑا ہوا ہوگا کہ وہاں وحشی جانور (درند اور پرند) ہی بسیں گے اور سب سے آخر میں جنھیں جمع کیا جائے گا، وہ قبیلۂ مزینہ کے دو چرواہے ہوں گے؛ وہ اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے مدینہ آئیں گے، لیکن وہاں انھیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے، یہاں تک کہ جب وہ ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -ضلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن المدينة النبوية زادها الله تشريفا وتعظيما يخرج عنها ساكنوها، ولا يبقى فيها إلا السباع والطيور ليس فيها أحد، وأن هذا سيحصل في آخر الزمان، وأنه سيأتي راعيا غنم من مزينة إلى المدينة يصيحان بغنمهما، فيجدانها ذات وحشة لخلائها، وهما آخر من يحشر، فإذا بلغا ثنية الوداع سقطا ميتين.
575;س حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مدینہ طیبہ -اللہ تعالیٰ اس کے عز وشرف کو دو چند کر دے- کے باشندے اسے چھوڑ کر نکل جائیں گے اور درندوں اور پرندوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا، نیز یہ کہ یہ آخری زمانے میں ہوگا۔ آخر میں مزینہ کے دو چرواہے اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے مدینہ آئیں گے، لیکن وہ اسے سنسان اور وحشت ناک پائیں گے۔ وہ سب سے آخر میں حشر کا سامنا کرنے والے ہوں گے۔ جب وہ ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو منہ کے بل گر کر مر جائیںگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3116

 
 
Hadith   187   الحديث
الأهمية: يكون خليفة من خلفائكم في آخر الزمان يحثو المال ولا يعده


Tema:

آخری زمانے میں تمہارے خلفاء میں سے ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بغیر شمار کیے چُلّو بھر بھر کر مال دے گا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يكون خليفة من خلفائكم في آخر الزمان يحثُو المالَ ولا يَعُدُّهُ».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آخری زمانے میں تمہارے خلفاء میں سے ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بغیر شمار کیے چُلّو بھر بھر کر مال دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا الرسول الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يقوم خليفة المسلمين بإنفاق المال بلا عدد ولا حساب لكثرة الأموال والغنائم مع سخاء نفسه.
585;سول کریم ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ آخری زمانے میں مسلمانوں کا ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بنا شمار کیے اور بغیر حساب و کتاب کے مال خرچ کرے گا کیونکہ اس کی طبعی سخاوت کے ساتھ ساتھ اموال وغنائم کی بھی کثرت ہو گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3117

 
 
Hadith   188   الحديث
الأهمية: ليأتين على الناس زمان يطوف الرجل فيه بالصدقة من الذهب فلا يجد أحدا يأخذها منه، ويرى الرجل الواحد يتبعه أربعون امرأة يلذن به من قلة الرجال وكثرة النساء


Tema:

لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہو گا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی؛ ایسا مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ہوگا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لَيَأْتِيَنَّ على الناس زمانٌ يَطُوفُ الرجلُ فيه بالصدقة من الذهب فلا يجد أحدا يأخذها منه، ويُرَى الرجلُ الواحدُ يَتْبَعُهُ أربعون امرأة يَلُذْنَ به من قِلَّةِ الرجال وكَثْرَةِ النساء».

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہو گا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی؛ ایسا مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سيكثر المال بين يدي الناس حتى لا يوجد من يأخذه، وسيقل الرجال ويكثر النساء إما بسبب الحروب الطاحنة وإما لكثرة ولادة النساء، حتى يكون للرجل الواحد أربعون امرأة، من بنات وأخوات وشبههن من القريبات يلتجئن إليه ويستغثن به.
593;ن قریب لوگوں کے یہاں مال کی بہتات ہوگی، یہاں تک کہ اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ نیز مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت ہوگی؛ ایسا یا تو ہلاکت خیز جنگوں کی وجہ سے ہوگا یا خواتین کی کثرتِ ولادت کی وجہ سے۔ یہاں تک کہ ایک مرد کے پاس چالیس عورتیں ہوں گی، بشمول اس کی بیٹیوں، بہنوں اور دیگر قریبی خواتین وغیرہ کے، جو اس کی پناہ و مدد کی خواست گار ہوں گی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3118

 
 
Hadith   189   الحديث
الأهمية: اشترى رجل من رجل عقارا، فوجد الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب


Tema:

ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی اور زمین خریدنے والے کو اس میں ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: اشترى رجل من رجل عَقَارًا، فوجد الذي اشترى العَقَارَ في عَقَارِه جَرَّةً فيها ذهب، فقال له الذي اشترى العقار: خذ ذهبك، إنما اشتريت منك الأرض ولم أَشْتَرِ الذهب، وقال الذي له الأرض: إنما بِعْتُكَ الأرض وما فيها، فتحاكما إلى رجل، فقال الذي تحاكما إليه: أَلَكُمَا ولد؟ قال أحدهما: لي غلام، وقال الآخر: لي جارية قال: أنكحا الغلام الجارية، وأنفقا على أنفسهما منه وتَصَدَّقَا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی، اتفاقا خریدنے والے کو اس میں ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا۔ اس نے بیچنے والے سے کہا: اپنا سونا لے جاؤ۔ کیوں کہ میں نے تم سے زمین خریدی ہے، سونا نہیں۔ لیکن پہلے مالک نے کہا :میں نے تم سے زمین، اس میں موجود تمام اشیا سمیت بیچ دی ہے۔ چنانچہ دونوں کسی تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا: کیا تمھاری کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ دونوں کا نکاح کر دو اور سونا ان پر خرچ بھی کرو اور صدقہ بھی کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن رجلاً اشترى من رجل أرضا فوجد المشتري بها ذهبا ولشدة ورعه رد هذا الذهب إلى البائع؛ لأنه اشترى الأرض ولم يشتر الذهب الذي أودع فيه، فأبى البائع أيضا أن يأخذه؛ لشدة تحريه وورعه, ولأنه باع الأرض بما فيها، فاختصما وقالا للقاضي: ابعث من يقبضه وتضعه حيث رأيت، فامتنع, فسألهما هل عندهما أولاد؟ فأخبر أحدهما أن عنده غلام، وأخبر الآخر أن عنده جارية، فاقترح عليهما أن يزوج الشاب البنت وينفق عليهما من هذا الذهب وأن يتصدقا منه.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ ایک آدمی نے کسی سے زمین خریدی تو خریدار کو اس میں ایک سونے کا گھڑا ملا۔ اپنے تقویٰ کی وجہ سے اس نے یہ سونا بیچنے والے کو لوٹا دیا؛ کیوں کہ اس نے زمین خریدی تھی، اس میں موجود سونا نہیں۔ لیکن بیچنے والے نے بھی اپنے احتیاط کامل اور پرہیز گاری کی بنا پر لینے سے انکار کردیا۔ انکار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے زمین اس میں موجود تمام چیزوں سمیت بیچی تھی۔ دونوں کا اختلاف ہوا تو دونوں نے قاضی سے کہا: آپ کسی آدمی کو بھیجیے جو اس پر قبضہ کرلے۔ اس کے بعد جسے چاہیں دے دیں۔ لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیااور پوچھا: کیا تمھاری کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ اس نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ دونوں کا نکاح کر دو اور سونا ان پر خرچ بھی کرو اور اس میں سے خیرات بھی کرو۔   --  [صحیح]+ +[متعدد روایات کے ساتھ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3119

 
 
Hadith   190   الحديث
الأهمية: كانت امرأتان معهما ابناهما، جاء الذئب فذهب بابن إحداهما


Tema:

دو عورتوں جن کے ساتھ ان کے دو بچے تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: كانت امرأتان معهما ابناهما، جاء الذئب فذهب بابن إحداهما، فقالت لصاحبتها: إنما ذهب بابنك، وقالت الأخرى: إنما ذهب بابنك، فتحاكما إلى داود -صلى الله عليه وسلم- فقضى به للكبرى، فخرجتا على سليمان بن داود -صلى الله عليه وسلم- فأخبرتاه، فقال: ائتوني بالسكين أَشُقُّهُ بينهما، فقالت الصغرى: لا تفعل! رحمك الله، هو ابنها، فقضى به للصغرى.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”دو عورتوں جن کے ساتھ ان کے دو بچے تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔ اس نے اپنی سہیلی سے کہا کہ تیرے بچے کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہے۔ دوسری نے کہا کہ وہ تیرے بچے کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ فیصلے کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو انھوں نے بڑی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہاں سے نکلیں اور حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان کو سارا ماجرا سنایا۔ انھوں (سلیمان علیہ السلام) نے فرمایا: مجھے چھری دو اس کو درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ چھوٹی کہنے لگی کہ اللہ آپ پر رحم کرے ! ایسا نہ کرنا یہ اسی کا بیٹا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا نبينا -صلى الله عليه وسلم- عن قصة امرأتين خرجتا بابنين لهما فأكل الذئب ابن واحدة منهما وبقي ابن الأخرى، فقالت كل واحدة منهما إنه لي، فتحاكمتا إلى داود -عليه السلام- فقضى به للكبرى منهما اجتهادا منه؛ لأن الكبرى ربما تكون قد توقفت عن الإنجاب، أما الصغرى شابة وربما تنجب غيره في المستقبل، ثم خرجتا من عنده إلى سليمان -عليه السلام- ابنه، فأخبرتاه بالخبر فدعا بالسكين، وقال: أشقه بينكما نصفين، فأما الكبرى فرحبت وأما الصغرى فرفضت، وقالت هو ابن الكبرى، أدركتها الشفقة والرحمة لأنه ابنها حقيقة فقالت هو ابنها يا نبي الله، فقضى به للصغرى ببينة وقرينة كونها ترحم هذا الولد وتقول هو للكبرى ويبقى حيا أهون من شقه نصفين، فقضى به للصغرى.
606;بی کریم ﷺ نے دو عورتوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنےبیٹوں کو لے کر باہر نکلیں تو ان میں سے ایک کے بچے کو بھیڑیا کھا گیا اور ایک کا بچ گیا۔ دونوں یہ کہنے لگیں کہ جو بچ گیا ہے یہ میرا بچہ ہے۔ وہ دونوں فیصلے کے لیے حضر ت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو انھوں نے اجتہاد کرتے ہوئے فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا ۔کیوں کہ ممکن تھا کہ بڑی اب بچہ نہ جن سکے، جب کہ چھوٹی ابھی جوان تھی اور امید تھی کہ مستقبل میں وہ اور بچہ جن لے گی۔ وہ وہاں سے نکلیں اور بچے کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آ گئیں اور ان کو سارا واقعہ سنایا۔ انھوں نے چھری منگوائی اور کہا کہ میں اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں(کہ آدھا آدھا لے لو)۔ بڑی رضا مند ہو گئی جب کہ چھوٹی نے اپنا دعویٰ چھوڑ دیا اور اس کی شفقت اور رحمت غالب آئی کیوں کہ وہ حقیقتاً اس کا بچہ تھا تو وہ کہنے لگی اے اللہ کے نبی! یہ اسی کا بیٹا ہے۔ تو انھوں نے دلیل اور قرینے کی موجودگی میں چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ کیوں کہ اس کا بچے پر رحم کھانا اور یہ کہنا کہ یہ بڑی کا ہی بچہ ہے اور اس کا زندہ رہنا اس کے دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بہتر تھا۔ تو انھوں نے فیصلہ چھوٹی کے حق میں کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3120

 
 
Hadith   191   الحديث
الأهمية: يذهب الصالحون الأول فالأول، ويبقى حثالة كحثالة الشعير أو التمر لا يباليهم الله بالةً


Tema:

نیک لوگ یکے بعد دیگر گزر جائیں گے اور پھر گھٹیا جَو یا گھٹیا کھجور کی طرح کے کچھ لوگ رہ جائیں گے، جن کی اللہ تعالی کو کچھ بھی پروا نہ ہو گی۔

عن مرداس الأسلمي -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «يذهب الصالحون الأول فالأول، ويبقى حُثَالَةٌ كَحُثَالَةِ الشعير أو التمر لا يُبَالِيهُم الله بَالَةً».

مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”نیک لوگ یکے بعد دیگر گزر جائیں گے اور پھر گھٹیا جَو یا گھٹیا کھجور کی طرح کے کچھ لوگ رہ جائیں گے، جن کی اللہ تعالی کو کچھ بھی پروا نہ ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يقبض الله أرواح الصالحين، ويبقى أناس ليسوا أهلًا للعناية، فلا يرفع الله لهم قدراً ولا يقيم لهم وزناً ولا يرحمهم ولا ينزل عليهم الرحمة وهم شرار الخلق عند الله وعليهم تقوم الساعة.
606;بی کریم ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ قرب قیامت میں اللہ تعالی نیک لوگوں کی روحیں قبض فرما لیں گے اور پھر ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے، جو کسی اہتمام وتوجہ کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالی نہ انھیں کوئی قدر و قیمت اور وقعت دے گا اور نہ ان پر رحمت نازل کرے گا۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین لوگ ہوں گے اور انہی پر قیامت آئے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3121

 
 
Hadith   192   الحديث
الأهمية: الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل


Tema:

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَن النبيَّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُر أَحَدُكُم مَنْ يُخَالِل».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہو تا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- أنَّ الإنسان على عادة صاحبه وطريقته وسيرته؛ فالاحتياط لدينه وأخلاقه أن يَتَأمَّل وينظر فيمن يصاحبه، فمن رضِي دينه وخلقه صاحبه، ومن لا تجَنَبَه، فإنَّ الطباع سرَّاقة والصُحبَة مُؤثِّرة في إصلاح الحال وإفساده.
فالحاصل أن هذا الحديث يدل على أنه ينبغي للإنسان أن يصطحب الأخيار؛ لما في ذلك من الخير.
575;بوھریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انسان وہی طور طریقے اور طرز زندگی اختیار کرتا ہے، جو اس کے ساتھی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دین واخلاق کے معاملے میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس بات میں خوب غور وفکر کرے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنا رہا ہے۔ اسے چاہئے کہ جس شخص کا دینی واخلاقی کردار اسے پسند آئے، اسے وہ دوست رکھے اور جس کا دینی واخلاقی کردار پسند نہ آئے اس سے دور رہے۔ طبیعتیں نقال ہوتی ہیں اور صحبت اصلاح حال یا اسے بگاڑنے میں اثر انداز ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو دوست بنائے؛ کیوں کہ اسی میں بہتری ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3122

 
 
Hadith   193   الحديث
الأهمية: لو قد جاء مال البحرين أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا


Tema:

اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا۔

عن جابر -رضي الله عنه- قَالَ: قال لِي النبي -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «لَوْ قدْ جَاءَ مَال البَحرين أَعْطَيتُكَ هَكَذَا وهكذا وهكذا»، فَلَمْ يَجِئْ مَالُ البَحرَينِ حَتَّى قُبِضَ النَّبي -صلَّى الله عليه وسلَّم- فلمَّا جَاء مَالُ البحرينِ أمر أبو بكر -رضي الله عنه- فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِندَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- عِدَةٌ أَو دَينٌ فَلْيَأتِنَا، فَأَتَيتُهُ وقُلتُ لَهُ: إِنَّ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- قال لِي كَذَا وكذا، فَحَثَى لِي حَثِيَّةً فَعَدَدتُهَا، فَإِذَا هِيَ خَمسُمِئَةٍ، فَقَال لي: خُذْ مِثلَيهَا.

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال نہیں آیا یہاں تک کہ آپﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر جب وہ مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرایا کہ جس شخص سے نبیﷺ نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو یا نبیﷺ پر (اس کا) کوئی قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چناچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ رسول الله ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا اور اتنا دوں گا۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنے دونوں ہاتھ بھر کر مجھ کو عطا فرمایا، میں نے اس کو شمار کیا تو وہ (تعداد میں) پانچ سو تھے، پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح دو مرتبہ اور لے لو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- في هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وعده إن جاء مال البحرين أن يعطيه منه نصيبًا وافرًا, فجاء مال البحرين في خلافة أبي بكر بعد أن توفي الرسول -عليه الصلاة والسلام- فقال -رضي الله عنه-: "من كان له عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عِدَة أو دين فليأت"، عدة: يعني وعد أو دين على الرسول -عليه الصلاة والسلام-؛ لأنه ربما يكون الرسول اشترى من أحد شيئا فلزمه دين، أو وعد أحدا شيئا، فجاء جابر -رضي الله عنه- إلى أبي بكر -رضي الله عنه-، وقال: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لو جاء مال البحرين لأعطيتك هكذا وهكذا وهكذا"، فقال: خذ فأخذ بيديه من المال، فعدها فإذا هي خمسمائة، فقال أبو بكر: "خذ مثيلها"؛ لأن الرسول قال هكذا وهكذا وهكذا ثلاث مرات، فأعطاه أبو بكر -رضي الله عنه- العدة التي وعده إياها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
575;س حدیث میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہہ رہے ہیں کہ نبیﷺ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین کا مال آجائے تو انھیں اس مال سے ایک بڑا حصہ عطا کریں گے۔ نبیﷺ کی وفات کے بعد جب بحرین کا مال ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آیا تو آپ نے اعلان کیا کہ جس کسی سے نبیﷺ نے کوئی وعدہ کیا ہو یا نبیﷺ کا کوئی قرض ہو تو وہ حاضر ہو، ”عِدَۃٌ“ سے مراد نبیﷺ کا کوئی وعدہ یا قرض ہے، ہو سکتا ہے کہ نبیﷺ نے کسی سے کچھ خریدا ہو اور وہ قرض باقی ہو یا پھر کسی سے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ نبیﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مال دیا جابر رضی اللہ عنہ نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو تھے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی کے دو مثل لے لو، اس لیے کہ نبیﷺ نے کہا تھا اتنا‘ اتنا اور اتنا تین مرتبہ لہٰذا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اتنا ہی عطا کیا جتنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جابر رضی اللہ عنہ سے وعدہ کیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3123

 
 
Hadith   194   الحديث
الأهمية: أهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة غنمًا


Tema:

رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ بطور ہدی (قربانی کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف) بکریاں بھیجی تھیں۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت: «أَهدَى رسول الله صلى الله عليه وسلم مَرَّةً غَنَمًا».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ بطور ہدی (قربانی کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف) بکریاں بھیجی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- عن هدي النبي -صلى الله عليه وسلم-، والهدي هو ما يُهدى إلى مكة من بهيمة الأنعام، تقرباً إلى اللَّه -عز وجل-، ليذبح في الحرم، والهدي إلى مكة سُنة وقربة، وقد أهدى النبي -صلى الله عليه وسلم- غنماً، وأهدى إبلاً, فالسُّنة ذبحها في الحرم تقرباً إلى الله -عز وجل-، وتوزَّع بين الفقراء والمساكين: مساكين الحرم، أما الهدي الذي يجب بالتمتع، والقران، أو بشيء من ترك الواجبات، أو فعل المحرمات، فيُسمَّى فدية وهو هدي واجب، أما هذا الهدي الذي ذكرت عائشة فهو هدي يتطوع به المؤمن من بلاده، أو يشتريه من الطريق ويهديه إلى هناك هدياً بالغ الكعبة يتقرب به إلى الله -عز وجل-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی ہدی کے بارے میں بتا رہی ہیں۔ ہدی سے مراد وہ جانور ہے، جو مکہ کی طرف اللہ کی خوش نودی کے حصول کے لیے بھیجا جاتا ہے؛ تاکہ اسے حرم میں ذبح کیا جائے۔ مکہ مکرمہ کی طرف ہدی کا جانور بھیجنا سنت اور نیکی کا کام ہے۔ نبی ﷺ نے بطور ہدی بھیڑ بکریاں بھی بھیجیں اور اونٹ بھی۔ سنت یہ ہے کہ اللہ کی خوش نودی کی غرض سے ان جانوروں کو حرم میں ذبح کیا جائے اور فقرا اور مساکین حرم میں تقسیم کر دیا جائے۔ وہ ہدی جو حج تمتع یا حج قران یا پھر واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کرنے یا پھر کسی حرام کا ارتکاب کرنے لینے کی وجہ سے لازم ہوتی ہے، اسے فدیہ کہا جاتا ہے۔ یہ ہدی واجب ہوتی ہے۔ جب کہ وہ ہدی جس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا ہے، اسے مؤمن اپنے علاقے سے بطور نفل پیش کرتا ہے یا پھر راستے میں اسے خریدتا ہے اور حرم کعبہ تک پہنچا دیتا ہے اور اس سے اس کی نیت اللہ عز و وجل کی خوش نودی ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3124

 
 
Hadith   195   الحديث
الأهمية: الخازن المسلم الأمين الذي ينفذ ما أمر به فيعطيه كاملا موفرا طيبة به نفسه فيدفعه إلى الذي أمر له به، أحد المتصدقين


Tema:

مسلمان امانت دار خزانچی جسے کسی چیز کے دینے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے اسے پوری طرح بنا کسی کمی کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے جسے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو تو اس کا شمار صدقہ کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- أَنَّهُ قَالَ: «الخَاِزنُ المسلم الأمين الَّذِي يُنْفِذُ ما أُمِرَ بِهِ فَيُعْطِيهِ كَامِلاً مُوَفَّراً طَيِّبَةً بِهِ نَفسُهُ فَيَدْفَعُه إلى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ، أَحَدُ المُتَصَدِّقِين».
وفي رواية: «الذي يُعطِي مَا أُمِرَ به».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” مسلمان امانت دار خزانچی جسے کسی چیز کے دینے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے اسے پوری طرح بنا کسی کمی کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے جسے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو تو اس کا شمار صدقہ کرنے والوں میں سے ہوتا ہے“۔
اور ایک روایت میں ہے ”جو شخص وہ چیزیں دیتا ہے جسے دینے کا اُسے حکم دیا گیا ہو“۔


فهو مسلم احترازا من الكافر، فالخازن إذا كان كافرا وإن كان أمينا وينفذ ما أمر به ليس له أجر؛ لأن الكفار لا أجر لهم في الآخرة فيما عملوا من الخير، قال الله تعالى: (وقدمنا إلى ما عملوا من عمل فجعلناه هباء منثورا)، وقال تعالى: (ومن يرتدد منكم عن دينه فيمت وهو كافر فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة وأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون)، أما إذا عمل خيرا ثم أسلم فإنه يسلم على ما أسلف من خير ويعطى أجره.
الوصف الثاني: الأمين يعني الذي أدى ما ائتمن عليه، فحفِظ المال، ولم يفسده، ولم يفرط فيه، ولم يعتد فيه.
الوصف الثالث: الذي ينفذ ما أمر به يعني يفعله؛ لأن من الناس من يكون أمينا لكنه متكاسل، فهذا أمين ومنفذ يفعل ما أمر به، فيجمع بين القوة والأمانة.
الوصف الرابع: أن تكون طيبة به نفسه، إذا نفذ وأعطى ما أمر به أعطاه وهو طيبة به نفسه، يعني لا يمن على المعطَى، أو يظهر أن له فضلا عليه بل يعطيه طيبة به نفسه، فهذا يكون أحد المتصدقين مع أنه لم يدفع من ماله فلسا واحدا.

Esin Hadith Caption Urdu


”الخازن“ مبتدا ہے اور ”أحد المتصدقين“خبر ہے۔ یعنی وہ خزانچی جس میں یہ چار اوصاف موجود ہوں یعنی اسلام، امانت، جس چیز کی ادائیگی کا اُسے حکم دیا جائے وہ اس کی تنفیذ کرے، اور یہ کہ جس وقت وہ خرچ کرے اور دے تو انشراح قلب، چہرے کی بشاشت اور خوشی سے دے۔
مسلمان ہونے کی قید میں کافر سے احتراز ہے۔ اگر خزانچی کافر ہو تو اسے کوئی اجر نہیں ملتا اگرچہ وہ امانت دار ہی کیوں نہ ہو اور جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے پورا ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ کیونکہ کفار جو اچھے اعمال کرتے ہیں ان کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾ ترجمہ:”اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا“۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾۔ ترجمہ:”اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے“۔تاہم نیک اعمال کرنے کے بعد اگر وہ اسلام لے آئے تو اس نے جو پہلے نیکیاں کی ہوتی ہیں ان کے ساتھ وہ اسلام لاتا ہے اور ان پر اسے اجر دیا جاتا ہے (یعنی اُس کی زمانۂ کفر کی نیکیوں کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے)۔
دوسری صفت: امانت دار۔ یعنی جس شے کی اسے امانت سونپی گئی ہو اسے وہ پورا کرے۔ مال کی حفاظت کرے، اسے خراب نہ کرے، اس میں افراط نہ برتے اور نہ ہی اس میں کوئی بے جا تصرف کرے۔تیسری صفت: جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے وہ بجا لائے یعنی اسے انجام دے۔ کیونکہ بعض اوقات کوئی شخص امین تو ہوتا ہے لیکن سست ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ شخص امین بھی ہے اور جس کام کا اسے حکم دیا جاتا ہے اسے پورا کرنے والا بھی ہے۔ چنانچہ اس میں قوت اور امانت دونوں صفات موجود ہیں۔
چوتھی صفت: جس بات کا اس کو حکم دیا جائے اس کی انجام دہی کے وقت اور جس شے کو دینے کا اسے کہا گیا ہو اسے دیتے وقت وہ خوش دل ہو یعنی جسے دے اس پر احسان نہ جتلائے اور نہ ہی اس پر یہ ظاہر کرے کہ وہ اس پر فضیلت رکھتا ہے بلکہ خوشدلی کے ساتھ اسے دے۔ یہ شخص صدقہ کرنے والوں میں سے گردانا جائے گا حالانکہ اس نے اپنے مال میں سے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3125

 
 
Hadith   196   الحديث
الأهمية: كان أخوان على عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- وكان أحدهما يأتي النبي -صلى الله عليه وسلم- والآخر يحترف، فشكا المحترف أخاه للنبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: لعلك ترزق به


Tema:

نبی ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور دوسرا کوئی کام کرتا تھا۔ کام کرنے والے نے اپنے بھائی کی نبی ﷺ کے حضور شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان أخوانِ على عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- وكان أحدُهما يأتي النبي -صلى الله عليه وسلم- والآخر يَحتَرِف، فَشَكَا الُمحتَرِف أَخَاه للنبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: «لعَلَّك تُرزَقُ بِهِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور دوسرا کوئی کام کرتا تھا۔ کام کرنے والے نے اپنے بھائی کی نبی ﷺ کے حضور شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حدَّث أنس -رضي الله عنه- فقال: كان أخوان على زمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فكان أحدهما يأتي مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم-  ويلازمه ليتلقى من معارفه ويأخذ من أقواله وأفعاله، وأمَّا الآخر فيحترف الصناعة ويسعى في الكسب، فشكا المحترف أخاه في ترك الاحتراف إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال -صلى الله عليه وسلم- مسليًا له: لعل قيامك بأمره سبب لتيسير رزقك؛ لأن الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه.
575;نس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو آپ ﷺ کی مجلس میں آیا کرتا اور علم کے حصول اور آپ ﷺ کے اقوال و افعال سیکھنے کے لیے ہمہ وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتا، جب کہ دوسرا کوئی کام کاج کرتا اور روزی کماتا تھا۔ اس کام کاج کرنے والے نے نبی ﷺ کے حضور اپنے بھائی کی شکایت کی کہ وہ کام نہیں کرتا۔ اس پر آپ ﷺ نےا سے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی دیکھ بھال اور کفالت کرنا تمھارے لیے تمھارے رزق کے حصول میں آسانی کا باعث ہو۔ کیوں کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، تب تک اللہ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3126

 
 
Hadith   197   الحديث
الأهمية: إنما مثل الجليس الصالح وجليس السوء، كحامل المسك، ونافخ الكير


Tema:

اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنے والا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إنما مَثَلُ الجَلِيسِ الصالحِ وجَلِيسِ السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، ونَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إما أنْ يُحْذِيَكَ، وإما أنْ تَبْتَاعَ منه، وإما أن تجد منه رِيحًا طيبةً، ونَافِخُ الكِيرِ: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه رِيحًا مُنْتِنَةً».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنے والا۔ عطر فروش یا تو تمھیں عطر تحفے میں دے دے گا یا پھر تم اس سے خرید لو گے یا ( کم از کم )تمھیں ا س سے خوش بو تو آئے گی ہی۔ جب کہ بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا ڈالے گا یا پھر تمھیں اس سے بد بو آئے گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حَثَّ رسولنا -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث المسلم على ضرورة اختيار الصحبة الطيِّبة، فأخبر -عليه الصلاة والسلام- أن مثل الجليس الصالح كحامل المسك: إما يعطيك منه مجانا، وإما أن تشتري منه، وإما أن تجد منه رائحة طيبة، أما الجليس السوء والعياذ بالله فإنه كنافخ الكير: إما أن يحرق ثيابك بما يتطاير عليك من شرر النار، وإما أن تجد منه رائحة كريهة.
729;مارے پیارے رسول ﷺ نے اس حدیث میں اچھی صحبت اپنانے کی ترغیب دی اور بتایا کہ اچھے ہم نشیں کی مثال عطر فروش کے جیسی ہے۔ یا تو وہ مفت میں آپ کو خوش بو دے دیتا ہے یا پھر آپ اس سے خوش بو خرید لیتے ہیں یا پھر آپ کو اس سے ویسے ہی خوشبو آتی رہتی ہے۔ جب کہ برا ہم نشیں بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ یا تو اڑ اڑ کر آپ پر گرنے والی چنگاریوں سے وہ آپ کے کپڑے جلا ڈالتا ہے یا پھر آپ کو اس سے ناگوار بدبو آتی رہتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3127

 
 
Hadith   198   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يسبح على ظهر راحلته، حيث كان وجهه، يومئ برأسه، وكان ابن عمر يفعله


Tema:

رسول الله آ اپنی اونٹنی پر نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا رخ جس جانب بھی ہوتا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُسَبِّحُ على ظَهرِ رَاحِلَتِه حَيثُ كان وَجهُهُ، يُومِئُ بِرَأسِهِ، وكَان ابنُ عُمرَ يَفعَلُهُ».
وفي رواية: «كان يُوتِرُ على بَعِيرِه».
ولمسلم: «غَيرَ أنَّه لا يُصَلِّي عَليهَا المَكتُوبَة».
وللبخاري: «إلا الفَرَائِض».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ”رسول الله ﷺ اپنی اونٹنی پر نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا رخ جس جانب بھی ہوتا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: آپ ﷺ اپنے اونٹ پر ہی وتر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”تاہم آپ ﷺ فرض نماز سواری پر نہیں پڑھا کرتے تھے“۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ”سواے فرائض کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان -صلى الله عليه وسلم- يصلي النافلة فقط على ظهر راحلته حيث توجَّهت به، ولو لم تكن تجاه القبلة، ويومئ برأسه إشارة إلى الركوع والسجود، ولا يتكلف النزول إلى الأرض؛ ليركع ويسجد ويستقبل القبلة، ولا فرق بين أن تكون نفلا مطلقا، أو من الرواتب أو من الصلوات ذوات الأسباب، ولم يكن يفعل ذلك في صلوات الفريضة، وكذلك كان يوتر على بعيره.
606;بی ﷺ صرف نفل نماز اپنی سواری پر پڑھا کرتے تھے، چاہے وہ آپ ﷺ کوجس جانب بھی لے جا رہی ہوتی اور اگرچہ وہ قبلہ رخ نہ بھی ہوتی۔ اپنے سر کے اشارے سے رکوع و سجدہ کرلیتے۔ رکوع، سجدہ اور قبلہ رو ہونے کے لیے اپنی سواری سے نیچے کا تکلف نہیں فرماتے تھے۔ چاہے نماز مطلق نفل ہوتی، سنت موکدہ ہوتی یا پھر کسی سبب کی وجہ سے پڑھی جانے والی کوئ نماز ہوتی۔ البتہ فرض نمازوں میں آپ ﷺ ایسا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ وتر بھی اپنے اونٹ پر ہی ادا کر لیا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3128

 
 
Hadith   199   الحديث
الأهمية: لقد كنت على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- غلامًا، فكنت أحفظ عنه، فما يمنعني من القول إلا أن هاهنا رجالا هم أسن مني


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور میں آپ ﷺ سے (سن کر) یاد کرلیا کرتا تھا۔ (ان احادیث کو) بیان کرنے میں میرے لیے سوائے اس کے کوئی شے مانع نہیں ہوتی تھی کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔

عن سمرة بن جندب -رضي الله عنه- قال: لقد كنت على عَهْدِ رسولِ الله -صلى الله عليه وسلم- غُلاما، فكنت أحفظ عنه، فما يمنعني من القول إلا أن هاهنا رِجَالًا هم أَسَنُّ مِنِّي.

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور میں آپ ﷺ سے (احادیث سن کر) یاد کر .لیا کرتا تھا۔ (ان احادیث کو) بیان کرنے میں میرے لیے سوائے اس کے کوئی شے مانع نہیں ہوتی تھی کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر سمرة بن جندب -رضي الله عنه- أنه كان صغير السن في زمن النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان يحفظ بعض أقواله -صلى الله عليه وسلم-، وما كان يمنعه من التحديث بها إلا أن هناك من هو أكبر منه سنا.
587;مرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں وہ کم سن تھے اور وہ آپ ﷺ کے بعض فرمودات کو ذہن نشین کر لیا کرتے تھے، جنھیں بیان کرنے سے انھیں بس یہ بات روکتی تھی کہ یہاں ان سے بڑی عمر کے لوگ موجود ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3130

 
 
Hadith   200   الحديث
الأهمية: أراني في المنام أتسوك بسواك، فجاءني رجلان، أحدهما أكبر من الآخر، فناولت السواك الأصغر، فقيل لي: كبر، فدفعته إلى الأكبر منهما


Tema:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں۔ اسی درمیان دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی، مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دے دی۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما-  أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «أراني في المنام أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ، فجاءني رجلان، أحدهما أكبر من الآخر، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الأصغرَ، فقيل لي: كَبِّرْ، فَدَفَعْتُهُ إلى الأكبر منهما».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں۔ اسی درمیان دو آدمی میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی، مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دے دی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- في النوم أنه كان يَتَسَوَّك بسواك، فجاءه رجلان أحدهما أكبر من الآخر، فأراد أن يعطيه إلى الأصغر منهما، فقيل له: قدم الأكبر في الإعطاء، فأعطاه إلى الكبير منهما.
606;بی ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کر رہے ہیں۔ اسی دوران آپ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے؛ جن میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ آپ ﷺ نے مسواک ان میں سےچھوٹے کو دینا چاہا، لیکن آپ ﷺ کو کہا گیا کہ دینے میں بڑے کو مقدم رکھیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے وہ ان میں سے بڑے کو دے دی۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسے صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3131

 
 
Hadith   201   الحديث
الأهمية: فتلت قلائد هدي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ثم أشعرتها وقلدها -أو قلدتها- ثم بعث بها إلى البيت، وأقام بالمدينة، فما حرم عليه شيء كان له حلًّا


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹے ،پھر انھیں نشان زد کیا اور آپ ﷺ نے انھیں قلادے پہنائے - یا (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) میں نے قلادے پہنائے-، پھر آپ ﷺ نے انھیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مدینے میں ہی ٹھہرے رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ پر کوئی بھی ایسی شے حرام نہیں ہوئی جو آپ ﷺ کے لیے حلال تھی۔

عائشة -رضي الله عنها- قالت: «فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رسولِ الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم أَشْعَرْتُها وَقَلَّدَهَا -أو قَلَّدْتُها-، ثم بعث بها إلى البيت، وأقام بالمدينة، فما حَرُمَ عليه شيءٌ كان له حِلًّا».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں: ”میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹے، پھر انھیں نشان زد کیا اور آپ ﷺ نے انھیں قلادے پہنائے- یا (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) میں نے قلادے پہنائے-، پھر آپ ﷺ نے انھیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مدینے میں ہی ٹھہرے رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ پر کوئی بھی ایسی شے حرام نہیں ہوئی، جو آپ ﷺ کے لئے حلال تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يعظم البيت العتيق ويقدسه، فكان إذا لم يصل إليه بنفسه بعث إليه الهدي؛ تعظيما له، وتوسعة على جيرانه، وكان إذا بعث الهدي أشعرها وقلدها؛ ليعلم الناس أنها هدي إلى البيت الحرام؛ فيحترموها، ولا يتعرضوا لها بسوء، فذكرت عائشة -رضي الله عنها- -تأكيدا للخبر-: أنها كانت تفتل قلائدها. وكان إذا بعث بها -وهو مقيم في المدينة- لا يجتنب الأشياء التي يجتنبها المحرم من النساء، والطيب، ولبس المخيط ونحو ذلك، بل يبقى محلا لنفسه كل شيء كان حلالا له.
606;بی ﷺ بیت اللہ کی بہت تعظیم و تکریم کر تے تھے۔ جب آپ ﷺخود اس تک نہ پہنچ پاتے، تو اس کی تعظیم اور اس کے باشندوں پر فراخی کے لیے اس کی طرف ہدی کے جانور بھیج دیتے تھے۔ جب آپ ﷺ ہدی کے جانور بھیجتے تو انھیں نشان زد کر دیتے اور قلادے پہنا دیتے؛ تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ یہ بیت الحرام کی طرف جانے والے ہدی کے جانور ہیں اور یہ جان کر وہ ان کا احترام کریں اور انھیں کوئی گزند نہ پہنچائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بات میں تاکید پیدا کرنے کے لیے بیان کرتی ہیں کہ وہ ان ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹا کرتی تھیں اور نبی ﷺ جب انھیں بھیج دیتے اور خود مدینے میں ہی مقیم ہوتے، تو آپ ﷺ ان اشیا سے اجتناب نہیں کرتے تھے، جن سے مُحرم شخص اجتناب کرتا ہے۔ یعنی عورتوں سے مباشرت، خوش بو اور سلے ہوئے کپڑے وغیرہ سے، بلکہ آپ ﷺ اپنے لیے ہر وہ شے حلال رکھتے، جو اس سے پہلے آپ ﷺ کے لیے حلال ہوتی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3132

 
 
Hadith   202   الحديث
الأهمية: إن الله قد أوجب لها بها الجنة، أو أعتقها بها من النار


Tema:

اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا اسے جہنم سے آزاد کردیا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: جَاءَتنِي مِسْكِينَة تَحمِل ابنَتَين لها، فَأَطْعَمْتُها ثَلاثَ تَمَرَات، فَأَعْطَت كُلَّ وَاحِدَة مِنْهُما تَمْرَة وَرَفَعت إِلَى فِيهَا تَمْرَة لِتَأكُلَها، فَاسْتَطْعَمَتْها ابْنَتَاهَا، فَشَقَّت التَّمْرَة التي كانت تريد أن تَأْكُلَها بينهما، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرت الذي صَنَعَتْ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «إِنَّ الله قَدْ أَوجَبَ لَهَا بِهَا الجَنَّة، أَو أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّار».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بچیاں اٹھا رکھی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں۔ اس عورت نے ان میں سے ہر ایک کو ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی۔ اسی اثناء میں اس کی دونوں بیٹیوں نے اس سے کھانے کے لیے مانگا۔ وہ کھجور جسے وہ کھانا چاہ رہی تھی اس نے اس کے دو حصے کر کے دونوں کے مابین اسے تقسیم کردیا۔ مجھے اس کے اس عمل نے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس کے اس فعل کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا اسے جہنم سے آزاد کردیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُصَوِّر حديث عائشة -رضي الله عنها- معلمًا جديدًا من رحمة الكبار بالصغار، حيث قالت: جاءتني مسكينة تحمل ابنتين لها فأطعمتها ثلاث تمرات: أي فأعطتها ثلاث تمرات، فما كان من المرأة المسكينة إلا أن أعطت إحدى البنتين واحدة، والثانيةَ التمرةَ الأخرى، ثم رفعت الثالثة إلى فيها لتأكلها، فاستطعمتاها: يعني أن البنتين نظرتا إلى التمرة التي رفعتها الأم ـ فلم تطعمها الأم بل شقتها بينهما نصفين، فأكلت كل بنت تمرة ونصفا والأم لم تأكل شيئًا. فذكرت عائشة -رضي الله عنها- ذلك للرسول -صلى الله عليه وسلم- وأخبرته بما صنعت المرأة، فأخبرها: "أن الله أوجب لها بها الجنة، أو أعتقها بها من النار" يعني: لأنها لما رحمتهما هذه الرحمة العظيمة أوجب الله لها بذلك الجنة.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بڑوں کی چھوٹوں پر شفقت کی ایک نشانِ راہ پیش کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بچیوں کو اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں۔ اس مسکین عورت نے ایک بیٹی کو ایک کھجور دے دی اور دوسری کو دوسری۔ پھر تیسری کو اٹھا کر وہ کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی کہ اسی دوران ان دونوں نے اسے کھانے کے لیے مانگ لیا۔ یعنی یہ دونوں بچیاں اس کھجور کو دیکھ رہی تھیں جسے ان کی ماں نے اٹھایا تھا۔ چنانچہ ماں نے اسے خود نہ کھایا بلکہ اس کے دو حصے کر کے ان دونوں کے مابین تقسیم کر دیا۔ یوں ہر بچی نے ڈیڑھ کھجور کھا لی اور ماں نے کچھ بھی نہ کھایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کو آپ ﷺ کے سامنے ذکر کیا اور عورت نے جو کچھ کیا تھا اسے آپ ﷺ کو بتایا۔ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ: "اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی اور اسے دوزخ سے نجات دے دی۔" یعنی چونکہ اس نے اس بہت بڑی رحمدلی کا مظاہرہ کیا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3133

 
 
Hadith   203   الحديث
الأهمية: الساعي على الأرملة والمسكين، كالمجاهد في سبيل الله


Tema:

بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «السَّاعِي على الأَرْمَلَةِ والمِسْكِينِ، كالمُجَاهِدِ في سبيل الله». وأَحْسَبُهُ قال: «وكالقائم الذي لا يَفْتُرُ، وكالصائم الذي لا يُفْطِرُ».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے“۔ راوی کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں یہ بھی کہا تھا؛ ”اس نماز میں کھڑے رہنے والے شخص کی طرح ہے، جو تھکتا ہی نہ ہو اور اس لگاتار روزہ رکھنے والے کی طرح ہے، جو افطار ہی نہ کرتا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الذي يقوم بمصالح المرأة التي مات عنها زوجها، والمسكين المحتاج وينفق عليهم، هو في الأجر كالمجاهد في سبيل الله، وكالقائم في صلاة التهجد الذي لا يتعب من ملازمة العبادة، وكالصائم الذي لا يفطر.
570;پ ﷺ فرماتے ہیں کہ بیوہ عورت، مسکین محتاج کا خیال رکھنے والا اور ان پر خرچ کرنے والا ثواب کے معاملے میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد کی طرح ہے اور اس شخص کی طرح ہے، جو رات بھر تہجد کی نماز پڑھتے ہوۓ تھکتا نہ ہو اور اس روزے دار کی طرح ہے، جو افطار نہ کرتا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3135

 
 
Hadith   204   الحديث
الأهمية: فإني رسولُ الله إليك بأنَّ الله قد أَحَبَّكَ كما أَحْبَبْتَهُ فيه


Tema:

میں تمھارے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اللہ بھی تم سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے تم اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتے ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «أن رجلا زَارَ أخًا له في قرية أخرى، فأَرْصَدَ الله -تعالى- على مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا، فلما أتى عليه، قال: أين تريد؟ قال: أريد أخًا لي في هذه القرية، قال: هل لك عليه من نعمةٍ تَرُبُّهَا عليه؟ قال: لا، غيرَ أني أَحْبَبْتُهُ في الله -تعالى-، قال: فإني رسولُ الله إليك بأنَّ الله قد أَحَبَّكَ كما أَحْبَبْتَهُ فيه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص اپنے بھائی کی زیارت کے لیے دوسری بستی گیا، تو اللہ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو بیٹھا دیا، جب وہ شخص اس جگہ پہنچا، تو فرشتے نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس بستی میں میرا ایک بھائی رہتا ہے، اُسی سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا کہ کیا تمھارے اوپر اُس کا کوئی احسان ہے، جسے تم چکا نا چاہتے ہو؟ اُس نے کہا: نہیں، میں محض اللہ کے لیے اس سے محبت رکھتا ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ میں تمھارے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اللہ بھی تم سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے تم اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتے ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن رجل من الأمم السابقة زار أخا له في قرية أخرى؛ فهيأ الله له ملكا في طريقه يحفظه ويراقبه، فسأله الملك أين هو ذاهب؟ فأخبره أنه ذاهب لزيارة أخ له في الله في هذه القرية، فسأله الملك هل هو مملوكك، أو ولدك، أو غيرهما ممن تلزمهم نفقتك وشفقتك، أو لك عنده مصلحة؟ فأخبره أن لا، ولكني أحبه في الله، وأبتغي بزيارتي مرضاة الله، فأخبره الملك بأنه رسول من الله؛ ليخبره أن الله يحبه كما أحب أخاه في الله.
606;بی ﷺ سابقہ امتوں میں سے ایک آدمی کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ ایک دوسری بستی میں اپنے بھائی کی زیارت کے لیے گیا۔ اللہ تعالی نے اس کے راستے میں اس کی حفاظت اور نگرانی کے لیے ایک فرشتہ متعین کر دیا۔ اس فرشتے نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ اس نے اسے بتایاکہ وہ اللہ کی خاطر اس بستی میں رہنے والے اپنے ایک بھائی سےملنے جا رہا ہے۔فرشتے نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تمھارا غلام ہے یا بیٹا ہے یا تمھارا کوئی اور تعلّق دار ہے، جس کا نفقہ اور جس کے ساتھ شفقت بھرا سلوک کرنا تم پر واجب ہو یا پھر تمھیں اس سے کوئی کام ہے؟ اس شخص نے فرشتے کو بتایا کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے؛ بلکہ میں تو محض اللہ کے لیے اس سے محبت کرتا ہوں اور اس زیارت سے میرا مقصود صرف اور صرف اللہ کی خوش نودی ہے۔ اس پر فرشتے نے اسے بتایا کہ اسے اللہ کی طرف سے اس کے پاس بھیجا گیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ اللہ بھی اس سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے وہ اپنے بھائی سے اللہ کی خاطر محبت کرتاہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3136

 
 
Hadith   205   الحديث
الأهمية: بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع دينه بعرض من الدنيا


Tema:

نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مؤمن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: «بَادِرُوا بالأعمال فِتَنًا كَقِطَعِ الليل المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرجلُ مؤمنا ويُمْسِي كافرا، ويُمْسِي مؤمنا ويُصْبِحُ كافرا، يبيعُ دينه بِعَرَضٍ من الدنيا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابتدروا وسارعوا إلى الأعمال الصالحة قبل ظهور العوائق، فإنه ستوجد فتن كقطع الليل المظلم، مدلهمة مظلمة، لا يرى فيها النور، ولا يدري الإنسان أين الحق، يصبح الإنسان مؤمنًا ويمسي كافرًا، والعياذ بالله، ويمسي مؤمنًا ويصبح كافرًا، يبيع دينه بمتاع الدنيا، سواء أكان مالا، أو جاها، أو رئاسةً، أو نساءً، أو غير ذلك.
606;یک اعمال کی طرف سبقت وجلدی کرو، فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے۔ کیوں کہ ایسے فتنے نمودار ہوں گے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے۔ انتہائی تاریک۔ جس میں نہ روشنی دکھائی دے گي، نہ انسان حق کا ادراک کرسکے گا۔ حالت یہ ہوگی کہ آدمی صبح کے وقت مؤمن اور شام کو کافر ہو گا۔ (اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے) اور شام کے وقت مؤمن اور صبح کو کافر ہو گا۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔ یہ بیچنا خواہ مال و دولت کے بدلے ہو یا عز و شرف، عہدہ و منصب یا عورت وغیرہ کے بدلے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3138

 
 
Hadith   206   الحديث
الأهمية: كن أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- عنده، فأقبلت فاطمة -رضي الله عنها- تمشي، ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا


Tema:

تمام ازواجِ مطہرات نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں، ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كُنَّ أزواجُ النبي -صلى الله عليه وسلم- عنده، فأقبلت فاطمة -رضي الله عنها- تمشي، ما تُخْطِئُ مِشْيَتُها من مِشْيَةِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا، فلما رآها رَحَّبَ بها، وقال: «مَرْحَبًا بابنتي»، ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله، ثم سَارَّهَا فبكت بُكاءً شديدًا، فلما رأى جَزَعَهَا، سَارَّهَا الثانية فضحكت، فقلتُ لها: خَصَّكِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من بين نسائه بالسِّرَارِ، ثم أنت تَبْكِينَ! فلما قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سألتها: ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قالت: ما كنت لأُفْشِيَ على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِرَّهُ، فلما توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قلتُ: عَزَمْتُ عليك بما لي عليك من الحق، لما حَدَّثْتِنِي ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فقالت: أما الآن فنعم، أما حين سَارَّنِي في المرة الأولى فأخبرني أن جبريل كان يُعارضه القرآن في كل سنة مرة أو مرتين، وأنه عارضه الآن مرتين، وإني لا أرى الأَجَلَ إلا قد اقترب، فاتقي الله واصبري، فإنه نِعْمَ السَّلَفُ أنا لك، فبكيت بكائي الذي رأيتِ، فلما رأى جَزَعِي سَارَّنِي الثانية، فقال: «يا فاطمة، أما تَرْضَينَ أن تكوني سيدة نساء المؤمنين، أو سيدة نساء هذه الأمة؟» فضحكتُ ضحكي الذي رأيتِ.

اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ تمام ازواجِ مطہرات نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔ جب نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی! مرحبا! پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انھیں بٹھا لیا۔ اس کے بعد چپکے سے ان کے کان میں کچھ کہا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں! جب نبی کریم ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا تھا؟، انھوں نے کہا کہ :میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ: میرا جو حق آپ پر ہے، اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں جو رسول اللہ ﷺ نے آپ سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہاں،اب بتا سکتی ہوں، جب نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ ”جبرائیل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال میرے ساتھ انھوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے، لہذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہنا اور صبر کا دامن تھامے رہنا کیوں کہ میں تمہارے لیے ایک اچھا سَلَفْ (آگے جانے والا) ہوں“۔ اس وقت میرے رونے کی وجہ یہی تھی جسے کہ آپ نے دیکھا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا: ”فاطمہ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ)اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی تو میں ہنس پڑی جسے آپ نے دیکھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها- أن أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- كن عنده ثم جاءت فاطمة -رضي الله عنها- تعوده في مرضه وشكواه الذي قُبِض فيه، فذكرت أنَّ فاطمة -رضي الله عنها- أقبلت تمشي كأنَّ مشيتها مشية النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكانت عادته -صلى الله عليه وسلم- إذا دخلت عليه بنته فاطمة -رضي الله عنها- قام إليها وقبَّلها وأجلسها في مجلسه، فرحب بها وأجلسها بجانبه.
ثم أخبرت عائشة -رضي الله عنها-: أنه أسر إلى فاطمة -رضي الله عنها- بالقول فبكت بكاء شديدا، فلما رأى حزنها الشديد، أسر إليها بقول آخر فضحكت.
فسألتها عائشة -رضي الله عنها- عن الذي خصها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- به دون نسائه وبكت بسببه.
فقالت: لم أكن لأنشر سر رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
فلما توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أقسمت عائشة -رضي الله عنها- على فاطمة -رضي الله عنها- أن تحدثها بما قال لها الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
فقالت: أما إذا سألتني الآن فسأحدثك، أما بكائي حين أسر إلي بالقول في المرة الأولى، فإنه أخبرني أن جبريل -عليه السلام- كان يدارسه القرآن كل عام مرة أو مرتين، وأنه دارسه مرتين حينها، وظن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن هذا نذير بانتهاء مدة حياته، وأمرني بالتقوى والصبر، وأن ما يترتب على ذلك من شرف السلف لي يعدل ما قد يبدو من جزع الفراق، فبكيت حين رأيتني بكيت، فلما رأى حزني الشديد، بشرني بأني سيدة نساء المؤمنين أو سيدة نساء هذه الأمة، فضحكت ضحكي الذي رأيتيه مني.
وأما ضحكها فجاء هذا الحديث مبيِّنًا ذلك بكونها -رضي الله عنها- سيِّدة نساء أهل الجنة، ومع ذلك فقد اختلفت الروايات فيما سارها به ثانيا وضحكها لذلك على أقوال:
1. أنه إخبار إيَّاها بأنها أول أهله لحوقا به.
2. أنه إخباره إياها بأنها سيدة نساء أهل الجنة، وجعل كونها أول أهله لحوقا به مضموما إلى الأول وهو الراجح.
3. أنه قال لفاطمة إنَّ جبريل أخبرني أنه ليس امرأة من نساء المسلمين أعظم ذرية منك فلا تكوني أدنى امرأة منهن صبرًا.
ولكن يبقى قبل ذلك أنَّ حرص عائشة -رضي الله عنها- على العلم سرَّع من سؤالها لفاطمة -رضي الله عنها- عمَّا حصل في السرار، فما كان من بنت رسول الله إلا أن قالت: "مَا كُنتُ لِأُفشِيَ عَلَى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِرَّه"، وهو الشاهد من الحديث، فلما زال المحذور بموت النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبرتها من أمر السرار.
وفي الحديث إخباره -صلى الله عليه وسلم- بما سيقع فوقع كما قال، فإنهم اتفقوا على أن فاطمة -عليها السلام- كانت أول من مات من أهل بيت النبي -صلى الله عليه وسلم- بعده حتى قبل أزواجه -رضي الله عنهن-.
575;ُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات، آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں دریں اثنا فاطمہ رضی اللہ عنھا، آپ ﷺ کے مرض الموت کے موقع پر آپ ﷺ کی عیادت کے لیے تشریف لائیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر کرتی ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا چلتی ہوئی آئیں تو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی چال، نبی ﷺ کی چال ہے اور آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا تشریف لاتیں تو آگے بڑھ کر ان کا بوسہ لیتے اور اپنی بیٹھک میں انہیں بھی بٹھالیتے، چنانچہ آپ نے ان کا پُرتپاک خیر مقدم کیا اور اپنے بازو میں بٹھالیا۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنھا اس بات کی خبر دیتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے کان میں کوئی راز کی بات کہی تو وہ شدت کے ساتھ رو پڑیں اور جب آپ نے ان کے شدید غم کو دیکھا تو دوسری مرتبہ کوئی اور راز کی بات ان کے کان میں کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان سے اس خاص بات کے بارے میں دریافت کیا جو آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو چھوڑ کر خاص فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمائی تھی اور جس کی وجہ سے وہ روپڑی تھیں، تو فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو عام نہیں کرسکتی۔جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگیے تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو قسم دے کر کہا کہ وہ انھیں وہ بات بتائیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں ضرور بتاؤں گی، میرے پہلے رونے کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ ﷺ نے مجھ سے پہلی مرتبہ راز کی بات کہی تو آپ نے مجھے یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال آپ کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ انھوں نے دو مرتبہ دور کرایا اور آپ ﷺ کا خیال تھا کہ یہ آپ کی مدت حیات کے ختم ہونے کا انتباہ ہے اور آپ نے مجھے تقوی اور صبر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی، تقوی اور صبر کے ساتھ مجھے پہنچنے والا سلف کا شرف، پیدا ہونے والی جدائی کے غم کا متبادل ہوجائے گا، اسی وجہ سے میں روپڑی جس وقت آپ نے مجھے روتے دیکھا اور جب آپ ﷺ نے میرے شدید غم کو دیکھا تو مجھے اس بات کی بشارت سنائی کہ میں جنت میں ایمان والی عورتوں کی سردار ہو ں گی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنس پڑی جو آپ نے دیکھی۔ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، اس کے باوجود روایات کے اختلاف سے اس مسئلہ میں کچھ اور اقوال پائے جاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ ان سے کیا راز کی بات فرمائی اور جس کی بناء پر وہ ہنس پڑیں، ان میں سے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں:
1- آپ ﷺ نے انھیں اس بات کی خبر دی کہ وہ آپ کے گھر والوں میں آپ سے سب سے پہلے ملیں گیں۔
2- آپ ﷺ نے انھیں یہ خبر دی کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور آپ کے اہل میں سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملنے کی بات کو پہلی (رازدارانہ) بات کے ساتھ جوڑ دیا اور یہی راجح قول ہے۔
3- آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ مسلمانوں کی عورتوں میں کوئی ایسی نہیں جو ذریت و نسل کے اعتبار سے تم سے زیادہ عظمت کی حامل ہو، اس لیے تمہیں ان میں سے کسی عام عورت کی طرح معمولی درجہ کا صبر رکھنے والی خاتون نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن ان معانی میں یہ معنی بھی اہمیت کا حامل ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے علمی اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے انتہائی سبقت کے ساتھ نبی ﷺ اور ان کے درمیان ہوئی راز کی باتوں کے بارے میں دریافت کیا اور نبی ﷺ کی اس عظیم دختر کے جواب کو بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ " میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی"، اور یہی امر اس حدیث کا شاہد ہے اور جب نبی ﷺ کی موت سے افشائے راز کا ڈر و خوف ختم ہوگیا تو انھوں نے اس پردۂ راز کو اٹھادیا۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے عنقریب وقوع پذیر ہونے والے امر کی خبر دی اور وہ آپ کے فرمان کے مطابق واقع ہوئی، کیوں کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ہی وہ پہلی فرد رہیں جو نبی ﷺ کے گھرانے میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے بھی پہلے وفات پائیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3139

 
 
Hadith   207   الحديث
الأهمية: ما غرت على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- ما غرت على خديجة -رضي الله عنها-، وما رأيتها قط، ولكن كان يكثر ذكرها


Tema:

نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی حالانکہ انہیں میں نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا، لیکن آپ ﷺ ان کا ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «ما غِرْتُ على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- ما غِرْتُ على خديجة -رضي الله عنها-، وما رأيتها قط، ولكن كان يُكثر ذِكْرَها، وربما ذبح الشَّاةَ، ثم يُقطعها أَعْضَاءً، ثم يَبْعَثُهَا في صَدَائِقِ خديجة، فربما قلت له: كأن لم يكن في الدنيا إلا خديجة! فيقول: «إنها كانت وكانت وكان لي منها وَلَدٌ».
وفي رواية: وإن كان لَيَذْبَحُ الشَّاءَ، فيُهدي في خَلَائِلِهَا منها ما يَسَعُهُنَّ.
وفي رواية: كان إذا ذَبَحَ الشَّاةَ، يقول: «أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة».
وفي رواية: قالت: اسْتَأْذَنَتْ هالة بنت خويلد أخت خديجة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فعرف استئذان خديجة، فارْتَاحَ لذلك، فقال: «اللهم هالة بنت خويلد».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی، اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی حالانکہ انہیں میں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہ تھا، لیکن آپ ﷺ ان کا ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے۔ بسا اوقات میں آپ ﷺ سے کہتی : جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ ﷺ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ یہ خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں پہنچادو۔
ایک اور روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن، ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آگیا، آپ ﷺخوش ہو اٹھے اور فرمایا ”اللہ! یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تقول عائشة -رضي الله عنها-: ما غِرْت على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- مثلما غرت على خديجة -رضي الله عنها-، وهي أُولى زوجات النبي -صلى الله عليه وسلم-، وقد توفيت قبل أن تراها عائشة، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- في المدينة إذا ذبح شاة أخذ من لحمها وأهداه إلى صديقات خديجة -رضي الله عنها-، ولم تصبر عائشة -رضي الله عنها- على ذلك، فقالت: يا رسول الله، كأن لم يكن في الدنيا إلا خديجة.
فذكر -صلى الله عليه وسلم- أنها كانت تفعل كذا، وتفعل كذا، وذكر من خصالها -رضي الله عنها-.
وأضاف -صلى الله عليه وسلم- أيضًا مؤكدًا سرَّ هذا الحب والود والارتباط العميق: "وكان لي منها ولد" وأولاده أربع بنات وثلاثة أولاد كلهم منها إلا ولدًا واحدًا هو إبراهيم -رضي الله عنه-، فإنه كان من مارية القبطية التي أهداها إليه ملك القبط.
وجاءت مرة هالة بنت خويلد أخت خديجة -رضي الله عنهما-، فاستأذنت فكان استأذانها شبيها بصفة استئذان خديجة لشبه صوتها بصوت أختها فتذكر خديجة بذلك، ففرح بذلك وسُر -صلى الله عليه وسلم-.
575;ُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی، اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی، اور وہ نبی ﷺ کی سب سے پہلی بیوی تھیں، عائشہ رضی اللہ عنھا کے انہیں دیکھنے سے قبل ہی ان کا انتقال ہوچکا تھا، نبی ﷺ کا مدینہ طیبہ میں یہ معمول تھا کہ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تو خدیجہ رضی اللہ عنھاکی سہیلیوں کے ہاں اس کے کچھ گوشت کاہدیہ بھیجتے ، عائشہ رضی اللہ عنھا برداشت نہ کرپاتیں اور کہہ دیا کرتیں :اے اللہ کے رسول!ایسا لگتا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا دنیا میں کوئی اور خاتون ہی نہیں۔
چنانچہ آپ ﷺ یہ فرماتے کہ وہ ایسے کرتی تھیں، یوں کرتی تھیں اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی خوبیاں ذکر فرماتے۔ نیز آپ ﷺ اس محبت، بے پناہ پیار اور انتہائی گہری وابستگی کے راز میں زور پیدا کرتے ہوئے فرماتے کہ "ان سے مجھے اولاد بھی ہے"۔ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہونے والے فرزند، ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا آپ ﷺ کی جملہ چار لڑکیاں اور تین لڑکے،خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے تھے اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو قبطی بادشاہ نے نبی ﷺ کو ہدیہ میں دیا تھا۔
ایک مرتبہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن، ہالہ بنت خویلد رضی اللہ عنہما تشریف لائیں اور گھر میں آنے کی اجازت طلب کی اور ان کے اجازت مانگنے کا انداز، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اجازت مانگنے جیسا تھا کیونکہ ان کی آواز، ان کی بہن جیسی تھی، چنانچہ آپ ﷺ کو اس سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد آگئی تو آپ ﷺ میں خوشی و مسرت کے جذبات امنڈ آئے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3140

 
 
Hadith   208   الحديث
الأهمية: ليس المسكين الذي ترده التمرة والتمرتان، ولا اللقمة واللقمتان إنما المسكين الذي يتعفف


Tema:

مسکین وہ نہیں، جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے ہی واپس لوٹا دیتے ہیں، بلکہ مسکین تو وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّ رسُولَ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «لَيسَ المِسْكِين الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَة والتَّمْرَتَان، وَلا اللُّقْمَةُ واللُّقْمَتَان، إِنَّمَا المِسْكِين الَّذِي يَتَعَفَّف».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں، جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے ہی واپس لوٹا دیتے ہیں، بلکہ مسکین تو وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُوضح هذا الحديث حقيقة المسكنة، وأن المسكين الممدوح من المساكين الأحق بالصدقة والأحوج بها هو المتعفف، وإنما نفى -صلى الله عليه وسلم- المسكنة عن السائل الطوَّاف؛ لأنه تأتيه الكفاية، وقد تأتيه الزكاة فتزول خصاصته، وإنما تدوم الحاجة فيمن لا يسأل ولا يعطف عليه فيعطى.
740;ہ حدیث مسکین کی حقیقت واضح کر رہی ہے کہ مساکین میں سے قابل تعریف، صدقے کا حق دار اور اس کا ضرورت مند وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا۔ گھوم پھر کر مانگنے والے شخص سے آپ ﷺ نے مسکینیت کی نفی کی؛ کیوں کہ اس تک بقدر کفایت سامان وغیرہ پہنچتا رہتا ہے۔ بعض اوقات اسے زکوٰۃ مل جاتی ہے، جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ ضرورت تو اس شخص کی باقی رہتی ہے، جو مانگتا نہیں ہے اور بطور شفقت اسے کوئی کچھ دیتا بھی نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3141

 
 
Hadith   209   الحديث
الأهمية: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك


Tema:

اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

عن شهر بن حوشب قال: قلت لأم سلمة -رضي الله عنها-، يا أم المؤمنين، ما كان أكثر دعاء رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كان عندك؟ قالت: كان أكثر دعائه: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك».

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ: اے ام المومنین! جب رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس ہوتے تھے تو آپﷺ زیادہ تر کون سی دعا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»
ترجمہ: اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أكثر دعائه -صلى الله عليه وسلم- أن يقول، هذا القول: (يا مقلب القلوب) أي مصرفها تارة إلى الطاعة والإقبال وتارة إلى المعصية والغفلة، (ثبت قلبي على دينك)، أي اجعله ثابتًا على دينك غير مائل عن الدين القويم والصراط المستقيم.
585;سول اللہﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ”يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ“ یعنی (اے وہ ذات جو اسے) کبھی طاعت گزاری، انابت الی اللہ اور کبھی گناہ اور غفلت کی طرف پھیرنے والی ہے۔
”ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ“ یعنی اسے اپنے دین پر ثابت قدم رکھ اور دین قویم اور صراط مستقیم سے اسے نہ ہٹا۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3142

 
 
Hadith   210   الحديث
الأهمية: إذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعًا


Tema:

جب کُتا تم میں سے کسی کے برتن سے (کچھ) پی لے، تو اسے سات مرتبہ دھو لو۔

عن أبي  هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:« إذا شَرِب الكلب في إناء أحَدِكُم فَليَغسِلهُ سبعًا».
ولمسلم: « أولاهُنَّ بالتُراب».
 عن عبد الله بن مغفل -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:« إذا وَلَغ الكلب في الإناء فاغسلوه سبعًا وعفَّرُوه الثَّامِنَة بالتُّراب».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب کُتا تم میں سے کسی کے برتن سے (کچھ) پی لے، تو اسے سات مرتبہ دھو لو“۔
مسلم کی روایت میں ہے: ”پہلی مرتبہ مٹی سے دھلو“۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کتا برتن میں منہ ڈال دے ، تو اسے سات مرتبہ دھوؤ ، اور آٹھویں دفعہ مٹی سے مانجو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الكلب من الحيوانات المستكرهة التي تحمل كثيرًا من الأقذار والأمراض أمر الشارع الحكيم بغسل الإناء الذي ولغ فيه سبع مرات، الأولى منهن مصحوبة بالتراب ليأتي الماء بعدها، فتحصل النظافة التامة من نجاسته وضرره.
670;ونکہ کتا ان ناپسندیدہ جانوروں میں سے ہے، جو بہت ساری گندگیوں اور بیماریوں کے حامل ہوتے ہیں اس لیے جب وہ برتن میں منہ ڈال دے تو اسے شارع حکیم نے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے۔ نیز پہلی مرتبہ مٹی سے مانجنے کا حکم دیا ہے؛ تاکہ اس کے بعد پانی کا استعمال ہو اور نجاست وگندگی سے مکمل نظافت حاصل ہوسکے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3143

 
 
Hadith   211   الحديث
الأهمية: الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط


Tema:

پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں؛ ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الفِطرة خَمْسٌ: الخِتَان, والاسْتِحدَاد, وقَصُّ الشَّارِب, وتَقلِيمُ الأَظفَارِ, ونَتْفُ الإِبِط».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أبو هريرة -رضي الله عنه- أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: خمس خصال من دين الإسلام، الذي فطر الله الناس عليه، فمن أتى بها، فقد قام بخصال عظام من الدين الحنيف.
وهذه الخمس المذكورة في هذا الحديث، من جملة النظافة، التي أتى بها الإسلام.
أولها: قطع قُلْفة الذكر، التي يسبب بقاؤها تراكم النجاسات والأوساخ فتحدث الأمراض والجروح.
وثانيها: حلق الشعور التي حول الفرج، سواء أكان قبلا أم دبرا، لأن بقاءها في مكانها يجعلها معرضة للتلوث بالنجاسات، وربما أخلت بالطهارة الشرعية.
وثالثها: قص الشارب، الذي بقاؤه، يسبب تشويه الخلقة، ويكره الشراب بعد صاحبه، وهو من التشبه بالمجوس.
ورابعها:تقليم الأظافر، التي يسبب بقاؤها تجمع الأوساخ فيها، فتخالط الطعام، فيحدث المرض.
وأيضا ربما منعت كمال الطهارة لسترها بعض الفرض.
وخامسها: نتف الإبط، الذي يجلب بقاؤه الرائحة الكريهة.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: پانچ خصلتیں دین اسلام میں سے ہیں، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے۔ جس نے ان کو اپنایا اس نے دین حنیف کی بڑی خصلتوں کا اپنایا۔
حدیث میں مذکور یہ پانچ خصلتیں صفائی ستھرائی سے متعلق ہیں جس، کی اسلام بڑی تاکید کرتا ہے۔
اول: مردانہ آلۂ تناسل کے سرے کی چمڑی کو کاٹنا، جس کے باقی رہنے سے گندگیاں اور میل کچیل جمع ہوتے رہتے ہیں اور امراض اور زخم پیدا ہوتے ہیں۔
دوم: شرم گاہ کے گرد موجود بالوں کو مونڈنا، چاہے شرم گاہ سامنے کی ہو یا پیچھے کی۔ کیوں کہ باقی رہنے سے شرم گاہ میں نجاستیں جم جاتی ہیں اور بسا اوقات اس سے شرعی طہارت میں بھی خلل پڑتا ہے۔
سوم: مونچھ کاٹنا، جس کا باقی رہنا بدصورتی کا سبب ہے، مونچھ والے شخص کے پیے ہو ئے مشروب کو پینے میں کراہت محسوس ہوتی ہے اور یہ مجوس کی مشابہت بھی ہے۔
چہارم: ناخنوں کو تراشنا، جن کے باقی رہنے کی وجہ سے ان میں گندگیاں جمع ہو جاتی ہیں جو کھانے کے ساتھ مل کر بیماری پیدا کرتی ہیں اور بسا اوقات اس سے پوری طرح سے طہارت بھی حاصل نہیں ہو پاتی؛ کیوں کہ ان سے جسم کا بعض حصہ چھپا رہ جاتا ہے، جس تک پانی پہنچانا فرض ہوتا ہے۔
پنجم: بغل کے بال اکھیڑنا (مونڈنا) جن کے باقی رہنے کی وجہ سے ناگوار بدبو پیدا ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3144

 
 
Hadith   212   الحديث
الأهمية: لا إله إلا الله، ويل للعرب من شر قد اقترب، فتح اليوم من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه، وحلق بأصبعيه الإبهام والتي تليها، فقلت: يا رسول الله، أنهلك وفينا الصالحون؟ قال: نعم، إذا كثر الخبث


Tema:

اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی، جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے ۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے۔ اور آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں کے ذریعے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! جب خباثتیں بڑھ جائیں گی“۔

عن زينب بنت جحش -رضي الله عنها- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل عليها فَزِعًا، يقول: «لا إله إلا الله، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قد اقْتَرَب، فُتِحَ اليوم من رَدْمِ يَأْجُوجَ ومَأجُوجَ مثل هذه»، وحلَّق بأُصبُعيه الإبهامِ والتي تَلِيها، فقلت: يا رسول الله، أنَهْلِكُ وفينا الصَّالِحُون؟ قال: «نعم، إِذَا كَثُرَ الخَبَثُ».

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لائے، تو آپ ﷺ بہت پریشان نظر آ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی، جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے“۔ اور آپ ﷺ نے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں! جب خباثتیں بڑھ جائیں گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أم المؤمنين زينب بنت جحش-رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل عليها  محمراً وجهه يقول: "لا إله إلا الله" تثبيتا ًللتوحيد وتطمينا ًللقلوب.   ثم حذَّر العرب فقال: "ويل للعرب من شر قد اقترب"، ثم بين أن هذا الشر هو أنه قد فتحت فتحة صغيرة من سد يأجوج ومأجوج، بقدر الحلقة بين الأصبعين السبابة والإبهام.
قالت زينب: "يا رسول الله، أنهلك وفينا الصالحون؟"، فأخبر أن الصالح لا يهلك، وإنما هو سالم ناج؛ لكن إذا كثر الخبث هلك الصالحون، فإذا كثرت الأعمال الخبيثة السيئة في المجتمع ولو كانوا مسلمين ولم تنكر، فإنهم قد عرضوا أنفسهم للهلاك.
575;م المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سرخ تھا اور آپ ”لا إلہ إلا اللہ“ پڑھ رہے تھے۔ یہ آپ نے توحید کے اثبات اور دل کے اطمنان کے لیے فرمایا۔
پھرعربوں کو ڈراتے ہوئے فرمایا: ”اس شر (فتنہ) سے عرب کے لیے تباہی ہے، جو قریب آگیا ہے“ پھر آپ ﷺ نے اس فتنے کی وضاحت فرمائی کہ یہ یاجوج ماجوج کا دیوار میں انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کے حلقے کے بقدر سوراخ بنا لینا ہے۔
زینب رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟“ تو آپ نے بتایا کہ نیک لوگ ہلاک نہیں ہوں گے؛ بلکہ وہ محفوظ وکام ران رہیں گے۔ البتہ جب برائیاں بکثرت پھیل جائیں گي تو نیک لوگ بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ جب سماج میں برے اور گندے اعمال عام ہو جائیں گے، گرچہ سماج مسلم ہی کیوں نہ ہو اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوگا، تو گویا انھوں نے اپنے آپ کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3145

 
 
Hadith   213   الحديث
الأهمية: دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- البيت, وأسامة بن زيد وبلال وعثمان بن طلحة


Tema:

رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- البيت, وأسامة بن زيد وبلال وعثمان بن طلحة، فأغلقوا عليهم الباب فلما فتحوا كنت أولَ من وَلَجَ. فلقيتُ بلالًا, فسألته: هل صلى فيه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم , بين العَمُودَيْنِ اليَمَانِيَيْنِ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ”رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم خانۂ کعبہ کے اندر گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا، تو اندر داخل ہونے والا میں پہلا شخص تھا۔ میری ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟ انھوں نے بتلایا کہ ہاں ! آپ ﷺ نےدونوں یمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے“۔
لما فتح الله -تبارك وتعالى- مكة في السنة الثامنة من الهجرة، وطهر بيته من الأصنام والتماثيل والصور، دخل -صلى الله عليه وسلم- الكعبة المشرفة، ومعه خادماه، بلال، وأسامة، وحاجب البيت عثمان بن طلحة -رضي الله عنهم-، فأغلقوا عليهم الباب لئلا يتزاحم الناس عند دخول النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها ليروا كيف يتعبد، فيشغلوه عن مقصده في هذا الموطن، وهو مناجاة ربه وشكره على نعمه؛ فلما مكثوا فيها طويلا فتحوا الباب.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وكان عبد الله بن عمر حريصا على تتبع آثار النبي -صلى الله عليه وسلم- وسنته، ولذا فإنه كان أول داخل لما فتح الباب، فسأل بلالا: هل صلى فيها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال بلال: نعم، بين العمودين اليمانيين. وكانت الكعبة المشرفة على ستة أعمدة، فجعل ثلاثة خلف ظهره، واثنين عن يمينه، وواحدا عن يساره، وجعل بينه وبين الحائط ثلاثة أذرع، فصلى ركعتين، ودعا في نواحيها الأربع.
580;ب اللہ تعالی نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ پر فتح عطا فرمائی اور اپنے گھر کو بتوں، مورتیوں اور تصویروں سے پاک صاف کر دیا، تو نبی ﷺ اپنے دونوں خادم، یعنی بلال رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ اور خانۂ کعبہ کے دربان عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ انھوں نے داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا؛ تا کہ نبی ﷺ کے اس میں داخل ہونے پر لوگ یہ دیکھنے کے لیے بھیڑ نہ لگا لیں کہ آپ ﷺ کیسے عبادت کرتے ہیں اور یوں اس جگہ آنے میں آپ ﷺ کا جو مقصد ہے، یعنی اللہ سے مناجات اور اس کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری، اسی سے آپ ﷺ کی توجہ ہٹا دیں۔ کافی دیر اندر رہنے کے بعد انھوں نے دروازہ کھول دیا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کے آثار اور سنت کی جستجو میں ہمیشہ آگے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے جب دروازہ کھولا گیا، تو سب سے پہلےاندر داخل ہونے والے وہی تھے۔ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟"۔ بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: "ہاں، آپ ﷺ نے دونوں یمنی ستونوں کے مابین نماز پڑھی"۔ خانۂ کعبہ کے چھے ستون تھے۔ آپ ﷺ نے تین ستونوں کو اپنی پیٹھ پیچھے، دو کو اپنی دائیں طرف اور ایک کو اپنی بائیں جانب رکھا۔ اپنے اور دیوار کے مابین آپ ﷺ نے تین گز کا فاصلہ رکھتے ہوئے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور خانۂ کعبہ کے چاروں گوشوں میں دعا مانگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3148

 
 
Hadith   214   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث


Tema:

اے اللہ! میں ناپاک جنّوں اور جنّیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي صلى الله عليه وسلم  كان إذا دخل الخَلاء قال: ((اللهم إني أَعُوذ بك من الخُبُثِ والخَبَائِث)).

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ جاتے یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ اے اللہ! میں ناپاک جنّوں اور جنّیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر لنا أنس بن مالك -رضي الله عنه- وهو المتشرف بخدمة النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أدبًا نبويًّا حين قضاء الحاجة، وهو أنه -صلى الله عليه وسلم- من كثرة محبته والتجائه إلى ربه لا يدع ذكره والاستعانة به على أية حال، فهو -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد دخول المكان الذي سيقضي فيه حاجته استعاذ بالله، والتجأ إليه أن يقيه الشياطين من ذكور وإناث؛ لأنهم الذين يحاولون في كل حال أن يفسدوا على المسلم أمر دينه وعبادته، وفُسِّر الخبث والخبائث أيضًا بالشر وبالنجاسات.
وسبب الاستعاذة أن بيت الخلاء -وهو ما يسميه بعض الناس بالحمامات أو دورات المياه- أماكن الشياطين، وقد قال -صلى الله عليه وسلم-: "إن هذه الحشوش محتضرة، فإذا دخل أحدكم، فليقل: اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث" رواه ابن ماجه وغيره وصححه الألباني، وهناك سبب آخر وهو أن الإنسان يحتاج كشف عورته إذا دخل هذه المواضع، وقد  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ستر ما بين الجن وعورات بني آدم إذا دخل الكنيف أن يقول: بسم الله" رواه ابن ماجه وغيره وصححه الألباني أيضًا.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ جن کو نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا شرف حاصل تھا اس حدیث میں ہمارے لیے قضائے حاجت سے متعلق ایک نبوی ادب بیان کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ چونکہ اپنے رب سے بہت زیادہ محبت کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے اس لیے آپ ﷺ کسی بھی حال میں اس کا ذکر نہیں چھوڑتے تھے اور نہ ہی اس سے مدد مانگنا ترک کرتے۔ چنانچہ آپ ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ میں جاتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے اور اس کی حفاظت میں آتے ہوئے دعا فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کو خبیث جنوں اور جنیوں کی شر سے بچائے کیونکہ وہ ہر حال میں اس بات کے درپے رہتے ہیں کہ مسلمان کے دین وعبادت میں بگاڑ پیدا کر دیں۔ ’الخبث و الخبائث‘ کے الفاظ کی تفسیر شر اور نجاستوں سے بھی کی گئی ہے۔
پناہ مانگنے کا سبب یہ ہے کہ بیت الخلاء جسے بعض لوگ حمامات اور دورات المیاہ کا نام بھی دیتے ہیں، یہ شیاطین کی آماجگاہیں ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: قضائے حاجت کی ان جگہون پر شیاطین ہوتے ہیں چنانچہ جب تم میں سے کوئی ان میں داخل ہو تو وہ یوں کہے: اے اللہ میں خبیث جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اس حدیث کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کا ایک اور سبب بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان جب اس جگہ جاتا ہے تو اسے اپنی شرم گاہ کو کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بیت الخلاء میں جاتا ہے تو اس کا ”بسم اللہ“ کہنا جنات اور بنی آدم کی شرمگاہوں کے مابین آڑ بن جاتا ہے۔ ابن ماجہ وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے بھی صحیح قرار دیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3150

 
 
Hadith   215   الحديث
الأهمية: أن نبي الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- رأى رجلا يسوق بدنة, فقال: اركبها، قال: إنها بدنة، قال: اركبها


Tema:

اللہ کے نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ہدی کا ایک اونٹ ہانکے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ اس پرسوار ہو جاؤ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- «أن نبي الله -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلا يَسُوقُ بَدَنَةً, فقال: اركبها، قال: إنها بَدَنَةٌ، قال اركبها، فرأيته رَاكِبَهَا, يُسَايِرُ النبي -صلى الله عليه وسلم-».
وفي لفظ: قال في الثانية، أو الثالثة: «اركبها وَيْلَكَ أو وَيْحَكَ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ہدی کا ایک اونٹ ہانکے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: سوار ہو جاؤ۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ اس پر سوار تھا اور نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ایک اور روایت میں ہے کہ دوسری یا تیسری دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار ہو جاؤ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلًا يسوق بدنة، هو في حاجة إلى ركوبها قال له: اركبها، ولكون الهدي معظما عندهم لا يُتعرض له استفهم الصحابي بأنها بدنة مهداة إلى البيت، فقال: اركبها وإن كانت مهداة إلى البيت، فعاوده الثانية والثالثة، فقال: اركبها، مغلظًا له الخطاب ومبينًا له جواز ركوبها ولو كانت هديًا، فركبها الرجل.
580;ب نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ ہانکے جا رہا ہے حالانکہ اس کو اس پر سوار ہونے کی ضرورت تھی تو آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ چونکہ ہدی کا جانور ان لوگوں کے نزدیک بہت قابلِ تعظیم ہوتا تھا جسے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا تو صحابی رسول نے استفہامی انداز میں کہا کہ یہ تو بیت اللہ کی طرف بطور ہدی جانے والا اونٹ ہے (اس پر کیسے سوار ہوا جا سکتا ہے؟)۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جاؤ اگرچہ یہ بیت اللہ کی طرف بطور ہدی بھیجا جانے والا جانور ہی ہے۔ اس شخص نے دوسری اور تیسری باری آپ ﷺ سے ایسے ہی کہا اور آپ ﷺ نے تاکید بھرے انداز میں اس کی سواری کے جائز ہونے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ اس پر سوار ہو جاؤ اگرچہ یہ ہدی ہی کا جانور ہے۔ چنانچہ وہ آدمی اس پر سوار ہو گیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3152

 
 
Hadith   216   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أشد حياءً من العذراء في خدرها


Tema:

رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناپسند گزرتی، تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر پہچان لیتے تھے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَشَدَّ حياءً من العَذْرَاءِ في خِدْرِهَا، فإذا رأى شيئا يَكْرَهُهُ عرفناه في وجهه.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناپسند گزرتی، تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر پہچان جاتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- أشد حياء من المرأة التي لم تتزوج وهي أشد النساء حياءً؛ لأنَّها لم تتزوج ولم تعاشر الرجال فتجدها حيية في خدرها، فرسول الله -صلى الله عليه وسلم- أشدُّ حياء منها، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- إذا رأى ما يكره وما هو مخالف لطبعه -صلى الله عليه وسلم- عُرف ذلك في وجهه.
606;بی ﷺ کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے، جس میں سب سے زیادہ شرم و حیا ہوتی ہے؛ کیوں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ساتھ میل جول سے دور ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ شرم و حیا کا پیکر بن کر اپنے گھر ہی میں رہتی ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ اس سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ تاہم نبی ﷺ کو جب کوئی ناپسندیدہ یا ایسی بات نظر آتی، جو آپ ﷺ کی طبیعت کے برخلاف ہوتی، تو اس کے اثرات آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر ظاہر ہو جاتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3153

 
 
Hadith   217   الحديث
الأهمية: اعبدوا الله وحده لا تشركوا به شيئا، واتركوا ما يقول آباؤكم، ويأمرنا بالصلاة، والصدق


Tema:

صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمھارے آباو اجداد جو کچھ کہتے ہیں، اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتاہے اور سچائی کا۔

عن أبي سفيان صخر بن حرب -رضي الله عنه- قال: قال هِرَقل: فماذا يَأمُرُكُم -يعني: النبي صلى الله عليه وسلم- قال أبو سفيان: قلت: يقول: «اعبدُوا الله وَحدَه لاَ تُشرِكُوا بِهِ شَيئًا، وَاترُكُوا ما يَقُول آبَاؤُكُم، ويَأمُرُنَا بِالصَّلاَة، والصِّدق، والعَفَاف، والصِّلَة».

ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہرقل نے پوچھا: وہ شخص یعنی نبی ﷺ تمھیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: وہ کہتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمھارے آباو اجداد جو کچھ کہتے ہیں، اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتاہے اور سچائی اور پاک دامنی اپنانے اور صلہ رحمی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا حديث أبي سفيان صخر بن حرب -رضي الله عنه- المشهور مع هرقل، كان أبو سفيان وقتئذ مشركًا، حيث لم يسلم إلا متأخرًا، فيما بين صلح الحديبية وفتح مكة، قَدِم أبو سفيان ومعه جماعة من قريش إلى هرقل في الشام، وهرقل كان ملك النصارى في ذلك الوقت، وكان قد قرأ في التوراة والإنجيل وعرف الكتب السابقة، وكان ملكًا ذكيًا، فلما سمع بأبي سفيان ومن معه وهم قادمون من الحجاز دعا بهم، وجعل يسألهم عن حال النبي -صلى الله عليه وسلم- وعن نسبه، وعن أصحابه، وعن توقيرهم له، وعن وفائه -صلى الله عليه وسلم-، وكلما ذكر شيئا أخبروه عرف أنه النبي الذي أخبرت به الكتب السابقة، ولكنه - والعياذ بالله- شح بملكه فلم يسلم للحكمة التي أرادها الله -عز وجل-.
وكان فيما سأل أبا سفيان سؤاله عمَّا كان يأمرهم به النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره بأنه يأمرهم أن يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا، فلا يعبدوا غير الله، لا ملكًا ولا رسولاً، ولا شجرًا ولا حجرًا، ولا شمساً ولا قمرًا، ولا غير ذلك، فالعبادة لله وحده، وهذه دعوة الرسل، فجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- بما جاءت به الأنبياء من قبله بعبادة الله وحده لا شريك له.
ويقول: "اتركوا ما كان عليه آباؤكم" وهذا من الصدع بالحق، فكل ما كان آباؤهم من عبادة الأصنام أمرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بتركه، وأما ما كان عليه آباؤهم من الأخلاق الفاضلة؛ فإنه لم يأمرهم بتركه.
وقوله: "وكان يأمرنا بالصلاة" الصلاة صلة بين العبد وبين ربه، وهي آكد أركان الإسلام بعد الشهادتين، وبها يتميز المؤمن من الكافر، فهي العهد الذي بيننا وبين المشركين والكافرين، كما قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركه فقد كفر"
وقوله: "وكان يأمرنا بالصدق" كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأمر أمته بالصدق، وهذا كقوله -تعالى-: (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين). والصدق خلق فاضل، ينقسم إلى قسمين:
صدق مع الله، وصدق مع عباد الله، وكلاهما من الأخلاق الفاضلة.
وقوله "العفاف" أي: العفة، والعفة نوعان: عفة عن شهوة الفرج، وعفة عن شهوة البطن.
أما العفة الأولى: فهي أن يبتعد الإنسان عما حرم عليه من الزنى ووسائله وذرائعه.
أما النوع الثاني من العفاف: فهو العفاف عن شهوة البطن، أي: عما في أيدي الناس، والتعفف عن سؤالهم، بحيث لا يسأل الإنسانُ أحدًا شيئًا؛ لأن السؤال مذلة، والسائل يده دنيا، سفلى، والمعطي يده عليا، فلا يجوز أن تسأل أحدا إلا ما لابد منه.
أما قوله: "الصلة": فهي أن يصل المرء ما أمر الله به أن يوصل من الأقارب الأدنى فالأدنى، وأعلاهم الوالدان، فإن صلة الوالدين بر وصلة، والأقارب لهم من الصلة بقدر ما لهم من القرب، فالأخ أوكد صلة من العم، والعم أشد صلة من عم الأب، وصلة الرحم تحصل بكل ما تعارف عليه الناس.
740;ہ ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کی ہرقل کے ساتھ ہونے والی مشہور گفتگو ہے۔ ابو سفیان اس وقت مشرک تھے۔ کیوں کہ انھوں نے بہت دیر سے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام قبول کیا تھا۔ ابو سفیان قریش کے کچھ لوگوں کے ہم راہ شام میں ہرقل کے پاس آئے۔ ہرقل اس وقت عیسائیوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے توریت اور انجیل پڑھ رکھی تھی اور سابقہ کتابوں کا علم رکھتا تھا۔ وہ ایک زیرک بادشاہ تھا۔ اس نے جب حجاز سے آنے والے ابو سفیان اور ان کے ہم راہیوں کے بارے میں سنا، تو انھیں بلا بھیجا اور ان سے نبی ﷺ کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ ﷺ کا نسب کیا ہے، آپ ﷺ کے صحابہ کیسے ہیں، وہ آپ ﷺ کی کیسے توقیر کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ کس حد تک وفادار ہیں؟؟ وہ جو بات پوچھتا، یہ لوگ اسے اس کے بارے میں بتاتے، یہاں تک کہ وہ جان گیا کہ آپ ﷺ وہی نبی ہیں، جس کی خبر سابقہ کتابوں نے دی ہے۔ تاہم حکمتِ الٰہی کے پیش نظر وہ اپنی بادشاہت کی لالچ میں اسلام قبول نہ کیا۔ العیاذ باللہ۔
ابو سفیان سے اس نے جوسوالات کیے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ انھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے اسے بتایا کہ آپ ﷺ انھیں حکم دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا کسی بھی فرشتے، رسول، درخت، پتھر اور سورج و چاند وغیرہ کی عبادت نہ کریں۔ عبادت کی سزاوار صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ تمام انبیا نے اسی بات کی دعوت دی۔ چنانچہ نبی ﷺ بھی وہی پیغام لے کر آئے، جوآپ ﷺ سے پہلے سابقہ انبیا لے کر آئے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہونی چاہیے اور یہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
اور وہ (یعنی نبی ﷺ )کہتے ہیں کہ: "جس دین پر تمھارے آباو اجداد تھے، اسے چھوڑ دو"۔ یہ حق کا برملا اظہار ہے۔ ان کے آباو اجداد جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، نبی ﷺ نے اسے چھوڑ دینے کا حکم فرمایا۔ تاہم ان کے آباو اجداد میں جو اعلی اخلاقی خوبیاں تھیں، ان کے ترک کر نے کا آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا۔
ابو سفیان نے کہا: "اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے"۔ نماز بندے اور اس کے رب کے مابین تعلق کا نام ہے۔ ارکان اسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد یہ سب سے اہم رکن ہے۔ یہی مؤمن و کافر کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ یہی وہ معاہدہ ہے، جو ہمارے اور مشرکین و کفار کے مابین ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے مابین جو معاہدہ ہے، وہ نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے یقینا کفر کیا"۔
ابو سفیان نے کہا: "وہ ہمیں سچائی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ نبی ﷺ اپنی امت کو سچائی کا حکم دیتے۔ یہ ایسے ہی جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ" (التوبة: 119)
ترجمہ: اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
سچائی ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، جس کی دو اقسام ہیں:
اللہ کے ساتھ سچائی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ سچائی۔ اور دونوں ہی اعلی اخلاقی صفات میں سے ہیں۔
ابو سفیان نے کہا: "اور آپ ﷺ ہمیں پاک دامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ "عفاف" کے معنی ہیں: پاک دامنی۔ عفت (پاک دامنی) کی دو اقسام ہیں: شر م گاہ کی شہوت سے عفت اور پیٹ کی شہوت سے عفت۔
پہلی قسم کی عفت سے مراد یہ ہے کہ انسان زنا اور اس کے وسائل و ذرائع سے دور رہے، جو اس کے لیے حرام ہیں۔
دوسری قسم کی عفت، پیٹ کی شہوت سے عفت ہے۔ یعنی لوگوں کے پاس جو کچھ (سامان دنیا ) ہے، اس سے عفت اختیار کرنا اور ان سے مانگنے سے پرہیز کرنا، بایں طور کہ وہ کسی شخص سے کوئی شے نہ مانگے۔ کیوں کہ مانگنا باعث ذلت ہے اور مانگنے والے کا ہاتھ کم تر اور نچلا ہوتا ہے، جب کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ چنانچہ سوائے اس شےکے جس کے بغیر چارہ ہی نہ ہو، آپ کے لیے کسی سے مانگنا جائز نہیں۔
پانچویں شے جس کے بارے میں ابو سفیان نے بتایا وہ صلہ رحمی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جن لوگوں سے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، انسان ان سے صلہ رحمی کرے اور اس سلسلے میں ان سے اپنی رشتے داری کے درجات کو ملحوظ رکھے۔ رشتے داروں میں سب سے پہلے والدین آتے ہیں، جن کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا نیکی بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ رشتے دار جتنا قریبی ہو، اسی قدر اس سے صلہ رحمی ہو گی۔ چنانچہ چچا کی بہ نسبت بھائی سے صلہ رحمی کی زیادہ تاکید ہے اور باپ کے چچا کی بہ نسبت اپنے چچا سے صلہ رحمی زیادہ اہم ہے۔
صلہ رحمی ہر اس طریقے سے ہو سکتی ہے، جو لوگوں کے نزدیک معروف ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3154

 
 
Hadith   218   الحديث
الأهمية: يا أمير المؤمنين، إن الله تعالى قال لنبيه -صلى الله عليه وسلم-: {خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين} وإن هذا من الجاهلين


Tema:

امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ}۔ اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قَدِم عُيَينَة بن حِصنٍ، فَنزَل على ابنِ أَخِيه الحُرِّ بن قَيسٍ، وكان من النَّفَر الذين يُدنِيهِم عمر -رضي الله عنه-، وكان القُرَّاء  أصحاب مَجلِس عُمر -رضي الله عنه- ومُشاوَرَتِه كُهُولا كانوا أو شُبَّانًا، فقال عيينة لابن أَخِيه: يَا ابن أخي، لك وَجْه عند هذا الأمير فَاسْتَأذِن لِي عليه، فَاسْتَأذَن فَأَذِن لَه عُمر، فَلَمَّا دَخَل قال: هي يا ابن الخطَّاب، فَوالله مَا تُعطِينَا الجَزْلَ ولا تَحكُمُ فِينَا بِالعَدلِ، فغضب عمر -رضي الله عنه- حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِه، فقال له الحُرُّ: يا أمير المؤمنين، إنَّ الله تعالى قال لِنَبِيِّه -صلى الله عليه وسلم-: {خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين}، وإِنَّ هذا مِن الجَاهِلِين، والله مَا جَاوَزَها عُمر حِين تَلاَهَا، وكان وَقَّافًا عند كِتَاب الله -تعالى-.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے اپنے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام کیا۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے، جنھیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ علما عمر رضی اللہ عنہ کے شریکِ مجلس و مشورہ رہتے تھے؛ خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ عیینہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے بھتیجے! تمھیں امیر المؤمنین کے یہاں رسوخ حاصل ہے۔ چنانچہ تم مجھے ان سے ملنے کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ جب عیینہ رضی اللہ عنہ آئے، تو کہنے لگے: اے ابن خطاب! واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو"۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ انھیں مارنے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا:"امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف:198) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔
اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب انھوں نے یہ آیت تلاوت کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے بالکل بھی تجاوز نہ کیا۔ در حقیقت آپ رضی اللہ عنہ تھے ہی ایسے کہ آپ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر ٹھہر جاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُحدِثُنا الصحابي الجليل عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- عما حصل لأمير المؤمنين عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-، حيث قدم عليه عيينة بن حصن -رضي الله عنه-، وكان من كبار قومه، فبدأ كلامه الفض بالتهجُّم والاستنكار، ثم عقَّبه بالمُعاتبة قائلاً: إِنَّك لا تُعطِينا الجزل، ولا تحكم فينا بالعدل، فغضب عمر -رضي الله عنه- غضبا حتى كاد يضربه، ولكن قام بعض القُرَّاء ومنهم ابن أخي عيينة وهو الحر بن قيس مخاطبا الخليفة الراشد -رضي الله عنه-: يا أمير المؤمنين، إن الله -تعالى- قال لنبيه -صلى الله عليه وسلم-: "خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين" ، وإن هذا من الجاهلين، فوقف عمر عندها وكتم غضبه، ولم يتجاوزها؛ لأنه كان وقَّافا عند كتاب الله -رضي الله عنه وأرضاه-، فوقف وما ضرب الرجل؛ لأجل الآية التي تُلِيت على مسامعه.
فهذا هو أدب الصحابة -رضي الله عنهم- عند كتاب الله؛ لا يتجاوزونه، إذا قيل لهم هذا قول الله وَقَفُوا، مهما كان الأمر.
580;لیل القدر صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پیش آنے والے ایک واقعہ کے بارے میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے، جو اپنی قوم کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے اپنی بے سروپا گفتگو کا آغاز درشتگی اور مذمت بھرے انداز میں کیا اور پھر ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے: "تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے اور قریب تھا کہ وہ ان کی پٹائی كر دیتے، لیکن بعض علما جن میں ایک عیینہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ بھی تھے، آگے بڑھے اور خلیفۂ راشد رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف: 199) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔
اور یہ جاہل لوگوں میں سے ہے۔ اس آیت پر عمر رضی اللہ عنہ ٹھہر گئے اور انھوں نے اپنا غصہ دبا لیا اور اس سے تجاوز نہ کیا؛ کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر رک جانے والے تھے۔ چنانچہ آپ کے سامنے تلاوت کی جانے والی اس آیت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو نہ مارا۔
اللہ کی کتاب کے معاملے میں صحابۂ کرام کا طرز عمل یہی تھا کہ وہ اس سے تجاوز نہ کرتے۔ جب ان سے یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے، تو وہ رک جاتے؛ چاہے کچھ بھی ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3155

 
 
Hadith   219   الحديث
الأهمية: إنها ستكون بعدي أثرة وأمور تنكرونها


Tema:

تم میرے بعد خود غرضی اور ایسے ایسے امور دیکھو گے، جنھیں تم برا سمجھو گے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّها سَتَكُون بَعدِي أَثَرَة وأُمُور تُنكِرُونَها!» قالوا: يا رسول الله، فَمَا تَأمُرُنَا؟ قال: «تُؤَدُّون الحَقَّ الذي عَلَيكم، وتَسأَلُون الله الذِي لَكُم».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد خود غرضی اور ایسے ایسے امور دیکھو گے، جنھیں تم برا سمجھو گے“۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے ذمے واجب حق ادا کرتے رہنا اوراپنا حق اللہ سے مانگنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث التنبيه على أمر عظيم متعلق بمعاملة الحكام، وهي ظلم الحكام وانفرادهم بالمال العام دون الرعية، حيث أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه سيستولي على المسلمين ولاة يستأثرون بأموال المسلمين يصرفونها كما شاؤوا ويمنعون المسلمين حقهم فيها.
وهذه أثرة وظلم من هؤلاء الولاة، أن يستأثروا بالأموال التي للمسلمين فيها الحق، وينفردوا بها لأنفسهم عن المسلمين، ولكن الصحابة المرضيون طلبوا التوجيه النبوي في عملهم لا فيما يتعلق بالظلمة، فقالوا: ما تأمرنا؟ وهذا من عقلهم، فقال -صلى الله عليه وسلم-: "تودون الحق الذي عليكم"، يعني: لا يمنعكم انفرادهم بالمال عليكم أن تمنعوا ما يجب عليكم نحوهم من السمع والطاعة وعدم الإثارة والوقوع في الفتن، بل اصبروا واسمعوا وأطيعوا ولا تنازعوا الأمر الذي أعطاهم الله، "وتسألون الله الذي لكم" أي: اسألوا الحق الذي لكم من الله، أي: اسألوا الله أن يهديهم حتى يؤدُّوكم الحق الذي عليهم لكم، وهذا من حكمة النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ فإنه -صلى الله عليه وسلم- علِم أنَّ النفوس لا تصبر عن حقوقها، وأنها لن ترضى بمن يستأثرعليهم بحقوقهم، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- أرشد إلى أمر يكون فيه الخير والمصلحة، وتندفع من ورائه الشرور والفتن، وذلك بأن نؤدي ما علينا نحوهم من السمع والطاعة وعدم منازعة الأمر ونحو ذلك، ونسأل الله الذي لنا.
581;دیث میں حکمرانوں کے طرز عمل سے متعلق ایک بہت بڑی بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جو کہ ان کا ظلم کرنا اور رعایا کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا مال و دولت پر قبضہ جما لینا ہے۔ کیوں کہ نبی ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ مسلمانوں پر عنقریب ایسے حکمران مسلط ہو جائیں گے، جو ان کے اموال کو اپنے قبضے میں لے کر جیسے چاہیں گے، استعمال کریں گے اور اس میں سے ان کا حق انھیں نہیں دیں گے۔
ان حکمرانوں کی طرف سے یہ سراسر خود غرضی اور ظلم ہو گا کہ وہ ایسے مال پر قابض ہو بیٹھیں گے، جس میں مسلمانوں کا بھی حق ہے، لیکن مسلمانوں کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا اس میں تصرف کریں گے۔ تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان ظالموں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے طرز عمل کے بارے میں نبی ﷺ سے راہ نمائی چاہی اور پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یہ ان کی دانش مندی کی علامت ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:”تم اپنے ذمے واجب حق ادا کرتے رہنا“۔ یعنی ان حکمرانوں کے تن تنہا مال پر تسلط جما لینے کی وجہ سے کہیں یہ نہ ہو کہ ان کے بارے میں تم پر جو شے واجب ہے، تم اسے ادا نہ کرو، یعنی ان کی سمع و طاعت کرنا اور فتنہ و فساد انگیزی میں شریک نہ ہونا۔ اس کی بجائے صبر اور فرماں برداری کرنا اور اللہ نے انھیں جو حکومت دی ہے، اس میں ان سے مت جھگڑنا۔ ”اور اپنا حق اللہ سے مانگنا“۔ یعنی اپنے حق کو اللہ سے طلب کرنا۔ یعنی اللہ سے یہ دعا کرنا کہ وہ انھیں ہدایت دے؛ تا کہ وہ ان کے ذمے واجب تمھارا حق ادا کرنے لگ جائیں۔ یہ حکم نبی ﷺ کی حکمت کا مظہر ہے۔ آپ ﷺ کو پتہ تھا کہ انسانی نفس کو اپنا حق وصول کیے بغیر چین نہیں ملتا اور حق ماری برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ایسی بات کی طرف راہ نمائی فرمائی، جس میں خیر اور مصلحت مضمر ہے اور جس کی وجہ سے برائیاں اور فتنے دور ہوتے ہیں۔ ہم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہیں، جو ہم پر واجب ہے۔ امور سلطنت میں ان سے نہ الجھیں اور اپنا حق اللہ سے طلب کرتے رہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3156

 
 
Hadith   220   الحديث
الأهمية: من سأل الله تعالى الشهادة بصدق بلغه منازل الشهداء وإن مات على فراشه


Tema:

جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے گا، اللہ اسے شہیدوں کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو۔

عن سهل بن حنيف -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَن سَأَل الله تَعَالى الشَّهَادَة بِصِدق بَلَّغَه مَنَازِل الشُّهَدَاء وإِن مَات عَلَى فِرَاشِه».

سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے گا، اللہ اسے شہیدوں کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث بيان أنَّ صدق النية سبب لبلوغ الأجر والثواب، وأنَّ من نوى شيئاً من عمل البرّ أُثِيب عليه، وإن لم يقدر على عمله، ومن ذلك من دعا وسأل الشهادة في سبيل الله ونصرة دينه صادقاً من قلبه كتب الله له أجر الشهداء وإن لم يعمل عملهم ومات في غير الجهاد.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ صدقِ نیت اجر و ثواب کے حصول کا سبب ہے۔ جو شخص کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے، اسےاس پر اجر ملتا ہے، اگرچہ وہ اس عمل کو نہ کر سکے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جو بندہ سچے دل سے دعا کرے اور اللہ کی راہ میں اور اس کے دین کی نصرت کے لیے شہادت مانگے، اس کے لیے اللہ تعالی شہدا کا اجر لکھ دیتا ہے، اگرچہ وہ ان کی طرح کا عمل نہ کر سکے اور جہاد کی بجائے کسی اور حالت میں اس کی موت واقع ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3157

 
 
Hadith   221   الحديث
الأهمية: ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتى يلقى الله تعالى وما عليه خطيئة


Tema:

مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان، اولاد اور مال میں مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس حال میں اللہ سے ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ما يزَال البَلاء بِالمُؤمن والمُؤمِنة في نفسه وولده وماله حتَّى يَلقَى الله تعالى وما عليه خَطِيئَة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان، اولاد اور مال میں مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس حال میں اللہ سے ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإنسان في دار التكليف معرض للابتلاء بالضراء والسراء، فمتى أصيب الإنسان ببلاء في نفسه أو ولده أو ماله، ثم صبر على استمرار البلاء، فإن ذلك يكون سببًا في تكفير الذنوب والخطايا، أما إذا تسخط فإن من تسخط على البلاء فله السخط من الله -تعالى-.
575;نسان اس دار تکلیف میں (کبھی) تنگی اور (کبھی) آسودگی کی شکل میں ہمہ وقت آزمائش میں رہتا ہے۔ جب انسان کو اپنی جان و اولاد اور مال کے سلسلے میں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آزمائش کے جاری رہنے پر وہ صبر کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ اور خطائیں معاف ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ ان پر ناگواری کا اظہار کرے تو جان لینا چاہیے کہ جو شخص آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے وہ اللہ کی ناراضگی کا سزاوار ہو جاتا ہے۔   --  [حَسَن صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3159

 
 
Hadith   222   الحديث
الأهمية: إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت دعوت الله -تعالى- أن يعافيك


Tema:

اگر تم چاہو تو صبر کرو تمہیں اس پر جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دیتا ہوں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أنه قال لعطاء بن أبي رباح: ألاَ أُريكَ امرأةً مِن أَهلِ الجَنَّة؟ قال عطاء: فَقُلت: بَلَى، قال: هذه المرأة السَّوداء أَتَت النَّبي -صلى الله عليه وسلم- فقالت: إِنِّي أُصرَع، وإِنِّي أَتَكَشَّف، فَادعُ الله تعالى لِي، قال: «إِن شِئتِ صَبَرتِ ولَكِ الجَنَّةُ، وَإِن شِئْتِ دَعَوتُ الله تعالى أنْ يُعَافِيك» فقالت: أَصبِرُ، فقالت: إِنِّي أَتَكَشَّف فَادعُ الله أَن لاَ أَتَكَشَّف، فَدَعَا لَهَا.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عطاء ابن ابی رباح سے کہا کہ کیا تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھاؤں؟ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ضرور دکھائیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک سیاہ فام عورت نبی ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو تمہیں اس پر جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دیتا ہوں“۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے کہا کہ (مرگی کے وقت) میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ دعا فرما دیں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في الحديث أن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال لتلميذه عطاء بن أبي رباح: "ألا أريك امرأة من أهل الجنة؟ قلت: بلى! قال: هذه المرأة السوداء".
امرأة سوداء لا يؤبه لها ولا يعرفها أكثر الناس، كانت تُصرع وتَنكشف، فأخبرت النبي -صلى الله عليه وسلم- وسألته أن يدعو الله لها بالشفاء من الصرع، فقال لها -صلى الله عليه وسلم-: "إن شئت دعوت الله لك، وإن شئت صبرت ولك الجنة"، فقالت: أصبر، وإن كانت تتألَّم وتتأذى من الصرع، لكنها صبرت من أجل أن تفوز بالجنة، ولكنها قالت: يا رسول الله إني أتكشف، فادع الله أن لا أتكشف، فدعا الله أن لا تتكشف، فصارت تُصرع ولا تتكشَّف.
581;دیث شریف میں اس بات کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس سیاہ فام عورت کو دیکھ لو۔ سیاہ فام عورت جس کی طرف توجہ بھی نہیں جاتی اور زیادہ تر لوگ اسے پہنچانتے تک نہیں۔ اسے مرگی کا دورہ پڑتا اور اس کا ستر کھل جاتا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو اس بارے میں بتایا اور آپ ﷺ سے گزارش کی کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اسے مرگی کے مرض سے شفاء مل جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:”اگر تم چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں اور اگر تم چاہو تو پھر صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت ملے گی“۔ تواس نے جواب دیا کہ میں صبر کرتی ہوں۔ اگرچہ اس عورت کو مرگی کی وجہ سے درد اور اذیت ہوتی تھی لیکن اس نے جنت کو پانے کے لیے صبر کو اختیار کیا۔ تاہم اس نے آپ ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرا ستر کھل جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کردیں کہ میرا ستر نہ کھلے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی کہ وہ ننگی نہ ہوا کرے۔بعد ازاں اسے مرگی کا دورہ تو پڑتا لیکن اس کا ستر نہیں کھلتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3160

 
 
Hadith   223   الحديث
الأهمية: ليس من عبد يقع في الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم أنه لايصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد


Tema:

جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہوا اور صبر اور اجر وثواب کی نیت رکھتے ہوئے وہ اپنے علاقےمیں ہی مقیم رہا، یہ یقین رکھا کہ اسے صرف وہی تکلیف پہنچے گی، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے، تو اسے شہید کے اجر کے مساوی اجر ملے گا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أَنَّها سَأَلَت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الطَّاعُون، فَأَخبَرَها أَنَّه كَان عَذَابًا يَبعَثُه الله تعالى على من يشاء، فَجَعَلَه الله تعالى رحمَة للمؤمنين، فليس من عبدٍ يقع في الطَّاعُون فَيَمكُث فِي بَلَدِه صَابِرًا مُحتَسِبًا يعلَم أَنَّه لايُصِيبُه إِلاَّ مَا كتَب الله له إلا كان له مِثلُ أجرِ الشَّهيدِ.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا۔ آپﷺ نے انھیں بتایا کہ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالی جس پر چاہتا، نازل کردیتا۔ تاہم ایمان والوں کے لیے اللہ تعالی نے اسے رحمت بنا دیا۔ چنانچہ جو شخص بھی طاعون کے مرض میں مبتلا ہوا اور صبر اور اجر وثواب کی نیت رکھتے ہوئے وہ اپنے علاقےمیں ہی مقیم رہا، اس یقین کے ساتھ کہ اسے صرف وہی تکلیف پہنچے گی، جو اللہ نے اس کے لئے لکھ رکھی ہے، تو اسے شہید کے اجر کے مساوی اجر ملے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث عائشة -رضي الله عنها- أنها سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الطاعون، فأخبرها أن الطاعون عذاب يرسله الله سبحانه وتعالى على من يشاء من عباده.
وسواء كان الطاعون معيناً أم كان وباء عاما مثل الكوليرا وغيرها؛ فإن هذا الطاعون عذاب أرسله الله عز وجل، ولكنه رحمة للمؤمن إذا نزل بأرضه وبقي فيها صابراً محتسباً، يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له، فإن الله تعالى يكتب له مثل أجر الشهيد، ولهذا جاء في الحديث الصحيح عن عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- أنه قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فراراً منه".
إذا وقع الطاعون بأرض فإننا لا نقدم عليها؛ لِأنَّ الإقدام عليها إلقاء بالنفس إلى التهلكة، ولكنه إذا وقع في أرض فإِنَّنا لا نخرج منها فراراً منه، لأنك مهما فررت من قدر الله إذا نزل بالأرض فإن هذا الفرار لن يغني عنك من الله شيئاً؛ لأنه لا مفر من قضاء الله إلا إلى الله.
وأما سر نيل درجة الشهداء للصابر المحتسب على الطاعون: هو أن الإنسان إذا نزل الطاعون في أرضه فإن الحياة غالية عنده، سوف يهرب، يخاف من الطاعون، فإذا صبر وبقي واحتسب الأجر وعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له، ثم مات به، فإنه يكتب له مثل أجر الشهيد، وهذا من نعمة الله -عز وجل-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے انھیں بتایا کہ طاعون ایک عذاب ہے، جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، نازل کر دیتا ہے۔
چاہے یہ معین طاعون ہو یا پھر عام وبا ہو، جیسے ہیضہ وغیرہ؛ طاعون اللہ عز و جل کا بھیجا ہوا عذاب ہے۔ لیکن یہ مؤمن کے لیے رحمت ہے، بایں طور کہ یہ کسی کے علاقےمیں پھیل جائے اور وہ صبر کا دامن تھام کر، اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے، اس یقین کے ساتھ اسی علاقے میں رہے کہ اسے وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے، تو اللہ تعالی اس کے لیے شہید کے برابر اجر لکھ دیتا ہے۔ اسی لیے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی علاقےمیں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں ہو، تو اس سے بچنے کے لیے وہاں سے نہ نکلو"۔
جب کسی جگہ طاعون پھیل چکا ہو، تو وہاں ہم نہیں جائیں گے؛ کیوں کہ وہاں جانا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ تاہم جب وہ کسی علاقے میں پھیل چکا ہو، تواس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ہم وہاں سے نہیں نکلیں گے۔ کیوں کہ اللہ کی طرف سے مقدر کردہ شے جب زمین پر نازل ہوجائے، تو آپ اس سے جتنا بھی بھاگ لیں، آپ کا یہ بھاگنا اللہ کےمقابلے میں آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا؛ کیوں کہ اللہ کی قضا سے سوائے اس کی ذات کے اور کوئی مفر نہیں ہے۔
طاعون پر صبر کرنے والے اور اجر و ثواب کی امید رکھنے والے شخص کو شہدا کا درجہ حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ جب انسان کے علاقے میں طاعون پھیلتا ہے، تو اس کے لیے جان قیمتی ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ اس سے بھاگ اٹھے گا اور طاعون سے خوف زدہ ہو جائے گا۔ تاہم اگر وہ صبر کرے، وہیں مقیم رہے اور اجر کی امید رکھے اور یقین کر لے کہ اسے صرف وہی مصیبت لاحق ہو گی، جسے اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے اور پھر اس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے، تو اس شخص کے لیے شہید کے مساوی اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ اللہ عز و جل کی طرف سے ایک نعمت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3161

 
 
Hadith   224   الحديث
الأهمية: يقول الله -تعالى-: ما لعبدي المؤمن عندي جزاء إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ثم احتسبه إلا الجنة


Tema:

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے، اہل دنیا میں سے اس کا کوئی عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے، تو اس کے لیے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «يقول الله -تعالى-: ما لِعَبدِي المُؤمن عِندِي جَزَاء إِذَا قَبَضتُ صَفِيَّه مِنْ أَهلِ الدُّنيَا ثُمَّ احْتَسَبَه إِلاَّ الجنَّة».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے، اہل دنیا میں سے اس کا کوئی عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اس کے لیے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -عليه السلام- في هذا الحديث القدسي، أنَّ من ابتلي بفقد حبيبه من قريب ونحو ذلك إذا صبر الإنسان على قبض من يصطفيه الإنسان ويختاره ويرى أنه ذو صلة منه قوية، من ولد، أو أخ، أو عم، أو أب، أو أم، أو صديق، إذا أخذه الله -عز وجل- ثم احتسبه الإنسان فليس له جزاء إلا الجنة.
575;س حدیث قدسی میں نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے کسی قریبی عزیز وغیرہ سے محروم ہو جاتا ہےاور اپنے پسندیدہ شخص کی وفات پر صبر کرتا ہے۔ حالاںکہ وہ اس کا بہت قریبی تعلق والا ہوتا ہے، جیسے بچہ، بھائی، چچا، باپ، ماں اور دوست۔ کسی ایسے فرد کو اللہ تعالی اگر (موت دے کر) لے لے اور آدمی اس پر صبر کرے، تو جنت کے سوا اس کا کوئی بدلہ نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3162

 
 
Hadith   225   الحديث
الأهمية: إنَّ المُفْلس مِنْ أُمَّتِي مَن يَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِصَلَاة وَصِيَامٍ وَزَكَاة، وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَم هذا، وقَذَفَ هذا، وأَكَل مالَ هذا، وسَفَكَ دَمَ هذا، وضَرَبَ هذا، فَيُعْطَى هَذا مِن حَسَنَاتِهِ، وهذا مِنْ حَسَنَاتِهِ


Tema:

میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ لائے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أتدرون من المفلس؟» قالوا: المُفْلِس فينا من لا دِرهَمَ له ولا مَتَاع، فقال: «إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شَتَمَ هذا، وقذف  هذا، وأكل مال هذا، وسَفَكَ دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يُقْضَى ما عليه، أخذ من خطاياهم فَطُرِحتْ عليه، ثم طُرِحَ في النار».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ کچھ سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کی صورت میں اعمال) لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا ہوگا) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں اس پر آنے والے ہرجانہ کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يسأل النبي -صلى الله عليه وسلم- الصحابة رضوان الله عليهم فيقول: "أتدرون من المفلس". فأخبروه بما هو معروف بين الناس، فقالوا: هو الفقير الذي ليس عنده نقود ولا متاع.
فأخبرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن المفلس من هذه الامة من يأتي يوم القيامة بحسنات عظيمة، وأعمال صالحات كثيرة من صلاة وصيام وزكاة، فيأتي وقد شتم هذا، وضرب هذا، وأخذ مال هذا، وقذف هذا، وسفك دم هذا، والناس يريدون أن يأخذوا حقهم؛ فما لا يأخذونه في الدنيا يأخذونه في الآخرة، فيقتص لهم منه؛ فيأخذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، وهذا من حسناته بالعدل والقصاص بالحق، فإن فنيت حسناته أخذ من سيئاتهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار.
606;بی ﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟۔ انہوں نے آپ ﷺ کو مفلس کا وہی معنی بتایا جو لوگوں کے مابین معروف ہے یعنی وہ فقیر شخص جس کے پاس نہ تو کچھ نقدی ہو اور نہ سامان۔
نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بڑی بڑی نیکیاں لے کر آئے گا اور نماز، روزہ اور زکوۃ کی شکل میں اس کے بہت سے نیک اعمال ہوں گے لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی کو مارا ہو گا، کسی کا ناحق مال ہتھیایا ہو گا، کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور لوگ اس سے اپنا بدلہ لینا چاہیں گے۔ جو وہ دنیا میں نہ لے سکے اسے آخرت میں وصول کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالی اس سے ان کا بدلہ لے گا اور یوں یہ لوگ پورے انصاف کے ساتھ بطور بدلہ اس کی نیکیاں لے لیں گے۔ اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو پھر ان کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3165

 
 
Hadith   226   الحديث
الأهمية: والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ وذَلِكَ أَنْ الجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إلا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ


Tema:

اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ تمہاری تعداد اہل جنت میں آدھی ہوگی، اس لیے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: كُنَّا مع رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- في قُبَّةٍ نَحْوًا من أربعينَ، فقال: «أَتَرْضَونَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ؟» قلنا: نعم. قال: «أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ؟» قلنا: نعم، قال: «والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ وذَلِكَ أَنْ الجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إلا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وما أنتم في أَهْلِ الشِّرْكِ إلا كَالشَّعْرَةِ البَيْضَاء في جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أو كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ في جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ہم تقریباً چالیس آدمی ایک خیمے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو؟ ہم نے پھر اثبات میں جواب دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ تمہاری تعداد اہل جنت میں آدھی ہوگی، اس لیے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم مشرکین کے مقابلے میں ایسے ہی ہو جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جلس النبي -صلى الله عليه وسلم- مع أصحابه في خيمة صغيرة، وكانوا قرابة أربعين رجلاً، فسألهم -صلى الله عليه وسلم-: هل ترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة؟ قالوا: نعم، فقال: هل ترضون أن تكونوا ثلث أهل الجنة؟ قالوا: نعم، فأقسم النبي -صلى الله عليه وسلم- بربه ثم قال: إني لأرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة، والنصف الآخر من سائر الأمم، فإن الجنة لا يدخلها إلا مسلم فلا يدخلها كافر، وما أنتم في أهل الشرك من سائر الأمم إلا كالشعرة البيضاء في الثور الأسود، أو الشعرة السوداء في الثور الأبيض، والشك من الراوي.
575;للہ کے رسول ﷺ تقريباً چاليس صحابۂ کرام کے ساتھ ايک چھو ٹے سے خيمہ ميں بيٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم اس بات پر خوش اور راضی ہو کہ تم تمام اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر فرمايا: کیا تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہونے پر خوش ہو؟ انہوں نے پھر اثبات میں جواب دیا، تو اللہ کے رسول ﷺ نے رب كى قسم کھا کر کہا کہ: مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کا نصف ہوگے، اور دوسرا نصف باقی ساری امتوں سے ہوں گے۔ کیونکہ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوں گے، اس میں کوئی کافر نہیں جائے گا۔ اور سارے امم کے اہل شرک کے مقابلے میں تم ایسے ہی ہو جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوتاہے۔ اور يہ شک راوی کی طرف سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3166

 
 
Hadith   227   الحديث
الأهمية: أَلِظُّوا بـ ياذا الجلال والإكرام


Tema:

تم لوگ (اپنی دعاؤں میں) کثرت کے ساتھ ”يَاذَا الجَلاَلِ والإكْرامِ“ پڑھتے رہا کرو۔

عن أنس -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ رسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: «ألِظُّوا بـ (يَاذا الجَلاَلِ والإكْرامِ)».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ (اپنی دعاؤں میں) کثرت کے ساتھ ”يَاذا الجَلاَلِ والإكْرامِ“ پڑھتے رہا کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أمر(ألظوا)، بمعنى: الزموا هذه الدعوة وأكثروا منها، فالمراد: داوموا على قولكم ذلك في دعائكم واجعلوه على لسانكم
وقد اشتمل على اسم من أسماء الله قيل إنه الاسم الأعظم، لكونه يشمل جميع صفات الربوبية والألوهية.
581;دیث میں ”ألِظُّوْا“ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا گیا ہے جس کا معنی ہے پابندی اور کثرت کے ساتھ یہ دعا مانگو۔ مراد یہ ہے کہ اپنی دعا میں ہمیشہ یہ الفاظ کہو اور انہیں اپنی زبان پر جاری رکھو۔
ان الفاظ میں اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسم اعظم ہے کیونکہ وہ ربوبیت اور الوہیت سے متعلق تمام صفات پر مشتمل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3167

 
 
Hadith   228   الحديث
الأهمية: إذا انْتَهى أَحَدُكُم إلى المجْلِسِ فَلْيُسَلِّم، فإذا أرادَ أن يقومَ فَلْيُسَلِّمْ، فَلَيْسَت الأُولَى بأحَقَّ مِن الآخِرَةِ


Tema:

جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے، تو سلام کرے اور جب اٹھ کر جانے لگے، تو بھی سلام کرے اور پہلا دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «إذا انْتَهى أَحَدُكُم إلى المجْلِسِ فَلْيُسَلِّم، فإذا أرادَ أن يقومَ فَلْيُسَلِّمْ، فَلَيْسَت الأُولَى بأحَقَّ مِن الآخِرَةِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے، تو سلام کرے اور جب اٹھ کر جانے لگے، تو بھی سلام کرے اور پہلا (موقع) دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه بيان أدب  من آداب السلام, وهو أن الرجل إذا دخل على المجلس فإنه يسلم فإذا أراد أن ينصرف وقام وفارق المجلس فإنه يسلم, لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمر بذلك وقال: ليست الأولى بأحق من الثانية. يعني كما أنك إذا دخلت تسلم فكذلك إذا فارقت فَسَلِّمْ, ولهذا إذا دخل الإنسان المسجد سلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم-، وإذا خرج سلَّم عليه أيضا، وكما أن التسليمة الأولى إخبار عن سلامتهم من شره عند الحضور، فكذا الثانية إخبار عن سلامتهم من شره عند الغيبة، وهذا من كمال الشريعة أنها جعلت المبتدي والمنتهي على حد سواء في مثل هذه الأمور والشريعة كما نعلم جميعًا من لدن حكيم خبير.
581;دیث میں سلام کے آداب کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آدمی مجلس میں داخل ہو، تو سلام کرے۔ پھر جب لوٹنے کا ارادہ کرے اور کھڑا ہو کر مجلس سے جدا ہونا چاہے، تو سلام کرے۔ پیارے نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ”پہلا دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے“ یعنی جس طرح داخل ہوتے ہوئے سلام کیا تھا، اسی طرح جدا ہو تو سلام کرے۔ اسی طرح جب آدمی مسجد میں داخل ہو، تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور جب نکلے، تب بھی نبی ﷺ پر سلام بھیجے۔ جس طرح پہلا سلام اس بات کی خبر دیتا ہے کہ لوگ اس کی موجودگی میں اس کی برائی سے محفوظ ہیں، اسی طرح دوسرا سلام خبر دیتا ہے کہ لوگ اس کی عدمِ موجودگی میں بھی اس کے شر سے محفوط ہیں اور یہ کمالِ شریعت کی وجہ سے ہے کہ اس نے اس طرح کے امور میں ابتدا و انتہا کو یکساں کر دیا اور شریعت جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ حکیم و خبیر کی جانب سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3173

 
 
Hadith   229   الحديث
الأهمية: أن رجلًا دخل المسجد يوم الْجُمُعَةِ من باب كان نحو دار الْقَضَاءِ ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ


Tema:

ایک شخص جمعے کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا، جو دارالقضا کی طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- «أن رجلا دخل المسجد يوم الْجُمُعَةِ من باب كان نحو دار الْقَضَاءِ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائمًا، ثم قال: يا رسول الله، هَلَكَتِ الأموال، وانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ الله تعالى يُغِيثُنَا، قال: فرفع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: اللَّهُمَّ أَغِثْنَا ، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا ، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا. قال أنس: فلا والله ما نرى في السماء من سحاب ولا قَزَعَةٍ ، وما بيننا وبين سَلْعٍ من بيت ولا دار. قال: فطلعت من ورائه سَحَابَةٌ مثل التُّرْسِ. فلما تَوَسَّطَتْ السماء انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ. قال: فلا والله ما رأينا الشمس سَبْتاً.
قال: ثم دخل رجل من ذلك الباب في الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ الناس، فَاسْتَقْبَلَهُ قائمًا، فقال: يا رسول الله، هَلَكَتْ الأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ، فادع الله أن يُمْسِكَهَا عنَّا، قال: فرفع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا, اللَّهُمَّ على الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَر. قال: فَأَقْلَعَتْ، وخرجنا نمشي في الشمس».

قال شريك: فسألت أنس بن مالك: أهو الرجل الأول قال: لا أدري.


انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعے کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا، جو دارالقضا کی طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اپنا منہ کرکے کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مال (جانور) تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی:”اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا“ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! آسمان پر کہیں کسی بادل یا بادل کی ٹکڑی کا نام و نشان تک نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، (جو ان کے دیدار میں حائل ہوتے) اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح بادل نمودار ہوا اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! (اس قدر بارش ہوئی کہ) ہم نے ایک ہفتے تک سورج نہیں دیکھا۔
پھر اسی دروازے سے دوسرے جمعے کے دن ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ وہ کھڑے کھڑے ہی آپ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (کثرتِ بارش سے) مال تباہ ہوگئے اور راستے بند ہوگئے؛ اس لیے اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ وہ بارش روک دے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی:”اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ على الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَر“ اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا۔ ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑیوں ،وادیوں کے بیچ میں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر نازل فرما۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ پوری طرح اسی وقت تھم گیا اور ہم اس حال میں نکلے کہ دھوپ میں چل رہے تھے۔
شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انھوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- قائمًا يخطب في مسجده يوم الجمعة، ودخل رجل، فاستقبل النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم نادى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مبيناً له ما فيهم من الشدة والضيق، حيث هلكت الحيوانات من عدم الكلأ، وانقطعت الطرق، فهزلت الإبل التي نسافر ونحمل عليها، بسبب انحباس المطر وجفاف الأرض، وطلب منه الدعاء لهم بتفريج هذه الكربة، فرفع النبي -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: "اللهم أَغِثْنَا" ثلاث مرات، كعادته في الدعاء، والتفهيم في الأمر المهم.
ومع أنهم لم يروا في تلك الساعة في السماء من سحاب ولا ضباب إلا أنه في أثر دعاء المصطفى -صلى الله عليه وسلم-، طلعت من وراء جبل "سَلْع" قطعة صغيرة، فأخذت ترتفع.
فلما وَسَّطَتْ السَّمَاءَ توسعت وانْتَشَرَتْ، ثم أمطرت، ودام المطر عليهم سبعة أيام.
حتى إذا كانت الجمعة الثانية، دخل رجل، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يخطب الناس، فقال- مبيناً أن دوام الأمطار، حَبسَ الحيوانات في أماكنها عن الرَّعْي حتى جاعت، وحبس الناس عن الضرب في الأرض والذهاب والإياب في طلب الرزق، فادع الله أن يمسكها عنا. فرفع يديه ثم قال ما معناه: اللهم اجعل المطر حول المدينة لا عليها، لئلا يضر بالناس في معاشهم، وتسير بهائمهم إلى مراعيها، وليكون نزول هذا المطر في الأمكنة التي ينفعها نزوله، من الجبال، والروابي، والأودية، والمراعي.
وأقلعت السماء عن المطر فخرجوا من المسجد يمشون، وليس عليهم مطر.
606;بی کریم ﷺ، اپنی مسجد میں جمعے کے دن کھڑے ہوکر خطبہ دے رہےتھےکہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نبی ﷺ کے مقابل کھڑے ہوکر بہ آواز بلند آپ ﷺ کے روبہ رو اپنی افتاد اور تنگ حالی کو بیان کیا کہ گھانس و چارہ نہ ہونے کی وجہ سے جانور ہلاک ہوگئے اور راستے مسدود ہوچکے ہیں، کیوں کہ قلت باراں اور زمین کے سوکھے پن و خشکی کی وجہ سے اونٹ لاغر و کم زور ہوگئے ہیں، جن پر ہم سفر کرتے ہیں اور اپنا سفری مال و متاع لادتے ہیں۔ اس شخص نے آپ ﷺ سے اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے تین مرتبہ یہ دعا فرمائی:"اے اللہ! ہم پر پانی برسا"۔ دعا اور اہم امورکی تفہیم کے سلسلے میں آپ کی عادت مبارکہ یہی تھی(کہ تین مرتبہ دوہرایا کرتے)۔ اس وقت آسمان میں بادل اور کہر کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا تھا،۔ لیکن آپ ﷺ کی دعا کے فوری بعد "سلع" نامی پہاڑ کے پیچھے سے بادل کی ایک ٹکڑی نمودار ہوئی اور آسمان پربلند ہونے لگی۔ آسمان کے بیچ میں پہنچنے کے بعد اس کی کشادگی زیادہ ہوگئی اور وہ ہر جگہ پھیل گئی۔ پھر جب برسنا شروع ہوئی، تو سات دن تک بلاتوقف برستی رہی، یہاں تک کہ جب دوسرے جمعے کا دن آیا، تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے یہ بیان کیا کہ مسلسل بارش نےجانوروں کو ان کی رہائش گاہوں میں مقید کر دیا ہے اور وہ چراہ گاہوں میں جانے سے عاجز ہوکر بھوک کا شکار ہیں اور یہ بارش، روزی کی تلاش میں سفر کرنے اور آمد و رفت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ اس بارش کو روک دے۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے ہیں، جس کے معنی ہیں: اے اللہ! اس بارش کو اہل مدینہ کے بجائے، مدینہ کے اطراف و اکناف میں نازل فرما؛ تاکہ لوگوں کی معاشی زندگی متاثر نہ ہو۔ ان کے چوپائے چراہ گاہوں تک پہنچ سکیں۔ بارش کا نزول پہاڑوں، اونچے ٹیلوں، وادیوں اور چراہ گاہوں جیسے مقامات پر ہو، جہاں اس کا برسنا نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی وقت، بارش پوری طرح بند ہو گئی۔ لوگ مسجد سے نکل کر جانے لگے تو ان پر بارش کا کوئی قطرہ نہ پڑا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3174

 
 
Hadith   230   الحديث
الأهمية: رَمَقْتُ الصلاة مع محمد -صلى الله عليه وسلم- فوجدت قيامه، فَرَكْعَتَهُ، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ بين السجدتين، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ ما بين التسليم والانصراف: قريبا من السَّوَاء


Tema:

میں نے محمد ﷺ کے ساتھ نماز کو غور سے دیکھا۔ آپ ﷺ کا قیام، رکوع، رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا، آپ ﷺ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا، آپ ﷺ کا (دوسرا) سجدہ اور سلام پھیرنے اور (نمازيوں کی طرف) رُخ كرنے کے مابین آپ ﷺ کا بیٹھنا، میں نے یہ سب اعمال تقریبا برابر پائے۔

عن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ -رضي الله عنهما- قال: «رَمَقْتُ الصلاة مع محمد -صلى الله عليه وسلم- فوجدت قيامه، فَرَكْعَتَهُ، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ بين السجدتين، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ ما بين التسليم والانصراف: قريبا من السَّوَاء».
وفي رواية: «ما خلا القيام والقعود، قريبا من السَّوَاءِ».

براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے محمد ﷺ کے ساتھ نماز کو غور سے دیکھا۔ آپ ﷺ کا قیام، رکوع، رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا، آپ ﷺ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا، آپ ﷺ کا (دوسرا) سجدہ اور سلام پھیرنے اور (نمازيوں کی طرف) رُخ كرنےکے مابین آپ ﷺ کا بیٹھنا، میں نے یہ سب اعمال تقریبا برابر پائے۔
ایک دیگر روایت میں ہے کہ :”سوائے قیام و قعود کے، (باقی سب اعمالِ نماز) تقریبا برابر ہوتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يصف البراء بن عازب -رضي الله عنهما- صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- حيث كان يراقبه بتأمل ليعرف كيف يصلي فيتابعه، فذكر أنها متقاربة متناسبة، فإن قيامه للقراءة، وجلوسه للتشهد، يكونان مناسبين للركوع والاعتدال والسجود فلا يطوَّل القيام مثلاً، ويخفف الركوع، أو يطيل السجود، ثم يخفف القيام، أو الجلوس بل كل ركن يجعله مناسبًا للركن الآخر، وليس معناه: أن القيام والجلوس للتشهد، بقدر الركوع والسجود، وإنما معناه أنه لا يخفف واحدًا ويثقل الآخر.
576;راء بن عازب رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ یہ جاننے کے لیے غور سے آپ ﷺ کو دیکھتے تاکہ جان سکیں کہ آپ ﷺ کس طرح سے نماز پڑھتے ہیں اور یوں آپ ﷺ کی پیروی کر سکیں۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ کی نماز کے اعمال باہم قریب قریب اور متناسب ہوتے تھے۔قراءت کے لیے آپ ﷺ کا قیام اور تشہد کے لیے آپ ﷺ کا بیٹھنا، آپ ﷺ کے رکوع، اعتدال اور سجدے سے مناسبت رکھتا تھا۔۔ مثلاً ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ قیام کو بہت زیادہ لمبا کر دیتے اور رکوع کو مختصر یا پھر سجدے کو لمبا کر دیتے اور قیام یا جلوس کو مختصر۔ بلکہ آپ ﷺ نماز کے ہر رکن کو دوسرے رکن سے متناسب رکھتے۔
اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ قیام اور تشہد کے لیے بیٹھنا، آپ ﷺ کے رکوع اور سجدہ کے برابر ہوتا تھا۔
بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ ایک رکن کو مختصر کر دیتے اور دوسرے کو طویل۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3175

 
 
Hadith   231   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان في سفر، فصلى العشاء الآخِرَةَ، فقرأ في إحدى الركعتين بِالتِّينِ وَالزَّيْتُون فما سمعت أحدًا أحسن صوتًا أو قراءة منه


Tema:

نبی ﷺ سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے نمازِ عشاء ادا کی تو ایک رکعت میں ’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘ پڑھی۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ اچھی آواز والا یا آپ ﷺ سے اچھا پڑھنے والا کبھی نہیں سنا۔

عن الْبَرَاء بْن عَازِبٍ -رضي الله عنهما- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان في سفر، فصلى العشاء الآخِرَةَ، فقرأ في إحدى الركعتين بِالتِّينِ وَالزَّيْتُون فما سمعت أحدًا أحسن صوتًا أو قراءة منه».

براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے نمازِ عشاء ادا کی تو ایک رکعت میں ’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘ پڑھی۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ اچھی آواز والا یا آپ ﷺ سے اچھا پڑھنے والا کبھی نہیں سنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قرأ النبي -صلى الله عليه وسلم- بسورة التين والزيتون في الركعة الأولى في صلاة العِشاء؛ لأنه كان في سفر، والسفر يراعى فيه التخفيف والتسهيل؛ لمشقته وعنائه، ومع كون النبي -صلى الله عليه وسلم- مسافرًا، فإنه لم يترك ما يبعث على الخشوع وإحضار القلب عند سماع القرآن، وهو تحسين الصوت في قراءة الصلاة.
606;بی ﷺ نے نمازِ عشاء کی پہلی رکعت میں سورہ ’’تین‘‘ اور سورہ ’’زیتون‘‘ کی تلاوت فرمائی کیوں کہ آپ ﷺ سفر میں تھے اور سفر کی مشقت و کلفت کے پیش نظر اس میں تخفیف اور سہولت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ نبی ﷺ سفر میں تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس بات کو نہیں چھوڑا جو خشوع و خضوع پیدا کرتی ہے اور جس کی وجہ سےقرآن کی سماعت کرتے ہوئے دل یکسو ہوتا ہے اور یہ نماز میں خوبصورت آواز سےتلاوت سے عبارت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3177

 
 
Hadith   232   الحديث
الأهمية: بينما رجل واقف بِعَرَفَةَ، إذ وقع عن راحلته، فَوَقَصَتْهُ -أو قال: فَأوْقَصَتْهُ- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اغْسِلُوهُ  بماء وسدر، وكَفِّنُوهُ في ثوبيه، ولا تُحَنِّطُوهُ، ولا تُخَمِّرُوا رأسه؛ فإنه يُبْعَثُ يوم القيامة مُلبِّياً


Tema:

ایک شخص میدان عرفات میں تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یا فَأوْقَصَتْهُ (پس اس نے اُس ہڈی کو توڑ دیا اور وہ مرگیا) کہا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اس کے دونوں کپڑوں میں اسے کفن دے دو۔ اسے نہ خوشبو لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تلبیہ پڑھتا ہو گا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «بينما رجل واقف بِعَرَفَةَ، إذ وقع عن راحلته، فَوَقَصَتْهُ -أو قال: فَأوْقَصَتْهُ- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اغْسِلُوهُ  بماء وسدر، وكَفِّنُوهُ في ثوبيه، ولا تُحَنِّطُوهُ، ولا تُخَمِّرُوا رأسه؛ فإنه يُبْعَثُ يوم القيامة مُلبِّياً».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: ایک شخص میدان عرفہ میں تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یا (وَقَصَتْہُ کے بجائے یہ لفظ ) فَأوْقَصَتْهُ (پس اُس نے اس ہڈی کو توڑ دیا اور وہ فوت ہوگیا) کہا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اس کے دونوں کپڑوں میں اسے کفن دے دو۔اسے نہ خوشبو لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تلبیہ پڑھتا ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بينما كان رجل من الصحابة واقفاً في عرفة على راحلته في حجة الوداع محرمًا إذ وقع منها، فانكسرت عنقه فمات؛ فأمرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يغسلوه كغيره من سائر الموتى، بماء، وسدر، ويكفنوه في إزاره وردائه، اللذين أحرم بهما.
وبما أنه محرم بالحج وآثار العبادة باقية عليه، فقد نهاهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يُطيبوه وأن يغطوا رأسه،
وذكر لهم الحكمة في ذلك؛ وهي أنه يبعثه الله على ما مات عليه، وهو التلبية التي هي شعار الحج.
581;جۃ الوداع کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص عرفہ کے میدان میں اپنی سواری پر حالت احرام میں کھڑا تھا کہ اس سے گر پڑا جس سے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا۔ نبی ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اسے دیگر مُردوں کی طرح پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دیں اور اسے اس کی ازار اور چادر ہی میں کفن دیں جسے اس نے احرام کے طور پر پہن رکھا تھا۔
چونکہ وہ حالتِ احرام میں تھا اور اس پر آثارِ عبادت ابھی موجود تھے اس وجہ سے نبی ﷺ نے صحابہ کو اسے خوشبو لگانے اور اس کا سر ڈھانپنے سے منع فرمایا اور انہیں اس کی حکمت بھی بتا دی کہ جس حالت پر اس کی موت واقع ہوئی ہے اللہ تعالی اسی حال میں اسے روز قیامت اٹھائے گا یعنی تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا جو کہ شعائرِ حج میں سے ایک شعار ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3180

 
 
Hadith   233   الحديث
الأهمية: اطَّلَعت في الجنة فرأيتُ أكثرَ أهلِها الفقراءَ، واطَّلعتُ في النار فرأيتُ أكثرَ أهلها النِّساءَ


Tema:

میں نےجنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔

عن ابن عباس وعمران بن الحصين -رضي الله عنهم- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «اطَّلَعت في الجنة فرأيتُ أكثرَ أهلِها الفقراءَ، واطَّلعتُ في النار فرأيتُ أكثرَ أهلها النِّساءَ».

ابن عباس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”میں نےجنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- في الحديث أنه اطَّلَع في الجنة فرأى أكثرَ أهلِها الفقراءَ، وذلك لأن الفقراء ليس عندهم ما يطغيهم، فهم متمسكنون خاضعون, ولهذا من تأمل الآيات؛ وجد أن الذين يكذبون الرسل هم الملأ الأشراف والأغنياء، وأن المستضعفين هم الذين يتبعون الرسل، فلهذا كانوا أكثر أهل الجنة.
والحديث لا يوجب فضل كل فقير على كل غني، وإنما معناه الفقراء في الجنة أكثر من الأغنياء فأخبر عن ذلك، وليس الفقر أدخلهم الجنة، وإن كان خفف من حسابهم، إنما دخلوا بصلاحهم معه، فالفقير إذا لم يكن صالحاً لا يفضل.
كما أخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه اطَّلَع في النار فرأى أكثرَ أهلِها النساء؛ وذلك لقيامهن بعادات سيئة تغلب على طباعهن, وتتعلق بهن, من ذلك كُفران العشير وكثرة اللعن.
فالواجب عليهن أن يحافظن على أمر الدين ليسلمن من النار.
606;بی ﷺ اس حدیث میں بیان فرما رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے کیونکہ غریبوں کے پاس ایسی کوئی شے ہوتی ہی نہیں جو انہیں سرکش بنائے۔ یہ لوگ پابندِ دین اور مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ اسی لیے جو شخص آیات میں غور و فکر کرتا ہے اس پر یہ آشکارا ہوتا ہے کہ صاحبِ حیثیت اور امیر لوگ ہی رسولوں کو جھٹلاتے ہیں جب کہ کمزور وناتواں لوگ رسولوں کی پیروی کرتے ہیں اس لیے جنت میں زیادہ تر یہی لوگ ہوں گے۔
حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر غریب کو ہر امیر پر فضیلت حاصل ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں غریب لوگ امیر لوگوں سے زیادہ ہیں اور اسی بات کی آپ ﷺ نےخبر دی ہے۔ ان کی غربت ان کے جنت میں جانے کا سبب نہیں اگرچہ اس کی وجہ سے ان کے حساب میں کچھ تخفیف ضرور ہو گی۔ اس کے بجائے وہ اپنی راستگی کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔ غریب آدمی اگر راست رو نہ ہو تو اسے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اس میں زیادہ تر عورتیں نظر آئیں۔ کیونکہ عورتوں میں ایسی بری عادات ہوتی ہیں جن کا رنگ ان کی طبیعتوں پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ ان میں رچ بس جاتی ہیں۔ شوہر کی ناشکری اور کثرت کے ساتھ لعن طن کرنا انہی بری عادات میں سے ہے۔
اس لیے ان پر ضروری ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کریں تاکہ جہنم سے محفوظ رہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3184

 
 
Hadith   234   الحديث
الأهمية: أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل المسجد، فدخل رجل فصلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ


Tema:

نبی ﷺ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک شخص مسجد ميں داخل ہوا، اس نے نماز پڑھی، پھر آپﷺ کے پاس آيا اورسلام کیا، آپﷺنے فرمایا: ”جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- «أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل المسجد، فدخل رجل فصلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ، فرجع فصلَّى كما صلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلَّم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ -ثلاثا- فقال: والذي بعثك بالحق لا أُحْسِنُ غيره، فَعَلِّمْنِي، فقال: إذا قُمْتَ إلى الصلاة فَكَبِّرْ، ثم اقرأ ما تيسر من القرآن، ثم اركع حتى تَطْمَئِنَّ راكعا، ثم ارفع حتى تعتدل قائما، ثم اسجد حتى تَطْمَئِنَّ ساجدا, ثم ارفع حتى تطمئن جالسا، وافعل ذلك في صلاتك كلها».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک شخص مسجد ميں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر آکر نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺنے فرمایا: ”لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔ اس نے لوٹ کر (دوبارہ) نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا: ”لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تو اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر (نماز) نہیں پڑھ سکتا ہوں۔ لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجيے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ ميں تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل النبي -صلى الله عليه وسلم- المسجد، فدخل رجل من الصحابة، اسمه (خَلاّد بن رافع)، فصلى صلاة خفيفة غير تامة الأفعال والأقوال، فلما فرغ من صلاته، جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فسلم عليه فرد عليه السلام  ثم قال له: ارجع فَصَلِّ، فإنك لم تصل، فرجع وعمل في صلاته الثانية كما عمل في صلاته الأولى، ثم جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال له: ارجع فَصَلِّ فإنك لم تصل ثلاث مرات، فأقسم الرجل بقوله: والذي بعثك بالحق -وهو الله تعالى- ما أحسن غير ما فعلت فعَلِّمني، فعندما اشتاق إلى العلم، وتاقت نفسه إليه، وتهيأ لقبوله وانتفى احتمال كونه ناسيا بعد طول الترديد قال له النبي -صلى الله عليه وسلم- ما معناه: إذا قمت إلى الصلاة فكبر تكبيرة الإحرام، ثم اقرأ ما تيسر من القرآن، بعد قراءة سورة الفاتحة ثم اركع حتى تطمئن راكعا، ثم ارفع من الركوع حتى تعتدل قائما، وتطمئن في اعتدالك  ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع من السجود واجلس حتى تطمئن جالسا، وافعل هذه الأفعال والأقوال في صلاتك كلها، ماعدا تكبيرة الإحرام، فإنها في الركعة الأولى دون غيرها من الركعات.
وكون المراد بما تيسر سورة الفاتحة على الأقل مأخوذ من روايات الحديث ومن الأدلة الأخرى.
606;بی ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ جن کا نام خلاد بن رافع تھا ،مسجد ميں آئے اور ہلکی نماز پڑھی جس ميں مکمل طور پر تمام اقوال وافعال کی ادائيگی نہيں کی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپﷺ نے سلام کا جواب ديا، پھر ان سے فرمایا: لوٹ جاؤ پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گئے اور دوبارہ اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر نبی ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ نےان سے کہا: لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اسی طرح تین مرتبہ ہوا، وہ صحابی قسم کھا کر عرض کیا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمايا، میں نے جس طرح نماز پڑھی ہے اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجئے۔ جب ان کے اندر سيکھنےکا شوق اور جذبہ پيدا ہوگيا اور وہ صحيح طريقۂ نماز جاننے کے لیے بالکل آمادہ ہوگئے، نیز بار بار لوٹانے کے بعد ان کے بھولنے کا احتمال بھی ختم ہوگيا، تو آپ ﷺ نے ان سےفرمایا: (جس کا مفہوم یہ ہے کہ) جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیرۂ تحريمہ کہو، پھر سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ اطمینان سے رکوع کرلو، پھر رکوع سے اٹھو یہاں تک کہ اطمينان کے ساتھ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو، پھرسجدے سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور ان اقوال وافعال کی ادائيگی اسی طرح پوری نماز میں کرو سوائے تکبيرۂ تحريمہ کے، کيونکہ تکبيرۂ تحريمہ پہلی رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت ميں نہيں ہے۔
اور ”مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ“ (يعنی جتنا قرآن سے آسان ہو) سے مراد کم سے کم سورۂ فاتحہ ہے، يہ بات اسی حديث کی دوسری روايات اور دوسرے دلائل سے مأخوذ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3185

 
 
Hadith   235   الحديث
الأهمية: قال رجل للنبي -صلى الله عليه وسلم- يومَ أُحُدٍ: أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا؟ قال: "في الجَنَّة"، فأَلْقَى تَمراتٍ كُنَّ في يَدِه، ثم قاتل حتى قُتِلَ


Tema:

ایک شخص نے اُحُد کے دن آپ ﷺ سے کہا: آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر میں مارا گیا تو میں کہاں رہوں گا (میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا)؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں پھینکیں اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال رجل للنبي -صلى الله عليه وسلم- يومَ أُحُدٍ: أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا؟ قال: «في الجَنَّةِ» فأَلْقَى تَمراتٍ كُنَّ في يَدِه، ثم قاتل حتى قُتِلَ.

جابر بن عبد اللہ - رضی اللہ عنہما - سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اُحُد کے دن آپ ﷺ سے کہا: آپ کیا کہتے ہیں اگر میں مارا گیا تو میں کہاں رہوں گا (یعنی میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا)؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں پھینک دیں اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر جابر -رضي الله عنه- أن رجلًا -قيل: اسمه عُمير بن الحُمَام وقيل: غيره- قال للنبي -صلى الله عليه وسلم- يوم غزوة أحد: يا رسول الله! أرأيتَ إن قاتلتُ حتى قُتلتُ، يعني جاهدت المشركين وقتلت في هذه الوقعة ما مصيري؟ قال: "أنت في الجنة"، فألقى تمرات كانت معه، وقال: (إنها لحياة طويلة إن بقيت حتى آكل هذه التمرات) ثم تقدم فقاتل حتى قتل -رضي الله عنه-.
580;ابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص -جن کا نام عمیر بن الحمام تھا- نے غزوہ احد کے موقعے پر آپ ﷺ سے پوچھا، اے اللہ کے رسول! ذرا بتلائیے اگر میں لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں یعنی میں مشرکین کے ساتھ جہاد کروں اور اسی میں مارا جاؤں تو میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم جنت میں رہو گے۔ انھوں نے کھجوریں پھینک دی اور کہا۔ اگر میں زندہ رہا تو زندگی لمبی ہوگی کھجوریں پھر کھا لوں گا، آگے بڑھے اور لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3194

 
 
Hadith   236   الحديث
الأهمية: دعوة المرء المسلم لأخيه بظهر الغيب مستجابة، عند رأسه ملك موكل كلما دعا لأخيه بخير قال الملك الموكل به: آمين، ولك بمثل


Tema:

آدمی کی اپنے بھائی کےحق میں پس پشت دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیرکرتا ہے تو اس پر یہ متعین کردہ فرشتہ کہتا ہے: ’آمین، اور تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو‘۔

عن أم الدرداء -رضي الله عنها- مرفوعاً: « دعوة المرء المسلم لأخيه بظَهْرِ الغيب مستجابة، عند رأسه مَلَك مُوَكَّلٌ كلما دعا لأخيه بخير قال الملك المُوَكَّلُ به: آمين، ولك بمِثْلٍ».

ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کی اپنے بھائی کےحق میں پیٹھ پیچھے دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیرکرتا ہے تو اس پر یہ متعین کردہ فرشتہ کہتا ہے: آمین، اور تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعاء المسلم لأخيه وهو غائب عنه لا يعلم مستجاب مقبول عند الله، فإذا دعا لأخيه وقف ملك من الملائكة عند رأسه يقول آمين ولك مثل هذا الخير الذي دعوت به لأخيك.
605;سلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔ جب بندہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے سر پر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: آمین، اور تیرے نصیب میں بھی وہی خیر ہو جس کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3219

 
 
Hadith   237   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا صَلَّى فرّج بين يديه، حتى يبدو بياض إبْطَيْهِ


Tema:

نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر کشادہ کرتے کہ آپ ﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔

عن عبد الله بن مالك بن  بُحَيْنَةَ -رضي الله عنهم-: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا صَلَّى فرّج بين يديه، حتى يَبْدُوَ بياضُ إبْطَيْهِ».

عبد اللہ بن مالک بن بُحَینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر کشادہ کرتے کہ آپ ﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا سجد يباعد عضديه عن جنبيه؛ لتنال اليدان حظهما من الاعتماد والاعتدال في السجود، ومن شدة التفريج بينهما يظهر بياض إبطيه.
وهذا لأنه -صلى الله عليه وسلم- كان إماما أو منفردا، أما المأموم الذي يتأذى جاره بالمجافاة؛ فلا يشرع له ذلك.
606;بی ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے تاکہ سجدے میں ہاتھ اچھی طرح سے ٹک جائیں اور اعتدال میں آ جائیں۔ انھیں بہت زیادہ کشادہ کرنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔
ایسا اس وجہ سے ہوتا کیوں کہ آپ ﷺ یا تو امام ہوتے یا پھر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ جب کہ مقتدی جس کے بازو پھیلانے سے اس کے ساتھ نمازی کو تکلیف ہوتی ہو اس کے لیے ایسا کرنا مشروع نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3220

 
 
Hadith   238   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُصَلِّي وهو حامل أُمَامَةَ  بنت زينب بنت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

نبی ﷺ اُمامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔

عن أبي  قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ -رضي الله عنه- قال: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُصَلِّي وهو حامل أُمَامَةَ بنت زينب بنت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».
ولأبي العاص بن الربيع بن عبد شَمْسٍ -رضي الله عنه-: «فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها».

ابو قتادہ انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اُمامہ بنتِ زینب بنت رسول (ﷺ) -ابوالعاص بن ربیع بن عبدالشمس کی بیٹی- کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو ان کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يحمل بنت ابنته وهي أمامة بنت زينب وهو في الصلاة، حيث يجعلها على عاتقه إذا قام، فإذا ركع أو سجد وضعها في الأرض محبةً وحنانًا.
606;بی ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھنے کی حالت میں کندھے پر اٹھائے رکھتے، جب کھڑے ہوتے تو ان کو اپنے کندھے پر اٹھا لیتے، اور جب رکوع یا سجدہ کرتے تو انہیں محبت اور پیار سے زمین پر اتار دیتے .

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3226

 
 
Hadith   239   الحديث
الأهمية: إني لا آلُو أن أُصَلِّيَ بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي بنا


Tema:

جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے میں بالکل اسی طرح تمھیں نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔

عن أنس -رضي الله عنه- أنه قال: «إني لا آلُو أن أُصَلِّيَ بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي بنا، قال ثابت فكان أَنَس يصنع شيئا لا أراكم تصنعونه: كان إذا رفع رأسه من الركوع انْتَصَبَ قائما، حتى يقول القائل: قد نَسِيَ، وإذا رفع رأسه من السَّجْدَةِ مكث، حتى يقول القائل: قد نَسِيَ».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے میں بالکل اسی طرح تمھیں نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ ثابت نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں اور اسی طرح جب وہ سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے (تو دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک) ٹھرتے تھے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ وہ بھول گئے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أنس -رضي الله عنه- يقول إني سأجتهد فلا أقَصر أن أصلي بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلى بنا، لتقتدوا به، فتصلوا مثله.
قال ثابت البناني: فكان أنس يصنع شيئا من تمام الصلاة وحسنها، لا أراكم تصنعون مثله،كان يطيل القيَام بعد الركوع، والجلوس بعد السجود، فكان إذا رفع رأسه من الركوع انتصب قائما حتى يقول القائل -من طول قيامه- قد نَسيَ أنه في القيام الذي بين الركوع والسجود، وإذا رفع رأسه من السجدة مكث حتى يقول القائل -من طول جلوسه-: قد نسي أيضا.
575;نس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ تمہیں ویسے ہی نماز پڑھاؤں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے تاکہ تم اس کی پیروی کرسکو اور اسی جیسی نماز پڑھو۔
ثابت بنانی کہتے ہیں کہ: انس رضی اللہ عنہ نماز کی خوبصورتی اور اتمام میں ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا، جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو دیر تک کھڑے رہتے تھے اور سجدوں کے بعد دیر تک بیٹھے رہتے۔
چنانچہ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے طولِ قیام کی وجہ سے کہنےوالا کہتا کہ آپ بھول گئے ہیں کہ آپ رکوع اور سجود کے درمیان کے قیام میں ہیں، اور اسی طرح جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو (دونوں سجدوں کے درمیان) اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ آپ کے طولِ جلوس کی وجہ سے کہنے والا کہتا کہ بھول گئے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3227

 
 
Hadith   240   الحديث
الأهمية: نُهِينَا عن اتِّبَاعِ الجنائز، ولم يُعْزَمْ علينا


Tema:

ہمیں جنازہ کے ساتھ چلنے سے روکا گیا ہے، لیکن ہم پر اس میں سختی نہ کی گئی۔

عن أُمِّ عَطِيَّةَ الأنصارية -رضي الله عنها- قالت: «نُهِينَا عن اتِّبَاعِ الجنائز ولم يُعْزَمْ علينا».

ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا تاہم اس سلسلے میں سختی نہیں کی گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أُمُّ عَطِيَّةَ الأنصارية من الصحابيات الجليلات تفيد أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى النساء عن اتباع الجنائز؛ لما فيهن من شدة الرقة والرأفة، فليس لديهن صبر الرجال وتحملهم للمصائب؛ فخروجهن يؤدي إلى الهلع والفتنة بما يشاهدن من حال حمل الجنازة والانصراف عنها، ولكن مع هذا فهمت من قرائن الأحوال أن هذا النهي ليس على سبيل العزم والتأكيد؛ فكأنه لا يفيد تحريم ذلك عليهن، والصحيح المنع، وقال ابن دقيق العيد: قد وردت أحاديث أدل على التشديد في اتباع الجنائز أكثر مما يدل عليه هذا الحديث.
575;م عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ نے عورتوں کو جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا کیونکہ ان میں بہت رقت قبلی اور نرمی ہوتی ہے۔ ان کے پاس مردوں کی طرح صبر کرنے اور مصائب کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان کے جنازوں کے ساتھ جانے کی وجہ سے وہ جزع فزع کریں گی اور جنازے کو اٹھانے اور پھر اسے دفنا کر واپس آنے کو دیکھ کر وہ آزمائش میں مبتلا ہوں گی۔ اس کے باوجود ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے قرائن سے یہ بات سمجھی کہ نبی ﷺ نے بہت سختی کے ساتھ یہ ممانعت نہیں کی تھی۔ گویا کہ نبی ﷺ اس جانے کو عورتوں کے لیے حرام قرار نہیں دے رہے تھے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع ہے۔ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’بہت سی ایسی احادیث آئی ہیں جو اس حدیث سے زیادہ سختی کے ساتھ عورتوں کے جنازوں کے ساتھ جانے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3228

 
 
Hadith   241   الحديث
الأهمية: أُمِرَ الناس أن يكون آخر عَهْدِهِمْ بالبيت، إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض


Tema:

لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو، البتہ حائضہ سے یہ حکم معاف ہو گیا تھا۔

عن عبد الله بن عبَّاس رضي الله عنهما قال: «أُمِرَ الناس أن يكون آخر عَهْدِهِمْ بالبيت، إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو (یعنی طواف وداع کریں) البتہ حائضہ سے یہ حُکم معاف ہو گیا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لهذا البيت الشريف تعظيم وتكريم؛ فهو رمز لعبادة الله والخضوع والخشوع بين يديه، فكان له في الصدور مهابة، وفِى القلوب إجلال، وتعلق، ومودة.
ولذا أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- الحاج قبل السفر أن يكون آخر عهده به، وهذا الطواف الأخير هو طواف الوداع، إلا المرأة الحائض؛ فلكونها تلوث المسجد بدخولها سقط عنها الطواف بلا فداء، وهذا النص في الحج فلا يتناول العمرة.
576;یت اللہ شریف کی اپنی عظمت و کرامت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے سامنے خشوع و عاجزی کی نشانی ہے، سینوں میں اس کا رعب اور دلوں میں اس کا جلال، تعلق اور محبت سمائی ہوئی ہے۔
اسی وجہ سے اللہ کے نبی ﷺ نے حاجی کو سفر سے پہلے حکم دیا کہ اس کا آخری وقت بیت اللہ میں گزرے، یہ طوافِ اخیر ہے جسے طوافِ وداع کہتے ہیں، سوائے حائضہ عورت کے، اس لیے کہ اس کے داخل ہونے سے مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، چنانچہ اس سے بغیر فدیہ کے طواف ساقط ہوگیا، یہ حدیث صرف حج کے بارے میں ہے عمرے کو یہ (حکم) شامل نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3229

 
 
Hadith   242   الحديث
الأهمية: أُمِرْتُ أن أسجدَ على سبعةِ أَعْظُم


Tema:

مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں۔

عن عبد الله بن عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أُمِرْتُ أن أَسْجُدَ على سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: على الْجَبْهَةِ -وأشار بيده إلى أنفه- واليدين، والرُّكْبَتَيْنِ ، وأطراف القدمين».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں: پیشانی پر -آپ ﷺ نے ہاتھ سے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا-، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے اطراف پر“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر الله -تعالى- نبيه محمدًا -صلى الله عليه وسلم- أن يسجد له على سبعة أعضاء، هي أشرف أعضاء البدن وأفضلها؛ ليكون ذله وعبادته لله، وقد أجملها النبي -صلى الله عليه وسلم-، ثم فصلها ليكون أبلغ في حفظها وأشوق في تلقيها:
الأولى منها: الجبهة مع الأنف.
والثاني والثالث: اليدان، يباشر الأرض منهما بطونهما.
والرابع والخامس: الركبتان.
والسادس والسابع: أطراف القدمين، موجهًا أصابعهما نحو القبلة.
575;للہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ سات اعضاء پر سجدہ کریں جو کہ جسم کے اشرف و افضل ترین اعضاء ہیں تا کہ آپ کا جھکنا اورعبادت، اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ نبی ﷺ نے پہلے اجمالا ان کا ذکر کیا اور پھر اس کی تفصیل بیان کی تا کہ انہیں یاد رکھنا آسان ہو اور پورے شوق کے ساتھ انہیں سیکھا جائے۔
ان میں سے پہلا عضو پیشانی بشمول ناک ہے۔
دوسرے اور تیسرے اعضاء دونوں ہاتھ ہیں بایں طور کہ نمازی ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے۔
چوتھے اور پانچویں اعضاء دونوں گھٹنے ہیں۔
اور چھٹے اور ساتویں دونوں پاؤں کے کنارے ہیں، اس حال میں کہ ان کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف رکھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3230

 
 
Hadith   243   الحديث
الأهمية: لا تدعوا على أنفسكم؛ ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء فيستجيب لكم


Tema:

نہ تم اپنے خلاف بد دعا کرو اور نہ اپنے مال و اولاد پر۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا ہو اور وہ تمہاری بد دعا قبول کر لے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «لا تدعوا على أنفسكم؛ ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يُسأل فيها عطاءٌ فيستجيب لكم».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ تم اپنے خلاف بد دعا کرو اور نہ ہی اپنے مال و اولاد پر۔ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا ہو اور وہ تمہاری بد دعا قبول کر لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحذر الرسول -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث وينهى عن الدعاء على النفس والأولاد والأموال؛ لأن الدعاء شأنه عظيم، قد يمضيه الله على العباد، لو وافق ساعة إجابة فيكون ضرره على صاحبه وما يتعلق به من أولاده وماله.
585;سول اللہ ﷺ اس حدیث میں (ہمیں) اپنے آپ، اولاد اور اموال کے خلاف بدعا کرنے سے ڈریا اور اس سے منع فرما رہے ہیں کیونکہ دعاء ایک عظیم الشان عمل ہے اور اگر گھڑی قبولیت کی ہوئی تو اللہ تعالی بندوں کی دعا قبول کرلیتا ہے۔ اس طرح سے دعا مانگنے والے اور اس کی اولاد اور مال کو نقصان پہنچتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3231

 
 
Hadith   244   الحديث
الأهمية: يستجاب لأحدكم ما لم يعجل: يقول: قد دعوت ربي، فلم يستجب لي


Tema:

تم ميں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے: میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: يُستجاب لأحدكم ما لم يَعْجَلْ: يقول: قد دعوت ربي، فلم يستجب لي».
وفي رواية لمسلم: «لا يزال يُستجاب للعبد ما لم يَدْعُ بإثم، أو قطيعة رحم، ما لم يَسْتَعْجِلْ» قيل: يا رسول الله ما الاستعجال؟ قال: «يقول: قد دعوت، وقد دعوت، فلم أر يستجب لي، فَيَسْتَحْسِرُ عند ذلك ويَدَعُ الدعاء».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ميں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے : میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
مسلم کی روایت میں ہے: ”بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے، جب تک وہ کسی برائی اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ کرے“۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت مرتبہ دعا کی تھی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ قبول ہوئی۔ اس پر وہ افسوس شروع کردے اور دعا کرنا چھوڑ دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه يستجاب للعبد دعاؤه ما لم يدع بمعصية أو قطيعة رحم، وما لم يستعجل، فقيل: يا رسول الله ما الاستعجال المرتب عليه المنع من إجابة الدعاء، قال: يقول: قد دعوت وقد دعوت، وتكرر مني الدعاء، فلم يستجب لي؛  فيستعجل عند ذلك ويترك الدعاء.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ بندے کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ دعا کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو اور وہ اس میں جلدی نہ کرے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اس جلد بازی سے کیا مراد ہے، جو دعا کی قبولیت میں آڑے آتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ یوں کہے: میں نے دعا مانگی اور بار بار مانگی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ جلد بازی کرتے ہوئے وہ دعا ہی کرنا چھوڑ دے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3232

 
 
Hadith   245   الحديث
الأهمية: أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات


Tema:

کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے آخر میں کی گئی دعا۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- مرفوعاً: قيل لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أيُّ الدعاء أسمع؟ قال: «جَوْفَ الليل الآخِر، ودُبُر الصلوات المكتوبات».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے آخر میں کی گئی دعا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الدعاء أقرب للإجابة، فأخبر صلى الله عليه وسلم أنه الدعاء الذي في آخر الليل، والذي في آخر الصلوات المفروضة، والمراد بدبر الصلوات: آخرها قبل التسليم، وهذا وإن كان خلاف المتبادر، لكن يؤيده أن الله جعل ما بعد انتهاء الصلاة ذكراً، والنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جعل ما بين التشهد والتسليم دعاء.
والمحافظة على الدعاء بعد الفريضة وكذلك النافلة ليس بسنة بل هو بدعة؛ لأن المحافظة عليه يلحقه بالسنة الراتبة سواء كان قبل الأذكار الواردة بعد الصلاة أم بعدها، وأما فعله أحياناً فلا بأس به، وإن كان الأولى تركه؛ لأن الله تعالى لم يشرع بعد الصلاة سوى الذكر لقوله تعالى: (فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ)، ولأن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يرشد إلى الدعاء بعد الصلاة، وإنما أرشد إلى الدعاء بعد التشهد قبل التسليم، وكما أن هذا هو المسموع أثراً فهو الأليق نظراً، لكون المصلي يدعو ربه حين مناجاته له في الصلاة قبل الانصراف.
606;بی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے بتایا کہ وہ دعا جو رات کے آخری حصے میں مانگی جائے اور وہ دعا جو فرض نمازوں کے آخر میں مانگی جائے۔ "دبر الصلوات" سے مراد نماز کا سلام پھیرنے سے پہلے آخری حصہ ہے۔ یہ اگرچہ اس معنی کے برخلاف ہے جو فوری طور پر ذہن میں آتا ہے، تاہم اس کی تایید اس بات سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے نماز کے بعد کے وقت کو ذکر کا وقت قرار دیا اور نبی صلى الله عليه وسلم نے تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیانی وقت کو دعا کا وقت قرار دیا۔
فرض نمازوں کے بعد پابندی کے ساتھ دعا کرنا اور اسی طرح نفل نمازوں کے بعد دعا کرنا سنت نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے، کیوںکہ پابندی کے ساتھ دعا مانگنا اسے سنت راتبہ کے درجے تک پہنچادیتا ہے، چاہے یہ دعا نماز کے بعد کئے جانے والے اذکار سے پہلے کی جائے یا بعد میں۔ تاہم کبھی کبھی دعا مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایسا نہ ہی کیا جائے۔ کیوںکہ اللہ تعالی نے نماز کے بعد صرف ذکر کو مشروع کیا ہے: ”فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ“ ترجمہ: جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو۔ اور نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز کے بعد دعا مانگنے کی تعلیم نہیں دی، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دعا مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ اور جب نص سے یہی ثابت ہے تو عقلی اعتبار سے بھی یہی زیادہ بہتر ہے۔ کیوںکہ نمازی نماز میں اپنے رب سے مناجات کے دوران نماز ختم کرنے سے پہلے اس سے دعا کرتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3236

 
 
Hadith   246   الحديث
الأهمية: كنا إذا أتينا النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس أحدنا حيث ينتهي


Tema:

جب ہم نبی ﷺ کے پاس آتے، تو ہم میں سے جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتا۔

عن جابر بن سمرة -رضي الله عنه- قال:كنا إذا أتينا النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس أحدنا حيث ينتهي.

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ کے پاس آتے، تو ہم میں سے جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه بيان أدب الصحابة -رضي الله عنهم- في مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم-, حيث كانوا إذا جاء أحدهم مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس حيث انتهى به المجلس سواء كان في صدر المحل أو أسفله، فالإنسان إذا دخل على جماعة يجلس حيث ينتهي به المجلس، ولا يتقدم إلى صدر المجلس إلا إذا آثره أحد بمكانه أو كان قد ترك له مكان في صدر المجلس فلا بأس، وأما أن يشق المجلس وكأنه يقول للناس ابتعدوا وأجلس أنا في صدر المجلس، فهذا خلاف هدي النبي -صلى الله عليه وسلم- وهدي أصحابه -رضي الله عنهم-، وهو يدل على أن الإنسان عنده شيء من الكبرياء والإعجاب بالنفس.
575;س حدیث میں نبی ﷺ کی مجلس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے (اُسوہ) ادب کو واضح کیا گیا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں جب کوئی صحابی تشریف لاتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہ وہیں بیٹھ جاتے، چاہے وہ اس مجلس کا ابتدائی حصہ ہو یا آخری حصہ۔ لہذا جب کوئی شخص کسی جماعت میں داخل ہو تو وہیں بیٹھ جائے جہاں مجلس ختم ہوتی ہو اور مجلس کے ابتدائی حصہ کی جانب نہ بڑھے، الا یہ کہ کوئی اس کو فوقیت دیتے ہوئے اپنی جگہ بٹھادے یا اس کے لیے مجلس کے ابتدائی حصہ میں جگہ چھوڑ دے تو (اس جگہ بیٹھنے میں) کوئی حرج و مضائقہ نہیں، تاہم رہا وہ شخص جو اہلِ مجلس کو مشقت میں مبتلا کرتے ہوئے لوگوں سے یوں کہنے لگے کہ پرے ہٹو، میں مجلس کے ابتدائی حصہ میں بیٹھوں گا تو یہ عمل نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ہدایت و منہج کے خلاف ہوگا اور یہ اس بات کی بھی علامت ہوگی کہ اس انسان میں کچھ تکبر اور خودپسندی کا جذبہ موجود ہے۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3253

 
 
Hadith   247   الحديث
الأهمية: فارجع إلى والديك، فأحسن صحبتُهما


Tema:

تم لوٹ جاؤ اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: أقبَلَ رجل إلى نبي الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: أُبَايِعُكَ على الهجرة والجهاد أَبْتَغِي الأجر من الله -تعالى- قال: «فَهَل لَكَ من وَالِدَيك أحد حيٌّ؟» قال: نعم، بل كلاهما، قال: «فتبتغي الأجر من الله تعالى؟» قال: نعم، قال: «فَارْجِع إلى وَالِدَيك، فَأَحْسِن صُحْبَتَهُمَا».
 وفي رواية لهما: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنه في الجهاد، فقال: «أَحَيٌّ والداك؟»، قال: نعم، قال: «فَفِيهِمَا فجاهد».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کے لیے بیعت کرتا ہوں اور اللہ سے اس کا اجر چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں بلکہ دونوں زندہ ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم واقعی ﷲ سے (اپنی ہجرت اور جہاد کا) بدلہ چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی ہاں (میں اللہ سے اجر چاہتا ہوں)، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ تم لوٹ جاؤ، اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
بخاری ومسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آکر آپ ﷺ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا : کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں ۔آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت میں جہاد کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يخبره برغبته وحبه للجهاد والهجرة في سبيل الله -تعالى-، وكان هذا الرجل قد ترك خلفه والداه، وجاء في رواية أبي داود : " يبكيان "، خوفا عليه من الهلاك، فسأله النبي -صلى الله عليه وسلم-:" هل لك من والديك أحد حيٌّ؟" قال: نعم، بل كلاهما، قال: "فتبتغي الأجر من الله تعالى؟" قال: نعم، قال: "فارجع إلى والديك، فأحسن صُحْبتهما"، وفي رواية أبي داود: "ارجع عليهما فأضحكهما كما أبكيتهما".
فرده النبي -صلى الله عليه وسلم- لما هو أولى وأوجب في حقه، وهو الرجوع إلى والديه وأن يحسن صحبتهما، فإن ذلك من مجاهدة النفس في القيام بخدمتهما وإرضائهما وطاعتهما، كما جاء في رواية البخاري ومسلم: " ففيهما فجاهد".
وقد صرح في حديث آخر بأن بر الوالدين وطاعتهما والإحسان إليهم أفضل من الجهاد في سبيل الله كما جاء في رواية عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فسأله عن أفضل الأعمال فقال: "الصلاة" قال: ثم مه: قال: "الجهاد" قال: فإن لي والدين، فقال: "برك بوالديك خير" أخرجه ابن حبان، فقد دل هذا الحديث على أن بر الوالدين أفضل من الجهاد، إلا إذا كان الجهاد فرض عين، فإنه يُقدم على طاعتهما؛ لتعينه.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور اللہ کی راہ میں جہاد اور ہجرت کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگا۔ یہ شخص اپنے پیچھے اپنے والدین کو چھوڑ کر آیا تھا ۔ ابوداود کی روایت میں ہے کہ "وہ رو رہے تھے " اس اندیشے کی وجہ سے کہ وہ مارا جائے گا۔ (یہ شخص گویا آپ ﷺ سے اپنے اس فعل کی تصدیق چاہتا تھا)۔
رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ۔ بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا: کیا تم واقعی اللہ تعالی سے اجر چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں ۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس لوٹ جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ابوداود کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ان کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں اسی طرح ہنساؤ جس طرح سے تم نے انہیں رلایا ہے ۔
چنانچہ رسول اللہﷺ نے اسے اس کام کی طرف لوٹا دیا جس کا کرنا اس کے لیے زیادہ لائق اور زیادہ ضروری تھا۔ یعنی والدین کے پاس جا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اس سے مراد ان کی خدمت ، رضا جوئی اور فرماں برداری میں جد وجہد کرنا ہے ۔ جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت میں جہاد کرو۔
اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرنا جہاد فی سبیل اللہ سے بہتر عمل ہے ۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: نماز۔ اس نے پوچھا : اس کے بعد کون سا عمل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد۔ وہ کہنے لگا کہ میرے تو والدین ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ اس حدیث کو ابن حبان نے ذکر کیا ہے اور اس میں دلیل ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے ۔ ماسوا اس وقت کے جب جہاد فرض عین ہوجائے کیونکہ فرض ہونے کی وجہ سے اسے والدین کی فرماں برداری پر مقدم رکھا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3260

 
 
Hadith   248   الحديث
الأهمية: احْتَجَّتِ الجنَّة والنَّار، فقالتِ النَّار: فيَّ الجبَّارون والمُتَكَبِّرُون. وقالتِ الجنَّة: فيَّ ضُعَفَاء الناسِ ومساكِينُهُم


Tema:

جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا کہ میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔ اور جنت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «احْتَجَّتِ الجنَّة والنَّار، فقالتِ النَّار: فيَّ الجبَّارون والمُتَكَبِّرُون. وقالتِ الجنَّة: فيَّ ضُعَفَاء الناسِ ومساكِينُهُم، فقضى الله بَيْنَهُمَا: إِنك الجنَّة رحْمَتي أَرحم بك من أشاء، وإِنك النَّار عذابي أُعذب بك من أشاء، ولِكِلَيْكُمَا عليَّ مِلْؤُهَا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا کہ میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔ اور جنت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا:’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن الجنة والنار تحاجتا فيما بينهما، كل واحدة تدلي بحجتها، وهذا من الأمور الغيبية التي يجب علينا أن نؤمن بها حتى وإن استبعدتها العقول
فالجنة احتجت على النار، والنار احتجت على الجنة، النار احتجت بأن فيها الجبارين والمتكبرين، الجبارون أصحاب الغلظة والقسوة، والمتكبرون أصحاب الترفع والعلو، والذين يغمطون الناس ويردون الحق، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم في الكبر: (إنه بطر الحق وغمط الناس).
فأهل الجبروت وأهل الكبرياء هم أهل النار والعياذ بالله، وربما يكون صاحب النار لين الجانب للناس، حسن الأخلاق، لكنه جبار بالنسبة للحق، مستكبر عن الحق، فلا ينفعه لينه وعطفه على الناس، بل هو موصوف بالجبروت والكبرياء ولو كان لين الجانب للناس؛ لأنه تجبر واستكبر عن الحق.
أما الجنة فقالت: إن فيها ضعفاء الناس وفقراء الناس. فهم في الغالب الذين يلينون للحق وينقادون له، وأما أهل الكبرياء والجبروت؛ ففي الغالب أنهم لا ينقادون.
فقضى الله عز وجل بينهما فقال للجنَّة : ( إنك الجنة رحمتي أرحم بك من أشاء ) وقال للنار: ( إنك النار عذابي أعذب بك من أشاء )
ثم قال عز وجل: ( ولكليكما عليَّ ملؤها ) تكفل عز وجل وأوجب على نفسه أن يملأ الجنة ويملأ النار، وفضل الله سبحانه وتعالى ورحمته أوسع من غضبه، فإنه إذا كان يوم القيامة ألقى من يلقى في النار، وهي تقول : هل من مزيد، يعني أعطوني. أعطوني. زيدوا. فيضع الله عليها رجله، وفي لفظ عليها : قدمه، فينزوي بعضها على بعض، ينضم بعضها إلى بعض من أثر وضع الرب عز وجل عليها قدمه، وتقول:  قط قط، يعني: كفاية كفاية، وهذا ملؤها.
أما الجنة فإن الجنة واسعة، عرضها السَّمَوَاتِ والأرض يدخلها أهلها ويبقى فيها فضل زائد على أهلها، فينشئ الله تعالى لها أقواماً فيدخلهم الجنة بفضله ورحمته؛ لأن الله تكفل لها بملئها.
575;س حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جنت ودوزخ کے مابین جھگڑا ہوا تو ہر کسی نے اپنی اپنی دلیل دی ۔ (اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا) اس کا تعلق امور غیب سے ہے جس پر ایمان لانا ہم پر واجب ہے اگرچہ عقل اسے بعید ہی جانے ۔
جنت نے دوزخ کے مقابلے میں اپنی دلیل دی اور دوزخ نے جنت کے خلاف اپنی دلیل پیش کی ۔ دوزخ نے کہا کہ اس میں سرکش و متکبر لوگ ہوں گے ۔ جبار لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں سختی اور درشتگی ہوتی ہے اور متکبر لوگ وہ ہیں جو اپنی برتری اور بڑکپن جتاتے ہیں یعنی جو لوگوں کو حقیر جانتے ہیں اور حق کو جھٹلاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کبر کے بارے فرمایا کہ (کبر سے مراد) حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ چنانچہ سرکش اور متکبر لوگ دوزخی ہیں ۔ العیاذ باللہ ۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ دوزخی شخص لوگوں کے لیے تو بڑا نرم خو اور خوش اخلاق ہوتا ہے تاہم حق کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں وہ سرکشی دکھاتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے چنانچہ ایسے شخص کو لوگوں کے ساتھ اس کی یہ نرم خوئی اور مہربانی کوئی فائدہ نہیں دیتی، بلکہ اس کے باوجود بھی وہ سرکش و متکبر ہی ہوتا ہے اگرچہ لوگوں کے لیے وہ نرم خو ہی کیوں نہ ہو ۔
پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا اور جنت سے کہا:’’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا‘‘ اور جہنم سے کہا: اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا‘‘ اور پھر عزوجل نے کہا: ’’ اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے۔'' اللہ عزوجل نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اور وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ جنت وجہنم کو بھردے گا، تاہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فضل ومہربانی اس کے غضب سے وسیع ہے۔ چنانچہ روزِقیامت جب جہنمیوں کو آگ میں ڈال چکے گا تو جہنم کہے گی: اور کوئی ہے، یعنی مجھے اور دو، مجھے اور دو، زیادہ دو، چنانچہ اس میں اللہ اپنے پیرکو رکھے گا، اور ایک لفظ میں ’’قدم‘‘ کا ذکر ہے، چنانچہ جہنم کے حصے آپس میں سکڑ جائیں گے، اور رب عزّ وجلّ کے اس میں قدم رکھنے کی وجہ سے آپس میں جہنم مل جائے گی، اور کہے گی: بس بس یعنی کافی ہے کافی ہے، اور یہی جہنم کا بھرنا ہے۔
رہی بات جنت کی توجنت بہت وسیع ہے، اس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے، اس میں جنتی داخل ہوں گے اور ان جنتیوں کے مقدار کے مطابق زائد حصہ باقی رہ جائے گا، چنانچہ اس کے لیے اللہ ایک ایسی قوم کو پیدا کرے گا جنہیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کرے گا، کیونکہ اللہ نے اس کے بھرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3261

 
 
Hadith   249   الحديث
الأهمية: أتي النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شرب خمرًا، قال: «اضربوه»


Tema:

نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے مارو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: أُتِي النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شَرِب خمرا، قال: «اضربوه».   قال أبو هريرة: فمنا الضارب بيده، والضارب بنعله، والضارب بثوبه، فلما انصرف، قال بعض القوم: أخزاك الله، قال: «لا تقولوا هكذا، لا تُعِينُوا عليه الشيطان».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے مارو۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ كا بيان ہے کہ: تو ہم میں سے کوئى اسے اپنے ہاتھ سے، كوئى اپنے جوتے سے اور کوئى اپنے کپڑے سے ماررہا تھا۔ جب وہ (مار كهاكر) جانے لگا تو لوگوں میں سے کسی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الصحابة -رضي الله تعالى عنهم- جاءوا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شرب الخمر، فأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بضربه فضربه الصحابة، فبعضهم ضربه بيده دون استعمال أداة أخرى من أدوات الضرب، ومنهم الضارب بنعله وهذا من التنكيل به ومنهم الضارب بثوبه، ولم يستعملوا السوط الذي هو أداة الحد في الضرب، وجاء في رواية أنه أمر عشرين رجلًا فضربه كل رجل جلدتين بالجريد والنعال، وهذا يفسر أن الجلد أربعين، وما جاء عن الخلفاء الراشدين من زيادة على ذلك فهو تعزير راجع للإمام.
ثم لما فرغ الناس من ضربه، دعا عليه بعضهم بقوله : " أخزاك الله" أي: دعا عليه بالخزي، وهو الذل والمهانة والفضيحة بين الناس، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لا تقولوا له هكذا لا تعينوا عليه الشيطان"؛ لأنهم إذا دعوا عليه بالخزي ربما استجيب لهم، فبلغ الشيطان مأربه، ونال مقصده ومطلبه، وحتى لا ينفر العاصي وقد حد.
581;دیث کا معنی: صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبیﷺ کے پاس ایک آدمی کو لے کر آئے جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابۂ کرام نے اسے مارا۔ ان میں سے کچھ نے اسے مارنے کے کسی دوسرے آلے کے استعمال کے بغیر خالی اپنے ہاتھ سے مارا، تو کسی نے اسے اپنے جوتے سے مارا اور یہ اسے عبرتناک سزا دینے کے طورپر تھی، اور کسی نے اسے اپنے کپڑے سے مارا۔ جبکہ انہوں نے کوڑے کا استعمال نہیں کیا جو کہ مارنے سے متعلق شرعی حد (کے نفاذ) کا آلہ ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے بیس آدمیوں کو حکم دیا تو ان میں سے ہر ایک نے اسے چھڑی اور جوتے سے دو دو ضرب لگائے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ کوڑوں کی تعداد چالیس ہے، اور خلفائے راشدین سے اس پر جو اضافہ وارد ہے وہ بطور تعزیر ہے جو امام وقت (حاکم) کی صوابدید پر منحصر ہے۔
پھر جب لوگ اسے مار نے سے فارغ ہوگئے تو ان میں سے کسی نے اسے یہ بددعا دی کہ: ”اللہ تجھے رسوا کرے“ یعنی اسے رسوائی کی بددعا دی، جس کا مطلب لوگوں کے بیچ ذلت وخواری، اہانت و حقارت اور فضیحت ورسوائی ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”ا سے اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو“۔ کیونکہ جب لوگ اسے ذلت ورسوائی کی بددعا دیں گے تو بسا اوقات ان کی بددعا قبول ہوسکتی ہے، تو اس طرح شیطان اپنی مراد کو پہنچ جائے گا اور اس کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ نیز اس لیے تاکہ گناہ گار سے نفرت نہ کی جائے جبکہ اس پرحد کا نفاذ ہو چکا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3262

 
 
Hadith   250   الحديث
الأهمية: إِنِّي أَرَى ما لا تَرَوْنَ، أَطَّت السَّمَاءُ وَحُقَّ لها أَنْ تَئِطَّ، ما فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصابِعَ إِلَّا ومَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَه سَاجِدًا للهِ -تعالى-


Tema:

جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ بے شک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کیے ہوئے نہ پڑا ہو۔

عن أبي ذر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إني أرى ما لا ترون، أطَّتِ السماء وحُقَّ لها أن تَئِطَ، ما فيها موضع أربع أصابع إلا ومَلَكٌ واضع جبهته ساجدا لله تعالى، والله لو تعلمون ما أعلم، لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا، وما تلذذتم بالنساء على الفُرُشِ، ولخرجتم إلى الصُّعُداتِ تَجْأَرُون إلى الله تعالى».

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں وہ کچھ دیکھتا ہوں، جو تم نہیں دیکھتے۔ آسمان سے چرچرانے کی آواز نکلتی ہے اور اس کا ایسی آواز دینا بالکل بجا ہے۔ آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی جگہ نہیں، جہاں کوئی فرشتہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم وہ کچھ جانتے ہوتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو پاتےاور اللہ سےفریادیں کرتے ہوئے گلیوں چوراہوں میں نکل آتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إني أبصر وأعلم ما لا تبصرون ولا تعلمون، حصل للسماء صوت كصوت الرحْلِ إذا رُكب عليه، ويحق لها ذلك؛ فما فيها موضع أربع أصابع إلا وفيه ملك واضِعٌ جبهته ساجدا لله -تعالى- والله لو تعلمون ما أعلم من عِظَمِ جلال الله -تعالى- وشدة انتقامه، لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا خوفا من سطوته -سبحانه وتعالى-، وما تلذذتم بالنساء على الفرش من شدة الخوف، ولخرجتم إلى الطرقات ترفعون أصواتكم بالاستغاثة إلى الله -تعالى-.
585;سول اللہ ﷺ نے فرمایا میں وہ کچھ دیکھتا اور جانتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور تم نہیں جانتے۔ آسمان سے ایسے آواز آتی ہے جیسی کجاوے پر بیٹھتے ہوئے اس میں سے آواز آتی ہے اور ایسی آواز آنی بھی چاہئے۔ آسمان میں چار انگل کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکے سجدہ ریز نہ پڑا ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم اللہ کے جلال کی عظمت اور اس کے انتقام کی شدت کو ویسے جانتے ہوتے جیسے میں جانتا ہوں تو تم اس کی غالبیت کے خوف کی وجہ سے ہنستے کم اور روتے زیادہ اور خوف کی شدت کی وجہ سے تم بستروں پر اپنی عورتوں سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکتے اور با آواز بلند اللہ تعالی سے مدد مانگتے ہوئے تم راستوں میں نکل آتے۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3265

 
 
Hadith   251   الحديث
الأهمية: أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ: دِينَارٌ يُنْفِقُهُ على عِيَالِهِ، ودِينَارٌ يُنْفِقُهُ على دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، ودِينَارٌ يُنْفِقُهُ على أَصْحَابِهِ في سَبِيلِ اللهِ


Tema:

سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اور جو اللہ کی راہ میں اپنی سواری کے جانور پر خرچ کرتا ہے نیز وہ دینار جو اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے۔

عن ثوبان - رضي الله عنه- مولى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «َأفضل دينار ينُفِقُهُ الرجل: دينار ينفقه على عياله، ودينار ينفقه على دَابَّتِهِ في سبيل الله، ودينار ينفقه على أصحابه في سبيل الله».

ثوبان رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور جو اللہ کی راہ میں اپنی سواری کے جانور پر خرچ کرتا ہے نیز وہ دینار جو اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفضل الأموال التي ينفقها الرجل في سبيل الخير، مالٌ ينفقه على عياله، وهم كل من يعوله، أي يتولى معيشته من ابن وبنت وزوجة وخادم وغير ذلك، ومال ينفقه على دابته التي تحمله في طاعة الله -عز وجل- من جهاد وغيره، ومال ينفقه على أصحابه في طاعة الله -عز وجل-، والقول الآخر أن (في سبيل الله) هو الجهاد فقط.
576;ھلائی کے کاموں میں خرچ کیے جانے اموال میں سے سب سے افضل مال وہ ہے جسے آدمی اپنے گھر والوں پرخرچ کرتا ہے اور اس جانور پر خرچ کرتا ہے جو جہاد وغیرہ جیسے اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے کاموں میں اس کی سواری کا کام دیتا ہے اور وہ مال جو وہ اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3267

 
 
Hadith   252   الحديث
الأهمية: خير المجالس أوسعها


Tema:

سب سے اچھی مجلس وہ ہے جو سب سے زیادہ کشادہ ہو۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، يَقُولُ:«خير المجالس أوسعها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”سب سے اچھی مجلس وہ ہے جو سب سے زیادہ کشادہ ہو“۔

دل الحديث على فضل سعة المجالس, فإن المجالس الواسعة من خير المجالس؛ لأنها إذا كانت واسعة حملت أناسا كثيرين وصار فيها انشراح وسعة صدر, وهذا على حسب الحال فقد يكون بعض الناس حُجَرُ بيته ضيقة، لكن إذا أمكنت السعة فهو أحسن؛ لما سبق.

740;ہ حدیث، نشست گاہوں میں کشادگی و کشائش پیدا کرنےکی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کشادہ مجالس خیر کی مجالس میں شمار ہوتی ہیں اس لیے کہ یہ کشادہ ہوں تو بہت سے افراد کی نشستوں و بیٹھکوں کے قابل ہوں گی اور اس میں دلوں کی وسعتیں بھی کھل جاتی ہیں اور یہ بات مقتضائے حال کے مطابق ہوگی کیونکہ کبھی کچھ لوگوں کے گھروں کے کمرے تنگ دامنی کا شکوہ کرتے ہیں لیکن اگر اس میں کشادگی کا امکان ہو تو وہ تنگ کمرے بھی اپنی سابقہ حالت سے زیادہ عمدہ مجالس بن جاتی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3270

 
 
Hadith   253   الحديث
الأهمية: والذي نفسُ مُحمَّد بيدِه، لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمة يهوديٌّ، ولا نصرانيٌّ، ثم يموتُ ولم يؤمن بالذي أُرْسِلتُ به، إلَّا كان مِن أصحاب النار


Tema:

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس امت کا کوئی بھی انسان جو میرے بارے میں سنے، وہ یہودی ہو یا نصرانی اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے، جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں اور اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے، تو وہ جہنمی ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «والذي نفسُ مُحمَّد بيدِه، لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمة يهوديٌّ، ولا نصرانيٌّ، ثم يموتُ ولم يؤمن بالذي أُرْسِلتُ به، إلَّا كان مِن أصحاب النار».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس امت کا کوئی بھی انسان جو میرے بارے میں سنے، وہ یہودی ہو یا نصرانی اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں اور اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے، تو وہ جہنمی ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحلف النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله أنه «لا يسمع به أحد من هذه الأمة» أي: ممن هو موجود في زمانه وبعده إلى يوم القيامة «يهودي، ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أُرسلتُ به، إلا كان من أصحاب النار» فأي يهودي أونصراني وكذلك غيرهما تبلغه دعوة النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم يموت ولا يؤمن به إلا كان من أصحاب النار خالدًا فيها أبدًا.   وإنما ذَكر اليهودي والنصراني تنبيهًا على من سواهما؛ وذلك لأن اليهود والنصارى لهم كتاب، فإذا كان هذا شأنهم مع أن لهم كتابًا، فغيرهم ممن لا كتاب له أولى، فكلُّهم يجب عليهم الدخول في دينه وطاعته -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی ﷺ نے اللہ کی قسم کھائی کہ: ”اس امت کا کوئی فرد آپ کے بارے میں سنے“ یعنی جو آپ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور آپ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ ”چاہے یہودی ہو یا نصرانی، پھر وہ مر جائے اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے، جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا“ یعنی یہودی و نصرانی اور ان کے علاوہ دوسرے وہ لوگ، جن تک نبی ﷺ کی دعوت پہنچی، پھر وہ آپ ﷺ پر بغیر ایمان لائے مر گئے، تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنمی ہیں۔
یہود و نصاریٰ کا ذکر دوسرے لوگوں کے لیے بطور تنبیہ ہے اور وہ اس وجہ سے ہے کہ یہود و نصاریٰ اہل کتاب ہیں۔ جب اہل کتاب ہونے کے باوجود ان کی یہ حالت ہوگی، تو ان کے علاوہ دوسرے لوگ بدرجۂ اولیٰ اس کے مستحق ہوں گے۔ اس لیے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ دین اسلام میں داخل ہوکر نبی ﷺ کی اطاعت کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3272

 
 
Hadith   254   الحديث
الأهمية: الإيمانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أو بِضْعٌ وسِتُونَ شُعْبَةً: فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إله إلا الله، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ


Tema:

ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الإيمانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أو بِضْعٌ وسِتُّونَ شُعْبَةً: فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إله إلا الله، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإيمان ليس خصلة واحدة، أو شعبة واحدة، ولكنه شعب كثيرة، بضع وسبعون، أو بضع وستون شعبة، ولكن أفضها كلمة واحدة: وهي لا إله إلا الله، وأيسرها إزالة كل ما يؤذي المارين، من حجر، أو شوك، أو غير ذلك من الطريق، والحياء شعبة من الإيمان، فالأعمال من الإيمان عند أهل السنة والجماعة، وهو الحق الذي دلت عليه الأدلة الشرعية وهذه منها.
575;یمان صرف ایک ہی خصلت یا ایک ہی شعبے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں، ستّر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شعبہ جات ہیں۔ تاہم ان میں سے افضل ترین کلمہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ہلکا شعبہ ہر اس شے کو راستے سے ہٹانا ہے جس سے راہ گیروں کو تکلیف پہنچے جیسے پتھر، کانٹا وغیرہ جیسی اشیاء۔ اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3276

 
 
Hadith   255   الحديث
الأهمية: أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى


Tema:

مونچھیں تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

وعن ابن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مونچھیں تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن المُسلم مأمور بالأخذ من شَارِبه ولا يتركه أكثر من أربعين يوما ما لم يَفْحش؛ لما رواه مسلم عن أنس -رضي الله عنه-: "وُقِّت لنا في قَصِّ الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة، أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة"
وفي رواية أبي داود: "وَقَّتَ لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حلق العانة وتقليم الأظفار وقصّ الشارب أربعين يومًا مرةً"
وقد وقع عند أحمد والنسائي: "من لم يأخذ من شَارِبه فليس مِنَّا"، وصححه الشيخ الألباني في صحيح الجامع الصغير وزيادته (2/1113) برقم (6533).
فيتأكد الأخذ من الشارب، سواء بِحَفِّه حتى يَبْدُوَ بياض الجلد أو بأخذ ما زاد على الشفه مما قد يَعْلق به الطعام.
" وإعفاء اللحية "واللحية : قال أهل اللغة: إنها شعر الوجه واللحيين يعني: العَوَارض وشَعَر الخَدَّيْنِ فهذه كلها من اللحية.
والمقصود من إعفائها: تركها مُوَفَّرَةٌ لا يتعرض لها بحلق ولا بتقصير، لا بقليل ولا بكثير؛ لأن الإعفاء مأخوذ من الكثرة أو التوفير، فاعفوها وكثروها، فالمقصود بذلك: أنها تترك وتوفر، وقد جاءت الأحاديث الكثيرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بإعفائها بألفاظ متعددة؛ فقد جاء بلفظ : "وفروا" وبلفظ: " أرخوا " وبلفظ: " أعفوا ".
وكلها تدل على الأمر بإبقائها وتوفيرها وعدم التَعرض لها.
وقد كان من عادة الفرس قص اللحية، فنهى الشرع عن ذلك، كما في البخاري من حديث ابن عمر بلفظ " خالفوا المشركين..".
وهذا الأمر مع تعليله بمخالفة المشركين يدل على وجوب إعفائها، والأصل في التشبه التحريم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: (من تشبه بقوم فهو منهم).
605;فہوم حدیث: مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی مونچھیں تراشے اور چالیس دن سے زیادہ انہیں بغیر کاٹے نہ رہنے دے بشرطیکہ وہ بہت زیادہ نہ ہوجائیں۔ کیونکہ امام مسلم نے انس رضی اللہ سے روایت کیا ہے: ”مونچھیں کترنے ، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنےکے لیے ہمارے لیے وقت مقرر فرمادیاگیا۔ وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں“۔
ابوداؤد کی روایت میں ہے:”رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے زیرِ ناف بال مونڈنے، ناخن کاٹنے اور مونچھوں کے بال کاٹنے کے لیے وقت مقرر فرما دیا“۔
امام احمد اور امام نسائی کی روایت میں آیا ہے کہ: ”جس نے اپنی مونچھیں چھوٹی نہ کیں وہ ہم میں سے نہیں“۔
شیخ البانی نے کتاب 'الجامع الصغیر و زیادته' (2/1113) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے۔ حدیث نمبر (6533)۔
چنانچہ اس سے مونچھ کا کچھ حصہ لینا ثابت ہوتا ہے چاہے ایسا اسے کاٹ کر کیا جائے یہاں تک کہ جلد کی سفیدی ظاہری ہوجائے یا پھر ہونٹ پر آ جانے والے اس حصے کو کاٹا جائے جس سے کھانا لگ جاتا ہے۔
”وإعفاء اللحية“: اہلِ لغت کے نزدیک 'لحية' سے مراد چہرے اور جبڑے پر اگنے والے بال ہیں یعنی رخساروں کے بالائی حصے اور گالوں پر اُگے ہوئے بال۔ یہ سب 'لحية' میں شامل ہیں۔
ان کے 'إعفاء' سے مراد ہے: انہیں گھنے ہونے دینا بایں طورکہ مرد نہ تو وہ انہیں مونڈے اور نہ ہی انہیں تھوڑا بہت کاٹ کر چھوٹا کرے۔کیونکہ 'إعفاء' کا لفظ کثرت اور بہتات کا معنی دیتا ہے چنانچہ مراد یہ ہے کہ انہیں زیادہ ہونے دو۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ بالوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور گھنے ہونے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں جن میں انہیں متعدد الفاظ کے ساتھ بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض اوقات ”وفروا“ کا لفظ آیا ہے، کبھی ”أرخوا“ کا لفظ اور کبھی ”أعفوا“ كا لفظ آیا ہے۔
یہ سب کلمات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جائے، انہیں بڑھنے دیا جائے اور ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔فارسی لوگوں کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کٹواتے تھے۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ: ”مشرکین کی مخالفت کرو...“۔
مشرکین کی مخالفت کرنے کی علت کے ساتھ یہ حکم داڑھی کو بڑھانے کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مشابہت اختیار کرنے میں اصل یہی ہے کہ وہ حرام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے“۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3279

 
 
Hadith   256   الحديث
الأهمية: إذا توضَّأ العبدُ المسلم، أو المؤمن فغسل وجهه خرج من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء، أو مع آخر قطر الماء


Tema:

جب کوئی مومن یا مسلم وضو کرتے وقت چہرہ دھوتا ہے، تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے، یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا توضَّأ العبدُ المسلم، أو المؤمن فغسل وَجهَهُ خرج مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نظر إليها بِعَينَيهِ مع الماء، أو مع آخر قَطْرِ الماء، فإذا غسل يديه خرج من يديه كل خطيئة كان بَطَشَتْهَا يداه مع الماء، أو مع آخِرِ قطر الماء، فإذا غسل رجليه خرجت كل خطيئة مَشَتْهَا رِجْلَاه مع الماء أو مع آخر قطر الماء حتى يخرج نَقِيًا من الذنوب».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی مومن، یا مسلم وضو کرتے وقت چہرہ دھوتا ہے، تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے، تو جیسے ہی ہاتھوں سے پانی کے قطرے گرتے ہیں یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے ہاتھوں سے کیے تھے اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے، تو جیسے ہی اس کے پاؤں سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، اس کے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے اپنے پاؤں سے کیے تھے، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الوضوء الشرعي تُطهَّر فيه الأعضاء الأربعة: الوجه، اليدان، والرأس، والرجلان.
وهذا التطهير يكون تطهيرًا حسيا، ويكون تطهيرا معنويا، أما كونه تطهيرا حسيا فظاهر؛ لأن الإنسان يغسل وجهه، ويديه، ورجليه، ويمسح الرأس، وكان الرأس بصدد أن يغسل كما تغسل بقية الأعضاء، ولكن الله خفف في الرأس؛ ولأن الرأس يكون فيه الشعر، والرأس هو أعلى البدن، فلو غسل الرأس ولا سيما إذا كان فيه الشعر؛ لكان في هذه مشقة على الناس، ولا سيما في أيام الشتاء، ولكن من رحمة الله -عز وجل- أن جعل فرض الرأس المسح فقط، فإذا توضأ الإنسان لا شك أنه يطهر أعضاء الوضوء تطهيرا حسيا، وهو يدل على كمال الإسلام؛ حيث فرض على معتنقيه أن يطهروا هذه الأعضاء التي هي غالبا ظاهرة بارزة.
أما الطهارة المعنوية، وهي التي ينبغي أن يقصدها المسلم، فهي تطهيره من الذنوب، فإذا غسل وجهه خرجت كل خطايا نظر إليها بعينه، وذكر العين -والله أعلم- إنما هو على سبيل التمثيل، وإلا فالأنف قد يخطئ، والفم قد يخطئ؛ فقد يتكلم الإنسان بكلام حرام، وقد يشم أشياء ليس له حق يشمها، ولكن ذكر العين؛ لأن أكثر ما يكون الخطأ في النظر.
وتكفير الذنوب في الحديث يراد بها الصغائر، أما الكبائر فلا بد لها من توبة.
588;رعی وضو میں چار اعضا کو پاک وصاف کیاجاتاہے۔ چہرہ ، دونوں ہاتھ ، سر اور دونوں پاؤں۔
یہ صفائی حسی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔
اس کا حسی ہونا تو ظاہر ہے۔ کیوںکہ اس میں انسان اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ، اور دونوں پاوں دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سر کو بھی اسی طرح دھویا جاتا، جیسے بقیہ اعضا کو دھویا جاتاہے، لیکن اللہ تعالی نے سر کے معاملے میں تخفیف فرما دی۔ کیوںکہ سر میں بال ہوتے ہیں اور یہ بدن کا سب سے اوپر والا حصہ ہے۔ چنانچہ اگر سر کو دھویا جاتا، خاص طور پر جب کہ اس میں بال بھی ہوں، تو اس میں لوگوں کے لیے مشقت ہوتی، خصوصا سردی کے دنوں میں ۔ لیکن یہ اللہ عزوجل کی رحمت ہے کہ اس نے سر کے معاملے میں صرف مسح کرنا فرض کیا۔ جب انسان وضو کرتاہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اعضا وضو کو حسی طور پر صاف کرتاہے ۔ یہ اسلام کی اکملیت پر دلیل ہے کہ اس کے ماننے والوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ ان اعضا کو صاف کریں جو اکثر ظاہر اور کھلے رہتے ہیں ۔ اور طہارت معنویہ سے مراد ایک مسلمان بندے کا گناہوں سے پاکی حاصل کرنے کا عمل ہے۔ جب وہ اپنے چہرے کو دھوتا ہے، تو وہ سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں، جن کا ارتکاب آنکھوں سے ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں آنکھ کا ذکر _واللہ اعلم_ بطور تمثیل ہے۔ ورنہ ناک سے بھی خطا ہوتی ہے، منہ سے بھی خطا ہوتی ہے؛ انسان ایسی باتیں کر لیتا ہے، جو حرام ہیں، ایسی چیزیں سونگھ لیتا ہے، جنھیں سونگھنے کا اسے حق نہیں ہوتا، لیکن آنکھ کا ذکر بطور خاص اس لیے ہواہے کہ اکثر گناہ آنکھ سے ہی سر زد ہوتے ہیں۔ اور اس حدیث میں گناہوں کی معافی سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے۔ جب کہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کے لیے توبہ ضروری ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3284

 
 
Hadith   257   الحديث
الأهمية: إذا رأى أحدكم رؤيا يُحِبُّهَا، فإنما هي من الله تعالى، فليَحْمَد الله عليها، وَلْيُحَدِّثْ بها


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پس وہ اس پر اللہ کی حمد ادا کرے اور اسے بیان کرے۔

عن أبي سعيد الخُدْرِيِّ -رضي الله عنه-: أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إذا رأى أحدُكُم رُؤيا يُحِبُّهَا، فإنما هي من الله تعالى، فليَحْمَد الله عليها، وَلْيُحَدِّثْ بها - وفي رواية: فلا يُحَدِّثْ بها إلا من يُحَبُّ- وإذا رأى غير ذلك مِمَّا يَكْرَه، فإنما هي من الشيطان، فَلْيَسْتَعِذْ من شَرِّهَا، ولا يَذْكُرْهَا لأحد؛ فإنها لا تضره».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پس وہ اس پر اللہ کی حمد ادا کرے اور اسے بیان کرے“۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: ”اس کا ذکر صرف ایسے لوگوں سے کرے جو اس سے محبت رکھتے ہوں، اورجب اس کے برعکس ناپسندیدہ بات خواب میں دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے لہذا اس کے شر سے پناہ مانگے، اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے کیوں کہ وہ اسے نقصان نہیں دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا رأى المسلم في منامه ما يسره، فإنما هي بشارة له من الله تعالى فليحمد الله عز وجل على هذه البشارة، ولا يحدث بها إلا من يحب من أهله وجيرانه وأصحابه الصالحين منهم، وإذا رأى غير ذلك مما يكره من الرؤيا القبيحة التي يكره صورتها، أو يكره تأويلها فإنما هي خيالات شيطانية يصورها الشيطان لنفس النائم في منامه، ليخوفه ويحزنه بها، فإذا رأى ذلك فليستعذ بالله من شَرِّها.
580;ب کوئی مسلمان خواب میں کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے اچھی لگے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے خوش خبری ہے،اس بشارت پر اسے اللہ کی حمد ادا کرنی چاہیے، اور اس کو اپنے اہل و عیال، پڑوسیوں اور نیک ساتھیوں میں سے صرف انہیں کو بتائے جن سے وہ محبت کرتا ہو، اورجب کوئی برا خواب دیکھے جس کا دیکھنا یا جس کی تاویل اسے ناپسند ہو تو وہ شیطانی خیالات ہیں جسے شیطان بحالت نیند سونے والے کے سامنے اس کے خواب میں پیش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اسے ڈرائے اور کبیدہ خاطر کرے، جب ایسا خواب دیکھے تواللہ تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3285

 
 
Hadith   258   الحديث
الأهمية: من كظم غيظا، وهو قادر على أن ينفذه، دعاه الله سبحانه وتعالى على رؤوس الخلائق يوم القيامة حتى يخيره من الحور العين ما شاء


Tema:

جو شخص اپنے غصے کو پورا کرنے کی قدرت ہونے کے باجود اسے دبا لیتا ہے، اسے اللہ سبحانہ و تعالی روز قیامت سب مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جنت کی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جسے چاہے، چن لے۔

عن معاذ بن أنس -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَن كَظَمَ غَيظًا، وَهُو قادر على أن يُنفِذَه، دَعَاه الله سبحانه وتعالى على رؤوس الخَلاَئِق يوم القيامة حتَّى يُخَيِّره من الحُور العَين مَا شَاء».

معاذ ابن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے غصے کو پورا کرنے کی قدرت ہونے کے باجود اسے دبا لیتا ہے، اسے اللہ سبحانہ و تعالی روز قیامت سب مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جنت کی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جسے چاہے، چن لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن الإنسان إذا غَضِب من شخص وهو قادر على أن يفتك به، ولكنه ترك ذلك ابتغاء وجه الله، وصبر على ما حصل له من أسباب الغيظ فله هذا الثواب العظيم، وهو أنه يدعى على رؤوس الخلائق يوم القيامة ويخيَّر من أي نساء الجنة الحسناوات شاء.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انسان کو جب کسی شخص پر غصہ آ جائے اور وہ اس کی گرفت پر قادر ہونے کے باجود محض اللہ کی رضا کے لئے اسے چھوڑ دے اور جن اسباب کی بنا پر اسے غصہ آیا، ان پر صبر کرے، تو اس کو یہ عظیم اجر ملتا ہے کہ اسے روزِ قیامت تمام مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا اور اختیار دیا جائے گا کہ وہ جنت کی خوب صورت عورتوں میں سے جسے، چاہےچن لے۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3287

 
 
Hadith   259   الحديث
الأهمية: لم تحل الغنائم لأحد قبلنا، ثم أحل الله لنا الغنائم لما رأى ضعفنا وعجزنا فأحلها لنا


Tema:

ہم سے پہلے مال غنیمت کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے اسے ہمارے لیے جائز کر دیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «غَزَا نَبِيٌّ مِن الأَنبِيَاء -صلوات الله وسلامه عليهم- فقال لقومه: لاَ يَتبَعَنِّي رجُل مَلَك بُضْعَ امرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أنْ يَبنِي بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلاَ أحَدٌ بَنَى بُيُوتًا لم يَرفَع سُقُوفَهَا، ولاَ أَحَدٌ اشتَرَى غَنَمًا أو خَلِفَات وهو يَنتظِرُ أَولاَدَها، فَغَزَا فَدَنَا مِنَ القَريَةِ صَلاةَ العَصر أو قَرِيباً مِن ذلك، فَقَال للشَّمسِ: إِنَّك مَأمُورَة وأَنَا مَأمُور، اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَينَا، فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ الله عليه، فَجَمَع الغَنَائِم فَجَاءَت -يعني النار- لِتَأكُلَهَا فَلَم تَطعَمها، فقال: إِنَّ فِيكُم غُلُولاً، فَليُبَايعنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَة رجل، فَلَزِقَت يد رجل بِيَدِهِ فقال: فِيكُم الغُلُول فلتبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فَجَاؤوا بِرَأس مثل رأس بَقَرَةٍ من الذَّهَب، فَوَضَعَهَا فجاءت النَّارُ فَأَكَلَتهَا، فَلَم تَحِلَّ الغَنَائِم لأحَدٍ قَبلَنَا، ثُمَّ أَحَلَّ الله لَنَا الغَنَائِم لَمَّا رَأَى ضَعفَنَا وَعَجزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انبیا علیہم الصلوۃ و السلام میں سے ایک نبی نےجنگ كا ارادہ کیا، تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ جہاد میں نہ آئے، جس کا کسی عورت سے نکاح ہوا ہو اور ابھی تک اس سے شب باشی نہ کی، ہو جب کہ وہ اس کا ارادہ رکھتا ہو۔ وہ شخص (بھی نہ آۓ) جس نے گھر تعمیر کیا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو۔ وہ شخص (بھی نہ آۓ) جس نے بھیڑ بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو۔ پھر انھوں نے جہاد کیا اور عصر کے وقت یا اس کے قریب قریب بستی کے پاس پہنچے۔ اور سورج سے کہنے لگے کہ: "تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے"۔ چنانچہ سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انھوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لیے آئی؛ لیکن جلا نہ سکی۔ یہ دیکھ کر نبی نے کہا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لیے ہر قبیلے کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے۔ (جب بیعت ہوئی تو) ایک قبیلے کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر چپک گیا۔ انھوں نے کہا کہ چوری تمھارے قبیلے والوں نے کی ہے۔ اب تمھارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو یاتین آدمیوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے پر چپک گیا تو انھوں نے فرمایا کہ چوری تمہی لوگوں نے کی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا، تو آگ نے آ کر اسے جلا دیا۔ ہم سے پہلے مال غنیمت کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے اسے ہمارے لیے جائز کر دیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن نبي من الأنبياء -عليهم الصلاة والسلام- أنه غزا قومًا أُمِر بجهادهم، لكنه -عليه الصلاة والسلام- مَنَع كل إنسان عَقَد على امرأة ولم يَدخُل بها، وكل إنسان بنى بيتًا ولم يرفع سقفه، وكل إنسان اشترى غنمًا أو خَلِفَات وهو ينتظر أولادها، وذلك لأَنَّ هؤلاء يكونون مشغولين بما أهمهم، فالرجل المتزوج مشغول بزوجته التي لم يدخل بها، فهو في شوق إليها، وكذلك الرجل الذي رفع بيتًا ولم يُسَقِّفه، هو أيضا مشتغل بهذا البيت الذي يريد أن يسكنه هو وأهله، وكذلك صاحب الخلفات والغنم مشغول بها ينتظر أولادها.
والجهاد ينبغي أن يكون الإنسان فيه مُتَفَرِّغًا، ليس له همٌّ إلا الجهاد، ثم إن هذا النبي غزا، فنَزَل بالقوم بعد صلاة العصر، وقد أَقْبَل اللَّيل، وخاف إن أظلَم اللَّيلُ أن لا يكون هناك انتصار، فجعل يخاطب الشمس يقول: أنت مأمورة وأنا مأمور، لكن أمر الشمس أمر كوني وأما أمره فأمر شرعي.
فهو مأمور بالجهاد والشمس مأمورة أن تسير حيث أمرها الله عز وجل، قال الله: (والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم)، منذ خلقها الله عز وجل وهي سائرة حيث أمرت لا تتقدم ولا تتأخر ولا تنزل ولا ترتفع.
قال: "اللهم فاحبسها عنا" فحبس الله الشمس ولم تغب في وقتها، حتى غزا هذا النبي وغنم غنائم كثيرة، ولما غنم الغنائم وكانت الغنائم في الأمم السابقة لا تحل للغزاة، بل حل الغنائم من خصائص هذه الأمة ولله الحمد، أما الأمم السابقة فكانوا يجمعون الغنائم فتنزل عليها نار من السماء فتحرقها إذا كان الله قد تقبلها، فجُمِعَت الغنائم فنزلت النار ولم تأكلها، فقال هذا النبي: فيكم الغلول.
ثم أمر من كل قبيلة أن يتقدَّم واحد يبايعه على أنَّه لا غُلُول، فلمَّا بايعوه على أنَّه لا غلول لَزِقَت يد أحد منهم بيدِ النبي -عليه الصلاة والسلام-، فلمَّا لَزِقَت قال: فيكم الغلول -أي: هذه القبيلة- ثم أمر بأن يبايعه كل واحد على حدة من هذه القبيلة، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة منهم، فقال: فيكم الغلول: فجاؤوا به، فإذا هُم قد أخفوا مثل رأس الثور من الذهب، فلمَّا جيء به ووضع مع الغنائم أكلتها النار.
606;بی ﷺ نے انبیا علیہم الصلوۃ و السلام میں سے ایک نبی کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے ایک قوم کے ساتھ جنگ کا ارادہ کیا، جن سے جہاد کا انھیں حکم دیا گیا تھا۔ لیکن آپ علیہ السلام نے ہر اس شخص کو جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو، لیکن ابھی تک اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور ہر اس شخص کو جس نے گھر تیار کیا ہو، لیکن ابھی تک اس کی چھت نہ رکھی ہو اور ہر اس آدمی کو جس نے کچھ بھیڑ بکریاں اور حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور ان کے بچے جننے کا منتظر ہو، ان سب کو (جہاد میں شرکت سے) روک دیا۔کیوںکہ ان کے دل ان چیزوں میں لگے ہوتے ہیں، جو ان کے لیے باعث دل چسبی ہیں۔ شادی شدہ آدمی کی توجہ اپنی بیوی پر ہوتی ہے،جس سے اس نے ابھی تک مباشرت نہ کی ہو۔ وہ اس کے لیے مشتاق رہتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جس نے گھر کی دیواریں تو اٹھا لی ہوتی ہیں، لیکن اس کی چھت نہیں ڈالی ہو، اس کا ذہن بھی اپنے گھر پر لگا ہوتا ہے، جس میں وہ اور اس کے اہل خانہ رہائش پذیر ہونا چاہتے ہیں۔اسی طرح حاملہ اونٹنیوں اور بھیڑ بکریوں کے مالک کا دل بھی ان میں لگا ہوتا ہے اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہوتا ہے۔
جہاد کے لیے تو انسان کو بالکل فارغ ہونا چاہیے، بایں طور کہ جہاد کے سوا اسے کوئی اور فکر نہ ہو۔ پھر اس نبی نے جنگ کی اور اس قوم پر نماز عصر کے بعد حملہ کیا۔ رات قریب آ رہی تھی، چنانچہ انھیں اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر رات کی تاریکی چھا گئی، تو فتح حاصل نہ ہوسکے گی۔ اس لیے انھوں نے سورج سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تو بھی حکم کا پابند ہے اور میں بھی حکم کا پابند ہوں"۔ تاہم سورج کا حکم تکوینی حکم تھا اور اللہ کی طرف سے اس نبی کو جو حکم تھا وہ تشریعی تھا۔
نبی کو جہاد کرنے کا حکم تھا اور سورج مامور تھا کہ جہاں اللہ نے حکم دیا، اس طرف رواں دواں رہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: الشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ" (يس: 38)
ترجمہ: اور سورج کے لیے جو مقرره راه ہے، وه اسی پر چلتا رہتا ہے۔۔ یہ غالب باعلم اللہ تعالی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یہ جہاں کا حکم ہے، وہاں چلا جا رہا ہے، بایں طور کہ نہ تو آگے پیچھے ہوتا ہے اور نہ ہی اوپر نیچے۔
اس نبی نے دعا کی: ”اے اللہ!ہمارے لیے اسے اپنی جگہ روک دے“۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سورج کو روک دیا اور وہ اپنے وقت پر غروب نہ ہوا، یہاں تک کہ اس نبی نے جنگ کر لی اور بہت سارا مال غنیمت ان کے ہاتھ آیا۔ سابقہ امتوں میں جنگ میں شریک ہونے والوں کے لیے اموال غنیمت حلال نہیں تھے، بلکہ اموال غنیمت کا حلال ہونا صرف اور صرف اس امت کی خصوصیت ہے۔ و للہ الحمد۔ جب کہ سابقہ امتوں کے لوگ مال غنیمت کو اکٹھا کرتےاور اگر اللہ کہ ہاں یہ مقبول ہوتا، تو ایک آگ نازل ہو کر اسے جلا ڈالتی۔ اس نبی کو جب مال غنیمت حاصل ہوا اور وہ جمع کیا گیا، تو آگ نے نازل ہو کر اسے نہ جلایا۔ اس پر یہ نبی کہنے لگے: ”تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے“۔
پھر انھوں نے حکم دیا کہ ہر قبیلے میں سے ایک آدمی آگے آ کر اس بات پر ان سے بیعت کرے کہ انھوں نے چوری نہیں کی ہے۔ جب انھوں سے اس بات پر بیعت کرنا شروع کیا کہ انھوں نے چوری نہیں ہے تو اس دوران ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ میں چپک گیا ۔ہاتھ چپکنے پر انھوں نے فرمایا: "چوری تم میں ہے"۔ یعنی اس قبیلہ والوں نے چوری کی ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس قبیلے میں سے ہر کوئی الگ الگ بیعت کرے۔ اس پر ان میں سے دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے۔ اس نبی نے فرمایا: ”چوری تمھارے اندر ہے“۔ چنانچہ وہ لوگ چوری شدہ مال لے کر آئے۔ انھوں نے سونے سے بنی بیل کے سر کی مانند ایک شے چھپا رکھی تھی۔ جب اسے لا کر مال غنیمت میں رکھ دیا گیا تو آگ نے اسے جلا دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3288

 
 
Hadith   260   الحديث
الأهمية: إنَّ لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب


Tema:

جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو

عن أسامة بن زيد بن حارثة -رضي الله عنهما- قال: أرسلت بنت النبي -صلى الله عليه وسلم- إنَّ ابني قد احتُضِر فاشْهَدنَا، فأرسَل يُقرِىءُ السَّلام، ويقول: «إنَّ لِلَّه ما أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب». فأرسلت إليه تُقسِم عَليه لَيَأتِيَنَّها، فقام ومعه سعد بن عبادة، ومعاذ بن جبل، وأبي بن كعب، وزيد بن ثابت، ورجال -رضي الله عنهم- فَرفع إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الصَّبِي، فأَقعَدَه في حِجرِه ونَفسه تَقَعقَع، فَفَاضَت عينَاه فقال سعد: يا رسول الله، ما هذا؟ فقال: «هذه رَحمَة جَعلَها الله تعالى في قُلُوب عِباده» وفي رواية: «في قلوب من شاء من عباده، وإنَّما يَرحَم الله من عِبَاده الرُّحَماء».

اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک بیٹی نے پیغام بھیجا کہ ان کا بچہ قریب المرگ ہے، لہذا آپ تشریف لائیے۔ آپ ﷺ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو کہ جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے اس لیے صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ آپ ﷺ کی بیٹی نے قسم دے کر پھر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ اس پر آپ ﷺ اٹھ پڑے۔ آپ ﷺ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ اور لوگ بھی تھے۔ رضی اللہ عنہم۔ (جب آپ ﷺ گھر پہنچے تو) بچے کو اٹھا کر آپ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ ﷺنے اسے گود میں لے لیا۔ اس کی جان نکل رہی تھی۔ یہ حال دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے: ”اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں اللہ نے چاہا، اسے (رحمت کو) رکھا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے، جورحم دل ہوتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- أن إحدى بنات رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أرسلت إليه رسولاً، تقول له إن ابنها قد احتضر، أي: حضره الموت. وأنها تطلب من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يحضر، فبلَّغ الرسول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- "مرها فلتصبر ولتحتسب، فإن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى".
أمر النبي -عليه الصلاة والسلام- الرجل الذي أرسلته ابنته أن يأمر ابنته -أم هذا الصبي- بهذه الكلمات:
قال: "فلتصبر" يعني على هذه المصيبة "ولتحتسب": أي: تحتسب الأجر على الله بصبرها؛ لأن من الناس من يصبر ولا يحتسب، لكن إذا صبر واحتسب الأجر على الله، يعني: أراد بصبره أن يثيبه الله ويأجره، فهذا هو الاحتساب.
قوله: "فإن لله ما أخذ وله ما أعطى": هذه الجملة عظيمة؛ إذا كان الشيء كله لله، إن أخذ منك شيئاً فهو ملكه، وإن أعطاك شيئاً فهو ملكه، فكيف تسخط إذا أخذ منك ما يملكه هو؟
ولهذا يسن للإنسان إذا أصيب بمصيبة أن يقول "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ" يعني: نحن ملك لله يفعل بنا ما يشاء، وكذلك ما نحبه إذا أخذه من بين أيدينا فهو له سبحانه له ما أخذ وله ما أعطى، حتى الذي يعطيك أنت لا تملكه، هو لله، ولهذا لا يمكن أن تتصرف فيما أعطاك الله إلا على الوجه الذي أذن لك فيه؛ وهذا دليل على أن ملكنا لما يعطينا الله ملك قاصر، ما نتصرف فيه تصرفا مطلقاً.
ولهذا قال: "لله ما أخذ وله ما أعطى" فإذا كان لله ما أخذ، فكيف نجزع؟ كيف نتسخط أن يأخذ المالك ما ملك سبحانه وتعالى؟ هذا خلاف المعقول وخلاف المنقول!
قال: "وكل شيء عنده بأجل مسمى" كل شيء عنده بمقدار.
"بأجل مسمى" أي: معين، فإذا أيقنت بهذا؛ إن لله ما أخذ وله ماأعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى؛ اقتنعت. وهذه الجملة الأخيرة تعني أن الإنسان لا يمكن أن يغير المكتوب المؤجل لا بتقديم ولا بتأخير، كما قال الله تعالى:  (لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُون) ، فإذا كان الشيء مقدراً لا يتقدم ولا يتأخر، فلا فائدة من الجزع والتسخط؛ لأنه وإن جزعت أو تسخطت لن تغير شيئاً من المقدور.
ثم إن الرسول أبلغ بنت النبي -صلى الله عليه وسلم- ما أمره أن يبلغه إياها، ولكنها أرسلت إليه تطلب أن يحضر، فقام -عليه الصلاة والسلام- هو وجماعة من أصحابه، فوصل إليها، فرفع إليه الصبي ونفسه تصعد وتنزل، فبكى الرسول -عليه الصلاة والسلام- ودمعت عيناه. فظن سعد بن عباده أن الرسول -صلى الله عليه وسلم- بكى جزعاً، فقال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "هذه رحمة" أي بكيت رحمة بالصبي لا جزعاً بالمقدور.
ثم قال -عليه الصلاة والسلام-: "إنما يرحم الله من عباده الرحماء" ففي هذا دليل على جواز البكاء رحمة بالمصاب.
575;سامہ بن زید رضی اللہ عنہماکابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک بیٹی نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ ان کابچہ قریب المرگ ہے یعنی وہ وفات پارہاہے۔ وہ نبیﷺ سے چاہ رہی تھیں کہ آپ ﷺ تشریف لائیں۔پیغام لانے والے نے آکر رسول اللہ ﷺ کو پیغام دیا،تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا:”ان سے کہو کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقررہے“۔
یعنی نبیﷺ نے اس شخص کو،جسے آپ ﷺ کی بیٹی نے بھیجاتھا،حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کی بیٹی جواس بچے کی ماں تھیں، انھیں یہ الفاظ کہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:”صبر کریں“۔ یعنی اس مصیبت پر صبر کریں اور ”ثواب کی امید رکھیں“۔یعنی اپنے صبرپراللہ سے اجرکی امیدوار ہوں۔ کیوںکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ صبر تو کرتے ہیں، لیکن ثواب کی امید نہیں رکھتے۔ تاہم انسان جب صبر کرتا ہے اور اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے، یعنی اپنے صبر کرنے سے اس کی نیت یہ ہو تی ہے کہ اللہ تعالی اسے اجر وثواب سے نوازے گا،تو یہی ثواب کی امید رکھنا ہوتا ہے۔
آپﷺنے فرمایا:”جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی“ یہ ایک بہت ہی معنی خیز جملہ ہے۔ جب ہر شے اللہ کی ہے، بایں طور کہ اگر آپ سے کوئی شے لے لے، تو وہ اس کی ملکیت ہے اور اگر کوئی شے دے دے، تو وہ بھی اسی کی ملکیت ہے، تو پھر اگر اپنی مملوکہ شے کو وہ لے لے، تو اس پر ناراضگی کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے؟
اسی وجہ سے انسان کے لیے یہی مشروع ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت پہنچے، تو وہ کہے:”إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“۔ یعنی ہم سب اللہ کی ملکیت ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ ہم سے ہماری کوئی پسندیدہ شے لے لے، تو (جان رکھنا چاہیے کہ)جس شے کو وہ لیتا ہے یا جس شے کو وہ دیتا ہے،سب اسی کی ہے۔ حتی کہ جو شے اللہ تعالی آپ کو دیتا ہے، آپ اس کے مالک نہیں ہوتے؛بلکہ وہ اللہ ہی کی ہوتی ہے۔ اسی لیے جو اشیا اللہ آپ کو دیتا ہے، وہ آپ کی ملکیت نہیں، بلکہ وہ اللہ کی ہیں۔ اس لیے ان میں آپ اسی طرح سے تصرف کر سکتے ہیں، جس طرح سے اللہ اجازت دے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی عطا کردہ اشیا پر ہماری ملکیت ناقص ملکیت ہےاور ان میں ہم تصرف مطلق نہیں کر سکتے۔اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:”جو شے اللہ لے لیتا ہے، وہ بھی اسی کی اور جو شے دے دیتا ہے، وہ بھی اسی کی ہے“۔ اگر وہ شے بھی اللہ ہی کی ہے، جسے وہ لے لیتا ہے، تو پھر ہمارا بے تاب ہونا کیسا ہے؟ ہم اس بات پر کیسے ناراض ہوتے ہیں کہ مالک سبحانہ و تعالی اپنی مملوکہ شے کو لے لے؟ یہ بات خلاف معقول بھی ہے اور خلاف منقول بھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے ہاں ہر شے کا ایک وقت مقررہے“۔ یعنی ہر شے کی اس کے ہاں ایک مقدار ہے۔"بأجل مسمى" یعنی معین(مدت)۔جب آپ کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ اللہ جوکچھ لیتایا جو کچھ دیتا ہے، سب اسی کا ہے اور یہ کہ اس کے ہاں ہر شے کاایک وقت مقرر ہے، تو آپ مطمئن ہو جاتے ہیں۔اس آخری جملے کامعنی یہ ہے کہ جس شے کا واقع ہونا معینہ وقت پر لکھ دیا گیا ہو،اس میں انسان تبدیلی نہیں کر سکتا،بایں طور کہ نہ تو اسے آگے کر سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ”لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ“ (يونس:49) ترجمہ:ہ ر امت کے لیے ایک معین وقت ہے۔جب ان کاوه معین وقت آپہنچتا ہے،تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ اگر ہر شے متعین ہے اور آگے پیچھے نہیں ہو سکتی،تو پھر بے صبری کرنے اور نالاں ہونےمیں کوئی فائدہ نہیں، کیوںکہ بے صبری کر کے اور نالاں ہو کر آپ جو شے مقدر ہو،اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔
اس پیغام لانے والے نے نبی ﷺ کی صاحب زادی تک وہ بات پہنچا دی،جسے پہنچانے کا آپ ﷺ نے حکم دیا تھا؛لیکن انھوں نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپﷺتشریف لائیں۔اس پر آپﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ جب ان کے پاس پہنچے،تو بچے کو آپ ﷺ کے پاس لایا گیا،اس حال میں کہ اس کا سانس اوپر نیچے ہو رہا تھا۔اس پر رسول اللہ ﷺ رو دیے اور آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ صبر نہ کرپانے کی وجہ سے روپڑے ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:”یہ تو رحمت ہے“ یعنی میں تقدیر پر بے صبرا ہوکر نہیں بلکہ بچے پر رحم کی وجہ سے رویا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتے ہیں، جو رحم دل ہوتے ہیں“۔ اس میں دلیل ہے کہ رحم دلانہ جذبات کے ساتھ کسی مصیبت زدہ پر از راہ رحمت رونا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3290

 
 
Hadith   261   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كالسورة من القرآن


Tema:

رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے، جس طرح قرآن مجيد كى سورت كى۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُعلمنا الاسْتِخَارَةَ في الأمور كلها كالسورة من القرآن، يقول: «إذا هَمَّ أحدُكم بالأمر، فلْيَرْكَعْ ركعتين من غير الفَرِيضَةِ، ثم لْيَقُلْ: اللهم إني أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وأَسْأَلُكَ من فَضلك العظيم، فإنك تَقْدِرُ ولا أَقْدِرُ، وتعلمُ ولا أعلمُ، وأنت عَلَّامُ الغُيُوبِ. اللهم إن كنتَ تعلم أن هذا الأمر خيرٌ لي في ديني ومَعَاشِي وعَاقِبَةِ أَمْرِي» أو قال: «عَاجِلِ أَمْرِي وآجِلِهِ، فاقْدُرْهُ لي ويَسِّرْهُ لي، ثم بَارِكْ لي فيه. وإن كنت تعلمُ أن هذا الأمر شرٌّ لي في ديني ومَعَاشِي وعَاقِبَةِ أَمْرِي» أو قال: «عَاجِلِ أَمْرِي وآجِلِهِ؛ فاصْرِفْهُ عَنِّي، واصْرِفْنِي عنه، واقْدُرْ لِيَ الخيرَ حيث كان، ثم أَرْضِنِي به» قال: «ويُسَمِّي حَاجَتَهُ».

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے، جس طرح قرآن مجيد كى سورت كى۔۔ آپ ﷺ فرماتے: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو دو رکعات (نفل) پڑھے۔ اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں تیرے علم کے واسطہ سے، تجھ سے قدرت مانگتا ہوں تیری قدرت کے واسطہ سے اور تیرا فضلِ عظیم چاہتا ہوں، کیوں کہ تو قادر مطلق ہے میرے اندر قدرت نہیں، تو علم والا ہے مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے؛ میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے -یا دعا میں یہ الفاظ کہے: اِس جہاں اور اُس جہاں میں بہتر ہے- تو اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے؛ میرے دین کے لیے ، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے -یا یہ الفاظ فرمائے: اِس جہاں اور اُس جہاں کے لئے برا ہے- تو اسے مجھ سے پھیر دے، مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے۔ اور فرمایا: (اس کے بعد) اپنی ضرورت کا بیان کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يحرص على تعليم صحابته كيفية صلاة الاستخارة، كحرصه على تعليمهم السورة من القرآن.
فأرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يصلي الإنسان ركعتين من غير صلاة الفريضة ثم بعد السلام يسأل الله أن يشرح صدره لخير الأمرين أو الأمور، فإن الله يعلم كيفيات الأمور وجزئياتها، إذ لا يحيط بخير الأمرين إلا العالم بذلك، وليس ذلك إلا لله، ويسأل من الله القدرة على خير الأمرين، ويسأله من فضله العظيم، فإنه يقدر على كل ممكن تعلقت به إرادته، والإنسان لا يقدر.
والله -عز وجل- يعلم كل شيء كلي وجزئي، والإنسان لا يعلم شيئا من ذلك إلا ما علمه الله؛ فإن الله لا يشذّ عن علمه من الغيوب شيء.
ثم يسأل ربه عز وجل إن كان يعلم أن هذا الأمر الذي عزم عليه –ويسميه- خير ولا يترتب عليه نقص دينيّ ولا دنيوي، أن يقدره له وييسره.
وإن كان يعلم أن هذا الأمر سيترتب عليه نقص دينيّ أو دنيوي، أن يصرفه عنه، ويصرف هذا الأمر عنه، وأن يقدر له الخير حيث كان ثم يجعله راضيا بقضاء الله وقدره به.
606;بی ﷺ اپنے صحابہ کو نمازِ استخارہ کی کیفیت سکھلانے کی اسی طرح حرص رکھتے تھے، جس طرح انھیں قرآن کی سورت کی تعلیم دینے کی حرص رکھتے تھے۔
نبی ﷺ نے بتایا کہ انسان فرض نمازوں کے علاوہ دو رکعات نماز ادا کرے، پھر سلام کے بعد اللہ سے دعا کرے کہ وہ (زیر ‏غور) دو معاملوں یا معاملات میں بہتر کی طرف اس کے سینے کو کھول دے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمام امور کی کیفیات و جزئیات کا علم رکھتا ہے۔ اسے یوں سمجھا جا   ‎
ئے کہ دونوں معاملوں میں بہتر کا احاطہ وہی کر سکتا ہے، جو اس سے واقف ہو اور ایسا اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں معاملوں میں سے جو اچھا ہو، اس کے کرنے کی طاقت مانگے اور اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرے؛ کیوں کہ وہ ان تمام ممکنہ امور کی طاقت رکھتا ہے، جو اس کی مشیئت کے مطابق ہوں، جب کہ انسان کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتا۔ اللہ عز و جل ہر کلی و جزئی چیز کو جانتا ہے اور انسان اس میں سے اتنا ہی جانتا ہے، جتنا اللہ نے اسے سکھایا ہو؛ کیوں کہ اللہ کے علم غیب کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔
پھر اپنے رب سے طلب کرے کہ اگر یہ کام (اور اس کا نام لے) جس کا اس نے اردہ کیا ہے، اس کے علم میں بہتر ہے اور اس کی وجہ سے کوئی دینی یا دنیوی نقصان مرتب نہیں ہوگا، تو اسے اس کے لیے مقدر و آسان کردے۔
اور اگر یہ کام اس کے علم کے مطابق کسی دینی یا دنیوی نقصان کا باعث ہو، تو اسے اس سے دور کردے اور اس کام کو اس سے دور کردے، اور بھلائی اس کا مقدر کردے، چاہے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر اسے اللہ کی قضا و قدر سے راضی کردے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3293

 
 
Hadith   262   الحديث
الأهمية: إنما الصبر عند الصدمة الأولى


Tema:

صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: مرَّ النَّبي - صلى الله عليه وسلم - بامرَأَة تَبكِي عِند قَبرٍ، فقال: «اتَّقِي الله واصْبِري» فقالت: إليك عَنِّي؛ فَإِنَّك لم تُصَب بِمُصِيبَتِي ولم تَعرِفه، فقِيل لها: إِنَّه النَّبِي - صلى الله عليه وسلم - فأتت باب النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم تجد عنده بوَّابِين، فقالت: لم أَعرِفكَ، فقال: «إِنَّما الصَّبرُ عِند الصَّدمَةِ الأُولَى».
وفي رواية: «تَبكِي على صبِّي لها».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ بولی آپ جائیں ۔ آپ پر تو وہ مصیبت آئی ہی نہیں جو مجھ پر پڑی ہے۔ اس نے آپ ﷺ کو پہچانا نہ تھا۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی ﷺ تھے تو وہ (گھبرا کر) نبی ﷺ کے دروازہ پر آئی۔ آپ ﷺ کے پاس اسے کوئی دربان نہ ملا۔ کہنے لگی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔(مجھے معاف کر دیجئے)۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:”صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’وہ اپنے بچے کی وفات پر رو رہی تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مر النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة وهي عند قبر صبي لها قد مات، وكانت تحبه حبًّا شديدًا، فلم تملك نفسها أن تخرج إلى قبره لتبكي عنده. فلما رآها النبي صلي الله عليه وسلم أمرها بتقوى الله والصبر.
فقالت: ابعد عني فإنك لم تصب بمثل مصيبتي.
ثم قيل لها: إن هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فندمت وجاءت إلى رسول الله، إلى بابه، وليس على الباب بوابون يمنعون الناس من الدخول عليه. فأخبرته وقالت: إنني لم أعرفك، فأخبرها النبي صلى الله عليه وسلم، أن الصبر الذي يثاب عليه الإنسان هو أن يصبر عند أول ما تصيبه المصيبة.
606;بی ﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو اپنے مر جانے والے بچے کی قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ اس سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی چنانچہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کی قبر پر آ کر رونے لگی۔ جب نبی ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ ﷺ نے اسے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی۔ وہ کہنے لگی: مجھ سے دور ہٹو، تمہیں تو وہ مصیبت نہیں پہنچی ہے جو مجھے لاحق ہوئی ہے۔
پھر جب اسے بتایا گیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ تھے تو وہ نادم ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ ﷺ کے دروازے پر آئی۔ دروازے پر لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے روکنے کے لیے کوئی دربان نہیں تھا۔ اس نے آپ ﷺ کو بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا (اس لیے یہ سب کہہ بیٹھی)۔ اس پر نبی ﷺ نے اسے بتایا کہ وہ صبر جس پر انسان کو ثواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس وقت صبر کرے جب اسے مصیبت ابھی ابھی پہنچی ہی ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3295

 
 
Hadith   263   الحديث
الأهمية: عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله له خير، وليس ذلك لأحد إلا للمؤمن: إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له، وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له


Tema:

مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔

عن صُهيب بن سِنان الرومي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «عجَبًا لِأَمر المُؤمِن إِنَّ أمرَه كُلَّه له خير، وليس ذلك لِأَحَد إِلَّا لِلمُؤمِن: إِنْ أَصَابَته سَرَّاء شكر فكان خيرا له، وإِنْ أَصَابته ضّرَّاء صَبَر فَكَان خيرا له».

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أظهر الرسول -عليه الصلاة والسلام- العَجَب على وجه الاستحسان لشأن المؤمن؛ لأنه في أحواله وتقلباته الدنيوية لا يخرج عن الخير والنجاح والفلاح، و هذا الخير ليس لأحد إلا المؤمن.
ثم أخبر -صلى الله عليه وسلم- أن المؤمن على كل حال قدَّره الله عليه على خير، إن أصابته الضراء صبر على أقدار الله، وانتظر الفرج من الله، واحتسب الأجر على الله؛ فكان ذلك خيرًا له.
وإن أصابته سراء من نعمة دينية؛ كالعلم والعمل الصالح، ونعمة دنيوية؛ كالمال والبنين والأهل شكر الله، وذلك بالقيام بطاعة الله -عز وجل-، فيشكر الله فيكون خيرا له.
585;سول اللہ ﷺ نے پسندیدگی کے انداز میں مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایا؛ کیوں کہ وہ اپنے تمام احوال اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیر و فلاح اور کامیابی ہی میں رہتا ہےاور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
پھر نبی ﷺ نے بتایا کہ اللہ تعالی نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر رکھا ہے۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کی تقدیر پر صبر کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔
اور اگر اسے کوئی خوش کن بات پیش آئے مثلا کوئی دینی نعمت کا حصول ہو، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملے، جیسے مال، اولاد نرینہ اور اہل و عیال، تو اس پر شکر گزار ہوتا ہے، بایں طور کہ اللہ عز و جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے، چنانچہ اللہ اس کی قدر کرتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3298

 
 
Hadith   264   الحديث
الأهمية: إنكم لتعملون أعمالا هي أدق في أعينكم من الشعر، كنا نعدها على عهد رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم من الموبقات


Tema:

تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک یعنی حقیر ہیں جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز کام شمار کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: «إنكم لتعملون أعمالا هي أَدَقُّ في أعينكم من الشَّعْرِ، كنا نَعُدُّهَا على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المُوبِقَاتِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں تصور کرتے) جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز امور تصور کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خاطب الصحابي الجليل أنس بن مالك رضي الله عنه جماعة من المتساهلين في الأعمال قائلا: إنكم تستهينون ببعض المعاصي لعدم نَظَرِكم إلى عظم المعصي بها، فهي عندكم صغيرة جدا، أما عند الصحابة فكانوا يعدونها من المهلكات لعظم من يعصونه، ولشدة خوفهم ومراقبتهم ومحاسبتهم لأنفسهم.
580;لیل القدر صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا جو اعمال میں سستی برتتے ہیں کہ تم بعض گناہوں کو چھوٹا سمجھتے ہو کیونکہ ان کے ذریعے جس ذات کی معصیت کی جاتی ہے اس کی عظمت کی طرف تمہاری نظر نہیں جاتی چنانچہ تمہارے نزدیک یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم انہیں ہلاک کر دینے والی اشیاء میں سے شمار کرتے تھے کیونکہ جس ذات کی معصیت ہوتی ہے اس کی عظمت سے وہ آگاہ تھے، اور ان میں بہت زیادہ خوف پایا جاتا تھا اور وہ اپنے آپ پر نظر رکھتے اور اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3300

 
 
Hadith   265   الحديث
الأهمية: قصة الغلام مع الملك والساحر والراهب


Tema:

لڑکے کی کہانی، بادشاہ، جادوگر اور راہب کے ساتھ

عن صهيب بن سنان الرومي -رضي الله عنه- مرفوعا: «كان ملك فيمَن كان قَبلَكم وكان له ساحِر فَلَمَّا كَبِرَ قال للمَلِكِ: إنِّي قد كَبِرْتُ فَابْعَثْ إلى غلامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْر؛ فبعث إليه غلامًا يُعَلِّمُهُ، وَكانَ في طرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ، فَقَعدَ إليه وسَمِعَ كَلامَهُ فَأعْجَبَهُ، وكان إذا أتَى السَّاحِرَ، مَرَّ بالرَّاهبِ وَقَعَدَ إليه، فَإذَا أَتَى الساحر ضَرَبَهُ، فَشَكَا ذلِكَ إِلَى الرَّاهِب، فَقَالَ: إِذَا خَشِيتَ الساحر فَقُل: حَبَسَنِي أَهلِي، وَإذَا خَشِيتَ أهلَكَ فَقُل: حَبَسَنِي السَّاحِرُ .
فَبَينَما هو عَلَى ذلِك إِذ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَد حَبَسَت النَّاسَ، فَقَال: اليومَ أعلَمُ السَّاحرُ أفضَلُ أم الرَّاهبُ أفضَل؟ فَأخَذَ حَجَرا، فَقَالَ: اللَّهُم إن كَانَ أمرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إليكَ مِن أمرِ السَّاحِرِ فَاقتُل هذه الدّابَّة حَتَّى يَمضِي النَّاسُ، فَرَمَاهَا فَقَتَلَها ومَضَى النَّاسُ، فَأتَى الرَّاهبَ فَأَخبَرَهُ. فَقَالَ لَهُ الرَّاهبُ: أَي بُنَيَّ أَنتَ اليومَ أفضَل منِّي قَد بَلَغَ مِن أَمرِكَ مَا أَرَى، وَإنَّكَ سَتُبْتَلَى، فَإن ابتُلِيتَ فَلاَ تَدُلَّ عَلَيَّ؛ وَكانَ الغُلامُ يُبرِىءُ الأكمَهَ وَالأَبرصَ، ويُداوي النَّاس من سَائِرِ الأَدوَاء، فَسَمِعَ جَليس لِلملِكِ كَانَ قَد عَمِيَ، فأتاه بَهَدَايا كَثيرَة، فَقَالَ: مَا ها هُنَا لَكَ أَجمعُ إن أنتَ شَفَيتَنِي، فقال: إنّي لا أشْفِي أحَدًا إِنَّمَا يَشفِي اللهُ تَعَالَى، فَإن آمَنتَ بالله تَعَالَى دَعَوتُ اللهَ فَشفَاكَ، فَآمَنَ بالله تَعَالَى فَشفَاهُ اللهُ تَعَالَى، فَأَتَى المَلِكَ فَجَلسَ إليهِ كَما كَانَ يَجلِسُ، فَقَالَ لَهُ المَلِكُ: مَن رَدّ عليكَ بَصَرَكَ؟ قَالَ: رَبِّي، قَالَ: وَلَكَ رَب غَيري؟ قَالَ: رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ، فَأَخَذَهُ فَلَم يَزَل يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الغُلامِ، فَجيء بالغُلاَمِ، فَقَالَ لَهُ المَلِك: أيْ بُنَيَّ، قد بَلَغَ مِن سِحرِك مَا تُبْرىء الأكمَهَ وَالأَبْرَصَ وتَفعل وتَفعل؟! فَقَالَ: إنِّي لا أَشفي أحَدًا، إِنَّمَا يَشفِي الله تَعَالَى. فَأَخَذَهُ فَلَم يَزَل يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهبِ؛ فَجِيء بالرَّاهبِ فَقيلَ لَهُ: ارجِع عن دينكَ، فَأَبى، فَدَعَا بِالمنشَار فَوُضِعَ المِنشارُ في مَفْرق رأسه، فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ثُمَّ جِيءَ بِجَليسِ المَلِكِ فقيل لَهُ: ارجِع عن دِينِك، فَأَبَى، فَوضِعَ المِنشَارُ في مَفْرِق رَأسِه، فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ثُمَّ جِيءَ بالغُلاَمِ فقيلَ لَهُ: ارجِع عَن دِينكَ، فَأَبَى، فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَر مِن أصحَابه، فَقَالَ: اذهبوا بِه إِلى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَاصعَدُوا بِهِ الجَبَل، فَإِذَا بَلَغتُم ذِرْوَتَهُ فَإِن رَجَعَ عَن دِينِهِ وَإلاَّ فَاطرَحُوهُ. فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الجَبَلَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أكْفنيهم بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بهِمُ الجَبلُ فَسَقَطُوا، وَجاءَ يَمشي إِلَى المَلِكِ، فَقَالَ لَهُ المَلِكُ: مَا فَعَلَ أصْحَابُكَ؟ فَقَالَ: كَفَانِيهمُ الله تَعَالَى، فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَر مِن أَصحَابِه فَقَالَ: اذهَبُوا بِهِ فاحمِلُوهُ في قُرْقُورٍ وتَوَسَّطُوا بِهِ البَحر، فَإن رَجعَ عَن دِينِه وإِلاَّ فَاقْذِفُوه. فَذَهَبُوا بِهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنيهم بمَا شِئتَ، فانكَفَأَت بِهمُ السَّفينةُ فَغَرِقُوا، وَجَاء يمشي إِلَى المَلِكِ. فقال له الملِك: ما فعلَ أصحابك؟ فَقَالَ: كَفَانيهمُ الله تَعَالَى. فَقَالَ لِلمَلِكِ: إنَّكَ لست بقاتلي حتى تفعل ما آمُرُكَ به. قَالَ: ما هو؟ قَالَ: تجمع الناس في صعيد واحد وتَصْلبني على جِذع، ثم خُذ سهمًا من كِنَانَتي، ثم ضَعِ السهم في كَبدِ القوس ثم قل: بسم الله رب الغلام، ثم ارْمِني، فإنَّكَ إِذَا فَعَلت ذلك قَتَلتَني، فَجَمَعَ النَّاسَ في صَعيد واحد، وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْع، ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا من كِنَانَتِهِ، ثم وضع السهم في كَبِدِ القوس، ثم قَالَ: بسم الله رب الغلام، ثم رَمَاهُ فَوقَعَ في صُدْغِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ في صُدْغِهِ فمات، فقال الناس: آمَنَّا بِرَبِّ الغُلامِ، فأتي المَلِكُ فقيلَ لَهُ: أَرَأَيْتَ مَا كنت تَحْذَرُ قَد والله نَزَلَ بكَ حَذَرُكَ، قد آمَنَ الناس. فأَمَرَ بِالأُخْدُودِ بأفْواهِ السِّكَكِ فَخُدَّتْ وأُضْرِمَ فيها النِّيرانُ وقال: من لم يَرْجِع عن دينه فأقحموه فيها، أو قيلَ لَهُ: اقتَحِم فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءت امرأة ومعَها صَبيٌّ لها، فتَقَاعَسَت أن تَقَع فيها، فقال لها الغُلام: يا أمه اصبِري فإنَّكِ َعلى الحقِّ».

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادو گر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں تو بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لیے جادوگر کے پاس بھیج دیا، جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں، پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا، تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا: میں آج جاننا چاہتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا ”الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں“۔ پھر لڑکے نے اس جانور کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ ہر ایک بیماری کا علاج بھی کر دیتا تھا۔ بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لیے ہوجائیں گے، اس لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے۔ پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔ پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا، بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ اس نے کہا کہ کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا : میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ چنانچہ اس لڑکے کو لایا گیا، تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، بلکہ شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔راہب پکڑ لیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پربادشاہ نے آرا منگوا کراس کے سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کروا دیا پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا، بادشاہ نے آرا منگوا کراس کے بھی سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چروا کر دو ٹکڑے کرادیا پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے، اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ: تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک چھوٹی کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے۔ لڑکے نے کہا کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے، پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اس لڑکے نے کہا کہ سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے وسط میں رکھو اور پھر کہو:اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھ کر کہا: اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا تو سب لوگوں نے کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! بادشاہ آیا اور اس سے کہا گیا کہ جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے گلیوں کے دہانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا کہ جو شخص اس (لڑکے) کے دین سے نہ پھرے، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں داخل ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجھکی (پیچھے ہٹی) تو بچے نے کہا کہ اے امی جان! صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه قصة عجيبة: وهي أن رجلاً من الملوك فيمن سبق كان عنده ساحر اتخذه الملك مستشارًا؛ من أجل أن يستخدمه في مصالحه ولو على حساب الدين؛ لأن هذا الملك لا يهتم إلا بما فيه مصلحته، وهو ملك مستبد قد عبَّد الناس لنفسه.
هذا الساحر لما كبُر قال للملك: إني قد كبرت فابعث إلى غلاما أعلمه السحر.
واختار الغلام ؛ لأن الغلام أقبل للتعليم؛ ولأن التعليم للغلام الشاب هو الذي يبقي، ولا ينسى.
ولكن الله تعالى قد أراد بهذا الغلام خيراً‍.
مرَّ هذا الغلام يوماً من الأيام براهب، فسمع منه فأعجبه كلامه؛ لأن هذا الراهب- يعني العابد- عابد لله عز وجل، لا يتكلم إلا بالخير، وقد يكون راهباً عالماً لكن تغلب عليه العبادة فسمي بما يغلب عليه من الرهبانية، فصار هذا الغلام إذا خرج من أهله جلس عند الراهب فتأخَّر على الساحر، فجعل الساحر يضربه، لماذا تتأخر؟ فشكا الغلام إلى الراهب وطلب أمرًا يتخلص به، قال: إذا ذهبت إلى الساحر وخشيت أن يعاقبك فقل: أخرني أهلي. وإذا ذهبت لأهلك وسألوك فقل: إن الساحر أخَّرني؛ حتى تنجو من هذا ومن هذا.
وكان الراهب -والله أعلم- أمره بذلك -مع أنه كذب- لعله رأى أن المصلحة في هذا تزيد على مفسدة الكذب، أو قصد التورية، والحبس المعنوي، ففعل، فصار الغلام يأتي إلى الراهب ويسمع منه، ثم يذهب إلى الساحر، فإذا أراد أن يعاقبه على تأخره قال: إن أهلي أخَّروني، وإذا رجع إلى أهله وتأخر عند الراهب قال: إنَّ الساحر أخَّرني.
فمرَّ ذات يوم حيوان عظيم، وهو أسد، قد حبس الناس عن التجاوز، فلا يستطيعون أن يتجاوزوه، فأراد هذا الغلام أن يختبر: هل الراهب خير له أم الساحر، فأخذ حجراً، ودعا الله سبحانه وتعالى إن كان أمر الراهب خير له أن يقتل هذا الحجر الدابة، فرمى بالحجر، فقتل الدابة، فمشى الناس.
فعرف الغلام أن أمر الراهب خير من أمر الساحر، فأخبر الراهب بما جرى فقال له الراهب: أنت اليوم خير مني، قد بلغ من أمرك ما أرى وإنك ستبتلي فإن ابتليت فلا تدل علي.
وكان الغلام يبرئ الأكمه والأبرص، ويداوي الناس من سائر الأدواء. فسمع جليس للملك كان قد أصابه العمى، فأتاه بهدايا كثيرة فقال: ما هاهنا لك أجمع إن أنت شفيتني فقال: إني لا أشفي أحداً، إنما يشفي الله تعالى، فإن آمنت بالله دعوتُ الله فشفاك، فآمن بالله  تعالى فشفاه الله، ثم جئ بالرجل الأعمى الذي كان جليساً عند الملك وآمن بالله، وكفر بالملك، فدعي أن يرجع عن دينه فأبى، وهذا يدل على أن الإنسان عليه أن يصبر.
فجيء بالراهب فقيل له: ارجع عن دينك فأبى فدعا بالمنشار فوضع المنشار في مفرق رأسه فشقه به حتى وقع شقاه، ثم جيء بالغلام فقيل له: ارجع عن دينك فأبى، فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به إلى جبل كذا وكذا فاصعدوا به الجبل، فإذا بلغتم أعلاه  فإن رجع عن دينه وإلا فاطرحوه فذهبوا به فصعدوا به الجبل، فقال: اللهم اكفينهم بما شئت، فاهتز بهم الجبل فسقطوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل بك بأصحابك؟ فقال: كفانيهم الله تعالى، فدفعه إلى نفر من اصحابه فقال: اذهبوا به فاحملوه في سفينة وتوسطوا به البحر، فإن رجع عن دينه وإلا فاقذفوه، فذهبوا به فقال: اللهم اكفينهم بما شئت، فانقلبت بهم السفينة فغرقوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل بأصحابك؟ فقال: كفانيهم الله تعالى، فقال للملك: إنك لن تستطيع قتلي حتى تفعل ما آمرك به، قال: ما هو؟ قال: تجمع الناس في مكان واحد وتصلبني على جذع، ثم خذ سهما من وعائي الذي أضع فيه السهام، ثم ضع السهم في وسط القوس، ثم قل: بسم الله رب الغلام، ثم ارمني، فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني. فجمع الناس في صعيد واحد، وصلبه على جذع، ثم أخذ سهمًا من وعائه الذي يضع فيها السهام، ثم وضع السهم في وسط القوس، ثم قال: بسم الله رب الغلام، ثم رماه فوقع السهم في صدغه، فوضع يده في صدغه فمات.
فقال الناس: آمنا برب الغلام، فأتى الملك فقيل له: أرأيت ما كنت تحذر؟ قد والله نزل بك ما كنت تحذر، قد آمن الناس. فأمر بالأخدود بأبواب الطرق فَشُقَّت، وأُوقِدَت فيها النيران وقال: من لم يرجع عن دينه فاقحِمُوه فيها، أو قيل له: اقتحم، ففعلوا، حتى جاءت امرأة ومعها صبي لها، فتأخرت أن تقع فيها رحمة بصبيها، فقال لها الصبي: يا أماه اصبري فإنك على الحق.
575;س حدیث میں ایک عجیب وغریب قصّے کا بیان ہے اور وہ یہ کہ سابقہ زمانہ میں ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا، بادشاہ نے اس جادوگر کو اپنا خاص مشیر بنا رکھا تھا تاکہ اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرے گرچہ وہ دین کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ذاتی مقاصد کا خاص دھیان رکھتا تھا اور وہ ظالم بادشاہ تھا جو لوگوں کو اپنی عبادت کے لیے بھی مجبور کرتا تھا۔ یہ جادوگر جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں۔ جادوگر نے لڑکے کا انتخاب کیا کیونکہ لڑکا تعلیم حاصل کرنے اہل اور زیادہ مناسب ہوتا ہے اور وہ جب کوئی چیز سیکھتا ہے تو جلدی نہیں بھولتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کے ساتھ اچھائی کا ارادہ کیا، چنانچہ اس لڑکے کا گزر ایک دن ایک راہب کے پاس سے ہوا اور اس نے اس کی باتیں سنیں جو اس کو پسند آئیں، کیونکہ یہ راہب یعنی عبادت گزار اللہ کی عبادت کرتا اور صرف اچھی باتیں بولتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی عبادت گزار عالم ہو لیکن اس پر رہبانیت کا غلبہ تھا، اسی لیے اس کا نام راہب پڑا۔ چنانچہ یہ لڑکا جب گھر سے نکلتا اور راہب کے پاس بیٹھتا تو جادوگر کے پاس دیر سے پہنچتا تو جادوگر اس لڑکے کو مارتا کہ تو دیر سے کیوں آتا ہے؟ لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی اور مار سے بچنے کا نسخہ دریافت کیا، راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر کے پاس جائے اور مار کا ڈر ہو تو کہہ دیا کرنا کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اورجب تو گھر والوں کے پاس جائے اور تاخیر کی وجہ پوچھیں تو کہہ دینا کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا، اس طرح تو دونوں کی ڈانٹ سے محفوظ ہوجائے گا ـــــــ اللہ ہی بہتر جانے ــــــــ راہب نے اس لڑکے کو ایسا کرنے کے لیے کہا جب کہ وہ جھوٹ تھا، شاید اس نے یہ سوچا ہوگا کہ اس میں جو مصلحت پوشیدہ ہے وہ جھوٹ کے نقصان پر غالب ہے، یا پھر اس کا ارادہ توریہ اور معنوی طور پر روکنے کا رہا ہے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور اس قابل ہوگیا کہ وہ راہب کے پاس آتا اور اس کی باتیں سنتا اور پھر جادوگر کے پاس جاتا، جب جادوگر اپنے پاس دیر سے آنے پر اس کو سزا دیتا تو کہتا کہ میرے گھر والوں نے مجھے روک لیا تھا اور جب گھر لوٹتا اور راہب کے پاس دیر ہوجاتی تو کہتا ہے کہ جادوگر نے روک لیا تھا۔
ایک دن ایک بہٹ بڑا جانور شیر گزرا اور اس نے لوگوں کا راستہ روک لیا، لڑکا اس طرف آیا تو اس نے کہا میں آج آزمانا چاہوں گا کہ جادوگر میرے لیے افضل ہے یا راہب بہترہے، اورپھر ایک پتھر لیا اور کہنے لگا: اے اللہ! اگر راہب کا معاملہ میرے لیے بہتر ہے تو اس پتھر سے یہ جانور مرجائے، پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مرگیا اور لوگ گزرنے لگے۔
اور لڑکے نے جان لیا کہ راہب کا معاملہ جادوگر کے بالمقابل اس کے حق میں بہتر ہے۔ پھر لڑکے نے راہب کو اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: آج تو مجھ سے افضل ہے، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا،اور اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔
(اس لڑکے کا حال یہ تھا کہ) وہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کی ہر بیماری کا علاج بھی کردیتا تھا۔ بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفائف لے کراس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحائف جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ تمہارے لیے ہوجائیں گے، اس لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں شفا دے دے، پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرمادی۔پھر اس اندھے آدمی کو لایا گیا جوکہ بادشاہ کا ہم نشین تھا، وہ اللہ پر ایمان لے آیا اور بادشاہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، بادشاہ نے اس سے کہا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائے لیکن لڑکے نے انکار کردیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ (مشکل حالات میں) انسان کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ پھر راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھرجا، راہب نے انکار کردیا۔ اس پر بادشاہ نے آرا منگوا کر اس کے سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چروا کر دو ٹکڑے کروادیا۔ پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا، وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھرجا۔ اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا: اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ، اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کردے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے دھکیل دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو میرے لیے اُن کے بالمقابل کافی ہے، جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے۔ اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گرگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچالیا ہے۔پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائےتو خیر، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے، لڑکے نے کہا کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے، چنانچہ وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کے پاس پہنچا۔بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مارے سکے گا جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے، بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اس لڑکے نے کہا کہ سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکالو اور اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھو اور پھر کہو: اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو! چنانچہ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکادیا، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھ کر کہا کہ اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا، تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا، (یہ دیکھ کر) سب لوگوں نے کہا کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پرایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ آیا اور اس سے کہا گیا کہ: جس سے ڈر رہے تھے وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ چنانچہ بادشاہ نے راستوں کے دروازوں پر خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔ پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلادی گئی، بادشاہ نے کہا: جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے) نہ پھرے اسے خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں داخل ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کی گود میں اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت (بچے کی وجہ سے) آگ میں کودنے سے پیچھے ہٹی تو بچے نے کہا کہ: اے امی جان صبر کر! اس لیے کہ تو حق پر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3303

 
 
Hadith   266   الحديث
الأهمية: إنكم ستلقون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض


Tema:

میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔

عن أسيد بن حضير وأنس بن مالك -رضي الله عنهما- أنَّ رجُلاً من الأنصار، قال: يا رسول الله، ألاَ تَستَعمِلُنِي كما استَعمَلت فُلانًا، فقال: «إِنَّكُم سَتَلقَون بَعدِي أَثَرَة فَاصبِرُوا حَتَّى تَلقَونِي على الحَوض».

اسید بن حضیر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں شخص کی طرح مجھے بھی آپ عامل بنادیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل ٌ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وطلب منه أن يجعله عاملاً على منصب من المناصب كبقية الذين ولاهم، فإنّه أخبره النبي -عليه  السلام- بأمر وهو أنه عليه وعلى أصحابه أن يصبروا على ما يلقونه من ظلم وجور في المستقبل من حكام ينفردون بالمال والخيرات دون رعيتهم، فأمرهم بالصبر حتى يردوا عليه حوضه -عليه السلام-.
575;یک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ ﷺ اسے بھی کسی حکومتی منصب پر فائز کر دیں، جس طرح آپ ﷺ نے دیگر لوگوں کو حکومتی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں بتایا کہ وہ شخص اور آپ ﷺ کے صحابہ مستقبل میں حکام کی طرف سے پیش آنے والے ظلم و جور پر صبر کا مظاہرہ کریں، جو اپنی رعیت کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا مال و دولت پر قابض ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ آپ ﷺ نے انھیں صبر سے کام لینے کی تلقین کی، یہاں تک کہ وہ حوض پر آپ ﷺ سے آ ملیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3305

 
 
Hadith   267   الحديث
الأهمية: ليس على أبيك كرب بعد اليوم


Tema:

آج کے بعد پھر تمھارے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں لاحق ہوگی!

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: لمَّا ثَقُل النبي -صلى الله عليه وسلم- جَعَل يَتَغَشَّاه الكَرب، فقالت فاطمة -رضي الله عنها-: واكَربَ أَبَتَاه، فقال: «لَيسَ عَلَى أَبِيك كَرب بعد اليوم». فلما مات، قالت: يا أَبَتَاه، أجاب ربًّا دَعَاه! يا أبَتَاه، جَنَّة الفِردَوس مَأوَاه! يا أبتاه، إلى جبريل نَنعَاه! فلمَّا دُفِن قالت فاطمة -رضي الله عنها-: أَطَابَت أَنفُسُكُم أَن تَحثُوا عَلَى رسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- التُّراب؟!

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کے مرض کی شدت میں اضافہ ہوگیا، تو آپ ﷺ پر (سکرات) کی سختی طاری ہونے لگی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہاے میرے ابا جان کو کیسی بے چینی لاحق ہو گئی ہے! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج کے بعد پھر تمھارے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں لاحق گی!“۔ پھر جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہائے ابا جان! آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا، ہائے اباجان! آپ اپنے مستقر یعنی جنت الفردوس میں چلے گئے، ہائے ابا جان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر دیتے ہیں! جب آپ ﷺ کی تدفین ہو چکی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم لوگوں نے آخر یہ کیسے گوراہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دو ؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُصوِّر هذا الحديث صبر نبينا -صلى الله عليه وسلم- على سكرات الموت، فلمَّا ثقل في مرضه الذي مات فيه جعل يغشى عليه من الكرب من شدة ما يصيبه؛ لأنه -عليه الصلاة والسلام- يتشدد عليه الألم  والمرض، وهذا لحكمة بالغة: حتى ينال ما عند الله من الدرجات العلى جزاء صبره، فإذا غشيه الكرب تقول فاطمة -رضي الله عنها-: "وأكرب أبتاه" تتوجع له من كربه، لأنها امرأة، والمرأة لا تطيق الصبر.
فقال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "لا كرب على أبيك بعد اليوم"؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- لما انتقل من الدنيا انتقل إلى الرفيق الأعلى، كما كان -صلى الله عليه وسلم -وهو يغشاه الموت- يقول "اللهم في الرفيق الأعلى، اللهم في الرفيق الأعلى وينظر إلى سقف البيت -صلى الله عليه وسلم-".
توفي الرسول -عليه الصلاة والسلام-، فجعلت -رضي الله عنها- تندبه، لكنه ندب خفيف، لا يدل على التسخط من قضاء الله وقدره.
وقولها "أجاب ربا دعاه"؛ لأن الله تعالى هو الذي بيده ملكوت كل شيء، وآجال الخلق بيده.
فأجاب داعي الله، وهو أنه -صلى الله عليه وسلم- إذا توفي صار كغيره من المؤمنين، يصعد بروحه حتى توقف بين يدي الله سبحانه فوق السماء السابعة.
وقولها: "وابتاه جنة الفردوس مأواه" -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنه -عليه الصلاة والسلام- أعلى الخلق منزلة في الجنة، كما قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "اسألوا الله لي الوسيلة؛ فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو"، ولا شك أن النبي -صلى الله عليه وسلم- مأواه جنة الفردوس، وجنة الفردوس هي أعلي درجات الجنة، وسقفها الذي فوقها عرش الرب جل جلاله، والنبي -عليه الصلاة والسلام- في أعلى الدرجات منها.
قولها: "يا أبتاه إلى جبريل ننعاه" وقالت: إننا نخبر بموته جبريل لأن جبريل هو الذي كان يأتيه ويدارسه بالوحي زمن حياته، والوحي مرتبط بحياة النبي -عليه الصلاة والسلام-.
ثمَّ لمَّا حُمِل ودفِن، قالت -رضي الله عنها-: "أطابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- التراب؟" يعني من شدة حزنها عليه، وحزنها وألمها على فِراق والدها، ومعرفتها بأن الصحابة -رضي الله عنهم- قد ملأ الله قلوبهم محبة الرسول -عليه الصلاة والسلام- سألتهم هذا السؤال، لكن الله سبحانه هو الذي له الحكم، وإليه المرجع، وكما قال الله -تعالى- في كتابة: (إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ).
740;ہ حدیث سکرات الموت میں ہمارے نبی ﷺ کے صبر کی منظر کشی کرتی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا مرض شدت اختیار کر گیا، تو تکلیف کی شدت سے آپ ﷺ پر غشی طاری ہونے لگی۔ آپ ﷺ شدید تکلیف اور مرض سے دو چار تھے۔ اس میں ایک بڑی حکمت بھی تھی؛ حکمت یہ تھی کہ آپ کو صبر کے عوض میں اللہ تعالی کے پاس اونچے درجات حاصل ہوں۔ جب آپ پر بے چینی طاری ہوتی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتیں: ”ہاے میرے ابا جان کو کیسی تکلیف لاحق ہو گئ ہے! انہیں آپ ﷺ کی کرب وتکلیف دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا، کیوں کہ وہ ایک عورت تھیں اور عورت میں صبر کی طاقت نہیں ہوتی۔
اس پرنبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”آج کے بعد پھر تمہارے ابا جان کو کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوگی!“۔ کیوں کہ آپ ﷺ دنیا سے رفیق اعلی کے پاس منتقل ہو گئے۔ جیسا کہ بوقت وفات آپ ﷺ فرما رہے تھے: ”اللهم في الرفيق الأعلى، اللهم في الرفيق الأعلى“۔
ترجمہ: اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا دے، اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا دے۔
یہ الفاظ کہتے ہوۓ آپ ﷺ گھر کی چھت کی طرف دیکھ رہےتھے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رو رو کر آپ کے کچھ احوال بیان کرنے لگیں۔ تاہم اس کی نوعیت بہت معمولی تھی اور اس میں اللہ کی قضا و قدر پر ناراضگی کا اظہا ر بھی نہیں تھا۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا“۔ کیوں کہ ہر شے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمام مخلوق کے اوقاتِ مرگ بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اللہ کے بلاوے پر لبیک کہا۔ دراصل آپ ﷺ کی جب وفات ہوگئی تو آپ دیگر ایمان والوں کی طرح ہو گئے۔ آپ ﷺ کی روح مبارک بھی اوپراٹھتی گئی یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر اللہ سبحانہ و تعالی کے حضور جا کر رک گئی۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”ہائے اباجان! آپ اپنے مستقر یعنی جنت الفردوس میں چلے گئے“ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا اس لیے کہا، کیوں کہ جنت میں آپ ﷺ کا مرتبہ سب مخلوق سے اعلی ہو گا، جیسا کہ نبی ﷺ نےفرمایا: ”اللہ تعالی سے میرے لیے وسیلہ مانگو۔ یہ جنت میں ایک ایسا مرتبہ ہے، جس کا سزاوار اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی بندہ ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ جنت الفردوس جنت کے درجات میں سب سے اعلی درجہ ہے، جس کے اوپر موجود چھت رب تعالی شانہ کا عرش ہے۔ نبی ﷺ جنت الفردوس کے بھی سب سے اعلی درجے میں ہوں گے۔
”ہائے ابا جان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر دیتے ہیں“۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم آپ ﷺ کی وفات کی خبر جبریل علیہ السلام کو دیتے ہیں؛ کیوں کہ یہ جبریل علیہ السلام ہی تھے، جو آپ ﷺ کے پاس آتے اور آپ ﷺ کی حیات میں آپ ﷺ کے ساتھ وحی کا مذاکرہ کرتے تھے اور وحی آپ کی حیات کے ساتھ مربوط ہے۔
جب آپ ﷺ کو لے جا کر دفن کر دیا گیا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ”تم لوگوں نے آخر یہ کیسے گوراہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دو ؟“ انھوں نے ان سے یہ سوال اس لیے کیا، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کی وفات پر شدید غم زدہ اور آپ ﷺ کی جدائی کے دکھ اور درد میں مبتلا تھیں اور جانتی تھیں کہ اللہ تعالی نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں کو اپنے رسول کی محبت سے بھر رکھا ہے۔ تاہم فیصلہ کرنے کا اختیار تو اللہ کے پاس ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ: ”إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ“ (الزمر:30)
ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3306

 
 
Hadith   268   الحديث
الأهمية: أمر بلال أن يشفع الأذان, ويوتر الإقامة


Tema:

بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کے کلمات کو دو دو دفعہ اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أُمِر بِلاَل أن يَشفَع الأَذَان، ويُوتِر الإِقَامَة».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کےکلمات کو دو دو دفعہ اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤذنه بلالا -رضي الله عنه- أن يشفع الآذان لأنه لإعلام الغائبين، فيأتي بألفاظه مثنى، وهذا عدا (التكبير) في أوله، فقد ثبت تربيعه و(كلمة التوحيد) في آخره، فقد ثبت إفرادها،كما أمر بلالا أيضا أن يوتر الإقامة، لأنها لتنبيه الحاضرين، وذلك بأن يأتي بجملها مرة مرة، وهذا عدا (التكبير)، و"قد قامت الصلاة" فقد ثبت تثنيتهما فيها.
606;بی ﷺ نے اپنے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کے کلمات کو دوہرا کر کہیں، کیوںکہ یہ غیر موجود لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے ہوتی ہے، اس لیے اس کے الفاظ کو دو دو دفعہ کہیں۔ ماسوا شروع والی تکبیر کے؛ کیوں کہ اسے چار دفعہ کہنا ثابت ہے اور سوائے آخر میں بولےجانے والے کلمہ توحید کے؛ کیوں کہ اسے ایک دفعہ کہنا ثابت ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اقامت کو اکہرا کہیں؛ کیوں کہ یہ موجود لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہوتی ہے، بایں طور کہ اس کے جملوں کو ایک ایک دفعہ کہیں، سوائے تکبیر اور "قد قامت الصلوۃ" کے؛ کیوں کہ انھیں دو دو دفعہ کہنا ثابت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3307

 
 
Hadith   269   الحديث
الأهمية: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ يَقْدَمُ مكَّة إذا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ -أَول ما يَطُوفُ- يَخُبُّ ثَلاثَةَ أَشْوَاطٍ


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لاتے، تو پہلے طواف شروع کرتے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: « تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِي حَجَّةِ الوَدَاع بالعُمرَة إلى الحج وأهدَى، فَسَاقَ مَعَهُ الهَدْيَ مِن ذِي الحُلَيفَة، وَبَدَأَ رَسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَهَلَّ بالعمرة, ثُمَّ أَهَلَّ بالحج, فَتَمَتَّعَ النَّاس مع رسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأَهَلَّ بالعمرة إلَى الحج, فَكَان مِن النَّاس مَنْ أَهْدَى, فَسَاقَ الهَدْيَ مِن ذي الحُلَيفَة، وَمِنهُم مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رسول اللَّه -صلى الله عليه وسلم- قَالَ للنَّاس: مَنْ كَانَ مِنكُم أَهْدَى, فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ مِن شَيء حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَن لَم يَكُن أَهْدَى فَلْيَطُفْ بالبَيت وَبالصَّفَا وَالمَروَة, وَلْيُقَصِّر وَلْيَحْلِل, ثُمَّ لِيُهِلَّ بالحج وليُهدِ, فَمَن لم يجد هَدْياً فَلْيَصُم ثَلاثَةَ أَيَّام فِي الحج وَسَبعة إذَا رَجَعَ إلى أَهلِهِ فَطَافَ رسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، وَاستَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ, ثُمَّ خَبَّ ثَلاثَةَ أَطْوَافٍ مِنْ السَّبْعِ, وَمَشَى أَربَعَة, وَرَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بالبيت عِند المَقَام رَكعَتَين, ثُمَّ انصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا, وطاف بِالصَّفَا وَالمَروَة سَبعَةَ أَطوَاف, ثُمَّ لَم يَحلِل مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ منه حَتَّى قَضَى حَجَّهُ, وَنَحَرَ هَدْيَهُ يوم النَّحرِ، وَأَفَاضَ فَطَافَ بالبيت, ثُمَّ حَلَّ مِن كُلِّ شَيء حَرُمَ مِنهُ, وَفَعَلَ مِثل مَا فَعَلَ رَسول اللَّه -صلى الله عليه وسلم-: مَن أَهدَى وَسَاقَ الهَديَ مِن النَّاسِ».
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ يَقْدَمُ مكَّة إذا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ -أَول ما يَطُوفُ- يَخُبُّ ثَلاثَةَ أَشْوَاطٍ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا اور ذوالحلیفہ کے مقام سے ہدی (قربانی) کا جانور ساتھ لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پڑھا پھر اس کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔ بعض لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، چنانچہ وہ ذو الحلیفہ سے انہیں لیکر چلے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ (مکہ) پہنچ گئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے، اس کے لئے کوئی حرام چیزحلال نہیں ہے جب تک کہ وہ حج کو پورا نہ کرلے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہے تو وہ (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے اوربال کتروا کر (عمرہ کا) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کر لے) اور اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور قربانی کرے۔ جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو وہ ایام حج میں تین روزے رکھے اورسات روزے تب رکھےجب وہ اپنے اہل و عیال میں واپس پہنچ جائے۔ بہر کیف رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور سب سے پہلےحجر اسود کو استلام کیا۔ پھر طواف کے سات چکروں میں سے تین چکروں میں رمل فرمایا (یعنی تیز رفتاری سے چلے) اور باقی چار چکروں میں اپنی معمول حالت میں چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے لوٹ کر صفاء پر آئے اور صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ پھر ان چیزوں میں سے کسی کو اپنے اوپر حلال نہیں فرمایا جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ ﷺاپنے حج سے فارغ ہوگئے اور قربانی کے دن اپنی قربانی ذبح کی اور پھر مکہ واپس لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا اور ان چیزوں کو جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا حلال کرلیا اور لوگوں میں سے جو لوگ اپنے ساتھ قربانی لائے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا۔
(ایک اور روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تو طواف شروع کرتے وقت پہلے حجر اسود کو استلام کیا اور (طواف کے سات چکروں میں سے) تین چکروں میں رمل کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ذي الحليفة "ميقات أهل المدينة" ليحج حجته التي ودع فيها البيت ومناسك الحج، وودع فيها الناس، وبلغهم برسالته وأشهدهم على ذلك، أحرم -صلى الله عليه وسلم- بالعمرة والحج، فكان قارنا، والقران تمتع، فتمتع الناس مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فبعضهم أحرم بالنسكين جميعا، وبعضهم أحرم بالعمرة، ناويا الحج بعد فراغه منها، وبعضهم أفرد الحج فقط، فقد خيرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بين الأنساك الثلاثة، وساق -صلى الله عليه وسلم- وبعض أصحابه الهدي معهم من ذي الحليفة، وبعضهم لم يسقه، فلما اقتربوا من مكة حَضَّ من لم يسق الهدي من المفردين والقارنين إلى فسخ الحج وجعلها عمرة، فلما طافوا وسعوا، أكد عليهم أن يقصروا من شعورهم، ويتحللوا من عمرتهم ثم يحرموا بالحج ويهدوا، لإتيانهم بنسكين بسفر واحد، فمن لم يجد الهدي، فعليه صيام عشرة أيام، ثلاثة في أيام الحج، يدخل وقتها بإحرامه بالعمرة، وسبعة إذا رجع إلى أهله.
فلما قدم النبي -صلى الله عليه وسلم- مكة استلم الركن، وطاف سبعة، خب ثلاثة، لكونه الطواف الذي بعد القدوم، ومشى أربعة، ثم صلى ركعتين عند مقام إبراهيم، ثم أتى إلى الصفا، فطاف بينه وبين المروة سبعا، يسعى بين العلمين، ويمشي فيما عداهما، ثم لم يحل من إحرامه حتى قضى حجه، ونحر هديه يوم النحر، فلمَّا خلص من حجه ورمى جمرة العقبة، ونحر هديه وحلق رأسه يوم النحر، وهذا هو التحلل الأول، أفاض في ضحوته إلى البيت، فطاف به، ثم حل من كل شيء حرم عليه حتى النساء، وفعل مثله من ساق الهدي من أصحابه.
606;بی ﷺ جب اپنے اس حج کے لیے اہل مدینہ کے میقات ذو الحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، جس میں آپ ﷺ نے بیت اللہ، مناسکِ حج اور لوگوں کو الوداع کہا، لوگوں تک اپنا پیغام رسالت پہنچایا اور اس پر انھیں گواہ بنایا، تو آپ ﷺ نے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا۔ آپ ﷺ حج قران کر رہے تھے۔ حج قران تمتع کہلاتا ہے۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے تو عمرہ و حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا اور بعض نے صرف عمرہ کے لیےاحرام باندھا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دل میں حج کی نیت رکھی، جب کہ کچھ لوگوں نے اکیلے حج کی نیت سے احرام باندھا۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو ان تینوں صورتوں میں اختیار دیا تھاکہ وہ جیسے چاہیں، کر لیں۔ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے کچھ صحابہ ذو الحلیفہ ہی سے اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے کر چلے تھے، جب کہ بعض لوگوں نے ہدی کے جانور اپنے ساتھ نہیں لیے تھے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور انھوں نے یا تو اکیلے حج کی نیت کر رکھی تھی یا پھر عمرہ و حج دونوں کی نیت کے ساتھ احرام باندھا تھا، ترغیب دلائی کہ وہ حج کی نیت کو فسخ کرتے ہوئے اسے عمرہ بنا دیں۔ جب انھوں نے طواف اور سعی کر لی، تو آپ ﷺ نے انھیں تاکید فرمائی کہ اپنے بال کتروا کر عمرہ کا احرام کھول دیں اور پھر حج کے لیے احرام باندھیں اور قربانی دیں؛ کیوںکہ انھوں نے ایک ہی سفر میں دو عبادتیں کی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جسے قربانی کا جانور دستیاب نہ ہو، وہ دس دن روزے رکھے۔ تین دن ایام حج میں۔ ان کا وقت تب سے شروع ہو جاتا ہے، جب آدمی عمرہ کے لیے احرام باندھتا ہے اور سات اس وقت رکھے، جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹ آئے۔
نبی ﷺ جب مکہ تشریف لائے، تو حجر اسود کو استلام کیا اور کعبہ کےگرد سات چکر لگائے۔ تین میں رمل کیا؛ کیوںکہ یہ مکہ آنے کے فورا بعد کیا جانے والا طواف تھا اور چار چکروں کو چل کر پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر صفا پر آئے اور اس کے اور مروہ کے مابین سات چکر لگائے؛ دونوں علامتوں کے درمیان آپ ﷺ دوڑتے اور باقی مسافت چل کر طے کرتے۔آپ ﷺ نے تب تک اپنا احرام نہیں کھولا، جب تک اپنا حج پورا کر کے یوم النحر میں قربانی ذبح نہیں کرلیا۔ جب آپ ﷺ اپنے حج، جمرہ عقبہ کی رمی، یوم النحر کو قربانی ذبح کرکے اور اپنے سر کو مونڈ کر فارغ ہو چکے،جسے تحلل اول کہا جاتا ہے، تو اس دن صبح کو بیت اللہ کی طرف لوٹ گئے اور اس کا طواف (یعنی طواف افاضہ) کیا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے لیے ہر اس شے کو حلال کر لیا، جس سے آپ ﷺ (احرام کی وجہ سے) اجتناب کر رہے تھے، حتی کہ بیویوں سے مباشرت بھی۔ آپ ﷺ کے جو صحابہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے تھے، انھوں نے بھی ویسے ہی کیا، جیسے آپ ﷺ نے کیا ۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3309

 
 
Hadith   270   الحديث
الأهمية: وضعت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- وضوء الجنابة، فأكفأ بيمينه على يساره مرتين -أو ثلاثا- ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔

عن ميمونة بنت الحارث -رضي الله عنها- قالت: "وَضَعتُ لِرسولِ الله -صلى الله عليه وسلم- وَضُوءَ الجَنَابَة, فَأَكفَأ بِيَمِينِهِ على يساره مرتين -أو ثلاثا- ثم غَسَل فَرجَه, ثُمَّ ضَرَب يَدَهُ بالأرضِ أو الحائِطِ مرتين -أو ثلاثا- ثم تَمَضْمَضَ واسْتَنْشَقَ, وَغَسَلَ وَجهَه وذِرَاعَيه, ثُمَّ أَفَاضَ على رَأسِه الماء, ثم غَسَل جَسَدَه, ثُمَّ تَنَحَّى, فَغَسَل رِجلَيه, فَأَتَيتُه بِخِرقَة فلم يُرِدْهَا, فَجَعَل يَنفُضُ الماء بِيَده".

میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازؤوں کو دھویا، پھر سر پر پانی بہایا اور اپنے سارے جسم کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ میں آپ ﷺ کے پاس کپڑا لائی، لیکن آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث تبين أم المؤمنين ميمونة -رضي الله عنها- بنت الحارث كيفية من كيفيات غسل النبي -صلى الله عليه وسلم- من الجنابة حيث وضعت له في المكان المعد لغسله ماء ليغتسل به، فصب بيده اليمنى على اليسرى فغسلهما مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه لتنظيفه مما علق به من أثر الجنابة، ثم ضرب الأرض أو الحائط بيده ودلكها مرتين أو ثلاثا، ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض الماء على رأسه، ثم غسل بقية جسده، ثم تحول من مكانه فغسل قدميه في مكان ثان حيث لم يغسلهما من قبل، ثم أتته بخرقة ليتنشف بها، فلم يأخذها وجعل يسلت الماء عن جسده بيده.
575;س حدیث میں ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے غسلِ جنابت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ کو بیان کر رہی ہیں کہ انھوں نے غسل کے لیے مخصوص جگہ پر آپ ﷺ کے غسل کرنے کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دو یا تین دفعہ دھویا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی شرم گاہ کو دھویا، تاکہ اس کے ساتھ لگے آثار جنابت صاف ہو جائیں۔ پھر آپ ﷺ نے زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ مارا اور اسے دو یا تین دفعہ رگڑا۔ پھر مسح فرمایا اور ناک میں پانی ڈالا او ر اپنے چہرے اور دونوں بازؤوں کو دھویا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر پانی ڈالا اور بقیہ جسم کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دوسری جگہ پر آکر اپنے دونوں پاؤں کودھویا؛ کیوںکہ انھیں آپ ﷺ نے پہلے نہیں دھویا تھا۔ پھرمیمونہ رضی اللہ عنہا پانی پونچھنے کے لیے آپ ﷺ کے پاس ایک کپڑا لائیں، لیکن آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور اپنے ہاتھ سے ہی اپنے جسم سے پانی کو صاف کرنےلگ گئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3310

 
 
Hadith   271   الحديث
الأهمية: يا أبا ذر، إني أراك ضعيفًا، وإني أحب لك ما أحب لنفسي، لا تأمرن على اثنين، ولا تولين مال يتيم


Tema:

اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا۔

عن أبي ذر -رضي الله عنه- قال: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، لاَ تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَينِ، وَلاَ تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ».

ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمہاری لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو ذر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال له: "إني أراك ضعيفاً وإني أحب لك ما أحب لنفسي فلا تأمرن على اثنين ولا تولين على مال يتيم" هذه أربع جمل بيَّنها الرسول -عليه الصلاة والسلام- لأبي ذر:
الأولى: قال له: "إني أراك ضعيفاً"، وهذا الوصف المطابق للواقع يحمل عليه النصح، فلا حرج على الإنسان إذا قال لشخص مثلا: إن فيك كذا وكذا، من باب النصيحة لا من باب السب والتعيير.
الثانية: قال: "وإني أحب لك ما أحبه لنفسي" وهذا من حسن خلق النبي -عليه الصلاة والسلام-، لما كانت الجملة الأولى فيها شيء من الجرح قال: "وإني أحب لك ما أحب لنفسي" يعني: لم أقل لك ذلك إلا أني أحب لك ما أحب لنفسي.
الثالثة: "فلا تأمرنَّ على اثنين"، يعني: لا تكن أميرًا على اثنين، وما زاد فهو من باب أولى.
والمعنى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهاه أن يكون أميرًا؛ لأنه ضعيف، والإمارة تحتاج إلى إنسان قوي أمين، قوي بحيث تكون له سلطة وكلمة حادة؛ وإذا قال فعل، لا يكون ضعيفا أمام الناس؛ لأن الناس إذا استضعفوا الشخص لم يبق له حرمة عندهم، وتجرأ عليه السفهاء، لكن إذا كان قويًّا لا يتجاوز حدود الله عز وجل، ولا يقصر عن السلطة التي جعلها الله له فهذا هو الأمير حقيقة.
الرابعة: "ولا تولين مال يتيم" واليتيم هو الذي مات أبوه قبل أن يبلغ، فنهاه الرسول -عليه الصلاة والسلام- أن يتولى على مال اليتيم؛ لأنَّ مال اليتيم يحتاج إلى عناية ويحتاج إلى رعاية، وأبو ذر ضعيف لا يستطيع أن يرعى هذا المال حق رعايته فلهذا قال: "ولا تولين مال يتيم" يعني لا تكن وليا عليه دعه لغيرك.
وليس في هذا انتقاصًا لأبي ذر فقد كان يأمر بالمعروف وينهى عن المنكر بالإضافة للزهد والتقشف، ولكنه ضعف في باب معين وهو باب الولاية والإمارة.
575;بو ذر رضی اللہ عنہ بیان کررہے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔ یہ تین جملے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمائے:
اول: آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔ اس نصیحت کو مبنی پر حقیقت صورت حال پر محمول کیا جائے گا۔ کسی آدمی کا کسی دوسرے شخص کو ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مثلا تم میں یہ یہ کمزوریاں ہیں؛ بشرطے کہ اس کا یہ کہنا نصیحت کی غرض سے ہو، نہ کہ برا بھلا کہنے اور عار دلانے کےلیے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔
دوم: آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔ یہ نبی ﷺ کے حسن اخلاق کا ایک مظہر ہے۔ چوں کہ پہلے جملے میں کچھ دل آزاری کا پہلو تھا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔
سوم: ”دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا“۔ یعنی دو آدمیوں پر بھی کبھی امیر نہ بننا۔ اس سے زیادہ پر امیر بننے کی ممانعت تو بطریق اولی ہو گی۔
مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں امیر بننے سے منع کیا؛ کیوں کہ وہ کمزور تھے، جب کہ امارت کے لیےطاقت ور اور امانت دار شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ طاقت ور اس طرح سے کہ وہ صاحب اقتدار ہو اور اس کی بات میں تیز پن ہو۔ بایں طور کہ جو کہے اسے کر گزرے اور لوگوں کے سامنے کمزوری ظاہر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ لوگ جب کسی شخص کو کمزور سمجھنا شروع کردیں، تو ان کے ہاں اس کا احترام باقی نہیں رہتا اور بے وقوف لوگ اس پر جری ہو نے لگتے ہیں۔ تاہم اگر وہ طاقت ور ہو، اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرتا ہو اور نہ اللہ کے عطا کردہ اقتدار میں کوئی کوتاہی برتتا ہو، تو یہ شخص ہی حقیقی امیر ہوتا ہے۔
چہارم: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یتیم اس بچے کو کہا جاتا ہے، جس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا باپ فوت ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یتیم کے مال کی ذمے داری اٹھانے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ یتیم کے مال کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ابو ذررضی اللہ عنہ کمزور شخص تھے، جو اس کی کما حقہ دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یعنی یتیم کے مال کا نگران نہ بننا، بلکہ یہ ذمے داری کسی اور کے لیے چھوڑ دینا۔
اس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ ساتھ ہی آپ بہت زاہد اور تقشف اختیار کرنے والے تھے۔ یہ تو بس ایک میدان میں کمزور تھے؛ امارت اور حکومت کا میدان۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3311

 
 
Hadith   272   الحديث
الأهمية: من توضأ نحو وضوئي هذا, ثم صلى ركعتين, لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه


Tema:

جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی، جس میں اس نے اپنے جی میں کوئی بات نہ کی، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دییے جاتے ہیں۔

عن حمران مولى عثمان أنَّه رأى عثمان دعا بوَضُوء, فأفرَغ على يَدَيه مِن إنائه, فغَسَلهُما ثلاثَ مرَّات، ثمَّ أدخل يَمينَه في الوَضُوء, ثمَّ تَمضمَض واستَنشَق واستَنثَر، ثُمَّ غَسل وَجهه ثَلاثًا, ويديه إلى المرفقين ثلاثا, ثم مسح برأسه, ثمَّ غَسل كِلتا رجليه ثلاثًا, ثمَّ قال: رأيتُ النَّبِي -صلى الله عليه وسلم- يتوضَّأ نحو وُضوئي هذا، وقال: (من توضَّأ نحو وُضوئي هذا, ثمَّ صلَّى ركعتين, لا يحدِّث فِيهما نفسه غُفِر له ما تقدَّم من ذنبه).

حمران رحمہ اللہ جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام ہیں، روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا اوربرتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر تین دفعہ انھیں دھویا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ کو وضو کے پانی میں ڈالا اور کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑا۔ پھر اپنے چہرے کو تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنے دونوں پاؤں کو تین دفعہ دھویا اور فرمایا: "میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی، جس میں اس نے اپنے جی میں کوئی بات نہ کی، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشتمل هذا الحديث العظيم على الصفة الكاملة لوضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-.
فإن عثمان -رضي الله عنه- من حسن تعليمه وتفهيمه علمهم صفة وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم- بطريقة عملية، ليكون أبلغ تفهُّماً، فإنه دعا بإناء فيه ماء، ولئلا يلوثه، لم يغمس يده فيه، وإنما صب على يديه ثلاث مرات حتى نظفتا، بعد ذلك أدخل يده اليمنى في الإناء، وأخذ بها ماء تمضمض منه واستنشق، ثم غسل وجهه ثلاث مرات، ثم غسل يديه مع المرفقين ثلاثا، ثم مسح جميع رأسه مرة واحدة، ثم غسل رجليه مع الكعبين ثلاثا.
فلما فرغ -رضي الله عنه- من هذا التطبيق والوضوء الكامل أخبرهم أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- توضأ مثل هذا الوضوء، وأخبرهم -صلى الله عليه وسلم- أنه من توضأ مثل وضوئه، وصلى ركعتين، خاشعًا مُحْضراً قلبه بين يدي ربه عز وجل فيهما، فإنه- بفضله تعالى يجازيه على هذا الوضوء الكامل، وهذه الصلاة الخالصة بغفران ما تقدم من ذنبه.
575;س عظیم حدیث میں نبی ﷺ کے وضو کے مکمل طریقۂ کار کا بیان ہے۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے انتہائی اچھے اور خوب صورت انداز میں لوگوں کو عملی طور پر نبی ﷺ کے وضو کے طریقے کی تعلیم دی، تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ انھوں نے ایک برتن منگوایا، جس میں کچھ پانی تھا اور اس خیال کے پیش نظر کہ کہیں وہ خراب نہ ہو جائے، انھوں نے اپنا ہاتھ اس میں نہیں ڈالا، بلکہ اپنے ہاتھو ں پر تین دفعہ پانی بہایا، تا کہ وہ صاف ہو جائیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر اس میں سے کچھ پانی لیا اور اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرے کو تین دفعہ دھویا اور اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین دفعہ دھویا۔ پھر ایک دفعہ اپنے پورے سر کا مسح کیا اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو تین دفعہ ٹخنوں سمیت دھویا۔
جب عثمان رضی اللہ عنہ اس عملی تطبیق سے فارغ ہو گئے اور پوری طرح وضو کر چکے، تو لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے نبی ﷺ کو اسی طرح سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ آپ ﷺ نے انھیں بتایا کہ جو شخص آپ ﷺ کے وضو کی طرح وضو کرتا ہے اور پھر پورے خشوع کے ساتھ اور اپنے دل کو اللہ عز و جل کی بارگاہ میں یکسو رکھتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھتا ہے، تو اس طرح سے کامل وضو کرنے اور خالص نماز کی ادائیگی پر اللہ تعالی اسے اپنے فضل و احسان کے ساتھ یہ بدلہ دیتا ہے کہ اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3313

 
 
Hadith   273   الحديث
الأهمية: يدخل الجنة أقوام أفئدتهم مثل أفئدة الطير


Tema:

جنت میں کتنے ہی لوگ ایسے جائیں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مانند ہوں گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يَدخُلُ الجّنَّة أَقْوَام أَفئِدَتُهُم مِثل أًفئِدَة الطَّير».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں کتنے ہی لوگ ایسے جائیں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مانند ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- عن وصف قوم من أهل الجنة وأن قلوبهم رقيقة فزعة كما تفزع الطير، وذلك  لخوف هؤلاء المؤمنين من ربهم ،كما أن الطير كثيرة الفزع والخوف، وهم أيضاً أكثر الناس توكلاً على الله في طلب حاجاتهم كما تخرج الطير صباحاً لطلب رزقها.
606;بی ﷺ کچھ جنتی لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ ان کے دل اس طرح رقیق اور سہمے ہوئے ہوں گے، جیسے پرندے سہم جاتے ہیں؛ کیوں کہ یہ مؤمن اپنے رب سے ڈرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کہ پرندے بہت گھبرائے گھبرائے اور خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اپنی ضروریات کے سلسلے میں بھی یہ لوگ اللہ پر سب سےزیادہ توکل رکھتے ہیں، جیسا کہ پرندے صبح کو رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3314

 
 
Hadith   274   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا اغتسل من الجنابة غسل يديه ثم توضأ وضوءه للصلاة ثم اغتسل


Tema:

نبی ﷺ جب جنابت کا غسل کرتے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتے اور پھر غسل فرماتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: (كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا اغْتَسَلَ من الجَنَابَة غَسَل يديه, ثُمَّ تَوَضَّأ وُضُوءَه للصَّلاة, ثمَّ اغْتَسَل, ثُمَّ يُخَلِّلُ بِيَدَيه شعره, حتى إِذَا ظَنَّ أنَّه قد أَرْوَى بَشَرَتَهُ, أَفَاض عليه الماء ثَلاثَ مرَّات, ثمَّ غَسَل سائر جسده. وكانت تقول: كُنت أغتسِل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إِنَاء واحِد, نَغْتَرِف مِنه جَمِيعًا).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب جنابت کا غسل کرتے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتےاور پھر غسل فرماتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے بالوں کا خلال کرتے اور جب یقین کر لیتے کہ جسم تر ہو گیا ہے، تو تین مرتبہ اس پر پانی بہاتے، پھر تمام بدن کا غسل کرتے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرمایا کرتی تھیں کہ: میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم بیک وقت اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تصف عائشة -رضي الله عنها- غسل النبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه إذا أراد الغسل من الجنابة بدأ بغسل يديه، لتكونا نظيفتين حينما يتناول بهما الماء للطهارة، وتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ولكونه -صلى الله عليه وسلم- ذا شعر كثيف، فإنه يخلله بيديه وفيهما الماء حتى إذا وصل الماء إلى أصول الشعر، وأروى البشرة، صب الماء على رأسه ثلاث مرات ثم غسل باقي جسده.
ومع هذا الغسل الكامل، فإنه يكفيه هو وعائشة، إناء واحد، يغترفان منه جميعا.
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا، نبی ﷺ کے غسل کا طریقہ بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ غسل جنابت کا ارادہ کرتے، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لیتے؛ تاکہ دونوں ہاتھ اس وقت پاک و صاف رہیں، جب ان سے طہارت وپاکی کے لیے پانی لیا جائے۔ پھر نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو فرماتے اور بہت گھنے بال ہونے کی وجہ سے اپنے دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر سر کا خلال فرماتے، تاآں کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے اور جسم کو تر فرماتے، اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے اور پھر باقی تمام جسم کو دھوتے۔ اس کامل غسل کے باوجود، آپ ﷺ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے لیے ایک برتن پانی ہی کافی ہوجاتا۔ دونوں ہی چلو بھر بھر کر اس میں سے پانی لیتے (ہوئے غسل فرماتے)۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3316

 
 
Hadith   275   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا عطس وضع يده أو ثوبه على فيه، وخفض  بها صوته


Tema:

رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور اس سے اپنی آواز کو ہلکی یا پست کرتے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا عطس وضع يده أو ثوبه على فيه، وخفض -أو غض- بها صوته،   شك الراوي.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتےاور اس سے اپنی آواز کو ہلکی یا پست کرتے۔
راوی کو شک ہے کہ صحابی نے ”خَفَضَ“ کا لفظ استعمال کیا تھا یہ ”غَضّ“ کا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أدب من الآداب المتعلقة بالعطاس، فيُستحب للعاطس أن لا يبالغ في إخراج العطاس ولا يرفع صوته, بل يخفضه ويغطي وجهه إن أمكن.
740;ہ حدیث چھینک سے متعلقہ آداب میں سے ایک ادب پر دلالت کرتی ہے، چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ چھینک نکالنے میں مبالغہ سے کام نہ لے اور نہ آواز ہی بلند کرے بلکہ آہستہ آواز سے چھینک نکالے اور جہاں تک ممکن ہو چہرے کو ڈھک لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3317

 
 
Hadith   276   الحديث
الأهمية: كان كلام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كلاما فصلا يفهمه كل من يسمعه


Tema:

رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كَانَ كَلاَمُ رَسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَلاَمًا فَصلاً يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ يَسْمَعُهُ.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عائشة -رضي الله عنها- أنها قالت: إنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- كان كلامه فصلا، معناه أنه كان مفصلا لا يدخل الحروف بعضها على بعض، ولا الكلمات بعضها على بعض، بيِّن ظاهر لكل من سمعه ليس فيه تعقيد ولا تطويل، حتى لو شاء العاد أن يحصيه لأحصاه من شدة تأنيه -صلى الله عليه وسلم- في الكلام؛ وهذا لأنَّ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أُعْطِيَ جوامع الكلم واختصر له الكلام اختصارا، وجوامع الكلم أن تجمع المعاني الكثيرة في اللفظ القليل.
وهكذا ينبغي للإنسان أن لا يكون كلامه متداخلا بحيث يخفى على السامع؛ لأن المقصود من الكلام هو إفهام المخاطب، وكلما كان أقرب إلى الإفهام كان أولى وأحسن.
ثم إنه ينبغي للإنسان إذا استعمل هذه الطريقة، يعني إذا جعل كلامه فصلا بينا واضحا، وكرَّره ثلاث مرات لمن لم يفهم، ينبغي أن يستشعر في هذا أنه متبع لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى يحصل له بذلك الأجر وإفهام أخيه المسلم.
وهكذا جميع السنن اجعل على بالك أنك متبع فيها لرسول -صلى الله عليه وسلم- حتى يتحقق لك الاتباع وثوابه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا اپنی اس حدیث میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے۔ یعنی آپ کی گفتگو جدا جدا ہوتی، بایں طو رکہ حروف و کلمات باہم خلط ملط نہیں ہوتے تھے اور آپ ﷺ کی گفتگو سننے والے کے لیے بالکل واضح اور پیچیدگی و طوالت سے پاک ہوتی تھی۔ آپ ﷺ گفتگو اتنی آہستہ روی سے فرماتے کہ اگر کوئی شمار کرنے والا آپ کی گفتگو کے الفاظ شمار کرنا چاہتا، تو کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھےاور آپ ﷺ کی گفتگو بہت ہی مختصر ہوتی تھی۔ جوامع الکلم سے مراد یہ ہے کہ تھوڑے الفاظ میں بہت سارے معانی سمو دیے جائیں۔
اس لیے مناسب ہے کہ انسان کی گفتگو اس طرح سے گڈ مڈ نہ ہو کہ وہ سننے والے کو سمجھ ہی میں نہ آئے؛ کیوں کہ گفتگو کا مقصد مخاطب کو بات سمجھانا ہوتا ہے۔ اس لیے گفتگو تفہیم سے جتنی قریب تر ہو گی، اتنا ہی بہتر اور اچھا ہو گا۔
پھر انسان جب یہ طرز عمل اپنائے، یعنی اپنی گفتگو کو جدا جدا، صاف اور واضح رکھے اور جو شخص نہ سمجھ پائے، اس کے لیے اسے تین دفعہ دوہرائے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس دوران یہ بات ذہن میں رکھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہا ہے؛ تا کہ اس کی وجہ سے اسے اجر بھی حاصل ہو جائے اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو (اپنی بات) بھی سمجھا دے۔
اسی طرح تمام سنتوں میں اپنے ذہن میں یہی رکھیں کہ آپ ان پر کاربند ہو کر رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہے ہیں؛ تا کہ اتباع بھی ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ثواب بھی مل جائے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3321

 
 
Hadith   277   الحديث
الأهمية: قوموا فلأصلي لكم


Tema:

اٹھو، تاکہ میں تمہیں نماز پڑھا دوں

عن أَنَس بنِ مَالِكٍ -رضي الله عنه- «أنَّ جَدَّتَهُ مُلَيكَة دَعَت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لِطَعَام صَنَعتُه، فَأَكَل مِنه، ثم قال: قُومُوا فَلِأُصَلِّي لَكُم؟ قال أنس: فَقُمتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قد اسوَدَّ من طُولِ مَا لُبِس، فَنَضَحتُه بماء، فقام عليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وَصَفَفتُ أنا واليَتِيمُ وَرَاءَهُ، والعَجُوزُ مِن وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَكعَتَين، ثُمَّ انصَرَف».
#1608;لمسلم «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلى به وبِأُمِّه فَأَقَامَنِي عن يَمِينِه، وأقام المَرأةَ خَلْفَنَا».

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی مُلیکہ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کھانے پر بلایا، جو انہوں نے آپ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا، پھر فرمایا: ”اٹھو، تاکہ میں تمہیں نماز پڑھا دوں“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اٹھا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہوگئی تھی۔ میں نے اس پر پانی کا چھينٹا مارا، پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے۔ میں اور ایک یتیم لڑکے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بوڑھی دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ واپس تشریف لے گئے۔
صحيح مسلم کی روايت ميں ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے انہيں اور ان کی ماں کو نماز پڑھائی۔ تو مجھے اپنے دائیں کھڑا کيا اور ماں کو ہمارے پيچھے کھڑا کيا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعت مليكة -رضي الله عنها- رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لطعام صنعته، وقد جبله الله تعالى على أعلى المكارم وأسمى الأخلاق، ومنها التواضع الجم، فكان على جلالة قدره وعلو مكانه يجيب دعوة الكبير والصغير، والذكر والأنثى، والغني والفقير، يريد بذلك الأهداف السامية، والمقاصد الجليلة من جبر قلوب البائسين، والتواضع للمساكين، وتعليم الجاهلين، إلى غير ذلك من مقاصده الحميدة، فجاء إلى هذه الداعية، وأكل من طعامها، ثم اغتنم هذه الفرصة ليعلِّم هؤلاء المستضعفين الذين ربما لا يزاحمون الكبار على مجالسه المباركة، فأمرهم بالقيام ليصلي بهم، حتى يتعلموا منه كيفية الصلاة، فعمد أنس إلى حصير قديم، قد اسود من طول المكث والاستعمال، فغسله بالماء، فقام عليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلى بهم، وصف أنسا، ويتيما معه، صفا واحدا خلف النبي صلى الله عليه وسلم، وصفت العجوز-صاحبة الدعوة- من وراء أنس واليتيم، تصلي معهم، فصلى بهم ركعتين، ثم انصرف -صلى الله عليه وسلم- بعد أن قام بحق الدعوة والتعليم -صلى الله عليه وسلم-، ومنَّ الله علينا باتباعه في أفعاله وأخلاقه.
605;ليکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے بلایا، جو انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اعلی اخلاق اوربلند کردارسے سرفراز کياتھا۔ انہی میں سے ایک آپ کی بے حد تواضع و خاکساری ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ عظيم مقام ومرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود چھوٹے بڑے، مرد وعورت، امير وغريب سب کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ آپ ﷺ اس کے ذريعہ کمزوروں اور محتاجوں کی غمگساری، فقيروں اور مسکينوں سے ہمدردی اور جاہلوں کی تعليم وتربيت جيسے اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پس آپ ﷺ اس دعوت دینے والی خاتون کے ہاں تشریف لائے اور اس کا کھانا تناول فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس موقع کو غنيمت جانتے ہوئے ان کمزوروں کو، جو بسا اوقات بڑوں کے ساتھ آپ ﷺ کی مبارک مجلسوں ميں نہيں حاضر ہوتے ہيں، تعليم دينا چاہا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سب کو کھڑے ہونے کا حکم ديا تاکہ انہيں نماز پڑھائيں جس سے انہيں نماز کی کيفيت کا علم ہو جائے۔
انس رضی اللہ عنہ ايک پرانی چٹائی کی طرف متوجہ ہوئے جو کثرت استعمال کی وجہ سے سياہ ہو چکی تھی، اس کو پانی سے دھلا۔ پھر آپ ﷺ انھیں نماز پڑھانے کے لیے اس پر کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ايک يتيم لڑکا نبی ﷺ کے پيچھے ايک صف ميں کھڑے ہوئے اور مليکہ رضی اللہ عنہا -جو میزبان تھیں- نماز پڑھنے کے لیے انس رضی اللہ عنہ اور يتيم لڑکے کے پيچھے کھڑی ہوئيں۔ آپ ﷺ نے انھیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ دعوت وتعليم کا حق ادا کرنے کے بعد واپس آگئے۔ الحمد للہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان کہ ہميں آپ ﷺ کے افعال واخلاق میں آپ کا متبع بنايا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3324

 
 
Hadith   278   الحديث
الأهمية: إذا استأذنت أحدَكم امرأتُه إلى المسجد فلا يمنعها


Tema:

جب تم میں سے کسی سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے نہ روکے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عَنِ النَّبيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «إذا اسْتَأذَنَت أَحَدَكُم امرَأَتُه إلى المسجِد فَلا يَمنَعهَا، قال: فقال بلال بن عبد الله: والله لَنَمنَعُهُنَّ، قال: فَأَقبَلَ عليه عبد الله، فَسَبَّهُ سَبًّا سَيِّئًا، ما سَمِعتُه سَبَّهُ مِثلَهُ قَطُّ، وقال: أُخبِرُك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول: والله لَنَمنَعُهُنَّ؟».
وفي لفظ: «لا تَمنَعُوا إِمَاء الله مسَاجِد الله...».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے نہ روکے“۔ (سالم نے) کہا: بلال بن عبد اللہ نے کہا: اللہ کی قسم ہم تو انھيں ضرور روکیں گے، (راوی حدیث) کہتے ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی طرف رخ کیا اور بلال کو سخت برا بھلا کہا، میں نے انہیں کبھی (کسی کو) اتنا برا بھلا کہتے نہیں سنا، اور فرمايا: ميں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان بتا رہا ہوں اور تم کہتے ہو: اللہ کی قسم! ہم انھيں ضرور روکیں گے؟
ايک دوسری روايت ميں یہ الفاظ آئے ہیں: ”اللہ کی بنديوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو...“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رَوى ابن عمر-رضي الله عنهما- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: إذا استأذنت أحدكم امرأته إلى المسجد فلا يمنعها؛ لئلا يحرمها فضيلة الجماعة في المسجد، وفيه بيان حكم خروج المرأة إلى المسجد للصلاة، وأنه جائز،
وكان أحد أبناء عبد الله بن عمر حاضرا حين حدث بهذا الحديث، وكان قد رأى الزمان قد تغير عن زمن النبي -صلى الله عليه وسلم- بتوسُّع النساء في الزينة، فحملته الغيرة على صون النساء، على أن قال- من غير قصد الاعتراض على المشرِّع-: والله لنمنعهن، ففَهِم أبُوه من كلامه أنه يعترض- برده هذا- على سنَّة النبي -صلى الله عليه وسلم- فحمله الغضب لله ورسوله، على أن سبَّه سبًّا شديدًا. وقال: أخبرك عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وتقول: والله لنمنعهن؟
575;بن عمر رضي اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب تم ميں سے کسی کی بيوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے، تاکہ وہ مسجد میں جماعت کی فضيلت سے محروم نہ رہے۔ اس حديث ميں عورت کے نماز کے لیے مسجد جانے کے جواز کا ثبوت ہے، اس حدیث کو بیان کرتے وقت اسی مجلس ميں عبد اللہ بن عمر کے صاحب زادے بلال بھی موجود تھے انھوں نے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بڑھ کرعورتوں کی زيب و زينت میں توسّع کو دیکھ کر ان کی عصمت وعفت کی حفاظت کے پیش نظر - شارع پراعتراض کا قصد کئے بغیر- فرمایا: "اللہ کی قسم ہم انھيں ضرور منع کریں گے."، اس بات کو سن کر ان کے والد ابن عمر نے سمجھا کہ وہ اس تردید کے ذریعہ سنتِ رسول پر اعتراض کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول کى خاطر بہت ناراض ہوئے اور انھيں بہت ہی برا بھلا کہا۔ اور فرمايا: ميں اللہ کے رسول صلی عليہ وسلم کی حديث بيان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3325

 
 
Hadith   279   الحديث
الأهمية: صَلَّيْتُ مع أبي بكر وعمر وعثمان، فلم أسمع أحدا منهم يقرأ "بسم الله الرحمن الرحيم"


Tema:

میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، تو میں نے ان میں سے کسی کو بھی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔

عن أَنَس بن مالك -رضي الله عنه- «أنّ النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر وعمر -رضي الله عنهما-: كانوا يَسْتَفْتِحُونَ الصلاة بـ"الحمد لله رب العالمين"».
وفي رواية: « صَلَّيْتُ مع أبي بكر وعمر وعثمان، فلم أسمع أحدا منهم يقرأ "بسم الله الرحمن الرحيم"».
ولمسلم: « صَلَّيْتُ خلف النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبي بكر وعمر وعثمان فكانوا يَسْتَفْتِحُونَ بـ"الحمد لله رب العالمين"، لا يَذْكُرُونَ "بسم الله الرحمن الرحيم" في أول قراءة ولا في آخرها».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔
اور ایک روایت میں ہے: میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے سا تھ نماز پڑھی، تو میں نے ان میں سے کسی کو بھی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
اور مسلم کی روایت میں ہے: میں نے نبی ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے اور ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کا ذکر نہ شروع قراءت میں اور نہ آخر میں کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أنس بن مالك، -رضى الله عنه-: أنه- مع طول صحبته للنبي -صلى الله عليه وسلم- وملازمته له ولخلفائه الراشدين - لم يسمع أحداً منهم يقرأ (بسم الله الرحمن الرحيم) في الصلاة، لا في أول القراءة، ولا في آخرها، وإنما يفتتحون الصلاة بـ"الحمد لله رب العالمين"، وقد اختلف العلماء في حكم قراءة البسملة والجهر بها على أقوال، والصحيح من أقوال العلماء أن المصلي يقرأ البسملة سرا قبل قراءة الفاتحة في كل ركعة من صلاته، سواء كانت الصلاة سرية أم جهرية.
575;نس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انھوں نے، نبی ﷺ کے ساتھ لمبی صحبت و وابستگی اور خلفاے راشدین کی ہم نشینی کے باوجود، کبھی ان میں سے کسی کو نماز میں ”بسم الله الرحمن الرحيم“ پڑھتے نہیں سنا؛ نہ ہی شروع قراءت میں اور نہ ہی آخر میں۔ وہ نماز ”الحمد لله رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔
بسم اللہ کو جہراً پڑھنے کی مشروعیت کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک اقوال وارد ہیں اور ان میں صحیح قول یہی ہے کہ نمازی نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ سراً پڑھے گا؛ نماز خواہ سری ہو یا جہری۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3327

 
 
Hadith   280   الحديث
الأهمية: إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى المرأة وتفضي إليه، ثم ينشر سرها


Tema:

قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا، جو اپنی بیوی سے ملے اور بیوی اس سے ملے اور پھر وہ اس کے راز ظاہر کرتا پھرے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِندَ الله مَنزِلَةً يَومَ القِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفضِي إِلَى المَرْأَةِ وَتُفْضِي إِلَيه، ثُمَّ يَنشُرُ سِرَّهَا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا، جو اپنی بیوی سے ملے اور بیوی اس سے ملے اور پھر وہ اس کے راز ظاہر کرتا پھرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أن من شر الناس مرتبة عند الله يوم القيامة المتصف بهذه الخيانة، وهو الذي يعمد إلى نشر سر البيت الزوجي، الذي لا يطلع عليه إلا الزوجان، ففي هذا الحديث تحريم إفشاء الرجل ما يجري بينه وبين امرأته من أمور الاستمتاع ووصف تفاصيل ذلك، وما يجري من المرأة فيه من قول أو فعل ونحوه.
فأما مجرد ذكر الجماع، فإن لم تكن فيه فائدة، ولا حاجة فمكروه؛ لأنَّه خلاف المروءة، وقد قال -صلى الله عليه وسلم-: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصمت" ، وإن كان إليه حاجة، أو ترتب عليه فائدة، بأن ينكر عليه إعراضه عنها، أو تدعي عليه العجز عن الجماع، أو نحو ذلك، فلا كراهة في ذكره لوجود المصلحة في ذلك وقد دلت عليه السنة.
606;بی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ روزِقیامت اللہ کے ہاں مرتبے کے لحاظ سے بدترین شخص وہ ہو گا، جو اس خیانت سے متصف ہو گا، یعنی وہ شخص جو ایسے گھریلو ازدواجی راز کو افشا کرتا ہے، جس سے صرف میاں بیوی ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں مرد اور اس کی بیوی کے مابین جنسی لطف اندوزی سے متعلقہ امور اور ان کی تفاصیل اور اس دوران بیوی کی طرف سےجو باتیں یا افعال وغیرہ ہوتے ہیں، انھیں بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
جہاں تک محض جماع کا تعلق ہے، تو بنا کسی فائدے اور ضرورت کے بس یوں ہی اس کا ذکر کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ یہ بات مروت کے خلاف ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ یا تو اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے“۔ اگر اس کے ذکر کرنے کی ضرورت ہویا پھر ایسا کرنے میں کوئی فائدہ ہو، بایں طور کہ اسے ملامت کیا جا رہا ہو کہ وہ اپنی بیوی سے بے گانگی برتتا ہے یا پھر اس کے خلاف یہ دعوی دائر کر دیا جائے کہ وہ جماع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا ایسی کسی اور غرض کی بنا پر اس کا ذکر کرنے میں کوئی کراہت نہیں؛ کیوں کہ ان صورتوں میں اس کے ذکر کرنے کی مصلحت پائی جا رہی ہے اور سنت بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3328

 
 
Hadith   281   الحديث
الأهمية: لعنة الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد -يحذر ما صنعوا-، ولولا ذلك أبرز قبره، غير أنه خشي أن يتخذ مسجدًا


Tema:

یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ آپ ﷺ اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے آگاہ کر رہے تھے۔ اور اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن یہ ڈر تھا کہ کہیں اسے مسجد (سجدہ گاہ) نہ بنا لیا جائے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: لما نُزِلَ برسول الله -صلى الله عليه وسلم-، طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً له على وجهه، فإذا اغْتَمَّ بها كشفها فقال -وهو كذلك-: "لَعْنَةُ الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد -يُحَذِّرُ ما صنعوا".


