Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   79   الحديث
الأهمية: نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ


Tema:

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور کھایا۔

عن أَسْمَاء بِنْت أَبِي بَكْرٍ-رضي الله عنهما- قالت: «نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله-صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ». وَفِي رِوَايَةٍ «وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ».

اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ”ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور اُس کو کھایا“۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تُخبِرُ أَسْمَاءُ بِنْت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- أنهم نَحَرُوا فَرَساً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَكَلُوهُ، وفي ذلك دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ أَكْلِ لُحُومِ الخَيْلِ، ولا يَتَوَهَم أَحَدٌ مَنْعَ أَكْلِهَا لاقْتِرَانِهَا مَعَ الحَمِيرِ والْبِغَالِ في الآية، وهي قوله تعالى: (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ)، [ النحل : 8 ].
575;سماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بتا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا۔ اس میں اس بات کی دلالت ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انہیں گدھوں اور خچروں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس لیے ان کا کھانا ممنوع ہے۔ (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ) [ النحل :8]۔
ترجمہ:”گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا تاکہ تم ان کی سواری لو اور وه باعثِ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3000

 
 
Hadith   80   الحديث
الأهمية: نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ


Tema:

میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

عن عُقْبَة بْن عَامِرٍ -رضي الله عنه- قال: «نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مِنْ طَبِيعَةِ الإنسَان أنَّه يَنْدَفِعُ أحياناً فَيُوجِبُ على نفسه مَا يَشُقُّ عليه، وقد جاء شَرْعُنا بالاعتدَال، وعدمِ المشَقَّة عَلى النَّفس في العِبادة حتى تَسْتَمِر، وفي هذا الحدِيثِ طلبت أخت عقبة بن عامر منه، أن يسأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنها نذرت أن تذهب إلى البيت الحرام ماشية حافية، فرَأَى النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أنَّ هذه المرأة تُطِيقُ شَيئاً مِن المشي، فَأمَرَها أَنْ تَمشِي مَا أَطَاقَت المشي، وأَنْ تَرْكَبَ إذا عَجَزَت عَن المشي.
575;نسان کی یہ طبیعت ہے کہ وہ بعض اوقات جذبات کی رو میں اپنے آپ پر کوئی ایسی شے واجب کر بیٹھتا ہے جس کا کرنا اس کے لیے باعثِ مشقت ہوتا ہے۔ ہماری شریعت میں عبادت کے سلسلے میں اعتدال اور عدم مشقت کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ ہمیشہ جاری رہے۔ اس حدیث میں ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں کہ انہوں نے بیت الحرام کی طرف ننگے پاؤں پیدل جانے کی نذر مانگی تھی؟ (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہ عورت کچھ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اس لیے آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اتنا چلے جتنا وہ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اور جب نہ چل سکے تو پھر سوار ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3001

 
 
Hadith   81   الحديث
الأهمية: نَهَى رَسُولُ الله عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إلاَّ مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أَوْ ثَلاثٍ، أَوْ أَرْبَعٍ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے دو یا تین یا چار انگشت کے برابر۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- أَنَّ رَسُولَ الله -صلى الله عليه وسلم- «نهى عن لُبُوسِ الحَرِيرِ إلا هكذا، ورَفَعَ لنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أُصْبُعَيْهِ: السَّبَّابَةَ، والوُسْطَى».
ولمسلم «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن لُبْس ِالحَرِيرِ إلا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أو ثلاثٍ، أو أربعٍ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے۔ (یہ فرما کر) رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو اوپر اٹھایا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے جو دو یا تین یا چار انگشت کے برابر ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى الذكور عن لبس الحرير إلا ما استثني، والمستثنى في الحديث المتفق عليه أصبعين، وفي رواية مسلم أو ثلاث أو أربع، فيؤخذ بالأكثر؛ فلا بأس من مقدار أربعة أصابع من الحرير في اللباس.
585;سول اللہ ﷺ نے مردوں کو ریشم پہننے سے منع فرمایا ماسوا اس مقدار کے جسے اس ممانعت سے مستثنیٰ کیا گیا ۔ متفق علیہ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی) حدیث میں جس مقدار کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ دو انگشت کے برابر ہے، جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں (دو) یا تین یا چار انگشت کا استثناء ہے۔ جو مقدار زیادہ ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ لباس میں چار انگشت کے برابر ریشم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3002

 
 
Hadith   82   الحديث
الأهمية: أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عن لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأذن في لحوم الخيل


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-: (أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن لحوم الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأَذِنَ في لحوم الخيل).
ولمسلم وحده قال: (أكلنا زمن خيبر الخيل وحُمُرَ الوَحْشِ، ونهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الحمار الأَهْلِيِّ).
عن عبد الله بن أبي أوفى -رضي الله عنه- قال: (أصابتنا مجاعة ليالي خيبر، فلما كان يوم خيبر: وقعنا في الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ فانْتَحَرْنَاهَا، فلما غَلَتِ بها القُدُورُ: نادى مُنَادِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أَكْفِئُوا القُدُورَ، وربما قال: ولا تأكلوا من لحوم الحُمُرِ شيئا).
عن أبي ثعلبة -رضي الله عنه- قال: (حَرَّمَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لحوم الحُمُر الأَهْلِيَّةِ).

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔
مسلم کی روایت کے مطابق :خیبر کے موقعے پر ہم نے گھوڑے اور جنگلی گدھے کا گوشت کھایا، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جنگ خیبر کی راتوں میں ہم بھوک کےشکار ہو گئے۔ جب خیبر کی جنگ کا دن آیا، تو ہم پالتو گدھوں پر ٹوٹ پڑے، جب ہماری ہانڈیوں میں گوشت ابلنے لگا، تو اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کردیا کہ ہانڈیاں الٹ دو، پالتو گدھوں کے گوشت میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا ہے

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخبرُ جابرُ بنُ عبدالله -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهَى عن لحُومِ الحُمُرِ الأهْلِيةِ، أي: نَهَى عَنْ أَكْلِهَا، وَأَنَّه أبَاحَ وأَذِنَ في لُحُومِ الْخَيلِ والْحِمَارِ الوَحْشِي، ويُخبر عبدالله بن أبي أوفى -رضي الله عنهما- بأنَّهم حَصَلَتْ لهم مَجَاعَةٌ في لَيَالي مَوْقِعَةِ خَيْبَر، ولما فُتِحَت انْتَحَرُوا مِنْ حُمُرِها، وأَخَذُوا مِنْ لَحْمِها وطَبَخُوهُ، ولما طَبَخُوه أَمَرَهُم النبي -صلى الله عليه وسلم- بكفْئ ِالقدورِ أي قلبها، وعَدَمِ الأَكل من ذلك اللحم.
580;ابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما یہ بتا رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جب کہ گھوڑے اور جنگلی گدھے کے گوشت کو حلال قرار دیتے ہوئے کھانے کی اجازت دی ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ غزوۂ خیبر کےموقع پر ان کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جب فتح حاصل ہو گئی، تو انھوں نے حاصل ہونے والے گدھوں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت لے کر پکایا۔ جب پکا چکے، تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہانڈیاں الٹ دینے اور کھانے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3003

 
 
Hadith   83   الحديث
الأهمية: يا عبدَ الرحمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لا تَسْأَلْ الإِمَارَةَ؛ فَإِنَّكَ إن أُعْطِيتَها عن مسأَلَةٍ وُكِّلْتَ إليها


Tema:

اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔

عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال له: «يا عبد الرحمن بن سَمُرَة، لا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ؛ فإنك إن أُعْطِيتَها عن مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إليها، وإن أُعْطِيتَهَا عن غير مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عليها، وإذا حَلَفْتَ على يمينٍ فرأيتَ غيرها خيرًا منها، فَكَفِّرْ عن يمينك، وَأْتِ الذي هو خير».

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: ”اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔ اور اگر بغیر مانگے تمہیں مل جائے تو اس میں (اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن سؤال الإمارة؛ لأنَّ مَن أعطيها عن مسألةٍ خُذِلَ وتُرِكَ لِرَغْبَتِه في الدنيا وتفضيلها على الآخرة، وأن من أُعْطِيَها عَنْ غَيْرِ مسألةٍ أعانَهُ اللهُ علَيها، وأنَّ الحَلف على شيء لا يكون مانعًا عن الخير، فإن رأى الحالفُ الخيرَ في غيرِ الحلف فلَه التَّخَلُص من الحلف بالكفارة ثم يأت الخير.
585;سول اللہ ﷺ نے امارت مانگنے سے منع فرمایا ہے کیوں کہ جس کو مانگنے سے امارت ملے وہ رسوا کر دیا جائے گا اور اس کو دنیا کی رغبت رکھنے اور اُس کو آخرت پر ترجیح دینے والا مان کر چھوڑ دیا جائے گا۔ اور جس کو بغیر مانگے ملے تو اس پر اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کی جائے گی۔ کسی چیز پر قسم اٹھانا خیر وبھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے اگر قسم اٹھانے والا دیکھتا ہے کہ جس پر قسم اٹھائی گئی ہے اس سے ہٹ کر معاملے میں خیر ہو تو اپنی قسم کا کفارہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرے اور جس میں خیر ہو اسے اختیار کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3004

 
 
Hadith   84   الحديث
الأهمية: ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه


Tema:

کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا۔

عن أبي واقد الحارث بن عوف -رضي الله عنه- أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بينما هو جالس في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ نَفَرٍ، فأقبل اثنان إلى رسول الله، -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد، فوقفا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى فُرْجَةً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فأدْبَر ذاهبٍا، فلما فرغ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه».

ابو واقد حارث بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں تین افراد آئے۔ دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑے ہو گیے۔ ان میں سے ایک نے حلقے میں کچھ کشادگی دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا جب کہ تیسرا واپس لوٹ گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاوں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی (کہ اسے مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا) اورتیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان جالسا في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ رجال، فأقبل اثنان إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد؛ فوقفا عند حلقة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى مكاناً فارغاً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، والحلقة رجال جالسون على شكل دائرة أمام النبي -صلى الله عليه وسلم- وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فرجع وانصرف، فلما فرغ وانتهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من حديثه الذي كان فيه، قال للصحابة ألا أُخْبِرُكُم عن الرجال الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه أي جلس في المكان الفارغ يستمع ذكر الله فأكرمه الله بفضيلة ذلك المجلس المبارك، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه أي امتنع من المزاحمة؛ فجلس خلف الحلقة فلم يُمنع من بركة المجلس، وأما الآخر فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه أي ذهب بلا عذر فمُنع بركة المجلس.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں لوگوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں تین آدمی وہاں آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کےحلقے کے پاس آکر کھڑے ہوگیے۔ ان میں سے ایک کو حلقے میں خالی جگہ نظر آئی تو وہ وہاں بیٹھ گیا۔ اس حلقے میں کچھ لوگ تھے جو نبی ﷺ کے سامنے گول دائرے کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ دوسرا شخص ان کے پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا شخص واپس لوٹ گیا۔ نبی ﷺ جو گفتگو فرما رہے تھے اس سے جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا یعنی اس نے خالی جگہ پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر سننا شروع کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس مبارک مجلس کی فضیلت سے نوازا۔ جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی یعنی (کسی کو ) دھکیلے بغیر وہ حلقے کے پیچھے بیٹھ گیا چنانچہ اسے بھی اس مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا گیا۔ جب کہ تیسرے شخص نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا یعنی وہ بلا کسی عذر کے واپس چلا گیا اس لیے مجلس کی برکت سے محروم کر دیا گیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3005

 
 
Hadith   85   الحديث
الأهمية: قال قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ


Tema:

آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو:”اے اللہ!،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے، اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شراوراس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن أبا بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: يا رسول الله مُرني بكلمات أقُولُهُنَّ إذا أصبَحتُ وإذا أمسَيتُ، قال: «قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة، ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ وأن أقترف على نفسي سوءًا أو أجرُّه إلى مسلم» قال: «قلها إذا أصبحت، وإذا أمسيت، وإذا أخذْتَ مَضْجَعَك».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیں جنھیں میں صبح شام پڑھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: ((اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالمَ الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهدُ أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ)) ترجمہ: ”اے اللہ،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے،اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر نیز شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب صبح کرو تب یہ (دعا) پڑھو، جب شام کرو تب بھی پڑھو اور جب اپنے بستر پر جاؤ اس وقت بھی پڑھو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الذكر من الأذكار التي تقال في الصباح والمساء، والذي علَّمها النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر -رضي الله عنه- حيث قال: علمني.   فعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم- ذكرًا ودعاءً يدعو به كلما أصبح وكلما أمسى، وأمره أن يقول: (اللهم فاطر السماوات والأرض) يعني: يا الله يا فاطر السماوات والأرض وفاطرهما، يعني أنه خلقهما عز وجل على غير مثال سبق، بل أبدعهما وأوجدهما من العدم على غير مثال سبق.
(عالم الغيب والشهادة) أي: عالم ما غاب عن الخلق وما شاهدوه؛ لأن الله تعالى يعلم الحاضر والمستقبل والماضي.
(رب كل شيء ومليكه)، يعني: يا رب كل شيء ومليكه، والله تعالى هو رب كل شيء وهو مليك كل شيء.
(أشهد أن لا إله إلا أنت): أعترف بلساني وقلبي أنه لا معبود حق إلا أنت، فكل ما عبد من دون الله فإنه باطل لا حق له في العبودية ولا حق في العبودية إلا لله وحده -عز وجل-.
قوله: أ(عوذ بك من شر نفسي)؛ لأن النفس لها شرور كما قال -تعالى-: (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)، فإذا لم يعصمك الله من شرور نفسك فإنها تضرك وتأمرك بالسوء، ولكن الله إذا عصمك من شرها وفقك إلى كل خير.
وختم النبي -عليه الصلاة والسلام- بقوله: (ومن شر الشيطان وشِرْكه) وفي لفظ وشَرَكه، يعني: تسأل الله أن يعيذك من شر الشيطان ومن شر شِركه، أي: ما يأمرك به من الشِّرك أو شَرَكه، والشَرَك: ما يصاد به الحوت والطير وما أشبه ذلك؛ لأن الشيطان له شرَك يصطاد به بني آدم إما شهوات أو شبهات أو غير ذلك، (وأن أقترف على نفسي سوءًا)، أي: أجر على نفسي سوءًا (أو أجره إلى مسلم).
فهذا الذكر أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر أن يقوله إذا أصبح وإذا أمسى وإذا أخذ مضجعه.
740;ہ ذکر ان اذکار میں سے ہے جنہیں صبح و شام کیا جاتا ہے اور جس کی تعلیم نبی ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی جب انھوں نے عرض کیا کہ: "مجھے سکھائیں"۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انھیں صبح و شام کیا جانے والا ذکر اور دعا سکھائی اور ان سے کہا کہ وہ یوں کہا کریں: " اللهم فاطرَ السماواتِ والأرضِ"۔ یعنی اے اللہ، اے آسمانوں اور زمین دونوں کے پیدا کرنے والے!۔ "فاطر" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کیا اور بنا کسی پیشگی مثال کے انھیں عدم سے وجود بخشا۔
"عالم الغيب و الشهادة"۔ یعنی ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے جنھیں وہ دیکھتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ حال، مستقبل اور ماضی سب سے واقف ہے۔
"رب كل شئ و مليكه"۔ یعنی اے ہر چیز کے رب اور ہر چیز کے مالک!۔ اللہ تعالی ہر چیز کے رب اور مالک ہیں۔
"أشهد أن لا إله إلا أنت"۔ میں اپنی زبان اور دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اللہ کے علاوہ جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور عبودیت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ عبودیت کے حق دار صرف اور صرف اللہ عز و جل ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "أعوذ بك من شر نفسي"۔ کیوں کہ نفس کی شر انگیزیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي‘‘ (یوسف: 53)۔ ترجمہ: "اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے اِلاّ یہ کہ جس پر میرا رب مہربانی کرے"۔ جب اللہ آپ کو آپ کے نفس کی شر انگیزیوں سے نہ بچائے تو وہ آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور برائی پر اکساتا ہے۔ لیکن اگر اللہ آپ کو اس کے شر سے محفوظ کر دے تو آپ کو ہر نیکی کی توفیق دیتا ہے۔
نبی ﷺ نے اپنی دعا کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ فرمایا: " ومن شر الشيطان وشِرْكه"۔ ایک اور روایت میں " و شَرَكه" کے الفاظ ہیں۔ یعنی آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ آپ کو شیطان کے شر اور اس شرک سے پناہ دے جس پر وہ اکساتا ہے یا اس کے جال سے بچائے۔ "الشَرَک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے مچھلیاں اور پرندے وغیرہ شکار کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ شہوات و شبہات وغیرہ شیطان کے جال ہیں جن سے وہ انسانوں کا شکار کرتا ہے۔
" وأن اَقترفُ على نفسي سوءا"۔ یعنی خود اپنے آپ کے ساتھ کچھ برا کروں یا پھر کسی مسلمان کو برائی پہنچاؤں۔ نبی ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس ذکر کو صبح و شام اور اس وقت کیا کریں جب اپنے بستر پر لیٹ جائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3006

 
 
Hadith   86   الحديث
الأهمية: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله


Tema:

معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

عن أبي  سعيد الخدري –رضي الله عنه- قال: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله، قال: آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟ قالوا: ما أجلسنا إلا ذاك، قال: أما إنّي لم استَحْلِفْكُم تُهْمَةً لكم، وما كان أحد بمنزلتي من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أقَلَّ عنه حديثاً مِنِّي: إنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خَرَجَ على حَلْقَةٍ من أصحابه فقال: «ما أَجْلَسَكم؟» قالوا: جلسنا نذكر الله ونَحْمَدُهُ على ما هَدَانا للإسلام؛ ومَنَّ بِهِ علينا، قال: «آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟» قالوا: والله ما أجلسنا إلا ذاك، قال: «أما إنّي لم أستحلفكم تُهْمَةً لكم، ولكنه أتاني جبريل فأخبرني أن الله يُبَاهِي بكم الملائكة».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا: قسم کھاؤ کہ تم صرف اس غرض سے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے کہا: ہم صرف اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک تھا۔کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو( رسول اللہ ﷺ سے) احادیث کو روایت کرنے میں مجھ سے کم ہو۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے کے پاس آئے اور فرمایا: تم کس لیے بیٹھے ہو؟ ۔ انھوں نے جواب دیا:ہم بیٹھے اللہ کا ذکر کر ر ہے ہیں اور اس نے دین اسلام کی طرف ہدایت بخش کر ہم پر جو احسان کیا اس پراس کی حمد بیان کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم کھاؤ کہ تم اسی غرض سے بیٹھے ہو۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک ہے۔ بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کر تے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث من الأحاديث التي تدل على فضيلة الاجتماع على ذكر الله -عز وجل-، وهو ما رواه أبو سعيد الخدري عن معاوية -رضي الله عنهما- أنه خرج على حلقة في المسجد فسألهم على أي شيء اجتمعوا، فقالوا: نذكر الله، فاستحلفهم -رضي الله عنه- أنهم ما أرادوا بجلوسهم واجتماعهم إلا الذكر، فحلفوا له، ثم قال لهم: إني لم أستحلفكم تهمة لكم وشكًّا في صدقكم، ولكني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج على قوم وذكر مثله، وأخبرهم أن الله -عز وجل- يباهي بهم الملائكة، فيقول مثلا: انظروا إلى عبادي اجتمعوا على ذكري، وما أشبه ذلك، مما فيه المباهاة، ولكن ليس هذا الاجتماع أن يجتمعوا على الذكر بصوت واحد، ولكن يذكرون أي شيء يذكرهم بالله -تعالى- من موعظة وذكرى أو يتذكرون نعمة الله عليهم بما أنعم عليهم من نعمة الإسلام وعافية البدن والأمن، وما أشبه ذلك، فإن ذكر نعمة الله من ذكر الله -عز وجل-، فيكون في هذا دليل على فضل جلوس الناس ليتذاكروا نعمة الله عليهم.
740;ہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جو اللہ عز و جل کے ذکر کے لیے جمع ہونے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حدیث کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ مسجد میں لگے ایک حلقے کے پاس آئے اور ان لوگوں سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بات پر قسم اٹھوائی کہ وہ اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور صرف اسی مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس بات پر انھوں نے قسم اٹھا لی۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے تم سے اس وجہ سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تمہاری سچائی میں کچھ شک تھا بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے ان سے اسی طرح قسم اٹھوائی تو انھوں نے قسم کھا لی۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ عز و جل ان پر فرشتوں کے سامنے فخر کر تا ہے، مثلاً وہ کہتا ہے: میرے بندوں کو دیکھوکہ وہ میرا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور بات کہتا ہے جس سے اظہارِ فخر ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ یہ کوئی ایسا اجتماع نہیں تھا جس میں وہ یک آواز ہو کر ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہوں بلکہ وہ ہر اس چیز کا ذکر کر رہے تھے جو انہیں اللہ کی یاد دلاتی جیسے کوئی نصیحت و موعظت یا پھر اللہ نے انھیں جس نعمت اسلام، جسمانی عافیت اور امن سے نوازا تھج، اسے یاد کر رہے تھے۔ اللہ کی کسی نعمت کا ذکر کرنا خود اللہ عز و جل کا ذکر کرنا ہے۔ اس حدیث میں لوگوں کا اکٹھے ہو کر آپس میں ان پر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3007

 
 
Hadith   87   الحديث
الأهمية: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له


Tema:

جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"

عن عبد الله بن مسعود-رضي الله عنه- قال: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: «أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له» قال الراوي: أَرَاهُ قال فِيهِنَّ: «له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، ربِّ أسألك خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها، وأعوذ بك من شر ما في هذه الليلة وشر ما بعدها، رب أعوذ بك من الكسل، وسُوءِ الكِبَرِ، رب أعوذ بك من عذاب في النار، وعذاب في القبر»، وإذا أصبح قال ذلك أيضا «أصبحنا وأصبح الملك لله».
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"
ترجمہ: ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام حاصل رہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ ان کے ساتھ یہ کلمات بھی کہتے: "لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ربِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ "۔
ترجمہ: بادشاہی اسی کی ہے اور ہر قسم کی حمد بھی اُسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے میرے رب! میں تجھ سے اِس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اُس کی بھی جو اس کے بعد ہے۔ اور اس رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اُس سے بھی جو اس کے بعد ہے۔ اے رب! میں سستی سے اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے رب ! میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اور جب صبح کرتے، تو بھی یہی دعا پڑھتے، لیکن "أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ" فرماتے۔ترجمہ: ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هديه -عليه الصلاة والسلام- عند دخول الصباح والمساء أن يقول هذه الأدعية المباركة، فقوله: (أمسينا وأمسى الملك لله) أي :دخلنا في المساء ودام الملك فيه لله مختصًا به، (والحمد لله) أي: جميع الحمد لله، أي: أمسينا وعرفنا فيه أن الملك لله وأن الحمد لله لا لغيره، (ولا إله إلا الله) أي: منفردًا بالألوهية.
قوله: (رب أسألك من خير هذه الليلة) أي ذاتها وعينها (وخير ما فيها) أي: من خير ما ينشأ ويقع ويحدث فيها وخير ما يسكن فيها، (وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) أي من الليالي وما فيها من شر يلحق الدين والدنيا.
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) أي التثاقل في الطاعة مع الاستطاعة، ويكون ذلك لعدم انبعاث النفس للخير مع ظهور الاستطاعة.
(وسوء الكِبَر) بمعنى الهرم والخرف وكبر السن المؤدي إلى تساقط بعض القوى وضعفها وهو الرد إلى أرذل العمر؛ لأنه يفوت فيه المقصود بالحياة من العلم والعمل، لما يورثه كبر السن من ذهاب العقل، واختلاط الرأي والتخبط فيه، والقصور عن القيام بالطاعة وغير ذلك مما يسوء الحال، وروي بإسكان الباء بمعنى البطر أي الطغيان عند النعمة والتعاظم على الناس، (وعذاب القبر) أي من نفس عذابه أو مما يوجبه.
(وإذا أصبح) أي دخل -صلى الله عليه وسلم- في الصباح (قال ذلك) أي: ما يقول في المساء (أيضًا) أي لكن يقول بدل "أمسينا وأمسى الملك لله" (أصبحنا وأصبح الملك لله) ويبدل اليوم بالليلة فيقول: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم، ويذكر الضمائر بعده.
589;بح وشام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں پڑھا کرتے تھے۔
آپ ﷺ فرماتے: (أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ): یعنی ہم شام کے وقت میں داخل ہوئے اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا اور وہ اسی کے لیے خاص ہے۔
(وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) یعنی ہم شام میں داخل ہوئے اور تعریف سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی شام کے آنے پر ہم نے جان لیا کہ بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور حمد کا سزاوار بھی صرف وہی ہے۔
(وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) یعنی الوہیت میں وہ یکتا ہے۔
(رب إني أسألك من خير هذه الليلة) یعنی میں تجھ سے اس رات کی ذات کی بھلائی طلب کرتا ہوں۔
(وخير ما فيها) یعنی ہر اس شے کی بھلائی مانگتا ہوں، جو اس میں وجود میں آتی اور وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس میں ٹھہرتی ہے۔
(وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) یعنی راتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور ان میں دین و دنیا کو لاحق ہونے والے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) یعنی استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی نیکیوں میں سستی سے پناہ چاہتا ہوں۔ ایسا تب ہوتا ہے، جب استطاعت کے با وجود نفس نیکی پر آمادہ نہ ہو۔
(وسوء الكِبَر) یعنی بڑھاپے اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگتا ہوں۔ یعنی کبر سنی سے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کام چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتا ہے: کیوںکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم وعمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔
ایک روایت میں ”الکبر“ باء پر سکون کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو   ‎   ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔
(وعذاب القبر) یعنی خود قبر کے عذاب سے یا پھر جن باتوں کی وجہ سے یہ ہوتا ہے، ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(وإذا أصبح) یعنی آپ ﷺ جب صبح کرتے، تو اسی طرح کہتے یعنی وہی کچھ کہتے، جو شام کو کہتے تھے، لیکن ”أمسينا و أمسى الملك لله“ کی بجائے ”أصبحنا و أصبح الملك لله“ کہتے اور ”الليلة“ کو ”اليوم“ سے بدل دیتے اور فرماتے: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم۔ اور اس کے بعد دن کے ضمائر کو ذکر کرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3008

 
 
Hadith   88   الحديث
الأهمية: بينما الناس بقباء في صلاة الصبح إذ جاءهم آت، فقال: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل القبلة، فاستقبلوها


Tema:

لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبی ﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «بَينَمَا النَّاس بِقُبَاء في صَلاَة الصُّبحِ إِذْ جَاءَهُم آتٍ، فقال: إِنَّ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزِل عليه اللَّيلةّ قرآن، وقد أُمِرَ أن يَستَقبِل القِبْلَة، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وكانت وُجُوهُهُم إلى الشَّام، فَاسْتَدَارُوا إِلى الكَّعبَة».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبیﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں۔ (اس وقت) ان لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے، تو (يہ سن کر) سب کعبہ کی طرف گھوم گئےـ

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج أحد الصحابة إلى مسجد قباء بظاهر المدينة، فوجد أهله لم يبلغهم نسخ القبلة، ولا زالوا يصلون إلى القبلة الأولى، فأخبرهم بصرف القبلة إلى الكعبة، وأنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزل عليه قرآن في ذلك -يشير إلى قوله تعالى:{ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}، [البقرة: 144] وأنه -صلى الله عليه وسلم- استقبل الكعبة، فمن فقههم وسرعة فهمهم وصحته استداروا عن جهة بيت المقدس -قبلتهم الأولى- إلى قبلتهم الثانية، الكعبة المشرفة.
575;يک صحابي مدينہ کے نواح میں مسجد قباء کی طرف گئے تو پتہ چلا کہ وہاں کے لوگوں کواب تک قبلہ کی تبديلی کا علم نہيں ہوا ہے اور وہ لوگ ابھی بھی قبلۂ اول (بيت المقدس) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے ہيں، تو انہيں بتلايا کہ قبلہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا گيا ہے، اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، صحابی رضی اللہ عنہ کا اشارہ اللہ تعالیٰٰ کے اس فرمان کی طرف تھا: { قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}[البقرة: 144] ''ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔''(سورہ بقرہ:144) اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہء کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ لہذا ان لوگوں نے دین کی گہری سمجھ، تيز فہمی اور صحيح فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے قبلہ بيت المقدس کی طرف سے اپنا رخ موڑ کر اپنے دوسرے قبلہ خانہءکعبہ کی طرف کرليا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3009