ولولا ذلك أُبْرِزَ قَبْرُهُ، غير أنه خَشِيَ أن يُتَّخَذَ مسجدا.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ پر (وفات کے لمحے) طاری ہوئے تو آپ اپنی ایک چادر اپنے چہرے پر ڈالتے تھے اور جب جی گھبراتا تو اسے چہرے سے ہٹا لیتے تھے، آپ اسی حالت میں تھے کہ آپ نے فرمایا: ”یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا“۔ [راوی کہتے ہیں کہ] آپ ﷺ اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے آگاہ کر رہے تھے۔
اور اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن یہ ڈر تھا کہ کہیں اسے مسجد (سجدہ گاہ) نہ بنا لیا جائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- أنه حينما حضرت النبي -صلى الله عليه وسلم- الوفاة قال وهو في سكرات الموت: "لعن الله اليهود والنصارى"؛ وذلك لأنهم بنوا على قبور أنبيائهم مساجد. ثم استنتجت عائشة -رضي الله عنها- أنه يريد بذلك تحذير أمته من أن تقع فيما وقعت فيه اليهود والنصارى فتبني على قبره مسجدا، ثم بينت أن الذي منع الصحابة من دفنه خارج غرفته هو خوفهم من أن يتخذ قبره مسجدًا.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بتلا رہی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے نزع کی حالت میں فرمایا: ”یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو“۔ اور یہ اس لئے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں پر مسجدیں بنالیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ آپ ﷺ کی مراد اس سے اپنی امت کو یہود ونصاری کے عمل سے آگاہ کرنا تها تاکہ یہ امت اس میں نہ واقع ہو جس میں یہود ونصاری مبتلا تھے اور انہیں کی طرح آپ ﷺ کی قبر پر مسجد نہ بنائیں، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح کیاکہ آپ ﷺ کو آپ کے کمرے سے باہر دفن کرنے سے جس چیز نے صحابہ کو روکا وہ اسی بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ ﷺ کی قبر کو عبادت گاہ نہ بنالیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3330

 
 
Hadith   282   الحديث
الأهمية: اجتنبوا السبع الموبقات


Tema:

سات ہلاک کرنے والی چيزوں (گناہوں) سے بچو

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "اجتنبوا السبع المُوبِقَات، قالوا: يا رسول الله، وما هُنَّ؟ قال: الشركُ بالله، والسحرُ، وقَتْلُ النفسِ التي حَرَّمَ الله إلا بالحق، وأكلُ الرِّبا، وأكلُ مالِ اليتيم، والتَّوَلّي يومَ الزَّحْفِ، وقذفُ المحصناتِ الغَافِلات المؤمنات".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سات ہلاک کرنے والی چيزوں (گناہوں) سے بچو“۔ صحابۂ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کيا ہيں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، لڑائی کے موقع پر پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور بھولی بھالی پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أمته بالابتعاد عن سبع جرائم مهلكاتٍ، ولما سُئل عنها ما هي؟ بيّنها بأنها الشرك بالله، باتخاذ الأنداد له من أي شكل كانت، وبدأ بالشرك؛ لأنه أعظم الذنوب، وقتلِ النفس التي منع الله من قتلها إلا بمسوغٍ شرعي، والسحر، وتناول الربا بأكلٍ أو بغيره من وجوه الانتفاع، والتعدي على مال الطفل الذي مات أبوه، والفرار من المعركة مع الكفار، ورمي الحرائر العفيفات بالزنا.
606;بی كريم ﷺ اپنی امت کو سات مہلک جرائم سے دور رہنے کا حکم دے رہے ہیں۔ جب آپ ﷺ سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ وہ جرائم یہ ہیں: دوسروں کو کسی بھی انداز میں اللہ کا ہم سر بنا کر اس کے ساتھ شرک کرنا۔ آپ ﷺ نے شرک كا ذكر پہلے فرمايا کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ کسی ایسی جان کو قتل کرنا جس کے قتل کرنے سے اللہ نے منع کیا ہے بجز اس صورت کے جب ایسا کرنے کا کوئی شرعی وجہ جواز ہو۔ جادو کرنا، سود لینا چاہے اسے کھایا جائے یا کسی بھی اور انداز میں اس سے نفع اٹھایا جائے، جس بچے کا باپ وفات پا چکا ہو اس کے مال ميں ناحق تصرف کرنا، کفار کے ساتھ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور پاک دامن آزاد عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3331

 
 
Hadith   283   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا، وإذا أراد بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يوافى به يوم القيامة


Tema:

جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہ کی سزاد دینے سے رکا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دے گا۔

عن أنس -رضي الله عنه - أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا، وإذا أراد بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يُوَافِيَ به يومَ القيامة".

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہ کی سزاد دینے سے رُکا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن علامة إرادة الله الخيرَ بعبده معاجلته بالعقوبة على ذنوبه في الدنيا حتى يخرج منها وليس عليه ذنب يوافي به يوم القيامة؛ لأن من حوسب بعمله عاجلاً خفّ حسابه في الآجل، ومن علامة إرادة الشر بالعبد أن لا يجازى بذنوبه في الدنيا حتى يجيء يوم القيامة مستوفر الذنوب وافيها، فيجازى بما يستحقه يوم القيامة.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنے کی علامت یہ ہے کہ وہ اسے اس کے گناہوں پر دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے یہاں تک کہ وہ دنیا میں سے اس حال میں جاتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ ایسا نہیں ہوتا جس کا حساب روزِ قیامت چکایا جانا ہو کیونکہ جس شخص کا فوری حساب کر لیا جاتا ہے اس کا آخرت میں حساب ہلکا ہو جاتا ہے۔ اور بندے کے ساتھ شر کا معاملہ کرنے کی علامت یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں اس کے گناہوں کا بدلہ نہیں دیتا یہاں تک کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ گناہوں سے لدا پھندا آئے گا اور اس سے پورا پورا حساب لیا جائے اور جس بدلے کا وہ مستحق ہو گا وہ اسے ملے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3332

 
 
Hadith   284   الحديث
الأهمية: ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الشرك الخفي، يقوم الرجل فيصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل


Tema:

کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شرک خفی“ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی دوسرا اسے دیکھ رہا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "ألا أخبركم بما هو أَخْوَفُ عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الشرك الخفي يقوم الرجل فيصلي فَيُزَيِّنُ صلاته لما يرَى من نَظَرِ رَجُلٍ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شرک خفی“ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی دوسرا اسے دیکھ رہا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة يتذاكرون فتنةَ المسيح الدجال ويتخوفون منها، فأخبرهم -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن هناك محذوراً يخافه عليهم أشد من خوفِ فتنة الدجال وهو الشرك في النية والقصد الذي لا يظهر للناس، ثم فسَّره بتحسين العمل الذي يُبتغى به وجه الله من أجل رؤية الناس.
589;حابہ کرام باہم مسیح دجال کے فتنے کا ذکر کر رہے تھے اور اس سے خوف کا اظہار کر رہے۔ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ ایک ایسی ممنوعہ شے ہے جس کا آپ ﷺ کو ان کے سلسلے میں دجال کے فتنے سے بھی زیادہ ڈر ہے ، اور وہ ہے نیت اور ارادے میں شرک کا ارتکاب کرنا۔ جو لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے عمل کو جس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہو لوگوں کو دکھانے لیے خوب سنوار کر کیا جائے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3333

 
 
Hadith   285   الحديث
الأهمية: قول الله -تعالى-: فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ، قال ابن عباس في الآية: الأنداد: هو الشرك، أخفى من دببيب النمل على صفاة سوداء في ظلمة الليل


Tema:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل“ انداد: یہ ایسا شرک ہے جو کہ سیاہ چٹان پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔

قول الله -تعالى-: {فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}. قال ابن عباس في الآية: "الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل". وهو أن تقول: والله وحياتك يا فلان، وحياتي، وتقول: لولا كُلَيْبَةُ هذا لأتانا اللصوص، ولولا البط في الدار لأتانا اللصوص، وقول الرجل لصاحبه: ما شاء الله وشئت، وقول الرجل: لولا الله وفلان، لا تجعل فيها فلانا؛ هذا كله به شرك".

ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل“ انداد: یہ ایسا شرک ہے جو کہ سیاہ چٹان پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تو اس طرح کہے: اے فلاں !اللہ اور تیری جان کی قسم، یا میری جان کی قسم۔ یا تو اس طرح کہے: اگر یہ کتا نہ ہوتا تو چور آجاتے، اگر بطخ نہ ہوتی تو چور داخل ہو جاتے۔ اور اسی طرح آدمی کا کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ:جو اللہ چاہے اور تو چاہے۔ اور آدمی کا یہ کہنا:اگر اللہ اورفلاں نہ ہوتا۔اس میں فلاں کو شامل نہ کر، کیوں کہ یہ سب اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال الله -تبارك وتعالى-: {فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ}، فنهى الناس أن يتخذوا له أمثالًا ونظراء يصرفون لهم شيئًا من عبادته؛ وهم يعلمون أن الله وحده الخالق الرازق؛ وأن هذه الأنداد عاجزة فقيرة ليس لها من الأمر شيء، وعرف ابن عباس -رضي الله عنه- الأنداد بالشركاء، وذكر أمثلة لاتخاذها، وهو أخفى من خفاء أثر دبيب النمل على الحجر الأملس الأسود في ظلمة الليل، ثم ذكر أمثلة على ذلك: وهو أن تحلف بغير الله، وأعظم منها أن تساوي بها الله فتقول: والله وحياتي، أو أن تنظر إلى السبب دون المسبب، ولا ترجع الأمر لله، فتقول: لولا كلب هذا يحرسنا لأتانا اللصوص، أو أنه يقول: لولا البط في الدار ينبهنا لو دخل أحد غريب لأتى اللصوص، ومن الشرك: قول الرجل لصاحبه: ما شاء الله وشئت، وقول الرجل: لولا الله وفلان، لا تجعل فيها فلانا، ثم أكد على أن ذلك كله شرك أصغر، ولو اعتقد قائله أن الرجل أو البط أو الكلب هو المؤثر بذاته دون الله فهو شرك أكبر.
575;للہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“۔ لوگوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ کسی کو اللہ کے مثل یا نظیر بنائیں اور اس کے لیے کسی قسم کی عبادت بجا لائیں ۔ان کو اس بات کا علم ہے کہ اللہ وحدہ خالق و رازق ہے اور جتنے بھی اس کے شریک ہیں وہ سارے اس کے سامنے فقیر ہیں اوراس کے اختیارات میں سے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انداد کی تعریف شرکاء سےکی ہے۔ شرک کا شکار ہونے کی مثال یہ بیان کی ہے کہ :یہ سیاہ چٹیل پتھر (چٹان) پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ پھراس کی یہ مثالیں پیش کیں کہ: تو غیر اللہ کی قسم اٹھائے،اوراس سے بھی بڑا شرک یہ ہے کہ تو کسی کو اللہ کے مساوی قرار دیتے ہوئے یہ کہے: اللہ کی قسم اور میری جان کی قسم، مسبب کو چھوڑ کر سبب کو ہی دیکھے، معاملے کو اللہ کی طرف نہ لوٹائے اور تو کہے: اگر یہ کتا ہماری رکھوالی نہ کرتا تو چور آجاتے۔ یا یہ کہے کہ: اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی جو ہمیں گھر میں کسی اجنبی کے داخل ہونے سے بیدار کرتی تو چور داخل ہوجاتے۔ اسی طرح یہ بھی شرک ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں یہ کہے: جو اللہ چاہے اور تو چاہے، اور آدمی کا یہ کہنا کہ: اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے تو اس میں فلاں کو شامل نہ کرو۔ پھر تاکید کے ساتھ یہ بات بتائی کہ یہ ساری کی ساری شرک اصغر کی صورتیں ہیں اور اگر کہنے والے کا یہ عقیدہ ہو کہ آدمی، بطخ اور کتا اللہ کو چھوڑ کر فی ذاتہ موثر ہیں تو یہ شرک اکبر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی حاتم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3334

 
 
Hadith   286   الحديث
الأهمية: اللهم لا تجعل قبري وثنا يُعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد


Tema:

اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی پوجا ہونے لگے۔ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نازل ہوا۔

عن عطاء بن يسار وأبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "اللهم لا تجعل قبري وثنا يُعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد".

عطاء بن یسار رحمہ اللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی پوجا ہونے لگے۔ جن لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نازل ہوا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خاف -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن يقع في أمته مع قبره ما وقع من اليهود والنصارى مع قبور أنبيائهم من الغلو فيها حتى صارت أوثاناً، فرغِب إلى ربه أن لا يجعل قبره كذلك، ثم نبّه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على سبب لحوق شدة الغضب واللعنة باليهود والنصارى، أنه ما فعلوا في حق قبور الأنبياء حتى صيّروها أوثاناً تعبد، فوقعوا في الشرك العظيم المضاد للتوحيد.
606;بی ﷺ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کی امت بھی آپ ﷺ کی قبر کے سلسلے میں وہی کچھ نہ کرنے لگیں جس طرح یہود و نصاری نے اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ کیا بایں طور کہ انہوں نے ان (کی تقدیس) میں غلو کیا اور وہ پوجا پاٹ کی جگہیں بن گئیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے رب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آپ ﷺ کی قبر کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے۔ پھر آپ ﷺ نے یہود و نصاریٰ پر سخت غضب اور لعنت ہونے کا سبب بیان کیا کہ ایسا اس وجہ سے ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو بت بنا لیا تھا جن کی وہ پوجا کرتے اور یوں وہ توحید کے بالکل برخلاف عظیم شرک میں مبتلا ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3336

 
 
Hadith   287   الحديث
الأهمية: إن الله زوى لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها، وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها، وأعطيت الكنْزين الأحمر والأبيض


Tema:

اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے۔

عن ثوبان -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "إن الله زَوَى لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها، وإن أمتي سيبلغ ملكُها ما زُوِيَ لي منها. وأعطيت الكنْزين الأحمر والأبيض. وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسَنَةٍ بعامةٍ، وأن لا يُسَلِّطَ عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ؛ وإن ربي قال: يا محمد، إذا قضيتُ قضاءً فإنه لا يُرَدُّ، وإني أعطيتك لأمتك أن لا أهلكهم بسنة عامة، وأن لا أُسَلِّطَ عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ولو اجتمع عليهم مَنْ بأقطارها، حتى يكون بعضُهم يُهْلِكُ بعضًا ويَسْبِي بعضُهم بعضًا".
ورواه البرقاني في صحيحه، وزاد: "وإنما أخاف على أمتي الأئمةَ المضلين، وإذا وقع عليهم السيف لم يرفع إلى يوم القيامة. ولا تقوم الساعة حتى يلحق حي من أمتي بالمشركين، وحتى تعبد فِئامٌ من أمتي الأوثان. وإنه سيكون في أمتي كذابون ثلاثون؛ كلهم يزعم أنه نبي، وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي. ولا تزال طائفة من أمتي على الحق منصورة لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله تبارك وتعالى".

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی۔اور مجھے سرخ اورسفید دو خزانے عطا کئے گئے اورمیں نے اپنے رب سےاپنی امت کے لیے دعا مانگی کہ وہ انہیں عمومی قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور اپنےعلاوہ ان پر کوئی ایسا دشمن بھی مسلط نہ کرے جو ان سب کی جانوں کی ہلاکت کو مباح سمجھے۔ میرے رب نے فرمایا:اے محمد! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور بے شک میں نے آپ کی امت کے لیے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں عام قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ ان پر ایسا کوئی دشمن مسلط کروں گا جوان سب کی جانوں کو مباح وجائز سمجھ کر انہیں ہلاک کر دے اگرچہ ان کے خلاف زمین کے چاروں اطراف سے ہی لوگ جمع کیوں نہ ہو جائیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو خود ہی قیدی بنائیں گے۔
امام برقانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ (حکمران، علماء اور پیشواؤں) کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑے گی تو قیامت تک نہیں رکے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ میری اُمت کا ایک قبیلہ مشرکین کے ساتھ نہ مل جائے اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ گروہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب اٹھیں گے جن میں سے ہرایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آن پہنچے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا حديثٌ جليلٌ يشتمل على أمور مهمة وأخبار صادقة، يخبر فيها الصادق المصدوق -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن الله سبحانه جمع له الأرض حتى أبصر ما تملكه أمته من أقصى المشارق والمغارب، وهذا خبرٌ وُجد مخبره، فقد اتسع ملك أمته حتى بلغ من أقصى المغرب إلى أقصى المشرق، وأخبر أنه أُعطي الكنزين فوقع كما أخبر، فقد حازت أمته ملكي كسرى وقيصر بما فيهما من الذهب والفضة والجوهر، وأخبر أنه سأل ربه لأمته أن لا يهلكهم بجدبٍ عامٍّ ولا يسلط عليهم عدواً من الكفار يستولي على بلادهم ويستأصل جماعتهم، وأن الله أعطاه المسألة الأولى، وأعطاه المسألة الثانية ما دامت الأمة متجنبة للاختلاف والتفرق والتناحر فيما بينها، فإذا وُجد ذلك سلط عليهم عدوهم من الكفار، وقد وقع كما أخبر حينما تفرقت الأمة.
وتخوّف -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على أمته خطر الأمراء والعلماء الضالين المضلين؛ لأن الناس يقتدون بهم في ضلالهم. وأخبر أنها إذا وقعت الفتنة والقتال في الأمة فإن ذلك يستمر فيها إلى يوم القيامة وقد وقع كما أخبر، فمنذ حدثتِ الفتنة بمقتل عثمان رضي الله عنه وهي مستمرة إلى اليوم.
وأخبر أن بعض أمته يلحقون بأهل الشرك في الدار والديانة. وأن جماعاتٍ من الأمة ينتقلون إلى الشرك وقد وقع كما أخبر، فعُبدت القبور والأشجار والأحجار.
وأخبر عن ظهور المدّعين للنبوة -وأن كل من ادعاها فهو كاذب؛ لأنها انتهت ببعثته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وبشّر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ببقاء طائفة من أمته على الإسلام رغمَ وقوع هذه الكوارث والويلات، وأن هذه الطائفة مع قِلّتها لا تتضرر بكيد أعدائها ومخالفيها.
740;ہ ایک بہت جلیل القدر حدیث ہے جس میں بہت سے اہم امور اور سچی خبریں ہیں۔ نبی صادق و مصدوق ﷺ اس حدیث میں خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے ساری زمین کو سمیٹ دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مشرق بعید سے لے کر مغرب بعید تک وہ سارا علاقہ دیکھ لیا جو آپ ﷺ کی امت کی ملکیت میں آئے گا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جس کا مصداق وجود میں آ چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کا دائرہ اقتدار اتنا وسیع ہوا کہ وہ مغرب بعید سے لے کر مشرق بعید تک پھیل گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو دو خزانے دیے گئے۔ آپ ﷺ نے جیسے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کو کسری و قیصر کی سلطنت پر غلبہ حاصل ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ سونا و چاندی اور جواہرات بھی ان کے ہاتھ آئے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنے رب سے اپنی امت کے حق میں دعا کی کہ وہ انہیں کسی عمومی قحط سے ہلاک نہ کرے اور یہ کہ کفار میں سے ان پر کوئی ایسا دشمن نہ مسلط کر دے جو ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ان کی پہلی دعا قبول کر لی اور دوسری بھی جب تک کہ امت اختلافات و تفرقہ اور باہمی لڑائے جھگڑے سے پرہیز کرتی رہے گی۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگ جائے گا تو پھر اللہ ان پر کفار میں سے دشمن کو مسلط کر دے۔ جب امت تفرقے کا شکار ہو گئی تو یہ سب کچھ بھی واقع ہو گیا۔
آپ ﷺ نے امت کے سلسلے میں حکام اور خود گمراہ اور گمراہ کن علما کے خوف کا اظہار کیا۔ کیونکہ لوگ بھی ان کے گمراہی میں ان کی اقتدا کریں گے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ جب امت میں فتنہ اور قتل و غارت گری کا آغاز ہو جائے گا تو پھر یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ سب کچھ ویسے ہی ہو چکا ہے جیسے آپ ﷺ نے خبر دی۔ جب سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے فتنہ پیدا ہوا ہے تب سے لے کر آج تک ویسے ہی جاری ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ کی امت کے بعض لوگ مشرکین کے علاقوں میں چل جائیں گے اور ان کا دین اختیار کر لیں گے اورامت کے کچھ گروہ شرک کی طرف راغب ہو جائیں گی۔ یہ سب کچھ جیسے آپ ﷺ نے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ چنانچہ قبروں، درختوں اور پتھروں ساری چیزوں کی پوجا کی گئی۔
آپ ﷺ نے نبوت کے دعوے دار ظاہر ہونے کے خبر دی اور فرمایا کہ جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا کیونکہ آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ نے خوشخبری دی کہ آپ ﷺ کی امت میں سے ایک گروہ اسلام پر قائم رہے گا حالانکہ بہت المناک واقعات اور مصائب کا ظہور ہو گا اور یہ کہ یہ گروہ باوجود اپنی قلت کے اپنے دشمنوں اور مخالفین سے بالکل بھی زک نہیں اٹھائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3337

 
 
Hadith   288   الحديث
الأهمية: إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله -تعالى- إذا أحب قوما ابتلاهم؛ فمن رضي فله الرضى، ومن سخط فله السخط


Tema:

آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اس کو آزمائش سے دوچار فرماتا ہے۔ پس جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "إن عِظَمَ الجزاءِ مع عِظَمِ البلاءِ، وإن الله -تعالى- إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رَضِيَ فله الرِضا، ومن سَخِطَ فله السُّخْطُ".

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اس کو آزمائش سے دوچار کرتا ہے۔ پس جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن المؤمن قد يحل به شيء من المصائب في نفسه أو ماله أو غير ذلك، وأن الله سيثيبه على تلك المصائب إذا هو صبر، وأنه كلما عظمت المصيبة وعظم خطرها عظم ثوابها من الله، ثم يبين -صلى الله عليه وسلم- بأن المصائب من علامات حب الله للمؤمن، وأن قضاء الله وقدره نافذان لا محالة، ولكن من صبر ورضي، فإن الله سيثيبه على ذلك برضاه عنه وكفى به ثوابا، وأن من سخط وكره قضاء الله وقدره، فإن الله يسخط عليه وكفى به عقوبة.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ مومن کو اس کے جان و مال وغیرہ میں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ صبر کرے گا تو اللہ ان مصائب پر اسے ثواب دے گا اور یہ کہ مصیبت جتنی بڑی اور خطرناک ہوتی ہے اس پر اللہ کی طرف سے اتنا ہی بڑا ثواب ملتا ہے۔ پھر نبی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ مصائب کا آنا اللہ تعالیٰ کی مومن کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور یہ کہ جو اللہ کی قضا و قدر میں لکھا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہنا ہے لیکن جو شخص صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے اسے اللہ تعالی اپنی رضا کے ساتھ نوازے گا اور اسے ثواب دے گا اور جو برہم ہوتا ہے اور اللہ کی قضا و قدر کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس پر برہم ہوتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3339

 
 
Hadith   289   الحديث
الأهمية: مثل القائم في حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة فصار بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم


Tema:

اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگ کشتی کے اوپر والے حصے میں اور بعض نیچے والے حصے میں آ گئے۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «مَثَلُ القَائِم في حُدُود الله والوَاقِعِ فيها كمَثَل قَوم اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَة فصارَ بعضُهم أَعلاهَا وبعضُهم أسفَلَها، وكان الذين في أسفَلِها إِذَا اسْتَقَوا مِنَ الماءِ مَرُّوا على من فَوقهِم، فَقَالُوا: لَو أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقاً وَلَم نُؤذِ مَنْ فَوقَنَا، فَإِنْ تَرَكُوهُم وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعاً، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيدِيهِم نَجَوا وَنَجَوا جَمِيعاً».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگ کشتی کے اوپر والے حصے میں اور بعض نیچے والے حصے میں آ گئے۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں (اور انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے) تو یہ خود بھی بچ جائیں گے اور باقی لوگ بھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث النعمان بن بشير الأنصاري -رضي الله عنهما- في باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "مثل القائم في حدود الله والواقع فيها" القائم فيها يعني الذي استقام على دين الله فقام بالواجب، وترك المحرم، والواقع فيها أي: في حدود الله، أي: الفاعل للمحرم، أو التارك للواجب.
"كمثل قوم استهموا على سفينة" يعني ضربوا سهما، وهو ما يسمى بالقرعة، أيهم يكون الأعلى؟.
"فصار بعضهم أعلاها، وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا الماء"، يعني إذا طلبوا الماء؛ ليشربوا منه "مروا على من فوقهم"، يعني الذين في أعلاها؛ لأن الماء لا يقدر عليه إلا من فوق.
"فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا"، يعني لو نخرق خرقا في مكاننا نستقي منه، حتى لا نؤذي من فوقنا، هكذا قدروا وأرادوا وتمنوا.
قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "فإن تركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا"؛ لأنهم إذا خرقوا خرقا في أسفل السفينة دخل الماء، ثم أغرق السفينة كلها.
"وإن أخذوا على أيديهم" ومنعوهم من ذلك "نجوا ونجوا جميعا"، يعني نجا هؤلاء وهؤلاء.
وهذا المثل الذي ضربه النبي -صلى الله عليه وسلم- هو من الأمثال التي لها مغزى عظيم ومعنى عال، فالناس في دين الله كالذين في سفينة في لجة النهر، فهم تتقاذفهم الأمواج، ولابد أن يكون بعضهم إذا كانوا  كثيرين في الأسفل وبعضهم في أعلى، حتى تتوازن حمولة السفينة وقد لا يضيق بعضهم بعضا، وفيه أن هذه السفينة المشتركة بين هؤلاء القوم إذا أراد أحد منهم أن يخربها فإنه لابد أن يمسكوا على يديه، وأن يأخذوا على يديه؛ لينجوا جميعا، فإن لم يفعلوا هلكوا جميعا، هكذا دين الله، إذا أخذ العقلاء وأهل العلم والدين على الجهال والسفهاء نجوا جميعا، وإن تركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا، كما قال الله -تعالى-: (واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة واعلموا أن الله شديد العقاب).
606;عمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب سے متعلق ہے۔ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
”مثل القائم في حدود الله والواقع فيها“: یعنی جو اللہ کے دین پر ثابت قدم رہا، واجبات کی ادائیگی کرتا رہا اور حرام کردہ اشیاء سے بچتا رہا اور وہ جو حدود میں جا پڑنے والا ہے یعنی حرام کا ارتکاب کرنے والا اور واجبات کو ترک کرنے والا ہے۔
”كمثل قوم استهموا على سفينة“: اس کی مثال ان لوگوں کی طرح جنہوں نے تیر پھینکے یعنی جنہوں نے اس سلسلے میں قرعہ اندازی کی کہ کون اوپر والے حصے میں رہے گا؟۔
”فصار بعضهم أعلاها، وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا الماء“: یعنی جب انہیں پینے کے لیے پانی کی طلب ہوتی تو وہ اپنے اوپر والوں کے پاس سے گزرتے کیونکہ اوپر والی منزل سے ہی (ڈول لٹکا کر) پانی نکالا جا سکتا ہے۔
”فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا“: یعنی اگر ہم اپنی جگہ پر پانی نکالنے کے لیے ایک سوراخ کرلیں تو یہ بہتر ہو گا تاکہ ہم اپنے اوپر والے لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ وہ یہ فیصلہ کرلیں اور ایسا کرنے کا ارادہ اور خواہش رکھیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا ”اگر اوپر والے انہیں ویسا کرنے دیں گے جسا کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے“۔ کیونکہ جب وہ نچلے حصے میں سوراخ کریں گے تو اس میں سے پانی اندر آ جائے گا جو پورے جہاز کو غرق کر دے گا۔
”اگر وہ ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں گے“ اور انہیں روک دیں گے تو یہ بھی بچ جائیں گے اور وہ بھی۔
یہ ایک مثال ہے جو نبی ﷺ نے دی۔ یہ ایسی مثال ہے جو اپنے لب لباب کے لحاظ سے عظیم اور معنوی اعتبار سے بہت بلند ہے۔ لوگ اللہ کے دین میں ایسے ہی ہیں جیسے دریا کے طلاطم میں جہاز ہوتا ہے۔ اس پر سوار لوگوں کو موجیں ادھر ادھر پھینکتی ہیں۔ جب لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو کچھ اوپری حصے پر چلے جاتے ہیں اور کیچھ نیچے والے میں تاکہ جہاز کا توازن قائم رہے اور وہ ایک دوسرے سے وہ تنگی محسوس نہ کریں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ یہ کشتی سب کی مشترک ہے۔ اگر ان میں سے کوئی اسے خراب کرنے کا ارادہ کرے تو دوسروں پر لازم ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیں تاکہ سب نجات پا جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اللہ کا دین بھی ایسے ہی ہے۔ جب عقل مند لوگ، اہل علم اور دین دار حضرات جاہلوں اور بے وقوفوں کو روک لیں گے تو سب کی خلاصی ہو جائے گی اور اگر انہیں بنا روکے چھوڑ دیں گے اور انہیں جو وہ کرنا چاہتے ہوں گے کرنے دیں گے تو سب ہلاک ہو جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (لأنفال: 25)۔
ترجمہ: "اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے/۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3341

 
 
Hadith   290   الحديث
الأهمية: أنا أغنى الشركاء عن الشرك؛ من عمل عملا أشرك معي فيه غيري تركته وشركه


Tema:

میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ کوئی شخص جب كوئی عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرتا ہے تو میں اسے اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعا: "قال -تعالى-: أنا أغنى الشركاء عن الشرك؛ من عمل عملا أشرك معي فيه غيري تركتُه وشِرْكَه".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمام شرکاء کی بنسبت شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ کوئی شخص جب كوئی عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرتا ہے تو میں اسے اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يروي النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن ربه عز وجل -ويسمَّى بالحديث القدسي- أنه يتبرأ من العمل الذي دخله مشاركةٌ لأحد برياءٍ أو غيره؛ لأنه سبحانه لا يقبل إلا ما كان خالصاً لوجهه.
606;بی ﷺ اللہ عز و جل کے ارشاد کو بیان کر رہے ہیں جسے حدیث قدسی کہا جاتا ہے کہ اللہ ہر اس عمل سے براءت کا اظہار کرتا جس میں ریاکاری یا کسی اور صورت میں شرک پایا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو خالصتا اس کی رضا کے لیے کیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3342

 
 
Hadith   291   الحديث
الأهمية: حدثوا الناس بما يعرفون، أتريدون أن يُكذَّب اللهُ ورسولهُ


Tema:

لوگوں سے ایسی بات کرو جنہیں وہ جانتے ہوں، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیا جائے؟

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: "حدثوا الناس بما يعرفون، أتريدون أن يُكذَّب اللهُ ورسولهُ؟".

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”لوگوں سے ایسی بات کرو جنہیں وہ جانتے ہوں، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیا جائے؟“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- إلى أنه لا ينبغي أن يحدث عامة الناس إلا بما هو معروف ينفع الناس في أصل دينهم وأحكامه من التوحيد وبيان الحلال والحرام ويُترك ما يشغل عن ذلك؛ مما لا حاجة إليه أو كان مما قد يؤدي إلى رد الحق وعدم قبوله مما يشتبه عليهم فهمه، ويصعب عليهم إدراكه.
575;میر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رہنمائی فرما رہے ہیں کہ عام لوگوں سے وہی باتیں کرنی چاہئے جو ان کے ہاں معروف ہوں اور جو انہیں ان کے دین کے سلسلے میں فائدہ دیں جیسے توحید اورحلال و حرام کی وضاحت اور جو باتیں ان سے دور رکھنے والی ہوں اور جن کی ضرورت نہ ہو یا پھر وہ باتیں جو حق کو جھٹلانے اور اس کے قبول نہ کرنے کا باعث ہوں اور جن کو سمجھنا ان کے لیے مشتبہ اور جن کا ادراک کرنا ان کے لیے مشکل ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3344

 
 
Hadith   292   الحديث
الأهمية: يا فلان، ما لك؟ ألم تك تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ فيقول: بلى، كنت آمر بالمعروف ولا آتيه، وأنهى عن المنكر وآتيه


Tema:

اے فلاں ! تجھے کیا ہوگیا؟ کیا تو نیکی کا حکم اور برائی سے رُکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور گناہوں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رُکتا تھا۔

عن أسامة بن زيد بن حارثة -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «يُؤتَى بِالرَّجُل يَومَ القِيَامَة فَيُلْقَى في النَّار، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَاب بَطْنِه فَيدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الحِمَارُ فِي الرَّحَى، فَيَجْتَمِع إِلَيه أَهلُ النَّارِ، فَيَقُولُون: يَا فُلاَنُ، مَا لَكَ؟ أَلَم تَكُ تَأمُرُ بِالمَعرُوف وَتَنْهَى عَن المُنْكَر؟ فيقول: بَلَى، كُنتُ آمُرُ بِالمَعرُوف وَلاَ آتِيهِ، وَأَنهَى عَن المُنكَر وَآتِيهِ».

اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کرجہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دیکھ کر جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھے کیا ہوگیا؟ کیا تو نیکی کا حکم اور برائی سے رُکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور گناہوں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رُکتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه التحذير الشديد من الرجل الذي يأمر بالمعروف ولا يأتيه، وينهى عن المنكر ويأتيه، والعياذ بالله.   تأتي الملائكة برجل يوم القيامة فيلقى في النار إلقاء، لا يدخلها برفق، ولكنه يلقى فيها كما يلقى الحجر في البحر، فتخرج أمعاؤه من بطنه من شدة الإلقاء، فيدور بأمعائه  كما يدور الحمار في الطاحون، فيجتمع إليه أهل النار، فيقولون له: ما لك؟ أي شيء جاء بك إلى هنا، وأنت تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ فيقول مُقِرًّا على نفسه: كنت آمر بالمعروف ولا أفعله، وأنهى عن المنكر وأفعله، فالواجب على المرء أن يبدأ بنفسه فيأمرها بالمعروف وينهاها عن المنكر؛ لأن أعظم الناس حقا عليك بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نفسك.
581;دیث شریف میں اس آدمی کے لیے سخت ڈراوا ہے جو اچھے کام کی دوسروں کو تو تلقین تو کرتا ہے لیکن خود اسے نہیں کرتا، اسی طرح لوگوں کو برائیوں سے منع کرتا ہے اور خود ان کا ارتکاب کرتا ہے۔ (العیاذ باللہ)
قیامت کے دن فرشتے ایک آدمی کو لے کر آئیں گے اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اسے آہستہ سے جہنم میں نہیں پھینکا جائے گا بلکہ ایسے پھینکا جائے گا جیسے پتھر کو سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ سختی کے ساتھ پھینکنے کی وجہ سے اس کی آنتیں اس کے پیٹ سے باہر آ جائیں اور وہ ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی میں گھومتا ہے۔ جہنم والے اس کے پاس اکٹھے ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ تجھے کیا ہوا؟ تجھے یہاں کون سی شے لے آئی؟ تو تو اچھائی کی تلقین کیا کرتا تھا اور برائی سے روکا کرتا تھا؟ وہ اقرار کرتا ہوا کہے گا کہ ہاں میں نیکی کی تلقین تو کیا کرتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں برائی سے منع کیا کرتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ چنانچہ بندے پر یہ واجب ہے کہ وہ نیکی کی تلقین اور برائی سے منع کرنے کا آغاز خود اپنے آپ سے کرے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے حق کے بعد سب سے زیادہ حق آپ پر اپنے آپ کا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3345

 
 
Hadith   293   الحديث
الأهمية: لا تتخذوا قبري عيدا، ولا بيوتكم قبورا، وصلوا علي، فإن تسليمكم يبلغني أين كنتم


Tema:

میری قبر کو عید ( میلا) نہ بنا لینا اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بننا۔ مجھ پر درود وسلام بھیجا کرو۔ کیوں کہ تمھارا بھیجا گیا سلام مجھ تک پہنچتا ہے چاہے، تم جہاں بھی ہو۔

عن علي بن الحسين: "أنه رأى رجلا يجيء إلى فُرْجَةٍ كانت عند قبر النبي -صلى الله عليه وسلم- فيدخل فيها فيدعو، فنهاه، وقال: ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي عن جدي عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:« لا تتخذوا قبري عيدا، ولا بيوتكم قبورا، وصلوا علي، فإن تسليمكم يبلغني أين كنتم».

علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا، جو نبی ﷺ کی قبر کے پاس موجود ایک شگاف میں سے اندر داخل ہوتا اور پھر دعا مانگا کرتا۔ انھوں نے اسے کہا: کیا میں تمھیں ایک ایسی حدیث نہ سناؤں، جو میں نے اپنے ابا سے اور انھوں نے میرے دادا سے سنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری قبر کو عید ( میلا) نہ بنا لینا اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بننا۔ مجھ پر درود وسلام بھیجا کرو۔ کیوں کہ تمھارا بھیجا گیا سلام مجھ تک پہنچتا ہے چاہے، تم جہاں بھی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا علي بن الحسين -رضي الله عنه- بأنه رأى رجلا يدعو الله سبحانه عند قبر النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأنه نهاه عن ذلك مستدلا بحديث النبي -صلى الله عليه وسلم- الذي ورد فيه النهي عن اعتياد قبره للزيارة، والنهي عن تعطيل البيوت من عبادة الله وذكره، وتشبيهها بالمقابر مخبرا أن سلام المسلم سيبلغه -صلى الله عليه وسلم- في أي مكان كان فيه المسلّم.
593;لی بن الحسین (رحمہ اللہ) بتا رہے ہیں کہ انھوں نے ایک شخص کو نبی ﷺ کی قبرمبارک کے پاس کھڑے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ انھوں نے اس حدیث نبوی ﷺ کی بنیاد پر اسے ایسا کرنے سے منع فرمایا، جس میں آپ ﷺ کی قبر پر بار بار آنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس حدیث میں گھروں کو اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے تہی کرنے سے بھی منع فرمایا گیا اور ایسے گھروں کو قبروں سے تشبیہہ دی گئی اور یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان کی طرف سے کیا گیا سلام آپ ﷺ تک پہنچتا ہے، چاہے وہ جس جگہ پربھی ہو۔   --  [یہ حدیث اپنی دیگر اسانید اور شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3346

 
 
Hadith   294   الحديث
الأهمية: إني أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل، فإن الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا


Tema:

میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا، تو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بناتا۔

عن جندب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- قبل أن يموت بخمس، وهو يقول: «إني أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل، فإن الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد، فإني أنهاكم عن ذلك».

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وفات سے پانچ دن قبل فرماتے ہوئے سنا: ”میں اللہ تعالی کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا، تو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بناتا۔ خبردار! بے شک تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ لہذا خبردارتم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يتحدث -صَلّى اللَّه عَلَيْهِ وَسلّمَ- قبيل وفاته إلى أمته بحديث مهمّ، فيخبر عن مكانته عند الله، وأنها بلغت أعلى درجات المحبة، كما نالها إبراهيم -عليه السلام-، ولذلك نفى أن يكون له خليلٌ غير الله؛ لأن قلبه امتلأ من محبته وتعظيمه ومعرفته، فلا يتسع لأحد، والخلة في قلب المخلوق لا تكون إلا لواحد، ولو كان له خليلٌ من الخلق لكان أبا بكر الصديق -رضي الله عنه-، وهو إشارةٌ إلى فضل أبي بكر واستخلافه من بعده، ثم أخبر عن غلو اليهود والنصارى في قبور أنبيائهم حتى صيّروها متعبدات شركية، ونهى أمته أن يفعلوا مثل فعلهم، والنصارى ليس لهم إلا نبي واحد وهو عيسى، لكنهم يعتقدون أن له قبرًا في الأرض، والجمع باعتبار المجموع، والصحيح أن عيسى -عليه السلام- رفع ولم يصلب ولم يدفن.
606;بی ﷺ اپنی وفات سے کچھ قبل اپنی امت سے ایک بہت اہم بات ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مقام کو بیان کر رہے ہیں کہ وہ محبت کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں، جیسا کہ یہ درجہ ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا آپ ﷺ کا کوئی خلیل نہیں ہے؛ کیوں کہ آپ ﷺ کا دل اللہ کی محبت و عظمت اور اس کی معرفت سے لبریز ہے اور اس میں کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ مخلوق کے دل میں دوستی (الخلة) صرف ایک ہی کے لیے ہوا کرتی ہے۔ اگر مخلوق میں سے کوئی آپ ﷺ کا خلیل ہوتا، تو وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔ اس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضلیت اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے خلیفہ ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے غلو کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو شرکیہ عبادت گاہیں بنا لیں۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو ان کی طرح کرنے سے منع فرمایا۔ عیسائیوں کا نبی تو ایک ہی ہے، یعنی عیسی علیہ السلام، تاہم وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی قبر زمین پر ہے۔ یہاں 'انبیاء' کا جو جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، وہ یہود و نصاری کے مجموعہ کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ صحیح بات تو یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا گیا ہے وہ نہ تو سولی چڑھے تھے اور نہ ہی کہیں مدفون ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3347

 
 
Hadith   295   الحديث
الأهمية: كنت رجلا مذَّاءً، فاستحييت أن أسأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لمكان ابنته مني، فأمرت المقداد بن الأسود فسأله، فقال: يغسل ذكره، ويتوضأ


Tema:

مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے ساتھ میرا جو رشتہ تھا اس کی بنا پر مجھے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھنے میں شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنا آلہ تناسل کو دھو کر وضوء کر لیا کرے“۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: ((كُنتُ رَجُلاً مَذَّاءً, فَاسْتَحْيَيتُ أَن أَسأَل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لِمَكَان ابنَتِهِ مِنِّي, فَأَمرت المِقدَاد بن الأسود فَسَأَله, فقال: يَغْسِل ذَكَرَه, ويَتَوَضَّأ)).
وللبخاري: ((اغسل ذَكَرَك وتوَضَّأ)).
 ولمسلم: ((تَوَضَّأ وانْضَح فَرْجَك)).

علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے ساتھ میرا جو رشتہ تھا، اس کی بنا پر مجھے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھنے میں شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے آلۂ تناسل کو دھو کر وضو کر لیا کرے“۔
صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: ”اپنا آلۂ تناسل دھو کر وضو کر لیا کرو“۔
اور صحیح مسلم میں ہے: ”وضو کر لیا کرو اور اپنی شرم گاہ پر پانی چھڑک لیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول علي -رضي الله عنه-: كنت رجلًا كثير المذْيِ، وكنت أغتسل منه حتى شق عليَّ الغُسل؛ لأني ظننت حكمه حكم المني، فأردت أن أتأكد من حكمه، وأردت أن أسأل النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولكن لكون هذه المسألة تتعلق بالفروج، وابنته تحتي، استحييت من سؤاله، فأمرتُ المقداد -رضي الله عنه- أن يسأله، فسأله فقال: إذا خرج منه المذي فليغسل ذَكَرَهُ حتى يتقلص الخارج الناشئ من الحرارة، ويتوضأ لكونه خارجًا من أحد السبيلين، والخارج من أحدهما من نواقض الوضوء، فيكون -صلى الله عليه وسلم- قد أرشد السائل بهذا الجواب إلى أمر شرعي وأمر طبي.
593;لی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی اور میں اس کے آنے پر غسل کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ غسل کرنا میرے لیے بہت دشوار ہو گیا؛ کیوںکہ میرے خیال میں اس کا بھی وہی حکم تھا، جو منی کا ہوتا ہے۔ میں نے اس کے حکم کے بارے میں یقین کرنا چاہا اور ارادہ کیا کہ نبی ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھوں۔ چوںکہ اس مسئلے کا تعلق شرم گاہ سے تھا اور آپ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں تھیں، اس لیے مجھے یہ سوال پوچھتے ہوئے شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب اس کی مذی نکلا کرے، تو وہ اپنے آلۂ تناسل کو دھو لیا کرے؛ تا کہ گرمی کی وجہ سے نکلنے والا یہ مادہ پانی کے چھڑکاؤ سے ختم ہوجائے۔ پھر وہ وضو کر لے؛ کیوںکہ یہ دونوں راستوں میں سے ایک سے نکلتی ہے اور جو شے ان میں سے کسی ایک سے نکلے، وہ نواقضِ وضو میں سے شمار ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے اس جواب کے ذریعے سوال پوچھنے والے کی ایک شرعی اور ایک طبی امر کی طرف راہ نمائی فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3348

 
 
Hadith   296   الحديث
الأهمية: لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا عليّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم


Tema:

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔ مجھ پر درود بھیجو۔ تمہارا بھیجا گیا درود مجھ تک پہنچتا ہے چاہے تم جہاں بھی ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا عليّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔ مجھ پر درود بھیجو۔ تمہارا بھیجا گیا درود مجھ تک پہنچتا ہے چاہے تم جہاں بھی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن إخلاء البيوت من صلاة النافلة فيها والدعاء وقراءة القرآن فتكون بمنزلة القبور؛ لأن النهي عن الصلاة عند القبور قد تقرر عندهم فنهاهم أن يجعلوا بيوتهم كذلك، ونهى عن تكرار زيارة قبره والاجتماع عنده على وجهٍ معتاد؛ لأن ذلك وسيلةٌ إلى الشرك، وأمر بالاكتفاء عن ذلك بكثرة الصلاة والسلام عليه في أي مكان من الأرض؛ لأن ذلك يبلغه من القريب والبعيد على حدّ سواء، فلا حاجة إلى التردد إلى قبره.
606;بی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ گھروں کو نفل نمازوں، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت سے خالی رکھا جائے اور اس طرح سے یہ گویا قبریں بن جائیں کیونکہ صحابہ کرام کو یہ تو معلوم تھا کہ قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ اپنے گھروں کو ہی ایسا بنا دیں جیسے قبریں ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی قبر مبارک کی بار بار زیارت اور اس پر جمع ہونے کو معمول بنا لینے سے منع فرمایا کیونکہ یہ شرک تک لے جانے کا ایک سبب ہے اور حکم فرمایا کہ آپ ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود و سلام بھیجنے پر اکتفاء کیا جائے چاہے وہ زمین کے کسی بھی گوشے سے ہو۔ کیونکہ آپ ﷺ تک یہ درود قریب و بعید ہر شخص کی طرف سے برابر طور پر پہنچتا ہے لہذا آپ ﷺ کی قبر پر بار بار آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3350

 
 
Hadith   297   الحديث
الأهمية: يا رسول الله, إن الله لا يستحيي من الحق، فهل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: نعم, إذا رأت الماء


Tema:

یا رسول اللہ! اللہ تعالی حق کو بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا۔ آپ یہ بتائیں کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہے؟۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جب وہ پانی دیکھ لے۔

عن أم سلمة -رضي الله عنها- قالت: «جاءت أمُّ سُلَيمٍ امرأةُ أَبِي طَلحة إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقالت: يا رسول الله, إنَّ الله لا يَسْتَحيِي من الحَقِّ, فهل على المرأة من غُسْلٍ إِذَا هِيَ احْتَلَمَت؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: نعم, إِذَا رَأَت المَاء».

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو طلحہ کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: یا رسول اللہ! اللہ تعالی حق کو بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا۔ آپ یہ بتائیں کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے، تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہے؟۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جب وہ پانی دیکھ لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاءت أم سليم الأنصارية -رضي الله عنها- إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- لتسأله، ولما كان سؤالها مما يتعلق بالفروج، وهي مما يستحيا من ذكره عادة قدمت بين يدي سؤالها تمهيداً لإلقاء سؤالها؛ حتى يخف موقعه على السامعين.
 فقالت: إن الله -عز وجل- وهو الحق، لا يمتنع من ذكر الحق الذي يستحيا من ذِكره من أجل الحياء، مادام في ذكره فائدة، فلما ذكرت أم سليم هذه المقدمة التي لطفت بها سؤالها، دخلت في صميم الموضوع، فقالت: هل على المرأة غسل إذا هي تخيلت في المنام أنها تجامع؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: نعم، عليها الغسل، إذا هي رأت نزول ماء الشهوة.
575;م سلیم انصاریہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے آئیں۔ چونکہ ان کے سوال کا تعلق شرم گاہوں سے تھا جن کے ذکر سے عموما حیاء محسوس کی جاتی ہے اس لئے انہوں نے اپنا سوال رکھنے سے پہلے تمہید باندھی تاکہ سننے والوں پر اس کا اثر کچھ کم ہو جائے۔
کہنے لگیں کہ اللہ عز و جل جو بذات خود حق ہیں، ایسی حق بات کے بیان سے نہیں رکتا جسے ذکر کرنے میں حیاء محسوس کی جاتی ہے جب کہ اس کے بیان میں کوئی فائدہ ہو۔ اس مقدمہ کو ذکر کرنے کے بعد جس سے ان کے سوال کی شدت کم ہو گئی، ام سلیم رضی اللہ عنہا اصل موضوع کی طرف آئیں اور پوچھنے لگیں: اگر عورت خواب میں دیکھے کہ وہ مجامعت کر رہی ہے تو کیا اس پر غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس پر غسل واجب ہو جاتا ہےجب کہ وہ شہوت سے نکلنے والے پانی (مادہ منویہ) کو دیکھ لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3351

 
 
Hadith   298   الحديث
الأهمية: لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان


Tema:

اس طرح مت کہو کہ: جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں چاہے۔

عن حذيفة بن اليمان - رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس طرح مت کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں چاہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهى - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن يُعطف اسم المخلوق على اسم الخالق بالواو بعد ذكر المشيئة ونحوها؛ لأن المعطوف بها يكون مساوياً للمعطوف عليه؛ لكونها إنما وُضعت لمطلق الجمع فلا تقتضي ترتيباً ولا تعقيباً؛ وتسوية المخلوق بالخالق شركٌ، ويُجوِّز -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عطف المخلوق على الخالق بثُمّ؛ لأن المعطوف بها يكون متراخياً عن المعطوف عليه بمهلة فلا محذور؛ لكونه صار تابعاً.
606;بی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مشیئت وغیرہ جیسے افعال کے ذکر کے بعد مخلوق کے نام کا عطف خالق کے نام پر حرف "و" کے ساتھ کیا جائے اس لیے کہ واؤ کے ساتھ کیا گیا معطوف، معطوف علیہ کے مساوی ہوتا ہے کیونکہ واؤ کی وضع مطلق جمع کے لیے ہے اور یہ ترتیب و تعقیب کا تقاضا نہیں کرتا اور مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرانا شرک ہے۔ تاہم نبی ﷺ نے مخلوق کے نام کا خالق کے نام پر "ثم" کے ذریعے عطف کرنے کو جائز قرار دیا کیونکہ "ثم" کے ساتھ کیا گیا معطوف، معطوف علیہ سے کچھ مؤخر ہوتا ہے چنانچہ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں یہ تابع ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3352

 
 
Hadith   299   الحديث
الأهمية: لأن أحلف بالله كاذبًا أحب إليَّ من أن أحلف بغيره صادقًا


Tema:

میرے نزدیک غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا زیادہ بہتر ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: "لأن أحلف بالله كاذبًا أحب إليَّ من أن أحلف بغيره صادقًا".

عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا زیادہ بہتر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول ابن مسعود -رضي الله عنه-: إقسامي بالله على شيء أنا كاذبٌ فيه على فرض وقوعه أحب إلي من إقسامي بغير الله على شيءٌ أنا صادقٌ فيه؛ وإنما رجح الحلف بالله كاذباً على الحلف بغيره صادقاً؛ لأن الحلف بالله في هذه الحالة فيه حسنة التوحيد، وفيه سيئة  الكذب، والحلف بغيره صادقاً فيه حسنة الصدق وسيئة الشرك، وحسنة التوحيد أعظم من حسنة الصدق، وسيئة الكذب أسهل من سيئة الشرك
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ بالفرض اگر میں کسی ایسی بات پر اللہ کی قسم اٹھاؤں، جس میں میں جھوٹا ہوں، تو یہ مجھے اس سے زیادہ بہتر لگتا ہے کہ میں کسی ایسی شے پر غیر اللہ کی قسم اٹھاؤں جس میں میں سچا ہوں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ کی جھوٹی قسم کو غیر اللہ کی سچی قسم پر ترجیح دی؛ کیوں کہ اس حالت میں اللہ کی قسم اٹھانے میں توحید کی نیکی اور جھوٹ کی برائی پائی جاتی ہے، جب کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے میں سچائی کی نیکی اور شرک کی برائی پائی جاتی ہے۔ توحید کی نیکی صدق کی نیکی سے بڑی ہے اور جھوٹ کی برائی شرک کی برائی سے کم تر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3353

 
 
Hadith   300   الحديث
الأهمية: إن الله -تعالى- يغار، وغيرة الله -تعالى-، أن يأتي المرء ما حرم الله عليه


Tema:

اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّ الله -تَعَالى- يَغَارُ، وغَيرَةُ الله -تَعَالَى-، أَنْ يَأْتِيَ المَرء ما حرَّم الله عليه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہےکہ بندہ وہ کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء الحديث ليبين أن الله يغار على محارمه، يبغض ويكره انتهاك حدوده، ومن ذلك فاحشة الزنا، فهو طريق سافل سيِّئ، ومِن ثَمَّ حرَّم الله على عباده الزنا وجميع وسائله، فإذا زنى العبد، فإنَّ الله يغار غيرة أشد وأعظم من غيرته على ما دونه من المحارم، وكذلك أيضا اللِّوَاط، وهو إتيان الذَكَر، فإِنَّ هذا أعظم وأعظم؛ ولهذا جعله الله تعالى أشدَّ في الفُحش من الزنا.
 وكذلك أيضا السرقة وشرب الخمر وكل المحارم يغار الله منها، لكن بعض المحارم تكون أشد غيرة من بعض، حسب الجُرم، وحسب المضَّار التي تترتَّب على ذلك.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ محرمات (حرام کردہ کاموں) کے ارتکاب پر اللہ کو غیرت آتی ہے اور اس کو یہ بات مبغوض وناپسندیدہ ہے کہ اس کی حدود کو پامال کیا جائے۔ اور ان میں سے ایک زنا ہے۔ یہ بہت ہی گھٹیا اور براعمل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر زنا کو اس کے تمام ذرائع سمیت حرام کیا ہے۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو اللہ کو دوسرے حرام کاموں کی بنسبت زیادہ غیرت آتی ہے۔ اسی طرح لواطت ہے یعنی مرد کے ساتھ بد فعلی کرنا۔ یہ تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برائی کے اعتبار سے اسے زنا سے بھی زیادہ سخت جرم قرار دیا ہے۔ بعینہ چوری، شراب نوشی اور تمام قسم کے حرام کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے۔تاہم بعض حرام کام پر ـــــــــــ جرم اور اس پر مرتب ہونے والے مضر اثرات کے لحاظ سے دوسرے حرام کاموں کی بنسبت زیادہ غیرت آتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3354

 
 
Hadith   301   الحديث
الأهمية: لتتبعن سنن من كان قبلكم، حذو القذة بالقذة، حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه. قالوا: يا رسول الله، اليهود والنصارى؟ قال: فمن؟


Tema:

تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے جیسے تیار کیا ہوا تیر دوسرے تیر کے مطابق ہوتا ہے حتى كہ اگر وہ گوہ کی بِل ميں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے. صحابہ كرام نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اور کون؟!

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لتتبعن سنن من كان قبلكم، حذو القذة بالقذة، حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه. قالوا: يا رسول الله، اليهود والنصارى؟ قال: فمن؟ "

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے جیسے تیار کیا ہوا تیر دوسرے تیر کے مطابق ہوتا ہے حتى كہ اگر وہ گوہ کی بِل ميں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے“۔ صحابہ كرام نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اور کون؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا أبو سعيد -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أخبر بأن هذه الأمة ستقلد الأمم السابقة في عاداتها وسياساتها ودياناتها، وأنها ستحاول مشابهتهم في كل شيء، كما تشبه ريشة السهم للريشة الأخرى، ثم أكد هذه المشابهة والمتابعة بأن الأمم السابقة لو دخلت جحر ضب مع ضيقه وظلمته لحاولت هذه الأمة دخوله، ولما استفسر الصحابة -رضي الله عنهم- عن المراد بمن كان قبلهم، وهل هم اليهود والنصارى؟ أجاب بنعم.
575;بو سعید رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ امت سابقہ امتوں کی ان کی عادات، ان کے طور طریقوں اور ان کے دینی امور میں تقلید کرے گی اور ہر شے میں ان کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرے گی جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے پر سے مشابہ ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس مشابہت اور اتباع کی تاکید میں فرمایا کہ اگر سابقہ امتیں گوہ کی بل میں باوجود اس کی تنگی اور اندھیرے کے داخل ہوئی ہوں گی تو یہ امت بھی اس میں گھسنے کی کوشش کرے گی۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ کیا پچھلی امتوں سے یہودی اور نصرانی مراد ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3355

 
 
Hadith   302   الحديث
الأهمية: إذا لبستم، وإذا توضأتم، فابدأوا بأيامنكم


Tema:

جب تم لباس پہنو اور جب تم وضو کرو، تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِذَا لَبِسْتُم، وَإِذَا تَوَضَّأتُم، فَابْدَأُوا بَأَيَامِنُكُم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم لباس پہنو اور جب تم وضو کرو، تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكَّد حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- موضوع استحباب التيمن في الأمور الكريمة، فروى أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:
"إذا لبستم" أي أردتم اللبس
و"إذا توضأتم" أي أردتم أعماله.
 "فابدءوا بأيامنكم" جمع أيمن وهو خلاف الأيسر، فيدخل الجانب الأيمن في نحو القميص، قبل الأيسر ويقدم اليمنى من يديه ورجليه في الوضوء، ثم اعلم أن من أعضاء الوضوء ما لا يستحب فيه التيامن، وهو الأذنان، والكفان، والخدان، بل يطهران دفعة واحدة، فإن تعذر ذلك كما في حق الأقطع ونحوه قدَّم اليمين.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں اچھے کاموں کے دائیں طرف سے آغاز کے استحباب کی تاکید ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
"إذا لبستم" یعنی جب تم لباس پہننے کا ارادہ کرو۔
"إذا توضأتم" یعنی جب تمھارا وضو کے اعمال سر انجام دینے کا ارادہ ہو۔
”فابدءوا بأيامنكم“ 'أيامن' جمع ہے 'أيمن' کی، جو کہ 'الأيسر' کی ضد ہے۔ چنانچہ قمیص وغیرہ میں دائیں جانب کو بائیں طرف سے پہلے داخل کرے اور وضو میں اپنے دائیں ہاتھ اور پاؤں کو مقدم رکھے۔ حتی کہ معذور شخص بھی وضو کے تمام اعمال میں دائیں طرف سے آغاز کرے گا۔
واضح رہے کہ وضو کے کچھ اعضا ایسے ہیں، جن میں دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب نہیں، بلکہ انھیں یکبارگی پاک کیا جاتا ہے، جیسے دونوں کان، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں رخسار۔ اگر کسی کے لیے ایک ساتھ پاک کرنا ممکن نہ ہو، جیسے ایک ہاتھ سے معذور آدمی، تو وہ داہنے حصے کو مقدم رکھے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3356

 
 
Hadith   303   الحديث
الأهمية: من ابتلي من هذه البنات بشيء فأحسن إليهن كُنَّ له سترًا من النار


Tema:

جو شخص ان بچیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: دَخَلَت عَلَيَّ امرأَة ومعَهَا ابنَتَان لَهَا، تَسْأَل فَلَم تَجِد عِندِي شَيئًا غَير تَمرَة وَاحِدَة، فَأَعْطَيتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمتْهَا بَينَ ابنَتَيهَا وَلَم تَأكُل مِنهَا، ثُمَّ قَامَت فَخَرَجَت، فَدَخَل النبي -صلى الله عليه وسلم- علينا، فَأَخْبَرتُه فقال: «مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هذه البنَاتِ بِشَيءٍ فأَحْسَن إِلَيهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِن النَّار».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں۔ اس نے مجھ سے مانگا لیکن اُسے میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہ مل سکا۔ چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی۔ اس نے اس کھجور کو اپنی دونوں بچیوں میں بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اتنے میں نبی ﷺ گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ان بچیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخلت على عائشة -رضي الله عنها- امرأة ومعها ابنتان لها تسأل -وذلك لأنها فقيرة- قالت: فلم تجد عندي إلا تمرة واحدة، قالت: فأعطيتها إياها فقسمتها بين ابنَتَيها نِصفَين، وأَعطَت وَاحِدة نصف التمرة، وأعطت الأخرى نصف التمرة الآخر، ولم تأكل منها شيئا.
فدخل النبي -صلى الله عليه وسلم- على عائشة فأخبرته لأنها قصة غريبة عجيبة، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "من ابتلي بشيء من هذه البنات فأحسن إليهن كن له سترا من النار".
 ولا يفهم من قوله -صلى الله عليه وسلم-: "من ابتلي": بلوى الشر، لكن المراد: من قُدِّر له، كما قال الله -تعالى-: (ونبلوكم بالشر والخير فتنة وإلينا ترجعون) . يعني من قُدِّر له ابنتان فأحسن إليهما كُنَّ له سِترا من النَّار يوم القيامة، يعني أن الله -تعالى- يحجِبُه عن النار بِإِحسانه إلى البنات؛ لأنَّ البِنت ضعيفة لا تستطيع التَكَسُّب، والذي يكتسب هو الرجل، قال الله -تعالى-: (الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم)  .
593;ائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ وہ آپ رضی اللہ عنہا سے مانگ رہی تھی کیونکہ وہ غریب عورت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اسے میرے پاس سے صرف ایک کھجور ہی ملی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اسے یہ دے دی۔ اس نے یہ کھجور آدھی آدھی کر کے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی۔ آدھی ایک بیٹی کو دے دی اور آدھی دوسری کو اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔نبی ﷺ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا کیونکہ یہ بہت عجیب وغریب قصہ تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اوراس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی“۔
نبی ﷺ کے فرمان: ”جس شخص کی آزمائش کی گئی“ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے مراد بری آزمائش ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کے مقدر میں یہ ہوئیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [الأنبياء: 35] ترجمہ:”ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارہی ہی طرف لوٹائے جاؤگے“۔ یعنی جس کے مقدر میں دو بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تو وہ قیامت کے دن اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔ یعنی بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے اوٹ میں کر دے گا کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور کمائی نہیں کر سکتی۔ کمائی مرد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ [النساء: 34]۔
ترجمہ: ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں“۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3358

 
 
Hadith   304   الحديث
الأهمية: من حلف بغير الله قد كفر أو أشرك


Tema:

جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "من حلف بغير الله قد كفر أو أشرك"

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر کیا یا شرک کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في هذا الحديث خبراً معناه النهي: أن من أقسم بغير الله من المخلوقات فقد اتخذ ذلك المحلوف به شريكاً لله وكفر بالله؛ لأن الحلف بالشيء يقتضي تعظيمه، والعظمة في الحقيقة إنما هي لله وحده، فلا يُحلف إلا به أو بصفة من صفاته.
575;س حدیث میں آپ ﷺ خبر دینے کے انداز میں منع فرما رہے ہیں کہ جس نے اللہ کے سوا مخلوق میں سے کسی کی قسم کھائی، تو اس نے اس چیز کو اللہ کا شریک بنایا اور اللہ کے ساتھ کفر کیا، اس لیے کہ کسی چیز کی قسم کھانا اس کی تعظیم کا تقاضہ کرتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں عظمت صرف ایک اللہ کی ہے، لہٰذا صرف اس کی ذات یا صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھائی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3359

 
 
Hadith   305   الحديث
الأهمية: من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين


Tema:

جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ عَالَ جَارِيَتَين حتَّى تَبلُغَا جاء يَومَ القِيَامَة أَنَا وَهُو كَهَاتَين» وضَمَّ أَصَابِعَه.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے“۔ (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث فضل عول الإنسان للبنات، وذلك أنَّ البنت قاصرة ضعيفة، والغالب أنَّ أهلها لا يأبَهُون بها، ولا يهتمُّون بها، فلذلك قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "من عال جاريتين حتى تبلغا، جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين" وضَمَّ إصبعيه: السبابة والوسطى، والمعنى أنه يكون رفيقا لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- في الجنة إذا عال الجارتين، يعني الأنثيين من بنات أو أخوات أو غيرهما، أي أنه يكون مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الجنة، وقرن بين إصبعيه -عليه الصلاة والسلام-.
والعول في الغالب يكون بالقيام بمؤونة البدن، من الكسوة والطعام والشراب والسكن والفراش ونحو ذلك، وكذلك يكون بالتعليم والتهذيب والتوجيه والأمر بالخير والنهي عن الشر وما إلى ذلك، فيجمع القائم بمصالح البنات بالنفع العاجل الدنيوي، والآجل الأخروي.
575;س حدیث میں انسان کے بچیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت کا بیان ہے، کیونکہ بیٹی عاجز و کمزور ہوتی ہے اور اکثر اس کے گھر والے اس کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے“۔ اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھی ہو گا اگر اس نے دو لڑکیوں یعنی دو بیٹیوں یا بہنوں وغیرہ کی پرورش کی ہوگی۔ یعنی وہ جنت میں نبی ﷺ کے ساتھ ہو گا، اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو باہم ملا لیا۔
پرورش زیادہ تر جسمانی ضروریات کو پورا کر کے ہوتی ہے جیسے کپڑا، کھانا پینا، رہائش اور بستر وغیرہ، اور اسی طرح یہ تعلیم وتربیت کرنے، مہذب وشائستہ بنانے، راہنمائی کرنے، اچھی باتوں کی تلقین اور بری باتوں سے روک کر بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ لڑکیوں کے مفادات کا نگہبان شخص ان کی دنیوی منفعت کے ساتھ ہی ان کی اخروی منفعت کا خیال رکھے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3360

 
 
Hadith   306   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده، لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ أفشوا السلام بينكم


Tema:

قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّة حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُوا، أَوَلاَ أَدُلُّكُم عَلَى شَيءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُم؟ أَفْشُوا السَّلاَم بَينَكُم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صدَّر المصطفى -صلى الله عليه وسلم- الحديث بالقسم المفيد للتوكيد على أهمية ما تحمله هذه الوصية النبوية العظيمة، والتي تحمل في مضمونها الأسباب الخُلقية التي متى تمسَّك بها المجتمع المسلم تماسَك بنيانه وقَوِيَ.
فقوله -صلى الله عليه وسلم-: "لاتدخلوا الجنة حتى تؤمنوا" على ظاهره وإطلاقه، فلا يدخل الجنة إلا من مات مؤمنًا وإن لم يكن كامل الإيمان فإن مآله الجنة، فهذا هو الظاهر من الحديث.
وأما قوله -صلى الله عليه وسلم-: "ولا تؤمنوا حتى تحابوا" معناه لا يكمل إيمانكم ولا يصلح حالكم في الإيمان إلا بالتحاب.
وأما قوله: "أفشوا السلام بينكم" ففيه الحث العظيم على إفشاء السلام وبذله للمسلمين كلهم من عرفت ومن لم تعرف، والسلام أول أسباب التآلف ومفتاح استجلاب المودة، وفي إفشائه تكمن ألفة المسلمين بعضهم لبعض وإظهار شعارهم المميز لهم من غيرهم من أهل الملل مع ما فيه من رياضة النفس ولزوم التواضع وإعظام حرمات المسلمين.
606;بی ﷺ نے اس حدیث میں مفید و کارآمد شے کا ذکر فرمایا ہے تاکہ عظیم نبوی وصیت کے حامل ان امور کی اہمیت کو پرزور انداز میں پیش کیا جائے اور جس وصیت کا مضمون، ان اخلاقی اسباب و ذرائع پر مشتمل ہے کہ اگر مسلم معاشرہ، ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے تو اس معاشرہ کی بنیاد باہم پیوست اور مستحکم ہوجاتی ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: ”تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ“ تو اس کا ظاہری اور مطلق معنی ہی مراد ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جس کی حالتِ ایمان پر موت واقع ہو، چاہے اس کے ایمان میں کمال نہ ہو کیوں کہ بالآخر اس کا انجام کار جنت ہی ہے اور حدیث کا یہی ظاہری معنی ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: ”اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو“ تو اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے ایمان میں کمال نہیں آئے گا اور تمہارے ایمان کی حالت اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔
آپ ﷺ کے فرمان: ”آپس میں سلام کو عام کرو“ میں سلام کو عام کرنے اور (بلاتفریق) جانے اور انجانے سارے ہی مسلمانوں میں اس کو پھیلانے کی بے پناہ ترغیب دی گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سلام ہی باہمی الفت و محبت کا سب سے اولین ذریعہ اور محبت و مودت کو پیدا کرنے کی کلید ہے۔ اس کو عام کرنے میں مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے راز پنہاں ہیں اور ان کے اس شعار کے اظہار میں دوسری ملتوں سے ان کا امتیاز و خصوصیت نمایاں ہوجاتی ہے، نیز اس میں نفس کی تربیت، تواضع و انکساری کو اختیار کرنے اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو عظیم تر قرار دینے کے معانی بھی پائے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3361

 
 
Hadith   307   الحديث
الأهمية: قال الله -تعالى-: وجبت محبتي للمتحابين في، والمتجالسين في، والمتزاورين في، والمتباذلين في


Tema:

اللہ تعالی کا فرمان ہے: میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرےسے تعاون كرنے والوں كے لیے میری محبت واجب ہوگئی۔

عن أبي إدريس الخولاني -رحمه الله- قال: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشقَ، فَإِذَا فَتًى بَرَّاق الثَنَايَا وَإِذَا النَّاس مَعَه، فَإِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيءٍ، أَسْنَدُوهُ إِلَيهِ، وَصَدَرُوا عَنْ رَأْيِهِ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَقِيل: هَذَا مُعَاذ بْنُ جَبَلٍ -رضي الله عنه- فَلَمَّا كان مِنَ الغَدِ، هَجَّرتُ، فَوَجَدتُه قَدْ سَبِقَنِي بِالتَهْجِير، وَوَجَدتُهُ يُصَلِّي، فَانتَظَرتُهُ حَتَّى قَضَى صَلاَتَه، ثُمَّ جِئتُهُ مِن قِبَلِ وَجْهِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيه، ثُمَّ قُلتُ: وَالله إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّه، فَقَال: آلله؟ فَقُلتُ: آلله، فقال: آللهِ؟ فقُلْتُ: آلله، فَأَخَذَنِي بَحَبْوَةِ رِدَائِي، فَجَبَذَنِي إِلَيه، فَقَال: أَبْشِر! فَإِنِّي سَمِعتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «قَالَ الله -تعَالَى-: وَجَبَت مَحَبَّتِي لِلمُتَحَابِّين فِيَّ، وَالمُتَجَالِسِينَ فِيَّ، وَالمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ، وَالمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ».

ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا، تو دیکھا کہ وہاں چمک دار دانتوں والا ایک جوان ہے، جس کے ساتھ لوگ بیٹھے ہیں۔ جب ان کا کسی بات میں اختلاف ہوجاتا، تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے اور جو رائے وہ دیتا، اسے تسلیم کر لیتے۔ میں نے اس جوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون ہے؟ تو بتایا گیا کہ وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب اگلا دن آیا، تو میں نے جلدی کی، لیکن (جب مسجد پہنچا تو) میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں ان کا انتظار کرنے لگا، یہاں تک کہ انھوں نے اپنی نماز پوری کر لی۔ میں ان کے سامنے کی طرف سے ان کے پاس آیا اور انھیں سلام کرنے کے بعد میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم کھاتے ہو؟۔ میں نے کہا: میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں۔ انھوں نے پھر کہا: اللہ کی قسم کھاتے ہو؟۔ میں نے جواب دیا : میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں۔ اس پر انھوں نےمیری چادر کے پہلو سے مجھے پکڑا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا: خوش ہو جاؤ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ”میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرےسے تعاون كرنے والوں كے لیے میری محبت واجب ہوگئی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث فضل التحابب في الله، والمراد أن فاعل كل هذه الأمور من الجانبين كما يدل عليه صيغة التفاعل إذا كان لوجه الله -تعالى- لا لعرض فانٍ، ولا لغرض فإنه تجب له محبة مولاه، وهذا أعظم الجزاء فيدل على شرف هذا، وقد ورد «من أحبّ في الله وأبغض في الله وأعطى لله ومنع لله فقد استكمل الإيمان».
ففي قوله: "فقلت والله إني لأحبك لله قال: آلله فقلت: آلله" دليل على أن الأيمان كانت تجري على ألسنتهم على معنى تحقيق الخبر ويؤكد بتكرارها واستدعاء تأكيدها.
وقوله: "فأخذ بحبوة ردائي" يريد بما يحتبي به من الرداء وهو طرفاه.
وقوله: "وجبذني إلى نفسه" على معنى التقريب له والتأنيس وإظهار القبول لما أخبر به وتبشيره بما قاله النبي -صلى الله عليه وسلم- لمن فعل ذلك.
فقال له: "أبشر" يريد بما أنت عليه، فإني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: قال الله -عزو جل- على معنى إضافة ما يبشره إلى خبر النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو الصادق المصدوق عن ربه -تبارك وتعالى-، ليستيقن أبو إدريس وتتم له البشرى بهذا الخبر, حيث إنه من قول النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ربه, لا من اجتهاد معاذ -رضي الله عنه-.
وقوله عزو جل: "وجبت محبتي" يريد ثبتت محبتي لهم.
"للمتحابين والمتجالسين فيَّ" يريد أن يكون جلوسهم في ذات الله -عزو جل- من التعاون على ذكر الله -تعالى- وإقامة حدوده والوفاء بعهده والقيام بأمره وبحفظ شرائعه واتباع أوامره واجتناب محارمه.
 وقوله -تبارك وتعالى- "والمتزاورين فيَّ": يريد -والله أعلم- أن يكون زيارة بعضهم لبعض من أجله وفي ذاته وابتغاء مرضاته من محبة لوجهه أو تعاون على طاعته.
وقوله -تبارك وتعالى-: "والمتباذلين فيَّ": يريد يبذلون أنفسهم في مرضاته من الاتفاق على جهاد عدوه وغير ذلك مما أمروا به ويعطيه ماله إن احتاج إليه.
575;س حدیث میں اللہ کے لیے باہم محبت کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ مراد یہ کہ یہ تمام امور طرفین سے ہوں، جیسے کہ تفاعل باب کا صیغہ دلالت کرتا ہے اور اللہ کی رضا کی کے لیے ہوں، نہ کہ کسی عارضی غرض کی بنا پر۔ ایسے شخص کے لیے اس کے مولی کی محبت واجب ہو جاتی ہے، جو کہ عظیم ترین جزا ہے اور اس شخص کی بلندی مرتبہ کی دلیل ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: ”جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اسی کے لیے نفرت کی، اسی کی خاطر دیا اور اسی کی خاطر روک لیا، تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا“۔
ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم قسم کھاتے ہو؟۔ یہ دلیل ہے کہ وہ بات کے اثبات کے لیے قسمیں کھا تے تھےاور بار بار قسم کھا کر اور اٹھوا کر بات کی تاکید کی جاتی تھی۔
ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: انھوں نے میری چادر کے پہلو سے مجھے پکڑا۔ اس سے مراد چادر کا وہ حصہ ہے، جس سے ”احتباء“ کیا جاتا ہے یعنی اس کے دونوں کنارے۔
”انھوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا“ ایسا انھوں نے انہیں اپنے قریب اور مانوس کرنے اور جو بات وہ بتا رہے تھے، اس پر اظہار رضامندی اور انھیں وہ خوش خبری سنانے کے لیے کیا، جو نبی ﷺ نے ہر اس شخص کے لیے دی ہے، جو ایسے کرتا ہے۔
”خوش ہو جاؤ“ یعنی اپنی اس حالت پر خوش ہو جاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالی فرماتا ہے“۔ ایسا انھوں نے اپنی طرف سے دی جانے والی اس خوش خبری کو نبی صادق و مصدوق ﷺ کے واسطے سے رب تعالی شانہ کی طرف منسوب کرنے کے لیے کہا؛ تا کہ ابو ادریس رحمہ اللہ کو پوری طرح یقین ہو جائے اور اس بات کے ذریعے سے انھیں مکمل خوش خبری ملے (یہ جان کر) کہ یہ نبی ﷺ کے واسطے سے ان کی رب کی بات ہے، نہ کہ معاذ رضی اللہ عنہ کا اپنا ذاتی اجتہاد۔
اللہ عز و جل نے فرمایا: ”میری محبت واجب ہو گئی“۔ یعنی ان کے لیے میری محبت یقینی ہو گئی۔
”میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے سے مل بیٹھنے والوں کےلیے“۔ مراد یہ کہ ان کا بیٹھنا اللہ عز و جل کی ذات کے لیے ہو، بایں طور کہ وہ اللہ کے ذکر، اس کی حدود کو قائم کرنے، اس کے وعدے کو پورا کرنے، اس کے حکم کی پاس داری کرنے، اس کے مشروع کردہ احکامات و اوامر کو بجا لانے اور اس کی حرام کردہ اشیا سے اجتناب کرنے میں ایک دوسری کے ساتھ تعاون کریں۔
”میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لیے“۔ یعنی ان کا ایک دوسرے سے ملنا اللہ کی خاطر اور اس کی ذات اورخوش نودی کے لیے ہو، بایں طور کہ وہ اس کی رضا کے لیے محبت کریں یا اس کی اطاعت گزاری میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
”میری خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرنے والوں کے لیے“۔ جو اللہ کی خوش نودی کے لیے تن و روح لگا دیتے ہیں، بایں طور کہ اس کے دشمن کے خلاف جہاد اور اس کے علاوہ دیگر حکم کردہ معاملات میں باہم متحد ہو جاتے ہیں یا پھر اگر دوسرے کو مال کی ضرورت ہو، تو وہ اپنا مال اسے دے دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3362

 
 
Hadith   308   الحديث
الأهمية: لولا أن أشق على أمتي؛ لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة


Tema:

اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (لولاَ أن أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي؛ لَأَمَرتُهُم بِالسِّوَاك عِندَ كُلِّ صَلاَة).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من كمال نصح النبي -صلى الله عليه وسلم- ومحبته الخير لأمته، ورغبته أن يفعلوا كل فعل يعود عليهم بالنفع؛ لينالوا كمال السعادة أن حثهم على التسوك، فهو -صلى الله عليه وسلم- لما علِم من كثرة فوائد السواك، وأثر منفعته عاجلا وآجلا؛ كاد يلزم أمته به عند كل وضوء أو صلاة؛ لورود رواية: (مع كل وضوء)، ولكن -لكمال شفقته ورحمته- خاف أن يفرضه الله عليهم؛ فلا يقوموا به؛ فيأثموا؛ فامتنع من فرضه عليهم خوفاً وإشفاقاً، ومع هذا رغبهم فيه وحضَّهم عليه.
606;بی ﷺ کی اپنی امت کے ساتھ بہت زیادہ خیر خواہی، آپ ﷺ کی اپنی امت کے لیے بھلائی کی چاہت اور اس بات کی رغبت کہ وہ ہر ایسا کام کریں جو ان کے لیے فائدے مند ہو تاکہ انہیں پوری سعادت حاصل ہو سکے، اس کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں مسواک کرنے کی ترغیب دی کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس میں بہت زیادہ فوائد اور دنیوی و اخروی منفعت ہے۔ آپ ﷺ اسے ہر وضو یا ہر نماز کے ساتھ اپنی امت پر لازم کرنے کے قریب تھے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ”ہر وضو کے ساتھ“ کے الفاظ آتے ہیں لیکن اپنے کمال شفقت اور رحمت کی بدولت آپ ﷺ کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان پر اسے فرض ہی نہ کردے اور وہ اس کو نہ کر سکیں اور یوں گناہ گار ہوں ۔ چنانچہ اس خوف اور شفقت کی وجہ سے آپ ﷺ نے اسے ان پر فرض نہ کیا۔ تاہم اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں مسواک کرنے کی ترغیب دی اور اس پر انہیں ابھارا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3364

 
 
Hadith   309   الحديث
الأهمية: سألت النبي -صلى الله عليه وسلم-: أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها. قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدين


Tema:

میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: (سَأَلتُ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم-: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إلى الله؟ قال: الصَّلاَةُ عَلَى وَقتِهَا. قلت: ثم أَيُّ؟ قال: بِرُّ الوَالِدَينِ. قلت: ثم أَيُّ؟ قال: الجِهَادُ في سَبِيلِ الله. قال: حَدَّثَنِي بِهِنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ولو اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي).

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستےمیں جہاد کرنا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ وہ اعمال ہیں، جو رسول اللہ ﷺ نےمجھے بتائے۔ اگر میں آپ ﷺ سے اور زیادہ پوچھتا، تو آپ ﷺ مجھے اور زیادہ بتاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل ابن مسعود -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الطاعات لله، أيها أحب إلى الله -تعالى-؟ فكلما كان العمل أحب إلى الله، كان ثوابه أكثر.
فقال -صلى الله عليه وسلم- مبينًا: إن أحبها إلى الله -تعالى-، الصلاة المفروضة في وقتها، الذي حدده الشارع لأن فيه المبادرة إلى نداء الله تعالى وامتثال أمره، والاعتناء بهذا الفرض العظيم.
ومن رغبته -رضي الله عنه- في الخير، لم يقف عند هذا، بل سأله عن الدرجة الثانية، من محبوبات الله -تعالى- قال: بر الوالدين.
فإن الأول محض حق الله، وهذا محض حق الوالدين، وحق الوالدين يأتي بعد حق الله، بل إنه -سبحانه- من تعظيمه له يقرن حقهما وبرهما مع توحيده في مواضع من القرآن الكريم، لما لهما من الحق الواجب، مقابل ما بذلاه من التسبب في إيجادك وتربيتك، وتغذيتك، وشفقتهما وعطفهما عليك.
ثم إنه -رضي الله عنه- استزاد من لا يبخل، عن الدرجة التالية من سلسلة هذه الأعمال الفاضلة، فقال: الجهاد في سبيل الله، فإنه ذروة سنام الإسلام وعموده، الذي لا يقوم إلا به، وبه تعلو كلمة اللَه وينشر دينه.
وبتركه -والعياذ بالله- هدم الإسلام، وانحطاط أهله، وذهاب عزهم، وسلب ملكهم، وزوال سلطانهم ودولتهم.
وهو الفرض الأكيد على كل مسلم، فإن من لم يغْزُ، ولم يحدث نفسه بالغزو، مات على شعبة من النفاق.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اللہ کی خاطر کیے جانے والے نیک اعمال کے بارے میں دریافت کیا کہ اللہ تعالی کو ان میں سے کون سا نیک عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ کیوں کہ عمل جتنا زیادہ اللہ تعالی کا محبوب ہو گا، اتنا ہی اس کا ثواب زیادہ ہو گا۔
آپ ﷺ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل فرض نماز کو اس کے شارع کی طرف سے مقرر کردہ وقت میں ادا کرنا ہے؛ کیوں کہ یہ اللہ تعالی کے بلاوے کو قبول کرنے میں پیش قدمی، اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس عظیم فرض کے اہتمام کا مظہر ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نیکی میں رغبت رکھنے کی وجہ سے انھوں نے اس پر اکتفا نہ کیا، بلکہ آپ ﷺ سے اللہ کے پسندیدہ اعمال میں سے دوسرے درجے کے نیک عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کی فرماں برداری کرنا۔
پہلا نیک عمل محض اللہ کا حق ہے، جب کہ دوسرا محض والدین کا حق ہے اور والدین کے حق کا درجہ اللہ کے حق کے بعد آتا ہے۔ بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تو اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن کریم کے کئی مقامات پر اللہ تعالی والدین کے حق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی توحید کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے؛ کیوں کہ آپ کے وجود کا سبب ہونے، آپ کی تربیت اور پرورش اور آپ پر شفقت و مہربانی کرنے کی وجہ سے والدین کا یہ حق واجب ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے مزید سوال کیا، جو (خیر کی بات بتانے میں) بخل نہیں کرتے کہ اہم ترین نیک اعمال کے اس سلسلے میں اس کے بعد والا درجہ کس نیک عمل کا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ یہ اسلام کی چوٹی اور اس کا ستون ہے۔ اسی سے اسلام کا وجود ہے اور اسی سے اللہ کا حکم سر بلند ہوتا ہے اور اس کا دین پھیلتا ہے۔
اس کو چھوڑ دینے میں اسلام کا انہدام ہے، مسلمان زوال و انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، ان کی عزت جاتی رہتی ہے، ان کا اقتدار چھن جاتا ہے اور ان کی سلطنت و حکومت زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر تاکید کے ساتھ فرض ہے۔ پس جس نے جہاد نہ کیا اور نہ ہی اس کے دل میں جذبہ جہاد پیدا ہوا، گویا وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3365

 
 
Hadith   310   الحديث
الأهمية: أثقل الصلاة على المنافقين: صلاة العشاء وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيها لأتوهما ولو حبوًا، ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام, ثم آمر رجلا فيصلي بالناس, ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار


Tema:

منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر کی نماز ہے اور اگر انھیں ان نمازوں کے ثواب کا اندازہ ہو جاتا، تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ میرا تو پختہ عزم ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اپنے ہم راہ کچھ لوگوں کو لے چلوں، جن کے ساتھ آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر ہوں، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت نذر آتش کردوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن  النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أَثقَل الصَّلاةِ على المُنَافِقِين: صَلاَة العِشَاء، وصَلاَة الفَجر، وَلَو يَعلَمُون مَا فِيها لَأَتَوهُمَا وَلَو حَبْوُا، وَلَقَد هَمَمتُ أًن آمُرَ بِالصَّلاَةِ فَتُقَام، ثُمَّ آمُر رجلاً فيصلي بالنَّاس، ثُمَّ أَنطَلِق مَعِي بِرِجَال معهُم حُزَمٌ مِن حَطَب إلى قَومٍ لاَ يَشهَدُون الصَّلاَة، فَأُحَرِّقَ عَلَيهِم بُيُوتَهُم بالنَّار».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر کی نماز ہے اوراگر انھیں ان نمازوں کے ثواب کا اندازہ ہو جاتا، تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ میرا تو پختہ ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اس اپنے ہم راہ کچھ لوگوں کو لے چلوں، جن کے ساتھ آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر ہوں، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت نذر آتش کردوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لقد كان المنافقون يراؤون الناس، ولا يذكرون الله إلا قليلا، كما أخبر الله -تعالى- عنهم، ويظهر كسلهم في صلاة العشاء وصلاة الفجر؛ لأنهما بوقت ظلام، فما يراهم الناس الذين يصلون؛ لأن َّجلَّ المنافقين نجدهم يقصرون في هاتين الصلاتين اللتين تَقَعان في وقت الراحة ولذة النوم ولا ينشط لأدائهما مع الجماعة إلا من حَدَاه داعي الإيمان بالله -تعالى-، ورجاء ثواب الآخرة، ولمَّا كان الأمر على ما ذكر كانت هاتان الصلاتان أشق وأثقل على المنافقين، ولو يعلمون ما في فعلهما مع جماعة المسلمين في المسجد من الأجر والثواب لأتوهما ولو حبوا كحبو الطفل بالأيدي والركب، وأقسم -صلى الله عليه وسلم- أنَّه قد هم بمعاقبة المتخلفين المتكاسلين عن أدائهما مع الجماعة، وذلك بأن يأمر بالصلاة فتقام جماعة، ثم يأمر رجلًا فيؤم الناس مكانه، ثم ينطلق ومعه رجال يحملون حزمًا من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فيحرق عليهم بيوتهم بالنار؛ لشدة ما ارتكبوه في تخلفهم عن صلاة الجماعة، لولا ما في البيوت من النساء والصبيان الأبرياء، الذين لا ذنب لهم، كما ورد في بعض طرق الحديث.
605;نافقین کا یہ رویہ تھا کہ وہ لوگوں کو دکھانے اور نام و نمود کے لیے اعمال کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی کم کرتے تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کی یہ سستی اور کاہلی عشا اور فجر کی نمازوں میں پوری طرح کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے؛ کیوں کہ یہ دونوں نمازیں، تاریکی کے اوقات میں ادا ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ بے نمازی، نمازیوں کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیش تر منافقین کو راحت و آرام اور میٹھی نیند کے وقت پڑھی جانے والی ان دو نمازوں میں ہم کوتاہ عمل پاتے ہیں۔ در حقیقت ان دو نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں چستی و نشاط وہی دکھا پاتے ہیں، جنھیں ایمان باللہ کی حرارت اور آخرت کے اجر و ثواب کی امید، ان نمازوں کی ادائیگی پر آمادہ رکھتی ہے۔ جب بات ایسی ہی ہے، جیسی ذکر کی گئی، تو یہ دونوں نمازیں منافقین پر سب سے گراں اور مشکل ہوجاتی ہی۔ لیکن اگر انھیں اس بات کا علم ہو جائے کہ انھیں مسجد میں باجماعت ادا کرنے کا کس قدر اجر و ثواب ہے، تو وہ ان میں ضرور شریک ہوں گے، چاہے انھیں (معذوری وغیرہ کی بنا پر) رینگتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے، جس طرح بچہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل رینگتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ آپ کا پختہارادہ ہو گیا تھا کہ جماعت کے ساتھ ان دو نمازوں کی ادائیگی میں سستی و کاہلی اختیار کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کو سخت سزا دیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے نماز باجماعت قائم کی جائے، پھر کسی شخص کو آپ ﷺ اپنے مقام پر امامت پر مامور فرمادیں اور پھر اپنے ہم راہ کچھ افراد کو لے لیں، جو آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر اٹھاکر ان لوگوں کے پاس پہنچیں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوئے ہیں اور انھیں ان کے گھروں کے ساتھ نذر آتش کردیں؛ کیوں کہ وہ باجماعت نماز ادا نہ کرنے کے سخت ترین گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر گھروں میں عورتیں اوربے گناہ و معصوم بچے نہ ہوتے (تو آپ ایسا ضرور کرتے)، جیسا کہ حدیث کی دیگر سندوں میں اس طرح کے الفاظ وارد ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3366

 
 
Hadith   311   الحديث
الأهمية: هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم؟


Tema:

یہ تم میں سے کمزور لوگ ہی تو ہیں، جن کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے۔

رأى سعد أنَّ له فَضلاً على مَن دُونَه، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «هَل تُنْصَرون وتُرْزَقُون إِلاَّ بِضُعَفَائِكُم؟».
عن أبي الدرداء عويمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ابغُونِي الضُعَفَاء؛ فَإِنَّما تُنصَرُون وتُرزَقُون بِضُعَفَائِكُم».

سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو خیال گزرا کہ انھیں ان لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، جو مالی لحاظ سے ان سے کم تر ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ تم میں سے کمزور لوگ ہی تو ہیں، جن کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھا رزق دیا جاتا ہے“۔
ابو الدرداء رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(مالی و جسمانی طور پر) کمزور لوگوں کی تلاش میں میری مدد کرو۔ تم میں سے کمزور لوگوں ہی کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذين الحديثين ما يدل على أنَّ الضعفاء سبب للنصر، وسبب للرزق في الأمة، فإذا حَنَّ عليهم الإنسان وعَطَف عليهم وآتاهم مما آتاه الله -عز وجل-؛ كان ذلك سبباً للنصر على الأعداء، وكان سبباً للرزق؛ لأنَّ الله -تعالى- أخبر أنَّه إِذَا أنفق الإنسان لرَبِّه نفقة فإِنَّ الله -تعالى- يُخلِفُها عليه. قال الله -تعالى-: (وما أنفقتم من شيء فهو يخلفه وهو خير الرازقين)، يُخلفه: أي يأتي بخَلَفِه وبدله.
575;س حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کمزور لوگ امت کی نصرت اور رزق کا سبب ہیں۔ جب انسان ان پر رحم اور شفقت کرتا ہے اور جو کچھ اللہ عز و جل نے اسے دیا ہے، اس میں سے انھیں بھی دیتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے دشمنوں پر مدد ملتی ہے اور یہ بات رزق ملنے کا سبب ہوتی ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب انسان اپنے رب کی رضا کے لیے کچھ خرچ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ [سوره سبأ: 39] ترجمہ:”تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وه سب سے بہتر روزی دینے واﻻ ہے“۔ یعنی وہ اس کا عوض اور بدل دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3367

 
 
Hadith   312   الحديث
الأهمية: تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء


Tema:

مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا۔

عن أبي  هريرة -رضي الله عنه- قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ((إن أمتي يُدْعَون يوم القيامة غُرًّا مُحَجَلِّين من آثار الوُضُوء)). فمن اسْتَطَاع منكم أن يُطِيل غُرَّتَه فَليَفعل.
وفي لفظ لمسلم: ((رأَيت أبا هريرة يتوضَّأ, فغسل وجهه ويديه حتى كاد يبلغ المنكبين, ثم غسل رجليه حتى رَفَع إلى السَّاقين, ثم قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنَّ أمتي يُدْعَون يوم القيامة غُرًّا مُحَجَّلِين من آثار الوُضُوء)) فمن استطاع منكم أن يطيل غُرَّتَه وتَحْجِيلَه فَليَفعَل.
وفي لفظ لمسلم: سمعت خليلي -صلى الله عليه وسلم- يقول: ((تَبْلُغ الحِليَة من المؤمن حيث يبلغ الوُضُوء)).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کے لوگوں کو قیامت والے دن اس حال میں پکارا جائے گا کہ وضو کے نشانات سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں روشن ہونگے“۔ پس تم میں سے جو اپنی روشنی بڑھانے کی طاقت رکھے تو وہ ضرور ایسا کرے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”میں نے ابو ہریرہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئے یہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے، پھر انہوں نے اپنے پاؤں دھوئے یہاں تک کہ اوپر پنڈلیوں تک لے گئے، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ میری امت کے لوگوں کو قیامت والے دن اس حال میں پکارا جائے گا کہ وضو کے نشانات سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں روشن ہونگے۔ پس تم میں سے جو اپنی چمک اور روشنی بڑھانے کی طاقت رکھے تو وہ ضرور ایسا کرے“۔
صحیح مسلم کے دوسرے الفاظ یہ ہیں: ”میں نے اپنے خلیل ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ (جنت میں) مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک وضو پہنچے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبشر النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته بأن الله -سبحانه وتعالى- يخصهم بعلامة فضل وشرف يومَ القيامة، من بين الأمم، حيث ينادون فيأتون على رؤوس الخلائق تتلألأ وجوههم وأيديهم وأرجلهم بالنور، وذلك أثر من آثار هذه العبادة العظيمة، وهي الوضوء الذي كرروه على هذه الأعضاء الشريفة ابتغاء مرضاة الله، وطلبا لثوابه، فكان جزاؤهم هذه المحمدة العظيمة الخاصة. ثم يقول أبو هريرة -رضي الله عنه- : "من قدر على إطالة هذه الغرّة فليفعل"؛ لأنه كلما طال مكان الغسل من العضو طالت الغرة والتحجيل، ولكن المشروع فقط أن يكون غسل اليدين في الوضوء إلى المرفقين ويستوعب المرفق بالشروع في العضد وغسل جزء منه، وغسل القدمين إلى الكعبين يستوعب الكعبين بالشروع في الساق، ولا يغسل العضد والساق في الوضوء، وفي الرواية الخرى ينقل عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن حلية المؤمن في الجنة تبلغ ما بلغ ماء الوضوء.
606;بی ﷺ اپنی امت کو اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کےدن انہیں دیگر امتوں کے ما بین شرف وفضیلت کی ایک مخصوص نشانی بخشے گا اس طور پر کہ جب انہیں پکارا جائے گا تووہ لوگوں کے سامنے حاضر ہونگے اور ان کے چہرےاور ہاتھ اور پیر روشنی سے چمک رہے ہوں گے، اوریہ سب وضو جیسی عظیم عبادت کے نتیجے میں ہوگا، وہ وضو جسے وہ اللہ کی رضا اور ثواب کی امید میں بار بار ان اعضاء شریفہ پر کرتے تھے، تو یہ ان کا خاص بڑا انعام اور بدلہ ہے۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی اس چمک کو بڑھانے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ ایسا کرے۔کیوں کہ دھلنے کی جگہیں جس قدر دراز ہوں گی اسی قدر روشنی اور چمک بھی لمبی ہوگی، کیوں کہ روشنی کا زیور وہاں تک پہونچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہونچا ہے۔ لیکن وضو میں مشروع صرف کہنی تک دونوں ہاتھوں کا دھلنا ہے اس لئے کہنی کو مکمل دھوئے گا بازو سے شروع کرتے ہوئے اور اس کے کچھ حصہ کو دھلتے ہوئے اسی طرح دونوں پاوں کو دھوئے گا دونوں ٹخنوں کومکمل دھوتے ہوئے پنڈلی سے شروع کرتے ہوئے، البتہ وضو میں بازو اور پنڈلی کا دھلنا مشروع نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ”جنت میں مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3368

 
 
Hadith   313   الحديث
الأهمية: إن الله -تعالى- يقول يوم القيامة: أين المتحابون بجلالي؟ اليوم أظلهم في ظلي يوم لا ظل إلا ظلي


Tema:

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا، آج کے دن جب کہ میرے سایے کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّ الله تَعَالى يَقُول يَوْمَ القِيَامَة: أَيْنَ المُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِي؟ اليَوم أُظِلُّهُم فِي ظِلِّي يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّي».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا، جب کہ آج کے دن میرے سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينادي الله -جل في علاه- يوم القيامة في أهل الموقف فيقول: (أين المتحابون بجلالي؟) والسؤال عنهم مع علمه بمكانهم وغيره من أحوالهم؛ لينادي بفضلهم في ذلك الموقف، ويُصرِّح به؛ لبيان عظمته، والمعنى: أين الذين تحابوا لجلالي وعظمتي لا لغرض سوى ذلك من دنيا أو نحوها، ثم يقول -تعالى-: (اليوم أظلهم في ظلي) وإضافة الظل إليه -تعالى- إضافة تشريف، والمراد ظل العرش، وجاء في غير رواية مسلم: "ظل عرشي" (يوم لا ظل إلا ظلي) أي لا يكون في ذلك اليوم  ظِلٌّ إلا ظِلُّ عرش الرحمن.
602;یامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل محشر کو آوا ز دے گا اور فرمائے گا: ” أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي؟“ کہ (میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟) وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں، اس سے واقف ہونے کے باوجود اللہ تعالی یہ سوال اس لیے کرے گا؛ تاکہ میدان حشر میں ان کے مقام ومرتبے کا اعلان کر دے اور یہ اعلان در اصل خود اللہ تعالی کی عظمت بیان کرنے کا ایک بہانہ ہوگا۔ اس طرح اس کے معنی یہ ہوں گے: کہاں ہیں وہ لوگ جو دنیوی سے مقاصد سے اوپر اٹھ کر میرے جلال اور عظمت کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ” الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي“ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا سایے کی نسبت اپنی طرف کرنا، اضافت تشریفی ہے اور اس سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ مسلم کے علاوہ دیگر روایات میں ہے: میرے عرش کے سایے میں۔ ” يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي“ یعنی اس دن رحمٰن کے عرش کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3369

 
 
Hadith   314   الحديث
الأهمية: هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ به في النَّارِ مُنْذُ سبْعِينَ خَرِيفًا، فهو يَهْوِي فِي النَّارِ الآنَ حتى انتهى إلى قَعْرِهَا فَسَمِعْتُمْ وَجْبَتَهَا


Tema:

یہ ایک پتھر ہے، جو ستر سال پہلے دوزخ میں پھینکا گیا تھا اور وہ لگاتار دوزخ میں گر رہا تھا، یہاں تک کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا ہے، جس کی گڑگراہٹ تم نے سنی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كُنَّا مع رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذْ سَمِعَ وَجْبَةً، فقال: «هَلْ تَدْرُونَ ما هَذَا؟» قُلْنَا: اللهُ ورسولُهُ أَعْلَمُ. قال: «هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ به في النَّارِ مُنْذُ سبْعِينَ خَرِيفًا، فهو يَهْوِي فِي النَّارِ الآنَ حتى انتهى إلى قَعْرِهَا فَسَمِعْتُمْ وَجْبَتَهَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک گڑگراہٹ کی آواز سنائی دی، تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟“ ہم نےکہا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک پتھر ہے، جو ستر سال پہلے دوزخ میں پھینکا گیا تھا اور وہ لگاتار دوزخ میں گر رہا تھا، یہاں تک کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا ہے، جس کی گڑگراہٹ تم نے سنی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فسمعوا سقطة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: هل تدرون ما هذا؟ فقالوا: الله ورسوله أعلم. فقال: هذا صوت حجر رُمي به في النار من سبعين عاما، فهو ينزل في النار الآن حين انتهى إلى قعرها؛ فسمعتم صوت اضطراب النار من نزول الحجر إليها.
589;حابۂ کرام نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ انھوں نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اس پتھر کی آواز ہے، جسے ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا، وہ آگ میں نیچے جا رہا تھا کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا، جس کی وجہ سے تم نے آگ کے اضطراب کی آواز سنی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3370

 
 
Hadith   315   الحديث
الأهمية: أَنَّ رَجُلا أَكَلَ عِندَ رَسُولِ اللهِ -صَلَى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِشِمَالِهِ، فقالَ: كُلْ بِيَمِينِك، قال: لَا أَسْتَطِيع. قَالَ: لَا اسْتَطعْتَ، مَا مَنَعَهُ إِلَّا الكِبر فَمَا رَفَعَهَا إِلَى فيه


Tema:

ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ: میں(دائیں ہاتھ سے) نہیں کھا سکتا۔ اس پر آپ ﷺ نے (اسے بددعا دیتے ہوئے) فرمایا: (اب) تو ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ اس نے محض تکبر کی وجہ سے انکار کیا تھا چنانچہ پھر وہ اپنے ہاتھ کو (شل ہوجانے کی وجہ سے) اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔

عن سلمة بن الأكوع -رضي الله عنه-: أن رجلا أكَلَ عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشماله، فقال: «كُلْ بيمينك» قال: لا أستطيع. قال: «لا استطَعْتَ» ما مَنَعَهُ إلا الكِبْر فما رَفَعَهَا إلى فِيهِ.

سلمہ بن اکوع - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ: میں(دائیں ہاتھ سے) نہیں کھا سکتا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تو ایسا کر بھی نہ سکے۔ اس نے محض تکبر کی وجہ سے انکار کیا تھا چنانچہ پھر وہ اپنے ہاتھ کو (شل ہوجانے کی وجہ سے) اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكل رجل عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشماله تكبرا؛ فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: "كل بيمينك" فقال في عِناد: لا أستطيع. وهو غير صادق في هذا؛ فدعا عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- بقوله: "لا استطعت". فما استطاع أن يرفع يده إلى فمه، وذلك أنها أصيبت بشلل بدعاء النبي -صلى الله عليه وسلم- عليه؛ لتكبره ورده للأمر النبوي.
585;سول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ایک شخص ازراہ تکبر بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے کہا کہ: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے سرکشی دکھاتے ہوئے کہا کہ: میں ایسا نہیں کر سکتا۔ حالانکہ وہ اپنی اس بات میں سچا نہیں تھا۔ (یعنی اگر وہ دائیں ہاتھ سے کھانا چاہتا تو اس میں کوئی بات مانع نہیں تھی۔)۔ اس پر آپ ﷺ نے اس کو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ: تو نہ کر سکے۔ چنانچہ پھر وہ شخص اپنے ہاتھ کو اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا کیونکہ اس کے تکبر اور نبی ﷺ کے حکم کو رد کرنے کی بنا پر آپ ﷺ نے اس کے خلاف جو بددعا کی تھی اس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو چکا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3372

 
 
Hadith   316   الحديث
الأهمية: من دعا إلى هدى، كان له من الأجر مثل أجور من تبعه، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئًا، ومن دعا إلى ضلالة، كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئًا


Tema:

جس شخص نے کسی کو ہدایت کی طرف بُلایا اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والے کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی طرف کسی کو بلایا اُس کے اوپر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «مَن دَعَا إلى هُدى، كَان لَه مِنَ الأَجر مِثل أُجُور مَن تَبِعَه، لاَ يَنقُصُ ذلك مِن أُجُورِهِم شَيئًا، ومَنْ دَعَا إلى ضَلاَلَة، كان عَلَيه مِن الإِثْم مِثل آثَامِ مَن تَبِعَه، لاَ يَنقُصُ ذلك مِن آثَامِهِم شَيْئًا».

ابو ہريره رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "من دعا إلى هدى؛ كان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئاً"، من دعا إلى هدى: يعني بيّنه للناس ودعاهم إليه، مثل: أن يبين للناس أن ركعتي الضحى سنة، وأنه ينبغي للإنسان أن يصلي ركعتين في الضحى، ثم تبعه الناس وصاروا يصلون الضحى، فإن له مثل أجورهم من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً؛ لأن فضل الله واسع.
أو قال للناس مثلاً: اجعلوا أخر صلاتكم بالليل وتراً، ولا تناموا إلا على وتر إلا من طمع أن يقوم من آخر الليل فليجعل وتره في آخر الليل، فتبعه ناس على ذلك؛ فإن له مثل أجرهم، يعني كلما أوتر واحد هداه الله على يده؛ فله مثل أجره، وكذلك بقية الأعمال الصالحة.
وفي قوله -صلى الله عليه وسلم-: "من دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئاً"، أي إذا دعا إلى وزر وإلى ما فيه الإثم، مثل أن يدعو الناس إلى لهو أو باطل أو غناء أو ربا أو غير ذلك من المحارم، فإن كل إنسان تأثر بدعوته فإنه يُكتب له مثل أوزارهم؛ لأنه دعا إلى الوزر.
فالدعوة إلى الهدى والدعوة إلى الوزر تكون بالقول، كما لو قال أفعل كذا أفعل كذا، وتكون بالفعل خصوصاً من الذي يقتدى به من الناس، فإنه إذا كان يَقتدي به ثم فعل شيئاً فكأنَّه دعا الناس إلى فعله، ولهذا يَحتَجُّون بفعله ويقولون فعل فلان كذا وهو جائز، أو ترك كذا وهو جائز.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔ "من دعا إلى هدى": یعنی جسے نے ہدایت کو لوگوں کے سامنے واضح کیا اور اس کی طرف انہیں بلایا۔ مثلا وہ لوگوں کو بتائے کہ چاشت کی دو رکعت نماز سنت ہے اور یہ کہ انسان کو چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اگر لوگ اس کی بات مان کر چاشت کی نماز پڑھنا شروع کر دیں تو اسے ان کے اجر کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے کہ اس سے ان کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ کیونکہ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے۔ یا پھر اس نے لوگوں سے کہا کہ رات کو وتر کو اپنی آخری نماز بناؤ اور وتر پڑھے بغیر نہ سویا کرو، سوائے اس شخص کے جو رات کے آخری حصے میں اٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے۔ لوگوں نے اس پر اس کی اتباع شروع کر دی تو اسے ان کی طرح کا اجر ملے گا۔ یعنی جب بھی کوئی وتر پڑھے گا گویا اس شخص کو اللہ نے اس کے ہاتھ پر ہدایت دی اس لیے اسے اس کے برابر اجر ملے گا۔ اسی طرح دیگر نیک اعمال ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی“ یعنی جب اس نے کسی گناہ یا پھر ایسے کام کی طرف دعوت دی جس میں گناہ ہو مثلا وہ لوگوں کو لہو لعب و لغو، گانے بجانے یا سود وغیرہ جیسے حرام اشیاء کی طرف بلائے تو اس صورت میں جو انسان بھی اس کی دعوت سے متاثر ہو گا ان کا گناہ اس کے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا کیونکہ اس نے گناہ کی دعوت دی تھی۔ ہدایت اور گناہ کی طرف دعوت قول کے ذریعے بھی ہوتی ہے جیسے وہ کہے کہ تم اس طرح کرو یا تم ایسے کرو، اور فعل کے ذریعے بھی ہوتی ہے بطورِ خاص لوگوں میں سے اس شخص کے فعل سے جس کی اقتداء کی جاتی ہو۔ اگر وہ شخص ایسا ہو جس کی اقتداء کی جاتی ہو اور وہ کوئی کام کرے تو وہ گویا لوگوں کو اپنے اس فعل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس کے فعل کو دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلان نے ایسا کیا اس لیے یہ کام جائز ہے یا فلاں نے اس کام کو چھوڑ دیا چنانچہ یہ (اس کا چھوڑنا) جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3373

 
 
Hadith   317   الحديث
الأهمية: إن من شرار الناس من تدركهم الساعة وهم أحياء، والذين يتخذون القبور مساجد


Tema:

بد ترین لوگ جن پر قیامت آئے گی وہ ہیں جو اُس وقت باحیات ہوں گے اور وہ لوگ ہوں گے جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: "إن من شرار الناس من تُدركهم الساعة وهم أحياء، والذين يتخذون القبور مساجد".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بد ترین لوگ جن پر قیامت آئے گی وہ ہیں جو اُس وقت باحیات ہوں گے اور وہ لوگ ہوں گے جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عمن تقوم الساعة عليهم وهم أحياءٌ أنهم شرار الناس، ومنهم الذين يصلون عند القبور وإليها ويبنون عليها القباب، وهذا تحذيرٌ لأمته أن تفعل مع قبور أنبيائهم وصالحيهم مثل فعل هؤلاء الأشرار.
606;بی ﷺ ان لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اس وقت زندہ ہوں گے جب قیامت آئے گی اور وہ بد ترین لوگ ہوں گے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو قبروں کے پاس اور ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے اور ان پر قبّے بنائیں گے۔ اس حدیث میں ایک طرح سے آپ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات سے ڈرایا ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کے ساتھ وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو یہ بدترین لوگ کریں گے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3375

 
 
Hadith   318   الحديث
الأهمية: ما فرق هؤلاء؟ يجدون رقة عند محكمه، ويهلكون عند متشابهه


Tema:

ان لوگوں کا خوف کیسا ہے؟ محکم (واضح) نصوص سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور جب کوئی متشابہ نصوص سنتے ہیں تو ہلاک ہو جاتے ہیں (یعنی انکار کر بیٹھتے ہیں )

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أنه رأى رجلا انْتَفَضَ لما سمع حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم في الصفات -استنكارا لذلك– فقال: "ما فَرَقُ هؤلاء؟ يجدون رِقَّةً عند مُحْكَمِهِ، ويَهْلِكُونَ عند مُتَشَابِهِهِ" .

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ: انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جب اس نے اللہ کی صفات کے بارے میں نبی ﷺ کی ایک حدیث سنی تو - بطور انکار - اس پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ تو انہوں نے فرمایا:ان لوگوں کا خوف کیسا ہے؟ محکم (واضح) نصوص سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور جب کوئی متشابہ نصوص سنتے ہیں تو ہلاک ہو جاتے ہیں (یعنی انکار کر بیٹھتے ہیں)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينكر ابن عباس -رضي الله عنهما- على أناس ممن يحضر مجلسه من عامة الناس يحصل منهم خوفٌ عندما يسمعون شيئا من أحاديث الصفات ويرتعدون استنكارا لذلك، فلم يحصل منهم الإيمان الواجب بما صح عن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وعرفوا معناه من القرآن وهو حق لا يرتاب فيه مؤمن، وبعضهم يحمله على غير معناه الذي أراده الله فيهلك بذلك.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی مجلس میں عوام الناس میں سے حاضر ہونے والے ایسے لوگوں پر نکیر کر ربے ہیں جو اللہ کی صفات کے بارے میں کوئی حدیث سنتے ہیں تو خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بطور انکار ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اس چیز پر واجب ایمان نہیں رکھتے جو رسول ﷺ سے صحیح ثابت ہے اور انہوں نے اس کے معنی کو قرآن سے جان لیا ہے۔ جو کہ برحق ہے جس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا۔اور بعض اسے اس معنی پر محمول کرتے ہیں جو اللہ کی مراد نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجا تا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3376

 
 
Hadith   319   الحديث
الأهمية: كان عمر -رضي الله عنه- يُدْخِلُنِي مع أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُم وَجَدَ في نفسه


Tema:

عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض کو یہ ناپسند گزرا۔

عن عبد الله ابن عباس -رضي الله عنهما- كان عمر -رضي الله عنه- يُدْخِلُنِي مع أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُم وَجَدَ في نفسه، فقال: لم يُدْخِلُ هذا معنا ولنا أبناءٌ مثله؟! فقال عمر: إنه من حَيْثُ عَلِمْتُمْ! فدعاني ذاتَ يومٍ فأَدَخَلَنِي مَعَهُمْ فما رأيتُ أنه دعاني يَوْمَئِذٍ إلا لِيُرِيَهُم، قال: ما تقولون في قول الله:(إذا جاء نصر الله والفتح)، [الفتح: 1]، فقال بعضهم: أَمَرَنَا نَحْمَدُ اللهَ ونَسْتَغْفِرُهُ إذا نصرنا وفَتَحَ علينا، وسكتَ بعضُهُم فَلَمْ يَقُلْ شيئًا، فقال لي: أكذلك تقولُ يا ابنَ عباس؟ فقلت: لا، قال: فما تقول؟ قلت: هو أَجَلُ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أَعْلَمَهُ له، قال: "إذا جاء نصر الله والفتح" وذلك علامةُ أجلِكَ، "فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا" فقال عمر -رضي الله عنه-: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إلَّا مَا تَقُولُ.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے۔ ان میں سے کسی کو یہ ناپسند گزرا تو انہوں نے کہا کہ اسے مجلس میں ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔پھر انہوں نے مجھے ایک دن بلایا اور ان بدری صحابہ کے ساتھ بٹھا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے اس دن اس لیے بلایا ہے تاکہ انہیں دکھا سکیں۔ پھر اُن سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ ۔ ”إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ“ (الفتح:1)۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ: اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا ہے اور فرمایا: کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچے۔ جو کہ آپ کی وفات کی علامت ہو گی تو پھر آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجیے اور اس سے بخشش مانگا کیجیے ۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے علم کے مطابق بھی یہی معنی ہے جو تم نے بیان کیا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هدي عمر -رضي الله عنه- أنه يشاور الناس ذوي الرأي فيما يُشكِلُ عليه، وكان يُدخل مع أشياخ بدر وكبار الصحابة عبد الله بن عباس وكان صغير السن بالنسبة لهؤلاء، فغضبوا من ذلك، كيف يُدخل ابن عباس -رضي الله عنهما- ولا يُدخل أبناؤهم، فأراد عمرُ أن يريهم مكانة عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- من العلم والذكاء والفطنة، فجمعهم ودعاه، فعرض عليهم هذه السورة: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}، فانقسموا إلى قسمين لما سألهم عنها ما تقولون فيها؟ قسمٌ سكت، وقسمٌ قال: إن الله أمرنا إذا جاء النصر والفتح، أن نستغفر لذنوبنا، وأن نحمده ونسبح بحمده؛ ولكن عمر -رضي الله عنه- أراد أن يعرف ما مغزى هذه السورة، ولم يرد أن يعرف معناها من حيث الألفاظ والكلمات.
فسأل ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: ما تقول في هذه السورة؟ قال: هو أجل رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، يعني علامة قرب أجله، أعطاه الله آية: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} يعني فتح مكة، فإن ذلك علامة أجلك؛ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا} فقال: ما أعلم فيها إلا ما علمت.
وظهر بذلك فضل عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما-.
593;مر رضی اللہ عنہ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ صاحب الرائے لوگوں سے ان معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے جن میں آپ کو کوئی اشکال ہوتا اور بدری بزرگوں اور بڑے بڑے صحابہ کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی شامل کیا کرتے تھے جو ان کی بنسبت بہت کم سن تھے۔ وہ اس سے ناراض ہوئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور ان کے بیٹوں کو شامل نہیں کرتے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ انہیں عبد اللہ بن عباس کی علمی قدر و منزلت اور ذہانت و فطانت سے آگاہ کریں۔ انہوں نے انہیں جمع کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی بلایا اور ان پر اس سورت کو پیش کیا: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ (سورہ نصر) ترجمہ: جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے۔ تو اپنے رب کی تسبیح کرنے میں جُٹ جا، حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے۔‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس سورت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ تو چپ رہا اور ایک گروہ نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب نصرت اور مدد آ جائے تو ہم اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور اس کی حمد و تسبیح بیان کریں۔ تاہم عمر رضی اللہ عنہ اس سورت کا اصل مدعا جاننا چاہتے تھے اور ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ الفاظ و کلمات کا معنیٰ معلوم کریں۔ انہوں ںے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم اس سورت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت آپ ﷺ کو عطا کی کہ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} یعنی جب مکہ فتح ہو جائے گا تو یہ تمہاری وفات کی علامت ہو گی چنانچہ۔ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ ترجمہ:’’تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بے شک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے‘‘۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ نے کہا: مجھے بھی اس سورت کے بارے میں وہی کچھ معلوم ہے جو تم جانتے ہو۔ اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت واضح ہو گئی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3377

 
 
Hadith   320   الحديث
الأهمية: ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا


Tema:

کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے نہ ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے نہ ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يمر على الناس يوم إلا وملكان ينزلان، فيقول أحدهما: اللهم أعط من أنفق ماله في الخير كالطاعات وعلى العيال والضيفان عوضا، في الدنيا والآخرة، ويقول الآخر: اللهم أهلك البخيل الذي يمسك عما أوجب الله عليه من بذل المال فيه هو وماله.
604;وگوں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب دو فرشتے نہ اترتے ہوں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! جو اپنے مال کو خیر کے کاموں خرچ کرتا ہے جیسے طاعت وبندگی، اہل و عیال اور اپنے مہمانوں پر تو، تو اسے دنیا اور آخرت میں اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! بخیل کو اور اس کے مال کو ہلاک کر دے جو اپنے مال کو ان مصارف میں خرچ نہیں کرتا جن میں خرچ کرنا اللہ تعالی نے اس پر واجب کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3379

 
 
Hadith   321   الحديث
الأهمية: لقد تابت توبةً لو قُسِمَتْ بين سبعين من أهل المدينة لَوَسِعَتْهُم، وهل وَجَدَتْ أفضل من أن جَادَتْ بنفسها لله - عز وجل؟!


Tema:

اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر باشندوں میں بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔ کیا تم اس سے زیادہ بھی کوئی افضل بات پاتے ہو کہ اس نے اللہ عز و جل کے لیے اپنی جان ہی قربان کر دی۔؟!

عن أبي نُجَيد عمران بن حصين الخزاعي -رضي الله عنه- أن امرأة من جهينة أتت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهي حُبْلَى من الزنى، فقالت: يا رسول الله، أصبتُ حدًّا فَأَقِمْهُ عليَّ، فدعا نبيُّ الله -صلى الله عليه وسلم- وَلِيَّهَا، فقال: «أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فإذا وَضَعَتْ فَأْتِنِي» ففعل، فأمر بها نبي الله -صلى الله عليه وسلم- فَشُدَّتْ عليها ثيابها، ثم أمر بها فَرُجِمَتْ، ثم صلى عليها. فقال له عمر: تُصَلِّي عليها يا رسول الله وقد زنت؟ قال: «لقد تابت توبةً لو قُسِمَتْ بين سبعين من أهل المدينة لَوَسِعَتْهُم، وهل وَجَدَتْ أفضل من أن جَادَتْ بنفسها لله -عز وجل-؟!».

ابو نجید عمران بن حصین خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جو کہ زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ وہ کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں نے ایک ایسا گناہ کیا جس پر میں حد کی سزا کی مستحق ہوتی ہوں چنانچہ اسے میرے اوپر لاگو کیجئے۔ آپ ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور فرمایا: ”اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جن چکے تو میرے پاس لانا“۔ اس نے ایسے ہی کیا۔ آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس عورت کے کپڑے اس پر باندھ دیے گئے۔ پھر آپ ﷺ کےحکم سے اسے سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر باشندوں میں بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔ کیا تم اس سے زیادہ بھی کوئی افضل بات پاتے ہو کہ اس نے اللہ عز و جل کے لیے اپنی جان ہی قربان کر دی؟!“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاءت امرأة من جهينة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهي حاملٌ قد زنت رضي الله عنها، فأخبرته أنها قد أصابت شيئا يوجب عليها الحد؛ ليقيمه عليها، فدعا النبي صلي الله عليه وسلم وليها، وأمره أن يحسن إليها، فإذا وضعت فليأت بها إليه، فلما وضعت أتى بها وليها إلى النبي صلي الله عليه وسلم، فلفت ثيابها وربطت لئلا تنكشف، ثم أمر بها فرجمت بالحجارة حتى ماتت، ثم صلى عليها النبي صلى الله عليه وسلم ودعا لها دعاء الميت، فقال له عمر رضي الله عنه: تصلي عليها يا رسول الله وقد زنت؟ فأخبره النبي صلى الله عليه وسلم أنها قد تابت توبة واسعة لو قسمت على سبعين من المذنبين لوسعتهم ونفعتهم، فإنها جاءت سلمت نفسها من أجل التقرب إلى الله عز وجل والخلوص من إثم الزنى؛ فهل هناك أعظم من هذا؟.
580;ہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی جو حاملہ تھی۔ اس نے زنا کیا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو بتایا کہ اس نے ایک ایسی چیز کا ارتکاب کیا ہے جس سے اس پر حد کی سزا واجب ہوتی ہے۔ (اس کے بتانے کا مقصد یہ تھا) کہ آپ ﷺ اس پر یہ حد نافذ کریں۔ نبی ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور اسے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ جب وہ بچہ جن دے تو اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آئے۔جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کا ولی اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آیا۔ اس کے کپڑے لپیٹ کر باندھ دیے گئے تا کہ وہ ننگی نہ ہو اور پھر آپ ﷺ کے حکم سے اسے سنگسار کر دیا گیا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ پھر نبی ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور اس کے لیے وہ دعا مانگی جو مرنے والے کے لیے مانگی جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا؟۔ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس نے تو اتنی بڑی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ستر گناہ گاروں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو ان کے لیے کافی ہوجائے۔ اس نے تو اللہ کی رضا کے لیے اور زنا کے گناہ سے خلاصی پانے کے لیے اپنی جان ہی دے دی۔ کیا اس سے بھی کوئی بڑا کام ہو سکتا ہے۔؟   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3380

 
 
Hadith   322   الحديث
الأهمية: أخوف ما أخاف عليكم: الشرك الأصغر، فسئل عنه، فقال: الرياء


Tema:

مجھے تمہارے بارے میں جس شے کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری۔

عن محمود بن لبيد -رضي الله عنه- مرفوعاً: "أَخْوَفُ ما أخاف عليكم: الشرك الأصغر، فسئل عنه، فقال: الرياء".

محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”مجھے تمہارے بارے میں جس شے کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أنه يخاف علينا، وأكثر ما يخاف علينا من الشرك الأصغر، وذلك لما اتصف به -صلى الله عليه وسلم- من كمال العطف والرحمة بأمته، والحرص على ما يصلح أحوالهم، ولما عرفه من قوة أسباب الشرك الأصغر الذي هو الرياء وكثرة دواعيه، فربما دخل على المسلمين من حيث لا يعلمون فيضر بهم؛ لذا حذرهم منه وأنذرهم.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ آپ ہمارے بارے میں خوف محسوس کرتے تھے، اور آپ کو ہمارے متعلق جس چیز کا سب سے زیادہ خوف تھا وہ شرک اصغر ہے، کیونکہ آپ ﷺ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق اور مھربان تھے اور آپ ﷺ ہر ایسی بات کے حریص تھے جو ان کی بہتری کا سبب ہو۔ اور اس وجہ سے کہ آپ ﷺ کو شرک اصغر یعنی ریاکاری کے اسباب کی قوت و طاقت اور اس کے محرکات کی کثرت کی جانکاری تھی۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ مسلمان انجانے میں اس کا شکار ہو جائیں اور یہ ان کو نقصان پہنچائے۔ لھٰذا آپ ﷺ نے انہیں اس سے متنبہ فرمایا اور خبردار کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3381

 
 
Hadith   323   الحديث
الأهمية: الطيرة شرك، الطيرة شرك، وما منا إلا، ولكن الله يذهبه بالتوكل


Tema:

بدشگونی لینا شرک ہے۔ بد شگونی لینا شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: "الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وما منا إلا، ولكنَّ الله يُذْهِبُهُ بالتوكل".
(وما منا إلا، ولكنَّ الله يُذْهِبُهُ بالتوكل) من قول ابن مسعود وليس مرفوعًا.

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” بدشگونی لینا شرک ہے۔ بد شگونی لینا شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے“۔
” اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے“ یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے نہیں بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يخبر ويكرر الإخبار؛ ليتقرر مضمونه في القلوب، أن الطيرة -وهي التشاؤم الذي يمنع الشخص من فعل أو يدفعه إليه- شرك؛ لما فيها من تعلق القلب على غير الله وسوء الظن به.
وقال ابن مسعود: وما منا من أحد إلا وقد وقع في قلبه شيء من التشاؤم، ولكن الله يُذهب هذا التشاؤم بالتوكل والاعتماد عليه، وهذا -والله أعلم- على سبيل التواضع والمبالغة، مع بيان العلاج إذا حصل ذلك.
585;سول اللہ ﷺ خبر دے رہے ہیں اور اسے مکرر کہ رہے ہیں تاکہ اس کا مفہوم اچھی طرح دلوں میں بیٹھ جائے کہ 'طیرۃ' جس سے مراد بدشگونی ہے جو انسان کو کسی کام سے روکتی ہے یا پھر اسے اس پر آمادہ کرتی ہے، شرک ہے کیونکہ اس میں دل غیر اللہ کے ساتھ لگتا ہے اور اللہ سے بد گمانی پیدا ہوتی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کے دل میں بدشگونی پیدا ہوتی ہے تاہم اللہ تعالی اپنے اوپر توکل اور اعتماد کی وجہ سے اس بدشگونی کو زائل کر دیتا ہے۔ اور یہ( بیان)۔ واللہ اعلم۔ تواضع اور مبالغہ کے طور پر ہے اور ساتھ ہی ساتھ بدشگونی ہونے پر اس کےعلاج کا (بھی) ذکر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3383

 
 
Hadith   324   الحديث
الأهمية: أليس يحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ ويحلون ما حرم الله فتحلونه؟ فقلت: بلى، قال: فتلك عبادتهم


Tema:

کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اور جو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ: کیوں نہیں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے۔

عن عدي بن حاتم -رضي الله عنه-: "أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ هذه الآية: "اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ" فقلت له: إنا لسنا نعبدهم، قال: أليس يُحَرِّمُونَ ما أحل الله فتُحَرِّمُونَهُ؟ ويُحِلُّونَ ما حَرَّمَ الله فتُحِلُّونَهُ؟ فقلت: بلى، قال: فتلك عبادتهم".

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ’’اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ‘‘ (التوبه: 31) ترجمہ:”انہوں نے اپنےعلماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ اللہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں“۔ (عدی کہتے ہیں) میں نے آپ ﷺ سے کہا: ہم (زمانۂ کفر میں) ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اورجو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے؟‘‘میں نے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حينما سمع هذا الصحابي الجليل تلاوة الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لهذه الآية التي فيها الإخبار عن اليهود والنصارى: بأنهم جعلوا علماءهم وعبّادهم آلهة لهم يشرعون لهم ما يخالف تشريع الله فيطيعونهم في ذلك، استشكل معناها، لأنه كان يظن أن العبادة مقصورة على السجود ونحوه، فبين له الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن من عبادة الأحبار والرهبان: طاعتهم في تحريم الحلال وتحليل الحرام، خلاف حكم الله -تعالى- ورسوله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
580;ب اس جلیل القدر صحابی نے رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا جس میں یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا بایں طور کہ وہ ان کے لیے ایسے قوانین وضع کرتے جو اللہ کی شریعت کے مخالف ہوتے اور وہ اس میں ان کی اطاعت کرتے، تو انہیں اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں اشکال ہوا کیونکہ ان کے خیال میں عبادت صرف سجدے وغیرہ تک محصور تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ بھی احبار و رہبان کی عبادت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف حلال کو حرام ٹھہرانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں ان کی اطاعت کی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3384

 
 
Hadith   325   الحديث
الأهمية: جاء حبر من الأحبار إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا محمد، إنا نجد أن الله يجعل السماوات على إصبع، والأرضين على إصبع


Tema:

ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: "جاء حَبْرٌ من الأحبار إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا محمد، إنا نجد أن الله يجعل السماوات على إِصْبَعٍ، والأَرَضَينَ على إِصْبَعٍ، والشجر على إِصْبَعٍ، والماء على إِصْبَعٍ، والثَّرَى على إِصْبَعٍ، وسائر الخلق على إِصْبَعٍ، فيقول: أنا الملك، فضحك النبي -صلى الله عليه وسلم- حتى بَدَتْ نَوَاجِذَهُ تَصْدِيقًا لقول الحبر، ثم قرأ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ).
وفي رواية لمسلم: "والجبال والشجر على إِصْبَعٍ، ثم يَهُزُّهُنَّ فيقول: أنا الملك، أنا الله".
وفي رواية للبخاري: "يجعل السماوات على إِصْبَعٍ، والماء والثَّرَى على إِصْبَعٍ، وسائر الخلق على إِصْبَعٍ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی کو ایک انگلی پر، مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا:میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ ہنس پڑے، جس سے آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ در اصل آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ”اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی اور حال یہ ہے کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن“۔
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ”اور پہاڑ و درخت ایک انگلی پر۔ پھر انھیں حرکت دیتے ہوئے فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں! میں اللہ ہوں!“
اور بخاری کی روایت میں ہے: ”آسمانوں کو ایک انگلی پر، پانی و مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن مسعود -رضي الله عنه- أن رجلا من علماء اليهود جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وذكر له أنهم يجدون في كتبهم أن الله -سبحانه- يوم القيامة يجعل السموات على إصبع، والأرضين على إصبع، والشجر على إصبع، والثرى على إصبع، وفي رواية: والماء على إصبع، وسائر المخلوقات على إصبع، من أصابعه -جل وعلا-، وهي خمسة كما في الروايات الصحيحة، وليست كأصابع المخلوقين، وأنه يظهر شيئا من قدرته وعظمته عزوجل فيهزهن ويعلن ملكه الحقيقي، وكمال تصرفه المطلق وألوهيته الحقة.
فضحك النبي -صلى الله عليه وسلم- حتى بدت نواجذه تصديقا لقول الحبر، ثم قرأ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ}.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک یہودی عالم نے نبی ﷺ کے پاس آکر بتایا کہ وہ اپنی کتابوں میں پاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمینوں کو، ایک انگلی پر درخت کواور ایک انگلی پر مٹی کو اٹھائے گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پانی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اٹھائے گا۔ یہ کل پانچ انگلیاں ہوئیں جیسا کہ صحیح روایات میں موجود ہے؛ البتہ اللہ کی انگلیاں مخلوقات کی انگلیوں کی طرح نہیں ہیں۔ پھر اللہ عز و جل اپنی عظمت و قدرت کا قدرے اظہار کرے گا۔ چنانچہ وہ انھیں حرکت دے گا اور اپنی حقیقی بادشاہت، مطلق کمالِ تصرف اورالوہیتِ حقہ کا اعلان کرے گا! چنانچہ آپ اس کی بات کی تصدیق کے طور پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ”اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی اور حال یہ ہے کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3386

 
 
Hadith   326   الحديث
الأهمية: يطوي الله السماوات يوم القيامة، ثم يأخذهن بيده اليمنى، ثم يقول: أنا الملك أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟ ثم يطوي الأرضين السبع، ثم يأخذهن بشماله، ثم يقول: أنا الملك، أين الجبارون؟ أين المتكبرون


Tema:

روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو متکبر بنے پھرتے تھے؟ پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے تھے؟

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "يَطْوِي الله السماوات يوم القيامة، ثم يَأْخُذُهُنَّ بيده اليمنى، ثم يقول: أنا الملك أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟ ثم يَطْوِي الأَرَضِينَ السبع، ثم يأخذهن بشماله، ثم يقول: أنا الملك، أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟".

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو متکبر بنے پھرتے تھے؟ پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے تھے؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن عمر -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبرهم بأن الله -عز وجل- سوف يطوي السموات السبع يوم القيامة ويأخذهن بيده اليمنى، ويطوي الأرضين السبع ويأخذهن بيده الشمال، وأنه كلما طوى واحدة منهن نادى أولئك الجبارين والمتكبرين مستصغرا شأنهم معلنا أنه هو صاحب الملك الحقيقي الكامل الذي لا يضعف ولا يزول، وأن كل من سواه من ملك ومملوك وعادل وجائر زائل وذليل بين يديه عزوجل، لا يسأل عما يفعل وهم يسألون.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیں بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو بتایا کہ قیامت کے دن اللہ عز وجل ساتوں آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور یہ کہ وہ جب بھی ان میں سے کسی کو لپیٹے گا تو ان سرکشوں اور متکبروں کو تحقیر آمیز لہجے میں پکار کر اعلان کرے گا کہ وہی حقیقی و کامل بادشاہت کا مالک ہے، جس میں نہ کوئی کمزوری آتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی ختم ہوتی ہے اور یہ کہ اس کے سوا ہر بادشاہ، غلام، انصاف پرور اور ظالم سب ختم ہو جانے والے اور اس کے سامنے بے حیثیت ہیں۔ اللہ اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب ده نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب ده ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3387

 
 
Hadith   327   الحديث
الأهمية: كنت أغسل الجنابة من ثوب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فيخرج إلى الصلاة، وإن بقع الماء في ثوبه


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو دھو ڈالتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے؛ حالاںکہ پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے پر موجود ہوتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ((كُنْت أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَيَخْرُجُ إلَى الصَّلاةِ، وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ)).

وَفِي رواية: ((لَقَدْ كُنْتُ أَفْرُكُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَرْكاً، فَيُصَلِّي فِيهِ)).

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے؛ حالاںکہ پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے میں موجود ہوتے۔
ایک اور روایت میں ہے: میں رسول الله ﷺ کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیتی تھی اور آپ ﷺ اسے پہن کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تذكر عائشة -رضي الله عنها-: أنه كان يصيب ثوب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- المني من الجنابة، فتارة يكون رطبا فتغسله من الثوب بالماء، فيخرج إلى الصلاة، والماء لم يجف من الثوب، وتارة أخرى، يكون المني يابسًا، وحينئذ تفركه من ثوبه فركًا، فيصلى فيه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑے کو جنابت کی وجہ سے منی لگ جاتی۔ بعض اوقات یہ گیلی ہوتی تو وہ پانی کے ذریعے اسے کپڑے سے صاف کر دیتیں۔ پانی ابھی کپڑے سے سوکھا نہیں ہوتا تھا کہ آپ ﷺ اسی حالت میں نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ بعض اوقات منی سوکھی ہوتی، اس صورت میں وہ اسے کھرچ کر کپڑے سے اتار دیتیں اور آپ ﷺ اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3388

 
 
Hadith   328   الحديث
الأهمية: انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقلنا: أنت سيدنا، فقال السيد الله -تبارك وتعالى-


Tema:

میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے سید ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا ”سید تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔

عن عبد الله بن الشخير -رضي الله عنه- قال: "انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقلنا: أنت سيدنا. فقال السيد الله -تبارك وتعالى-. قلنا: وأَفْضَلُنَا فَضْلًا وأَعْظَمُنْا طَوْلًا. فقال: قولوا بقولكم أو بعض قولكم، ولا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشيطان".

عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، تو ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے سید ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا ” سید تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔“ ہم نے کہا: آپ ﷺہم میں سب سے فضیلت والے اور صاحب جود و سخا ہیں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: ” تم اس طرح کی بات کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنا لے“ ( کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو، جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما بالغ هذا الوفد في مدح النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نهاهم عن ذلك؛ تأدبًا مع الله -سبحانه- وحماية للتوحيد، وأمرهم أن يقتصروا على الألفاظ التي لا غلوّ فيها ولا محذور؛ كأن يدعوه بمحمد رسول الله، كما سماه الله -عز وجل-، أو: نبي الله، أو: أبا القاسم، وحذرهم من أن يتخذهم الشيطان وكيلًا عنه في الأفعال التي يوسوس بها لهم.
575;س وفد میں شامل لوگوں نے جب نبی کریم ﷺ کی مدح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا، تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ادب اور اس کی توحید کے تحفظ کے پیش نظر ان کو اس سے منع فرمادیا اور یہ حکم دیا کہ وہ ایسے الفاظ ہی استعمال کریں، جن میں غلو اور گناہ نہ ہو۔ مثلا آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کہہ کر پکاریں، جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی نام سے پکارا ہے۔ آپﷺ نے انھیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں شیطانی انھیں وسوسہ اندازی کے لیے اپنا وکیل نہ بنا لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3389

 
 
Hadith   329   الحديث
الأهمية: إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فليكن أولَ ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله


Tema:

تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لما بعث معاذا إلى اليمن قال له: "إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فليكن أولَ ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله" -وفي رواية: "إلى أن يوحدوا الله-، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فَتُرَدُّ على فقرائهم، فإن هم أطاعوك لذلك فإياك وكَرَائِمَ أموالِهم، واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب".

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے تم انھیں اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم انھیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان میں سے اصحابِ ثروت سے وصول کر کے انہی میں سے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لما وجه معاذ بن جبل -رضي الله عنه- إلى إقليم اليمن داعيا إلى الله ومعلما، رسم له الخطة التي يسير عليها في دعوته، فبين له أنه سيواجه قوما أهل علم وجدَل من اليهود والنصارى؛ ليكون على استعداد لمناظرتهم ورد شبههم، ثم ليبدأ في دعوته بالأهم فالأهم، فيدعو الناس إلى إصلاح العقيدة أولا؛ لأنها الأساس، فإذا انقادوا لذلك أمرهم بإقام الصلاة، لأنها أعظم الواجبات بعد التوحيد، فإذا أقاموها أمر أغنياءهم بدفع زكاة أموالهم إلى فقرائهم؛ مواساة لهم وشكرا لله، ثم حذّره من أخذ جيد المال؛ لأن الواجب الوسط، ثم حثّه على العدل وترك الظلم؛ لئلا يدعو عليه المظلوم ودعوتُه مستجابة.
606;بی ﷺ نے جب معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کو یمن کے ایک علاقے میں داعی اور معلم بنا کر بھیجا تو انہیں دعوت دینے کے سلسلے میں ایک لائحہ عمل فراہم کیا۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ان کا سامنا یہود و نصاری کے ایک ایسے گروہ سے ہوگا جو اہل علم اور بحث کرنے والے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے اور ان کے شبہات کو دور کرنے کے لیے پوری طرح تیار رہیں۔ پھر آپ نے ان کو تلقین کی کہ اپنی دعوت کا آغاز سب سے اہم چیز کے ساتھ کریں اور اس کے بعد ان چیزوں کی دعوت دیں جو اس سے کم اہم ہوں۔چنانچہ لوگوں کو سب سے پہلے عقیدے کی درستگی کی دعوت دیں کیوں کہ یہ بنیاد ہے۔ جب وہ ان کی بات کو مان لیں تو پھر انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیں کیوں کہ یہ توحید کے بعد واجبات میں سے سب سے بڑا واجب ہے۔ جب وہ نماز کو قائم کرنے لگ جائیں تو ان کے امیر لوگوں کو اپنے اموال کی زکوۃ نکال کر کے اپنے فقراء کو دینے کا حکم دیں تاکہ فقراء کی دلجوئی ہو سکے اور اللہ کا شکر ادا ہو سکے۔پھر آپ ﷺ نے معاذ بن جبل کو اس بات سے منع کیا کہ وہ (بطورِ زکوۃ) ان کا عمدہ مال لیں کیوں کہ فرض درمیانہ مال ادا کرنا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عدل کرنے اور ظلم کو ترک کرنے کی ترغیب دی تاکہ یہ نہ ہو کہ کوئی مظلوم ان کے خلاف دعا کردے کیوں کہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہو کر رہتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3390

 
 
Hadith   330   الحديث
الأهمية: ارفع رأسك وقل يُسمع، وسل تُعط، واشفع تُشفَّع


Tema:

اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم-: "أنه يأتي فيسجد لربه ويحمده [لا يبدأ بالشفاعة أولا]، ثم يقال له: "ارفع رأسك وقل يُسمع، وسَلْ تُعط، واشفع تُشفَّع".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: نبی ﷺ نے بتلایا کہ ’’آپ ﷺ (روز قیامت) اپنے رب کے سامنے آکر سجدہ ریز ہو جائیں گے اور اس کی حمد بیان کریں گے (یعنی پہلے شفاعت نہیں کریں گے) پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا: ”اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأتي رسول الله –صلى الله عليه وسلم -  يوم القيامة فيسجد لله، ويدعو، ثم يأذن الله له في الشفاعة العظمى، ويقول له ربه: سل تعط واشفع تشفع، أي سؤالك مقبول وشفاعتك مقبولة.
585;وز قیامت رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں گے اور اللہ کو سجدہ کریں گے اور اس سے دعا کریں گے۔ پھر اللہ تعالی آپ ﷺ کو شفاعت عظمی کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے کہے گا: مانگیں، آپ کو دیا جائے گا، شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی یعنی آپ کا سوال قابل قبول اور آپ کی شفاعت مقبول ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3393

 
 
Hadith   331   الحديث
الأهمية: أولئكِ إذا مات فيهم الرجل الصالح أو العبد الصالح بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئكِ شرار الخلق عند الله


Tema:

وہ ایسے لوگ تھے کہ اگر اُن میں سے کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدترین ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: "أن أم سلمة ذكرت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- كنيسة رأتها بأرض الحبشة وما فيها من الصور، فقال: أولئك إذا مات فيهم الرجل الصالح أو العبد الصالح بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله".

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے ایک گرجا گھر کا ذکر کیا جس کو انھوں نے حبشہ کے ملک میں دیکھا ،اس میں جو تصاویر دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور پھر اس کی تصویر اس میں رکھتے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن أمّ سلمة وصفت عند النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وهو في مرض الموت ما شاهدته في معبد النصارى من صور الآدميّين، فبين -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- السبب الذي من أجله اتخذوا هذه الصور؛ وهو الغلو في تعظيم الصالحين؛ مما أدى بهم إلى بناء المساجد على قبورهم ونصب صورهم فيها، ثم بيّن حكم من فعل ذلك بأنهم شرار الناس؛ لأنهم جمعوا بين محذورين في هذا الصنيع هما: فتنة القبور باتخاذها مساجد، وفتنة تعظيم التماثيل مما يؤدي إلى الشرك.
575;م سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے (جب آپ ﷺ مرض الموت میں مبتلا تھے) نصاریٰ کے گرجوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان میں موجود آدمیوں کی تصویروں کے حوالے سے بات کی جو انھوں نے وہاں دیکھی تھیں۔تو رسول اللہﷺ نے ان تصویروں کا سبب اور وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کا اپنے صلحاء کی تعظیم میں غلو ہے، جس نے انھیں اس نتیجہ پر پہنچادیا کہ وہ ان کی قبروں پر عبادت گاہیں بنائیں اور پھر ان کے اندر ان کی تصویریں لگائیں۔ پھر اس کا حکم بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنھوں نے ایسا کیا وہ بدترین لوگ ہیں کیوں کہ انھوں نے دو ایسی چیزوں کو جمع کر دیا جن سے بچنا ضروری تھا؛ ایک، قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا فتنہ اور دوسرا تماثیل (مجسموں) کی تعظیم کا فتنہ جو شرک کی طرف لے جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3394

 
 
Hadith   332   الحديث
الأهمية: إياكم والغلو؛ فإنما أهلك من كان قبلكم الغلو


Tema:

غلو سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاک کیا ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إياكم والغُلُوَّ؛ فإنما أهلك من كان قبلكم الغُلُوُّ".

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاک کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهانا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث عن الغلو في الدين وهو مجاوزة الحد فيه؛ لئلا نهلك كما هلكت الأمم السابقة حينما غلو في دينهم وتجاوزوا الحد في عبادتهم.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں دین میں غلو کرنے سے منع فرما رہے ہیں۔ غلو سے مراد ہے دینی معاملات میں حد سے تجاوز کرنا۔اور ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں ہم بھی سابقہ امتوں کی طرح ہلاک نہ ہو جائیں جب انہوں نے اپنے دین میں غلو کیا اور اپنی عبادت میں حد سے تجاوز کر گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3395

 
 
Hadith   333   الحديث
الأهمية: كنت عند سعيد بن جبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقض البارحة؟ فقلت: أنا، ثم قلت: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لدغت


Tema:

میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، تو انھوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا، جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا۔ پھر میں نے کہا: میں اس وقت نماز میں نہیں تھا؛ کیوں کہ مجھے کسی زہریلے جانور نے ڈس لیا تھا۔

عن حُصين بن عبد الرحمن قال: كنتُ عند سعيد بن جُبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقَضَّ البارحة؟ فقلتُ: أنا، ثم قلتُ: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لُدغْتُ، قال: فما صنعتَ؟ قلت: ارتقيتُ، قال: فما حَمَلك على ذلك؟ قلت: حديث حدَّثَناه الشعبي، قال: وما حدَّثَكم؟ قلتُ حدثنا عن بريدة بن الحُصيب أنه قال: "لا رُقْية إلا مِن عَيْن أو حُمَة"، قال: قد أحسَن مَن انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال:
"عُرضت عليّ الأُمم، فرأيتُ النبي ومعه الرَّهط والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رُفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمَّتي، فقيل لي: هذا موسى وقومه، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه أمَّتك، ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منْزله، فخاض الناس في أولئك؛ فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحِبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلِدُوا في الإسلام فلم يشركوا بالله شيئا، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبروه، فقال: هم الذين لا يَسْتَرقون، ولا يَكْتَوُون، ولا يَتَطَيَّرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عُكاشة بن مِحصَن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، قال: أنت منهم، ثم قام جل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: سَبَقَك بها عكاشة".

حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ: میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا: میں اس وقت نماز میں نہیں تھا کیونکہ میں (کسی زہریلے بچھو کے ذریعہ) ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: جھاڑ پھونک کیا۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس چیز نے اس بات پر ابھارا؟ میں نے کہا: شعبی کی بیان کردہ ایک حدیث نے۔ انہوں نے کہا: شعبی نے کیا بیان کیا؟ میں نے کہا: ہم سے انہوں نے بریدہ بن حُصیب سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ انہوں نے کہا: جو کچھ تم نے سنا ٹھیک سنا۔ لیکن مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کردہ حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ مجھ سے کہا گیا کہ: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے، اور کچھ لوگ کہنے لگے: شاید کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت پائی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام میں ہوئی اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ اور بہت سی باتیں لوگوں نے کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور آپ کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، داغ کر علاج نہیں کرتے اور بد شگونی و فال نہیں لیتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عکاشہ تم سے بازی لے گئے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا حُصين بن عبد الرحمن -رحمه الله- عن محاورة جرت بينه وبين سعيد بن جبير -رحمه الله- في شأن الرقية، وذلك أن حصينًا لدغته عقرب وارتقى منها بالرقية المشروعة، ولما سأله سعيد عن دليله أخبره بحديث الشعبي الذي يبيح الرقية من العين والسم، فامتدحه سعيد على ذلك، ولكنه روى له حديثًا يحبذ ترك الرقية، هو حديث ابن عباس الذي يتضمن الصفات الأربع التي من اتصف بها استحق الجنة بلا حساب ولا عذاب، وهي عدم طلب الرقية، وعدم الاكتواء، وعدم التشاؤم، وصدق الاعتماد على الله -تعالى- ولما طلب عكاشة من النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن يدعو له أن يكون منهم أخبره بأنه معهم، ولما قام رجل آخر لنفس الغرض تلطف معه النبي -صلى الله عليه وسلم- في المنع سدًّا للباب وقطعًا للتسلسل.
581;صین بن عبد الرحمٰن رحمہ اللہ نے جھاڑ پھونک سے متعلق اپنے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے مابین ہونے والی گفتگو کو بیان کیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ حصین کو بچھو نے ڈس لیا اور انھوں نے مشروع رقیہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کیا۔ جب سعید نے ان سے دلیل طلب کی، تو انھوں نے شعبی کی وہ حدیث بیان کی، جو نظر بد اور زہر کے لیے جھاڑ پھونک کو مباح قرار دیتی ہے۔ سعید نے اس پر ان کی تعریف کی، لیکن اس کے ساتھ ان کے لیے ترکِ رقیہ کو بہتر قرار دینے والی حدیث بیان کی۔ وہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے، جس میں چار صفات سے متصف لوگوں کو حساب و عذاب کے بغیر جنت کا مستحق بتایا گیا ہے، جو درج ذیل ہیں:جھاڑ پھونک سے اجتناب کرنا، داغنے کے علاج سے پرہیز کرنا، بد فالی سے دور رہنا اور اللہ تعالیٰ پر سچا بھروسہ کرنا۔ جب عکاشہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی، تو آپ نے بتایا کہ تم انھیں میں سے ہو۔ لیکن جب یہی گزارش دوسرے صحابی نے کی، تو آپ نے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے منع کر دیا؛ تاکہ اس سلسلے کا سد باب کیا جا سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3396

 
 
Hadith   334   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سئل عن النُّشرة؟ فقال: هي من عمل الشيطان


Tema:

رسول اللہ ﷺ سے نُشرَہ کے بارےمیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطانی عمل ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سئل عن النُّشْرَةِ؟ فقال: هي من عمل الشيطان.

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نُشرَہ ( زمانۂ جاہلیت کا ایک منتر ہے جس سے آسیب زدہ لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ شیطانی عمل ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- سئل عن علاج المسحور على الطريقة التي كانت تعملها الجاهلية، مثل: حل السحر بالسحر ما حكم ذلك، فأجاب -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بأنه من عمل الشيطان أو بواسطته؛ لأنه يكون بأنواع سحرية واستخداماتٍ شيطانيةٍ، فهي شركية ومحرمة.
أما النشرة الجائزة: فهي فك السحر بالرقية أو بالبحث عنه، وفكه باليد مع قراءة القرآن أو بالأدوية المباحة.
585;سول اللہ ﷺ سے جادو کے علاج کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جیسے جاہلیت میں علاج کیا جاتاتھا مثلاً جادو کا علاج جادو کے ذریعے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ یہ شیطانی عمل ہے یا اس کے واسطے سے ہے کیوں کہ اس میں بہت ساری جادو کی اقسام اور شیطانی خدمات کا استعمال ہوتا ہے، لہذا یہ شرکیہ اور حرام عمل ہے۔ اور ’’جائز نشرہ‘‘ جادو کا ــــــــــ دم کے ذریعہ، یا اس کا کھوج کرکے توڑنا ہے، اسی طرح اسے ہاتھ کے ذریعہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ یا جائز ادویات سے توڑنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3402

 
 
Hadith   335   الحديث
الأهمية: لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم؛ إنما أنا عبد، فقولوا: عبد الله ورسوله


Tema:

میری تعریف میں ایسے حد سے نہ گزرو، جیسے عیسائی لوگ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں حد سے گزر گئے۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں۔ اس لیے یوں کہو کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «لا تُطْروني كما أَطْرت النصارى ابنَ مريم؛ إنما أنا عبده، فقولوا: عبد الله ورسوله».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری تعریف میں ایسے حد سے نہ گزرو، جیسے عیسائی لوگ عیسی ابن مریم (علیہ السلام) کی تعریف میں حد سے گزر گئے۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں۔ اس لیے یوں کہو کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حرصاً منه على توحيد الله -تعالى-، وخوفاً على أمته من الشرك الذي وقعت فيه الأمم السابقة، حذَّرها من الغلو فيه، ومجاوزة الحد في مدحه مثل وصفه بأوصاف الله -تعالى- وأفعاله الخاصة به، كما غلت النصارى في المسيح بوصفه بالألوهية والبنوة لله -تعالى-، فوقعت في الشرك كما قال تعالى: {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ} ثم قال: «فإنما أنا عبده، فقولوا عبد الله ورسوله» أي: فصفوني بالعبودية والرسالة كما وصفني الله -تعالى- بذلك، ولا تتجاوزوا بي حدود العبودية إلى مقام الألوهية أو الربوبية كما فعلت النصارى، فإن حق الأنبياء العبودية والرسالة، أما الألوهية فإنها حق الله وحده، ومع هذا التحذير فقد وقع بعض الناس فيما حذر منه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- منه، فاحذر من أن تكون منهم.
606;بی ﷺ نے اللہ کی توحید کے اثبات کی حرص اور اس اندیشے کے تحت کہ کہیں آپ ﷺ کی امت بھی اس شرک میں مبتلا نہ ہوجائے، جس میں سابقہ امتیں مبتلا ہوئیں، اپنے بارے میں غلو کرنے سے منع فرمایا اور اس بات سے روکا کہ آپ ﷺ کی تعریف میں حد سے تجاوز کیا جائے۔ مثلا آپ ﷺ کو اللہ کے اوصاف اور اس کے ساتھ خاص افعال کے ساتھ متصف کیا جائے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا کہ انہیں الوہیت اور اللہ تعالی کے بیٹے ہونے کے وصف سے موصوف کر دیا اور یوں عیسائی شرک میں پڑ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ ترجمہ: ”بے شک وه لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ حاﻻںکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو، جو میرا اور تمہارا، سب کا رب ہے۔ یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہ گاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا“۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو اس کا ایک بندہ ہوں، یوں کہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔ یعنی مجھے عبودیت اور رسالت کے اوصاف کے ساتھ متصف کرو، جس طرح خود اللہ تعالی نے محھےان صفات سے متصف کیا ہے اور مجھے حدود عبودیت سے باہر نکال کر مقام الوہیت یا مقام ربوبیت تک نہ لے جاؤ، جیسا کہ عیسائیوں نے کیا۔ انبیا کا حق عبودیت اور رسالت ہے۔ جب کہ الوہیت صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ اس تنبیہہ کے باوجود کچھ لوگ اسی بات میں مبتلا ہیں، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا۔ احتیاط کریں کہ کہیں آپ ان میں سے نہ ہوجائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3406

 
 
Hadith   336   الحديث
الأهمية: لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر


Tema:

چھوت لگنے، بدشگونی، الو کی نحوست اور ماہ صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

عن أبي هريرة  -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا عَدْوَى ولا طِيَرَة ولا هَامَةَ ولا صَفَرَ" أخرجاه.
 زاد مسلم "ولا نَوْءَ ولا غُولَ".

ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چھوت لگنے، بدشگونی، الو کی نحوست اور ماہ صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔
یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم دونوں ہی نے ذکر کی ہے۔ امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”اور نہ تارے کی گردش میں کوئی تاثیر ہے اور نہ بھوت کی کوئی حقیقت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كانت الجاهلية تعج بكثير من الخرافات والأوهام التي لا تستند إلى برهان، أراد الإسلام أن يقي أتباعه من تلك الأباطيل، فأنكر ما كان يعتقده المشركون في هذه الأشياء المذكورة في الحديث، فبعضها نفى وجوده أصلا كالطيرة، والبعض الآخر نفى تأثيره بنفسه؛ لأنه لا يأتي بالحسنات إلا الله، ولا يدفع السيئات إلا هو.
670;وںکہ زمانۂ جاہلیت میں بہت سی ایسی خرافات اور اوہام کا دور دورہ تھا، جن کے پیچھے کوئی بھی دلیل نہیں تھی، اس لیے اسلام نے چاہا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو ان باطل عقائد سے بچائے۔ چناںچہ اسلام نے حدیث میں مذکورہ ان اشیا کے بارے میں مشرکین کا جو عقیدہ تھا، اسے ناپسند کیا۔ ان میں سے کچھ کے بارے میں تو اس نے یہ کہا کہ ان کا بالکل کچھ وجود ہی نہیں ہے، جیسے بد شگونی لینا اور بعض میں بذات خود کسی تاثیر کے ہونے کی نفی کی۔ کیوںکہ اچھی چیزوں کو اللہ ہی لاتا ہے اور بری اشیا کو دور ہٹانے والے بھی وہی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3407

 
 
Hadith   337   الحديث
الأهمية: لا يحل السحر إلا ساحر


Tema:

جادو کو جادوگر ہی اتار سکتا ہے۔

ورُوي عن الحسن أنه قال: "لا يحل السحر إلا ساحر".

حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں: ”جادو کو جادوگر ہی اتار سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
النشرة حل السحر، وظاهر كلام الحسن منعه مطلقا؛ لأنه لا يقدر على حل السحر إلا من له معرفةٌ بالسحر، وهذا محمولٌ على حل السحر بسحرٍ مثله، وهو من عمل الشيطان، وقد فصل ابن القيم ما حاصله: أن علاج المسحور بأدوية مباحة وقراءة قرآن أمر جائز - وعلاجه بسحر مثله محرم.
606;ُشرہ (ایک قسم کا منتر ہے جو جادو کے توڑ کے لیے پڑھا جاتا ہے) حسن بصری رحمہ اللہ کا کلام بظاہر نُشرہ کی مطلقاً نفی کرتا ہے، اس لیے کہ جادو کو وہی شخص ختم کرسکتا ہے جو اس کے بارے میں جانتا ہو۔ یہ جادو کو جادو کے ذریعے سے ختم کرنے پر محمول ہے جو کہ شیطانی کام ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ علیہ نے اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جادو کا علاج جائز دواؤں اور تلاوت قرآن کے ذریعے سے کرنا جائز ہے۔ جب کہ جادو کا علاج جادو ہی کے ذریعے سے ناجائز اور حرام ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام خطابی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3408

 
 
Hadith   338   الحديث
الأهمية: لأعطين الراية غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله، يفتح الله على يديه


Tema:

کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اُسے عزیز رکھتے ہیں۔

عن سهل بن سعد الساعدي -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لأعطين الراية غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله، يفتح الله على يديه، فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها فلما أصبحوا غدوا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كلهم يرجو أن يعطاها: فقال: أين علي بن أبي طالب؟ فقيل: هو يشتكي عينيه، فأرسلوا إليه فأتي به، فبصق في عينيه، ودعا له فبرأ كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية فقال: انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله -تعالى- فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من حمر النعم".

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا: کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اسے عزیز رکھتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزر گئی کہ دیکھیں، نبی کریم ﷺعَلم کسے عطا فرماتے ہیں۔صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اس امید کے ساتھ کہ عَلم انہیں کو ملے لیکن نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ جب وہ لائے گئے تو آپ ﷺ نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہو گئیں جیسے پہلے کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے انہیں عَلم دیتے ہوئے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو، ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بشّر الصحابة بانتصار المسلمين على اليهود من الغد على يد رجل له فضيلةٌ عظيمة وموالاة لله ولرسوله فاستشرف الصحابة لذلك، كلٌّ يود أن يكون هو ذلك الرجل من حرصهم على الخير، فلما ذهبوا على الموعد طلب النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- علياً وصادف أنه لم يحضر لِما أصابه من مرض عينيه، ثم حضر فتفل النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فيهما من ريقه المبارك فزال ما يحس به من الألم زوالاً كاملاً وسلَّمه قيادة الجيش، وأمره بالمضي على وجهه برفق حتى يقرب من حصن العدو فيطلب منهم الدخول في الإسلام، فإن أجابوا أخبرهم بما يجب على المسلم من فرائض، ثم بين -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لعلي فضل الدعوة إلى الله وأن الداعية إذا حصل على يديه هداية رجل واحد فذلك خير له من أنفس الأموال الدنيوية، فكيف إذا حصل على يديه هداية أكثر من ذلك.
570;پ ﷺ نے صحابہ کو کل کے دن یہودیوں کے خلاف ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری سنائی جنہیں بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور اس کی اللہ اور کے رسول کے ساتھ دوستی بھی ہے۔ صحابہ کرام اس شخص کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ہر ایک اپنی خیر وبھلائی کی تڑپ کی وجہ سے یہ خواہش رکھتا تھا کہ یہ شخص میں ہوں۔ جب مقررہ وقت آیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے علی - رضی اللہ عنہ- کو بلایا، اتفاق سے وہ آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے تھے، پھر جب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، تو جو درد وہ محسوس کررہے تھے وہ بالکل ختم ہوگیا اور آپ نے ان کو لشکر کی کمان سونپی اور آہستہ آہستہ چلنے کو کہا یہاں تک کہ جب وہ دشمن کے قلعہ کے قریب ہوجائیں، تو ان سے اسلام قبول کرنے کا مطالبہ کرو، اگر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو انہیں ایک مسلمان پر لازم فرائض بتلا دو، پھر آپ ﷺ نے علی - رضی اللہ عنہ- سے اللہ کی طرف دعوت دینے کی فضیلت بیان کی کہ اگر ایک شخص بھی داعی کے ذریعہ راہِ ہدایت پر آ گیا تو یہ ان کے لیے دنیا کے قیمتی مال و متاع سے بہتر ہے، اس (اجر اور فضیلت کا کیا کہنا) جب داعی کے ذریعہ ایک سے زائد افراد راہ ہدایت پر آجائیں!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3409

 
 
Hadith   339   الحديث
الأهمية: لما حضرَتْ أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعنده عبد الله بن أبي أمية وأبو جهل، فقال له: يا عم قل لا إله إلا الله، كلمة أحاج لك بها عند الله


Tema:

جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس اس وقت عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ ”لا إله إلا الله“ کہہ دیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔

عن سعيد بن المسيب عن أبيه المسيب بن حزن -رضي الله عنه- قال: "لما حضرَتْ أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعنده عبد الله بن أبي أمية وأبو جهل، فقال له: يا عَمِّ قل لا إله إلا الله، كلمة أُحَاجُّ لك بها عند الله، فقالا له: أَتَرَغَبُ عن ملة عبد المطلب؟ فأعاد عليه النبي -صلى الله عليه وسلم-، فأعادا، فكان آخر ما قال هو على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول لا إله إلا الله، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لأستغفرن لك ما لم أُنْهَ عنك، فأنزل الله: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قربى...} الآية"، وأنزل الله في أبي طالب: {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}.

سعید بن مسیب سے روایت ہے انہوں نے اپنے باپ مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس اس وقت عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ ”لا إله إلا الله“ کہہ دیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ ﷺ برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔انہوں نے ”لا إله إلا الله“ کہنے سے انکار کردیا، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ﴾ ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہ دار ہی ہوں“ اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عاد النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا طالب وهو في سياق الموت وعرض عليه الإسلام؛ ليكون خاتمة حياته ليحصل له بذلك الفوز والسعادة، وطلب منه أن يقول كلمة التوحيد، وعرض عليه المشركون أن يبقى على دين آبائه الذي هو الشرك؛ لعلمهم بما تدل عليه هذه الكلمة من نفي الشرك وإخلاص العبادة لله وحده، وأعاد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- طلب التلفظ بالشهادة من عمه، وأعاد المشركون المعارضة وصاروا سبباً لصده عن الحق وموته على الشرك.
وعند ذلك حلف النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ليطلُبن له من الله المغفرة ما لم يمنع من ذلك، فأنزل الله المنع من ذلك وبيّن له أن الهداية بيد الله يتفضل بها على من يشاء؛ لأنه يعلم من يصلح لها ممن لا يصلح.
فأنزل الله -عز وجل-: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ}، وأنزل الله في أبي طالب: {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}.
606;بی ﷺ نے ابو طالب کی جانکنی کے وقت عیادت کی اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تاکہ ان کی زندگی کا خاتمہ اسلام پر ہو اور اس کے ذریعہ انہیں فلاح اور سعادت حاصل ہو جائے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ کلمہ توحید پڑھ لیں جب کہ مشرکین نے اپنے آبائی دین یعنی شرک پر قائم رہنے کی پیشکش ان سے کرتے رہے، چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ کلمہ، شرک کی نفی کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ ہی کے لیے خاص کرتا ہے، نبی ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے دوبارہ فرمایا: اے چچا! تم کلمہ شہادت کہہ لو اور مشرکین بھی اپنی پیشکش کرتے رہے چنانچہ یہ مشرکین انہیں حق سے روک دینے اور شرک پر وفات پانے کا سبب بنے۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب میں اللہ تعالی سے تمہارے لیے اس وقت تک دعا کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے منع نہ کر دیا جائے، تو اللہ تعالی نے اس سے منع کرتے ہوئے آیت نازل فرمائی اور یہ بیان کر دیا کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے عنایت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون اس کے لائق ہے اور کون اس کے لائق نہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (سورہ التوبہ: 113)۔ ترجمہ: ”نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“۔
اور ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: ﴿إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (سورہ القصص: 56) ترجمہ: ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3410

 
 
Hadith   340   الحديث
الأهمية: ما السماوات السبع والأرضون السبع في كف الرحمن إلا كخردلة في يد أحدكم


Tema:

ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اللہ کی ہتھیلی میں ایسے ہیں جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی میں رائی کا دانہ۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: "ما السماوات السبع والأرضون السبع في كَفِّ الرحمن إلا كَخَرْدَلَةٍ في يد أحدكم".

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اللہ کی ہتھیلی میں ایسے ہیں جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی میں رائی کا دانہ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن عباس -رضي الله عنهما- في هذا الأثر أن نسبة السموات السبع والأرضين السبع مع عظمهن إلى كف الرحمن، كنسبة الخَرْدَلَةِ الصغيرة إلى كف أحدنا، وذلك تشبيه للنسبة بالنسبة، وليس تشبيها للكف بالكف؛ لأن الله لا يشبه صفاته شيء كما لا يشبه ذاته شيء.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اس حدیث میں بیان کر رہے ہیں کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین باوجود اس کے کہ بہت بڑے ہیں تاہم اللہ تعالی کی ہتھیلی میں ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ہم میں سے کسی کی ہتھیلی پر رائی کا ایک چھوٹا سا دانہ ہوتا ہے۔ یہ نسبت کی نسبت کے ساتھ تشیبہہ ہے نہ کہ ہتھیلی کی ہتھیلی کے ساتھ۔کیونکہ اللہ کی تعالی کی جس طرح ذات کے ساتھ کوئی شے مشابہہ نہیں اسی طرح اس کی صفات کے ساتھ بھی کوئی شے مشابہہ نہیں ہے۔   --  [شیخ البانی نے اس حدیث کی تصحیح کو ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔]+ +[اسے ابنِ جریر نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ذھبی نے اپنی کتاب ”العلو“ میں روایت کیا ہے۔ - اسے عبد اللہ بن امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3412

 
 
Hadith   341   الحديث
الأهمية: ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض


Tema:

کرسی عرش کے مقابلہ میں یوں ہے جیسے لوہے کا چھلّا زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا ہو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض".

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالی کی) کرسی عرش کے مقابلے میں یوں ہے جیسے لوہے کا چھلّا زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في حديث أبي ذرّ أن الكرسي مع سعته وعظمته بالنسبة للعرش كحلقة حديد وُضعت في صحراء واسعة من الأرض؛ وهذا يدل على عظمة خالقها وقدرته التامة.
606;بی ﷺ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بتا رہے ہیں کہ کرسی باوجود اپنی وسعت اور عظمت کے عرش کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا لوہے کا ایک چھلّا ہوتا ہے۔ اس سے عرش کے خالق کی عظمت اور اس کی قدرت تامہ کا علم ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”العرش“ میں روایت کیا ہے۔ - اسے امام ذھبی نے اپنی کتاب ”العلو“ میں روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3413

 
 
Hadith   342   الحديث
الأهمية: من أسعد الناس بشفاعتك؟ قال: من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه


Tema:

آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قلت: يارسول الله، "من أسعد الناس بشفاعتك؟ قال: من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه".

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو هريرة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أكثر الناس سعادة بشفاعته -عليه الصلاة والسلام- وأكثرهم حظوة بها فأخبره -عليه الصلاة والسلام- بأنهم الذين قالوا هذه الشهادة وهي شهادة أن لا إله إلا الله محمدا رسول الله، خالصة من القلب لا يشوبها شرك و لا رياء.
575;بو ھریرۃ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور کون ہوگا؟ تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: وہ لوگ جو اس بات کی گواہی اپنے دل سے اخلاص کے ساتھ دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اس میں شرک اور دِکھاوا شامل نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3414

 
 
Hadith   343   الحديث
الأهمية: من ذا الذي يتألى عليَّ أن لا أغفر لفلان؟ إني قد غفرت له، وأحبطت عملك


Tema:

یہ کون ہے جو مجھ پر قسم اٹھا رہا ہے کہ میں فلاں کی مغفرت نہیں کروں گا؟ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کر دیا ہے۔

عن جندب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "قال رجل: والله لا يغفر الله لفلان، فقال الله: من ذا الذي يتألى عليَّ أن لا أغفر لفلان؟ إني قد غفرت له، وأحبطت عملك".
 وفي حديث أبي هريرة: أن القائل رجل عابد، قال أبو هريرة: "تكلم بكلمة أوبقت دنياه وآخرته".

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا: یہ کون ہے جو مجھ پر قسم اٹھا رہا ہے کہ میں فلاں کی مغفرت نہیں کروں گا؟ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کر دیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایسا کہنے والا ایک عبادت گزار شخص تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کر کے رکھ دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على وجه التحذير من خطر اللسان، أن رجلاً حلف أن الله لا يغفر لرجلٍ مذنبٍ؛ فكأنه حكم على الله وحجر عليه؛ لما اعتقد في نفسه عند الله من الكرامة والحظّ والمكانة، ولذلك المذنب من الإهانة، وهذا إدلالٌ على الله وسوءُ أدب معه، أوجب لذلك الرجل الشقاءَ والخسران في الدنيا والآخرة.
606;بی ﷺ زبان کی خطرناکی پر متنبہ کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ایک شخص نے قسم اٹھائی کہ اللہ فلاں گناہ گار آدمی کو نہیں بخشے گا۔گویا کہ اس نے اللہ کے مقابلے میں اپنا ہی فیصلہ صادر کر دیا اور مغفرت کا دروازہ اس شخص کے لیے بند کر دیا کیونکہ اپنے تئیں وہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے ہاں بڑا معزز اور صاحبِ منزلت ہے اور اس کی نگاہ میں وہ گناہ گار شخص قابل حقارت تھا۔ یہ اللہ پر خوامخواہ کا ناز اوراس کے سامنے بے جا جرأت و بے ادبی کا مظاہرہ ہے جس کی وجہ سے وہ شخص دنیا اور آخرت کی بد بختی اور خسارے کا مستوجب ہو گیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3415

 
 
Hadith   344   الحديث
الأهمية: مَن ردته الطيرة عن حاجته فقد أشرك، قالوا: فما كفارة ذلك؟ قال: أن تقول: اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طير إلا طيرك، ولا إله غيرك


Tema:

جس شخص نے بدشگونی کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس کا کفارہ یہ ہے کہ) تم یوں کہو ”اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ“۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص - رضي الله عنه- مرفوعاً: "مَن ردته الطِّيَرَة عن حاجته فقد أشرك، قالوا: فما كفارة ذلك؟ قال: أن تقول: اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ ولا إله غيرك".

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بدشگونی کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ: اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس کا کفارہ یہ ہے کہ) تم یوں کہو: ”اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ“۔ اے اللہ! تیری طرف سے ملنے والی خیر کے علاوہ کوئی خیر نہیں، تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں اور تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من منعه التشاؤم عن المضي فيما يعتزم فإنه قد أتى نوعًا من الشرك، ولما سأله الصحابة عن كفارة هذا الإثم الكبير أرشدهم إلى هذه العبارات الكريمة في الحديث التي تتضمن تفويض الأمر إلى الله -تعالى- ونفي القدرة عمن سواه.
575;س حدیث میں رسول اللہ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جس شخص کو بدشگونی نے اس کام سے پھیر دیا جس کا وہ ارادہ رکھتا تھا تو اس نے گویا ایک طرح کا شرک کیا۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس گناہ کبیرہ کے کفارے کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کی حدیث میں موجود اس مکرم عبارت کی طرف رہنمائی فرمائی جس میں معاملے کو اللہ کے سپرد کرنے اور اس کے علاوہ ہر کسی سے طاقت و قدرت کی نفی کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3416

 
 
Hadith   345   الحديث
الأهمية: من شهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله، وأن عيسى عبد الله ورسوله وكلمته ألقاها إلى مريم ورُوُحٌ منه، والجنة حق والنار حق، أدخله الله الجنة على ما كان من العمل


Tema:

جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ بے شک عیسٰی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم تک پہنچایا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں اور جنت اور دوزخ بر حق ہیں اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- "مَنْ شهِد أنْ لا إله إلا الله وحده لا شرِيك له وأنَّ محمَّدا عبده ورسُولُه، وأنَّ عِيسى عبدُ الله ورسُولُه وكَلِمَتُه أَلقَاها إِلى مريم ورُوُحٌ مِنه، والجنَّة حَقٌّ والنَّار حقٌّ، أَدْخَلَه الله الجنَّة على ما كان مِنَ العمَل".

عبادة بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی حقیقی معبودِ نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ عیسٰی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نیز اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم تک پہنچایا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں اور جنت اور دوزخ بر حق ہیں اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا هذا الحديث أن من نطق بكلمة التوحيد وعرف معناها وعمل بمقتضاها، وشهد بعبودية محمد -صلى الله عليه وسلم- ورسالته، واعترف بعبودية عيسى ورسالته، وأنه خلق بكلمة كن من مريم، وبرأ أمه مما نسبه إليها اليهود الأعداء، واعتقد بثبوت الجنة للمؤمنين وثبوت النار للكافرين، ومات على ذلك دخل الجنة على ما كان من العمل.
740;ہ حدیث ہمیں اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ جس شخص نے کلمہ توحید کا زبان سے اقرار کیا اور اس کے معنی کو جانا اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا اور محمد ﷺ کے بندے اور ان کے رسول ہونے کی گواہی دی نیز عیسٰی علیہ السلام کے بندے اور ان کے رسول ہونے کی گواہی دی، اور یہ کہ عیسٰی علیہ السلام کلمہ ”کُنْ“ کے ذریعہ مریم علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے، اور اللہ نے ان کی ماں کو اس چیز سے بری کر دیا جس کی نسبت دشمن یہود نے ان کی طرف کی تھی، اور مومنوں کے لیے جنت اور کافروں کے لیے جہنم کے ثبوت کی تصدیق کیا، اگر وہ اس (عقیدہ) پر مرتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3417

 
 
Hadith   346   الحديث
الأهمية: من لقي الله لا يشرك به شيئًا دخل الجنة، ومن لقيه يشرك به شيئًا دخل النار


Tema:

جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "مَنْ لَقِيَ الله لا يُشْرِك به شَيئا دخل الجنَّة، ومن لَقِيَه يُشرك به شيئا دخَل النار".

جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من مات لا يشرك مع الله غيره لا في الربوبية ولا في الألوهية ولا في الأسماء والصفات دخل الجنة، وإن مات مشركا بالله -عز وجل- فإن مآله إلى النار.
606;بی ﷺ نے ہمیں اس حدیث میں خبر دے رہے ہیں کہ جو کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا نہ تو ربوبیت میں، نہ ہی الوہیت میں اور نہ ہی اسماء وصفات میں، تو وہ جنت میں داخل ہوگا اورجو کوئی اس حال میں میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3418

 
 
Hadith   347   الحديث
الأهمية: من مات وهو يدعو من دون الله ندًّا دخل النار


Tema:

جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی پکارتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جائے گا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "مَنْ مات وهو يدعُو مِنْ دون الله نِدًّا دخَل النَّار".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی پکارتا رہا (اللہ کا شریک و ہمسر ٹھہراتا رہا) ہو تو وہ جہنم میں داخل گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من صرف شيئا مما يختص به الله إلى غيره، ومات مصرا على ذلك فإن مآله إلى النار.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کے لیے مخصوص اشیاء (عبادتوں) میں سے کچھ بھی غیر اللہ کے لئے کرے اور اسی پر مصر رہتے ہوئے مر جائے تو اس کا انجام جہنم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3419

 
 
Hadith   348   الحديث
الأهمية: هلك المتنطعون -قالها ثلاثا-


Tema:

غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "هلك المُتَنَطِّعون -قالها ثلاثا-".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوضح النبي -صَلى اللّه عليه وسلّم- أن التعمُّق في الأشياء والغلو فيها يكون سبباً للهلاك، ومراده -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- النهي عن ذلك، ومن ذلك إجهاد النفس في العبادة حتى تنفر وتنقطع، ومن ذلك التنطع في الكلام والتقعر فيه، وأعظم صور التنطُّع جُرْما، وأولاه بالتحذير منه: الغلو في تعظيم الصالحين إلى الحدِّ الذي يفضي إلى الشرك.
606;بی ﷺ اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ چیزوں میں غلو اور اُن کی چندی کی بندی کرنا ہلاکت کا سبب ہے، اس سے آپ ﷺ کی مراد اس امر سے روکنا اور منع کرنا ہے، اسی سے عبادت میں اپنے نفس کو اتنا تھکا دینا ہے کہ نفس عبادت سے متنفر ہو جائے اور اس سے کٹ جائے، اسی سے بات چیت میں غلو کرنا اور چیخنا بھی ہے، اور جرم کے اعتبار سے غلو کی سب سے بڑی مثال کہ جس سے بچنا بدرجۂ اَوْلی ضروری ہے وہ ہے نیک لوگوں کی تعظیم میں اس حد تک غلو کرنا کہ وہ شرک تک جا پہنچے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3420

 
 
Hadith   349   الحديث
الأهمية: في قول الله -تعالى-: (وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا) قال ابن عباس -رضي الله عنهما-: هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح


Tema:

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ قومِ نوح کے چند نیک لوگوں کے نام ہیں۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قول الله -تعالى-: (وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا) قال: "هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هَلَكوا أَوحى الشَّيطان إلى قَومِهِم أنِ انْصِبُوا إلى مَجَالِسِهِم الَّتي كانوا يَجْلِسون فيها أنصَابًا، وسَمُّوها بأسمَائِهِم، فَفَعَلُوا، ولم تُعْبَد، حتَّى إِذَا هَلَك أُولئك ونُسِيَ العلم عُبِدت".

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ”اور انھوں نے کہا کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“۔ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ قوم نوح کے نیک آدمیوں کے نام ہیں۔ جب وہ فوت ہو گیے تو شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان کی کوئی یادگار بنائیں وہ جہاں بیٹھتے ان کی یادگار بنا دیتے اور ان کے نام پر اس کا نام رکھتے۔ سو انھوں نے ایسا کیا لیکن ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گیے اور اصل بات بھی بھلا دی گئی تو ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يفسر ابن عباس -رضي الله عنهما- هذه الآية الكريمة بأن هذه الآلهة التي ذكر الله -تعالى- أن قوم نوح تواصوا بالاستمرار على عبادتها بعدما نهاهم نبيهم نوح -عليه السلام- عن الشرك بالله- أنها في الأصل أسماء رجال صالحين منهم، غلوا فيهم بتسويل الشيطان لهم حتى نصبوا صورهم، فآل الأمر بهذه الصور إلى أن صارت أصناماً تعبد من دون الله.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کریمہ کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ معبودان جن کا اللہ تعالیٰ نے تذکرہ کیا کہ قومِ نوح نے ان کی عبادت کو جاری رکھنے کی ایک دوسرے کو وصیت فرمائی جب کہ ان کے نبی نوح علیہ السلام نے انھیں اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے روکا تھا۔ یہ دراصل ان کی قوم کے نیک لوگ تھے، لوگوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ان کی شان میں غلو کیا، یہاں تک کہ ان کی تصاویر نصب کردیں، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں چل کر یہی تصاویر بت ہوگئیں اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جانے لگیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3421

 
 
Hadith   350   الحديث
الأهمية: لا عدوى ولا طيرة، ويعجبني الفأل. قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيبة


Tema:

بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں، اور مجھے فال اچھی لگتی ہے، صحابہ کرام نے پوچھا فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھی بات“۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  "لا عدوى وَلَا طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الفَأْلُ. قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيِّبة".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا (متعدی ہونا) اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں اور مجھے فال اچھی لگتی ہے، صحابہ کرام نے پوچھا فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھی بات“ (کا سننا اور اس سے خیر کی امید وابستہ کر لینا)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الخير والشر كله مقدر من الله نفى النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث تأثير العدوى بنفسها، ونفى وجود تأثير الطيرة، وأقر التفاؤل واستحسنه؛ وذلك لأن التفاؤل حسن ظن بالله، وحافز للهمم على تحقيق المراد، بعكس التطير والتشاؤم.
وفي الجملة الفرق بين الفأل والطيرة من وجوه، أهمها:
1- الفأل يكون فيما يسر، والطيرة لا تكون إلا فيما يسوء.
2- الفأل فيه حسن ظنٍّ بالله، والعبد مأمورٌ أن يحسن الظن بالله، والطيرة فيها سوء ظن بالله، والعبد منهيّ عن سوء الظن بالله.
580;ب خیر اور بھلائی سب اللہ کی طرف سے مقدر ہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے اس حدیث میں بیماری کے بذات خود متعدی ہونے اور اسی طرح سے بدشگونی کے وجود کی نفی کی ہے نیز آپ ﷺ نے اچھے شگون کا اقرار کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے؛ کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہے اور ہمتوں کو ابھارنے والی ہے کہ وہ اپنی مراد کو حاصل کرلیں، توہم پرستی اور مایوسی کے برعکس ہے، حاصل کلام! شگون اور بدشگون کے درمیان کئی اعتبار سے فرق ہے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے:
1۔ فال ان چیزوں میں ہوتا ہے جو کہ خوش کر دیں جب کہ بدشگونی صرف بری چیزوں میں ہوتا ہے۔
2. نیک شگون میں اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہوتا ہے اور بندہ کو اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ بد شگونی میں اللہ کے ساتھ بد گمانی ہے اور بندے کو اللہ کے ساتھ بد گمانی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3422

 
 
Hadith   351   الحديث
الأهمية: إذا عَطَسَ أَحَدُكُم فَلْيَقُل: الحَمْدُ للهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أو صاحبُهُ: يَرْحَمُكَ الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم


Tema:

جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ”الحمد اللہ“ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ”يَرْحَمُكَ الله“ کہے۔ جب ساتھی ”يَرْحَمُكَ اللہ“ کہے، تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ کہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا عَطَسَ أَحَدُكُم فَلْيَقُل: الحَمْدُ للهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أو صاحبُهُ: يَرْحَمُكَ الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ”الحمد اللہ“ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ”يَرْحَمُكَ الله“ کہے۔ جب ساتھی ”يَرْحَمُكَ اللہ“ کہے، تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ (اللہ تمھیں ہدایت دے اور تمھارے حالات درست فرمادے) کہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أن المسلم إذا عطس فعليه أن يحمد الله -تعالى-؛ لأن العاطس قد حصل له بالعطاس نعمة ومنفعة بخروج الأبخرة المحْتَقَنَة في دِماغِه التي لو بقيت فيه لأحدثت له أمراضًا عَسِرَة, لذا شُرع له حمد الله -تعالى- على هذه النعمة, ثم يجب على من يسمعه أن يشمته, بأن يقول له: يرحمك الله، ويرد عليه العاطس بقوله: يهديكم الله ويصلح بالكم، فحصل بالعطاس منفعةٌ عائدة على العاطس وعلى السامع, وهذا من عظيم فضل هذا الدين على الناس.
581;دیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی مسلمان چھینکے، تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف بیان کرے؛ کیوں کہ چھینکنے والا چھینک کے ذریعے اپنے دماغ میں موجود گندے بخارات کے نکلنے کی نعمت و منفعت کو حاصل کرتا ہے کہ اگر وہ دماغ میں موجود رہتے، تو اس سے بہتیری تکلیف دہ بیماریاں پیدا ہوتیں۔ اس لیے اس نعمت کے حصول پر اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اللہ کی تعریف و حمد بیان کرے۔ پھر اس کا سننے والا ”يَرْحَمُكَ الله“ کہہ کر اسے دعا دے۔ اور چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ کہہ کر اس کا جواب دے۔ اس طرح چھینک کے ذریعے چھینکنے والے اور سننے والے کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور یہ لوگوں پر اس دین کے عظیم فضل و مہربانی کی وجہ سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3433

 
 
Hadith   352   الحديث
الأهمية: صلاة الرجل في جماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسا وعشرين ضعفًا


Tema:

آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز، گھر میں یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجہ بہتر ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «صلاة الرجل في جماعة تَضعُفُ على صلاته في بيته وفِي سُوقِه خمسا وعشرين ضِعفًا، وذلك: أَنَّه إِذَا تَوَضَّأ، فَأَحسَن الوُضُوء، ثمَّ خرج إلى المسجد لاَ يُخرِجُهُ إلاَّ الصلاة؛ لَم يَخْطُ خُطوَةً إِلاَّ رُفِعَت له بِها درجة، وَحُطَّ عَنهُ بها خطيئة، فإذا صلَّى لم تزل الملائكة تُصَلِّي عليه، ما دام في مُصَلاَّه: اللهُمَّ صَلِّ عليه، اللهم اغفِر له، اللهم ارْحَمه، ولا يزال في صلاة ما انتظر الصلاة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز، گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد کی راہ لیتا ہے اور سوائے نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے، تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن صلاة الرجل في جماعة تزيد أجرًا وثوابًا على صلاته في بيته وفي سوقه، أي: منفرداً كما يومىء إليه مقابلته بصلاة الجماعة؛ ولأن الغالب في فعلها في البيت والسوق الانفراد، ومقدار الزيادة خمسٌ وعشرون ضعفاً، وقوله: (وذلك) إن كان المشار إليه فضل صلاة الجماعة على صلاة الفذ اقتضى اختصاص ذلك بجماعة المسجد، وقوله: (أنه) أي الشأن أو الرجل إذا توضأ فأحسن الوضوء أي أسبغه مع الإتيان بالسنن والآداب ثم خرج إلى المسجد متوجهاً إليه لا يخرجه إلا الصلاة -فإن أخرجه إليه غيرها، أو هي مع غيرها فاته ما يأتي-: لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة وحط عنه بها خطيئة، أي من الصغائر المتعلقة بحق الله -تعالى-، فإذا صلى لم تزل الملائكة تصلي عليه تترحم وتستغفر له ما دام في مصلاه أي جالساً فيه، ويحتمل أن يراد ما دام مستمراً فيه ولو مضطجعاً، ما لم يحدث قول: (اللهم صل عليه اللهم ارحمه)، ولا يزال المصلي في صلاة ما انتظر الصلاة، أي: مدة انتظاره إياها.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کا اجر و ثواب اپنےگھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد تنہا پڑھی جانے والی نماز ہے، جیسا کہ اس کے مقابلے میں باجماعت نماز کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے؛ کیوںکہ آدمی گھر یا بازار میں زیادہ تر تنہا ہی نماز پڑھتا ہے۔ ثواب پچیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”وذلك“۔ میں مشار الیہ اگر نماز باجماعت کی تنہا شخص کی نماز پر فضیلت ہے، تو اس کی رو سے یہ فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص ہو گی۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”أنه“۔ میں ضمیر یا تو ضمیر شان ہے یا مراد یہ ہے کہ وہ شخص جب اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، یعنی سنن و آداب کو پورا کرتے ہوئے کامل طریقے سے وضو کرتا ہے، پھر نکل کر مسجد کی طرف چل پڑتا ہے اور نماز کے علاوہ اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا، تو ہر اٹھائے جانے والے قدم پر اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ یعنی ان صغیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی اور غرض سے نکلا ہو یا پھر نماز کے ساتھ ساتھ اس کا کوئی اور بھی ارادہ ہو، تو اس صورت میں اسے یہ ثواب نہیں ملتا۔ جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو فرشتے اس کے لیے تب تک دعاے رحمت کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے برابر رحم اور مغفرت مانگتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے۔ یہ بھی احتما ل ہے کہ اس سے مراد اس جگہ موجود رہنا ہو، چاہے وہ لیٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے۔ فرشتے کہتے ہیں:اے اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ نمازی جب تک نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز میں ہی ہوتا ہے۔ یعنی نماز کے انتظار کی مدت نماز ہی میں شمار ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3435

 
 
Hadith   353   الحديث
الأهمية: كان عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إذا أتى عليه أمداد أهل اليمن سألهم: أفيكم أويس بن عامر؟


Tema:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب بھی یمن کا امدادی لشکر آتا تو آپ رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کہ :کیا تمھارے اندر اویس بن عامر ہیں؟

عن أُسَير بن عمرو، ويقال: ابن جابر قال: كَانَ عُمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إِذَا أَتَى عَلَيه أَمْدَادُ أَهْلِ اليَمَن سَأَلَهُم: أَفِيكُم أُوَيس بنُ عَامِر؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيس -رضي الله عنه- فقال له: أَنْت أُوَيس بنُ عَامِر؟ قال: نَعَم، قال: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرْنٍ؟ قَالَ: نَعَم، قَال: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ، فَبَرَأَتَ مِنُه إِلاَّ مَوْضِعّ دِرهَم؟ قال: نعم، قَالَ: لَكَ وَالِدة؟ قال: نعم، قال: سَمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يَأتِي عَلَيكُم أُوَيس بنُ عَامِر مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ اليَمَن مِنْ مُرَاد، ثُمَّ مِنْ قَرْن كَانَ بِهِ بَرَصٌ، فَبَرَأَ مِنْهُ إِلاَّ مَوضِعَ دِرْهَم، لَهُ وَالِدَة هُوَ بِهَا بَرُّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى الله لَأَبَرَّه، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَه عُمر: أَيْنَ تُرِيد؟ قَالَ: الكُوفَة، قال: أَلاَ أَكتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قال: أَكُون فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ العَام الْمُقْبِل حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِم، فَوَافَقَ عُمَر، فَسَأَلَه عَنْ أُوَيس، فقال: تَرَكْتُهُ رَثَّ البَّيت قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يَأْتِي عَلَيكُم أُوَيس بنُ عَامِر مَعَ أَمْدَادٍ مِنْ أَهْلِ اليَمَن مِنْ مُرَاد، ثُمَّ مِنْ قَرْن، كَانَ بِهِ بَرَص فَبَرَأَ مِنْه إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَم، لَهُ وَالِدَة هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلى الله لَأَبَرَّهُ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِر لَكَ، فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيسًا، فقال: اسْتَغْفِر لِي، قال: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قال: لَقِيتَ عمر؟ قال: نَعَم، فاستغفر له، فَفَطِنَ لَهُ النَّاس، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ.
 وفي رواية أيضا عن أُسَير بن جابر: أنَّ أَهلَ الكُوفَةِ وَفَدُوا على عمر -رضي الله عنه- وفيهم رَجُلٌ مِمَّن كان يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ، فقال عمر: هَل هاهُنَا أَحَدٌ مِنَ القَرَنِيِّين؟ فَجَاء ذلك الرجل، فقال عمر: إِنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَدْ قال: «إِنَّ رَجُلاً يَأْتِيكُم مِنَ اليَمَنِ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، لاَ يَدَعُ بِاليَمَنِ غَيرَ أُمٍّ لَهُ، قَد كَان بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا الله -تعالى-، فَأَذْهَبَهُ إِلاَّ مَوضِعَ الدِّينَارِ أَو الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَسْتَغْفِر لَكُم».
وفي رواية له: عن عمر -رضي الله عنه- قال: إِنِّي سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ خَيرَ التَّابِعِين رَجُلٌ يُقَال لَهُ: أُوَيسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَمُرُوهُ، فَلْيَسْتَغْفِر لَكُم».

اسیر بن عمرو (انہیں اسیر بن جابر بھی کہا جاتا ہے) کہتے ہیں کہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب بھی یمن کا امدادی لشکر آتا تو عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کہ :کیا تمھارے اندر اویس بن عامر ہیں؟ یہاں تک کہ( ایک جماعت میں) اویس آگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو کہ ایک درہم جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کی والدہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے ہوئے سنا ہے کہ: ”تمہارے پاس اویس بن عامر یمن کی کمک کے ساتھ آئیں گے جو قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے، ان کو برص کی بیماری تھی، جو ایک درہم جتنی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی۔ ان کی والدہ ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لیے دعائے مغفرت کروانا“۔ لھٰذا آپ میرے لیے مغفرت کی دعا فرما دیں۔ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کر دی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: کوفہ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا میں آپ کے لیے وہاں کے گورنر کو لکھ کر نہ دے دوں؟۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: مجھے مسکین لوگوں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے معزز لوگوں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر بوسیدہ اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ: ”تمہارے پاس اویس بن عامر یمن کی ایک امدادی لشکر کے ساتھ آئیں گے جو کہ قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے، ان کو برص کی بیماری تھی، جو اچھی ہوگئی یے مگر ایک درہم جتنی جگہ برص باقی ہے، ان کی والدہ ہیں جن کے وہ بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔ چنانچہ وہ آدمی اویس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا: میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم ایک نیک سفر سے نئے نئے آئے ہو، لھٰذا تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اويس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی سے پوچھا کہ: کیا تم عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تھے؟ اس آدمی نے کہا: ہاں۔ تو پھر اویس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ اس وقت لوگ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ سمجھے، اور وہ وہاں سے سیدھے چل پڑے۔
اور مسلم ہی کی ايک دوسری روايت میں اسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کوفہ کے لوگ ایک وفد لے کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آئے۔ اس وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تمسخر کیا کرتا تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا یہاں قرنیوں میں سے بھی کوئی ہے؟ چنانچہ وہی آدمی آیا۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”تمہارے پاس یمن سے ایک آدمی آئے گا جسے اویس کہا جاتا ہوگا۔ وہ یمن میں کسی کو نہ چھوڑے گا سوائے اپنی ماں کے، اور اسے برص کی بیماری ہوگئی تھی، اس نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس سے اس بیماری کو دور فرمادیا مگر ایک دینار یا ایک درہم کے برابر باقی ہے (یعنی ایک دینار یا درہم کے بقدر برص کا داغ باقی رہ گیا ہے) تو تم میں سے جو کوئی بھی اس سے ملاقات کرے وہ اپنے لئے اس سے مغفرت کی دعا کروائے“۔
اور مسلم ہی کی ايک اور روايت میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ”تابعین میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جسے اویس کہا جاتا ہے اس کی ماں (زندہ) ہیں اور اس کے جسم پر سفید داغ تھے۔ تم اس سے کہنا کہ وہ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان عمر بن الخطاب إذا أتى عليه جماعات الغزاة من أهل اليمن الذين يمدون جيوش الإسلام في الغزو، سألهم: أفيكم أويس بن عامر، فما زال كذلك حتى جاء أويس -رحمه الله- فقال له عمر: هل أنت أويس بن عامر؟ قال: نعم، قال عمر: هل أنت من قبيلة مراد ثم من قرن؟ قال: نعم، ثم قال له عمر: وهل كان بك برص فشُفيت منه إلا موضع درهم؟ قال: نعم، قال عمر: هل لك والدة؟ قال: نعم، فقال عمر: فإني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنه سيأتي عليكم أويس بن عامر، مع جماعات الغزاة من أهل اليمن من قبيلة مراد ثم من قرن وكان به برص فشفاه الله منه إلا موضع درهم، له والدة هو بار بها، لو أقسم على الله بحصول أمر لأبرّه الله بحصول ذلك المقسم على حصوله فإن استطعت يا عمر أن يستغفر لك فافعل،
ولا يفهم من هذا أفضليته على عمر، ولا أن عمر غير مغفور له للإجماع على أن عمر أفضل منه لأنه تابعي والصحابي أفضل منه، إنما مضمون ذلك الإخبار بأن أويساً ممن يستجاب له الدعاء، وإرشاد عمر إلى الازدياد من الخير واغتنام دعاء من تُرجى إجابته، وهذا نحو مما أمرنا النبي به من الدعاء له، والصلاة عليه وسؤال الوسيلة له وإن كان النبي أفضل ولد آدم.
ثم سأله عمر أن يستغفر له فاستغفر له، ثم قال له عمر: ما هو المكان الذي سوف تذهب إليه؟ فقال: الكوفة، قال عمر: هل أكتب لك إلى أميرها ليعطيك من بيت مال المسلمين ما يكفيك؟ قال أويس: لأن أكون في عوام الناس وفقرائهم أحبّ إلي، فلما كان من العام المقبل، حج رجل من أشراف أهل الكوفة فقابل عمر فسأله عمر عن أويس فقال: تركته وبيته متواضع وأثاث بيته قليل قال عمر سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنه سيأتي عليكم أويس بن عامر، مع جماعات الغزاة من أهل اليمن من قبيلة مراد ثم من قرن وكان به برص فشفاه الله منه إلا موضع درهم، له والدة هو بار بها، لو أقسم على الله بحصول أمر لأبرّه الله بحصول ذلك المقسم على حصوله فإن استطعت يا عمر أن يستغفر لك فافعل.
فأتى ذلك الرجل أويساً فقال له: استغفر لي، فقال: أويس أنت أقرب عهداً بسفر صالح فاستغفر لي، فتنبه أويس أنه لعله لقي عمر،  فقال له: هل لقيت عمر؟ قال: نعم، فاستغفر أويس له فتنبه الناس لهذا الأمر فأقبلوا عليه، فخرج من الكوفة وذهب إلى مكان آخر لا يعرفه فيه الناس.
593;مر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب بھی یمن سے مجاہدین کی کوئی امدادی جماعت آتی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں کوئی اویس بن عامر ہے؟ یہاں تک کہ ایک جماعت میں اویس رحمہ اللہ آگئے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ قبیلہ مراد سے اور پھر قرن خاندان سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کو برص کی بیماری تھی اور آپ کو اس سے شفا مل گئی سوائے ایک درہم جتنی جگہ کے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کی والدہ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ ”تمہارے پاس یمن کے مجاہدین کی ایک جماعت کے ساتھ اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری تھی پھر اللہ نے انہیں اس بیماری سے شفا عطا فرمائی صرف درہم کے بقدر باقی ہے، ان کی ایک ماں ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ کسی چیز کی حصول یابی کے لیے اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، اے عمر! اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔
ليکن اس کا يہ معنیٰ نہيں ہے کہ اويس رحمہ اللہ عمر رضی اللہ عنہ سے افضل ہيں اور عمر مغفورين ميں سے نہيں ہيں، اس لئے کہ اس پر لوگوں کا اجماع ہے کہ عمر رضي اللہ عنہ اويس رحمہ اللہ سے افضل ہيں کيوں کہ اویس تابعی ہیں اور صحابی تابعی سے افضل ہوتا ہے، بس اس واقعہ سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اويس ان لوگوں ميں سے ہيں جن کی دعا قبول ہوتی ہے، اور عمر رضي اللہ عنہ کو زيادہ نيکی کرنے اور ايسے لوگوں سے جن کی دعا قبول ہوتی ہے، ان سے دعا کروانے کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے۔ اور يہ اسی قبيل سے ہے جس کا حکم آپ ﷺ نے ہم کو ديا ہے کہ ہم آپ ﷺ لیے دعا کريں اور آپ پر درود بھیجيں اور آپ کے لیے اللہ سے وسيلہ کی دعا کريں حالاں کہ آپ ﷺ تمام اولادِ آدم سے افضل ہيں، پھر عمر رضي اللہ عنہ نے ان سے دعا کی درخواست کی کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیں، اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کر دی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: کوفہ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا میں وہاں کے گورنر کو لکھ دوں کہ بيت المال سے آپ کوکچھ دے ديں جو کہ آپ کے لیے کافی ہو؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ: مجھے مسکین و فقیر لوگوں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے سرداروں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا، تو وہ آدمی کہنے لگا کہ: میں اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر معمولی سا اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”تمہارے پاس یمن کی ایک جماعت کے ساتھ اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری تھی پھر اللہ نے انہیں اس بیماری سے شفا عطا فرمائی بس ایک درہم کے برابر بیماری باقی ہے، ان کی ایک والدہ ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، عمر! اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔
وہ آدمی اویس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہنے لگا: میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم جلد ہی ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو، تو تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ کو يہ احساس ہوا کہ شايد يہ عمر رضي اللہ عنہ سے مل کر آيا ہے، انہوں نے اس آدمی سے پوچھا کہ: کیا تم عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تھے؟ اس آدمی نے کہا: ہاں۔ تو پھر اویس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ پھر لوگوں نے اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام کو جان لیا اور آپ کے پاس دعا کی غرض سے آنے لگے، چنانچہ وہ کوفہ سے نکل کر کسی ايسی جگہ چلے گئے جہاں ان کو کوئی نہيں جانتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3436

 
 
Hadith   354   الحديث
الأهمية: من جهز غازيا في سبيل الله فقد غزا، ومن خلف غازيًا في أهله بخير فقد غزا


Tema:

جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے سامان سفر کا انتظام کیا، اس نے درحقیقت جہاد کیا اورجس نے مجاہد کے اہل وعیال میں اس کی اچھے انداز میں جانشینی کی، حقیقت میں اس نے جہاد کیا

عن زيد بن خالد الجهني -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ جَهَّز غَازِياً فِي سَبِيلِ الله فَقَد غَزَا، وَمَنْ خَلَّف غَازِياً في أهلِه بخَير فقَد غزَا».

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے سامان سفر کا انتظام کیا، اس نے درحقیقت جہاد کیا اورجس نے مجاہد کے اہل وعیال میں اس کی اچھے انداز میں جانشینی کی، حقیقت میں اس نے جہاد کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا جهَّز الإنسان مجاهدًا براحلته ومتاعه وسلاحه فقد كتب الله له أجر الغازي؛ لأنه أعانه على الخير، ولو أنَّ الغازي أراد أن يجاهد ولكنَّه أشكل عليه أهله مَن يكون عند حاجاتهم، فدعا رجلاً من المسلمين وقال: أخلِفني في أهلي بخير، فإنَّ هذا الذي خلَّفه يكون له أجر المجاهد؛ لأنه أعانه، ويؤخذ من هذا أنَّ كُلَّ من أَعان شخصاً في طاعة الله فله مثل أجره، فإذا أُعِين طالب علم في شراء الكتب له، أو تأمين السكن، أو النفقة، أو ما أشبه ذلك، فإن له أجراً مثل أجره، من غير أن ينقص من أجره شيئاً.
580;ب آدمی کسی مجاہد کو اس کی سواری، سازو سامان اور اسلحہ فراہم کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کے لیے جہاد کرنے والے کے برابر اجر لکھ دیتا ہے؛ کیوںکہ یہ شخص خیر کے کام میں معاونت کرتا ہے۔ اگر کوئی مجاہد جہاد پر جانے کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن اسے یہ مشکل درپیش ہو کہ اس کے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست کون کرے گا اور پھر وہ کسی مسلمان کو بلاکر کہے کہ تم اچھے انداز میں میرے گھر والوں کے سلسلے میں میری نیابت کرنا، تو یہ شخص جسے وہ اپنا جانشین مقرر کرتا ہے، اسے بھی مجاہد کے برابر اجر ملتا ہے؛ کیوں کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اس سے یہ قاعدہ اخذ ہوتا ہے کہ جو آدمی بھی اللہ کی اطاعت گزاری میں کسی شخص کی مدد کرتا ہے، اسے اس کے مساوی اجر ملتا ہے۔ اگر طالب علم کی کتابیں خریدنے میں مدد کی جائے یا پھر اس کی رہائش یا خرچ یا اس طرح کی کسی اور شے کی ذمہ داری اٹھا لی جائے، تو ان میں سے ہر صورت میں طالب علم کے مساوی اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ اس سے اس طالب علم کے اجر میں کچھ کمی واقع ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3437

 
 
Hadith   355   الحديث
الأهمية: أنه -صلى الله عليه وسلم- قال في الأنصار: لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، من أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه الله


Tema:

نبی کریم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ان سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔ پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو اُن سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔

عن البراء بن عازب -رضي الله عنهما- أنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- قال في الأَنصَار: «لاَ يُحِبُّهُم إِلاَّ مُؤمِن، وَلاَ يُبْغِضُهُم إِلاَّ مُنَافِق، مَنْ أَحَبَّهُم أَحَبَّهُ الله، وَمَنْ أَبْغَضَهُم أَبْغَضَه اللَّه».

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ”ان سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔ پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر البراء بن عازب -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حث على حب الأنصار، وجعله علامة الإيمان؛ وفاءً لجميل الأنصار؛ وهذا لسابقتهم في خدمة الرسالة، وما كان منهم في نصرة دين الإسلام، والسعي في إظهاره وإيواء المسلمين، وقيامهم في مهمات دين الإسلام حق القيام، وحبهم النبي -صلى الله عليه وسلم- وحبه إياهم، وبذلهم أموالهم وأنفسهم بين يديه، وقتالهم ومعاداتهم سائر الناس إيثارًا للإسلام، بل صرح الصادق المصدوق أن بغضهم لا يتصور إلا من رجل لا يؤمن بالله واليوم الآخر مغموس بالنفاق.
576;راء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے محبت کرنے پر ابھارا، اور انصار کی خوبیوں کے پیشِ نظر اسے (انصار سے محبت کو) ایمان کی علامت قرار دیا اس لیے کہ انھوں نے آپ کی خدمت میں سبقت کی تھی اور اسی طرح دینِ اسلام کی خدمت اور اس کے غلبے اور مسلمانوں کو پناہ دینے والی صفات جو ان میں تھیں، اسلام کے اہم معاملات کو کماحقہ قائم کرنے اور آپ ﷺ سے ان کی محبت اور ان سے آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کے لیے ان کا اپنا مال اور جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اسلام کی خاطر قربانی دیتے ہوئے ان کا جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر دوسرے لوگوں سے دشمنیاں مول لینے کی وجہ سے ان سے محبت کرنے کو کہا گیا ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے صراحت فرمائی کہ ان سے بُغض اسی شخص سے تصور کیا جاسکتا ہے جو اللہ، آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور نفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3438

 
 
Hadith   356   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بَشَّر خديجة -رضي الله عنها- ببيت في الجنة من قصب، لا صخب فيه، ولا نصب


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں موتیوں سے بنے ایک گھر کی بشارت دی جس میں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ ہی کوئی تھکن۔

عن عبد الله بن أبي أوفى -رضي الله عنهما- أنَّ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بَشَّرَ خَدِيجَةَ -رضي الله عنها- بِبَيتٍ فِي الجنَّة مِنْ قَصَبٍ، لاَ صَخَبَ فِيهِ، ولاَ نَصَبٍ.

عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں موتیوں سے بنے ایک گھر کی بشارت دی جس میں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ ہی کوئی تھکن۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بشر النبي -صلى الله عليه وسلم- خديجة -رضي الله عنها- بواسطة جبريل -عليه السلام-، بقصر في الجنة من لؤلؤ مجوف ليس فيه أصوات مزعجة وليس فيه تعب، وأم المؤمنين خديجة هي أوَّل امرأة تزوجها النبي -صلى الله عليه وسلم-، تزوجها وهو -صلى الله عليه وسلم- ابن خمس وعشرين سنة، ولها أربعون سنة، وقيل ثمانية وعشرون سنة، وكانت ثيبًا، وولدت له بناته الأربع وأولاده الثلاثة أو الاثنان، ولم يتزوج عليها أحدا حتى ماتت -رضي الله عنها-، وكانت امرأة عاقلة ذكية حكيمة، لها مناقب معروفة.
606;بی ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں کھوکھلے موتیوں سے بنے ایک محل کی خوشخبری دی جس میں نہ تو پریشان کن آوازیں ہوں گی اور نہ ہی تھکن۔ اُم المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے پہلی خاتون ہیں جن سے نبی ﷺ نے شادی کی۔ نبی ﷺ نے جب ان سے شادی کی تو آپ ﷺ کی عمر پچیس سال جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ وہ اس وقت ثیبہ تھیں اور آپ ﷺ کی چاروں بیٹیاں اور تینوں یا دونوں بیٹے ان ہی سے پیدا ہوئے۔ ان کے ہوتے ہوئے آپ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے شادی نہ کی یہاں تک کہ وہ وفات پا گئیں۔ رضی اللہ عنہا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت ہی عقل مند، ذہین اور حکیم خاتون تھیں جن کی اخلاقی صفات اور خوبیاں مشہور ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3439

 
 
Hadith   357   الحديث
الأهمية: لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- على شيء من النوافل أشد تعاهدًا منه على ركعتي الفجر


Tema:

نبی ﷺ جس قدر اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔

عن عائشة بنت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- قالت: «لم يَكُن النبي -صلى الله عليه وسلم- على شيء من النَّوَافل أشد تَعاهُدَاً منْهُ على ركْعَتَي الفَجْرِ».
وفي رواية: «رَكْعَتا الفَجْرِ خيرٌ منَ الدُّنيا وما فيها».

عائشہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ جس قدر اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو رکعتیں دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان لما لركعتي الفجر من الأهمية والتأكيد، فقد ذكرت عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أكدهما وعظم شأنهما بفعله، حيث كان شديد المواظبة عليهما، وبقوله، حيث أخبر أنهما خير من الدنيا وما فيها.
575;س حدیث میں فجر کی دو رکعت سنتوں کی اہمیت اور ان کے بارے میں وارد ہونے والی تاکید کا بیان ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ان پر بہت زور دیا ۔ آپ ﷺ نے اپنے عمل سے بھی ان کی اہمیت کو اجاگر کیا بایں طور کہ آپ ﷺ ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے اور قولی طور پر اس کی اہمیت پر یہ فرما کر زور دیا کہ یہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3440

 
 
Hadith   358   الحديث
الأهمية: صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة


Tema:

جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ افضل ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: «صلاةُ الجَمَاعَة أَفضَلُ من صَلاَة الفَذِّ بِسَبعٍ وعِشرِين دَرَجَة».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ افضل ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشير هذا الحديث إلى بيان فضل صلاة الجماعة على صلاة المنفرد، بأن الجماعة -لما فيها من الفوائد العظيمة والمصالح الجسيمة- تفضل وتزيد على صلاة المنفرد بسبع وعشرين مرة من الثواب؛ لما بين العملين من التفاوت الكبير في القيام بالمقصود، وتحقيق المصالح، ولاشك أنَّ من ضيَّع هذا الربح الكبير محروم.
575;س حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باجماعت پڑھی جانے والی نماز منفرد شخص کی نماز سے افضل ہے بایں طور کہ با جماعت نماز جس میں بہت زیادہ فوائد اور مصالح ہیں، ثواب کے لحاظ سے منفرد شخص کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے کیونکہ حصول مقاصد و فوائد کے اعتبار سے دونوں عملوں میں بہت زیادہ تفاوت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے اس عظیم نفع کو کھو دیا وہ محروم رہا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3441

 
 
Hadith   359   الحديث
الأهمية: من عاد مريضًا أو زار أخًا له في الله، ناداه مناد: بأن طبت، وطاب ممشاك، وتبوأت من الجنة منزلًا


Tema:

جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا اپنے کسی دینی بھائی سے ملاقات کی، تو اس کو ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: ”تو خوش رہے، تیرا چلنا مبارک ہو اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ عَادَ مَرِيضًا أَو زَارَ أَخًا لَهُ فِي الله، نَادَاهُ مُنَادٍ: بِأَنْ طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاكَ، وَتَبَوَّأتَ مِنَ الجَنَّةِ مَنْزِلاً».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا اپنے کسی دینی بھائی سے ملاقات کی، اس کو ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: ”تو خوش رہے، تیرا چلنا مبارک ہو اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من ذهب ليعود مريضًا أو يزور أخًا له لوجه الله -عز وجل- فإن ملكًا يناديه من عند الله -تعالى- أن طهرت من الذنوب وانشرحت بما لك عند الله من جزيل الأجر، واتخذت من الجنة قصرًا تسكنه.
580;و شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے یا پھر اللہ کی خاطر اپنے کسی بھائی سے ملاقات کے لیےجاتا ہے، اللہ کے ہاں سے ایک فرشتہ اسے پکار کر کہتا ہے کہ تو گناہوں سے پاک ہو، اللہ کے ہاں تیرے لیے جو بے پناہ اجر ہے اس سے تو خوش ہو اور جنت کا محل تیرا مسکن بنے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3442

 
 
Hadith   360   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزور قباء راكبًا وماشيًا، فيصلي فيه ركعتين


Tema:

نبی ﷺ سوار اور پیادہ (مسجدِ) قباء تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزورُ قُبَاءَ راكبًا وماشيًا، فيُصَلِّي فيه ركعتين.
وفي رواية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأتي مسجد قُبَاءَ كل سَبْتٍ راكبًا وماشيًا، وكان ابن عُمر يفعله.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سوار اور پیادہ (مسجدِ) قباء تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ مسجد قباء میں ہر ہفتے کے دن سوار اور پیادہ تشریف لاتے۔ اور ابن عمر بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
منطقة قباء التي بُنِيَ بها أول مسجد في الإسلام قرية قريبة من مركز المدينة من عواليها، فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزوره راكبا وماشيا، وقوله كل سبت: حيث كان يخصص بعض الأيام بالزيارة

والحكمة في مجيئه -صلى الله عليه وسلم- إلى قباء يوم السبت من كل أسبوع، إنما كان لمواصلة الأنصار وتفقُّد حالهم وحال من تأخَّر منهم عن حضور الجمعة معه، وهذا هو السِر في تخصيص ذلك بالسبت.

602;باء کا علاقہ جس میں اسلام کی سب سے پہلی مسجد تعمیر کی گئی مدینہ کے بالائی حصے کے قریب واقع ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ نبی ﷺ سوار اور پیادہ اس کی زیارت کے لیے تشریف لاتے۔ راوی کا یہ کہنا کہ "ہر ہفتے کے دن" تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے بعض ایام کو زیارت کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ نبی ﷺ کی ہر ہفتے کے دن قباء آنے میں حکمت یہ تھی کہ آپ ﷺ کا انصاری لوگوں سے تعلق قائم رہے اور آپ ﷺ ان کا اور ان لوگوں کا حال جان سکیں جو آپ ﷺ کے ساتھ نمازجمعہ میں حاضر ہونے سے رہ جاتے تھے۔ اور بطور خاص ہفتے کے دن آنے میں یہی راز پنہاں تھا۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3443

 
 
Hadith   361   الحديث
الأهمية: شهدت عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ فدعا بتور من ماء، فتوضأ لهم وضوء رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

میں عمرو بن ابی حسن کے پاس تھا کہ انھوں نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔۔ اس پر انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور لوگوں کو اس طرح سے وضوکر کے دکھایا، جیسے رسول اللہ ﷺ وضو کیا کرتے تھے۔

عن يحيى المازني -رحمه الله- قال: ((شَهِدتُّ عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وُضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ فدعا بتَور من ماء، فتوضَّأ لهم وُضُوء رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأكفَأ على يديه من التَّورِ، فغسَل يديه ثلاثًا، ثم أدخل يدهُ في التور، فمَضْمَض واسْتَنْشَق واسْتَنْثَر ثلاثا بثلاثِ غَرَفَات، ثم أدخل يده فغسل وجهه ثلاثا، ثم أدخل يده في التور، فغَسَلَهُما مرَّتين إلى المِرْفَقَين، ثم أدخل يدَه في التَّور، فمَسَح رأسَه، فأَقْبَل بهما وأَدْبَر مرَّة واحدة، ثم غَسَل رِجلَيه)).
وفي رواية: ((بدأ بمُقَدَّم رأسه، حتى ذَهَب بهما إلى قَفَاه، ثم رَدَّهُما حتَّى رَجَع إلى المكان الذي بدأ منه)).
وفي رواية ((أتانا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخْرَجنا له ماء في تَورٍ من صُفْرٍ)).

یحی مازنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں عمرو بن ابی حسن کے پاس تھا کہ انھوں نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔۔ اس پر انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور لوگوں کو اس طرح وضو کر کے دکھایا، جیسے رسول اللہ ﷺ وضو کیا کرتے تھے۔ انھوں نے طشت سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا، پھر تین بار اپنے ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا، پھر تین دفعہ تین چلوؤں سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے صاف کیا۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور اپنے سر کا مسح کیا؛ چنانچہ ان کو ایک مرتبہ آگے لائے اور پھر پیچھے لے گئے اور پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنے سر کے اگلے حصے سے(مسح کرنا) شروع کیا، یہاں تک کہ ہاتھوں کو گدی تک لے گئے اور پھر انھیں لوٹا کر اسی جگہ لے آئے، جہاں سے شروع کیا تھا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ ہم آپ ﷺ کے پاس تانبے سے بنے ایک طشت میں پانی لائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أجل حرص السلف الصالح -رحمهم الله- على اتباع السنة، كانوا يتساءلون عن كيفية عمل النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ ليتأسوا به فيها، وفي هذا الحديث يحدث عمرو بن يَحيى المازني عن أبيه: أنه شهد عمه عمرو بن أبي حسن، يسأل عبد الله بن زيد أحد الصحابة -رضي الله عنه- عن كيفية وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ فأراد عبد الله أن يبينها له بصورة فعلية؛ لأن ذلك أسرع إدراكا، وأدق تصويرا وأرسخ في النفس، فطلب إناء من ماء، فبدأ أولا بغسل كفيه؛ لأنهما آلة الغسل وأخذ الماء، فأكفأ الإناء فغسلهما ثلاثا، ثم أدخل يده في الإناء، فاغترف منه ثلاث غرفات يتمضمض في كل غرفة ويستنشق ويستنثر، ثم اغترف من الإناء فغسل وجهه ثلاث مرات، ثم اغترف منه فغسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين، ثم أدخل يديه في الإناء فمسح رأسه بيديه بدأ بمقدم رأسه حتى وصل إلى قفاه أعلى الرقبة، ثم ردهما حتى وصل إلى المكان الذي بدأ منه، صنع هكذا؛ ليستقبل شعر الرأس ويستدبره فيعم المسح ظاهره وباطنه، ثم غسل رجليه إلى الكعبين، وبيَّن عبد الله بن زيد -رضي الله عنه- أن هذا صنيع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين أتاهم، فأخرجوا له ماء في تور من صفر؛ ليتوضأ به -صلى الله عليه وسلم-، بيَّن ذلك عبد الله؛ ليثبت أنه كان على يقين من الأمر.
587;لف صالحین رحمہم اللہ اتباعِ سنت کی بہت زیادہ حرص رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبی ﷺ کے عمل کی کیفیت کے بارے میں دریافت کرتے رہتے، تا کہ آپ ﷺ کی پیروی کر سکیں۔ اس حدیث میں عمرو بن یحی مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے چچا عمرو بن ابی حسن کے پاس تھے کہ انھوں نے صحابی رسول عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کی کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ عملی انداز میں اسے بیان کردیں؛ کیوںکہ عملی انداز سے بات جلد سمجھ میں آ جاتی ہے، کیفیت زیادہ دقیق انداز میں سامنے آتی ہے اور بات زیادہ ذہن نشین ہوتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور پہلے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھویا؛ کیوںکہ یہ دھونے اور پانی لینے کا آلہ ہیں۔انھوں نے برتن کو انڈیل کر دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انھیں دھویا۔ انھوں نے اپنا ہاتھ پھر برتن میں ڈال کر اس سے تین چلو بھرے اور ہر چلو سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے جھاڑا۔ اس کے بعد پھر برتن سے چلو بھر کے تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر اس سے پانی لے کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو دو دفعہ دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ سر کے آگے والے حصے سے آغاز کیا، یہاں تک کہ ہاتھوں کو گردن کے بالائی حصے تک لے گئے اور پھر انھیں لوٹا کر وہیں لے آئے،جہاں سے آغاز کیا تھا۔ انھوں نے اس طرح اس لیے کیا، تا کہ آگے سے بھی سر کے بالوں پر ہاتھ پھیر دیں اور پیچھے سے بھی۔ یوں سر کے بیرونی اور اندرونی ہر حصے کا مسح ہو جائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے وضاحت کی کہ رسول اللہ جب صحابہ کے پاس تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا۔ وہ پیتل سے بنے ایک طشت میں آپﷺ کے وضو کے لیے پانی لے کر آئے ۔ عبد اللہ رضی اللہ نے یہ وضاحت اس لیے کی؛ تا کہ ثابت ہو جائے کہ انھیں اس بات کا یقینی طور پر علم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3444

 
 
Hadith   362   الحديث
الأهمية: ليس من نفسٍ تقتل ظلمًا إلا كان على ابن آدم الأول كِفْلٌ من دمها؛ لأنه كان أول من سن القتل


Tema:

جو شخص بھی ظلما قتل کر دیا جاتا ہے، اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو بھی جاتا ہے؛ کیوںکہ قتلِ ناحق کی ریت اسی نے ڈالی تھی۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ليس مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلماً إِلاَّ كَان على ابنِ آدَمَ الأَوَّل كِفْلٌ مِن دمِهَا؛ لِأَنَّه كان أوَّل مَن سَنَّ القَتْلَ».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”جو شخص بھی ظلما قتل کر دیا جاتا ہے، اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو بھی جاتا ہے؛ کیوںکہ قتلِ ناحق کی ریت اسی نے ڈالی تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي هذا الحديث سبب تَحمُّل أحد ابني آدم تَبِعَات الدِّماء التي تُهدَر بعده، قيل: قابيل قتل أخاه هابيل حسدا له، فهما أول قاتل ومقتول من ولد آدم؛ فيتحمَّل قابيل نصيبًا من إثم الدماء التي تسفك من بعده؛ لأنه كان أول من سنَّ القتل؛ لأنَّ كل من فعله بعده مُقتدٍ به.
740;ہ حدیث اس سبب کو بیان کر رہی ہے، جس کی وجہ سے آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے ایک پر، اس کے بعد بہائے جانے والے ہرناحق خون کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ سب سے پہلے قاتل اور مقتول تھے۔ چنانچہ قابیل کے بعد جو بھی ناحق خون کیا جاتا ہے، اس کے گناہ کا ایک حصہ قابیل کے کھاتے میں جاتا ہے؛ کیوںکہ اسی نے قتل کی ریت ڈالی تھی اور اس کے بعد آنے والا ہر شخص اسی کی اقتدا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3445

 
 
Hadith   363   الحديث
الأهمية: أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله، وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وأن الحج يهدم ما كان قبله؟


Tema:

کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہ کو منہدم کرتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے کے گناہ کو ختم کردیتی ہے اور حج اپنے سے پہلے کے گناہ کو ختم کرتا ہے؟۔

عن ابن شماسة المهري قال: حَضَرنَا عَمرو بن العاص -رضي الله عنه- وهُو فِي سِيَاقَةِ الْمَوتِ، فَبَكَى طَوِيلاً، وَحَوَّلَ وَجهَهُ إِلَى الجِدَارِ، فَجَعَلَ ابنَهُ، يقول: يَا أَبَتَاهُ، أَمَا بَشَّرَكَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بكَذَا؟ أمَا بشَّركَ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِكَذَا؟ فَأَقبَلَ بِوَجهِهِ، فقَالَ: إِنَّ أَفضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسولُ الله، إِنِّي قَدْ كُنتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلاَثٍ: لَقَدْ رَأَيتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مِنِّي، وَلاَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الإِسْلاَمَ فِي قَلْبِي أَتَيتُ النَبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-، فَقُلتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلِأُبَايِعُكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ فَقَبَضْتُ يَدِي، فقال: «مَا لَكَ يَا عَمرُو؟» قُلتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قال: «تَشْتَرِطُ مَاذَا؟» قُلتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قال: «أَمَا عَلِمتَ أَنَّ الإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَأَنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا، وَأَنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟» وَمَا كَان أَحَدٌ أَحبَّ إِلَيَّ مِنْ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَلاَ أَجَلَّ فِي عَينِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَينِي مِنْهُ؛ إِجْلاَلاً لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَينِي مِنْهُ، وَلَوْ مِتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا؟ فَإِذَا أَنَا مِتُّ فَلاَ تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلاَ نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي، فَشُنُّوا عَلَيَّ التُرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَولَ قَبرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُور، وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُم، وَأَنْظُر مَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.

ابن شماسۃ المہری سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قریب المرگ تھے کہ ہمارے پاس آئے، کافی دیر تک روتے رہے اور اپنا رُخ دیوار کی طرف پھیر لیا اور ان کے بیٹے کہنے لگے، ابا جان! کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ کیا آپ کو اللہ کے رسول ﷺ نے یہ یہ خوشخبری نہیں دی؟ پھر متوجہ ہوئے اور کہا کہ ہمارے ہاں سب سے افضل لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله مُحَمَّد رسولُ الله کی گواہی دینا ہے۔ مجھ پر تین قسم کے حالات گزرے ہیں۔ (پہلی حالت) میرے خیال میں آپ ﷺ سے بغض رکھنے میں مجھ سے زیادہ کوئی سخت نہیں تھا، نہ ہی کسی کو مجھ سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ مجھے قدرت ہو تو میں آپ کو قتل کردوں۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو میں جہنمی ہوتا۔ (دوسری حالت) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اپنے ہاتھ پھیلا ئیں، تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، تو میں نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ نے فرمایا: عمرو تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: شرط یہ ہے کہ اسلام لانے سے میری مغفرت کردی جائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام چیزوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور حج پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟“ پھر میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں تھا اور نہ ہی میرے لئے آپ سے کوئی بڑا تھا۔ میں آپ کے جلال کی وجہ سے آپ کو جی بھر کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ میں آپ کے اوصاف بیان کروں تو میں بیان نہیں کرسکتا تھا، اس لئے کہ میں جی بھر کر آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگر میں اس حال میں مرتا تو مجھے امید تھی کہ جنتی ہوتا۔ (تیسری حالت) پھر کچھ اور چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، میں نہیں جانتا کہ ان میں میرا کیا حال ہے؟ لہذا جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ میرے قریب نہ لانا، جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر پر پانی کے چھینٹے چھڑک دینا، پھر اتنی دیر تک میری قبر پر کھڑے ہو جانا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ میں تمہاری وجہ سے مانوس رہوں اور اپنے رب کے فرشتوں کے سوال کا انتظار کروں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تضمن حديث عمرو بن العاص -رضي الله عنه- المتضمن لموضوع التبشير والتهنئة بالخير قصة، وخُلاصة هذه القصة العظيمة: أنَّه حضَره بعض أصحابه وهو في سياق الموت، فبكى بكاء شديدا، وحوَّل وجهه نحو الجدار -رضي الله عنه-، وهو في سياق الموت سيفارق الدنيا فقال له ابنه: علام تبكى وقد بشَّرك النبي -صلى الله عليه وسلم- بالجنة؟ فقال: يا بني إني كنت على أحوال ثلاثة، ثمَّ ذكر هذه الأحوال الثلاث: أنه كان يبغض النبي صلى الله عليه وسلم- بغضا شديدا، وأنه لم يكن على وجه الأرض أحد يبغضه كما كان يبغضه هو، وأنه يَوَدُّ أنَّه لو تمكَّن منه فقتَلَه، وهذا أشد ما يكون من الكفر، حتَّى ألقى الله الإسلام في قلبه فجاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال يا رسول الله: ابسط يدك فَلِأُبَايِعُكَ علَى الإسلام، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- أحسن الناس خُلُقًا فمدَّ يده، ولكن عمرو بن العاص كف يده؛ ليس استكبارًا، ولكن استثباتا لما سيذكره، فقال له: "مالك؟" قال: يا رسول الله، إني أشترط -يعني على الإسلام-، قال: "ماذا تشترط؟" قال: أشترط أن يغفر الله لي ما سبق من الكفر والذنوب. هذا أكبر همِّه -رضي الله عنه-، يشترط أنَّ الله يغفر له، ظن أن الله لن يغفر له لما كان له من سابقة، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: "أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله، وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وأن الحج يهدم ما كان قبله" ثلاثة أشياء.
 أما الإسلام: فإنه يهدم ما كان قبله بنص الكتاب العزيز، قال الله -عز وجل-: {قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف وإن يعودوا فقد مضت سنت الأولين}.
والهجرة: إذا هاجر الإنسان من بلده التي يعيش فيها، وهي بلد كفر هدمت ما قبلها.
والحج: يهدم ما قبله؛ لقول النبي -صلى الله عليه وسلم-: "الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة".
فبايع -رضي الله عنه- وأحب النبي -صلى الله عليه وسلم- حبًّا شديدًا حتى كان أحب الناس إليه، وحتى إنه لا يستطيع أن يحد النظر فيه؛ إجلالا له -عليه الصلاة والسلام-. سبحان مقلب القلوب! بالأمس كان يبغضه بغضا شديدا، حتى يتمنى أنه يقدر عليه فيقتله، والآن ما يستطيع أن يرفع طرفه إليه؛ إجلالا له، ولا يستطيع أن يصفه؛ لأنه لا يحيط به، حيث إنه لم يدركه إدراكا جيدا؛ مهابة له -صلى الله عليه وسلم-.
يقول رضي الله عنه: إنَّه لو مات على الحال الأول؛ لكان من أهل النار، يقول: ولو مت على تلك الحال يعني الحال الثاني؛ لرجوت أن أكون من أهل الجنة. انظر الاحتياط فقد جزم أنه لو مات على الحال الأولى؛ لكان من أهل النار، أما الحال الثانية فإنه لشدة خوفه قال: لو مت على هذا الحال لرجوت أن أكون من أهل الجنة، ولم يقل: لكنت من أهل الجنة؛ لأن الشهادة بالجنة أمرها صعب.
ثم إنه بعد ذلك تولى أمورا -رضي الله عنه-، تولى إمارات وقيادات، وحصل ما حصل في قصة حرب معاوية وغيره، وكان عمرو بن العاص معروفا أنه من أدهى العرب وأذكى العرب، فيقول: أخشى من هذا الذي حدث بي بعد الحال الأوسط أن يكون أحاط بعملي.
ثم أوصى -رضي الله عنه- أنه إذا مات لا تتبعه نائحة، والنائحة: هي المرأة التي تنوح على الميت، وتبكي عليه بكاء يشبه نوح الحمام، وأمر -رضي الله عنه- إذا دفنوه أن يبقوا عند قبره قدر ما ينحر واحد من الإبل، ويقسم لحمه، حتى يراجع رسل ربه وهم الملائكة الذين يأتون إلى الميت إذا دفن، فإن الميت إذا دفن يأتيه ملكان ويجلسانه في قبره، ويسألانه ثلاثة أسئلة: يقولان من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟.
فأمر عمرو بن العاص -رضي الله عنه- أهله أن يقيموا عليه قدر ما تنحر الجزور ويقسم لحمها؛ ليستأنس بهم، وهذا يدل على أن الميت يحس بأهله، وقد ثبت عن النبي -عليه الصلاة والسلام- أن الميت يسمع قرع نعالهم إذا انصرفوا من دفنه، قرع النعال الخفي يسمعه الميت إذا انصرفوا من دفنه.
وقد ثبت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في حديث حسن أنه كان إذا دفن الميت وقف عليه، وقال: "استغفروا لأخيكم، واسألوا له التثبيت؛ فإنه الآن يسأل"، فيستحب إذا دفن الميت أن يقف الإنسان على قبره ويقول: اللهم ثبته، اللهم ثبته، اللهم ثبته، اللهم اغفر له، اللهم اغفر له، اللهم اغفر له؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا سلم سلم ثلاثا، وإذا دعا دعا ثلاثًا.
الحاصل أن ابن عمرو بن العاص قال له: بشرك النبي -صلى الله عليه وسلم- بالجنة، وهذا من باب البشارة بالخير والتهنئة به.
593;مرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث خیر کی خوشخبری اور بھلائی کو متضمن ہے۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کی موت کے وقت ان کے کچھ دوست آئے تو یہ بہت زیادہ روئے اور اپنا چہرہ دیوارکی طرف پھیر دیا،وہ موت کی کشمکش میں تھے عنقریب دنیا کو چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ ان کے بیٹے نے کہا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں آپ کو تو نبی ﷺ جنت کی خوشخبری دے چکے ہیں؟ انہوں نے کہا: اے پیارے بیٹے! میری تین حالتیں رہی ہیں، پھر انہوں نے تینوں حالتیں ذکر کیں کہ وہ آپ ﷺ سے بہت زیادہ بغض رکھا کرتے تھے، روئے زمین پر ان سے زیادہ کوئی آپ ﷺ سے بغض نہیں رکھتا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر موقع ملے تو وہ آپ ﷺ کو قتل کر دیں، یہ بہت سخت کفر تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کی،تو آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول! اپنا ہاتھ پھیلا دیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلوں، آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پھیلایا، لیکن عمرو بن العاص نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، یہ تکبّر کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ آنے والے واقعے کی پختگی کے لیے تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ کہا اے اللہ کے رسول! میں ایک شرط پر اسلام قبول کروں گا۔ آپ نے فرمایا:کیا شرط ہے؟ کہا شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے سابقہ کفر اور پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردے گا۔ اس کی عمرو کو سب سے زیادہ فکر دامن گیر تھی۔ ان کا یہ گمان تھا کہ اللہ ان کے سابقہ گناہ معاف نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کرتی ہے اور حج پچھلے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہیں۔
جہاں تک اسلام لانے سے گزشتہ گناہوں کا معاف کرنا ہے تو یہ قرآنِ کریم میں مذکور ہے {قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف وإن يعودوا فقد مضت سنت الأولين}۔ [الأنفال: 38]۔ ترجمہ:’’آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے‘‘۔
الهجرة: جب انسان اس علاقے سے ہجرت کرے جس میں وہ رہتا ہے اور وہاں کفر کا غلبہ ہو، تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حج بھی اپنے سے پہلے کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اس لیے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور لوگوں میں سب سے زیادہ آپ ﷺ سے محبت کرنے والے بنے۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ کے جلال کی وجہ سے آپ کو مسلسل دیکھ نہیں سکتے تھے۔ پاک ہے دلوں کو پھیرنے والی ذات! کہ کل تک وہ آپ سے سب سے زیادہ بغض کرنے والے تھے اور آپ کو قتل کرنے کے خواہش مند تھے اور اب وہ آپ کے جلال کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتے، اور نہ ہی آپ کی صفات بیان کر سکتے ہیں اس لیے کہ آپ ﷺ کے خوف سے آپ کو پوری طرح دیکھا ہی نہیں، جو پوری طرح ادراک کرسکیں۔ حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ اگر میں پہلی حالت پر مرتا تو جہنمی ہوتا۔ کہتے تھے اگر میں دوسری حالت پرمرتا تو مجھے اپنے جنتی ہونے کی امید تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی احتیاط کو دیکھیے کہ فرمایا اگر پہلی حالت پر مرتا تو یقیناً جہنمی ہوتا اور اگر دوسری حالت پر مرتا تو مجھے اپنے جنتی ہونے کی امید تھی۔ یہ نہیں کہا کہ میں جنتی ہوتا۔ اس لیے کہ جنتی ہونے کی گواہی دینا بہت سخت ہے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے امارت اورقیادت کے بہت سارے امورسنبھالے اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی لڑائیوں میں کچھ واقعات پیش آئے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ معروف تھا کہ عرب کے ذہین وفطین شخص ہیں، اورفرماتے کہ: مجھے دوسری حالت کے بعد خوف ہے کہ کہیں میرے اعمال کا احاطہ نہ کیا جائے۔
پھر انہوں نے نصیحت کی کہ ان کی موت کے بعد کوئی عورت نوحہ نہ کرے۔ النائحة: وہ عورت جو میت پر نوحہ کرتی ہے اور اس پر نوحہ خواں کبوتر کی طرح خوب روتی ہے۔ اور حکم دیا کہ انہیں دفن کرنے کے بعد اتنی مقدار قبر پر رُکے رہنا جتنی مقدار میں اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکے، تاکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے آجائیں جو مُردے کو دفنانے کے بعد آتے ہیں۔ مُردے کو دفنانے کے بعد دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے تین سوال کرتے ہیں؛ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے اہلِ خانہ کو اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرنے کی مقدار ٹھہرنے کا حکم فرمایا تاکہ وہ ان کی وجہ سے مانوس رہے۔ یہ اس بات پر دلالت ہے کہ مُردہ قبر میں اپنے گھر والوں کو محسوس کرتا ہے۔ آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ لوگ جب مُردے کو دفنا کر واپس لوٹتے ہیں تو مُردہ لوگوں کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے۔ آپ ﷺ سے حسن درجے کی حدیث میں یہ منقول ہے کہ مُردے کو دفنانے کےبعد قبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ ’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی مانگو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ لہٰذا میت کو دفنانے کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہو کر تین دفعہ اللهم ثبته اورتین دفعہ اللهم اغفر له کہے۔ کیونکہ آپ ﷺ جب سلام کرتے تو تین دفعہ کرتے اور جب دعا کرتے تو بھی تین دفعہ کرتے۔
خلاصہ یہ کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے آپ کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔ یہ خیر کی بشارت اور مبارک باد ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3446

 
 
Hadith   364   الحديث
الأهمية: وجوب الثقة بالله تعالى وبيان عناية الله بأنبيائه وأوليائه


Tema:

اللہ تعالی پر بھروسہ کرنا واجب ہے، اللہ تعالی کا اپنے انبیاء ورسل اور اولیاء کی حفاظت کا بیان

عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: نَظَرت إِلى أقدام المشركين ونحن في الغار وهم على رؤُوسِنا، فقلت: يا رسول الله، لَو أنَّ أحَدَهم نظر تحت قدَمَيه لأَبصَرَنا، فقال: «مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكرٍ بِاثنَينِ الله ثَالِثُهُمَا».

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ غار میں تھے، میں نے مشرکین کے پاؤں کی طرف دیکھا، وہ ہمارے سروں پر تھے، میں نے کہا اے اللہ کے رسول! ان میں سے کوئی اگر اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے تو ہم انہیں نظر آ جائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر! ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذه القصة كانت حينما هاجر النبي -صلى الله عليه وسلم- من مكة إلى المدينة، وذلك أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لما جهر بالدعوة، ودعا الناس، وتبعوه، وخافه المشركون، وقاموا ضد دعوته، وضايقوه، وآذوه بالقول وبالفعل، فأذن الله له بالهجرة من مكة إلى المدينة ولم يصحبه إلا أبو بكر -رضي الله عنه-، والدليل الرجل الذي يدلهم على الطريق، والخادم، فهاجر بأمر الله، وصحبه أبو بكر -رضي الله عنه-، ولما سمع المشركون بخروجه من مكة، جعلوا لمن جاء به مائتي بعير، ولمن جاء بأبي بكر مائة بعير، وصار الناس يطلبون الرجلين في الجبال، وفي الأودية وفي المغارات، وفي كل مكان، حتى وقفوا على الغار الذي فيه النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر، وهو غار ثور الذي اختفيا فيه ثلاث ليال، حتى يخفَّ عنهما الطلب، فقال أبو بكر -رضي الله عنه-: يا رسول الله لو نظر أحدهم إلى قدميه لأبصرنا؛ لأننا في الغار تحته، فقال: "ما ظنك باثنين الله ثالثهما"، وفي كتاب الله أنه قال: (لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا)، فيكون قال الأمرين كليهما، أي: قال: "ما ظنك باثنين الله ثالثهما"، وقال "لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا" .
فقوله: "ما ظنك باثنين الله ثالثهما" يعني: هل أحد يقدر عليهما بأذية أو غير ذلك؟ والجواب: لا أحد يقدر؛ لأنه لا مانع لما أعطى الله ولا معطي لما مَنَع، ولا مُذِّل لمن أعز ولا معز لمن أذل، (قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ).
740;ہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ جب آپ ﷺ نے اعلانیہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، لوگوں کو بلایا اور لوگوں نے آپ کی اتباع کی۔ مشرکین ڈر گئے اور آپ کی دعوت کے خلاف کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ پر سختی کی اورقول و فعل کے ذریعہ آپ ﷺ کو تکلیفیں پہنچائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ آپ ﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ، راہبر اور خادم تھے۔پس آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے سے ہجرت کی اور آپ ﷺ کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہو لیے، جب مشرکین نے آپ ﷺ کی مکہ سے روانگی کی خبر سنی تو آپ ﷺ کو پکڑ کر لانے والے کو دو سو (200) اونٹ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پکڑ لانے پر سو (100) اونٹ انعام رکھا، لوگ آپ دونوں کو پہاڑوں، وادیوں اور غاروں اور ہر جگہ تلاش کرنے لگے، یہاں تک کہ اس غار پر آ رُکے جس میں نبی ﷺ اور ابوبکر پناہ گزین تھے۔ یہ غار ثور ہے جہاں تین دنوں تک چھپے رہے یہاں تک کہ آپ دونوں کی تلاش کا معاملہ نرم پڑگیا، چنانچہ اسی موقعہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اے اللہ کے رسول ﷺ! ان میں سے کوئی اگر اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے تو ہم انہیں نظر آ جائیں۔ اس لیے کہ ہم ان کے قدموں کے نیچے غار میں ہی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر! ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا﴾ (سورۃ التوبۃ: 40) ترجمہ: غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دونوں جملے بھی کہے ہوں یعنی ”مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا“ اور ”لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا“۔
آپ ﷺ کا یہ کہنا: ”ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے“ یعنی کیا کوئی ان دونوں کو اذیت وغیرہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے؟ اور جواب ہے: نہیں کوئی یہ طاقت نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس لیے کہ جسے اللہ دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں، اس کو کوئی رسوا نہیں کرسکتا جسے اللہ تعالی عزت دے اور جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، (فرمان الٰہی ہے) ﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (آل عمران: 26) ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3447

 
 
Hadith   365   الحديث
الأهمية: فَلَم أَكُن لِأُفْشِي سِرَّ رسُولَ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَلَو تَرَكَهَا النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلم- لَقَبِلتُهَا


Tema:

میں نہیں چاہتا کہ آپ ﷺ کا راز فاش کردو، ہاں اگر نبی ﷺ انھیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أَنَّ عمرَ -رضي الله عنه- حِينَ تَأَيَّمَت بِنتُهُ حَفصَة، قَالَ: لَقِيتُ عثمانَ بن عفان -رضي الله عنه- فَعَرَضتُ عَلَيه حَفصَة، فَقُلتُ: إِنْ شِئْتَ أَنكَحْتُكَ حَفصَةَ بِنتَ عُمَر؟ قَال: سَأَنظُر فِي أَمْرِي، فَلَبِثتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَال: قَدْ بَدَا لِي أَنْ لاَ أَتَزَوَّجَ يَومِي هَذَا، فَلَقِيتُ أَبَا بَكر -رضي الله عنه- فقُلتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفصَةَ بِنتَ عُمَرَ، فَصَمَتَ أَبُو بَكر -رضي الله عنه- فَلَم يَرجِعْ إِلَيَّ شَيئًا! فَكُنْتُ عَلَيهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثمَانَ، فَلَبِثَ لَيَالِيَ ثُمَّ خَطَبَهَا النَّبِي -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكر، فقَال: لَعَلَّكَ وَجَدتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفصَةَ فَلَمْ أرْجِع إِلَيكَ شَيئًا؟ فَقُلتُ: نَعَم، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أرْجِع إِلَيكَ فِيمَا عَرَضتَ عَلَيَّ إِلاَّ أَنِّي كُنتُ عَلِمْتُ أَنَّ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- ذَكَرَهَا، فَلَم أَكُن لِأُفْشِي سِرَّ رسُولَ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَلَو تَرَكَهَا النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلم- لَقَبِلتُهَا.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ جب ان کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو ان کی ملاقات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کر دوں؟ انھوں نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انھوں نے کہا کہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی میں دوسرا نکاح نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طرز عمل مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے زیادہ باعثِ تکلیف تھا۔ کچھ دن اور میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم ﷺ نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپ ﷺ سے کر دیا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انھوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرزِ عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف تو ہوئی تھی۔انھوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے (مجھ سے) حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا اور میں نبی کریم ﷺ کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا۔ اگر نبی ﷺ ان سے (نکاح کا ارادہ) چھوڑ دیتے تو بے شک میں انھیں قبول کر لیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أخبر عبد الله بن عمر -رضي اللَّه عنهما- أنّ عمر رضي الله عنه- حين تأيمت بنته "حفصة" أي من خنيس بن حذافة السهمي، وهو أخو عبد الله بن حذافة، وكان من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- توفي بالمدينة، وكان موته من جراحة أصابته بأحد، وكان من السابقين إلى الإسلام وهاجر إلى أرض الحبشة.
قال عمر: "لقيت عثمان بن عفان" أي بعد موت زوجته رقية بنت سيدنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
قال عمر: "فعرضت عليه حفصة" ففيه جواز عرض الإنسان بنته على أهل الخير والصلاح، ولا نقص في ذلك، كما ترجم به البخاري.
قال عمر: "فقلت: إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر" وأتى بهذا الأسلوب: وهو التعبير بالجملة الشرطية، تجعل المخاطب حر الاختيار، وهذا من حسن البيان المشجع والحاض على القبول، ونسب ابنته إليه، وهذا فيه إيجاز بالحذف، كأنه يقول: أي بنت عمر وأنت تعلم شأنه وحسن خلطته.
فكان رد عثمان: "سأنظر في أمري" أي أفكر في شأني هل أتزوج الآن أو أؤخر ذلك، قال عمر: "فلبثت ليالي ثم لقيني فقال: قد بدا لي أن لا أتزوج يومي هذا" أراد عثمان من ذلك مطلق الزمن: أي في زمني هذا، وأتى به لدفع توهم إرادته التبتل والانقطاع عن التزوج المنهي عنه، قال عمر: "فلقيت أبا بكر الصديق -رضي الله عنه- فقلت: إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر فصمت" فترك الصديق الكلام عن قصد ولِدَاعٍ له أَخَص من السكوت، قال عمر: "فكنت أوجد" أي أشد غضباً "عليه منى على عثمان" وذلك لأن عثمان حصل منه الجواب، وأمَّا الصديق فتركه أصلاً، "فلبثت ليالي ثم خطبها النبي-صلى الله عليه وسلم- فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر" أي بعد تمام التزويج وزوال محذور بيان حقيقة الأمر، قال الصديق وقدّم لاعتذاره وتطييبا لخاطر أخيه: "لعلك" هي للإشفاق، وأتى به اعتماداً على حسن خلق عمر، وأنه لا يغضب لذلك، ولكن جواز الغضب منه بحسب الطبع، فقال له ذلك، قال الصديق: "لعلك وجدت علي حين عرضت عليّ حفصة فلم أرجع" أي غضبت علي حينها، فقال عمر: "نعم": وهذا من عمر إخباراً بالوقوع وعملاً بالصدق، فقال أبو بكر الصديق "فإنه لم يمنعني أن أرجع إليك فيما عرضت عليّ إلا أني كنت علمت أن النبيّ -صلى اله عليه وسلم- ذكرها"، أي: كنت مريداً التزوج بها، ولعل ذكر النبي -صلى الله عليه وسلم-  في رغبته في خطبة حفصة كان بحضرة الصديق دون غيره، فرأى أن ذلك من السرّ الذي لا يباح؛ فلذا قال "فلم أكن لأفشي سرّ رسول الله"-صلى الله عليه وسلم- أي أظهر ما أسره إليّ وذكره لي، "ولو تركها النبيّ" -صلى الله عليه وسلم-بالإعراض عنها "لقبلتها": وهذ لأنه يحرم خطبة من ذكرها النبي -صلى الله عليه وسلم- على من علم به.
وفي هذا تربية للأمة وأفرادها، وأن الذي ينبغي: كتم السر، والمبالغة في إخفائه، وعدم التكلم فيما قد يخشى منه أن يجرّ إلى شيء منه.
575;س حدیث میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یہ بتا رہے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں یعنی خنیس بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ سے جو کہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے۔ اور وہ نبی کریم ﷺ کے ان ساتھیوں میں سے تھے جو مدینہ میں فوت ہوئے اور ان کی موت کی وجہ وہ زخم تھی جو انھیں جنگ احد میں لگی تھی۔ اسی طرح یہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے پہلے پہل اسلام قبول کیا اور ہجرت حبشہ بھی کی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"لقيت عثمان بن عفان" (میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا) یعنی ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "فعرضت عليه حفصة" (میں نے ان کو حفصہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ پیش کیا) اس میں اس بات کا جواز ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا رشتہ اہل خیر اور نیک لوگوں کو پیش کر سکتا ہے، اس میں کوئی عیب نہیں جیسا کہ بخاری نے اس کا باب قائم کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "فقلت: إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر" (میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کرا دوں) یہاں پر ایک اسلوب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ جملہ شرطیہ کے ساتھ تعبیر کیا گیا تاکہ مخاطب کو اختیار کی مکمل آزادی ہو اور اس میں جرأت مندانہ حسن بیان اور قبولیت پر تشجیع پائی جاتی ہے۔ اور اس میں بیٹی کی نسبت اپنی طرف کی ہے جب کہ اس میں حذف کی بھی اجازت ہے جیسا کہ وہ کہتے کہ بنت عمر۔ اور آپ (اے عثمان) اس کے معاملے اور حسن معاشرت سے واقف ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیتے ہوئے کہا "سأنظر في أمري" (میں اس معاملے پر غور کروں گا) یعنی میں یہ سوچ لوں کہ کیا میں ابھی شادی کرنا چاہتا ہوں یا کوئی تاخیر ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "فلبثت ليالي ثم لقيني فقال: قد بدا لي أن لا أتزوج يومي هذا" (میں نے کچھ دن انتظار کیا پھر ایک دن مجھے (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) ملے اور کہا کہ مجھے یہی لگتا ہے کہ میں ابھی شادی نہ کروں)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "فلقيت أبا بكر الصديق -رضي الله عنه- فقلت: إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر فصمت" (میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کردوں تو وہ خاموش رہے) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کوئی بات نہ کی اور الوداع کرتے ہوئے خاص انداز سے خاموشی اختیار کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "فكنت أوجد" (میں نے پایا) یعنی شدید غصہ۔"عليه منى على عثمان" (ان پر بہ نسبت عثمان کے) کیوں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے انھیں جواب مل گیا تھا جب کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معاملے کو ویسے ہی چھوڑ دیا۔ " فلبثت ليالي ثم خطبها النبي فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر" (کچھ دن گزرے تو نبی کریم ﷺ نے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ حفصہ کا نکاح کر دیا۔ پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے) یعنی شادی کے بعد۔ گلہ دور کرنے اور حقیقتِ حال بیان کرنے کے لیے اپنا عذر پیش کیا اور اپنے بھائی کی تسلی کی خاطر ان سے کہا: "لعلك" (شاید کہ آپ) شفقت کے انداز میں۔ ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حسن خلق پر اعتماد تھا اور یہ بھی بھروسہ تھا کہ وہ ناراض نہیں ہوں گے۔ لیکن غصہ کا جواز ہونے کی وجہ سے ان کی طبع کا خیال کرتے ہوئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا "لعلك وجدت علي حين عرضت عليّ حفصة فلم أرجع" (آپ نے میرے بارے میں اپنے دل میں کچھ پایا تو ہو گا ہی جب آپ نے حفصہ کے نکاح کی بات کی اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا) یعنی آپ کو اس وقت مجھ پر غصہ آیا ہو گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عملاً جو کچھ ہوا تھا وہ سچائی کے ساتھ بتا دیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا " فإنه لم يمنعني أن أرجع إليك فيما عرضت عليّ إلا أني كنت علمت أن النبيّ ذكرها" (آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ ر سول کریم ﷺنے ان کا ذکر کیا ہے ) یعنی میں شادی کا ارادہ رکھتا تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کی رغبت کا اظہار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس وقت کیا جب ان کے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہیں تھا تو انھوں نے خیال کیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا راز ہے جس کو بیان کرنا درست نہیں۔ اس لیے کہا کہ "فلم أكن لأفشي سرّ رسول الله" (میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ ﷺکا راز بیان کروں) یعنی جو بات چھپا کر مجھ سے کی میں اس کو ظاہر کر دوں۔ "ولو تركها النبيّ"(ہاں اگر آپ ﷺ انھیں چھوڑ دیتے) یعنی ان کے متعلق اپنا ارادہ ترک کر دیتے تو"لقبلتها" (تو میں ان کو قبول کر لیتا) وہ اس بات کو حرام سمجھتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ نکاح کا تذکرہ کیا تھا جس کا انھیں علم تھا اور وہ وہاں پر شادی کرتے۔ اس میں افراد امت کی تربیت موجود ہے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ راز کو چھپانا، اس کو خفیہ رکھنے میں انتہائی احتیاط کرنا اور اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات کرنے سے رک جانا چاہئے جب یہ ڈر ہو کہ اس (افشائے راز) وجہ سے کوئی مصیبت ودقت پیش آسکتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3448

 
 
Hadith   366   الحديث
الأهمية: ما بال الحائض تقضي الصوم، ولا تقضي الصلاة؟ فقالت: أحرورية أنت؟ فقلت: لست بحرورية، ولكني أسأل، فقالت: كان يصيبنا ذلك، فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة


Tema:

کیا وجہ ہے کہ حائضہ روزوں کی قضا تو کرتی ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگیں کہ کیا تو حروریہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں حروریہ نہیں ہوں، بلکہ صرف پوچھ رہی ہوں۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا، تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا البتہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

عن مُعاذة قالتْ: سألتُ عائشةَ -رضي الله عنها- فقلتُ: «مَا بَال الحَائِضِ تَقضِي الصَّوم، ولا تَقضِي الصَّلاة؟ فقالت: أَحَرُورِيةٌ أنت؟، فقلت: لَستُ بِحَرُورِيَّةٍ، ولَكنِّي أسأل، فقالت: كان يُصِيبُنَا ذلك، فَنُؤمَر بِقَضَاء الصَّوم، ولا نُؤْمَر بِقَضَاء الصَّلاَة».

معاذۃ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ حائضہ روزوں کی قضا تو کرتی ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگیں کہ کیا تو حروریہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں حروریہ نہیں ہوں بلکہ صرف پوچھ رہی ہوں۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا، تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا البتہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سألت معاذة عائشة -رضي الله عنها- عن السبب الذي من أجله جعل الشارع الحائضَ تقضى أيام حيضها التي أفطرتها، ولا تقضى صلواتها زمن الحيض، مع اشتراك العبادتين في الفرضية، بل إن الصلاة أعظم من الصيام،
كان عدم التفريق بينهما في القضاء، هو مذهب الخوارج المبنى على الشدة والحرج، فقالت لها عائشة: أحرورية أنت تعتقدين مثل ما يعتقدون، وتُشَدِّدِين كما يُشَدِّدُون؟ فقالت: لست حرورية، ولكنى أسأل سؤال متعلم مسترشد، فقالت عائشة: كان الحيض يصيبنا زمن النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكنا نترك الصيام والصلاة زمنه، فيأمرنا -صلى الله عليه وسلم- بقضاء الصوم ولا يأمرنا بقضاء الصلاة، ولو كان القضاء واجبًا؛ لأمر به ولم يسكت عنه، فكأنها تقول: كفى بامتثال أوامر الشارع والوقوف عند حدوده حكمةً ورشدًا.
605;عاذۃ رضی اللہ عنہا نےعائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے شارع علیہ السلا نے حائضہ عورت کے لیے ان روزوں کی قضا فرض کی، جنھیں وہ نہ رکھ سکے؛ تاہم حیض کے دوران چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا اس پر واجب نہیں کی، حالاں کہ دونوں ہی عبادتیں فرض ہیں۔ بلکہ نماز، روزے سے زیادہ بڑی عبادت ہے۔ قضا کے اعتبار سے ان دونوں کے مابین فرق نہ کرنا خوارج کا مذہب تھا، جس میں بے جا سختی اور تنگی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو حروریہ ہے کہ تو بھی وہی عقیدہ رکھتی ہے، جو ان کا ہے اورتو بھی اسی طرح سختی چاہتی ہے، جیسے وہ کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں حروریہ نہیں ہوں، بلکہ میرا سوال علم اور راہ نمائی کے حصول کے لیے ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی ﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تھا۔ ہم حیض کے دنوں میں روزے اور نماز چھوڑ دیتے تھے۔ نبی ﷺ ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیتے، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر نماز کی قضا واجب ہوتی، تو آپ ﷺ اس پر سکوت نہ فرماتے۔ گویا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ شارع علیہ السلام کے احکامات کو بجا لانے پراکتفا کرنا چاہیے اور آپ کی وضع کردہ حدود پر رک جانا ہی حکمت و دانائی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3449

 
 
Hadith   367   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، ما كدت أصلي العصر حتى كادت الشمس تغرب، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: والله ما صليتها، قال: فقمنا إلى بطحان، فتوضأ للصلاة، وتوضأنا لها، فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب


Tema:

یا رسول اللہ! سورج غروب ہوگیا اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:اللہ کی قسم! نماز میں نے بھی نہیں پڑھی ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہم وادی بطحان گئے، آپ ﷺ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو کیا۔ آپ ﷺ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- «أنَّ عمر بن الخَطَاب -رضي الله عنه- جاء يَومَ الخَندَقِ بَعدَ مَا غَرَبَت الشَّمسُ فَجَعَل يَسُبُّ كُفَّار قُرَيشٍ، وقال: يا رسول الله، مَا كِدتُّ أُصَلِّي العَصرَ حَتَّى كَادَت الشَّمسُ تَغرُبُ، فَقَال النَبِيُّ -صلى الله عليه وسلم-: والله مَا صَلَّيتُهَا، قال: فَقُمنَا إلَى بُطحَان، فَتَوَضَّأ للصَّلاَة، وتَوَضَأنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصر بعد مَا غَرَبَت الشَّمسُ، ثُمَّ صَلَّى بعدَها المَغرِب».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفارِ قریش کو برا بھلا کہنےلگے۔ وہ بولے: یا رسول اللہ! سورج غروب ہوگیا اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نماز میں نے بھی نہیں پڑھی ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہم وادی بطحان گئے۔ آپ ﷺ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو کیا۔ آپ ﷺ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم الخندق بعد أن غربت الشمس وهو يسب كفار قريش؛ لأنهم شغلوه عن صلاة العصر؛ فلم يصلها حتى قربت الشمس من الغروب، فأقسم النبي -صلى الله عليه وسلم- -وهو الصادق- أنه لم يصلها حتى الآن؛ ليطمئن عمر -رضي الله عنه- الذي شقَّ عليه الأمر.
ثم قام النبي -صلى الله عليه وسلم- فتوضأ وتوضأ معه الصحابة، فصلى العصر بعد أن غربت الشمس، وبعد صلاة العصر، صلى المغرب.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں آئے۔ وہ قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے؛ کیوںکہ انھوں نے انھیں نماز عصر پڑھنے سے روکے رکھا تھا اور وہ اسے ادا نہیں کر سکے تھے، یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس پر نبی صادق ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ انھوں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی ہے، تاکہ عمر رضی اللہ عنہ جن پر یہ امر بہت شاق گزرا تھا، وہ مطمئن ہو جائیں۔
پھر نبی ﷺ اٹھے اور وضو کیا۔ صحابۂ کرام نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ وضو کیا۔ آپ ﷺ نے سورج غروب ہو جانے کے بعد عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3450

 
 
Hadith   368   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يفرغ الماء على رأسه ثلاثًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ اپنے سر پر تین دفعہ پانی ڈالا کرتے تھے

عن أبي جعفر محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب أَنَّه كان هو وأبوه عند جابر بن عبد الله، وعنده قوم، فسألوه عن الغسل؟ فقال: صَاعٌ يَكْفِيكَ، فقال رجل: ما يَكْفِينِي، فقال جابر: كان يَكْفِي من هو أَوفَى مِنْكَ شَعْرًا، وخَيرًا مِنكَ -يريد رسول الله- -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ أَمَّنَا في ثَوبٍ.
 وفي لفظ: ((كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُفْرِغُ المَاءَ على رَأسِهِ ثَلاَثًا)).

ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے والد، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور کچھ دیگر لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ(غسل کرنے کے لیے) تمھارے لیے ایک صاع پانی کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا کہ میرے لیے تو یہ کافی نہیں۔ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا، جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے۔ ان کی مراد رسول اللہ ﷺ تھے۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”رسول اللہ ﷺ (جب غسل فرماتے تو) اپنے سر پر تین دفعہ پانی ڈالا کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أبو جعفر محمد بن علي وأبوه عند الصحابي الجليل جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- وعنده قوم، فسأل رجل من القوم جابرًا عما يكفي من الماء في غسل الجنابة؟ فقال: يكفيك صاع.
وكان الحسن بن محمد بن الحنفية مع القوم عند جابر، فقال: إن هذا القدر لا يكفيني للغسل من الجنابة.
فقال جابر: كان يكفى من هو أوفر وأكثف منك شعرا، وخير منك، فيكون أحرص منك على طهارته ودينه -يعنى النبي- -صلى الله عليه وسلم-، وهذا حثٌّ على اتباع السنة، وعدم التبذير في ماء الغسل، ثم صلى بهم جابر إمامًا.
575;بو جعفر محمد بن علی اور ان کے والد، جلیل القدر صحابی جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ غسلِ جنابت کے لیے پانی کی کتنی مقدار کافی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ”تمھارے لیے ایک صاع پانی کافی ہے“۔
جابر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود لوگوں میں حسن بن محمد بن حنفیہ بھی تھے۔ وہ کہنے لگے کہ غسل جنابت کے لیے میرے لیے اس قدر پانی کافی نہیں ہے۔
اس پر جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اتنا پانی ان کے لیے کافی ہو جایا کرتا تھا، جن کے بال تم سے زیادہ لمبے اور گھنے تھے اور وہ تم سے بہتر تھے اور یقینا ان کو اپنی طہارت اور دین کی تم سے زیادہ فکر تھی۔ ان کی مراد نبی ﷺ تھے۔ اس حدیث میں اتباعِ سنت اور اس بات کی ترغیب ہے کہ دوران غسل پانی کا فضول استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو نماز پڑھائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3455

 
 
Hadith   369   الحديث
الأهمية: أتيت النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يستاك بسواك رطب، قال: وطرف السواك على لسانه، وهو يقول: أع، أع، والسواك في فيه، كأنه يتهوع


Tema:

میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ ایک تر مسواک کر رہے تھے۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسواک کا کنارہ آپ ﷺ کی زبان پر تھا اور آپ مسواک منہ میں لے کر منہ سے اس طرح اع، اع کی آواز نکال رہے تھے، جیسےآپ ﷺ قے کر رہے ہوں۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: ((أتَيتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يَسْتَاكُ بِسِوَاك رَطْب، قال: وطَرَفُ السِّوَاك على لسانه، وهو يقول: أُعْ، أُعْ، والسِّوَاك في فِيه، كأنَّه يَتَهَوَّع)).

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ ایک تر مسواک کر رہے تھے۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسواک کا کنارہ آپ ﷺ کی زبان پر تھا اور آپ مسواک منہ میں لے کر منہ سے اس طرح اع، اع کی آواز نکال رہے تھے، جیسےآپ ﷺ قے کر رہے ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أبو موسى الأشعرى -رضي الله عنه-: أنه جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، وهو يستاك بسواك رطب؛ لأن إنقاءه أكمل؛ فلا يتفتت في الفم؛ فيؤذى، وقد جعل السواك على لسانه، وبالغ في التسوك، حتى كأنه يتقيأ.
575;بو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ ﷺ ایک تر مسواک کر رہے تھے؛ کیوں کہ یہ زیادہ اچھے طریقے سے صفائی کرتی ہے اور منہ میں ٹوٹ کر تکلیف نہیں دیتی۔ آپ ﷺ مسواک کو اپنی زبان پر رکھے ہوۓ تھے اور بہت اندر تک مسواک فرما رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا، جیسے آپ ﷺ قے کر رہے ہوں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3456

 
 
Hadith   370   الحديث
الأهمية: إنما يكفيك أن تقول بيديك هكذا: ثم ضرب بيديه الأرض ضربة واحدة، ثم مسح الشمال على اليمين، وظاهر كفيه ووجهه


Tema:

تمھارے لیے اپنے ہاتھوں سے بس اتنا کرنا لینا کافی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دفعہ زمین پر مارا۔ پھر اپنےبائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ، ہتھیلیوں کی پشت اور اپنے چہرے کا مسح کیا۔

عن عمار بن ياسر -رضي الله عنهما- قال: «بَعَثَنِي النبي -صلى الله عليه وسلم- في حَاجَة، فَأَجْنَبْتُ، فَلَم أَجِد المَاءِ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ، كَمَا تَمَرَّغ الدَّابَّةُ، ثم أَتَيتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرتُ ذلك له، فقال: إِنَّمَا يَكْفِيك أن تَقُولَ بِيَدَيكَ هَكَذَا: ثُمَّ ضَرَب بِيَدَيهِ الأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَى اليَمِينِ، وظَاهِرَ كَفَّيهِ وَوَجهَهُ».

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا۔ (دورانِ سفر) میں جنبی ہو گیا؛ لیکن (غسل کے لئے) مجھے پانی میسر نہ آیا۔اس لیے میں مٹی میں ایسے لوٹ پوٹ ہوگیا جیسے جانور ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمھارے لیے اپنے ہاتھوں سے بس اتنا کرنا لینا کافی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دفعہ زمین پر مارا۔ پھر اپنےبائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ، ہتھیلیوں کی پشت اور اپنے چہرے کا مسح کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بعث النبي -صلى الله عليه وسلم- عمار بن ياسر -رضي الله عنه- في سفر لبعض حاجاته، فأصابته جنابة، فلم يجد الماء ليغتسل منه، وكان لا يعلم حكم التيمم للجنابة، وإنما يعلم حكمه للحدث الأصغر؛ فاجتهد وظن أنه كما مسح بالصعيد بعض أعضاء الوضوء عن الحدث الأصغر، فلابد أن يكون التيمم من الجنابة بتعميم البدن بالصعيد؛ قياساً على الماء، فتقلب في الصعيد حتى عمَّم البدن وصلى، فلما جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وكان في نفسه مما عمله شيء؛ لأنه عن اجتهاد منه، ذكر له ذلك؛ ليرى هل هو على صواب أو لا؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: يكفيك عن تعميم بدنك كله بالتراب أن تضرب بيديك الأرض، ضربة واحدة، ثم تمسح شمالك على يمينك، وظاهر كفيك ووجهك، مثل التيمم للوضوء.
606;بی ﷺ نے اپنے کسی کام کے لیےعمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو سفر پر روانہ کیا۔ دوران سفر انھیں جنابت لاحق ہو گئی، لیکن غسل کے لیے پانی نہ ملا۔ ان کے علم میں صرف حدث اصغر سے پاک ہونے کے لیے تیمم کا حکم تھا، جنابت لاحق ہونے پر تیمم کا حکم انھیں معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے اجتہاد کیا کہ حدثِ اصغر کے لاحق ہونے پر جیسے بعض اعضاے وضو کا مٹی سے مسح کیا جاتا ہے، ویسے ہیجنابت کے لیے تیمم میں ضروری ہو گا کہ پانی پر قیاس کرتے ہوئے مٹی کو پورے جسم تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ وہ مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گئے، یہاں تک کہ جب یہ پورے جسم کو لگ گئی، انھوں نے نماز ادا کی۔ جب وہ نبی ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا؛ تا کہ جان سکیں کہ ان کا عملدرست تھا یا نہیں؟ کیوںکہ ذاتی اجتہاد ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں اپنے اس عمل کے بارے میں کھٹک تھی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: پورے جسم پر مٹی ملنے کی بجائے تمھارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دفعہ مٹی پر مارتے۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ، اپنی ہتھیلیوں کی پشت اور اپنے چہرے کا مسح کر لیتے، جیسا کہ وضو کی جگہ تیمم کیا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3461

 
 
Hadith   371   الحديث
الأهمية: لما حضرت أحدًا دعاني أبي من الليل فقال: ما أراني إلا مقتولا في أول من يقتل من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

جب غزوہ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے والد نے رات کو بلایا اور کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-، قال: لما حضرتْ أُحُدٌ دعاني أبي من الليل، فقال: ما أراني إلا مقتولا في أول من يُقتل من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم-، وإني لا أترك بعدي أعزَّ عليَّ منك غيرَ نَفْسِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وإن عليَّ دَيْنًا فاقْضِ، واسْتَوْصِ بأَخَوَاتِكَ خيرًا، فأصبحنا، فكان أولَ قَتيل، ودَفَنْتُ معه آخرَ في قبره، ثم لم تَطِبْ نفسي أن أتركه مع آخر؛ فاستخرجتُه بعد ستة أشهر، فإذا هو كيوم وضعتُه غيرَ أُذنِهِ، فجعلته في قبر على حِدَةٍ.

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ جب غزوہ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے والد نے رات کو بلایا اور کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا۔ اور میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے عزیز تم ہو ۔اگر مجھ پر کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنا، اپنے بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔جب اگلی صبح ہوئی تو سب سے پہلے شہید وہی تھے۔ میں نے ان کو کسی اور کے ساتھ دفن کر دیا لیکن پھر مجھے اچھا نہ لگا کہ میں انہیں کسی اور کے ساتھ قبر میں چھوڑے رکھوں لہٰذا میں نے چھ مہینے بعد ان کو اس قبر سے نکالا تو وہ ایک کان کے علاوہ ویسے ہی تھے جیسے ان کو پہلے دن قبر میں رکھا گیا تھا اور پھر ان کو علیحدہ قبر میں دفن کر دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أيقظ عبد الله بن حرام ابنه جابرًا في ليلة من الليالي، وقال له: إني لأظن أني أول قتيل مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وذلك قبيل غزوة أحد، ثم أوصاه وقال: إني لن أترك من بعدي أحدًا أعز منك بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وأوصاه بأن يقضي دينًا كان عليه وأوصاه بأخواته، ثم كانت الغزوة فقاتل -رضي الله عنه- وقُتل، وكان القتلى في ذلك اليوم سبعين رجلًا، فكان يشق على المسلمين أن يحفروا لكل رجل قبرًا، فجعلوا يدفنون الاثنين والثلاثة في قبر واحد، فدفن مع عبد الله بن حرام رجل آخر، ولكنَّ جابرًا -رضي الله عنه- لم تطب نفسه حتى فرق بين أبيه وبين من دفن معه، فحفره بعد ستة أشهر من دفنه، فوجده كأنه دفن اليوم، لم يتغير إلا شيء في أذنه يسير، ثم أفرده في قبر.
575;یک رات عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے جابر رضی اللہ عنہ کو اٹھایا اور ان سے کہا: مجھے لگتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے میں پہلا شخص ہوں گا، جسے قتل کیا جائے گا۔ یہ غزوۂ احد سے ذرا پہلے کی بات ہے۔ پھر ان کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: میں جن لوگوں کو چھوڑ کر جاؤں گا، ان میں رسول اللہﷺ کے بعد سب سے عزیز شخص تم ہو۔ ان کو وصیت کی کہ ان کی طرف سے قرض ادا کر دے اور بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ پھر جنگ ہوئی، انھوں نے قتال کیا اور شہید ہو گئے۔ غزوۂ احد کے دن ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور ہر ایک کے لیے الگ الگ قبر کھودنا آسان نہ تھا، اس لیے مسلمان ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین افراد کو دفنانے لگے۔ عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایک آدمی کو دفن کیا گیا، لیکن جابر رضی اللہ عنہ کو دلی طور پر یہ اچھا نہ لگا اور اپنے والد اور ان کے ساتھ مدفون شخص کو الگ الگ کر دیا؛ انھوں نے تدفین کے چھ مہینے بعد قبر کھودی، تو ان کو ویسے ہی پایا، جیسے انھیں دفن کیا گیا تھا۔ ان کےجسم پر کان کے کچھ حصہ کے علاوہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی اور پھر انھیں الگ قبر میں دفنا دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3462

 
 
Hadith   372   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثًا حتى تفهم عنه، وإذا أتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثًا


Tema:

نبی ﷺ جب کوئی بات کہتے، تو اسے تین بار دوہراتے، تاکہ آپ ﷺ کی بات کو پوری طرح سمجھ لیا جائے اور جب کچھ لوگوں کے پاس آ کر سلام کرتے، تو انھیں تین بار سلام کرتے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أَنَّ النَبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَان إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيهِم سَلَّمَ عَلَيهِم ثَلاَثًا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دہراتے تاکہ آپ ﷺ کی بات کو پوری طرح سمجھ لیا جائے اور جب کچھ لوگوں کے پاس آ کر سلام کرتے تو انہیں تین بار سلام کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا تكلم بالكلمة أعادها ثلاثا حتى تفهم عنه.
فقوله: "حتى تفهم عنه" يدل على أنها إذا فهمت بدون تكرار فإنه لا يكررها.
لكن إذا لم يفهم الإنسان؛ بأن كان لا يعرف المعنى جيدا فكرر عليه حتى يفهم، أو كان سمعه ثقيلا لا يسمع، أو كان هناك ضجة، فهنا يستحب أن تكرر له حتى يفهم عنك.
وكان -صلى الله عليه وسلم- إذا سلم على قوم "سلم عليهم ثلاثا" يعني: أنه كان لا يكرر أكثر من ثلاث: يسلم مرة فإذا لم يجب سلم الثانية، فإذا لم يجب سلم الثالثة، فإذا لم يجب تركه.
وكذلك في الاستئذان كان -صلى الله عليه وسلم- يستأذن ثلاثا، يعني إذا جاء للإنسان يستأذن في الدخول على بيته، يدق عليه الباب ثلاث مرات، فإذا لم يُجب انصرف، فهذه سنته -عليه الصلاة والسلام- أن يكرر الأمور ثلاثا ثم ينتهي.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی ﷺ جب کوئی بات کرتے، تو اسے تین دفعہ دوہراتے، تاکہ آپ ﷺ کی بات کو پوری طرح سے سمجھ لیا جائے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تاکہ آپ ﷺ کی بات پوری طرح سمجھ لی جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر بغیر دہرائے بات سمجھ میں آ جائے، تو پھر بات کرنے والا اپنی بات کو نہ دہرائے۔
تاہم اگر انسان کو بات سمجھ میں نہ آئے، بایں طور کہ وہ اس کا معنی اچھی طرح سے نہ جانتا ہو اور اسے سمجھانے کے لیے وہ بات کو دوہرائے یا اس کی قوت سماعت کمزور ہو اور اس وجہ سے وہ سن نہ پائے یا پھر شور شرابہ ہو، تو ان صورتوں میں مستحب ہے کہ آپ اپنی بات کو دوہرائیں، تا کہ وہ سمجھ میں آ جائے۔
نبی ﷺ جب کچھ لوگوں کو سلام کرتے، تو تین دفعہ سلام کرتے۔ یعنی آپ ﷺ تین سے زیادہ دفعہ سلام نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ ایک دفعہ سلام کرتے، اگر وہ شخص سلام کا جواب نہ دیتا، تو دوسری دفعہ سلام کرتے۔ وہ اگر جواب نہ دیتا، تو پھر تیسری دفعہ سلام کرتے اور پھر بھی اگر وہ جواب نہ دیتا، تو اسے چھوڑ دیتے۔
اجازت مانگنے کے بارے میں بھی آپ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ آپ ﷺ تین دفعہ اجازت مانگا کرتے تھے۔ یعنی آپ ﷺ جب کسی کے پاس آتے، تو اس کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت چاہتے اور تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹاتے۔ اگر وہ جواب نہ دیتا تو واپس لوٹ جاتے۔ یہ آپ ﷺ کی سنت تھی کہ آپ ﷺ امور کو تین دفعہ دوہراتے اور پھر چھوڑ دیتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3463

 
 
Hadith   373   الحديث
الأهمية: رأيت ابن عمر أتى على رجل قد أناخ بدنته، فنحرها، فقال ابعثها قياما مقيدة سنة محمد -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے، جس نے اپنا اونٹ بٹھا رکھا تھا اور اسے نحر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: اسے کھڑا کر کے باندھ دو اور پھر نحر کرو، جیسا کہ محمد ﷺ کی سنت ہے۔

عن زياد بن جبير قال: رَأَيتُ ابنَ عُمَرَ أَتَى عَلَى رجل قد أَنَاخَ بَدَنَتَهُ، فَنَحَرَهَا، فَقَالَ: ابْعَثْهَا قِيَاماً مُقَيَّدَةً، سُنَّةَ مُحَمَّدٍ -صلَّى الله عليه وسلَّم-.

زیاد بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے، جس نے اپنا اونٹ بٹھا رکھا تھا اور اسے نحر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: اسے کھڑا کر کے باندھ دو اور پھر نحر کرو، جیسا کہ محمد ﷺ کی سنت ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
السُنَّة في البقر والغنم وغيرهما -ماعدا الإبل- ذبحها من الحلق مضجعة على جانبها الأيسر، ومستقبلة القبلة، وأما الإبل، فالسنة نحرها في لبتها، قائمة معقولة يدها اليسرى؛ لأن في هذا راحة لها، بسرعة إزهاق روحها، ولذا لما مر عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- على رجل يريد نحر بدنة مناخة، قال: ابعثها قياما، مقيدة، فهي سنة النبي -صلى الله عليه وسلم- الذي نهج أدب القرآن في نحرها بقوله: (فإذا وجبت جنوبها) يعني: سقطت، والسقوط لا يكون إلا من قيام.
575;ونٹوں کے سوا گائے اور بھیڑ بکریوں میں سنت یہ ہے کہ انھیں بائیں پہلو پر قبلہ رو لٹا کر حلق کی جگہ سے ذبح کیا جائے۔ جب کہ اونٹوں میں سنت یہ ہے کہ انھیں کھڑا کر کے اور اگلا بایاں پاؤں باندھ کر سینے پر سے نحر کیا جائے کیوںکہ اس طریقے سے اس کی روح جلدی نکل جاتی ہے اور اسے کم تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ایسے شخص سے گزر ہوا، جو اونٹ کو بٹھا کر نحر کرنا چاہ رہا تھا، تو انھوں نے اس سے فرمایا: اسے کھڑا کر کے باندھ دو (اور پھر نحر کرو)۔ یہی نبی ﷺ کی سنت ہے جنھوں نے اونٹ کو نحر کرنے میں قرآن کے بتائے ہوئے طریقۂ عمل کی پیروی کی کہ: ”فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا“۔(ترجمہ:پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں)۔ ”وَجَبَتْ“ کا معنی ہے: جب وہ گر پڑیں اور کسی شے کا گرنا تب ہی ہوتا ہے، جب وہ پہلے کھڑی ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3464

 
 
Hadith   374   الحديث
الأهمية: أن رجلين من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- خرجا من عند النبي -صلى الله عليه وسلم- في ليلة مظلمة ومعهما مثل المصباحين بين أيديهما


Tema:

نبی ﷺ کے صحابہ میں سے دو آدمی آپ ﷺ کے پاس سے ایک تاریک رات میں نکلے اور ان کے آگے دو چراغوں کی مانند کچھ تھا۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن رجلين من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- خرجا من عند النبي -صلى الله عليه وسلم- في ليلة مظلمة ومعهما مثلُ المصباحين بين أيديهما، فلما افترقا، صار مع كل واحد منهما واحد حتى أتى أهله.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے دو آدمی آپ ﷺ کے پاس سے ایک تاریک رات میں نکلے اور ان کے آگے دو چراغوں کی مانند کچھ تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ رہ گیا، جو (اس کے ساتھ رہا، یہاں تک کہ وہ) اپنے گھر والوں تک پہنچ گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث الشريف كرامة ظاهرة لرجلين من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم-، وقد جاء في بعض طرق الحديث أنهما: عبَاد بن بشر، وأُسيد بن حضير -رضي الله عنهما-.
وذلك أن هذين الصحابيين الجليلين كانا عند النبي -صلى الله عليه وسلم- في ليلة ذات ظلام شديد لا يستطيع الإنسان عادة السير فيها بسهولة؛ فأكرمهما الله تعالى بكرامة عجيبة؛ وهي أنه جعل أمامهما نورا يشبه ضوء لمبة الكهرباء يضيء لهما الطريق الذي يسيران فيه، فلما افترق هذان الصحابيان الجليلان أصبح مع كل واحد منهما ضوء مستقل ليصل كل واحد منهما إلى بيته بسهولة واطمئنان.
575;س حدیث میں نبی ﷺ کے صحابہ میں سے دو آدمیوں کی ایک واضح کرامت کا بیان ہے۔ حدیث کے بعض طرق میں آیا ہے کہ یہ دونوں عباد بن بشر اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما تھے۔
ہوا یوں کہ یہ دونوں جلیل القدر صحابی ایک ایسی سخت تاریک رات میں نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں تھے، جس میں عموما انسان آسانی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے انھیں ایک عجیب کرامت سے نوازا؛ ان کے سامنے ایک ایسی روشنی پیدا فرمادی، جو بجلی کے لیمپ کی مانند تھی اور وہ ان کے لیے اس راستے کو روشن کر رہی تھی، جس پر وہ چل رہے تھے۔ جب یہ دونوں جلیل القدر صحابی جدا ہوئے، تو ہر ایک کے لیے ایک مستقل روشنی پیدا ہوگئی؛ تاکہ ان میں سے ہر ایک آسانی اور اطمئنان کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچ سکے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3466

 
 
Hadith   375   الحديث
الأهمية: يا أبا ذر، إنك ضعيف، وإنها أمانة، وإنها يوم القيامة خزي وندامة، إلا من أخذها بحقها، وأدى الذي عليه فيها


Tema:

ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ (امارت) امانت ہے، قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہوگی، سوائے اُس شخص کے، جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس نے متعلقہ ذمہ داری جو اُس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔

عن أبي  ذر -رضي الله عنه- قال: قُلتُ: يَا رسُولَ الله، أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِي؟ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِي، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ القِيَامَةِ خِزيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلاَّ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيهِ فِيهَا».

ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہےکہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:”ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ (امارت) امانت ہے، قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہوگی، سوائے اس شخص کے، جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس نے متعلقہ ذمہ داری جو اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا“۔

أخبر أبو ذر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- خصّه بنصيحة في شأن الإمارة وتوليها، وهذا لما سأل -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- أنْ يستعمله في الولاية، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: "إنك ضعيفٌ"، وهذا القول فيه نوع قوة لكن الأمانة تقتضي أن يُصرَّحَ للإنسان بوصفه الذي هو عليه، إن قويًّا فقوي، وإن ضعيفًا فضعيف.
ففي هذا دليل على أنه يشترط للإمارة أن يكون الإنسان قويًّا وأن يكون أمينًا؛ لأن الرسول -عليه الصلاة والسلام- قال: "وإنها أمانة"، فإذا كان قويًّا أمينًا فهذه هي الصفات التي يستحق بها أن يكون أميرًا واليًا،  فإن كان قويًّا غيرَ أمينٍ، أو أمينًا غيرَ قوي، أو ضعيفًا غيرَ أمينٍ، فهذه الأقسام الثلاثة لا ينبغي أن يكون صاحبها أميرًا.
وعليه فإنَّنَا نُؤَمِّر القوي؛ لأنَّ هذا أنفع للناس، فالناس يحتاجون إلى سلطة وإلى قوة، وإذا لم تكن قوة ولا سيما مع ضعف الدين ضاعت الأمور.
فهذا الحديث أصل عظيم في اجتناب الولايات، لا سيما لمن كان فيه ضعف عن القيام بوظائف تلك الولاية.
وأما الخزي والندامة الواردة في الحديث، في قوله: "وإنها يوم القيامة خزي وندامة" فهو في حق من لم يكن أهلًا لها، أو كان أهلًا ولم يعدل فيها، فيخزيه الله -تعالى- يوم القيامة، ويفضحه، ويندم على ما فرَّط.

608;أما من كان أهلًا للولاية وعدل فيها، فلا يشمله الوعيد؛ ولذلك النبي الكريم استثنى فقال -صلى الله عليه وسلم-: "إلا من أخذها بحقها، وأدى الذي عليه فيها"، ذلك أن من أخذها بحقها له فضل عظيم تظاهرت به الأحاديث الصحيحة؛ كحديث: "سبعة يظلهم الله في ظله"، ذكر منهم "إمام عادل"، وحديث: "إنّ المقسطين على منابر من نور يوم القيامة"، وغير ذلك.
575;بو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے بطورِ خاص انہیں حکومت اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں نصحیت فرمائی۔ ایسا اس وقت ہوا جب ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ ﷺ انہیں کوئی حکومتی ذمہ داری سونپیں۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم کمزور ہو“۔ اس بات میں گو کہ کچھ سختی ہے لیکن امانت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو اس کے بارے میں بالکل صراحت کے ساتھ بتا دیا جائے کہ وہ کیسا ہے۔ اگر وہ قوی ہے تو قوی اور اگر کمزور ہے تو کمزور۔ اس میں دلیل ہے کہ حکومتی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان قوی اور امین ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ”یہ امانت ہے“۔ اگر وہ قوی اور امین ہو تو یہ صفات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ امیر اور حاکم بننے کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اگر قوی تو ہو لیکن امین نہ ہو یا پھر امین ہو لیکن قوی نہ ہو یا پھر کمزور بھی ہو اور امین بھی نہ ہو تو ان تینوں اقسام کی کمزوریوں کے مالک شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ حکمران بنے۔چنانچہ اس بنا پر ہم قوی شخص کو حکمرانی سونپتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔ لوگوں کو اقتدار اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر قوت نہ ہو خاص طور پراس وقت جب دین بھی کمزور ہو تو اس صورت میں معاملات بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ حدیث حکومتی ذمہ داریوں کو لینے سے اجتناب کرنے کے بارے میں ایک بنیاد ہے خاص طور پر اس شخص کے لیے جس میں اس حکومتی ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں کمزوری پائی جائے۔ جہاں تک اُس رسوائی اور ندامت کا تعلق ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ قیامت کے روز رسوائی اور ندامت کے سوا کچھ نہ ہو گی“۔ تو یہ اس شخص کے حق میں ہے جو اس حکومتی ذمہ داری کا اہل نہ ہو۔ یا پھر اہل تو ہو لیکن وہ اس میں انصاف نہ کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی قیامت کے دن ذلیل اور رسوا کر دے گا اور وہ اپنی کوتاہی پر نادم ہو گا۔ جب کہ وہ شخص جو حکومتی ذمہ داری کا اہل ہو اور وہ اس میں انصاف بھی کرے تو یہ وعید اُس پر صادق نہیں آئے گی۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے استثناء کرتے ہوئے فرمایا: ”ماسوا اس شخص کے جس نے اس کا اہل ہونے کی وجہ سے اسے لیا اور اس کے بارے میں اس پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی اسے پورا کیا“۔ کیونکہ جو اس کا اہل ہو اس کی بہت فضیلت ہے جس کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: ”سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنے سایہ میں جگہ دے گا“ (جس میں انصاف کرنے والا حاکم بھی ہے)۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ: ”عدل کرنے والے نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے“۔ وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3467

 
 
Hadith   376   الحديث
الأهمية: اللهم إني أحرج حق الضعيفين: اليتيم والمرأة


Tema:

اے اللہ ! میں لوگوں کو دو ضعیفوں کے حق سے بہت ڈراتا ہوں (کہ ان میں کوتاہی مت کرنا ) ایک یتیم اور دوسری عورت۔

عن أبي شريح خويلد بن عمرو الخزاعي و أبي هريرة -رضي الله عنهما- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَعِيفَين: اليَتِيم والمَرْأَة».

ابو شریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ! میں لوگوں کو دو ضعیفوں کے حق سے بہت ڈراتا ہوں ( کہ ان میں کوتاہی مت کرنا) ایک یتیم اور دوسری عورت۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث مؤكد للمبدأ الإسلامي في الرفق بالضعيف كاليتيم والمرأة، ويلاحظ في هذ الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بالغ في العناية بحق اليتيم والمرأة؛ لأنهما لا جاه لهما يَلتَجِئَان إليه ويدافع عنهما، فأوقع -عليه الصلاة والسلام- الحرج والعنت والمشقة على من أخذ حقهما.
575;س حدیث میں ایک اسلامی اصول پر زور دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کمزور جیسے یتیم اور عورت کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے۔ اس حدیث میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے یتیم اور عورت کے حق کا خیال رکھنے پرحد سے زیادہ زور دیا؛ کیوںکہ ان کی کوئی ایسی حیثیت نہیں ہوتی جس کا وہ سہارا لے سکیں اور جس کے ذریعے وہ اپنا دفاع کرسکیں۔ چنانچہ نبی صلى الله عليه وسلم نے اس شخص کو تنگی، مشکل اور مشقت کی وعید سنائی جس نے ان کی حق تلفی کی۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3468

 
 
Hadith   377   الحديث
الأهمية: قاربوا وسددوا، واعلموا أنه لن ينجو أحد منكم بعمله، قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: ولا أنا إلا أن يتغمدني الله برحمة منه وفضل


Tema:

میانہ روی اختیار کرو، سیدھی راہ پر چلو اور جان ركھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:اللہ کے رسول ! آپ بھی نہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «قَارِبُوا وسَدِّدُوا، واعلَمُوا أَنَّه لَن يَنجُو أَحَد مِنكُم بِعَمَلِهِ» قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: «ولاَ أَنَا إِلاَّ أَن يَتَغَمَدَنِي الله بِرَحمَة مِنْه وَفَضل».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو، سیدھی راہ پر چلو اور جان ركھو کہ تم میں سے کوئی بھی محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: اللہ کے رسول ! آپ بھی نہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنی رحمت و فضل سے مجھے ڈھانپ لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يدل على أن الاستقامة على حسب الاستطاعة، وهو قول النبي -صلى الله عليه وسلم- "قاربوا وسددوا" أي: تحروا الإصابة، أي: احرصوا على أن تكون أعمالكم مصيبةً للحق بقدر المستطاع، وذلك؛ لأن الإنسان مهما بلغ من التقوى، فإنَّه لابد أن يخطئ، فالإنسان مأمور أن يُقَارِب ويُسَدِّد بقدر ما يستطيع.
ثم قال -عليه الصلاة والسلام-: "واعلموا انه لا ينجو أحد منكم بعمله" أي: لن ينجو من النار بعمله، وذلك لأن العمل لا يبلغ ما يجب لله عز وجل من الشكر، وما يجب له على عباده من الحقوق، ولكن يتغمد الله -سبحانه وتعالى- العبد برحمته فيغفر له.   فلما قال: "لن ينجو أحد منكم بعمله" قالوا له: ولا أنت؟! قال: "ولا أنا" يعني: كذلك النبي -عليه الصلاة والسلام- لن ينجو بعمله، وصرَّح بذلك في قوله: "إلا أن يتغمدني الله برحمة منه"، فدل ذلك على أن الإنسان مهما بلغ من المرتبة والولاية، فإنه لن ينجو بعمله، حتى النبي -عليه الصلاة والسلام-، لولا أن الله مَنَّ عليه بأن غفر له ذنبه ما تقدَّم منه وما تأخر، ما أنجاه عمله.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راستگی حسب استطاعت ہوتی ہے۔ نبی ﷺ فرمایا ”قَارِبُوا وسَدِّدُوا“۔ یعنی اپنے تئیں اچھا عمل کرنے کی پوری کوشش کرو مطلب یہ کہ اس بات کی کوشش کرو کہ تمہارے اعمال مقدور بھر راستگی پر مبنی ہوں۔ کیونکہ انسان تقوی کے جس بھی درجے کو جا پہنچے وہ غلطی ضرور کر ہی جاتا ہے۔چنانچہ انسان کو حکم یہ ہے کہ وہ مقدور بھر اپنی استطاعت کے مطابق میانہ روی کے ساتھ درست اعمال کرے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”واعلَمُوا أَنَّه لَن يَنجُو أَحَدٌ مِنكُم بِعَمَلِهِ“۔ یعنی کوئی بھی دوزخ سے محض اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔ کیونکہ عمل شکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا جو اللہ تعالی کے لیے واجب ہے اور نہ ہی بندے پر اس کے جو حقوق ہیں وہ ادا ہو پاتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالی بندے کو اپنی رحمت سے ڈھانپ کر اسے بخش دیتا ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ فرمایا کہ کوئی بھی محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا تو صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ آپ بھی نہیں؟۔ اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ میں بھی نہیں۔ یعنی نبی ﷺ بھی اسی طرح اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائیں گے۔ آپ ﷺ نے اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہا: مگر یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جس بھی مرتبے اور ولایت کے جس بھی درجے پر جا پہنچے وہ محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پا سکتا حتی کہ نبی ﷺ بھی نہیں۔ اگر اللہ نے آپ ﷺ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں سے درگزر نہ کر لیا ہوتا تو آپ ﷺ کو آپ ﷺ کا عمل نجات نہیں دے سکتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3469

 
 
Hadith   378   الحديث
الأهمية: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم يأخذوا على يديه أوشك أن يعمهم الله بعقاب منه


Tema:

لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔

عن أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: يا أيُّها النَّاس، إِنَّكُم لَتَقرَؤُون هذه الآية: (يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم) [المائدة: 105]، وَإِنِّي سمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ النَّاس إِذا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيه أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ».

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو: ﴿يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم﴾ (سورہ مائدہ: 105) ”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راهِ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں“۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال أبو بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: أيها الناس، إنكم تقرؤون هذه الآية (يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم) ، (المائدة: 105)، وتفهمون منها أن الإنسان إذا اهتدى بنفسه فإنه لا يضره ضلال الناس؛ لأنه استقام بنفسه، فإذا استقام بنفسه فشأن غيره على الله -عز وجل- وهذا المعنى فاسد، فإن الله اشترط لكون من ضل لا يضرنا أن نهتدي فقال: (لا يضركم من ضل إذا اهتديتم)، ومن الاهتداء: أن نأمر بالمعروف وننهى عن المنكر، فإذا كان هذا من الاهتداء، فلابد لكي نسلم من الضرر من الأمر المعروف والنهي عن المنكر، ولهذا قال -رضي الله عنه-: وإني سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: "إن الناس إذا رأوا المنكر فلم يغيروه، أو فلم يأخذوا على يد الظالم، أوشك أن يعمهم الله بعقاب من عنده" يعني أنهم يضرهم من ضل إذا كانوا يرون الضال ولا يأمرونه بالمعروف، ولا ينهونه عن المنكر، فإنه يوشك أن يعمهم الله بالعقاب؛ الفاعل والغافل، الفاعل للمنكر، والغافل الذي لم ينه عن المنكر.
575;بو بکر صدیق - رضی اللہ عنہ- نے کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: ﴿يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم﴾ (سورہ مائدہ: 105) ”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راهِ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں“۔
تم اس سے یہ سمجھتے ہو کہ اگر انسان بذات خود ہدایت یافتہ ہو تو اسے لوگوں کی گمراہی کوئی نقصان نہیں دیتی کیوں کہ وہ اپنی ذات کی حد تک ٹھیک ہے اور بندہ جب اپنی ذات کی حد تک ٹھیک ہو تو لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس آیت کا یہ معنی درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے گمراہ کے ہمارے لیے نقصان دہ نہ ہونے کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں اور یہ بات ہدایت کا حصہ ہے کہ ہم نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ چنانچہ جب یہ ہدایت کا حصہ ہے تو نقصان سے بچنے کے لیے امر بالمروف اور نہی عن المنکر بہت ضروری ہے۔ اس لیے ابوبکر - رضی اللہ عنہ- نے بیان کیا کہ: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ جب برائی کو دیکھ کر اسے بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ظالم کا ہاتھ پکڑیں گے تو جلد ہی اللہ کا عذاب ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ یعنی گمراہ شخص ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچائے گا جب کہ وہ اس گمراہ کو دیکھ کر اسے اچھائی کی تلقین نہیں کریں گے اور برائی سے روکیں گے نہیں۔ اس صورت میں بہت جلد اللہ کا عذاب ارتکاب کرنے والوں اور انجان بننے والوں سب کو آ لے گا۔ یعنی برائی کرنے والوں پر بھی یہ عذاب آئے گا اور ان پر بھی جنھوں نے اس سے روکا نہ کیا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3470

 
 
Hadith   379   الحديث
الأهمية: ما سمعت عمر -رضي الله عنه- يقول لشيء قط: إني لأظنه كذا، إلا كان كما يظن


Tema:

میں نے جب بھی عمر رضی اللہ عنہ کو (کسی مسئلہ میں رائے دیتے ہوئے) یہ کہتے سنا کہ میرے خیال میں یہ ایسے ہے تو وہ بات ویسے ہی نکلتی جیسے آپ کا خیال ہوتا۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: ما سمعت عمر -رضي الله عنه- يقول لشيء قَطُّ: إني لأظنه كذا، إلا كان كما يظن.

ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: میں نے جب بھی عمر رضی اللہ عنہ کو (کسی مسئلہ میں رائے دیتے ہوئے) یہ کہتے سنا کہ میرے خیال میں یہ ایسے ہے تو وہ بات ویسے ہی نکلتی جیسے آپ کا خیال ہوتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة يرون عمر يحكم على أمور لا تكون ظاهرة واضحة لغيره من الناس، ثم لما تتضح تلك الأمور يظهر أنَّ حكم عمر عليها قبل ظهورها كان موافقا لما وقعت وظهرت في الواقع.
589;حابہ کا مشاہدہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ایسے امور میں رائے دیتے جو لوگوں کے لئے ظاہر اور واضح نہیں ہوتے تھے تاہم جب وہ واضح ہوتے تو پتہ چلتا کہ ان کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی عمر رضی اللہ عنہ جو رائے دے چکے ہیں وہ ظاہر ہونے والی حقیقیت کے بالکل موافق ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3473

 
 
Hadith   380   الحديث
الأهمية: لا تصاحب إلا مؤمنًا، ولا يأكل طعامك إلا تقيٌّ


Tema:

مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لاَ تُصَاحِب إِلاَّ مُؤْمِنًا، وَلاَ يَأْكُل طَعَامَكَ إِلاَّ تَقِي».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أن الواجب على المسلم ملازمة أهل الصلاح في كل أحواله، ففي الحديث الحث على صُحبة المؤمنين، وهذا ما يتطلب البعد عن مصاحبة الكفار والمنافقين؛ لأن مصاحبتهم مضرةٌ في الدين فالمراد بالمؤمن أي عدد من المؤمنين.
وأكَّد هذه الملازمة للصالحين بقوله: (ولا يأكل طعامك إلا تقي) أي: مُتورِّع يصرِف قوت الطعام إلى عبادة الله، والمعنى لا تطعم طعامك إلا تقيًّا، ويدخل في هذا أيضاً طعام الدعوة كالوليمة وغيرها، فينبغي أن يكون المدعو من أهل الإيمان والصلاح.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مستفاد ہے کہ مسلمان پر واجب ہے کہ تمام حالات میں نیکوکاروں کو لازم پکڑے، اس حدیث میں اہلِ ایمان کی صحبت اختیار کرنے پر ابھارا گیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ کفار اور منافقین سے دوری اختیار کی جائے، اس لیے کہ ان کی صحبت دین کے لیے نقصان دہ ہے۔ مومن سے مُراد اہلِ ایمان ہیں۔
”وَلا يَأْكُلْ طعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ“ کے جملے سے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید فرمائی یعنی متقی آدمی جو کھانے کو اللہ کی عبادت میں صرف کرے۔ مطلب یہ ہوا کہ اپنا کھانا صرف متقی شخص کو ہی کِھلاؤ، اس میں دعوتِ ولیمہ وغیرہ بھی شامل ہے۔ مناسب یہی ہے کہ دعوت میں مدعو مومن اور نیکوکار لوگ ہوں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3474

 
 
Hadith   381   الحديث
الأهمية: من يضمن لي ما بين لحييه وما بين رجليه أضمن له الجنة


Tema:

جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دیدے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «من يضمن لي ما بين لَحْيَيْهِ وما بين رجليه أضمن له الجنة».

سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دیدے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى أمرين يستطيع المسلم إذا ما التزم بهما أن يدخل الجنة التي وعد الله عباده المتقين، وهذان الأمران هما حفظ اللسان من التكلم بما يغضب الله -تعالى-، والأمر الثاني حفظ الفرج من الوقوع في الزنا.
606;بی ﷺ دو امور کی طرف راہ نمائی فرما رہے ہیں۔ اگر بندۂ مسلم ان کی پابندی کر لے، تو وہ اس جنت میں جا سکتا ہے، جس کا اللہ نے اپنے متقی بندوں سے وعدہ کیا ہے۔ پہلا: زبان کی ایسی باتوں سے حفاظت کرنا ہے، جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہیں اور دوسرا شرم گاہ کو زنا میں مبتلا ہونے سے بچانا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3475

 
 
Hadith   382   الحديث
الأهمية: كنت أغتسل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إناء واحد, كلانا جنب


Tema:

میں اور نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے، جب کہ ہم دونوں جنبی ہوتے۔

عن عَائِشَةَ -رضي الله عنها- قالت: ((كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- مِن إِنَاءٍ وَاحِدٍ, كِلاَنَا جُنُب، وكان يَأْمُرُنِي فَأَتَّزِرُ, فَيُبَاشِرُنِي وأنا حَائِض، وكان يُخْرِج رَأسَه إِلَيَّ, وهُو مُعْتَكِفٌ, فَأَغْسِلُهُ وأنا حَائِض)).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے، جب کہ ہم دونوں جنبی ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (ازار باندھ لینے کا)حکم فرماتے، پس میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ ﷺ میرے ساتھ مباشرت فرماتے، جب کہ اس وقت میں حائضہ ہوتی اور آپ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے اور میں حیض کی حالت میں ہونے کے باوجود آپ کا سر مبارک دھو دیتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- وزوجته عائشة -رضي الله عنها-، يغتسلان من الجنابة من إناء واحد، لأن الماء طاهر لا يضره غرف الجنب منه، إذا كان قد غسل يديه قبل إدخالهما في الإناء.
وقد أراد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يشرع لأمته في القرب من الحائض بعد أن كان اليهود لا يؤاكلونها، ولا يضاجعونها، فكان -صلى الله عليه وسلم- يأمر عائشة أن تتزر، فيباشرها بما دون الجماع، وهي حائض.
وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يعتكف فيخرج رأسه إلى عائشة وهي في بيتها وهو في المسجد فتغسله، فالقرب من الحائض لا مانع منه لمثل هذه الأعمال وقد شرع توسعة بعد حرج اليهود، ولكن الحائض لا تدخل المسجد، لئلا تلوثه، كما في هذا الحديث.
606;بی ﷺ اور آپ کی زوجۂ مطہرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت فرماتے، اس لیے کہ وہ پانی پاک ہے، جنبی کا چلو سے پانی لینا پانی کو نجس نہیں کرتا، جب کہ اس نے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل انھیں دھولیا ہو۔
اس عمل سے نبی ﷺ اپنی امت کے لیے اس امر کو مشروع وقرار دینا چاہتے تھے کہ حائضہ سے قربت اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ یہود حالت حیض میں اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ نہ تو اپنے دسترخوان پر شریک کرتے ہیں اور نہ انھیں اپنے بستروں پر سلاتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کو ازار باندھ لینے کا حکم فرماتے، پھر ان کےساتھ جماع کے بغیر مباشرت فرماتے، جب کہ وہ اس وقت حالت حیض میں ہوتیں۔ نبی ﷺ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر عائشہ رضی اللہ عنھا کی جانب فرماتے، جب کہ آپ مسجد میں اور وہ اپنے گھر میں ہوتیں اور آپ کے سر مبارک کو دھو دیتیں۔ اس سے پتہ چلا کہ اس طرح کے کاموں کے لیے حائضہ عورت سے قربت اختیار کرنے میں کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ یقینا آپ ﷺ نے یہودیوں کی مذہبی تنگی سے نجات دلاتے ہوئے وسعتیں پیدا فرمائیں، تاہم حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے اس لیے روک دیا گیا کہ کہیں یہ مسجد کی نجاست کا باعث نہ بن جائے، جیسا کہ اس حدیث سے یہ امر واضح ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3476

 
 
Hadith   383   الحديث
الأهمية: من وقاه الله شر ما بين لحييه، وشر ما بين رجليه دخل الجنة


Tema:

جسے اللہ تعالی نے اس کے دونوں جبڑوں کے مابین موجود شے اور اس کے دونوں پاؤں کے مابین موجود شے کے شر سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من وقاه الله شر ما بين لَحْيَيْهِ، وشر ما بين رجليه دخل الجنة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالی نے اس کے دونوں جبڑوں کے مابین موجود شے اور اس کے دونوں پاؤں کے مابین موجود شے کے شر سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من حفظه الله -عز وجل- من التكلم بما يغضب الله -تعالى-، ومن الوقوع في الزنا؛ فقد نجا ودخل الجنة.
580;سے اللہ نے ایسے گناہ سے محفوظ رکھا ہے جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے اور اسے زنا کرنے سے بھی بچائے رکھا۔ (سمجھو) وہ نجات پا گیا اور جنت میں داخل ہو گیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3477

 
 
Hadith   384   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يتكئ في حجري، فيقرأ القرآن وأنا حائض


Tema:

رسول اللہ ﷺ میری گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا کرتے تھے جب کہ میں حالت حیض میں ہوتی۔

عن عَائِشَة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَكِّئُ فِي حِجرِي، فَيَقرَأُ القرآن وأنا حَائِض».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا کرتے تھے جب کہ میں حالتِ حیض میں ہوتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يتكئ في حجرها، فيقرأ القرآن وهي حائض، مما يدل على أن بدن الحائض طاهر، لم ينجس بالحيض.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ وہ حالتِ حیض میں ہوتی تھیں اور نبی ﷺ ان کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حائضہ عورت کا جسم پاک ہوتا ہے، یہ حیض کے سبب نجس نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3478

 
 
Hadith   385   الحديث
الأهمية: إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزل بها إلى النار أبعد مما بين المشرق والمغرب


Tema:

بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اس میں غور وفکر نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّهُ سَمِعَ النَّبيَّ -صلّى اللهُ عليه وسَلَّم يقول-: «إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزلُّ بها إلى النار أبعدَ مما بين المشرق والمغرب».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اس میں غور وفکر نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا -صلى الله عليه وسلم- أن هناك من الناس من لا يفكر عند إرادته الكلام هل هذا الكلام الذي سيقوله خير أم لا؟.
والنتيجة تكون أن هذا المتكلم يقع بسبب عدم هذا التفكير في المحظور، ويعرض نفسه لعذاب الله في نار جهنم – عياذاً بالله- وربما يسقط في النار لمسافة هي أبعد مما بين المشرق والمغرب.
606;بی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کوئی آدمی جب گفتگو کرتا ہے تو بالکل بھی نہیں سوچتا کہ آیا یہ بات جو وہ کر رہا ہے اچھی ہے یا نہیں؟۔
اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی گفتگو کرنے والا اس عدمِ تفکیر کی وجہ سے کسی حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ کی صورت میں اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے۔ عیاذا باللہ۔ اور بعض اوقات تو وہ اتنی دور جہنم میں جا گرتا ہے جتنی مشرق و مغرب کے مابین مسافت ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3479

 
 
Hadith   386   الحديث
الأهمية: ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كان له من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره، ثم إنها تخلف من بعدهم خلوف يقولون ما لا يفعلون، ويفعلون ما لا يؤمرون


Tema:

مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کے ان کی امت میں سے حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جو وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ کام تھے جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا تھا

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ما من نبي بعثه الله في أُمَّةٍ قبلي إلا كان له من أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وأَصْحَابٌ يأخذون بسُنته ويَقْتَدُونَ بأَمره، ثم إنها تَخْلُفُ من بعدهم خُلُوفٌ يقولون ما لا يفعلون، ويفعلون ما لا يُؤْمَرُونَ، فمن جَاهَدَهُمْ بيده فهو مؤمن، ومن جَاهَدَهُمْ بقلبه فهو مؤمن، ومن جَاهَدَهُمْ بلسانه فهو مؤمن، وليس وَرَاءَ ذلك من الإيمان حَبّةُ خَرْدَلٍ».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کے ان کی امت میں سے حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جو وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ کام تھے جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، جو ان سے دل سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہےاور جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ما من نبي بعثه الله -تعالى- في أمة قبل النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا كان له من أمته خلصاء وأصفياء يصلحون للخلافة بعده، وأصحاب يأخذون بطريقه وشريعته، ويتأسون بأمره، ثم إنها تحدث من بعدهم خُلُوف يتشبعون بما لم يعطوا أي يظهرون أنهم بصفة من الصفات الحميدة وليسوا كذلك، ويفعلون خلاف المأمور به من المنكرات التي لم يأت بها الشرع، فمن جاهدهم بيده؛ إذا توقف إزالة المنكر عليه ولم يترتب عليه مفسدة أقوى منه فهو كامل الإيمان، ومن جاهدهم بلسانه بأن أنكر به واستعان بمن يدفعه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بقلبه، واستعان على إزالته بالله -سبحانه- فهو مؤمن، وليس وراء كراهة المنكر بالقلب من الإيمان شيء.
606;بی ﷺ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے، ان کی امّت میں کچھ ایسے مخلص و پاکیزہ لوگ ہوتے تھے، جو ان کے بعد خلافت کا بار اٹھانے کے لیے درست ہوتے اور کچھ ایسے ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت و طریقے کو اپناتے اور ان کے حکم کی بجا آوری کرتے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہو گئے، جو ایسی چیزوں کا اظہار کرتے، جو انھیں دی نہیں گئی ہوتیں؛ یعنی حمیدہ میں سے کسی وصف سے متصف ہونے کا دعوی تو کرتے، لیکن وہ اس سے عاری ہوتے۔ نیز خلاف مامور غیر شرعی منکرات کو بھی انجام دیتے۔ ایسے میں جو ان کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے؛ بشرطے کہ منکر کا ازالہ اسی پر موقوف ہو اور اس پر اس سے بڑے فتنے کا اندیشہ نہ ہو، تو وہ کامل مؤمن ہے۔ اور جو ان سے اپنی زبان کے ذریعے جہاد کرے، اس طرح کہ اس کا انکار کرے اور اس کے روکنے والے کی مدد کرے، وہ بھی مؤمن ہے اورجو ان سے اپنے دل سے جہاد کرے؛ اس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کے ازالے کی مدد کا خواہاں ہوں، وہ بھی مومن ہے اور دل سے منکر کو ناپسند کرنے کے ورے ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3480

 
 
Hadith   387   الحديث
الأهمية: إنه يستعمل عليكم أمراء فتعرفون وتنكرون، فمن كره فقد برئ، ومن أنكر فقد سلم، ولكن من رضي وتابع، قالوا: يا رسول الله، ألا نقاتلهم؟ قال: لا، ما أقاموا فيكم الصلاة


Tema:

تم پر (مستقبل میں) کچھ ایسے امیر مقرر کیے جائیں گے جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گےا ور کچھ برے۔ جس نے ان (کے برے کاموں ) کو ناگوار جانا وہ گناہ سے بری ہے اور جس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی وہ سلامت رہا۔ سوائے اس شخص کے جو (ان کے برے کاموں پر) راضی رہا اور اس نے ان کی پیروی کی (ایسا شخص انہی کی طرح ہلاکت میں پڑے گا)۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے قتال (مسلح لڑائی) نہ کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں (ایسا نہ کرنا) جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔

عن أم سلمة  هند بنت أبي أمية حذيفة -رضي الله عنها- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «إِنَّه يُسْتَعمل عَلَيكُم أُمَرَاء فَتَعْرِفُون وَتُنكِرُون، فَمَن كَرِه فَقَد بَرِئ، ومَن أَنْكَرَ فَقَد سَلِمَ، ولَكِن مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قالوا: يا رسول الله، أَلاَ نُقَاتِلُهُم؟ قال: «لا، ما أَقَامُوا فِيكُم الصَّلاَة».

ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ حذیفہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو، تم پر (مستقبل میں) کچھ ایسے امیر مقرر کیے جائیں گے جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گے اور کچھ برے۔ جس نے ان (کے برے کاموں ) کو ناگوار جانا وہ گناہ سے بری ہے اور جس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی وہ سلامت رہا۔ سوائے اس شخص کے جو (ان کے برے کاموں پر) راضی رہا اور اس نے ان کی پیروی کی (ایسا شخص انہی کی طرح ہلاکت میں پڑے گا)۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں (ایسا نہ کرنا) جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر -عليه الصلاة والسلام- أنه يولى علينا من قبل ولي الأمر أمراء، نعرف بعض أعمالهم؛ لموافقتها ما عرف من الشرع، وننكر بعضها؛ لمخالفته ذلك، فمن كره بقلبه المنكر ولم يقدر على الإنكار؛ لخوف سطوتهم فقد برىء من الإثم، ومن قدر على الإنكار باليد أو باللسان فأنكر عليهم ذلك فقد سلم، ولكن من رضي فعلهم بقلبه، وتابعهم في العمل به يهلك كما هلكوا.
ثم سألوا النبي -صلى الله عليه وسلم-: ألا نقاتلهم؟ قال: "لا، ما أقاموا فيكم الصلاة".
606;بی ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ عنقریب ہم پر حکمران کی طرف سے ایسے امراء مقرر کیے جائیں گے جن کے کچھ کام ہمیں پسند آئیں گے کیونکہ وہ شریعت کے موافق ہوں گے اور بعض کو ہم ناپسند کریں گے کیوں کہ وہ مخالفِ شریعت ہوں گے۔ جس نے اپنے دل میں برائی کو ناگوار جانا لیکن ان امراء کی پکڑ کے خوف سے ان کے خلاف آواز اٹھانے کی اس میں سَکَتْ نہ ہو تو وہ گناہ سے بری رہا اور جو ہاتھ یا زبان سے انھیں روکنے کی قدرت رکھتا ہو اور وہ انھیں اس سے روکے تو وہ سلامت رہا لیکن جو دل سے ان کے (بُرے) کام پر راضی ہو گیا اور اسے کرنے میں اس نے ان کی پیروی کی وہ انھیں کی طرح ہلاکت میں پڑے گا۔ پھر نبی ﷺ سے لوگوں نے دریافت فرمایا: کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں (ان سے قتال نہ کرو)، جب تک کہ وہ تم میں نماز کو قائم کرتے رہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3481

 
 
Hadith   388   الحديث
الأهمية: ذكرتُ شيئًا من تبر عندنا فكرهت أن يحبسني، فأمرت بقسمته


Tema:

ہمارے پاس موجود سونے کے ایک ٹکڑے کا خیال میرے ذہن میں آیا۔ مجھے یہ برا لگا کہ میری توجہ اس کی طرف لگی رہے۔ چنانچہ میں نے اسے بانٹ دینے کا حکم دےدیا۔

عن عقبة بن الحارث -رضي الله عنه- قال: صليت وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- بالمدينة العصر، فسَلَّمَ ثم قام مُسرعًا، فتَخَطَّى رِقَابَ الناس إلى بعض حُجَرِ نِسائه، فَفَزِعَ الناسُ من سُرْعَتِهِ، فخرج عليهم، فرأى أنهم قد عجبوا من سُرْعَتِهِ، قال: «ذكرت شيئاً من تِبْرٍ عندنا فكرهت أن يَحْبِسَنِي، فأمرتُ بِقِسْمَتِهِ».
وفي رواية: «كنت خَلَّفْتُ في البيت تِبْرًا من الصدقة، فكرهت أن أُبَيِّتَهُ».

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مدینے میں نبی ﷺ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ جلدی سے کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ آپ ﷺ کی جلدی کی وجہ سے لوگ گبھرا گئے۔ جب آپﷺ (حجرے سے) نکل کر ان کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ آپ ﷺ کی سے حیرت زدہ ہیں، تو فرمایا: ”ہمارے پاس موجود سونے کے ایک ٹکڑے کا خیال میرے ذہن میں آیا۔ مجھے یہ برا لگا کہ میری توجہ اس کی طرف لگی رہے۔ چنانچہ میں نے اسے بانٹ دینے کا حکم دے دیا“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”میں گھر میں صدقے کے مال سے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ رات میں اسے اپنے پاس رکھوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال عقبة بن الحارث -رضي الله عنه- أنه صلَّى مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات يوم صلاة العصر، فقام النبي -صلى الله عليه وسلم- حين انصرف من صلاته مسرعاً، يَتخَطَّي رقاب الناس متوجهاً إلى بعض حجرات زوجاته؛ فخاف الناس من ذلك، ثم خرج فرأى الناس قد عجبوا من ذلك؛ فبين لهم النبي -صلى الله عليه وسلم- سبب هذا، وأخبر أنه تذكر شيئًا من ذهب غير مضروب مما تجب قسمته، فكره أن يمنعه ويشغله التفكير فيه عن التوجه والإقبال على الله -تعالى-.
593;قبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک دن نبی ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ نبی ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو جلدی سے کھڑے ہو کر صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ اس کی وجہ سے لوگ گبھرا گئے۔ پھر جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ آپ ﷺ کے اس عمل سے حیرت میں مبتلا ہیں، تو اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو کچھ اَن ڈھلا سونا یاد آگیا تھا، جسے تقسیم کرنا ضروری تھا۔ آپ ﷺ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اسے اپنے پاس رکھے رہیں اور اس کی وجہ سے آپ ﷺ کی توجہ اور ذہن اللہ تعالی سے ہٹا رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3483

 
 
Hadith   389   الحديث
الأهمية: دخل عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- على النبي -صلى الله عليه وسلم- وأنا مسندته إلى صدري، ومع عبد الرحمن -رضي الله عنهما- سواك رطب يستن به فأبده رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بصره


Tema:

عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ ﷺ کو اپنےسینے کے ساتھ سہارا دے رکھا تھا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک لیے اسے کر رہے تھے۔ آپ ﷺ مسلسل مسواک کی طرف دیکھ رہے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ((دخل عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- على النبي -صلى الله عليه وسلم- وأنا مُسْنِدَتُه إلى صدري، ومع عبد الرحمن سِواك رَطْب يَسْتَنُّ به، فأَبَدَّه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بَصَره، فَأَخَذْتُ السِّوَاك فَقَضَمتُه، فَطَيَّبتُه، ثُمَّ دَفَعتُهُ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَنَّ به فما رأيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- استَنَّ اسْتِنَانًا أَحسَنَ منه، فَما عَدَا أن فَرَغَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: رَفَع يَدَه -أو إصبعه-، ثم قال: في الرفيق الأعلى -ثلاثا- ثمَّ قَضَى، وكَانت تقول: مَاتَ بَينَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي)).

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابى بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ ﷺ کو اپنےسینے کے ساتھ سہارا دے رکھا تھا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک لیے اسے کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے مسلسل مسواک کی طرف دیکھا، تو میں نے مسواک لے کر اسے دانتوں سے چبایا اور اچھی طرح سے قابل استعمال بنا کر نبی ﷺ کی طرف بڑھا دی۔ آپ ﷺ نے وہ مسواک جتنی اچھی طرح سے کی، اس طرح سے میں نے آپ ﷺ کو کبھی مسواک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھائی اور فرمایا۔ ”فی الرفیق الاعلیٰ“ (اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا)۔ آپ ﷺ نے ایسا تین دفعہ کہا اور پھر وفات پا گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو آپ ﷺ کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے مابین تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تذكر عائشة -رضي الله عنها- قصةً تبين لنا مدى محبة النبي -صلى الله عليه وسلم- للسواك وتعلقه به، وذلك أن عبد الرحمن بن أبى بكر -رضي الله عنه- -أخا عائشة- دخل على النبي -صلى الله عليه وسلم- في حال النزع ومعه سواك رطب، يدلك به أسنانه.
فلما رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- السواك مع عبد الرحمن، لم يشغله عنه ما هو فيه من المرض والنزع، من محبته له، فمدَّ إليه بصره، كالراغب فيه، ففطنت عائشة -رضي الله عنها- فأخذت السواك من أخيها، وقصت رأس السواك بأسنانها ونظفته وطيبته، ثم ناولته النبي -صلى الله عليه وسلم-، فاستاك به.
فما رأت عائشة تسوكًا أحسن من تسوكه.
فلما طهر وفرغ من التسوك، رفع إصبعه، يوحد الله -تعالى-، ويختار النقلة إلى ربه -تعالى-، ثم توفي -صلى الله عليه وسلم-.
فكانت عائشة -رضي الله عنها- مغتبطة، وحُق لها ذلك، بأنه -صلى الله عليه وسلم- توفي ورأسه على صدرها.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا ایک قصہ بیان کر رہی ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہےکہ نبی ﷺ مسواک سے کس قدر محبت کرتےتھے۔
عبد الرحمن بن ابى بکر رضی اللہ عنہ جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ آپ ﷺ حالت نزع میں تھے۔ ان کے پاس ایک تروتازہ مسواک تھی، جسے وہ اپنے دانتوں پر رگڑ رہے تھے۔
نبی ﷺ نے جب عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے پاس مسواک دیکھی، تو اپنی بیماری اور حالت نزع کے باوجود آپ ﷺ مسواک کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے، کیوںکہ آپ ﷺ کو یہ بہت پسند تھی۔ آپ ﷺ مسلسل اس کی طرف دیکھ رہے تھے، جیسے اسے استعمال کرنے کےخواہش مند ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھانپ کر اپنے بھائی سے مسواک لی، اپنے دانتوں سے اس کا سرا کاٹا اور صاف ستھری کر کے نبی ﷺ کو دے دیا اور آپ ﷺ نے اس سے مسواک کیا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو اس سے بہتر انداز میں مسواک کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
جب آپ ﷺ (دندان مبارک) صاف کر چکے اور مسواک سے فارغ ہوگئے، تو انگلی اٹھا کر اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور اپنے رب کےجوار کو اختیار کرتے ہوئے وفات پاگئے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ نبی ﷺ کی جب وفات ہوئی، تو آپ ﷺ کا سر مبارک ان کے سینے پرتھا اور ان کا اس بات پر فخر کرنا بجا بھی تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3484

 
 
Hadith   390   الحديث
الأهمية: أن رجلا سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد وضع رجله في الغرز: أي الجهاد أفضل؟ قال: كلمة حق عند سلطان جائر


Tema:

(بغرض سفر) نبی ﷺ کا پاؤں رکاب میں تھا کہ ایک شخص نے پوچھا کہ (یا رسول اللہ!) کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا“۔

عن طارق بن شهاب البجلي الأحمسي -رضي الله عنه- أنّ رجُلًا سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد وضَع رِجله في الغَرْزِ: أَيُّ الجهاد أفضل؟ قال: «كَلِمَةُ حَقًّ عِند سُلطَان جَائِرٍ».