 
 
Hadith   89   الحديث
الأهمية: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة


Tema:

ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: "ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہاہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے؛ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: «إنهما ليُعذَّبان، وما يُعذَّبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: ”ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہاہے؛ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مرَّ النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومعه بعض أصحابه بقبرين، فكشف الله -سبحانه وتعالى- له عن حالهما، وأنهما يعذبان، فأخبر أصحابه بذلك؛ تحذيراً لأمته وتخويفاً، فإنَّ صاحبي هذين القبرين، يعذَّب كل منهما بذنب  تركُه والابتعادُ عنه يسيرٌ على من وفقه الله لذلك.
فأحَدُ المعذَّبَيْن كان لا يحترز من بوله عند قضاء الحاجة، ولا يتحفّظ منه، فتصيبه النَجاسة فتلوث بدنه وثيابه ولا يستتر عند بوله، والآخر يسعى بين الناس بالنميمة التي تسبب العداوة والبغضاء بين الناس، ولاسيما الأقارب والأصدقاء، يأتي إلى هذا فينقل إليه كلام ذاك، ويأتي إلى ذاك فينقل إليه كلام هذا؛ فيولد بينهما القطيعة والخصام. والإسلام إنما جاء بالمحبة والألفة بين الناس وقطع المنازعات والمخاصمات.
ولكن الكريم الرحيم -صلى الله عليه وسلم- أدركته عليهما الشفقة والرأفة، فأخذ جريدة نخل رطبة، فشقَّها نصفين، وغرز على كل قبر واحدة، فسأل الصحابة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن هذا العمل الغريب عليهم، فقال: لعل الله يخفف عنهما بشفاعتي ما هما فيه في العذاب، ما لم تيبس هاتان الجريدتان، أي مدة بقاء الجريدتين رطبتين، وهذا الفعل خاص به -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی کریم ﷺ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ دو قبروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے حالات سے آگاہ فرما دیا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپﷺ نے اپنی امت کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لیے صحابہ کو بتادیا کہ ان دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور جن گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، اللہ کی توفیق سے ان کو چھوڑنا اور ان سے بچنا بھی چنداں مشکل نہیں۔
ان میں سے ایک کو عذاب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ قضائے حاجت کے وقت پیشاب کے چھینٹوں سےاجتناب نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ پیشاب کی نجاست سے اس کے کپڑے اور بدن آلودہ ہو جاتے تھے، نیز پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ جب کہ دوسرا شخص لوگوں میں چغلی کرتا پھرتا تھا، جو لوگوں بالخصوص رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا سبب بنتی تھی۔ اس کے پاس آتا تو اس کی باتیں بتاتا اور اس کے پاس جاتا تو اس کی باتیں بتاتا؛ اس طرح ان کے درمیان قطع تعلقی اور جھگڑا پیدا کرتا۔ جب کہ اسلام لوگوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے اور تنازع و جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔
رحم وکرم کے پیکر نبیﷺ کو ان پر شفقت اور رحم آیا۔ چنانچہ کھجور کی ایک تر شاخ پکڑی، اسے چیر کر دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عجیب وغریب عمل کے بارے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شاید میری سفارش کی وجہ سے ان پر ہونے والے عذاب میں اللہ تعالیٰ اس وقت تک تخفیف فرما دے، جب تک یہ خشک نہیں ہو جاتیں۔ یعنی جب تک ان میں تری باقی رہے۔ واضح رہے کہ یہ فعل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3010

 
 
Hadith   90   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بالأمير خيرا، جعل له وزير صدق، إن نسي ذكره، وإن ذكر أعانه، وإذا أراد به غير ذلك جعل له وزير سوء، إن نسي لم يذكره، وإن ذكر لم يعنه


Tema:

جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعًا: «إِذَا أَرَادَ اللهُ بِالأمِيرِ خَيرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدقٍ، إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ بِهِ غَيرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ، إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أنّ الله تعالى: "إذا أراد  بالأمير خيراً"، وفسِّرت هذه الخيرية لمن وُفِّق لوزير صدق من الأمراء بخيرية التوفيق لخيري الدارين، كما فسرت هذه الخيرية بالجنة.
وقوله: "جعل له وزير صدق" أي في القول والفعل، والظاهر والباطن، وأضافه إلى الصدق؛ لأنَّه الأساس في الصُحبة وغيرها.
فــ"إن نسي" أي: هذا الأمير، فإن نسي ما يحتاج إليه -والنسيان من طبيعة البشر-، أو ضلّ عن حكم شرعي، أو قضية مظلوم، أو مصالح لرعية، "ذكَّره" أي: هذا الوزير الصادق وهداه.
"وإن ذكر" الأمير ذلك، "أعانه" عليه بالرأي والقول والفعل.
608;أما قوله: "وإذا أراد به غير ذلك" أي: غير الخير، بأن أراد به شرّاً، كانت النتيجة "جعل له وزير سوء" والمراد: وزير سوء في القول، والفعل، نظير ما سبق في ضده.
"إن نسي" أي: ترك مالا بد منه "لم يذكِّره" به؛ لأنه ليس عنده من النور القلبي ما يحمله على ذلك.
"وإن ذكر لم يعنه" بل يسعى في صرفه عنه؛ لشرارة طبعه، وسوء صنعه.


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے“۔ اس حدیث میں ارادے سے مراد کونی و قدری ارادہ ہے۔ اسی لیے اس میں خیر و شر دونوں ہی اقسام کے ساتھ تعلق کا ذکر ہوا ہے؛ کیونکہ اللہ اسے کبھی پسند کرتا ہے اور کبھی ناپسند کرتا ہے۔ یہ ارادہ اپنی وسعت کے ذریعے شرعی ارادے کو بھی شامل ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے۔ حکمرانوں میں سے جسے راست باز و خیر خواہ وزیر مل جائے اس کو ملنے والی اس خیر کی تفسیر دونوں جہانوں کی بھلائی کی توفیق ملنے سے کی گئی ہے، اسی طرح اس خیر کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد جنت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ راست باز وزیر عطا کر دیتا ہے۔" یعنی جو قول و فعل اور ظاہر و باطن میں سچا ہوتا ہے۔ وزیر کی اضافت سچ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ صحبت وغیرہ میں سچائی ہی بنیاد ہوتی ہے۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی وہ امیراگر اپنی کسی ضرورت کی بات کو بھول جائے – اور بھولنا انسان کی فطرت ہے - ، یا کسی شرعی حکم یا مظلوم کے معاملے یا رعیت کے مفاد کا خیال کرنے سے بھٹک جائے تو ”وہ اس کو یاد دہانی کرا دیتا ہے“۔ یعنی یہ سچا وزیر اسے یاد کرا دیتا ہے اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔
اگر حاکم کو وہ یاد ہو تو پھر رائے اور قول و فعل کے ذریعے سے اس کی مدد کرتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کا اس کے علاوہ کسی اور شے کا ارادہ ہو“۔ یعنی خیر کے بجائے کسی اور شے کا ارادہ ہو جیسے کہ شر کا ارادہ ہو۔ آپ ﷺ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اس کو بیان کیا تا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ شر سے اجتناب کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب آپ ﷺ اس کی قباحت اور شناعت کی وجہ سے اس کے نام یعنی شر کے ذکر سے بھی اجتناب کر رہے ہیں تو اس کے مدلول سے تو بطریق اولی اجتناب کرنا چاہیے۔ خیر کے لئے اسم اشارہ "ذلک" استعمال کیا گیا جو کہ بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی تعظیم اور اس کے علو مرتبت کا بیان ہے اور اسے پانے اورحاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
خیر کے علاوہ کے ارادہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ”اللہ اس کے لیے برا وزیر مقرر کر دے گا“۔ یعنی ایسا وزیر جو قول و فعل میں برا ہو گا۔ یعنی سابق الذکر وزیر کا الٹا ہو گا۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی کسی ضروری شے کو چھوڑ دے تو ”وہ اسے یاد نہیں کراتا“ کیونکہ اس کے پاس وہ قلبی نور نہیں ہوتا جو اسے اس کام پر ابھارے۔
”اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا“ بلکہ وہ اپنی فطری برائی اور بد کرداری کی وجہ سے اسے اس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3011

 
 
Hadith   91   الحديث
الأهمية: ما بعث الله من نبي، ولا استخلف من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتحضه عليه، وبطانة تأمره بالشر وتحضه عليه


Tema:

اللہ نے کوئی ایسا نبی اور خلیفہ نہیں بھیجا کہ اس کے مشیر (صلاح کار)دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسے نیکی اوربھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے برائی کا حکم دیتے ہیں اوراس پر اسے ابھارتے رہتے ہیں۔

عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "ما بعث الله من نبي ولا اسْتَخْلَفَ من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتَحُضُّهُ عليه، وبطانة تأمره بالشر وتَحُضُّهُ عليه، والمعصوم من عصم الله".

ابوسعید خدری - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم و محفوظ تو وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم و محفوظ رکھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- أن الله ما بعث من نبي ولا استخلف من خليفة إلا كان له بطانتان: بطانة خير تأمره بالخير وتحثه عليه، وبطانة سوء تدله على السوء وتأمره به، والمحفوظ من تأثير بطانة الشر هو من حفظه الله -تعالى-.
606;بی علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہےاور برائی کے مشیر کی تاثیر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3012

 
 
Hadith   92   الحديث
الأهمية: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول


Tema:

جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِذَا سَمِعتُم المُؤَذِّن فَقُولُوا مِثلَ مَا يَقُول».

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا سمعتم المؤذن للصلاة فأجيبوه، بأن تقولوا مثل ما يقول، جملة بجملة، فحينما يكبر فكبروا بعده، وحينما يأتي بالشهادتين، فأتوا بهما بعده، فإنه يحصل لكم من الثواب ما فاتكم من ثواب التأذين الذي حازه المؤذن، والله واسع العطاء، مجيب الدعاء.
يستثنى من الحديث لفظ: (حي على الصلاة، حي على الفلاح) فإنه يقول بعدها: لا حول ولا قوة إلا بالله.
580;ب تم مؤذّن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اس کا جواب دو بایں طور کہ جملہ بجملہ ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ جب وہ ’’اللہُ اَکبَرْ‘‘ کہے تو اس کے پیچھے پیچھے تکبیر کہو، جب شہادتین کو ادا کرے تو تم بھی اس کے بعد انہیں ادا کرو۔ مؤذّن کو اذان دینے کا جو ثواب حاصل ہوا ہے اور جس سے تم محروم رہے ہو وہ تمہیں بھی حاصل ہو جائے گا۔ اللہ بہت زیادہ دینے والا اور دعا کو قبول کرنے والا ہے۔
اس حدیث (ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے) سے ”حيّ علی الصلاۃ“ اور ”حيّ علی الفلاح“ مستثنی ہیں، اذان کا جواب دینے والا ان کلمات کی جگہ ”لا حول ولا قوّۃ الا باللہ“ کہے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3013

 
 
Hadith   93   الحديث
الأهمية: كنت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في سفر، فأهويت لأنزع خفيه، فقال: دعهما؛ فإني أدخلتهما طاهرتين، فمسح عليهما


Tema:

میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا ۔

عن المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- قال: ((كُنت مع النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- في سَفَر، فأهْوَيت لِأَنزِع خُفَّيه، فقال: دَعْهُما؛ فإِنِّي أدخَلتُهُما طَاهِرَتَين، فَمَسَح عليهما)).

مغیر بن شعبہ - رضی اللہ عنہ- بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالتِ طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان المغيرة -رضي الله عنه- مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في أحد أسفاره -وهو سفره في غزوة تبوك-، فلما شرع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الوضوء، وغسل وجهه ويديه، ومسح رأسه، أهوى المغيرة إلى خفي النبي -صلى الله عليه وسلم- لينزعهما؛ لغسل الرجلين، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- اتركهما ولا تنزعهما، فإني أدخلت رجلي في الخفين وأنا على طهارة، فمسح النبي -صلى الله عليه وسلم- على خفيه بدل غسل رجليه.
وكذلك الجوارب ونحوها تأخذ حكم الخفين.
605;غیرہ - رضی اللہ عنہ- ایک سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ کا یہ سفر غزوۂ تبوک کا سفر تھا۔ جب نبی ﷺ نے وضو کرنا شروع کیا اور آپ ﷺ اپنا چہرہ انوراور اپنے ہاتھ دھو چکے اور آپ ﷺ نے اپنے سر کا مسح کرلیا تو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے موزوں کو اتارنے کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ پاؤں دھوئے جا سکیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو اور انہیں نہ اتارو۔ میں ںے اپنے پاؤں کو موزوں میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے پاؤں کو دھونے کے بجائے اپنے موزوں پرمسح فرمایا۔
جرابوں وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو موزوں کا ہے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3014

 
 
Hadith   94   الحديث
الأهمية: إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم


Tema:

بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ بِلالاً يُؤَذِّن بِلَيلٍ، فَكُلُوا واشرَبُوا حتَّى تَسمَعُوا أَذَان ابنِ أُمِّ مَكتُوم».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان للنبي -صلى الله عليه وسلم- مؤذنان: بلال بن رباح وعبد الله بن أم مكتوم -رضي الله عنهما- وكان ضريرًا، فكان بلال يؤذن لصلاة الفجر قبل طلوع الفجر؛ لأنها تقع وقت نوم ويحتاج الناس إلى الاستعداد لها قبل دخول وقتها، فكان -صلى الله عليه وسلم-  يُنَبِّه أصحابه إلى أن بلالًا -رضي الله عنه- يؤذن بليل، فيأمرهم بالأكل والشرب حتى يطلع الفجر، ويؤذن المؤذن الثاني وهو ابن أم مكتوم -رضي الله عنه- لأنه كان يؤذن مع طلوع الفجر الثاني، وذلك لمن أراد الصيام، فحينئذ يكف عن الطعام والشراب ويدخل وقت الصلاة، وهو خاص بها، ولا يجوز فيما عداها أذان قبل دخول الوقت، واختلف في الأذان الأول لصلاة الصبح، هل يكتفي به أو لابد من أذان ثان لدخول الوقت؟ وجمهور العلماء على أنه مشروع ولا يكتفى به.
606;بی ﷺ کے دو موذن تھے۔ ایک بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور دوسرے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ نا بینا تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے پہلے فجر کی اذان دیا کرتے تھے، کیونکہ فجر کی نماز سونے کے وقت میں پڑتی ہے اور لوگوں کو اس کا وقت ہونے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لھٰذا نبی ﷺ لوگوں کو تنبیہ فرمایا کرتے تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ انہیں اس وقت تک کھانے پینے کاحکم دیتے جب تک فجر طلوع نہ ہو جائے اور دوسرے موذن، جو کہ ابن ام مکتوم ہیں، اذان نہ دے دیں، کیونکہ وہ فجر ثانی کے طلوع پر اذان دیا کرتے تھے۔ یہ حکم اس کے لیے ہے جو روزہ رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس وقت وہ کھانے پینے سے رک جائے گا اور اسی پر نماز کا وقت ہو جائے گا۔ یہ صرف نماز فجر کے ساتھ خاص ہے اور اس کے علاوہ دیگر نمازوں میں نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے۔ صبح کی نماز کی پہلی اذان کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا پھر وقت ہونے پر دوسری اذان دینا ضروری ہے؟ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ پہلی اذان دینا مشروع ہے اور اس پر اکتفا نہیں کیا جائے گا (بلکہ طلوع فجر ثانی پر دوسری اذان بھی دی جائے گی۔)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3015

 
 
Hadith   95   الحديث
الأهمية: ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل الوكت، ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل أثر المجل


Tema:

آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنه- قال: حَدَثَنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حدِيثَين قَد رَأَيتُ أَحَدَهُما وأنا أنتظر الآخر: حدثنا أنَّ الأمَانة نَزَلَت في جَذر قُلُوب الرِّجال، ثمَّ نزل القرآن فَعَلِموا مِن القرآن، وعَلِمُوا مِن السُنَّة، ثمَّ حدَّثنا عن رفع الأمانة، فقال: «يَنَامُ الرَّجُلُ النَّومَة فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثلَ الوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّومَةَ فَتُقبَض الأَمَانَة مِن قَلْبِه، فَيَظَلُّ أَثَرُها مِثل أَثَر المَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِراً وَلَيس فِيه شَيء»، ثم أَخَذ حَصَاةً فَدَحْرَجَه على رجله «فَيَصبَح النَّاس يَتَبَايَعُون، فَلاَ يَكَاد أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ حَتَّى يُقَال: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَن رَجُلاً أَمِيناً، حَتَّى يُقَال للرَّجُل: مَا أَجْلَدَهُ! مَا أَظْرَفَه! مَا أَعْقَلَه! وَمَا فِي قَلبِه مِثْقَالُ حَبَّة مِن خَرْدَل مِنْ إيمان»، ولَقَد أتى عَلَيَّ زَمَان وما أُبَالي أَيُّكُم بَايعت: لئِن كان مُسلِمًا لَيَرُدَنَّه عَلَيَّ دِينه، وَإِن كان نصرانيا أو يهوديا ليَرُدنَّه عَلَيَّ سَاعِيه، وأَمَّا اليوم فَمَا كُنت أَبَايِعُ مِنكُم إِلاَّ فُلاَنا وفُلاَناً».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو باتیں بیان فرمائیں: ان میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے اور دوسری کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ (گہرائی) میں اتری (یعنی اسے فطرت کا حصہ بنایا) پھر قرآن کا نزول ہوا اور انہوں نے اسے (یعنی امانت کو) قرآن اور سنت سے جانا۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(اس طرح کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔ جیسے ایک انگارہ ہو، جسے تو اپنے پیر پر لڑھکائے تو اس سے چھالہ نمودار ہو جائے، چنانچہ تو اسے ابھرا ہوا تو دیکھتا ہے لیکن اس میں کوئی چیز باقی نہیں ہوتی’’۔ پھرآپ ﷺ نے ایک کنکری کو لیا اور (مثال سمجھانے کے لیے) اسے پاؤں پر لڑھکایا۔ ‘‘پس لوگ صبح کے وقت آپس میں خرید وفروخت کرتے ہوں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہ پھٹکتا ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کی اولاد میں ایک امانت دار آدمی تھا، حتی کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط، کس قدر ہشیار اور کس قدر عقل مند ہے! حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا’’۔ (راوی حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) ‘‘بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزرچکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں، اس لیے کہ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر مسلمان ہے تو اس کو اس کا دین مجھ پر میری چیز لوٹا دے گا اور اگر عیسائی یا یہودی ہے تو اس کا ذمے دار (نگراں) مجھے میری چیز واپس کر دے گا، لیکن آج میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی (یعنی خاص لوگوں) سے خرید وفروخت کرتا ہوں۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوضح الحديث أنَّ الأمانة تزول عن القلوب شيئاً فشيئا، فإذا زال أول جزء منها زال نوره وخلفه ظلمة كالوَكْت وهو أعراض لون مخالف اللون الذي قبله، فإذا زال شيء آخر صار كالمجل وهو أثر محكم لا يكاد يزول إلا بعد مدة، وهذه الظلمة فوق التي قبلها ثم شبَّه زوال ذلك النور بعد وقوعه في القلب وخروجه بعد استقراره فيه واعتقاب الظلمة إيَّاه بجمر يدحرجه على رجله حتى يؤثر فيها ثم يزول الجمر ويبقى النفط؛ وأخذه الحصاة ودحرجته إياها أراد به زيادة البيان والإيضاح.
(فيصبح الناس) بعد تلك النومة التي رفع فيها الأمانة (يتبايعون فلا يكاد) أي: يقارب (أحد) منهم (يؤدي الأمانة) فضلاً عن أدائها بالفعل.
(حتى يقال) لعزة هذا الوصف وشهرة ما يتصف به.
(إن في بني فلان رجلاً أميناً) ذا أمانة.
(حتى يقال للرجل ما أجلده) على العمل (ما أظرفه) من الظرف (ما أعقله) أي: ما أشد يقظته وفطانته (وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان) فضلاً عن الأمانة التي هي من شعبه.
(ولقد أتى عليّ زمان وما أبالي أيكم بايعت) أي: لا أبالي بالذي بايعته لعلمي بأن الأمانة لم ترتفع وأن في الناس وفاء بالعهد، فكنت أقدم على مبايعة من لقيت غير باحث عن حاله وثوقاً بالناس وأمانتهم.
(وأما اليوم) فقد ذهبت الأمانة إلا القليل فلذا قال:
(فما كنت أبايع منكم إلا فلاناً وفلاناً) يعني أفراداً أعرفهم وأثق بهم.
740;ہ حديث وضاحت کرتی ہے کہ امانت لوگوں کے دلوں سے دھيرے دھيرے ختم ہو جائے گی۔ جب پہلی بار امانت کا کچھ حصہ ختم ہوگا تو اس کا نور ختم ہوجاے گا اور اس کی جگہ داغ کی طرح ایک دھندلا سا نشان رہ جائے گا یعنی پہلے رنگ کے برخلاف دوسرا رنگ چڑھ جائے گا۔ اور جب امانت کا کچھ اور حصہ ختم ہوگا تو اس کا نشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا، اوریہ ایسا مستحکم نشان ہے جو کچھ مدت کے بعد ہی ختم ہو گا، اور يہ تاريکی پہلے والی تاريکی کے اوپر ہوگی، پھر اس نور کے دل ميں پيدا ہونے کے بعد زائل ہونے کو، اور اس کے دل ميں جگہ بنانے کے بعد اس سے نکل جانے اور اس کی جگہ تاريکی کے لے لینے کو، اس انگارہ سے تشبيہ دی گئی ہے جس کو آدمی اپنے پیر پر لڑھکائے يہاں تک کہ اس کے پیر ميں اثر انداز ہونے کے بعد وہ چنگاری ٗختم ہو جائے اورصرف داغ باقی رہ جائے، اور آپ ﷺ کا کنکری لے کر اسے لڑھکانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے لیے یہ بات خوب واضح ہو جائے۔
(فيصبح الناس) اس نيند کے بعد جس ميں امانت اٹھا لی جاے گی (لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے) تو کوئی بھی شخص امانت کے قریب بھی نہ پھٹکے گا، چہ جائے کہ وہ عملاً امانت کی ادائیگی کرے۔
(یہاں تک کہ کہا جائے گا) امانت کی برتری اور جو اس وصف سے متصف ہوگا اس کی شہرت کے لیے۔
(بے شک فلاں شخص کی اولاد میں سے ایک آدمی امین تھا) یعنی امانت دار تھا۔
(یہاں تک کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط ہے) عمل میں، (کس قدر ہشیار ہے) بمعنی مہارت و ہوشیاری اور (کس قدر عقل مند ہے) یعنی وہ انتہائی ذہین و فطین شخص ہے۔ (جب کہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا) چہ جائے کہ اس کے اندر مانت پائی جائے جو کہ ایمان کی شاخوں میں سے ہے۔
(بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزر چکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں) یعنی مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کر رہا ہوں کيوں کہ مجھے معلوم تھا کہ امانت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ لوگ وفادار ہیں، تو جس سے بھی ملاقات ہوتی اس کے حالات کی چھان بین کیے بغیر اس سے خرید و فروخت کر لیتا تھا اس لیے کہ لوگوں کے اندر امانت و دیانت عام تھی۔
(اور رہا آج کا وقت) تو امانت داری بہت کم باقی بچی ہے اسی لیے آپ نے کہا:
(میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی سے خرید وفروخت کرتا ہوں) یعنی چند افراد سے خرید و فروخت کرتا ہوں جنہیں میں پہچانتا ہوں اور جن پر مجھے بھروسہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3016

 
 
Hadith   96   الحديث
الأهمية: إذا أحب الرجل أخاه فليخبره أنه يحبه


Tema:

جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔

عن أبي كريمة المقداد بن معد يكرب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ».

ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعت أحاديث كثيرة إلى التحابب في الله -تعالى-، وأخبرت عن ثوابه، وهذا الحديث يشير إلى معنى مهم يُحْدِث الأثر الأكبر في علاقة المؤمنين بعضهم ببعض، كما  ينشر المحبة، وهو أن يخبر أخاه أنه يحبه، وهذا يفيد المحافظة على البناء الاجتماعي من عوامل التفكك والانحلال؛ وهذا من خلال إشاعة المحبة بين أفراد المجتمع الإسلامي، وتقوية الرابطة الاجتماعية بالأخوة الإسلامية، وهذا كله يتحقق بفعل أسباب المحبة كتبادل الإخبار بالمحبة بين المتحابين في الله -تعالى-.
575;یک دوسرے سے محبت رکھنے کی ترغیب بہت سی احادیث میں دی گئی ہے اور اس کے ثواب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ حدیث ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کا مؤمنوں کے باہمی تعلقات پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور باہمی محبت کو فروغ ملتا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اس سے معاشرے کی عمارت ٹوٹ پھوٹ اور بگاڑ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اسلامی معاشرے کے افراد کے مابین محبت کو فروغ دے کر اور اسلامی بھائی چارے کے ذریعے اجتماعی معاشرتی تعلق کو مضبوط بنا کر ممکن ہے۔ یہ سب تب ہوتا ہے، جب محبت کے اسباب کو اختیار کیا جائے، مثلا اللہ کی خاطر دو محبت کرنے والوں کا ایک دوسرے کو بتادینا کہ وہ باہم محبت کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3017

 
 
Hadith   97   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمن في تنعله، وترجله، وطهوره، وفي شأنه كله


Tema:

رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمُّن في تَنَعُّلِّه, وترجُّلِه, وطُهُورِه, وفي شَأنه كُلِّه».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: ”رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- عن عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- المحببة إليه، وهى تقديم الأيمن في لبس نعله، ومشط شعره، وتسريحه، وتطهره من الأحداث، وفى جميع أموره التي من نوع ما ذكر كلبس القميص والسراويل، والنوم، والأكل والشرب ونحو ذلك.
كل هذا من باب التفاؤل الحسن وتشريف اليمين على اليسار.
وأما الأشياء المستقذرة فالأحسن أن تقدم فيها اليسار؛ ولهذا نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الاستنجاء باليمين، ونهى عن مس الذكر باليمين، لأنها للطيبات، واليسار لما سوى ذلك.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں نبی ﷺ کی ایک پسندیدہ عادت کے بارے میں بتلا رہی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے پہننے، اپنے بالوں میں کنگھی کرنے اور انہیں سنوارنے میں اور ناپاکی سے طہارت حاصل کرنے میں اور مذکورہ قسم کے اپنے تمام کاموں جیسے قیمض اور پاجاما پہنتے، سونے، کھانے پینے اور اسی طرح کے دیگر امور میں دائیں طرف کو مقدم رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ اچھے شگون اور دائیں طرف کو بائیں پر عزت دینے کے قبیل سے ہے۔ غیر پاکیزہ چیزوں میں بہتر یہ ہے کہ بائیں طرف کو مقدم رکھا جائے۔ اسی لئے نبی ﷺ نے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے اور عضوِ مخصوص کو چھونے سے منع فرمایا ہے کیونکہ دایاں ہاتھ پاکیزہ اشیاء کے لئے ہے اور ان کے علاوہ دیگر اشیاء کے لئے بایاں ہاتھ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3018

 
 
Hadith   98   الحديث
الأهمية: كانت يد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اليمنى لطهوره وطعامه، وكانت اليسرى لخلائه وما كان من أذى


Tema:

رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "كَانَت يَدُ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليُمنَى لِطُهُورِهِ وطَعَامِهِ، وكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ، ومَا كَانَ مِنْ أَذَى".
عن حفصة -رضي الله عنها- "أَنَّ رَسُولَ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَجْعَلُ يَمِينَهُ لِطَعَامِهِ وَشَرَابِهِ وَثِيَابِهِ، وَيَجْعَلُ يَسَارَهُ لِمَا سِوَى ذَلِك".

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑے پہنے کے لیے استعمال کرتے اور بائیں ہاتھ کو اس کے علاوہ کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيَّنت عائشة -رضي الله عنها-، ما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يستعمل فيه اليمين، وما كان يستعمل فيه اليسار، فذكرت أن الذي يستعمل فيه اليسار ما كان فيه أذى؛ كالاستنجاء، والاستجمار، والاستنشاق، والاستنثار، وما أشبه ذلك، كل ما فيه أذى فإنه تقدم فيه اليسرى، وما سوى ذلك؛ فإنه تقدم فيه اليمنى؛ تكريمًا لها؛ لأن الأيمن أفضل من الأيسر.   وهذ الحديث داخل في استحباب تقديم اليمنى فيما من شأنه التكريم فقولها -رضي  الله عنها-.
قولها: "لطهوره": يعني إذا تطهر يبدأ باليمين، فيبدأ بغسل اليد اليمنى قبل اليسرى، وبغسل الرجل اليمنى قبل اليسرى، وأما الأذنان فإنهما عضوٌ واحدٌ، وهما داخلان في الرأس، فيمسح بهما جميعًا إلا إذا كان لا يستطيع أن يمسح إلا بيد واحدة، فهنا يبدأ بالأذن اليمنى للضرورة.
قولها: "وطَعَامِهِ": أي تناوله الطعام.
"وكانت يده اليسرى لخلائه": أي لما فيه من استنجاء وتناول أحجار وإزالة أقذار.
"وما كان من أذى" كتنحية بصاق ومخاط وقمل ونحوها.
وحديث حفصة مؤكد لما سبق من حديث عائشة، الذي جاء في بيان استحباب البداءة باليمين فيما طريقه التكريم، وتقديم اليسار فيما طريقه الأذى والقذر؛ كالاستنجاء والاستجمار وما أشبه ذلك.
575;م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کی کہ نبی ﷺ کن کاموں میں اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے اور کن میں بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ کہا جن کاموں میں گندگی ہوتی جیسے استنجاء کرنا، استنجاء میں پتھر کا استعمال، ناک میں پانی ڈالنا اور ناک کو صاف کرنا جیسے کاموں میں جن میں گندگی ہوتی آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ اور ان کے علاوہ کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ اس میں دائیں ہاتھ کی تکریم ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں سے افضل ہے۔
اس حدیث کی رو سے ان تمام کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرنا مستحب ہے جو قابلِ تکریم ہوں۔
”لِطُهُورِهِ “ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نبی ﷺ طہارت حاصل کرتے تو آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے آغاز کرتے۔ چنانچہ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہلے دھوتے تھے اور اسی طرح آپ ﷺ دائیں پاؤں کو بائیں پاؤں سے پہلے دھویا کرتے تھے۔ جب کہ دونوں کان ایک ہی عضو شمار ہوتے ہیں جو سر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ ان کو اکھٹے ہی مسح کیا جائے گا بجز اس کے کہ ایک ہاتھ سے مسح کرنا ہو۔ اس صورت میں ضرورت کے تحت دائیں کان سے مسح کا آغاز کیا جائے گا۔
”وطَعَامِهِ“ یعنی جب آپ ﷺ کھانا کھایا کرتے تھے۔
”وَكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ “یعنی قضائے حاجت کے وقت استنجاء کرنے، پتھر اٹھانے اور گندگی کے ازالے کے لیے بائیں کو استعمال کرتے تھے۔
”ومَا كَانَ مِنْ أَذَى“جیسے تھوک اور بلغم وغیرہ کو دور کرنے کے لیے۔چیچڑی وغیرہ کو دور کرنا بھی اسی میں آتا ہے۔
حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دراصل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کی تصدیق کر رہی ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کام قابلِ تکریم ہوتے ان میں آپ ﷺ کا طریقہ کار دائیں ہاتھ کو استعمال کرنا تھا اور جن کاموں میں گندگی کا عمل دخل ہوتا تھا ان کاموں میں آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے جیسے استنجاء کرتے ہوئے یا استنجاء کے لیے پتھر اٹھاتے ہوئے وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3019

 
 
Hadith   99   الحديث
الأهمية: لما قدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه مكة قال المشركون: إنه يقدم عليكم قوم وهنتهم حمى يثرب، فأمرهم أن يرملوا الأشواط الثلاثة، وأن يمشوا ما بين الركنين


Tema:

جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ: تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «لَمَّا قَدِم رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وأصحابه مكة، فقَال المُشرِكُون: إِنَّه يَقدَمُ عَلَيكُم قَومٌ وَهَنَتهُم حُمَّى يَثرِب، فَأَمَرَهُم النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ الثلاَثَة، وأن يَمشُوا ما بَين الرُّكنَين، ولم يَمنَعهُم أَن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ كُلَّها: إلاَّ الإِبقَاءُ عَليهِم».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ”جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ ﷺ نے ان پر شفقت و نرمی کرتے ہوئے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء النبي -صلى الله عليه وسلم- سنة ست من الهجرة إلى مكة معتمرًا، ومعه كثير من أصحابه، فخرج لقتاله وصده عن البيت كفار قريش، فحصل بينهم صلح، من مواده أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه يرجعون في ذلك العام، ويأتون في العام القابل معتمرين، ويقيمون في مكة ثلاثة أيام، فجاءوا في السنة السابعة لعمرة القضاء. فقال المشركون، بعضهم لبعض -تشفيا وشماتة-: إنه سيقدم عليكم قوم قد وهنتهم وأضعفتهم حمى يثرب.
فلما بلغ النبي -صلى الله عليه وسلم- قولهم، أراد أن يرد قولهم ويغيظهم، فأمر أصحابه أن يسرعوا إلا فيما بين الركن اليماني والركن الذي فيه الحجر الأسود فيمشوا، رفقًا بهم وشفقة عليهم، حين يكونوا بين الركنين لا يراهم المشركون، الذين تسلقوا جبل "قعيقعان" لينظروا إلى المسلمين وهم يطوفون فغاظهم ذلك حتى قالوا: إن هم إلا كالغزلان، فكان هذا الرمل سنة متبعة في طواف القادم إلى مكة، تذكرا لواقع سلفنا الماضين، وتأسيًا بهم في مواقفهم الحميدة، ومصابرتهم الشديدة، وما قاموا به من جليل الأعمال، لنصرة الدين، وإعلاء كلمة الله، رزقنا الله اتباعهم واقتفاء أثرهم.
 والمشي بين الركنين وترك الرمل منسوخ؛ لنه في حجة الوداع رمل من الحجر إلى الحجر، روى مسلم عن جابر وابن عمر -رضي الله عنهم- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رمل من الحجر إلى الحجر ثلاثًا، ومشى أربعًا».
606;بی ﷺ ہجرت کے چھٹویں سال صحابہ کی کثیر تعداد کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ آئے، تو کفار قریش آپ سے لڑنے اور آپ کو اللہ کے گھر سے روکنے کے لئے نکلے، چناں چہ ان کے درمیان صلح ہوئی جس کے مضمون میں یہ تھا کہ نبی ﷺ اس سال اپنے اصحاب کے ہمراہ واپس لوٹ جائیں اور اگلے سال عمرہ کی نیت سے آئیں اور مکہ میں صرف تین دن تک قیام کریں، چناں چہ سن سات ھجری میں جب وہ دوبارہ عمرہ کی قضا کے لئے آئے تو مشرکین نے -تسکین خاطر اور بطور ہنسی اور ٹھٹھا- آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آرہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نےتوڑ دیا اور کمزور بنا دیا ہے۔
جب نبی ﷺ کو ان کی یہ بات پہونچی تو آپ ﷺ نےان کے جواب میں اور ان کو برانگیختہ کرنے کے لئے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ تیز چلیں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں عام چال چلیں۔ یہ حکم صحابہ کے ساتھ نرمی اور شفقت کے باب سے تھا جب کہ وہ دونوں رکنوں کے درمیان ہوں اور وہ مشرکین انہیں نہ دیکھ سکیں جو"قعيقعان" نامی پہاڑ پر اس لئے چڑھ آئے تھے کہ وہ مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئےدیکھ سکیں۔ لیکن تیز چال نے انہیں آگ بگولہ کردیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کہ یہ سب تو ہرن کے مانند ہیں۔ اس طرح دلکی چال طوافِ قدوم میں سنت جاریہ قرار پائی۔ تاکہ اپنے گزرے ہوئے اسلاف کے واقعہ کو یاد کیا جائے اور ان کے قابل تعریف مواقف اور زبردست صبر اور جو کچھ دین کی مدد اور اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے انہوں نے اچھے کام انجام دئے ہیں ان میں ان کی اقتدا کی جائے۔ اللہ ہمیں ان کی پیروی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔
دنوں یمانی رکنوں کے درمیان رمل نہیں کرنے کا حکم منسوخ ہے اس لیے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ پورا طواف رمل کیے۔ امام مسلم نے جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار چکروں میں اپنی رفتار معمول کے مطابق رکھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3020

 
 
Hadith   100   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، أيرقد أحدنا وهو جنب؟ قال: نعم، إذا توضأ أحدكم فليرقد


Tema:

یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سے کوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

عن عبد الله بنِ عمر -رضي الله عنهما- أن عمرَ بْن الخطاب -رضي الله عنه- قال: ((يا رسول الله، أّيَرقُدُ أَحَدُنا وهو جُنُب؟ قال: نعم، إِذَا تَوَضَّأ أَحَدُكُم فَليَرقُد)).

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سےکوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم-: إن أصابت أحدهم الجنابة من أول الليل، بأن جامع امرأته ولو لم ينزل أو احتلم، فهل يرقد أي ينام وهو جنب؟ فأذن لهم -صلى الله عليه وسلم-  بذلك، على أن يخفف هذا الحدث الأكبر بالوضوء الشرعي؛ وحينئذ لا بأس من النوم مع الجنابة.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر کسی شخص کو رات کے ابتدائی حصے میں جنابت لاحق ہو جائے، بایں طور کہ اپنی بیوی سے جماع کر لے، اگرچہ انزال نہ ہواہو یا اسے احتلام ہو جائے تو کیا وہ حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے انھیں اس کی اجازت دے دی، بشرطے کہ وہ شرعی طریقے سے وضو کر کے حدث اکبر کو کچھ کم کر لے۔ اس صورت میں جناب کی حالت میں سونے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3021

 
 
Hadith   101   الحديث
الأهمية: أنَّ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دخل مكة من كداء، من الثنية العليا التي بالبطحاء، وخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- «أنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دَخَل مكَّة مِن كَدَاٍء، مِن الثَنِيَّة العُليَا التِّي بالبَطحَاءِ، وخرج من الثَنِيَّة السُفلَى».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حجَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- حجة الوداع، فبات ليلة دخوله بـ"ذي طوى" لأربع خلون من ذي الحجة، وفي الصباح دخل مكة من الثنية العليا؛ لأنه أسهل لدخوله؛ لأنه أتى من المدينة، فلما فرغ من مناسكه خرج من مكة إلى المدينة من أسفل مكة، وهي الطريق التي تأتي على "جرول"، ولعل في مخالفة الطريقين تكثيرا لمواضع العبادة، كما فعل -صلى الله عليه وسلم-  في الذهاب إلى عرفة والإياب منها، ولصلاة العيد والنفل، في غير موضع الصلاة المكتوبة؛ لتشهد الأرض على عمله عليها يوم تحدث أخبارها، أو لكون مدخله ومخرجه مناسبين لمن جاء من المدينة، وذهب إليها. والله أعلم.
606;بی ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ذی الحجہ کی چار تاریخ کو جب آپ ﷺ (مکہ میں) داخل ہوئے تو وہ رات آپ ﷺ نے مقام ذی طوی پر گزاری اور صبح کو آپ ﷺ ثنیہ علیا (بالائی حصے) کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے کیوں کہ اس جگہ سے داخل ہونا آسان ہے اس لیے کہ آپ ﷺ مدینہ سے تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ ﷺ مناسک حج سے فارغ ہوئے تو مکہ کے نشیبی علاقے سے ہوتے ہوئے مدینہ کی طر ف نکلے۔ یہ وہ راستہ ہے جو جرول کے مقام سے گزرتا ہے۔ شاید آپ ﷺ نے دو مختلف راستے اس لیے اپنائے تاکہ عبادت کے مقامات کی کثرت ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے عرفہ جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے کیا یا جیسا آپ ﷺ کا نماز عید اور نوافل میں معمول تھا کہ انھیں آپ فرض نماز کی جگہ کے بجائے دوسری جگہ پر ادا کرتے تھے تاکہ روزِ قیامت جس دن زمین اپنی خبریں دے گی اس دن وہ آپ ﷺ کے عمل کی گواہی دے یا پھر ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کی جس راستے سے آپ داخل ہوئے تھے یا جس راستے سے نکلے تھے وہ مدینے سے آنے اور اس کی طرف جانے والوں کے لیےموزوں ترین تھے۔ واللہ اعلم   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3022

 
 
Hadith   102   الحديث
الأهمية: رَقِيت يومًا على بيت حفصة، فرأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقضي حاجته مستقبل الشام، مستدبر الكعبة


Tema:

میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: ((رَقيت يومًا على بيت حفصة، فرَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-يَقضِي حاجته مُسْتَقبِل الشام، مُسْتَدبِر الكعبة)).

وفي رواية: ((مُسْتَقبِلا بَيتَ المَقدِس)) .


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضاے حاجت کر رہے ہیں“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”بیت المقدس کی طرف منہ کر کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر ابن عمر -رضي الله عنهما-: أنه جاء يوماً إلى بيت أخته حفصة، زوج النبي -صلى الله عليه وسلم-، فصعد فوق بيتها، فرأى النبي -صلى الله عليه وسلم-، يقضى حاجته وهو متَجه نحو الشام، ومستدبر القبلة.
وكان ابن عمر -رضي الله عنه- قال ذلك ردًّا على من قالوا: إنه لا يستقبل بيت المقدس حال قضاء الحاجة، ومن ثمَّ أتى المؤلف بالرواية الثانية: مستقبلا بيت المقدس.
فإذا استقبل الإنسان القبلة داخل البنيان فلا حرج.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن اپنی بہن اور نبی ﷺ کی زوجہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ جب گھر کی چھت پرچڑھے، تو نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ شام کی طرف رخ اور قبلے کی طرف پیٹھ کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے رد میں یہ حدیث سنائی، جن کا کہنا تھا کہ قضاے حاجت کے دوران بیت المقدس کی طرف رخ نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے مولف نے دوسری روایت بھی ذکر کی جس میں "بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے" کے الفاظ ہیں۔
چنانچہ اگر انسان عمارت کے اندر قبلہ کی طرف منہ کرکے قضاے حاجت کر لے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3023

 
 
Hadith   103   الحديث
الأهمية: أنه جاء إلى الحجر الأسود، فقبَّله، وقال: إني لأعلم أنك حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقبلك ما قبلتك


Tema:

وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- «أنَّه جَاء إِلى الحَجَر الأَسوَدِ، فَقَبَّلَه، وقال: إِنِّي لَأَعلَم أَنَّك حَجَرٌ، لا تَضُرُّ ولا تَنفَعُ، ولَولاَ أَنِّي رَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُقَبِّلُك مَا قَبَّلتُك».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الأمكنة والأزمنة وغيرها من الأشياء، لا تكون مقدسة معظمة تعظيم عبادةٍ لذاتها، وإنَّما يكون لها ذلك بشرع؛ ولهذا جاء عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إلى الحجر الأسود وقبله بين الحجيج، الذين هم حديثو عهد بعبادة الأصنام وتعظيمها، وبين أنَّه ما قبل هذا الحجر وعظمه من تلقاء نفسه، أو لأن الحجر يحصل منه نفع أو مضرة؛ وإنما هي عبادة تلقَّاها من المشرِّع -صلى الله عليه وسلم-  فقد رآه يقبله فقبله؛ تأسيا واتباعا، لا رأيا وابتداعا.
575;وقات، مقامات اور دیگر اشیاء بذات خود اس قدر مقدس و معظم نہیں ہوتے بایں طور کہ یہ ذاتی طور پر عبادت کی تعظیم کے حقدار ہوں، بلکہ ان کی تعظیم شریعت کی بنا پر ہوتی ہے۔ اسی لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور حاجیوں کے سامنے اس کا بوسہ لیا جنھیں بتوں کی پوجا اور ان کے احترام کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور وضاحت فرمائی کہ اس پتھر کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا ان کی اپنی اپچ نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہے کہ اس سے کوئی نفع یا نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جسے انھوں نے شارع علیہ السلام سے لیا ہے۔ انھوں نے نبی ﷺ کو ا س کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ کی اقتداء میں انھوں نے بھی اس کا بوسہ لیا نہ کی اپنی ذاتی رائے کی بنا پر یا خود ساختہ طور پر ایسا کیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3024

 
 
Hadith   104   الحديث
الأهمية: طاف النبي في حجة الوداع على بعير، يستلم الركن بمحجن


Tema:

نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کو چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «طَافَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ على بَعِير، يَستَلِم الرُّكنَ بِمِحجَن».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ”نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کا ایک چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طاف النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع، وقد تكاثر عليه الناس: منهم من يريد النظر إلى صفة طوافه، ومنهم من يريد النظر إلى شخصه الكريم؛ فازدحموا عليه، ومن كمال رأفته بأمته ومساواته بينهم: أن ركب على بعير، فأخذ يطوف عليه؛ ليتساوى الناس في رؤيته، وكان معه عصا محنية الرأس، فكان يستلم بها الركن، ويقبل العصا كما جاء في رواية مسلم لهذا الحديث.
606;بی ﷺ نے حجۃُ الوداع کے موقع پر طواف فرمایا۔ آپ ﷺ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے۔ ان میں سے کچھ تو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آپﷺ کیسے طواف کر رہے ہیں اور کچھ آپ ﷺ کی کریم ذات کو دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے آپ ﷺ کے پاس بھیڑ لگا دیا۔ اپنی امت پر کمالِ شفقت اور ان کے ساتھ مساویانہ سلوک رکھنے کے لیے آپ ﷺ ایک اونٹ پر سوار ہو گیے اور اس پر طواف کرنے لگے تاکہ لوگ یکساں طور پر آپ ﷺ کو دیکھ سکیں۔ آپ ﷺ کے پاس ایک عصا تھا جس کا سرا مڑا ہوا تھا اور آپ ﷺ اس کے ساتھ رکن کو چھو رہے تھے اور عصا ہی کا بوسہ لے رہے تھے جیسا کہ اس حدیث کی مسلم شریف والی روایت میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3025

 
 
Hadith   105   الحديث
الأهمية: لم أر النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين


Tema:

میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «لَمْ أَرَ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم يَستَلمُ- منَ البيتِ إِلا الرُّكنَينِ اليَمَانِيَينِ».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من الأركان الأربعة للكعبة إلا الركن الأسود والركن اليماني، فللبيت أربعة أركان، فللركن الشرقي منها فضيلتان:
1. كونه على قواعد إبراهيم.
2. وكون الحجر الأسود فيه. والركن اليماني له فضيلة واحدة، وهو كونه على قواعد إبراهيم.
وليس للشامي والعراقي شيء من هذا، فإن تأسيسهما خارج عن أساس إبراهيم حيث أخرج الحجر من الكعبة من جهتهما؛ ولهذا فإنه يشرع استلام الحجر الأسود وتقبيله، ويشرع استلام الركن اليماني بلا تقبيل، ولا يشرع في حق الركنين الباقيين استلام ولا تقبيل، والشرع مبناه على الاتباع، لا على الإحداث والابتداع، ولله في شرعه حكم وأسرار.
606;بی ﷺ کعبہ کے چاروں ارکان (کونوں) میں سے صرف رکنِ اسود (وہ کونا جس میں حجرٍ اسود نصب ہے) اور رکنِ یمانی کا استلام کرتے۔ بیت اللہ کے چار ارکان (کونے) ہیں۔ ان میں سے مشرقی رکن کے دو فضائل ہیں:
1۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی گئی بنیادوں پر ہے۔
2۔ اس میں حجرِ اسود ہے۔
جب کہ رکنِ یمانی کی صرف ایک ہی فضیلت ہے اور وہ ہے اس کا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیادوں پر ہونا۔
رکنِ شامی اور رکنِ عراقی کو ان فضائل میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ہے کیوں کہ یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیاد سے اندر واقع ہیں بایں طور کہ ان کی طرف سے کعبہ میں سے پتھر نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے حجرِ اسود کا استلام اور بوسہ دونوں مشروع ہے جب کہ رکن یمانی کا بغیر بوسے کے استلام (چھونا) مشروع ہے۔ باقی دونوں ارکان کے لیے نہ تو استلام مشروع ہے اور نہ ہی بوسہ۔ شریعت کا مدار اتباع پر ہے نہ کہ نئی خودساختہ اور من گھڑت باتوں پر۔ اللہ کی شریعت میں اس کی بے پناہ حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3026

 
 
Hadith   106   الحديث
الأهمية: إني أحبك في الله، فقال: أحبك الذي أحببتني له


Tema:

میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں، اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ رَجُلاً كَانَ عِند النَبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ، فقال: يا رسول الله، أنِّي لَأُحِبُّ هَذَا، فَقَال لَهُ النَبِيُّ -صلى الله عليه وسلم-: «أَأَعْلَمْتَهُ؟» قال: لا. قال: «أَعْلِمْهُ»، فَلَحِقَهُ، فقال: إِنِّي أُحِبُّك فِي الله، فقال: أّحَبَّك الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک شخص کا اس کے قریب سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟۔ اس نے جواب دیا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے یہ بات بتادو۔ چنانچہ اس آدمی نے اس شخص کے پیچھے جا کر اسے بتایا کہ : میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء هذا الحديث النبوي الشريف تطبيقا لأمره -صلى الله عليه وسلم- بأن يُعلِم الإنسان أخاه إذا أحبَّه، لَمَّا قال له رجلٌ جالسٌ عنده: إنِّي أحب هذا الرجل. يقصد رجلًا آخر مرَّ بهما، فقال له -صلى الله عليه وسلم-: " أأعلمته" فدل هذا على أنه من السنَّة إذا أحبَّ المسلم شخصا أن يقول له: إني أحبك، وذلك لما في هذه الكلمة من إلقاء المحبة في قلبه؛ لأنَّ الإنسان إذا علم من أخيه أنَّه يحبه أحبَّه، مع أن القلوب لها تعارف وتآلف وإن لم تنطق الألسن.
وكما قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "الأرواح جنود مجندة ما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف" لكن إذا قال الإنسان بلسانه، فإن هذا يزيده محبة في القلب فيقول: إني أحبك في الله.
575;س حدیث شریف میں نبی ﷺ کے فرمان کی عملی تطبیق کا بیان ہے کہ انسان اگر اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس کے بارے میں بتائے۔ جب آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ایک آدمی نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں، جو ان کے پاس سے گزرا تھا، تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: "کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟"۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی کسی مسلمان سے محبت کرتا ہو، تو اس کا یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" سنت ہے؛ کیوں کہ اس سے اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جب اپنے بھائی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے، تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اگرچہ زبانوں سے اظہار نہ بھی ہو، تب بھی دلوں میں باہم جان پہچان اور مانوسیت ہوتی ہی ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "روحیں لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں، چنانچہ جو روحیں ایک دوسرے سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں اور جو روحیں ایک دوسرے سے ان جان و نامانوس تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) اختلاف رکھتی ہیں"۔ لیکن انسان کا اپنی زبان سے اظہار محبت کرنا دوسرے کے دل میں محبت کو بڑھاتا ہے۔ چنانچہ اسے کہنا چاہیے کہ میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3028

 
 
Hadith   107   الحديث
الأهمية: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي


Tema:

فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: ((أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي)).
وَفِي رِوَايَةٍ ((وَلَيْسَت بِالحَيضَة، فَإِذَا أَقْبَلَت الحَيْضَة: فَاتْرُكِي الصَّلاة فِيهَا، فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا فَاغْسِلِي عَنْك الدَّمَ وَصَلِّي)).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: یہ حیض کا خون نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے، تو ان دنوں میں نماز چھوڑ دو اور جب اتنے ایام ختم ہوجائیں، تو اپنے بدن سے خون دھولو اور نماز پڑھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت فاطمة بنت أبي حُبَيْش -رضي الله عنها- للنبي -صلى الله عليه وسلم- أن دم الاستحاضة يصيبها، فلا ينقطع عنها، وسألته هل تترك الصلاة لذلك؟
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لا تتركي الصلاة؛ لأن الدم الذي تُترك لأجله الصلاة، هو دم الحيض.
وهذا الدم الذي يصيبك، ليس دم حيض، إنما هو دم عرق منفجر.
وإذا كان الأمر كما ذكرت من استمرار خروج الدم في أيام حيضتك المعتادة، وفي غيرها، فاتركي الصلاة أيام حيضك المعتادة فقط.
فإذا انقضت، فاغتسلي واغسلي عنك الدم، ثم صلّي، ولو كان دم الاستحاضة معك.
601;اطمہ بن ابی حُبیش رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے اور ختم نہیں ہوتا تو کیا ایسی صورت میں وہ نماز ترک کردے؟
نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ نماز نہ چھوڑے، اس لیے کہ جس خون کے سبب نماز چھوڑی جاتی ہے وہ حیض کا خون ہے، اور یہ جو خون انہیں آرہا ہے وہ حیض نہیں، یہ تو ایک رگ ہے جو کہ پھٹ پڑی ہے۔
ہاں اگر صورت حال ایسی ہے جیسے تم نے ذکر کیا ہے کہ تمہارے ماہواری کے ایام میں خون جاری رہتا ہے اور اس کے بعد بھی تو صرف ماہواری کے ایام میں نماز کو چھوڑ دو۔
اور جب وہ ماہواری کے ایام ختم ہوجائیں تو غسل کرو اور جسم سے خون کو پاک صاف کردو اور پھر نماز ادا کرو اگرچہ استحاضہ کا خون جاری ہی کیوں نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3029

 
 
Hadith   108   الحديث
الأهمية: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نحوي إداوة من ماء وعنزة؛ فيستنجي بالماء


Tema:

رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ آپ ﷺ پانی کے ذریعے استنجا کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: ((كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نَحوِي إِدَاوَةً مِن ماء وَعَنَزَة؛ فيستنجي بالماء)).

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ چنانچہ آپ ﷺ پانی سے استنجا کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر خادم النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حينما يدخل موضع قضاء الحاجة، كان يجيء هو وغلام معه بطهوره، الذي يقطع به الأذى، وهو ماء في جلد صغير، وكذلك يأتيان بما يستتر به عن نظر الناس، وهو عصا قصيرة في طرفها حديدة، يغرزها في الأرض، ويجعل عليها شيئًا مثل: الرداء أو نحوه يقيه من نظر المارين، ويستتر به أيضًا إذا أراد أن يصلي.
606;بی ﷺ کے خادم انس بن مالک بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ جایا کرتے، تو وہ اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکا آپ ﷺ کی طہارت کے لیے پانی لایا کرتے، جس سے آپ ﷺ نجاست صاف کیا کرتے تھے۔ یہ پانی چمڑے سے بنے ایک چھوٹے سے برتن میں ہواکرتا تھا۔ اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپنے کے لیے ایک چھوٹی سی لاٹھی بھی لایا کرتے، جس کے ایک کنارے پر لوہے کا پھل لگا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ اسے زمین میں گاڑ کر اس پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ ڈال دیاکرتے، جس سے آپ راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ رہتے اور جب نماز کا ارادہ ہوتا، تو اسے بطور سترہ استعمال کرلیتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3030

 
 
Hadith   109   الحديث
الأهمية: سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من تمام الصلاة


Tema:

اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَوُّوا صُفُوفَكُم، فإِنَّ تَسوِيَة الصُّفُوف من تَمَام الصَّلاَة».