طارق ابن شہاب بجلی احمسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (بغرضِ سفر) نبی ﷺ کا پاؤں رکاب میں تھا کہ ایک شخص نے پوچھا کہ (اے اللہ کے رسول ﷺ!) کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل رجل النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد تهيأ للسفر: أي الجهاد أكثر ثوابا؟ فأخبره النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أفضل الجهاد، وهو أن يأمر سلطانًا ظالمًا بالمعروف، أو أن ينهاه عن المنكر، فالجهاد ليس مقتصرًا على القتال للكفار، بل له مراتب، والمذكور أكثرها ثوابًا؛ لأنه مظنة القتل أو الحبس بسبب جور السلطان، ولقلة من يتصدى لذلك.
606;بی ﷺ سفر کے لیے تیار تھے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے سوال کیا: کس جہاد کا ثواب سب سے زیادہ ہے؟ نبی ﷺ نے اسے بتایا کہ افضل ترین جہاد یہ ہے کہ آدمی کسی ظالم بادشاہ کو نیکی کی تلقین کرے اور اسے برائی سے منع کرے۔ جہاد صرف کفار کےساتھ قتال تک محدود نہیں بلکہ اس کے کئی مراتب ہیں جن میں سے مذکورہ جہاد کا ثواب سب سے زیادہ ہے کیونکہ اس میں بادشاہ کے ظلم کی وجہ سے قتل یا قید ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اس قسم کا جہاد کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3485

 
 
Hadith   391   الحديث
الأهمية: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، إني أريد سفرًا، فزودني، فقال: زودك الله التقوى


Tema:

ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں سفر پر جانےکا ارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے کچھ زادِ راہ عنایت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ دے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، إني أريد سَفَرًا، فَزَوِّدْنِي، فقال: «زَوَّدَكَ الله التقوى» قال: زِدْنِي قال: «وَغَفَرَ ذَنْبَكَ» قال: زِدْنِي، قال: «ويَسَّرَ لك الخيَر حَيْثُمَا كنتَ».

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: "اے اللہ کے رسول ﷺ! میں سفر پر جانےکا ارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے کچھ زادِ راہ عنایت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ دے۔ اس شخص نے عرض کیا: کچھ مزید اضافہ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اور وہ تیرے گناہ معاف کرے۔ وہ کہنے لگا: کچھ مزید اضافہ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو جہاں بھی ہو اللہ تیرے لیے خیر کو آسان کر دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رجلًا جاء النبي -صلى الله عليه وسلم- يريد السفر، فجاء مستأذنًا للسفر طالبًا الزاد؛ فدعا له النبي -صلى الله عليه وسلم- دعاءً يكون نفعه كالزاد، أن يكون زاده امتثال الأوامر واجتناب النواهي.
ثم كرَّر طلب الزيادة؛ رجاء الخير وبركة الدعاء، فأجابه -صلى الله عليه وسلم- في طلبه الزيادة؛ تطييبا لقلبه، فقال: وغفر ذنبك.
ثم كرَّر طلب الزيادة رجاء الخير وبركة الدعاء؛ فما كان من المصطفى -صلى الله عليه وسلم- إلاَّ أن ختم له بخاتمة جميلة جامعة للبر والفلاح، فدعا له أن يسهَّل له خير الدارين في أي مكان حل، وفي أيِّ زمان نزل.
575;نس ابن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جو سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ آپ ﷺ سے سفر پر جانے کی اجازت لینے اور زادہِ راہ مانگنے آیا۔ آپ ﷺ نے اس کے حق میں ایسی دعا فرمائی جو اپنے نفع کے اعتبار سے زاد راہ کی طرح تھی اور وہ یہ کہ احکام کی انجام دہی اور ممنوعات سے پرہیز اس کا زادِ راہ ہو۔ دعا کی خیر و برکت کی چاہت میں اس نے اضافہ کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے اس کے اضافے کی درخواست کے جواب میں اس کی طیبِ خاطر کے لیے فرمایا: اور وہ تمہارے گناہ معاف کرے۔ دعا کی خیر و برکت کی چاہت میں اس نے دوبارہ اضافہ کے درخواست کی تو نبی ﷺ نے ایسے خوبصورت انداز میں دعا کا اختتام فرمایا جو تمام قسم کی نیکیوں اور کامیابیوں کو جامع ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی کہ ہر جگہ اور ہر وقت اللہ اس کے لیے دونوں جہانوں کی خیر کو آسان کر دے۔   --  [حَسَن غریب]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3492

 
 
Hadith   392   الحديث
الأهمية: إنَّ أبر البر صلة الرجل أهل وُدَّ أبيه


Tema:

باپ سے محبت کرنے والوں سے صلہ رحمی، بہت بڑی نیکی ہے

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأعرَاب لَقِيهَ بِطَريق مَكَّة، فَسَلَّم عَلَيه عَبد الله بنُ عمر، وَحمَلهُ على حمار كان يركَبُهُ، وَأعطَاه عِمَامَة كَانت على رأسه، قال ابن دينار: فقُلنا له: أَصْلَحَك الله، إنَّهم الأعراب وهُم يَرْضَون بِاليَسِير، فقال عبدُ الله بنَ عُمر: إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمر بنِ الخطَّاب -رضي الله عنه- وإنِّي سَمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ أَبَرَّ البِرِّ صِلَةُ الرَّجُل أَهْلَ وُدِّ أَبِيه».

وفي رواية عن ابن دينار، عن ابن عمر: أنَّه كان إذَا خَرَج إلى مكة كان له حمار يَتَرَوَّحُ عليه إذا ملَّ رُكُوبَ الرَّاحِلة، وَعِمَامة يَشُدُّ بها رأسه، فَبينَا هو يومًا على ذلك الحمار إِذْ مَرَّ بِهِ أَعْرَابِي، فقال: أَلَسْتَ فُلاَن بنَ فُلاَن؟ قال: بَلَى. فَأَعْطَاهُ الحِمَار، فقال: ارْكَب هَذَا، وَأَعْطَاهُ العِمَامَةَ وَقَالَ: اشْدُدْ بِهَا رَأْسَكَ، فَقَالَ لَهُ بَعض أصحَابِه: غفر الله لك أَعْطَيت هذا الأعرابي حمارا كنت تَرَوَّحُ عليه، وعِمَامَة كُنتَ تشدُّ بها رأسَك؟ فقال: إِنِّي سمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ مِنْ أَبَرِّ البِّر أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدَّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ» وَإِنَّ أَبَاه كان صَدِيقًا لِعُمَرَ -رضي الله عنه-.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مکہ کے کسی راستے میں ایک اعرابی ملا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کیا، اپنے گدھے پر سوار کیا، جس پر وہ خود سوار تھے اور اپنا عمامہ اتار کر پہنایا۔ ابن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے (عبداللہ بن عمر سے) کہا: اللہ خیر فرمائے! یہ بدو لوگ معمولی دی ہوئی چیز پر راضی ہو جاتے ہیں! تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے: ”سب سے بڑی نیکی آدمی کا اپنے باپ کے دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے“۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ابن دینار کی ایک روایت میں ہے کہ وہ جب مکے کی طرف روانہ ہوئے، تو ان کے پاس ایک گدھا تھا، جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے، تو اس پر آرام کرتے، پھر اونٹ پر سوار ہوجاتے اور ایک عمامہ تھا، جسے سر پرباندھتے تھے۔ ایک دن وہ اسی گدھے پر تھے کہ ان کے پاس سے ایک اعرابی گزرا، توانھوں نے اس سے کہا: تو فلاں بن فلاں ہے؟ اس نے کہا: ہاں! توانھوں نے اسے گدھا دے دیا اور اس سے کہا کہ اس پر سوار ہوجاؤ، پھر عمامہ دے دیا اور فرمایا: اسے اپنے سر پر باندھ لو۔ ان کے بعض احباب نے کہا: اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، اس بدو کو آپ نے گدھا دے دیا، جس پر آپ آرام فرماتے ہیں اور عمامہ بھی، جسے آپ اپنے سر پر باندھتے ہیں؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے، آپ فرما رہے تھے: ”سب سے بڑی نیکی آدمی کا اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے“۔ اس اعرابی کا باپ عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان  ابن عمر -رضي الله عنهما- إذا خرج إلى مكة حاجا يكون معه حمار يَتروَّح عليه إذا مل الركوب على الراحلة -أي البعير- فيستريح على هذا الحمار ثم يركب الراحلة.
وفي يوم من الأيام لقيه أعرابي فسأله ابن عمر: أنت فلان ابن فلان؟ قال: نعم، فنزل عن الحمار وقال: خذ هذا اركب عليه، وأعطاه عمامة كان قد شد بها رأسه، وقال لهذا الأعرابي: اشدد رأسك بهذا.
فقيل لعبد الله بن عمر: أصلحك الله أو غفر الله لك! إنهم الأعراب، والأعراب يرضون بدون ذلك، يعنون: كيف تنزل أنت عن الحمار تمشي على قدميك، وتعطيه عمامتك التي تشد بها رأسك، وهو أعرابي يرضى بأقل من ذلك.
فقال: «إِنَّ أَبَرَّ البِرِّ صِلَةُ الرَّجُل أَهْلَ وُدِّ أَبِيه»: يعني أن أبر البر إذا مات أبو الرجل أو أمه أو أحد من أقاربه أن تَبُرَّ أهل وُدِّهِ، يعني ليس صديقه فقط بل حتى أقارب صديقه.
وقوله:7و "إِنَّ أبا هذا كان صديقا لعمر" أي: لعمر بن الخطاب أبيه، فلما كان صديقا لأبيه؛ أكرمه برًّا بأبيه عمر -رضي الله عنه-.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے پاس ایک گدھا تھا۔ جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے، تو اس پر (کچھ دیر) آرام کرتے پھراونٹ پر سوار ہوجاتے۔
انہی ایام میں ایک دن ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تو فلاں بن فلاں ہے؟ اس نے کہا:ہاں! چنانچہ آپ اپنے گدھے سے اتر آئے اور اس سے کہا کہ تم اس پر سوار ہو جاؤ اور اپںے سر پر بندھا ہوا عمامہ اتار کر اس کو دے دیا اور اس سے کہا کہ اس کو اپنے سرپر باندھ لو۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اللہ آپ کا بھلا کرے یامغفرت فرمائے! یہ بدو لوگ ہیں اور بدو تو اس سے کم پر بھی راضی ہو جاتے ہیں!! لوگ یہ کہنا چاہتے تھے کہ آپ نے اپنا گدھا، جس پر آپ سوار ہوتے تھے اور عمامہ جسے سر پر باندھتے تھے، اسے دے کر پیدل چلنا کیسے گوارا کر لیا، جب کہ وہ ایک اعرابی ہے، اس سے کم پر بھی راضی ہوجاتا؟
تو انھوں نے فرمایا: ”سب سے بہتر نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے“۔ یعنی جب انسان کا باپ، ماں یا کوئی قریبی فوت ہو جائے تو، ان سے لگاؤ اور انسیت رکھنے والوں سے حسن سلوک کرے۔ یعنی صرف ان کے دوست کے ساتھ نہیں بلکہ اس دوست کے عزیز و اقارب کے ساتھ بھی۔
اس اعرابی کا باپ عمر کا رضی اللہ عنہ کادوست تھا۔ یعنی عبداللہ کے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا۔ اس لیے اپنے والد گرامی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نیک برتاؤ کے سلسلے کو دراز کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3493

 
 
Hadith   393   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، ما شأن الناس حَلُّوا من العمرة ولم تَحِلَّ أنت من عمرتك؟ فقال: إني لبدت رأسي، وقلدت هديي، فلا أَحِلُّ حتى أنحر


Tema:

يا رسول الله! لوگوں کو کیا ہوا کہ انھوں نے احرام کھول دیا ہے، حالاںکہ آپ نے ابھی تک اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا ہے؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوندھ رکھا ہے اور اپنی ہدی (قربانی کے جانور) کو قلادہ پہنا رکھا ہے۔ اس لیے میں اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا (احرام نہیں کھول سکتا) جب تک اپنی ہدی نحر نہ کر لوں۔

عن حَفْصَة زَوْج النَّبِي -رضي الله عنها- قالت: «يَا رَسُولَ اللَّه، مَا شَأن النَّاس حَلُّوا مِنَ العُمرَة، وَلَم تَحِلَّ أنت مِنْ عُمْرَتِكَ؟ فَقَال: إنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدتُ هَدْيِي، فَلا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ».

زوجہ رسول ﷺ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: يا رسول الله! لوگوں کو کیا ہوا کہ انھوں نے احرام کھول دیا ہے، حالاں کہ آپ نے ابھی تک اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولاہے؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوندھ رکھا ہے اور اپنی ہدی (قربانی کے جانور) کو قلادہ پہنا رکھا ہے۔ اس لیے میں اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا (احرام نہیں کھول سکتا)، جب تک اپنی ہدی نحر نہ کر لوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أحرم النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع بالعمرة والحج، وساق الهدي ولبد رأسه بما يمسكه عن الانتشار؛ لأن إحرامه سيطول، وأحرم بعض أصحابه كإحرامه، وبعضهم أحرم بالعمرة متمتعًا بها إلى الحج، وأكثرهم لم يسق الهدي، وبعضهم ساقه، فلما وصلوا إلى مكة وطافوا وسعوا أمر من لم يسق الهدي من المفردين والقارنين أن يفسخوا حجهم ويجعلوها عمرة ويتحللوا، أما هو -صلى الله عليه وسلم- ومن ساق الهدي منهم فبقوا على إحرامهم ولم يحلوا، فسألته زوجه حفصة -رضي الله عنها- لماذا حل الناس ولم تحل؟ قال: لأني لبدت رأسي، وقلدت هديي وسقته، وهذا مانع لي من التحلل حتى يبلغ الهدي محله، وهو يوم انقضاء الحج يوم النحر.
606;بی ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ اور حج کے لیے احرام باندھا، ہدی ساتھ لیا اورسر کے بالوں کو منتشر ہونے سے روکنے کے لیے چپکا لیا؛ کیوں کہ آپ کا احرام لمبا ہونا تھا۔ آپ ﷺ کے کچھ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ احرام باندھ لیا۔ ان میں سے بعض نے عمرہ کے لیے احرام باندھا؛ اس نیت کے ساتھ کہ وہ اسے کھول کر حج کے لیے نیا احرام باندھیں گے۔ اکثر صحابہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور نہیں لائے تھے۔ تاہم بعض ہدی کا جانور ہم راہ لائے تھے۔ جب وہ مکہ پہنچے اور طواف و سعی کرچکے، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو ہدی کے جانورساتھ نہیں لائے تھے اور حج افراد اور حج قران کی نیت سے آئے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو فسخ کرتے ہوئے اسے عمرہ بنا لیں اور احرام کھول لیں۔ تاہم خود نبی کریم ﷺ اور وہ لوگ جو اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے تھے، انھوں نے اپنا احرام باقی رکھا اور حلال نہ ہوئے۔ اس پر آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ لوگوں نے کیوں احرام کھول دیا ہے، حالاں کہ آپ نے احرام نہیں کھولا؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: کیوں کہ میں نے اپنے سر کو گوندھ رکھا ہے (یعنی کسی چپکانے والی شے سے بالوں کو جما رکھا ہے) اور اپنی ہدی کے جانور کو بھی قلادہ پہنا کر ساتھ لایا ہوں، اس وجہ سے میں احرام نہیں کھول سکتا، تاوقتے کہ ہدی اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ یعنی حج پورا ہونے کا دن جو کہ یوم النحر ہے آ جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3496

 
 
Hadith   394   الحديث
الأهمية: قالت أم أنس له: لا تخبرن بسر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أحدًا، قال أنس: والله لو حدثت به أحدًا لحدثتك به يا ثابت


Tema:

انس رضی اللہ عنہ کی والدہ نے ان سے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا راز ہر گز کسی کو نہ بتانا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم اے ثابت! اگر میں وہ راز کسی کو بتانے والا ہوتا تو تمھیں بتادیتا۔

عن ثابت عن أنس -رضي الله عنه- قال: أتى عَلَيَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنا أَلْعَبُ مع الغِلْمَانِ، فَسَلَّمَ علينا، فبعثني إلى حاجة، فأَبْطَأْتُ على أمي، فلما جِئْتُ، قالت: ما حَبَسَكَ؟ فقلت: بعثني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لحاجة، قالت: ما حاجتُه؟ قلت: إنها سِرٌّ، قالت: لا تُخْبِرَنَّ بِسِرِّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أحدًا، قال أنس: والله لو حَدَّثْتُ به أحدًا لحَدَّثْتُكَ به يا ثابت.

ثابت رحمہ اللہ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سلام کیا اور مجھے ایک ضروری کام سے بھیجا۔ مجھے اپنی والدہ کے پاس آنے میں دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو میری والدہ نے پوچھا: کس وجہ سے تم نے آنے میں دیر کردی؟ میں نے جواب دیا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ آپ ﷺ کا ضروری کام کیا تھا؟ میں نے کہا: یہ ایک راز ہے۔ اس پر انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا راز ہر گز کسی کو نہ بتانا۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اے ثابت! اگر میں یہ راز کسی کو بتانے والا ہوتا تو تمھیں ضرور بتادیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن ثابت عن أنس خادم رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- مر به وهو يلعب مع الصبيان؛ لأن أنسًا كان صبيًّا صغيرًا، فسلم على الصبيان وهم يلعبون، ثم دعا أنس بن مالك -رضي الله عنه- وأرسله في حاجة، فتأخر على أمه، فلما جاء إليها سألته: ما الذي أبطأ بك؟ قال: أرسلني النبي -صلى الله عليه وسلم- في حاجة، قالت: ما حاجته؟ قال: ما كنت لأخبر بسر رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، يعني لا أخبر بهذا السر أحدا، فقالت: لا تخبرن أحدا بسر رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؛ تأييدًا له وتثبيتًا له وإقامةً للعذر له؛ لأنه أبى أن يخبرها بسر رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم قال أنس لتلميذه ثابت البناني وكان ملازمًا له: لو كنت مخبرًا أحدًا بالحاجة التي أرسلني النبي -صلى الله عليه وسلم- بها  لأخبرتك بها.
579;ابت رحمہ اللہ، خادمِ رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ان کے پاس سے گزر ہوا جب کہ وہ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے تھے۔ آپ ﷺ نے کھیلنے والے ان بچوں کو سلام کیا اور پھر انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کو بلا کر انھیں کسی ضروری کام کےلیے بھیج دیا۔ انھیں اپنی والدہ کے پاس آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ جب وہ اپنی والدہ کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا: تمہیں کس وجہ سے دیر ہو گئی؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے نبی ﷺ نے کسی ضروری کام پر بھیج دیا تھا۔ وہ پوچھنے لگیں کہ آپ ﷺ کا وہ ضروری کام کیا تھا ؟ انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا راز کسی کو نہیں بتا سکتا۔یعنی میں کسی کو بھی اس راز کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔ اس پر ان کی والدہ نے ان کی تایید، انھیں ان کی بات پر ثابت قدم رہنے اور ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئےکہا کہ: رسول اللہ ﷺکا راز ہرگز بھی کسی کو نہ بتانا۔ کیوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو رسول اللہ ﷺ کا راز بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر انس رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد ثابت البنانی رحمہ اللہ سے فرمایا جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے کہ نبی ﷺ نے مجھے جس ضروری کام سے بھیجا تھا اس کے بارے میں اگر میں کسی کو بتاتا تو وہ تم ہوتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3502

 
 
Hadith   395   الحديث
الأهمية: أعطيت خمسًا, لم يعطهن أحد من الأنبياء قبلي: نصرت بالرعب مسيرة شهر, وجعلت لي الأرض مسجدًا وطهورًا


Tema:

مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں؛ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، تمام زمین میرے لیے مسجد اور حصولِ پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- أنّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- قال: «أُعْطِيتُ خمسا, لم يُعْطَهُنَّ أحد من الأنبياء قبلي: نُصِرْتُ بالرعب مسيرة شهر, وجُعِلَت لي الأرض مسجدا وطَهُورا, فأَيَّمَا رجل من أمتي أدركته الصلاة فَلْيُصَلِّ, وأُحِلَّت لي المغانم, ولم تحلَّ لأحد قبلي, وأُعْطِيتُ الشفاعة، وكان النبي يُبْعَثُ إلى قومه خاصة, وبُعِثتُ إلى الناس عامَة».

جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، تمام زمین میرے لیے مسجد اور حصولِ پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی۔ چنانچہ میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو (جہاں بھی) پالے، اسے وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کر دیا گیا۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور نبی صرف اپنی ہی قوم کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے، لیکن مجھے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خَصَّ الله -تعالى- نبيَّنا -صلى الله عليه وسلم- عن سائر الأنبياء بخصال شَرَف، ومُيّزَ بمحامد لم تكن لمن قبله من الأنبياء -عليهم السلام-، فنالَ هذه الأمة المحمدية -ببركة هذا النبي الكريم الميمون- شيء من هذه الفضائل والمكارم.
فمن ذلك: ما ثبت في هذا الحديث من هذه الخصال الخمس الكريمة:
أولها: أن الله سبحانه تعالى نصره، وأيده على أعدائه، بالرعب، الذي يحل بأعدائه، فيضعفهم ويفرق صفوفهم، ولو كان النبي صلى الله عليه وسلم على مسيرة شهر منهم، تأييداً من الله ونصراً لنبيه وخذلانا وهزيمة لأعداء دينه، ولا شك أنها إعانة كبيرة من الله تعالى.
ثانيها: أن الله سبحانه تعالى وسّع على هذا النبي الكريم، وأمته المرحومة بأن جعل لها الأرض مسجداً، فأينما تدركهم الصلاة فليصلوا، فلا تتقيد بأمكنة مخصوصة، كما كان من قبلهم لا يؤدون عباداتهم إلا في الكنائس، أو البِيَع، وهكذا فإن الله رفع الحرج والضيق عن هذه الأمة، فضلا منه وإحسانا، وكرما وامتنانا.
وكذاك كان من قبل هذه الأمة، لا يطهرهم إلا الماء، وهذه الأمة جعل التراب لمن لم يجد الماء طهورا، ومثله العاجز عن استعماله لضرره.
ثالثها: أن الغنائم التي تؤخذ من الكفار والمقاتلين حلال للنبي صلى الله عليه وسلم وأمته، يقتسمونها على ما بين الله تعالى، بعد أن كانت محرمة على الأنبياء السابقين وأممهم، حيث كانوا يجمعونها، فإن قبل الله عملهم نزلت عليها نار من السماء فأحرقتها.
رابعها: أن الله سبحانه وتعالى، خصه بالمقام المحمود، والشفاعة العظمى، يوم يتأخر عنها أولو العزم من الرسل في عرصات القيامة، فيقول: أنا لها، ويسجد تحت العرش، ويمجد الله تعالى بما هو أهله، فيقال: اشفع تُشفع، وسل تعطَه، حينئذ يسأل الله الشفاعة للخلائق بالفصل بينهم في هذا المقام الطويل، فهذا هو المَقام المحمود الذي يغبطه عليه الأولون والآخرون.
خامسها: أن كل نبي من الأنبياء السابقين تختص دعوتهم بقومهم.
وقد جعل اللهْ تعالى هذه الشريعة صالحة لكل زمان ومكان، ولما كانت بهذه الصلاحية والكمال، كانت هي الأخيرة،، لأنها لا تحتاج إلى زيادة ولا فيها نقص، وجعلت شاملة، لما فيها من عناصر البقاء والخلود.
575;للہ تعالی نے تمام انبیاء میں ہمارے نبی ﷺ کو بطور خاص کچھ اعزازی خصوصیات سے نوازا اور آپ ﷺ کو ایسی امتیازی خوبیاں عطا کی گئیں، جو آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیا کو حاصل نہیں ہوئیں۔ چنانچہ اس امت محمدیہ کو بھی نبی کریم ﷺ کی با برکت ذات کے طفیل ان فضائل و مکارم میں سے کچھ حصہ مل گیا۔
ان خصائل میں سے پانچ وہ جلیل القدرخصلتیں ہیں، جن کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے۔
اول: اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی ﷺ کی نصرت کی اور آپ ﷺ کے دشمنوں کے مقابلے میں رعب کے ذریعے آپ کی مدد کی، جو آپ ﷺ کے دشمنوں پر طاری ہو کر انھیں کمزور اور ان کی صفوں کو منتشر کر دیتا، اگرچہ آپ ﷺ ان سے ایک ماہ کی مسافت پر ہوتے۔ ایسا اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کی مدد و نصرت اور اللہ کے دین کے دشمنوں کو رسوا ئی اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی مدد تھی۔
دوم: اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لیے کشادگی فرما دی کہ ساری زمین کو اس امت کے لیے مسجد قرار دے دیا۔ چنانچہ ان کے لیے جائز ہے کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے، وہیں نماز ادا کر لیں۔ نماز کی ادائیگی کے لیے کچھ مخصوص جگہیں ضروری نہیں ہیں، جیسا کہ ان سے پہلے کی امتوں کے لیے تھا کہ وہ صرف اپنے کلیساؤں یا گرجا گھرو ں میں ہی عبادت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس طرح اللہ تعالی نے اپنے فضل و احسان کے ساتھ اس امت سے دشواری اور تنگی کو دور کر دیا۔
اسی طرح اس امت سے پہلے کی امتوں کے لوگوں کے لیے صرف پانی ہی حصولِ طہارت کا ذریعہ تھا۔ جب کہ اس امت میں سے جسے پانی دستیاب نہ ہو، اس کے لیے مٹی کو حصولِ طہارت کا ذریعہ قرار دے دیا گیا۔ اگر ضرر پہنچنے کے اندیشے کی وجہ سے کوئی پانی کے استعمال سے قاصر ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
سوم : مال غنیمت، جو کفار اور جنگ جؤوں سے حاصل ہوتا ہے، وہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لیے حلال ہے۔ وہ اسے اس طرح تقسیم کریں گے جس طرح اللہ نے بیان فرمایا ہے۔ جب کہ یہ سابقہ انبیا اور ان کی امتوں کے لیے حرام تھا۔ وہ لوگ اموال غنیمت کو جمع کرتے اور اگر اللہ ان کا عمل قبول کرلیتا، تو آسمان سے ان پر آگ نازل ہو کر انھیں جلا ڈالتی۔
چہارم: اللہ سبحانہ و تعالی نے خاص طور پر نبی ﷺ کو مقام محمود اور روزِ قیامت میدانِ حشر میں شفاعت عظمی عطا کی، جب کہ اولو العزم رسول بھی اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اس موقع پر آپ ﷺ فرمائیں گے کہ میں یہ شفاعت کروں گا اور پھر آپ ﷺ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر اللہ کے شایان شان اس کی بزرگی بیان کریں گے۔ اس پر کہا جائے گا کہ شفاعت کرو، تمھاری شفاعت قبول کی جائےگی۔ مانگو، تمھیں دیا جائے گا۔ اس وقت نبی ﷺ اللہ تعالی سے تمام مخلوق کے لیے شفاعت کریں گے کہ وہ اس طویل مقام میں ان کے مابین فیصلہ کر دے۔ یہی وہ مقام ِمحمود ہے، جس پر پہلے اور بعد والے رشک کرتے ہیں۔
پنجم: سابقہ انبیا میں سے ہر نبی کی دعوت اس کی اپنی قوم کے ساتھ خاص تھی۔
اللہ تعالی نے اس شریعت کو ہر وقت اور ہر جگہ کے لیے موزوں بنایا ہے۔ اس موزونیت اور کمال کی وجہ سے یہی آخری شریعت ٹھہری؛ کیوںکہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کو ئی نقص پایا جاتا ہے۔ اپنے اندر پائے جانے والے بقا اور ہمیشگی کے عناصر کی وجہ سے یہ ایک جامع شریعت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3503

 
 
Hadith   396   الحديث
الأهمية: من قال -يعني: إذا خرج من بيته-: بسم الله توكلت على الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، يقال له: هديت وكفيت ووقيت، وتنحى عنه الشيطان


Tema:

جو شخص اپنے گھر سے نکلتے ہوئے یہ کہے: ”بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله“ تو (اس وقت) اس سے کہا جاتا ہے تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی اور تو بچا لیا گیا اور (یہ سن کر) شیطان اس سے پرے ہٹ جاتا ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعًا: «من قال -يعني: إذا خَرج من بَيتِه-: بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله، يُقَال له: هُدِيتَ وَكُفِيتَ وَوُقِيتَ، وَتَنَحَّى عَنه الشَّيطَان».
زاد أبو داود: «فيقول -يعني: الشيطان- لِشَيطان آخر: كَيف لَك بِرَجلٍ قَد هُدِيَ وكُفِيَ ووُقِيَ؟».

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے گھر سے نکلتے ہوئے یہ کہے: ”بِسم الله تَوَكَّلتُ على اللهِ، وَلاَ حول ولا قُوَّة إِلَّا بالله“ تو (اس وقت) اس سے کہا جاتا ہے: تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کر دی گئی اور تو بچا لیا گیا اور (یہ سن کر) شیطان اس سے پرے ہٹ جاتا ہے۔
ابو داود کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:”اس پر ایک شیطان دوسرے سے کہتا ہے :اس آدمی پر تمہارا بس کیسے چلےگا جسے ہدایت دےدی گئی، جس کی طرف سے کفایت کر دی گئی اور جسے بچا لیا گیا؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن الرجل  إذا خرج من بيته فقال: باسم الله، توكلت على الله، لا حول ولا قوة إلا بالله، يناديه ملك يا عبد الله هديت إلى طريق الحق، وكفيت همك، وحفظت من الأعداء؛ فيبتعد عنه الشيطان الموكل عليه، فيقول شيطان آخر لهذا الشيطان: كيف لك بإضلال رجل قد هدي، وكفي، ووقي من الشياطين أجمعين؟ لأنه قال هذه الكلمات فإنك لا تقدر عليه.
585;سول اللہ ﷺ نےبتایا کہ جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلتے ہوئے یہ کہتا ہے: ”باسم اللهِ، توَکَّلْتُ على اللهِ، لا حولَ ولا قوَّةَ إلا بالله“ تو ایک فرشتہ اسے پکار کر کہتا ہے: اے اللہ کے بندے!تجھے راہِ حق کی طرف ہدایت مل گئی، تیری پریشانی کا بار اٹھا لیا گیا اور تجھے دشمنوں سے محفوظ کر دیا گیا۔ ایسا کہنے پر اس پر متعین شیطان دور ہٹ جاتا ہے اور ایک دوسرا شیطان اس شیطان سے کہتا ہے: تم اس آدمی کو گمراہ کیسے کر سکتے ہو جسے ہدایت دے دی گئی، جس کی طرف سے اس کا بوجھ اٹھا لیا گیا اور اسے تمام شیطانوں سے بچا لیا گیا؟ چوں کہ اس نے یہ الفاظ کہہ دیے ہیں اس لیے اب تمہارا اس پر زور نہیں چلے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3504

 
 
Hadith   397   الحديث
الأهمية: من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها، وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها، ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء


Tema:

جو شخص اسلام میں کوئي اچھا طریقہ جاری کرے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا۔ جب کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی اور جو اسلام میں کوئی بُرا طریقہ جاری کرے گا، تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر گناہ ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی۔

عن جرير بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: كُنَّا في صَدرِ النَّهَار عِند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَجَاءه قَومٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَار أَو العَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوف، عَامَّتُهُم مِن مُضَر بَل كُلُّهُم مِن مُضَر، فَتَمَعَّر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لِمَا رَأَى بِهِم مِنَ الفَاقَة، فدَخَل ثُمَّ خَرج، فأَمَر بِلاَلاً فَأَذَّن وَأَقَام، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَب، فقال: «(يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة) إلى آخر (إن الله كان عليكم رقيبًا) ، والآية الأخرى التي في آخر الحشر: (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد) تَصَدَّق رَجُلٌ مِن دِينَارِهِ، مِن دِرهَمِهِ، مِن ثَوبِهِ، مِن صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمرِهِ -حتَّى قال- وَلَو بِشِقِّ تَمرَة» فَجَاء رَجُلٌ مِنَ الأَنصَار بِصُرَّةٍ كَادَت كَفُّهُ تَعجَزُ عَنْهَا، بل قَد عَجَزَت، ثُمَّ تَتَابَع النَّاسُ حَتَّى رَأَيتُ كَومَين مِن طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيتُ وَجهَ رَسُول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَهَلَّلُ كَأَنَّه مُذْهَبَة.ٌ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ سَنَّ فِي الإِسلاَم سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أَنْ يَنْقُصَ مِن أُجُورِهِم شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسلاَم سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيه وِزْرُهَا، وَوِزرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بعدِه، من غير أن ينقُص مِن أَوزَارِهَم شيء».

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم دن کے آغاز میں رسولﷺکے پاس تھے کہ آپﷺکے پاس کچھ ایسے لوگ آئے، جو ننگے بدن تھے، وہ اون کی دھاری دار چادریں یا کمبل ڈالے ہوئے اور گردنوں میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کی اکثریت مضر قبیلے سے بلکہ سارے ہی مضر سے تھے۔ جب رسول اللہﷺنے ان کی فاقہ زدگی کا مشاہدہ فرمایا، تو آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ آپ (گھر) کے اندر تشریف لے گئے اور باہر آگئے۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان دی، (پھر جب لوگ نماز کے لیے جمع ہوگئے تو) تکبیر کہی اور آپﷺنے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو، جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا فرمایا) یہاں سے (یقینا اللہ تمھاری خبر نگہبانی کرنے والا ہے۔)تک۔ (سورۂ نساء:
۱)   اس کے بعد سورۂ حشر کی آخری آیت پڑھی۔( اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر نفس کو چاہیے کہ اس نے کل(قیامت) کے لیے جو آگے بھیجا ہے، اسے دیکھے)۔ ( اس کےبعد آپ نے صدقہ و خیرات کی ترغیب دی) فرمایا: ہر آدمی کو چاہیے کہ صدقہ کرے؛ دینار و درہم کا ، کپڑے کا، گندم کے صاع کا ، کھجور کے صاع کا، حتی کہ فرمایا گرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لے کر آیا، (جو اتنی بھاری تھی کہ) اس کی ہتھیلی اس کو اٹھانے سے عاجز آر ہی تھی؛ بلکہ عاجز ہو چکی تھی۔ پھر لوگ ( لے لے کر ) پے در پے آتے رہے، یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے؛ ایک کھانے کے سامان کا اور دوسرا کپڑوں کا۔ تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺکا چہرۂ انور اس طرح چمک رہا تھا، گو یا سونے کا ٹکڑا ہو۔ پھر رسول اللہﷺنے فرمایا: "جو شخص اسلام میں کوئي اچھا طریقہ جاری کرے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا۔ جب کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی اور جو اسلام میں کوئی بُرا طریقہ جاری کرے گا، اس پر اس کا گناہ ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر گناہ ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی۔

581;ديث جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- حديث عظيم يتبين منه حرص النبي -صلى الله عليه وسلم- وشفقته على أمته -صلوات الله وسلامه عليه-، فبينما هم مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في أول النهار إذا جاء قوم عامتهم من مضر، أو كلهم من مضر مجتابي النمار، متقلدي السيوف -رضي الله عنهم-، يعني أن الإنسان ليس عليه إلا ثوبه قد اجتباه يستر به عورته، وقد ربطه على رقبته، ومعهم السيوف؛ استعداداً لما يؤمرون به من الجهاد -رضي الله عنهم-.
فتغيَّر وجه النبي -صلى الله عليه وسلم- وتلون؛ لما رأى فيهم من الحاجة، وهم من مضر، من أشرف قبائل العرب، وقد بلغت بهم الحاجة إلى هذا الحال، ثم دخل بيته -عليه الصلاة والسلام-، ثم خرج، ثم أمر بلالاً فأذن، ثم صلى، ثم خطب الناس -عليه الصلاة والسلام-، فحمد الله -صلى الله عليه وسلم- كما هي عادته، ثم قرأ قول الله -تعالى-: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً) ، وقوله -تعالى-: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ).
ثم حث على الصدقة، فقال: (تصدق رجل بديناره، وتصدق بدرهمه، تصدق بثوبه، تصدق بصاع بره، تصدق بصاع تمره، حتى ذكر ولو شق تمرة) وكان الصحابة -رضي الله عنهم- أحرص الناس على الخير، وأسرعهم إليه، وأشدهم مسابقة، فخرجوا إلى بيوتهم فجاءوا بالصدقات، حتى جاء رجل بصرة معه في يده كادت تعجز يده عن حملها، بل قد عجزت من فضة ثم وضعها بين يدي الرسول -عليه الصلاة والسلام-.
ثم رأى جرير كومين من الطعام والثياب وغيرها قد جُمِع في المسجد، فصار وجه النبي -عليه الصلاة والسلام- بعد أن تغيَّر يتهلل كأنه مذهبة؛ يعني من شدة بريقه ولمعانه وسروره -عليه الصلاة والسلام- لما حصل من هذه المسابقة التي فيها سد حاجة هؤلاء الفقراء، ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: (من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها، وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها من غير أن ينقص من أوزارهم شيء).
والمراد بالسنة في قوله -صلى الله عليه وسلم-: (من سن في الإسلام سنة حسنة) ابتدأ العمل بسنة، وليس من أحدث؛ لأن من أحدث في الإسلام ما ليس منه فهو رد وليس بحسن، لكن المراد بمن سنها، أي: صار أول من عمل بها، كهذا الرجل الذي جاء بالصرة -رضي الله عنه-.
580;ریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بہت عظیم حدیث ہے، جس سے نبیﷺکی اپنی امت پر شفقت اور مہربانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام دن کے ابتدائی حصے میں نبیﷺکے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے، جن میں سے اکثر یا سب کے سب مضر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے دھاری دار چادریں لپیٹ رکھی تھیں اور اپنی تلواریں لٹکائی ہوئے تھے۔ یعنی ہر انسان کے بدن پر ایک کپڑا تھا، جسے اس نے اپنا ستر چھپانے کے لیے لپیٹ رکھا تھا اور اپنی گردن پر باندھا ہوا تھا۔ ان کے پاس حکم کی بجا آوری کے لیے تلواریں تھیں۔ رضی اللہ عنہم۔
ان کی یہ حالت زار دیکھ کر نبیﷺ کا چہرۂ انور متغیر ہو گیا اور اس کا رنگ بدل گیا۔ یہ لوگ مضر قبیلے سے تھے جو عرب کے معزز ترین قبائل میں سے تھا۔ حاجت مندی کی وجہ سے ان کا یہ حال ہو گیا تھا۔ آپ ﷺ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور پھر باہر تشریف لائے۔ پھر آپ ﷺنے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کو کہا۔ لوگوں کو نماز پڑھائی اور پھر انھیں خطبہ دیا۔ آپ ﷺنے اپنی عادت کے مطابق اللہ تعالی کی حمد بیان کی اور پھر اللہ تعالی کا یہ فرمان تلاوت کیا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً﴾ (النساء:1) ترجمہ: ”اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ اس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتے داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو۔ بے شک الله تم پر نگرانی کر رہا ہے“۔
اور اللہ تعالی کے اس فرمان کو بھی پڑھا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (الحشر: 18)ترجمہ: ”اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور الله سے ڈرو؛ کیوں کہ الله تمھارے کاموں سے خبردار ہے“۔
پھر آپ ﷺ نے صدقہ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: ”ہر آدمی کو چاہیے کہ صدقہ کرے؛ دینار و درہم کا ، کپڑے کا ، گندم کے صاع کا ، کھجور کے صاع کا ، حتی کہ فرمایا گو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو“۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خیر کے کاموں پر بہت زیادہ حریص تھے اور بہت تیزی کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنا اپنا گھر گئے اور صدقے کا سامان لے کر آئے۔ یہاں تک کہ ایک شخص درہموں سے بھرا ایک تھیلا لے کر آیا، جسے اٹھانے میں اسے بہت مشکل ہو رہی تھی، بلکہ وہ اس سے اٹھ ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے اسے نبی ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔
راوی حدیث نے کھانے اور کپڑوں وغیرہ کے دو بڑے ڈھیر دیکھے، جو مسجد میں جمع تھے۔ نبیﷺ کا چہرۂ انور جو پہلے متغیر ہو چکا تھا، اب ایسے چمک رہا تھا، جیسے سونا ہو۔ ان فقرا کی حاجت پوری کرنے کے لیے جیسے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اس پرخوشی کی وجہ سے آپ ﷺ کے چہرے پر چمک اور روشنی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اسلام میں کوئي اچھا طریقہ جاری کرے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا۔ جب کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی اور جو اسلام میں کوئی بُرا طریقہ جاری کرے گا، تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے برابر گناہ ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاۓ گی“۔
نبی ﷺ کے فرمان: (مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً) میں سنت سے مراد یہ ہے کہ جس نے کسی سنت پر عمل کا آغاز کیا۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ جس نے کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا، کیوں کہ جس نے اسلام میں کوئی نئی شے ایجاد کی، وہ مردود ہوتی ہے نہ کہ اچھی۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جس نے سب سے پہلے عمل کا آغاز کیا، جیسے اس آدمی نے کیا تھا، جو تھیلا لے کر آیا تھا۔ رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جب توفیق ملتی ہے، تو وہ اسلام میں کسی سنت کو فروغ دیتا ہے، چاہے اس میں پہل کرکے ہو یا اسے زندہ کرکے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3506

 
 
Hadith   398   الحديث
الأهمية: إن الشيطان يستحل الطعام أن لا يذكر اسم الله تعالى عليه، وإنه جاء بهذه الجارية؛ ليستحل بها، فأخذت بيدها، فجاء بهذا الأعرابي؛ ليستحل به، فأخذت بيده، والذي نفسي بيده، إن يده في يدي مع يديهما


Tema:

شیطان اپنے لیے ایسے کھانے کو حلال کرلیتا ہے کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے چنانچہ شیطان اس لڑکی کو لایا تاکہ وہ اپنے لیے کھانا حلال کرے تو میں نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ لیا پھر وہ شیطان اس دیہاتی آدمی کو لایا تاکہ وہ اس کے ذریعہ سے اپنا کھانا حلال کرلے تو میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: كُنَّا إِذَا حَضَرنَا مَعَ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- طَعَامًا، لَم نَضَع أَيدِينَا حَتَّى يَبدَأ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَيَضَع يَدَهُ، وَإِنَّا حَضَرنَا مَعَه مَرَّةً طَعَامًا، فَجَاءَت جَارِيَةٌ كَأَنَّها تُدفَعُ، فَذَهَبَت لِتَضَعَ يَدَهَا فِي الطَّعَام، فَأَخَذَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِيَدِهَا، ثُمَّ جاء أعرابي كأَنَّمَا َيُدْفَع، فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فقال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إِنَّ الشَّيطَانَ يَستَحِلُّ الطَّعَامَ أَن لاَ يُذْكَرَ اسمُ الله -تَعَالَى- عَلَيه، وَإِنَّهُ جَاءَ بِهَذِهِ الجَّارِيَة؛ لِيَستَحِلَّ بِهَا، فَأَخَذتُ بِيَدِهَا؛ فَجَاءَ بِهَذَا الأَعرَابِي؛ لِيَسْتَحِلَّ بِهِ، فَأَخَذتُ بِيَدِهِ، والَّذِي نَفسِي بِيَدِهِ، إِنَّ يَدَهُ فِي يَدِي مَعَ يَديهِمَا»، ثُمَّ ذَكَر اسمَ الله -تعَالى- وَأَكَلَ.

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے تو ہم اپنے ہاتھوں کو (کھانے میں) اس وقت تک نہیں ڈالتے تھے جب تک کہ رسول اللہ ﷺ شروع نہ کردیتے اور اپنا ہاتھ مبارک نہ ڈال دیتے۔ ایک مرتبہ ہم آپ ﷺ سے ساتھ کھانا کھانے میں موجود تھے کہ اچانک ایک لڑکی آئی گویا کہ اسے کوئی ہانک رہا ہے وہ اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر ایک دیہاتی آدمی دوڑتا ہوا آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی کا بھی ہاتھ پکڑ لیا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شیطان اپنے لیے ایسے کھانے کو حلال کرلیتا ہے کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے چنانچہ شیطان اس لڑکی کو لایا تاکہ وہ اپنے لیے کھانا حلال کرے تو میں نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ لیا پھر وہ شیطان اس دیہاتی آدمی کو لایا تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنا کھانا حلال کرلے تو میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور کھانا کھایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما-: "كنا إذا حضرنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- طعامًا لم نضع أيدينا حتى يبدأ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فيضع يده"؛ وذلك لكمال احترامهم للنبي -صلى الله عليه وسلم-، فلا يضعون أيديهم في الطعام حتى يضع يده.
فحضر مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ذات يوم طعاما فلمَّا بدءوا -أو قُدِّم لهم- جاءت جارية، يعني طفلة صغيرة "كأنما تدفع دفعًا"، يعني كأنها تركض، فأرادت أن تضع يدها في الطعام بدون أن تسمي الله؛ فأمسك النبي -صلى الله عليه وسلم- بيدها، "ثم جاء أعرابي كذلك كأنما يدفع دفعًا"، فوضع يده في الطعام؛ فأمسك النبي -صلى الله عليه وسلم- بيده، ثم أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن هذا الأعرابي وهذه الجارية جاء بهما الشيطان، أي: وسوس لهما ودفعهما للمجيء؛ لأجل أن يستحِلَّ الطعام بهما إذا أكلا بدون تسمية.
وهما قد يكونان معذورين لجهلهما؛ هذه لصغرها وهذا أعرابي، لكن الشيطان أتى بهما من أجل أنهما إذا أكلا بدون تسمية شارك في الطعام.
ثم أقسم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يد الشيطان مع أيديهما في يد النبي -صلى الله عليه وسلم-.
581;ذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب ہم لوگ آپ ﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے، تو آپ ﷺ کے کھانا شروع کرنے اور ہاتھ آگے بڑھانے سے پہلے ہم کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے تھے، یہ آپ ﷺ کے احترام کی وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ بڑھانے سے پہلے وہ ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے پاس کھانا آیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے ابھی شروع نہیں کیا تھا یا ان کے سامنے پیش کیا گیا، تو ایک بچی اس طرح آئی جیسے اسے دوڑایا جا رہا ہو، وہ بغیر بسم اللہ کے اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنے لگی، آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ایک بدّو آیا جیسے اسے بھی دوڑایا جارہا ہو، اس نے اپنا ہاتھ کھانے کی طرف بڑھایا تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ بھی روک لیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس بدّو اور بچی کو شیطان لے کر آیا تھا یعنی اس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا اور آنے پر ابھارا، تاکہ ان دونوں کے بغیر بسم اللہ کے کھانا شروع کرنے کی وجہ سے وہ اسے اپنے لیے حلال کر لے۔
یہ دونوں اپنی جہالت کی وجہ سے معذور تھے، یہ لڑکی اپنی کم سنی اور یہ ایک بدّو ہونے کی وجہ سے، لیکن شیطان انھیں ہانک کر اس لیے لے آیا کہ جب یہ دونوں بغیر باسم اللہ پڑھے کھانے لگ جائیں تو وہ بھی کھانے میں شریک ہو جائے گا۔
پھر نبی ﷺ نے قسم کھا کر کہا کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ نبی ﷺ کے ہاتھ میں میں موجود تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3507

 
 
Hadith   399   الحديث
الأهمية: قال الله -عز وجل-: المتحابون في جلالي، لهم منابر من نور يغبطهم النبيون والشهداء


Tema:

اللہ عز وجل فرماتا ہے: میری عظمت وجلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والوں کے لیے (روزِ قیامت) نور سے بنے منبر ہوں گے۔ ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔

عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «قَالَ اللهُ -عَزَّ وجَلَّ-: المُتَحَابُّون فِي جَلاَلِي، لَهُم مَنَابِرُ مِن نُورٍ يَغْبِطُهُم النَبِيُّونَ والشُهَدَاء».

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی فرماتا ہے: میری عظمت وجلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والوں کے لیے (روزِ قیامت) نور سے بنے منبر ہوں گے۔ ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- فيما يرويه عن ربه -عز وجل- عن طائفة من المؤمنين أن لهم يوم القيامة منابر وأماكن مرتفعة يجلسون عليها إكرامًا من الله لهم، وذلك لأجل أنهم تحابوا في سبيل الله إجلالاً له -سبحانه-، وتحابوا فيما بينهم لما اجتمعوا عليه من الإيمان، حتى يتمنى الأنبياء -عليهم السلام- أن يكونوا بمنزلتهم، لكن لا يلزم من ذلك أنهم خير من الأنبياء -عليهم السلام-، فالفضل الخاص لا يقضي على الفضل العام.
606;بی ﷺ اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہوئے مومنین کے ایک گروہ کا حال بیان کر رہے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے ان کے اعزاز میں ان کے لیے منبر اور بلند جگہوں کا انتظام ہو گا جن پر وہ بیٹھیں گے۔ ایسا اس وجہ سے ہوگا کیوں کہ انہوں نے اللہ کی خاطر اور اس کی تعظیم میں ایک دوسرے سے محبت کی ہوگی اور ایمان میں یکسانیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چاہت رکھی ہوگی۔ یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی تمنا کریں گے کہ کاش وہ ان کی جگہ ہوتے۔ تاہم اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ انبیاء سے بہتر ہیں۔کیونکہ کوئی مخصوص فضیلت عمومی فضیلت کو ختم نہیں کرتی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3508

 
 
Hadith   400   الحديث
الأهمية: بايعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

عن جرير بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: بَايَعْتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على إِقَام الصَّلاَة، وإِيتَاء الزَّكَاة، والنُّصح لِكُلِّ مُسلم.

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال جرير -رضي الله عنه-: بايعت النبي -صلى الله عليه وسلم- على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم، والمبايعة هنا بمعنى المعاهدة، وسميت مبايعة؛ لأن كلا من المتبايعين يمد باعه إلى الآخر، يعني يده من أجل أن يمسك بيد الآخر، وهذه ثلاثة أشياء:
1- حق محض لله.
2- حق محض للآدمي .
3- وحق مشترك.
أما الحق المحض لله، فهو قوله"إقام الصلاة" أي أن يأتي بها المسلم مستقيمة على الوجه المطلوب، فيحافظ عليها في أوقاتها، ويقوم بأركانها وواجباتها وشروطها، ويتمم ذلك بمستحباتها.
ويدخل في إقامة الصلاة بالنسبة للرجال إقامة الصلاة في المساجد مع الجماعة، فإن هذا من إقامة الصلاة، ومن إقامة الصلاة: الخشوع فيها، والخشوع هو حضور القلب وتأمله بما يقوله المصلي وما يفعله، وهو أمر مهم؛ لأنه لب الصلاة وروحها.
وأما الثالث -وهو الحق المشترك- فقوله: "إيتاء الزكاة" يعني: إعطاءها لمستحقها.
وأما الثاني -وهو حق الآدمي- فقوله: "النصح لكل مسلم"، أي: أن ينصح لكل مسلم: قريب أو بعيد، صغير أو كبير، ذكر أو أنثى.
وكيفية النصح لكل مسلم هي ما ذكره في حديث أنس -رضي الله عنه-: "لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه" هذه هي النصيحة أن تحب لإخوانك ما تحب لنفسك، بحيث يسرك ما يسرهم، ويسوءك ما يسوؤهم، وتعاملهم بما تحب أن يعاملوك به، وهذا الباب واسعُ كبيرُ جدًّا.
580;ریر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے ہاتھ پر نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ یہاں مبایعت کا معنی باہم معاہدہ کرنا ہے۔ اسے مبایعت کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ دونوں بیعت کرنے والوں میں سے ہر کوئی اپنی"باع" یعنی اپنے ہاتھ کو دوسرے کی طرف بڑھاتا ہے تا کہ وہ دوسرے کے ہاتھ کو پکڑ سکے۔ یہ تین اشیاء ہیں:
1۔ محض اللہ تعالی حق۔
2۔ محض آدمی کا حق۔
3۔ مشترکہ حق۔
جو شے محض اللہ کا حق ہے وہ اقامت نماز ہے۔ یعنی مسلمان اسے بالکل ٹھیک انداز میں ویسے پڑھے جیسا کہ مطلوب ہے۔ اس کے اوقات میں اس کی پابندی کرے اور اس کے ارکان و واجبات اور شرائط کو پورا کرے نیز اس کے مستحبات کے ساتھ اس کی تکمیل کرے۔ مردوں کے سلسلے میں نماز قائم کرنے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ نماز کو مسجدوں میں با جماعت ادا کریں۔ یہ نماز قائم کرنے میں شامل ہے۔ اسی طرح نماز قائم کرنے میں نماز میں خشوع اختیار کرنا بھی آتا ہے۔ خشوع سے مراد یہ ہے کہ دل یکسو ہو اور نمازی جو کچھ کہہ رہا ہو یا کر رہا ہو اس پر غور و فکر کرے۔ یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ یہ نماز کا مغز اور اس کی روح ہے۔
مشترکہ حق جیسے ”إيتاء الزكاة“ یعنی زکوۃ اس کے مستحق کو دینا۔
محض آدمی کا حق جیسے ”النصح لكل مسلم“، یعنی ہر مسلمان چاہے اس سے قریبی تعلق ہو یا دور کا، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اور چاہے مرد ہو یا عورت، اس کی خیرخواہی کرنا۔
ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کیسے کی جائے؟ اس کا بیان انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرنے لگے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے“۔ خیر خواہی یہی ہے کہ آپ اپنے بھائیوں کے لیے وہی کچھ پسند کریں جو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں بایں طور کہ جس بات سے وہ خوش ہوں اس سے آپ بھی خوش ہوں اور جوان کو بُری لگے وہ آپ کو بھی بُری لگے اور یہ کہ آپ ان سے ویسا ہی طرز سلوک روا رکھیں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے روا رکھیں۔ یہ باب بہت ہی وسیع اور بہت بڑا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3512

 
 
Hadith   401   الحديث
الأهمية: كان -صلى الله عليه وسلم- يصلي الظهر بالهاجرة, والعصر والشمس نقية، والمغرب إذا وجبت


Tema:

نبی ﷺ ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھا کرتے، عصر کی نماز اس وقت ادا فرماتے جب کہ سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا اور نماز مغرب وقت ہوتے ہی پڑھ لیتے۔

عن جابر بن عبد الله الأنصاري -رضي الله عنهما- قال: «كَانَ -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَة، والعَصرَ والشَّمسُ نَقِيَّة، والمَغرِب إِذَا وَجَبَت، والعِشَاء أَحيَانًا وأَحيَانًا: إِذَا رَآهُم اجتَمَعُوا عَجَّل، وَإِذَا رَآهُم أَبْطَئُوا أًخَّر، والصُّبحُ كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّيهَا بِغَلَس».

جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھا کرتے، عصر کی نماز اس وقت ادا فرماتے جب کہ سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا، نماز مغرب وقت ہوتے ہی پڑھ لیتے اور عشا کی نماز کبھی جلدی اور کبھی دیر سے پڑھتے؛ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں، تو جلدی پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے کچھ دیر کردی ہے، تو دیر سے پڑھتےاور صبح کی نماز کو آپ ﷺ اندھیرے میں پڑھایا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان الأفضل في الوقت، لأداء الصلوات الخمس.
فصلاة الظهر: حين تميل الشمس عن كبد السماء، وهو وقت الزوال، وهو اول وقتها، ولكن إن كان الحر شديدًا يؤثر على المصلين فالأفضل تأخير الصلاة حتى يبرد الجو، كما في أدلة أخرى.
والعصر: تصلى والشمس ما تزال بيضاء نقية، لم تخالطها صفرة المغيب, وقَدرُها: أن يكون ظل كل شيء مثله، بعد ظل الزوال.
والمغرب: تصلى وقت سقوط الشمس في مغيبها.
وأما العشاء: فيراعى فيها حال المؤتمين، فإن حضروا في أول وقتها، وهو زوال الشفق الأحمر صلوا، وإن لم يحضروا أخرّها إلى ما يقرب من النصف الأول من الليل، فإنه وقتها الأفضل لولا المشقة.
وأما صلاة الصبح: تكون عند أول اختلاط الضياء بالظلام.
575;س حدیث میں نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی کے افضل وقت کا بیان ہے۔
نماز ِظہر کا وقت تب ہوتا ہے، جب سورج عین وسطِ آسمان سے کچھ ہٹ جائے۔ یہی زوال کا وقت ہوتا ہے۔ یہ ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت ہے۔ تاہم اگر گرمی اتنی زیادہ ہو کہ اس سے نمازی متاثر ہوتے ہوں، تو اس صورت میں نماز میں تاخیر کرنا افضل ہے، یہاں تک کہ فضا میں کچھ ٹھنڈک آ جائے جیسا کہ دیگر دلائل میں آیا ہے۔
عصر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے، جب سورج ابھی سفید اور صاف ہو اور بوقت غروب پیدا ہونے والی زردی کی اس میں آمیزش نہ ہو ئی ہو۔ اس کا وقت تب شروع ہوتا ہے، جب ہر شے کا سایہ، زوال کا سایہ نکالنے کےبعد اس شے کے مثل ہو جائے۔
مغرب کی نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے، جب سورج غروب ہو جائے۔
البتہ عشا کی نماز میں مقتدیوں کی حالت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ عشا کے ابتدائی وقت، یعنی شفق کی سرخی زائل ہو نے پر آ جائیں، تو وہ اس وقت نماز پڑھ لیں اور اگر اس وقت نہ آئیں، تو امام اسے رات کے تقریبا ابتدائی نصف حصے تک موخر کرے۔ اگر دشواری کا اندیشہ نہ ہوتا، تو یہی اس کا افضل وقت تھا۔
صبح کی نماز کا وقت تب ہوتا ہے جب روشنی کی اندھیرے کے ساتھ آمیزش شروع ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3516

 
 
Hadith   402   الحديث
الأهمية: إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا سأله، أو أحدا حرص عليه


Tema:

اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو اس کا خواہش مند ہو۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: دخلتُ عَلى النَبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أنَا ورجلاَن مِنْ بَنِي عَمِّي، فَقَال أحدهما: يا رسول الله، أمرنا على بعض ما ولاك الله -عز وجل- وقال الآخر مثل ذلك، فقال: «إِنَّا وَالله لاَ نُوَلِّي هَذَا العَمَلَ أَحَدًا سَأَلَهُ، أَو أَحَدًا حَرِصَ عَلَيهِ».

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے بیٹوں میں سے دو بیٹے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی تولیت میں جو دیا، اس کے کسی حصے پر ہمیں امیر بنا دیجیے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اورنہ ہی ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث في النهي عن تولية من طلب الإمارة أو حرص عليها، فالنبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- لما سأله الرجلان أن يؤمرهما على بعض ما ولاه الله عليه، قال: "إنا والله لا نولى هذا الأمر أحدًا سأله أو أحدًا حرص عليه"، يعني لا نولي الإمارة أحدًا سأل أن يتأمَّر على شيء، أو أحدًا حرص عليه؛ وذلك لأنَّ الَّذِي يطلب أو يحرص على ذلك، ربما يكون غرضه بهذا أن يجعل لنفسه سلطة، لا أن يصلح الخلق، فلمَّا كان قد يُتهم بهذه التهمة مَنع النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يُولَّى من طلب الإمارة، وقال: "إنا والله لا نولي هذا الأمر أحدا سأله أو أحدا حرص عليه".

وقد أكَّد موضوع هذا الحديث حديث عبد الرحمن بن سمرة -رضي الله عنه- أنَّ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- قال: "لا تسأل الإمارة؛ فإنك إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها، وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها".

فلا ينبغي لولي الأمر إذا سأله أحد أن يؤمره على بلد أو على قطعة من الأرض فيها بادية أو ما أشبه ذلك، حتى وإن كان الطالب أهلًا لذلك؛ وكذلك أيضًا لو أن أحدًا سأل القضاء، فقال لولي الأمر في القضاء كوزير العدل مثلا: ولِّنِي القضاء في البلد الفلاني فإنه لا يولى، وأما من طلب النقل من بلد إلى بلد أو ما أشبه ذلك فلا يدخل في هذا الحديث؛ لأنَّه قد تولى من قبل، ولكنه طلب أن يكون في محل آخر، إلا إذا علمنا أن نيته وقصده هي السلطة على أهل هذه البلدة فإننا نمنعه؛ فالأعمال بالنيات.
فإن قال قائل كيف تجيبون عن قول يوسف -عليه الصلاة والسلام- للعزيز: "اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم".
فإننا نجيب بأحد جوابين:
الأول: أن يُقال إن شرع من قبلنا إذا خالفه شرعنا فالعمدة على شرعنا، بناءً على القاعدة المعروفة عند الأصوليين "شرع من قبلنا شرعٌ لنا ما لم يرد شرعنا بخلافه"، وقد ورد شرعنا بخلافه: أننا لا نولي الأمر أحدًا طلب الولاية عليه.
الثاني: أن يقال: إن يوسف -عليه الصلاة والسلام- رأى أن المال ضائعٌ، وأنَّه يُفرِّط فيه ويُلعب فيه؛ فأراد أن ينقذ البلاد من هذا التلاعب، ومثل هذا يكون الغرض منه إزالة سوء التدبير وسوء العمل، ويكون هذا لا بأس به، فمثلا إذا رأينا أميرًا في ناحية لكنَّه قد أضاع الإمرة وأفسد الخلق، فللصالح لهذا الأمر، إذا لم يجد أحدا غيره، أن يطلب من ولي الأمر أن يوليه على هذه الناحية، فيقول له: ولني هذه البلدة؛ لأجل دفع الشر الذي فيها، ويكون هذا لا بأس به متفقا مع القواعد.
وحديث عثمان بن أبي العاص أنه قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: اجعلني إمام قومي يعني في الصلاة، فقال: "أنت إمامهم"، قال بعض العلماء: الحديث يدل على جواز طلب الإمامة في الخير، وقد ورد في أدعية عباد الرحمن الذين وصفهم الله بتلك أنهم يقولون: {واجعلنا للمتقين إماماً} وليس من طلب الرياسة المكروهة؛ فإن ذلك فيما يتعلق برياسة الدنيا التي لا يعان من طلبها، ولا يستحق أن يعطاها.

575;س حدیث میں امارت طلب کرنے والے یا اس کی حرص رکھنے والے کو امارت سونپنے سے منع کیا گيا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ سے دو آدمیوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ﷺ کی تولیت میں اللہ تعالیٰ نے جو معاملات دیے ہیں ان میں سے کسی پر انھیں امیر مقرر فرما دیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ”إِنَّا وَاللهِ لا نُوَلِّي هَذَا الأَمْرَ أَحَدًا سَأَلَهُ، أو أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ“ یعنی اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اسے طلب کرے،اور نہ ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو۔ کیوں کہ جو شخص کوئی عہدہ طلب کرتا ہے یا اس کی حرص رکھتا ہے، بسا اوقات اس کی غرض صاحب اختیار بننے کی ہوتی ہے۔ چوں کہ اس تہمت سے متہم ہونے کا ڈر تھا، اس لیے نبی کریمﷺ نے منع فرمادیا کہ ایسے شخص کو کوئی عہدہ دیا جائے جو امارت کی طلب رکھتا ہو۔ فرمایا: اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اسے طلب کرے اور نہ ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو۔
اس حدیث کے موضوع کی تاکید عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی نے فرمایا: امارت کے طلب گار نہ بنو؛ کیوںکہ بغیر طلب کیے اگر یہ چیز تمھیں ملتی ہے، تواس پر تمھاری مدد کی جاتی ہے اور اگرمانگنے پر دی جاتی ہے، تو تمھیں اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
لہذا حاکم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ جب اس سے کوئی شخص کسی ملک یا کسی بستیوں والے علاقے وغیرہ کی امارت طلب کرے، تو اسے اس کا والی بنادے۔ اگرچہ طلب کرنے والا شخص اس کی اہلیت رکھتا ہو۔ نیز اگر کوئی شخص عہدۂ قضا کا طلب گار ہواور عدلیہ کے حاکم مثلا وزیر انصاف سے کہے کہ مجھے فلاں جگہ کا جج بنادیجیے تو وہ اسے جج نہ بنائے۔ البتہ اگر کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں تبادلہ وغیرہ کا خواہاں ہو، تو وہ اس حدیث میں داخل نہیں ہوگا، کیوں کہ اسے پہلے ہی سے عہدہ ملا ہوا ہے۔ وہ فقط دوسری جگہ جانا چاہتا ہے۔ البتہ اگر یہ پتہ چلے کہ وہ اس شہر والوں پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے، تو ہم اسے روکیں گے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
اگر کوئی کہے کہ تم یوسف علیہ السلام کے اس قول کے بارے میں کیا کہوگے، جو انھوں نے عزیز مصر کو خطاب کرتے ہو   ‎
ئے کہا تھا: مجھے زمین کے خزانوں کا نگراں مقرر کر دیجیے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں تو ہم اسے دوجوابوں میں سے کوئی ایک جواب دیں گے:
پہلا جواب یہ ہے کہ پچھلی شریعت کا ٹکراؤ اگر ہماری شریعت سے ہو، تواعتبار ہماری شریعت کا ہوگا۔ اہل اصول کا مشہور قاعدہ ہے: پچھلی شریعتیں ہمارے لیے اس وقت تک قابل عمل ہیں، جب تک هماری شریعت میں ان کے خلاف نہ آیا ہو" چوں کہ ہماری شریعت میں ان کے خلاف وارد ہے کہ کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیا جائے گا، بو اس کا طالب ہو۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ یوسف علیہ السلام نے جب مال کا ضیاع، اس کی حفاظت میں کوتاہی اور بندر بانٹ کو محسوس کیا تو آپ نے ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کا ارادہ کیا۔ اس طرح کے کام کا مقصد غلط تدبیر اور غلط طریقۂ کارسے چھٹکارا دلانا ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص کسی علاقے میں کوئی حاکم دیکھے، جس نے امور سلطنت کو تباہ اور مخلوق کو برباد کر رکھا ہو اوراسے نظام سلطنت کو درست کرنے کے لیے کوئی دوسرا آدمی نظر نہ آئے، چنانچہ اس کے مفاسد کو دور کرنےکے لیے سربراہ اعلی سے خود اپنی تقرری کی گزارش کرے، تو قاعدے کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عثمان بن ابو العاص کی حدیث، جس میں ہے کہ انھوں نے نبی سے کہا تھا: مجھے اپنی قوم کا نماز میں امام بنادیجیے، تو آپ نے فرمایا: تو ان کا امام ہے، بعض علما کے مطابق خیر کے کاموں میں امامت کی طلب پردلالت کرتی ہے اور یہ ان رحمن کے بندوں کی دعاؤں میں بھی آیا ہے، جنھیں خود اللہ نے اس وصف سے متصف کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: (ہمیں پرھیزگاروں کا امام بنادیجیے) ناپسندیدہ ریاست کی طلب کے جواز پر نہیں؛ کیوں کہ یہ دنیا کی ریاست سے متعلق ہے، جسے طلب کرنے والے کی نہ تو مدد کی جاتی ہے اور نہ وہ ریاست پانے کا حق دار ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3517

 
 
Hadith   403   الحديث
الأهمية: يا معاذ، والله، إني لأحبك، ثم أوصيك يا معاذ، لا تدعن في دبر كل صلاة تقول: اللهم أعني على ذكرك، وشكرك، وحسن عبادتك


Tema:

اے معاذ! قسم اللہ کی! مجھے تم سے محبت ہے۔ اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك“

عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «يَا مُعَاذ، واللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثُمَّ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ، لاَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَة تَقُول: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ».

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! قسم اللہ کی! مجھے تم سے محبت ہے ۔ اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا: ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك“ اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُصَوِّر حديث معاذ مَعلمًا جديدًا من معالم المحبة الإسلامية، والتي من ثمارها النصح والإرشاد إلى الخير، فإنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- قال لمعاذ :"إني أحبك" وأقسم قال: "والله إني لأحبك" وهذه منقبة عظيمة لمعاذ بن جبل -رضي الله عنه- أنَّ نبينا -صلى الله عليه وسلم- أقسم أنَّه يحبه، والمحب لا يدَّخر لحبيبه إلا ما هو خير له؛ وإنما قال هذا له؛ لأجل أن يكون مستَعِدًا لما يلقى إليه؛ لأنه يلقيه إليه من محب.   ثم قال له: "لا تدعن أن تقول دبر كل صلاة" أي: مكتوبة، "اللهم أعني على ذكرك وعلى شكرك وعلى حسن عبادتك": ودبر كل صلاة يعني: في آخر الصلاة قبل السلام، هكذا جاء في بعض الروايات، أنه يقولها قبل السلام وهو حق، وكما هو مقرَّر: أنَّ المقيد بالدبر أي: دبر الصلاة، إن كان دعاءً فهو قبل التسليم، وإن كان ذكرا فهو بعد التسليم، ويدل لهذه القاعدة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال في حديث ابن مسعود في التشهد لما ذكره قال: ثم ليَتَخيَّر مِن الدعاء ما شاء أو ما أحب أو أعجبه إليه، أما الذكر فقال الله -تعالى-: {فإذا قضيتم الصلاة فاذكروا الله قياما وقعودا وعلى جنوبكم}.
وقوله: " أعِنِّي على ذكرك" يعني: كل قول يقرب إلى الله، وكل شيء يقرب إلى الله، فهو من ذكر الله وشكره، أي: شكر النعم واندفاع النقم، فكم من نعمة لله على خلقه، وكم من نقمة اندفعت عنهم؛ فيشكر الله على ذلك.
605;عاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسلامی محبت کے مظاہر میں سے ایک نئے مظہر کی صورت گری کرتی ہے، جس کے دور رس نتائج خیر خواہی اور خیر کی طرف رہ نمائی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”إِنِّي لَأُحِبُّكَ“ (میں تجھ سے محبت کرتا ہوں)۔ آپ نے قسم بھی اٹھائی اور فرمایا: ”واللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّكَ“ (اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں)۔ یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے کہ نبی کریمﷺ نے قسم اٹھا کر کہا کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔ محب اپنے محبوب کے لیے وہی کچھ اٹھا کر رکھتا ہے، جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ آپ نے ان سے یہ بات اس لیے فرمائی؛ تاکہ وہ اس عمل پر کار بند ہونے کے لیے تیار ہو جائيں، جس کی انھیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ یہ نصیحت ایک محب کی طرف سے محبوب کے لیے ہے۔
پھر ان سے فرمایا: ”اَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَة“ (کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا) یعنی فرض نماز کے بعد۔ ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك“ (اے اللہ !اپنے ذکر، شکر اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔) ہر نماز کے بعد یعنی سلام سے پہلے نماز کے آخر میں۔ جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ ﷺ ان دعاؤں کو سلام سے پہلے پڑھا کرتے تھے اور یہی درست ہے۔ نیز یہ طے شدہ بات ہے کہ ' دُبُرُ الصَلاَةِ' کی قید سے مقید ورد اگر دعا ہو، تو سلام سے پہلے اور اگر ذکر ہو تو سلام کے بعد ہوگا۔ اس قاعدہ پر رسول اللہ ﷺکا وہ ارشاد دلالت کرتا ہے، جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشہد کے بارے میں نقل کیا ہے۔ آپ نے (تشہد کا ذکر کرنے کے بعد) فرمایا: ”پھر جو دعا چاہے پڑھے یا جو دعا پسند ہو پڑھے یا جو دعا اچھی لگے پڑھے“۔ جب کہ ذکر کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ﴾ ”جب نماز پوری کر لو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے کرو“۔
پھر فرمایا: ”أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ“ (اپنے ذکر پر میری مدد فرما) یعنی ہر وہ بات اور چیز جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہو، وہ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ہے۔یعنی نعمتوں کا شکر اور اللہ کی ناراضگی سے تحفظ۔ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی کتنی ہی نعمتیں ہیں اور کتنی ہی آفتوں سے وہ ان کی حفاظت کرتا ہے، لہذا اسے اللہ کا شکر ادا بجا لانا چاہیے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3518

 
 
Hadith   404   الحديث
الأهمية: اتقوا الله وصلوا خمسكم، وصوموا شهركم، وأدوا زكاة أموالكم، وأطيعوا أمراءكم تدخلوا جنة ربكم


Tema:

اللہ سے ڈرو، پانچ نمازیں پڑھو، ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو، اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

عن أبي أمامة صُدي بن عجلان الباهلي -رضي الله عنه- قال: سَمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَخطُبُ في حَجَّة الوَدَاع، فقال: «اتَّقُوا الله، وصَلُّوا خَمسَكُم، وصُومُوا شَهرَكُم، وأَدُّوا زَكَاة أَموَالِكُم، وأَطِيعُوا أُمَرَاءَكُم تَدخُلُوا جَنَّة رَبِّكُم».

ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃُ الوداع کے موقع پر خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ سے ڈرو، پانچ نمازیں پڑھو، ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو، اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔

في حجة الوداع خطب النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم عرفة، وخطب يوم النحر، ووعظ الناس وذكَّرهم، وهذه خطبة من الخطب الرواتب التي يُسنُّ لقائد الحجيج أن يخطب الناس كما خطبهم النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان من جملة ما ذكر في إحدى خطبه في حجة الوداع ما يلي:
"يا أيها الناس اتقوا ربكم" ، فأمر الرسول -صلى الله عليه وسلم- النَّاس جميعًا أن يتقوا ربَّهم الذي خلقهم، وأمدَّهم بِنعمه، وأعدهم لقبول رسالاته، فأمرهم بتقوى الله -تعالى-.
وقوله: "وصلوا خمسكم" أي: صلُّوا الصلوات الخمس التي فرضها الله -عز وجل- على رسوله -صلى الله عليه وسلم-.
وقوله: "وصوموا شهركم" أي: شهر رمضان.
وقوله: "وأدوا زكاة أموالكم" أي: أعطوها مستحقيها ولا تبخلوا بها.

608;قوله: "أطيعوا أمراءكم" أي: من جعلهم الله أمراء عليكم، وهذا يشمل أمراء المناطق والبلدان، ويشمل الأمير العام: أي أمير الدولة كُلِّها، فالواجب على الرعية طاعتهم في غير معصية الله، أما في معصية الله فلا تجوز طاعتهم ولو أمَرُوا بذلك؛ لأن طاعة المخلوق لا تُقدَّم على طاعة الخالق -جل وعلا-،وأنّ من فعل هذه الأشياء المذكورة في الحديث فثوابه الجنة.
وثواب من فعل ذاك الجنة.
581;جۃُ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے یومِ عرفہ اور یوم النحر کوخطبہ دیا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی۔ یہ خطبہ ان خطباتِ رواتب میں سے ہے جن کا دینا حاجیوں کی رہنمائی کے لیے مسنون ہے کہ وہ لوگوں کو ویسے ہی خطبہ دے جیسے نبی ﷺ نے انہیں خطبہ دیا۔ آپ ﷺ نے حجۃُ الوداع کے موقع پر اپنے خطبات میں سے ایک خطبے میں جو باتیں ذکر فرمائیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ﴾۔ رسول اللہ ﷺ نے تمام لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب سے ڈریں جس نے انہیں پیدا کیا، انہیں اپنی نعمتوں سے نوازا اور انہیں اپنے پیغام کو قبول کرنے کے قابل کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔آپ ﷺ نے فرمایا: ”وَصَلُّوا خَمسَكُم“ یعنی ان پانچ نمازوں کو ادا کرو جنہیں اللہ عز و جل نے اپنے رسول ﷺ پر فرض کیا۔ ”وصُومُوا شَهرَكُم“ یعنی ماہ رمضان (کے روزے رکھو)۔ ”وَأَدُّوا زَكَاة أَموَالِكُم“ یعنی يہ مستحقینِ زکوٰۃ کو زکوۃ دو اور اس میں بخل نہ کرو۔ ”وَأَطِيعُوا أُمَرَاءَكُم“ یعنی جنہیں اللہ تم پر حکمران بنا دے (ان کی اطاعت کرو)۔ اس میں علاقوں اور شہروں کے حکمران بھی شامل ہیں اور وہ حکمران بھی جو پورے ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ رعایا پر واجب ہے کہ وہ ان کاموں میں ان کی اطاعت کریں جن میں اللہ تعالیٰ کی معصیت نہ ہو۔ اگر کسی کام میں اللہ کی معصیت ہوتی ہو تو اس میں ان کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ اس کا حکم بھی دیں۔ کیونکہ مخلوق کی طاعت خالق عز و جل کی اطاعت پر مقدم نہیں کی جاتی۔ اور جو شخص ایسا کرے گا اسے بدلے میں جنت ملے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3520

 
 
Hadith   405   الحديث
الأهمية: بت عند خالتي ميمونة، فقام النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فأخذ برأسي فأقامني عن يمينه


Tema:

میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری۔ نبی اکرم ﷺ رات میں نماز (تہجد) کے لیے اٹھے، میں بھی اٹھا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ ﷺ نے میرے سر سے پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔

عن عَبدُ اللَّهِ بنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: «بِتُّ عِندَ خَالَتِي مَيمُونَة، فَقَام النَبيَّ -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي مِن اللَّيل، فَقُمتُ عَن يَسَارِه، فَأَخَذ بِرَأسِي فَأَقَامَنِي عن يَمِينِه».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری۔ نبی اکرم ﷺ رات میں نمازِ (تہجد) کے لیے اٹھے، میں بھی اٹھا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ ﷺ نے میرے سر سے پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر الصحابي الجليل ابن عباس -رضي الله عنهما- أنه بات عند خالته زوج النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ ليطلع -بنفسه- على تهجد النبي -صلى الله عليه وسلم- فلما قام -صلى الله عليه وسلم- يصلي من الليل، قام ابن عباس معه؛  ليصلي بصلاته، وصار عن يسار النبي -صلى الله عليه وسلم- مأمومًا؛ ولأن اليمين هو الأشرف، وهو موقف المأموم من الإمام إذا كان واحدًا، أخذ النبي -صلى الله عليه وسلم- برأسه، فأداره من ورائه، فأقامه عن يمينه.
580;لیلُ المرتبت صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایک رات اپنی خالہ کے پاس گزاری جو نبی ﷺ کی زوجہ تھیں تاکہ وہ بذات خود آپ ﷺ کو تہجد پڑھتا ہوا دیکھ سکیں۔جب نبی ﷺ رات کو نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ وہ آپ ﷺ کی اقتدا میں آپ ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہوئے اور چونکہ دائیں طرف زیادہ اشرف ہے اور جب مقتدی اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب ہی کھڑا ہوتا ہے اس لیے آپ ﷺ نے انہیں ان کے سر سے پکڑ کر اپنے پیچھے سے گھماتے ہوئے اپنی داہنی جانب کھڑا کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3528

 
 
Hadith   406   الحديث
الأهمية: أنَّ النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بصبي, فبال على ثوبه, فدعا بماء, فأَتبَعَه إِيَّاه


Tema:

نبی ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اسے اس (پیشاب کی جگہ) پر بہا دیا۔

عن أُمِّ قَيْسِ بِنْتِ مِحْصَنٍ الأَسَدِيَّة -رضي الله عنها- «أنَّها أتَت بابن لها صغير لم يأكل الطعام إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأجلسه في حِجْرِه, فبال على ثوبه, فدعا بماء فَنَضَحَه على ثوبه, ولم يَغْسِله».
عن عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِين -رضي الله عنها- «أنَّ النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بصبي, فبال على ثوبه, فدعا بماء, فأَتبَعَه إِيَّاه».   وفي رواية: «فَأَتْبَعَه بوله, ولم يَغسِله» .

ام قیس بنت محصن اسدیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں، جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اسے اپنے کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اسے اس (پیشاب کی جگہ) پر بہا دیا۔
ایک اور روایت میں ہے: ”آپ ﷺ نے جہاں جہاں اس کا پیشاب لگا تھا، وہاں وہاں پانی ڈال دیا اور کپڑے کو دھویا نہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة -رضي الله عنهم-  يأتون النبي -صلى الله عليه وسلم- بأطفالهم؛ لينالوا من بركته وبركة دعائه لهم، وكان -صلى الله عليه وسلم- من لطافته، وكرم أخلاقه يستقبلهم بما جبله الله عليه من البشر والسماحة، فجاءت أم قيس -رضي الله عنها- بابن لها صغير، يتغذى باللبن، ولم يصل إلى سن التغذي بغير اللبن، فمن رحمته أجلسه في حجره الكريم، فبال الصبي على ثوب النبي -صلى الله عليه وسلم-، فطلب ماء فرش مكان البول من ثوبه رشاً، ولم يغسله غسلًا، وهذا الحكم خاص بالرضيع الذكر دون الأنثى.
589;حابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے پاس اپنے بچے لے کر آتے تھے، تا کہ انھیں آپ ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کی دعا کی برکت حاصل ہو سکے۔ اپنے لطف و کرم اور اعلی اخلاق کی بنا پر آپ ﷺ ان کے ساتھ خندہ روئی اور نرم خوئی کے ساتھ پیش آتے، جو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی فطرت میں رکھی تھی۔ چنانچہ ام قیس رضی اللہ عنہا اپنا دودھ پیتا بچہ لے کر آئیں، جس کی عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی تھی کہ وہ دودھ کے علاوہ کوئی اور شے بطور غذا استعمال کر سکتا۔ ازراہ شفقت آپ ﷺ نے اسے اپنی گود مبارک میں بٹھا لیا۔ بچے نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا، تو آپ ﷺ نے پانی منگوا کر کپڑے کے پیشاب کی جگہ پر چھڑک دیا اور اسے پوری طرح سے نہیں دھویا۔ یہ حکم (پیشاب کی جگہ چھینٹے مارنا کافی ہے) شیر خوار بچے کے لیے خاص ہے جبکہ شیر خوار بچی کا حکم اس کے برخلاف ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3529

 
 
Hadith   407   الحديث
الأهمية: أتيت النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو في قُبَّةٍ له حمراء من أدم، فخرج بلال بوضوء فمن ناضح ونائل


Tema:

میں نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ چمڑے سے بنے ایک سرخ خیمے میں مقیم تھے۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ (آپ ﷺ کے) وضو کا پانی لے کر نکلے، تو کوئی ان سے براہ راست یہ پانی لے رہا تھا اور کوئی اس سے یہ پانی لے رہا تھا جس نے ان سے لیا تھا۔

عن أبي جُحَيْفَةَ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السُّوَائِيِّ -رضي الله عنه- قال: «أَتَيتُ النَبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- وهو في قُبَّةٍ لَهُ حَمرَاءَ مِن أَدَمٍ، قال: فَخَرَج بِلاَل بِوَضُوءٍ، فمن نَاضِحٍ ونَائِلٍ، قال: فَخَرَجَ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- عليه حُلَّةٌ حَمرَاءُ، كَأَنِّي أَنظُرُ إلى بَيَاضِ سَاقَيهِ، قال: فَتَوَضَّأ وأَذَّن بِلاَل، قال: فَجَعَلَتُ أتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وهَهُنَا، يقول يمِينا وشِمالا: حَيَّ على الصَّلاة؛ حيَّ عَلَى الفَلاَح. ثُمَّ رَكَزَت لَهُ عَنَزَةٌ، فَتَقَدَّمَ وصلى الظُهرَ رَكعَتَين، ثُمَّ لَم يَزلَ يُصِلِّي رَكعَتَين حَتَّى رَجَعَ إِلى المَدِينَة».

ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ السوائی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: میں نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ چمڑے سے بنے ایک سرخ خیمےمیں مقیم تھے۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ (آپ ﷺ کے) وضو کا پانی لے کر نکلے، تو کوئی ان سے یہ پانی لے رہا تھا اور کوئی اس سے یہ پانی لے رہا تھا، جس نے ان سے لیا تھا۔ پھر نبیﷺ سرخ جبہ زیب تن فرمائے باہر تشریف لائے۔ میں گویا (اب بھی چشم تصور سے) آپ ﷺ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور اذان دی۔ وہ کہتے ہیں: میں ان کے منہ کےساتھ ساتھ اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرنے لگا۔ وہ دائیں بائیں منہ کر کے حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہہ رہے تھے۔ پھر آپ ﷺ کے لیے (بطور سترہ) ایک چھڑی گاڑ دی گئی۔ آپ ﷺ آگے بڑھے اور ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں۔ مدینہ واپس تشریف لے آنے تک آپ ﷺ دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- نازلًا في الأبطح في أعلى مكة، فخرج بلال بفضل وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-، وجعل الناس يتبركون به، وأذن بلال. قال أبو جحيفة: فجعلت أتتبع فم بلال، وهو يلتفت يمينًا وشمالًا عند قوله: "حي على الصلاة حي على الفلاح" ليسمع الناس حيث إن الجملتين حث على المجيء إلى الصلاة، ثم رُكِزَت للنبي -صلى الله عليه وسلم- رمح قصيرة لتكون سترة له في صلاته، فصلى الظهر ركعتين، ثم لم يزل يصلي الرباعية ركعتين حتى رجع إلى المدينة، لكونه مسافرًا.
606;بی ﷺ بالائی مکہ کے ایک کشادہ مقام پر مقیم تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے وضو کے باقی ماندہ پانی کو لے کر باہر آئے، تو لوگ اس سے برکت حاصل کرنا شروع کر دیے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بلال رضی اللہ عنہ کے منہ کو دیکھنے لگا۔ وہ ”حی علی الصلوۃ“ اور ”حی علی الفلاح“ کہتے ہوئے دائیں بائیں مڑ رہے تھے؛ تاکہ سب لوگوں کو یہ سنائی دے سکیں، کیوں کہ ان دونوں جملوں میں نماز کے لیے آنے کی ترغیب ہے۔ پھر نبی ﷺ کے لیے ایک چھوٹا سا نیزہ گاڑ دیا گیا؛ تا کہ وہ آپ ﷺ کی نماز کے دوران سترہ کا کام دے۔ پھر آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ مسافر ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ جب تک مدینہ واپس نہیں آگئے، تب تک چار رکعت والی نماز کو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3530

 
 
Hadith   408   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده، لتأمرن بالمعروف، ولتنهون عن المنكر؛ أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه، ثم تدعونه فلا يستجاب لكم


Tema:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «وَالَّذِي نَفسِي بِيَدِه، لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعرُوف، وَلَتَنهَوُنَّ عَنِ المُنْكَر؛ أَو لَيُوشِكَنَّ الله أَن يَبْعَثَ عَلَيكُم عِقَاباً مِنْه، ثُمَّ تَدعُونَه فَلاَ يُسْتَجَابُ لَكُم».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله -عليه الصلاة والسلام-: "والذي نفسي بيده" هذا قسم، يقسم فيه النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله؛ لأنه هو الذي أَنْفُسُ العباد بيده -جل وعلا-، يهديها إن شاء، ويضلها إن شاء، ويميتها إن شاء، ويبقيها إن شاء، فالأنفس بيد الله هداية وضلالة، وإحياء وإماتة وتصرفًا وتدبيرًا في كل شيء، كما قال الله -تبارك وتعالى-: (ونفس وما سواها، فألهمها فجورها وتقواها)، فالأنفس بيد الله وحده؛ ولهذا أقسم النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان يقسم كثيرًا بهذا القسم: (والذي نفسي بيده)، وأحيانًا يقول: "والذي نفس محمد بيده"؛ لأن نفس محمد -صلى الله عليه وسلم- أطيب الأنفس، فأقسم بها؛ لكونها أطيب الأنفس.
ثم ذكر المقسم عليه، وهو أن نقوم بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر؛ أو يعمنا الله بعقاب من عنده، حتى ندعوه فلا يستجيب لنا، وهذا بيان لأهمية الأمر بالمعروف كالصلاة والزكاة وأداء الحقوق، وأهمية النهي عن المنكر كالزنى والرب وسائر المحرمات، وذلك بالفعل لمن له سلطة كالأب في بيته ورجال الحسبة والشرطة، أو بالقول الحسن وهذا لكل أحد، أو بالقلب مع مفارقة مكان المنكر، وهذا لمن لا يستطيع الإنكار بالفعل أو بالقول.

Esin Hadith Caption Urdu


”وَالَّذِي نَفسِي بِيَدِه“ اس میں آپ ﷺ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں، اس لیے کہ تمام لوگوں کی جانیں اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، جسے چاہتا ہے مارتا ہے اور جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے، لہٰذا لوگوں کی جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ہدایت و گمراہی، زندہ کرنا و مارنا اور ہر چیز میں تصرف اور اس کی تدبیر کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾ (سورۃ الشمس: 7، 8) ”قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی، پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی“۔ تمام جانیں اللہ کے اختیار میں ہیں، اسی وجہ سے اللہ کے نبی ﷺ قسم اٹھا رہے ہیں، آپ اکثر ’”وَالَّذِي نَفسِي بِيَدِه“ کی قسم اٹھاتے تھے، اور کبھی اس طرح فرماتے ”وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ“ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ سب سے پاکیزہ جان ہے۔ اس لئے آپ سب سے پاکیزہ اور اطیب جان کی قسم کھا رہے ہیں۔
پھر جس چیز کی قسم اٹھا رہے ہیں اس کا ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قائم کریں ورنہ اللہ ہم پر اپنا عذاب بھیج دے گا اور ہماری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3531

 
 
Hadith   409   الحديث
الأهمية: أي بني، إني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إن شر الرعاء الحطمة، فإياك أن تكون منهم


Tema:

میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے، تم اس سے بچنا کہ تم ان میں سے ہو۔

أنَّ عَائِذَ بن عَمْرو -رضي الله عنه- دَخَل على عُبَيد الله بن زياد، فقال: أي بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعت رَسُول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الحُطَمَةُ» فَإِيَّاك أَن تَكُون مِنهُم، فقال له: اجْلِس فَإِنَّما أَنْت مِن نُخَالَةِ أَصحَاب محمَّد -صلى الله عليه وسلم- فقال: وهل كَانَت لَهُم نُخَالَة؟! إِنَّمَا كَانَت النُخَالَة بَعدَهُم وَفِي غَيرِهِم.

عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور فرمایا : میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ تو تم اس سے بچنا کہ تم ان میں سے ہوجاؤ۔ اس نے کہا : آپ بیٹھیے، آپ تو اصحاب محمد ﷺ کا تلچھٹ ہو، انھوں نے کہا: کیا اصحاب رسول ﷺ میں بھی تلچھٹ ہوتا ہے؟ بے شک تلچھٹ تو ان کے بعد یا ان کے علاوہ دوسروں میں ہوگا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل عائذ بن عمرو -رضي الله عنه- على عبيد الله بن زياد وهو أمير العراقين بعد أبيه، فقال: "إني سمعت رسول الله يقول: إن شرّ الرعاءالحطمة"، والحُطَمَة: هو العنيف برعاية الإبل في السوق والإيراد والإصدار، ويلقي بعضها على بعض ويعسفها، ضَرَبَه مثلاً لوالي السوء، والمراد منه اللفظ القاسي الذي يظلمهم ولا يرق لهم ولا يرحمهم.
وقوله: (فإياك أن تكون منهم) من كلام عائذ نصيحةً لابن زياد.
فما كان من ابن زياد إلاَّ أن أجابه: (إنما أنت من نخالتهم)، يعني لست من فضلائهم وعلمائهم وأهل المراتب منهم بل من سَقَطِهم، والنخالة هنا استعارة من نخالة الدقيق، وهي قشوره، والنخالة والحقالة والحثالة بمعنى واحد، قوله.
فردَّ عليه الصحابي الجليل -رضي الله عنه-: (وهل كانت لهم نخالة؟! إنما كانت النخالة بعدهم وفي غيرهم)، هذا من جزل الكلام وفصيحه وصدقه الذي ينقاد له كل مسلم؛ فإِنَّ الصحابة -رضي الله عنهم- كلهم هم صفوة الناس، وسادات الأمة، وأفضل ممن بعدهم، وكلهم عدول قدوة، لا نخالة فيهم، وإنما جاء التخليط ممن بعدهم وفيمن بعدهم.
593;ائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس آئے، اس وقت عبید اللہ عراق کا امیر تھا۔ وہ اپنے باپ کے بعد وہاں کا امیر بنا تھا۔ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ ”الحُطَمَة“ یعنی اونٹوں کو ہنکانے اور لانے لے جانے میں سختی کرنے والا، جو بعض کو بعض سے مڈ بھیڑ کرواتا ہے اور سختی برتتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بُرے والی کے لیے بطور مثال بیان کیا ہے۔ اس سے مُراد بد خلق ہے، جو دوسروں پر ظلم کرتا ہے، نرمی اور رحم کا رویہ روا نہیں رکھتا۔
”فَإِيَّاك أَن تَكُون مِنهُم“ یہ عائذ رضی اللہ عنہ کا جملہ ہے، جو انھوں نے ابنِ زیاد سے نصیحت کے طور پر کہا۔
ابنِ زیاد نے جواب میں کہا: آپ تو ان کا تلچھٹ ہو یعنی تم صاحب فضل، ذی علم اور اہلِ مرتبہ صحابہ میں سے نہیں ہو، بلکہ کم مرتبہ صحابہ میں سے ہو۔ ”النُّخَالَة“ آٹے کے بھوسے سے استعارہ ہے، جو اس کے چھلکے ہوتے ہیں، النخالة، الحقالة اور الحثالة ایک ہی معنیٰ میں آتے ہیں۔
جلیل القدر صحابی نے جواب میں کہا: ”وهل كَانَت لَهُم نُخَالَة؟ إِنَّمَا كَانَت النُخَالَة بَعدَهُم وَفِي غَيرِهِم“ یہ صحابی کا بڑا عمدہ، سلیس، فصیح اور سچا کلام ہے، جسے ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے تمام لوگوں میں چنندہ، امت کے سردار اور بعد والوں سے افضل ہیں۔ سب کے سب عادل اور اسوہ ہیں۔ ان میں تلچھٹ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ملاوٹ تو بعد والوں کی طرف سے یا خود بعد والوں میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3532

 
 
Hadith   410   الحديث
الأهمية: إذا جلس بين شعبها الأربع، ثم جهدها، فقد وجب الغسل


Tema:

جب مرد عورت کی چار زانوؤں کے بیچ بیٹھے، پھر مجامعت کرے، تو غسل واجب ہو گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِذَا جَلَسَ بين شُعَبِهَا الأَربع، ثم جَهَدَهَا، فَقَد وَجَبَ الغُسْلُ)) .
 وفي لفظ ((وإن لم يُنْزِل)).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مرد عورت کی چار زانوؤں کے بیچ بیٹھے، پھر مجامعت کرے، تو غسل واجب ہو گیا“۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”اگرچہ انزال نہ بھی ہوا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا جلس الرجل بين أطراف المرأة الأربع، وهي اليدان والرجلان، ثم أدخل ذكره في فرج المرأة؛ فقد وجب عليهما الغسل من الجنابة وإن لم يحصل إنزال مني؛ لأن الإدخال وحده أحد موجبات الغسل.
580;ب آدمی عورت کے چار اعضا یعنی دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے بیچ بیٹھ کر اپنا آلۂ تناسل عورت کی شرم گاہ میں داخل کر دے، تو دونوں پر غسل جنابت واجب ہوجاتا ہے، اگرچہ منی خارج نہ ہو؛ کیوںکہ مجرد دخول ہی غسل کے واجب ہونے کے موجبات میں سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3533

 
 
Hadith   411   الحديث
الأهمية: لا يقبل الله صلاة أحدكم إذا أحدث حتى يتوضأ


Tema:

اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے حدث لاحق ہو گئی ہے یہاں تک کہ وہ وضو کرلے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: "لاَ يَقْبَل الله صلاَة أَحَدِكُم إِذا أَحْدَث حَتَّى يَتوضَّأ".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے حدث لاحق ہو گئی ہے یہاں تک کہ وہ وضو کرلے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الشارع الحكيم أرشد من أراد الصلاة، أن لا يدخل فيها إلا على حال حسنة وهيئة جميلة، لأنها الصلة الوثيقة بين الرب وعبده، وهي الطريق إلى مناجاته، لذا أمره بالوضوء والطهارة فيها، وأخبره أن الصلاة مردودة غير مقبولة بغير طهارة.
588;ارع حکیم علیہ الصلاۃ السلام نے راہ نمائی فرمائی کہ جو شخص نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ اچھی حالت اور خوب صورت ہیئت میں نماز کا آغاز کرے؛ کیونکہ نماز رب اور اس کے بندے کے مابین ایک مضبوط تعلق کا نام اور اللہ سے مناجات کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے نبی ﷺ نے نماز پڑھنے والے کو نماز کے لیے وضو اور حصولِ طہارت کا حکم دیا اور آگاہ کیا کہ بغیر طہارت کے نماز رد کر دی جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3534

 
 
Hadith   412   الحديث
الأهمية: ويل للأعقاب من النار


Tema:

ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔

عن أبي هريرة وعبد الله بن عمرو وعائشة -رضي الله عنهم- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أنه قال: (ويلٌ للأعْقَاب من النَّار).

ابو ہریرہ، عبد اللہ ابن عمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(خشک رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحذر النبي -صلى الله عليه وسلم- من التهاون بأمر الوضوء والتقصير فيه، ويحث على الاعتناء بإتمامه، ولما كان مؤخر القدم -غالبًا- لا يصل إليه ماء الوضوء، فيكون الخلل في الطهارة والصلاة منه، أخبر أن العذاب منصب عليه وعلى صاحبه المتهاون في طهارته الشرعية.
606;بی ﷺ وضو کے معاملے میں سستی اور کوتاہی سے پرہیز برتنے اور اسے مکمل طور پر کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ چوں کہ پاؤں کے پچھلے حصے تک عموما وضو کا پانی نہیں پہنچتا اور اس کی وجہ سے طہارت اور اس سے پڑھی جانے والی نماز میں خلل رہ جاتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے بیان فرمایا کہ پاؤں کے اس حصے اور اس شخص کو عذاب ہو گا، جو شرعی طہارت کے حصول میں سستی برتتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3535

 
 
Hadith   413   الحديث
الأهمية: أعتم النبي -صلى الله عليه وسلم- بالعشاء، فخرج عمر, فقال: الصلاة , يا رسول الله، رقد النساء والصبيان، فخرج ورأسه يقطر يقول: لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بهذه الصلاة هذه الساعة


Tema:

نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں تاخیر فرما دی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے۔ عورتیں اور بچے سو چکے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اگر مجھے اپنی امت (یا آپ ﷺ نے فرمایا) اگر مجھے لوگوں کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو انھیں حکم دیتا کہ وہ اس گھڑی میں یہ نماز پڑھا کریں۔

عن عَبْد اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: «أّعْتَمَ النَبِيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالعِشَاء، فَخَرَج عُمَر فقال: الصَّلاةَ يا رسول الله، رَقَد النِسَاءُ والصِّبيَان. فَخَرَجَ ورَأسُهُ يَقطُر يقول: لَولاَ أن أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي -أو على النَّاس- لَأَمَرتُهُم بهذه الصَّلاة هذه السَّاعَة».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں تاخیر فرما دی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے۔ عورتیں اور بچے سو چکے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اگر مجھے اپنی امت (یا آپ ﷺ نے فرمایا) اگر مجھے لوگوں کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو انھیں حکم دیتا کہ وہ اس گھڑی میں یہ نماز پڑھا کریں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تأخر النبي -صلى الله عليه وسلم- بصلاة العشاء، حتى ذهب كثير من الليل، ورقد النساء والصبيان، ممن ليس لهم طاقة ولا احتمال على طول الانتظار، فجاء إليه عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- وقال: الصلاة، فقد رقد النساء والصبيان. فخرج -صلى الله عليه وسلم- من بيته إلى المسجد ورأسه يقطر ماء من الاغتسال وقال مبينًا أن الأفضل في العشاء التأخير، لولا المشقة التي تنال منتظري الصلاة: لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بهذه الصلاة في هذه الساعة المتأخرة.
606;بی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں دیر کر دی، یہاں تک کہ رات کا بہت سارا حصہ گزر گیا اور عورتیں، بچے اور وہ لوگ سو گئے، جو زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آکر کہا: (یا رسول اللہ!) نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے، عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس پر نبی ﷺ اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے، اس حال میں کہ غسل کی وجہ سے آپ ﷺ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نماز کا انتظار کرنے والوں کی مشقت کا اندیشہ نہ ہو، توعشا کی نماز میں تاخیر افضل ہے۔ (آپ ﷺ نے فرمایا): اگر مجھے اپنی امت کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ اسی وقت دیر کر کے یہ نماز پڑھا کریں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3537

 
 
Hadith   414   الحديث
الأهمية: ملأ الله قبورهم وبيوتهم نارًا، كما شغلونا عن الصلاة الوسطى حتى غابت الشمس


Tema:

الله ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھرے، انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (یعنی نماز عصر) نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔

عن عَلِي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ: «مَلَأ اللهُ قُبُورَهم وبُيُوتَهُم نَارًا، كَمَا شَغَلُونَا عن الصَّلاَة الوُسْطَى حَتَّى غَابَت الشَّمس».
وفي لفظ لمسلم: «شَغَلُونَا عن الصَّلاَة الوُسْطَى -صلاة العصر-»، ثم صَلاَّهَا بين المغرب والعشاء».
وله عن عبد الله بن مسعود قال: «حَبَسَ المُشرِكُون رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن العصر، حَتَّى احْمَرَّت الشَّمسُ أو اصْفَرَّت، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: شَغَلُونَا عن الصَّلاَة الوُسْطَى -صلاة العصر-، مَلَأَ الله أَجْوَافَهُم وقُبُورَهم نَارًا (أَو حَشَا الله أَجْوَافَهُم وَقُبُورَهُم نَارًا)».

علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”الله ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھرے، انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (یعنی نماز عصر) نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا“۔
مسلم شریف کے الفاظ یہ ہیں: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز یعنی نماز عصر پڑھنے سے روکے رکھا“۔ پھر آپ ﷺ نے اس نماز کو نماز مغرب اور نماز عشاء کے درمیان پڑھا۔
امام مسلم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کو مشرکوں نے (جنگ میں مصروفیت کی وجہ سے) نماز عصر پڑھنے سے روکے رکھا یہاں تک سورج سرخ ہو گیا یا زرد ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے ہمیں درمیانی نماز یعنی نماز عصر پڑھنے سے روکے رکھا، اللہ ان کے پیٹ اور قبروں کو آگ سے بھرے۔ یا پھر اس کے بجائے یہ الفاظ فرمائے ”أَو حَشَا الله أَجْوَافَهُم وَقُبُورَهُم نَارًا“ یا اللہ تعالی ان کے پیٹ اور قبر میں آگ بھر دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
شغل المشركون النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه -رضي الله عنهم- بالمرابطة وحراسة المدينة وأنفسهم عن صلاة العصر حتى غابت الشمس، فلم يصلها النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه -رضي الله عنهم- إلا بعد الغروب؛ فدعا عليهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يملأ بطونهم وبيوتهم وقبورهم نارًا، جزاء ما آذوه وصحبه، وشغلوهم عن صلاة العصر، التي هي أفضل الصلوات.
605;شرکوں نے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سرحدوں پر مقیم رہنے اور مدینہ اور اپنی حفاظت کرنے میں لگائے رکھا جس کی وجہ سے وہ نماز عصر نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نے یہ نمازِ عصر، مغرب کے بعد ادا کی۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں بد دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ ان کے پیٹ، ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھرے۔ انہوں نے آپ ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا انہیں بدلہ دے۔ انہوں نے انہیں نمازِ عصر نہ پڑھنے دی جو سب سے افضل نماز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3538

 
 
Hadith   415   الحديث
الأهمية: لقد كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلي الفجر، فيشهد معه نساء من المؤمنات، متلفعات بمروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد، من الغلس


Tema:

رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھتے تھے تو مومن عورتیں بڑی بڑی چادروں میں لپٹیں آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتیں۔ پھر (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں اور اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی انھیں پہچان نہ پاتا۔

عن عَائِشَة -رضي الله عنها- قالت: (لقد كان رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي الفَجر، فَيَشهَدُ معه نِسَاء مِن المُؤمِنَات، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثم يَرجِعْن إلى بُيُوتِهِنَّ مَا يُعْرِفُهُنَّ أحدٌ من الغَلَس).

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھتے تو مومن عورتیں بڑی بڑی چادروں میں لپٹیں آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتیں۔ پھر (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں اور اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی انھیں پہچان نہ پاتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تذكر عائشة -رضي الله عنها- أن نساء الصحابة كُنَّ يلتحفن بأكسيتهن ويشهدن صلاة الفجر مع النبي -صلى الله عليه وسلم-، ويرجعن بعد الصلاة إلى بيوتهن، وقد اختلط الضياء بالظلام، إلا أن الناظر إليهن لا يعرفهن، لوجود بقية الظلام المانعة من ذلك، وفي ذلك مبادرة بصلاة الفجر في أول الوقت.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ صحابۂ کرام کی خواتین چادریں اوڑھ کر نبی ﷺ کے ساتھ نمازِ فجر میں شریک ہوتیں اور نماز کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں۔ اگرچہ تاریکی میں کچھ اجالے کی آمیزش ہو چکی ہوتی تاہم باقی ماندہ اندھیرے کی بدولت دیکھنے والا انھیں پہچان نہ پاتا تھا۔ اس حدیث میں نمازِ فجر کو اول وقت میں ادا کرنے کی ترغیب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3539

 
 
Hadith   416   الحديث
الأهمية: إذا قام أحدكم من الليل فَلْيَفْتَتِحِ الصلاة بركعتين خَفِيفَتَيْن


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص رات کو (نماز تہجد کے لئے) اٹھے تو وہ دو ہلکی رکعتوں سے نماز کا آغاز کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا قام أحدكم من الليل فَلْيَفْتَتِحِ الصلاة بركعتين خَفِيفَتَيْن».
 وعن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام من الليل افتتح صلاته بركعتين خفيفتين.

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص رات کو (نماز تہجد کے لئے) اٹھے تو وہ دو ہلکی رکعتوں سے نماز کا آغاز کرے“۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو اٹھتے تو آپﷺ اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث: فيه بيان أن السُنَّة في صلاة الليل أن تُفتتح بركعتين خَفِيفَتين، ثم بعد ذلك يُطَوِّل ما شاء، كما هي رواية أبي داود، عن أبي هريرة -رضي الله عنه- موقوفًا عليه: "ثم ليُطَول بعد ما شاء".
وقد صح ذلك من فعله -صلى الله عليه وسلم- كما هي رواية مسلم.
والحكمة من افتتاح صلاة الليل بركعتين خَفِيفَتَين تمرين النفس وتهيئتها للاستمرار في الصلاة والمبادرة إلى حَلِّ عُقَد الشيطان؛ لأن حَلَّ العُقد كلها لا يتم إلا بإتمام الصلاة؛ وأما ما جاء عنه -صلى الله عليه وسلم- من افتتاحه صلاة الليل بركعتين خَفِيفَتَين، مع كونه محفوظاً ومُنَزَهاً عن عُقَد الشيطان، فهذا من باب تعليم أمته وإرشادهم إلى ما يحفظهم من الشيطان.
فصحت بذلك السنة القولية والفعلية على مشروعية افتتاح صلاة الليل بركعتين خفيفتين.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نماز تہجد میں سنت یہ ہے کہ اس کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کی جائے۔ ان کے بعد نمازی جتنی چاہے طویل کر لے۔ جیسا کہ سنن ابوداود میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک موقوف روایت میں ہے کہ پھر اس کے بعد جتنا چاہے طویل کرے۔ نبی ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے ۔ نماز تہجد کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے نفس کی مشق ہوتی ہے اور اس میں نماز کو جاری رکھنے پر آمادگی پیدا ہوتی ہے اور ا شیطان کی دی گئی گرہیں جلدی کھل جاتی ہیں۔کیونکہ تمام گرہیں اسی وقت کھلتی ہیں جب نماز پوری ہو جائے۔ آپ ﷺ کے بارے میں جو یہ آیا ہے کہ آپ ﷺ رات کی نماز کا آغاز دو خفیف رکعتوں سے فرماتے تھے حالانکہ آپ ﷺ شیطان کی گرہوں سے محفوظ اور پاک تھے تو آپ ﷺ کا ایسا کرنا اپنی امت کی تعلیم اور ان کی اس طریقے کی طرف راہنمائی کرنے کی غرض سے تھا جو انہیں شیطان سے محفوظ رکھتا ہے۔ چنانچہ قولی و فعلی دونوں قسم کی احادیث سے نماز تہجد کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے کرنے کی مشروعیت ثابت ہوئی۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3543

 
 
Hadith   417   الحديث
الأهمية: قال الله -عز وجل-: كلُّ عَمَل ابن آدَم له إلا الصيام، فإنه لي وأنا أجْزِي به


Tema:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «قال الله -عز وجل-: كلُّ عَمَل ابن آدَم له إلا الصيام، فإنه لي وأنا أجْزِي به، والصيام جُنَّة، فإذا كان يوم صوم أحدِكُم فلا يَرْفُثْ ولا يَصْخَبْ فإن سَابَّهُ أحَدٌ أو قَاتَلَهُ فليَقل: إنِّي صائم، والذي نفس محمد بيده لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِم أطيب عند الله من رِيحِ المِسْكِ، للصائم فرحتان يَفْرَحُهُمَا: إذا أفطر فَرِح بفطره، وإذا لَقِي ربَّه فَرِح بِصَوْمه». وهذا لفظ رواية البخاري.
وفي رواية له: «يَتْرُك طَعَامه، وشَرَابه، وشَهوته من أجلي، الصيام لي وأنا أَجْزِي به، والحسنة بعشر أمثالها». وفي رواية لمسلم: «كلُّ عَمَل ابن آدم يُضَاعَف، الحَسَنة بِعَشر أمْثَالها إلى سَبْعِمِئَة ضِعْف، قال الله تعالى: إلا الصَّوم فإنه لي وأنا أجْزِي به؛ يَدَع شَهَوته وطَعَامه من أجلي، للصائم فرحتان: فَرْحَة عند فِطْره، وفَرْحَة عند لقِاء ربِّه، ولَخُلُوف فيه أطْيَب عند الله من رِيحِ المِسْكِ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے يا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار آدمی ہوں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشی کے مواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے: جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ تو اپنا روزہ کھولنے سے خوش ہوتا ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا تو (اس کی جزا دیکھ کر) اپنے روزے سے خوش ہوگا۔ یہ بخاری کی روایت کے الفاظ ہيں۔
بخاری ہی کی ايک اور روايت میں ہے : وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور (باقی ہر) نیکی کو دس گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
مسلم کي ایک روايت میں ہے: 'ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی جنسی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ رکھنے والے کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی اس کے افطار کے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب عزوجل سے ملاقات کے وقت۔ اور یقینا روزے دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث  القُدسي: أن جميع الأعمال الصالحة من أقوال وأفعال، ظاهرة أو باطنة، سواء تَعَلقت بحق الله، أو بحقوق العباد مُضاعفة إلى سبعمائة ضِعف.
وهذا من أعظم ما يدل على سِعَة فَضل الله، وإحسانه على عباده المؤمنين، إذ جعل جناياتهم ومخالفاتهم الواحدة بجزاء واحد، ومغفرة الله تعالى فوق ذلك.
واستثنى في هذا الحديث أجر الصوم، فإن الصائم يُعطى أَجَره بغير حساب يعني أنه يُضاعف أضعافا كثيرة؛ لأن الصوم اشتمل على أنواع الصبر الثلاثة، ففيه: صَبْرٌ على طاعة الله وصبر عن معصية الله وصَبْرٌ على أقدار الله.
أما الصبر على طاعة الله فلأن الإنسان يحمل نفسه على الصيام مع كراهته له أحيانا يكرهه لمشقته لا لأن الله فرضه لو كره الإنسان الصوم لأن الله فرضه لحبط علمه لكنه كرهه لمشقته ولكنه مع ذلك يحمل نفسه عليه فيصبر عن الطعام والشراب والنكاح لله -عز وجل-، ولهذا قال الله تعالى في الحديث القدسي: يترك طعامه وشرابه وشهوته من أجلي.
النوع الثاني من أنواع الصبر: الصبر عن معصية الله، وهذا حاصل للصائم فإنه يصبر نفسه عن معصية الله عز وجل فيتجنب اللغو والرفث والزور وغير ذلك من محارم الله.
الثالث: الصبر على أقْدَار الله وذلك أن الإنسان يصيبه في أيام الصوم، ولاسيما في الأيام الحارة والطويلة من الكَسَل والمَلَل والعَطَش ما يتألم ويتأذى به ولكنه صابر؛ ابتغاء مرضات الله تعالى.
فلما اشتمل على أنواع الصبر الثلاث كان أجره بغير حساب قال الله تعالى: (إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب).
وقد دلّ الحديث على أن الصيام الكامل هو الذي يَدَع العبد فيه شيئين:


المفطرات الحسية، من طعام وشراب ونكاح وتوابعها.
والمخالفات العملية، كالرَفَث والصَّخَب وقول الزُّور وجميع المعاصي، والمُخَاصَمات والمُنَازعات المُحْدِثَة للشَحَناء، ولهذا قال: " فلا يَرْفُثْ " أي: لا يتكلم بكلام قبيح "و لا يَصْخَبْ"بالكلام المُحْدِث للفتن والمُخَاصمات،
فمن حقق الأمرين: ترك المفطرات، وترك المنهيات، تَمَّ له أجْر الصائمين، ومن لم يفعل ذلك نقص أجر صيامه بحسب كثرة  هذه المخالفات ،ثم أرشد الصائم في حال ما إذا خاصمه أو شاتمه أحدٌ أن يقول له بلسانه: "إني صائم".
أي لا يَرُّد عليه سِبَابه، بل يخبره بأنه صائم، يقول ذلك لئلا يَتَعَالى عليه الذي سَابَه كأنه يقول: أنا لست عاجزا عن مقابلتك على ما تقول، ولكني صائم، أحترم صيامي وأراعي كماله، وأمر الله ورسوله،وقوله: " الصوم جُنَّة " أي: وقاية يتقي بها العبد الذنوب في الدنيا ويَتَمرن به على الخير، ووقاية من العذاب.
"للصائم فرحتان: فرحة عند فطره، وفرحة عند لقاء ربه".
هذان ثوابان: عاجل، وآجل.
فالعاجل: مُشَاهد، إذا أفطر الصائم فَرِح بنعمة الله عليه بتكميل الصيام، وفَرِح بِنَيل شهواته التي مُنع منها في النهار.
والآجل: فرحة عند لقاء ربه برضوانه وكرامته، وهذا الفَرَح المُعَجَّل نموذج ذلك الفرح المؤجل، وأن الله سيجمعهما للصائم.
ثم أقسم -صلى الله عليه وسلم- بِرَبِّه -الذي نفسه بيده- أن خُلُوف فَمِ الصائم أطيب عند الله من ريح المِسْك"، وفي رواية مسلم: "أطيب عند الله يوم القيامة"
فيجازيه -سبحانه وتعالى- يوم القيامة بتطييب نكهته الكريهة في الدنيا، حتى تكون كأطيب من ريح المسك.
575;س حديث قدسی میں نبی ﷺ خبر دے رہے ہیں کہ تمام نيک اعمال بشمول ظاہری و باطنی اقوال و افعال، چاہے ان کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو يا بندوں کے حقوق سے، ان کا اجر وثواب سات سو گنا تک بڑھا ديا جاتا ہے۔
يہ اللہ کے فضل کی وسعت اور اپنے مومن بندوں پر اس کے احسان کی سب سے بڑی دليل ہے کہ ان کی نافرمانیوں اور خلاف ورزیوں کی جزا کو ایک کے بدلے ایک گناہ قرار دیا ہے، اور اللہ کی مغفرت ان سب سے بھی بڑھ کر ہے۔
اس حديث ميں روزے کے ثواب کو مستثنیٰ کيا گيا ہے، کيوںکہ روزہ دار کو بغير حساب کے بدلہ ديا جاتا ہے، یعنی اس كے اجر كو بہت گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ روزہ ميں صبر کی تينوں قسميں پائی جاتی ہیں: اللہ کی اطاعت وبندگی پر صبر کرنا۔ اللہ کی حرام کردہ چيزوں سے صبر کرنا (یعنی ان سے باز رہنا)۔ اور اللہ کی تقدير پر صبر کرنا۔
پہلی قسم: رہی بات اللہ کی اطاعت و بندگی پر صبر کرنے کی تو آدمی بسا اوقات كراہت کے باوجود اپنے نفس کو روزہ رکھنے پر آمادہ كرتا ہے، وہ اسے اس كى مشقت وپريشانی کی وجہ سے ناپسند کرتا ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے فرض کیا ہے۔اگر انسان اس وجہ سے روزہ ناپسند کرے کہ اللہ نے اسے فرض کیا ہے تو اس کا عمل برباد ہو جائے گا۔ بلکہ اس نے اسے صرف مشقت کی وجہ سے ناپسند کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی خاطر (روزہ کی حالت میں) کھانے پينے اور ہم بستری سے صبر کرتا (باز رہتا) ہے، اسی وجہ سے اللہ نے حدیث قدسی میں فرمایا: وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے۔
دوسری قسم: اللہ کی نافرمانی سے صبر کرنا یعنی اس سے باز رہنا، اور يہ روزےدار کو اس طرح حاصل ہے کہ وہ اپنے نفس کو اللہ کی معصیت سے روکتا ہے، چنانچہ وہ جھوٹ، بے حيائی اور لا يعنی باتوں سے پرہيز کرتا ہے۔
تيسری قسم: اللہ کی تقدير پر صبر کرنا ہے، کیوںکہ اسے روزے کے دنوں ميں، بالخصوص گرم اور لمبے دنوں میں سستی، اکتاہٹ اور پياس وغيرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اسے تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے، ليکن وہ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتا ہے۔
جب روزے ميں صبر کی تينوں قسميں پائی جاتی ہیں، تو اس کا اجر بھی بے حساب ہوگا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب) ”بے شک صبر کرنے والوں کو پورا پورا بدلہ ديا جائے گا“۔
حديث سے پتہ چلتا ہے کہ حقيقی روزہ اسی کو کہيں گے جس ميں بندہ دو چيزیں چھوڑ دے:
روزہ کو توڑنے والی ظاہری اشياء: جيسے کھانا، پينا، جماع وغيرہ۔
عملی مخالفات: جيسے جھوٹی بات، شور وغل، بے حيائی اور بے ہودہ باتيں تمام گناہ، اور بغض وحسد کو جنم دینے والے جھگڑے اور تنازعات۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمايا کہ ”وہ بے ہودہ بات نہ کرے“ يعنی بری بات نہ بولے اور نہ لڑائی جھگڑا اور فتنہ برپا کرنے والی باتيں کرے۔
تو جو شخص روزہ کو توڑنے والی چيزوں کو چھوڑ دے اور اسی طرح روزہ کی حالت ميں جن چيزوں سے منع کيا گيا ہے انھیں بھی چھوڑ دے، تو اس کے لیے روزے داروں کا اجر پورا ہو گیا۔ اور جو ايسا نہيں کرتا اس کی خلاف ورزیوں کے حساب سے اس کے روزے کے اجر میں کمی ہو جائے گی۔ پھر روزہ دار کو اس بات کا حکم ديا گيا ہے کہ جب اس سے کوئی لڑائی کرنا چاہے يا گالی گلوج کرے تو اس سے کہہ دے کہ ميں روزے سے ہوں۔
يعنی اس کی گالی کا جواب نہ دے بلکہ کہے کہ ميں روزہ سے ہوں۔ وہ ایسا اس وجہ سے کہے گا تاکہ گالی دینے والا اس پر بلند ہونے کا احساس نہ کرے، گویا کہ وہ کہے کہ: میں تمہارا مقابلہ کرنے سے قاصر نہیں ہوں، لیکن میں روزےدار ہوں، اپنے روزہ کا احترام کرتا ہوں، اور اس کے کمال اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کا پاس و لحاظ کرتا ہوں۔ آپ ﷺ کا فرمان: ”روزہ ڈھال ہے“ يعني بچاؤ ہے، بندہ اس سے دنيا ميں گناہوں سے بچتا ہے اورر نيکيوں پر مشق کرتا ہے، نیز آخرت ميں اللہ کے عذاب سے بچاؤ ہے۔
روزہ رکھنے والے کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک اسے افطاری کے وقت خوشی حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب عزوجل سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔
یہ دو ثواب ہیں: ايک جلد (یعنی دنیا میں) حاصل ہونے والا۔ اور ايک بعد ميں ملے گا۔
تو جو جلد (یعنی دنیا میں) حاصل ہونے والا ہے، اس کا مشاہدہ کیاجاتا ہے، جب روزہ دار افطاری کرتا ہے، تو اپنے اوپر اللہ کی تکمیل صیام کی نعمت سے خوش ہوتا ہے، نیز اپنی ان خواہشات کی حصولیابی پر بھی خوش ہوتا ہے جن سے وہ دن کے اوقات میں روک دیا گیا تھا۔
اور جو ثواب بعد ميں ملے گا، وہ اپنے رب سے ملاقات کے وقت اللہ کی خوشنودی واکرام کے حصول پر ملنے والی خوشی ہے۔ اور روزہ دار کی پہلی خوشی بعد ميں ملنے والی خوشی کا نمونہ ہے، اور عنقريب اللہ تعالیٰ روزہ دار کے لیے دونوں خوشياں جمع کر دے گا۔
اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رب کی قسم کھا کر ۔ جس کے ہاتھ میں آپ (ﷺ) کی جان ہے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اورمسلم کی ايک روايت ميں ہے کہ قيامت کے دن اللہ کے نزديک سب سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
پس اللہ تعالیٰ قيامت کے دن اسے یہ بدلہ دے گا کہ دنيا میں اس کے منہ کی ناپسندیدہ بو کو قيامت کے دن خوشبودار بنا دے گا يہاں تک کہ وہ مشک کی خوشبو سے زيادہ پاکیزہ ہو جائے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3546

 
 
Hadith   418   الحديث
الأهمية: إذا لَقِيَ أحدُكم أخاه فَلْيُسَلِّمْ عليه، فإن حَالَتْ بينهما شجرة، أو جِدَارٌ، أو حَجَرٌ، ثم لَقِيَه، فَلْيُسَلِّمْ عليه


Tema:

جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے، تو اسے سلام کرے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت ، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور وہ اس سے (دوبارہ) ملے، تو پھر اسے سلام کرے

عن أبي هريرة عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا لَقِيَ أحدُكم أخاه فَلْيُسَلِّمْ عليه، فإن حَالَتْ بينهما شجرة، أو جِدَارٌ، أو حَجَرٌ، ثم لَقِيَه، فَلْيُسَلِّمْ عليه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے، تو اسے سلام کرے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت ، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور وہ اس سے (دوبارہ) ملے، تو پھر اسے سلام کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المسلم مأمور على سبيل الاستحباب بإلقاء السلام على أخيه المسلم كلما لقيه، حتى إن كانوا معا، ثم افترقوا لغرض من الأغراض، ثم تلاقوا ولو عن  قرب، فإن من السنة أن يسلِّم عليه ولا يقول: أنا عهدي به قريب، بل يسلم عليه، ولو حالت بينهما شجرة أو جدار أو صخرة بحيث يغيب عنه فإن من السنة إذا لقيه مرة ثانية أن يُسَلِّم عليه.
605;سلمان مستحب (یعنی غیر الزامی) طور پر اس بات کا پابند ہے کہ جب جب اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کرے، اسے سلام کرے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایک ساتھ ہوں، پھر کسی کام کے لیے جدا ہو جائیں اور جلد ہی ملیں، تو سنت کا طریقہ یہ ہے کہ (ایک شخص دوسرے کو) سلام کرے اور یہ نہ کہے کہ میں اس سے جلد ہی ملا تھا، (اس لیے سلام کی ضرورت نہیں ہے) بلکہ سلام کرے۔ اسی طرح اگر ان کے درمیان درخت، دیوار یا پتھر وغیرہ اس طرح حائل ہو جائيں کہ ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں، تو سنت یہی ہے کہ جب دوبارہ ملیں، تو ایک دوسرے کو سلام کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3552

 
 
Hadith   419   الحديث
الأهمية: إذا مَرِض العَبد أو سافر كُتب له مثلُ ما كان يعمل مقيمًا صحيحًا


Tema:

بندہ جب بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان عبادات کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے جنھیں وہ حالتِ اقامت یا صحت میں ادا کیا کرتاتھا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا مَرِض العَبد أو سافر كُتِب له مثلُ ما كان يعمل مقيمًا صحيحًا».

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندہ جب بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان عبادات کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے جنھیں وہ حالتِ اقامت یا صحت میں ادا کیا کرتاتھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإنسان إذا كان من عادته أن يعمل عملًا صالحًا حال صحته وفراغه  ثم مرض فلم يقدر على الإتيان به فإنه يكتب له الأجر كاملًا، كما لو عمله في حال الصحة، وكذلك إذا كان المانع السفر أو أي عذر آخر كالحيض.
705;وئی آدمی جب کسی نیک عمل کو حالت صحت اور فراغت میں اپنی عادت بنا لیتا ہے تو پھر بیماری کی وجہ سے اگر اسے ادا نہیں کر پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس عمل کا پورا اجر ایسے ہی لکھتا ہے جیسے وہ اس کو حالت صحت میں انجام دیتا تھا۔ اسی طرح اگر رکاوٹ سفر ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور عذر ہو جیسے حیض وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3553

 
 
Hadith   420   الحديث
الأهمية: فإن كانت صالحة، قالت: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وإن كانت غير صالحة، قالت: يا وَيْلها! أين تَذهبون بها


Tema:

اگر وہ نيک آدمی کا جنازہ ہوتا ہے تو کہتا ہے: مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر وہ نيک آدمی کا جنازہ نہیں ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: ہائے ہلاکت! تم اسے کہاں لے جا رہے ہو۔

عن أبي سعيد -رضي الله عنه- قال: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إذا وُضِعت الجَنَازَة واحْتَمَلَهَا الناس أو الرجال على أَعْنَاقِهِم، فإن كانت صالحة، قالت: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وإن كانت غير صالحة، قالت: يا وَيْلها! أين تَذهبون بها؟ يسمعُ صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سَمِعَه صَعِق».

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب جنازہ (تیار کرکے) رکھا جاتا ہے اور لوگ يا آدمى اسے اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں، تو اگر وہ نيک آدمی کا جنازہ ہوتا ہے تو کہتا ہے: مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر وہ نيک آدمی کا جنازہ نہیں ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: ہائے ہلاکت! تم اسے کہاں لے جا رہے ہو؟ انسان کے سوا ہر چيز اس کی یہ آواز سنتی ہے, اور اگر انسان اسے سن لے تو بے ہوش ہو جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا وضعت الجنازة على النعش، ثم احتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت من أهل الخير والصلاح قالت: أسرعوا بي. فَرِحة مسرورة لما تراه أمامها من نعيم الجنة، وإن كانت من غير أهل الصلاح قالت لأهلها: يا هلاكها، ويا عذابها. لما تراه من سوء المصير، فتكره القدوم عليه، ويسمع صوتها كل المخلوقات من حيوان وجَماد إلا الإنسان، ولو سمعها  لغشي عليه أو هلك من ذلك.
580;ب جنازے کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اسے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر یہ میت نیک اور صالح ہو تو وہ اپنے سامنے دکھائی دینے والی جنت کی نعمتوں پر خوش اور مسرور ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے کر چلو۔ اور اگر نیک نہ ہو تو پھر وہ اپنے گھروالوں سے کہتا ہے: ”ہائے ہلاکت! ہائے مصیبت!“ کیونکہ اسے اپنا بُرا ٹھکانہ نظر آرہا ہوتا ہے اور اس تک جانا اسے ناگوار ہوتا ہے۔ اس کی اس آواز کو حیوانات و جمادات سمیت تمام مخلوقات سنتے ہیں ماسوا انسان کے اور اگر انسان اسے سن لے تو غشی کھا کرگر جائے یا پھراس کی وجہ سے ہلاک ہی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3554

 
 
Hadith   421   الحديث
الأهمية: لما خلق الله آدم -صلى الله عليه وسلم- قال: اذهب فَسَلِّمْ على أولئك -نَفَرٍ من الملائكة جلوس-  فاستمع ما يُحَيُّونَكَ؛ فإنها تَحِيَّتُكَ وتحية ذُرِّيتِكَ


Tema:

جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو جو بیٹھی ہے سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لما خلق الله آدم -صلى الله عليه وسلم- قال: اذهب فَسَلِّمْ على أولئك -نَفَرٍ من الملائكة جلوس-  فاستمع ما يُحَيُّونَكَ؛ فإنها تَحِيَّتُكَ وتحية ذُرِّيتِكَ. فقال: السلام عليكم، فقالوا: السلام عليك ورحمة الله، فَزَادُوهُ: ورحمة الله».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو جو بیٹھی ہے، سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔چنانچہ انہوں نے کہا: السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب دیا:السلام علیک و رحمۃ اللہ۔ ان فرشتوں نے لفظ رحمۃ اللہ کا اضافہ کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: لما خلق الله آدم أمره الله أن يذهب إلى نَفَرٍ من الملائكة، والنفر ما بين الثلاثة والتسعة، فيحييهم بالسلام، ويستمع إلى إجابتهم عليه، فتكون تلك التحية المتبادلة بينه وبينهم هي التحية المشروعة له ولذريته من بعده ممن هم على دين الرسل، ويتبعون سنتهم.
فقال: السلام عليكم، فقالوا: السلام عليك ورحمة الله ، فزادوه : "ورحمة الله"، فكانت هذه الصيغة هي المشروعة عند إلقاء السلام والرد عليه، وجاءت الأحاديث الأخرى بزيادة: "ورحمة الله وبركاته" سواء في إلقاء السلام أو رده.
581;دیث کا مفہوم: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ فرشتوں کی ایک جماعت کو جا کر سلام کریں اور وہ انہیں جو جواب دیں اسے سنیں۔ یہ باہمی سلام و جواب ان کے لیے اور ان کے بعد ان کی اولاد کے لیے، جو رسولوں کے لائے گئے دین پر قائم ہوں گے، مشروع سلام ہو گا۔ چنانچہ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم۔ اوراس کے جواب میں فرشتوں نے کہا: السلام عليك ورحمة الله۔ فرشتوں نے ”ورحمۃ اللہ“ کے الفاظ کا اضافہ کیا۔ چنانچہ سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے لیے یہی الفاظ مشروع ٹھہرے۔دیگر احادیث میں ”ورحمۃ اللہ و برکاتہ“ کے الفاظ کی زیادتی آئی ہے چاہے یہ سلام کرنے میں ہو یا اس کا جواب دینے میں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3556

 
 
Hadith   422   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، أَرَأَيتَ إن جاء رجُل يُريد أخذ مالي؟ قال: فلا تُعْطِه مالك


Tema:

یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص آ کر مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے (تو مجھے کیا کرنا چاہیے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے اپنا مال نہ دو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، أَرَأَيتَ إن جاء رجُل يُريد أَخْذَ مالي؟ قال: «فلا تُعْطِه مالك» قال: أَرَأَيتَ إن قَاتَلَني؟ قال: «قَاتِلْه» قال: أَرَأَيتَ إن قَتَلَنِي؟ قال: «فأنت شهيد» قال: أَرَأَيتَ إن قَتَلْتُه؟ قال: «هو في النَّار».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص آکر مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے (تو مجھے کیا کرنا چاہیے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنا مال نہ دو۔ اس نے پوچھا کہ اگر وہ مجھ سے لڑے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس سے لڑو۔ اس نے مزید پوچھا کہ اگر اس نے مجھے قتل کر دیا تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس صورت میں تم رُتبۂ شہادت پر فائز ہو جاؤ گے۔ اس نے دریافت کیا کہ اگر میں نے اسے قتل کر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس صورت میں وہ جہنم رسید ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: أخبرني يا رسول الله، ما الذي يحق لي فعله، لو أن رجلًا جاء ليأخذ مالي بغير وجه حق، قال: "فلا تُعْطِه مالك". قال: أخبرني يا رسول الله ما الذي يحق لي فعله إن قاتلني. قال: دافع عن مالك ولو أدى ذلك إلى قتاله، لكن بعد أن تدفعه أولاً بالأسهل فالأسهل، كالاستغاثة مثلاً أو بالتخويف بالعصا أو إطلاق النار إلى غير جهته.
قال: فلو تمكن مني وقتلني، فما هو مصيري؟ قال: لك أجر من مات شهيدًا.
قال: فلو أنني تمكنت منه وقتلته دفاعاً عن مالي، فما هو مصيره؟
قال: هو في النَّار إلى أمَدٍ ما لم يستحل فعله ذلك، فإنه يكون خالدًا مخلدًا؛ لأنه مستحل لما هو معلوم تحريمه من الدين بالضرورة.
585;سول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص آکر میرا مال ناحق مجھ سے چھیننا چاہے تو مجھے کیا کرنے کا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنا مال نہ دو۔ اس نے مزید پوچھا کہ مجھے یہ بتائیں کہ اگر وہ مجھ سے لڑنے لگے تو میں کیا کرنے کا حق رکھتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مال کا دفاع کرو اگرچہ اس کی وجہ سے اس سے لڑنا پڑے۔ تاہم پہلے آپ کو آسان سے آسان تر طریقے سے اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے لوگوں سے مدد مانگ کر یا اسے چھڑی یا اس کی سمت کے بجائے کسی اور طرف فائرنگ وغیرہ کر کے ڈرا دھمکا کر۔
اس شخص نے پوچھا اگر وہ مجھ پر قابو پا لے اور مجھے قتل کر دے تو میرا انجام کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تجھے شہید کا اجر ملے گا۔ اس نے دریافت کیا کہ اگر میں اس پر قابو پا لوں اور اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے اسے قتل کردوں تو اس کا کیا انجام ہو گا؟۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک متعینہ مدت کے لیے دوزخ میں جائے گا بشرطیکہ وہ اس عمل کو حلال سمجھ کر نہ کرتا ہو۔ اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہوا تو اس صورت میں ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ کیونکہ اُس نے ایک ایسی شے کو حلال سمجھا جو دین میں بدیہی طور پر حرام ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3557

 
 
Hadith   423   الحديث
الأهمية: أربعون خَصْلَة: أعلاها مَنيحةُ العَنز، ما من عامل يَعمل بِخَصْلة منها؛ رجاء ثوابها وتصديق مَوْعُودِها، إلا أدخله الله بها الجنة


Tema:

چالیس خصلتیں جن میں سب سے اعلیٰ و ارفع دودھ دینے والی بکری کا ہد یہ کرنا ہے۔ ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے ایک خصلت پر بھی عمل پیرا ہوگا ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔

عن أبي محمد عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أربعون خَصْلَة: أعلاها مَنيحةُ العَنز، ما من عامل يَعمل بِخَصْلة منها؛ رجاء ثوابها وتصديق مَوْعُودِها، إلا أدخله الله بها الجنة».

ابو محمد عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چالیس خصلتیں جن میں سب سے اعلیٰ و ارفع دودھ دینے والی بکری کا ہد یہ کرنا ہے ــــــــــــ ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک خصلت پر بھی عمل پیرا ہوگا ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رغَّب النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته ببذل المعروف وذكر العدد وأنه أربعون خصلة، وأبهم النوع غير خصلة واحدة هي أعلاها، وهي: أن يكون عند الإنسان غنم فيمنح أنثاها لفقير لينتفع بحليبها، فإذا قضى حاجته منها أرجعها إلى صاحبها.
ليفهم أن هذه الأعمال يسيرة وكثيرة، ليتنافس الناس في عمل الخير.
585;سول اللہ ﷺ نے امت کو نیکی پر ابھارا ہے اور اس کا عدد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ چالیس خصلتیں ہیں تاہم ان کی نوعیتوں کو مبہم رکھا ہے سوائے ایک خصلت کے جو ان میں سب سے بلند تر ہے وہ یہ ہےکہ کسی انسان کے پاس (دودھ دینے والی) بکری ہو اور وہ اسے فقیر کو ہدیہ کر دے تاکہ وہ اس کے دودھ سے فائدہ حاصل کرے۔ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو مالک کو واپس کر دے۔اس سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ اس طرح بہت سارے آسان اعمال ہیں کہ جس میں لوگ خیر کے معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3558

 
 
Hadith   424   الحديث
الأهمية: ارْمُوا بَنِي إسماعيل، فإن أبَاكُم كان رَامِيًا


Tema:

اے اولاد اسماعیل! تم تیر اندازی کرو، کیونکہ تمہارے باپ تیر انداز تھے۔

عن سَلَمَة بن الأكْوَع -رضي الله عنه- قال: مَرَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- على نَفَرٍ يَنْتَضِلُون، فقال: «ارْمُوا بَنِي إسماعيل، فإن أبَاكُم كان رَامِياً».

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا ایسی جماعت پر سے گزر ہوا جو بطور مقابلہ تیر اندازی کر رہی تھی، تو آپ ﷺ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: ”اے اولادِ اسماعیل! تم تیر اندازی کرو، کیوں کہ تمہارے باپ (اسماعیل علیہ السلام) بھی تیر انداز تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر سَلَمَة بن الأكْوَع -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- مرَّ على بعض أصحابه وهم يترامون بالسهام، أيهم يفوز على صاحبه، فأقرهم على ما هم عليه، بل وحَثَّهم بقوله: " ارْمُوا بَنِي إسماعيل" أي داوموا على الرمي وحافظوا عليه، فإنه من نِعَم الله تعالى عليكم يا بني إسماعيل -ويقصد: العرب- أن أباكم إسماعيل بن إبراهيم -عليهما السلام- كان ممن يُجِيد الرمي ويحسنه.
587;لمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ کا گزر اپنے چند ساتھیوں پر ہوا جو تیراندازی کا مقابلہ کر رہے تھے کہ کون اپنے ساتھی پر سبقت لے جاتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی تائید کی اور یہ کہہ کر ان کا حوصلہ بڑھایا کہ اے اولادِ اسماعیل تیر اندازی کرو، یعنی اس کو لازم پکڑو اور اس پر قائم رہو کیوں کہ اے اولاد اسماعیل! یہ تمہارے اوپر اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اور آپ اس سے عربوں کو مراد لے رہے تھے، کیوں کہ تمہارے باپ اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام ایک اچھے اور بہترین تیر انداز تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3559

 
 
Hadith   425   الحديث
الأهمية: إن لك ما احتسبت


Tema:

بلا شبہ تیرے لیے وہ ثواب ہے جس کی تجھے امید ہے۔

عن أبي بن كعب -رضي الله عنه- قال: كان رجل من الأنصار لا أعلم أحدا أبعد من المسجد منه، وكانت لا تخطئه صلاة، فقيل له: لو اشتريت حمارا لتركبه في الظلماء وفي الرمضاء، قال: ما يسرني أن منزلي إلى جنب المسجد، إني أريد أن يكتب لي ممشاي إلى المسجد، ورجوعي إذا رجعت إلى أهلي. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «قد جمع الله لك ذلك كله»

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار میں ایک آدمی تھا میں نہیں جانتا کہ کسی اور شخص کا گھر مسجد سے اس سے زیادہ دور تھا، اور اس سے کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی۔ تو اس سے کہا گیا: اگر تو ایک گدھا خرید لے جس پر تو اندھیرے میں اور گرمی کی شدت میں سوار ہو کر آیا کرے؟ اس نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے بغل میں ہو، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف چل کر جانا اور پھر وہاں سے میرا لوٹنا، جب میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹوں یہ سب کچھ میرے حساب میں لکھا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے یہ سب تیرے لیے جمع کردیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الذهاب إلى المساجد، وكذلك الرجوع منها، إذا احتسب الإنسان ذلك عند الله -تعالى-، فإنه يؤجر على ذلك فهذا الحديث في قصة الرجل الذي كان له بيت بعيد عن المسجد، وكان يأتي إلى المسجد من بيته من بُعد، يحتسب الأجر على الله، قادما إلى المسجد وراجعا منه. فقال له بعض الناس: لو اشتريت حمارا تركبه في الظلماء والرمضاء، يعني في الليل حين الظلام، في صلاة العشاء وصلاة الفجر، أو في الرمضاء، أي في أيام الحر الشديد، ولا سيما في الحجاز، فإن جوها حار.
فقال -رضي الله عنه-: ما يَسرني أن بيتي إلى جنب المسجد؛ يعني أنه مسرور بأن بيته بعيد عن المسجد، يأتي إلى المسجد بخطى، ويرجع منه بخطى، وأنه لا يسره أن يكون بيته قريبا من المسجد، لأنه لو كان قريبا لم تكتب له تلك الخطى، وبين أنه يحتسب أجره على الله -عز وجل-، قادما إلى المسجد وراجعا منه، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: (قد جمع الله لك ذلك كله).
والمعنى: أن الله -تعالى- حقق لك ما ابتغيته من كتابة ذهابك ورجوعك.
وفي لفظ : (إن لك ما احتسبت).
605;سجد کی طرف جانا اور وہاں سے واپس لوٹنا۔ اگر انسان اس سے اللہ کے یہاں اجر و ثواب کی امید رکھے تو اسے اس پر اجر دیا جائے گا۔ اس حدیث میں اس شخص کا واقعہ ہے جس کا گھر مسجد سے دور تھا، اور وہ بہت دور سے مسجد کی طرف آتا تھا اور وہ مسجد کی طرف آتے اور وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا تھا۔ تو بعض لوگوں نے ان سے کہا اگر آپ ایک گدھا خرید لیں تاکہ اندھیرے میں اور گرمی کی شدت میں اس پر سوار ہو کر آیا کریں، یعنی عشاء اور فجر کی نماز کے اندھیرے میں اور سخت گرمی یعنی گرمی کے موسم میں بالخصوص حجاز میں، جہاں کی فضا بہت گرم ہوتی ہے۔
صحابی نے کہا کہ اگر میرا گھر مسجد کے پہلو میں ہو تو یہ میری خوشی کا باعث نہیں۔ یعنی وہ اس پر خوش ہے کہ اس کا گھر مسجد سے دور ہے اور وہ مسجد تک پیدل چل کر آتا ہے اور پیدل واپس لوٹتا ہے۔ اور اسے اپنے گھر کے مسجد سے قریب ہونے پر خوشی نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا گھر مسجد سے قریب ہوتا تو اس کے لیے ان قدموں کی نیکی نہیں لکھی جاتی۔ اور اس نے یہ بیان کیا کہ وہ مسجد جاتے آتے ان قدموں پر اللہ کے ہاں نیکیوں کی امید رکھتا ہے۔ اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے یہ سب ثواب تیرے لیے جمع کردیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مسجد تک آتے جاتے جس چیز کی تم امید رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اسے لکھ دیا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے: ”إِنَّ لَكَ مَا احْتَسَبْتَ“ یعنی بلا شبہ تیرے لیے وہ ثواب ہے جس کی تجھے امید ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3561

 
 
Hadith   426   الحديث
الأهمية: اشْفَعُوا تُؤجَرُوا، ويقضي الله على لسانِ نبيه ما أحب


Tema:

سفارش کرو، تمہیں (بھی) ثواب ملے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند کرتاہے فیصلہ فرما دیتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا أتاه طالب حاجة أقبل على جُلسائِه، فقال: «اشْفَعُوا تُؤجَرُوا، ويَقْضِي الله على لسانِ  نَبِيِّه ما أحب». وفي رواية: «ما شاء».

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو آپ اپنے ہم مجلس لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے: تم (اس کی) سفارش کرو، تمہیں بھی اجر ملے گا۔ اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند کرتاہے فیصلہ فرما دیتاہے۔
اور ایک روایت میں ہے: ”مَا شَاءَ“ یعنی (اللہ) جو چاہتا ہے (فیصلہ فرما دیتاہے)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث متضمن لأصل كبير وفائدة عظيمة، وهو أنه ينبغي للعبد أن يسعى في أمور الخير، سواء أثمرت مقاصدها ونتائجها أو حصل بعضها، أو لم يتم منها شيء. وذلك كالشفاعة لأصحاب الحاجات عند الملوك والكبراء، ومن تعلقت حاجاتهم بهم ، فإن كثيراً من الناس يمتنع من السعي فيها إذا لم يعلم قبول شفاعته. فيفوّت على نفسه خيراً كثيراً من الله، ومعروفاً عند أخيه المسلم. فلهذا أمر النبي صلّى الله عليه وسلم أصحابه أن يساعدوا أصحاب الحاجة بالشفاعة لهم عنده ليتعجلوا الأجر عند الله، لقوله: (اشفعوا تؤجروا) فإن الشفاعة الحسنة محبوبة لله، ومرضية له، قال تعالى: (من يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا) , ومع تعجله للأجر الحاضر، فإنه أيضاً يتعجل الإحسان وفعل المعروف مع أخيه، ويكون له بذلك عنده يد.
وأيضاً، فلعل شفاعته تكون سبباً لتحصيل مراده من المشفوع له أو لبعضه.
فالسعي في أمور الخير والمعروف التي يحتمل أن تحصل أو لا تحصل خير عاجل، وتعويد للنفوس على الإعانة على الخير، وتمهيد للقيام بالشفاعات التي يتحقق أو يُظن قبولها. 
قوله: "ويقضي الله على لسان نبيه ما شاء"، أي ما أراد مما سبق في علمه من وقوع الأمر وحصوله أو عدمه، فالمطلوب: الشفاعة. والثواب مرتب عليها، سواء حصل المشفوع به أو قام مانع من حصوله.
740;ہ حدیث ایک بہت بڑے اصول اورایک بہت ہی مفید بات پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ بھلائی کے کاموں میں کوشاں رہے چاہے ان کے مقاصد اور ثمرات و نتائج حاصل ہوں، یا ان کا کچھ حاصل ہو، یا ان میں سے کچھ بھی پورا نہ ہو۔ جیسے کہ ضرورت مندوں کی حکمرانوں، بڑے لوگوں اور جن کے ساتھ ان کی ضروریات وابستہ ہیں ان کے پاس سفارش کرنا۔ بہت سے لوگوں کو اگر یہ یقین نہ ہو کہ ان کی سفارش قبول ہوگی تو وہ سفارش کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کرکے وہ اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے ملنے والی ایک بہت بڑی بھلائی سے اور اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کی جاسکنے والی ایک نیکی سے اپنے آپ کو محروم کردیتے ہیں ۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ضرورتمندوں کی آپ ﷺ کےپاس سفارش کرکے ان کی مدد کیا کریں تاکہ اللہ تعالی سے اس کا فوری ثواب پاسکیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''سفارش کرو، تمہیں اجر ملے گا۔'' کیونکہ اچھی سفارش اللہ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا﴾ (النساء: 85) ”جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے، اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا“۔ فوری اجر پانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بھائی کے ساتھ نیکی اور بھلائی بھی کرتا ہے اور یوں اس کا اس پر احسان بھی ہوجاتا ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کی سفارش کی بدولت اس شخص کی پوری یا جزوی مقصد برآری بھی ہوجائے۔
اچھی چیزوں اور بھلائی کے کاموں میں سعی وکوشش کرنا جن کے حاصل ہونے یا نہ ہونے دونوں کا امکان رہتا ہے بذات خود ایک فوری نیکی ہے اور نفس کو بھلائی کے کام میں مدد کرنے کا عادی بنانا ہے اور ایسی سفارشیں کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے جن کے قبول ہونے کا یقین،یا گمان ہوتا ہے۔
آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہتا ہے فیصلہ فرما دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کے علم میں گذر چکا ہے اس میں سے جس چیز کا اللہ ارادہ کرتا ہے فیصلہ فرمادیتا ہے۔ چنانچہ جو شے مطلوب ہے وہ سفارش کا کرنا ہے ۔ اور اس پر ثواب مل کر رہتا ہے چاہے جس شے کی سفارش کی جائے وہ حاصل ہو یا پھر کسی رکاوٹ کی وجہ سے حاصل نہ ہوسکے ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3563

 
 
Hadith   427   الحديث
الأهمية: إذا اقترب الزَمَان لم تَكَدْ رؤيا المؤمن تكذب، ورؤيا المؤمن جُزْءٌ من ستة وأربعين جُزْءًا من النُّبُوَّةِ


Tema:

جب زمانہ (قیامت کے) قریب ہو جائے گا تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا۔ اور مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا اقترب الزمان لم تَكَدْ رؤيا المؤمن تكذب، ورؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة». 
وفي رواية: «أصدقكم رؤيا، أصدقكم حديثا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب زمانہ (قیامت کے) قریب ہو جائے گا تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا۔ اور مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”'تم میں خواب کے اعتبار سے زیادہ سچا وہ ہے جو تم میں بات میں سب سے زیادہ سچا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن رؤيا المؤمن في آخر الزمان تكون صادقة، فقد تكون خبراً عن شيء واقع، أو شيء سيقع فيقع مطابقاً للرؤيا؛ فتكون هذه الرؤيا كوحي النبوة في صدق مدلولها
"ورؤيا المؤمن جُزْءٌ من ستة وأربعين جُزْءًا من النُّبُوَّةِ " يعني : من أجزاء علم النُّبُوَّةِ من حيث إن فيها إخبارًا عن الغيب وَالنُّبُوَّةُ غير باقية لكن علمها باق.  
وإنما خُص هذا العدد؛ لأن عُمْر النبي صلى الله عليه وسلم في أكثر الروايات الصحيحة كان ثلاثا وستين سنة وكانت مدة نُبُوَّتِهِ منها ثلاثا وعشرين سنة؛ لأنه بُعث عند استيفاء الأربعين وكان قبل البعثة يرى في المنام لمدة ستة أشهر الرؤيا الصالحة، فتأتي مثل فَلَقِ الصبح واضحة جَلِّية، ثم رأى الملك في اليقظة، فإذا نُسبت مدة الوحي في المنام، وهي: ستة أشهر إلى مدة نُبُوَّتِهِ وهي: ثلاث وعشرون سنة كانت الستة أشهر: نصف جزء من ثلاثة وعشرين جزء وذلك جزء واحد من ستة وأربعين جزء.  
وقوله: "أَصْدَقُكُمْ رؤيا، أَصْدَقُكُمْ حديثا" معناه: إذا كان الإنسان صادقا في حديثه قريبا من الله، كانت رؤياه أقرب إلى الصدق غالبًا، ولهذا قيده في حديث البخاري: "الرُّؤْيَا الحَسَنَةُ، مِنَ الرَّجُلِ الصالح..".
أما من لا يَصدق في حديثه، ويأتي الفواحش ما ظهر منها وما بطن، فهذا غالبًا ما تكون رؤياه من باب تلاعب الشيطان به.
قال ابن القيم -رحمه الله-: "ومن أراد أن تَصْدُقَ رؤياه فليَتَحر الصدق وأكل الحلال، والمحافظة على الأمر والنهي، ولينم على طهارة كاملة مستقبل القبلة، ويذكر الله حتى تغلبه عيناه، فإن رؤياه لا تكاد تكذب البتة".
581;دیث کا مفہوم: آخری زمانے میں مومن کے خواب سچے ہوا کریں گے۔ بعض اوقات تو وہ کسی واقع شدہ چیز کے بارے میں،اور کبھی تو کسی آئندہ واقع ہونے والی چیز کے بارے میں خبر ہوتے ہیں، جو عین خواب کے مطابق واقع ہوتی ہے۔ اس قسم کے خواب اپنے مدلول کے سچ ثابت ہونے کے اعتبار سے نبوت کی وحی کی مانند ہیں۔
مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ یعنی خواب نبوت کے علم کے اجزاء میں سے ہے بایں طور کہ اس میں غیب کی خبر ہوتی ہے۔ نبوت تو باقی نہیں رہی لیکن اس کا علم باقی ہے۔
چھیالیس کے عدد کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا کیونکہ نبی ﷺ کی مدت عمر زیادہ تر صحیح روایات کے مطابق تریسٹھ سال کی تھی، جس میں نبوت کی مدت تیئیس سال تھی; کیونکہ آپ ﷺ کو اس وقت مبعوث کیا گیا جب آپ پورے چالیس سال کے ہو چکے تھے۔ آپ ﷺ بعثت سے قبل چھ ماہ تک سچے خواب دیکھتے رہے جو صبح کو ایسے حقیقت بنتے جیسے صبح کا تڑکا واضح ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے حالت بیداری میں فرشتے کو دیکھا۔ اگر حالت خواب میں آنے والی وحی کی مدت جو کہ چھے ماہ ہے اور آپ ﷺ کی نبوت کی مدت جو کہ تیئیس سال ہے، کی باہمی نسبت کو دیکھا جائے تو چھہ مہینہ تیئیس حصوں کا نصف حصہ بنتا ہے، اور وہی چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ بنتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں خواب کے اعتبار سے سب سے سچا وہ ہے جس کی بات سب سے زیادہ سچی ہے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ جب بندہ اپنی بات میں سچا اور اللہ کے قریب ہوتا ہے تو غالب طور پر اس کا خواب سچ کے قریب تر ہوتا ہے۔ اسی لیے بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ قید لگائی گئی ہے کہ ”نیک شخص کا سچا خواب ...“
البتہ جو شخص بات میں سچا نہیں ہوتا اور وہ ظاہری و باطنی برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے تو عام طور پر اس کا خواب اس کے ساتھ شیطان کے کھلواڑ کے قبیل سے ہوتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے خواب سچے ہوں تو وہ سچ بولے، حلال کھائے، احکامات وممنوعات کا خیال کرے اور مکمل طہارت کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر سوئے اور اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ نیند اس پر غالب آ جائے، تو ایسے شخص کے خواب جھوٹے نہیں ہوں گے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3564

 
 
Hadith   428   الحديث
الأهمية: قُومِي فأوْتِري يا عائشة


Tema:

اے عائشہ! اٹھو اور وتر پڑھو۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلي صلاته بالليل، وهي مُعْتَرِضَةٌ بين يديه، فإذا بقي الوتر، أيقظها فأوترت. وفي رواية له: فإذا بقي الوتر، قال: «قومي فأوْتِري يا عائشة».

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور وہ ان کے سامنے لیٹی ہوتیں۔ جب وتر باقی رہ جاتی، تو آپ ﷺ انھیں بھی جگا دیتے اور وہ اٹھ کر وتر پڑھتیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب وتر باقی رہ جاتی، تو آپ ﷺ فرماتے:”اے عائشہ! اٹھو اور وتر پڑھو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلي صلاة الليل، وعائشة رضي الله عنها مُعْتَرِضَةٌ بَيَن يَدَيه، وفي رواية للبخاري ومسلم عنها: "أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يُصلي من الليل وأنا مُعْتَرِضَةٌ بَيَنه وَبَيْن القِبلة، كاعتِرَاض الجَنازة".   فإذا فَرغ النبي صلى الله عليه وسلم من صلاة التهجد، وقبل أن يشرع في صلاة الوتر أيْقَظها لتوتر وفي رواية لمسلم: فإذا بَقي الوِتر، قال: "قُومِي فأوْتِري يا عائشة" . وفي رواية لأبي داود: "حتى إذا أراد أن يوتر أيْقَظها فأوترت".
والمعنى: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- يترك عائشة -رضي الله عنها- أول الليل ولا يُوقظها، حتى إذا فرغ من صلاته ولم يبق إلا الوتر أيقظها لتدرك وترها وتبادر بالوتر عقب الاستيقاظ لئلا يغلب عليها كسل النوم لو تماهلت عنه فيفوتها.
581;دیث کا مفہوم: نبی ﷺ رات کو نماز پڑھا کرتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: ”نبی ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ ﷺ کے اور قبلہ کے مابین ایسے پڑی ہوتی، جیسے جنازہ پڑا ہوتا ہے“۔
جب نبی ﷺ نماز تہجد سے فارغ ہو جاتے، تو وتر کی نماز شروع کرنے سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا کو جگا دیتے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب وتر باقی رہ جاتی، تو آپ ﷺ فرماتے: اے عائشہ! اٹھو اور وتر پڑھو۔
ابوداود کی روایت میں ہے: ”یہاں تک کہ جب آپ ﷺ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے، تو انھیں جگا دیتے اور وہ وتر پڑھتیں“۔
یعنی آپ ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑے رکھتے اور انھیں نہیں جگاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو جاتے اور صرف وتر باقی رہ جاتی، تو انھیں جگا دیتے؛ تاکہ وہ اپنی وتر پڑھ لیں اور وہ اٹھنے کے فورا بعد وتر پڑھا کرتی تھیں، اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں ان پر نیند کی سستی غالب نہ آ جائے اور تاخیر کی صورت میں کہیں یہ چھوٹ ہی نہ جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3565

 
 
Hadith   429   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك، وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ، وأعُوذ بِك مِنْك، لا أُحْصِي ثَناءً عليك أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك


Tema:

اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے اور تیری عافیت کے ذریعے سے تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سےتیرے قہر و غضب سے، میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: افْتَقَدْتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة، فَتَحَسَّسْتُ، فإذا هو راكع -أو ساجد- يقول: «سُبْحَانَك وبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت» وفي رواية: فَوَقَعَتْ يَدِي على بَطن قدميه، وهو في المسجد وهما مَنْصُوبَتَانِ، وهو يقول: «اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك، وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ، وأعُوذ بِك مِنْك، لا أُحْصِي ثَناءً عليك أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی ﷺ کو (بستر پر) نہیں پایا، پس میں نے تلاش کیا تو دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدے کی حالت میں یہ فرما رہے ہیں: ”سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ“ اے اللہ! تو پاک ہے اپنی خوبیوں کے ساتھ، تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے: (تلاش کرتے ہوئے) میرا ہاتھ آپ کے پیروں کے تلوؤں میں جالگا، جب کہ آپ مسجد کے اندر (حالتِ سجدہ میں) تھے اور آپ کے دونوں پیر کھڑے تھے اور آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ“ اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے اور تیری عافیت کے ذریعے سے تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سےتیرے قہر و غضب سے، میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث تخبر عائشة -رضي الله عنها- أنها افتقدت النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة، فلم تجده على فراشه؛ فذهبت تبحث عنه وكانت تظن -رضي الله عنها- أنه قد ذهب إلى بعض نسائه، ثم وجدته -صلى الله عليه وسلم- وهو راكع أو ساجد، يقول: سُبْحَانَك وبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت. أي: أنزهك عن كل ما لا يليق بك، وأحمدك على جميع أفعالك، فأنت أهل الثناء والحمد المطلق، لا إله إلا أنت.
وفي رواية: أنها عندما كانت تبحث عنه وقعت يَدها على بَطن قدميه؛ لأنه ليس هناك إضاءة ترى فيها شخصه -صلى الله عليه وسلم- ، وإنما كانت تَتَلمس بيدها حتى وقعت يدها عليه، وهو ساجد، فلما وجدته -رضي الله عنها- سمعته يقول: "اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك" أي: ألتجئ إلى هذه من هذه، والشيء إنما يُداوى بضده، فالسَخَط ضده الرضا، فيستعيذ برضا الله -تعالى- من سَخَطه.
"وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ" وأستعيذ بعفوك، من عُقُوبتك.
"وأعُوذ بِك مِنْك" أي استعيذ بالله مِن الله -عز وجل- وذلك؛ لأنه لا مَنْجَى ولا مَلْجَأ من الله إلا إليه، لا أحد ينجيك من عذاب الله إلا الله -عز وجل-.
"لا أُحْصِي ثَناءً عليك" أي لا أستطيع أن أثني عليك بما تستحقه مهما بَالَغت في الثناء عليك، بل أنا قَاصرٌ عن أن يبلغ ثنائي قَدْر استحقاقك.   "أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك" يعني أثني عليك ثناء كما أثنيت على نفسك لا يمكن لأحد أن يحصي ثناء على الله كما أثنى الله على نفسه.
575;س حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا خبر دے رہی ہیں کہ ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو كو گم پايا یعنی آپ کو بستر پرموجود نہیں پایا، چنانچہ وہ آپ ﷺ كو ڈهونڈنے لگیں، ان کا خیال تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں، پهر انہوں نے آپ ﷺ كو رکوع یا سجدہ کی حالت میں یہ دعا کرتے ہوئے پایا: ”سُبْحَانَك وبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت“ اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتا ہوں، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ یعنی میں تجھے پاک مانتا ہوں ان تمام چیزوں سے جو تیرے شایان شان نہیں اور میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں تیرے تمام افعال پر پس تو ہر طرح کی حمد و ثنا کا سزاوار ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: جس دوران وہ آپ ﷺ کو ڈهونڈنے میں لگی ہوئی تھیں ان کا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوؤں پر جا پڑا، کیوں کہ وہاں پر روشنی نہیں تھی جس میں وہ آپ ﷺ کو دیکھ سکتیں، وہ صرف ہاتھ سے ٹٹول رہی تھیں یہاں تک کہ ان کا ہاتھ آپ پر پڑا اور اس وقت آپ ﷺ سجدے ميں تهے۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈهونڈ لیا تو آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: ”اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك“ اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے، یعنی اس (رضا) کی طرف اس (ناراضی) سے پناہ میں آتا ہوں، کسی بھی چیز کا علاج اس کی ضد سے کیا جاتا ہے، پس ناراضی کی ضد رضامندی ہے، اس لیے آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ذریعہ اس کی ناراضی سے پناہ مانگتے۔
”وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ“ اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری عافیت کے ذریعہ تیری سزا سے۔
”وأعُوذ بِك مِنْك“ اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سے، یعنی میں اللہ سے اللہ عز و جل کی پناہ میں آتا ہوں، اس لیے کہ صرف اور صرف اللہ ہی ملجا و ماویٰ ہے، اللہ کے عذاب سے اللہ عز و جل کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔
”لا أُحْصِي ثَناءً عليك“ میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، یعنی میں تیری ثنا بيان کرنے میں جتنا بھی مبالغہ کر لوں مگر کما حقہ مکمل تیری ثنا بيان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور سچ تو یہ ہے کہ میں قاصر ہوں کہ میری ثنا تیرے شایانِ شان ہو سکے۔
”أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك“ تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے، یعنی میں تیری وہی ثنا بیان کرتا ہوں جو تو نے خود اپنی ثنا بيان کی ہے، کیوں کہ کسی فرد بشر کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی اس سے بہتر ثنا بیان کرسکے جو اس نے خود اپنی ثنا بيان کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3566

 
 
Hadith   430   الحديث
الأهمية: أفضل الذِّكر: لا إله إلا الله


Tema:

سب سے افضل ذکر ”لا إلٰہَ إلا الله“ ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «أفضل الذِّكر: لا إله إلا الله».