انس بن مالک - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته إلى ما فيه صلاحهم وفلاحهم، فهو -هنا- يأمرهم بأن يسووا صفوفهم، بحيث يكون سمتهم نحو القبلة واحدا، ويسدوا خلل الصفوف، حتى لا يكون للشياطين سبيل إلى العبث بصلاتهم، وأرشدهم -صلى الله عليه وسلم- إلى بعض الفوائد التي ينالونها من تعديل الصف، وذلك أن تعديلها علامة على تمام الصلاة وكمالها، وأن اعوجاج الصف خلل ونقص فيها.
606;بی ﷺ اپنی امت کی ایسے کام کی طرف راہنمائی فرما رہے ہیں جس میں ان کا فائدہ اور فلاح ہے۔ چنانچہ - یہاں - آپ ﷺ انہیں حکم دے رہے ہیں کہ وہ اپنی صفوں کو درست کیا کریں بایں طور کہ وہ قبلہ کی طرف یک سو ہوں اور صفوں کے مابین کوئی خالی جگہ نہ رہنے دی جائے تاکہ شیاطین کو ان کی نماز خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ نیز آپ ﷺ نے ان کو بعض فوائد کی طرف توجہ دلائی جنہیں وہ صف کو سیدھا کر کے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ صفوں کا سیدھا ہونا نماز کے تمام و کمال کی نشانی ہے اور صف کا ٹیڑھا ہونا نماز میں خلل اور نقص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3031

 
 
Hadith   110   الحديث
الأهمية: إن من إجلال الله -تعالى-: إكرام ذي الشيبة المسلم، وحامل القرآن غير الغالي فيه، والجافي عنه، وإكرام ذي السلطان المقسط


Tema:

بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کی توقیر کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قَالَ: قالَ رسول اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ الله -تَعَالَى-: إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ المُسْلِمِ، وَحَامِلِ القُرْآنِ غَيرِ الغَالِي فِيه، وَالجَافِي عَنْه، وَإِكْرَام ذِي السُّلْطَان المُقْسِط».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کا احترام کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد هذا الحديث أن مما يحصل به إجلال الله -سبحانه- وتعظيمه وتوقيره أمور ذكرت في هذا الحديث وهي:
(إكرام ذي الشيبة المسلم): أي تعظيم الشيخ الكبير في الإسلام بتوقيره في المجالس والرفق به والشفقة عليه ونحو ذلك، وكل هذا من كمال تعظيم الله لحرمته عند الله.
(وحامل القرآن): أي وإكرام حافظه وسماه حاملا لأنه محمول في صدره ولما تحمل من مشاق كثيرة تزيد على الأحمال الثقيلة، ويدخل في هذا الإكرام المشتغل بالقرآن قراءة وتفسيرا.
وحامل القرآن الذي جاء ذكره في هذا الحديث النبوي، جاء تمييزه بوصفين:
(غير الغالي): والغلو التشديد ومجاوزة الحد، يعني غير المتجاوز الحد في العمل به وتتبع ما خفي منه واشتبه عليه من معانيه وفي حدود قراءته ومخارج حروفه. وقيل الغلو: المبالغة في التجويد أو الإسراع في القراءة بحيث يمنعه عن تدبر المعنى.
(والجافي عنه): أي وغير المتباعد عنه المعرض عن تلاوته وإحكام قراءته وإتقان معانيه والعمل بما فيه، وقيل في الجفاء: أن يتركه بعد ما علمه لا سيما إذا كان نسيه تساهلا وإعراضا.
وآخر ما جاء الذكر النبوي بالاشتغال بإكرامه (ذي السُّلطان المقسط): أي صاحب السلطة والمنصب الذي اتصف بالعدل، فإكرامه لأجل نفعه العام وإصلاحه لرعيته.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ چند امور ایسے ہیں جن سے اللہ کی تعظیم و توقیر ہوتی ہے۔ ان امور کا ذکر اس حدیث میں ہے جو یہ ہیں: ”إكرام ذي الشيبة المسلم“: یعنی بڑی عمر کے مسلمان بزرگ کی تعظیم بایں طور کہ مجالس میں اس کی توقیر کرنا، اس سے نرمی اور شفقت بھرا معاملہ کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ کی کامل طور پر تعظیم کرنے میں آتا ہے کیونکہ بوڑھے شخص کا اللہ کے نزدیک بہت احترام ہے۔ ”وحامل القرآن“: یعنی قرآن کے حافظ کا اکرام کرنا۔ اسے حامل قرآن کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ قرآن اس کے سینے میں ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے بہت مشقتیں برداشت کی ہوتی ہیں جو بڑے بڑے بوجھ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس تعظیم کے دائرے میں وہ شخص بھی آتا ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کی تفسیر میں مشغول رہتا ہے۔ وہ حامل قرآن جس کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے اس کی دو امتیازی صفات بیان ہوئی ہیں: ”غير الغالي“: غلو کا معنی ہے سختی برتنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یعنی وہ حامل قرآن جو قرآن پر عمل کرنے میں اور اس کےمعانی میں سے جو اس پر مخفی اورمشتبہ ہوں ان کی ٹوہ میں لگنے میں اور اس کی قرأت کی حدود اور حروف کے مخارج میں حد سے تجاوز نہ کرنے والا ہو۔ ایک قول کی رو سےغلو کا معنیٰ تجوید میں اور جلدی پڑھنے میں مبالغہ کرنا ہے بایں طور کہ یہ بات اس کے معانی پر غور وتدبر میں آڑے آ جائے۔ ”والجافي عنه“: یعنی اس سے دور نہ ہٹنے والا اور اس کی تلاوت اور اچھے انداز میں اسے پڑھنے، اس کے معانی میں مہارت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے رو گردانی نہ کرنے والا۔ایک اور قول کی رو سے جفاء کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے خاص طور پر جب کہ وہ سستی اور اعراض کرنے کی وجہ سے اسے بھول جائے۔ آخری شے جس کے اکرام کرنے کا حدیث نبوی ﷺ میں ذکر آیا وہ عادل حکمران ہے۔ یعنی وہ صاحب اقتدار اور صاحب منصب جو عدل سے متصف ہو۔ اس کی عزت اس لیے ہے کیونکہ وہ سب کے لیے نفع بخش ہے اور اپنی رعایا کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3032

 
 
Hadith   111   الحديث
الأهمية: إذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ماء، ثم لينتثر، ومن استجمر فليوتر، وإذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يديه قبل أن يدخلهما في الإناء ثلاثا، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده


Tema:

جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے جھاڑے اور جو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا توضَّأ أحدُكُم فَليَجعَل في أنفِه ماءً، ثم ليَنتَنْثِر، ومن اسْتَجمَر فَليُوتِر، وإذا اسْتَيقَظَ أَحَدُكُم من نومِه فَليَغسِل يَدَيه قبل أن يُدْخِلهُما في الإِنَاء ثلاثًا، فإِنَّ أَحدَكُم لا يَدرِي أين بَاتَت يده».
وفي رواية: «فَليَستَنشِق بِمِنْخَرَيه من الماء».
وفي لفظ: «من توضَّأ فَليَسْتَنشِق».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اورپھراسے جھاڑے اورجو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ:”وہ اپنے نتھنوں سے پانی چڑھائے“۔
اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ ”جو وضو کرے وہ (ناک میں) پانی چڑھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشتمل هذا الحديث على ثلاث فقرات، لكل فقرة حكمها الخاص بها.
1.فذكر أن المتوضىء إذا شرع في الوضوء أدخل الماء في أنفه، ثم أخرجه منه وهو الاستنشاق والاستنثار المذكور في الحديث؛ لأن الأنف من الوجه الذي أُمِر المتوضىء بغسله، وقد تضافرت الأحاديث الصحيحة على مشروعيته؛ لأنه من النظافة المطلوبة شرعًا.
2.ثم ذكر أيضا أن من أراد قطع الأذى الخارج منه بالحجارة، أن يكون قطعه على وتر، أقلها ثلاث وأعلاها ما ينقطع به الخارج، وتنقي المحل إن كان وترًا، وإلا زاد واحدة، توتر أعداد الشفع.
3.وذكر أيضًا أن المستيقظ من نوم الليل لا يُدْخِلُ كفَّه في الإناء، أو يمس بها رطبًا، حتى يغسلها ثلاث مرات؛ لأن نوم الليل -غالبًا- يكون طويلا، ويده تطيش في جسمه، فلعلها تصيب بعض المستقذرات وهو لا يعلم، فشرع له غسلها للنظافة المشروعة.
575;س حدیث میں تین جملے ہیں جن میں سے ہر ایک کا خاص حکم ہے:
1۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی وضو شروع کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے اس سے باہر نکالے۔ یہی وہ اسنتشاق اور استنثار ہے جو حدیث میں مذکور ہے۔ کیونکہ ناک چہرے کا حصہ جس کے بارے میں وضو کرنے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے دھوئے۔ بہت سی ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی صفائی ہے جو شرعا مطلوب ہے۔
2۔ پھرآپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے سے نکلنے والی گندگی کو پتھر سے دور کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے طاق عدد میں پتھروں کے ساتھ دور کرے جو کم از کم تین ہوں اور زیادہ سے زیادہ اتنے ہوں کہ ان سے خارج شدہ گندگی دور ہو جائے اور جگہ صاف ہو جائے۔ اگر یہ طاق ہوں تو ٹھیک ورنہ ایک اور پتھر زیادہ کر دے جس سے جفت عدد طاق ہو جائے۔
3۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نیند سے بیدار ہونے والا اپنی ہتھیلی کو برتن کے اندر نہ لے جائے اور نہ ہی اس کے ساتھ تری کو چھوئے یہاں تک کہ اسے تین دفعہ دھو لے۔ کیونکہ رات کی نیند عموماً لمبی ہوتی ہے اور سونے والے کا ہاتھ جسم میں اِدھر اُدھرگھومتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گندگی کو چھو جائے اور اسے اس کا علم ہی نہ ہو۔ اس لیے شرعی نظافت کے حصول کے لیے اس کے لیے اسے دھونا مشروع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3033

 
 
Hadith   112   الحديث
الأهمية: يا أيها الناس، عليكم بالسكينة، فإن البر ليس بالإيضاع


Tema:

اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تیز رفتاری نیکی نہیں ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: دَفَعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يومَ عَرَفَة فَسَمِعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَربًا وَصَوتًا لِلإِبِل، فَأَشَارَ بِسَوطِهِ إِلَيهِم، وقال: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيكُم بِالسَّكِينَةِ، فَإِنَّ البِرَّ لَيسَ بِالإيضَاعِ».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفہ کے دن (عرفات سے ) روانہ ہوئے ، تو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے سخت ڈانٹ، مار اور اونٹوں کی آواز سنی تو آپ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تيز رفتاری نیکی نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- أفاض من عرفة فسمع وراءه صوتًا شديدًا وضربًا وزجرًا للإبل وأصواتًا للإبل، وكان هذا المشهد من الناس نتيجة ما تعودوه زمن الجاهلية؛ لأنهم كانوا في أيام الجاهلية إذا دفعوا من عرفة أسرعوا إسراعًا عظيمًا يبادرون النهار قبل أن يظلم الجو، فكانوا يضربون الإبل ضربًا شديدًا، فأشار النبي -صلى الله عليه وسلم- إليهم بسوطه، وقال: أيها الناس الزموا الطمأنينة والهدوء، فإن البر والخير ليس بالإسراع والإيضاع وهو نوع من السير سريع.
606;بی کریم ﷺ عرفات سے (مزدلفہ کی طرف ) روانہ ہوئے، آپ نے اپنے پیچھے بلند آوازوں کے ساتھ اونٹوں کے ہانکنے اور مارنے کا شور و غل سنا، لوگوں نے ايسا اس ليے کيا کيونکہ وہ زمانۂ جاہليت ميں اسی کے عادی تھے. زمانۂ جاہليت ميں لوگ جب عرفہ سے نکلتے تھے تو بہت تيز چلتے تھے تاکہ تاريکی چھا جانے سے پہلے ہی وہاں سے کوچ کرجائیں، اس لیے وہ انٹوں کو بری طرح مارتے تھے۔ لہذا نبی ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! سکون واطمینان کو لازم پکڑو کیونکہ تيز رفتاری اور تیزروی نیکی اور بھلائی کا کام نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3034

 
 
Hadith   113   الحديث
الأهمية: ما أبكي أن لا أكون أعلم أن ما عند الله -تعالى- خير لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولكن أبكي أن الوحي قد انقطع من السماء، فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها


Tema:

میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قَال أَبُو بَكر لِعُمَر-رضي الله عنهما- بَعْدَ وَفَاةِ رَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-: انْطَلِق بِنَا إِلَى أُمِّ أَيمَنَ -رَضِي الله عنها- نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَزُورُها، فَلَمَّا انتَهَيَا إِلَيهَا، بَكَت، فَقَالاَ لَهَا: مَا يُبكِيك؟ أَمَا تَعْلَمِين أَنَّ ما عِنْد الله خَيرٌ لِرَسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فَقَالَت: مَا أَبْكِي أَنْ لاَ أَكُون أَعلَم أَنَّ مَا عِندَ الله -تعالى- خَيرٌ لِرَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-، وَلَكِن أَبكِي أَنَّ الوَحي قَدْ انْقَطَع مِنَ السَّمَاء؛ فَهَيَجَتْهُمَا عَلَى البُكَاء؛ فَجَعَلاَ يَبْكِيَان مَعَهَا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کہا کہ چلو ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لیے چلتے ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے ان سے کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة -رضي الله عنهم- أحرص الناس على متابعة الرسول -صلى الله عليه وسلم- في كل صغيرة وكبيرة، حتى إنهم يتتبعون ممشاه في حياته، ومجلسه، وموطئه، وكل فعل علموا أنه فعله.
وهذا الحديث يُؤَكِّد ذلك، ويحكي قصة أبي بكر وعمر، حيث زارا امرأة كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزورها، فزاراها من أجل زيارة النبي -صلى الله عليه وسلم- إياها.
فلما جلسا عندها بكت، فقالا لها: ما يبكيك؟ أما تعلمين أن ما عند الله -سبحانه وتعالى- خير لرسوله؟ أي: خير له من الدنيا.
فقالت: إني لا أبكي لذلك ولكن لانقطاع الوحي؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- لما مات انقطع الوحي، فلا وحي بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولهذا أكمل الله شريعته قبل أن يتوفى، فقال -تعالى- {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}، فجعلا يبكيان؛ لأنها ذكرتهما بما كانا قد نسياه.
589;حابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہر چھوٹے بڑے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کے بہت زیادہ حریص تھے، یہاں تک کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آپ ﷺ کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور آنے جانے کے انداز میں، غرض ہر اس فعل میں آپ کی پیروی کرتے تھے، جس کے بارے میں انہیں علم ہو جاتا کہ یہ آپ ﷺ کا عمل ہے۔
یہ حدیث اس کی تایید کرتی ہے۔ اس حدیث میں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک ایسی خاتون سے ملاقات کے لیے گئے، جن سے نبی ﷺ ملنے جایا کرتے تھے۔ ان دونوں نے صرف اس وجہ سے ان سے ملاقات کی کہ نبی ﷺ بھی ان سے ملا کرتے تھے۔
جب وہ اس خاتون کے پاس بیٹھے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے پوچھاکہ آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ کیا آپ جانتی نہیں کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کے رسول ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یعنی وہ دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی ہوں، بلکہ میرے رونے کی وجہ تو یہ ہے کہ سلسلۂ وحی منقطع ہو گیا ہے۔ کیوںکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد اب کبھی وحی نہیں آئے گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی وفات سے پہلے اپنی شریعت کو مکمل فرما دیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} المائدة: 3۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
اس پر وہ دونوں بھی رونا شروع ہو گئے کیوںکہ انہوں نے انہیں بھولی ہوئی بہت سی باتیں یاد دلا دی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3035

 
 
Hadith   114   الحديث
الأهمية: جاء أعرابي فبال في طائفة المسجد


Tema:

ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه-قال: «جاء أعرابِيُّ، فبَالَ في طَائِفَة المَسجد، فَزَجَرَه النَّاسُ، فَنَهَاهُمُ النبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- فَلمَّا قَضَى بَولَه أَمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بِذَنُوب من ماء، فَأُهرِيقَ عليه».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اسے ڈانٹا تو آپ ﷺ نے انہیں منع کر دیا۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو نبی ﷺ نے پانی کا ایک ڈول لانے کا حکم دیا جسے اس پر بہا دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من عادة الأعراب، الجفاء والجهل، لبعدهم عن تعلم ما أنزل الله على رسوله -صلى الله عليه وسلم-.
فبينما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- في أصحابه في المسجد النبوي، إذ جاء أعرابي وبال في أحد جوانب المسجد، ظناً منه أنه كالفلاة، فعظم فعله على الصحابة -رضي الله عنهم- لعظم حرمة المساجد، فنهروه أثناء بوله، ولكن صاحب الخلق الكريم، الذي بعث بالتبشير والتيسير نهاهم عن زجره، لما يعلمه من حال الأعراب، لئلا يُلوث بقعاً كثيرة من المسجد، ولئلا يلوث بدنه أو ثوبه، ولئلا يصيبه الضرر بقطع بوله عليه، وليكون أدعى لقبول النصيحة والتعليم حينما يعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأمرهم أن يطهروا مكان بوله بصب دلو من ماء عليه.
575;عرابی لوگ عموماً سخت مزاج اور جاہل ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان باتوں کو نہیں سیکھ پاتے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کی ہیں۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی نے آکر مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ اس کے خیال میں یہ مسجد بھی ویرانے ہی کی مانند تھی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا یہ فعل بہت گراں گزرا کیونکہ مساجد تو بہت حرمت والی جگہیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ پیشاب کرنے کے دوران ہی انہوں نے اسے جھڑکنا شروع کر دیا۔ تاہم نبی ﷺ نے جو بہت بلند اخلاق سے متصف تھے اور جنہیں خوشخبری دینے اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا انہیں اسے جھڑکنے سے منع کر دیا کیونکہ آپ ﷺ اعرابی لوگوں کے احوال سے خوب آگاہ تھے۔آپ ﷺ کے منع کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ مسجد کی مختلف جگہوں، اپنے جسم اور کپڑوں کو خراب نہ کرے اور اس لیے کہ اسے پیشاب سے روکنے کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق نہ ہو اور جب نبی ﷺ اسے تعلیم دیں اور نصیحت کریں تو وہ پورے طریقے سے اسے قبول کرے۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ پیشاب والی جگہ پر پانی کا ڈول بہا کر اسے صاف کر دیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3036

 
 
Hadith   115   الحديث
الأهمية: إذا دخل الرجل بيته، فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه: لا مبيت لكم ولا عشاء، وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله، قال الشيطان: أدركتم المبيت والعشاء


Tema:

جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إِذَا دَخَل الرَّجُل بَيتَه، فَذَكَرَ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، وَعِندَ طَعَامِهِ، قَالَ الشَّيطَانُ لِأَصْحَابِهِ: لاَ مَبِيتَ لَكُم وَلاَ عَشَاءَ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَم يَذْكُر الله -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، قَالَ الشَّيطَان: أَدْرَكْتُمُ المَبِيت؛ وَإِذا لَمْ يَذْكُرِ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ طَعَامِه، قالَ: أَدرَكتُم المَبِيتَ وَالعَشَاءَ».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنے گھر داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے رات گزارنےکی جگہ پالی۔ اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جابر -رضي الله عنه- جاء في موضوع أدب الطعام، حيث أخبر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا دخل الرجل بيته فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ ذلك لأن الإنسان ذكر الله.


وذِكر الله -تعالى- عند دخول البيت أن يقول: "بسم الله ولجنا، وبسم الله خرجنا، وعلى الله ربِّنا توكلنا، اللهم إني أسألك خير المولج وخير المخرج"، كما جاء في حديث في إسناده انقطاع، وأما الذكر عند العشاء فأن يقول: "بسم الله".
فإذا ذكر الله عند دخوله البيت، وذكر الله عند أكله عند العشاء، قال الشيطان لأصحابه: "لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ لأن هذا البيت وهذا العشاء حُمِيَ بذكر الله -عز وجل-، حماه الله -تعالى- من الشياطين.
وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله قال الشيطان: "أدركتم المبيت"، وإذا قُدِّم إليه الطعام فلم يذكر الله -تعالى- عند طعامه قال: "أدركتم المبيت والعشاء"، أي: أن الشيطان يشاركه المبيت والطعام؛ لعدم التحصُّن بذكر الله.   وفي هذا حث على أن الإنسان ينبغي له إذا دخل بيته أن يذكر اسم الله، وكذلك عند طعامه.
580;ابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کھانے کے آداب کے موضوع سے متعلق ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اُس وقت شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے“۔ اس لیے کہ اس بندے نے اللہ کا ذکر کیا ہے۔
گھر میں داخلے ہوتے وقت اللہ کا ذکر یہ ہے کہ یوں کہے: ”‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ “ (ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں، اے اللہ! ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں) جس طرح کہ اس حدیث میں آیا ہے جس کی سند میں انقطاع ہے۔
جب کہ رات کے کھانے کے وقت کا ذکر ”بِسْمِ اللَّه“ کہنا ہے۔
پس جب بندہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور رات کا کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان اپنے ساتھیوں کو کہتا ہے: نہ تو تمہاری لیے رات بسر کرنے کی جگہ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔ کیونکہ اس گھر اور اس کھانے کو اللہ عز و جل کے ذکر کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے اسے شیطانوں سے محفوظ کر دیا ہے۔
اور جب داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے:”تمہیں رات گزارنے کی جگہ مل گئی“۔
اور جب اس کے سامنے کھانا پیش کیا جائے اور وہ کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: ”تمہیں رات گزارنے کے لیے جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی“۔ یعنی شیطان اس کے ساتھ سونے کی جگہ اور رات کے کھانے میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے ذکر کے ساتھ اسے محفوظ نہیں کیا گیا۔
اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ جب اپنے گھرمیں داخل ہو اور جب وہ کھنا کھائے تو اللہ کا نام لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3037

 
 
Hadith   116   الحديث
الأهمية: ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟


Tema:

جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: «قال النبي -صلى الله عليه وسلم- لجبريل: «مَا يَمْنَعُك أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَر مِمَّا تَزُورَنَا؟» فنزلت: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك ).

ابن عباس رضي الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے فرمایا: ”جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟“ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك )[مريم: 64]
ترجمہ: ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے مابین ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي الحديث شوق النبي -صلى الله عليه وسلم-  لجبريل -عليه السلام-؛ لأنَّه يأتيه من الله -عز وجل-، حيثُ أبطأ جبريل في النزول أربعين يوما فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- يا جبريل: (ما يمنعك أن تزورنا)؟، أي: ما نزلت حتى اشتقت إليك، وأوحى الله إلى جبريل قل له: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) أي قال الله -سبحانه- قل يا جبريل ما نتنزل في أوقات متباعدة إلا بإذن الله على ما تقتضيه حكمته، فهو سبحانه: (له ما بين أيدينا) أي: أمامنا من أمور الآخرة، (وما خلفنا): من أمور الدنيا، وتمام الآية "وما بين ذلك" أي: ما يكون من هذا الوقت إلى قيام الساعة، أي: له علم ذلك جميعه وما كان ربك نسيا أي: ناسيا يعني تاركا لك بتأخير الوحي عنك.
فالحاصل أن هذ الحديث يدل على أنه ينبغي للإنسان أن يصطحب الأخيار، وأن يزورهم ويزوروه لما في ذلك من الخير.
740;ہ حدیث نبی ﷺ کے جبریل علیہ السلام سے شوقِ ملاقات کو بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ عز و جل کے ہاں سے آتے ہیں۔ جب جبریل علیہ السلام نے آنے میں چالیس دن دیر کر دی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اے جبریل! آپ ہم سے ملاقات کے لئے کیوں نہیں آتے؟ یعنی آپ نازل نہ ہوئے یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ آپ ﷺ سے کہیں: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) یعنی اللہ سبحانہ نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کہو کہ ہم دیر دیر سے اللہ کے حکم ہی سے آتے ہیں جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہمارے آگے جو امور آخرت ہیں اور ہمارے پیچھے جو امور دنیا ہیں، اور آیت کا تکملہ "وما بين ذلك" (اور جو کچھ ان کے درمیان ہے) یعنی اس وقت سے لے کر قیامت آنے تک جو کچھ بھی ہو گا ان سب کا علم اسے ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں یعنی وحی میں تاخیر کر کے آپ کو چھوڑ دینے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو اپنا ہم نشین بنائے، اور وہ ان کی زیارت کرےاور وہ لوگ اس سے ملاقات کرنے آئیں کیونکہ اس میں بہت خیر مضمر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3038

 
 
Hadith   117   الحديث
الأهمية: رأيتك تصلي لغير القبلة؟ فقال: لولا أني رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يفعله ما فعلته


Tema:

میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔

عن أنس بن سيرين قال: «اسْتَقبَلنَا أَنَسًا حِين قَدِم مِن الشَّام، فَلَقِينَاه بِعَينِ التَّمرِ، فَرَأَيتُهُ يُصَلِّي على حِمَار، وَوَجهُهُ مِن ذَا الجَانِب -يعني عن يَسَارِ القِبلَة- فقلت: رَأَيتُك تُصَلِّي لِغَيرِ القِبلَة؟ فقال: لَولاَ أنِّي رَأيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَفْعَلُه ما فَعَلتُه».

انس بن سیرین روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب واپس ہوئے، تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا، تو میں بھی نہ کرتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قدم أنس بن مالك الشام، ولجلالة قدره وسعة علمه، استقبله الناس، وهكذا رواية مسلم (قدم الشام) ولكن معناها: تلقيناه في رجوعه حين قدم الشام، وإنما حذف ذكر الرجوع؛ للعلم به؛ لأنهم خرجوا من البصرة للقائه حين قدم من الشام.
فذكر الراوي -وهو أحد المستقبلين- أنَّه رآه يصلى على حمار، وقد جعل القبلة عن يساره، فسأله عن ذلك، فأخبرهم أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- يفعل ذلك، وأنه لو لم يره يفعل هذا، لم يفعله.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے۔ ان کی جلالت قدر اور علمی وسعت کی وجہ سے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم کی روایت میں ”قَدِمَ الشَّامَ“ یعنی جب شام تشریف لائے ہی ہے، لیکن اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ کی شام سے واپسی پر ملاقات کی، اس روایت میں ان کے رجوع کا ذکر حذف کر دیا گیا کیوں کہ یہ بات معلوم ہے اس لیے کہ وہ سب ان کی ملاقات کے لیے بصرہ سے باہر آئے جبکہ وہ شام سے واپس ہوئے تھے۔
راوی جو کہ استقبال کرنے والوں میں شامل تھے، کا بیان ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے، بایں طور کہ قبلہ ان کے بائیں جانب تھا۔ راوی نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو وہ بھی ایسا نہ کرتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3039

 
 
Hadith   118   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يخرج من طريق الشجرة، ويدخل من طريق المعرس، وإذا دخل مكة، دخل من الثنية العليا، ويخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ جب مکہ میں داخل ہو تے تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- "أَنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَخرُجُ مِنْ طَرِيقِ الشَّجَرَةِ، وَيَدْخُلُ مِنْ طَرِيقِ الْمُعَرَّس، وَإِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنَ الثَنِيَّةِ العُلْيَا، وَيَخْرُجُ مِنَ الثَنِيَّةِ السُّفْلَى".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ اور جب مکے میں داخل ہو تے، تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- في موضوع استحباب مخالفة الطريق في العيد والجمعة وغيرها من العبادات.
ومعنى مخالفة الطريق: أن يذهب المسلم إلى العبادة من طريق ويرجع من الطريق الآخر؛ فمثلًا يذهب من الجانب الأيمن ويرجع من الجانب الأيسر، وهذا ثابت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في العيدين، كما رواه جابر -رضي الله- عنه كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا كان يوم عيد خالف الطريق؛ يعني خرج من طريق ورجع من طريق آخر، وكذلك في الحديث الذي معنا.
وتنوعت أقوال العلماء في الحكمة في المخالفة في الطريق على أقوال أشهرها:
1. ليشهد له الطريقان يوم القيامة؛ لأن الأرض يوم القيامة تشهد على ما عمل فيها من خير وشر، فإذا ذهب من طريق ورجع من آخر؛ شهد له الطريقان يوم القيامة بأنه أدى صلاة العيد.
2. من أجل إظهار الشعيرة، شعيرة العيد؛ حتى تكتظ الأسواق هنا وهناك، فإذا انتشر في طرق المدينة صار في هذا إظهار لهذه الشعيرة؛ لأن صلاة العيد من شعائر الدين، والدليل على ذلك أن الناس يؤمرون بالخروج إلى الصحراء؛ إظهارًا لذلك، وإعلانًا لذلك.
3. إنما خالف الطريق من أجل المساكين الذين يكونون في الأسواق، قد يكون في هذا الطريق ما ليس في هذا الطريق، فيتصدق على هؤلاء وهؤلاء.
ولكن الأقرب والله أعلم أنه: من أجل إظهار تلك الشعيرة، حتى تظهر شعيرة صلاة العيد بالخروج إليها من جميع سكك البلد.
أما في الحج كما جاء في الحديث الذي معنا، فإن الرسول -صلى الله عليه وسلم- خالف الطريق في دخوله إلى مكة دخل من أعلاها، وخرج من أسفلها، وكذلك في ذهابه إلى عرفة، ذهب من طريق ورجع من طريق آخر.
واختلف العلماء أيضا في هذه المسألة، هل كان النبي -صلى الله عليه وسلم- فعل ذلك على سبيل التعبُّد؛ أو لأنُّه أسهل لدخوله وخروجه؟ لأنه كان الأسهل لدخوله أن يدخل من الأعلى ولخروجه أن يخرج من الأسفل.
فمَنْ قال من العلماء قال بالأول قال: إنه سنة أن تدخل من أعلاها: أي أعلى مكة وتخرج من أسفلها، وسنة أن تأتي عرفة من طريق وترجع من طريق آخر.
ومنهم من قال: إن هذا حسب تيسر الطريق، فاسلك المتيسر سواء من الأعلى أو من الأسفل.
وعلى كل حال إن تيسر للحاج والمعتمر أن يدخل من أعلاها ويخرج من أسفلها فهذا طيب؛ فإن كان ذلك عبادة فقد أدركه، وإن لم يكن عبادة لم يكن عليه ضرر فيه، وإن لم يتيسر فلا يتكلف ذلك كما هو الواقع في وقتنا الحاضر، حيث إن الطرق قد وجهت توجيهًا واحدًا، ولا يمكن للإنسان أن يخالف ولي الأمر والحمد لله الأمر واسع.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث عید، جمعہ اور دیگر عبادات میں راستہ بدل کر آنے جانے کے استحباب کے موضوع پر ہے۔ راستہ بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک راستے سے عبادت کے لیے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے۔ مثال کے طور پر وہ دائیں جانب سے جائے اور بائیں جانب سے واپس آئے۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے عیدین میں ثابت ہے۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کے دن راستہ تبدیل کرتےتھے۔ یعنی ایک راستے سے جاتے اور دوسرے سے واپس آتے۔ اس حدیث میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ علما نے راستہ تبدیل کرنے کی بہت ساری حکمتیں بیان کی ہیں، جن میں چند ایک مشہور یہ ہیں:
1۔ دونوں راستے قیامت کے دن اس کے لیے گواہ بنیں گے؛ کیوں کہ قیامت کے دن زمین انسان کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی۔ اس لیے جب وہ ایک راستے سے جائےگا اور دوسرے سے واپس آ ئے گا، تودونوں راستے اس بات کے گواہ بن جائیں گے کہ اس نے نمازعید ادا کی تھی۔
2۔ عید جیسے اہم ترین اسلامی شعار کے اظہار کے لیے۔ جب ہر طرف بازار بھرجائیں گے اور لوگ شہر کے راستوں میں پھیل جائيں گے، تو اس اسلامی شعار کا اظہار ہوگا۔ عید اسلامی شعار ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے اظہار اور اعلان کے لیے لوگوں کو صحرا میں نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
3۔ اس کی ایک وجہ مساکین بھی ہیں، جو بازاروں میں کبھی اس راستے پر ہوتے ہیں، تو کبھی اس راستے پر۔ ایسے راستہ بدل لیا جائے، تاکہ سب پر صدقہ کیا جا سکے۔
لیکن قریب تر بات یہ ہے کہ اصل وجہ اس شعار کا اظہار ہے؛ تاکہ نماز عید کے لیے نکلنے سے شہر کی تمام سڑکوں سے نماز عید کے شعار کا اظہار ہو۔ جہاں تک حج کی بات ہے، تو جیساکہ اس حدیث میں مذکور ہے، رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں داخل ہوتے وقت راستہ تبدیل کیا؛ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوئے اور نچلی جانب سے نکلے۔ اسی طرح عرفہ جاتے وقت آپ ایک راستے سے گئے اور دوسرے راستے سے واپس ہوئے۔ علما کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ بطور عبادت کیا تھا یا اپنے داخل ہونے اور نکلنے کی سہولت کے مدنظر؟ کیوں کہ ممکن ہے کہ اوپری جانب سے داخل ہونا آسان ہو اور نچلی جانب سے نکلنا۔ پہلے موقف کے قائلین کا کہنا ہے کہ یہ سنت ہے کہ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوا جائے اور نچلی جانب سے نکلا جائے اور یہ بھی سنت ہے کہ عرفہ میں ایک راستہ سے آیا جائے اور دوسرے سے واپس جایا جائے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ راستے کی فراہمی اور آسان ہونے کا ہے۔ جو راستہ سہل لگے، اسے اختیار کیا جائے، بالائی والا ہو یا زیریں والا۔
بہرحال اگر حاجی بالائی حصے سے داخل ہونے اور زیریں حصے سے نکلنے کا اہتمام کر سکے، تو یہ بہتر ہے؛ کیوں کہ اگر یہ عبادت ہے، تو ادا ہو گئی اور اگر عبادت نہیں ہے تو کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا، تو اسے اس کا مکلف نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ موجودہ صورت حال ہے۔ آج راستے یک رخی بنا دیے گئے ہیں اور اولیاء الامور کی مخالفت بھی ممکن نہیں ہے۔ اور الحمد للہ مسئلے میں بڑی گنجائش بھی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3040

 
 
Hadith   119   الحديث
الأهمية: ارقبوا محمدًا -صلى الله عليه وسلم- في أهل بيته


Tema:

محمد ﷺ کا خیال آپ کے اہلِ بیت میں رکھو۔

عن أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: ارْقَبُوا محمَّدًا -صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم- فِي أَهلِ بَيتِهِ.

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: تم محمد ﷺ کا ان کے اہل بیت کے بارے میں خیال رکھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في أثر أبي بكر -رضي الله عنه- دليل على معرفة الصحابة -رضي الله عنهم- بحق أهل بيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وتوقيرهم واحترامهم، فمن كان من أهل البيت مستقيما على الدين مُتَّبِعًا لِسنَّة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فله حقان: حق الإسلام وحق القرابة من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وفيه أن أبا بكر والصحابة كانوا يحبون آل البيت ويوصون بهم خيرًا.
575;بو بکر رضی اللہ عنہ کے اس اثر میں دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول ﷺ کے اہل بیت کے حق سے اور ان کی توقیر و احترام سے آگاہ تھے۔ اہل بیت میں سے جو شخص راست روی سے دین پر قائم ہو اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا پیرو ہو اس کے دو حق ہیں: ایک اسلام کا حق اور دوسرا رسول اللہ ﷺ سے رشتہ داری کا حق۔ اس میں اس بات کا (بھی) بیان ہے کہ ابو بکر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل بیت سے محبت رکھتے تھےاور ان کے بارے میں خیر خواہی کی تلقین کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3041

 
 
Hadith   120   الحديث
الأهمية: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته
قالوا: وما جائزته؟ يا رسول الله، قال: يومه وليلته، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه


Tema:

جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔

عن أبي شُريح خُويلد بن عمرو الخزاعي عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «مَنْ كَان يُؤمِن بِاللهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِم ضَيفَه جَائِزَتَه»، قَالوا: وما جَائِزَتُهُ؟ يَا رسول الله، قال: «يَومُهُ ولَيلَتُهُ، والضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلك فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيه».
وفي رواية: «لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يؤْثِمَهُ» قالوا: يَا رَسول الله، وَكَيفَ يُؤْثِمَهُ؟ قال: «يُقِيمُ عِندَهُ ولاَ شَيءَ لَهُ يُقرِيهِ بهِ».

ابو شریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اس حد تک ٹھہرے کہ اسے گناہ گار ہی کردے۔لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ اسے گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اس کے پاس ٹھہرے حالانکہ اس کی مہمان نوازی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي شريح الخزاعي -رضي الله عنه- يدل على إكرام الضيف وقراه، فلقد جاء عنه أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلَّم- قال: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه"، وهذا من باب الحث والإغراء على إكرام الضيف، يعني أنَّ إكرام الضيف من علامة الإيمان بالله واليوم الآخر، ومن تمام الإيمان بالله واليوم الآخر.
ومما يحصل به إكرام الضيف: طلاقة الوجه، وطيب الكلام، والإطعام ثلاثة أيام، في الأول بمقدوره وميسوره، والباقي بما حضره من غير تكلف، ولئلا يثقل عليه وعلى نفسه، وبعد الثلاثة يُعد من الصدقات، إن شاء فعل وإلا فلا.
وأما قوله: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام" قال العلماء في معنى الجائزة: الاهتمام بالضيف في اليوم والليلة، وإتحافه بما يمكن من بر وخير، وأما في اليوم الثاني والثالث فيطعمه ما تيسر ولا يزيد على عادته، وأما ما كان بعد الثلاثة فهو صدقة ومعروف إن شاء فعل وإن شاء ترك.
وفي رواية مسلم "ولا يحل له أن يقيم عنده حتى يؤثمه" معناه: لا يحل للضيف أن يقيم عنده بعد الثلاث حتى يوقعه في الإثم؛ لأنه قد يغتابه لطول مقامه، أو يعرض له بما يؤذيه، أو يظن به مالا يجوز، وهذا كله محمول على ما إذا أقام بعد الثلاث من غير استدعاء من المضيف.
ومما ينبغي أن يعلم أن إكرام الضيف يختلف بحسب أحوال الضيف، فمن الناس من هو من أشراف القوم ووجهاء القوم، فيكرم بما يليق به، ومن الناس من هو من متوسط الحال فيكرم بما يليق به، ومنهم من هو دون ذلك.
575;بو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث دلالت کرتی ہے کہ مہمان کا اکرام اور اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے"۔ اس میں مہمان کے اکرام کی ترغیب ہے اور اس پر ابھارا گیا ہے یعنی مہمان کا اکرام کرنا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی علامت ہے اور اس سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان کامل ہوتا ہے۔
جن باتوں سے مہمان کی تکریم ہوتی ہے وہ یہ ہیں: چہرے کی بشاشت، خوشگوار گفتگو، تین دن کھانا کھلانا، پہلے دن حسب استطاعت اور جس قدر میسر ہو اور باقی دنوں میں بلا تکلف جو ہو پیش کرنا تاکہ اس سے نہ تو مہمان پر بوجھ آئے اور نہ خود اس پر۔تین دن کے بعد مہمان نوازی صدقہ شمار ہوتی ہے، چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام"۔ اس میں ’جائزہ‘ کے لفظ کے معنی میں علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دن اور ایک رات مہمان کا خوب خیال رکھے اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی اچھائی اور بھلائی ممکن ہو وہ کرے۔ جب کہ دوسرے اور تیسرے دن میں جو کچھ میسر ہو وہ اسے کھلائے اور اپنے معمول سے نہ بڑھے۔ جب کہ تین دن کے بعد یہ صدقہ اور نیکی ہے اگر چاہے تو کرلے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ: " اس (مہمان) کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اس حد تک قیام کرے کہ اسے گناہ گار ہی کر دے"۔ یعنی مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد بھی قیام جاری رکھے یہاں تک کہ اسے گناہ گار کر دے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لمبے قیام کی وجہ سے اس کی غیبت کر بیٹھے یا اس کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کرے جس سے اس کو تکلیف ہو یا پھر اس کے بارے میں کوئی گمان رکھے جو کرنا جائز نہیں۔ یہ سب اس صورت پر محمول ہے جب وہ میزبان کی دعوت کے بغیر اس کے ہاں تین دن کے بعد تک ٹھہرا رہے۔
یہاں یہ جان لینا مناسب ہے کہ مہمان کا اکرام مہمان کی حالت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بڑے اور معزز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کا اکرام ان کے شایانِ شان کرے۔ بعض لوگ متوسط درجے کے ہوتے ہیں ان کا اکرام ان کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ ان سے بھی کم تر درجے کے ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3042

 
 
Hadith   121   الحديث
الأهمية: إني قد رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا آليت على نفسي أن لا أصحب أحدًا منهم إلا خدمته


Tema:

میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: خَرَجتُ معَ جَرِير بنِ عَبدِ الله البَجَلِي -رضي الله عنه- في سَفَرٍ، فَكَانَ يَخْدُمُنِي، فقُلتُ لَهُ: لا تفْعَل، فقَال: إِنِّي قَدْ رَأَيتُ الأَنْصَارَ تَصْنَعُ بِرَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- شَيئًا آلَيتُ عَلَى نَفْسِي أَنْ لاَ أَصْحَبَ أَحدًا مِنْهُم إِلاَّ خَدَمْتُه.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر پر تھا۔ وہ میری خدمت کرتےتھے۔ میں نے کہا کہ ایسا نہ کرو، تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب مجھے ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- فيه أنه -رضي الله عنه- كان في سفر فجعل يخدم رفقته وهم من الأنصار، ومنهم أنس -رضي الله عنه- وهو أصغر سنًّا منه، فقيل له في ذلك، يعني: كيف تخدمهم وأنت صاحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟
فقال: إني رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عيه وسلم- شيئًا؛ حلفت على نفسي ألا أصحب أحدا منهم إلا خدمته، وهذا من إكرام من يكرم النبي -صلى الله عليه وسلم-، فإكرام أصحاب الرجل إكرام للرجل، واحترامهم احترام له، ولهذا جعل -رضي الله عنه- إكرام هؤلاء من إكرام النبي -صلى الله عليه وسلم-.
580;ریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ ایک سفر میں تھے۔ دوران سفر وہ اپنے ساتھ موجود انصار کی خدمت کرنے لگے۔ ان میں انس رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ آپ صحابئ رسول ہونے کے باوجود ان کی خدمت کیوں کرتے ہیں؟
تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا (عقیدت مندانہ) برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ دل میں قسم اٹھالی تھی کہ مجھے ان میں سے جو بھی ملے گا، میں اس کی خدمت اسی طرح کروں گا۔ یہ اس کا اکرام ہے، جو رسول اللہﷺ کا اکرام کرتا تھا۔ کسی کے دوستوں کا اکرام در حقیقت اسی کا اکرام اور ان کا احترام اصل میں اسی کا احترام ہوتا ہے۔ اسی لیے جریر رضی اللہ عنہ نے انصار کے اکرام کو نبی کریم ﷺ کا اکرام سمجھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3043

 
 
Hadith   122   الحديث
الأهمية: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس


Tema:

کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الكبائر: الإشراك بالله، وعُقُوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغَمُوس».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین دن کا روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يتناول هذا الحديث عددًا من الذنوب التي وصفت بأنها من الكبائر، وسميت بذلك لضررها الكبير على فاعلها وعلى الناس في الدنيا والآخرة.
فأولها "الإِشرَاكُ بِالله": أي: الكفر بالله بأن، يعبد معه غيره ويجحد عبادة ربه.   وثانيها "عُقُوقُ الوَالِدَينِ": والعقوق حقيقته: أن يفعل مع والديه أو مع أحدهما، ما يتأذى به عرفاً، كعدم احترامهما وسبهما وعدم القيام عليهما ورعايتهما عند حاجتهم إلى الولد.
وثالثها "قَتْل النَّفْس": بغير حق كالقتل ظلماً وعدواناً، أما إذا استحق الشخص القتل بحق من قصاص وغيره فلا يدخل في معنى هذا الحديث.
ثم خُتِم الحديث بالترهيب من "اليَمِين الغَمُوسُ": وسُمِيت بالغموس لأنَّها تغمس صاحبها في الإِثم أو في النار؛ لأنه حلف كاذباً على علم منه.
575;س حدیث میں متعدد گناہوں کا بیان ہے، جن کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ وہ کبیرہ گناہ ہیں۔ انھیں یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے شخص اور لوگوں کو دنیا اور آخرت میں ان کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
پہلا : ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا“ ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ کفر کرنا، بایں طور کہ اس کے ساتھ ساتھ بندہ کسی اور کی بھی عبادت کرے اور اپنے رب کی عبادت سے انکاری ہو جائے۔
دوسرا: ”والدین کی نافرمانی کرنا“ عقوق کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے، جو عرف کے اعتبار سے ان کے لیے تکلیف دہ ہو، جیسے ان کا احترام نہ کرنا، انھیں برا بھلا کہنا اور بوقت ضرورت اولاد کا ان کی دیکھ بھال نہ کرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا۔
تیسرا: ”کسی جان کو قتل کرنا“ یعنی ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ناحق قتل کرنا۔ تاہم اگر آدمی قصاص وغیرہ کی وجہ سے قتل کا مستحق ہو، تو اس پر اس حدیث کے معنی کا اطلا ق نہیں ہو گا۔
حدیث کا اختتام جھوٹی قسم کھانے سے ڈرا کر کیا گیا۔ جھوٹی قسم کو ”الیمین الغموس“ اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اپنے اٹھانے والے کو گناہ یا جہنم میں ڈبو دیتی ہے۔ کیوںکہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3044

 
 
Hadith   123   الحديث
الأهمية: أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر


Tema:

سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «أفضل الجهاد كلمة عَدْلٍ عند سُلْطَانٍ جَائِر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن أعظم جهاد المرء أن يقول كلمة حق عن صاحب سلطة ظالم؛ لأنه ربما ينتقم منه بسببها ويؤذيه أو يقتله، فالجهاد يكون باليد كقتال الكفار، وباللسان كالإنكار على الظلمة، وبالقلب كجهاد النفس.
606;بی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ وہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس حق گوئی کی وجہ سے وہ بادشاہ کے انتقام اور ایذا کا شکار ہو جائے اور بادشاہ اسے تکلیف پہنچائے یا قتل کردے۔ جہاد ہاتھ سے کیا جاتا ہے جیسے کفار سے قتال کرنا اسی طرح جہاد زبان سے بھی کیا جاتا ہے جیسے کہ ظالموں پر نکیر کرنا نیز جہاد دل سے بھی کیا جاتا ہے جیسے نفس سے مجاہدہ کرنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3045

 
 
Hadith   124   الحديث
الأهمية: أن أم حبيبة استحيضت سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل


Tema:

ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "إن أم حبيبة اسْتُحِيضَتْ سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل، قالت: فكانت تغتسل لكل صلاة".

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں، تو وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أم حبيبة حين سألته عن ما يلزمها في استحاضتها أن تغتسل، فكانت تغتسل لكل صلاة، وقد كانت استحيضت سبع سنين، والاستحاضة أمر عارض قليل في النساء، والأصل هو الحيض الذي يكون في أيام معدودة في الشهر وتصحبه علامات يعرفها النساء.
وكانت تغتسل لكل صلاة تطوعًا منها.
575;م حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ استحاضہ میں انہیں کیا کرنا چاہئے تو آپ ﷺ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ ہر نماز کے لئے غسل کیا کرتی تھیں۔ انہیں سات سال تک استحاضہ کا خون آیا تھا۔
استحاضہ ایک عارضی امر ہے جو کم ہی عورتوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اصل تو حیض ہے جو مہینے کے چند گنے چنے دنوں میں آتا ہے اور اس کی کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جسے عورتیں پہچانتی ہیں۔
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنی جانب سے ہی تطوّعاً ہر نماز کے لیے غسل کرلیا کرتی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3046

 
 
Hadith   125   الحديث
الأهمية: لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري، ثم يغتسل منه


Tema:

تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا يَبُولَنَّ أحَدُكم في الماء الدَّائِم الذي لا يجْرِي, ثمَّ يَغتَسِل مِنه".   وفي رواية: "لا يغتسل أحدكُم في الماء الدَّائم وهو جُنُب".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے، اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول ﷺ نے فرمایا) ”تم میں سے کوئی بھی حالتِ جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن البول في الماء الراكد الذي لا يجري؛ لأن ذلك يقتضي تلوثه بالنجاسة والأمراض التي قد يحملها البول فتضر كل من استعمل الماء، وربما يستعمله البائل نفسه فيغتسل منه، فكيف يبول بما سيكون طهورًا له فيما بعد.
كما نهى عن اغتسال الجنب في الماء الراكد؛ لأن ذلك يلوث الماء بأوساخ وأقذار الجنابة.
606;بی ﷺ نے ایسے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا جو ٹھہرا ہوا ہو اورجاری نہ ہو۔ کیونکہ اس کی وجہ سے یہ نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ وہ امراض جو پیشاب کے بسبب در آ سکتے ہیں ہر اس شخص کو نقصان دے سکتے ہیں جو پانی کو استعمال کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود پیشاب کرنے والا ہی اس پانی کو استعمال کرے اور اس سے غسل کرے۔ چنانچہ اس کے لیے کیسے روا ہے کہ وہ ایسی شے میں پیشاب کرے جو بعد میں اس کے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ ہو گی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ایسا کرنا پانی کو جنابت کی گندگی سے آلودہ کر دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3047

 
 
Hadith   126   الحديث
الأهمية: استوصوا بالنساء خيرا؛ فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج ما في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء


Tema:

عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے، اب اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے، اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑدو تو ٹیڑھی رہے گی، لہٰذا عورتوں سے اچھا برتاؤ کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا؛ فَإِنَّ المرأة خُلِقَتْ مِن ضِلعٍ، وَإنَّ أعْوَجَ مَا في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فَإنْ ذَهَبتَ تُقيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء».
وفي رواية: «المرأة كالضِّلَعِ إنْ أقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَإن اسْتَمتَعْتَ بها، استمتعت وفيها عوَجٌ».
وفي رواية: «إنَّ المَرأةَ خُلِقَت مِنْ ضِلَع، لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَريقة، فإن استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج، وإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَها، وَكَسْرُهَا طَلاَقُهَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیوں کہ عورت کو پسلی سے پیداکیاگیاہے اورپسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھاپن اس کے اوپروالے حصے میں ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگ جاؤگے،تواسے توڑ بیٹھو گے اور اگر اس کو یوں ہی چھوڑدوگے،تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”عورت پسلی کی مانند ہے۔اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے،تواسے توڑ بیٹھوگے۔اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہو،تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو“۔
ایک دوسری روایت میں ہے:”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ کسی طریقے سے بھی تمھارے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کاارادہ رکھتے ہو، تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے میں لگ گئے، تو اسے توڑ بیٹھوگے۔ اس کے توڑنے سے مراد اسے طلاق دینا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- في معاشرة النساء أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: اقبلوا هذه الوصية التي أوصيكم بها، وذلك أن تفعلوا خيرًا مع النساء؛ لأن النساء قاصرات في العقول، وقاصرات في الدين، وقاصرات في التفكير، وقاصرات في جميع شؤونهن، فإنهن خلقن من ضلع.
وذلك أن آدم -عليه الصلاة والسلام- خلقه الله من غير أب ولا أم، بل خلقه من تراب، ثم قال له كن فيكون، ولما أراد الله -تعالى- أن يبث منه هذه الخليقة، خلق منه زوجه، فخلقها من ضلعه الأعوج، فخلقت من الضلع الأعوج، والضلع الأعوج إن استمتعت به استمتعت به وفيه العوج، وإن ذهبت تقيمه انكسر.
فهذه المرأة أيضا إن استمتع بها الإنسان استمتع بها على عوج، فيرضى بما تيسر، وإن أراد أن تستقيم فإنها لن تستقيم، ولن يتمكن من ذلك، فهي وإن استقامت في دينها فلن تستقيم فيما تقتضيه طبيعتها، ولا تكون لزوجها على ما يريد في كل شيء، بل لابد من مخالفة، ولابد من تقصير، مع القصور الذي فيها، فإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها، ومعناه أنك إن حاولت أن تستقيم لك على ما تريد فلا يمكن ذلك، وحينئذ تسأم منها وتطلقها.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ عورتوں کے ساتھ معاشرت کے بارے بتا رہے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:میں تمھیں جو وصیت کرنے جا رہا ہوں، اسے پلے سے باندھ لو۔وصیت یہ ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ کیوںکہ عورتیں عقلی، دینی اور غور وفکر کی صلاحیت کے اعتبار سے کم تر ہوتی ہں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام امور میں نا پختہ ہوتی ہیں۔ کیوںکہ انھیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
وہ اس طرح کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر باپ اور ماں کے پیدا فرمایا؛بلکہ انھیں مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر فرمایا کہ"ہوجا"تو وہ عالم وجود میں آ گئے۔جب اللہ تعالی نے ان سے ان کی نسل پھیلانے کا ارادہ فرمایا، تو انہی سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا۔اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی زوجہ کو ان کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا فرمایا۔چنانچہ معلوم ہواکہ عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے۔
اگر آپ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگر اسے سیدھا کرنے لگ جائیں گے،تو وہ ٹوٹ جائے گی۔یہی حال عورت کا بھی ہے۔اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،تو اس میں موجود کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھانا ہوگا۔جتنا فائدہ حاصل ہو جائے، اسی پر راضی ہونا ہوگا۔اگر وہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا،تو وہ سیدھی نہیں ہوگی۔انسان اپنی کوشش میں ناکام رہے گا۔دین کے معاملے میں درست ہو بھی جاۓ،تو طبعی میلانات کے معاملے میں کجی باقی رہے گی۔ ہر بات میں شوہرکی چاہت پرپورانہیں اترسکتی؛بلکہ مخالفت اورکوتاہی ناگزیرہے۔ جوکجی ہے،وہ رہنی ہی ہے۔اگر آپ اسے سیدھاکرنے جائیں گے،تواسے توڑ بیٹھیں گے۔یہاں توڑنے سے مراداسے طلاق دیناہے۔مطلب یہ ہے کہ اگرآپ یہ کوشش کریں گے کہ آپ جو چاہیں،وہ اس کے موافق ہوجائے،توایساممکن نہیں ہے۔ایسی صورت میں آپ اس سے اکتاکراسے طلاق دے بیٹھیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3049

 
 
Hadith   127   الحديث
الأهمية: أن رسول الله  -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا معتزلًا، لم يصل في القوم، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله أصابتني جنابة، ولا ماء، فقال: عليك بالصعيد، فإنه يكفيك


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا مُعتزلًا، لم يُصَلِّ في القوم، فقال: (يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟) فقال: يا رسول الله أصابتني جنابةٌ، ولا مَاءَ، فقال: (عليك بالصَّعِيدِ، فإنه يَكْفِيَكَ).

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بالصحابة صلاة الصبح، فلما فرغ من صلاته رأى رجلا لم يصل معهم، فكان من كمال لطف النبي -صلى الله عليه وسلم-، وحسن دعوته إلى الله، أنه لم يعنفه على تخلفه عن الجماعة، حتى يعلم السبب في ذلك، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلى مع القوم؟، فشرح عذره -في ظنه- للنبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه قد أصابته جنابة ولا ماء عنده، فأخر الصلاة حتى يجد الماء ويتطهر، فقال -صلى الله عليه وسلم- إن الله تعالى قد جعل لك -من لطفه- ما يقوم مقام الماء في التطهر، وهو الصعيد، فعليك به، فإنه يكفيك عن الماء.
606;بی ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو صبح کی نماز پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نےایک آدمی کو دیکھا جس نے صحابہ کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی۔ یہ نبی ﷺ کا کمالِ لطف ومہربانی اور دعوت الی اللہ میں خوش اسلوبی ہی تھی کہ آپ نے اس کے جماعت سے پیچھے رہ جانے پر سختی نہیں برتی یہاں تک کہ تاخیر کی وجہ جان لی۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟ اپنی گمان کے مطابق اس نے اپنا عذر نبی ﷺ کے سامنے پیش کیا کہ اسے جنابت لاحق ہو گئی تھی اور پانی نہیں تھا اس لیے پانی کے ملنے اور طہارت حاصل کرنے تک اس نے نماز کو مؤخر کر دیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی نےاپنی لطف ومہربانی سے طہارت حاصل کرنے میں پانی کےقائم مقام ایک چیز رکھی ہے اور وہ مٹی ہے۔ تو تم مٹی کو استعمال کرو کیوں کہ یہ تمہارے لیے پانی کےقائم مقام ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3051

 
 
Hadith   128   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى منى، فأتى الجمرة فرماها، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق: خذ، وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس


Tema:

رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی ،پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى مِنَى، فأتى الجَمْرَةَ فرماها، ثم أتى منزله بمِنَى ونحر، ثم قال للحلاق: «خُذْ» وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناسَ.
وفي رواية: لما رمى الجَمْرَةَ، ونحر نُسُكَهُ وحلق، ناول الحلاق شِقَّهُ الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري -رضي الله عنه- فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأَيْسَرَ، فقال: «احْلِقْ»، فحلقه فأعطاه أبا طلحة، فقال: «اقْسِمْهُ بين الناس».