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے افضل ذکر ”لا إله إلا الله“ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن أفضل الذكر: "لا إله إلا الله" وفي حديث آخر: "أفضل ما قلت أنا والنبيون قبلي لا إله إلا الله وحده لا شريك له".
ولا شك أن هذه الكلمة كلمة عظيمة، قامت بها الأرض والسماوات، وخلقت لأجلها جميع المخلوقات، وبها أرسل الله -تعالى- رسله، وأنزل كتبه، وشرع شرائعه، ولأجلها نُصبت الموازين، ووُضِعَت الدواوين، وقام سوق الجنة والنار، ومعناها لا معبود بحق إلا الله، وشروطها سبعة: العلم واليقين والقبول والانقياد والصدق والإخلاص والمحبة، وعنها يسأل الأولون والآخرون، فلا تزول قدما العبد بين يدي الله حتى يسأل عن مسألتين: ماذا كنتم تعبدون؟ وماذا أجبتم المرسلين؟ 
فجواب الأولى بتحقيق "لا إله إلا الله" معرفةً وإقرارًا وعملًا.
وجواب الثانية بتحقيق "أن محمدا رسول الله" معرفةً وإقرارًا وانقيادًا وطاعةً.
قال -صلى الله عليه وسلم-: ( بُني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله..).
606;بی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ سب سے افضل ذکر ”لا إله إلا الله“ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کہے وہ " لا إله إلا الله وحده لا شريك له" ہے۔ بے شک یہ کلمہ بہت ہی عظیم کلمہ ہے جس سے زمین و آسمان قائم ہیں اور اسی کی وجہ سے تمام مخلوقات پیدا کی گئیں اور اسی کے ساتھ اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا، اپنی کتابیں نازل فرمائیں، اپنی شریعتیں وضع کیں اور اسی کی وجہ سے میزان نصب ہوئے، اعمال نامے مرتب کیے گئے اور اسی کے لیے جنت و جہنم کا بازار قائم ہو گا۔ اس کا معنی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کی سات شرائط ہیں: علم، یقین، قبول، فرماں برداری، صدق، اخلاص اور محبت۔ اگلے اور پچھلے سب لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بندے کے قدم اللہ کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے دو سوال نہ کرلیے جائیں؛ تم کس کی عبادت کرتے تھے؟اور تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟۔
پہلے سوال کا جواب ”لا إله إلا الله“ ہے بایں طور کہ اس کی معرفت بھی ہو، اقرار بھی اور اس پر عمل بھی۔
دوسرے سوال کا جواب ”محمد رسول اللہ“ ہے بایں طور کہ اس کی معرفت بھی ہو، اقرار بھی اور فرماں برداری اور اطاعت بھی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3567

 
 
Hadith   431   الحديث
الأهمية: أفضل الصَّدَقَات ظِلُّ فُسْطَاطٍ في سَبِيل الله ومَنِيحَةُ خَادِم في سَبِيل الله، أو طَرُوقَةُ فَحْلٍ في سَبِيل الله


Tema:

بہترین صدقہ اللہ کی راہ میں سایہ دار خیمہ لگانا، یا اللہ کے راستے میں کسی خادم کا عطیہ دینا، یا اللہ کے راستے میں جوان اونٹنی دینا ہے

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أفضل الصَّدَقَات ظِلُّ فُسْطَاطٍ في سَبِيل الله ومَنِيحَةُ خَادِم في سَبِيل الله، أو طَرُوقَةُ فَحْلٍ في سَبِيل الله».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین صدقہ اللہ کی راہ میں سایہ دار خیمہ لگانا، یا اللہ کے راستے میں کسی خادم کاعطیہ دینا، یا اللہ کے راستے میں (جفتی کے قابل) جوان اونٹنی دینا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن أفضل ما يتصدق به المرء هذه الأشياء الثلاثة، ظِلُّ فُسْطَاطٍ أو عطية خَادماً أو ناقة استحقت طرق الفحل، وسواء كانت الصدقة على المجاهدين في سبيل الله تعالى أو غيرهم من المحتاجين، فإن ذلك من سبيل الله تعالى.
ولعل أفضلية هذه الأشياء لحاجة الناس إليها في ذلك الزمان، فأراد النبي صلى الله عليه وسلم أن يُرَغِّبهم فيها، أما الآن فحاجة الناس إليها قد تكون معدومة أو أنها موجودة في بعض النواحي على وجه القلة، والحكم للغالب.
575;نسان کا بہترین صدقہ یہ تین چیزیں ہیں: خیمے کا سایہ مہیا کرنا، یا خادم کا عطیہ دینا، یا جفتی کے قابل جوان اونٹی کا صدقہ کرنا، خواہ یہ صدقہ اللہ کے راستے میں مجاہدین پر ہو، یا ان کے علاوہ دیگر محتاج لوگوں پر ہو۔ اس لئے کہ محتاجوں پر صدقہ کرنا بھی اللہ کے رساتہ میں دینا ہے۔
مذکورہ چیزوں کی افضلیت شاید اس لیے ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کو ان کی ضرورت تھی، جس کی وجہ سے نبی ﷺ نے انھیں ان چیزوں کے صدقہ کی ترغیب دی۔ البتہ اب لوگوں کو ان اشیاء کی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہے، یا ہے تو وہ صرف کچھ جگہوں میں اور بہت ہی کم ہی باقی ہے۔ جب کہ حکم اکثر کے تابع ہوتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3568

 
 
Hadith   432   الحديث
الأهمية: سُئِل رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أي الصلاة أفضل؟ قال: طُول القُنُوتِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لمبے قیام والی نماز۔

وعن جابر -رضي الله عنه- قال: سُئِل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أي الصلاة أفضل؟ قال: «طُول القُنُوتِ».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لمبے قیام والی نماز“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل الصحابة رضوان الله عليهم النبي صلى الله عليه وسلم: أي الصلاة أفضل؟ وهذا السؤال من حرصهم على إصابة أكثر قدر من الحسنات، والمراد به: أي أنواع الصلوات أفضل؟ أو: أي أعمال الصلاة أفضل؟ القيام أم الركوع أم السجود؟ فأخبر صلى الله عليه وسلم أنه طول القيام فيها.
589;حابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سی نماز سب سے زیادہ فضیلت والی ہے؟۔ یہ سوال اس لئے کیا گیا کیونکہ صحابہ کو اس بات کی چاہت تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر سکیں۔ اس سے مرادیہ ہے کہ: کس قسم کی نماز افضل ہے؟ یا پھر یہ مراد ہے کہ: نماز کا کون سا عمل افضل ہے؟ قیام کرنا یا رکوع کرنا یا سجدہ کرنا؟۔ چنانچہ آپ ﷺ نے بتایا کہ نماز میں لمبا قیام کرنا افضل عمل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3569

 
 
Hadith   433   الحديث
الأهمية: عَمِل قليلا وأُجر كثيرا


Tema:

اس شخص نے عمل تو کم کیا لیکن اسے اجر بہت زیادہ دیا گیا۔

عن البراء -رضي الله عنه- قال: أتَى النبي -صلى الله عليه وسلم- رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالحَديد، فقال: يا رسول الله، أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قال: «أَسْلِم، ثم قَاتل»، فأسْلَم ثم قاتل فَقُتِل. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «عَمِل قليلاً وأُجر كثيراً».

براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک زرہ پوش شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ: اللہ کے رسول! میں قتال کروں یا پھر اسلام لاؤں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اسلام لاؤ اور پھر قتال کرنا۔ چنانچہ وہ شخص اسلام لایا، پھر اس نے قتال میں حصہ لیا اور اس میں وہ شہید ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اس شخص نے عمل تو کم کیا لیکن اسے اجر بہت زیادہ دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يريد الجهاد معه وهو لابس للحديد وقد غطاه ولم يكن قد أسلم، فقال: يا رسول الله أُجَاهد ثم أسلم أم أسْلم ثم أجَاهد؟ فقال له :" أسلم ثم جاهد "، فأسلم الرَجُل ثم جاهد، فقاتل حتى قُتل، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "عَمِل قليلاً وأُجر كثيرًا"؛ أي: بالنسبة إلى زمان إسلامه، فالمدة بين إسلامه إلى مقتله مدة يسيرة، ومع ذلك أجر كثيراً؛ لأن الجهاد في سبيل الله تعالى لإعلاء كلمته من أفضل الأعمال وأعظمها أجرًا.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا تھا اور اس نے زرہ پہن رکھی تھی جس نے اسے پوری طرح سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اس نے تاحال اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! میں جہاد میں حصہ لوں اور پھر اسلام قبول کروں؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اسلام قبول کرو اور پھر جہاد میں حصہ لینا۔ چنانچہ وہ شخص اسلام لے آیا اور جہاد میں شریک ہوگیا۔لڑتے لڑے وہ شہید ہوگیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے عمل تو کم کیا لیکن اسے اجر بہت زیادہ دیا گیا۔ یعنی اس کے اسلام لانے کے اعتبار سے اس کے قبولیتِ اسلام اور اس کے قتل ہوجانے کے مابین بہت کم مدت ہے اس کے باوجود اجر بہت زیادہ ہے۔ کیوں کہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کرنا سب سے افضل عمل ہے اوراس کا اجر بہت زیادہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3570

 
 
Hadith   434   الحديث
الأهمية: قال لي النبي -صلى الله عليه وسلم-: اقرأ عليَّ القرآن، قلت: يا رسول الله، أقرأ عليك، وعليك أنزل؟! قال: إني أُحب أن أسمعه من غيري


Tema:

رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کو قرآن سناؤں جب کہ قرآن آپ پر ہی نازل ہوا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال لي النبي -صلى الله عليه وسلم-: «اقرأ عليَّ القرآنَ»، فقلت: يا رسول الله، أقرأ عليك، وعليك أُنزل؟! قال: «إني أحب أن أسمعه من غيري» فقرأتُ عليه سورةَ النساءِ، حتى جِئْتُ إلى هذه الآية: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا} قال: «حَسْبُكَ الآنَ» فالتفتُّ إليه، فإذا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کو قرآن سناؤں جب کہ آپ پر ہی نازل ہوا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں۔ میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک میں جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا﴾ ”پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک ایک گواه لائیں گے اور پھر آپ کو ان لوگوں پر گواه بنا کر لائیں گے“ تو آپ نے فرمایا:اب بس کرو، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طلب النبي -صلى الله عليه وسلم- من ابن مسعود -رضي الله عنه- أن يقرأ عليه القرآن، فقال: يا رسول الله، كيف أقرؤه عليك وعليك أنزل؟ فأنت أعلم به مني، فقال -صلى الله عليه وسلم-: إني أحب أن أسمعه من غيري.
فقرأ عليه سورة النساء، فلما بلغ هذه الآية العظيمة: (فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا)، يعني ماذا يكون حالك؟! وماذا يكون حالهم؟!
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: حسبك الآن. أي: توقف عن القراءة.
قال ابن مسعود: فالتفت إليه فإذا عيناه  تجري دموعهما رحمة لأمته.
606;بی کریمﷺ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کریں۔تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کے سامنے کیسے تلاوت کروں جب کہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے علاوہ کسی اور سے سننا چاہتا ہوں۔ انھوں نے آپ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیت کریمہ پر پہنچے ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا﴾ ”پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک ایک گواه لائیں گے اور پھر آپ کو ان لوگوں پر گواه بنا کر لائیں گے“ یعنی آپ کی کیا حالت ہو گی اور ان کی کیا حالت ہو گی؟
نبی کریمﷺ نے فرمایا:اب بس کرو، یعنی تلاوت روک دو۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب آپﷺ کی طرف دیکھا تو اپنی امت پر شفقت کے سبب آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3571

 
 
Hadith   435   الحديث
الأهمية: أكْثَرْتُ عليكم في السِّوَاك


Tema:

میں نے مسواک کے سلسلے میں تم لوگوں سے بارہا کہا ہے۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أكْثَرْتُ عليكم في السِّوَاك».

انس رضی اللہ عنہ رواىت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے مسواک کے سلسلے میں تم لوگوں سے بارہا کہا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أكثر على أمته في شأن استعمال السواك والمواظبة عليه في جميع الأحوال، استحباباً لا إيجاباً؛ وذلك لما فيه من المنافع والفضائل العظيمة، ومن أجلها وأعظمها أنه مَرْضَاة للرَّب -سبحانه وتعالى-.
581;دیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے سامنے مسواک کے استعمال اور ہر حال میں اس کی پابندی کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا، بایں طور کہ یہ تعلیمات وجوبی نہیں استحبابی ہیں۔ اس لیے کہ اس میں بہت فائدے ہیں اور اس کے بہت فضائل ہیں۔ ان میں سب سے عظیم وجلیل فضیلت یہ ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3572

 
 
Hadith   436   الحديث
الأهمية: ألا أُخْبِركم بأهل الجنة؟ كلُّ ضعيفٍ مُتَضَعَّفٍ ، لو أقسم على الله لَأَبَرَّهُ ، ألا أُخْبِركم بأهل النار؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ


Tema:

کیا میں تمہیں جنتیوں کی خبر نہ دوں؟، ہر کمزور شخص، جو کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لے تو اللہ اسے پوری کر دیتا ہے، کیا میں تمہیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟، ہر تند خو، سرکش، بخیل اور متکبر شخص۔

عن حارثة بن وهب -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ألا أُخْبِركم بأهل الجنة؟ كلُّ ضعيفٍ مُتَضَعَّفٍ، لو أقسم على الله لَأَبَرَّهُ، ألا أُخْبِركم بأهل النار؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ».

حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں جنتیوں کی خبر نہ دوں؟، ہرکمزور جو کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اسے پوری کر دیتا ہے، کیا میں تمہیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟، ہر تند خو، سرکش، بخیل اور متکبر شخص جہنمی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من صفات بعض أهل الجنة؛ أن الإنسان يكون ضعيفًا متضعفًا، أي: لا يهتم بمنصبه أو جاهه، أو يسعى إلى علو المنازل في الدنيا، ولكنه ضعيف في نفسه يستضعفه غيره، لو حلف على شيء ليَسَّر الله له أمره، حتى يحقق له ما حلف عليه، أما أهل النار فمنهم كل غليظ جافي الطباع قاس غير منقاد للحق، وكل من يجمع المال ويمنع ما يجب فيه من زكاة، ومن يرد الحق كبرًا ويتعالى على الناس، والحديث ليس للحصر، بل لبيان بعض صفات الفريقين.
575;ہل جنت کے بعض صفات یہ ہیں کہ وہ ناتواں، عاجزی اختیار کرنے والا ہوتا ہے، یعنی کسی منصب یا مرتبہ کی پرواہ نہیں کرتا، نہ تو دنیا میں بڑے عہدے کا طلب گار ہوتا ہے، لیکن یہ ناتواں ہوتا ہے جنہیں دوسرے کمزور سمجھتے ہیں، اگر (اللہ کے بھروسے) کسی بات کی قسم کھا لے تو اللہ اس کے لیے اس کا معاملہ آسان کر دے، یہاں تک کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اسے اللہ تعالی پوری کر دیتا ہے،
اور اہل جہنم کی بعض صفات یہ ہیں، ہر ایک جھگڑالو، حق نہ قبول کرنے والا اجڈ، مغرور اینٹھو، اور مال اکٹھا کرنے والا اور زکوة نہ دینے والا، تکبر کرتے ہوئے حق کو ٹھکرانے والا اور لوگوں پر برتری جتلانے والا ، اس حدیث میں تحدید مقصود نہیں ہے بلکہ دونوں طبقوں کے بعض صفات کا ذکر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3573

 
 
Hadith   437   الحديث
الأهمية: ألا أدلكم على ما يَمْحُو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات، قالوا: بلى، يا رسول الله، قال: إسباغ الوضوء على المكاره، وكثرة الخُطَا إلى المساجد، وانتظار الصلاة بعد الصلاة فذلِكُم الرِّباط


Tema:

کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہوں کو مٹا اور درجات کو بلند کر دیتا ہے؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسولﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا:ناگواری کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مسجد تک زیادہ قدم چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور یہی رباط ہے۔

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ألا أَدُلُّكُم على ما يَمْحُو الله به الخطايا ويرفع به الدرَجات؟» قالوا: بلى، يا رسول الله، قال: «إِسْبَاغُ الوُضُوء على المَكَارِه، وكَثْرَةُ الخُطَا إلى المساجد، وانتظارُ الصلاة بعد الصلاة فذلِكُم الرِّباط».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہوں کو مٹا اور درجات کو بلند کر دیتا ہے؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسولﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا: ناگواری کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مسجد تک زیادہ قدم چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور یہی رباط (سرحد کی پہرہ داری کرنا) ہے۔

عرض النبي -صلى الله عليه وسلم- على  أصحابه عرضًا، وهو يعلم ماذا سيقولون في جوابه، وهذا من حسن تعليمه عليه الصلاة والسلام، أنه أحيانا يعرض المسائل عرضا، حتى ينتبه الإنسان لذلك، ويعرف ماذا سيلقى إليه، قال: ألا أدلكم على ما يمحو الله به الخطايا، ويرفع به الدرجات؟.
قالوا: بلى يا رسول الله، يعني: أخبرنا فإننا نود أن تخبرنا بما نرفع به الدرجات ونمحو به الخطايا، قال:
أولا: إتمام الوضوء في حال كراهة النفس لذلك، مثل أيام الشتاء؛ لأن أيام الشتاء يكون الماء فيها باردا، فإذا أتم الإنسان وضوءه مع هذه المشقة، دل هذا على كمال الإيمان، فيرفع الله بذلك درجات العبد ويحط عنه خطيئته.
ثانيا:  أن يقصد الإنسان المساجد، حيث شرع له إتيانهن، وذلك في الصلوات الخمس، ولو بَعُد المسجد.
ثالثا: أن يشتاق الإنسان إلى الصلوات، كلما فرغ من صلاة، فقلبه متعلق بالصلاة الأخرى ينتظرها، فإن هذا يدل على إيمانه ومحبته وشوقه لهذه الصلوات العظيمة.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
فإذا كان ينتظر الصلاة بعد الصلاة، فإن هذا مما يرفع الله به الدرجات، ويكفر به الخطايا.
ثم أخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن المواظبة على الطهارة والصلاة والعبادة كالرباط في سبيل الله تعالى.
575;یک دفعہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کے سامنے ایک بات پیش کی اور آپﷺ کو علم تھا کہ وہ اس کا کیا جواب دیں گے۔ یہ آپ ﷺ کا تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہترین طریقۂ کار تھا کہ آپ ﷺ کبھی کبھار خود صحابہ کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کرتے۔ اس سے لوگ متوجہ بھی ہو جاتے ہیں اور ان کو یہ بھی پتہ ہوتا تھا کہ ان کی طرف سے جواب کیا آئے گا۔ آپﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالی گناہوں کو مٹا اور درجات کو بلند کر دیتا ہے؟
صحابہ نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسولﷺ؟ یعنی آپ ہمیں بتائیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایسی چیز کے متعلق بتائیں کہ جس سے ہم درجات کی بلندی حاصل کریں اور اپنے گناہوں کو ختم کر سکیں۔تو آپﷺ نے فرمایا:
اولاً: ناگواری کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا جیسا کہ سردی کے دنوں میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ سردیوں میں پانی شدید ٹھنڈا ہوتا ہے اور وضو کرنے میں بڑی مشقت ہوتی ہے۔ تو یہ (اچھی طرح وضو کرنا) کمالِ ایمان کی علامت ہے جس سے اللہ تعالیٰ بندے کے درجات بلند کرتا ہے اور اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
ثانیاً: انسان کا مسجدوں کی طرف قصد کرنا، اس لیے کہ اس کے لیے مسجد آنا مشروع کیا گیا ہے۔ اور یہ پنجوقتہ نمازوں کے لیے، مسجد کی دوری کے باوجود مسجد آنا ہے۔
ثالثاً: ایک نماز سے فارغ ہو کر انسان کا دوسری نماز (کی ادائیگی) کا شوق رکھنا اور دوسری نماز کے لیے دل معلق رہے اور نماز کا انتظار کرے۔ یہ چیز اس کے ایمان، محبت اور نماز جیسی عظیم عبادت کے شوق کی دلیل ہے۔ اگر ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرماتا ہے اور اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ طہارت، نماز اور عبادت کا اہتمام کرنا ایسے ہی ہے جیسے اللہ کے راستے (جہاد) میں سرحد کی پہرہ داری کرنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3574

 
 
Hadith   438   الحديث
الأهمية: ألا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أعْمَالِكُم، وأزْكَاها عند مَلِيكِكُم


Tema:

کیا میں تم کو تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے ہاں سب سے پاکیزہ عمل کے بارے میں نہ بتاؤں؟

عن أبي الدَّرْدَاء -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ألا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أعْمَالِكُم، وأزْكَاها عند مَلِيكِكُم، وأرْفَعِهَا في دَرَجَاتِكُمْ، وخير لكم من إنْفَاق الذهب والفضة، وخير لكم من أن تَلْقَوا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أعْنَاقَهُمْ ويَضْرِبوا أعْنَاقَكُم؟» قالوا: بلى، قال: «ذكر الله -تعالى-».

ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تم کو تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے ہاں سب سے پاکیزہ عمل، جو تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا، تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تمہارا دشمنوں سے مڈبھیر ہو اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں کاٹیں؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال النبي صلى الله عليه وسلم: ألا أخبركم بخير أعمالكم، وأكثرها ثوابا وأطهرها عند ربكم، وأزيدها في رفع درجاتكم، وخير لكم من أن تنفقوا الذهب والفضة في سبيل الله، وخير لكم من أن تلقوا الكفار في معترك الحرب فتضربوا أعناقهم لإعلاء كلمة الله تعالى. فقال الصحابة: بلى يا رسول الله. قال: ذكر الله تعالى
606;بی ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو تمہارے سب سے بہتر عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جو زیادہ ثواب کا باعث، تمہارے رب کے ہاں سب سے پاکیزہ، سب سے زیادہ تمہارے درجات کی بلندی کا ذریعہ، اللہ کے راستے میں سونا اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر اور میدانِ جہاد میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دشمن کی گردنیں اڑانے سے بھی بہتر ہے؟ صحابہ کرام نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں؟ ضرور بتائیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3575

 
 
Hadith   439   الحديث
الأهمية: يا أم حارثة إنها جِنَان في الجنة، وإن ابْنَك أصَاب الفِردَوْس الأعلى


Tema:

اے ام حارثہ! جنت میں بہت سی جنتیں ہیں ہیں، تیرے بیٹے نے تو فردوس اعلی پائی ہے۔

عن أنس -رضي الله عنه- أن أم الرُّبيع بنت البراء وهي أم حارثة بن سُراقة، أتَت النبي -صلى الله عليه وسلم- فقالت: يا رسول الله، ألا تُحَدِّثُنِي عن حارثة -وكان قُتِل يوم بَدْرٍ- فإن كان في الجنَّة صَبَرْت، وإن كان غير ذلك اجْتَهَدْتُ عليه في البُكَاء، فقال: «يا أم حارثة، إنها جِنَان في الجنة، وإن ابْنَك أصَاب الفِردَوْس الأعلى».

انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ام ربیع بنت براء جو حارثہ بن سراقہ کی والدہ تھیں، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں: یا رسول اللہ! آپ مجھے حارثہ کے بارے نہیں بتائیں گے (کہ وہ کس حال میں ہے) -وہ جنگ بدر میں شہید ہو گئے تھے- اگر تو وہ جنت میں ہے، تو میں صبر کروں اور اگر جنت میں نہیں، تو میں اس پر خوب رؤوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام حارثہ! جنت میں بہت سی جنتیں ہیں ہیں، تیرے بیٹے نے تو فردوس اعلی پائی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن حارثة بن سُرَاقة -رضي الله عنه- كان قد استشهد يوم بدر بسهم طائش لا يُعرف مصدره، فجاءت أُمَّه إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- تسأله عن مصيره وخشيت ألا يكون من الشهداء؛ لأنه قتل برمية غير مقصودة ولم يكن ممن حضروا المعركة، كما هو مصرح به في الحديث: "وكان قُتل يوم بَدْر أصابه سهم غَرْب" أي لا يعرف راميه، أو لا يُعْرَف من أي جهة جاء.
وفي رواية عند أحمد والنسائي: عن أنس -رضي الله عنه-: "أن حارثة خَرَج نَظَّارا أي: من الذين طلبوا مكاناً مرتفعاً ينظرون إلى العدو، ويخبرون عن حالهم، فأتاه سَهْم فقتله".
ولهذا قالت -رضي الله عنها-: "فإن كان في الجَنَّة صَبَرت عليه"، أي: صبرت على فقده، واحتسبته عند الله، مستبشرة بقتله في سبيل الله، وفوزه بالشهادة.
"وإن كان غير ذلك اجْتَهدت عليه في البكاء"؛ لأني خَسرته، وخَسِر حياته دون فائدة.
قال: يا أم حارثة، إنها جنان" أي: جَنَّات كثيرة، كما جاء مصرحًا به في رواية البخاري : "أجنة واحدة هي؟ إنها جِنَان كثيرة، وإنه في الفردوس الأعلى"، والمراد به مكان مخصوص من الجنة، هو أفضلها وأعلاها، ولهذا قال -صلى الله عليه وسلم-: "إذا سألتم الله، فاسألوه الفردوس، فإنه أوسط الجنة وأعلى الجنة، وفوقه عَرْش الرحمن، ومنه تُفَجَّر أنهار الجَنَّة"، ومعنى أوسط الجنة :خيارها، وأفضلها وأوسعها.
581;دیث کا مفہوم: حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی جنگ بدر کے دن ایک نامعلوم سمت سے آنے والے تیر سے شہادت ہوگئی، جس کا پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں سے آیا تھا۔ ان کی والدہ نبی ﷺ کے پاس آئیں اور ان کے انجام کے بارے پوچھنے لگیں۔ انھيں یہ اندیشہ تھا کہ ہو سکتا ہے، وہ شہدا میں شمار نہ ہوں۔ کیوں کہ ان کی وفات ایک نامعلوم سمت سے آنے والے تیر سے ہوئی تھی اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے، جو معرکے میں شریک تھے۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت آئی ہے کہ: "وہ بدر کے دن ایک ایسے تیر کا شکار ہو کر مارے گئے تھے، جس کے مارنے والے کا کوئی پتہ نہیں تھا۔" یعنی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس جانب سے آیا ہے۔
امام احمد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حارثہ دشمنوں کی تاک لگانے والے کے طور پر نکلے۔ (یعنی وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اونچی جگہ تلاش کرکے دشمنوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے بارے بتاتے ہیں)۔ اسی درمیان انھيں ایک تیر لگا، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ اسی لیے ان کی والدہ نے کہا: اگر وہ جنت میں ہے، تو میں اس پر صبر کروں، یعنی اس کی جدائی پر صبر کروں اور اللہ کے ہاں سے اس پر اجر کی امیدوار رہوں اور اللہ کی راہ میں اس کے مارے جانے اور درجہ شہادت پر فائز ہونے پر خوشی کا اظہار کروں۔
اور اگر وہ جنت میں نہیں، تو پھرمیں خوب رؤوں، کیوں کہ میں نے اسے کھو دیا اور اس نے بلا فائدہ اپنی جان گنوائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام حارثہ! جنت میں بہت سی جنتیں ہیں، جیسا کہ بخاری شریف کی ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے کہ: کیا یہ ایک ہی جنت ہے؟ جنتیں تو بہت ساری ہیں اور وہ فردوس اعلی میں ہے۔ اس سے مراد جنت میں ایک مخصوص جگہ ہے، جو جنت کا سب سے افضل اور بلند مقام ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم اللہ سے مانگو، تو جنت الفردوس مانگو، یہ جنت کا درمیانی اور سب سے بلند حصہ ہے۔ اس کے اوپر اللہ تعالی کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ جنت کے درمیانی حصے سے مراد اس کا سب سے بہترین، افضل اور سب سے کشادہ حصہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3576

 
 
Hadith   440   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- طَرَقَ عليا وفاطمة ليلاً، فقال: ألا تُصَلِّيَانِ


Tema:

نبی ﷺ رات کے وقت علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم دونوں نماز (تہجد) نہیں پڑھتے؟

عن علي -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- طَرَقَه وفاطمة ليلاً، فقال: «ألا تُصَلِّيَانِ؟».

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم دونوں نماز (تہجد) نہیں پڑھتے؟۔

معنى الحديث: يُخبر علي بن أبي طالب -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أتاه وفاطمة ليلاً فوجدهما نَائمَين، فأيْقَظهما، وقال لهما: "ألا تُصَلِّيَانِ؟".

601;النبي -صلى الله عليه وسلم- حثهما على صلاة الليل، واختار لهما تلك الفضيلة على الراحة والسكون؛ لِعِلْمه بفضلها ولولا ذلك ما كان يزعج ابنته وابن عمه في وقت جعله الله لخلقه سكنًا.
581;دیث کا مفہوم: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات کے وقت تشریف لائے تو دونوں کو سوتے ہوئے پایا۔ (اس پر) آپ ﷺ نے ان دونوں کو جگا کر فرمایا کیا تم دونوں نماز (تہجد) نہیں پڑھتے؟۔
نبی ﷺ نے انہیں رات کی نماز (تہجد) پڑھنے کی ترغیب دی اور ان کے راحت و سکون پر ان کے لیے اس فضیلت کو ترجیح دی کیونکہ آپ ﷺ اس کی فضیلت سے واقف تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ ﷺ اپنی بیٹی اور اپنے چچیرے بھائی کو ایسے وقت میں بے آرام نہ کرتے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کے لیے آرام کے لیے بنایا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3577

 
 
Hadith   441   الحديث
الأهمية: إِنِّي لأعلم كلمة لو قالها لذهبَ عنه ما يجد، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، ذهبَ منه ما يَجد


Tema:

مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے، فرمایا: اگر یہ شخص کہہ لے: ”أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرجیم“ تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔

عن سليمان بن صُرَدٍ -رضي الله عنه- قال: كنت جالسًا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ورجلان يَسْتَبَّانِ، وأحدهما قد احْمَرَّ وجْهُه، وانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِنِّي لأعلم كلمة لو قالها لذهبَ عنه ما يجد، لو قال: أعُوذ بالله من الشَّيطان الرجيم، ذهبَ منه ما يَجد».
فقالوا له: إن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «تَعَوَّذْ بالله من الشيطان الرجيم».

سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور (قریب ہی) دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے، ان میں سےایک شخص کا چہرہ (مارے غصے کے) سرخ ہو گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے، فرمایا: اگر یہ شخص کہہ لے ”أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرجیم“ (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں) تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ لوگوں نے اس سے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کر۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر سليمان بن صرد -رضي الله عنه- أن رجلان تشاتما عند النبي -صلى الله عليه وسلم-، فغضب أحدهما فاشتد غضبه حتى انتفخ وجهه وتغير، فقال النبي ـصلى الله عليه وسلم-: إني لأعلم كلمة لو قالها لزال عنه ما يجده من الغضب، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم؛ لأن ما أصابه من الشيطان، فإذا لجأ الإنسان إلى الله تعالى واعتصم به من شر الشيطان، أذهب الله تعالى عنه ما يجده من الغضب، ببركة هذه الكلمة، فقالوا للرجل: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: قل: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم.
 ففي بعض الروايات أنه من شدة الغضب لم يقلها بل قال: وهل بي جنون؟
587;لیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی نبی ﷺ کے پاس ‏گالی گلوچ کرنے لگے اور ان میں سے ایک غصے میں آگیا اور اس کا غصہ اس قدر بڑھا کہ اس کا چہرہ سرخ اور متغیر ہوگیا، نبی ‏ﷺ نے فرمایا: میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اُسے کہہ لے تو غصہ کی یہ ‏کیفیت اس سے دور ہوجائے، اگر وہ پڑھ لے: ”أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم“ (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں) کیوں کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے وہ شیطان کہ وجہ سے ہے اور جب انسان اللہ کی پناہ میں آجائے اور شیطان کے شر سے اسے ذریعۂ حفاظت بنالے تو اس کلمہ کی برکت سے اللہ تعالی اس کے غصے کو کافور کر دیتا ہے، چنانچہ صحابہ نے اس آدمی سے کہا کہ تم ”أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ پڑھو۔
بعض روایات میں ہے کہ اس نے غصہ سے مغلوب ہوکر اس کلمہ کو نہیں کہا بلکہ اس نے کہا: کیا مجھے پاگل سمجھتے ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3578

 
 
Hadith   442   الحديث
الأهمية: إذا أصْبَح ابن آدَم، فإن الأعضاء كلَّها تَكْفُرُ اللِّسان، تقول: اتَّقِ الله فِينَا، فإنَّما نحن بِك؛ فإن اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وإن اعْوَجَجْت اعْوَجَجْنَا


Tema:

جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا أصْبَح ابن آدَم، فإن الأعضاء كلَّها تَكْفُرُ اللِّسان، تقول: اتَّقِ الله فِينَا، فإنَّما نحن بِك؛ فإن اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وإن اعْوَجَجْت اعْوَجَجْنَا».

ابو سعيد خدري رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن سائر أعضاء البدن تَذِلُّ وتخضع للسان، فهي تابعة له، ولهذا تقول إذا أصبح: "اتقِ الله فِينَا فإنَّما نحن بِك...".
فاللسان أشد الجوارح خطراً على صاحبها، فإن استقام استقامت سائر جوارحه، وصلحت بقية أعماله، وإذا مال اللسان مَاَلت سائر جوارحه وفسد بقية أعماله.

فعن أنس رضي الله عنه قال -صلى الله عليه وسلم-: "لا يستقيم إيمان عبد حتى يستقيم قلبه، ولا يستقيم قلبه حتى يستقيم لسانه.."
وفي الباب أحاديث كثيرة تدل على خطر اللسان، وهو: إما سعادة لصاحبه، وإما نقمة عليه، فإن سَخَّره في طاعة الله كان سعادة له في الدنيا والآخرة، وإن أطلقه فيما لا يرضي الله -تعالى-، كان حَسْرة عليه في الدنيا والآخرة.

581;دیث کا مفہوم: جسم کے تمام اعضاء زبان کے سامنے اظہار عجزو انکساری کرتے ہیں اور وہ اس کے تابع ہیں ۔ اسی لیے بندہ جب صبح کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو ہم تجھ سے متعلق ہیں“۔
انسان کے اعضاء میں سے سب سے خطرناک زبان ہے۔ اگر یہ ٹھیک رہے تو اس کے تمام اعضاء ٹھیک رہتے ہیں اور اس کے باقی تمام اعمال درست ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں کچھ کجی آجائے تو تمام اعضاء میں کجی آ جاتی ہے اور انسان کے بقیہ اعمال بھی فاسد ہوجاتے ہیں۔انس - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندے کا ایمان اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کا دل ٹھیک نہ ہوجائے اور اس کا دل اس وقت ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان ٹھیک نہ ہو جائے“۔
اس موضوع پر بہت سی ایسی احادیث ہیں جو زبان کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں بایں طور کہ زبان یا تو اس شخص کے لیے باعثِ سعادت ہوتی ہے اور یا پھر اس کے لیے باعثِ مصیبت ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے اللہ کی اطاعت میں لگا دے تو وہ اس کے لیے دنیا و آخرت کی سعادت بن جاتی ہے اور اگر اسے ایسے کام میں لگا دے جس میں اللہ کی رضا نہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں اس کے لیے باعثِ حسرت بن جائے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3579

 
 
Hadith   443   الحديث
الأهمية: لا تُلْحِفُوا في المسأَلة، فوالله لا يَسْألني أحدٌ منكم شيئًا، فَتُخْرِجَ له مسألته منِّي شيئًا وأنا له كارِهٌ، فيُبَارَك له فيما أَعْطَيتُه


Tema:

مانگنے میں اصرار نہ کیا کرو، اللہ کی قسم تم میں سے کوئی بھی مجھ سے کوئی چیز مانگے، اور میں تمہارے مانگنے کی وجہ سے کوئی چیز دیدوں حالاں کہ میں اس دینے کو پسند نہ کروں، اس کو میرے عطا کردہ مال میں برکت نصیب نہیں ہوگی۔

عن معاوية بن أبي سفيان -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا تُلْحِفُوا في المسأَلة، فوالله لا يَسْألني أحدٌ منكم شيئًا، فَتُخْرِجَ له مسألته منِّي شيئًا وأنا له كارِهٌ، فيُبَارَك له فيما أَعْطَيتُه».

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مانگنے میں اصرار نہ کیا کرو، اللہ کی قسم تم میں سے کوئی بھی مجھ سے کوئی چیز مانگے، اور اُس کا مانگنا مجھ سے کوئی چیز نکال لے اور میں اسے ناپسند کروں، اس کو میرے عطا کردہ مال میں برکت نصیب نہیں ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر معاوية -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهيه عن الإلحاف في المسألة، أي لا تبالغوا وتلحوا، من ألحف في المسألة إذا ألح فيها، فإن هذا الإلحاح يزيل البركة من الشيء المعطى، ثم أقسم أنه لا يسأله أي بالإلحاف أحد منهم شيئا فتخرج مسألته شيئا وهو كاره لذلك الشيء، يعني لإعطائه أو لذلك الإخراج فيبارك، أي فلن يبارك له فيما أعطيته، أي على تقدير الإلحاف.
605;عاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے وارد مانگے میں اصرار کرنے کی ممانعت کو بتا رہے ہیں یعنی مانگنے میں مبالغہ اور اصرار نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ مانگنے میں اصرار کرنا دی ہوئی چیز سے برکت ختم کر دیتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ جب کوئی شخص اصرار کرکے آپ ﷺ سے کچھ مانگے،اس کے مانگنے کی وجہ سے وہ چیز آپ ﷺ سے نکل جاتی ہے، حالاں کہ آپ ﷺ اسے پسند نہیں کرتے، یعنی اُسے یہ چیز دینے یا اُسے نکالنے کو، تو اس میں برکت نہیں ہوتی، یعنی دریں صورت میری دی ہوئی چیز میں کبھی برکت نہیں ہوتی یعنی اصرار (وتنگ) کرکے مانگنے پر۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3580

 
 
Hadith   444   الحديث
الأهمية: الجنة أقرب إلى أحدكم من شِرَاكِ نعله، والنار مثل ذلك


Tema:

جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «الجنة أقرب إلى أحدكُم من شِرَاكِ نَعْلِه، والنار مِثلُ ذلك».

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہےکہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الجنة والنار قريبان من الإنسان كقرب السير الذي يكون على ظهر القدم، وهو قريب من الإنسان جدًّا؛ لأنه قد يفعل طاعة من رضوان الله -عز وجل- لا يظن أنها تبلغ ما بلغت، فإذا هي توصله إلى جنة النعيم، وربما يفعل معصية لا يلقي لها بالاً، وهي من سخط الله، فيهوي بها في النار كذا وكذا من السنين وهو لا يدري.
606;بی ﷺ نے فرمایا کہ بے شک جنت اور جہنم یہ دونوں انسان کے قریب ہیں اور ان کی مسافت کی دوری اس قدر ہے جتنا کہ اس کے قدم کا اوپری حصہ کی دوری یعنی کہ یقیناً وہ انسان سے بہت زیادہ قریب ہے کیونکہ بسا اوقات وہ انسان اللہ عزّوجلّ کی رضا جوئی کے لیے کوئی ایسی نیکی کرتا ہے جس کے بارے یہ خیال نہیں کر سکتا کہ وہ کتنی بلند مرتبے کی ہے چنانچہ اس کی یہی نیکی اسے نعمتوں والی جنت میں پہنچا دیتی ہے اور بسا اوقات وہ انسان اللہ عزّوجلّ کی ناراضگی والا کوئی ایسا گناہ کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں اتنی اتنی برسوں کی مسافت گہرائی میں جا گرتا ہے اور اسے خبر تک نہیں ہوتی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3581

 
 
Hadith   445   الحديث
الأهمية: الحَرْبُ خَدْعَة


Tema:

جنگ ایک چال ہوتی ہے۔

عن أبي هريرة وجابر -رضي الله عنهما-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الحَرْبُ خَدْعَة».

ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جنگ ایک چال ہوتی ہے“۔

الحَرْبُ خَدْعَة أي أن خداع الكفار والمَكر بهم في الحرب جائز، لأجل إصابتهم وإلحاق الضرر بهم، مع انعدام الخسائر بين المسلمين، ولا يُعَدُّ هذا مذموما ًفي الشرع، بل هو من الأمور المطلوبة.

602;ال ابن المنيّر -رحمه الله-: "الحرب الجيدة لصاحبها الكاملة في مقصودها إنما هي المخادعة لا المواجهة، وذلك لخَطِر المواجهة وحصول الظَفَر مع المخادعة بغير خطر".
ولا يدخل في الخدعة الغدر، وهو مخالفة العهد والاتفاق بين المسلمين وأعدائهم، قال -تعالى-: (فإما تخافن من قوم خيانة فانبذ إليهم على سواء إن الله لا يحب الخائنين) أي: إن كان بينكم وبين قوم عهد فأعلمهم بإلغائه قبل محاربتهم، لتكونوا وإياهم على حد سواء.

Esin Hadith Caption Urdu


”الحَرْبُ خَدْعَة“ کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں کفار کو تکلیف پہنچانے اور مسلمانوں کے نقصان کو دور کرنے کے لیے انہیں دھوکہ دینا اور ان کے لئے تدبیر کرنا جائز ہے۔ یہ شریعت میں ممنوع نہیں، بلکہ یہ شریعت کے مطلوبہ امور میں سے ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایک اچھی اور کام یاب جنگ وہ ہوتی ہے، جو آمنے سامنے کی لڑائی کی بجاۓ چالوں پر مشتمل ہو، کیوں کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں خطرہ ہوتا ہے اور چال اور دھوکے میں بغیر خطرے کے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔
"الخدعة" میں غدر شامل نہیں۔ غدر سے مراد اہلِ اسلام اور ان کے دشمنوں کے درمیان ہونے والے اتفاق اور وعدے کی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ﴾ ”اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہدنامہ توڑ دے“۔ یعنی اگر تمہارے اور دشمنوں کے درمیان کوئی عہد ہو تو جنگ سے پہلے ان کو معاہدہ ختم ہونے کے بارے میں بتا دو، تاکہ تم اور وہ دونوں برابر ہو جاؤ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3582

 
 
Hadith   446   الحديث
الأهمية: الخَيْل مَعقُودٌ في نَوَاصِيهَا الخَيْر إلى يوم القِيامة


Tema:

قیامت تک کے لیے گھوڑے کی پیشانی سے خیر و برکت وابستہ کردی گئی ہے۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «الخَيْل مَعقُودٌ في نَوَاصِيهَا الخَيْر إلى يوم القِيامة». 
وعن عروة البارقي -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الخيل مَعقُودٌ في نَوَاصِيهَا الخَيْر إلى يوم القيامة: الأجر، والمَغْنَم».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”قیامت تک کے لیے گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت بندھی رہے گی“۔
عروہ بارقی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے یعنی اجر وثواب اور مال غنیمت۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الخيل ملازم لها الخير إلى يوم القيامة، الثواب المترتب على ربطها وهو خير آجل، والمغنم الذي يكتسبه المجاهد من مال الأعداء وهو خير عاجل.
711;ھوڑے کے ساتھ خیر قیامت تک کے باقی رہے گی۔ اس کے پالنے پر ملنے والا ثواب، آخرت میں ملنے والا خیر ہے۔ دوسری چیز مالِ غنیمت جو مجاہد دشمن کے مال سے حاصل کرتا ہے یہ (دنیا میں) جلد ملنے والا خیر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3583

 
 
Hadith   447   الحديث
الأهمية: الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر


Tema:

دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کےلیےجنت ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «الدنيا سِجنُ المؤمن، وجَنَّةُ الكافر».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المؤمن في هذه الدنيا سجين لما أعده الله له يوم القيامة من النعيم المقيم، وأما الكافر فجنته دنياه؛ لما أعد الله له من عذاب مقيم يوم القيامة.
575;للہ تعالی نے مومن کے لیے روز قیامت جو دائمی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں ان کی وجہ سے وہ دنیا میں قیدی ہے اور کافر کی جنت اس کی دنیا ہے کیونکہ روز قیامت اس کے لیے اللہ نے کبھی نہ ٹلنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3584

 
 
Hadith   448   الحديث
الأهمية: يا أبا بَطْنٍ إنما نَغْدُو من أجل السلام، فنُسَلِّمُ على من لَقيْنَاهُ


Tema:

اے ابو بطن! ہم لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں، کہ جس سے ملیں اسے سلام کریں۔

عن الطُّفَيْلَ بن أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أنه كان يأتي عبد الله بن عمر، فيَغْدُو معه إلى السوق، قال: فإذا غَدَوْنَا إلى السوق، لم يَمُرَّ عبد الله على سَقَّاطٍ ولا صاحب بَيْعَةٍ ، ولا مسكين، ولا أحد إلا سَلَّمَ عليه، قال الطُفيل: فجئت عبد الله بن عمر يوما، فَاسْتَتْبَعَنِي إلى السوق، فقلت له: ما تصنع بالسوق، وأنت لا تَقِف على البيع، ولا تسأل عن السِّلَعِ، ولا تَسُومُ بها، ولا تجلس في مجالس السوق؟ وأقول: اجلس بنا هاهنا نَتَحَدَثُ، فقال: يا أبا بَطْنٍ -وكان الطفيل ذا بَطْنٍ- إنما نَغْدُو من أجل السلام، فنُسَلِّمُ على من لَقيْنَاهُ.

طفیل بن ابی بن کعب سے روایت ہے کہ وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے تھے، پھر ان کے ساتھ بازار کی طرف نکلتے۔ طفیل نے فرمایا کہ جب ہم بازار جاتے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ کسی چھوٹی یا بڑی دکان والے، کسی مسکین یا کسی اور شخص کے پاس سے گزرتے تو اسے سلام کرتے۔ طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا ایک دن میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، وہ مجھے اپنے پیچھے پیچھے بازار لے گئے۔ میں نے ان سے کہا۔ آپ بازار میں کیا کرنے جارہے آپ وہاں نہ کوئی چیز خریدتے ہیں، نہ کسی چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں، نہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور نہ ہی بازار میں کہیں بیٹھتے ہیں؟ میں تو کہتا ہوں یہیں بیٹھ جائیں باتیں کرتے ہیں۔ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو البطن –طفیل بڑے پیٹ والے تھے- ہم لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں، کہ جس سے ملیں اسے سلام کریں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن الطُفَيل بن أُبي بن كَعْبٍ كان يأتي ابن عمر -رضي الله عنهما- دائمًا ثم يذهب معه إلى السوق.
يقول الطفيل: "فإذا دخلنا السوق: لم يَمُرَّ عبد الله بن عمر على بياع السَقَّاطٍ"، وهو صاحب البضائع الرديئة.
"ولا صاحب بَيْعَةٍ" وهي البضائع النفسية غالية الثمن.
"ولا مسكين ولا أحد إلا سلَّم عليه" أي: أنه كان يسلم على كل من لقيه صغيرًا أو كبيرًا غنيًّا أو فقيرًا. 

قال الطفيل: "فجئت عبد الله بن عمر يوماً" أي: لغَرَضٍ من الأغراض فطلب مني أن أتبعه إلى السوق.
فقلت له: ما تصنع بالسوق وأنت لا تقِف على البَيع " يعني: لا تبيع ولا تشتري ، بل ولا تسأل عن البضائع ولا تسوم مع الناس ولا تصنع شيئاً من الأغراض التي تُصنع في الأسواق!
وإذا لم يكن واحد من أسباب الوصول إليها حاصلاً فما فائدة ذهابك إلى السوق، إذا لم يكن لك به حاجة ؟
فقال له ابن عمر ـرضي الله عنهما-: "يا أبا بطن" وكان الطُفَيل ذا بَطَنٍ أي لم يكن بطنه مساوياً لصدره، بل زائدا عنه، "إنما نَغْدُو من أجل السلام ، فنسلِّم على من لقيناه" أي: أن المراد من الذهاب للسوق لا لقصد الشراء أو الجلوس فيه، بل لقصد تحصيل الحسنات المكتسبة من جَرَّاء إلقاء السلام.
وهذا من حرصه -رضي الله عنه- على تطبيق سنة إظهار السلام بين والناس؛ لعلمه بأنها الغنيمة الباردة، فكَلِمات يسيرات لا تكلف المرء شيئا ، فيها الخير الكثير.

591;فیل بن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وعن ابیہ ہمیشہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے تھے، پھر ان کے ساتھ بازار جاتے۔
طفیل فرماتے ہیں کہ جب ہم بازار میں داخل ہوتے تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی بساطی چیز بیچنے والے کے پاس سے گزرتے۔ بیاع السقاط سے مراد ہے ردِّی وُدِّی بیچنے والا۔
”ولا صاحب بَيْعَةٍ“ اس سے مراد مہنگی اور نفیس اشیاء بیچنے والا۔
”ولا مسكين ولا أحد إلا سلَّم عليه“ یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما جس سے ملتے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، ہر ایک کو سلام کرتے۔
طفیل رضی اللہ عنہ وعن ابیہ نے کہا ”فجئت عبد الله ابن عمر يوماً“ یعنی میں کسی کام کے لیے ان کے پاس آیا تو انہوں نے بازار جانے کے لیے مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔
میں نے ان سے کہا: ”ما تصنع بالسوق وأنت لا تقِف على البَيع“ یعنی آپ بازار جا کر کوئی چیز بیچتے یا خریدتے نہیں، بلکہ سامان کے بارے میں پوچھتے بھی نہیں اور نہ ہی لوگوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور نہ کوئی اور ایسا کام کرتے ہیں جو بازاروں میں ہوتے ہیں!
جب آپ کے پاس بازار لے جانے والا کوئی سبب نہیں ہے تو پھر جانے کا فائدہ ہی کیا جب کہ آپ کو بازار جانے کی کوئی ضرورت بھی تو نہیں ہے؟!
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے بڑے پیٹ والے – راوی کا بیان ہے کہ طفیل کا پیٹ بڑا تھا – یعنی طفیل کا پیٹ ان کے سینے کے برابر نہیں تھا، بلکہ اس سے بڑھا ہوا تھا۔
”إنما نَغْدُو من أجل السلام ، فنسلِّم على من لقيناه“ یعنی بازار جانے کا مقصد کوئی چیز خریدنا یا وہاں بیٹھنا نہیں، بلکہ سلام کرکے نیکیاں کمانا ہے۔
یہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کا لوگوں میں سلام پھیلا کر سنت پر عمل کرنے کی حرص تھی۔ اس لیے کہ انہیں یہ علم تھا کہ یہ تو ٹھنڈی غنیمت (یعنی بلا تعب و مشقت ثواب پانا) ہے، مختصر کلمات ہیں جو انسان پر کچھ بھی گراں نہیں۔ اس میں بہت زیادہ خیر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3585

 
 
Hadith   449   الحديث
الأهمية: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ من الله، والحُلُمُ من الشيطان


Tema:

نيک خواب اللہ كى جانب سے ہيں، اور برے خواب شيطان كى جانب سے ہوتے ہیں۔

عن أبي قتادة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ -وفي رواية: الرُّؤْيَا الحَسَنَةُ- من الله، والحُلُمُ من الشيطان، فمن رأى شيئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَنْفُثْ عن شماله ثلاثا، وَلْيَتَعَوَّذْ من الشيطان؛ فإنها لا تضره».


 وعن جابر -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا رأى أحدكم الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَبْصُقْ عن يساره ثلاثا، ولْيَسْتَعِذْ بالله من الشيطان ثلاثا، ولْيَتَحَوَّلْ عن جَنْبِه الذي كان عليه».

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”نيک خواب (اور ایک روایت میں ہے کہ) اچھے خواب اللہ كى جانب سے ہيں، اور برے خواب شيطان كى جانب سے، چنانچہ جب تم ميں سے كوئى شخص برا خواب ديكھے تو وہ اپنى بائيں جانب تين بار تھو كے اور شيطان کے شر سے پناہ مانگے۔ ایسا کرنے پر یہ خواب اسے كوئى ضرر نہيں دے گا۔“
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو وہ اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے اور شیطان کے شر سے تین بار پناہ (تعوذ) مانگے اور جس کروٹ وہ لیٹا ہواسے تبدیل کر لے“۔

أخبر -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث: أن الرؤيا السَالِمَة من تخليط الشيطان وتشويشه، هي من جملة نعم الله على عباده، ومن بشارات المؤمنين، وتنبيهات الغافلين، وتذكيره للمعرضين.

والحُلُمُ الذي هو أضغاث أحلام، فإنما هو من تخليط الشيطان على روح الإنسان، وتشويشه عليها وإفزاعها، وجلب الأمور التي تكسبها الهم والغم ويحزن وربما يمرض؛ لأن الشيطان عدو للإنسان يحب ما يسوء الإنسان وما يحزنه.
فإذا رأى المرء في منامه ما يزعجه ويخيفه ويحزنه، فعليه أن يأخذ بالأسباب التي تدفع كيد الشيطان ووسوسته، وعلاجها كما جاء عليه في الحديث:
أولاً : أن يَبْصُقَ عن شماله ثلاث مرات. 

579;انيا: أن يتعوذ بالله من الشيطان الرجيم ثلاثا لدفع شره وبأسه.
ثالثاً : إذا كان على جنبه الأيسر يتحول إلى الأيمن وإذا كان على الأيمن يتحول إلى الأيسر . 
فإذا عمل بالأسباب المتقدمة لم تضره شيئا بإذن الله تصديقا؛ لقول رسوله صلى الله عليه وسلم ، وثقة بنجاح الأسباب الدافعة له.
585;سول اللہﷺ نے اس حدیث میں یہ بتایا کہ ایسے خواب جو شیطان کی آمیزش اور اضطراب سے پاک ہوتے ہیں وہ اللہ تعالی كى اپنے بندوں پر کی گئی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو مومنوں کے لیے بشارت ، غافلوں کے لیے تنبیہ اور بے گانہ لوگوں کے لیے یاد دہانی کادرجہ رکھتے ہیں۔
"حُلم" پراگندہ خوابوں کو کہا جاتاہے جو انسانی روح پر شیطان کی تخلیط و آمیزش اور اسے مضطرب اور خوفزدہ کرنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسانی روح غم اور حزن کا شکار ہو جاتی ہے اور بسا اوقات انسان بیمار بھی ہوجاتاہے ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور انسان کو جو شے بری لگے اور اسے غم زدہ کرے وہ شیطان کو پسند ہے۔
جب کوئی شخص اپنے خواب میں کوئی ایسی شے دیکھے جو اس کے لیے پریشان کُن ہو اور اسے خوف و غم میں مبتلا کردے تو اسے چاہیے کہ وہ ان اسباب کو اختیار کرے جو شیطانی چال و وسواس کو دور کرتے ہیں۔ ان کا علاج وہ عمل جو حدیث میں آیا ہے کہ :
پہلا ۔ وہ شخص اپنے بائیں جانب تین دفع تھوکے۔
دوسرا۔ تین دفع شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے تاکہ اس کے شر اور اس کی شدت کو دور کرے۔
تیسرا ۔ اگر وہ بائیں کروٹ لیٹا ہو تو دائیں پر ہوجائے اور دائیں کروٹ لیٹا ہو تو بائیں پر ہوجائے۔
جب وہ مذکورہ وسائل کو بروئے کار لائے گا تو اللہ کے حکم سے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہ دے سکیں گے کیوں کہ رسول اللہﷺ کی بات سچ ہے اور شیطان کو دفع کرنے والے ان اسباب کی کامیابی یقینی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3586

 
 
Hadith   450   الحديث
الأهمية: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: السلام عليكم، فَرَدَّ عليه ثم جَلس، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: عشر، ثم جاء آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فَرَدَّ عليه فجلس، فقال: عشرون


Tema:

ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے ”السلام علیکم“ کہا، نبی ﷺ نے اس کا جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا دس (نیکیاں)، دوسرا آیا اور اس نے ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ” کہا، نبی ﷺ نے اس کا بھی جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا بیس۔

عن عمران بن الحُصَيْن -رضي الله عنهما-، قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: السلام عليكم، فَرَدَّ عليه ثم جَلس، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «عَشْرٌ» ثم جاء آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فَرَدَّ عليه فجلس، فقال: «عشرون» ثم جاء آخر، فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فَرَدَّ عليه فجلس، فقال: «ثلاثون».

عمران بن حُصين رضی الله عنهما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے ”السلام علیکم“ کہا، نبی ﷺ نے اس کا جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا دس (نیکیاں)، دوسرا آیا اور اس نے ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ” کہا، نبی ﷺ نے اس کا بھی جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا بیس، پھر تیسرا آیا اور اس نے ”السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ“ کہا، نبی ﷺ نے اس کا بھی جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا تیس۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال السلام عليكم فَرَدَّ عليه، ثم جلس فأخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن له عشر حسنات، وهو أجر من جاء بهذه الجملة في السلام، وقد يضاعفها الله له إن شاء، ثم جاء آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فَرَدَّ عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- فجلس، فأخبر -صلى الله عليه وسلم- أن له عشرين حسنة، لأنه زاد على الأول: (ورحمة الله) ثم جاء آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فَرَدَّ عليه فجلس فأخبر -صلى الله عليه وسلم- أن له ثلاثين حسنة، وهو آخر صيغ السلام.
606;بی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا ، اس نے کہا ’’السلام عليكم ‘‘ آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا تو نبی ﷺ نے خبر دیا کہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھی گئی ہیں، جو شخص اس جملے کو کہے گا اس کے لیے یہ اجر ہے، اگر اللہ تعالی چاہے تو اسے اپنی طرف سے مزید دے سکتا ہے، پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا ’’السلام عليكم ورحمة الله‘‘ آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا وہ بیٹھ گیا نبی ﷺ نے فرمایا اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی گئی ہیں، کیونکہ اس نے پہلے شخص کے مقابلے ’’ورحمة الله‘‘ کا اضافہ کیا، پھر تیسرا آدمی آیا اس نے کہا ’’السلام عليكم ورحمة الله وبركاته‘‘ آپ نے اس کا جواب دیا وہ بیٹھ گیا نبی ﷺ نے فرمایا اس کے لیے تیس نیکیاں لکھی گئی ہیں ، یہی سلام کے صیغوں کا آخری حصہ ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3587

 
 
Hadith   451   الحديث
الأهمية: السِّواك مَطْهَرَةٌ للْفَم مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ


Tema:

مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضا کا موجب ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «السِّواك مَطْهَرَةٌ للْفَم مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ».

اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضا کا موجب ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
السِّوَاك يُطَهِّر الفَم من الأوساخ والروائح الكريهة وغير ذلك مما يَضُر، وبأي شيء استاك مما يزيل التَّغَيُّرَ حصلت سنة السَّوَاك، كما لو نظف أسنانه بالفرشاة والمعجون وغيره من المزيلات للأوساخ، وهو مرضاة للرب أي أن الاستياك من أسباب رَضَا الله -تعالى- عن العَبْد.
وقد ذكروا للسواك فوائد أخرى، منها: يُطَيِّب الفَم، ويَشُدُّ اللثة، ويَجْلُو البَصَر، ويذهب بالبَلْغَم، ويوافق السنة، ويُفرح الملائكة، ويزيد في الحسنات، ويصحح المعدة.
605;سواک منہ کو گندگی، بدبو اور ہر نقصان دہ شے سے پاک کرتی ہے۔کسی بھی ایسی شے سے دانت صاف کرنے سے مسواک کی سنت پوری ہوجاتی ہے جو (منہ میں پیدا ہونے والے) تغیر کو زائل کردے۔ مثلاً اگر کسی نے اپنے دانتوں کو برش اور پیسٹ وغیرہ جیسی کسی بھی شے سے صاف کرلیا جس میں گندگی دور کرنے کی صلاحیت ہو تو اس سے سنت پوری ہو جاتی ہے۔ مسواک کرنا اللہ کی رضا کا موجب ہے یعنی مسواک کرنا اللہ کے بندے سے راضی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
اسی طرح مسواک کے دیگر فوائد بھی ذکر کیے جاتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: یہ منہ کو پاکیزگی دیتی ہے، مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے، نظر تیز کرتی ہے، بلغم ختم کرتی ہے، اس میں سنت کی موافقت ہوتی ہے، مسواک کرنا فرشتوں کو خوش کرتا ہے، اس سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا اور معدہ درست رہتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3588

 
 
Hadith   452   الحديث
الأهمية: يَغْفِرُ الله للشَّهيد كُلَّ شيءٍ إلا الدَّين


Tema:

اللہ تعالی شہید کا ہر گناہ معاف کر دیتا ہے سوائے قرض کے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «يَغْفِرُ الله للشَّهيد كُلَّ شيءٍ إلا الدَّين».  وفي رواية له: «القَتْل في سَبِيل الله يُكَفِّر كلَّ شيءٍ إلا الدَّين».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی شہید کا ہر گناہ معاف کر دیتا ہے سوائے قرض کے۔" ایک دیگر روایت میں آتا ہے کہ ’’ اللہ کے راستے میں قتل ہو جانا ہر شے کا کفارہ بن جاتا ہے سوائے قرض کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الشهادة تُكَفِّر جميع الذنوب صغيرها وكبيرها، ما عدا الدَّين، فإن الشهادة لا تُكَفِّره وذلك لعِظَم حق المخلوقين لا سيما الأموال، فإنها أعَزُّ شيء عندهم، ويلحق بالدَّين ما يتعلق بذمته من حقوق المسلمين، من سرقة وغَصْب وخيانة، فإن الجهاد والشهادة وغيرهما من أعمال البِرَّ لا تُكفر حقوق الآدميين وإنما تُكَفِّر حقوق الله -تعالى-.
581;دیث کا مفہوم: شہادت تمام چھوٹے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے سوائے قرض کے۔ شہادت قرض کے بار سے سبکدوش نہیں کرسکتی کیونکہ حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے خصوصاً وہ حقوق جو مال سے متعلق ہوتے ہیں۔ انسانوں کے نزدیک یہ بہت ہی محبوب چیز ہوتی ہے۔ قرض کے ساتھ مسلمانوں کے وہ حقوق بھی ملحق ہیں جو اس شخص کے ذمہ آتے ہیں جیسے چوری، غصب کرنا اور خیانت وغیرہ۔ جہاد، شہادت اور اس طرح کے دیگر نیک اعمال حقوق العباد کا کفارہ نہیں بنتے بلکہ یہ صرف حقوق اللہ کا کفارہ بنتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3589

 
 
Hadith   453   الحديث
الأهمية: الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان مُكَفِّراتٌ لما بينهنَّ إذا اجتُنبَت الكبائر


Tema:

پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان مُكَفِّراتٌ لما بينهنَّ إذا اجتُنبَت الكبائر».

ابو ھرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلوات الخمس تكفر ما بينها من الذنوب -وهي الصغائر- إلا الكبائر فلا تكفرها إلا التوبة، وكذلك صلاة الجمعة إلى التي تليها، وكذلك صوم رمضان إلى رمضان الذي بعده.
662;انچ نمازیں اپنے مابین موجود وقفے میں سرزد ہو جانے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں، ماسوا کبیرہ گناہوں کے، جن کا یہ کفارہ نہیں بنتیں۔ اسی طرح نماز جمعہ اپنے بعد آنے والی نماز جمعہ تک اور رمضان کا مہینہ اس کے بعد آنے والے رمضان تک کے لیے کفارہ ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3591

 
 
Hadith   454   الحديث
الأهمية: العِبَادَة في الهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إليَّ


Tema:

ہرج (فتنوں) کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا۔

عن معقل بن يسار -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «العِبَادَة في الهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إليَّ».

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فتنوں کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن المتمسك بالعبادة في زمن كثرة الفتن واختلاط الأمور والاقتتال فضله كفضل من هاجر إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- قبل فتح مكة؛ لأنه وافقه من حيث أن المهاجر فَرَّ بدينه ممن يَصُدُّه عنه للاعتصام بالنبي -صلى الله عليه وسلم- وكذا المنقطع في عبادة الله تعالى فَرَّ من الناس بِدِينه إلى الاعتصام بعبادة ربِّه، فهو في الحقيقة قد هاجر إلى ربِّه، وفرَّ من جميع خلقه.
581;دیث کا مفہوم: فتنوں کی کثرت کے دور میں اور اس وقت میں جب معاملات گڈ مڈ ہوجائیں اور لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو، عبادت کی پابندی کرنے والے شخص کی فضیلت ایسے ہے جیسے اس شخص کی فضیلت جس نے فتح مکہ سے پہلے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی۔کیونکہ اس کا عمل اسی کی طرح ہوتا ہے بایں طور کہ مہاجر شخص اپنے دین کو اس شخص سے بچاتے ہوئے بھاگ اٹھتا ہے جو اسے دین سے روکتا ہے تاکہ وہ نبی ﷺ کو تھام لے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا لوگوں سے کنارہ کش ہو کر اپنے رب کی عبادت کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔ ایسا شخص درحقیقت اللہ کی ساری مخلوق سے راہ فرار اختیار کر کے اللہ کی طرف ہجرت کر جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3592

 
 
Hadith   455   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لقومي، فإنهم لا يعلمون


Tema:

اے اللہ ! تو میری قوم کو معاف کردے کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے۔

عن أبي عبد الرحمن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: كَأَنِّي أَنْظُر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَحْكِي نَبِيًّا من الأنبياء، صلوات الله وسلامه عليهم، ضربه قومه فَأَدْمَوْهُ، وهو يمَسحُ الدَم عن وجهِهِ، يقول: «اللهم  اغفر لِقَوْمِي؛ فإنهم لا يعلمون».

ابو عبدالرحمن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ انبیاء میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کررہے ہیں۔ صلوات الله وسلامه عليهم۔ جنہیں ان کی قوم نے مار مار کر لہولہان کردیا تھا ۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے کہتے جاتے ’’اے اللہ ! تو میری قوم کو معاف کردے کیونکہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حكى نبيُّنا -صلى الله عليه وسلم- عن نبيٍّ من الأنبياء: أن قومه ضربوه؛ فجعل يمسح الدم عن وجهه، وهو يدعو لهم بالمغفرة، وهذا غاية ما يكون من الصبر والحلم، ولم يقتصر على الدعاء لهم بل واعتذر عنهم من باب الإشفاق عليهم؛ لجهلهم بحقائق الأمور.
585;سول اللہ ﷺ نے بیان کیا کہ ایک نبی تھے جن کی قوم نے ان کومارا (اور لہولہان کردیا) ۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے جاتے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے جاتے ۔ یہ صبر اور برد باری کی انتہاء ہے۔انہوں نے صرف دعا پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان پر شفقت کرتے ہوئے ان کا عذر بھی پیش کیا کہ وہ امور کی حقیقت سے ناواقف ہیں ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3594

 
 
Hadith   456   الحديث
الأهمية: اللهم إني أَسْأَلُكَ الهُدى وَالتُّقَى والعفاف والغنى


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور لوگوں سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «اللهم إني أَسْأَلُكَ الهُدى، وَالتُّقَى، والعفاف، والغنى».

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے: ”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور لوگوں سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الدعاء من أجمع الأدعية وأنفعها، وهو يتضمن سؤال خير الدين وخير الدنيا؛ فإن الهدى هو العلم النافع، والتقى العمل الصالح، وترك ما نهى الله ورسوله عنه، والعفاف الكف عن الخلق وعن الأمور السيئة، والغنى أن يستغني بالله وبرزقه، والقناعة بما فيه، وحصول ما يطمئن به القلب من الكفاية.
740;ہ دعا تمام دعاؤں کا مجموعہ اور سب سے نفع مند دعا ہے کہ جو دین و دنیا کی تمام بھلائیوں پر مشتمل ہے۔ ’ہدی‘ (ہدایت)، علم نافع کو کہتے ہیں، ’تقویٰ‘ عملِ صالح اور ان چیزوں کو چھوڑنے کا نام ہے جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے روکا ہے۔ ’عفاف‘ (پاک دامنی) مخلوق اور برے معاملات سے رک جانے کا نام ہے۔ اور غنی یعنی اللہ اور اس کے دیے ہوئے رزق کو کافی سمجھنے، جو کچھ میسر ہو اس پر قناعت کرنے اور اُس پر قناعت کرنے اور جو رزق حاصل ہو، اس پر دل کے مطمئن ہونے کو کہتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3596

 
 
Hadith   457   الحديث
الأهمية: جاء ناسٌ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- أن ابْعَثْ مَعَنَا رجالًا يُعَلِّمُونَا القرآن وَالسُّنَّةَ، فبَعَث إليهم سَبْعِين رجلاً من الأنْصَار يقال لهم: القُرَّاء، فيهم خَالي حَرَامٌ


Tema:

کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستّر (70) انصاری صحابہ بھیج دیے جنہیں قرّاء کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: جاء ناس إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- أن ابعث معنا رجالاً يعلمونا القرآن والسنة، فبعث إليهم سبعين رجلا ًمن الأنصار يقال لهم: القراء، فيهم خالي حَرامٌ، يقرؤون القرآن، ويتدارسون بالليل يتعلمون، وكانوا بالنهار يَجِيئُون بالماء، فيضعونه في المسجد، ويحتطبون فيبيعونه، ويشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء، فبعثهم النبي -صلى الله عليه وسلم- فَعَرَضُوا لهم فقتلوهم قبل أن يبلغوا المكان، فقالوا: اللهم بلَغِّ ْعَنَّا نبينا أنا قد لَقِينَاك فرضينا عنك ورَضِيتَ عَنَّا، وأتى رجلٌ حَرَاماً خال أنس من خلفه، فطعنه برُمْحٍ حتى أَنْفَذَهُ، فقال حَرَامٌ: فُزْتُ ورَبِّ الكعبة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن إخوانكم قد قُتِلُوا وإنهم قالوا: اللهم بلغ عنا نبينا أنا قد لقيناك فرضينا عنك ورضيت عنا».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستّر (70) انصاری صحابہ بھیج دیے جنہیں قرّاء کہا جاتا تھا۔ ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ لوگ رات کے وقت قرآن پڑھتے تھے، ایک دوسرے کو سناتے تھے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اور دن کو مسجد میں پانی لا کر رکھتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتے اور اس سے اصحاب صفہ اور فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے، نبی (ﷺ) نے انہیں ان (آنے والے کافروں) کی طرف بھیجا اور انہوں نے منزل پر پہنچنے سے پہلے (راستے ہی میں دھوکے سے) ان پر حملہ کردیا اور انہیں شہید کردیا، اس وقت انہوں نے کہا : ”اے اللہ ! ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہماری تجھ سے ملاقات ہوگئی ہے، ہم تجھ سے راضی ہوگئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہوگیا ہے“۔ اس سانحے میں ایک شخص نے پیچھے سے آ کر انس رضی اللہ عنہ کے ماموں، حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ کو اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آر پار ہوگیا تو انہوں نے کہا ”رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا“، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : " تمہارے بھائی شہید کردیے گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے ”اے اللہ ! ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم نے تجھ سے ملاقات کرلی ہے، ہم تجھ سے راضی ہوگئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہوگیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن وفدًا من بعض القبائل العرب أتوا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فزعموا أنهم قد أسلموا وطلبوا من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يَمُدَّهم بمن يعلمهم القرآن فأمدهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بسبعين رجُلًا يقال لهم: القراء؛ وذلك لكثرة أخذهم للقرآن، ومع انشغالهم بكثرة قراءة القرآن، إلا أن ذلك لم يمنعهم من الاكتساب ولهذا قال أنس -رضي الله عنه-: "وكانوا بالنَّهار يَجِيئُون بالماء، فَيَضَعُونَه في المسجد، وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويَشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء" ومعناه: أنهم في أوقات النهار يجلبون الماء ويضعونه في المسجد وقفاً لمن أراد استعماله لطهارة أو شرب أو غيرهما.
"وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء" أي: يجمعون الحطب فيبعونه ويشترون به الطعام ويتصدقون به على الفقراء ومنهم أهل الصُفَّة.
وأصحاب الصفة هم: الفقراء الغرباء الذين كانوا يأوون إلى مسجد النبي -صلى الله عليه وسلم- وكانت لهم في آخر المسجد صُفَّة وهو مكان منقطع من المسجد مظلل عليه يبيتون فيه.
ثم إن النبي -صلى الله عليه وسلم- بَعث القراء مع القوم، فلما نزلوا بئر معونة، وذلك قبل أن يصلوا إلى مقصدهم وهو منزل أبي براء ابن مُلَاعِبِ الْأَسِنَّةِ، قَصدهم عامر بن الطفيل، ومعه عصبة من الرجال فقاتلوهم، فقالوا: "اللهُمَّ بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فرضِيْنَا عنَّك ورضِيت عنَّا" وفي رواية: "ألا بَلِّغوا عنَّا قوْمَنا أنا قد لقِيْنَا ربَّنا فَرَضِي عنَّا وأرضَانا"، فأخبر جِبْريل النبي -صلى الله عليه وسلم-: "أنهم قد لقوا ربهم، فرَضِى عنهم وأرضاهم"، كما في رواية البخاري.
فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إن إخْوَانَكم قد قُتِلوا وإنهم قالوا: اللَّهم بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فَرَضِينا عنَّك ورَضِيت عنَّا" والمعنى: أن الله -تعالى- قد رضي عنهم بطاعتهم ورضوا عنه بما أكرمهم به وأعطاهم إياه من الخيرات والرضى من الله -تعالى- إفاضة الخير والإحسان والرحمة.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کا وفد آپ ﷺ کے پاس آیا، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگ اسلام لے آئے ہیں اور آپ ﷺ سے ایسے لوگوں کا مطالبہ کیا جو ان کو قرآن سکھائیں، آپ ﷺ نے ان کو ستر (70)صحابہ دیے، ان کو قرآن کا زیادہ حصہ یاد ہونے اور قرآن کے ساتھ زیادہ وابستگی کی وجہ سے انہیں قراء کہا جاتا تھا۔ تاہم قرآن کے ساتھ وابستگی انہیں کسبِ حلال سے نہیں روکتی تھی، اسی وجہ سے انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”وكانوا بالنَّهار يَجِيئُون بالماء، فَيَضَعُونَه في المسجد، وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويَشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء“ اس کا مطلب یہ ہے کہ دن کو یہ لوگ پانی لا کر مسجد میں رکھ دیا کرتے تھے تاکہ جو چاہے اسے پاکی حاصل کرنے یا پینے یا کسی اور غرض سے استعمال کرے۔
”وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء“۔ اصحابِ صفہ وہ فقیر اور غریب لوگ تھے جنہوں نے مسجدِ نبوی کو اپنا ٹھکانا بنایا تھا، مسجد کے آخر میں، مسجد سے الگ ان کے لیے ایک چبوترہ تھا، جس پر سائبان تھا، وہاں وہ رات گزارتے تھے۔
آپ ﷺ نے قرّاء کو بھیجا، جب انہوں نے بئر معونہ پر پڑاؤ ڈالا، یہ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے کی جگہ تھی، ان کی منزل أبو براء بن مُلَاعِبِ الْأَسِنَّہ کا گھر تھا، تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھ لوگوں کی ایک جماعت نے ان سے قتال کیا۔
”اللهُمَّ بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فرضِيْنَا عنَّك ورضِيت عنَّا " وفي رواية ’’ألا بَلِّغوا عنَّا قوْمَنا أنا قد لقِيْنَا ربَّنا فَرَضِي عنَّا وأرضَانا“۔
جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آپ ﷺ کو بتایا ”أَنَّهُمْ قَدْ لَقُوا رَبَّهُمْ فَرَضِيَ عَنْهُمْ وَأَرْضَاهُمْ“ جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے ملاقات کر لی، رب ان سے راضی اور وہ رب سے راضی ہیں۔
آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا ”إن إخْوَانَكم قد قُتِلوا وإنهم قالوا: اللَّهم بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فَرَضِينا عنَّك ورَضِيت عنَّا“۔
یعنی ان کی اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور اس کے بدلے اللہ نے جو ان کا اکرام کیا، انہیں بہت سارا خیر دیا اور اس خیر، احسان اور رحمت پر مستزاد یہ کہ اپنی خوشنودی دی اس سے وہ بھی خوش ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3597

 
 
Hadith   458   الحديث
الأهمية: اللهم لك أَسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خَاصمت. اللهم أعوذ بِعزتك؛ لا إله إلا أنت أن تُضلَّني، أنت الحي الذي لا تموت، والجن والإنس يموتون


Tema:

اے اللہ! میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا (گمراہ کر) دے ۔تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «اللَّهُمَّ لك أَسْلَمْتُ، وبِكَ آمَنتُ، وعَلَيكَ تَوَكَّلْت، وإِلَيكَ أَنَبْتُ، وبك خَاصَمْتُ، اللهم أعُوذ بِعزَّتك؛ لا إله إلا أنت أن تُضلَّني، أنت الحَيُّ الذي لا تموت، والجِنُّ والإنْسُ يَمُوتُونَ».

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (دعا کرتے ہوئے) فرمایا کرتے تھے ”اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْ تُضِلَّنِي أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ“ اے اللہ! میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا (گمراہ کر) دے ۔تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: (اللهم لك أسلمت) أي: انقيادا ظاهرا لا لغيرك، (وبك آمنت) أي: تصديقا باطنا، (وعليك توكلت) أي: أسلمت جميع أموري لتدبرها، فإني لا أملك نفعها ولا ضرها، (وإليك أنبت) أي: رجعت من المعصية إلى الطاعة أو من الغفلة إلى الذكر، (وبك) بإعانتك (خاصمت) أي: حاربت أعداءك، (اللهم إني أعوذ بعزتك) أي: بغلبتك فإن العزة لله جميعا. (لا إله إلا أنت) لا معبود بحق سواك ولا سؤال إلا منك ولا استعاذة إلا بك.
(أن تضلني) أي: أعوذ من أن تضلني بعد إذ هديتني ووفقتني للانقياد الظاهر والباطن في حكمك وقضائك وللإنابة إلى جنابك والمخاصمة مع أعدائك والالتجاء في كل حال إلى عزتك ونصرتك، (أنت الحي الذي لا يموت والجن والإنس يموتون).
575;بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ کہتے تھے: ”اللهم لك أسلمت“ (اے اللہ !میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا) یعنی ظاہری طور پر تیرا فرماں بردار، تیرے علاوہ کسی اور کا نہیں۔”وبك آمنت“ (اورتجھ پرایمان لایا) یعنی باطنی طور پر تصدیق کی۔ ”وعليك توكلت“ (اورتجھ پر بھروسہ کیا) یعنی اپنے تمام امور کی تدبیر تیرے سپرد کر دی اور میں اپنے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔”وإليك أنبت“ (تیری طرف رجوع کیا) یعنی میں نے نافرمانی سے اطاعت کی طرف اور غفلت سے ذکر کی طرف رجوع کرلیا۔ ”وبك“ یعنی تیری مدد کے ساتھ۔ ”خاصمت“ (مخاصمت کی) یعنی تیرے دشمنوں سے جنگ کی۔ ”اللهم إني أعوذ بعزتك“ (اے اللہ میں تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں) یعنی تیرے غلبے کے ساتھ کیوں کہ عزت ساری کی ساری اللہ کے لیے ہے۔ ”لا إله إلا أنت“ (تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں) یعنی تیرے علاوہ معبود برحق کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جس سے سوال کیا جائے اور تیرے علاوہ کسی کی پناہ بھی نہیں لی جا سکتی۔ ”أن تضلني“ (یہ کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا دے) یعنی میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ ہدایت کے بعد تو مجھے گمراہ کر دے جب کہ تو نے مجھے ظاہری و باطنی طور پر اپنے حکم و قضاء کی فرماں برداری اور اپنی جناب میں جھکنے، دشمن سے مخاصمت اور ہر حال میں اپنی عزت و نصرت کی التجاء کرنے کی توفیق بخشی۔ ”أنت الحي الذي لا يموت والجن والإنس يموتون“ تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3598

 
 
Hadith   459   الحديث
الأهمية: اليدُ العُلْيَا خير من اليدِ السُّفْلَى، واليد العُلْيَا هي المُنْفِقَةُ، والسُّفْلَى هي السَائِلة


Tema:

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال وهو على المِنْبَر، وذكر الصدقة والتَّعَفُّفَ عن المسألة: «اليدُ العُلْيَا خير من اليدِ السُّفْلَى، واليد العُلْيَا هي المُنْفِقَةُ، والسُّفْلَى هي السَائِلة».

ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے، اور آپ ﷺ نے صدقے اور دوسروں سے سوال کرنے سے بچنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن فضل الصدقة وذم سؤال الناس، وأخبر أن الإنسان الذي يُعطي وينفق أمواله في الطاعات، أفضل من ذاك الذي يسأل الناس أموالهم.
585;سول اللہﷺ نے صدقے کی فضیلت اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی مذمت بیان کی ہے اور یہ بتایا ہےکہ جو شخص بھلائی کے کاموں میں اپنا مال دیتا اور خرچ کرتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3599

 
 
Hadith   460   الحديث
الأهمية: أما إنك لو أعطيتها أخوالك كان أعظم لأجرك


Tema:

اگر تو اسے اپنے ماموؤں کو دے دیتی تو تیرے لیے زیادہ اجر کا باعث ہوتا۔

عن أم المؤمنين ميمونة بنت الحارث -رضي الله عنها-: أنها أعتقت وَليدَةً ولم تستأذن النبي -صلى الله عليه وسلم- فلما كان يَومُها الذي يَدورُ عليها فيه، قالت: أشَعَرْتَ يا رسول الله، أني أعتقت وليدتي؟ قال: «أو فعلت؟» قالت: نعم. قال: «أما إنك لو أعطيتها أخوالك كان أعظم لأجرك».

ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کر دی اور نبی کریم ﷺ سے (اس کی) اجازت نہیں لی۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ کے ان کے پاس تشریف لانے (یعنی ان کی باری) کا دن ہوا تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے محسوس کیا کہ میں نے اپنی لونڈی آزاد کر دی ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا (واقعی) تو نے ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اسے اپنے مامووٗں کو دے دیتی تو تیرے لیے زیادہ اجر کا باعث ہوتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أعتقت أم المؤمنين ميمونة -رضي الله عنها- جارية لها؛ لما عندها من العلم بفضل العتق في سبيل الله وكان ذلك دون أن تُخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أو تستأذنه في عتقها، فلما كان يوم نوبتها أخبرت النبي -صلى الله عليه وسلم- بما صنعت، فقال: أو فعلت ؟ قالت : نعم. فلم ينكر عليها ما صنعته دون أن تأخذ برأيه  إلا أنه قال لها: أما إنك لو أعطيتها أخوالك كان أعظم لأجرك. ومعناه: حسنًا ما فعلت، إلا أنك لو وهبتها لأخوالك من بني هلال لكان ذلك أفضل وأكثر ثوابًا لما فيه من الصدقة على القريب وصلته.
575;م المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا چونکہ یہ جانتی تھیں کہ اللہ کے راستے میں ٖغلام آزاد کرنے کی بڑی فضیلت ہے، اس لیے انہوں نے اپنی ایک باندی کو آزاد کر دیا۔ لیکن اس کی خبر نبی ﷺ كو نہیں دی تھی یا آپ سے اس کو آزاد کرنے کی اجازت نہیں مانگی تھی۔ لہٰذا جب ان کی باری تھی، تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتلادیا۔ آپ نے پوچھا: کیا (واقعی) تو نے ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ چنانچہ میمونہ رضى الله عنها نے آپ کی رائے لیے بنا جو کچھ کیا تھا اس پر آپ نے کوئی نکیر نہیں فرمائی، صرف اتنا فرمایا: ”اگر تو اسے اپنے مامؤوں کو دے دیتی تو یہ تیرے لیے زیادہ ثواب کا باعث ہوتا“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ: تو نے اچھا کیا، لیکن اگر تو اسےبنی ہلال کے اپنے مامؤوں کو ہبہ کردیتی تو یہ زیادہ ثواب کا باعث ہوتا اور بہتر ہوتا، اس لئے کہ اس میں اپنے قریبی رشتہ دار پر صدقہ کرنے کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا بھی ثواب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3600

 
 
Hadith   461   الحديث
الأهمية: إن الله -عز وجل- أمرني أن أقرأ عليك (لم يكن الذين كفروا)


Tema:

اللہ عزّ وجلّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ”لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا“ پڑھ کر سناؤں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأُبَي بنِ كعْب -رضي الله عنه-: «إن الله -عز وجل- أمَرَني أن أَقْرَأَ عَلَيك: (لم يكن الذين كفروا...) قال: وسمَّاني؟ قال: «نعم» فبكى أُبي. وفي رواية: فَجَعَل أُبَي يَبكِي.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ عزّ وجلّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ”لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا“ پڑھ کر سناؤں۔ اُبی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں (اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام لیا ہے)۔ اس پر اُبی رضی اللہ عنہ (خوشی سے) رونے لگے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اُبی نے رونا شروع کر دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- يخبر أبيًّا -رضي الله عنه- بأن الله -تعالى- أمره أن يقرأ عليه سورة البينة، فتعجب أُبي -رضي الله عنه- كيف يكون هذا؟! لأن الأصل أن يقرأ المفضول على  الفاضل لا الفاضل على المفضول، فلما تحقق أُبي من النبي صلى الله عليه وسلم، وتأكد منه بأن الله ذكر اسمه بكى -رضي الله عنه- عند ذلك فرحًا وسرورًا بتسمية الله -تعالى- إياه.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے أُبي رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ انہیں سورۂ بینۃ پڑھ کرسنائیں ۔ اس پر أبي بن کعب رضی اللہ عنہ کو تعجب لاحق ہوا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ قاعدہ یہی ہے کہ مفضول (کم فضیلت والا ) زیادہ فضیلت والے کو پڑھ کر سنائے نہ کہ افضل (زیادہ فضیلت والا) مفضول کو پڑھ کرسنائے۔ جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالی نے ان کا نام لے کر ان کا ذکر کیا ہے تو وہ فرحت و خوشی سے رو پڑے کہ اللہ تعالی نے ان کا نام لیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3601

 
 
Hadith   462   الحديث
الأهمية: أَمْسِكْ عليك لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيتُك، وابْكِ على خَطِيئَتِكَ


Tema:

اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کو لازم پکڑو اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔

عن عُقْبَة بن عامر -رضي الله عنه- قال: قلت: يا رسول الله ما النَّجَاة؟ قال: «أَمْسِكْ عليك لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيتُك، وابْكِ على خَطِيئَتِكَ».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا نجات کس چیز میں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کو لازم پکڑو اور اپنے گناہوں پر رویا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث: سأل عُقْبة بن عامر -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- عمَّا ينجيه في الآخرة، وهذه غاية كل مسلم حَريص على آخرته.
فقال له -صلى الله عليه وسلم-: "أَمْسِكْ عليك لِسَانَكَ" أرشده النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يُمسك عليه لسَانه؛ وذلك لعظم خطره وكثرة ضرره،  فيتعين على المسلم أن يُمْسِك عليه لسانه، ويؤثر الصَّمْتَ على الكلام إلا فيما ينفعه في الآخرة.
"وَلْيَسَعْكَ بَيتُك" أي يلزم الإنسان بيته، ولا يخرج منه إلا لضرورة، ولا يَضَّجر من الجلوس فيه، بل يجعله من باب الغنيمة، فإنه سبب الخلاص من الشر والفتنة.
"وابْكِ على خَطِيئَتِكَ" أي: ابك إن تَقْدر، وإلا فَتَبَاك نادما على معصيتك، وتب إلى الله -تعالى- مما قد حصل منك، فإن الله -تعالى- يقبل التوبة عن عباده ويعفو عن السيئات.
575;س حدیث میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے آخرت میں نجات کے بارے میں پوچھا۔ یہ ہر اس مسلمان کا مقصد ہوتا ہے جو آخرت کی فکر رکھتا ہو۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
آپ ﷺ نے رہنمائی فرمائی کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ اس لیے کہ زبان کے خطرات بڑے اور اس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور خاموشی کو ترجیح دے ما سوا ایسی بات کے جو آخرت میں فائدہ دے۔
”وَلْيَسَعْكَ بَيتُك“ یعنی اپنے گھر کو لازم پکڑو اور ضرورت کے علاوہ اس سے نہ نکلا کرو۔ گھر میں بیٹھنے سے بد دل نہ ہو، بلکہ اس کو غنیمت سمجھو۔ اس لئے کہ یہ شر اور فتنہ سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
”وابْكِ على خَطِيئَتِكَ“ یعنی اگر ہوسکے تو رویا کرو ورنہ تو اپنی خطاؤں پر رونے کی شکل بنا لیا کرو اور جو کچھ تم سے سرزد ہوگیا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرکے ان کے گناہ معاف کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3602

 
 
Hadith   463   الحديث
الأهمية: إن العَبْد إذا نَصَح لسيِّده، وأحسن عِبَادة الله، فله أجْرُه مَرَّتَين


Tema:

جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرے، تو اسے دہرا ثواب ملے گا۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن العَبْد إذا نَصَح لسيِّده، وأحسن عِبَادة الله، فله أجْرُه مَرَّتَين».
عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «المَمْلُوك الذي يُحْسِنُ عِبَادَةَ رَبِّهِ، وَيُؤَدِّي إلى سَيِّدِهِ الذي له عليه من الحَق، والنَّصيحة، والطَّاعة، له أجْرَان».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرے، تو اسے دہرا ثواب ملے گا“۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو غلام اپنے رب کی عبادت احسن طریق سے بجا لائے اور اپنے آقا کے جو اس پر خیر خواہی اور فرماں برداری کے حقوق ہیں، انھیں ادا کرتا رہے، اسے دوگنا ثواب ملتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا قام العبد بما وجب عليه لسيده من خدمته وطاعته بالمعروف وبذل النصيحة له وقام بحق الله -تعالى- من أداء ما افترضه الله عليه واجتنب ما نهاه عنه، كان له الأجر مرتين يوم القيامة؛ لأنه مُكَلَّف بأمرين:
الأول: حق السيد، فإذا قام بحق سيده كان له أجر.
والثاني: أجر طاعة ربِّه، فإذا أطاع العبد ربَّه كان له أجر.
594;لام جب اپنے آقا کی خدمت، معروف میں فرماں برداری اور اس کے لیے خیر خواہی کے واجب حقوق ادا کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے؛ بایں طور کہ اس کے فرائض کی پابندی اور اس کے منہیات سے اجتناب کرتا رہے، تو اس کے لیے قیامت کے دن دوہرا اجر ہے؛ کیوں کہ وہ دو چیزوں کا مکلف ہے:
اوّل: مالک کا حق، جب وہ مالک کا حق ادا کرے، تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ دوم: اپنے رب کی اطاعت کا اجر، پس جب غلام اپنے رب کی اطاعت کرے، تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3607

 
 
Hadith   464   الحديث
الأهمية: إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَة من رِضْوَان الله -تعالى- مَا يُلْقِي لها بالاً يَرْفعَه الله بها درجات، وإن العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَة من سَخَطِ الله تعالى لا يُلْقِي لها بالاً يَهْوِي بها في جَهنَّم


Tema:

بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات زبان سے نکالتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے، اور ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی والی بات کرتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں، لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے

عن أبي هريرة، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن العبد لَيَتَكَلَّمُ بالكلمة من رِضْوَانِ الله تعالى ما يُلْقِي لها بَالًا يَرْفَعُهُ الله بها درجاتٍ، وإن العبد لَيَتَكَلَّمُ بالكلمة من سَخَطِ الله تعالى لا يُلْقِي لها بَالًا يَهْوِي بها في جهنم».
وعن أبي عبد الرحمن بلال بن الحارث المزني -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن الرجل لَيَتَكَلَّمُ بالكلمة من رِضْوَانِ الله تعالى ما كان يظن أن تبلغ ما بَلَغَتْ يكتب الله له بها رِضْوَانَهُ إلى يوم يَلْقَاهُ، وإن الرجل لَيَتَكَلَّمُ بالكلمة من سَخَطِ الله ما كان يظن أن تبلغ ما بَلَغَتْ يكتب الله له بها سَخَطَهُ إلى يوم يَلْقَاهُ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات زبان سے نکالتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے، اور ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی والی بات کرتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں، لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے“۔
اور ابو عبد الرحمن بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی بات کرتا ہے، اس کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گی، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے قیامت کے دن تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور آدمی (بعض دفعہ)اللہ کی ناراضی کا ایسا کلمہ بولتا ہے، اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گا اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے اپنی ملاقات کے دن تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن العَبد ليتكلم بالكلمة مما يرضي الله -تعالى- ويحبه، كالنصح والإرشاد والتعليم، ولا يظن أن هذه الكلمة تبلغ به ما بَلَغَت من رضوان الله -تعالى-، فيرفعه الله بها في الدرجات العلى.
وكذلك يتكلم بكلمة من الكلمات التي تُسخط الله، كالغيبة والنميمة والبهتان؛ فيسقط بسببها في جهنم يوم القيامة.
570;دمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی والا کلمہ بو لتا ہےجیسے کہ پند و نصائح اورتعلیم، اور اسے گمان بھی نہیں ہو تا کہ یہ کلمہ اللہ کی رضامندی حاصل کرنے میں کہاں تک پہنچ جائے گا، پس اللہ تعالیٰ اس کلمے کی وجہ سےاس شخص کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اسی طرح آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا کلمہ بولتا ہے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہےجیسے غیبت چغلی، بہتان وغیرہ، پس اللہ تعالیٰ اس کلمے کی وجہ سےاس کو قیامت کے دن جہنم میں گرا دےگا۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3608

 
 
Hadith   465   الحديث
الأهمية: إن أَوْلَى الناس بالله من بَدَأَهُمْ بالسلام


Tema:

لوگوں میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے، جو ان میں سے سلام کرنے میں پہل کرتا ہے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن أَوْلَى الناس بالله من بَدَأَهُمْ بالسلام».
وفي رواية للترمذي: قيل: يا رسول الله، الرَّجُلان يَلْتَقِيَان أَيُّهُمَا يَبْدَأُ بالسلام؟، قال: «أَوْلاهُمَا بالله تعالى».

ابو امامہ رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”لوگوں میں سے اللہ کے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے، جو ان میں سے سلام کرنے میں پہل کرتا ہے“۔
ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: آپ ﷺ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جب دو افراد آپس میں ملتے ہیں، تو کون سلام میں پہل کرتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو دونوں میں اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خَير الناس وأقربهم طاعة لله تعالى: من بادر إخوانه بالسلام؛ لأنه بادر إلى طاعة وسارع إليها رغْبَة بما عند الله تعالى، فكان أولى الناس وأطوعهم لله تعالى.
604;وگوں میں سب سے بہتر اور اللہ کے اطاعت شعار وہ بندے ہیں، جو اپنے بھائیوں سے سلام میں پہل کرتے ہیں۔ کیوںکہ یہ لوگ اللہ کی اطاعت اور محبت کی طرف لپکنے والے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ایسے لوگ سب سے زیادہ اللہ تعالی کی قربت اور اطاعت کے حامل ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3621

 
 
Hadith   466   الحديث
الأهمية: إنَّ في الجنَّة مائة دَرَجَة أعَدَّهَا الله للمُجاهِدين في سَبِيل الله ما بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كما بين السماء والأرض


Tema:

جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنَّ في الجنَّة مائةَ دَرَجَة أعَدَّهَا الله للمُجاهِدين في سَبِيل الله ما بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كما بين السماء والأرض».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث عن فضل المجاهدين في سبيله وأن الله تعالى قد أعَدَّ لهم في الجنة مائة درجة ما بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كما بين السماء والأرض.
606;بی ﷺ اس حدیث میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی فضیلت بیان فرما رہے ہیں اور اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جنت میں سو درجے تیار کر رکھے ہیں جن میں سے ہر دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین کی مسافت ہے ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3624

 
 
Hadith   467   الحديث
الأهمية: إن في الليل لساعة، لا يُوَافِقُهَا رجُلٌ مُسلم يَسأل الله تعالى خيرًا من أمْرِ الدنيا والآخرة، إلا أعْطَاه إِياه، وذلك كُلَّ ليلة


Tema:

رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جو کسی مسلمان کو میسر آجائے اور وہ اس میں دنیا اور آخرت کے معاملے میں کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سےضرور نوازتا ہے، اور یہ گھڑی ہر رات ہوتی ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إن في الليل لساعة، لا يُوَافِقُهَا رجُلٌ مُسلم يَسأل الله تعالى خيرًا من أمْرِ الدنيا والآخرة، إلا أعْطَاه إِياه، وذلك كُلَّ ليلة».

جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جو کسی مسلمان کو میسر آجائے اور وہ اس میں دنیا اور آخرت کے معاملے میں کسی بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سےضرور نوازتا ہے، اور یہ گھڑی ہر رات ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في كل ليلة ساعة يُستجاب فيها الدعاء، فلا يصادفها عبد مسلم لا يدعو فيها بمحرم إلا استجاب الله دعاءه، وهي ثلث الليل الآخر، كما في النصوص الصحيحة الأخرى.
729;ر رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ جو اگر کسی بندۂ مسلم کو مل جائے اور وہ اس میں حرام کے ماسوا کوئی دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائے گا۔ اور یہ رات کا آخری تہائی حصہ ہے، جیساکہ دوسرے صحیح نصوص میں وارد ہوا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3625

 
 
Hadith   468   الحديث
الأهمية: أعْطُوه، فإن خَيْرَكم أحْسَنُكُم قَضَاء


Tema:

اسے دے دو اس لیے کہ بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أن رجلًا أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- يَتَقَاضَاهُ فَأغْلَظَ له، فَهَمَّ به أصحابه، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «دَعُوه، فإن لِصَاحب الحَقِّ مَقَالا» ثم قال: «أعْطُوهُ سِنًّا مِثْل سِنِّهِ» قالوا: يا رسول الله، لا نَجِدُ إلا أمْثَلَ مِنْ سِنِّهِ، قال: «أعْطُوه، فإن خَيْرَكم أحْسَنُكُم قَضَاء».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺ سے اپنے قرض کا مطالبہ کرنے کے لیے آیا اور اس نے آپ ﷺ سے سختی سے مطالبہ کیا (اس گستاخی پر) صحا بہ کرام نے اس کو جھڑکا، رسول الله ﷺ نے (صحا بہ کرام سے ) فرمایا: اسے چھوڑ دو، اس لیے کہ حق دار کو کہنے کا حق حاصل ہے پھر آپ نے فرمایا، اسے اتنی عمر کا جانور دے دو جتنی عمر کا جانور اس کا تھا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس جیسا تو ہم نہیں پاتے البتہ اس سے بہتر اور زیادہ عمر والا ہے آپ نےفرمایا: وہی اسے دے دو اس لیے کہ بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان لرجل دين على النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- قد استقرض من ذلك الرجل ناقة صغيرة، فجاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يطلب منه قضاء دَيْنِه وأغلظ عليه في طلبه، فأراد أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يضربوه بسبب غلظته للنبي -صلى الله عليه وسلم- وسوء أدبه معه، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اتركوه يقول ما يشاء ولا تتعرضوا له بشيء؛ فإن صاحب الحق له حق في مطالبة غريمه بقضاء الدين ونحوه، لكن مع التزام أدب المطالبة، أما السَّب والشَّتم والتجريح، فليس من أخلاق المسلمين.
ثم أمَر النبي -صلى الله عليه وسلم- بعض الصحابة أن يُعطيه بعيرًا مساويا لبعيره في السِّن.
فقالوا: لا نجد إلا بعيرًا أكبر من بعيره. فقال: أعطوه بعيرًا أكبر من بعيره؛ فإن أفضلكم في معاملة الناس، وأكثركم ثوابًا أحسنكم قضاءً للحقوق التي عليه دينًا أو غيره.
606;بی ﷺ کے ذمہ ایک شخص کا قرض تھا ،آپ ﷺ نے اس آدمی سےایک چھوٹا اونٹ قرض کے طور پر لیا تھا (ایک دن) وہ آدمی آپ ﷺ سے اپنے قرض کا مطالبہ کرنے کے لیے آیا اور اس نے آپ ﷺ قرض کی واپسی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ نبی ﷺ کے صحا بہ نے اس کو اس کی گستا خی اورتلخ کلامی پر زد و کوب کرنے کا ارادہ کیا۔ رسول الله ﷺ نے (صحا بہ کرام سے ) فرمایا: اسے چھوڑ دو، اور جو کہنا چاہتا ہے ادب کے دائرے میں کہنے دو، اس لیے کہ حق دار کو جس پر اس کا قرض باقی ہے اسے اس کی ادائیگی کے مطالبہ وغیرہ کا پورا پورا حق حاصل ہے، رہا مسئلہ گالی گلوج اور ایذا رسانی کا تو یہ ایک مسلمان کے اخلاق کے منافی ہے۔ پھر نبی ﷺ نے بعض صحا بہ کو حکم دیا کہ اسے اتنی عمر کا جانور دے دو. صحابہ نے عرض کیا ہم نہیں پاتے مگر اس سے زیادہ عمر والا اونٹ آپ نےفرمایا: اسے زیادہ عمر والا اونٹ ہی دے دو اس لیے کہ اچھے انسان لوگوں کے معاملات میں اور اجرو ثواب کے اعتبار سے بھی وہ ہیں جو اپنے قرض اور حقوق کی ادائیگی میں بہتر ہوں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3628

 
 
Hadith   469   الحديث
الأهمية: إن من أعظم الفِرَى أن يَدَّعِيَ الرجل إلى غير أبيه، أو يُرِي عَيْنَهُ ما لم تَرَ، أو يقول على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما لم يَقْلْ


Tema:

سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دکھائے جو اس نے نہیں دیکھا، یا رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔

عن وَاثِلَةَ بن الأَسْقَعِ ـ رضي الله عنه ـ مرفوعاً: «إن من أعظم الفِرَى أن يَدَّعِيَ الرجلُ إلى غير أبيه، أو يُرِي عَيْنَهُ ما لم تَرَ، أو يقول على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما لم يَقْلْ».

واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دکھائے جو اس نے نہیں دیکھا(یعنی بغیر کچھ دیکھے من گھڑت خواب بیان کرے)، یا رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن من أشدِّ الكذبِ على الله -تعالى-: أن يَنْسبَ الرجل نفسه إلى غير أبيه الحقيقي أو يَنْسِبَه أحدٌ إلى غير أبيه فيُقِرَّه على ذلك. فهذا من أشدِّ أنواع الكذب، وإن من أعظم الكذب وأشده عند الله -تعالى- كذلك أن يدعي المرء أنه رأى في المنام شيئًا ولم يره أصلًا، وإن من أعظم الكذب وأشده عند الله -تعالى- أيضًا أن ينسب للنبي -صلى الله عليه وسلم- قولًا أو فعلًا أو تقريرًا ولم يوجد منه -صلى الله عليه وسلم-.
740;ہ اللہ تعالیٰ پر سخت ترین جھوٹ ہے کہ: آدمی خود کو اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے یا پھر کوئی دوسرا شخص اسے اس کے باپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف منسوب کرے اور وہ اس پر صاد کرے۔ یہ جھوٹ کی بد ترين قسموں ميں سے ہے۔ اسی طرح اللہ کے نزدیک بد ترین اور سنگین ترین جھوٹ یہ بھی ہے کہ انسان دعوی کرے کہ اس نے خواب میں کچھ دیکھا ہے حالانکہ اس نے اسے بالکل نہیں دیکھا۔ نیز اللہ کے نزدیک یہ بھی بد ترین اور سخت ترین جھوٹ ہے کہ آدمی رسول اللہ ﷺ کی طرف کسی قول یا فعل یا تقریر کی نسبت کرے حالانکہ آپ ﷺ سے اس کا کوئی ثبوت نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3633

 
 
Hadith   470   الحديث
الأهمية: قال الله -عز وجل-: أنا عند ظن عَبدي بي، وأنا معه حيث يَذكُرني


Tema:

اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «قال الله -عز وجل-: أنا عند ظنِّ عَبدي بي، وأنا معه حيث يَذكُرني، والله، لَلَّه أَفرَحُ  بِتَوبَةِ عَبدِهِ مِنْ أَحَدِكُم يَجدُ ضَالَّتَهُ بالفَلاَة،  وَمَنْ تَقَرَّب إِلَيَّ شِبْرًا، تقرَّبتُ إليه ذِرَاعًا، ومن تقرب إلي ذِراعًا، تقربت إليه بَاعًا، وإذا أَقْبَلَ إِلَيَّ يمشي أَقْبَلْتُ إِلَيهِ أُهَرْوِلُ». متفق عليه، وهذا لفظ إحدى روايات مسلم. وروي في الصحيحين: «وأنا معه حِينَ يَذْكُرُنِي» بالنون، وفي هذه الرواية. «حيث» بالثاء وكلاهما صحيح.

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔ اللہ کی قسم! يقيناً اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو جنگل میں اپنی گم شدہ چيز پاليتا ہے۔ جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اورجو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور جب وہ ميری طرف چلتا ہوا آتا ہے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں“۔ متفق علیہ۔
یہ صحیح مسلم کی روایات میں سے اس کی ایک روایت کے الفاظ ہیں۔ صحيحين ميں مروی الفاظ ”وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرَنِي“ نون کے ساتھ ہيں۔ جبکہ اس روايت ميں ”حيث“ ثاء کے ساتھ ہے۔ اور دونوں ہی صحيح ہيں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله تعالى عند ظن عبده به؛ فإن ظن به خيراً فله، وإن ظن به سوى ذلك فله، ففي مسند الإمام أحمد من حديث أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله تعالى: (أنا عند ظن عبدي بي، إن ظن بي خيراً فله، وإن ظن شرا ًفله) ولكن متى يحسن الظن بالله عز وجل؟ يحسن الظن بالله إذا فعل ما يوجب فضل الله ورجاءه، فيعمل الصالحات ويحسن الظن بأن الله تعالى يقبله، أما أن يحسن الظن وهو لا يعمل؛ فهذا من باب التمني على الله، ومن أتبع نفسه هواها وتمنى على الله الأماني فهو عاجز، وأما أن تحسن الظن بالله مع مبارزتك له بالعصيان ، فهذا دأب العاجزين الذين ليس عندهم رأس مال يرجعون إليه.
قال ابن القيم -رحمه الله-: "ولا ريب أن حسن الظن إنما يكون مع الإحسان، فإن المحسن حسن الظن بربه أن يجازيه على إحسانه ولا يخلف وعده، ويقبل توبته.
وأما المسيء المصر على الكبائر والظلم والمخالفات فإن وحشة المعاصي والظلم والحرام تمنعه من حسن الظن بربه..، فإن العبد الآبق الخارج عن طاعة سيده لا يحسن الظن به، ولا يجامع وحشة الإساءة إحسان الظن أبداً، فإن المسيء مستوحش بقدر إساءته، وأحسن الناس ظناً بربه أطوعهم له.
كما قال الحسن البصري: إن المؤمن أحسن الظن بربه فأحسن العمل وإن الفاجر أساء الظن بربه فأساء العمل".
ثم ذكر أن الله أفرح أي فرحاً يليق بجلاله سبحانه بتوبة عبده ممن وجد ضالته والضالة الشيء المفقود، وذلك في الصحراء، والتوبة الاعتراف والندم والإقلاع والعزم على ألا يعاود الإنسان ما اقترفه.
ثم ذكر أن الله سبحانه وتعالى أكرم من عبده، فإذا تقرب الإنسان إلى الله شبراً؛ تقرب الله منه ذراعاً، وإن تقرب منه ذراعاً ، تقرب منه باعاً، وإن أتاه يمشي أتاه يهرول عز وجل، فهو أكثر كرماً وأسرع إجابة من عبده.
وهذا الحديث : مما يؤمن به أهل السنة والجماعة على أنه حق حقيقة لله عز وجل، لكننا لا ندري كيف تكون هذه الهرولة، وكيف يكون هذا التقرب، فهو أمر ترجع كيفيته إلى الله، وليس لنا أن نتكلم فيه، لكن نؤمن بمعناه ونفوض كيفيته، إلى الله عز وجل.
ومعية الله لعبده نوعان: خاصة تقتضي النصر والتأييد، وهي المذكورة في الحديث، وعامة تقتضي العلم والإحاطة، وهي صفة حقيقية تليق بالله تعالى.
575;للہ تعالی اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہے تو اسے اچھائی حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور گمان رکھتا ہے تو اسے وہی کچھ ملتا ہے۔ چنانچہ مسند امام احمد میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالىٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، اگر وہ میرے متعلق خیر کا گمان کرتا ہے تو خیر کا معاملہ کرتا ہوں اور اگر شر کا گمان کرتا ہے تو شر کا معاملہ کرتا ہوں“۔
لیکن سوال یہ ہے کہ (بندہ) اللہ کے ساتھ حسن ظن کب رکھے گا؟ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن اس وقت رکھے گا جب وہ ایسے کام کرے جو اللہ کے فضل واحسان اور اس کی امید کے موجب ہوں۔ چنانچہ وہ نیک اعمال کرے اور یہ حسنِ ظن رکھے کہ اللہ انہیں قبول فرمائے گا۔ البتہ عمل کئے بغیر حسنِ ظن رکھنا تو یہ اللہ سے بے جا تمنائیں لگانے کے قبیل سے ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگادے اور پھر اللہ سے تمنائیں رکھے تو درحقیقت وہ عاجز ہے۔ اگر آپ بر سرِعام اللہ کی نافرمانی کرنے کے باوجود اس سے حسنِ ظن رکھتے ہیں، تو جان لیجئے کہ یہ عاجز وبے بس لوگوں کا شیوہ ہے جن کے پاس کچھ سرمایۂ عمل ہی نہیں ہوتا کہ اس کا سہارا لے سکیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کچھ شک نہیں کہ حسنِ ظن نیکی کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ نیک شخص کا اپنے رب کے بارے میں یہ حسنِ ظن ہوتا ہے کہ وہ اس کی نیکی پر اسے بدلہ دے گا اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور اس کی توبہ کو قبول کرے گا۔
جہاں تک کبیرہ گناہوں، ظلم اور شرعی خلاف ورزیوں پر اصرار کرنے والے گناہ گار شخص کا معاملہ ہے تو گناہوں، ظلم اور حرام کی وحشت و گھبراہٹ اسے اپنے رب سے حسنِ ظن رکھنے سے روکتی ہے...، چنانچہ اپنے آقا کی اطاعت سے نکل جانے والا بھگوڑا غلام اس سے حسنِ ظن نہیں رکھتا۔ گناہ کی وحشت کے ساتھ حسن ظن کبھی بھی اکٹھا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ گناہ گار شخص اپنے گناہ کے بقدر وحشت اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اور لوگوں میں اپنے رب سے سب سے زیادہ حسنِ ظن رکھنے والا وہ شخص ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔ جیساکہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مومن اپنے رب کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے اس لیے وہ اچھا عمل کرتا ہے، جبکہ فاجر شخص اپنے رب کے متعلق برا گمان رکھتا ہے اس لیے وہ عمل بھی برا ہی کرتا ہے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اس کی ذاتِ سبحانہ وتعالی کے لائق جیسا خوش ہونا ہے خوش ہوتا ہے، اس شخص کے مانند جو جنگل میں اپنی گم شدہ چيز پاليتا ہے۔
توبہ در اصل (گناہ کا) اعتراف، (اس پر) ندامت، گناہ کو چھوڑ دینا، آئندہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پختہ عزم کرنے کا نام ہے۔
پھر آپ ﷺ نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے زیادہ کریم ہے۔ جب بندہ اللہ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس سے ایک ہاتھ قریب ہو تا ہے اور اگر وہ اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہے اور اگر وہ اللہ کی طرف چل کر آتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بندے سے زیادہ کریم اور اس سے زیادہ تیزی سے اس کا جواب دینے والا ہے۔
اس حدیث میں ان باتوں کا بیان ہے جن کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں حقیقت ہیں، لیکن ہم اس بھاگ کر آنے کی کیفیت کو نہیں جانتے اور نہ ہی اس قریب آنے کی کیفیت کا ہمیں ادراک ہے۔ یہ ایسا امر ہے جس کی کیفیت اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے اور ہمارے لیے درست نہیں کہ ہم اس معاملے میں لب کشائی کریں۔ لیکن ہم اس کے معنی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کے علم کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
اللہ تعالی کے اپنے بندے کے ساتھ ہونا (معیت) دو طرح کا ہے: ایک خاص معیت جس کا تقاضا نصرت وتائید کرنا ہے۔ اور یہی قسم حدیث میں مذکور ہے۔ اور دوسری عام معیت ہے جوعلم اور احاطہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اللہ کے شایانِ شان ایک حقیقی صفت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3636

 
 
Hadith   471   الحديث
الأهمية: زهد أهل الصفة والصحابة عموما في الدنيا


Tema:

صحابہ کرام اور اہل صفہ رضی اللہ عنہم کی دنیا سے بے رغبتی

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: لَقَد رَأَيت سبعين من أهل الصُّفَّةِ، مَا مِنهُم رَجُل عَلَيه رِدَاء، إِمَّا إِزَار، وإِمَّا كِسَاء، قد رَبَطوا في أعناقِهم، فمنها ما يبلغُ نصف الساقين، ومنها ما يبلغ الكعبين، فَيَجْمَعُهُ بيده كَرَاهِيَةَ أن تُرى عورَتُه.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی، یا تو لنگی (تہہ بند) تھی، یا ایک ایسا کپڑا، جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ ان میں سے (لنگی، تہہ بند) کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی، کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تھے تاکہ ستر نہ کھل جائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أهل الصفة هم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من المهاجرين الفقراء الذين تركوا ديارهم وأموالهم في مكة وهاجروا منها إلى المدينة بعد أن كانت أحب البلاد إليهم.
وكان أهل الصفة أكثر من سبعين رجلاً، والصفة سقيفة مظللة كانت موجودة في آخر مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ينام تحتها هؤلاء الفقراء من المهاجرين.
أما ثيابهم التي كانوا يرتدونها في الصيف وفي الشتاء فيخبرنا عنها أبو هريرة رضي الله عنه وقد كان أحد أصحاب الصفة فيقول: (ما منهم رجل عليه رداء إما إزار وإما كساء)، إذ إنه من أجل أن يلبس أحدهم رداء لا بد أن يلبس تحته إزارا فالرداء يقال عنه اليوم البدلة وكانت تسمى أيضا حُلة، وأبو هريرة يذكر أن أحدهم ما كان يلقى هذا الشيء، بل هو ثوب واحد يستر به نفسه من أعلى إلى أسفل يشبه ما يسمى اليوم الملاية القصيرة.
قال أبو هريرة: (قد ربطوا في أعناقهم) أي: يربطها أحدهم في رقبته كما يربط الصبي ثوبه في رقبته؛ لأنه لا يكفيه الثوب الذي عليه أن يفصله ويلبسه، وإنما طرفه في رقبته رضي الله عنهم.
ثم قال أبو هريرة: (فمنها ما يبلغ نصف الساقين)  أي: أن الطول لهذا الثوب من المنكب إلى نصف الساقين، فلا يصل إلى الكعبين.
ثم قال: (ومنها ما يبلغ الكعبين فيجمعه بيده كراهية أن ترى عورته) أي: أنه في أثناء الصلاة يلمه على نفسه حتى لا ترى عورته وهو راكع أو ساجد رضي الله تبارك وتعالى عنهم أجمعين.
وهذا هو حال كثير من الصحابة رضي الله عنهم، فقد عاشوا على الفقر والحاجة ولم يركنوا إلى الدنيا وزينتها، حتى لما فتحت عليهم الدنيا لم ينشغلوا بها ، وظلوا على قناعتهم وزهدهم، حتى توفاهم الله تعالى.
575;ہلِ صفہ نبی ﷺ کے وہ صحابہ ہیں جو غریب مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار مکہ میں چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی باوجود اس کے کہ یہ ان کا محبوب ترین شہر تھا۔
اصحاب صفہ کی تعداد ستر افراد سے زیادہ تھی ۔ صفہ ایک سایہ دار چبوترا تھا جو مسجد نبوی کے آخر میں بنا ہوا تھا جس کے نیچے فقیر مہاجرین سویا کرتے تھے۔
گرمیوں یا سردیوں میں جو ان کا لباس ہوتا تھا اس کے بارے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ جو خود بھی اصحابِ صفہ میں سے تھے ہمیں بتا رہے ہیں کہ ”کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی، یا تو لنگی (تہہ بند) تھی، یا ایک کپڑا“۔ کیونکہ اگر کوئی چاد باندھتا تو اس کے نیچے سے لنگی پہننی پڑتی۔ چادر سے مراد وہی ہے جسے آج کل جوڑا کہا جاتاہے ۔ ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی پورا جوڑا نہیں تھا بلکہ ایک ہی کپڑا ہوتا جس سے وہ اپنے آپ کو اوپر سے لے کر نیچے تک چھپایا کرتے تھے۔ یہ کپڑا ایک چھوٹی سی لنگی کے مانند ہوتاہے۔
ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ ”جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا“۔ یعنی وہ اس کپڑے کو اس طرح سے اپنے گلے میں باندھے رکھتے جیسے کوئی بچہ اپنے گلے میں اپنا کپڑا باندھ لیتاہے۔ ایسا وہ اس لیے کرتا کیونکہ وہ کپڑا اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اسے الگ الگ کرکے پہن سکتا۔ چنانچہ اس کا ایک کنارہ اس کی گردن میں ہوتا۔اللہ تعالی ان سے راضی ہو۔
پھر ابو ہریرۃ نے فرمایا: ”وہ چادر کسی کے آدھی پنڈلی تک رہتی“ یعنی اس کپڑے کی لمبائی صرف اتنی ہوتی کہ وہ نصف پنڈلی تک آتا تھا اور ٹخنوں تک نہیں پہنچتا تھا۔ پھر فرمایا کسی کے ٹخنوں تک اور اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تاکہ ستر نہ کھل جائے۔ یعنی دورانِ نماز وہ اسے اپنے آپ پر اکٹھا کرتے رہتے کہ مبادا حالت رکوع و سجدہ میں ان کی شرم گاہ نہ کھل جائے۔ رضی اللہ تبارک و تعالی عنہم اجمعین۔
اکثر صحابہ کی یہی حالت تھی۔ انہوں نے فقر اور ضرورت مندی میں اپنی زندگی گزار دی۔ دنیا اور اس کی زینت کی طرف ذرا بھی مائل نہ ہوئے ۔ اور جب دنیا ان پر کھلی (یعنی کشادگی آئی) تو تب بھی اس میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اپنی قناعت اور زہد پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3645

 
 
Hadith   472   الحديث
الأهمية: بأي شيء كان يَبْدَأُ النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا دخل بَيته؟ قالت: بالسِّوَاك


Tema:

نبی ﷺ جب اپنے گھر تشریف لاتے، تو کون سا عمل سب سے پہلے کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: مسواک کیا کرتے تھے۔

عن شريح بن هانىء، قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: بأي شيء كان يبدأ النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا دخل بيته؟ قالت: بالسواك.

شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ نبی ﷺ جب اپنے گھر تشریف لاتے، تو کون سا عمل سب سے پہلے کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: (آپ ﷺ سب سے پہلے) مسواک کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- أن أول ما يبدأ به -صلى الله عليه وسلم- عند دخوله البيت: السواك، ومشروعية السواك عامة في جميع الأوقات، ويتأكد ذلك: في الأوقات التي ندب الشارع إليها ومنها: عند دخول البيت، ولعل ذلك لإزالة ما يحصل عادة بسبب كثرة الكلام الناشئة عن الاجتماع.
575;م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرما رہی ہیں کہ نبی ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے، تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔ مسواک کرنا تمام اوقات میں مشروع ہے، البتہ اس کی اہمیت ان اوقات میں اور بھی بڑھ جاتی ہے، جن میں مسواک کرنے کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ انہی اوقات میں سے ایک وقت گھر میں آنے کا ہے۔ شاید ایسا اس بُو کو دور کرنے کے لیے ہے، جو عموما (لوگوں سے باہمی) میل جول کے نتیجے میں بیش کلامی کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3652

 
 
Hadith   473   الحديث
الأهمية: فإن مالَه ما قدَّم ومال وارثِه ما أخَّر


Tema:

آدمی کا مال وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا اور جتنا مال وہ چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أيُّكم مالُ وارثِه أحَبُّ إليه من مالَه؟» قالوا: يا رسول الله، ما منَّا أحد إلا مَالُه أحَبُّ إليه. قال: «فإن مالَه ما قدَّم، ومالُ وارثِه ما أخَّر».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں کون ہے وہ شخص کہ جسے اپنے وارث کا مال خود اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا تو کوئی بھی نہیں، ہر کسی کو اپنا ہی مال زیادہ محبوب ہے- آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی کا مال وہی ہے جو اس نے آگے بھیجا (جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا) اور جتنا مال وہ چھوڑ گیا وہ اس کے وارثوں کا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يسأل النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه قائلا: "أيكم مال وارثه أحب إليه من ماله" يعني: أي واحد منكم يحب أن يكون مال وارثه الذي يتملكه من بعده أكثر مما يحب ماله الذي يملكه في حياته 
قالوا: "ما منا أحد إلا ماله أحب إليه" أي : ليس هناك إنسان إلا ويجد نفسه يحب ماله الذي بيده وله التصرف المطلق به أكثر مما يحب مال غيره؛ لأن ما يملكه هو الوسيلة إلى تحقيق رغَبَاتِه، وتَطَلُعَاتِه.
قال: "فإن مَالَه ما قدم " أي : أن المال الذي يصرفه المرء في حياته على نفسه، وصالح أعماله من حج، ووقف، وبناء مدرسة، وعمارة مسجد، ومستشفى، أو ينفقه على نفسه وعياله، هو ماله الحقيقي؛ الذي يجده أمامه يوم القيامة. وأما ما يَدّخِره في حال حياته ويَبْخَل عن الإنفاق في سبيل الله -تعالى-، فهو مال وراثه، ليس له فيه شيء.
وفي معنى حديث الباب: ما رواه مسلم عن عبد الله بن الشخير -رضي الله عنه- قال : أتيت النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يقرأ: ألهاكم التكاثر، قال: (يقول ابن آدم: مالي، مالي، قال: وهل لك، يا ابن آدم من مالك إلا ما أكلت فأفنيت، أو لبست فأبليت، أو تصدقت فأمضيت) وليس معنى هذا: أن الإنسان ينفق مالَه كله في سبيل الله ويبقى هو وأهله يَتَكَفَفُوَنَ الناس، بل المقصود من الحديث: أن الإنسان كما أنه يسعى ليدخر للورثة من بعده كذلك عليه بالسعي في الادخار لآخرته، بما فضل على نفقته ونفقة من يمونه من زوجة وأولاد ووالدين؛ لأن هذا من النفقة الواجبة التي لا بد منها وإلا كان آثمًا، ويدل لذلك ما رواه أبو أمامة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "يا ابن آدم إنك أَن تَبْذُلَ الفَضَل خيرٌ لك، وأن تمسكه شر لك".
606;بی ﷺ اپنے صحابہ سے دریافت کر رہے ہیں کہ تم میں ایسا کون شخص ہوگا جسے اپنے وارث کا مال خود اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ یعنی تم میں سے کون شخص ہے جسے اپنے بعد اپنے وارث کی ملکیت میں آنے والا مال اس مال سے زیادہ محبوب ہے جو اس کی زندگی میں اس کی ملکیت ہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہم میں سے ہر کسی کو اس کا اپنا مال ہی زیادہ محبوب ہے۔ یعنی ہر شخص اسی مال کو زیادہ محبوب رکھتا ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جس پر اسے تصرف مطلق حاصل ہوتا ہے بنسبت کسی دوسرے کے مال کے ۔ کیونکہ جو مال اس کی ملکیت ہے وہ اس کی خواہشات و رغبات کے پورا ہونے کا ایک ذریعہ ہوتاہے۔
”آدمی کا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا“ اس سے مراد وہ مال جسے انسان اپنی زندگی میں اپنے اوپر صرف کرتاہے یا پھر نیک اعمال میں لگاتا ہے جیسا کہ حج یا وقف یا پھر کسی مدرسے ، مسجد اور ہسپتال کی تعمیر میں صرف کرتا ہے یا پھر خود اپنے آپ پر اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتاہے ۔ یہی اس کا حقیقی مال ہوتاہے جسے وہ روز قیامت اپنےسامنے پائے گا (یعنی اسے خرچ کرنے کا اجر اسے ملے گا) ۔ باقی رہا وہ مال جسے وہ اپنی زندگی میں جمع کر کرکے رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے وہ اس کے وارثوں کا مال ہوتا ہے جس میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
اس باب کے معنی میں وہ روایت بھی ہے جسے امام مسلم نے عبداللہ بن شِخیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اس وقت آپ ﷺ سورہ ’أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ‘ پڑھ رہے تھے، آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا ابن آدم میرا مال میرا مال کی رٹ لگاتا ہے، کہا ابن آدم تیرا مال اس کے سوا اور کیا ہے جسے تونے کھا پی کر ختم کردیا، یا پہن کر اسے بوسیدہ کردیا یا اسے صدقہ کرکے چلتا بنا۔
تاہم اس کا یہ معنی بھی نہیں ہے کہ انسان اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے پھر وہ اور اس کے بچے لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں، بلکہ حدیث کا مدعا یہ ہے کہ انسان جس طرح اپنے بعد اپنے وارثین کے لیے مال ودولت جمع کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے اسی طرح اپنے ذاتی اخراجات، نیز اپنے اہل و عیال جیسے بیوی بچے اور والدین کے صرفے سے جو رقم زائد ہو اُس سے اپنی آخرت کے لیے بھی زادِ راہ جمع کرنے کی کوشش کرے، اس لیے اُن پر خرچ کرنا واجب ہے اگر اُن پر خرچ نہیں کرے گا تو انسان گناہ گار ہوگا، اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی روایت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ”اے ابن آدم! اگر تو اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے اور اگر اُسے روکے رکھتا ہے تو تیرے حق میں بُرا ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3653

 
 
Hadith   474   الحديث
الأهمية: بَادِرُوا الصُّبْحَ بالوِتر


Tema:

صبح کے وقت وِتر کی ادائیگی میں جلدی کیا کرو۔

عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «بادروا الصبح بالوتر».

ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”صبح کے وقت وِتر کی ادائیگی میں جلدی کیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: استحباب تأخير صلاة الوتر إلى آخر الليل، لكن ينبغي لمن أخر وتره إلى آخر الليل أن يَحتاط ويبادر بأدائه قبل أن يَطلع عليه الفجر؛ لأن آخر وقت صلاة الليل طلوع الفجر، فإذا طلع عليه الفجر قبل أن يوتر فاتته الفضيلة.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ وتر کی نماز کو رات کے آخری حصے تک مؤخر کرنا مستحب ہے، تاہم وتر مؤخر کرنے والے کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اس کی ادائیگی میں احتیاط کیا کرے اور فجر سے پہلے اسے ادا کر لے۔ اس لیے کہ رات کی نماز کا آخری وقت طلوع فجر ہے۔لہٰذا اگر وتر کی ادائیگی سے پہلے فجر طلوع ہوجائے تو اس سے فضیلت فوت ہوجائے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3655

 
 
Hadith   475   الحديث
الأهمية: أن رجلاً أصاب من امرأةٍ قُبْلَةً، فأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره، فأنزل الله -تعالى-: (وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات)


Tema:

ایک آدمی نے کسی عورت کو بوسہ لے لیا۔ وہ آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کواس کے بارے میں بتایا۔اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: أن رجلاً أصاب من امرأةٍ قُبْلَةً، فأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره، فأنزل الله -تعالى-: (وأقم الصلاة طَرَفَيِ النَّهَار وزُلَفًا مِنَ اللَّيلِ إِنَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبنَ السَّيِئَات) [هود: 114] فقال الرجل: ألي هذا يا رسول الله؟ قال: «لِجَمِيعِ أُمَّتِي كُلِّهِم».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت کو بوسہ لے لیا۔ (احساس ندامت سے مغلوب ہو کر) وہ آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کواس کے بارے میں بتایا ۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ (هود: 114)۔ ”دن کے دونوں سِروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی گھڑیوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں“۔ اس شخص نے پوچھاکہ کیا یہ صرف میرے لیے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ میری ساری کی ساری امت کے لیے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن مسعود رضي الله عنه أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يسمى أبو اليسر قبَّل امرأة أجنبية، فندم على ما وقع منه "فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره" بما وقع فيه "فأنزل الله عز وجل" في شأنه "أقم الصلاة طرفي النهار" أي صل الصلوات التي في طرفي النهار، وهما الصبح والظهر والعصر "وزلفا من الليل" أي وصل أيضا الصلاتين اللتين في أول الليل وهما المغرب والعشاء "إن الحسنات يذهبن السيئات" أي فإن هذه الصلوات الخمس كفارة لصغائر الذنوب، ومنها ما فعلت "فقال الرجل: ألي هذا ؟" أي هل هي كفارة لي خاصة أو للناس عامة "قال لجميع أمتي" أي أن هذه الصلوات الخمس كفارة لمن فعل ذلك من جميع أمتي.
  وفي الحديث الآخر: (ما من مسلم يذنب ذنبًا ثم يتوضأ فيصلي ركعتين ثم يستغفر الله تعالى لذلك الذنب إلا غفر له)، وقرأ هاتين الآيتين: (ومن يعمل سوءا أو يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفورا رحيما)  (والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ) الآية. رواه أحمد برقم (47) .
وهذا من سعة رحمة الله تعالى بعباده أن جعل الصلوات الخمس ونوافل الصلاة كفارة لذنوبهم، وإلا لهلكوا.
593;بد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص جس کا نام ابویسر تھا ایک اجنبی عورت کا بوسہ لے بیٹھا اور پھر اپنی اس غلطی پر پشیمان ہوکر نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ ہوا تھا وہ سب آپﷺ کو بتا دیا۔ اس پر اللہ تعالی نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ﴾ یعنی حکم دیا کہ دن کے دونوں اطراف میں جو نمازیں ہیں یعنی صبح ، ظہر اور عصر انہیں ادا کرو اور ﴿وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ﴾ یعنی وہ دو نمازیں بھی پڑھو جو رات کے ابتدائی حصے میں آتی ہیں یعنی مغرب وعشاء۔ اور فرمایا ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ یعنی یہ پانچ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور تو نے جو گناہ کیا ہے وہ انہی میں سے ہے ۔ اس پر اس شخص نے سوال کیا کہ کیا یہ نمازیں صرف میرے لیے کفارہ ہیں یا سب لوگوں کے لیے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میری پوری امت کے لیے ہے، یعنی میری امت میں سے جو بھی اس طرح کا کوئی کام کر بیٹھے گا اس کے لیے یہ پانچ نمازیں کفارہ بن جائیں گی۔
ایک دوسری روایت میں ہے: کوئی بھی مسلمان اگر کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو بخش دیتا ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے قرآنِ پاک کی دو آیتیں تلاوت کیں۔ ﴿وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ”جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ﻇلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وه اللہ کو بخشنے واﻻ، مہربانی کرنے واﻻ پائے گا“۔ ﴿وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ...﴾ ” جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں...“۔ (مسند احمد: 47)
یہ بندوں کے ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی کشادگی کی دلیل ہے کہ اُس نے پانچ فرض نمازوں اور نفلی نمازوں کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ہلاک ہوجاتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3656

 
 
Hadith   476   الحديث
الأهمية: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، أصبت حدًا، فأقمه عليَّ


Tema:

ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے لہذا مجھ پر حد جاری کیجیے۔

عن أنس -رضي الله عنه- مرفوعاً: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، أصَبْتُ حدًّا، فَأَقِمْه عليَّ، وحضرت الصلاة، فصلى مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلمَّا قضى الصلاة، قال: يا رسول الله، إني أصَبْتُ حَدًّا فأقم فيَّ كتاب الله. قال: «هل حَضَرْتَ مَعَنَا الصلاة»؟ قال: نعم. قال: «قد غُفِر لك».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے لہذا مجھ پر حد جاری کردیں۔ پھر نمازکا وقت ہونے پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں شامل ہوا۔ نماز ختم کرنے کے بعد اس نے پھر کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کردیں۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم ہمارے ساتھ نماز میں حاضرتھے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمھیں معاف کر دیا گیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل فقال: يا رسول الله، إني فعلت شيئًا يوجب الحد، فأقمه علي: أي: الحد، والمراد به حكم الله.

قال أنس (ولم يسأله عنه): ولم يسأل عنه أي: لم يسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل عن موجب الحد ما هو؟  قيل: لأنه عليه الصلاة والسلام عرف ذنبه وغفرانه بطريق الوحي.
وحضرت الصلاة فصلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم : أي: إحدى الصلوات أو العصر فلما أداها وانصرف عنها قام الرجل فقال: يا رسول الله، إني أصبت حدا فأقم في. أي: في حقي كتاب الله : أي: حكم الله من الكتاب والسنة، والمعنى: اعمل بما دل عليه في شأني من حد أو غيره، قال صلى الله عليه وسلم: "أليس قد صليت معنا؟"  قال: نعم، قال: " فإن الله قد غفر لك ذنبك، أو حدك " شك من الراوي أي: سبب حدك.

والمراد بالحد العقوبة الشاملة للتعزير، ويحتمل أن يكون غيره، وليس المراد بالحد حقيقته الاصطلاحية، كالزنى وشرب الخمر، وهو ما أوجب عقوبة مقدرة، وحكمة كونه عليه الصلاة والسلام لم يسأله عنه أنه علم له نوع عذر، فلم يسأله عنه حتى لا يقيمه عليه، إذ لو أعلمه لوجب عليه إقامته عليه وإن تاب ؛ لأن التوبة لا تسقط الحدود إلا حد قاطع الطريق للآية، وكذا حد زنا الذمي إذا أسلم.

575;یک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جس پر حد جاری ہوتی ہے۔ پس آپ مجھ پر حد نافذ کردیں۔ حد سے مراد اللہ کا حکم ہے۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اس سے کچھ نہ پوچھا یعنی آپ ﷺ نے اس شخص سے حد کے واجب کرنے کی وجہ دریافت نہیں فرمائی۔ کہا گیا کہ آپ ﷺ وحی کے ذریعے اس کے گناہ اور مغفرت کے سبب کو جان چکے تھے۔
”اور پھر نمازکا وقت ہونے پر اُس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی“ یعنی: کوئی نماز یا عصر کی نماز اور جب وہ نماز کا ادا کرچکا اور اس سے واپس ہوئے تو وہ پھر کھڑا ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول مجھ پر حد واجب ہوگئی پس آپ مجھ پر حد نافذ کردیں۔ اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق، یعنی اللہ تعالی کا حکم جو قرآن اور سنت میں ہے۔معنی یہ ہے کہ آپ میرے حق میں اس پرعمل کیجیے جس پر یہ دلالت کرے چاہے حد ہو یا اس کي علاوہ کوئی دوسری شے۔
آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ تو اس نے کہا: جی ہاں پڑھی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے گناہ یا حد کو معاف کردیا ہے۔ یہاں راوی کو شک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری حد کے موجب کو معاف کردیا ہے۔
یہاں حد سے مراد وہ سزا ہے جو تعزیر کو شامل ہے یا یہ کہ اس کے علاوہ کا بھی احتمال ہے، البتہ یہاں حقیقی واصطلاحی حد مراد نہیں ہے جیسے زنا اور شراب کی حد ہے جو کہ ایک واجب اور مقررہ سزا ہے۔
نبی ﷺ کا اس کے گناہ کے متعلق سوال نہ کرنے میں یہ حکمت ہو گی کہ آپ ﷺ اس کے عذرکی نوعیت جان چکے تھے تو آپ نے اس نہ پوچھا تاکہ حد نہ لگائیں۔ جب کہ اگر آپ ﷺ جانتے ہوتے تو اس پر حد لازم تھی چاہے وہ توبہ ہی کیوں نہ کرلیتا کیونکہ توبہ حد کو ساقط نہیں کرسکتی سواۓ اس ڈاکہ زنی کی حد کے کہ قرآن مجید کی آیت اس سلسلہ میں وارد ہے اور اسی طرح ذمی کے زنا کی حد جب وہ اسلام قبول کرلے ساقط ہوجاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3658

 
 
Hadith   477   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله -تعالى- رحمةَ أُمَّةٍ قَبض نبيَّها قبلها، فجعلَه لها فَرطًا وسَلفًا بين يديها


Tema:

اللہ تعالیٰ جب کسی امت پر رحم کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے اور اسے اس امت کے لیے آگے جا کر باعث اجر و پیش رو بنا دیتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا أراد الله تعالى رحمة أُمَّة، قَبض نبيَّها قبلها، فَجَعَلَهُ لها فَرَطًا وسَلفًا بين يديها، وإذا أراد هلَكَةً أُمَّة، عَذَّبَها ونَبِيُّهَا حَيٌّ ، فأهْلَكَها وهو حَيٌّ يَنظرُ، فأقرَّ عينَه بِهَلاَكِهَا حين كذَّبُوه وعَصَوا أمرَه».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب کسی امت پر رحمت نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کو فوت کر دیتا ہے اور اسے اس امت کے لیے آگے جا کر باعث اجر و پیش رو بنا دیتا ہے اور جب وہ کسی امت کی بربادی چاہتا ہے تو اس نبی کی زندگی میں ہی اس امت کو عذاب دیتا ہے۔ اور اس کی نظروں کے سامنے اسے برباد کردیتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔کیوں کہ انھوں نے اسے جھٹلایا اور اس کی نافرمانی کی ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا  الحديث: أن الله -تعالى- إذا أراد خيرًا بأمة من الأمم قبض نبيها، وبقيت أمته بعده فيكون فرطها في الجنة، ويكون هو الشفيع لهذه الأمة.
وأصل الفرط: هو الذي يتقدم الواردين ليهيئ لهم ما يحتاجون إليه عند نزولهم في منازلهم ثم استعمل للشفيع فيمن خلفه.
وفي الحديث الآخر: قال -صلى الله عليه وسلم-: "أنا فرطكم على الحوض". أي: سابقكم لأرتاد لكم الماء.
"وإذا أراد هلاك أمة عذبها ونبيها حي، فأهلكها وهو حي ينظر" كما وقع لنوح -عليه الصلاة والسلام- مع قومه وغيره من الأنبياء.
فهنا النبي -صلى الله عليه وسلم- كأنه يخبرهم عن رحمة رب العالمين بهذه الأمة، وهو رحمة مهداة إلى هذه الأمة -صلوات الله وسلامه عليه-، فالله -عز وجل- قال: (وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين)، وقد وعَدَ الله هذه الأمة ألا يعذبهم وهو فيهم -صلى الله عليه وسلم-، وزادهم من فضله وكرمه، فقال -تعالى-: (وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون).
575;س حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی جب امتوں میں سے کسی امت کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اس کے نبی کو وفات دے دیتا ہے اور اس کی امت اس کے بعد باقی رہتی ہے چنانچہ وہ جنت میں اسے اس امت کا پیش رو اور اس کے لیے اسے سفارشی بنا دیتاہے۔
فَرَط کا حقیقی معنی ہے وہ شخص جو کسی سفر پر جانے والوں کے آگے آگے رہتا ہے تاکہ ان کے پڑاو کے لیے ضروری جگہ تیارکرے۔ پھر اپنے بعد آنے والے کے لیے سفارشی کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا“۔ یعنی تمہارے لیے پانی کی تلاش میں میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا۔
اور اللہ تعالی جب کسی امت کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اسے اس حال میں عذاب دیتا ہے کہ اس کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اس کی نظروں کے سامنے اسے ہلاک کرتا ہے۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ یا دوسرے انبیاء کا اپنی قوموں کے ساتھ حال ہوا۔
اس مقام پر گویا نبی ﷺ اللہ تعالی کی اس امت پر رحمت کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ﷺ ہی اس امت کو دی گئی رحمت ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ ”اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے“۔
اور اللہ تعالی نے وعدہ کیا کہ جب تک آپ ﷺ اس امت میں ہیں وہ اس پر عذاب نازل نہیں کرے گا اور ان پر اپنے فضل و کرم کی مزید عنایت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وه استغفار بھی کرتے ہوں“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3667

 
 
Hadith   478   الحديث
الأهمية: بَلِّغُوا عَنِّي ولو آية، وحَدِّثُوا عن بَنِي إسرائيل ولا حَرَج، ومن كَذَب عليَّ مُتَعَمِدَا فَليَتَبَوَّأ مَقْعَدَه من النَّار


Tema:

میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنو اسرائیل سے روایت کرو، اس میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا فَلْيَتَبَوَّأْ مقعده من النار».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف سے لوگوں کو (احکامِ الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایت کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث انقلوا إلى الناس العلم الموروث عني من كتاب أو سنة، ولو كان الشيء الذي تبلغونه قليلاً كآية من القرآن، بشرط أن يكون ضابطًا لما يبلغه، والأمر بالتبليغ على الوجوب في حال تعيُّن ذلك عليه، فإن لم يتعين عليه ذلك، كأن يكون في البلد دعاة إلى الله يقومون بتعليم الناس وتبصيرهم أمور دينهم، فلا يجب عليه البلاغ، بل يستحب له ذلك، ولا بأس ولا إثم عليكم أن تحدثوا عن بني إسرائيل بما وقع لهم من وقائع حقيقية، كنزول النار من السماء لأكل القربان وكحكاية قتل أنفسهم في توبتهم من عبادة العجل، أو تفصيل القصص المذكورة في القرآن مما فيه عِبر ومواعظ، ومن افترى عليَّ الكذب فليتخذ لنفسه منزلا في النار، وذلك ؛ لأن الكذب على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ليس كالكذب على الناس، الكذب على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كَذب على الله -عز وجل-، ثم هو كذب على الشريعة؛ لأن ما يخبر به رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من الوحي هو من شريعة الله -تعالى-، فكانت عقوبته أشد.
581;دیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علم جو وراثت میں مجھ سے قرآن وسنت کی شکل میں چلتا آرہا ہے اسے لوگوں تک پہنچاؤ، اگر چہ وہ جو تم لوگوں تک پہنچاؤ قرآن کریم کی ایک آیت جتنا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پہنچانے جو کچھ پہنچائے اس کا حافظ ہو۔ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کرنے کا حکم واجب اس حال میں ہو گیا ہے جب اس شخص پر تبلیغ کرنا متعین ہو۔ اگر اس پر اس کی تبلیغ کرنا متعین نہ ہو جیسے وہ ایسے شہر میں ہو جہاں اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے دعاۃ موجود ہوں جو لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ان کے دینی معاملات میں ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں تو اس پر تبلیغ کرنا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔
بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسے قربانی کو جلانے کے لیے آسمان سے آگ کا اترنا، اسی طرح بچھڑے کی عبادت کرنے سے توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنے کا واقعہ یا قرآن کریم میں مذکور وہ تفصیلی قصے جو عبرت اور نصیحت کے لیے ذکر کیے گئے ہیں۔
جو شخص آپ ﷺ پر جھوٹ بولے گا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ پر جھوٹ بولنا عام لوگوں پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے، پھر یہ شریعت میں جھوٹ بولنا ہے۔ کیوں کہ جس چیز کی خبر اللہ کے رسول ﷺ وحی کے ذریعے دے رہے ہیں وہ اللہ کی شریعت ہے۔ چنانچہ اس کی سزا بہت سخت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3686

 
 
Hadith   479   الحديث
الأهمية: لَك بها يوم القيامة سَبْعُمائَةِ نَاقة كُلُّهَا مَخْطُومَة


Tema:

تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی۔

عن أبي مسعود -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٍ، فقال: هذه في سبيل الله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لك بها يوم القيامة سبعمائة ناقة كلها مَخْطُومَةٍ».

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نکیل پڑی ہوئی اونٹنی لے کر آیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ (یارسول اللہ!) یہ اونٹنی اللہ کے راستہ میں (دیتا ہوں) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٌ، أي مَشْدُودةٌ بِحَبل، وهو قريب من الزمام التي تُشَدُّ به الناقة، فقال الرجل: يا رسول الله، هذه في سَبِيلِ الله، أي أوقفها في الجهاد في سبيل الله -تعالى-، للغزو بها. 
فقال له -صلى لله عليه وسلم-: "لك بها سَبْعُمائَةِ نَاقة "؛ وذلك لأن الله -تعالى- يُضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سَبعمائة ضِعف إلى أضْعَاف كثيرة، كما في قوله -تعالى-: (مَثَل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كَمثَلِ حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم)[البقرة:261].
قوله: "كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ " فائدة الخِطام: زيادة تمكن صاحبها من أن يعمل بها ما أراد، وهذا من حسن الجزاء، فكما أن هذا الرجل جاء بناقته إلى النبي -صلى الله عليه  وسلم- مَشْدُودٌ عليها بالخِطام، جزاه الله بسبعمائة ناقة كلها مَشْدُودٌ عليها بالخِطام؛ وليعلم من ينفق في الدنيا أن كل زيادة يقدمها سيحزى بها، والخطام له قيمة وجمال وزيادة في الناقة.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نکیل پڑی اونٹنی لے کر آیا۔”مَخْطُومَةٌ“ سے مراد ہے کہ وہ رسی سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ رسی لگام کی طرح کی ہوتی ہے جس سے اونٹنی کو باندھا جاتا ہے۔
اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹنی اللہ کے راستے میں وقف ہے۔ یعنی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرتا ہوں تاکہ یہ جنگ میں کام آئے۔
آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ”تمہیں اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گے“۔ کیوں کہ اللہ تعالی نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھا کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ [البقرة:261]. ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے“۔
”كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ“ نکیل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اونٹنی کا مالک اونٹنی کو پہلے سے زیادہ قابو میں رکھ کر اس ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔ یہ حسن جزاء کی علامت ہے۔ جیسے یہ شخص نبی ﷺ کے پاس اونٹنی کو اس حال میں لے کر آیا کہ وہ نکیل سے بندھی ہوئی تھی اسی طرح اللہ بھی اسے ایسی سات سو اونٹنیاں بطورِ جزاء دیں گے جو سب کی سب نکیل سے بندھی ہوں گی تاکہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے والوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ جو کچھ بھی وہ دنیا میں خرچ کرتے ہیں ہر زائد شے پر انہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا، نکیل کی ایک قیمت ہوتی ہے اور وہ خوبصورتی اور اونٹنی کے لیے ایک زائد شے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3687

 
 
Hadith   480   الحديث
الأهمية: أن رجلًا استأذن على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: ائْذَنُوا له، بِئْسَ أخُو العَشِيرَة


Tema:

ایک شخص نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن رجلًا استأذن على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: «ائْذَنُوا له، بئس أخو العَشِيرَةِ؟».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے آنے کی اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
استأذن رجل على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: "ائذنوا له، بِئْس أخو العشيرة، أو ابْن العشيرة"، فلما جلس تَطلَّق النبي -صلى الله عليه وسلم- في وجهه وانْبَسط إليه، فلما انطلق الرجل قالت له عائشة: يا رسول الله، حين رأيت الرجل قلت له كذا وكذا، ثم تَطَلَّقْتَ في وجهه وانْبَسطت إليه؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "يا عائشة، متى عَهِدْتِنِي فَحَّاشًا، إن شَرَّ الناس عند الله منزلة يوم القيامة من تركه الناس اتقاء شره" فهذا الرجل من أهل الفساد والشر ولهذا ذكره -صلى الله عليه وسلم- في غيبته بما يستحقه فقال بئس ابن قبيلته هو من أجل أن يحذر الناس فساده، حتى لا يغتروا به، فإذا رأيت شخصًا ذا فساد وغَيٍّ لكنه قد سَحَر الناس بفصاحته، فإنه يجب عليك أن تبين أن هذا الرجل فاسد؛ لأجل ألا يَغْتَّر الناس به، كمْ من إنسان طَليق اللسان فصيح البيان إذا رأيته يعجبك جسمه وإن يقل تسمع لقوله، ولكنه لا خير فيه، فالواجب بيان حاله.
وأما عن ملاطفته -صلى الله عليه وسلم- للرجل فذلك من باب المُدارة وأهل العلم يقررون أن المُداراة مطلوبة، يعني في التعامل مع الآخرين، بخلاف المُدَاهنة، المُدَاهنة التي يترتب عليها تنازل عن واجب، أو ارتكاب محظور، هذا لا يجوز بحال، لقوله -تعالى-: (وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ) [سورة القلم: 9]، أما المُداراة والتعامل مع الناس بما يحقق المصلحة ولا يترتب عليه أدنى مفسدة، فإن هذا أمر شرعي.
575;یک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آنے دو، یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے، یا آپ ﷺ نے ”أخو العشيرة“ کی بجائے ”ابْن العشيرة“ فرمایا۔ جب وہ آ بیٹھا تو آپ ﷺ اس کے ساتھ بہت خندہ روئی اور خوش مزاجی سے پیش آئے۔ اس آدمی کے چلے جانے کے بعد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول! جب آپ نے اس آدمی کو دیکھا تھا تو آپ نے ایسے کہا تھا جب کہ بعد ازاں آپ اس سے بہت خندہ روئی اور خوش مزاجی سے پیش آئے ہیں، (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! تم نے مجھے بد گو کب پایا ہے؟ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہو گا جس سے لوگ اس کے شر سے بچنے کے لئے کنارہ کشی کرلیں۔
یہ شخص فسادی اور فتنہ انگیز لوگوں میں سے تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس انداز میں کیا جس کا وہ حق دار تھا اور فرمایا کہ وہ اپنے قبیلہ کا بدترین شخص ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کی فتنہ انگیزی پر متنبہ کرنے کے لئے یہ فرمایا تا کہ وہ اس سے دھوکہ نہ کھا بیٹھیں۔ چنانچہ جب آپ بھی کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو برا اور گمراہ ہو لیکن اس نے اپنی فصاحت کی بدولت لوگوں کو مسحور کر رکھا ہو تواس صورت میں آپ کے لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ شخص برا ہے تاکہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھا لیں۔ کتنے ہی ایسے چرب زبان اور فصیح الکلام لوگ ہوتے ہیں جن کا ڈیل ڈول آپ کو بہت بھاتا ہے اور جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو اسے آپ بغور سنتے ہیں لیکن ان میں خیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کی حقیقتِ حال کو بیان کرنا واجب ہے۔ باقی رہا آپ ﷺ کا اس شخص کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا تو یہ مدارات (دل رکھنے) کے قبیل سے تھا۔ اہل علم کےنزدیک دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں مدارات ضروری ہے بخلاف مداہنت کے۔ اس سے مراد وہ مداہنت ہے جس کی وجہ سے کسی واجب سے دستبردار ہونا پڑے یا پھر کسی ممنوعہ کام سے چشم پوشی ہو یا کسی حرام کا ارتکاب ہو۔ ایسا کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ﴾ [سورة القلم: 9] ”وہ تو چاہتے ہیں کہ کہیں آپ نرمی کریں تو وہ بھی نرمی کریں“۔ جب کہ مدارات اور لوگوں کے ساتھ اس انداز میں برتاؤ کرنا جس سے مصلحت کا حصول ہو اور اس سے کوئی برائی بھی مرتب نہ ہوتی ہو تو یہ ایک مشروع عمل ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3688

 
 
Hadith   481   الحديث
الأهمية: من سَرَّه أن يَنْظَر إلى رجُل من أهل الجَنَّة فَلْيَنْظر إلى هذا


Tema:

جس شخص کو کوئی جنتی ديکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن أعْرَابيًا أتَى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، دُلَّنِي على عمل إذا عَمِلتُه، دخلت الجنة. قال: «تَعْبُدُ الله لا تُشرك به شيئا، وتُقِيم الصلاة، وتُؤتي الزكاة المَفْرُوضَة، وتصوم رمضان» قال: والذي نفسي بيده، لا أَزِيْدُ على هذا، فلمَّا ولَّى قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «من سَرَّه أن يَنْظَر إلى رجُل من أهل الجَنَّة فَلْيَنْظر إلى هذا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کيا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جسے اگر میں کرتا رہوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز قائم کرو، فرض زکوٰة کی ادائيگی کرو اور رمضان کے روزے رکھو“۔ اس دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ پھير کر چلا تو نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو کوئی جنتی ديکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أبو هريرة رضي الله عنه- أن رجلاً من أهل البادية قدم على النبي -صلى الله عليه وسلم- ليدله على عمل يدخله الجنة فأجابه النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن دخول الجنة والنجاة من النار يتوقفان على أداء أركان الإسلام، حيث قال: "تعبد الله لا تشرك به شيئًا" وهو معنى شهادة أن لا إله إلا الله، التي هي الركن الأول من أركان الإسلام، لأن معناها: لا معبود بحق إلا الله، ومقتضاها إفراد الله بالعبادة، وذلك بعبادة الله وحده، وأن لا تشرك به شيئًا".
"وتقيم الصلاة"، أي وتقيم الصلوات الخمس التي كتبها الله وأوجبها على عباده في كل يوم وليلة، بما في ذلك صلاة الجمعة.
"وتؤدي الزكاة المفروضة"، أي وتعطي الزكاة الشرعية التي أوجبها الله عليك، وتدفعها لمستحقها.
"وتصوم رمضان" أي وتحافظ على صيام رمضان في وقته.
"قال والذي نفسي بيده لا أزيد على هذا" أي لا أزيد على العمل المفروض الذي سمعته منك شيئا من الطاعات، وزاد مسلم: "ولا أنقص منه".


"فلما ولى قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: من سرَّه أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فينظر إلى هذا"، أي فلينظر إلى هذا الأعرابي، فإنه من أهل الجنة إن داوم على فعل ما أمرته به؛ لقوله في حديث أبي أيوب -رضي الله عنه- كما في مسلم: "إن تمسك بما أُمر به دخل الجنة".
ولم يذكر في هذا الحديث: حج بيت الله الحرم، مع أنه الركن الخامس من أركان الإسلام، ولعل ذلك قبل أن يفرض.
وحاصله أن الحديث يدل على أن من أدى ما افترضه الله عليه من الصلوات الخمس وصوم رمضان وأداء الزكاة مع اجتناب المحرمات استحق دخول الجنة، والنجاة من النار.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان كر رہے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ ﷺ اس کی رہنمائی کسی ایسے عمل کی طرف فرمائیں جو اسے جنت میں لے جائے۔ نبی ﷺ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جنت کا داخلہ اور دوزخ سے چھٹکارا ارکان اسلام کی ادائیگی پر موقوف ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ“ لا إله إلا الله کی شہادت کا معنی یہی ہے اور یہ ارکان اسلام میں سے سب سے پہلا رکن ہے کیونکہ اس کا معنی ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اس کا تقاضا اللہ کو عبادت میں منفرد ویکتا ماننا ہے بایں طور کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور یہ کہ آپ اس کے ساتھ کسی بھی چيز کو شریک نہ ٹھہرائيں۔
”اور نماز قائم کرو“ یعنی وہ پانچ نمازیں بشمول نماز جمعہ کے جنہيں اللہ نے ہر دن ورات ميں اپنے بندوں پر فرض کیا ہے انہیں قائم کرو۔
”اور فرض زکوۃ ادا کرو“ یعنی وہ شرعی زکوۃ ادا کرو جسے اللہ نے تم پر فرض کیا ہے اور اسے اس کے حق دار تک پہنچاؤ۔
”اور رمضان کے روزے رکھو“ یعنی رمضان کے روزوں کی ان کے وقت میں پابندی کرو۔
”اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا“ یعنی میں نے آپ سے جو فرض اعمال سنے ہیں ان پر میں کسی بھی اور نیکی کا اضافہ نہیں کروں گا۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: ”اور نہ ہی ان میں کچھ کمی کروں گا“۔
جب وہ پیٹھ پھير کر چلا تو نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو کوئی جنتی ديکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے“ یعنی اسے چاہیے کہ وہ اس اعرابی (ديہاتی) کو دیکھ لے کيونکہ اگر یہ میرے حکم کردہ اعمال پر ہميشگی برتے گا تو یہ جنتيوں ميں سے ہوگا۔ کیونکہ مسلم شریف میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نےفرمایا: ”جس بات کا اسے حکم دیا گیا ہے اگر یہ اس کی پابندی کرتا رہے گا تو جنت ميں جائے گا“۔
اس حدیث میں بیت اللہ کے حج کا ذکر نہیں ہے باوجود اس کے کہ یہ اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ حج فرض نہیں ہوا تھا۔
حاصل یہ کہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے اللہ کی فرض کردہ پانچ نمازوں کی ادائیگی کی، رمضان کے روزے رکھے، زکوۃ ادا کی اور اس کے ساتھ ساتھ حرام چیزوں سے اجتناب کرتا رہا وہ جنت میں جانے اور دوزخ سے نجات پانے کا حق دار ہوگیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3689

 
 
Hadith   482   الحديث
الأهمية: لو كانت الدنيا تَعدل عند الله جَناح بَعوضة، ما سقى كافراً منها شربة ماء


Tema:

اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت رکھتی تو وہ کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔

عن سهل بن سعد الساعدي ـرضي الله عنه- قَالَ رَسُول اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «لو كانت الدنيا تَعدل عند الله جَناح بَعوضة، ما سَقَى كافراً منها شَرْبَة ماء».

سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی تو وہ کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث بيان حَقَارة الدنيا عند الله وأنه لا قيمة لها، ولو كان لها أدنى قيمة عند الله تعالى ما سقى منها كافرًا شربة ماء، فضلا عن تنعمه بها وتلذذه بطيباتها، لذا كانت الدنيا هينة عند الله تعالى،  بخلاف الآخرة، فإنها دار نعيم مقيم لأهل الإيمان خالصة لهم من دون الكفار، لذا ينبغي على أهل الإيمان أن يدركوا حقيقة هذه الدنيا وأن لا يركنوا إليها، فإنها دار ممر لا دار قرار، فيأخذون منها ما يتزودن به لآخرتهم التي هي دار القرار. قال تعالى: (وما أوتيتم من شيء فمتاع الحياة الدنيا وزينتها وما عند الله خير وأبقى أفلا تعقلون، أفمن وعدناه وعدًا حسنًا فهو لاقيه كمن متعناه متاع الحياة الدنيا ثم هو يوم القيامة من المحضرين).
575;س حدیث میں اللہ کے ہاں دنیا کی حقارت کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر اللہ کے ہاں اس کی تھوڑی سی بھی قیمت ہوتی تو کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا، چہ جائیکہ کافر کواس دنیا میں نعمتوں سے نوازتا اور اس کو اس دنیا کی خوش گوار اشیاء سے لطف اندوز ہونے دیتا۔ اسی لیے دنیا اللہ کے ہاں حقیر ہے بخلاف آخرت کے کہ یہ خالص مومنوں کے حق میں دائمی نعمتوں کا گھر ہے کفار کےمقابلے۔ اسی لیے اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کو پہچانیں اور اس کی طرف مائل نہ ہوں، اس لیے کہ یہ گزرگاہ ہے رہنے کی جگہ نہیں۔ چنانچہ یہاں سے اتنا ہی لیں جتنا کہ اپنی آخرت سنوار سکیں جو ان کا ہمیشگی کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ * أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ﴾۔
”اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف دنیوی زندگی کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے، کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3695

 
 
Hadith   483   الحديث
الأهمية: لما قَدِم النبي -صلى الله عليه وسلم- من غَزْوة تَبُوك تَلَقَّاهُ الناس، فَتَلَقَّيتُه مع الصِّبْيَان على ثَنيَّةِ الوَدَاع


Tema:

جب نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک سے آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، اور میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جاکر ثنیۃ الوداع پر ملا۔

عن السَّائب بن يزيد -رضي الله عنه- قال: لما قَدِم النبي -صلى الله عليه وسلم- من غَزْوة تَبُوك تَلَقَّاهُ الناس، فَتَلَقَّيتُه مع الصِّبْيَان على ثَنيَّةِ الوَدَاع. 
ورواية البخاري قال: ذَهَبْنا نَتَلَقَّى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مع الصِّبْيَان إلى ثَنيَّةِ الوَدَاع.