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لائے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی، پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔ اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رمی جمرہ کے بعد آپ ﷺ نے قربانی کی اور سر منڈایا؛ نائی کو سر کا دایاں حصہ (مونڈنے کے لیے) دیا اُس نے اسے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا کر وہ بال دے دیے، پھر نائی کو بایاں حصہ دیا اور اُس سے فرمایا مونڈ دو، اُس نے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے اُسے بھی ابوطلحہ کو دے دیا اور فرمایا ’’اسے لوگوں کے مابین تقسیم کردو‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع إلى منى يوم العيد رمى الجمرة، ثم ذهب إلى منزله ونحر هديه، ثم دعا بالحلاَّق فحلق رأسه؛ وأشار -صلى الله عليه وسلَّم- إلى الشق الأيمن فبدأ الحلاَّق بالشقِّ الأيمن، ثم دعا أبا طلحة -رضي الله عنه الأنصاري- وأعطاه شعر الشق الأيمن كله، ثم حلق بقية الرأس، ودعا أبا طلحة وأعطاه إياه، وقال: "اقسمه بين الناس" فقسمه، فمن الناس من ناله شعرة واحدة، ومنهم من ناله شعرتان، ومنهم من ناله أكثر حسب ما تيسر؛ وذلك لأجل التبرك بهذا الشعر الكريم؛ شعر النبي -صلى الله عليه وسلم-.
وهذا جائز وخاص بآثاره -صلى الله عليه وسلم-.
585;سول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پرجب عید کے دن منیٰ آئے توجمرات کی رمی کی، پھر اپنے ٹھکانے کی طرف گیے اور اپنے قربانی کے جانور کی نحر کی، اس کے بعد نائی کو بلایا اس نے آپ کے سر کے بال مونڈے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں جانب اشارہ کیا تو حلاق(نائی) نے دائیں جانب سے بال مونڈنا شروع کیا۔ پھرآپﷺ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنی دائیں جانب کے کٹے ہوئے تمام بال ان کو دے دیے۔ پھر باقی سر مونڈا گیا اور آپ نے ابو طلحہ کو بلایا اور وہ بھی ان کو دے دیے اور فرمایا کہ اس کو لوگوں میں تقسیم کر دو۔ انھوں نے وہ بال لوگوں میں تقسیم کر دیے کسی کو ایک بال ملا، کسی کو دو اور کسی کو اس سے زیادہ جو میسر ہوا ملا۔ اور یہ نبی ﷺ کے اس مبارک بال کے تبرک کی وجہ سے ہوا۔ اور یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے آثار کے ساتھ خاص اور جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3052

 
 
Hadith   129   الحديث
الأهمية: إن الدنيا حُلوة خَضِرَة، وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء


Tema:

بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «إن الدنيا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وإن الله مُسْتَخْلِفُكُمْ فيها فينظرَ كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
شبَّه النبي -صلى الله عليه وسلم- الدنيا بالفاكهة الحلوة الخضرة، للرغبة فيها والميل إليها، وأخبر أن الله جعلنا خلفاء يخلف بعضنا بعضا فيها؛ فإنها لم تصل إلى قوم إلا بعد آخرين، فينظر الله -تبارك وتعالى- كيف نعمل فيها هل نقوم بطاعته أم لا.
ثم أمرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نحذر فتنة الدنيا وأن لا نغتر بها ونترك أوامر الله -تعالى- واجتناب مناهيه فيها.
ولما كان للنساء النصيب الأوفر في هذا الافتتان، نبَّه -صلى الله عليه وسلم- إلى خطورة الافتتان بهن وإن كان داخلا في فتن الدنيا؛ وأخبر أن أول فتنة بني إسرائيل كانت بسبب النساء، وبسببهن هلك كثير من الفضلاء.
606;بی ﷺ نے دنیا کو شیریں اور سرسبز میوے سے تشبیہ دی اس لیے کہ (انسان میں) اس کی چاہت اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ اللہ نے ہمیں ایک دوسرے کا جانشین بنایا بایں طور کہ ہم ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ یہ کچھ لوگوں کے بعد دوسرے لوگوں کی ہاتھ میں آ جاتی ہے اور اس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ہم کیسے عمل کرتے ہیں، ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں؟۔
پھر نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم دنیا کے فتنے سے بچ کر رہیں اور اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرنا چھوڑ دیں۔ چونکہ دنیا کی فتنہ انگیزی میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ ہے اس لیے نبی ﷺ نے ان کے فتنے کا شکار ہونے کے خطرے سے متنبہ فرمایا اگرچہ یہ بھی دنیا ہی کے فتنے میں آتی ہیں۔ آپ ﷺ نے خبر دی کہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے صاحبِ فضیلت لوگ ہلاکت کا شکار ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3053

 
 
Hadith   130   الحديث
الأهمية: من حلف على يمين ثم رأى أتقى لله منها فليأت التقوى


Tema:

جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے۔

عن أبي طَرِيف عدي بن حاتم -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَن حَلَف على يَمِين ثم رأى أَتقَى لله مِنها فَلْيَأت التَّقوَى».

ابو طریف عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث: أنَّ من حلَف على ترك شيء، أو فعله فرأى مخالفة ذلك خيرًا من الاستمرار على اليمين وأتقى، ترك يمينه وفعل ما هو خير، على الاستحباب والندب، فإن كان المحلوف عليه مما يجب فعله أو تركه كأن حلف ليتركنّ الصلاة أو ليشربنّ المسكر، وجب عليه الحنث والإتيان بما هو التقوى من فعل المأمور به، وترك المنهيّ عنه.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جس نے کسی شے کو چھوڑنے یا کرنے کی قسم اٹھائی، پھر اسے لگا کہ اس کی مخالفت کرنا قسم کو پورا کرنے سے بہتر اور زیادہ تقوی والا ہے، تو ایسے شخص کا قسم کو توڑ کر اس سے زیادہ بہتر عمل کو کرنا مستحب اور مندوب ہے۔ اگر جس شے پر قسم اٹھائی گئی ہو ایسی ہو جس کا کرنا یا چھوڑنا واجب ہے جیسے کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ نماز کو چھوڑ دے گا یا پھر کسی نشہ آور شے کو پئے گا، تو اس صورت میں اس پر قسم توڑ کر اس فعل کو سر انجام دینا واجب ہے جو تقویٰ وپرہیزگاری کا کام ہے یعنی جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے بجا لانا اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے باز رہنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3054

 
 
Hadith   131   الحديث
الأهمية: الحياء لا يأتي إلا بخير


Tema:

حیا تو خیر ہی لاتی ہے۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «الحَيَاءُ لاَ يَأْتِي إِلاَّ بِخَيرٍ».
وفي رواية : «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» أو قال: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ».

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیا تو خیر ہی لاتی ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» یعنی حیا سراپا خیر ہے۔ یا پھر آپﷺ نے یہ فرمایا: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ» یعنی حیا سرتاپا خیر ہے۔

575;لحياء صفة في النفس تحمل الإنسان على فعل ما يجمل ويزين، وترك ما يدنس ويشين، فلذلك لا يأتي إلا بالخير، وسبب ورود الحديث أن رجلًا كان ينصح أخاه في الحياء، وينهاه عن الحياء، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا الكلام.
581;یا نفس کی ایک صفت ہے، جو انسان کو ایسے عمل پر ابھارتی ہے جو عمدگی اور زیبائش کا سبب ہو اور ایسے عمل کو ترک کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو گندگی اور عار کا سبب ہو۔ اس لیے حیا خیر ہی کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے بھائی کو حیا نہ کرنے کی نصیحت کر رہا تھا کہ نبی ﷺ نے اس سے یہ بات ارشاد فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3055

 
 
Hadith   132   الحديث
الأهمية: اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، اللهم أعوذ بعزتك لا إله إلا أنت أن تضلني، أنت الحي الذي لا يموت، والجن والإنس يموتون


Tema:

"اے اللہ! میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں ـــــــــــ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ـــــــــــ کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا (گمراہ کر) دے ۔تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «اللهم لك أَسْلَمْتُ، وبك آمنتُ، وعليك توكلتُ، وإليك أَنَبْتُ، وبك خَاصَمْتُ، اللهم أعوذ بِعِزَّتِكَ لا إله إلا أنت أن تُضِلَّنِي، أنت الحيُّ الذي لا يموتُ، والجِنُّ والإِنْسُ يموتون».

عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:«اللَّهُم لَكَ أسْلَمْتُ وبِكَ آمنْتُ، وعليكَ توَكَّلْتُ، وإلَيكَ أنَبْتُ، وبِكَ خاصَمْتُ. اللَّهمَّ أعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لا إلَه إلاَّ أنْتَ أنْ تُضِلَّنِي أنْت الْحيُّ الَّذي لاَ يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالإِنْسُ يمُوتُونَ»۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے ہی سامنے سر جھکایا، تجھ ہی پر ایمان لایا، میں نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا ۔ میں نے تیری ہی مدد کے ساتھ مقابلہ کیا۔ میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیسرے سوا کوئی دوسرا معبودِ برحق نہیں، یہ کہ تو مجھے گمراہ ہونے کے لیے چھوڑ دے، تو زندہ ہے، تجھے موت نہیں آئے گی جب کہ تمام جن و انس مر جائیں گے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يلتجئ النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ربه ويتقرب إليه في الدعاء، فيخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه إلى ربه انقاد، وأنه فوَّض أمره كله لله ولم يعتمد على غيره، وأنه قد رجع إليه مقبلا عليه بقلبه، وأنه بقوة الله ونصره وإعانته إياه حاجج أعداء الله بما آتاه من البراهين والحجج، ثم يستعيذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بغلبة الله ومنعته أن يهلكه بعدم التوفيق للرشاد والهداية والسداد، ويؤكد ذلك بقوله لا إله إلا أنت؛ فإنه لا يستعاذ إلا بالله، ثم يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن لربه الحياة الحقيقية التي لا يأتيها الموت بحال، وأما الإنس والجن فيموتون، وخصهما بالذكر؛ لأنهما المكلفان المقصودان بالتبليغ فكأنهما الأصل.
606;بی ﷺ دعا میں اپنے رب کی پناہ اور اس کے قرب میں آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ بیان فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کے مطیع وفرماں بردار ہیں اور آپ نے اپنے سارے امور اللہ کو سونپ دیے ہیں اور اس کے علاوہ آپ کو کسی پر بھروسہ نہیں ہے اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے دل و جان کے ساتھ اس کی طرف لوٹ آئے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں اور اللہ ہی کی دی گئی قوت، اس کی مدد و نصرت اور آپ ﷺ کو جو دلائل اور حجتیں دی گئی تھیں ان سے آپ ﷺ نے اس کے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔پھر نبی ﷺ اللہ کی غالبیت اور قوت کی پناہ لیتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ یہ نہ ہو کہ وہ ہدایت و راستگی کی توفیق نہ دے کر آپ ﷺ کو ہلاک کردے۔ ’’لا إله إلا أنت‘‘ کہہ کر آپ ﷺ اس کی مزید تاکید فرما رہے ہیں کہ پناہ صرف اللہ ہی سے طلب کی جاتی ہے۔ پھر نبی ﷺ بیان کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ کے رب کی زندگی حقیقی زندگی ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی جب کہ انسان اور جنات مر جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بطور خاص انہیں ذکر کیا کیونکہ وہی مکلف ہیں اور احکامِ دین کی تبلیغ بھی انہیں کو مقصود ہے۔ گویا کہ وہ اصل ہوئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3056

 
 
Hadith   133   الحديث
الأهمية: اللهم إني أسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم ِإنِّي أَسأَلُك الهُدَى، والتُّقَى، والعَفَاف، والغِنَى».

ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى“. یعنی اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- ربه العلمَ والتوفيق للحق، وأن يُوفِّقه إلى امتثال ما أمر به وترك ما نهى عنه، وأن يعفه عن كل ما حرَّم عليه فيما يتعلق بجميع المحارم التي حرَّمها -عز وجل-، وسأله كذلك الغنى عن الخلق، بحيث لا يفتقر إلى أحد سوى ربَّه -عز وجل-.
606;بی ﷺ نے اپنے رب سے علم اور حق کی توفیق مانگی اور یہ کہ اپنے احکام کو پورا کرنے اور نواہی سے بچنے کی توفیق دے اور یہ کہ اللہ ہر قسم کے حرام سے بچائے جن کا تعلق ان تمام حرام کاموں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے مخلوق سے استغناء و بے نیازی کا سوال کیا کہ اللہ عزّ وجلّ کے سوا کسی کا محتاج نہ بنانا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3057

 
 
Hadith   134   الحديث
الأهمية: أستودع الله دينك، وأمانتك، وخواتيم عملك


Tema:

میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، فَيقُول: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ».
وعن عبد الله بن يزيد الخطمي رضي الله عنه- قال: كَانَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَدِّعَ الجَيشَ، قال: «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم».

جب کوئی آدمی سفر کا ارادہ کرتا تو ابن عمر رضی الله عنہما اس سے کہتے، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کرتے تھے چنانچہ وہ کہتے تھے: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ» یعنی ”میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر کو رخصت فرماتے تو کہتے «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم» یعنی ”میں تمہارے دین، تمہاری امانت، اور تمہاری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، وهذا من ابن عمر بيان لكمال حرص الصحابة -رضي الله عنهم- على التزام هدي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وقوله: (إذا ودع رجلا) أي مسافرا، (أخذ بيده فلا يدعها): وهذا ما جاء في بعض الروايات، أي: فلا يترك يد ذلك الرجل من غاية التواضع ونهاية إظهار المحبة والرحمة.   ويقول -صلى الله عليه وسلم-: أي للمودع: "أستودع الله دينك" أي أستحفظ وأطلب منه حفظ دينك.   و"أمانتك" أي حفظ أمانتك، وهي شاملة لكل ما استحفظ عليه الإنسان من حقوق الناس وحقوق الله من التكاليف، ولا يخلو الرجل في سفره ذلك من الاشتغال بما يحتاج فيه إلى الأخذ والإعطاء والمعاشرة مع الناس، فدعا له بحفظ الأمانة والاجتناب عن الخيانة، ثم إذا انقلب إلى أهله يكون مأمون العاقبة عما يسوءه في الدين والدنيا.
وكان هذا من هديه أيضاً -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد توديع الجماعة الخارجة للقتال في سبيل الله  يودعهم بهذا الدعاء الجامع ليكون أدعى إلى إصابتهم التوفيق والسداد والتغلب على الأعداء والحفاظ على فرائض الله في الغزو.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہتے تھے جو سفر کرنا چاہتا، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر نبی مکرم ﷺ کی سنت کے اپنانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اور ان کا کہنا (إذا ودع رجلا) جب کسی آدمی کو رخصت کیا کرتے تھے یعنی مسافر کو۔ (أخذ بيده فلا يدعها) اس کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے، جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے یعنی نبی مکرم ﷺ انتہا درجے کی تواضع اور شفقت و محبت کا اظہار فرماتے ہوئے اس شخص کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے ، اور اُسے رخصت کرتے ہوئے کہتے’’أستودِعُ اللهَ دينكَ“یعنی میں اللہ سے تمہارے دین کی حفاظت طلب کرتا ہوں۔ ”وأمانتک‘‘یعنی تمہاری امانت کی حفاظت، یہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی حفاظت انسان سے مطلوب ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کے حقوق ہوں یا اللہ کے مکلف کردہ حقوق۔
چونکہ آدمی جب سفر میں ہوتا ہے تو لوگوں کے ساتھ ضروری لین دین اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں مشغول ہوتا ہے جس کی بناء پر اس کے لیے امانت داری کی ذمہ داری کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ خیانت سے بچنے کے لیے دعا فرمائی ہے، پھر جب وہ اپنے گھر لوٹے گا تو وہ ان تمام نتائج وعواقب سے محفوظ ہو گا جو اسے دین اور دنیا کے اعتبار سے ناپسند ہوتے۔
یہی نبی مکرم ﷺ کا طریقہ تھا کہ جب آپ کسی جماعت کو جنگ کے لیے رخصت فرماتے تھے تو اس جامع دعا کے ذریعہ رخصت کرتے تھے تاکہ وہ بھلائی اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں اور دشمنوں پر غالب رہیں اور میدان جنگ میں بھی اللہ کے فرائض کی حفاظت کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3058

 
 
Hadith   135   الحديث
الأهمية: ارجعوا إلى أهليكم، فأقيموا فيهم، وعلموهم ومروهم، وصلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلوا كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم


Tema:

تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

عن أبي سليمان مالك بن الحويرث -رضي الله عنه- قال: أَتَينَا رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- ونَحنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُون، فَأَقَمْنَا عِندَهُ عِشْرِينَ لَيلَةً، وَكَان رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- رَحِيمًا رَفِيقًا، فَظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَقْنَا أَهْلَنَا، فَسَألَنا عمَّنْ تَرَكْنا مِنْ أَهلِنا، فأَخبَرنَاه، فقال: «ارْجِعُوا إلى أَهْلِيكُم، فَأَقِيمُوا فيهم، وَعَلِّمُوهُم وَمُرُوهُم، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا في حِينِ كذَا، وصَلُّوا كَذَا في حِينِ كَذَا، فَإِذا حَضَرَتِ الصلاةُ فَلْيُؤذِّن لكم أَحَدُكُم وَلْيَؤُمَّكُم أكبركم».
زاد البخاري في رواية له: «وصَلُّوا كَمَا رَأَيتُمُونِي أُصَلِّي».

ابو سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیس راتیں رہے۔ آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ”اور نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال مالك -رضي الله عنه-: "أتينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن شببة متقاربون"، وهذا في عام الوفود في السنة التاسعة من الهجرة، وكانوا شبابا فأقاموا عند النبي -صلى الله عليه وسلم- عشرين ليلة.
جاءوا من أجل أن يتفقهوا في دين الله، قال مالك: "وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رحيما رفيقا فظن أنا قد اشتقنا أهلنا" يعني اشتقنا إليهم، "فسألنا عمن تركنا من أهلنا فأخبرناه فقال: ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وصلوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم" زاد البخاري "وصلوا كما رأيتموني أصلي".
فدل هذا أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان مشهورا بالرحمة والرفق، فكان أرحم الناس بالناس، وكان أرفق الناس بالناس -عليه الصلاة والسلام- رحيما رفيقا، فلما رأى أنهم اشتاقوا إلى أهلهم وسألهم من خلَّفوا وراءهم وأخبروه، أمرهم أن يرجعوا إلى أهليهم.   "وليؤمكم أكبركم" دليل على تقديم الكبير في الإمامة، وهذا لا ينافي قوله -عليه الصلاة والسلام-: "يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله"؛ لأن هؤلاء الشباب كلهم وفدوا في وقت واحد، والظاهر أنه ليس بينهم فرق بيِّن في قراءة القرآن، وأنهم متقاربون ليس بعضهم أقرأ من بعض؛ ولهذا قال: "وليؤمكم أكبركم" لأنهم متساوون في القراءة أو متقاربون، فإذا تساووا في القراءة والسنة والهجرة، فإنه يرجع إلى الأكبر سنا ويقدمونه.
وفي قوله -صلى الله عليه وسلم-: "صلوا كما رأيتموني أصلي" وهذا مؤكد لما كان عليه الهدي النبوي من تعليم الناس بالقول وبالفعل.
فعلَّم الذي صلَّى بغير طمأنينة بالقول قال: "إذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة، فكبر، ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن، ثم اركع" إلى آخره.   أما هؤلاء الشباب فعلمهم بالفعل.
605;الک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے“۔ یہ عام الوفود یعنی ہجرت کے نویں سال کا واقعہ ہے۔ یہ سب لوگ نوجوان تھے اور نبی ﷺ کے پاس انہوں نے بیس راتوں تک قیام کیا۔ یہ لوگ اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے آئے تھے۔ مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں“۔ یعنی ہمارا ان سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو۔ اورجب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ رحم دلی و نرمی میں مشہور تھے۔ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر رحم دل تھے اور سب سے زیادہ نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ آپ ﷺ رحیم بھی تھے اور شفیق بھی۔ آپ ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ ان لوگوں کو اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جائیں۔ ”اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے“۔ یہ امامت کے لیے بڑے کو مقدم کرنے کی دلیل ہے۔ یہ بات نبی ﷺ کے اس فرمان کے منافی نہیں ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ: لوگوں کو وہ شخص امامت کرائے جو سب سے زیادہ قرآن کا قاری ہو۔ کیونکہ یہ سب نوجوان ایک ہی وقت میں آئے تھے اور ظاہر ہے کہ قرأتِ قرآن کے لحاظ سے ان کے مابین کوئی واضح فرق نہیں تھا اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے کے قریب قریب ہی تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے زیادہ قرآن کا قاری نہیں تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے“۔ کیونکہ قرأت کے معاملے میں وہ سب برابر یا قریب قریب تھے۔ جب یہ لوگ قرأت، سنت اور ہجرت کے معاملے میں برابر ہو گئے تو پھر امامت کا حق بڑے کا ہو گا اور وہ اسے ہی مقدم کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نماز ویسے پڑھو جیسے تم میں نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے“۔ یہ اس نبوی طریقۂ کار کی تاکید ہے کہ آپ ﷺ قول و فعل دونوں کے ذریعے تعلیم دیا کرتے تھے۔ جس شخص نے سکون کے ساتھ نماز نہ پڑھی اسے آپ ﷺ نے یہ فرما کر تعلیم دی کہ ”جب نماز کے لیے تمہارا کھڑا ہونے کا ارادہ ہو تو اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوجاؤ اور پھر قرآن کا جو بھی حصہ چاہو اسے پڑھو اور پھر رکوع کرو...الخ“۔ جب کہ ان نوجوانوں کو آپ ﷺ نے فعل (عمل) کے ذریعے تعلیم دی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3059

 
 
Hadith   136   الحديث
الأهمية: ما رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مستجمعًا قط ضاحكًا حتى ترى منه لهواته، إنما كان يتبسم


Tema:

میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: مَا رَأَيتُ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى تُرَى مِنْهُ لَهَوَاتُهُ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّم.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں: ”میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عائشة -رضي الله عنها- يصور بعض جوانب الهدي النبوي في خُلُق الوقار والسكينة فقالت -رضي الله عنها-: "مَا رَأَيتُ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى تُرَى مِنْهُ لَهَوَاتُهُ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّم": تعني ليس يضحك ضحكًا فاحشًا بقهقهة، يفتح فمَه حتى تبدو لهاته، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- كان يبتسم أو يضحك حتى تبدو نواجذه، أو تبدو أنيابه، وهذا من وقار النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث وقار اور سنجیدگی سے متعلق سیرت نبوی کے بعض پہلووں کی تصویر کشی کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ”میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں۔ آپﷺ تو بس مسکرایا کرتے تھے“۔ یعنی آپ ﷺ اپنا منہ کھول کر اس طرح زور سے قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے کہ حلق کا کوا نظر آنے لگے؛ بلکہ آپ ﷺ مسکرایا کرتے تھے یا پھر اگر ہنستے تو اس قدر کہ( زیادہ سے زیادہ) آپ ﷺ کی داڑھیں یا کچلیاں ظاہر ہو جاتیں۔ یہ نبی ﷺ کے وقار اور متانت کا ایک مظہر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3060

 
 
Hadith   137   الحديث
الأهمية: بايعنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السمع والطاعة في العسر واليسر، والمنشط والمكره، وعلى أثرة علينا، وعلى أن لا ننازع الأمر أهله


Tema:

ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، چستی و سستی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: بَايَعْنَا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السَّمع والطَّاعَة في العُسْر واليُسْر، والمَنْشَطِ والمَكْرَه، وعلَى أَثَرَةٍ عَلَينا، وعلى أَن لاَ نُنَازِعَ الأَمْر أَهْلَه إِلاَّ أَن تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِندَكُم مِن الله تَعَالى فِيه بُرهَان، وعلى أن نقول بالحقِّ أينَما كُنَّا، لا نخافُ فِي الله لَوْمَةَ لاَئِمٍ.