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوۂ تبوک سے آئے تو لوگوں نے آپ کا استقبال کیا، تو میں بھی بچوں کے ساتھ آپ سے جا کر ثنیۃ الوداع پر ملا۔
بخاری کی روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں: ”ہم سب بچے ثنیۃ الوداع تک آپ ﷺ کا استقبال کرنے گئے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: يخبر السَّائب بن يزيد -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عندما قدم من  غزوة تبوك خرج الناس -ممن كان قد تخلف عن الغزو من المعذورين وغيرهم- إلى ثنية الوداع وذلك لاستقباله-صلى الله عليه وسلم- حين عودته.
وخرج السَّائب بن يزيد مع صِبيان المدينة لتلقي النبي -صلى الله عليه وسلم-.
581;دیث کا مفہوم یہ ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو جو معذورین وغیرہ میں سے جو لوگ غزوے سے پیچھے رہ گیے تھے وہ آپ سے ملاقات کے لیے ثنية الوداع کی طرف نکلے، یہ آپ ﷺ کی واپسی پر آپ کے استقبال کے لیے نکلے۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بھی مدینہ کے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ سے ملنے نکلے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3696

 
 
Hadith   484   الحديث
الأهمية: ثلاثة لهم أجْرَان: رجُلٌ من أهل الكتاب آمن بِنَبِيِّه، وآمَن بمحمد، والعَبْد المملوك إذا أَدَّى حَقَّ الله، وحَقَّ مَوَالِيه، ورَجُل كانت له أمَة فأدَّبَها فأحسن تَأدِيبَها، وَعَلَّمَهَا فأحسن تَعْلِيمَهَا، ثم أعْتَقَها فتزوجها؛ فله أجران


Tema:

تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے، وہ اپنے نبی پر ایمان لایا اور (پھر) محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی۔ (تیسرا) وہ شخص جس کی ایک باندی ہو۔ چنانچہ اس نے اسے ادب سکھایا اور اس کی خوب اچھی تربیت کی، اور اسے علم سکھایا اور اسے خوب اچھی تعلیم سے آراستہ کیا، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی، اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔

عن أبي موسى الأشعري-رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثة لهم أجْرَان: رجُلٌ من أهل الكتاب آمن بِنَبِيِّه، وآمَن بمحمد، والعَبْد المملوك إذا أَدَّى حَقَّ الله، وحَقَّ مَوَالِيه، ورجل كانت له أمَة فأدَّبَها فأحسن تَأدِيبَها، وَعَلَّمَهَا فأحسن تَعْلِيمَهَا، ثم أعْتَقَها فتزوجها؛ فله أجران».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے، وہ اپنے نبی پر ایمان لایا اور (پھر) محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی۔ (تیسرا) وہ شخص جس کی ایک باندی ہو۔ چنانچہ اس نے اسے ادب سکھایا اور اس کی خوب اچھی تربیت کی، اور اسے علم سکھایا اور اسے خوب اچھی تعلیم سے آراستہ کیا، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی، اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ثلاثة أصناف من البشر يُضاعف لهم الأجر مرتين يوم القيامة، ثم ذكرهم بقوله: رجُلٌ من أهل الكتاب، أي من اليهود والنصارى، آمن بِنَبِيِّه الذي أرسل إليه سابقا، وهو موسى أو عيسى عليهما الصلاة والسلام، وذلك قبل بعثة النبي صلى الله عليه وسلم وقبل بلوغ دعوته. فلما بعث النبي -صلى الله عليه وسلم-، وبلغته دعوته آمن به، فهذا له أجران، أجر على إيمانه برسوله الذي أرسله إليه أولاً، وأجر على إيمانه بمحمد -صلى الله عليه وسلم-، والعَبْد المملوك إذا قام بعبادة الله تعالى وأدى ما يكلفه به سيده على أحسن وجه فله أجران، ورجل كانت عنده جارية  مملوكة فربَّاها تربية صالحة، وعلمها أمور دينها من حلال وحرام، ثم حررها من العبودية، ثم تزوجها، فله أجران:
الأجر الأول: على تعليمها وعتقها.
والأجر الثاني: على إحسانه إليها بعد أن أعتقها لم يضيعها، بل تزوجها وكفَّها وأحصن فرجها
578;ین قسم کے آدمیوں کو قیامت کے دن دوہرا اجر ملے گا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
ایک وہ شخص جو یہودیوں یا عیسائیوں میں سے ہے، وہ اپنے اس نبی پر بھی ایمان لایا جو اس کی طرف پہلے بھیجے گئے تھے اور وہ موسی یا عیسی علیہما الصلوۃ و السلام ہیں، اور ایسا نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے اور آپ ﷺ کی دعوت کے پہنچنے سے پہلے ہے۔ پھر جب نبی ﷺ مبعوث ہو ئے اور اس تک آپ ﷺ کی دعوت پہنچی تو وہ اس پر بھی ایمان لے آیا، تو۔اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے، ایک تو اس کے اپنے اس رسول پر ایمان لانے کا اجر ہے جسے اللہ نے اس کی طرف پہلے بھیجا تھا اور دوسرا اس کے محمد ﷺ پر ایمان لانے کا اجر۔ مملوک غلام جب اللہ کی عبادت کرے اور اس کا آقا اسے جن کاموں کی ذمہ داری سونپتا ہے ان سے بھی وہ اچھے انداز میں عہدہ برآ ہو، تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی باندی ہو اور وہ اس کی اچھے طریقے سے پرورش کرے اور اسے حلال و حرام پر مشتمل دینی امور سکھائے اور پھر اسے غلامی سے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے بھی دوہرا اجر ہے۔ پہلا اجر: اسے علم سکھانے اور اسے آزاد کرنے پر۔ دوسرا اجر: اسے آزاد کرنے کے بعد اس کے ساتھ احسان و بھلائی کرنے پر۔ کیوں کہ اسے آزاد کرنے کے بعد اسے ضائع نہیں کیا، بلکہ اس کی ساتھ شادی کرلی اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت کی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3697

 
 
Hadith   485   الحديث
الأهمية: أُعطينا من الدنيا ما أُعطينا، قد خشينا أن تكون حسناتُنا عُجِّلت لنا


Tema:

ہم پر دنیا وسیع کردی گئی، ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں دنيا ہی ميں ہماری نيکيوں کا جلدی بدلہ تو نہيں دے ديا گيا۔

عن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، أن عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- أُتي بطعام وكان صائمًا، فقال: قُتِل مُصعب بن عمير -رضي الله عنه- وهو خيرٌ مني، فلم يوجد له ما يُكفَّن فيه إلا بُردة إن غُطِّيَ بها رأسه بَدَت رِجْلاه؛ وإن غُطِّيَ بها رجلاه بدا رأسه، ثم بُسِط لنا مِنَ الدنيا ما بُسِط، أو قال: أُعْطِينا من الدنيا ما أُعطِينا، قد خَشِينَا أن تكون حَسَنَاتُنا عُجِّلَت لنا، ثم جعل يبكي حتى ترك الطعام.

ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف رحمہ اللہ سے روايت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا گیا جب کہ آپ روزے سے تھے۔ آپ نے فرمایا: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور وه مجھ سے بہتر تھے۔ ان کے کفن کے لیے صرف ايک چادر ميسر آئی، جس سے اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا توان کے پير کھل جاتے اور اگر پير ڈھانپے جاتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ پھر ہمارے لیے دنیا فراخ کردی گئی جو تم ديکھ رہے ہو، یا یہ فرمایا: ہمیں دنیا اتنی عطا کردی گئی ہے جو ظاہر ہے۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں دنيا ہی ميں ہماری نيکيوں کا جلدی بدلہ تو نہيں دے ديا گيا؟ پھر رونے لگے يہاں تک کہ کھانا بھی چھوڑ ديا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه كان في يوم من الأيام صائمًا، ولما حان وقت الإفطار جيء له بالطعام، والصائم يشتهي الطعام عادة، ولكنه رضي الله عنه تذكر ما كان عليه الصحابة الأولون، وهو رضي الله عنه من الصحابة الأولين من المهاجرين رضي الله عنهم، لكنه قال احتقارًا لنفسه قال: إن مصعب بن عمير رضي الله عنه كان خيرا ًمني تواضعاً وهضما لنفسه، أو من حيثية اختيار الفقر والصبر، وإلا فقد صرح العلماء بأن العشرة المبشرة أفضل من بقية الصحابة.
ومصعب رضي الله عنه كان قبل الإسلام عند والديه بمكة وكان والداه أغنياء، وأمه وأبوه يلبسانه من خير اللباس: لباس الشباب والفتيان، وقد دللاه دلالاً عظيماً، فلما أسلم هجراه وأبعداه، وهاجر مع النبي صلى الله عليه وسلم، فكان مع المهاجرين، وكان عليه ثوب مرقع بعدما كان في مكة عند أبويه يلبس أحسن الثياب، لكنه ترك ذلك كله مهاجراً إلى الله ورسوله.
وأعطاه النبي صلى الله عليه وسلم الراية يوم أحد، فاستشهد رضي الله عنه، وكان معه بردة- أي ثوب- إذا غطوا به رأسه بدت رجلاه- وذلك لقصر الثوب- وإن غطوا رجليه بدا رأسه، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يستر به رأسه وأن تستر رجلاه بالإذخر؛ نبات معروف.
فكان عبد الرحمن بن عوف يذكر حال هذا الرجل، ثم يقول: إنهم قد مضوا وسلموا مما فتح الله به من الدنيا على من بعدهم من المغانم الكثيرة، كما قال تعالى: ( ومغانم كثيرة يأخذونها ).
ثم قال عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه: "قد خشينا أن تكون حسناتنا عجلت لنا" أي: خفنا أن ندخل في زمرة من قيل فيه: (من كان يريد العاجلة عجلنا له فيها ما نشاء لمن نريد ثم جعلنا له جهنم يصلاها مذمومًا مدحورًا) أو قوله تعالى: (أذهبتم طيباتكم في حياتكم الدنيا واستمتعتم بها). كما جاء عن عمر رضي الله عنه، وهذا لما كان الخوف غالباً عليهم فخشي رضي الله عنه أن تكون حسناتهم قد عجلت لهم في هذه الدنيا، فبكى خوفاً وخشية أن لا يلحق بمن تقدمه من الصالحين، ثم ترك الطعام رضي الله عنه.
581;دیث کا مفہوم: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک دن روزے سے تھے۔ جب افطار کا وقت آیا تو ان کے لئے کھانا لایا گیا۔ روزہ دار کو عام طور پر کھانے کی چاہت ہوتی ہے۔ لیکن عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اولين صحابۂ کرام کے احوال کو یاد کیا۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ خود بھی اولين اور مہاجرين صحابہ میں سے تھے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کم تر سمجھتے ہوئے فرمایا کہ: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تواضع اور انکسارِ نفس میں مجھ سے بہتر تھے، یا وہ فقر اور صبر کو اختیار کرنے کے اعتبار سے مجھ سے بہتر تھے۔ ورنہ علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عشرۂ مبشرہ (انہيں ميں سے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ہيں) باقی صحابہ سے افضل ہیں۔
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل اپنے والدین کے ساتھ مکہ میں رہتے تھے اور ان کے والدین بہت مالدار تھے۔ ان کے ماں باپ انہيں نو جوان لڑکوں کے بہترین لباس پہناتے تھے۔ انہوں نے بہت لاڈ پیار سے انہں پالا تھا، لیکن جب وہ اسلام لائے تو والدین نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنے سے دور کردیا۔ یہ مہاجرین میں سے تھے، ان کے بدن پر پیوند لگے کپڑے رہتے تھے، جب کہ پہلے یہ اپنے والدین کے ساتھ مکہ میں بہترین کپڑے پہنا کرتے تھے، لیکن انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرکے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں۔
اُحد کے دن نبی ﷺ نے انہیں جھنڈا دیا اور وه اس میں شہید ہوگئے۔ ان کے پاس ایک چادر تھی، اس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو کپڑا چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے پیر نظر آتے، اور اگر ان کے پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا۔ تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس سے ان کا سر ڈھانپ دیا جائے اوران کے پیر اذخر گھاس سے ڈھانپ دیے جائیں۔ اذخر ایک معروف گھاس ہے۔
حدیث مذکور میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کا حال یاد فرما رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہيں کہ وہ لوگ چلے گئے اور ان کے بعد کے لوگوں پر اللہ نے جو دنيا کے مال و غنيمت کی فراخی کردی ہے اس سے وہ لوگ محفوظ ہوگئے ۔ جيسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا﴾ ”اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کريں گے“۔
پھر عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں دنيا ہی ميں ہماری نيکيوں کا جلدی بدلہ تو نہيں دے ديا گيا؟“ یعنی ہمیں خوف ہے کہ کہيں ہم ان لوگوں کے زمرے میں تو نہيں داخل ہوگئے جن کے بارے میں کہا گیا ہے: ﴿مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا﴾ ”جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں، بالآخر اس کے لیے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا“۔ یا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا﴾ ”تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان سے فائدے اٹھا چکے“۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ ان سب کی وجہ سے جب ان پر خوف غالب رہتا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ کو ڈر لاحق ہوا کہ کہیں ان کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں جلدی نہ دے دیا گیا ہو۔ اسی لیے وہ اس خوف اور خدشے سے رونے لگے کہ کہيں ایسا نہ ہو کہ وہ پہلے نیک لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہوسکيں۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے کھانا چھوڑ دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3698

 
 
Hadith   486   الحديث
الأهمية: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من أهل نَجْدٍ ثَائِرُ الرأس نَسْمَع دَوِيَّ صوته، ولا نفقه ما يقول، حتى دَنَا من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فإذا هو يَسأل عن الإسلام


Tema:

نجد کا ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔

عن طلحة بن عبيد الله -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من أهل نَجْدٍ ثَائِرُ الرأس نَسْمَع دَوِيَّ صوته، ولا نفقه ما يقول، حتى دَنَا من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فإذا هو يَسأل عن الإسلام، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «خمس صَلَواتٍ في اليوم واللَّيلة» قال: هل عليَّ غَيْرُهُنَّ؟ قال: «لا، إلا أن تَطَّوَّعَ» فقال  رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «وصيام شهر رمضان» قال: هل عليَّ غَيْرُه؟ قال: «لا، إلا أن تَطَّوَّعَ» قال: وذكر له رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الزكاة، فقال: هل عليَّ غَيْرُهَا؟ قال: «لا، إلا أن تَطَّوَّعَ» فأَدْبَر الرَجُل وهو يقول: والله لا أَزيد على هذا ولا أنْقُص منه، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَفْلَح إن صَدَق».

طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نجد کا ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دن رات میں پانچ نمازیں پڑھی جائیں۔ اس نے کہا: کیا ان کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پرفرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، مگریہ کہ تو نفل پڑھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اور رمضان کے روزے رکھنا، اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھے۔ طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم ﷺ نے اس سے زکوٰۃ کے بارے میں بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ اور کوئی صدقہ مجھ پر ہے یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر یہ کہتے ہوۓ چل پڑا کہ، قسم اللہ کی !میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا! نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- من أهل نجد، شعره منتفش وصوته مرتفع، ولم يفقه الصحابة -رضي الله عنهم- قوله حتى اقترب من النبي -صلى الله عليه وسلم-، فسأله عن التكاليف الشرعية في الإسلام، فبدأ النبي -صلى الله عليه وسلم- بالصلاة، وأخبره أن الله قد افترض عليه خمس صلوات في كل يوم وليلة، فقال: هل يلزمني شيء من الصلوات غير الصلوات الخمس.
فقال: لا يلزمك غير الصلوات الخمس، ومنها صلاة الجمعة؛ لأنها من صلاة اليوم والليلة، إلا إذا تطوعت زيادة على ما أوجبه الله عليك، فذلك خير.
ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: ومما أوجبه الله عليك صوم شهر رمضان، فقال الرجل: هل يلزمني شيء من الصيام زيادة على صوم رمضان.
فقال: لا يلزمك شيء غير صوم رمضان، إلا أن تتطوع بالصوم، كصوم الاثنين والخميس والست من شوال وعرفة، فهذا خير.
ثم ذكر له رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الزكاة، فقال الرجل: هل يلزمني شيء من الصدقات بعد إخراج زكاة المال؟
قال: لا يلزمك شيء إلا أن تتطوع بشي من عندك من غير إيجاب، فهذا خير.
وبعد أن سمع الرجل من النبي -صلى الله عليه وسلم- التكاليف الشرعية ولى مدبرا وأقسم بالله -تعالى-، أنه سيلتزم بما أوجبه الله عليه من غير زيادة ولا نقصان.
فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على إثر ذلك: إذا صَدَقَ الرجل فيما حلف عليه، فإنه يكون مفلحًا وآخذًا بسبب الفلاح، وهو القيام بما أوجبه الله -جل وعلا- عليه.
606;جد کا ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بال پراگندہ و بکھرے ہوئے تھے اور کی آواز بہت اونچی تھی، جس کی بنا پر صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی، یہاں تک کہ وہ نبی ﷺ کے نزدیک پہنچ گیا اور آپ ﷺ سے اسلام میں داخل ہونے کے بعد بندۂ مومن پر عائد ہونے والی شرعی تکالیف و احکام کے بارے میں استفسار کرنے لگا۔ نبی ﷺ نے سب سے پہلے نماز کا ذکر فرمایا اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ اس نے دریافت کیا کہ:آیا ان پانچ نمازوں کے علاوہ کچھ اور نمازیں بھی مجھ پر لازم ہیں؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان پانچ نمازوں کے علاوہ تم پر کوئی اور نماز لازم نہیں۔ -خیال رہے کہ فرض نمازوں میں نماز جمعہ شامل ہے؛ کیوں کہ وہ دن اور رات کی نمازوں میں سے ہے- الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم پر عائد کردہ واجبات کے علاوہ نفل کے طور پر کچھ زیادہ کرلو تو یہ تمھارے حق میں کار خیر ہوگا۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر عائد کردہ واجبات میں سے ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے۔ اس شخص نے دریافت کیا کہ آیا مجھ پر رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ بھی کچھ مزید روزے لازم ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:رمضان کے روزوں کے علاوہ تم پر کوئی اور روزے فرض نہیں۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ تم پیر اور جمعرات، شوال کے چھ روزے اور عرفہ کا روزہ جیسے کچھ نفلی روزے رکھو۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔
پھر آپ ﷺ نے اس سے زکاۃ کی بابت ذکر کیا، تو اس شخص نے دریافت کیا:آیا مال زکاۃ نکالنے کے بعد مجھ پر کچھ اور دیگر صدقات لازم ہوتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: زکاۃ کے علاوہ تم پر کوئی اور صدقہ واجب نہیں، سوائے یہ کہ تم اپنی جانب سے غیر واجب کچھ نفلی صدقات خیرات کرو، تو یہ تمھارے حق میں خیر وبھلائی کا ذریعہ ہوں گے۔
نبی کریم ﷺ کی جانب سے بیان کردہ ان شرعی تکالیف و احکام کو سننے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے اس شخص نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد کردہ ان واجبات پر بلاکم و کاست عمل پیرا رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا:اگر یہ شخص اپنے حلفیہ و قسمیہ بیان میں کھرا و سچا ثابت ہوا، تو یقینا بامراد و کامران ہوگا۔ اور اللہ جل و علا کی جانب سے اس پر عائد کردہ واجبات کو بجالاکر فلاح و کامرانی کے سبب کو اختیار کرنے والا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3700

 
 
Hadith   487   الحديث
الأهمية: ما يُصيب المسلم من نَصب، ولا وصَب، ولا هَمِّ، ولا حَزن، ولا أَذى، ولا غَمِّ، حتى الشوكة يُشاكها إلا كفر الله بها من خطاياه


Tema:

ایک مسلمان کو جو بھی تھكان ، مرض ، پريشانی ، صدمہ ، تکلیف یا غم پہنچتا ہے حتی کہ اگر كوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔

عن أبي سعيد وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ما يُصيب المسلم من نَصب، ولا وصَب، ولا هَمِّ، ولا حَزن، ولا أَذى، ولا غَمِّ، حتى الشوكة يُشاكها إلا كفر الله بها من خطاياه».

ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو جو بھی تھكان، مرض، پريشانی، صدمہ، تکلیف یا غم پہنچتا ہے حتی کہ اگر كوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف کردیتا ہے“۔
معنى هذا الحديث: أن ما يُصاب به المسلم من أمراض وهموم وأحزان وكروب ومصائب وشدائد وخوف وجزع إلا كان ذلك كفارة لذنوبه وحطا لخطاياه.
وإذا زاد الإنسان على ذلك: الصبر والاحتساب، يعني: احتساب الأجر، كان له مع هذا أجر.
فالمصائب تكون على وجهين:
تارة : إذا أصيب الإنسان تذكر الأجر واحتسب هذه المصيبة على الله، فيكون فيها فائدتان:

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تكفير الذنوب، وزيادة الحسنات.
وتارة يغفل عن هذا ، فيضيق صدره، ويصيبه ضجر أو ما أشبه ذلك، ويغفل عن نية احتساب الأجر والثواب على الله، فيكون في ذلك تكفير لسيئاته، إذًا هو رابح على كل حال.
فإما أن يربح تكفير السيئات، وحط الذنوب بدون أن يحصل له أجر؛ لأنه لم ينو شيئًا ولم يصبر ولم يحتسب الأجر، وإما أن يربح شيئين: تكفير السيئات، وحصول الثواب من الله عز وجل كما تقدم.
ولهذا ينبغي للإنسان إذا أصيب ولو بشوكة، فليتذكر احتساب الأجر من الله على هذه المصيبة، حتى يؤجر عليها، مع تكفيرها للذنوب.
وهذا من نعمة الله سبحانه وتعالي وجوده وكرمه، حيث يبتلي المؤمن ثم يثيبه على هذه البلوى أو يكفر عنه سيئاته.
تنبيه: الحط للخطايا يحصل للصغائر، دون الكبائر التي لا ترفعها إلا التوبة النصوح.
605;فہومِ حدیث: مسلمان کو جو بھی امراض، پریشانیاں، دکھ، کرب، مصائب و تکلیفات اور خوف و گبھراہٹ پہنچتے ہیں وہ اس کے گناہوں کا کفارہ اور اس کی غلطیوں کو مٹانے کا باعث بن جاتے ہیں۔
مزید برآں اگر انسان ان پر صبر کرے اور اجر کی امید رکھے تو اسے ان پر اجر بھی ملتاہے۔
مصیبتیں دو طرح کی ہوتی ہیں:
بعض اوقات جب مصیبت آتی ہے تو انسان اجر کو ذہن میں لاتے ہوئے اس مصیبت پر اللہ تعالی سے ثواب کا خواستگار ہوتاہے۔اس میں دو فائدے ہوتے ہیں: ایک یہ کہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور دوسرا نیکیاں بڑھتی ہیں۔
بعض اوقات انسان کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی۔ وہ تنگ دل اور کبیدہ خاطرتو ہوتاہے تاہم اس کی نیت میں یہ نہیں ہوتاکہ اس سے اللہ کی طرف سے اسے اجر و ثواب ملے گا۔ اس میں بھی اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہر حال میں وہ فائدے میں رہتاہے۔
چنانچہ یا تو بغیر کسی اجر کے صرف اس کی خطائیں معاف ہوتی ہیں اور گناہ مٹتے ہیں کیوں کہ اس نے نہ تو کسی شے کی نیت کی تھی اور نہ ہی صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھی تھی۔ یا پھر اسے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں یعنی اس کی خطائیں بھی معاف ہوتی ہیں اورجیسا کہ پہلے ذکر ہوا اسے اللہ عزوجل کی طرف سے ثواب بھی ملتاہے۔
اس لیے انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آئے چاہے کانٹا ہی چبھے تو وہ اس مصیبت پر اللہ سے ثواب کی امید رکھے تاکہ گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اس مصیبت پر اجر بھی مل جائے۔
یہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت اور اس کے جود و کرم کا مظہر ہے۔اللہ تعالی مومن شخص کو کسی ابتلاء وآزمائش میں ڈالتا ہے اور پھر اسے اس آزمائش پر یا تو اجر دیتا ہے یا اس کے گناہ معاف کرتا ہے۔
تنبیہ: معافی صرف صغیرہ گناہوں کی ہوتی ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں کی جو صرف سچی توبہ سے ہی دور ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3701

 
 
Hadith   488   الحديث
الأهمية: حُجِبت النار بالشهوات، وحُجبت الجنة بالمَكَاره


Tema:

جہنم کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا اور جنت کو ناگوار چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «حُجِبت النار بالشهوات، وحُجبت الجنة بالمَكَاره»متفق عليه وهذا لفظ البخاري.
وفي رواية لهما: «حُفَّت» بدل «حُجِبت».
ابوبریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جہنم کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا اور جنت کو ناگوار چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے“۔ متفق علیہ، الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔
صحیحین کی ایک دوسری روایت میں «حُجِبت» کی بجائے «حُفَّت» (یعنی گھیر دی گئی ہے) کا لفظ آیا ہے۔

معنى الحديث: أن الطريق الموصلة إلى الجنة محفوف بأمور يكرهها الإنسان؛ لأن الأصل في النفس أنها تميل إلى الراحة.
وهكذا النار لا يدخلها إلا إذا هتك ما بينه وبينها بارتكاب المحرمات والبعد عن الطاعات، فمن هتك الحجاب وصل إلى المحجوب، فهتك حجاب الجنة باقتحام المكاره وهتك حجاب النار بارتكاب الشهوات، فأما المكاره فيدخل فيها الاجتهاد في العبادات والمواظبة عليها والصبر على مشاقها وكظم الغيظ والعفو والحلم والصدقة والإحسان إلى المسيء والصبر عن الشهوات ونحو ذلك.
فالنفس قد تكره المواظبة على الصلاة؛ لأجل ما فيها من بذل الجهد وقطع ما تهواه النفس من أمور الدنيا، قد تكره الجهاد قد تكره الصدقة بالمال؛ لأن النفس مجبولة على حب المال، وغير ذلك من الطاعات، فإذا كسر الإنسان شهوته وخالف ما تهواه نفسه، بامتثال الأوامر واجتناب النواهي، كان ذلك: سببًا لدخول الجنة والبعد عن النار.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وأما الشهوات التي النار محفوفة بها فالظاهر أنها الشهوات المحرمة كالخمر والزنا والنظر إلى الأجنبية والغيبة واستعمال الملاهي ونحو ذلك، وأما الشهوات المباحة فلا تدخل في هذه لكن يكره الإكثار منها مخافة أن يجر إلى المحرمة أو يقسي القلب أو يشغل عن الطاعات أو يحوج إلى الاعتناء بتحصيل الدنيا.
605;فہوم حدیث: جنت تک لے جانے والا رستہ ایسی اشیا سے پر ہے، جنھیں انسان ناپسند کرتاہے؛ کیوںکہ نفس آرام وسکون کو چاہتاہے۔ یہی حال جہنم کا ہے۔ انسان اس میں اس وقت داخل نہیں ہوتا، جب تک اس کے اور اپنے مابین موجود پردے کو، حرام کردہ اشیا کے ارتکاب اور طاعات سے دور ہوکر چاک نہ کردے۔ جو شخص پردہ چاک کردیتا ہے، وہ اس شے تک پہنچ جاتاہے، جس پرپردہ پڑا ہوا تھا۔ جنت کے گرد پڑا ہوا پردہ ناگوار کاموں کو کرنے سے چاک ہوتاہے اور جہنم کے گرد پڑا ہوا پردہ پر لذت چیزوں کے ارتکاب سے پھٹتا ہے۔ عبادتوں میں دل جمعی کے ساتھ مصروف ہونا اور ان پر ہمیشگی برتنا اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشقتوں کو برداشت کرنا ، غصے کو دبانا، عفو و بردباری سے کام لینا، برے انداز سے پیش آنے والے کے ساتھ اچھائی اور احسان کا معاملہ کرنا اور شہوتوں سے گریز کرنا وغیرہ، یہ سب ان ناگوار باتوں میں داخل ہے (جن کے کرنے سے انسان جنت تک پہنچتاہے)۔
نفس نمازپر مواظبت کو ناپسند کرتاہے؛ کیوں کہ اس میں محنت صرف ہوتی ہے اور نفس کے پسندیدہ دنیوی امور سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نفس جہاد اور صدقہ کرنے کو ناپسند کرتاہے؛ کیوں کہ اس کی فطرت میں حب مال ہے۔ اسی طرح دیگر طاعات میں بھی اسے ناگواری ہوتی ہے۔ جب انسان اوامر کو بجا لاتے ہوئے اور نواہی سے گریز کرتے ہوئے اپنی شہوت کا قلع قمع کردے اور ہواۓ نفس کی مخالفت کرے، تو اس وجہ سے وہ جنت میں داخل ہوجاتاہے اور جہنم سے دور ہٹ جاتاہے۔
لذتیں، جن سے جہنم ڈھکی ہوئی ہے، ان سے مراد وہ لذات ہیں، جو حرام ہیں، مثلا شراب نوشی ، زنا ، اجنبی عورت کو دیکھنا، غیبت اور گانے بجانے کے آلات کو استعمال کرنا وغیرہ۔ وہ لذتیں جو جائز ہیں، وہ ان میں شامل نہیں۔ تاہم کثرت کے ساتھ ان میں مشغول ہونا مکروہ ہے، اس اندیشے کی وجہ سے کہ کہیں یہ کسی حرام شے تک نہ لے جائیں، دل کو سخت نہ کردیں، طاعتوں سے بے گانہ نہ کردیں یا پھر دنیا حاصل کرنے میں مگن نہ کردیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3702

 
 
Hadith   489   الحديث
الأهمية: يا حكيمُ، إن هذا المال خَضِرٌ حُلْوٌ، فمن أخذه بِسَخاوَة نفس بُورِك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يُبَارَك له فيه، وكان كالذي يأكل ولا يَشَبَع، واليدُ العُليا خيرٌ من اليد السُفلى


Tema:

اے حکیم! بلا شبہ یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جس نے اسے دلى سخاوت کے ساتھ لیا، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس نے اسے دل کے لالچ کے ساتھ لیا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی اور وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

عن حكيم بن حِزَام -رضي الله عنه- قال: سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأعطاني، ثم سَألته فأعطاني، ثم سألته فأعطاني، ثم قال: «يا حكيمُ، إن هذا المال خَضِرٌ حُلْوٌ، فمن أخذه بِسَخاوَة نفس بُورِك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يُبَارَك له فيه، وكان كالذي يأكل ولا يَشَبَع، واليدُ العُليا خيرٌ من اليد السُفلى» قال حكيم: فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا أرْزَأُ أحدًا بَعدك شيئاً حتى أفارق الدنيا، فكان أبو بكر -رضي الله عنه- يَدعو حكيماً ليُعطيه العَطَاءَ، فيأبى أن يقبل منه شيئاً، ثم إن عمر -رضي الله عنه- دعاه ليُعطيه فأبى أن يَقبله. فقال: يا معشر المسلمين، أُشهدكم على حكيم أني أعْرِض عليه حقه الذي قَسَمَه الله له في هذا الفَيْء فيَأبى أن يأخذه. فلم يَرْزَأْ حكيم أحدًا من الناس بعد النبي -صلى الله عليه وسلم- حتى تُوفي.

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مال مانگا، تو آپ ﷺ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے پھر دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے پھر دیا، پھر فرمایا: اے حکیم !یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جس نے اسے دلی سخاوت کے ساتھ لیا، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس نے اسے دل کے لالچ کے ساتھ لیا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی اور وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
حکیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس پر میں نے کہا کہ یارسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کربھیجا ہے! میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا، یہاں تک کہ دنیا کو چھوڑ جاؤں ۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو کوئی شے دینے کے لیے بلاتے، تو وہ لینے سے انکار کردیتے تھے ۔ بعد ازاں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دینے کے لیے بلایا، لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے مسلمانو ! میں حکیم کے معاملے میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ اس مال فے میں اللہ کی طرف سے ان کا جو مقررہ حق ہے، میں نے اسے ان کے سامنے پیش کیا، لیکن انھوں نے اسے لینے سے انکار کردیا ۔ تاوقت وفات حکیم رضی اللہ عنہ نے نبی   ‎
ﷺ کے بعد لوگوں میں سے کسی سے کچھ نہ مانگا۔

571;ن حكيم بن حِزَام رضي الله عنه جاء إلى النبي صلى الله عليه يسأله مالاً، فأعطاه، ثم سأله فأعطاه، ثم سأله فأعطاه ، ثم قال له يا حكيم: "إن هذا المال خَضِرٌ حُلْوٌ" أي: شيء محبوب مَرْغُوب تَرغبه النفوس وتحرص عليه بطبيعتها، كما تحب الفاكهة النضرة، الشهية المنظر، الحلوة المذاق.
ثم قال: "فمن أخذه بِسَخاوة نفس" أي: فمن حصل عليه عن طيب نفس، وبدون إلحاح وشَرَهِ وتَطَلُّع "بُورِك له فيه" أي: وضع الله له فيه البركة فينمو ويتكاثر، وإن كان قليلاً، ورُزق صاحبه القناعة، فأصبح غني النفس، مرتاح القلب، وعاش به سعيدًا.
"ومن أخذه بإشراف نفس" أي: تَطَلُّعِها إليه وتعرضها له وطمعها فيه "لم يُبَارَك له فيه" أي: نزع الله منه البركة، وسلب صاحبه القناعة، فأصبح فقير النفس دائمًا ولو أعطي كنوز الأرض، وجاء في معناه ما رواه مسلم: "إنما أنا خَازِن، فمن أعطيته عن طيب نفس، فيبارك له فيه، ومن أعطيته عن مسألة وشَرَه، كان كالذي يأكل ولا يشبع"، كما في هذا الحديث، أي كالمَلَهُوف الذي لا يَشبع من الطعام مهما أكل منه.
وإذا كان هذا حال من يأخذه باستشراف، فكيف بمن أخذه بسؤال؟ يكون أبعد وأبعد، ولهذا قال النبي عليه الصلاة والسلام لعمر بن الخطاب: "ما جاءك من هذا المال وأنت غير مُشْرِفٍ ولا سائل فخذه، وما لا فلا تتبعه نفسك" يعني ما جاءك بإشراف نفس وتطلُّع وتَشَوُفٍ فلا تأخذه، وما جاءك بسؤال فلا تأخذه.
"واليد العُليا خُيرٌ من اليَدِ السُفْلى" أي: اليد المُتَعَفِفَة خَير من اليد السائلة؛ لأنها قد تعالت وترفعت بنفسها عن ذل السؤال، على عكس الأخرى التي حطت من قدر نفسها وكرامتها بما عرضت له نفسها من المذلة.
فأقسم حكيم بن حزام رضي الله عنه بالذي بعث النبي صلى الله عليه وسلم بالحق ألا يسأل أحداً بعده شيئاً، فقال: (يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا أرزأ أحداً بعدك شيئاً حتى أفارق الدنيا) .
فتوفي الرسول عليه الصلاة والسلام، وتولى الخلافة أبو بكر رضي الله عنه، فكان يعطيه العطاء فلا يقبله، ثم توفي أبو بكر، فتولى عمر فدعاه ليعطيه، فأبى، فاستشهد الناس عليه عمر، فقال: اشهدوا أني أعطيه من بيت مال المسلمين ولكنه لا يقبله، قال ذلك رضى الله عنه لئلا يكون له حجة على عمر يوم القيامة بين يدي الله، وليتبرأ من عهدته أمام الناس، ولكن مع ذلك أصر حكيم رضي الله عنه ألا يأخذ منه شيئاً حتى توفي.
605;فہوم حدیث: حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کچھ مال مانگا۔ آپ ﷺ نےا نھیں مال دے دیا۔ انھوں نے پھر مانگا، تو آپ ﷺ نے پھر دے دیا۔ پھر مانگا، تو آپ ﷺ نے انھیں پھر دے دیا اور اس کے ساتھ ہی آپ   ‎
ﷺ نے فرمایاکہ اے حکیم: "یہ مال بہت سرسبز اور میٹھا ہے" ۔ یعنی یہ بہت محبوب و مرغوب ہے ۔ دل اسے پسند کرتے ہیں اور طبعی طور پر اس کی طمع رکھتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی، جیسے دل کو تروتازہ پھل، خوش نما منظر اور خوش ذائقہ مٹھائی پسند ہوتی ہیں۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اسے سخاوت دل کے ساتھ لیا“ یعنی جس نے مال اس طرح حاصل کیا کہ دل صاف ہو، اصرار، لالچ اور شدیدخواہش کی آمیزشنہ ہو۔ ”اس کے لیے اس میں برکت رکھ دی جاتی ہے“ یعنی اللہ تعالی اس میں برکت ڈال دیتے ہیں اوریوں وہ بڑھتا اور زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے، اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، اورایسے شخص کو قناعت دے دی جاتی ہے۔ وہ دل کا تونگر ہو جاتا ہے۔ اس کا دل پر سکون رہتا ہے اور وہ اس مال کے ساتھ سعادت مندانہ زندگی گزارتا ہے۔
”جو شخص دل کے لالچ کے ساتھ اسے لیتا ہے“ یعنی اس کے دل میں مال کی شدید خواہش بسی ہوتی ہے، وہ اسے حاصل کرنے کے درپے رہتا ہے اوراس کے اندر لالچ کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ”تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی“۔ یعنی اللہ تعالی اس مال سے برکت نکال لیتےہیں اورایسے شخص کو قناعت سے محروم کردیتے ہیں اور یوں وہ ہمیشہ دل کا فقیر ہی رہتا ہے، چاہے اسے پوری دنیا کے خزانے ہی کیوں نہ دے دیے جائیں ۔ مسلم شریف میں اسی معنی کی ایک اور حدیث بھی ہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو فقط خازن ہوں۔ جسے میں خوش دلی سے دیتا ہوں، اس کے لیے اس میں برکت رکھ دی جاتی ہے اور جو شخص اسے مانگ کر اور لالچ کے ساتھ مجھ سے لیتا ہے، وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا“۔ ”وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن سیر نہیں ہوتا“ یعنی اس حریص شخص کی مانند ہوتا ہے، جو جتنا بھی کھائے اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔
جب میلان نفس کے ساتھ لینے کا یہ حال ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہوگا، جو مانگ مانگ کر لیتا ہے۔ اس کا حال تو اس سے بہت ہی گیا گزرا ہوگا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:”اس مال میں سے اگر کچھ تمھارے پاس بغیر کسی نفسی میلان اور بن مانگے آجائے، تو اسے لے لو اور جو نہ آئے، اس کے پیچھے اپنے دل کو نہ لگاؤ“ یعنی جس ملنے والے مال میں تمھارے نفس کا میلان ہو اور اس میں رغبت و اشتیاق ہو، اسے مت لو اور اسی طرح جو مانگنے پر آئے، اسے بھی مت لو۔
”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ اسے بہتر ہے“ یعنی نہ مانگنے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے بہترہے ۔ کیوںکہ اس نے اپنے آپ کو مانگنے کی ذلت سے بچا لیا، اس ہاتھ کے برعکس جس نے اپنے آپ کو ذلت میں ڈال کر اپنی قدروعزت میں خود ہی کمی کی۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اس ذات کی قسم اٹھائی، جس نے نبی ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس بات پر کہ وہ آپ ﷺ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! جس ذات نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کی قسم! میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا، یہاں تک کہ دنیا چھوڑ جاؤں۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی، تو وہ انھیں کچھ دینا چاہتے، لیکن وہ اسے قبول نہیں کرتے تھے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو انھوں نے آپ کو بلوایا، تاکہ انھیں کچھ دے سکیں، لیکن انھوں نے لینے سے انکار کردیا ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گواہ بناتے ہوئے کہا: گواہ رہو کہ میں انھیں مسلمانوں کے بیت المال سے دینا چاہتا ہوں، لیکن وہ قبول نہیں کرتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا اس لیے کہا کہ روزقیامت اللہ کے سامنے ان کی عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ لوگوں کے سامنے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجائیں۔ تاہم پھر بھی حکیم رضی اللہ عنہ ان سے کچھ نہ لینے پر مصررہے، یہاں تک کہ وفات پاگئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3703

 
 
Hadith   490   الحديث
الأهمية: خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في غزاة ونحن سِتَّةُ نَفَرٍ بَيننا بعيرٌ نَعْتَقِبُهُ، فَنَقِبَتْ أقدامُنا وَنَقِبَت قَدَمِي


Tema:

ہم ایک غزوے میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ ںکلے۔ ہم چھ آدمی تھے اور ہمارے درميان ایک ہی اونٹ تھا جس پرہم باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے، میرا پاؤں بھی زخمی ہوگيا تھا

عن أبي موسى -رضي الله عنه- قال: خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فِي غَزَاة ونحن سِتَّةُ نَفَرٍ بَيننا بعيرٌ نَعْتَقِبُهُ، فَنَقِبَتْ أقدامُنا وَنَقِبَت قَدَمِي، وسَقطت أَظْفَارِي، فكنَّا نَلُفُّ على أَرْجُلِنَا الْخِرَقَ ، فَسُمِّيَت غَزْوَة ذَاتُ الرِّقَاع لما كنَّا نَعْصِب على أرجُلنا من الخِرق، قال أبو بردة: فحدث أبو موسى بهذا الحديث، ثم كره ذلك، وقال: ما كنت أصنع بأن أَذْكُرَه! قال: كأنه كره أن يكون شيئا من عمله أفْشَاه.

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ ںکلے۔ ہم چھ آدمی تھے اور ہمارے درميان ایک ہی اونٹ تھا جس پرہم باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے، میرا پاؤں بھی زخمی ہوگيا تھا اورميرے ناخن گرگئے تھے۔ چنانچہ ہم لوگ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے تھے۔ اسی لیے اس غزوہ كا نام ہی غزوۂ ذات الرقاع (چیتھڑوں والا غزوہ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھتے تھے۔ ابوبردہ بيان كرتے ہیں کہ ابوموسی نے يہ حدیث بیان کی، پھر اسے نا پسند فرمايا اور فرمايا کہ ميں اسے بيان کرنا نہيں چاہتا تھا۔ ابو بردہ کہتے ہيں کہ: گويا انہيں يہ بات ناپسند آئی کہ اپنے کسی عمل کو ظاہر کریں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث : أن أبا موسى -رضي الله عنه- خرج مع النبي -صلى عليه وسلم- في غزوة ومعه بعض أصحابه وعددهم ستة نَفَرٍ بينهم بعير يتعاقبونه، فيركبه أحدهم مسافة، ثم إذا انتهت نوبته نزل من البعير وركبه الآخر وهكذا يتناوبون الركوب، حتى وصلوا إلى مقصدهم.
" فَنَقِبَتْ أقدامنا ونَقِبتْ قدمي، وسقطت أظفاري" بسبب المشي في أرض صحراوية مع بُعد المسافة، ولم يكن عندهم ما يستر أقدامهم لتمزقها؛ فكانوا يمشون حفاة، فحصل بذلك الضرر البليغ ومع هذا لم يتوقفوا عن مسيرهم، بل واصلوا السير للقاء العدو. 
"فكنَّا نَلُفُّ على أرجلنا الخِرَق" وهذا مما يدل على أن أحذيتهم قد تمزقت من طول المسافة وقوة الأرض وصلابتها؛ فكانوا يَلِفُّون على أقدامهم الخرق؛ لتحميهم من صلابة الأرض وحرارتها.
"فسميت غزوة ذات الرقاع لما كنَّا نعصب على أرجلنا من الخَرِق".
أي: أن هذه الغزوة التي غزاها النبي -صلى الله عليه وسلم-: سميت بعد ذلك بغزوة ذات الرِقَاع وهذا هو أحد الأسباب في تسميتها، قال أبو بردة: "فحدَّث أبو موسى بهذا الحديث، ثم كره ذلك، وقال: ما كنت أصنع بأن أذكره! قال: كأنه كره أن يكون شيئا من عمله أفشاه".
والمعنى: أن أبا موسى -رضي الله عنه- بعد أن حدث بهذا الحديث تمنى أنه لم يحدِّث به؛ لما فيه من تزكية نفسه؛ ولأن كِتْمَان العمل الصالح أفضل من إظهاره إلا لمصلحة راجحة، كمن يكون ممن يُقتدى به.
وفي الحديث الآخر: (فأخفاها حتى لا تَعلم شماله ما تنفق يمينه) متفق عليه.
581;دیث کا مفہوم: یہ ہے کہ ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ اور ساتھی بھی تھے جن کی تعداد چھے تھی۔ ان کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے، چنانچہ ان میں سے ایک آدمی کچھ فاصلے تک اس پر سوار ہوتا، پھر جب اس کی باری ختم ہوجاتی تو وہ اونٹ سے اتر جاتا اور دوسرا اس پر سوار ہوجاتا۔ اسى طرح سے وہ باری باری سوار ہوتے رہے یہاں تک کہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔
'' اس سے ہمارے پاؤں زخمی ہوگئے تھے، میرا پاؤں بھی زخمی ہوگيا تھا اورميرے ناخن گرگئے تھے۔'' ایسا صحرائی علاقے میں ایک لمبی مسافت تک پیدل چلنے کی وجہ سے ہوا۔ پاؤں پھٹنے پر ان کے پاس کوئی ایسی چيز بھی نہیں تھی جسے وہ لپیٹ لیتے۔ چنانچہ وہ ننگے پاؤں ہی چلتے رہے جس سے انہیں بہت تکلیف ہوئی، تاہم وہ اپنے سفر سے رکے نہیں بلکہ دشمن کا سامنا کرنے کے لئے رواں دوں رہے۔
”ہم اپنے پاوں پر چیتھڑے لپیٹتے تھے“ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ طولِ مسافت اور زمین کی قوت وسختی کی وجہ سے ان کے جوتے پھٹ گئے تھے۔ تو وہ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹتے تھے تاکہ زمین کی سختی اور گرمی سے انہیں محفوظ رکھ سکیں۔
”اس غزوے کا نام غزوۂ ذات الرقاع (چیتھڑوں والا غزوہ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھ رکھے تھے“ یعنی رسول اللہﷺ کے اس غزوے کا نام بعد ميں غزوہ ذات الرقاع پڑگیا۔ اور يہ اس کی ايک وجہ تسميہ ہے۔
ابوبردہ کہتے ہیں: ”ابوموسی نے يہ حدیث بیان کی، پھر اسے نا پسند فرمايا اور فرمايا کہ ميں اسے بيان کرنا نہيں چاہتا تھا! ابو بردہ کہتے ہيں: گويا انہيں يہ بات ناپسند آئی کہ اپنے کسی عمل کو ظاہر کریں“ اس كا مطلب يہ ہے کہ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس بات کی تمنا کی کہ کاش انہوں نے اسے بیان نہ کیا ہوتا کیونکہ اس میں خود ستائی کا اظہار ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کو چھپانا اس کے اظہار سے افضل ہے الا يہ کہ اس کے اظہار میں کوئی مصلحت راجحہ ہو، مثلا بیان کرنے والا ایسا شخص ہو جس کی لوگ اقتدا کرتے ہوں۔ ایک دوسرى حدیث میں ہے: ”فَأَخْفَاهَا حَتَّى لا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ“. يعنى اس نے اسے (صدقہ کو) چھپاکر ديا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔ متفق علیہ   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3704

 
 
Hadith   491   الحديث
الأهمية: لقد قُلْتِ كلِمَة لو مُزِجَت بماء البحر لَمَزَجَتْهُ!


Tema:

تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قلت للنبي -صلى الله عليه وسلم-: حَسْبُك من صفية كذا وكذا. قال بعض الرُوَاة: تَعْني قَصِيرة، فقال: «لقد قُلْتِ كلِمَة لو مُزِجَت بماء البحر لَمَزَجَتْهُ!» قالت: وحَكَيْتُ له إِنْسَانًا فقال: «ما أُحِبُّ أَني حَكَيْتُ إِنْسَانًا وإن لي كذا وكذا».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: آپ کے لئے صفیہ کا ایسا ایسا ہونا ہی کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ: ان کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے“۔ وہ کہتی ہیں: میں نے ایک شخص کی نقل اتاری تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل اتاروں چاہے اس کے بدلے مجھے اتنا اتنا مال ملے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن عائشة -رضي الله عنها- ذَكرت صفية -رضي الله عنها- في غيبتها بما يَعِيبُها ويُسِيءُ إليها، وهي: أنها قصيرة -رضي الله عنها-؛ وذلك من باب تحقيرها وتصغيرها أمام النبي -صلى الله عليه وسلم-، حملها على ذلك ما يكون عادة بين النساء من الغيرة، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لو خالطت كلمتك ماء البحر لغَيَّرت من لونه وطمعه ورائحته؛ وذلك لعظمها وشدة خطرها.  
قالت: وحَكَيْتُ له إنسانا -أي: فَعَلت مِثْل فعله- تحقيرًا له، فقال: ما يسرني أن أتحدث بِعَيْبه أو ما يَسرني أن أفعل مثل فعله أو أقول مثل قوله على وجه الانتقاص والاحتقار، ولو أُعْطِيت كذا وكذا من الدنيا.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا نےصفیہ رضی اللہ عنہا کی غیر موجودگی میں ان کے تعلق سے کچھ ایسی بات کہی جو انہیں عیب دار اور برا بنا دے، اور وہ یہ ہےکہ وہ پستہ قد ہیں، رضی اللہ عنہا۔ ایسا انہوں نے ان کو نبی ﷺ کے سامنے نیچا اور کمتر دکھانے کے لئے کیا، ان کی نسوانی غیرت نے انھیں اس بات کے کہنے پر اکسایاتھا، تو نبی ﷺ نےفرمایا: تیری کہی ہوئی بات کو اگر سمندر کے پانی میں ملا دیا جایے تو وہ اس کا رنگ مزہ اور بو بدل ڈالے، اس کی خطرناکی اور بڑے نقصان کی وجہ سے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری یعنی اس کو نیچا دکھانے کے لئے میں نے بھی ہو بہو ویسا ہی کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے کسی کے عیب کو بیان کرنے سے خوشی نہیں ملتی، یا مجھے اس سے خوشی نھیں ملتی کہ کسی کو نیچا اور کمتر دکھانے کے لیے، ہو بہو اسی جیسا کروں یا ہو بہو اسی جیسا کروں، چاہے اس کے بدلے مجھے دنیا کا اتنا اور اتنا (مال) دے دیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3705

 
 
Hadith   492   الحديث
الأهمية: حقُّ المُسلمِ على المُسلمِ خمسٌّ: ردُّ السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدَّعوة، وتَشميتُ العاطِس


Tema:

مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا ،بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:«حقُّ المُسلمِ على المُسلمِ خمسٌّ: ردُّ السلام، وعِيَادَةُ المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدَّعوة، وتَشميتُ العاطِس».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان بعض حقوق المسلم على أخيه المسلم، وحقوق المسلم على أخيه كثيرة، لكن النبي -صلى الله عليه وسلم- أحياناً يذكر أشياء معينة من أشياء كثيرة؛ عناية بها واحتفاء بها، فمن ذلك ما ذكره أبو هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلي الله عليه وسلم- أنه قال: "حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام" يعني: إذا سلم عليك فرد عليه، وفي الحديث الآخر"حق المسلم على المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه".
فهذه الحقوق من قام بها في حقّ المسلمين على وجهها، كان قيامه بغيرها أولى، وحصل له أداء هذه الواجبات والحقوق التي فيها الخير الكثير والأجر العظيم من الله إذا احتسب ذلك عند الله.
فأول هذه الحقوق: "إذا لقيته فسلم عليه" وفي الحديث الآخر "ردُّ السلام".
الحق الثاني: عيادة المريض إذا مرض وانقطع عن الناس في بيته أو في المستشفى أو غيرهما، فإن له حقاً على إخوانه المسلمين في زيارته.
أما الحق الثالث: فهو اتباع الجنائز وتشييعها، فإن من حق المسلم على أخيه أن يتبع جنازته من بيته إلى المصلى -سواء في المسجد أو في مكان آخر- إلى المقبرة.
الحق الرابع: إجابة الدعوة، فمن حق المسلم على أخيه إذا دعاه أن يجيبه.
الحق الخامس: تشميت العاطس: ذلك أن العطاس نعمة من الله؛ لخروج هذه الريح المحتقنة في أجزاء بدن الإنسان، يسر الله لها منفذاً تخرج منه فيستريح العاطس، فشرع له أن يحمد الله على هذه النعمة، وشرع لأخيه أن يقول له: "يرحمك الله"، وأمره أن يجيبه بقوله: "يهديكم الله ويصلح بالكم"، فمن لم يحمد الله لم يستحق التشميت، ولا يلومن إلا نفسه.
575;س حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی ﷺ بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان كو شمار کرنے کے لیے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو“۔
جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو بدرجۂ اولی پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ”جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”سلام کا جواب دینا“۔
دوسرا حق: جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں منعزل ہوجائے تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔
تیسرا حق: جنازے کے پیچھے چلنا اور ان کے ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے گھر سے لے کر جنازہ گاہ تک اس کے جنازے کے ساتھ ساتھ جائے چاہے جنازہ گاہ کوئی مسجد ہو یا پھر کوئی اور مقام اور وہاں سے قبرستان جائے۔
چوتھا حق: دعوت قبول کرنا ہے ۔ مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ اسے دعوت دے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔پانچواں حق: چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کے بھائی کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اس کے جواب میں ”يَرْحَمُكَ اللَّهُ“ کہے اور اسے یہ حکم دیا کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہے ”يَهْدِيكُمْ اللَّه وَيُصْلِح بَالكُمْ“۔ جو اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا وہ تشمیت (یرحمک اللہ کہہ کر چھینک کا جواب دینا) کا بھی حق دار نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ وہ کسی اور کے بجائے بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3706

 
 
Hadith   493   الحديث
الأهمية: حُوسِب رجُل ممن كان قَبْلَكُمْ، فلم يُوجد له من الخَيْر شيء، إلا أنه كان يُخَالط الناس وكان مُوسِرًا، وكان يأمُر غِلْمَانَه أن يَتَجَاوَزُوا عن المُعْسِر، قال الله -عز وجل-: نحن أحَقُّ بذلك منه؛ تَجَاوزُوا عنه


Tema:

تم سے پہلے لوگوں (پچھلی امتوں) میں سے ایک شخص کا حساب کیا گیا اور اس کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی نہ ملی سوائے اس کے کہ وہ لوگوں سے لین دین کرتا اور ایک امیر شخص تھا۔ وہ اپنے ملازمین کو حکم دیتا کہ وہ تنگ دست سے درگزر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم ایسا کرنے کے اس سے زیادہ حق دار ہیں۔ اس سے درگزر کرو۔

عن أبي مسعود البدري -رضي الله عنه- قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «حُوسِب رجُل ممن كان قَبْلَكُمْ، فلم يُوجد له من الخَيْر شيء، إلا أنه كان يُخَالط الناس وكان مُوسِراً، وكان يأمُر غِلْمَانَه أن يَتَجَاوَزُوا عن المُعْسِر، قال الله -عز وجل-: نحن أحَقُّ بذلك منه؛ تَجَاوزُوا عنه».

ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے پہلے امتوں میں سے ایک شخص کا حساب کیا گیا اور اس کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ملی سوائے اس کے کہ وہ لوگوں سے لین دین کرتا اور ایک امیر شخص تھا۔ وہ اپنے ملازمین کو حکم دیتا کہ وہ تنگ دست سے درگزر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم ایسا کرنے کے اس سے زیادہ حق دار ہیں۔ اس سے درگزر کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
"حُوسِب رجُل" أي حاسبه الله -تعالى- على أعماله التي قدمها.
quot;ممن كان قَبْلَكُمْ" من الأمم السابقة، "فلم يُوجد له من الخَيْر شَيء" أي: من الأعمال الصالحة المقربة إلى الله -تعالى-.
quot;إلا أنه كان يُخَالط الناس وكان مُوسِرًا" أي يتعامل معهم بالبيوع والمداينة وكان غنياً.
quot;وكان يأمُر غِلْمَانَه أن يَتَجَاوَزُوا عن المُعْسِر" أي: يأمر غلمانه عند تحصيل الديون التي عند الناس، أن يتسامحوا مع المُعسر الفقير المديون الذي ليس عنده القدرة على القضاء بأن ينظروه إلى الميسرة، أو يَحطوا عنه من الدَّين.
quot;قال الله -عز وجل-: نحن أحق بذلك منه؛ تَجَاوزُوا عنه" أي: عفا الله عنه، مكافأة له على إحسانه بالناس، والرفق بهم، والتيسير عليهم

Esin Hadith Caption Urdu


”حُوسِب رجُل“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص سے اس کے آگے بھیجے گئے اعمال پر حساب لیا۔ "ممن كان قَبْلَكُمْ"۔ یعنی وہ پچھلی امتوں میں سے تھا۔ ”فلم يُوجد له من الخَيْر شَيء“ یعنی اس کے پاس کوئی ایسا نیک عمل نہ نکلا جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہو۔ ”إلا أنه كان يُخَالط الناس وكان مُوسِرا“ یعنی وہ لوگوں سے خرید و فروخت اور لین دین کیا کرتا تھا اور امیر شخص تھا۔ ”وكان يأمُر غِلْمَانَه أن يَتَجَاوَزُوا عن المُعْسِر“ یعنی جب لوگوں سے ان کے ذمہ واجب الادا قرض وصول کرنے ہوتے تو وہ اپنے نوکروں سے کہتا کہ تنگ دست یعنی ایسے غریب قرض دار سے نرمی کے ساتھ معاملہ کریں جو قرض ادا کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو بایں طور کہ خوشحالی تک اسے مہلت دیں یا پھر اس کا کچھ قرض کم کردیں۔ ”قال الله -عز وجل-: نحن أحق بذلك منه؛ تَجَاوزُوا عنه“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے لوگوں سے اچھے سلوک،ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنے اور ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کے بدلے میں اسے معاف فرما دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3707

 
 
Hadith   494   الحديث
الأهمية: خيرُ الأصحابِ عند الله تعالى خيرُهم لصاحبه، وخيرُ الجيرانِ عند الله تعالى خيرُهم لجاره


Tema:

اللہ کے ہاں (قدر و منزلت کے اعتبار سے) سب سے بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے اچھا ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «خيرُ الأصحابِ عند الله تعالى خيرُهم لصاحبه، وخيرُ الجيرانِ عند الله تعالى خيرُهم لجاره».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے ہاں (قدر و منزلت کے اعتبار سے) سب سے بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے اچھا ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خير الأصحاب عند الله منزلة وثواباً أكثرهما نفعاً لصاحبه، و كذلك خير الجيران عند الله أكثرهم نفعاً لجاره.
575;للہ کے ہاں دوستوں میں سے سب سے زیادہ قدر و منزلت اور مستحق ثواب وہ ہے جو ان میں سے اپنے ساتھی کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو اور اسی طرح پڑوسیوں میں سے سب سے بہتر اللہ کے ہاں وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے نفع بخش ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3709

 
 
Hadith   495   الحديث
الأهمية: خير الناس من طال عمره وحسن عمله


Tema:

لوگوں میں سے سب سے اچھا وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل بھی اچھا ہو۔

عن عبد الله بن بُسْرٍ الأسلمي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «خير الناس من طَال عُمُرُه، وحَسُنَ عَمَلُهُ».

عبداللہ بن بسر اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سے سب سے اچھا وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل بھی اچھا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث : أن الإنسان كلما طال عمره في طاعة الله ازداد قربا من الله؛ لأن كل عمل يعمله فيما زاد فيه عمره، فإنه يقربه إلى ربه -عز وجل - فخير الناس من وفق لهذين الأمرين: طول العمر وحسن العمل.
فطول العمر ليس خيرًا للإنسان إلا إذا حسن عمله في طاعة الله؛ لأنه أحيانًا يكون طول العمر شرًا للإنسان وضررًا عليه، كما في الحديث الآخر، أي الناس خير، قال: « من طال عمره، وحسن عمله »، قال: فأي الناس شر؟ قال: « من طال عمره وساء عمله »، رواه أبو داود والترمذي.
وقال الله -تبارك وتعالى-: (ولا يحسبن الذين كفروا أنما نملي لهم خير لأنفسهم إنما نملي لهم ليزدادوا إثمًا ولهم عذاب مهين)، فهؤلاء الكفار يملى الله لهم، أي يمدهم بالرزق والعافية وطول العمر والبنين والزوجات، لا لخير لهم ولكنه شر لهم، والعياذ بالله لأنهم سوف يزدادون بذلك إثمًا.
قال الطيبي -رحمه الله -:  إن الأوقات والساعات كرأس المال للتاجر، فينبغي أن يتجر فيما يربح فيه، وكلما كان رأس المال كثيرا كان الربح أكثر، فمن مضى لطيبه فاز وأفلح، ومن أضاع رأس ماله لم يربح وخسر خسرانا مبينا".
575;س حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی انسان کی عمر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لمبی ہوتی ہے (گزرتی جاتی ہے) تو وہ اللہ تعالی سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے کیونکہ اس کو کوئی بھی عمل کرنے کا موقع ملنے میں اس کی عمر بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ عمل اسے اپنے اللہ سے اور زیادہ قریب کر دیتا ہے ، پس لوگوں میں سے بہترین ہے وہ شخص جسے یہ دونوں چیزیں عطا کی گئی ہوں یعنی لمبی عمر اور اچھا عمل۔
بہر حال لمبی عمر کسی انسان کے لیے خیر کی ضامن نہیں ہے الاّ یہ کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عمل دونوں میں اچھا ہو؛ کیونکہ بعض اوقات لمبی عمر انسان کے لیے فتنے اور نقصان کا باعِث ہوتی ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ”جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو“ پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد تر شخص کون ہے؟ تو فرمایا ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو“۔(ابو داود، ترمذی)
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ”کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لیے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں ان ہی کے لیے ذلیل کرنے والے عذاب ہے“۔
ان کافروں کو اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دی ہوئی ہے کہ انھیں رزقِ وافر ، عافیت ، درازیٔ عمر اور بیوی بچے عطا کر رکھے ہیں، اس میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے لیے باعثِ فتنہ ہے۔ اللہ کی پناہ! کہ اس فراوانی سے وہ مزید گناہوں میں گِھر جائیں گے۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اوقات اور گھڑیاں تاجر کے بنیادی سرمائے (پونجی) کی طرح ہیں پس چاہیے کہ تجارت اس طرح کی جائے کہ حصولِ نفع کے باعث ہو، سرمایہ جتنا بڑھتا جائے گا نفع بھی زیادہ ہوتا جائے گا ، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرے وہ کامیاب ہو گا اور فلاح پائے گا اور جس نے اپنا سرمایا (پونجی) ضائع کیا وہ نفع نہیں پائے گا اور سخت گھاٹے میں رہے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3710

 
 
Hadith   496   الحديث
الأهمية: خَيْرُ يومٍ طَلَعَتْ عليه الشمس يومُ الجُمعة: فيه خُلِقَ آدَم، وفيه أُدْخِلَ الجَنة، وفيه أُخْرِجَ منها


Tema:

بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «خَيْرُ يومٍ طَلَعَتْ عليه الشمس يومُ الجُمعة: فيه خُلِقَ آدَم، وفيه أُدْخِلَ الجَنة، وفيه أُخْرِجَ منها».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخبر النبي -صلى الله عليه وسلم-: أن خيْر يومٍ طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خُلق آدم، وهو أبو البَشر خلقه الله -عز وجل- بيده، خلقه من تراب وكان ذلك يوم الجمعة، وفيه أُدخل جنة المأوى التي يأوي إليها البشر، أدخله الله الجنة هو وزوجه، وفي يوم الجمعة أمره الله -تعالى- بأن يخرج من الجنة ولم يكن إخراجه للإهانة، بل لما اقتضته حكمة الله -تعالى-.
570;پ ﷺ فرماتے ہیں کہ بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور وہ تمام لوگوں کے باپ ہیں، اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، انہیں مٹی سے جمعہ کے دن پیدا کیا اسی دن انہیں جنت میں انسانوں کے رہنے کی جگہ لے جایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی بیوی کو جنت میں داخل کیا اورجمعہ ہی کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ جنت سے ان کا نکالا جانا ان کی توہین کا باعث نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3711

 
 
Hadith   497   الحديث
الأهمية: بني سلمة، دِيارَكُم، تُكتب آثارُكُم، ديارَكُم تُكتب آثارُكُم


Tema:

اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو، تمھارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں، اپنے گھروں میں ہی رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔

عن جابر -رضي الله عنه- قال: أراد بنو سلمة أن ينتقلوا للسكن قرب المسجد فبلغ ذلك رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال لهم: «إنه قد بلغني أنكم تُريدون أن تنتقلوا قُرب المسجد؟» فقالوا: نعم، يا رسول الله قد أردنا ذلك، فقال: «بَنِي سَلِمَة، دِيارَكُم، تُكتب آثارُكُم، ديارَكُم تُكتب آثاركُم». 
وفي رواية: «إن بكلِّ خَطْوَة درجة».

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ (قبیلہ) نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو، تو انہوں نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ ہمارا ارادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو، تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں، اپنے گھروں میں ہی رہو تہمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”تمہارے ہر قدم پر ایک درجہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن بني سلمة أرادوا أن ينتقلوا من ديارهم -البعيدة من المسجد- إلى أماكن تقرب من المسجد، فكرِه النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تُعرَّى المدينة، كما في رواية البخاري، ورغبته -عليه الصلاة والسلام- أن تُعمَّر ليعظم منظر المسلمين في أعين المنافقين والمشركين عند توسعها.
ثم سألهم، قال: (إنه قد بلغني أنكم تريدون أن تنقلوا قرب المسجد) قالوا: نعم يا رسول الله قد أردنا ذلك، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (دياركم تكتب آثاركم)، قالها مرتين، وبين لهم أن لهم بكل خطوة حسنة أو درجة.
وعن أبي هريرة -رضي الله عنه- موقوفا عليه: "إن أعظمكم أجرًا أبعدكم دارًا، قيل: لِمَ يا أبا هريرة ؟ قال: "من أجل كثرة الخطا" رواه مالك في "الموطأ".
فكلما بَعُد المنزل عن المسجد، كان في ذلك زيادة فضل في الدرجات والحط من السيئات.
وإنما يتحقق هذا الفضل: إذا توضأ في بيته وأسبغ الوضوء، ومشى ولم يركب، سواء كان ذلك قليلاً، يعني سواء كانت الخطوات قليلة، أم كثيرة، فإنه يكتب له بكل خطوة شيئان: يرفع بها درجة، ويحط عنه بها خطيئة.
فعن رجل من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- مرفوعاً: "إذا توضأ أحدكم فأحسن الوضوء ثم خرج إلى الصلاة، لم يرفع قدمه اليمنى إلا كتب الله -عز وجل- له حسنة، ولم يضع قدمه اليسرى إلا حط الله -عز وجل- عنه سيئة، فليقرب أحدكم أو ليبعد) رواه أبو داود.
وعن ابن عباس، أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "أتاني ربي -عز وجل- الليلة في أحسن صورة -أحسبه يعني في النوم- فقال: يا محمد، هل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى؟ قال: قلت: نعم، يختصمون في الكفارات والدرجات، قال: وما الكفارات والدرجات؟ قال: المكث في المساجد بعد الصلوات، والمشي على الأقدام إلى الجماعات، وإبلاغ الوضوء في المكاره) رواه أحمد.
فدل ذلك على أن نَيل الدرجات إنما يتحقق بأمور:
1ـ الذهاب إلى المسجد على طهارة.
2ـ احتساب الأجر؛ لحديث: (إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى) متفق عليه.
3ـ أن يخرج من بيته لا يخرج إلا لقصد المسجد. 
4ـ المشي على الأقدام وعدم الركوب، إلا من عذر.
575;س حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے دور اپنی جگہ سے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے ناپسند فرمایا تاکہ مدینہ خالی نہ ہو جاۓ جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے۔ اور آپ ﷺ کی یہ خواہش تھی کہ مدینے کو زیادہ سے زیادہ آباد کیا جاۓ تاکہ اس کی وسعت کے باعث منافقین اور مشرکین پر رعب قائم ہو۔
پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟، تو انہوں نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ! ہمارا ایسا ہی ارادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں“۔ آپ ﷺ نے یہ بات دو مرتبہ کہی۔ اور ان کو بتایا کہ تمہارے ہر قدم پر ایک نیکی یا درجہ ہے۔
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے سب سے زیادہ اجر کا حقدار وہ ہے جس کا گھر (مسجد سے) دور ہو۔ پوچھا گیا: وہ کیوں اے ابو ہُریرہ؟ تو فرمایا (مسجد تک چلنے والے) قدموں کی کثرت کے باعث۔ (مؤطا امام مالک)
پس جو مسجد سے جتنا دور ہوگا یہ اس کے لیے درجات میں بلندی اور گناہوں کے کفارے کا باعث ہو گا۔
یہ فضیلت اس وقت حاصل ہوگی جب کوئی شخص گھر میں اچھی طرح وضو کرے، پھر پیدل جاۓ سوار نہ ہو۔ پھر چاہے قدم تھوڑے ہوں یا زیادہ اس کے لیے ہر قدم پر دو چیزیں لکھی جائیں گی: اس کا ایک درجہ بڑھے گا اور ایک گناہ معاف ہوگا۔
نبی ﷺ کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر نماز کے لیے جائے تو جب دایاں پاؤں اٹھاۓ گا تواللہ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا۔ اور جب بایاں پاؤں اٹھائے گا تو اللہ اس کا ایک گناہ معاف کر دے گا۔ پس جو قریب ہوسکے ہو جاۓ اور جو دور ہونا چاہے دور ہو جاۓ“۔ (ابو داود)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: آج رات میرا رب میرے پاس خوبصورت شکل میں آیا - راوی کا بیان ہے کہ میرا گمان ہے اس سے آپ ﷺ کی مراد نیند میں ہے- اور مجھ سے فرمایا اے محمد ﷺ کیا آپ کو یہ علم ہے کہ ملأ اعلی (بلند فرشتے) کس چیز میں تکرار کرتے ہیں؟ تو میں نے کہا ہاں، وہ کفارات اور درجات میں تکرار کر رہے ہیں! پوچھا یہ کفارات اور درجات کیا ہیں؟ کہا: کفارات اور درجات یہ ہیں کہ نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنا اور باجماعت نماز کے لیے پیدل چلنا اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل طور سے وضو کرنا۔ (مسند احمد)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ درجات کا حصول چند باتوں پر منحصر ہے:
1۔ طہارت کے ساتھ مسجد جانا۔
2۔ ثواب کی نیت۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ (متفق علیہ)۔
3۔ گھر سے مسجد جانے ہی کے ارادے سے نکلنا۔
4۔ سواری کے بجاۓ پیدل جانا سواۓ ایسے شخص کے جسے کوئی عذر لاحق ہو۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3713

 
 
Hadith   498   الحديث
الأهمية: ذَاكَ رَجُلٌ بَاَلَ الشيطان في أُذُنَيْهِ أو قال: في أُذُنِه


Tema:

یہ وہ آدمى ہے جس کے دونوں کانوں (یا فرمایا) جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: ذُكِرَ عند النبي -صلى الله عليه وسلم- رجل نام ليلة حتى أصبح، قال: «ذاك رجل بال الشيطان في أُذُنَيْهِ - أو قال: في أُذُنِه».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کيا گيا کہ وہ رات کو صبح ہونے تک سویا رہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہ آدمى ہے جس کے دونوں کانوں (یا فرمایا) جس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: يقول ابن مسعود -رضي الله عنه-: "ذُكِرَ عند النبي -صلى الله عليه وسلم- رَجُلٌ نام ليلة حتى أصبح" أي: استمر نائمًا ولم يَستيقظ للتهجد، حتى طلع عليه الفجر، والقول الثاني: أنه لم يستيقظ لصلاة الفجر حتى طلعت الشمس.
فقال: "ذَاكَ رَجُلٌ بَاَلَ الشيطان في أُذُنَيْهِ" هو على ظاهره وحقيقته؛ لأنه ثبت أن الشيطان يأكل ويشرب وينكح، فلا مانع من أن يَبول، وهذا غاية الإذلال والإهانة له، أن يتخذه الشيطان كنيفا.
وخص الأذن بالذكر وإن كانت العين أنسب بالنوم إشارة إلى ثِقَل النوم، فإن المَسَامع هي موارد الانتباه وخص البول؛ لأنه أسهل مدخلا في التَجَاويف وأسرع نفوذا في العروق فيُورِث الكَسَل في جميع الأعضاء.
605;فہوم حدیث: ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کررہے ہیں کہ نبى كريم ﷺ کے پاس ایک ايسے آدمی کا ذکر کيا گيا جو رات کو صبح ہونے تک سویا رہا۔ یعنی مسلسل سوتا رہا اور تہجد کے لئے نہیں اٹھا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی۔ دوسرا قول يہ ہے کہ وہ فجر کی نماز کے ليے بيدار نہيں ہوا یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگيا۔
اس پرآپ ﷺ نے فرمایا: '”وہ ایسا شخص ہے جس کے دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے“ یہ اپنے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول ہے۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ (بسم اللہ نہ کہنے کی صورت میں) شیطان (انسان کے ساتھ) کھاتا، پیتا اورجماع کرتا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی مانع نہیں کہ وہ پیشاب بھی کرتا ہو۔ یہ اس شخص کے لیے بڑی تحقیر اور اہانت کا باعث ہے کہ شیطان اسے رفع حاجت کی جگہ بنا لیتا ہے۔
یہاں بطور خاص کان کا ذکر کیا گیا اگرچہ نیند کی گرانی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آنکھ نیند کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ کان ہی (نیند سے) بیداری کے وسائل ہیں۔ پیشاب كا ذکر اس لئے کیا کیونکہ وہ آسانی کے ساتھ خالی جگہوں میں چلا جاتا ہے اور تیزی کے ساتھ رگوں میں سرایت کرکے تمام اعضاء میں سستی پیدا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3714

 
 
Hadith   499   الحديث
الأهمية: رُبَّ أَشْعَثَ أغبرَ مَدْفُوعٍ بالأبواب لو أَقسم على الله لَأَبَرَّهُ


Tema:

بہت سارے پراگندہ بال والے، لوگوں کے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالی پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم پوری فرما دے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: « رُبَّ أَشْعَثَ أغبرَ مَدْفُوعٍ بالأبواب لو أَقسم على الله لَأَبَرَّهُ ».

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”بہت سارے پراگندہ بال والے، لوگوں کے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالی پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم پوری فرما دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
"رب أشعث أغبر مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره": وأشعث من الشعث وهو من صفات الشعر، وشعره أشعث يعني ليس له ما يدهن به الشعر، ولا ما يرجله، وليس يهتم بمظهره، وأغبر يعني أغبر اللون، أغبر الثياب، وذلك لشدة فقره.
quot;مدفوع بالأبواب": يعني ليس له جاه، إذا جاء إلى الناس يستأذن لا يأذنون له، بل يدفعونه بالباب؛ لأنه ليس له قيمة عند الناس لكن له قيمة عند رب العالمين، لو أقسم على الله لأبره، لو قال: والله لا يكون كذا لم يكن، والله ليكونن كذا لكان، لو أقسم على الله لأبره، لكرمه عند الله -عز وجل- ومنزلته،
لو أقسم على الله لأبره.
و الميزان في ذلك تقوى الله -عز وجل-، كما قال الله -تعالى-: (إن أكرمكم عند الله أتقاكم)، فمن كان أتقى لله فهو أكرم عند الله، ييسر الله له الأمر، يجيب دعاءه، ويكشف ضره، ويبر قسمه.
وهذا الذي أقسم على الله لن يقسم بظلم لأحد، ولن يجترئ على الله في ملكه، ولكنه يقسم على الله فيما يرضي الله ثقة بالله -عز وجل-، أو في أمور مباحة ثقة بالله -عز وجل

Esin Hadith Caption Urdu


”رُبَّ أَشْعَثَ أغبرَ مَدْفُوعٍ بالأبوابِ لَو أَقسَمَ على الله لَأَبَرَّهُ“ یہاں ’أشعث‘ الشعث سے ماخوذ ہے، یہ بالوں کی ایک صفت ہے۔ ’’شعره أشعث‘‘ یعنی اس کے پاس بالوں میں لگانے کے لیے تیل موجود نہیں، اور نہ ہی کنگھی کرنے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی ان کے ظاہری مظہر کا خیال رکھا گیا ہے۔ أغبر یعنی غبار آلود رنگ والا، گُریدہ کپڑوں والا۔ اور یہ سب کچھ زیادہ فقر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
”مدفوع بالأبواب“ یعنی وہ شخص جس کا کوئی رتبہ اور مرتبہ نہیں ہے، جب لوگوں کے پاس آنے کی اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ ملے، بلکہ دروازوں سے واپس کر دیے جائیں۔ اس لیے کہ لوگوں کے ہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، تاہم رب العالمین کے ہاں ان کا مقام ومرتبہ ہوتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ اسے پوری کر دیتا ہے۔ اگر وہ کہے کہ واللہ ایسا نہیں ہوگا تو نہیں ہوتا ہے، واللہ ایسا ہوگا تو ایسا ہی ہوتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ کے ہاں اس کے شرف اور مرتبے کی وجہ سے اللہ اس کی اپنی قسمیں پوری کر دیتا ہے۔
”لَو أَقسم على الله لَأَبَرَّهُ“ اللہ کے ہاں میزان تقویٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ﴾ ”اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے“، جو اللہ کے ہاں سب سے زیادہ متقی ہوگا وہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا ہوگا، اللہ اس کا معاملہ آسان فرمائے گا، دعا قبول کرے گا، تکلیفیں دور کرے گا اور اس کی قسم پوری کرے گا۔
وہ شخص اللہ پر جو قسم کھاتا ہے وہ کسی پر ظلم کرنے کی قسم نہیں ہوتی، نہ ہی اللہ کی ملکیت میں اللہ تعالیٰ پر جرأت کرنے پر مبنی قسم ہوتی ہے، بلکہ اللہ عزّ وجلّ پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی رضامندی کے کاموں یا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے جائز کاموں میں قسم کھاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3715

 
 
Hadith   500   الحديث
الأهمية: رحِم الله رَجُلا سَمْحَا إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقْتَضَى


Tema:

اللہ ایسے شخص پر رحم کرے، جو بیچتے، خریدتے اور مطالبہ کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «رحِم الله رَجُلا سَمْحَا إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقْتَضَى».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ ایسے شخص پر رحم کرے، جو بیچتے، خریدتے اور مطالبہ کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: "رحِم الله رَجُلاً" هذا دعاء بالرحمة لكل من اتصف بالسماحة في بيعه وشرائه واقتضائه الثمن، أي أخذ الديون، سواء كان رجلاً أو امرأة، والتنصيص على الرجل خرج مخرج الغالب.
"سَمْحاً إذا باع" أي: سهلاً في بيعه، فلا يشدد على المشتري في سعرها، بل ويضع عنه من ثمنها، وفي رواية عند أحمد والنسائي من حديث عثمان بن عفان -رضي الله عنه-: (أدخل الله -عز وجل- الجنة رجلاً كان سهلاً مشترياً وبائعاً..).
"وإذا اشترى" أي: سهلاً إذا اشترى، فلا يجادل ولا يماكس في سعرها، بل يكون سهلاً مسامحاً.
"وإذا اقْتَضَى" أي: يكون سمحاً سهلاً حال طلب دَيْنِه من غريمه، فيطلبه بالرفق واللطف لا بالعنف.
وفي رواية عند ابن حبان، من حديث جابر -رضي الله عنه- زيادة: (سمحاً إذا قضى) أي: سمحاً سهلاً حال قضاء الديون التي عليه، فلا يماطل ولا يتهرب مما عليه من الحقوق، بل يقضيها بسهولة وطيب نفس.
فهؤلاء الأصناف الأربعة دعا لهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بالرحمة متى كانوا متسامحين في بيعهم وشرائهم وقضاء ما عليهم واقتضاء ما لهم من ديون على غيرهم.
581;دیث کا مفہوم: ”رحِم الله رَجُلا“ یہ ہر اس شخص کے لیے دعاے رحمت ہے، جو خرید و فروخت اور قیمت کا تقاضا یعنی قرض وصول کرنے میں کشادگی اور نرمی کا معاملہ کرے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ یہاں آدمی کا ذکر تغلیبا ہوا ہے۔
”سَمْحَا إذا باع“ یعنی بیچنے میں نرمی کرے، یعنی مبیع کی قیمت کے سلسلے میں خریدار پر سختی نہ کرے، بلکہ اس کی قیمت کو کچھ کم کردے۔ مسند احمد اور سنن نسائی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عز وجل اس آدمی کو جنت میں داخل کرے، جو نرمی کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، چاہے وہ خریدار ہو یا بیچنے والا“۔
”وإذا اشترى“ یعنی جب خریدے، تو نرمی کے ساتھ معاملہ کرے۔ یعنی اس کی قیمت کوکم کرانے کے لیے بحث اور سودا بازی نہ کرے بلکہ اس سلسلے میں نرمی و فیاضی کا رویہ اپنائے۔
”وإذا اقْتَضَى“ اسی طرح جب قرض دار سے قرض طلب کرے، تو اس میں بھی نرمی اور کشادگی برتے، نرمی کے ساتھ مانگے اور شدت سے کام نہ لے۔
صحیح ابن حبان میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ: ”سمحا إذا قضى“ یعنی جب اپنے اوپر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کرے، تو اس میں فیاضی اور نرمی سے کام لے۔ ٹال مٹول نہ کرے اور اپنے ذمے واجب الاداء حقوق کو ادا کرنے سے نہ بھاگے، بلکہ سہولت اور خوش دلی کے ساتھ ادا کرے۔
تو یہ چار اقسام کے لوگ ہیں، جن کے حق میں نبی ﷺ نے رحمت کی دعا کی، جب وہ اپنی بیع و شرا اور دوسروں کے واجب الاداء قرضوں کی ادائیگی میں نرمی اور فیاضی سے کام لیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3716

 
 
Hadith   501   الحديث
الأهمية: رَحِمَ الله رجلًا قام من الليل، فَصَلى وأيْقَظ امرأته، فإن أَبَتْ نَضَحَ في وَجْهِهَا الماء، رَحِمَ الله امرأةً قامت من الليل، فَصَلَّتْ وأَيْقَظت زوجها، فإن أَبَى نَضَحَت في وجْهِه الماء


Tema:

اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «رَحِمَ الله رجلا ًقام من الليل، فَصَلى وأيْقَظ امرأته، فإن أَبَتْ نَضَحَ في وَجْهِهَا الماء، رَحِمَ الله امرأة قامت من الليل، فَصَلت وأَيْقَظت زوجها، فإن أَبَى نَضَحَت في وجْهِه الماء».

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن من قام من الليل فصلى وأيقظ زوجته للصلاة، فامتَنَعت من الاستيقاظ؛ لغَلَبة النوم، وكثرة الكسل؛ فرش على وجْهِها الماء رشًا خفيفًا؛ فإنه مستحق لرحمة الله -تعالى- وكذا العكس إذا فعلت المرأة ذلك مع زوجها.
570;پ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو نماز کے لیے جگاتا ہے اور وہ نیند کے غلبے یا زیادہ سستی کی وجہ سے نہیں جاگتی تو اس کے چہرے پر پانی کے ہلکے چھینٹے مارتا ہے، یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہے، اسی طرح اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ ایسا کرے تو وہ بھی رحمت کی مستحق ہوتی ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3717

 
 
Hadith   502   الحديث
الأهمية: رَغِمَ أنْفُ، ثم رَغِمَ أنْفُ، ثم رَغِمَ أنْفُ من أدرك أبويه عند الكِبر أحدهما أو كِليهما فلم يَدخلِ الجنة


Tema:

ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو اس شخص کی جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان ميں سے کسی ایک کو یا دونوں کو، اور پھر بھی (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوسکا

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: « رَغِمَ أنْفُ، ثم رَغِمَ أنْفُ، ثم رَغِمَ أنْفُ من أدرك أبويه عند الكِبر، أحدهما أو كِليهما فلم يدخل الجنة».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کريم ﷺ نے فرمایا: ’’ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو اس شخص کی جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان ميں سے کسی ایک کو یا دونوں کو، اور پھر بھی (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوسکا۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حق الوالدين عظيم، قرنه الله -سبحانه وتعالى- بحقه الذي خلق من أجله الثقلين: (واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانًا) فأمر الله بعبادته وأوصى الأولاد وعهد إليهم ببر والديهما والإحسان إليهما قولًا وعملًا؛ وذلك لقيامهما عليهم وتربيتهم والسهر على راحتهم، وهل جزاء الإحسان إلا الإحسان.
ومعنى هذا الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- دعا ثلاث مرات على من أدرك أبويه أو أحدهما ولم يدخل الجنة لعدم بره بوالديه والإحسان إليهما وطاعتهما بالمعروف، فطاعة الوالدين وبرهما والإحسان إليهما من الأسباب الواقية من دخول النار، وعقوقهما من أسباب دخول النار إن لم تدركه رحمة الله -تعالى-.
608;الدین کا حق بہت عظيم ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس حق کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے اس نے جن وانس کی تخلیق کی ہے، (ارشاد فرمايا): ﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو“۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اور اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ قول و عمل میں نیکی اور حسنِ سلوک کی تاکید کی ہےاور انہیں اس کی ذمہ داری سونپی ہے۔ کیونکہ والدين نے ان کی دیکھ بھال اور تربیت کی ہے اور ان کے آرام وراحت کی خاطر راتوں کی نیند خراب کی ہے۔ بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے؟
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: نبی ﷺ نے اس شخص کے لیے تین دفعہ بد دعا فرمائی ہے جس نے اپنے والدین كو یا ان میں سے کسی ایک کو پایا لیکن ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک، نیز بهلى باتوں میں ان کی فرماں برداری نہ کرنے كى وجہ سے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔ چناں چہ والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک جہنم ميں داخل ہونے سے بچانے والے اسباب میں سے ہے اور ان کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی دخولِ جہنم کے اسباب میں سے ہے، اگراللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوئی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3718

 
 
Hadith   503   الحديث
الأهمية: سَبَقَ المُفَرِّدُونَ


Tema:

کثرت سے ذکر کرنے والے سبقت لے گئے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-  قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سبق المُفَرِّدُونَ» قالوا: وما المُفَرِّدُونَ ؟ يا رسول الله قال: « الذاكرون الله كثيرا والذاكراتِ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مفرّدون سبقت لے گئے“۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! مفرّدون کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد وخواتین‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الذاكرين الله كثيراً والذاكرات قد انفردوا عن غيرهم وسبقوهم بالأجور بسبب كثرة انشغالهم بِذْكر الله تعالى، فهم قد عملوا أكثر من غيرهم؛ فكانوا أسبق إلى الخير.
قال تعالى: (والذاكرين الله كثيراً والذاكرات أعد الله لهم مغفرة وأجراً عظيماً).
فقوله "الذاكرين الله كثيراً " أي: في أكثر الأوقات، خصوصاً أوقات الأوراد المقيدة، كالصباح والمساء، وأدبار الصلوات المكتوبات.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ کثرت سے ذکر کرنے والے مرد و عورتیں دوسروں سے منفرد لوگ ہیں اور یہ اللہ تعالی کے ذکر میں کثرت سے مشغول رہنے کے سبب ثواب میں دوسروں سے سبقت لے گئے ہیں۔ ان کے اعمال دوسروں سے زیادہ ہیں۔ تو یہ خیر کی طرف زیادہ بڑھنے والے ہوئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾ ”بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے“۔ ”وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا“ یعنی اکثر اوقات میں ذکر کرنے والے، خاص طور پر ان اوقات میں جو ذکر کے ساتھ مقید ہیں جیسے صبح، شام اور فرض نمازوں کے بعد کے اوقات۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3719

 
 
Hadith   504   الحديث
الأهمية: سَتُفْتَحُ عليكم أَرَضُونَ، ويَكْفِيكُمُ الله، فلا يَعْجِزْ أحَدُكُم أن يَلْهُوَ بِأَسْهُمِه


Tema:

عنقریب علاقے تمہارے لئے فتح کردیے جائیں گے اور (دشمنوں کے مقابلے میں) اللہ تمہارے لیے کافی ہو جائے گا چنانچہ تم میں سے کوئی بھی اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے۔

عن عقبة بن عامر -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «سَتُفْتَحُ عليكم أَرَضُونَ، ويكفيكم الله، فلا يَعْجِزْ أحدكم أن يَلْهُوَ بِأَسْهُمِه».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عنقریب علاقے تمہارے لئے فتح کردیئے جائیں گے اور (دشمنوں کے مقابلے میں) اللہ تمہارے لئے کافی ہو جائے گا چنانچہ تم میں سے کوئی بھی اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه بأنه سَتُفتح عليهم البلاد من غير اقتتال، فعليهم أن لا يعجِزوا عن تَعَلُّم الرَّمي بالسهام، فإن ذلك من أولى ما يَلهو به المسلمون، -ما لم يُضَيَّع به حقًا واجبًا-؛ لأن ذلك مما يُعينهم على الجهاد في سبيل الله، وذلك من أفضل المقاصد وأسمى الغايات.
وإنما كان التعبير باللهو؛ لأن النُّفوس مَجْبُولة على حُبِّه فعبر به، وإلا فإن المقصود الأعظم من تعلمه، هو: الإعداد في سبيل الله -تعالى-، لا مجرد اللعب به.
606;بی ﷺ اپنے صحابہ کو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب علاقے بغیر لڑے ان کے لئے فتح ہوجائیں گے۔ چنانچہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تیر اندازی سیکھنے میں سستی نہ کریں۔ یہ وہ سب سے بہترین مشغلہ ہے جس میں مسلمانوں کو مصروف رہنا چاہیے جب تکہ کہ اس میں کسی حقِ واجب کا ضیاع نہ ہو کیوں کہ یہ ایک ایسی شے ہے جو جہاد فی سبیل اللہ مین معاون ہوتی ہے جو کہ نہایت افضل مقصد اور بلند مرتبہ غایت ہے۔
”لہو“ کا لفظ استعمال کیا گیا کیوں کہ دلوں میں فطری طور پر لہو و لعب کی محبت ہوتی ہے چنانچہ پیرایۂ تعبیر میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا ورنہ تیر اندازی سیکھنے کا سب سے بڑا مقصد تو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرنا ہے نہ کہ محض لہو و لعب۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3720

 
 
Hadith   505   الحديث
الأهمية: إن سِيَاحَة أُمَّتِي الجِهاد في سَبِيلِ الله -عز وجل-


Tema:

میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه-: أن رجلًا، قال: يا رسول الله، ائْذَنْ لي في السِيَاحَة! فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن سِيَاحَة أُمَّتِي الجِهاد في سَبِيلِ الله -عز وجل-».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کی سیاحت، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وفي هذا الحديث أن رجلًا جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يطلب منه الإذن للسماح له بالخروج إلى البلدان والضرب في الأرض لأجل السياحة، والمراد بها: التَّعبد.
فقال -صلى الله عليه وسلم-: "إن سِيَاحَة أُمَّتِي الجِهاد في سَبِيلِ الله -عز وجل-"، والمعنى: إذا أردت السياحة فعليك بالجهاد في سبيل لله فهذه هي سياحة أمتي؛ لأن في ذلك نشر دين الله -تعالى- وإرساء مبادئه وقواعده العظيمة، وأما ترك الديار ومفارقة الأهل لأجل التعبد، فمنهي عنه وأقل أحواله الكراهة، قال -تعالى-: (أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ).
وفي رواية عند أحمد: "عليك بالجهاد، فإنه رهْبَانية الإسلام".
581;دیث کا مطلب: ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اجازت مانگی کہ سیر کی غرض سے مختلف شہروں میں جائے اور زمین میں سفر کرے۔ یہاں مراد بطور عبادت سیر وسیاحت ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کی سیر و سیاحت، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ہے“ یعنی جب تم (عبادت کی غرض سے) سیر کرنا چاہو، تو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلو، میری امت کی سیر اسی میں ہے۔ اس لیے کہ اس سے اللہ کے دین کی اشاعت اور اس کے عظیم بنیادی اصولوں کو پختگی فراہم ہوگی۔ جب کہ عبادت کی نیت سے گھروں کو چھوڑ دینا اور اہل وعیال سے دور چلے جانا، یہ اسلام میں ممنوع ہے اور کم از کم مکروہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ﴾ ”بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو؟“
اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے : ”جہاد کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیوں کہ یہ اسلام کی رہبانیت ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3722

 
 
Hadith   506   الحديث
الأهمية: اُغْزُوا في سبيل الله، من قَاتَل في سبيل الله فُوَاقَ نَاقَةٍ وجَبَت له الجنة


Tema:

اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جو لمحہ بھر بھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: مَرَّ رجُل من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بِشِعبٍ فيه عُيَيْنَةٌ من ماء عَذْبَة، فأعْجَبتْه، فقال: لو اعْتَزلت الناس فَأقَمْتُ في هذا الشِّعْبِ، ولنْ أفعل حتى أسْتأذِن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذَكر ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «لا تَفْعَل؛ فإن مُقام أحدِكم في سَبِيل الله أفضل من صلاته في بيته سَبْعِين عاماً، ألا تُحِبُّونَ أن يَغْفِر الله لكم، ويدخلكم الجنة؟ اُغْزُوا في سبيل الله، من قَاتَل في سبيل الله فُوَاقَ نَاقَةٍ وجَبَت له الجنة».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص کا ایک گھاٹی پر سے گزر ہوا جس میں میٹھے پانی کا چھوٹا سا چشمہ تھا۔ اسے یہ بہت پسند آیا اور اس نے سوچا کہ کتنا ہی اچھا ہو اگر میں لوگوں سے الگ ہو کر اس گھاٹی میں بسیرا کر لوں تاہم ایسا میں تب تک نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں۔ چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو۔ تم میں سے کسی شخص کا اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے کھڑا ہونا اس کا اپنے گھر میں ستر سال تک نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کر کے تمہیں جنت میں داخل کر دے؟ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جو دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کے وقفہ کے برابر (لحظہ بھر) بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن رجلاً من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- مرَّ بشعب في جَبل، وفي الشِّعْب عَيْنٌ فيها ماء عَذْبٌ، فأعجبته تلك العين وأحب أن يعتزل الناس ويقيم في ذلك المكان يَتَعَبد الله ويشرب من تلك العين، إلا أنه -رضي الله عنه- قال لنْ أفعل حتى  أستأذن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكر ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: "لا تفعل" نهاه النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؛ لأن الغزو قد وجَبَ عليه، فكان اعتزاله للتطوع معصية لاستلزامه ترك الواجب.
ثم قال له: "فإن مُقام أحدِكم في سَبِيل الله أفضل من صلاته في بيته سَبْعِين عاماً" والمعنى: أن الجهاد في سبيل الله أفضل من التفرغ للصلاة سبعين عاماً؛ وذلك لأن الجهاد نفعه متعدٍ بخلاف الصلاة، فنفعها قاصر على صاحب العبادة.
"ألا تُحِبُّونَ أن يَغْفِر الله لكم، ويدخلكم الجنة؟!" أي: إذا كنتم تحبون أن يَغْفِر الله لكم ذنوبكم ويدخلكم الجنة، فعليكم بالغزو في سبيل الله -تعالى-، صابرين محتسبين.
ثم بين فضله، بقوله: "من قَاتل في سبيل الله فُوَاقَ نَاقَةٍ وجَبَت له الجنة" أي: من قاتل في سبيل الله -تعالى- لإعلاء كلمته وجبت له الجنة ولو كانت مشاركته في القتال مدة يسيرة.
606;بی ﷺکے صحابہ میں سے ایک صحابی کا پہاڑ میں واقع ایک گھاٹی پر سے گزر ہوا۔ اس گھاٹی میں میٹھے پانی کا ایک چشمہ تھا۔ انہیں یہ چشمہ بہت پسند آیا اور انہوں نے چاہا کہ لوگوں سے الگ تھلک ہو کر وہ اس جگہ پر بسیرا کر لے ، اللہ کی عبادت میں مصروف رہے اور اس چشمے کا پانی پیتا رہے ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں تب تک ایسا نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے جب اپنے اس ارادے کا تذکرہ کیاتو آپ ﷺ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو"۔ نبی ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا کیونکہ ان پر جہاد کرنا واجب ہو چکا تھا اور نفلی عبادت کے لئے ان کا گوشہ نشین ہو جانا ترک واجب کو لازم آتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کا اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے کھڑا ہونا اس کا اپنے گھر میں ستر سال تک نماز پڑھنے سے افضل ہے“۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا الگ تھلگ ہو کر ستر سال تک نماز پڑھتے رہنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ جہاد کا نفع متعدی ہے بخلاف نماز کے کہ اس کا نفع صرف عبادت کرنے والے کو ہوتا ہے۔ ”کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کر کے تمہیں جنت میں داخل کر دے؟“ یعنی اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش کر تمہیں جنت میں داخل کر دے تو اللہ کی راہ میں جہاد میں لگ جاو اور اس سلسلے میں صبر کا دامن تھامے رکھو اور اس سے اجر کی امید رکھو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ فرماتے ہوئے اس کی فضیلت بیان کی کہ ”جس نے ایک لمحہ بھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی“ یعنی جس نے اللہ کی راہ میں اس کے دین کی سر بلندی کے لئے قتال کیا اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی جہاد میں یہ شرکت بہت تھوڑی مدت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3723

 
 
Hadith   507   الحديث
الأهمية: اتقوا الله، وصلَّوا خَمْسَكُمْ، وصوموا شهركم، وأَدُّوا زكاة أموالِكم، وأطيعوا أُمَرَاءَكُمْ: تدخلوا جنة ربكم


Tema:

اللہ سے ڈرو ، نمازِ پنجگانہ پڑھو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکات ادا کرو اور اپنے امرا کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

عن أبي أمامة صُدَيّ بن عجلان الباهلي -رضي الله عنه- سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يخطب في حجة الوداع، فقال: « اتقوا الله وصلَّوا خَمْسَكُمْ، وصوموا شهركم، وأَدُّوا زكاة أموالِكم، وأطيعوا أُمَرَاءَكُمْ تدخلوا جنة ربكم ».
ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃُ الوداع کے موقع پر خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ سے ڈرو، اپنی پانچ نمازیں پڑھو، اپنے ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو، اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔

هذا الحديث من جملة الأحاديث التي فيها الحث على تقوى الله -تعالى-، بفعل أوامره واجتناب نواهيه، وكان هذا الحديث في آخر أيامه -عليه الصلاة والسلام- عندما خطب الناس في حجة الوداع خطبة بليغة وأوصاهم بوصايا كثيرة وذكرهم بما لهم وعليهم ومن جملة ما جاء فيها تقوى الله -تعالى-، حيث قال: (يا أيها الناس اتقوا ربكم) وهذه كقوله -تعالى-: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ)، (النساء: من الآية1)، فأمر الرسول -صلى الله عليه وسلم- الناس جميعا أن يتقوا ربهم الذي خلقهم، وأمدهم بنعم لا تُعدُّ ولا تحصى.
وفي الحديث الآخر، عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال: يا رسول الله أوصني: قال (عليك بتقوى الله، فإنها جماع كل خير..).
وقال -صلى الله عليه وسلم-: (أكثر ما يدخل الناس الجنة تقوى الله وحسن الخلق).
وقوله: (وصلوا خمسكم) أي: صلوا الصلوات الخمس التي فرضها الله -عز وجل- على رسوله -صلى الله عليه وسلم-، فإن أول ما يحاسب عليه العبد يوم القيامة صلاته.
وقوله: (وصوموا شهركم) أي: شهر رمضان، وأضيف للأمة لما يسبغ عليهم فيه من النعم والرحمة والكرم من عتق الرقاب وجزيل الثواب. 

Esin Hadith Caption Arabic

وقوله: (وأدوا زكاة أموالكم) أي: أعطوها مستحقيها ولا تبخلوا بها.
فاشتمل الحديث على الثلاثة من أركان الإِسلام، ولم يذكر الحج؛ لأن هذه الأمور تتكرر كل يوم، وكل عام ويثقل أداؤها، فخصّها بالأمر والتوصية.
وقوله: (أطيعوا أمراءكم) أي: الخليفة والسلطان وغيرهما من الأمراء، والعلماء، إلا أنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، وفي الحديث الآخر: (أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة..) رواه أبو داود والترمذي، وصححه الشيخ الألباني في مشكاة المصابيح (1/185).
575;س حدیث کا شمار بھی ان حادیث میں ہوتا ہے، جن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ حدیث آپ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کی ہے، جب کہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم کو بہت ساری نصیحتیں اور وصیتیں کیں اور ان کے حق میں جو بہتر اور جو ان پر وبالِ جان تھا، اس کے متعلق نصیحت کی، اورانھیں نصیحتوں میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی، جیسا کہ فرمایا:"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو"۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے جہاں فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ﴾ ”اے لوگو اپنے رب سے ڈرو“ (النساء:1) آپ ﷺ نے سب کو یہ حکم فرمایا کہ وہ اپنے اس رب سے ڈریں، جس نے سب کو پیدا کیا اور انہیں اتنی نعمتیں عطا کیں کہ انکا شمار اور احاطہ نہ کیا جا سکے۔
ایک اور حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا:یا رسول اللہ! مجھے نصیحت کیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک تقویٰ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے“۔
اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ”اکثر لوگ، اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے اور حسنِ اخلاق کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے“۔
فرمانِ رسول ﷺ ”وَصَلَّوا خَمْسَكُمْ“ سے نماز پنجگانہ ادا کرو مراد ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر فرض کی ہیں۔ کیوں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا۔
اور آپ ﷺ کا فرمان ”وَصُومُوا شَهْرَكُمْ“ اس سے مراد رمضان کا مہینہ ہے، جس میں امت پر رنگ رنگ کی نعمتوں، اور جہنم سے خلاصی اور بہت زیادہ ثواب کی عطا کے ذریعہ رحمت وکرم کی فراوانی کی جاتی ہے۔
اورفرمانِ رسول ﷺ ”وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ“ سے مراد یہ ہے کہ زکاۃ مستحق لوگوں کو دو اور اس میں بخل نہ کرو۔
یہ حدیث تین ارکانِ اسلام کو شامل ہے اور اس میں حج کو ذکر نہیں فرمایا گیا؛ کیوںکہ مذکورہ چیزوں سے روز اور سال بھر واسطہ پڑتا ہے، تو ان کی ادائیگی (سست ہمتوں پر) بوجھ بنتی ہے۔ چنانچہ ان کی خصوصی تلقین اور وصیت فرمائی۔
اور آپ ﷺ کے قول ”وَأَطِيعُوا أُمَرَاءَكُمْ“ سے مراد خلیفۂ وقت، بادشاہ، ان کے علاوہ دیگر امرا اورعلماء ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ مخلوق کی اطاعت، خالق کی نافرمانی میں نہیں کرنی چاہیے۔ ایک اور حدیث میں ہے: ”میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، فرماں برداری اور اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں“۔ (ابوداود، ترمذی)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3725

 
 
Hadith   508   الحديث
الأهمية: صليت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة فافتتح البقرة


Tema:

ایک رات میں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز (تہجد) پڑھی۔ آپ نے سورۂ بقرۃ پڑھنی شروع کی۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: صليت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة فَافْتَتَحَ البقرة، فقلت: يركع عند المئة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء فقرأها، ثم افتتح آل عمران فقرأها، يقرأ مُتَرَسِّلًا: إذا مَر بآية فيها تَسبِيحٌ سَبَّحَ، وإذا مَر بسؤال سَأل، وإذا مَر بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثم ركع، فجعل يقول: «سبحان ربي العظيم» فكان ركوعه نحوًا من قِيَامِهِ، ثم قال: «سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد» ثم قام طويلًا قريبا مما ركع، ثم سجد، فقال: «سبحان ربي الأعلى» فكان سجوده قريبًا من قيامه.

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز(تہجد) پڑھی۔ آپ نے سورۂ بقرۃ پڑھنی شروع کی۔ میں نے دل میں کہا کہ آپ ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع میں چلے جائیں گے، لیکن آپ پڑھتے رہے ۔ پھر میں نے دل میں کہا کہ آپ ﷺ اسے ایک رکعت میں ختم کریں گے ۔ مگر آپ ﷺ پڑھتے رہے ۔ میں نے سوچا کہ آپ ﷺ اسے پڑھ کررکوع کریں گے ۔ لیکن آپ ﷺ نے سورۃ النساء شروع کردی اور اسے پورا پڑھ ڈالا۔ پھر آپ ﷺ نے آل عمران شروع کی اور اسے بھی پورا پڑھ ڈالا۔ آپ ﷺ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کررہے تھے۔ جب آپ ﷺ کا گزر کسی ایسی آیت پر ہوتا، جس میں تسبیح (اللہ کی پاکی) کا بیان ہوتا، تو آپ ﷺ تسبیح کرتے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے، جس میں (اللہ سے ) مانگنے کا ذکر ہوتا، تو مانگتےاور اگر کسی ایسی آیت سے گزرتے، جس میں پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا، تو پناہ مانگتے۔ پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا اور ”سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيم“ پڑھنے لگے۔ آپ ﷺ کا رکوع آپ ﷺ کے قیام کے بقدر تھا۔ پھر آپ نے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ“ کہا اور طویل وقت تک قیام کیا، جو رکوع کے لگ بھگ تھا۔ پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا اور”سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلَى“ پڑھنے لگے۔ آپ کا سجدہ آپ کے قیام کے بقدر تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قام حذيفة مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في قيام الليل فأطال الصلاة، قرأ في ركعة واحدة البقرة ثم النساء ثم آل عمران، وكان إذا مر بآية سؤال سأل وإذا مر بآية تسبيح سبح وإذا مر بآية تعوذ تعوذ، في أثناء قراءته، وكانت صلاته متناسقة في الطول، الركوع قريبا من القيام، والسجود قريبا من الركوع.
581;ذیفہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ قیام اللیل پڑھنے کےلیے کھڑے ہوئے۔ نبی ﷺ نے نماز لمبی کر دی۔ ایک رکعت میں سورۃ البقرۃ پھر سورۃ النساء پھر سورۃ آل عمران پڑھی۔ آپ ﷺ اپنی قراءت کے درمیان جب کسی ایسی آیت سے گزرتے، جس میں (اللہ سے ) مانگنے کا ذکر ہوتا، تو مانگتے اور جب آپ ﷺ کا گزر کسی ایسی آیت سے ہوتا، جس میں تسبیح (اللہ کی پاکی) کا بیان ہوتا، تو تسبیح کرتے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے، جس میں پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا، تو پناہ مانگتے ۔ آپ ﷺ کی نماز لمبائی میں بالکل ترتیب وار تھی؛ رکوع کا طول قیام کے قریب اور سجدے کا طولرکوع کے قریب۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3727

 
 
Hadith   509   الحديث
الأهمية: أين المُتَأَلِّي على الله لا يفعل المعروف


Tema:

کہاں ہے اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ بھلائی نہیں کرے گا؟

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صوت خُصُومٍ بالباب عاليةً أصواتُهما، وإذا أَحدُهما يَسْتَوْضِعُ الآخر وَيَسْتَرْفِقُهُ في شيء، وهو يقول: والله لا أفعل، فخرج عليهما رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أين المُتَأَلِّي على الله لا يفعل المعروف؟»، فقال: أنا يا رسول الله، فله أي ذلك أحب.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر لڑنے والے دو اشخاص کی بلند آوازیں سنی جن میں سے ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ وہ یا تو اسے (قرض میں سے کچھ) معاف کردے یا اس کے ساتھ کچھ نرمی کرے۔ جب کہ دوسرا شخص کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ پس رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لاۓ اور فرمایا: کہاں ہے اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ بھلائی نہیں کرے گا؟ تو اس نے کہا: میں ہوں اے اللہ کے رسول۔ اور (کہا کہ) اِس کے لیے وہی ہے جو یہ پسند کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- سمع صوت خصمين يتنازعان في أمور مالية، وقد ارتفعت أصواتهما حتى وصلت إلى مسامع النبي -صلى الله عليه وسلم- في بيته، فأصغى النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى هذه الأصوات، وإذا به يسمع أحد الرجلين "يستوضع الآخر ويسترفقه في شيء" أي يطلب منه أن يضع عنه شيئًا أو أن يرفق به "وهو يقول: والله لا أفعل، فخرج عليهما رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال أين المُتألي على الله أن لا يفعل المعروف؟" أي: أين الحالف بالله على عدم فعل المعروف  فقال: أنا يا رسول الله، فله أي ذلك أحب" أي أنا الذي حلفت، ولخصمي ما أحَبَّ من الوَضْع من الدَّيْن أو الرفق به، وفي رواية لأحمد (24405) وابن حبان (5032): "إن شئتَ وضعتُ ما نقصوا، وإن شئت من رأس المال، فوضعَ ما نقصوا"، سعى النبي -صلى الله عليه وسلم- في الصلح بين المتخاصمين، إما بالوضع أو الرفق، وفي الباب قصة مشابهة لهذا الحديث رواها البخاري (2424) ومسلم (1558)، عن كعب بن مالك رضي الله عنه، أنه كان له على عبد الله بن أبي حَدْرَد الأسلمي دين، فلقيه، فلزمه فتكلما حتى ارتفعت أصواتهما، فمر بهما النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: "يا كعب" وأشار بيده، كأنه يقول: النصف، فأخذ نصف ما عليه وترك نصفا".
فينبغي للمسلم أن يحرص على فعل الخير ومن ذلك الإصلاح بين الناس، فإذا رأى شخصين أو جماعتين أو قبيلتين بينهما نزاع وشقاق وتباغض واقتتال سعى للإصلاح بينهم لإزالة كل ما يؤدي إلى الفرقة والتباغض، ويحل محله الإخاء وتسود المحبة، فإن في ذلك الخير الكثير والثواب الجزيل، بل ذلك أفضل من درجة الصائم القائم المتصدق، قال -عليه الصلاة والسلام-: "ألا أخبركم بأفضل من درجة الصيام والصلاة والصدقة؟ قالوا: بلى، يا رسول الله قال: إصلاح ذات البين.." رواه أبو داود برقم (4919) وصححه الألباني في صحيح أبي داود، برقم (4919).
581;دیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر لڑنے والے دو اشخاص کی آوازیں سنی جو کسی مالی تنازعے پر الجھ رہے تھے۔ ان کی آوازیں اتنی بلند ہوئیں کہ ان کی آوازیں نبی ﷺ کے کانوں میں پڑیں جب کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے۔ نبی ﷺ ان کی آوازوں پر متوجہ ہوئے تو ان میں سے ایک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے سے مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ یا تو اسے (قرض میں سے کچھ) معاف کردے یا اس کے ساتھ کچھ نرمی کرے۔ یعنی وہ کچھ قرض کم کرنے اور اس پر آسانی کرنےکا مطالبہ کر رہا تھا، جب کہ دوسرا شخص کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ پس رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لاۓ اور فرمایا: ”کہاں ہےاس بات پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ بھلائی نہیں کرےگا؟“ یعنی كہاں ہے وہ جو اللہ کا قسم کھا رہا ہے کہ نیکی نہیں کروں گا؟ تو اس نے کہا: میں ہوں اے اللہ کے رسول۔ اور اِس کے لیے وہی ہے جو یہ پسند کرے۔ یعنی میں ہی ہوں جس نے اللہ کی قسم اٹھائی (لیکن اب میں) اپنے لڑنے والے کو قرض میں سے کچھ معاف کرنے یا اس میں نرمی کرنے میں سے کسی ایک چیز کا اختیار دیتا ہوں جو اسے پسند ہو۔
مسند احمد (24405) اور صحیح ابن حبان (5032) میں الفاظ کچھ یوں ہیں: ”اگر تم چاہو تو جتنی رقم کم ہے وہ معاف کردیتا ہوں یا اصل رقم میں سے کچھ کم کردیتا ہوں۔ تو اس نے جو رقم کم تھی وہ معاف کردی“۔
نبی ﷺ نے دو لڑنے والوں میں صلح کی سعی فرمائی، چاہے وہ (قرض کی کچھ رقم) معاف کردینے سے ہو یا (اس میں) نرمی کے ذریعے۔ اور ایک اور حدیث میں اسی طرح کا ایک اور قصہ بھی ہے جس کو امام بخاری (2424) اور امام مسلم (1558) نے بیان کیا ہے۔ کعب بن مالک سے روایت ہے کہ ان کا عبد اللہ بن أبي حدرد الأسلمي پر کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے قرض کا مطالبہ کیا جو بحث کی صورت اختیار کرگیا اور ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ نبی ﷺ ان دونوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”اے کعب! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا- گويا وہ کہہ رہے ہوں آدھا“۔ تو انہوں نے (قرض) کا آدھا حصہ لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔
پس مسلمان کو چاہیے کہ نیکی کرنے پر حریص ہو اور ایک نیکی یہ بھی ہے کہ لوگوں کے ما بین صلح کرا دی جاۓ۔ پس اگر دو لوگوں، گروہوں یا قبیلوں کے مابین لڑائی جھگڑا اور نفرت دیکھو تو ان کے درمیان صلح کی کوشش کرو تاکہ ہر اس چیز کا خاتمہ ہو سکے جو دوری اور بغض کا باعث ہے۔ اور اس کی جگہ بھائی چارے اور محبت کا راج ہو۔ بے شک اس میں بہت خیر اور خوب ثواب ہے۔ بلکہ یہ عمل دن کو روزہ، رات کو قیام اور صدقہ کرنے سے بھی زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ و خیرات سے بھی افضل عمل نہ بتاؤں؟ (صحابہ نے عرض کیا) کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (ضرور بتائیں)!، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپس میں صلح کرانا“۔ (ابو داود: 4919، شیخ البانی نے صحیح ابو داود میں اس کو صحیح کہا ہے)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3728

 
 
Hadith   510   الحديث
الأهمية: أما بعد، فوالله إني  لأُعطي الرجل وأدَعُ الرجلَ، والذي أدعُ أحبُّ إلي من الذي أُعطي


Tema:

امابعد، اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں۔

عن عَمْرُو بن تَغْلِبَ ـ رضي الله عنه ـ  أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بمالٍ أو سَبْيٍ فَقَسَّمه، فأعطى رجالا، وترك رجالًا، فبَلغَه أن الَّذِين تَرَك عَتَبُوا، فحمد الله، ثم أثنى عليه، ثم قال: «أما بعد، فوالله إني  لأُعطي الرجل وأدَعُ الرجلَ، والذي أدعُ أحبُّ إلي من الذي أُعطي، ولكني إنما أُعطي أقوامًا لما أرى في قلوبهم من الجَزَع والهَلَع، وَأَكِلُ أقواما إلى ما جَعَلَ الله في قُلُوبِهم من الغِنَى والخَيْر، منهم عَمْرُو بن تَغْلِبَ» قال عمرو بن تغلب: فوالله ما أُحبُّ أن لي بكلمة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حُمْرَ النَّعَم.
عمر بن تغلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   ‎
ﷺ کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے، جسے آپ نے تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو آپ نے ان میں سے دیا اور کچھ کو نہیں دیا ۔ پھرآپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ آپ ﷺ نے جن کو نہیں دیا، انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: اما بعد، اللہ کی قسم ! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔ جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں ۔میں کچھ لوگوں کے دلوں میں جو بے صبری پاتا ہوں، اس کی وجہ سے انہیں دیتاہوں اور کچھ لوگوں کو اس بے نیازی اور بھلائی کے سپرد کردیتا ہوں، جو اللہ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے۔ عمرو بن تَغلِب انہی لوگوں میں سے ہیں۔ عمرو بن تَغلِب کہتے ہیں کہ : اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس بات کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔

يحدثنا عَمْرُو بن تَغْلِبَ رضي الله عنه: "أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بمال أو بسَبْيٍ" وهو ما يُؤخذ من العدو في الحرب من الأسرى عبيدا أو إماء "فقسمه، فأعطى رجالًا، وترك رجالًا" أي: أعطى بعض الناس تأليفا لقلوبهم، وترك البعض الآخر ثقة بهم، لما مَنَحَهُم الله من قوة الإيمان واليقين، " فبَلغه أن الذين ترك عَتَبُوا " أي: لامُوا عليه فيما بينهم ، ظنًا منهم ـرضي الله عنهم- أنه -صلى الله عليه وسلم-: إنما أعطى أولئك لمزِية في دينهم.  
 فجمعهم النبي -صلى الله عليه وسلم- وقام فيهم خطيبا، فحمد الله ثم أثنى عليه بما هو أهله ، ثم قال: أما بعد ، فوالله إني لأعطي الرجل وأدع الرجل، والذي أدعْ أحب إلي من الذي أعطي " 
أي: ليس المعنى: أنني إذا أعطيت بعضهم ولم أعط الآخر دليل على محبتي لهم دون الآخرين، بل إن الذين أدعهم ولا أعطيهم هُم أحبُّ إلي ممن أعطيهم. 
ثم بَيَّنَ لهم سبب إعطاء بعضهم دون بعض فقال: " ولكني إنما أعطي أقواما لما أرى في قلوبهم من الجَزَعِ والهَلَع " أي: من شدة الألم والضَّجَر الذي يُصيب نفوسهم لو لم يعطوا من الغنيمة، فأعطيهم تأليفا لقلوبهم، وتطييبا لنفوسهم.
"وأَكِلُ أقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغِنى" أي: وأترك أقواما فلا أعطيهم لأني أكِلهم إلى ما وضع الله في قلوبهم من القناعة وغنى النفس، "والخير" أي وقوة الإيمان واليقين "منهم عمرو بن تغلب" أي: من الناس الَّذين أمنع عنهم العطاء اتكالا على ما عندهم من الإيمان "عَمْرُو بن تَغْلِبَ". 

608;في الحديث الآخر: "إني لأعطي الرجل وغيره أحب إليَّ منه، خَشية أن يكب في النار على وجهه" رواه مسلم
  قال عَمْرُو ـرضي الله عنه- عندما سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يثني عليه: "فوالله ما أحب أن لي بكلمة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حُمْر النَّعَم" أي: أقسم بالله لا أرضى بهذا الثناء الذي كرمني به النبي -صلى الله عليه وسلم- بديلا ولو أعطيت أنفس أموال العرب التي هي الجمال الحُمر.
593;مرو بن تغلب رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے۔ "سبی" سے مراد دشمن کے وہ قیدی ہیں، جنہیں جنگ میں گرفتار کرکے غلام باندی بنا لیا جاتاہے۔ آپ ﷺ نے انہیں تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا؛ یعنی کچھ لوگوں کو ان کی تالیف قلب کے لیے دیا اور کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے جو قوت ایمانی اور یقین عطا کیا تھا، اس پر اعتماد کرتے ہوئے دیے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ پھرآپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ جن کو آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا، انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی انھوں نے آپس میں آپ ﷺ کے اس عمل پرکچھ ناگواری کے انداز میں باتیں کیں، یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو ان کے کسی خاص دینی امتیاز کی وجہ سے دیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے انھیں جمع کرکے خطبہ دیا۔ اللہ تعالی کے شایان شان حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کودیے بغیرہی چھوڑ دیتاہوں۔ جسے میں دیے بغیر چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہے، جسے میں دیتاہوں“۔
یہ مراد نہیں کہ جب بعض لوگوں کو دوں اور بعض کو نہ دوں، تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ میں دوسروں کے مقابلے میں، ان سے محبت کرتا ہوں۔ بلکہ جن کو میں دیے بغیر چھوڑ دیتاہوں، وہ مجھے ان لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں، جنھیں میں دیتا ہوں۔
پھر آپ ﷺ نے بعض کودینے اور بعض کو نہ دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں بعض لوگوں کو ان کے دلوں میں پائی جانے والی بےصبری اور پریشانی کی وجہ سے دیتا ہوں، جو انہیں اس وقت لاحق ہوتی ہے، جب انھیں مال غنیمت میں سے حصہ نہ دیا جائے۔ چنانچہ میں ان کی تالیف قلب اور انھیں خوش کرنے کے لیے دیتا ہوں۔
”بعض لوگوں کو میں اس بے نیازی کے حوالے کردیتا ہوں، جو اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رکھی ہے“ یعنی کچھ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے جو قناعت اور بے نیازی رکھی ہے، انھیں اس کے سپرد کرتے ہوئے نہیں دیتا۔
”بھلائی“ سے مراد قوت ایمان و یقین ہے۔
”عمرو بن تغلب انہیں لوگوں میں سے ہیں“ یعنی وہ لوگ جن کے ایمان پر تکیہ کرتے ہوئے میں انھیں نہیں دیتا، ان میں سے ایک عمرو بن تغلب ہیں۔
ایک اور حدیث میں آتاہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں کسی شخص کو دیتا ہوں، جب کے دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتاہے۔ ایسا میں اس اندیشے کی وجہ سے کرتا ہوں کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جائے“۔ (صحیح مسلم)
عمرو رضی اللہ نے جب رسول اللہ ﷺ کو اپنی تعریف کرتے ہوئے سنا تو کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس بات کی بجائے مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔ یعنی اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس ثنا کی بدولت میری جو تکریم کی، اس کا کوئی بدیل مجھے پسند نہیں ہے، چاہے مجھے عرب کا سب سے نفیس مال، سرخ اونٹ ہی کیوں نہ دیے جا‏ئیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3729

 
 
Hadith   511   الحديث
الأهمية: عَشْرٌ من الفِطْرة: قَصُّ الشَارب، وإعْفَاء اللِّحْية، والسِّواك، وَاسْتِنْشَاقُ الماء، وقص الأظْفَار، وغَسْل البَرَاجِم، ونَتْف الإبْط، وحلق العَانة، وانْتِقَاصُ الماء


Tema:

دس باتیں فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کاٹنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کا دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال مونڈنا اور پانی سےاستنجاء کرنا

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «عَشْرٌ من الفِطْرة: قَصُّ الشَارب، وإعْفَاء اللِّحْية، والسِّواك، وَاسْتِنْشَاقُ الماء، وقص الأظْفَار، وغَسْل البَرَاجِم، ونَتْف الإبْط، وحلق العَانة، وانْتِقَاصُ الماء» قال الراوي: ونَسِيْتُ العاشرة إلا أن تكون المَضْمَضَة. قال وكِيع - وهو أحد رواته - انْتِقَاص الماء: يعني الاسْتِنْجَاء.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دس باتیں فطرت میں سے ہیں: مونچھیں کاٹنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال مونڈنا اور پانی سےاستنجاء کرنا“۔ روای کہتے ہیں کہ میں دسویں چیز بھول گیا، شاید کلی کرنا ہو۔ وکیع جو کہ اس حدیث کے راویون میں سے ہیں کہتے ہیں کہ انتقاص الماء کا مطلب ہے پانی سے استنجا کرنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- بجُملة من سنن الفطرة.  
و"الفِطْرة" هي الخِلْقَة التي خلق الله عباده عليها، وجعلهم مفطورين عليها، وأنها من الخير والمراد بذلك الفِطَر السليمة؛ لأن الفطر المُنْحَرفة لا عبرة بها؛ لقول النبي -صلى الله عليه وسلم-: "كل مَولود يُولد على الفِطْرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يُمَجِّسَانه".
فأولها: "قَصُّ الشَارِب" حَفُّه حتى تبدو الشَفَة، لما في ذلك من النظافة، والتحرز مما يخرج من الأنف، فإن شعر الشارب إذا تدلى على الشفة باشر به ما يتناوله من مأكول ومشروب، مع تشويه الخِلقة بوفرته، وإن استحسنه من لا يعبأ به.
فينبغي للمسلم أن يَتَعاهد شاربه بالقص أو الحَفِّ ولا يتركه أكثر من أربعين يومًا؛ لما رواه مسلم عن أنس -رضي الله عنه-: "وُقِّت لنا في قص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة، أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة".


"وإعفاء اللحية"واللحية: ما نبت على الذقن واللحيين، والمقصود من إعفائها: تركها مُوَفَّرَةً لا يتعرض لها بحلق ولا بتقصير، لا بقليل ولا بكثير؛ لأن الإعفاء مأخوذ من الكثرة أو التوفير، فاعفوها وكثروها، كقوله تعالى: (حتى عَفَوا)، وقد جاءت الأحاديث الكثيرة عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالأمر بإعفائها بألفاظ متعددة؛ فقد جاء بلفظ : "وفروا" وبلفظ: "أرخوا" وبلفظ: "أعفوا"، وكلها تدل على الأمر بإبقائها وتوفيرها وعدم التعرض لها، وعلى هذا لا يجوز للمسلم أن يحلق لحيته بحال من الأحوال، فإن فعل فقد خالف طريق النبي -صلى الله عليه وسلم- وعصى أمره ووقع في مشابهة المشركين.


"والسِّواك": يعني: أن السواك من خصال الفطرة التي رغَّب بها الشرع، فهو "مَطْهَرة للفم مرضاة للرب" ولهذا يشرع كل وقت ويتأكد عند الوضوء والصلاة والانتباه من النوم وتغير الفم وصفرة الأسنان ونحوها.
"وَاسْتِنْشَاقُ الماء" يعني: أن استنشاق الماء من الفطرة؛ لأنه تنظيف، وإزالة لما في الأنف من الأوساخ التي قد تسبب له الأذية والضرر.
والاستنشاق يكون في الوضوء ويكون في غير الوضوء كلما احتجت إلى تنظيف الأنف فاستنشق الماء ونظف أنفك، وهذا يختلف باختلاف الناس، من الناس من لا يحتاج إلى هذا إلا في الوضوء ومن الناس من يحتاج إليه كثيرًا.
ومن ذلك أيضًا: أي من سنن الفطرة المضمضة ، فإنها من الفطرة؛ فالفم والأنف يتوارد عليهما كثير من الأوساخ، فكان من الفطرة الاعتناء بهما.
"وقص الأظفار" يعني من خصال الفطرة : تقليم الأظفار، والمراد بذلك أظفار اليدين والرجلين، فلا تترك أكثر من أربعين يوماً؛ للحديث السابق.
"وغَسْل البَرَاجِم" أي غَسْل مَفَاصِل الأصابع الظاهرة والباطنة؛ لأنها مواضع تجتمع فيها الأوساخ؛ لتجعدها وانكماشها، فقد لا يصلها الماء، وإذا تُعوهدت بأن تُدلك، وأن تُمَرَّ عليها اليد الثانية، فإن الماء يَصل إليها، فكان من الفطرة الاعتناء بها. 
ويلحق بالبراجم كُلُّ موضع من البدن اجتمع فيه وسَخٌ بِعَرَق أو غيره كصِمَاخ الأذن والمغَابِن -بواطن الأفخاذ- وغيرها مما يغلب عليه الاستتار.


"ونَتْف الإبْط" يعني: من خصال الفطرة نتف الإبْط، وهو سحبه وشده من أصوله، وذلك أنه في مكان يكثر فيه العرق، وتجتمع فيه الأوساخ، وتتغير معه الرائحة، ولا يترك أكثر من أربعين يومًا؛ لما تقدم من حديث أنس -رضي الله عنه-، والأفضل نَتْفه إن قَوي عليه، وإذا كان النتف يشق، فلا بأس من الحَلق أو استعمال الكريمات المزيلة؛ لأن الغرض إزالتها وتنظيف المحل، وقد حصل.
"وحَلْق العَانة" أي :أن من خِصال الفطرة إزالة شَعر العانة، وهو الشعر الخَشِن النابت حول القُبُل، من الرجل والمرأة، فمن الفطرة إزالته، سواء بالحلق أو النتف أو القص أو باستعمال المستحضرات الحديثة؛ لأن المقصود التنظيف، وقد حصل به المطلوب، ولا يترك أكثر من أربعين يومًا لما تقدم من حديث أنس -رضي الله عنه-.


"وانْتِقَاصُ الماء" يعني من الفطرة انتقاص الماء، وفُسر: بالاستنجاء، ويؤيد هذا المعنى رواية أبي داود وابن ماجه عن عمار بن ياسر -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: "من الفطرة: المضمضة، والاستنشاق.. والانتضاح"، والاستنجاء: إزالة الخارج من السبيلين بطاهر، كالماء والحَجَر والخرق والمناديل، ونحو ذلك مما له خاصية الإزالة.
"قال الراوي: ونسِيْت العاشرة إلا أن تكون المضمضة" فهذا شك من الراوي.
وحاصله أن هذه الأشياء كلها، تُكْمل ظاهر الإنسان وتطهره وتنظفه، وتدفع عنه الأشياء الضارة والمستقبحة.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ سے فطرت کی جملہ سنتوں کو بیان کر رہی ہیں۔
”الفِطْرة“ سےمراد وہ ہیئت ہے جس پر اللہ نے اپنے بندوں کی تخلیق فرمائی اور اس پر انہیں وجود بخشا اور یہ کہ اس میں خیر موجود ہے۔ یہاں مراد فطرت سلیمہ ہے کیونکہ کج رو فطرت کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: ”ہر نوزائدہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔
سننِ فطرت میں سے سب سے پہلی سنت ”مونچھ کاٹنا“ ہے۔ یعنی اسے ہلکا سا تراشنا یہاں تک کہ ہونٹ ظاہر ہو جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے میں صفائی کا حصول اور ناک سے نکلنے والے مادوں سے بچاؤ ہوتا ہے۔ اگر مونچھ کے بال ہونٹ پر آ رہے ہوں تو اس کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء لگ جاتی ہیں اور مونچھوں کی کثرت سے شکل میں بھی بگاڑ آتا ہے، اگرچہ اس شخص کو یہ اچھی ہی لگیں جو ان کی پرواہ نہ کرتا ہو۔
لھٰذا مسلمان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کاٹ تراش کرکے اپنی مونچھوں کی دیکھ بھال کرتا رہے اور اسے چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے۔ کیونکہ مسلم شریف میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ: ”مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے سلسلے میں ہمارے لئے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں“۔
دوسری سنت ”داڑھی کو( بڑھنے کے لیے) چھوڑ دینا“ ہے۔ ”اللحية“ سے مراد وہ بال ہیں جو ٹھوڑی اور دونوں جبڑوں پر اگ آتے ہیں۔ داڑھی کے اعفاء سے مرادیہ ہے کہ آدمی اسے زیادہ ہونے دے بایں طور کہ نہ تو اسے منڈائے اور نہ ہی کم یا زیادہ اسے چھوٹا کرے۔ کیونکہ اعفاء کا لفظ کثرت اور زیادہ کرنے کے معانی پر دلالت کرتا ہے۔ مراد یہ کہ اسے زیادہ کرو اور اس کی کثرت ہونے دو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (حتى عَفَوا) [الأعراف:95] ترجمہ: یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے۔ نبی ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں جن میں متعدد الفاظ کے ساتھ داڑھی کو بڑھانے کا حکم آیا ہے۔ ایک حدیث میں ”وفّروا“ کا لفظ ہے، ایک میں ”أرخوا“ کا لفظ ہےاور ایک میں ”أعفوا“ کا لفظ ہے۔ یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسے اپنے حال پر باقی رکھتے ہوئے زیادہ ہونے دینا چاہیے اور اس سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔ اس بنا پر مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی داڑھی کو منڈائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو نبی ﷺ کے طریقے سے انحراف اور آپ ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب ہو گا اور مشرکین سے مشابہت اختیار کرے گا، اسی کا فتوی دائمی کمیٹی کے علماء وغیرہ نے دیا ہے۔
"مسواک کرنا"۔ یعنی مسواک کرنے کا شمار ان خصالِ فطرت میں ہوتا ہے جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے۔ "مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا کا سبب ہے" اسی لیے اس کا کرنا کسی بھی وقت مشروع ہے، تاہم وضوء اور نماز کے اوقات میں، نیند سے بیداری پر، منہ کی بو میں تغیر پیدا ہونے اور دانتوں پر پیلاہٹ ظاہر ہونے اور اس طرح کےديگر مواقع پر اس کے کرنے کی زیادہ تاکید ہے۔
"ناک میں پانی چڑھانا"۔ یعنی ناک میں پانی چڑھانا بھی فطرت میں سے ہے۔ کیونکہ اس سے ناک میں موجود ایسی گندگیوں کی صفائی اور ان کا ازالہ ہوتا ہے جو انسان کے لیے تکلیف اور ضرر رسانی کا سبب بن سکتی ہیں۔ ناک میں پانی چڑھانا دوران وضوء بھی ہو سکتا ہے اور وضوء کے علاوہ بھی یعنی جب بھی آپ کو ناک صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اپنی ناک میں پانی چڑھا کر اسے صاف کرلیں۔اس سلسلے میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو اس کی صرف وضوء کرتے ہوئے ضرورت پڑتی ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنھیں بہت زیادہ ناک صاف کرنا پڑتا ہے۔
سننِ فطرت میں سے ایک "کلی کرنا "بھی ہے۔ یہ بھی فطرت میں سے ہے۔ منہ اور ناک میں بہت سی گندگیاں در آتی ہیں۔ چنانچہ ان پر توجہ دینا فطرت کا جزء ہوا۔
”ناخن کاٹنا“ يعنی ناخن کاٹنا فطرت ميں سےہے۔ اس سے مراد دونوں ہاتھ پاؤں کے ناخن ہیں۔ انہیں بھی کاٹے بنا چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آیا ہے۔
”جوڑوں کو دھونا“ یعنی انگلیوں کے بیرونی اور اندرونی جوڑوں کو دهلنا کیونکہ ان جگہوں ميں جھریاں اور سلوٹیں ہونے کی وجہ سے ان پر گندگی جمع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ان تک پانی نہیں پہنچ پاتا۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے بایں طور کہ انہیں ملا جائے اور دوسرا ہاتھ ان پر پھیرا جائے تو ان تک پانی پہنچ جاتا ہے۔ لھٰذا ان کا خیال رکھنا بھی فطری امور میں سے ہے۔
جسم میں موجود ہر اس جگہ کا حکم انگليوں کے جوڑوں ہی کی طرح ہے جہاں پسینے یا کسی اور وجہ سے میل کچیل جمع ہو جاتی ہو جیسے کان کا سوراخ اور رانوں کا اندرونی حصہ اور اس طرح کی دیگر جگہیں جو عموماً چھپی رہتی ہیں۔
”بغل کے بال اکھیڑنا“ یعنی خصالِ فطرت میں سے ایک خصلت بغل کے بال کو کھینچ کر انہیں جڑ سے اکھیڑنا بھی ہے۔ کیونکہ اس جگہ بہت زیادہ پسینہ آتا ہے اور میل کچیل جمع ہوتی رہتی ہے جس سے بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے بھی چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑنا چاہیے جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کی سابق الذکر حدیث میں آیا ہے۔ اگر طاقت ہو تو بغل کے بالوں کو اکھیڑنا ہی افضل ہے۔ تاہم اگر ایسا کرنا مشقت کا باعث ہو تو پھر انھیں مونڈنے یا بال صفا کریموں کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اصل غرض تو ان بالوں کو دور کرنا اور جگہ کو صاف کرنا ہے جو کہ حاصل ہو جاتا ہے۔
”زیر ناف بال مونڈنا“ یعنی زیر ناف بال صاف کرنا بھی خصالِ فطرت میں سے ہے۔ "العانة" سے مراد وہ سخت بال ہیں جو مرد اور عورت کی اگلی شرم گاہ کے گرد اگ آتے ہیں۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ انہیں زائل کیا جائے چاہے ایسا مونڈكر، یا اكھيڑ كر يا كاٹ کر ہو یا پھر جدید مواد (لوشن وغیرہ) کو استعمال کر کے ہو۔ کیونکہ اصل مقصد صفائی ہے اور ان تمام طریقوں سے یہ مقصود حاصل ہوتا جاتاہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی سابقہ حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ رہنے دیا جائے۔
”انتقاص الماء“ یعنی انتقاص الماء بھی فطرت میں سے ہے جس کی تفسیر استنجاء کرنے سے کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید ابو داود اور ابن ماجہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور پانی چھڑکنا فطرت میں سے ہیں۔ استنجاء کا معنی ہے: دونوں شرم گاہوں سے نکلنے والی شے کو کسی پاک چیز جیسے پانی، پتھر، چیتھڑوں اور رومال وغیرہ سے صاف کرنا جس میں (گندگی کو) زائل کرنے کی صلاحیت ہو۔
راویِ حدیث بیان کرتے ہیں:”میں دسویں خصلت بھول گیا، لیکن ہو سکتا ہے وہ کلی کرنا ہو“۔ یہ راوی کا شک ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ تمام اشیاء انسان کے ظاہر کی تکمیل کرتی ہیں اور اسے پاک صاف کرتی ہیں اور نقصان دہ اور قبیح چیزوں کو اس سے دور کرتی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3730

 
 
Hadith   512   الحديث
الأهمية: يَعْقِدُ الشيطان على قَافِيَةِ رأسِ أحدِكم، إذا هو نام، ثلاث عُقَدٍ، يَضْرِب على كل عُقْدَةٍ: عليك لَيلٌ طويل فَارْقُدْ


Tema:

شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے (گُدّی) پر رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يَعْقِدُ الشيطان على قَافِيَةِ رأسِ أحدِكم، إذا هو نام، ثلاث عُقَدٍ، يَضْرِب على كل عُقْدَةٍ: عليك لَيلٌ طويل فَارْقُدْ، فإن استيقظ، فذكر الله -تعالى- انحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فإن تَوضِّأ، انْحَلّتْ عُقدَةٌ، فإن صلى، انْحَلَّتْ عُقَدُهُ كُلُّها، فأصبح نشيطا طَيِّبَ النفس، وإلا أصبح خَبِيثَ النَّفْس كَسْلَان».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے، پھر اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ بد مزاج اور سست رہتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: يربط الشيطان على مؤخرة رأس كل نائم ثلاث عقد، والعَقْد: على حقيقته وأنه كما يَعْقِد الساحر من يسحره فيأخذ خيطا يَعْقد منه عُقدة ويتكلم فيه بالسحر فيتأثر المَسحور عند ذلك، وفي رواية لابن ماجة : " على قَافِيَة رأس أحدكم بالليل حَبْلٌ فيه ثلاث عُقَد " وإنما يربط على مؤخرة الرأس خاصة؛ لأنها مركز القوى، ومجال تَصَرفِها وهي أطْوَع القوى للشيطان وأسرعها إجابة لدعوته، فإذا رَبَطَ عليها أمكنه السيطرة على رُوح الانسان، وإلقاء النوم عليه.
" يَضْرِب على كل عُقْدَةٍ "، أي: يَضرب بيده تأكيدًا وإحكاما مكان كل عُقدة عَقدها هذا القول وهو: "عليك ليل طويل "، أي: بقي قَدْرٌ طويل من الليل، فَنَمْ ما شئت، فإنك إذا استيقظت وجدت الوقت الكافي لأداء صلاة الليل، " فَارْقُدْ " أي : ارجع إلى نومك.
" فإذا استيقظ وذكر الله انحلت عقدة " بسبب ذكر الله تعالى ، " فإذا توضأ انحلت عقدة " أي: عقدة ثانية ببركة الوضوء، وفي رواية لمسلم : " فإن توضأ انحلت عقدتان ".
ويشمله ما إذا اغتسل للطهارة من الحدث الأكبر.
" فإن صلى " ولو ركعة " انحلت عقده " انفكت العقدة الثالثة ، وفي رواية البخاري " انحلت عُقده كلها "
" فأَصَبح نَشِيطا " لسروره بما وفقه الله له من الطاعة وما وعِد به من الثواب وما زال عنه من عُقَد الشيطان.
" طَيِّبَ النفس " لما بارك الله له في نفسه من هذا التصرف الحسن " وإلا " أي : وإن لم يأت بما ذُكِر من الأمور الثلاثة " أصبح خَبِيثَ النَّفْس كَسْلَان " أي: متغيرًا حاله؛ بسبب خذلان الشيطان له مما كان قد اعتاده أو نَواه من فعل الخير.
قال الحافظ ابن حجر ـ رحمه الله ـ والذي يظهر أن في صلاة الليل سرًّا في طيب النفس وإن لم يستحضر المصلي شيئا مما ذكر وكذا عكسه وإلى ذلك الإشارة بقوله تعالى إن ناشئة الليل هي أشد وطئا وأقوم قيلا " انتهى.
581;دیث کا مفہوم: شیطان ہر سونے والے کے سر کے پیچھے تین گرہیں لگاتاہے۔ یہاں گرہ سے مراد حقیقی گرہ ہے اوریہ ویسے ہی ہے جیسے جادو گر جس شخص پر جادو کرتا ہے اس پرگرہیں لگاتا ہے بایں طور کہ وہ ایک دھاگہ لے کر اس پر گرہ لگاتا ہے اور اس پر کچھ جادو پھونکتا ہے جس سے وہ شخص متاثر ہوتا ہے جس پر جادو کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ ”رات کو تم میں سے ہر ایک کی گدّی پر ایک رسی ہوتی ہے جس میں تین گرہیں ہوتی ہیں“۔ شیطان خاص طور پر سرکے پچھلے حصے پر گرہیں لگاتا ہے کیونکہ یہ جسمانی قوت کا مرکز اور ان کو چلانے کی جگہ ہے۔ اس جگہ موجود قوتیں شیطان کی بہت زیادہ مطیع اور بہت جلد اس کے کہے میں آجاتی ہیں۔ چنانچہ ان پر گرہیں لگانے سے اس کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کی روح پر قابو پا لے اور اس پر نیند طاری کر دے۔
”يَضْرِب على كل عُقْدَةٍ“ یعنی وہ اپنے ہاتھ سےہر گرہ پر مارتا ہے تا کہ اس کی لگائی گئی ہرگرہ مضبوط اور پختہ ہو جائے۔ پھر وہ یہ بات کہتا ہے کہ "رات بہت لمبی ہے"۔ یعنی رات کی بہت لمبا وقت ابھی باقی ہے۔ تو جتنا چاہتا ہے سو لے۔ جب تو جاگے گا تو رات کی نماز کے لیے تیرے پاس کافی وقت ہو گا۔''فَارْقُدْ"۔ یعنی دوبارہ سو جا۔
”فإذا استيقظ وذكرَ اللهَ انحلت عقدة“ اللہ کے ذکر کی وجہ سے (ایک گرہ کھل جاتی ہے)۔" فإذا توضأ انحلت عقدة "۔ یعنی وضو کی برکت سے (دوسری گرہ کھل جاتی ہے)۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ ”اگر وہ وضو کر لے تو دو گرہیں کھل جاتی ہیں“۔ اگر حدث اکبر سے پاک ہونے کے لیے وہ غسل کر لے تو اس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ”اگر وہ نماز پڑھ لے“ اگرچہ ایک رکعت نماز ہی پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ”ساری گرہیں کھل جاتی ہیں“۔ ”وہ صبح کو چاق و چوبند ہوتا ہے“ اللہ نے اسے جو نیکی کی توفیق دی اوراس کے لیے جو ثواب کا وعدہ ہے اور اس پر سے شیطان کی لگائی ہوئی گرہیں زائل ہونے کی خوشی کی وجہ سے وہ چاق و چوبند ہوتا ہے۔ ”طَيِّبَ النفس“ (خوش مزاج رہتا ہے)۔ کیونکہ اس کے اس حسن تصرف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے نفس میں برکت دے دیتا ہے۔ اگر وہ ان مذکورہ تینوں باتوں کو نہ کرے تو صبح کو وہ بد مزاج اور سست ہوتا ہے۔ یعنی اس کا برا حال ہوتا ہے کیونکہ شیطان اس کو بے یار و مددگار چھوڑ جاتا ہے اور وہ ان نیک اعمال کو نہیں کرپاتا جو اس کا معمول ہوتے ہیں یا جن کے کرنے کی اس نے نیت کر رکھی ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی نماز میں نفس کی خوش مزاجی میں ایک راز ہے اگرچہ ان مذکورہ باتوں میں سے نمازی کے ذہن میں کوئی بھی نہ ہو اور اسی طرح اس کا عکس ہے (کہ نہ پڑھنے کی صورت میں بد مزاجی آتی ہے)۔ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے ﴿إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا﴾ ”بےشک رات کا اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور بات بھی صحیح نکلتی ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3731

 
 
Hadith   513   الحديث
الأهمية: عليك بكثرة السجود؛ فإنك لن تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطيئة


Tema:

کثرت سے سجدے کیا کرو۔ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔

عن أبي عبد الله ويقال أبو عبد الرحمن ثوبان مولى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول لله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «عليك بكثرة السجود؛ فإنك لن تسجد لله سجدة إلا رَفَعَكَ الله بها دَرَجة، وحَطَّ عنك بها خَطِيئة».

اللہ کے رسول ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابو عبداللہ (انھیں ابو عبدالرحمن بھی کہا جاتا ہے) ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کثرت سے سجدے کیا کرو ۔ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمھارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سبب هذا الحديث: أن معدان بن طلحة قال: «أتيت ثوبان فقلت: أخبرني بعمل أعمل به يدخلني الله به الجنة، أو قال: بأحبّ الأعمال إلى الله، فسكت، ثم سأله فسكت، ثم سأله الثالثة فقال: سألت عن ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: عليك فذكره، وفي آخره: فلقيت أبا الدرداء فسألته فقال لي مثل ما قال ثوبان».
ومعنى قوله صلى الله عليه وسلم: (عليك بكثرة السجود)، يعني: الزم كثرة السجود، (فإنك لن تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطيئة)، وهذا كحديث ربيعة بن كعب الأسلمي، أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: أسألك مرافقتك في الجنة، قال: (فأعني على نفسك بكثرة السجود).
وعن عبادة بن الصامت رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (ما من عبد يسجد لله سجدة إلا كتب الله له بها حسنة ومحا عنه بها سيئة ورفع له بها درجة فاستكثروا من السجود).
فالسجود لله تعالى من أفضل الطاعات وأجل القربات؛ لما فيه من غاية التواضع والعبودية لله تعالى، وفيه تمكين أعز أعضاء الإنسان وأعلاها وهو وجهه من التراب الذي يداس ويمتهن.
ثم إن المراد بالسجود هنا ما كان تابعا للصلاة لا السجود المفرد؛ فإنه غير جائز لعدم ما يدل على مشروعيته، والأصل في العبادات التوقيف، إلا ما كان له سبب وهو سجود التلاوة أو سجود الشكر، فقد جاء الشرع بذلك.
ثم بين النبي -صلى الله عليه وسلم- ماذا يحصل للإنسان من الأجر فيما إذا سجد؛ وهو أنه يحصل له فائدتان عظيمتان:
الفائدة الأولى: أن الله يرفعه بها درجة، يعني منزلة عنده وفي قلوب الناس، وكذلك في عملك الصالح؛ يرفعك الله به درجة.
والفائدة الثانية: يحط عنك بها خطيئة، والإنسان يحصل له الكمال بزوال ما يكره، وحصول ما يحب، فرفع الدرجات مما يحبه الإنسان، والخطايا مما يكره الإنسان، فإذا رفع له درجة وحط عنه بها خطيئة؛ فقد حصل على مطلوبه، ونجا من مرهوبه.
575;س حدیث کا شان ورود یہ ہے کہ معدان بن طلحۃ بیان کرتے ہیں : "میں نے ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے، جس کے کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل کردیں! یا پھر یہ کہا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل بتادیں۔ اس پر (حضرت ثوبان) خاموش رہے۔ انھوں نے پھر پوچھا، تب بھی وہ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ جب پوچھا، تو انھوں نےکہا کہ میں نے جب ایسے عمل کے بارے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، توآپ نے فرمایا تھا: "سجدوں کی کثرت کیا کرو...انہوں نے پوری حدیث ذکر کی"۔ آخر میں ہے: میں ابوالدرداء رضى الله عنه سے ملا اور ان سے میں نے یہی پوچھا، تو انھوں نے بھی وہی کہا، جو ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔
آپ ﷺ کے اس فرمان ”عليك بكثرة السجودظ“ کے معنی یہ ہیں کہ کثرت سجود کو لازم پکڑ لو۔ کیوںکہ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کی وجہ سے تمھارا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔ یہ حدیث ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ملتی جلتی ہے، جس میں آتا ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”پھر کثرت سجود کے ذریعے تم اپنے معاملےمیں میری مدد کرو“۔
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ”جب بھی کوئی بندہ اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں، اس کا ایک گناہ مٹا دیتے ہیں اور ایک درجہ بلند کردیتے ہیں۔ چنانچہ تم سجدوں کی کثرت کیا کرو“۔
اللہ تعالی کے لیے سجدہ کرنا افضل ترین طاعت اور اللہ کے تقرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کیوںکہ اس میں اللہ کے لیے انتہا درجے کا تواضع اور عبودیت ہوتی ہے اور اس میں انسان کے سب سے زیادہ باشرف اور سب سے اعلی عضو یعنی اس کے چہرے کو روندی جانے والی حقیر مٹی پر رکھا جاتاہے۔
سجدے سے مراد یہاں وہ سجدے ہیں جو نماز میں آتے ہیں، نہ کہ الگ سے سجدے۔ الگ سے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوںکہ اس کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ عبادات میں اصل ممانعت ہے۔ البتہ اس سے وہ سجدے مستثنی ہیں، جو کسی سبب کی وجہ سے ہوتے ہیں، جیسے سجدۂ تلاوت یا سجدۂ شکر۔ کیوںکہ شریعت میں ان کا ذکر ہے۔
پھر آپ ﷺ نے وضاحت کی کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے، تو اسے کیا اجر ملتاہے اور وہ یہ ہے کہ اسے دو بہت بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
پہلا فائدۃ: اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں۔ یعنی خود اللہ کے یہاں اور لوگوں کے دلوں میں اس کی منزلت بڑھ جاتی ہے ۔ آپ جب کوئی نیک عمل کرتے ہیں، تو اس میں بھی یہی ہوتاہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالی آپ کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں۔
دوسرا فائدۃ: اللہ تعالی اس کی وجہ سے آپ کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ناپسندیدہ اشیا کے زائل ہونے اور محبوب اشیا کے حصول سے انسان کو کمال حاصل ہوتاہے۔ رفع درجات کو انسان پسند کرتاہے اور گناہوں سے نفرت کرتا ہے۔ چنانچہ جب اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے، تو اسے اپنا مطلوب مل جاتاہے اور جس بات کا اسے ڈر ہوتاہے، اس سے اس کی نجات ہوجاتی ہے ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3732

 
 
Hadith   514   الحديث
الأهمية: عَيْنَانِ لاَ تَمسُّهُمَا النَّار: عَيْنٌ بَكَتْ من خَشْيَة الله، عَيْنٌ بَاتَت تَحْرُسُ في سَبِيل الله


Tema:

دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی؛ ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہِ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «عَيْنَانِ لاَ تَمسُّهُمَا النَّار: عَيْنٌ بَكَتْ من خَشْيَة الله، وعَيْنٌ بَاتَت تَحْرُسُ في سَبِيل الله».

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی؛ ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہِ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن النَّار لا تَمَسُّ عينًا بَكَتْ خوفاً من الله تعالى، فعندما يتذكر الإنسان عظمة الله وقدرته على عباده ويتذكر حاله وتقصيره في حق الله تعالى؛ فيبكي رجاء رحمته وخوفاً من عِقَابه وسَخَطه، فهذا موعود بالنجاة من النار. 
وعين أخرى لا تمسها النار، وهي: من بَاتت تَحرس في سبيل الله تعالى في الثغور ومواضع الاقتتال حفاظاً على أرواح المسلمين.
وقوله: "لا تمسهما النار" هذا من إطلاق لفظ الجزء وإرادة الكل، والمراد: أن من بَكَى من خَشية الله تعالى ومن بات يَحرس في سبيل الله، فإن الله تعالى يُحَرِّم جَسَدَهما على النَّار.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ جہنم کی آگ اس آنکھ کو نہیں چُھوتی جو اللہ کے خوف سے روتی ہے، یعنی جب انسان اللہ کی عظمت اور بندوں پر اس کی قدرت کو یاد کرتا ہے اور اپنی حالت اور اللہ تعالیٰ کے حق میں اپنی کوتاہی دیکھتا ہے، تو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اور اس کے عذاب اور ناراضگی سے ڈرتے ہوئے روتا ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ آنکھ جہنم کی آگ سے نجات پائے گی۔
دوسری آنکھ جسے جہنم کی آگ نہیں چُھوئے گی وہ ہے جو اللہ کے راستے میں سرحدوں پر اور لڑائی کے موقعوں پر اہل اسلام کی حفاظت پر مامور ہو کر پہرہ دیتی ہے۔
”لا تمسهما النار“ یہ جملہ جُزْ بول کر کُلْ مُراد لینے کی قبیل سے ہے۔ اس سے مُراد یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے اور اللہ کے راستے میں پہرہ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے جسموں پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3733

 
 
Hadith   515   الحديث
الأهمية: إذا قَام أحَدُكُم من الليل، فَاسْتَعْجَمَ القرآن على لِسَانه، فلم يَدْرِ ما يقول، فَلْيَضْطَجِع


Tema:

جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو نماز کے لیے کھڑا ہو اور اس کی زبان قرآن مجید پڑھنے میں اٹک رہی ہو اور وہ نہ سمجھ رہا ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا قَام أحَدُكُم من الليل، فَاسْتَعْجَمَ القرآن على لِسَانه، فلم يَدْرِ ما يقول، فَلْيَضْطَجِع».

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی رات کو نماز کے لیے کھڑا ہو اور اس کی زبان قرآن مجید پڑھنے میں اٹک رہی ہو اور وہ نہ سمجھ رہا ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن العَبد إذا كان في صلاة الليل، فصعبت عليه قراءة القرآن؛ لغلبة النعاس عليه، حتى صار لا يَدْري ما  يقول، فَلْيَضْطَجِع، حتى يَذْهب عنه النوم؛ لئلا يُغَيِّر كلام الله، ويبدله ولعله يَأتي بما لا يجوز، من قَلْب مَعانيه، وتحريف كلماته، وربما يدعو على نفسه.
وفي البخاري عن أنس -رضي الله عنه- مرفوعًا: "إذا نعس أحدكم في الصلاة فليَنَم، حتى يَعلم ما يَقرأ".
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ تہجد کی نماز میں نیند کے غلبے کی وجہ سے اگر انسان پر قرآن پڑھنا دشوار ہو جائے کہ اسے پتہ نہ چلے وہ کیا کہہ رہا ہے، تو اسے لیٹ جانا چاہیے، تاکہ اس کی نیند چلی جائے، کہیں وہ اللہ کے کلام کو تبدیل نہ کر بیٹھے اور کوئی ایسا جملہ نہ کہہ دے جس کا کہنا جائز نہیں جس سے معنی بالکل بدل جائے، کلمات میں تحریف ہو جائے اور بسا اوقات انسان اپنے لیے بددعا کر جائے۔
بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی نماز میں اونگھتا ہے تو اسے سو جانا چاہیے، تاکہ اسے معلوم ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3734

 
 
Hadith   516   الحديث
الأهمية: إن لكل أمة فتنة، وفِتنة أُمتي: المال


Tema:

ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش (فتنہ) مال میں ہے۔

عن كعب بن عياض -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إن لكل أُمَّة فتنة، وفِتنة أُمَّتي: المال».

کعب بن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے: ”ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش (فتنہ) مال میں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال كعب بن عياض -رضي الله عنه-: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:
(إن لكل أمة فتنة) وهي ما يمتحنون ويختبرون به من الأشياء.
(وفتنة أمتي المال) لأنه مانع عن كمال المآل؛ فاللهو بالمال يشغل البال عن القيام بالطاعة وينسي الآخرة.
705;عب بن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ:
”بے شک ہر امت کا کوئی فتنہ ہوتا ہے“ فتنہ وہ چیزیں ہیں جن میں انسان کو آزمایا اور پرکھا جاتا ہے۔
”اور میری امت کا فتنہ مال ہے“ کیوں کہ مال آخرت سے رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور مال کے ساتھ مشغول ہونا انسان کو اطاعت سے غافل کر دیتا ہے اور آخرت کو بھلا دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3736

 
 
Hadith   517   الحديث
الأهمية: زِنْ وأرْجِح


Tema:

تولو اور کچھ جھکتا ہوا تولو۔

عن أبي صَفْوان سُوَيْدِ بن قيس -رضي الله عنه- قال: جَلَبْتُ أنا وَمَخْرَمَةُ العَبْدِيُّ بَزًّا من هَجَر، فجاءنا النبي -صلى الله عليه وسلم- فَسَاوَمَنَا بسَرَاوِيلَ، وعندي وَزَّانٌ يَزِنُ بالأَجْر، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- للوَزَّان: «زِنْ وأرْجِح».

ابو صفوان سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور مخرمہ عبدی ہجر کے علاقے سے کچھ کپڑا خرید کر لائے۔ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس سے گزرے ہم سے کچھ شلواروں کا بھاؤ طے کیا۔ میرے پاس ہی ایک وزن کرنے والا تھا جو اجرت لے کر تولا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس وزن کرنے والے کو مخاطب ہو کر کہا: ”تولو اور کچھ جھکتا ہوا تولو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن صفوان بن سُوَيْدِ وَمَخْرَمَةُ العَبْدِيُّ -رضي الله عنهما- جاءا بثياب من بلدة يقال لها هجر. 
"فجاءنا النبي -صلى الله عليه وسلم- فَسَاوَمَنَا بسَرَاوِيلَ" أي: أراد النبي -صلى الله عليه  وسلم- أن يشتري منهما سراويل، ففاصلهما في السِعر وفي رواية للنسائي: " فاشترى منَّا سراويل" ولم يذكر المفاصلة.
"وعندي وَزَّانٌ يَزِنُ بالأَجْر" أي: يوجد في السوق رجل عنده ميزان، والناس يزنون عنده ويعطونه أجرة على الوزن.
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- للوَزَّان: "زِنْ وأرْجِح" أي: أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- الوَزَّان أن يزيد في الكِفة التي فيها السلع التي توزن بحيث تميل الكِفة وترجح على الأخرى، وليس معنى ذلك: أنها تميل ميلًا عظيمًا، فهذا قد يكون فيه ضرر على البائع، لكن يميل الميزان ميلاً يسيراً، بحيث يتحقق أن المشتري قد أخذ حقه من غير نقص، وذكر الوزن في هذا الحديث لا علاقة له بشراء السراويل، فإن السراويل لا توزن.
589;فوان بن سوید اور مخرمہ عبدی - رضی اللہ عنہما - ہجر نامی ایک علاقے سے کچھ کپڑا لے کر آئے۔
”فجاءنا النبي ﷺ فَسَاوَمَنَا بسَرَاوِيلَ“ یعنی نبی ﷺ ان سے کچھ شلواریں خریدنا چاہتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے بھاؤ تاؤ کیا۔ سنن نسائی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: "فاشترى منَّا سراويل" یعنی اس روایت میں بھاؤ تاؤ کا ذکر نہیں ہے۔
”وعندي وَزَّانٌ يَزِنُ بالأَجْر“ یعنی بازار میں ایک وزن کرنے والا تھا جس سے لوگ پیسے دے کر وزن کرایا کرتے تھے۔
نبی ﷺ نے وزان سے کہا کہ: ”زِنْ وأرْجِح“ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ جس پلڑے میں سودا ہو اُسے وزن کرتے ہوئے ذرا زیادہ رکھے تاکہ وہ کچھ جھک جائے اور دوسرے پلڑے سے ذرا وزنی ہو جائے۔ اس کا معنی یہ بالکل نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ جھک جائے کیوں کہ اس سے تو فروخت کنندہ کو نقصان ہو گا بلکہ مراد یہ ہے کہ تھوڑا سا جھک جائے بایں طور کہ یقین ہو جائے کہ خریدار نے بغیر کسی کمی کے اپنا پورا حق لے لیا ہے۔ وزن کرنے کی جو بات اس حدیث میں ہے اس کا تعلق شلواروں سے نہیں ہے اس لیے کہ شلوارون کو وزن نہیں کیا جاتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3737

 
 
Hadith   518   الحديث
الأهمية: إن في الجنَّة بَابَا يُقال له: الرَّيَّانُ، يدْخُل منه الصَّائِمُونَ يوم القيامة، لا يَدخل منه أحدٌ غَيرُهم، يُقَال: أين الصَّائمون؟ فيقومون لا يدخل منه أحد غَيْرُهُم، فإذا دخَلُوا أُغْلِقَ فلم يدخل منه أحَد


Tema:

جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا: روزہے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہوں گے (اور اس سے داخل ہو جائیں گے)، ان کے علاوہ اس سے کوئی اور داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوگا

عن سهل بن سعد -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: ««إن في الجنة بابا يقال له: الرَّيَّانُ، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لا يدخل منه أحد غيرهم، يقال: أين الصائمون؟ فيقومون لا يدخل منه أحد غيرهم، فإذا دخلوا أغلق فلم يدخل منه أحد»
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا: روزہے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہوں گے (اور اس سے داخل ہو جائیں گے)، ان کے علاوہ اس سے کوئی اور داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن في الجَنَّة بابا يقال له الرَّيَّان، خاص بالصائمين، لا يدخله أحد غيرهم، فمن كان محافظًا على الصوم فَرْضِه ونَفْله، تناديه الملائكة يوم القيامة للدخول من ذلك الباب، فإذا دخلوا أُغلق فلا يَدخل منه أحدٌ.
581;دیث کا مفہوم: جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ یہ روزے داروں کے لیے خاص ہے، اس سے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہوگا۔ چنانچہ جو شخص فرض روزے اور نفلی روزے کی پابندی کرنے والا ہوگا، اسے روز قیامت فرشتے اس دروازے سے داخل ہونے کے لیے بلائیں گے۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3738

 
 
Hadith   519   الحديث
الأهمية: حديث قصة بريرة وزوجها


Tema:

بریرۃ اور ان کے شوہر کی کہانی کی حدیث

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قصة بريرة وزوجها، قال: قال لها النبي -صلى الله عليه وسلم-: «لو رَاجَعْتِهِ؟» قالت: يا رسول الله تأمرني؟ قال: «إنما أشْفَع» قالت: لا حاجة لي فيه. Esin Hadith Text Urdu
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بریره اور ان کے خاوند کے قصے ميں منقول ہے کہ نبی ﷺ نے ان (بريرہ) سے فرمایا کہ اگر تم اس (شوہر) سےٍ رجوع کر لو (تواچھا ہے)۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم! کیا آپ مجھے (لوٹنے کا) حکم دے رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں، انہوں نے کہا: مجھے ان کی ضرورت نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان زوج بريرة رضي الله عنها عبدا يقال له مغيث رضي الله عنه، وكانت بريرة رضي الله عنها تخدم عائشة رضي الله عنها قبل شرائها، فلما أعتقتها، وجُعِل لها الخيار في البقاء مع مغيث أو الفراق فارقته بريرة رضي الله عنها، فكان مغيث رضي الله عنه بعد هذا التصدع الأسري يدور خلفها في سكك المدينة وطرقها يبكي ودموعه تسيل على لحيته؛ وهذا من شدَّة محبته لبريرة رضي الله عنها، علَّها تراجع قرارها وترجع إليه.
فقال النبي صلى الله عليه وسلم لبريرة رضي الله عنها: لو راجعته لكان لك ثواب.
فقالت بريرة رضي الله عنها: يا رسول الله أتأمرني بمراجعته وجوبًا.
فقال صلى الله عليه وسلم: إنما أتوسط له.
 فقالت رضي الله عنها: لا غرض ولا رغبة لي في مراجعته.
576;ریرۃ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ بریرۃ رضی اللہ عنہا خریدے جانے سے قبل عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں آزاد کرديا اورانہیں مغیث کے ساتھ رہنے یا ان سے علیحدہ ہونے کا اختیار مل گیا تو بریرۃ رضی اللہ عنہا نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مغیث رضی اللہ عنہ اس خاندانی بندھن کے ٹوٹنے کے بعد مدینے کی گلیوں اور راستوں میں ان کے پیچھے روتے ہوئے پھرتے اور ان کے آنسو ان کی داڑھی پر بہہ رہے ہوتے ۔ یہ حالتِ زار بریرۃ رضی اللہ عنہا سے شدت محبت کی وجہ سے تھی۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور دوبارہ ان کی طرف لوٹ آئیں۔
اس پر نبی ﷺ نے بریرۃ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اگر تم ان سے رجوع کر لو تو تمہیں اجر ملے گا۔
انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم! کیا آپ مجھے اس بات کا حکم دے رہے ہیں کہ میں لازمی طور پر ان سے رجوع کرلوں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: میں تو صرف ان کے لیے سفارش کر رہا ہوں۔
اس پر بریرۃ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے ان سے رجوع کرنے کی خواہش اور حاجت نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3741

 
 
Hadith   520   الحديث
الأهمية: يَرحم الله موسى، قد أُوذي بأكثر من هذا فصبر


Tema:

اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں اس سے زیادہ تکلیف پہنچائی گئی، تاہم انہوں نے صبر کیا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: لما كان يوم حُنين آثر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ناسًا في القِسْمَة، فأعطى الأَقْرَع بن حَابِس مئة من الإبل، وأعطى عُيينة بن حِصن مثل ذلك، وأعطى نَاسًا من أشراف العَرب وآثَرَهُم يومئذ في القِسْمَة. فقال رجل: والله إن هذه قِسْمَة ما عُدل فيها، وما أُريد فيها وجه الله، فقلت: والله لأُخبرن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأتيته فأخبرته بما قال، فتغير وجهه حتى كان كالصِّرفِ. ثم قال: «فمن يَعْدِل إذا لم يعدل الله ورسوله؟» ثم قال: «يَرحم الله موسى، قد أُوذي بأكثر من هذا فصبر». فقلت: لا جَرم لا أرفع إليه بعدها حديثًا.

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب حنین کا معرکہ پیش آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم میں کچھ لوگوں کو ترجیح دی۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے اور عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو بھی اتنا ہی مال عطا فرمایا۔ آپ نے عرب کے معزز لوگوں کو مال عطا فرمایا اور انھیں اس دن تقسیم میں ترجیح دی، تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے، جس میں عدل نہیں کیا گیا اور اس تقسیم سے اللہ کی رضا کا قصد نہیں کیا گیا۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ بات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو وہ بات بتائی، جو اس آدمی نے کہی تھی۔ اس پر آپ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوکر سرخ ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے، تو پھر کون عدل کرے گا؟ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے۔ ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی اور انھوں نے صبر کیا! میں نے (اپنے جی میں) کہا: آئندہ میں ایسی بات آپ ﷺ کو نہیں بتایا کروں گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أنهم كانوا في غزوة حنين، وهي: غزوة الطائف التي كانت بعد فتح مكة، غزاهم الرسول -صلى الله عليه وسلم- وغنم منهم غنائم كثيرة جدا: من إبل، وغنم، ودراهم، ودنانير، ثم إن النبي -صلى الله عليه وسلم- نزل بالجعرانة، وهي محل عند منتهى الحرم من جهة الطائف، نزل بها وقسم -صلى الله عليه وسلم- الغنائم بين من حضر هذه الغزوة، فأعطى الأقرع بن حابس مائة من الإبل، وأعطى عيينة بن حصن مائة من الإبل، وأعطى ناسًا من أشراف العرب؛ يتألفهم على الإسلام؛ فإذا حسن إسلام هؤلاء بسبب العطايا والمال أسلم من وراءهم ممن يتبعهم، وكان في ذلك قوة وعزة للإسلام، وأما أقوياء الإيمان فقد تركهم -صلى الله عليه وسلم- اعتمادًا على ما عندهم من الإيمان.
فقال رجل بعد أن رأى حال النبي -صلى الله عليه وسلم- في تقسيم الغنائم على رؤساء القبائل وأشراف القوم، وترك بعض القوم: والله إن هذه قسمة ما عُدل فيها وما أريد فيها وجه الله.
فلما سمع ابن مسعود -رضي الله عنه- هذه الكلمة ذهب مسرعا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وأقسم قبل لأن يأتيه أنه سيخبره بها، ولما أخبره بالخبر، اشتد غضبه -عليه الصلاة والسلام-، وتغير وجه حتى كان كالصبغ الأحمر الخالص، ثم قال: فمن يعدل إذا لم يعدل الله ورسوله؟ يستنكر قوله.
ثم قال -عليه الصلاة والسلام-: يرحم الله موسى، لقد أوذي بأكثر من هذا فصبر.
ولما رأى ابن مسعود -رضي الله عنه- من حال النبي -صلى الله عليه  وسلم-، قال -رضي الله عنه-: إذا سمعتُ قولا من أولئك القوم، من الأقوال المنكرة، فلن أخبر بها النبي -صلى الله عليه وسلم- بذلك؛ لما رآه من شدة غضبه -صلى الله عليه وسلم-، ما دام أنه لا يعود على النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا على الإسلام بضرر.
593;بد اللہ بن مسعود رضی اللہ بتا رہے ہیں کہ وہ غزوۂ حنین میں تھے۔ یہ غزوۂ طائف ہے، جو فتح مکہ کے بعد پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل طائف کے ساتھ جنگ کی اور ان سے آپ ﷺ کو اونٹوں، بھیڑ بکریوں اور درہم و دینار کی شکل میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ پھر آپ ﷺ نے مقام جعرانہ پر پڑاؤ کیا۔ یہ طائف کی سمت میں حرم کی حدود کے اختتام پر واقع ایک جگہ ہے۔ آپ ﷺ نے اس جگہ پڑاؤ کیا اور مال غنیمت کو اس غزوے کے شرکا کے مابین تقسییم کیا۔ آپ ﷺ نے اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے اور عیینہ بن حصن کو بھی سو اونٹ دیے اور عرب کے معزز لوگوں کو بھی مال سے نوازا۔ اس سے آپ ﷺ کی غرض انھیں اسلام کے ساتھ مانوس کرنا تھا؛ کیوں کہ اگر تحفے تحائف اور مال دینے سے ان لوگوں کا اسلام ٹھیک ہوجاتا، تو ان کے پیروکاروں خود بخود اسلام قبول کر لیتے اور اس سے اسلام کو قوت اور شان و شوکت حاصل ہوتی۔ جن کا ایمان مضبوط تھا انھیں آپ ﷺ نے مال نہ دیا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو ان کے ایمان پر اعتماد تھا۔
ایک آدمی نے جب دیکھا کہ نبی ﷺ قبائل کے سرداروں اور معززین قوم میں مال تقسیم کرتے جارہے ہیں اور کچھ لوگوں کو مال نہیں دے رہے، تو وہ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اس تقسیم میں عدل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سے مقصود اللہ کی رضا جوئی ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا، تو وہ جلدی سے نبی ﷺ کے پاس آئے اور آنے سے پہلے قسم کھائی کہ وہ ضرور آپ ﷺ کو اس کے بارے بتائیں گے۔ جب انھوں نے نبی ﷺ کو اس کی خبر دی، تو آپ ﷺ سخت غصے میں آگئے اور آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ تبدیل ہو کر خالص سرخ ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے، تو پھر عدل کون کرے گا؟ یعنی آپ ﷺ نے اس کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں اس سے زیادہ تکلیف پہنچائی گئی، لیکن انھوں نے صبر کیا۔
ابن مسعود رضی اللہ نے جب رسول اللہ ﷺ کی یہ حالت دیکھی، تو دل ہی دل میں تہیہ کر لیا کہ اگر میں ان لوگوں سے کوئی ایسی ناگوار بات سنوں گا، تو نبی ﷺ کو ہر گز نہ بتاؤں گا؛ کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ آپ ﷺ کو اس پر بہت غصہ آیا ہے۔ بشرطے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو، جس کی وجہ سے نبی ﷺ یا اسلام کو کوئی نقصان پہنچتا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3743

 
 
Hadith   521   الحديث
الأهمية: قُمْتُ على باب الجنَّة، فإذا عامَّة من دخلها المساكين، وأصحاب الجَدِّ مَحْبُوسُونَ


Tema:

میں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو اس میں اکثر داخل ہونے والے مساکین تھے اور مال وعظمت والوں کو روک دیا گیا۔

عن أسامة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «قُمْتُ على باب الجنَّة، فإذا عامَّة من دخلها المساكين، وأصحاب الجَدِّ مَحْبُوسُونَ، غير أن أصحابَ النَّار قد أُمِرَ بهم إلى النَّار، وقُمْتُ على باب النَّار فإذا عَامَّة من دخلها النساء».

اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں اکثر داخل ہونے والے مساکین تھے اور مال وعظمت والوں کو روک دیا گیا البتہ دوزخ والوں کے لیے دوزخ میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الفقراء والمساكين يدخلون الجنة قبل الأغنياء؛ وذلك لأنهم فقراء لا مال لهم يحاسبون عليه، وإكرامًا من الله تعالى لهم، وتعويضًا لهم على ما فاتهم من نعيم الدنيا وزينتها، أما أصحاب الحظ الفاني من أرباب الأموال والمناصب فهم محبوسون في عرصات القيامة لطول حسابهم في المتاعب بسبب كثرة أموالهم، وتوسيع جاههم، وتلذذهم بهما في الدنيا، وتمتعهم على وفق شهوات النفس والهوى، فإن حلال الدنيا حساب وحرامها عقاب، والفقراء من هذا براء، وأكثر من يدخل النار النساء؛ لأنهن يكثرن الشكاية وينكرن جميل الأزواج.
601;قراء اور مساکین جنت میں مالداروں سے پہلے داخل ہوں گے کیونکہ وہ فقیر تھے اور ان کے پاس کوئی ایسا مال نہ تھا جس کا حساب ہونا ہو چنانچہ اللہ کی طرف سے بطور اعزاز اور دنیا کی جن نعمتوں اور زیب و زینت سے وہ محروم رہے اس کے بدلے میں (انہیں جنت میں پہلے داخل کردیا جائے گا)۔ ان کے مقابلے میں اصحاب مال وجاہ جنہیں دنیائے فانی سے حصہ ملا ہوگا انہیں میدان محشر میں روک لیا جائے گا اورکثرتِ مال، کشادگی جاہ، ان سے لذت اندوز ہونے اور ہوائے نفس اور اس کی شہوات کی پیروی کے سبب ان کا حساب لمبا ہوگا اور وہ سخت مشکل میں ہوں گے۔ دنیا میں جو شے حلال ہے اس کا حساب ہونا ہے اور جو شے حرام ہے اس پر عذاب ہونا ہے اور فقیر لوگ ان دونوں سے بری ہوتے ہیں۔ جہنم میں داخل ہونے والوں میں اکثریت عورتوں کی ہوگی کیونکہ یہ بہت زیادہ شکوے شکایت کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کے حسنِ سلوک کی ناشکری کرتی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3745

 
 
Hadith   522   الحديث
الأهمية: ما أكل أحدٌ طعامًا قط خيرًا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود -صلى الله عليه وسلم- كان يأكل من عمل يده


Tema:

کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر کمائی کبھی نہیں کھائی۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «كان داود -عليه السلام- لا يأكلُ إلا من عمل يده».


 وعن المقدام بن معد يكرب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود -صلى الله عليه وسلم- كان يأكل من عمل يده».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”داؤد علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے“۔
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ بہتر کمائی کبھی نہیں کھائی۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن داود عليه السلام كان لا يأكل إلا من عمل يده وكان عليه السلام حِرَفِيًّا يُجيد صناعة الدُّرُوعِ وغيرها من ألآت الجهاد؛ فإذا كان أنبياء الله صلوات الله وسلامه عليهم: يأكلون من عمل أيديهم، من صناعة أو زراعة أو رعي للأغنام أو غير ذلك من الأعمال، فمن دونهم من باب أولى أن يعملوا في تلك الأعمال؛ ليَكُفُّوا بها وجوههم عن سؤال الناس.
606;بی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ داود علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام ایک کاریگر تھے اور بہت اچھی طرح زرہیں اور دیگر آلات جہاد بنانے کا فن جانتے تھے۔ جب انبیا علیہم السلام کاریگری، کھیتی باڑی اور مویشیوں کو چرانے جیسے کام کر کے اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے، تو ان سے کم تر لوگوں کو تو بدرجۂ اولی چاہیے کہ وہ یہ کام کریں؛ تاکہ ان کی بدولت لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3752

 
 
Hadith   523   الحديث
الأهمية: كان رجل يُدَايِنُ الناس، وكان يقول لفَتَاه: إذا أَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عنه، لعَلَّ الله أن يَتَجَاوَزَ عنَّا، فَلَقِيَ الله فتَجَاوز عنه


Tema:

ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے کارندے کو (جب اس کی وصولی کے لئے بھیجتا تو) تو اس سے کہتا: اگر تم کسی تنگ دست کے پاس آو تو اس سے درگزر کرنا ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ بھی ہم سے درگزر کرے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «كان رجل يُدَايِنُ الناس، وكان يقول لفَتَاه: إذا أَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عنه، لعَلَّ الله أن يَتَجَاوَزَ عنَّا، فَلَقِيَ الله فتَجَاوز عنه».

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے کارندے کو (جب اس کی وصولی کے لئے بھیجتا تو) تو اس سے کہتا: اگر تم کسی تنگ دست کے پاس آو تو اس سے درگزر کرنا ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ بھی ہم سے درگزر کرے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: "كان رجُلٌ يُدَايِنُ النَّاس" أي: يتعامل معهم بالقَرض، أو يَبِيعَهم بالآجل، وكان يقول لغلامه الذي يتقاضى الديون التي عند الناس: إذا أتيت مدِيْنَا ولم يكن عنده ما يقضي به الدَّين الذي عليه لعجزه.
"فَتَجَاوَزْ عنه" إما بإمهاله وعدم الإلحاح في المطالبة، أو بقبول ما عنده ولو مع ما فيه من نقص يسير.
"لعَلَّ الله أن يَتَجَاوَزَ عنَّا" أي يعفو عنَّا لتجاوزنا عن عباده والتيسير عليها ورفع الحرج عنهم.
وهذا لعلمه؛ بأن الله تعالى يكافئ العباد على إحسانهم إلى عباده بما يوافق فعلهم. ولعلمه أن الله تعالى لا يُضِيع أجر من أحسن عملًا.
"فَلَقِيَ الله فتَجَاوز عنه" مكافأة له على رحمته بالناس، ورفقه بهم، وتيسيره عليهم، مع أنه لم يعمل خيرا قط كما هي رواية النسائي وابن حبان: "إن رجلا لم يعمل خيرا قط، وكان يُداين الناس، فيقول لرسوله: خذ ما تيسر، واترك ما عسر وتجاوز، لعل الله تعالى أن يتجاوز عنا"
فلما أحسن الظن بالله -تعالى- وأحسن إلى عباد الله -تعالى-، تجاوز الله عن سيئاته والجزاء من جنس العمل.
581;دیث کا مفہوم: ”كان رجُلٌ يُدَايِنُ النَّاس“ یعنی ایک شخص لوگوں سے قرض کا لین دین کیا کرتا تھا یا پھر انہیں ادھار پر اشیاء فروخت کرتا تھا۔ وہ اپنے پاس موجود لڑکے کو جو لوگوں کے ذمہ واجب الاداء قرض وصول کرتا تھا اسے کہتا: اگر تو کسی قرض دار کے پاس آئے اور اسے کے پاس اپنے ذمہ واجب الاداء قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ نہ ہو اور وہ اس سے قاصر ہو تو اس سے درگزر کرنا، یا تو اسے مزید مہلت دے کر یا مطالبے میں اس سے اصرار نہ کر کے یا پھر جو کچھ اس کے پاس ہے اسے قبول کر کے اگرچہ وہ کچھ کم ہی کیوں نہ ہو۔ ”ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ بھی ہم سے درگزر کرے“ یعنی اس کے بندوں سے درگزر کرنے کی وجہ سے اور ان کے لئے آسانی پیدا کرنے اور ان سے تنگی دور کرنے کی وجہ سے اللہ بھی ہمیں معاف فرما دے۔ وہ شخص ایسا اس لئے کہتا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اللہ بندوں کو اپنے بندوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے پر بدلہ دیتا ہے جو ان کے فعل کے موافق ہوتا ہے اور اسے بخوبی علم تھا کہ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اور واقعتا جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہوا تو لوگوں کے ساتھ رحمدلانہ اور نرمی پر مبنی معاملہ کرنےاور ان کے لئے آسانی پیدا کرنے کی بدولت اللہ نے اس سے درگزر فرمادیا باوجود اس کے کہ اس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی جیسا کہ سنن نسائی اور صحیح ابن حبان کی روایت میں ہے کہ: ”ایک شخص تھا جس نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا تھا، وہ لوگوں کو قرض پر اشیاء دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے ہرکارے کو کہتا: جو کشاد ہ دست ہو اس سے لے لینا اور جو تنگ دست ہو اسے چھوڑ دینا اور اس سے درگزر کرنا، ہو سکتا ہے کہ اللہ ہم سے بھی درگزر فرمائے“۔
چونکہ اس شخص نے اللہ سے اچھا گمان رکھا اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس لئے اللہ نے بھی اس کی برائیوں سے درگزر فرمایا اور قاعدہ بھی یہی ہے کہ جزاء عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3753

 
 
Hadith   524   الحديث
الأهمية: كان زكريا -عليه السلام- نجَّارا


Tema:

زکریا علیہ السلام بڑھئی تھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «كان زكريا -عليه السلام- نجَّارا».

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "”زکریا علیہ السلام بڑھئی تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن المهنة التي كان زكريا -عليه السلام- يتكسب منها: هي مهنة النجارة.
575;س حدیث میں رسول اللہ ﷺ یہ بتا رہے ہیں کہ زکریا علیہ السلام جس پیشے کے ذریعے سے روزی کمایا کرتے تھے، وہ بڑھئی (کارپینٹری) تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3754

 
 
Hadith   525   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَجْتَهِدُ في رمضان ما لا يَجْتَهِدُ في غيره، وفي العَشْر الأوَاخِر منه ما لا يَجْتَهِدُ في غيره


Tema:

رسول اللہ ﷺ رمضان میں (عبادت میں) جتنی جد وجہد کرتے اتنی کسی اور مہینے میں نہیں کرتے تھے اور اس کے آخری عشرہ میں جتنی محنت اور کوشش کرتے اتنی اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-  قالت: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَجْتَهِدُ في رمضان ما لا يَجْتَهِدُ في غيره، وفي العَشْرِ الأوَاخِرِ منه ما لا يَجْتَهِدُ في غيره.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں:کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں (عبادت میں) جتنی جد وجہد کرتے تھے اتنی کسی اور مہینے میں نہیں کرتے تھے اور اس کے آخری عشرہ میں جتنی محنت اور کوشش کرتے تھے اتنی اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- في هذا الحديث، عن عبادته -صلى الله عليه وسلم- في شهر رمضان، وهو: أنه كان يَجْتَهد فيه ما لا يَجْتَهد في غيره من الشهور؛ لأنه شهر مُبارك، فَضَّله الله على سائر الشهور، فإذا دَخلت العَشْر الأواخر اجتهد فيها أكثر مما كان عليه في أول الشهر؛ لأن فيها ليلة القدر التي هي خَيْرٌ من ألف شهر، ولأنها ختام الشهر المبارك فيختمها بصالح الأعمال.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث میں نبی ﷺ کی ماہ رمضان میں عبادت کی کیفیت کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ آپ ﷺ رمضان میں عبادت میں جتنی جد وجہد کرتے تھے اتنی کسی اور مہینے میں نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ بہت با برکت مہینہ ہے جسے اللہ نے باقی تمام مہینوں پر فضیلت دی ہے۔ اور جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو اس میں مہینے کے اولین دنوں سے بھی زیادہ محنت اور کوشش کرتے تھے۔ کیونکہ اس عشرے میں شب قدر ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اس لئے بھی کہ یہ مبارک مہینے کا اختتام ہے چنانچہ آپ ﷺ اس کا خاتمہ نیک اعمال کے ساتھ کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3755

 
 
Hadith   526   الحديث
الأهمية: كل أُمتي مُعَافَى إلا المُجاهرين


Tema:

میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «كل أُمتي مُعَافًى إلا المُجاهرين، وإنَّ من المُجَاهرة أن يعملَ الرجلُ بالليل عملًا، ثم يُصْبِح وقد سَتره الله عليه، فيقول: يا فلان، عَمِلت البَارحة كذا وكذا، وقد بَات يَسْتُره ربه، ويُصبح يَكشف سِتْرَ الله عنه».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے۔ اور اعلانیہ گناہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی شخص رات کو کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کی صبح اس حال میں ہو کہ الله نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا ہو اور وہ (کسی سے) کہے کہ اے فلاں میں نے کل رات یہ یہ کام کیا۔ جب کہ اس کی رات اس حال میں گزری تھی کہ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا لیکن صبح ہوتے ہی وہ خود اپنے بارے میں اللہ کے پردے کو کھولنے لگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كل المسلمين قد عافاهم الله إلا من فضح نفسه بأن يعمل المعصية بالليل فيستره الله -عز وجل-، فيصبح ويخبر بها الناس، فالله يستره وهو يفضح نفسه.
578;مام مسلمانوں کو اللہ معاف فرما دے گا سواۓ اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو رسوا کردے (یعنی اپنے گناہ کو لوگوں پر ظاہر کر دے)۔ وہ رات کو گناہ کا ارتکاب کرے اور صبح لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرے۔ پس اللہ تو اس پر پردہ رکھتا (چھپاتا) ہے جب کہ اس کا حال یہ ہے کہ خود کو رسوا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3756

 
 
Hadith   527   الحديث
الأهمية: كنا نَرَفَعُ للنبي -صلى الله عليه وسلم- نَصِيبَهُ من اللَّبَنِ ، فَيَجِيءُ من الليل، فَيُسَلِّمُ تسليما لا يُوقِظُ نائما، ويسمع اليَقَظَانَ


Tema:

ہم نبی ﷺ كے لیے آپ کے حصے كا دودھ اٹھاکر رکھ دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ رات کو تشریف لاتے اور اس طرح سلام کرتے کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور بیدار کو سنا دیتے۔

عن المِقْدَادُ -رضي الله عنه- في حديثه الطويل: كنا نَرَفَعُ للنبي -صلى الله عليه وسلم- نَصِيبَهُ من اللَّبَنِ ، فَيَجِيءُ من الليل، فَيُسَلِّمُ تسليما لا يُوقِظُ نائما، ويُسْمِعُ اليَقْظَانَ، فجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- فَسَلَّمَ كما كان يُسَلِّمُ.

ہم نبی ﷺ كے لیے آپ کے حصے كا دودھ اٹھاکر رکھ دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ رات کو تشریف لاتے اور اس انداز میں سلام کرتے کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور بیدار کو سنا دیتے۔ چنانچہ نبی ﷺ تشریف لائے اور اسی انداز میں سلام کیا جس طرح آپ کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان المقداد ومن معه -رضي الله عنهم- بعد أن يحلبوا الشاة ويشربوا نصيبهم من اللَّبن يرفعون نصيبه -صلى الله عليه وسلم-، حتى يأتي ليشربه، فكان -صلى الله عليه وسلم- إذا جاءهم من الليل وهم نيام سلَّم عليهم تسليمًا بصوت متوسط بين أقل الجهر وما فوقه، بحيث لا يوقظ نائما، وفي نفس الوقت يسمع اليقظان منهم.
605;قداد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم جب بکری کا دودھ نکال کر اپنے حصے کا دودھ پی چکتے تو رسول اللہ ﷺ کا حصہ آپ کے لیے اٹھاکر رکھ دیتے یہاں تک کہ آپ ﷺ اسے پینے کے لئے تشریف لاتے۔ رسول اللہ ﷺ جب رات کو ان کے پاس آتے اور وہ سوئے ہوئے ہوتے تو آپ ﷺ ڈرمیانی آواز میں جو کم سے کم بلند اور اس سے کچھ زیادہ اونچی آواز میں ان کو سلام کرتے، اس طرح کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے، لیکن ساتھ ہی ان میں سے بیدار کو سنا دیتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3757

 
 
Hadith   528   الحديث
الأهمية: كُنَّا نُعِدُّ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ الله ما شاء أن يَبْعَثَهُ من الليل، فَيَتَسَوَّكُ، ويتوضَّأ ويُصلي


Tema:

ہم رسول اللہ ﷺ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے۔ رات کو جب اللہ تعالی چاہتا، آپ ﷺ کو بیدار کر دیتا اور آپ ﷺ مسواک اور وضو کرکے نماز پڑھتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: كُنَّا نُعِدُّ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ الله ما شاء أن يَبْعَثَهُ من الليل، فَيَتَسَوَّكُ، ويتوضَّأ ويُصلي.

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے۔ رات کو اللہ تعالی جب چاہتا، آپ ﷺ کو بیدار کر دیتا اور آپ ﷺ مسواک اور وضو کرکے نماز پڑھتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- أنها كانت تُهَيِّئ للنبي -صلى الله عليه وسلم- سِواكه والماء الذي يتوضأ به من الليل، ثم يوقظه الله -تبارك وتعالى- من نومه في أي وقت من الليل، فإذا استيقظ شَرَع في دَلْك أسنانه بالسواك؛ ليُزيل به رائحة الفم التي تحدث عادة بسبب النوم، ثم يتوضأ وضوءه للصلاة، ثم يصلي صلاة الليل.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی مسواک اور پانی تیار کر کے رکھ دیتیں، جس سے آپ ﷺ رات کو وضو فرماتے تھے۔ پھر رات کو اللہ تبارک وتعالی آپ ﷺ کو نیند سے جب چاہتا، بیدار کرتا۔ آپ ﷺ جب اٹھتے تو منہ کی اس بو کو دور کرنے کے لیے دانتوں پر مسواک کرتے، جو عموما نیند کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نماز کے لیے وضو فرماتے اور نماز تہجد ادا کرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3758

 
 
Hadith   529   الحديث
الأهمية: أَيَعْجِزُ أحَدُكم أن يَكْسِبَ في كل يوم ألف حسنة؟! فسأله سائل من جُلَسَائِه: كيف يَكْسِبُ ألف حَسَنَة؟ قال: يُسبح مائة تسبيحة؛ فيُكْتَبُ له ألف حسنة، أو يُحَطُّ عنه ألف خَطِيئة


Tema:

کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ہر دن ایک ہزار نیکیاں کما لے؟۔ آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص نے پوچھا: آدمی ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہے، اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا اس کے ایک ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

عن سعد بن أبي وقَّاص -رضي الله عنه- قال: كنا عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أَيَعْجِزُ أحَدُكم أن يَكْسِبَ في كل يوم ألف حسنة؟!» فسأله سائل من جُلَسَائِه: كيف يَكْسِبُ ألف حَسَنَة؟ قال: «يُسبح مائة تسبيحة؛ فيُكْتَبُ له ألفُ حسنة، أو يُحَطُّ عنه ألف خَطِيئة».

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے حضور بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ہر دن ایک ہزار نیکیاں کما لے؟۔ آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص نے پوچھا: آدمی ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہے، اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا اس کے ایک ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يسأل النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه: ألا يستطيع أحدكم أن يحصل في كل يوم على ألف حسنة؟! فسأله سائل من جُلَسَائِه: كيف يتحصل المرء على ألف حسنة بسهولة؟.
قال: يقول سبحان الله مائة مرة؛ فيُكتب له ألف حسنة؛ لأن الحسنة الواحدة بعشر أمثالها، وتُمْحَى عنه ألف سيئة من سيئاته.
606;بی ﷺ اپنے صحابہ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ ہر دن ایک ہزار نیکیاں حاصل کر لے؟۔
آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے کسی نے پوچھا کہ آدمی آسانی کے ساتھ ایک ہزار نیکیاں کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ایک سو دفعہ سبحان اللہ پڑھ لے، اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں؛ کیوںکہ ایک نیکی پر اس طرح کی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور اس کے بدلے میں اس کے گناہوں میں سے ایک ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3762

 
 
Hadith   530   الحديث
الأهمية: أَظُنُّكُمْ سَمِعتم أن أبا عبيدة قدم بشيءٍ من البحرين


Tema:

میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں۔

عن عمرو بن عوف الأنصاري -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث أبا عبيدة بن الجراح -رضي الله عنه- إلى البحرين يأتي بِجِزْيَتِهَا، فَقدِم بمالٍ من البحرين، فسمعت الأنصار بقدوم أبي عبيدة، فَوَافَوْا صلاة الفجر مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلما صلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- انصرف، فَتَعَرَّضُوا له، فتَبسَّم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين رآهم، ثم قال: «أَظُنُّكُمْ سَمِعتم أن أبا عبيدة قَدِم بشيءٍ من البحرين؟» فقالوا: أجل، يا رسول الله، فقال: «أبشروا وأمِّلوا ما يَسُرُّكُم، فوالله ما الفَقرَ أخشى عليكم، ولكني أخَشى أن تُبْسَط الدنيا عليكم كما بُسِطَت على من كان قبلكم، فتَنَافسوها كما تَنَافسوها، فَتُهْلِكَكُم كما أهْلَكَتْهُمْ».

عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی آمد کے متعلق سن لیا۔چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا چکے تو لوگ رسول الله ﷺ کے سامنے آئے ۔ رسول الله ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا ، تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کے لیے تم پرامید رہو۔ جس سے تمہیں خوشی ملنے والی ہے، لیکن اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دیے گئے تھے ، پس تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سےمقابلہ بازی شروع کردو اور یہ مقابلہ بازی تمہیں بھی اسی طرح تباہ کر دے گی جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بعث النبي صلى الله عليه وسلم أبا عبيدة رضي الله عنه إلى البحرين ليأخذ منهم الجزية، فلما قدم أبو عبيدة رضي الله عنه المدينة، وسمع الأنصار بذلك، جاءوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاجتمعوا عنده صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر، فلما انصرف من الصلاة تعرضوا له فتبسم عليه الصلاة والسلام؛ لأنهم جاءوا متشوفين للمال.
فقال لهم: لعلكم سمعتم بقدوم أبي عبيدة من البحرين؟ قالوا: أجل يا رسول الله. سمعنا بذلك يعني وجئنا لننال نصيبنا.
فبشرهم النبي صلى الله عليه وسلم بما يسرهم.
وأخبرهم عليه الصلاة والسلام أنه لا يخاف عليهم من الفقر؛ لأن الفقير في الغالب أقرب إلى الحق من الغني، ولكنه يخشى أن تفتح عليهم الدنيا؛ فيقعون في التنافس فيها، ولا يكفي المرء حينئذ ما يأتيه، بل يريد أكثر وأكثر، بأي طريق يحصل منه على المال، لا يبالي بحلال ولا حرام، ولا شك أن هذا من التنافس المذموم المؤدي إلى الإقبال على الدنيا والبعد عن الآخرة، فيهلك كما هلك من كان قبلهم.
585;سول اللہﷺ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ جب وہ واپس مدینہ پہنچے اور انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے۔جب آپ ﷺ نے نماز پڑھنے کے بعد رخ پھیرا تو سب آپ کے سامنے آگئے اس پر آپ ﷺ مسکرا دیے کیونکہ وہ مال کی جستجو میں آئے تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: لگتا ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ بحرین سے واپس آ گئے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ: جی ہاں، اللہ کے رسول! ہم نے یہ سنا تھا یعنی اپنا حصہ لینے کے لئے ہم آئے ہیں۔
چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اس شے کی بشارت دی جو انہیں خوش کرنے والی تھی۔
آپ ﷺ نے انہیں یہ بتایا کہ آپ ﷺ کو ان کے بارے میں فقر کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ غریب شخص عام طور پر امیر شخص سے زیادہ حق کے قریب ہوتا ہے ۔ بلکہ اگر اندیشہ ہے تو اس بات کا کہ دنیا کے دروازے ان پر کھول دیے جائیں اور وہ اس کے حصول میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی شروع کردیں ۔ اس وقت انسان کو جو کچھ مل رہا ہوگا اسے وہ کافی نہیں سمجھے گا بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ کی حرص رکھےگا اور اسے کوئی فکر نہیں ہوگی کہ اسے مال کس طریقے سے مل رہا ہے اور نہ ہی وہ حلال و حرام کی پرواہ کرے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی مقابلہ آرائی مذموم ہے جو دنیا کی رغبت دلائے اور آخرت سے بے گانہ کردے اور اس میں پڑنے والا شخص اسی طرح ہلاکت کا شکار ہوجائے جیسے اس سے پہلے لوگ ہوئے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3768

 
 
Hadith   531   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُفْطِرُ من الشهر حتى نَظُنَّ أن لا يَصوم منه، ويَصوم حتى نَظُنَّ أن لا يُفْطِر منه شيئًا، وكان لا تَشَاءُ أن تَرَاه من الليل  مُصَلِّيًا إلا رَأيْتَهُ، ولا نَائِمًا إلا رأيْتَه


Tema:

رسول اللہ ﷺ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے، تو ہمیں یوں لگنے لگتا کہ آپ ﷺ اس مہینے میں روزہ رکھیں گے ہی نہیں اور روزہ رکھنا شروع کر دیتے، تو ہمیں محسوس ہونے لگتا کہ آپ ﷺ اس میں سے کوئی دن بھی بنا روزے کے نہیں رہیں گے۔ رات کو آپ اگر رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو دیکھ لیتے اور اگر سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو بھی دیکھ لیتے۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُفْطِرُ من الشهر حتى نظن أن لا يصوم منه، ويصوم حتى نظن أن لا يُفْطِرَ منه شيئا، وكان لا تَشَاءُ أن تراه من الليل مُصَلِيًا إلا رأيتَه، ولا نائما إلا رأيتَه.

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے، تو ہمیں یوں لگنے لگتا کہ آپ ﷺ اس مہینے میں روزہ رکھیں گے ہی نہیں اور روزہ رکھنا شروع کر دیتے تو ہمیں محسوس ہونے لگتا کہ آپ ﷺ اس میں سے کوئی دن بھی بنا روزے کے نہیں رہیں گے۔ رات کو آپ اگر رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو دیکھ لیتے اور اگر سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو بھی دیکھ لیتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: يخبر أنس -رضي الله عنه- عن حال النبي -صلى الله عليه وسلم- في صيامه وقيامه، فيخبر أنه كان يُفْطِرُ من الشهر حتى يظن المرء أنه لا يصوم منه شيئا؛ لكثرة فطره فيه، ويصوم حتى  يُظن أنه لا يُفْطِر منه شيئًا؛ لكثرة صيامه فيه، و كذلك كان عليه -الصلاة والسلام- لا يَتَقَيَد بوقت معين في صلاة القيام، بل يصلي تارة في أول الليل، وتارة في وسطه، وتارة في آخره، بحيث لا تُحب أن تراه من الليل مصليًا إلا رأيته، ولا نائمًا إلا رأيته، فكان عَمَله التَوَسط بين الإفْرَاطِ والتفريط.
581;دیث کا مفہوم: انس رضی اللہ عنہ صیام و قیام کے سلسلے میں نبی ﷺ کا حال بیان کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ آپ ﷺ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے، تو یوں لگنے لگتا کہ آپ ﷺ اس میں روزہ رکھیں گے ہی نہیں، کیوںکہ اس میں زیاد تر بنا روزہ ہی رہتے اور روزہ رکھنا شروع کر دیتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اس مہینے میں کسی روزے کو بھی نہیں چھوڑیں گے؛ کیوںکہ آپ ﷺ اس میں بہت زیادہ روزے رکھتے۔ اسی طرح آپ ﷺ رات کی نماز کسی مخصوص وقت میں نہیں پڑھتے تھے، بلکہ کبھی تو اسے رات کے شروع میں پڑھ لیتے ، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں، بایں طور کہ اگر آپ رات کو نبی ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو دیکھ لیتے اور اگر سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے، تو سوتے ہوئے بھی دیکھ لیتے۔ آپ ﷺ کا عمل افراط و تفریط کے مابین میانہ روی پر مبنی ہوتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3769

 
 
Hadith   532   الحديث
الأهمية: لا تَقُلْ عليك السلام؛ فإن عليك السلام تحيَّة المَوْتَى


Tema:

عليك السلام نہ کہو۔ عليك السلام سے تو مردوں کو سلام کیا جاتا ہے۔

عن أبي جُرَيٍّ الْهُجَيْمِيِّ -رضي الله عنه- قال: أتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقلت: عليك السلام يا رسول الله. قال: «لا تَقُلْ عليك السلام؛ فإن عليك السلام تحيَّة المَوْتَى».

ابو جرّی الہُجیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا یا رسول اللہ !عليك السلام۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عليك السلام نہ کہو۔ عليك السلام سے تو مُردوں کو سلام کیا جاتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسلم عليه بقوله: "عليك السلام يا رسول الله" فنهاه النبي صلى الله عليه وسلم أن يسلِّم بتلك الصفة، ومن كراهته لذلك لَمْ يَرُدَّ عليه السلام، وبَيَّن له أن هذه التحية: "تحية الموتى"، ثم بَيَّن له كيفية السلام المشروعة كما في الحديث الآخر، قُلْ: "السلام عليك". 
وقوله صلى الله عليه وسلم: "عليك السلام تحية الموتى" ليس معنى ذلك: أن هذه التحية تُلقى عند زيارة القبور؛ لأن الثابت عنه صلى الله عليه وسلم عند زيارة القبور أن يقول: "السلام عليكم أهل دار قوم مؤمنين.."، بل قال ذلك -عليه الصلاة والسلام- إشارة إلى ما جرت به عادة أهل الجاهلية في تحية الأموات.
605;فہوم حدیث : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان الفاظ کے ساتھ سلام کیا: ”عليك السلام يا رسول الله“۔ نبی ﷺ نے اسے اس انداز میں سلام کرنے سے منع کردیا اور اس پر ناپسندیدگی کی وجہ سے اس کا جواب بھی نہ دیا ۔ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ اس طرح سے تو مُردوں کو سلام کیا جاتاہے ۔ پھر آپ ﷺ نے اسے سلام کرنے کا شرعی طریقہ بھی بتایا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”السلام عليك“ کہو۔
آپ ﷺ کا فرمان کہ ”ایسے تو مُردوں کو سلام کیا جاتا ہے“ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ زیارت قبور کے موقع پر ان الفاظ کے ساتھ سلام کیا جاتاہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ زیارت قبور کے موقع پر آدمی کو کہنا چاہیے ”السلام عليكم أهل دار قوم مؤمنين“۔ آپ ﷺ کے ایسا فرمانے کا مقصد اس طریقے کی طرف اشارہ کرنا تھا جو مُردوں کو سلام کرنے کے لیے اہلِ جاہلیت کے مابین رائج تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3770

 
 
Hadith   533   الحديث
الأهمية: لا حَسَدَ إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا، فسَلَّطَه على هَلَكَتِهِ في الحق، ورجل آتاه الله حِكْمَةً، فهو يَقضي بها ويُعَلِّمَها


Tema:

حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اسے اس کو راہ حق میں خرچ کرنے پر لگا دیا ہو اور دوسرا یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے حکمت ( کی دولت ) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا حَسَدَ إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا، فسَلَّطَه على هَلَكَتِهِ في الحَقِّ، ورجل آتاه الله حِكْمَة، فهو يقضي بها ويُعَلِّمَها».
وعن ابن عمر -رضي الله عنهما-، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله القرآن، فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار، ورجل آتاه الله مالا، فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار».

ابن مسعود رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اسے اس کو راہ حق میں خرچ کرنے پر لگا دیا ہو اور دوسرا یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے حکمت ( کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو“۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے؛ ایک تو یہ کہ کسی آدمی کو اللہ تعالی قرآن سے نوازے اور وہ دن رات اس (کی تلاوت اور تعلیم و تدریس) میں لگا رہے اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ مال عطا کرے اور وہ دن رات اسے (وجوہ خیر میں) خرچ کرتا رہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُشير النبي -صلى الله عليه وسلم- هنا إلى أن الحَسَدَ أنواع مختلفة فمنه حسد مَذْمُوم محرم شرعًا، وهو أن يتمنى المرء زوال النعمة عن أخيه، وحسد مباح وهو أن يرى نعمة دنيوية عند غيره فيتمنى لنفسه مثلها، وحسد محمود مستحب شرعًا، وهو أن يرى نعمة دينية عند غيره فيتمناها لنفسه. وهو ما عناه النبي -صلى الله عليه وسلم- بقوله: "لا حَسَدَ إلا في اثنتين" أي أن الحسد تختلف أنواعه وأحكامه حسب اختلاف أنواعه ولا يكون محمودًا مستحبًا شرعيًا إلا في أمرين:
الأمر الأول: أن يكون هناك رجل غني تقي، أعطاه الله مالا حلالا، فينفقه في سبيل الله تعالى، فيتمنى أن يكون مثله، ويَغْبِطَه على هذه النعمة. 
الأمر الثاني: أن يكون هناك رجل عالم، أعطاه الله علما نافعا يعمل به، ويعلمه لغيره، ويحكم به بين الناس، فيتمنى أن يكون مثله.
575;س حدیث میں نبی ﷺ اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ حسد کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کوئی حسد تو وہ ہوتا ہے جو مذموم اورشرعا حرام ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ حسد ہے جس میں آدمی یہ تمنا کرتا ہے کہ اس کے بھائی سے نعمت چھن جائے۔ ایک حسد وہ ہوتا ہے جو مباح ہے۔ اس سے مراد وہ حسد ہے جس میں آدمی کسی دوسرے کے پاس کوئی دنیاوی نعمت دیکھتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ اسی طرح کی نعمت اسے بھی مل جائے۔ اسی طرح ایک حسد وہ ہوتا ہے جو شرعا قابل تعریف اور مستحب ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی اور کے پاس کوئی دینی نعمت دیکھے اور خواہش کرے کہ وہ اسے بھی مل جائے۔ نبی ﷺ کی یہاں آپ ﷺ کے فرمان ”حسد صرف دوصورتوں میں جائز ہے“ میں حسد سے مراد حسد کی یہی قسم ہے۔ یعنی یہ کہ حسد کی مختلف انواع کے اعتبار سے ان کا حکم بھی مخلتف ہوتا ہے اور یہ شرعی طور پر قابل تعریف اور مستحب صرف دو ہی صورتوں میں ہوتا ہے:
پہلی صورت: کوئی ایسا شخص ہو جو مالدار بھی ہو اور صاحب تقوی بھی۔ اسے اللہ نے بہت سا حلال مال دیا ہو اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ اسے دیکھ کر آدمی تمنا کرے کہ کاش وہ بھی اس کی طرح کا ہو اور وہ اس نعمت پر اس پر رشک کرے۔
دوسری صورت: کوئی ایسا عالم شخص ہو جسے اللہ نے علم نافع سے نوازا ہو جس پر وہ خود بھی عمل کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور اس کے ذریعے لوگوں کے مابین فیصلے کرتا ہو۔اسے دیکھ کر آدمی خواہش کرے کہ وہ بھی اس کی طرح کا ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3772

 
 
Hadith   534   الحديث
الأهمية: اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة


Tema:

اے اللہ حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إلا عَيْشَ الآخِرة».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العيشة الهنية الراضية الباقية هو عيش الآخرة، أما الدنيا فإنه مهما طاب عيشها فمآلها للفناء.
587;رور، اطمینان اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، جب کہ دنیا کتنی ہی عیش وعشرت والی زندگی کیوں نہ ہو آخرکار اس کا انجام فنا ہو جانا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3773

 
 
Hadith   535   الحديث
الأهمية: لا يَجزي ولدٌ والدًا إلا أن يَجده مملوكًا، فيَشتريه فيُعتِقه


Tema:

کوئی بھی بچہ اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتا ہاں اگر وہ اسے کسی کی غلامی میں پائے تو اسے خریدے اور آزاد کردے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لاَ يَجْزِي ولدٌ والدًا إلا أن يجده مملوكًا، فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ».

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بھی بچہ اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتا ہاں (ایک صورت ہے) اگر وہ اسے کسی کی غلامی میں پائے تو اسے خریدے اور آزاد کردے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يقوم ولد بما لأبيه عليه من حق ولا يكافئه بإحسانه به إلا أن يجده مملوكًا فيشتريه ويعتقه.
705;وئی بھی بچہ اپنے والد کا بدلہ نہیں چکا سکتا اور نہ ہی اس کے احسان کا بدلہ دے سکتا الّا یہ کہ اگر وہ اسے کسی کی غلامی میں پائے تو اسے آزاد کرا دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3775

 
 
Hadith   536   الحديث
الأهمية: إنه لَيَأتي الرجلُ السَّمين العظيم يوم القيامة لا يَزِن عند الله جَناح بَعُوضة


Tema:

قیامت کے دن بہت موٹا اور عظیم آدمی لایا جائے گا لیکن اللہ کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنه لَيَأتي الرَّجلُ السَّمين العظيم يوم القيامة لا يَزِنُ عند الله جَناح بَعُوضة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن بہت موٹا اور عظیم آدمی لایا جائے گا لیکن اللہ کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الرجل العظيم صاحب البنية الضخمة المتعاظم على خلق الله في الدنيا المتجبر المتغطرس بأفعاله وأقواله، فإنه يوم القيامة لا يزن عند الله جناح بعوضة، ولا تكون له قيمة ولا منزلة.
740;قیناً ایک بڑا آدمی، عظیم ساخت والا، دنیا میں مخلوق پر تکبر کرنے والا، گھمنڈی، اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ اِترانے والا قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا کوئی مقام مرتبہ ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3776

 
 
Hadith   537   الحديث
الأهمية: لا يستُرُ عبدٌ عبدًا في الدنيا إلا سَتره الله يوم القيامة


Tema:

جو شخص دنیا میں کسی دوسرے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا يَستُرُ عبدٌ عبدًا في الدنيا إلا سَتَره الله يوم القيامة».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں کسی دوسرے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المسلم إذا رأى من أخيه معصية وجب عليه أن يسترها عليه ولا يشيعها بين الناس، فإن ذلك من إشاعة الفاحشة، ومن فعل ذلك ابتغاء مرضات الله، فإن الله تعالى يجازيه يوم القيامة؛ بأن يستر عيوبه ولا يفضحه على رؤوس الأشهاد.
605;سلمان کو جب اپنے بھائی کے کسی گناہ کا علم ہو تو اسے چاہئے کہ اس کی ستر پوشی کرے اور لوگوں میں اس کا چرچا نہ کرے کیوں کہ یہ برائی کی اشاعت کے مترادف ہے ۔ جو شخص محض اللہ کی رضا کے لئے ایسا کرتاہے اللہ تعالی اسے روزِ قیامت اس عمل کی جزاء اس طرح سے دے گا کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا اور سب لوگوں کے سامنے اسے رسوا نہیں کرے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3777

 
 
Hadith   538   الحديث
الأهمية: لا يَلِجُ النار رجل بَكى من خشية الله حتى يَعود اللَّبنُ في الضَّرْع


Tema:

جو شخص اللہ کے خوف سے رویا ہو وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے

عن أبي هريرة ـ رضي الله عنه ـ قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يَلِجُ النارَ رجُل بَكى من خشية الله حتى يَعود اللَّبنُ في الضَّرْع، ولا يَجتمع غُبَارٌ في سبيل الله وَدُخَانُ جهنم».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے خوف سے رویا ہو وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے۔ اور (کسی آدمی پر) اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جھنم کا دھواں اکٹھا نہیں ہو سکتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه لا يدخل النار من بكى من خشية الله؛ لأن الغالب من الخشية امتثال الطاعة واجتناب المعصية؛ حتى يعود اللبن في الضرع، وهذا من باب التعليق بالمحال.
ولا يجتمع على عبد غبار في سبيل الله ودخان جهنم، فكأنهما ضدان لا يجتمعان كما أن الدنيا والآخرة نقيضان.
585;سول اللہ ﷺ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ کے ڈرسے رونے والا شخص جھنم کی آگ میں داخل نہيں ہوگا۔ كیونکہ عام طور پر خوف وڈر کی وجہ سے آدمی اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے اور گناہوں سے اجتناب کرتا ہے۔ ”یہاں تک کہ دودھ تھنوں ميں واپس چلا جائے“ یہ تعلیق بالمحال کے طور پر ہے (یعنی جس طرح دوہے ہوئے دودھ کا تھنوں میں واپس جانا محال ہے، اسی طرح اس شخص کا دوزخ میں جانا محال ہے)۔
نیز کسی آدمی پر اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جھنم کا دھواں اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ گویا کہ يہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو یکجا نہیں ہو سکتے، جس طرح کہ دنیا اور آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3778

 
 
Hadith   539   الحديث
الأهمية: لا يَمُوتَنَّ أحدُكم إلا وهو يُحسنُ الظَّن بالله -عز وجل-


Tema:

تم میں سے کسی شخص كو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ عز وجل كے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-: أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبل موته بثلاثة أيام، يقول: «لا يَمُوتَنَّ أحدُكم إلا وهو يُحسنُ الظَّنَّ بالله -عز وجل-».

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات سے تین دن قبل یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے کسی شخص كو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ عز وجل كے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الواجب على المسلم أن يعيش بين الخوف والرجاء، الخوف من غضب الله وسخطه، والرجاء لعفوه ورحمته، ولكنه عند الاحتضار يغلب جانب الرجاء ويزيد حسن ظنه بالله، ويرجو ويأمل رحمته وعفوه، حتى يكون ذلك مانعًا من القنوط من رحمة الله في تلك الساعة.
605;سلمان كو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے درمیان زندگی گذارے، اللہ کے غيظ وغضب اور اس کی ناراضگی کا خوف، اور اس كى مغفرت اور رحمت كى اميد ہو۔ البتہ مرتے وقت وه اميد کے پہلو کو غالب رکھے، اس کا اللہ پر حسنِ ظن بڑھ جائے، اور وه اس کی رحمت اور بخشش کی امید رکھے، تاكہ یہ اس گھڑی میں اللہ کی رحمت سے مایوسی كا شكار ہونے سے مانع ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3779

 
 
Hadith   540   الحديث
الأهمية: لأَن يأخذ أحدكم أُحبُلَهُ ثم يأتي الجبل، فيأتي بِحُزْمَة من حطب على ظهره فيبيعها، فَيَكُفَّ الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس، أعْطَوه أو مَنَعُوه


Tema:

تم میں سے کوئی شخص اپنی رسیاں لے کر پہاڑ پر چڑھ جائے اور وہاں سے لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور انھیں بیچ دے اور اس سے اللہ اسے مانگنے سے بچا لے، تو یہ اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، چاہے وہ اسے دیں یا نہ دیں۔

عن الزبير بن العَوَّام -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لأَن يأخذ أحدكم أُحبُلَهُ ثم يأتي الجبل، فيأتي بِحُزْمَة من حطب على ظهره فيبيعها، فَيَكُفَّ الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس، أعْطَوه أو مَنَعُوه».

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنی رسیاں لے کر پہاڑ پر چڑھ جائے اور وہاں سے لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور انھیں بیچ دے اور اس سے اللہ اسے مانگنے سے بچا لے، تو یہ اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ لوگ چاہیں تو دیں یا نہ دیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن اكتساب المرء من عمل يده خير له من أن يسأل الناس أموالهم: أعطوه أو مَنَعُوه، فالذي يأخذ حَبَلَه ويخرج إلى المراعي والمزارع، والغابات، فيجمع الحطب ويحمله على ظهره ويبيعه؛ فيحفظ بذلك على نفسه كرامتها وعزتها؛ ويقي وجهه ذلة المسألة، خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو مَنَعُوه؛ فسؤال الناس مذلة، والمؤمن عزيز غير ذليل.
570;دمی اپنے ہاتھ سے کمائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، وہ چاہیں تو دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی لے کر چراگاہوں، کھیتوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتا ہے اور لکڑیاں اکٹھی کر کے اور انھیں اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتا ہے، پھر انھیں بیچتا ہے اور اس طرح سے اپنی عزت و شرافت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے آپ کو مانگنے کی ذلت سے بچاتا ہے، تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگے، چاہے وہ اسے دیں یا نہ دیں۔ لوگوں سے مانگنا ذلت ہے جب کہ مؤمن صاحب عزت ہوتا ہے، ذلیل نہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3785

 
 
Hadith   541   الحديث
الأهمية: ألا إن الدنيا مَلعونة، مَلعونٌ ما فيها، إلا ذكر الله -تعالى- وما وَالاهُ، وعالمًا ومتعلمًا


Tema:

لوگو آگاہ رہو! دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کےذکر اور اس سے متعلق چیزوں کے، نيز دينى علوم سے بہرہ ور اور اس کا علم حاصل کرنے والے کے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «ألا إن الدنيا مَلعُونة، مَلعُونٌ ما فيها، إلا ذكرَ الله تعالى، وما وَالاهُ، وعالما ومُتَعَلِّمَا».

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگو آگاہ رہو! دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کےذکر اور اس سے متعلق چیزوں کے، نيز دينى علوم سے بہرہ ور اور اس کا علم حاصل کرنے والے کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الدنيا وما فيها من زينة مبغوضة مذمومة إلى الله تعالى؛ لأنها مبعدة الخلق عما خلقوا له من عبادة الله تعالى والقيام بشرعه، إلا ذكر الله تعالى وما والاه من العبادات، وكذا تعليم العلم وتعلمه، مستثنى مما يبغضه الله؛ لأن هذا هو المقصود من إيجاد الخلق.
583;نیا اور اس میں موجود سامانِ آرائش و زیبائش اللہ کے ہاں ناپسندیدہ اور مذموم ہیں؛ کیونکہ یہ لوگوں کو ان کے مقصدِ تخلیق یعنی اللہ کی عبادت اور اس کی شریعت کے قيام سے بیگانہ کرديتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ كا ذكر اور اس سے تعلق ركهنے والى عبادتيں، اسى طرح علم دين كا سیکھنا اور اسے سکھانا ان چیزوں سے مستثنی ہیں جو اللہ کو ناپسند ہیں؛ کیونکہ تخلیق انسان سے یہی مقصود ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3788

 
 
Hadith   542   الحديث
الأهمية: لَقِيْتُ إبراهيم ليلة أُسْرِيَ بي، فقال: يا محمد أقْرِىء أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلام، وأَخْبِرْهُم أن الجنَّة طَيِّبَةُ التُّربَة، عَذْبَةُ الماء، وأنها قِيعَانٌ وأن غِراسَها: سُبْحَان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر


Tema:

جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس کی باغبانی ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ سے ہوتی ہے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَقِيْتُ إبراهيم ليلة أُسْرِيَ بي، فقال: يا محمد أقْرِىء أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلام، وأَخْبِرْهُم أن الجنَّة طَيّبَةُ التُّربَة، عَذْبَةُ الماء، وأنها قِيعَانٌ وأن غِراسَها: سُبْحَان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، وہ چٹیل میدان ہے اور اس کی باغبانی ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ سے ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه لقِي إبراهيم عليه السلام ليلة الإسراء والمعراج، وأنه أخبره، أن يُبَلِّغ ويُوِصَل السلام لأمته -صلى الله عليه وسلم-، وأن يُخبرهم بأن الجنَّة طَيَّبَةُ التُّربَة، أي  التراب، وجاء في أحاديث أخرى أن تربتها الزعفران، كما في رواية الترمذي عندما سأل الصحابة -رضي الله عنهم- النبي -صلى الله عليه و سلم- عن الجنة فقال : "...وترتبها الزعفران" وعند أحمد: "وتربتها الوَرْس والزعفران".
"عَذْبَةُ الماء" أي أن ماءها عذب حلو الطعم، كما قال -تعالى-: (أنهار من ماء غير آسن) [محمد: 15] أي: غير متغير بملوحة ولا غيرها.
فإذا كانت الجنة طيبة التُّربَة عَذْبة الماء، كان الغراس أطيب لا سيما، والغرس يحصل بالكلمات الطيبات، وهن الباقيات الصالحات.
"وأنها قِيعَانٌ" جمع قاع، وهو المكان الواسع المستوي من الأرض.
"وأن غِراسَها" أي أن ما يُغرس في تلك القيعان.
"سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر" والمعنى: أن غِراسَها الكلمات الطيبات: التسبيح، والتحميد، والتهليل، فكل من سَبَّح الله أو حمده أو هلَّلَه غُرست له نخلة في الجنة.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اسراء اور معراج کی رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی، انہوں نے فرمایا کہ اپنی امت کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ جنت کی مٹی پاک ہے، دوسری احادیث میں آتا ہے کہ اس کی مٹی ’زعفران‘ ہے، جیسا کہ ترمذی کی روایت میں ہے کہ صحابہ نے آپ ﷺ سے جنت کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی مٹی زعفران ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ جنت کی مٹی ورس (ایک پیلا، خوشبودار پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے۔) اور زعفران ہے۔
”عَذْبَةُ الماء“ یعنی اس کا پانی خوش ذائقہ اور شیریں ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ﴾ ”اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے واﻻ نہیں“ [محمد: 15] یعنی اس کا پانی تبدیل ہو کر کھارا وغیرہ نہیں ہوگا۔
جب جنت کی مٹی پاک اور اس کا پانی شیریں ہے، تو لامحالہ اس کے درخت بھی پاک ہوں گے اور وہ درخت پاک کلمات سے حاصل ہوں گے اور وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔
”وأنها قِيعَانٌ“ قِيعَانٌ جمع ہے ’’قاع‘‘ کی، جس کا معنی ہے ہموار زمین وسیع علاقہ۔
”وأن غِراسَها“ یعنی اس چٹیل میدان میں جو بویا جائے وہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت پاکیزہ کلمات یعنی تسبیح، حمد اور لا إله إلا الله کا ورد ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اللہ کی تسبیح، تعریف یا تہلیل بیان کرتا ہے، اس کے لیے اس کے عوض جنت میں ایک درخت لگے گا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3791

 
 
Hadith   543   الحديث
الأهمية: لِلْعَبْدِ المَمْلُوكِ المُصْلِحِ أجْرَان


Tema:

نیکوکار مملوک غلام کے لیے دوہرا اجر ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «للعبد المملوك المصلح أجران»، والذي نفس أبي هريرة بيده لولا الجهاد في سبيل الله والحج، وبِرُّ أمي، لأحببت أن أموت وأنا مملوك.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”نیکوکار مملوک غلام کے لیے دوہرا اجر ہے“۔ (ابو ہریرہ فرماتے ہیں) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے، اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور اپنی ماں کی خدمت میرے سامنے نہ ہوتی تو مجھے یہ پسند ہوتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أي إذا أصلح العبد حاله مع سيده؛ بأن قام بما وجب عليه من طاعته فيما يأمره به بالمعروف وقام بحق الله تعالى من أداء الواجبات واجتناب المنهيات، فإن له الأجر مرتين يوم القيامة.
الأول: أجر قيامه بحق سيده فيما وجب عليه.
الثاني: أجر القيام بحق الله تعالى فيما افترضه الله عليه.
و أبو هريرة -رضي الله عنه- بعد رواية الحديث: أقسم بالله أنه لولا الجهاد في سبيل الله والحج وبرُّ أمه، لتمنى أن يكون عبداً مملوكًا.
إلا أن الذي يمنعه من ذلك: الجهاد في سبيل الله؛ لأن العبد ليس له الخروج للجهاد، إلا بإذن سيده وقد يمنعه لحاجته أو خوف هلاكه.
ولولا الحج لتمنى أن يكون عبداً مملوكاً؛ لأن العبد ليس له الخروج للحج إلا بإذن سيده، فقد يمنعه من الحج لحاجته إليه.
ومما يمنعه من تمني العبودية، بِرُّ أمه وطاعتها؛ فإن طاعة السيد مقدمة على طاعة والدته وحقه أوكد من حقها؛ لأن كلَّ منافعه مملوكة لسيده، فله التصرف المطلق، وهذا مما قد يمنعه من القيام على أمه وبرها وطاعتها.
581;دیث کا مفہوم: جب غلام کا اپنے مالک کے ساتھ سلوک اچھا ہوتا ہے یعنی وہ اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرتا ہے بایں طور کہ وہ جس اچھے کام کا حکم کرتا ہے اسے وہ بجا لاتا ہے اور فرائض کو ادا کر کے اور ممنوعہ اشیاء سے اجتناب کرتے ہوئے وہ اللہ کے حق کو بھی ادا کرتا ہے تو قیامت کے دن ایسے غلام کو دوہرا اجر ملے گا۔
اول: ایک وہ اجر جو اسے اپنے آقا کے حقوق کو ادا کرنے کی وجہ سے ملے گا۔
دوم: دوسرا وہ اجر جو اسے ان حقوق کے ادا کرنے کی وجہ سے ملے گا جو اللہ تعالی نے اس پر واجب کیے ہیں۔
حدیث روایت کرنے کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور ان کی ماں کی خدمت کرنے کے مسائل نہ ہوتے تو ان کی تمنا تھی کہ ان کی وفات کسی کے مملوک غلام کی حیثیت سے ہوتی۔
تاہم اس بات میں جو چیزیں ان کے لیے رکاوٹ ہیں ان میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ ہے کیونکہ غلام جہاد کے لیے نہیں جا سکتا ماسوا اس کے کہ اس کا آقا اسے اجازت دے دے۔ بہرحال وہ اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے یہ اس اندیشے کے تحت روک سکتا ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہوجائے۔
اگر حج نہ ہوتا تو ان کی خواہش ہوتی کہ وہ مملوک غلام کی حیثیت سے وفات پائیں کیونکہ غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر حج پر نہیں جا سکتا اور وہ اپنی ضرورت کی وجہ سے اسے حج پر جانے سے روک سکتا ہے۔
اسی طرح غلامی کی خواہش کرنے میں ایک اور چیز جو آڑے آتی تھی وہ ماں کی خدمت گزاری اور اس کی اطاعت تھی۔ آقا کی اطاعت ماں کی اطاعت سے مقدم اور زیادہ ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس کے تمام منافع اس کے آقا کی ملکیت ہوتے ہیں اور اسے اس پر تصرف مطلق حاصل ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو ماں کی خدمت گزاری اور اس کی اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3792

 
 
Hadith   544   الحديث
الأهمية: لم يبقَ من النُّبوَّةِ إلا المُبَشِّرَاتُ


Tema:

نبوت کے آثار میں سے کچھ باقی نہیں رہا ہے سوائے مبشرات کے۔

عن أبي هريرة ـ رضي الله عنه ـ قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «لم يبقَ من النُّبُوَّةِ إلا المُبَشِّرَاتُ» قالوا: وما المُبَشِّرَاتُ ؟ قال: «الرؤيا الصالحة».

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: نبوت کے آثار میں سے کچھ باقی نہیں رہا ہے سوائے مبشرات کے۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے خواب۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشير النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى أن الرؤيا الصالحة هي المبشرات، وهي من آثار النبوة الباقية بعد انقطاع الوحي، ولا يبقى ما يعلم منه ما سيكون إلا الرؤيا الصالحة.
606;بی ﷺ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ نیک اور اچھے خواب خوش خبریوں میں سے ہیں اور یہ سلسلہ وحی کے منقطع ہو جانے کے بعد آثار نبوت میں سے ہے اور کوئی ایسا ذریعہ باقی نہ رہے گا جس سے آئندہ پیش آنے والی باتوں کی خبر ہو سکے ماسوا اچھے خوابوں کے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3795

 
 
Hadith   545   الحديث
الأهمية: لو كان لي مِثْلُ أحدٍ ذهبًا، لسرني أن لا تمر عليَّ ثلاث ليالٍ وعندي منه شيءٌ إلا شيء أرْصُدُهُ لِدَيْنٍ


Tema:

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو میں یہ چاہوں گا کہ میرے اوپر تین راتیں اس حال میں نہ گزریں کہ میرے پاس اس (سونے) میں سے کوئی شے بچی پڑی ہو۔ سوا اس کے، جسے میں کسی قرض دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لو كان لي مِثْلُ أحدٍ ذهبًا، لسرني أن لا تمر عليَّ ثلاث ليالٍ وعندي منه شيءٌ إلا شيء أرْصُدُهُ لِدَيْنٍ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو میں یہ چاہوں گا کہ میرے اوپر تین راتیں اس حال میں نہ گزریں کہ میرے پاس اس (سونے) میں سے کوئی شے بچی پڑی ہو۔ سوا اس کے، جسے میں کسی قرض دینے کے لیے رکھ چھوڑوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لو كنت أملك من المال مقدار جبل أحد من الذهب الخالص لأنفقته كله في سبيل الله، ولم أبق منه إلا الشيء الذي أحتاج إليه في قضاء الحقوق، وتسديد الديون التي عليّ.
575;گر میرے پاس احد پہاڑ کی مقدار کے برابر بھی خالص سونے کی شکل میں مال ہوتا ہے تو میں اس سارے کے سارے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتا اور کچھ نہ بچاتا ماسوا اس کے، جسے میں حقوق اور اپنے اوپر واجب الاداء قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ چھوڑتا۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3850

 
 
Hadith   546   الحديث
الأهمية: بيان حقيقة الغنى والحث على الرضا بما قسم الله تعالى


Tema:

حقیقی بے نیازی کا بیان، اور اللہ تعالی نے جو کچھ دے رکھا ہے اس پر راضی رہنے کی ترغیب

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ليس الغِنَى عن كَثرَة العَرَض، ولكن الغِنَى غنى النفس».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امیری سامان کی کثرت سے نہیں ہوتی بلکہ حقیقی امیری تو دل کی امیری کا نام ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن حقيقة الغِنى ليس بكثرة المال، وإنما الغِنى الحقيقي غِنى النفس، فإذا استغنى المرء بما أوتي وقنِع به ورضي ولم يحرص على الازدياد ولا يلحَّ في الطلب، كان من أغنى الناس.
606;بی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ امیری اصل میں کثرت مال کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی امیری تو دل کی امیری ہوتی ہے۔ جب بندہ اس مال پر اکتفاء اور قناعت کر لے جو اسے دیا گیا ہو اور اسی پر راضی ہوجائے اور مزید کی حرص اس میں نہ رہے اور نہ ہی وہ بہت زیادہ اس کی تلاش میں لگے تو وہ امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3852

 
 
Hadith   547   الحديث
الأهمية: ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس فينمي خيرا، أو يقول خيرا


Tema:

وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرائے اور اس سلسلے میں اچھی بات ان تک پہنچائے یا اچھی بات کہے۔

عن أم كلثوم بنت عقبة بن أبي مُعَيط -رضي الله عنها- قالت: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «ليس الكذاب الذي يُصلح بين الناس فَيَنْمِي خيرًا، أو يقول خيرًا»
وفي رواية مسلم زيادة، قالت: ولم أسمعه يُرَخِّصُ في شيء مما يقوله الناس إلا في ثلاث، تعني: الحرب، والإصلاح بين الناس، وحديث الرجل امرأته، وحديث المرأة زوجها.

ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرائے اور اس سلسلے میں اچھی بات ان تک پہنچائے یا اچھی بات کہے“۔
صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”میں نے آپ ﷺ سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہو کہ آپ ﷺ نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہے جس کو لوگ (جھوٹ) کہتے ہیں ما سوا تین باتوں کے یعنی حالتِ جنگ میں، لوگوں میں صلح صفائی کے لیے اور میاں بیوی کی آپس کی بات چیت کے دوران“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الأصل أن الكذب محرَّم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: (إياكم والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابًا) رواه مسلم .
لكن استثني من الكذب ثلاثة أمور:
الكذب للإصلاح بين ذات البين.
الكذب في الحرب.
حديث الرجل مع امرأته والمرأة مع زوجها.
فهذه الثلاثة الأمور جاءت السنة بجواز الكذب فيها؛ لما فيها من مصلحة من غير أن يترتب على ذلك مفاسد.
فالأول: الكذب لأجل الإصلاح بين شخصين أو قبيلتين متنازعتين فينقل كلام الخير، ويروي لأحدهما أن صاحبه أثنى عليه ومدحه، وذكره بالأوصاف الجميلة، ولم يكن سمعه منه ولكن قصده أن يقارب بينهما، ويزيل ما فيهما من نفور ووحشة، فهذا جائز ولا بأس به ما دام قصده الإصلاح وإزالة ما في النفوس من العداوة والبغضاء والكراهية.
الثاني: الكذب في الحرب هو: أن يظهر من نفسه قوة ويتحدث بما يشحذ به بصيرة أصحابه ويكيد به عدوه، أو يقول في جيش المسلمين كثرة وجاءهم مدد كثير، أو يقول: انظر إلى خلفك، فإن فلانا قد أتاك من ورائك ليضربك... فهذا أيضًا جائز؛ لما فيه من المصلحة العظيمة للإسلام والمسلمين.
الثالث: كذب الرجل على امرأته والعكس، مثل أن يقول لها: إنك من أحب الناس إلي، وإني أرغب في مثلك، وما أشبه ذلك من الكلمات التي توجب الألفة والمحبة بينهما وهي تقول له مثل ذلك، فهذا أيضا جائز لما فيه من المصالح.
والكذب بين الزوجين مقيد بما يديم الألفة والمحبة بينهما ودوام العشرة، لا أنه يجوز في كل الأمور.
قال النووي رحمه الله: "وأما كذبه لزوجته وكذبها له فالمراد به في إظهار الود والوعد بما لا يلزم ونحو ذلك، فأما المخادعة في منع ما عليه أو عليها أو أخذ ما ليس له أو لها فهو حرام بإجماع المسلمين"، وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "واتفقوا على أن المراد بالكذب في حق المرأة والرجل إنما هو فيما لا يسقط حقًا عليه أو عليها أو أخذ ما ليس له أو لها".
575;صل بات تو یہی ہے کہ جھوٹ حرام ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جھوٹ سے بچو۔ کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کے درپہ رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم)۔
تاہم جھوٹ سے تین امور مستثنی ہیں:
1. وہ جھوٹ جس کا مقصد لوگوں کے مابین صلح کرانا ہو۔
2. جنگ میں جھوٹ بولنا۔
3. خاوند اور بیوی کا آپس میں جھوٹ بولنا۔
یہ تین امور ہیں جن میں از روئے حدیث جھوٹ بولنا جائز ہے کیونکہ ان میں فائدہ ہے اور ان سے کوئی برائی جنم نہیں لیتی۔
اول: جھگڑنے والے دو افراد یا دو قبیلوں کے مابین اصلاح کے لیے جھوٹ بولنا بایں طور کہ وہ اچھی بات دوسرے تک پہنچائے اور ان میں سے ہر ایک سے کہے کہ دوسرا اس کی تعریف کر رہا تھا اور اس کا اچھے انداز میں ذکر کر رہا تھا حالانکہ اس نے ایسی کوئی بھی بات نہ سنی ہو تاہم اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے اور ان کے مابین موجود نفرت و وحشت کو دور کرے۔ ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس کا مقصد اصلاح پیدا کرنا اور دلوں میں موجود دشمنی، رنجش اور نفرت کا ازالہ ہو۔
دوم: دورانِ جنگ جھوٹ بولنا۔ وہ اس طرح کہ وہ ایسے ظاہر کرے کہ اس میں بہت طاقت ہے اور ایسی گفتگو کرے جس سے اس کے ساتھیوں کی بصیرت تیز ہو اور اس کے دشمن کو دھوکا لگے۔ یا پھر یہ کہے کہ مسلمانوں کا لشکر بہت زیادہ ہے اور انہیں بہت کمک مل گئی ہے۔ یا کہے کہ اپنے پیچھے دیکھو، فلاں تمہارے پیچھے تمہیں مارنے کے لیے آ رہا ہے ۔۔۔ یہ سب جائز ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت فائدہ ہے۔
سوم: آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا یا بیوی کا اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا۔ مثلاً وہ اس سے کہے تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور مجھے تمہاری جیسی عورت اچھی لگتی ہے یا اسی طرح کے اور الفاظ کہے جن سے ان دونوں کے مابین الفت و محبت جنم لے۔ اسی طرح بیوی کا بھی اپنی شوہر سے اس طرح کی باتیں کہنا جائز ہے کیونکہ اس میں بہت فوائد مضمر ہیں۔
تاہم میاں بیوی کے مابین جھوٹ کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ ایسا ہو جس سے الفت و محبت اور ان کی باہمی معاشرت کو دوام حاصل ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک شوہر کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ جھوٹ ہے جو اظہار محبت کے لیے بولا جائے یا کسی ایسی شے کا وعدہ کرتے ہوئے بولا جائے جس کا مہیا کرنا اس کے لیے لازمی نہ ہو وغیرہ۔ مرد یا عورت کا اپنے اوپر واجب ہونے والی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے یا پھر کسی ایسی شے کے ہتھیانے کے لیے ایک دوسرے کو دھوکا دینا جو ان کی نہیں ہے تو اس طرح کے جھوٹ کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
حافط ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کا اتفاق ہے کہ بیوی یا شوہر کے ساتھ جھوٹ بولنے سے مراد وہ جھوٹ ہے جس کا مقصد شوہر یا بیوی پر آنے والی کسی ذمہ داری کا اسقاط نہ ہو یا اس کا مقصد کوئی ایسی شے لینا نہ ہو جو شوہر یا بیوی کی نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3853

 
 
Hadith   548   الحديث
الأهمية: ليس الواصل بِالمُكَافِىءِ، ولكنَّ الواصل الذي إذا قَطعت رحِمه وصَلَها


Tema:

رشتہ جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب ناتا توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ليس الواصل بالمُكَافِئِ ، ولكنَّ الواصل الذي إذا قَطعت رحِمه وصَلَها».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رشتہ جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب ناتا توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى قوله -صلى الله عليه وسلم-: "ليس الواصل بالمكافىء" أي ليس الإنسان الكامل في صلة الرحم والإحسان إلى الأقارب هو الشخص الذي يقابل الإحسان بالإحسان، بل الواصل حقيقة الكامل في صلة الرحم هو الذي إذا قطعت رحمه وصلها، حتى لو أساؤوا إليه، ثم قابل الإساءة بالإحسان إليهم، فهذا هو الواصل حقا، فعلى الإنسان أن يصبر ويحتسب على أذية أقاربه وجيرانه وأصحابه وغيرهم، فلا يزال له من الله ظهير عليهم، وهو الرابح، وهم الخاسرون.
وصلة الرحم تكون بالمال، والعون على الحاجة، ورفع الضرر، وطلاقة الوجه والدعاء لهم، والمعنى الجامع إيصال ما أمكن من الخير، ودفع ما أمكن من الشر بحسب الطاقة، وقد أكد الإسلام كثيراً على صلة الرحم، إلا أنه لا يعد من القطيعة من ترك صلة الرحم من باب الهجر الوقائي أو الردعي؛ كمن رأى المصلحة في ترك الصلة رجاء أن يعود رحمه إلى جادة الصواب، وترك المخالفات الدينية، أو خاف على نفسه وأهله أنه متى وصل رحمه وهم على تلك المخالفات الشرعية، لربما انتقلت العدوى إليه وإلى من تحت يده.
570;پ ﷺ کے فرمان ”لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ“ کا مطلب یہ ہے کہ صلہ رحمی اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنے میں وہ شخص کامل نہیں، جو احسان کے مقابلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے میں کامل درحقیقت وہ شخص ہے، جو قطع رحمی کے باوجود صلہ رحمی کرے۔ یہاں تک کہ اگر لوگ اس کے ساتھ بُرائی کریں، اور وہ برائی کے بدلے میںان کے ساتھ بھلائی کرے، تو یہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا ہوگا۔ لہٰذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں وغیرہ کی تکلیف پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ایسے انسان کے لیے دوسروں کے خلاف اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مدد گار ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ فائدے میں رہتا ہے اور اس کے معاندین خسارے میں ہوتے ہیں۔
صلہ رحمی مال کے ذریعے بھی ہوتی ہے، ضروریات میں مدد سے بھی ہوتی ہے، نقصان کو دور کرنے، خندہ پیشانی سے ملنے اور ان کے لیے دعاے خیر سے ہوتی ہے۔ اس کا جامع معنیٰ یہ ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو، اپنی استطاعت کے مطابق بھلائی پہنچانا اور تکلیف دور کرنا۔ اسلام نے صلہ رحمی کی بڑی تاکید کی ہے۔
تاہم مفاسد سے بچاؤ اور زجر و توبیخ کے طور پر قطع تعلق، قطع رحمی میں شمار نہیں ہوتا۔ جیسے کسی کو یہ امید ہو کہ ترک صلہ رحمی کے توسط سے اس کا رشتے دار صحیح راستے پر آ سکتا ہے اور خلافِ شریعت کاموں سے بچ سکتا ہے۔ یا اسے اپنے یا اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں یہ خوف ہو کہ جب وہ صلہ رحمی کرے گا، جب کہ اس کے رشتے دینی بے راہ روی کے شکار ہیں، تو ان کی یہ بیماری اس کی اور اس کے زیر دستوں کی طرف منتقل ہو جاۓ گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3854

 
 
Hadith   549   الحديث
الأهمية: يا سعد بن معاذ، الجنة وربِّ الكعبة إنِّي أجد ريحها من دونِ أُحُدٍ


Tema:

اے سعد بن معاذ! جنت؛ ربِ کعبہ کی قسم ! میں اس کی خوشبو احد پہاڑ سے بھی زیادہ قریب محسوس کر رہا ہوں

عن أنس -رضي الله عنه- قال: غاب عمي أنس بن النَّضْرِ -رضي الله عنه- عن قتال بدر، فقال: يا رسول الله، غِبْتُ عن أول قتال قاتلت المشركين، لئن الله أشهدني قتال المشركين  لَيُرِيَنَّ الله ما أصنع. فلما كان يوم أُحُدٍ انْكَشَفَ المسلمون، فقال: اللَّهم أعْتَذِرُ إليك مما صنع هؤلاء - يعني: أصحابه - وأبرأُ إليك مما صنع هؤلاء - يعني: المشركين - ثم تقدم فاستقبله سعد بن معاذ، فقال: يا سعد بن معاذ، الجنَّة وربِّ الكعبة إنِّي أجِدُ ريحها من دونِ أُحُدٍ. قال سعد: فما استطعت يا رسول الله ما صنع! قال أنس: فوجدنا به بِضْعَا وثمانين ضربة بالسيف، أو طعنة بِرُمْح، أو رَمْيَة بسهم، ووجدناه قد قُتل ومَثَّل به المشركون فما عَرفه أحدٌ إلا أُختُه بِبَنَانِهِ. قال أنس: كنَّا نرى أو نَظُنُّ أن هذه الآية نزلت فيه وفي أشباهه: {من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه} [الأحزاب: 23] إلى آخرها.

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں غیرحاضر رہے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول پہلی جنگ جو آپ نے مشرکوں سے لڑی میں اس میں شریک نہ تھا البتہ آئندہ اگر اللہ نے مشرکین سے لڑائی کا موقع مجھےعطا فرمایا تو میں جو کچھ کروں گا اللہ اسے دکھائے گا۔ پس جب احد والا دن ہواتو مسلمانوں نے اپنے مورچے چھوڑ دئے اور شکست کھا گئے، تو انہوں نے کہا: اے اللہ میں تجھ سے اس حرکت کی عذر خواہی کرتا ہوں جو ان مسلمانوں نے کی ہے،اور میں تیرے سامنے بیزاری ظاہر کرتا ہوں، اس حرکت سے جو ان مشرکوں نے کی ہے۔ پھر وہ آگے بڑھے تو ان کا سامنا سعد بن معاذ سے ہوا، آپ نے ان سے کہا: اے سعد بن معاذ! جنت،رب کعبہ کی قسم ! میں اس کی خوشبو احد پہاڑ سے بھی زیادہ قریب محسوس کر رہا ہوں۔ سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! انھوں (انس بن نضر) نے جو کیا مجھ سے وہ نہیں ہوسکا! انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم نے ان کے جسم پر اسی (80) سے زیادہ تلوار کی چوٹیں یا نیزے کے زخم یا تیر کے نشان پائے۔ اور ہم نے انھیں دیکھا کہ وہ قتل (شہید) کر دیے گئے تھے اور مشرکوں نے ان کا مثلہ کردیا تھا (یعنی انکے کان ناک وغیرہ کاٹ ڈالے تھے) اس سبب سے ان کی بہن کے سوا کسی نے ان کو نہیں پہچانا، انہوں نے ان کو انکی انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔ انس بن مالک نے فرمایا: ہم خیال کرتے تھے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مسلمانوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ...﴾ [الأحزاب: 23] ”مومنوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے وہ عہد سچ کر دکھایا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا...“ آخر آیت تک۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي أنس بن مالك أن أنس بن النَّضْرِ -عمه- لم يكن مع الرسول -صلى الله عليه وسلم- في بدر، وذلك لأن غزوة بدر خرج إليها النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو لا يريد القتال، وإنما يريد عِير قريش وليس معه إلا ثلاثمائة وبضعة عشر رجلًا، معهم سبعون بعيرا وفرسان يتعاقبون عليها، قال أنس بن النضر للنبي -عليه الصلاة والسلام- يبين له أنه لم يكن معه في أول قتال قاتل فيه المشركين، وقال: "لئن أدركت قتالًا ليُرينَّ الله ما أصنع".
فلما كانت غزوة أحد، وهي بعد غزوة بدر بسنة وشهر، خرج الناس وقاتلوا مع النبي -صلى الله عليه وسلم-، وصارت الدائرة في أول النهار للمسلمين، ولكن ترك الرماة منازلهم التي أنزلهم النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها حال لقاء العدو ونهاهم عن التحول عنها ، فلما انكسر المشركون وانهزموا نزل بعض أولئك القوم عن تلك المنازل ، فهجم فرسان المشركين على المسلمين من تلك الناحية ، واختلطوا بهم، انكشف المسلمون وفرَّ من فرَّ منهم، إلا أن أنسا -رضي الله عنه- تقدم إلى جهة الكفار وقال: (اللهم إني أعتذر إليك مما صنع هؤلاء) يعني أصحابه الذين فروا ، (وأبرأ إليك مما صنع هؤلاء)، يعني المشركين من قتال النبي ومن معه من المؤمنين.
وعندما تقدم -رضي الله عنه- استقبله سعد بن معاذ، فسأله إلى أين؟
قال: يا سعد، إني لأجد ريح الجنة دون أحد، وهذا وجدان حقيقي، ليس تخيلا أو توهما، ولكن من كرامة الله لهذا الرجل شم رائحة الجنة قبل أن يستشهد -رضي الله عنه- من أجل أن يقدم ولا يحجم، فتقدم فقاتل ، حتى قتل رضي الله عنه.
قال سعد -رضي الله عنه-: فما استطعت يا رسول الله ما صنع! أي: أنه -رضي الله عنه- بذل مجهودا لا أقدر على مثله.
ووجد فيه بضع وثمانون، ما بين ضربة بسيف، أو برمح، أو بسهم، حتى إنه قد تمزق جلده، فلم يعرفه أحد إلا أخته، لم تعرفه إلا ببنانه أي إصبعه ـ رضي الله عنه.  
فكان المسلمون يرون أن الله قد أنزل فيه وفي أشباهه هذه الآية: (من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا) (الأحزاب: 23)، ولا شك أن هذا وأمثاله -رضي الله عنهم- يدخلون دخولا أوليا في هذه الآية، فإنهم صدقوا ما عاهدوا الله عليه، حيث قال أنس -رضي الله عنه-: والله ليُرينَّ الله ما أصنع، ففعل، فصنع صنعا لا يصنعه أحد إلا من مَنَّ الله عليه بمثله حتى استشهد.
575;نس بن مالك بیان کرتے ہیں کہ ان کے چچا انس بن نضر جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ كے ساتھ نہیں تھے۔ اس لئے کہ جنگ بدرمیں نبیﷺ لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے تھے۔ صرف آپ کے پیش نظر قریش کے قافلہ کا تعاقب تھا۔ آپ کے ساتھ کل تین سو کچھ آدمی تھے جن کے پاس ستر اونٹ اور صرف دو گھوڑےتھے جن پر وہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے کہا کہ میں مشرکین سے ہونے والی پہلی لڑائی میں شریک نہ هو سكا تھا، البتہ آئندہ اگر اللہ نے مشرکین سے لڑائی کا موقع مجھےعطا فرمایا تو میں جو کچھ کروں گا اللہ اسے دکھائے گا (لوگوں کے سامنے ظاہر فرمادے گا)۔ پس جب جنگ احد والا دن ہوا اور وہ جنگ بدرکے ایک سال ایک ماہ بعد پیش آیا تو لوگ نکلے اور نبی ﷺ کے ساتھ مل کرجنگ لڑی۔ دن کے آغاز میں مسلمانوں کا پلڑہ بھاری رہا، لیکن تیراندازوں نے اپنے وہ مورچے چھوڑ دیے جن پر نبی ﷺ نے انہیں تعینات کیا تھا اور انھیں وہاں سے ہٹنے سے منع فرمایا تھا۔ جب مشرکین پیچھے ہٹنے لگے اور شکست کھا گئےتو بعض تیراندازوں نے وہ جگہ چھوڑدی اور مشرکین کے لڑاکوں نے اس جانب سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اور ان سے مل گئے۔ یہصورت حال دیکھ کر مسلمان منتشر ہوگئے اور ان میں سے کچھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر انس بن نضر رضی اللہ عنہ کفار کے سمت آگے بڑھے اور فرمایا: اے اللہ میں تجھ سے اس حرکت کی عذر خواہی کرتا ہوں جو ان بھگوڑے مسلمانوں نے کی ہے،اور میں تیرے سامنے بیزاری ظاہر کرتا ہوں، اس حرکت سے جوان لوگوں یعنی مشرکوں نے کی ہے نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی اہل ایمان سے جنگ ٹھان کر۔ اورجب وہ آگے بڑھے تو سعد بن معاذ ان سے ملے اور پوچھا: کہاں کے لئے؟ آپ نے ان سے کہا: اے سعد میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ سے بھی زیادہ قریب محسوس کر رہا ہوں۔ جنت کی خوشبوکا ادراک یہ حقیقی ہے وہم یا خیال نہیں اوریہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے بطور کرامت ہوئی کہ انہوں نے جنت کی خوشبو اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے پہلے ہی سونگھ لی تاکہ وہ اقدام کریں پیچھے نہ ہٹیں۔ چنانچہ وہ آگے بڑھے اور قتال کیا یہاں تک کہ وہ شھید ہوگئے۔ سعد رضي الله عنه کہا کرتے تھے، یا رسول اللہ! اس نے جو کیا وہ میں نہیں کر سکتا،یعنی ان جیسی قربانی دینے کی قابلیت مجھ میں نہیں ہے۔ میدان جنگ میں وہ مقتول پائے گئے اس طورپر کہ ان کے جسم پر اسی(80) سے زیادہ تلوار کی چوٹیں یا نیزے کے زخم یا تیر کے نشان پائے گئے۔ یہاں تک کہ ان کا جسم پھٹ چکا تھا۔ ان کی بہن کے سوائے کسی نے ان کو نہیں پہچانا، انہوں نے ان کو انکی انگلیوں سے پہچان لیا۔رضي الله عنه. اسی ناطے مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا﴾(الأحزاب: 23) ”مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی“، اور بلا شبہ وہ اور ان جیسے اس آیت کے اولین مصداق ہیں رضي الله عنهم کیونکہ انہوں نے اپنے رب سے کیا ہوا وعد ہ سچ کر دکھایا۔ بایں طور کہ أنس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: اللہ کی قسم! میں جو کچھ کروں گا اللہ اسے دکھائے گا۔ اور بالفعل انہوں نے ایسا کچھ کر دکھایا جوعام فرد بشر کی بات نہیں ہاں مگر جس پر انہیں جیسی اللہ کی خصوصی عنایت ہو، یہاں تک آپ شہید ہوگئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3855

 
 
Hadith   550   الحديث
الأهمية: خَرَجْنَا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في سَفَر أَصَاب الناس فيه شِدَّة


Tema:

ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں نکلے جس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی۔

عن زيد بن أَرْقَم -رضي الله عنه- قال: خَرَجْنَا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في سَفَر أَصَاب الناس فيه شِدَّة، فقال عبد الله بن أُبَيٍّ: لاَ تُنْفِقُوا على من عِندَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى يَنْفَضُّوا، وقال: لَئِنْ رَجَعْنَا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ منها الأَذَلَّ، فَأَتَيْتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَأَخْبَرْتُه بذلك، فأَرْسَل إلى عبد الله بن أُبي، فاجْتَهَدَ يَمِينَه: ما فعل، فقالوا: كَذَب زَيْدٌ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَوَقَعَ في نَفْسِي ممَّا قَاَلُوه شِدَّة حتَّى أَنْزَل الله تعالى تَصْدِيقِي: (إذا جاءك المنافقون) ثم دعاهُم النبي -صلى الله عليه وسلم- لِيَسْتَغْفِرَ لهم فَلَوَّوْا رُؤُوسَهُم.

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں نکلے جس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ وہ آپ ﷺ کے پاس سے جدا اور دور ہو جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ: اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ کو اس بات کی خبر دی, تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا بھیجا اور اس سے آپ ﷺ نے دریافت کیا تو اس نے زوردار قسم کھا کر کہا کہ اس نے ایسا نہیں کہا ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ زید نے رسول اللہ ﷺ سے جھوٹ کہا ہے۔ ان لوگوں کی اس بات سے میرے دل کو بہت صدمہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ﴾ پھر نبی کریم ﷺ نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں، لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر زيد بن الأرْقَم -رضي الله عنه- أنه كان مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في سفر وكان معه المؤمنون والمنافقون فأصاب الناس ضِيق وشدة لقلة ما عندهم من الزاد، فتكلم عبد الله بن أُبي بن سَلول -رأس الكفر والنفاق-، فقال: (لاَ تُنْفِقُوا على مَنْ عند رسول الله حتى يَنْفَضُّوا) [المنافقون: 7] يعني: لا تعطوهم شيئاً من النفقة، حتى يجوعوا ويتفرقوا ويتركوا النبي -صلى الله عليه وسلم-.
وقال أيضًا : (لَئِنْ رجعنا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ منها الأَذَلَّ) [المنافقون: 8] ويعني بالأعَزِّ نفسه وقومه، وبالأذَلِّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فسمع ذلك زيد بن الأرْقَم -رضي الله عنه- فأتى إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره؛ بأن عبد الله بن أبي بن سلول يقول كذا وكذا، يحذره منه، فأرسل إليه النبي -صلى الله عليه وسلم-، فحلف واشتد في الحلف أنه لم يَقْل ذلك، وهذا هو دأب المنافقين، يحلفون على الكذب وهم يعلمون فأقسم أنه ما قال ذلك، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يَقبل علانيتهم ويترك سريرتهم إلى الله، فلما بَلَغ ذلك زيد بن الأرْقَم اشتد عليه الأمر؛ لأن الرجل حَلَف وأقسم عند الرسول الله -صلى الله عليه وسلم- واجتهد يمينه في ذلك ، فقالوا: كَذَب زيد بن الأرْقَم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعني أخبر زيدٌ بن الأرقَم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بخبر كَذَب، فاشتد ذلك على زيد بن الأرْقَم حتى أنزل الله تصديق وبينه بقوله : "إذا جاءك المنافقون" أي: سورة المنافقين ثم دعا النبي -صلى الله عليه وسلم-: المنافقين وعلى رأسهم عبد الله بن أبي؛ ليستغفر لهم عمَّا صدر منهم من فُحش القول، فاعرضوا عن ذلك استكبارا، واحتقارا للنبي -صلى الله عليه وسلم-، في كونه يَسْتَغِفر لهم عند الله -تعالى-.
586;ید بن ارقم رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ کے ساتھ اس سفر میں مومنین اور منافقین دونوں تھے۔ اس میں زادِ سفر (توشہ) کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی تنگی اور تکلیف پیش آئی۔ چنانچہ کفر و نفاق کا سرغنہ عبداللہ بن اُبیّ بن سلول بولا: ﴿لاَ تُنْفِقُوا على مَنْ عند رسول الله حتى يَنْفَضُّوا﴾ [المنافقون: 7] ”جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وه ادھر ادھر ہو جائیں“۔ یعنی صحابہ کو کچھ بھی خرچ نہ دو تاکہ بھوکے ہوکر بکھر جائیں اور آپ ﷺ کو چھوڑ دیں۔
اس نے یہ بھی کہا: ﴿لَئِنْ رجعنا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ منها الأَذَلَّ﴾ [المنافقون: 8] ”اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت واﻻ وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا“۔ عزت والا سے اس نے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو مراد لیا اور ذلت والوں سے اس نے اللہ کے نبی ﷺ کو مراد لیا۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ سنا، تو وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور بتایا کہ عبداللہ بن اُبیّ بن سلول اس اس طرح کہہ رہا ہے، وہ آپ کو اس سے متنبہ کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اس کے پاس پیغام بھیج کر بلوایا۔ اس نے بہت زیادہ قسمیں اٹھائیں کہ اس نے ایسا نہیں کہا۔ یہ منافقین کا طریقۂ کار ہے کہ جاننے کے باوجود وہ جھوٹی قسمیں کھاتےہیں۔ چنانچہ اس نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اس نے ایسا نہیں کہا۔ نبی ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ آپ ان کی ظاہری باتوں کو قبول کر لیتے تھے اور ان کے پوشیدہ راز کو اللہ کے حوالے کردیتے تھے۔ جب اس بات کی خبر زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو ان پر یہ گراں گزرا; کیوں کہ وہ شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حلف اٹھاکر اور خوب قسمیں کھاکر بری ہوگیا! چنانچہ لوگوں نے کہا کہ زید بن ارقم نے رسول ﷺ سےجھوٹ بولا ہے۔ (یعنی زید بن ارقم نے رسول ﷺ کو جھوٹی خبر دی ہے) یہ بات زید پر بہت گراں گزری یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق نازل فرمائی اور اسے اپنے اس فرمان کے ذریعہ بیان فرمایا: ﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ﴾ یعنی سورة المنافقين نازل فرمائی۔ پھر آپ ﷺ نے منافقین اور ان کے سردار عبداللہ بن اُبی کو بلایا تاکہ آپ ﷺ ان کے اس فُحش گفتگو کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے مغفرت مانگیں۔ لیکن انہوں نے تکبر کرتے ہوئے اور آپ ﷺ کو اس بابت حقیر سمجھتے ہوئے کہ آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس استغفار کریں،اس پیش کش سے اعراض کیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3861

 
 
Hadith   551   الحديث
الأهمية: لئن كنت كما قلت، فكأنما تُسِفُّهُمْ الْمَلَّ ، ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك


Tema:

اگر تم ویسے ہی ہو، جیسا تم نے بتایا ہے، تو گویا تم انھیں گرم گرم راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس حالت پر رہو گے، اللہ کی طرف سے تمھارے ساتھ ایک مددگار متعین رہے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رجلاً قال: يا رسول الله، إن لي قَرابَة أصِلهم ويقطعوني، وأحسن إليهم ويُسيئُون إليَّ، وأحْلَمُ عنهم ويجهلون عليَّ، فقال: «لئن كنت كما قلت، فكأنما تُسِفُّهُمْ الْمَلَّ، ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك».

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، جن کے ساتھ میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برا رویہ رکھتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ تحمل سے کام لیتا ہوں جب کہ وہ میرے ساتھ جہالت سے پیش آتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ویسے ہی ہو، جیسا تم نے بتایا ہے، تو گویا تم انھیں گرم گرم راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس حالت پر رہو گے، اللہ کی طرف سے تمھارے ساتھ ایک مددگار متعین رہے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حدَّث أبو هريرة -رضي الله عنه- أنَّ رجلا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-:
"إن لي قرابة أصلهم ويقطعوني، وأحسن إليهم ويسيئون إلى، وأحلم عليهم ويجهلون علي"، يعني: فماذا أصنع؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل، ولا يزال لك من الله تعالى ظهير عليهم ما دمت على ذلك" يعني ناصر، فينصرك الله عليهم ولو في المستقبل.
والمل: الرماد الحار، وتسفهم: يعني تلقمهم إياه في أفواههم، وهو كناية عن أن هذا الرجل منتصر عليهم.
وليس الواصل لرحمه من يكافئ من وصله، ولكن الواصل حقيقة هو الذي إذا قطعت رحمه وصلها، هذا هو الواصل حقا، فعلى الإنسان أن يصبر ويحتسب على أذية أقاربه وجيرانه وأصحابه وغيرهم، فلا يزال له من الله ظهير عليهم، وهو الرابح، وهم الخاسرون.
575;بوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں، جن کے ساتھ میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برا رویہ رکھتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ تحمل سے کام لیتا ہوں، جب کہ وہ میرے ساتھ جہالت سے پیش آتے ہیں۔ یعنی ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ویسے ہی ہو، جیسا تم نے بتایا ہے، تو گویا تم انھیں گرم گرم راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس حالت پر رہو گے، اللہ کی طرف سے تمھارے ساتھ ایک مددگار متعین رہے گا“ یعنی نصرت کرنے والا تہمارے ساتھ رہے گا۔ اللہ تعالی ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا، اگر چہ مستقبل میں ہی ہو۔
”الْمَلُّ“ کے معنی ہیں: گرم راکھ۔ ”تُسِفُّهُمْ“ کے معنی ہیں: تو ان کے منہ میں گرم راکھ ڈآل رہا ہے۔ یہ تعبیر اس بات سے کنایہ ہے کہ یہ شخص ان پر فتح یاب ہوگا۔
صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہوتا، جو صلہ رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو درحقیقت وہ ہوتا ہے، جس سے قطع رحمی کی جائے، پھر بھی صلہ رحمی کرے۔ یہی شخص ہے، جو حقیقی طور پر صلہ رحمی کرنے والا ہے۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ صبرسے کام لے اور اپنے عزیزو اقارب، ہم سایوں اور ساتھیوں وغیرہ سے، اسے جو تکلیف پہنچے، اس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھے۔ اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک معاون متعین رہے گا۔ وہ نفع یاب ہو گا۔ جب کہ یہ لوگ خسارے میں ہوں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3863

 
 
Hadith   552   الحديث
الأهمية: مَا أحَدٌ يَدْخُل الجنَّة يُحِبُّ أن يَرجع إلى الدنيا وله ما على الأرض من شيء إلا الشَّهيد، يَتَمَنَّى أن يَرجع إلى الدنيا، فيُقْتَل عَشْر مَرَّاتٍ؛ لما يَرَى من الكَرَامة


Tema:

کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو گا جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرے، خواہ اسے دنیا میں موجود ہر شے مل جائے، سوائے شہید کے۔ اس کی یہ تمنا ہو گی کہ دنیا میں دوبارہ واپس جا کر دس مرتبہ اور قتل ہو کیونکہ وہ شہادت پر ملنے والی عزت کو دیکھ رہا ہوگا۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَا أحَدٌ يَدْخُل الجنَّة يُحِبُّ أن يَرجع إلى الدنيا وله ما على الأرض من شيء إلا الشَّهيد، يَتَمَنَّى أن يَرجع إلى الدنيا، فيُقْتَل عَشْر مَرَّاتٍ؛ لما يَرَى من الكَرَامة».
 وفي رواية: «لما يَرى من فَضْل الشَّهادة».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو گا جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرے، خواہ اسے دنیا میں موجود ہر شے مل جائے، سوائے شہید کے، اس کی یہ تمنا ہو گی کہ دنیا میں دوبارہ واپس جا کر دس مرتبہ اور قتل ہو کیونکہ وہ شہادت پر ملنے والی عزت کو دیکھ رہا ہوگا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت کو دیکھ رہا ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ليس هناك أحد يتمنى ويرغب أن يفارق الجنة بعد دخولها، ويعود إلى الدنيا مرة أخرى، ولو أعطي الأرض كلها بما فيها من كنوز ونفائس، وما عليها من قصور عالية وحدائق غناء، ثم استثنى من ذلك الشهيد، فإنه يحب العودة إلى الدنيا عشر مرات لكي يجاهد كل مرة في سبيل الله ويستشهد فيفوز بالشهادة عشر مرات بدل مرة واحدة، وذلك لما يرى من الكرامة التي يلاقيها الشهداء.
705;وئی بھی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ خواہش نہیں رکھے گا کہ وہ اس سے علیحدہ ہو اور دوبارہ دنیا میں لوٹ جائے اگرچہ اسے دنیا کے تمام خزانے اور قیمتی اشیاء بھی دے دی جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اس میں موجود عالی شان محلات اور گھنے سرسبز باغات بھی دے دیے جائیں۔ پھر اللہ کے نبی ﷺ نے اس سے شہید کو مستثنی کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دنیا میں دس بار واپس آنے کو پسند کرے گا تاکہ وہ ہر دفعہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جائے اور اسے ایک دفعہ کے بجائے دس دفعہ شہادت ملے کیونکہ اس نے شہدا کو ملنے والی عزت ومقام کو دیکھ لیا ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3864

 
 
Hadith   553   الحديث
الأهمية: ما أُظُن فُلَانا وفُلَانا يَعْرِفَان من دِيِننَا شَيْئَا


Tema:

میں نہیں سمجھتا کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات جانتے بھی ہیں۔

عن عائشة-رضي الله عنها-  قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما أُظُن فُلَانا وفُلَانا يَعْرِفَان من دِيِننَا شَيْئَا».


 قال اللَّيث بن سعد أحد رُواة هذا الحديث: هذان الرجلان كانا من المنافقين.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”میں نہیں سمجھتا کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات جانتے بھی ہیں“۔
لیث بن سعد جو اس حدیث کے راویوں میں سے ہیں کہتے ہیں کہ وہ دونوں آدمی منافق تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبرها: عن رجلين وأنهما لا يَعْرِفان شيئا من دين الإسلام؛ لأنهما كانا يظهران الإسلام ويبطنان الكُفر.
وذكر النبي  -صلى الله عليه وسلم- لهذين الرجلين في غَيبتهما ليس من الغِيبة المنهي عنها، بل من الأمور التي لا بد منها؛ لئلا يلتبس ظاهر حالهما على من يجهل أمرهما.
وقوله :"ما أظن ." الظن هنا: بمعنى اليقين؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- كان يعرف المنافقين حقيقة بإعلام الله له بهم في سورة براءة، وقال ابن عباس -رضي الله عنه-:"كنا نسمي سورة براءة: الفاضحة، قال ابن عباس  -رضي الله عنه-: "ما زالت تنزل ومنهم ومنهم حتى خشينا".
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہے کہ آپ ﷺ نے دو لوگوں کے بارے میں بتایا کہ یہ دونوں اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے کہ یہ دونوں اسلام کو ظاہر کرتے تھے، جب کہ ان کے اندر کفر تھا۔
آپ ﷺ کا ان دونوں لوگوں کی غیر حاضری میں ان کی خامی بیان کرنا اس غیبت کے زمرے میں نہیں آتا جو شریعت میں ممنوع ہے، بلکہ یہ بتا نا ضروری تھا، تاکہ ان کا ظاہری حال ان لوگوں پرخلط ملط نہ ہو جائے جو ان سے واقف نہیں۔
آپ ﷺ کا کہنا " ما أظن" یہاں گمان یقین کے معنی میں ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ منافقین کو حقیقت میں جانتے تھے کہ سورہ براءۃ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم سورۃ براءت کو فاضحہ (رسوا کرنے والی) کہتے تھے۔ مزید فرماتے ہیں کہ یہ سورت نازل ہوتی رہی اور منافقین ظاہر ہوتے رہے، یہاں تک کہ ہمیں اپنے بارے میں ڈر ہونے لگا (کہ کہیں ہم بھی ان کی فہرست میں نہ آجائیں)۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3866

 
 
Hadith   554   الحديث
الأهمية: ما اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ في سَبِيل الله فَتَمَسَّهُ النَّار


Tema:

جس بندے کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے، اسے (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی۔

عن أبي عَبْس عبد الرحمن بن جبر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ في سَبِيل الله فَتَمَسَّهُ النَّار».

ابو عبس عبدالرحمٰن بن جبر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جس بندے کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے، اسے (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الذي يخرج في طريق ليقاتل في سبيل الله -تعالى- فاغْبَرَّت قَدَمَاه في طريقه كان ذلك سببا في وقَايته من النار، وفي لفظ للبخاري:"مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاه في سبيل الله حَرَّمَهُ الله على النَّار".
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں قتال کے لیے نکلے اور اس کے پاؤں غبار آلود ہو گئے، یہ اس کے حق میں جہنم سے چھُٹکارے کا سبب ہے۔ بخاری کے الفاظ ہیں ”مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاه في سبيل الله حَرَّمَهُ الله على النَّار“ یعنی جس کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو گئے، اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کر دے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3868

 
 
Hadith   555   الحديث
الأهمية: ما الدنيا في الآخرة إلا مِثْل ما يجعل أحدكم أُصْبُعَهُ في اليَمِّ، فلينظر بِمَ يَرْجع


Tema:

آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر (نكال كر) دیکھے کہ وه سمندر كا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے!

عن المُسْتَوْرِد بن شَدَّاد -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما الدنيا في الآخرة إلا مِثْل ما يجعل أحدكم أُصْبُعَهُ في اليَمِّ، فلينظر بِمَ يَرْجع!».

مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر(نكال كر) دیکھے کہ وه سمندر كا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے!“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أنك إذا أردت أن تعرف حقيقة الدنيا بالنسبة للآخرة، فضع إصبعك في البحر، ثم ارفعها، ثم انظر بماذا ترجع؟!
لا ترجع بشيء، مقارنة بالبحر، وهذا معنى الدنيا بالنسبة إلى الآخرة في قصر مدتها وفناء لذاتها ودوام الآخرة ودوام لذاتها ونعيمها إلا كنسبة الماء الذي يعلق بالأصبع إلى باقي البحر.
وقال تعالى: (فما متاع الحياة الدنيا في الآخرة إلا قليل).
فجميع ما أوتيه الخلق من نعيم الدنيا وملاذها، يتمتع بها العبد وقتاً قصيراً، محشواً بالمنغصات، ممزوجاً بالمكدرات، ويتزين به الإنسان زماناً يسيرا للفخر  والرياء، ثم يزول ذلك سريعا، ويعقب الحسرة والندامة: (وما أوتيتم من شيء فمتاع الحياة الدنيا وزينتها وما عند الله خير وأبقى أفلا تعقلون).
فما عند الله من النعيم المقيم، والعيش الهني، والقصور والسرور خير وأبقى في صفته وكميته، وهو دائم أبدًا.
605;فہوم حدیث: اگر آپ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنی انگلی کو سمندر میں ڈال کر اٹھائیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کتنا پانی واپس لے کر آتی ہے؟ سمندر کے مقابلے میں، وہ اپنے ساتھ کچھ بھی واپس لے کر نہیں آئے گی۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت یہی ہے ۔ دنیا کے قلیل المدت ہونے اور اس کی لذتوں کے فانی ہونے کی آخرت کے دوام اور اس کی لذتوں اور نعمتوں کی ابدیت کے ساتھ وہی نسبت ہے، جو انگلی میں لگ جانے والے پانی کی نسبت بقیہ سمندر کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ﴾ ”سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے“۔
مخلوق کو دنیا کی جو کچھ بھی لذتیں اور نعمتیں دی گئی ہیں، ان سے بندہ ایک مختصر وقت کے لیے لطف اندوز ہوتا ہے جو مکدرات سے بھرا ہوتا ہے۔ فخر اور ریاکاری کے لیے انسان تھوڑے عرصے کے لیے ان سے زیب و زینت اختیار کرتا ہے، پھر یہ سب کچھ جلد ہی فنا ہو جاتا ہے اور محض حسرت و ندامت باقی رہ جاتی ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ”اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف دنیوی زندگی کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟“ اللہ کے پاس جو دائمی نعمتیں اور خوشگوار زندگی، محلات اور خوشیاں ہیں وہ اپنی کیفیت و مقدار کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور زیادہ پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3876

 
 
Hadith   556   الحديث
الأهمية: هذا خَيرٌ من مِلءِ الأرض مثل هذا


Tema:

یہ (فقیر) شخص اس (پہلے) شخص جیسے دنیا بھر کے لوگوں سے بہتر ہے۔

عن سهل بن سعد الساعدي -رضي الله عنه- قال: مَرَّ رجلٌ على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال لرجل عنده جالسٌ: «ما رأيُك في هَذا؟»، فقال: رجل من أَشراف الناس، هذا والله حَرِيٌّ إن خَطب أن يُنْكَحَ، وإن شَفع أن يُشَفَّعَ، فَسكت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ثم مرَّ رجلٌ آخر، فقال له رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما رأيُك في هذا؟» فقال: يا رسول الله، هذا رجلٌ من فقراء المسلمين، هذا حَرِيٌّ إن خَطب أن لا يُنْكَحَ، وإن شَفَعَ أن لا يُشَفَّعَ، وإن قال أن لا يُسمع لقوله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «هذا خَيرٌ من مِلءِ الأرض مثل هذا».

سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا: اس کے بارے تمہاری کیا رائے ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: یہ (آدمی) معزز لوگوں میں سے ہے۔ اللہ کی قسم! یہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں پيغامِ نكاح بھیجے تو اس کا نکاح کر دیا جائے اور اگر كسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ (یہ جواب سن کر) خاموش ہوگئے۔ پھر ایک اور آدمی (وہاں سے) گزرا تو آپ ﷺ نے پھر اسی شخص سے پوچھا: اس کے بارے تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! یہ شخص غریب مسلمانوں میں سے ہے۔ یہ اس لائق ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات سنی نہ جائے۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا۔ ”یہ (فقیر) شخص اس (پہلے) شخص جیسے دنیا بھر کے لوگوں سے بہتر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث : مرَّ بالنبي -صلى الله عليه وسلم- رجلان، أحدهما: من أشراف القوم، وممن له كلمة فيهم، وممن يجاب إذا خطب، ويسمع إذا قال، والثاني بالعكس، رجل من ضعفاء المسلمين ليس له قيمة، إن خطب فلا يجاب، وإن شفع فلا يشفع، وإن قال فلا يسمع.
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: (هذا خير من مِلء الأرض مثل هذا) أي: خير عند الله -عز وجل- من مِلء الأرض من مثل هذا الرجل الذي له شرف وجاه في قومه؛ لأن الله -سبحانه وتعالى- لا ينظر إلى الشرف، والجاه، والنسب، والمال، والصورة، واللباس، والمركوب، والمسكون، وإنما ينظر إلى القلب والعمل، وفي الحديث: (إن الله لا ينظر إلى صوركم، ولا إلى أموالكم، ولكن إنما ينظر إلى قلوبكم وإلى أعمالكم)، رواه مسلم.
فإذا صلح القلب فيما بينه وبين الله -عز وجل-، وأناب إلى الله، وصار ذاكراً لله -تعالى- خائفاً منه، مخبتاً إليه، عاملاً بما يرضي الله -عز وجل-، فهذا هو الكريم عند الله، وهذا هو الوجيه عنده، وهذا هو الذي لو أقسم على الله لأبره.
605;فہوم حدیث: نبی ﷺ کے پاس سے دو آدمیوں کا گزر ہوا۔ ان میں سے ایک کا تعلق معزز لوگوں سے تھا جس کا ان میں اثرورسوخ تھا۔ یہ ایسا شخص تھا کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجتا تو اس کا پیغام قبول کیا جاتا اور اگر کوئی بات کہتا تو اس کی بات سنی جاتی۔ جب کہ دوسرا شخص اس کے بالکل برعکس تھا۔ اس کا تعلق کمزور مسلمانوں میں سے تھا جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اگر وہ کہیں پیغام نکاح بھیجتا تو اسے قبول نہ کیا جاتا، اگر کوئی سفارش کرتا تو اس کی سفارش قبول نہ کی جاتی اور اگر کوئی بات کہتا تو اس کی بات سنی نہ جاتی۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ (غریب) شخص اس (پہلے) شخص جیسے زمین بھر کے لوگوں سے بہتر ہے“ یعنی یہ شخص اللہ کے نزدیک اس شخص جیسے دنیا بھر کے لوگوں سے بہتر ہے جو اپنی قوم میں جاہ و منزلت رکھتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی عزت و جاہ، حسب و نسب، مال و دولت، شکل و صورت، لباس، سواری اور گھر بار کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ دل اور عمل کو دیکھتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے: ”اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے“۔ (صحیح مسلم)
جب بندے اور اللہ کے مابین دل کی اصلاح ہوجاتی ہے، وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور وہ اللہ کا ذکر کرنے والا اور اس سے خوف کھانے والا ہو جاتا ہے، اور وہ اللہ عز وجل کو راضی کرنے والے اعمال کرتا ہے تو ایسا شخص ہی اللہ کے ہاں معزز اور صاحب منزلت ہے۔ اور یہی وہ شخص ہے جو اگر اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالی اس کی قسم کو پوری کردیتا ہے   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3880

 
 
Hadith   557   الحديث
الأهمية: ما سُئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم- شيئا قطُّ، فقال: لا


Tema:

ايسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چيز کا سوال کيا گيا ہو اور آپ ﷺ نے جواب ميں ’’نہيں‘‘ فرمايا ہو.

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: ما سُئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم- شيئا قطُّ، فقال: لا.


 وعن أنس -رضي الله عنه- قال: ما سئل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على الإسلام شيئا إلا أعطاه، ولقد جاءه رجل، فأعطاه غنما بين جبلين، فرجع إلى قومه، فقال: يا قوم، أسلموا فإن محمدا يعطي عطاء من لا يخشى الفقر، وإن كان الرجل ليسلم ما يريد إلا الدنيا، فما يلبث إلا يسيرا حتى يكون الإسلام أحب إليه من الدنيا وما عليها.

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ايسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چيز کا سوال کيا گيا ہو اور آپ ﷺ نے (جواب ميں) ’’نہيں‘‘ فرمایا ہو۔
اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ سے اسلام لانے پر کسی چيز کا سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے وہ ضرور دی۔ (ایک دفعہ) آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا تو آپ ﷺ نے دو پہاڑوں کے درميان موجود ساری بکریاں اسے دے دیں۔ وہ واپس اپنی قوم کے پاس گيا اور کہا: اے میری قوم والو! اسلام قبول کرلو، کیوں کہ محمد (ﷺ) اس شخص کی طرح عطا کرتے ہیں جسے فقر کا انديشہ نہیں ہوتا۔ يقيناً ايک آدمی صرف دنیا حاصل کرنے کی غرض سے اسلام قبول کرتا، ليکن تھوڑا ہی عرصہ گزرتا کہ اسلام اسے دنیا اور اس میں موجود تمام چيزوں سے زیادہ محبوب ہو جاتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ما سأله أحدٌ شيئا من أمور الدنيا، فقال : (لا) مَنْعَا للعطاء، بل إن كان عنده أعطاه، أو قال له ميسوراً من القول، امتثالا لأمر الله -تعالى- في قوله: (وأما السائل فلا تنهر).
وروى البخاري في الأدب المفرد، عن أنس، أنه -صلى الله عليه وسلم-: "كان رحيما، فكان لا يأتيه أحد إلا وعَدَه وأَنَجَزَ له إن كان عنده".
وعن أبي هريرة -رضي الله عنه-، أن رجلا أتى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فبعث إلى نسائه فقلن: ما معنا إلا الماء، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "من يَضُمُّ أو يُضِيفُ هذا" رواه البخاري .
وفي البخاري أيضاً  عن سهل بن سعد -رضي الله عنه-، قال: جاءت امرأة ببردة... قالت: يا رسول الله إني نَسَجْتُ هذه بيدي أَكْسُوكَهَا، فأخذها النبي -صلى الله عليه وسلم- محتاجا إليها، فخرج إلينا وإنها إزاره، فقال رجل من القوم: يا رسول الله، اكْسُنِيهَا، فقال: "نعم"،  فجلس النبي -صلى الله عليه وسلم- في المجلس، ثم رجع، فَطَوَاهَا ثم أرسل بها إليه، فقال له القوم: ما أحسنت، سألتها إياه، لقد علمت أنه لا يَرُدُّ سائلا، فقال الرجل: والله ما سألته إلا لتكون كفَنِي يوم أموت، قال سهل: فكانت كفَنُه".
  فهذا هو حاله -صلى الله عليه وسلم- مع من سأله، فإن كان عنده أعطاه إياه ولو كان للنبي -صلى الله عليه وسلم- حاجة به وإن لم يكن عنده اعتذر له أو وعَدَهُ إلى حين أو شَفَعَ له عند أصحابه، وهذا من جوده وكرمه وحسن أخلاقه -صلى الله عليه وسلم-.
581;دیث کا مفہوم: ایسا کبھی نہ ہوا کہ نبی ﷺ سے کسی نے دنیوی امورمیں سے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے “ نہيں” کہہ کر دینے سے انکار کر دیا ہو۔ بلکہ اگر وہ چيز آپ ﷺ کے پاس ہوتی تو آپ ﷺ اسے ضرور دے دیتے یا پھر اس مانگنے والے کو اللہ کے حکم ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾ ”اور سوال کرنے والے کو نہ جھڑکيں۔) کی تعمیل میں کوئی اچھی بات کہہ دیتے“۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ بہت شفیق تھے۔ آپ ﷺ کے پاس جو بھی شخص (کوئی چيز مانگنے کے لئے) آتا تو آپ ﷺ اس سے دینے کا وعدہ کر لیتے اور اگر آپ ﷺ کے پاس وہ چيز ہوتی تو دے دیتے۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ آپ ﷺ نے اپنی ازواج کے پاس (اس کا کھانا منگانے کے لئے) ایک آدمی کو بھیجا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس کو اپنے ساتھ لے جائے؟ یا یہ فرمایا کہ: کون ہے جو اس کی مہمان نوازی کرے؟ (بخاری)۔
اسی طرح صحیح بخاری میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی... اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے یہ آپ کو پہنانے کے لیے اپنے ہاتھ سے بنا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے لے لیا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ ﷺ ہمارے پاس آئے تو وہ چادر آپ ﷺ کی تہ بند تھی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اسے مجھے پہنا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ نبی ﷺ اس مجلس میں (کچھ دیر) تشریف فرما رہے۔ پھر واپس چلے گئے اور اس چادر کو لپيٹ کر آپ ﷺ نے اس آدمی کے پاس بھیج ديا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا، تم نے یہ چادر آپ ﷺ سے مانگ لی حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ کسی مانگنے والے کو منع نہیں کرتے ہيں۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا: اللہ کی قسم! میں نے آپ ﷺ سے صرف اس لیے مانگا کہ ميری وفات کے دن يہ میرا کفن بن جائے۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہی چادر اس کا کفن بنى۔
آپ ﷺ کا مانگنے والے کے ساتھ یہی رویہ ہوا کرتا تھا۔ اگر وہ چيز آپ ﷺ کے پاس ہوتی تھی تو آپ ﷺ اسے عنایت کردیتے تھے اگرچہ آپ ﷺ کو اس کی ضرورت ہی ہوتی۔ اور اگر وہ آپ ﷺ کے پاس نہیں ہوتی تو پھر آپ ﷺ مانگنے والے سے معذرت کر لیتے یا پھر کسی اور وقت کا اس سے وعدہ کر لیتے یا پھر اس کے لیے اپنے صحابہ سے سفارش کرديتے تھے۔ یہ آپ ﷺ کا جود و کرم اور حسن اخلاق تها۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3885

 
 
Hadith   558   الحديث
الأهمية: لو يَعلمُ المؤمنُ ما عند الله من العقوبة، ما طَمِع بِجَنَّته أحدٌ، ولو يَعلمُ الكافرُ ما عند الله من الرحمة، ما قَنَط من جَنَّته أحد


Tema:

اگر مومن یہ جان لے کہ اللہ کے یہاں کس قدر عذاب ہے، تو کوئی اس کی جنت کی امید نہ رکھے اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر ہے، تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لو يعلمُ المؤمنُ ما عند الله من العقوبة، ما طَمِع بِجَنَّتِهِ أحدٌ، ولو يَعلمُ الكافرُ ما عند الله من الرَّحمة، ما قَنَطَ من جَنَّتِهِ أحدٌ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مومن یہ جان لے کہ اللہ کے یہاں کس قدر عذاب ہے، تو کوئی اس کی جنت کی امید نہ رکھے اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر ہے، تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه الجمع بين الرجاء والخوف، وأن المؤمن لو علم ما أعده الله من العقوبة سواء في الدنيا أو في الآخرة، وسواء كانت العقوبة للكفار أم للعصاة فإن هذا سيجعله يخاف ويحذر ولا يتوانى في عمل الصالحات ولا يتساهل في الوقوع في المحرمات خوفًا من عقوبة الله -تعالى-، ولو اقتصر علمه على العقوبة ولم يعرف رحمة الله لكان سببًا في قنوطه مع كونه مؤمنًا، وفي المقابل لو علم الكافر ما أعده الله من النعيم والثواب للمؤمنين لطمع في رحمة الله، ولو اقتصر علم المؤمن على هذه الرحمة لما قنط من رحمته، لكن عليه أن يجمع بين الرجاء والخوف، قال -تعالى-: (نبئ عبادي أني أنا الغفور الرحيم، وأن عذابي هو العذاب الأليم).
575;س حدیث امید و خوف کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ ایک مؤمن اگر جان لے کہ اللہ نے کس قدر عذاب تیار کر رکھا ہے، چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں، اور چاہے کافروں کے لیے ہو یا نافرمانوں کے لیے، تو وہ خوف کا پیکر بن حاۓ گا، نیک کاموں میں سستی نہیں برتے گا، اور سہل پسندی کا شکار ہو کر حرام کاموں میں ملوث نہیں ہوگا۔ اگر اس کا علم عذاب تک محدود رہا اور اللہ کی رحمت سے واقف نہ ہو سکا، تو وہ صاحب ایمان ہونے کے باوجود مایوسی کا شکار ہو جا   ‎
ۓ گا۔
اس کے برعکس اگر کافر یہ جال لے کہ اللہ نے ایمان والوں کے لیے کس قدر ثواب اور نعمتیں تیار کر رکھی ہیں تو اللہ کی رحمت کی لالچ کرنے لگے، اور اگر مؤمن کا علم اس رحمت الہی پر محدود رہ جاۓ، تو وہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ لیکن ایک مؤمن کو چاہیے کہ امید اور خوف دونوں کو اپنے دل میں بساۓ رکھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ﴾ ”میرے بندوں کو بتا دو کہ میں بخشش کرنے والا اور رحمتوں والا ہوں، اور میرا عذاب بڑا درد ناک ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3908

 
 
Hadith   559   الحديث
الأهمية: ما من قَوْمٍ يَقُومُونَ من مجلس لا يَذْكُرُون الله تعالى فيه، إلا قاموا عن مثل جِيفَةِ حمار، وكان لهم حَسْرَةً


Tema:

جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور اس مجلس ميں انہوں نے اللہ کا ذکر نہ کیا ہو تو ان کا وہاں سے اٹھنا ایسے ہے جیسے وہ مردہ گدھے کے پاس سے اٹھے ہوں اور یہ مجلس (روزِ قیامت) ان کے لیے حسرت ہو گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما من قوم يقومون من مجلس لا يذكرون الله -تعالى- فيه، إلا قاموا عن مثل جيفة حمار، وكان لهم حسرة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور اس مجلس ميں انہوں نے اللہ کا ذکر نہ کیا ہو تو ان کا وہاں سے اٹھنا ایسے ہے جیسے وہ مُردہ گدھے کے پاس سے اٹھے ہوں اور یہ مجلس (روزِ قیامت) ان کے لیے حسرت ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن من جلسوا في مجلس لم يذكروا الله -تعالى- فيه فحالهم كمثل حال الذي يجلس في مائدة ضيافتها جِيفَةُ حمار، التي هي غاية في النتانة والقذارة، ويقوم عن ذلك المجلس كمن يقوم عن هذه الجيفة، وهذا مثال للتفريط في ذكر الله، فيتندمون أشد الندم على ما فرطوا في أوقاتهم وأضاعوها فيما لا نفع فيه.
فينبغي على المسلمين: أن يحرصوا كل الحرص على أن تكون مجالسهم طاعة وعبادة وأن يفروا من مجالس اللهو كما يفرون من النتانة والقذارة، فإن الإنسان مسؤول عن أوقاته، ومحاسب عليها، فإن كان خيرًا فخير وإن كان شرًا فشر.
581;دیث کا مفہوم: جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو وہ اس شخص کی مانند ہیں جو کسی دستر خوان پر بیٹھے اور بطور ضیافت اس کے سامنے مردہ گدھا ہو جو بہت ہی بدبودار اور گندا ہو۔ اس مجلس سے اٹھنے والے اس مردہ گدھے کے پاس سے اٹھنے والے شخص کی طرح ہیں۔ یہ اللہ کے ذکر میں کوتاہی کرنے کی مثال ہے۔ یہ لوگ اپنے اوقات کے استعمال کرنے میں جس کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور انہیں جن بے سود کاموں میں صرف کیا اس پر یہ بہت زیادہ نادم ہوں گے۔
چنانچہ مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ پوری کوشش کریں کہ ان کی مجالس نیکیوں اور عبادات پر مشتمل ہوں اور یہ کہ وہ ایسی مجالس جن میں لغویات کا دور دورہ ہو سے ایسے بھاگیں جیسے وہ بدبو اور گندگی سے دور بھاگتے ہیں۔ کیونکہ انسان سے اس کے اوقات کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس سے ان کا حساب لیا جائے گا۔اگر اسے اچھائی میں (بتایا) تو اس کا انجام بہتر ہوگا اور اگر اسے برائی میں لگایا تو پھر اس کا انجام بھی بُرا ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3910

 
 
Hadith   560   الحديث
الأهمية: ما من مسلم يَغرس غَرسًا إلا كان ما أُكل منه له صدقة، وما سُرق منه له صدقة، ولا يَرْزَؤُهُ أحد إلا كان له صدقة


Tema:

جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے، تو اس میں سے جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا، جو اس میں سے چوری ہو جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا اور اس میں جو شخص بھی کچھ کمی کرتا ہے، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو گا۔

عن جابر-رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما من مسلم يَغرس غَرسا إلا كان ما أُكل منه له صدقة، وما سُرق منه له صدقة، ولا يَرْزَؤُهُ أحد إلا كان له صدقة».
وفي رواية: «فلا يَغرس المسلم غَرسا فيأكلَ منه إنسان ولا دَابَة ولا طير إلا كان له صدقة إلى يوم القيامة»، وفي رواية: «لا يَغرس مسلم غرسا، ولا يزرع زرعًا، فيأكل منه إنسان ولا دَابَة ولا شيء، إلا كانت له صدقة».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس میں سے جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا، جو اس میں سے چوری ہو جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا اور اس میں گر کوئی شخص کچھ کمی کرتا ہے، تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو گا“۔
دوسری روایت میں ہے: ”مسلمان کوئی پودا لگائے اور اس میں سے کوئی انسان، چوپایہ اور پرندہ کھا لے، تو وہ قیامت کے دن اس کے لیے صدقہ ہوگا“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”جو مسلمان کوئی پودا لگائے یا فصل بوئے، تو اس میں سے جو بھی انسان یا چوپایہ یا کوئی اور شے کھائے، وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث أنه ما من أحد من المسلمين يغرس غرسًا أو يزرع زرعًا، فيأكل منه حي من أحياء المخلوقات، إلا أثيب على ذلك، حتى بعد مماته فيجري له عمله ما بقي زرعه وغراسه.
ففي حديث الباب الحث على الزرع، وعلى الغرس، وأن الزرع والغرس فيه الخير الكثير، فيه مصلحة في الدين، ومصلحة في الدنيا.
وأنه إذا أكل منه صار له صدقة، وأعجب من ذلك لو سرق منه سارق، كما لو جاء شخص مثلًا إلى نخل وسرق منه تمرًا، فإن لصاحبه في ذلك أجرًا، مع أنه لو علم بهذا السارق لرفعه إلى المحكمة، ومع ذلك فإن الله تعالى يكتب له بهذه السرقة صدقة إلى يوم القيامة.
كذلك أيضًا: إذا أكل من هذا الزرع دواب الأرض وهوامها كان لصاحبه صدقة. Esin Hadith Caption Urdu
وخص الحديث بالمسلم؛ لأنه الذي ينتفع بثواب الصدقة في الدنيا والآخرة.
اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ جو بھی مسلمان کوئی پودا لگائے یا فصل بوئے اور اس میں سے کوئی جان دار مخلوق کھا لے، تو اسے اس پر ثواب ملتا ہے، یہاں تک کہ اس کی وفات کے بعد بھی اس کے اس عمل کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک اس کی یہ کھیتی اور لگایا ہوا درخت باقی رہتا ہے۔ اس حدیث میں کھیتی کرنے اور پودے لگانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیوں کہ کھیتی کرنے اور پودے لگانے میں بہت سی خیر مضمر ہے۔ اس میں دینی فائدہ بھی ہے اور دنیاوی بھی۔ اگر اس میں سے کوئی کھا لے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا۔ اس سے عجیب تر یہ کہ اگر اس میں سے کسی چور نے کچھ چرا لیا، مثلا کوئی شخص کھجور کے پودے پاس آ کر اس میں سے کھجوریں چرا لے، تو اس کھجور کے مالک کو اس پر بھی اجر ملے گا، اگرچہ اسے اگر اس چور کا پتہ لگ جائے، تو وہ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دے گا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس چوری کے بدلے میں قیامت کے دن تک اس کے لیے صدقہ کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح جب کھیتی کو جانور یا کیڑے مکوڑے کھا جائیں، تو یہ بھی صدقہ شمار ہوگا۔ حدیث بالخصوص مسلم کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ وہی در حقیقت دنیا و آخرت میں صدقہ کے ثواب سے فائدہ اٹھاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3911

 
 
Hadith   561   الحديث
الأهمية: مَا يَجِدُ الشَّهيد من مَسِّ القتل إلا كما يَجِدُ أَحَدُكُمْ من مَسِّ القَرْصَةِ


Tema:

شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَا يَجِدُ الشَّهيد من مَسِّ القتل إلا كما يَجِدُ أَحَدُكُمْ من مَسِّ القَرْصَةِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الإنسان إذا استشهد في سبيل الله، فإن ما يُصيبه من مَسِّ القتل وفي رواية الدارمي: "من ألم القتل" لا يشعر به إلا كما يشعر أحدنا من قرصة النملة، وفي رواية الدارمي: "من ألم القرصة".
والمعنى: أن الشهيد لا يُكابد شدة الموت وسكراته،كما هو حال غيره من الناس، بل إن أشد ما يجده ويعانيه عند موته هو ما نجده من قَرْصة النملة فيما تحدثه من ألمٍ في سرعة زواله، فلا يشعر به،وهذا من فضل الله -تعالى- على الشهيد، فإنه لمَّا  قَدَّم روحه في سبيل الله -تعالى- رخيصة، هَوَّن الله عليه ألم القتل.
581;دیث کا مفہوم: انسان جب اللہ کے راستے میں شہید ہوتا ہے تو اسے قتل ہونے کی جو تکلیف ہوتی ہے اور سنن دارمی کی ایک روایت میں ہے کہ اسے جو قتل کا درد ہوتا ہے، اس کا اسے بس اتنا سا احساس ہوتا ہے جیسے ہم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے کا ہوتا ہے۔ سنن دارمی کے الفاظ ہیں کہ جتنا چیونٹی کے کاٹنے کا درد ہوتا ہے۔
یعنی شہید کو دوسرے لوگوں کی طرح موت کی سختی اور سکرات کی تکلیف نہیں سہنی پڑتی بلکہ موت کے وقت اسے جو زیادہ سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے وہ اتنی ہوتی جتنی ہمیں چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے جو فوراً ہی ختم ہو جاتی ہے اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہ شہید پر اللہ کا فضل ہے۔ شہید جب اللہ کے راستے میں اپنی جان کو ارزاں کردیتا ہے تو اللہ بھی اس کے بدلے میں قتل کی تکلیف کو اس کے لیے معمولی بنا دیتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3914

 
 
Hadith   562   الحديث
الأهمية: لئِن أنا حَيِيت حتَّى آكُل تَمَرَاتي هذه إنَّها لحياة طويلة، فَرَمَى بما كان معه من التَّمر، ثم قاتَلَهُم حتَّى قُتِل


Tema:

اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا، تو پھر یہ بڑی لمبی زندگی ہوگی۔ پھر انھوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور کافروں سے لڑائی شروع کردی، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: انطلق رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه حتى سبقوا المشركين إلى بدر، وجاء المشركون، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يقدمن أحد منكم إلى شيء حتى أكون أنا دونه»، فدنا المشركون، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض» قال: يقول عمير بن الحمام الأنصاري -رضي الله عنه-: يا رسول الله، جنة عرضها السماوات والأرض؟ قال: «نعم» قال: بخ بخ ؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما يحملك على قولك بخ بخ؟» قال: لا والله يا رسول الله إلا رجاء أن أكون من أهلها، قال: «فإنك من أهلها» فأخرج تمرات من قرنه، فجعل يأكل منهن، ثم قال: لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي هذه إنها لحياة طويلة، فرمى بما كان معه من التمر، ثم قاتلهم حتى قتل.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ چل پڑے، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں جا پہنچے اور پھر مشرک بھی آگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مجھ سے پہلے کسی شے کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔ پھر مشرک قریب پپہنچے، تو فرمایا: اٹھو اس جنت میں جانے کے لیے جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! انھوں نے کہا: واہ! بہت خوب! آپ ﷺ نے فرمایا: واہ واہ کیوں کہہ رہے ہو؟ وہ بولے: کچھ نہیں یا رسول اللہ ! میں نے اس امید پر کہا کہ شاید میں بھی اہل جنت میں سے ہو جاؤں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو جنتی ہے۔ یہ سن کر وہ چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے کہ اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا، تو یہ بڑی لمبی زندگی ہوگی (یعنی جنت ملنے میں دیر ہوجائے گی)۔ پھر انھوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور کافروں سے لڑائی شروع کردی، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أنس -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج مع أصحابه من المدينة ليلاقوا قافلة أبي سفيان التي جاء بها من الشام يريد بها مكة ولم يخرجوا لقتال ولكن الله جمع بينهم وبين عدوهم من غير مِيعاد ولهذا تخلف عن هذه المعركة كثير من الصحابة ولم يعاتب النبي -صلى الله عليه وسلم- أحداً منهم. 
ثم انطلق النبي -صلى الله عليه وسلم- فنزلوا بدرًا قبل أن ينزل به كفار قريش، وأخذ النبي -صلى الله عليه  وسلم- موضعه منه، ثم جاء كفار قريش فقال -صلى الله عليه وسلم-: "لا يَقْدمَنَّ أحد منكُم إلى شيء حتَّى أكُون أنا دُونَه".
والمعنى: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ينهاهم عن التقدم إلى شيء حتى يكون هو -عليه الصلاة والسلام- أقرب إليه منهم؛ لئلا يفوت شيء من المصالح التي لا يعلمونها.
ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: "قُوُموا إلى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّماوات والأرض" أي: سارعوا ولا تتأخروا عن بَذل أرواحكم في سبيل الله، فإن عاقبة ذلك جَنَّة عرضُها السماوات والأرض، وهذا من باب ترغيبهم وتحفيزهم لقتال الكفار.  
قال: يقول عُمَيْرُ بن الحُمَامِ الأنصاري -رضي الله عنه-: يا رسول الله، جَنَّة عَرْضُهَا السَّماواتُ والأرض؟ قال: "نعم" قال: بَخٍ بَخٍ؟ ومعنى ذلك تفخيم الأمر وتعظيمه.
فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: " ما يَحْمِلُكَ على قولك بَخٍ بَخٍ؟" أي: ما هو الباعث الذي جعلك تقول هذه الكلمة، هل هو الخوف؟
قال: لا والله يا رسول الله إلا رَجَاء أن أكون من أهْلِها. يعني الذي جعلني أقول هذه الكلمة؛ طمعي في دخول الجَنَّة.
قال: "فإنَّك من أهلِها" وهذا من تبشير النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه بالجنَّة لتحفيزهم وبذل الوسع في العمل.
ثم لما سمع عُمَيْرُ بن الحُمَامِ -رضي الله عنه- ما سمعه من البشارة من الصادق المصدوق الذي لا ينطق عن الهوى، أخرج تمرات من قَرَنه، وهو ما يوضع فيه الطعام عادة ويأخذه المجاهد ثم جعل يأكل ثم اسْتَطَال الحياة -رضي الله عنه- وقال: "لئِن أنا حَيِيت حتَّى آكُل تَمَرَاتي هذه إنَّها لحياة طويلة"، فَرَمَى بما كان معه من التَّمر، ثم تقدم فقاتل وقتل -رضي الله عنه-.
575;نس رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مدینے سے ابو سفیان کے قافلے کا سامنا کرنے کے لیے نکلے، جو شام سے لوٹ کر مکہ جارہا تھا۔ مسلمانوں کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا، لیکن اللہ تعالی نے انھیں اور ان کے دشمنوں کو بنا کسی پیش بندی کے جمع فرما دیا۔ اسی وجہ سے اس معرکے میں بہت سے صحابہ شریک نہ ہو سکے اور ان میں سے کسی پر آپ ﷺ نے عتاب بھی نہیں فرمایا۔
نبیﷺ چل پڑے اور کفار قریش سے پہلے ہی میدان بدر پہنچ کر اپنی جگہ لے لی۔ جب کفار قریش پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا: مجھ سے پہلے تم میں سے کوئی پیش قدمی نہ کرے۔ مراد یہ کہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو کسی بھی شے کی طرف بڑھنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ خود آپ آگے بڑھ کر ان کے مقابلے میں دشمن سے زیادہ قریب ہو جائیں، تاکہ جن مصلحتوں سے وہ نابلد ہیں، ان میں سے کوئی مصلحت چھوٹ نہ جائے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اٹھو اور جنت کی طرف چل پڑو، جس کی چوڑائی آسمانوں او زمین کے مساوی ہے“ یعنی جلدی کرو اور اپنی جانوں کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے میں تاخیر نہ کرو۔ اس کے بدلے میں جنت ملے گی، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ یہ مسلمانو کو کفار سے لڑنے کی ترغیب اور اس پر ابھارنے کے قبیل سے ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! (کیا واقعی) اس جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے بقدر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!
اس پر انھوں نے کہا: بہت خوب، بہت خوب!
ایسا انھوں نے اس خوش خبری کی اہمیت اور عظمت کو جتلانے کے لیے کہا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”یہ بہت خوب، بہت خوب کیوں کہہ رہے ہو؟“ یعنی اس کی وجہ کیا ہے؟ کوئی خوف تو نہیں ہے؟
انھوں نے جواب دیا: نہیں یا رسول اللہ! یہ تو اس امید میں ہے کہ شاید میں بھی جنتیوں میں شامل ہونے کی سعادت کر سکوں۔ یعنی فقط جنت میں جانے کی چاہت میں میں نے یہ بات کہی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم جنتیوں میں سے ہو“ یہ نبی ﷺ کی طرف سے اپنے صحابہ کو جنت کی خوش خبری تھی، تاکہ انھیں عمل خیر پر مہمیز کیا جا سکے۔
جب عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے نبی صادق و مصدوق سے یہ بشارت سنی، جو اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، تو انھوں نے اپنے 'قرن' سے کچھ کھجوریں نکالیں۔ 'قرن' سے مراد وہ تھیلی ہے، جس میں عموما کھانے کی چیز رکھی جاتی ہے اور جسے مجاہد اپنے ساتھ رکھتا ہے- پھر کھانا شروع ہو کردیا، لیکن انھیں زندگی لمبی لگی، چنانچہ کہنے لگے: اگر میں اپنی یہ کھجوریں کھانے تک زندہ رہتا ہوں، تو یہ بہت لمبی زندگی ہو گی! اتنا کہہ کر انھوں نے اپنے پاس کی بقیہ کھجوریں پھینک دیں، آگے بڑھے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، اللہ ان سے راضی ہوجائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3915

 
 
Hadith   563   الحديث
الأهمية: ما يَسُرُّنِي أن عندي مثل أُحُدٍ هذا ذهبًا تمضي عليَّ ثلاثة أيام وعندي منه دينارٌ، إلا شيء أرصده لِدَيْنٍ، إلا أن أقولَ به في عباد الله هكذا وهكذا وهكذا


Tema:

مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر مجھ پر تین دن گزر جائیں اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی موجود ہو، ماسوا اس شے کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لیے سنبھال کر رکھ لوں۔ اس کے سوا جتنا کچھ بھی ہو میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح تقسیم کردوں۔

عن أبي ذر -رضي الله عنه- قال: كنت أمشي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في حَرَّةٍ بالمدينة، فاستقبلنا أُحُدٌ، فقال: «يا أبا ذر» قلت: لبيك يا رسول الله. فقال: «ما يَسُرُّنِي أن عندي مثل أُحُدٍ هذا ذهبًا تمضي علي ثلاثة أيام وعندي منه دينارٌ، إلا شيء أرصده لِدَيْنٍ، إلا أن أقولَ به في عباد الله هكذا وهكذا وهكذا» عن يمينه وعن شماله ومن خلفه، ثم سار، فقال: «إن الأكثرين هم الأَقَلُّونَ يوم القيامة إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وهكذا» عن يمينه وعن شماله ومن خَلفه «وقليل ماهم». ثم قال لي: «مكانك لا تَبْرح حتى آتيك» ثم انطلق في سوادِ الليل حتى تَوارى، فسمعت صوتًا، قد ارتفع، فَتَخَوَّفْتُ أن يكون أحدٌ عَرض للنبي -صلى الله عليه وسلم- فأردت أن آتيه فذكرت قوله: «لا تَبْرَحْ حتى آتيك» فلم أبْرَحْ حتى أتاني، فقلت: لقد سمعت صوتًا تَخَوَّفْتُ منه، فذكرت له، فقال: «وهل سمعته؟» قلت: نعم، قال: «ذاك جبريل أتاني فقال: من مات من أُمتك لا يُشرك بالله شيئًا دخل الجنة»، قلت: وإن زنى وإن سرق؟ قال: «وإن زنى وإن سرق».

ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ مدینے کے ایک حرے (کالے پتھر والی زمین) پر چلا جا رہا تھا کہ ہمارے سامنے احد پہاڑ آگيا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! میں نے جواب دیا: میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر مجھ پر تین دن گزر جائیں اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی موجود ہو، ماسوا اس شے کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لیے سنبھال کر رکھ لوں۔ اس کے سوا جتنا کچھ بھی ہو میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح تقسیم کردوں۔ اپنے دائیں، بائیں اور پیچھےکی طرف اشارہ کیا۔ پھر آپ ﷺ چل دیے اور فرمایا: زیادہ مال ودولت والے ہی روز قیامت (اجر وژواب میں) بہت کم ہوں گے، ماسوا اس شخص کے جس نے مال کو اس طرح، اس طرح اور اس طرح اپنے دائیں، بائیں اور پیچھے خرچ کیا ہوگا، ليکن ایسا کرنے والے کم ہی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اپنی اس جگہ سے تب تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس نہ آجاوں۔ پھر آپ ﷺ رات کے اندھیرے میں چل دیے يہاں تک کہ اوجھل ہو گئے۔ پھر میں نے ایک بلند آواز سنی۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں کوئی شخص نبی ﷺ کو نقصان پہنچانے کے درپے تو نہیں ہو گیا۔ میں نے آپ ﷺ کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے آپ ﷺ کا فرمان یاد آ گیا کہ میرے آنے تک اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ چنانچہ میں وہاں سے نہ ہٹا یہاں تک کہ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لے آئے۔ میں نے کہا: میں نے ایک آوا ز سنی تھی جس کی وجہ سے مجھے خوف لاحق ہو گیا تھا۔ میں نے ساری بات آپ ﷺ کو بتا دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے وہ آواز سنی تھی؟ میں نے جواب دیا:جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا: آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے؟ فرمايا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: يخبر أبو ذر  رضي الله عنه- أنه كان يمشي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في حَرَّةٍ ذات حجارة سود بالمدينة، فاستقبلهم أُحُدٌ الجبل المعروف فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ما يسرني، أي: لا يفرحني، أن عندي مثل أُحُدٍ هذا ذهبًا فيمر علي ثلاثة أيام وعندي منه شيء، ولا دينار واحد، إلا شيئًا أرصده لدين، فلو كنتُ أملك من المال مقدار جبل أحدٍ من الذهب الخالص لأنفقته كله في سبيل الله، ولم أبق منه إلا الشيء الذي أحتاج إليه في قضاء الحقوق، وتسديد الديون التي علي، وما زاد على ذلك ، فإنه لا يسرني أن يمضي علي ثلاثة أيام وعندي منه شيء.
وهذا يدل على أن النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- من أزهد الناس في الدنيا؛ لأنه لا يريد أن يجمع المال إلا شيئًا يرصده لدين، وقد توفي -صلى الله عليه وسلم- ودرعه مرهونة عند يهودي في شعير أخذه لأهله.
ولو كانت الدنيا محبوبة إلى الله -عز وجل- ما حرم منها نبيه -صلى الله عليه وسلم-، فالدنيا ملعونة ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه وعالمًا ومتعلمًا، وما يكون في طاعة الله -عز وجل-. 
ثم قال: "إن الأكثرين هم الأقلون يوم القيامة" يعني: المكثرون من الدنيا هم المقلون من الأعمال الصالحة يوم القيامة؛ لأن الغالب على من كثر ماله في الدنيا الاستغناء والتكبر والإعراض عن طاعة الله؛ لأن الدنيا تلهيه، فيكون مكثرًا في الدنيا مقلًّا في الآخرة.
وقوله: "إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وهكذا" يعني صرف المال في سبيل الله -عز وجل-، ثم قال: "وقليل ما هم" والمعنى أن من ينفق ماله في سبيل الله قليلٌ.
ثم قال: (من مات لا يشرك بالله شيئاً دخل الجنة وإن زنى وإن سرق) وهذا لا يعني أن الزنى والسرقة سهلة، بل هي صعبة، ولهذا استعظمها أبو ذر وقال: وإن زنى وإن سرق؟ قال: (وإن زنى وإن سرق).
وذلك لأن من مات على الإيمان وعليه معاص من كبائر الذنوب؛ فإن الله يقول: (إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء)، قد يعفو الله عنه ولا يعاقبه، وقد يعاقبه، ولكن إن عاقبه فمآله إلى الجنة؛ لأن كل من كان لا يشرك بالله ولم يأت شيئًا مكفرًا؛ فإن مآله إلى الجنة، أما من أتى مكفرًا ومات عليه، فهذا مخلد في النار وعمله حابط؛ لأن المنافقين كانوا يقولون للرسول -عليه الصلاة والسلام-: (نشهد إنك لرسول الله)، وكانوا يذكرون الله ولكن لا يذكرون الله إلا قليلاً ويصلون ولكن (وإذا قاموا إلى الصلاة قاموا كسالى) ومع ذلك فهم في الدرك الأسفل من النار.
فدل على الزهد في الدنيا، وأن الإنسان لا ينبغي أن يعلق نفسه بها، وأن تكون الدنيا بيده لا بقلبه، حتى يقبل بقلبه على الله -عز وجل-؛ فإن هذا هو كمال الزهد، وليس المعنى أنك لا تأخذ شيئًا من الدنيا؛ بل خذ من الدنيا ما يحل لك، ولا تنس نصيبك منها، ولكن اجعلها في يدك ولا تجعلها في قلبك، وهذا هو المهم.
581;دیث کا مفہوم: ابو ذر رضی اللہ عنہ بيان کر رہے ہيں کہ وہ نبی ﷺ کے ساتھ مدینہ میں کالے پتھروں والی زمین (حرہ) پر چلے جا رہے تھے کہ سامنے احد پہاڑ آ گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو مجھے یہ بات بالکل پسند نہ ہوتی کہ مجھ پر تین دن گزر جائیں“۔ یعنی یہ بات مجھے خوش نہيں کرتی کہ تین دن گزر جائیں اور اس میں سے میرے پاس کچھ بچا رہے ایک دینار بھینہیں، ”ما سوا اس شے کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لیے سنبھال کر رکھ لوں“ یعنی اگر میرے پاس احد پہاڑ کے بقدر خالص سونا ہوتا تو میں وہ سارا کا سارا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ چھوڑتا سوائے اس شے کے جس کی مجھے حقوق پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے ضرورت ہوتی۔ اور جو کچھ اس سے زائد ہوتا تو ميں اس بات کوبالکل پسند نہيں کرتا کہ تين دن گزر جائيں اور اس ميں سے کچھ بھی ميرے پاس باقی رہے۔
يہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ کو دنیا میں بالکل بھی رغبت نہیں تھی کیونکہ آپ ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ مال جمع کریں سوائے اس شے کے جسے آپ ﷺ قرض کی ادائیگی کے لیے سنبھال رکھتے۔ نبی ﷺ کی جب وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ جَو کے بدلے رہن ميں رکھی ہوئی تھی جسے آپ ﷺ نے اپنے اہل خانہ کے ليے ليے تھے۔
اگر اللہ عز و جل کے نزدیک دنیا محبوب ہوتی تو اللہ تعالی اپنے نبی ﷺ کو اس سے محروم نہيں رکھتا۔ لیکن دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر اور اس سے متعلق چیزوں کے اور سوائے عالم اور متعلم کے اور ان کاموں کے جو اللہ کی اطاعت گزاری میں ہوں۔
پھر آپ ﷺ نےفرمایا: ”زیادہ مال ودولت والے ہی روز قیامت (اجر وژواب میں) بہت کم ہوں گے“ یعنی جن کے پاس دنیا کی کثرت ہو گی قیامت کے دن ان کے پاس نیک اعمال کی کمی ہو گی۔ کیونکہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس دنیا کے مال کی کثرت ہو جاتی ہے وہ استغنا اور تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اللہ کی اطاعت سے رو گردانی کرنے لگتا ہے کیونکہ دنیا اسے غفلت میں ڈال دیتی ہے چنانچہ وہ دنیا میں تو بہت مال والا ہوتا ہے لیکن آخرت میں تہی دامن ہوگا۔
”جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح دیا“ یعنی مال کو، اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا۔
”اور ایسے لوگ کم ہی ہیں“ یعنی جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ بہت کم ہیں۔
پھر فرمایا: ”جو بھی اس حال میں مر گیا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا تو وہ جنت میں جائے گا اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے“ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ زنا اور چوری بہت ہلکے گناہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی بڑے گناہ ہیں۔ اسی لیے تو ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بہت بڑی لگی اور انہوں نے پوچھا کہ ”اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے“، ایسا اس وجہ سے ہے کہ جو شخص حالت ایمان میں مر جاتا ہے اور اس پر کبیرہ گناہ ہوتے ہیں تو (ایسے لوگوں کے بارے میں) اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ ”یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے“۔
ہو سکتا ہے کہ اللہ اس شخص کو معاف کر دے اور اسے عذاب (بھی) نہ دے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب دے، تاہم اگر عذاب دے گا بھی تو بالآخر وہ جنت میں ہی جائے گا کیونکہ ہر وہ شخص جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس نے کسی کفریہ بات کا ارتکاب کیا ہو تو وہ بالآخر جنت میں جائے گا۔
البتہ جس نے کسی کفریہ عمل کا ارتکاب کیا اور اسی پر اس کی فوات ہوئی ہو تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کا عمل رائیگاں جائے گا۔ کیونکہ منافقین رسول اللہ ﷺ سے کہا کرتے تھے: ﴿نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّـهِ﴾ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں“ وہ اللہ کا ذکر تو کرتے تھے لیکن بہت کم اور نماز تو پڑھتے تھے لیکن: ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ﴾ ”اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں“ اس کے باوجود وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
یہ حدیث دنیا سے بے رغبتی اختيار کرنے کی دليل ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو اپنا دل اس دنيا میں نہیں لگانا چاہیے اور یہ کہ دنیا اس کے ہاتھ میں ہو، دل میں اس کی جگہ نہ ہو۔ تاکہ وہ اپنے دل کے ساتھ اللہ عز وجل کی طرف متوجہ ہو۔ یقینا یہی کمالِ زہد ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ اس دنيا میں سے کچھ بھی نہ لیں، بلکہ جو چیز آپ کے لیے حلال ہو وہ لیں اور اس میں سے اپنا حصہ نہ بھولیں لیکن اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں، اپنے دل میں اسے جگہ نہ دیں۔ اور يہی اہم بات ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3916

 
 
Hadith   564   الحديث
الأهمية: مَثَلُ المجاهد في سَبِيل الله كمَثل الصَائم القَائم القَانت بآيات الله لا يَفْتُر من صيام، ولا صلاة، حتى يَرْجِع المجاهد في سبيل الله


Tema:

اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے وہ روزے دار شب بیدار جو انتہائی خشوع کے ساتھ اللہ کی آیات کو پڑھتا ہے اور روزہ و نماز میں کبھی بھی کمزوری نہیں دکھاتا یہاں تک کہ وہ مجاہد واپس لوٹ آئے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قيل: يا رسول الله، ما يعدل الجهاد في سبيل الله؟ قال: «لا تستطيعونه» فأعادوا عليه مرتين أو ثلاثًا كل ذلك يقول: «لا تستطيعونه»! ثم قال: «مثل المجاهد في سبيل الله كمثل الصائم القائم القانت بآيات الله لا يَفْتُرُ من صيام، ولا صلاة، حتى يرجع المجاهد في سبيل الله».
وفي رواية البخاري: أن رجلاً قال: يا رسول الله، دلني على عمل يعْدِلُ الجهاد؟ قال: «لا أجده» ثم قال: «هل تستطيع إذا خرج المجاهد أن تدخل مسجدك فتقوم ولا تفتر، وتصوم ولا تفطر»؟ فقال: «ومن يستطيع ذلك؟!»

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کون سا عمل ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کے مساوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:تم اسے نہیں کر سکتے۔ لوگوں نے دو یا تین بار آپ ﷺ سے پھر یہی سوال کیا تو آپ ﷺ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ تم اسے نہیں کر سکتے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے وہ روزہ دار شب بیدار جو انتہائی خشوع کے ساتھ اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور روزہ و نماز میں کبھی بھی کمزوری نہیں دکھاتا یہاں تک کہ وہ مجاہد واپس لوٹ آئے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض گزارش کی: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں جو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے نزدیک تو کوئی ایسا عمل نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم اپنی جائے نماز پر چلے جاؤ اور پھر تم مسلسل بلا وقفہ نماز پڑھو اور مسلسل روزہ رکھو۔؟ اس نے جواب دیا: ايسا كرنے کی کس میں استطاعت ہے؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث سأل الصحابة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن عمل من أعمال البر والطاعات يَعْدِل الجهاد في سبيل الله -تعالى- في الأجر والثواب، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لا تَسْتَطِيعُونَهُ" يعني: أن العمل الذي يَعْدِل الجهاد لا طاقة لكم به. فأعَادوا عليه مرَّتين أو ثلاثا ًكل ذلك يقول: "لا تَسْتَطِيعُونَهُ".
ثم بَيَّن لهم ذلك العمل الذي لا يستطيعونه، وهو ملازمة الصيام والقيام وتلاوة القرآن من غير فُتور ولا انقطاع، ولا شك أن هذا ليس في مقدرو البشر، ولهذا قال لهم -عليه الصلاة والسلام- ابتداءً: "لا تَسْتَطِيعُونَهُ"، وفي رواية البخاري: أن رجلاً من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يَدُّلَه على عمل يَعْدِل الجهاد في منزلته وقدره، وعِظَم أجره ومثوبته، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لا أجِدُه" أي: لا أجد عملًا يماثل الجهاد أو يساويه، وفي الصحيحين: "لغَدْوَة في سبيل الله أو رَوْحَة، خير من الدنيا وما فيها".
ثم قال: "هل تستطيع إذا خَرج المُجاهد أن تدخل مَسْجِدَكَ فتقوم ولا تَفْتُرَ، وتَصُوم ولا تُفْطِر؟" والمعنى: هل تستطيع من حين يخرج المجاهد من بيته للجهاد في سبيل الله -تعالى-، أن تدخل مسجدك وتعتكف فيه للعبادة على وجه الدوام، فتقوم في الصلاة دون انقطاع، وتواصل الصوم دون إفطار، إذا كان هذا ممكناً، فإن هذا وحده هو الذي يَعْدل الجهاد، عند ذلك قال الرجل: "ومن يستطيع ذلك؟!" أي: ومن يستطيع مواصلة الصلاة من غير انقطاع والصيام من غير إفطار؟ لا شك أن ذلك أمر فوق مقدور البشر.
575;س حدیث کی دونوں روایت میں ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی ﷺ سے ان نیکی اور بھلائی کے کاموں کے بارے میں دریافت کیا جو اجر و ثواب کے لحاظ سے جہاد فی سبیل اللہ کے مساوی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم وہ نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ عمل جو جہاد کے مساوی ہے تم میں اس کے کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس پر صحابہ نے آپﷺ سے دو یا تین بار یہی سوال کیا اور آپ یہی فرماتے رہے کہ تم وہ نہیں کر سکتے۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے سامنے اس عمل کی وضاحت فرمائی جسے وہ نہیں کر سکتے تھے اور وہ یہ تھا کہ بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے پابندی کے ساتھ مسلسل روزہ رکھنا، نماز پڑھنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل انسان کی وسعت سے باہر ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے آغاز ہی میں ان سے فرمایا کہ تم وہ نہیں کر سکتے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اسے کوئی ایسا عمل بتائیں جو قدر و منزلت اور اپنے اجر و ثواب کے اعتبار سے جہاد فی سبیل اللہ کے مساوی ہو۔ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ میرے نزیک تو ایسا کوئی نہیں ہے۔ یعنی میرے علم میں تو کوئی ایسا عمل نہیں جو جہاد کی طرح کا ہو یا اس کا ہم پلہ ہو۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ایک صبح یا ایک شام کے لیے نکلنا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم اپنی جائے نماز پرچلے جاؤ اور پھر ہمیشہ عبادت میں لگے رہو۔ بغیر کسی انقطاع کے نماز پڑھو اورمسلسل روزہ رکھو۔ اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو صرف یہی ایک عمل ہے جو جہاد کے مساوی ہو سکتا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ اس کی کون استطاعت رکھتا ہے!۔ یعنی کون ہے جو بغیر انقطاع کے مسلسل نماز پڑھ سکتا ہے اور بنا افطار (بریک) کیے روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام انسانی قدرت سے بالا تر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3917






© EsinIslam.Com Designed & produced by The Awqaf London. Please pray for us