عبادہ بن صامت رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ مشکل اور آسانی میں، چستی وسستی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اصحاب اقتدار سے تنازع نہیں کریں گے۔ (آپ نے فرمایا:) سوائے اس کے کہ تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو، جس کے (کفر ہونے پر) تمھارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں! نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے، حق بات کہیں گے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔

Esin Hadith Caption Urdu


(بايعنا) أي بايع الصحابة -رضي الله عنهم- الرسول -صلى الله عليه وسلم- على السمع والطاعة؛ لأن الله -تعالى- قال: (يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم)، وبعده -صلى الله عليه وسلم- أولو الأمر طائفتان: العلماء والأمراء، لكن العلماء أولياء أمر في العلم والبيان، وأما الأمراء فهم أولياء أمر في التنفيذ والسلطان.
يقول: بايعناه على السمع والطاعة، وقوله: "في العسر واليسر" يعني سواء كانت الرعية معسرة في المال أو كانت موسرة، يجب على جميع الرعية أغنياء كانوا أوفقراء أن يطيعوا ولاة أمورهم ويسمعوا لهم في المنشط والمكره، يعني سواء كانت الرعية كارهين لذلك لكونهم أمروا بما لا تهواه ولا تريده أنفسهم أو كانوا نشيطين في ذلك؛ لكونهم أُمِروا بما يلائمهم ويوافقهم.
"وأثرة علينا" أثرة يعني استئثارًا علينا، يعني لو كان ولاة الأمر يستأثرون على الرعية بالمال العام أو غيره، مما يرفهون به أنفسهم ويحرمون من ولاهم الله عليهم، فإنه يجب السمع والطاعة.
ثم قال: "وألا ننازع الأمر أهله" يعني لا ننازع ولاة الأمور ما ولاهم الله علينا، لنأخذ الإمرة منهم، فإن هذه المنازعة توجب شرًّا كثيرًا، وفِتَنًا عظيمةً وتفرقًا بين المسلمين، ولم يدمر الأمة الإسلامية إلا منازعة الأمر أهله، من عهد عثمان -رضي الله عنه- إلى يومنا هذا.
قال: " إلا أن تروا كفرًا بواحًا عندكم فيه من الله برهان" هذه أربعة شروط، فإذا رأينا هذا وتمت الشروط الأربعة فحينئذ ننازع الأمر أهله، ونحاول إزالتهم عن ولاية الأمر، والشروط هي:
الأول: أن تروا، فلابد من علم، أما مجرد الظن، فلا يجوز الخروج على الأئمة.
الثاني: أن نعلم كفرًا لا فسقًا، الفسوق، مهما فسق ولاة الأمور لا يجوز الخروج عليهم؛ لو شربوا الخمر، لو زنوا، لو ظلموا الناس، لا يجوز الخروج عليهم، لكن إذا رأينا كفرًا صريحًا يكون بواحًا.
الثالث: الكفر البواح: وهذا معناه الكفر الصريح، البواح الشيء البين الظاهر، فأما ما يحتمل التأويل فلا يجوز الخروج عليهم به، يعني لو قدرنا أنهم فعلوا شيئا نرى أنه كفر، لكن فيه احتمال أنه ليس بكفر، فإنه لا يجوز أن ننازعهم أو نخرج عليهم، ونولهم ما تولوا، لكن إذا كان بواحا صريحا، مثل: لو اعتقد إباحة الزنا وشرب الخمر.
الشرط الرابع: "عندكم فيه من الله برهان"، يعني عندنا دليل قاطع على أن هذا كفر، فإن كان الدليل ضعيفًا في ثبوته، أو ضعيفًا في دلالته، فإنه لا يجوز الخروج عليهم؛ لأن الخروج فيه شر كثير جدا ومفاسد عظيمة.
وإذا رأينا هذا مثلا فلا تجوز المنازعة حتى يكون لدينا قدرة على إزاحته، فإن لم يكن لدى الرعية  قدرة فلا تجوز المنازعة؛ لأنه ربما إذا نازعته الرعية وليس عندها قدرة يقضي على البقية الصالحة، وتتم سيطرته.
فهذه الشروط شروط للجواز أو للوجوب -وجوب الخروج على ولي الأمر- لكن بشرط أن تكون القدرة موجودة، فإن لم تكن القدرة موجودة، فلا يجوز الخروج؛ لأن هذا من إلقاء النفس في التهلكة؛ لأنه لا فائدة في الخروج

Esin Hadith Caption Urdu


”بَایَعْنا“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺکی اس بات پر بیعت کی کہ وہ (اولی الامر کی) سمع و طاعت کریں گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾ (النساء:59)(ترجمہ: اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی)۔ رسول اللہﷺکے بعد اولی الامر کے دو گروہ ہیں۔علماء اور حکمران۔علماء علم و (احكام شريعت كو)بیان كرنےکے ذمہ دار ہیں اور حکمران احکاماتِ شریعت کی تنفیذ اور عمل درآمدگی کے ذمہ دار ہیں۔
”فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ“(تنگی اور خوشحالی میں)یعنی چاہے رعیت مالی طور پر تنگی کا شکار ہو یا خوشحال ہو۔تمام رعایا پر چاہے وہ مالی طور پر امیر ہوں یا غریب یہ واجب ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔
”وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ“ یعنی چاہے رعایا بادل نا خواستہ ان کی اطاعت کرے بایں طور کہ انہیں کسی ایسی بات کا حکم دے دیا جائے جو ان کے لئے ناگوار و ناپسند ہو یا پھر خوشدلی سے ان کی فرمانبرداری کرے بایں طور کہ جس حکم کو بجا لانے کا انہیں کہا جائے وہ ان کے مزاج سے مناسبت اور موافقت رکھتا ہو۔
” وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا“ (خود کو ہم پر ترجیح دیں) اگر حکمران رعیت کو محروم رکھتے ہوئے عوامی دولت وغیرہ پر تن تنہا قابض ہو کر بیٹھ جائیں اور اس کی بدولت خود تو خوشحال ہوتے جائیں اور جن لوگوں پر اللہ نے انہیں حکمران بنایا تھا انہیں اس سے محروم رکھیں تو اس صورت میں بھی ان کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔
”وَأَلا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ“ یعنی حکمرانوں سے ہم اس اقتدار میں جھگڑا نہ کریں جو اللہ نے انہیں ہم پر بخشا ہے بایں طور کہ ہم ان سے اقتدار چھیننے کے درپے ہو جائیں کیونکہ اس قسم کا جھگڑا شدید قسم کی شرانگیزی اور فتنوں کا باعث بنتا ہے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پیدا کرتا ہے۔عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر آج تک امت مسلمہ کو حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے معاملہ میں اسی کشاکشی نے ہی تو تباہ کیا ہے۔
”إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ“ یہ چار شرائط ہیں۔جب ہم یہ دیکھ لیں اور یہ چاروں شرائط پوری ہو جائیں تو اس وقت ہم حکمرانوں سے لڑیں گے اور انہیں حکومت سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔وہ چارشرائط یہ ہیں:
پہلی شرط: ” أَنْ تَرَوْا“ (تم دیکھ لو) چنانچہ یقینی علم کا ہونا ضروری ہے۔محض گمان کی بنا پر حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں۔
دوسری: ہمیں ان کی طرف سے کفر کے ارتکاب کا علم ہو نہ کہ فسق کا۔کیونکہ حکمران چاہے جتنے بھی فاسق ہو جائیں،ان کے فسق کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ شراب نوشی کریں، زنا کریں اور لوگوں پر ظلم و ستم ڈھائیں،بہرحال ان باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔تاہم جب ہمیں ان کی طرف سے صریح کفر کے ارتکاب کا علم ہو تو یہ’کفر بواح‘ہو گا۔
تیسری: کفر بواح:اس کا معنی ہے:صریح کفر۔’بواح‘سے مرادوہ شے ہے جو واضح اورظاہر ہو۔تا ہم اگر بات ایسی ہو جس میں تاویل کا احتمال ہو تو اس کی بنا پر ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گا۔یعنی اگر ہمیں لگے کہ انہوں نے کسی ایسی شے کا ارتکاب کیا ہے جو ہمارے نزدیک کفر ہے تاہم احتمال ہو کہ ہو سکتا ہے وہ کفر نہ ہو تو اس صورت میں ہمارا ان سے لڑنا اور ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہو گااور جب تک وہ حکمران رہیں گے ہم انہیں حکمران تسلیم کرتے رہیں گے۔تا ہم اگر کفر بالکل صریح اور کھلا ہو مثلا حکمران رعیت کے لئے زنا اور شراب نوشی کو جائز قرار دے دے۔
چوتھی شرط:”عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ“ یعنی ہمارے پاس اس بات کے کفر ہونے کی قطعی دلیل ہو۔ اگر دلیل کے ثبوت میں ضعف ہو یا پھر معنی کے اعتبار سے وہ ضعیف ہو تو اس صورت میں بھی ان کے خلاف خروج کرناجائز نہیں ہو گا۔کیونکہ خروج میں بہت زیادہ شر اور مفاسد ہیں۔
اگر ہمیں کسی ایسی بات کا علم ہو (جس میں یہ چاروں شرائط پائی جائیں)تو اس صورت میں بھی صرف تب ہی حکمران سے لڑنا جائز ہو گا جب ہم میں اسے ہٹا دینے کی طاقت ہو۔اگر رعایا میں یہ قدرت نہ ہو تو پھر لڑنا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قدرت نہ رکھتے ہوئے اگر رعایا حکمران سے لڑائی مول لے تو اس سے بچی کچی بھلائی بھی جاتی رہے اور اس کا پوری طرح سے تسلط قائم ہو جائے۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ شرائط یا تو خروج کے جواز کی شرائط ہیں یا اس کے وجوب کی بشرطیکہ اس کی قدرت پائی جائے۔اگر قدرت نہ ہو تو اس صورت میں خروج کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے اور ایسے حالات میں خروج سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3061

 
 
Hadith   138   الحديث
الأهمية: صليت مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد الجمعة، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے، دور کعت ظہر کے بعد، دو رکعت جمعہ کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد پڑھیں۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- قال: «صَلَّيتُ معَ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- رَكعَتَين قَبل الظُّهر، وَرَكعَتَين بَعدَها، ورَكعَتَين بعد الجُمُعَةِ، ورَكعَتَينِ بَعدَ المَغرِب، وَرَكعَتَينِ بَعدَ العِشَاء».
وفي لفظ: «فأمَّا المغربُ والعشاءُ والجُمُعَةُ: ففي بَيتِه».
وفي لفظ: أنَّ ابنَ عُمَر قال: حدَّثَتنِي حَفصَة: أنَّ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-: «كان يُصَلِّي سَجدَتَين خَفِيفَتَينِ بَعدَمَا يَطلُعُ الفَجر، وكانت سَاعَة لاَ أَدخُلُ على النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم- فِيهَا».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت ظہر سے پہلے، دورکعت ظہر کے بعد، دو رکعت جمعے کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد پڑھی۔
اور ایک روایت میں ہے: مغرب، عشا اور جمعے کی سنت اپنے گھر میں ادا فرماتے تھے۔
اورایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ فجر طلوع ہونے کے بعد دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا تھا کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں جاتی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان للسنن الراتبة للصلوات الخمس، وذلك أن لصلاة الظهر أربع ركعات، ركعتين قبلها، وركعتين بعدها، وأن لصلاة الجمعة ركعتين بعدها، وأن للمغرب ركعتين بعدها، وأن لصلاة العشاء ركعتين بعدها وأن راتبتي صلاتي الليل، المغرب والعشاء، وراتبة الفجر والجمعة كان يصليها الرسول -صلى الله عليه وسلم- في بيته.
وكان لابن عمر -رضي الله عنهما- اتصال ببيت النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لمكان أخته "حفصة" من النبي -صلى الله عليه وسلم-، فكان يدخل عليه وقت عباداته، ولكنه يتأدَّب فلا يدخل في بعض الساعات، التي لا يُدخل على النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها، امتثالا لقوله -تعالى-: "يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاه الفجر" الآية، فكان لا يدخل عليه في الساعة التي قبل صلاة الفجر، ليرى كيف كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلي، ولكن -من حرصه على العلم- كان يسأل أخته "حفصة" عن ذلك، فتخبره أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلى سجدتين خفيفتين بعدما يطلع الفجر، وهما سنة صلاة الصبح.
575;س حدیث میں پانچوں نمازوں کی سنن مؤکدہ کا بیان ہے۔ ان کی تفصیل اس طرح ہیں: ظہر کی سنت مؤکدہ چار رکعت ہے؛ دو رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، جمعے کی سنت جمعے کے بعد دو رکعت ہے، مغرب کے بعد دو رکعت اور عشا کے بعد دور رکعت۔ رات کی نمازوں کی سنتوں یعنی مغرب اور عشا، اسی طرح فجر اور جمعے کی سنتوں کو نبیﷺ اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حفصہ رضی اللہ عنھا چوں کہ آپ کے نکاح میں تھیں، اس لیے ان آپ کے گھر میں آنا جانا تھا۔ وہ عبادت کے اوقات میں آپ کے گھر میں آ جاتے، لیکن ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اللہ تعالی کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے، ان اوقات میں داخل نہیں ہوتے، جن میں داخل ہونے سے احتراز کرنا چاہیے: "يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاه الفجر"الآية چوں کہ وہ نماز فجر سے پہلے آپ کے گھر نہیں آتے تھے کہ دیکھ سکیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے نماز پڑھتے ہیں، اس لیے علم کی حرص کی وجہ سے اپنی بہن حفصہ رضی اللہ عنھا سے اس بارے میں پوچھ لیا کرتے، تو وہ بتاتیں کہ نبی کریم ﷺ طلوع فجر کے بعد دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھتے۔ یہ فجر کی دوسنتیں تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3062

 
 
Hadith   139   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) بیدار ہوتے، تو اپنے منہ کو مسواک سے خوب صاف فرماتے۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَام من اللَّيل يُشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاك».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) بیدار ہوتے، تو اپنے منہ کو مسواک سے خوب صاف فرماتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من محبة النبي -صلى الله عليه وسلم- للنظافة وكراهته للرائحة الكريهة أنه كان إذا قام من نوم الليل الطويل الذي هو مظنة تغير رائحة الفم دلك أسنانه -صلى الله عليه وسلم- بالسواك، ليقطع الرائحة، ولينشط بعد مغالبة النوم على القيام؛ لأنَّ من خصائص السواك أيضا التنبيه والتنشيط.
606;بی ﷺ کا صفائی کو پسند اور ناگوار بو کو ناپسند کرنے کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ جب رات کی لمبی نیند، جس سے عموما منہ کی بو تبدیل ہو جانے کا امکان ہوتا ہے، سے بیدار ہوتے، تو اپنے دانتوں کو مسواک کے ساتھ رگڑتے؛ تا کہ اس سے بو جاتی رہے اور نیند پر غلبہ پا لینے کے بعد قیام اللیل کے لیے چاق و چوبند ہو جائیں؛ کیوںکہ مسواک کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ یہ چاق و چوبند اور چست کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3063

 
 
Hadith   140   الحديث
الأهمية: شكي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- الرجل يخيَّل إليه أنه يجد الشيء في الصلاة، فقال: لا ينصرف حتى يسمع صوتًا، أو يجد ريحًا


Tema:

نبی ﷺ سے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی، جسے یہ خیال گزرتا تھا کہ نماز میں اس کی ہوا نکل رہی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ (اپنی نماز سے) نہ پلٹے، جب تک آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرے۔

عن عبد الله بن زيد بن عاصم المازني -رضي الله عنه- قال: (شُكِيَ إلى النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- الرَّجلُ يُخَيَّلُ إِليه أنَّه يَجِد الشَّيء في الصَّلاة، فقال: لا ينصرف حتَّى يَسمعَ صَوتًا، أو يَجِد رِيحًا).

عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی ﷺ سے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی، جسے یہ خیال گزرتا تھا کہ نماز میں اس کی ہوا نکل رہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ (اپنی نماز سے) نہ پلٹے، جب تک آواز نہ سن لے یا اسے بو محسوس نہ کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث- كما ذكر النووي -رحمه الله- من قواعد الإسلام العامة وأصوله التي تبنى عليها الأحكام الكثيرة الجليلة، وهي أن الأصل بقاء الأشياء المتيقنة على حكمها، فلا يعدل عنها لمجرد الشكوك والظنون، سواء قويت الشكوك، أو ضعفت، مادامت لم تصل إلى درجة اليقين أو غلبة الظن، وأمثلة ذلك كثيرة لا تخفى، ومنها هذا الحديث، فما دام الإنسان متيقنا للطهارة، ثم شك في الحدث فالأصل بقاء طهارته، وبالعكس فمن تيقن الحدث، وشك في الطهارة فالأصل بقاء الحدث، ومن هذا الثياب والأمكنة، فالأصل فيها الطهارة، إلا بيقين نجاستها، ومن ذلك عدد الركعات في الصلاة، فمن تيقن أنه صلى ثلاثًا مثلًا، وشك في الرابعة، فالأصل عدمها، وعليه أن يصلي ركعة رابعة، ومن ذلك من شك في طلاق زوجته فالأصل بقاء النكاح، وهكذا من المسائل الكثيرة التي لا تخفى.
740;ہ حدیث جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، اسلام کے عمومی قواعد اور اصولوں میں سے ایک ہے، جن پر بہت سے اہم ترین احکامات کی بنیاد کھڑی ہے۔ اصول یہ ہےکہ یقینی چیزیں اپنے حکم پر باقی رہیں کی، محض شک اور گمان کی بنا پر انھیں اس سے الگ نہیں کیا جاۓ گا؛ شک چاہے قوی ہو یا کمزور، جب تک یہ شک یقین یا ظن غالب کے درجے تک نہ پہنچ جائے۔ اس کی بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال خود اس حدیث میں موجود ہے کہ جب انسان کو اپنی طہارت کا یقین ہو، پھر طہارت زائل ہونے کا شک ہونے لگے، تو اصولی طور پر یہی سمجھا جائے گا کہ اس کی طہارت باقی ہے۔ اس کے برعکس جسے عدم طہارت کا یقین ہو، اور طہارت ہونے کا شک ہو، اس کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ حالت حدث میں ہے۔ کپڑے اور مقامات بھی اسی اصول کے تحت آتے ہیں کہ ان میں بھی طہارت ہی اصل ہوگی، ماسوا اس کے کہ نجاست کا یقین ہوجائے۔ اسی کی ایک مثال نماز میں رکعتوں کی تعداد ہے۔ جسے یہ یقین ہو کہ اس نے مثلا تین رکعتیں ادا کی ہیں اور چوتھی کا شک ہو، تو اصولا چوتھی کو معدوم سمجھا جائے گا اور اس شخص پر لازم ہو گا کہ وہ چوتھی رکعت پڑھے۔ اسی طرح ایک مثال طلاق کی ہے۔ جسے یہ شک ہو کہ اس نے اپنے بیوی کو طلاق دی ہے یا نہیں؟ تو اصولا اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے مسائل میں بھی یہ اصول کار فرما ہوتا ہے، جو مخفی نہیں ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3064

 
 
Hadith   141   الحديث
الأهمية: أمرني رسول الله  -صلى الله عليه وسلم- أن أقوم على بدنه، وأن أتصدق بلحمها وجلودها وأجلتها، وأن لا أعطي الجزار منها شيئًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرا نی کروں اور ان کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو صدقہ کروں، نیز ان میں سے قصاب کو بہ طور اجرت کچھ بھی نہ دوں۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: «أَمَرَنِي رَسُول اللَّهِ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أَن أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَن أَتَصَدَّقَ بِلَحمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا، وَأَن لا أُعْطِيَ الجَزَّارَ مِنهَا شَيْئًا».

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرا نی کروں اور ان کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو صدقہ کروں، نیز ان میں سے قصاب کو بہ طور اجرت کچھ بھی نہ دوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قَدِمَ النبي -صلى الله عليه وسلم- مكة في حجة الوداع ومعه هديه وقدم علي بن أبى طالب -رضي الله عنه- من اليمن، ومعه هدي، وبما أنها صدقة للفقراء والمساكين، فليس لمهديها حق التصرف بها، أو بشيء منها على طريقة المعاوضة، فقد نهاه أن يعطي جازرها منها، معاوضة له على عمله، وإنما أعطاه أجرته من غير لحمها وجلودها وأجلتها.
606;بی کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ کی طرف چلے۔ قربانی کے جانور ساتھ تھے۔ (اسی موقعے پر) علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے آئے۔ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے۔ چوں کہ یہ فقرا اور مساکین کے لیے صدقہ تھے، اس لیے قربانی کرنے والے کو اس میں تصرف کرنے یا اس میں سے کچھ بطور معاوضہ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے انھیں ذبح کرنے والے کو بطور معاوضہ اس میں سے کچھ دینے سے منع فرمایا۔ بلکہ بطور اجرت گوشت، کھال اورجھول کے علاوہ کوئی دوسری چیز دی جائے گی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3065

 
 
Hadith   142   الحديث
الأهمية: إذا أُقِيمت الصلاة وحضر العَشاء فابدأوا بالعَشاء


Tema:

جب نماز کھڑی ہو جائے اور رات کا کھانا بھی سامنے آ جائے، تو رات کے کھانے سے پہل کرو۔

عن عائشة وعبد الله بن عمر وأنس بن مالك -رضي الله عنهم- مرفوعاً: «إِذَا أُقِيمَت الصَّلاَة، وحَضَرَ العَشَاء، فَابْدَءُوا بِالعَشَاء».

عائشہ رضی اللہ عنہا، عبد اللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی ہو جائے اور رات کا کھانا بھی سامنے آ جائے، تو رات کے کھانے سے پہل کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا أقيمت الصلاة، والطعام أو الشراب حاضر، فينبغي البداءة بالأكل والشرب حتى تنكسر نهمة المصلي، ولا يتعلق ذهنه به، ويقبل على الصلاة، وشرط ذلك عدم ضيق وقت الصلاة، ووجود الحاجة والتعلق بالطعام، وهذا يؤكد كمال الشريعة ومراعاتها لحقوق النفس مع اليسر والسماحة.
580;ب نماز کھڑی ہوجائے اورکھانے پینے کی اشیا سامنے موجود ہوں، تو مناسب یہ ہے کہ کھانے پینے سے پہل کی جائے؛ تاکہ نمازی کی بھوک ختم ہوجائے اور اس کا ذہن دوران نماز کھانے کی طرف نہ لگا رہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ نمازکا وقت تنگ نہ ہو اور کھانے کی ضرورت اوراس کی چاہت بھی ہو۔ اس میں اس بات کی تاکید ہے کہ یہ شریعت کامل ہے اورآسانی وکشادگی کے ساتھ انسانی جان کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3066

 
 
Hadith   143   الحديث
الأهمية: نزلت آية المتعة -يعني متعة الحج- وأمرنا بها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم لم تنزل آية تنسخ آية متعة الحج، ولم ينه عنها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى مات


Tema:

تمتع کی آیت نازل ہوئی یعنی حج تمتع کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر حج تمتع کی منسوخی پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع فرمایا۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- قال: «أُنْزِلَت آيَةُ المُتْعَةِ في كتاب اللَّه -تعالى-، فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-، وَلَم يَنْزِلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهَا، وَلَم يَنْهَ عَنهَا حَتَّى مات، قال رجل بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ»، قال البخاري: «يقال إنه عمر».
وفي رواية: « نَزَلَت آيَةُ المُتْعَةِ -يَعْنِي مُتْعَةَ الحَجِّ- وَأَمَرَنا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-، ثُمَّ لَم تَنْزِل آيَةٌ تَنْسَخُ آيَةَ مُتْعَةِ الْحَجِّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى مَاتَ». ولهما بمعناه.

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کتاب اللہ میں حج تمتع کے بارے میں آیت نازل ہوئی ۔ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا اور قرآن میں اس کی حرمت اور ممانعت کی کوئی دلیل نازل نہ ہوئی یہاں تک کہ آپﷺ فوت ہو گیے۔ صرف ایک صاحب ہیں جو اپنی رائے علیحده رکھتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ صاحب عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔
اور دوسری روایت میں ہے:تمتع کی آیت نازل ہوئی یعنی حج تمتع کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور پھر کوئی ایسی آیت بھی نازل نہیں ہوئی جوحجِ تمتع کے حکم کو منسوخ کرتی۔ اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے مرتے دم تک اس سے منع کیا تھا۔ (بخاری ومسلم میں اس معنی کی حدیث موجود ہے)

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر عمران بن حصين -رضي الله عنهما- المتعة بالعمرة إلى الحج، فقال: إنها شرعت بكتاب الله وسنة رسوله -صلى الله عليه وسلم-، فأما الكتاب، فقوله -تعالى-: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}. وأما السنة: ففعل النبي -صلى الله عليه وسلم- لها، وإقراره عليها، ولم ينزل قرآن يحرمها، ولم ينه عنها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وتوفي النبي -صلى الله عليه وسلم-، وهي باقية لم تنسخ بعد هذا، فكيف يقول رجل برأيه وينهى عنها؟ يشير بذلك إلى نهي عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- عنها في أشهر الحج؛ اجتهادا منه ليكثر زوار البيت في جميع العام؛ لأنهم إذا جاءوا بها مع الحج، لم يعودوا إليه في غير موسم الحج، وليس نهي عمر -رضي الله عنه- للتحريم أو لترك العمل بالكتاب والسنة، وإنما هو منع مؤقت للمصلحة العامة.
593;مران بن حصین رضی اللہ عنہ عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع) کرنے کےبارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول میں مشروع قرار دیا گیا ہے۔ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}.’’جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے۔‘‘ جب کہ سنت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حج تمتع کیا،اس کو برقرار رکھا ،قرآن میں اس کی حرمت پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ دنیا سے چلےگیے اور یہ حکم باقی رہا اس کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ تو پھر ایک آدمی اپنی رائے سے (ممانعت کی بات) کیسے کہہ سکتا اور اس سے (کیسے) روک سکتا ہے۔؟ اس سے ان کا اشارہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف تھا جنھوں نے ایامِ حج میں اپنی اجتہاد سے اس سے منع کر دیا تھا تاکہ پورے سال زائرینِ بیت اللہ کثرت سے آتے رہیں، اس لیے کہ ان ایام میں جس تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں موسم حج کے علاوہ اس طرح نہیں آتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منع کرنا بطورِ تحریم یا کتاب و سنت پرعمل کو ترک کرتے ہوئے نہیں تھا بلکہ عمومی مصلحت کا خیال کرتے ہوئے عارضی طور پر منع کردیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3067

 
 
Hadith   144   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث بعثا إلى بني لحيان من هذيل، فقال: لينبعث من كل رجلين أحدهما، والأجر بينهما


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے مقابلہ پر جہاد (کے لئے ) ایک لشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد میں جانے کے لیے نکلے جب کہ جہاد کا ثواب دونوں کے مابین تقسیم ہوگا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بَعَث بَعْثاً إلى بني لحيان من هُذَيل، فقال: «لِيَنْبَعِث مِن كُلِّ رَجُلَين أَحَدُهُما، والأَجْرُ بَينهُما».

ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے مقابلہ پر جہاد (کے لیے) ایک لشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو حکم دیا کہ ”ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد میں جانے کے لیے نکلے جب کہ جہاد کا ثواب دونوں کے مابین تقسیم ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه-، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أراد أن يبعث جيشاً إلى بني لحيان، وهم من أشهر بطون هذيل.
واتفق العلماء على أن بني لحيان كانوا في ذلك الوقت كفاراً، فبعث إليهم بعثاً يغزوهم، (فقال) لذلك الجيش: (لينبعث من كل رجلين أحدهما)، مراده من كل قبيلة نصف عددها، (والأجر) أي: مجموع الأجر الحاصل للغازي والخالف له بخير (بينهما)، فهو بمعنى قوله في الحديث قبله: «ومن خلف غازياً فقد غزا»، وفي حديث مسلم: «أيكم خلف الخارج في أهله وماله بخير كان له مثل نصف أجر الخارج»، بمعنى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمرهم أن يخرج منهم واحد، ويبقى واحد يخلف الغازي في أهله، فيقوم على شؤونهم واحتياجاتهم، ويكون له نصف أجره؛ لأنَّ النصف الثاني للغازي.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی طرف لشکر بھیجنے کا ارادہ فرمایا جو قبیلہ ہذیل کا ایک مشہور قبیلہ ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنو لحیان اس وقت کافر تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے جنگ کے لیے ان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اس لشکر والوں سے کہا "ہر دو آدمیوں میں سے ایک لشکر کے ساتھ جانے کے لیے اٹھے۔" آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ ہر قبیلے سے آدھے مرد لشکر کے ساتھ جائیں۔
(والأجر): یعنی مجموعی اجر لڑنے والے اور اچھے انداز میں اس کی جانشینی کرنے والے دونوں کا ہو گا۔
(بينهما) : یہ آپ ﷺ کے اس قول کی طرح ہے جو سابقہ حدیث میں گزرا ہے کہ ”وَمَنْ خَلَفَ غَازيًا فَقَدْ غزَا“۔ جس نے لڑنے والے مجاہد (کے امور میں اس) کی جانشینی کی وہ گویا بذاتِ خود لڑائی میں شریک ہوا۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے «أَيُّكُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ بِخَيْرٍ، كَانَ لَهُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ» یعنی جس نے بھی جہاد پر نکلنے والے کے اہل عیال اور مال میں اچھے انداز میں اس کی جانشینی کی اس کے لیے جہاد پر جانے والے کے اجر کا نصف ہے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ ان میں ایک شخص لشکر کے ساتھ جائے اور ایک مجاہد کے گھر والوں کے لیےاس کا جانشین بن جائے بایں طور کہ ان کے معاملات کو نپٹائے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اس صورت میں اس کے لیے اس مجاہد کا نصف اجر ہو گا کیونکہ باقی آدھا خود مجاہد کو ملے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3068

 
 
Hadith   145   الحديث
الأهمية: فعن معادن العرب تسألوني؟ خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا


Tema:

تو کیا پھر تم مجھ سے عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ (تو سنو!) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قِيلَ: يا رسُول الله، مَن أَكرم النَّاس، قال: اتقاهم، فقالوا: لَيس عن هذا نَسأُلُك، قال: «فَيُوسُفُ نَبِيُّ الله ابنُ نَبِيِّ الله ابنِ نَبِيِّ الله ابنِ خَلِيلِ اللهِ» قالوا: لَيس عَن هذا نَسأَلُك، قال: «فعَن مَعَادِن العَرَب تسأَلُوني؟ خِيَارُهُم في الجاهِليَّة خِيَارُهُم في الإِسلام إذا فَقُهُوا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اس کے بارے ہم آپ سے نہیں پوچھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر (سب سے زیادہ معزز) یوسف علیہ السلام ہیں جو خود بھی اللہ کے پیغمبر ہیں، اور باپ بھی اللہ کے پیغمبر، اور دادا بھی اللہ کے پیغمبر اور پردادا بھی اللہ کے پیغمبر اور اس کے خلیل ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق (بھی) آپ سے نہیں پوچھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو کیا پھر تم مجھ سے عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ (تو سنو!) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنَّ أكرم الناس من حيث النسب والمعادن والأصول، هم الخيار في الجاهلية، لكن بشرط إذا فقهوا، فمثلا بنو هاشم من المعروف هم خيار قريش في الإسلام، لكن بشرط أن يفقهوا في دين الله، وأن يتعلموا أحكامه، فإن لم يحصل لهم الفقه في الدين، فإنَّ شَرَف النَّسب لا يشفع لصاحبه، وإن عَلاَ نسبه وكان من خيار العرب نسبا ومعدِنا، فإنَّه ليس مِن أكرم الخلق عند الله، وليس مِن خيار الخلق، وعليه فالإنسان يشرف بنسبه، لكن بشرط الفقه في الدين.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ حسب و نسب اور خاندانی اعتبار سے سب سے معزز و شریف لوگ وہ ہیں جو جاہلیت میں بہتر تھے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں۔ مثلا مشہور ہے کہ اسلام میں بنو ہاشم قریش میں سے سب سے بہتر خاندان ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کر لیں اور اس کے احکامات کو سیکھ لیں۔ اگر دین کی سمجھ انہیں حاصل نہ ہوئی تو نسبی شرافت انسان کو کچھ فائدہ نہ دے گی اگرچہ اس کا نسب کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اور وہ نسب و خاندان کے اعتبار سے عرب میں سے بہترین ہو۔ اللہ کے نزدیک وہ لوگوں میں سب سے معزز نہیں ہے، اور بہترین لوگوں میں سے نہیں ہے۔ اس بنا پر معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے نسب کی وجہ سے بزرگی ملتی ہے بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3069

 
 
Hadith   146   الحديث
الأهمية: يعمد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد، فلعله يضاجعها من آخر يومه


Tema:

تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے، حالانکہ (یہ نہیں سوچتا کہ) شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر بھی ہو۔

عن عبد الله بن زمعة -رضي الله عنه- أنّه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب، وذكر الناقة والذي عقرها، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذِ انبَعَثَ أشقاها: انْبَعَثَ لَهَا رجل عزِيز، عَارِم منيع في رَهطِه»، ثم ذكر النساء، فوعظ فيهنَّ، فقال: «يَعمِد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد، فلعلَّه يُضَاجِعُهَا من آخر يومه» ثمَّ وعظهم فِي ضَحِكِهم من الضَّرطَة، وقال: «لم يضحك أحدكم ممَّا يفعل؟!».

عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن دوران خطبہ (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی اور اس کی کوچیں کاٹنے والے کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت {إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ} تلاوت کی (اور فرمایا:) "اس کام کے لیے ایک سخت دل، طاقت ور، قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا"۔ پھرآپ نےعورتوں کے متعلق نصیحت فرمائی۔ فرمایا: ”آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے، جب کہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ وہ دن کے آخری حصے میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی“۔ پھر ہوا خارج ہوجانےکی وجہ سے ہنسنے پر نصیحت کی۔ فرمایا: ”تم میں سے کوئی اس کام پر کیوں ہنستا ہے، جو وہ خود بھی کرتاہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان -صلى الله عليه وسلم- يخطب، وسمعه عبد الله بن زمعة، ومن جملة ما خطب أنه سمع النبي ذكر الناقة التي كانت معجزة لنبي الله صالح -على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام-، وكان من جملة ما ذكره أيضا الذي عقرها، يقال له قُدَار بن سالف والذي كان أشقى القوم، وجاء من أوصافه: أنه قليل المثل، شديد الإفساد، ذو منعة في قومه.
 ثم قال -عليه الصلاة والسلام- في خطبته: "يعمد أحدكم فيجلد امرأته جلد العبد" وهو في العادة ضرب شديد، وفي سياق الحديث استبعاد وقوع الأمرين من العاقل، أن يُبَالِغَ في ضرب امرأته ثم يجامعها من بقية يومه أو ليلته؛ والمجامعة أو المضاجعة إنما تستحسن مع الميل والرغبة في العشرة، والمجلود غالباً ينفر ممن جلده، فوقعت الإشارة إلى ذَمِّ ذلك، وأنه إذا كان ولا بد فليكن التأديب بالضرب اليسير بحيث لا يحصل معه النفور التام، فلا يفرط في الضرب ولا يفرط في التأديب.
ثم (وعظهم) أي: حذَّرهم في (ضحكهم من الضرطة)؛ وذلك لأنه خلاف المروءة، ولما فيه من هتك الحُرمة، وقال في تقبيح ذلك: (لِم يضحك أحدكم مما يفعل؟)؛ وذلك لأنَّ الضحك إنما يكون من الأمر العجيب والشأن الغريب، يبدو أثره على البشرة فيكون التبسم، فإن قوي وحصل معه الصوت كان الضحك، فإن ارتقى على ذلك كانت القهقهة، وإذا كان هذا الأمر معتاداً من كل إنسان فما وجه الضحك من وقوع ذلك ممن وقع منه؟.
606;بیﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جسے عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ نے سنا، آپﷺ نے جو خطبہ دیا اس میں انھوں نے آپﷺ کو اس اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے سنا جو حضرت صالح-على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام- کو بطور معجزہ دی گئی تھی۔ آپﷺ نے دوران خطبہ اس بدبخت شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں۔ اس کا نام قُدار بن سالف تھا جو کہ قوم کا سب سے بدبخت شخص تھا۔ اس بدبخت کے من جملہ اوصاف میں اس کا بھی ذکر آیا ہے کہ اس کے جیسا کوئی دوسرا بدبخت نہیں تھا، فسادی اور اپنی قوم میں اثر ورسوخ رکھنے والا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا: تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہ، جو کہ عام طور پر ضربِ شدید (سخت مار) ہوا کرتی ہے۔ حدیث کا سیاق ایک عقل مند کی طرف سے دو امور کے صدور کو بعید تر قرار دیا گیا ہے؛ اپنی بیوی کی سخت پٹائی بھی کرے اور اسی دن یا اسی رات مجامعت بھی کرے۔ کیوں کہ جماع اور بیوی سے ہمبستری یہ اس وقت ہی اچھا لگتا ہے، جب رہن سہن میں ایک دوسرے کے ساتھ رغبت اور باہمی میلان ہو، جب کہ پٹائی سے دوچار ہونے والا شخص عام طور پر پٹائی کرنے والے سے متنفر رہتا ہے۔ اس طرح یہاں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک مذموم کام ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو جائے، تو پھر ہلکی مار ماری جائے کہ باہمی نفرت کی فضا نہ پیدا ہو۔ مارنے اور ادب سکھانے میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ پھر آپﷺ نے ان کو نصیحت کی یعنی انہیں خبردار کیا۔ ہوا خارج ہوجانے پر ہنسنے سے۔ کیوں کہ یہ خلاف مروت ہے اور اس میں ہتک عزت بھی ہے۔ اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسے عمل پر کیوں ہنستا ہے، جسے وہ خود بھی کرتاہے؟۔ کیوں کہ ہنسی تو کسی عجیب وغریب بات پر آتی ہے! اگر صرف ہنسی کے آثار ظاہر ہوں، تو اسے تبسم کہا جاتاہے، اگر اس میں تھوڑی سے زیادتی ہو جائے اور ساتھ میں آواز پیدا ہو جائے، تو اس کو (ضحک) ہنسی کہا جاتا ہے اور اگر آواز بلند ہو جائے تو اسے قہقہہ کہا جاتا ہے۔ جب ریح کا خروج فطری طور پر ہر انسان سے ہوتاہے، تو اس پر ہنسنے کی کیا بات ہے؟   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3070

 
 
Hadith   147   الحديث
الأهمية: لا يفرك مؤمن مؤمنة إن كره منها خلقا رضي منها آخر.
أو قال: غيره


Tema:

کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی۔ یا پھر آپ ﷺ نے 'آخر' کے بجائے غیرہ (دوسری عادت) فرمایا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لاَ يَفْرَك مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَة إِنْ كَرِه مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَر»، أو قال: «غَيرُه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی‘‘۔ یا پھر آپ ﷺ نے ''آخر'' کے بجائے "غیرہ" (دوسری عادت) فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لا يفرك مؤمن مؤمنة، إن كره منها خلقًا رضي منها خلقًا آخر" معناه: لا يبغضها لأخلاقها، إن كره منها خلقا رضي منه خلقا آخر.
الفرك: يعني البغضاء والعداوة، يعني لا يعادي المؤمن المؤمنة كزوجته مثلا، لا يعاديها ويبغضها إذا رأى منها ما يكرهه من الأخلاق، وذلك لأن الإنسان يجب عليه القيام بالعدل، وأن يراعي المعامل له بما تقتضيه حاله، والعدل أن يوازن بين السيئات والحسنات، وينظر أيهما أكثر وأيهما أعظم وقعا، فيغلب ما كان أكثر وما كان أشد تأثيرا؛ هذا هو العدل.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی کسی عادت کی وجہ سے اس سے نفرت نہ کرے۔ اگر اسے اس کی کوئی اخلاقی صفت (عادت) ناپسند ہے تو ضرور کوئی اورصفت پسند بھی ہو گی۔
”الفرك“ کا معنی ہے: نفرت اور دشمنی۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت مثلاً اپنی بیوی میں اگر کوئی ایسی عادت دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو وہ اس سے عداوت اور نفرت نہ رکھے، کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل سے کام لے اور جس شخص سے اس کا سامنا ہے اس کی حالت کی رعایت کرے۔ اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ برائیوں اور اچھائیوں کا موازنہ کرے اور دیکھے کہ برائیوں اور اچھائیوں میں سے کون سی زیادہ ہیں اور کن کا اثر بڑھ کر ہے، اور پھر ان میں سے جو زیادہ ہوں اورجن کا اثر بڑھ کر ہو ان کو فوقیت دے، یہی عدل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3071

 
 
Hadith   148   الحديث
الأهمية: سألت ابن عباس عن المتعة ؟ فأمرني بها، وسألته عن الهدي؟ فقال: فيه جزور، أو بقرة، أو شاة، أو شرك في دم، قال: وكان ناس كرهوها


Tema:

میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ:تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے) یا کسی (اونٹ یا گائے وغیرہ کی) قربانی میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔

عن أبي جَمرة -نصر بن عمران الضُّبَعي- قال: «سألت ابن عباس عن المُتْعَةِ؟ فأمرني بها، وسألته عن الهَدْيِ؟ فقال: فيه جَزُورُ، أو بقرةٌ، أو شَاةٌ، أو شِرْكٌ في دم، قال: وكان ناس كرهوها، فنمت، فرأيت في المنام: كأن إنسانا ينادي: حَجٌّ مَبْرُورٌ، ومُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ. فأتيت ابن عباس فحدثته، فقال: الله أكبر! سُنَّةُ أبي القاسم -صلى الله عليه وسلم-».

ابوجمرہ نصر بن عمران الضبعی بیان کرتے ہیں کہ میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا؟ آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے ) یا کسی (اونٹ، یا گائے کی) قربانی میں شریک ہو جائے۔ ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ حجِ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے:یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : ”اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم ﷺ کی سنت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو جمرة ابن عباس -رضي الله عنهما- عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فأمره بها، ثم سأله عن الهدي المقرون معها في الآية في قوله -تعالى- {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي}، فأخبره أنه جزور، وهي أفضله، ثم بقرة، ثم شاة، أو سُبع البدنة أو البقرة، أي: أن يشترك مع من اشتركوا فيهما للهدي أو الأضحية، حتى يبلغ عددهم سبعة.   فكأن أحدا عارض أبا حمزة في تمتعه، فرأى هاتفا يناديه في المنام "حج مبرور، ومتعه متقبلة" فأتى ابن عباس -رضي الله عنهما-؛ ليبشره بهذه الرؤيا الجميلة، ولما كانت الرؤيا الصالحة جزءا من أجزاء النبوة، فرح ابن عباس  -رضي الله عنهما- بها واستبشر أن وفقه الله -تعالى- للصواب، فقال: الله أكبر، هي سنة أبى القاسم -صلى الله عليه وسلم-.
575;بو جمرہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع کرنے) کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ پھر ان سے قربانی کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں حکم موجو د ہے: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي} ’’پس جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے‘‘۔تو انھوں نے بتایا کہ اونٹ کی قربانی سب سے افضل ہے پھر اس کے بعد گائے، پھر بکری یا پھر اونٹ یا گائے میں سات افراد کی شراکت۔یعنی سات افراد ایک قربانی یا ہدی میں شریک ہوجائیں۔
ان میں سے ایک شخص کو ابو حمزہ کے تمتع پر اعتراض تھا۔ انھوں نے خواب میں ایک منادی لگانے والے کو دیکھا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا "حج مبرور، ومتعۃ متقبلة" (حج مبرور ،تمتع قبول) تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تاکہ ان کو یہ خوبصورت خواب بتائیں کیوں کہ اچھا خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما خوش ہو گیے اور یہ خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں درست کام کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ”اللہ اکبر ! یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3072

 
 
Hadith   149   الحديث
الأهمية: لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليَومَ، فجَاءَ أَبُو بَكر -رضِيَ الله عنْهُ- فَدَفَعَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ ذَهَبتُ، فَقُلْتُ: يَا رسُولَ الله، هَذَا أبُو بكرٍ يَسْتَأذِنُ، فقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ


Tema:

میں آج رسول اللہ ﷺ کے دربان کی ذمہ داری سر انجام دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے دروازے کو دھکیلا، تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر!۔ میں نے کہا: ذراٹھہریے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أَنَّهُ تَوَضَّأ في بيتِهِ، ثُمَّ خَرَج، فقَال: لَأَلْزَمَنَّ رسُول الله -صلَّى الله علَيه وسلَّم- ولَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَومِي هَذَا، فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَألَ عَنِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَقَالُوا وَجَّهَ هَاهُنَا، قال: فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسأَلُ عنْهُ، حتَّى دخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، فَجَلَستُ عِندَ البَابِ حتَّى قَضَى رسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأ، فَقُمتُ إِلَيهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ وَدلَّاهُمَا فِي البِئرِ، فَسَلَّمتُ علَيه ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَجَلَسْتُ عِند البَابِ، فقُلتُ: لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليَومَ، فجَاءَ أَبُو بَكر -رضِيَ الله عنْهُ- فَدَفَعَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ ذَهَبتُ، فَقُلْتُ: يَا رسُولَ الله، هَذَا أبُو بكرٍ يَسْتَأذِنُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَأَقْبَلْتُ حتَّى قُلتُ لَأَبِي بَكْرٍ: ادْخُلْ وَرَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ أَبُو بَكرٍ حَتَّى جَلَسَ عَن يَمِينِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- مَعَهُ فِي القُفِّ، ودَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَجَلَسْتُ، وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ - يُريِدُ أَخَاهُ - خَيرًا يَأتِ بِهِ، فَإِذَا إِنسَانٌ يُحَرِّكُ البَّابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُمَرُ بن الخَطَّابِ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَسَلَّمْتُ عَلَيهِ وقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ؟ فَقَال: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَجِئْتُ عُمَرَ، فَقُلتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي القُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلتُ: إِن يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ خَيرًا -يعنِي أَخَاهُ- يَأتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنسَانٌ فَحَرَّكَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُثمَانُ بنُ عَفَّان، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، وَجِئتُ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَأَخبَرتُهُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرهُ بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُهُ» فَجِئتُ، فقُلتُ: ادْخُل وَيُبَشِّرُكَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُكَ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ القُفَّ قَدْ مُلِئَ، فَجَلَسَ وِجَاهَهُم مِنَ الشِقِّ الآخَرِ.   قال سعيد بنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُم.   وزاد في رواية: وَأَمَرَنِي رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِحفظِ البابِ، وفيها: أنَّ عُثمَانَ حِينَ بَشَّرَهُ حَمِدَ الله -تَعَالَى-، ثُمَّ قَالَ: اللهُ الْمُسْتَعَانُ.

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گھر میں وضو کیا اور جب باہر آئے، تو ارادہ کیا کہ آج دن بھر رسول اللہ ﷺکا ساتھ نہ چھوڑوں گا اور آپ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی ﷺ کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ آپ ﷺ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ ابوموسی اشعری کہتے ہیں: میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا، حتی کہ (میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بئر اریس میں داخل ہوگئے ہیں۔ میں دروازے پر بیٹھ گیا۔ جب آپ ﷺ قضاے حاجت کر چکے اور آپ ﷺ نے وضو بھی کر لیا، تو میں آپﷺ کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئر اریس کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں کھول رکھی ہیں اور انھیں کنویں میں لٹکایا ہوا ہے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ ﷺ کے دربان کی ذمہ داری سر انجام دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے دروازے کو دھکیلا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر!۔ میں نے کہا: ذراٹھہریے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر نبی ﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں ویسے ہی کنویں میں لٹکالیے، جس طرح رسول اللہ لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا۔ میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ جو میرےپیچھے ہی آ رہا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ کاش اللہ فلاں( یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کر لے اور اسے یہاں تک لے آئے۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون ہیں؟ جواب ملا کہ عمر بن خطاب۔میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب دروازے پر کھڑے ہیں اوراندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی ہے اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ چنانچہ وہ اندر آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔ میں پھر دروازے پر آ بیٹھا اور دل میں سوچا کہ کاش اللہ فلاں (یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کرلے تو اسے یہاں لے آئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا: تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ اس آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آئے گی۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہےاور ساتھ ہی ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتایا ہے، جو آپ پر آئے گی۔ وہ جب داخل ہوئے، تو دیکھا منڈیر پر جگہ نہیں ہے، اس لیے وہ دوسری جانب ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ وہ اسی طرح بنیں گی)۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ: "اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے دروازے کی نگہبانی پر مامور فرمایا"۔ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ: "جب انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بشارت دی، تو انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا: اللہ ہی وہ ذات ہے، جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في حديث أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أنَّه في يوم من الأيام توضَّأ في بيته وخرج يطلب النبي -صلى الله عليه وسلم- ويقول: لألزمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومي هذا، أي: أكون معه ذاهبا وآتيا.   فخرج -رضي الله عنه- يطلب النبي -صلى الله عليه وسلم- فأتى المسجد؛ لأنَّ الرسول عليه الصلاة والسلام إمَّا في المسجد وإمَّا في بيته في مِهنة أهله، وإمَّا في مصالح أصحابه -عليه الصلاة والسلام-، فلم يجده في المسجد فسأل عنه فقالوا: وجَّه هاهنا، وأشاروا إلى ناحية أريس وهي بئر حول قباء، فخرج أبو موسى في إثره حتى وصل إلى البئر، فوجد النبي -صلى الله عليه وسلم- هنالك فلزم باب البستان الذي فيه البئر -رضي الله عنه-.   فقضى النبي -صلى الله عليه وسلم- حاجته وتوضأ ثم جلس -عليه الصلاة والسلام- متوسطا للقف أي حافة البئر، ودلَّى رجليه، وكشف عن ساقيه، وكان أبو موسى على الباب يحفظ باب البئر كالحارس لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فاستأذن أبو بكر -رضي الله عنه-، لكن لم يأذن له أبو موسى حتى يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: هذا أبو بكر يستأذن، فقال: "ائذن له وبشِّره بالجنة"، فأذن له وقال له: يبشرك رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالجنة.
وهذه بشارة عظيمة، يبشره بالجنة ثم يأذن له أن يدخل ليكون مع الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
فدخل ووجد النبي -صلى الله عليه وسلم- متوسطا القف فجلس عن يمينه؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيامن في كل شيء، فجلس أبو بكر عن يمينه وفعل مثل فعل النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ دلَّى رجليه في البئر، وكشف عن ساقيه كراهة أن يخالف النبي -صلى الله عليه وسلم-، في هذه الجلسة.
فقال أبو موسى -وكان قد ترك أخاه يتوضأ ويلحقه- إن يرد الله به خيرا يأت به، وإذا جاء واستأذن فقد حصل له أن يبشر بالجنة، ولكن استأذن الرجل الثاني، فجاء أبو موسى إلى الرسول -عليه الصلاة والسلام- وقال هذا عمر قال: "ائذن له وبشره بالجنة"، فأذن له وقال له: يبشرك رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالجنة.
فدخل فوجد النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر على القف، فجلس عن يسار الرسول -عليه الصلاة والسلام- والبئر ضيقة، ليست واسعة فهؤلاء الثلاثة كانوا في جانب واحد.
ثم استأذن عثمان وصنع أبو موسى مثل ما صنع من الاستئذان فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "ائذن له وبشره بالجنة مع بلوى تصيبه"، فأذن له وقال: يبشرك الرسول -صلى الله عليه وسلم- بالجنة مع بلوى تصيبك، فاجتمع في حقه نعمة وبلوى، فقال -رضي الله عنه-: الحمد لله، الله المستعان، على هذه البلوى، والحمد لله على هذه البشرى، فدخل فوجد القف قد امتلأ؛ لأنَّه ليس واسعا كثيرا فذهب إلى الناحية الأخرى تجاههم، وجلس فيها ودلى رجليه وكشف عن ساقيه.
أوَّلها سعيد بن المسيب -أحد كبار التابعين- على أنها قبور هؤلاء؛ لأن قبور الثلاثة كانت في مكان واحد، فالنبي -صلى الله عليه وسلم- أبو بكر وعمر كلهم كانوا في حجرة واحدة، دُفِنُوا جميعا في مكان واحد، وكانوا في الدنيا يذهبون جميعا ويرجعون جميعا، ودائما يقول النبي -صلى الله عليه وسلم-: ذهبت أنا وأبو بكر وعمر، وجئت أنا وأبو بكر وعمر، فهما صاحباه ووزيراه، ويوم القيامة يخرجون من قبورهم جميعا، فهم جميعا في الدنيا والآخرة.
فجلس عثمان -رضي الله عنه- تجاههم، وبشَّره -صلى الله عليه وسلم- بالجنَّة مع بلوى تصيبه، وهذه البلوى هي ما حصل له -رضي الله عنه- من اختلاف الناس عليه وخروجهم عليه، وقتلهم إِيَّاه في بيته -رضي الله عنه-، حيث دخلوا عليه في بيته في المدينة وقتلوه وهو يقرأ القرآن، وكتاب الله بين يديه.
575;بو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا بیان ہےکہ ایک دن انھوں نے گھر میں وضو کیا اور نبی ﷺ کی تلاش میں نکل پڑے۔ انھوں نے دل میں سوچا کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ یعنی آپ ﷺ جہاں بھی آئیں جائیں گے، میں آپ ﷺ کے ساتھ ہی رہوں گا۔
چنانچہ وہ نبی ﷺ کی تلاش میں نکلے اور مسجد آ پہنچے، کیوںکہ آپ ﷺ یا تو مسجد میں ہوتے یا اپنے گھر میں اہل خانہ کا کام کاج کر رہے ہوتے یا پھر اپنے صحابہ کے کاموں میں مصروف ہوتے۔ جب مسجد میں انھیں آپ ﷺ نہ ملے، تو انھوں نے آپ ﷺ کے بارےمیں دریافت کیا۔ لوگوں نے "اریس "کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ اس جانب تشریف لے گئے ہیں۔ یہ قبا کے گرد ونواح میں واقع ایک کنواں ہے۔ چنانچہ ابو موسی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے کنویں تک پہنچ گئے۔ انھیں وہاں نبی ﷺ مل گئے اور وہ اس باغ کے دروازے پربیٹھ گئے، جس میں کنواں واقع تھا۔ رضی اللہ عنہ۔
نبی ﷺ نے قضاے حاجت کے بعد وضو فرمایا اور پھر کنویں کی منڈیر یعنی کنویں کے کنارے کے درمیان میں بیٹھ گئے اور پنڈلیوں کو کھول کر اپنے پاؤں اس میں لٹکالیے۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ کنویں کے دروازے پر رسول اللہ ﷺ کے پہرے دار کے طور پر موجود تھے۔ ایسے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، لیکن ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں تب تک اجازت نہیں دی، جب تک انھوں نے نبی ﷺ کو نہ بتا دیا کہ ابوبکر اجازت طلب کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں آنے کی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی "۔ چنانچہ انھوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی اور ساتھ ہی انہھیں بتایا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے انھیں بشارت بھی دی اور اندر آنے کی اجازت بھی، تا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو جائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور دیکھا کہ نبی ﷺ منڈیر کے درمیان میں تشریف فرما ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور انھوں نے ویسا ہی کیا، جیسا آپ ﷺ نے کر رکھا تھا کہ اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں؛ کیوںکہ انھيں یہ گوارا نہ تھا کہ بیٹھنے کی اس ہیئت میں وہ نبی ﷺ کی مخالفت کریں۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ جب (آپ ﷺ کی تلاش میں) نکلے تھے، تو ان کا بھائی وضو کر رہا تھا اور اسے ان کے پیچھے ہی آنا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر اللہ ان کے بھائی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہوئے اسے بھی یہاں تک لے آئے، تو بہت اچھا ہوگا۔ تاکہ آنے پر وہ بھی اجازت طلب کرے اور اسے بھی جنت کی بشارت مل جائے۔ لیکن (ان کی بجائے) کسی اور شخص نے اجازت چاہی۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بتایا کہ عمر رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں اجازت دے دو اور ساتھ ہی انھیں جنت کی بشارت بھی سنا دو"۔ چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں داخلےکی اجازت دے دی اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔
عمر رضی اللہ عنہ اندار داخل ہوئے اور دیکھا کہ نبی ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ منڈیر پر بیٹھے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ کنواں تنگ تھا اور اتنا کھلا نہیں تھا۔ یہ تینوں ایک طرف تشریف فرما تھے۔
اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلے اجازت مانگے جانے پر کیاتھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”انھیں اجازت دے دو، انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آنے والی ہے“۔ چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں اجازت دے دی اور بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں اور ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا رہے ہیں، جو آپ پر آنے والی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیےنعمت اور آزمائش دونوں اکٹھی تھیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”الحمدللہ، اس آزمائش پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے اور اس بشارت پر میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں“۔ جب اندر داخل ہوئے، تو دیکھا کہ منڈیر بھری ہوئی ہے، کیوںکہ وہ زیادہ کشادہ نہیں تھی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے دوسری طرف چلے گئے اور اس پر بیٹھ کر اپنے پاؤں لٹکا لیے اور پنڈلیوں کو کھول لیا۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں، اس سے یہ تاویل لیتے ہیں کہ ان کی قبریں اس طرح سے ہوں گی؛ کیوںکہ ان تینوں کی قبریں ایک ہی جگہ پر تھیں۔ نبی ﷺ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب ایک حجرے میں تھے اور سب ایک ہی جگہ دفن ہوئے۔ دنیا میں یہ لوگ (جہا ں بھی آتے جاتے) اکٹھے آتے جاتے۔ نبی ﷺ ہمیشہ کہا کرتے تھے: ”میں، ابو بکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر آئے“۔ یہ دونوں آپ ﷺ کے ساتھی اور وزیر تھے اور روزِ قیامت اپنی قبروں سے بھی یہ اکٹھے ہی اٹھیں گے۔ چنانچہ یہ دنیا اور آخرت میں ایک ساتھ رہیں گے۔
عثمان رضی اللہ عنہ ان کے سامنے بیٹھ گے۔ نبی ﷺ نے انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ انھیں پیش آنے والی ایک آزمائش کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ یہ آزمائش وہی تھی، جس میں لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اختلاف کے شکار ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےاور آپ کے گھر میں آپ کو شہید کر دیا۔ لوگ مدینے میں واقع ان کے گھر میں گھس آئے۔ قرآن کریم عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا اور وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے۔ اسی حالت میں ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3073

 
 
Hadith   150   الحديث
الأهمية: المرء مع من أحب


Tema:

آدمی اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: « المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ».
وفي رواية: قِيلَ لِلنبي -صلى الله عليه وسلم-: الرَّجُلُ يُحِبُّ القَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَق بهم؟ قال: « المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ».
 عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، كَيفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أحَبَّ قَومًا ولم يَلحَق بِهم؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا۔(اس کا کیا ہو گا؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا ہے“۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ: یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر پاتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإنسان في الآخرة مع من أحبهم في الدنيا.
الحديث فيه الحث على قوة محبَّة الرسل والصالحين، واتباعهم بحسب مراتبهم، والتحذير من محبة ضِدِّهم، فإنَّ المحبَّة دليل على قُوَّة اتصال المحب بمن يحبه، ومناسبته لأخلاقه، واقتدائه به، فهي دليل على وجود ذلك، وهي أيضا باعثة على ذلك، وأيضا من أحب الله تعالى، فإن نفس محبته من أعظم ما يُقرِّبه إلى الله، فإن الله -تعالى- شكور، يعطي المتقرب أعظم من ما بذل بأضعاف مضاعفة.
وكون المحِّب مع من أحب لا يستلزم مساواته له في منزلته وعلوّ مرتبته؛ لأن ذلك متفاوت بتفاوت الأعمال الصالحة والمتَاجِر الرابحة، ذلك أنَّ المعية تحصل بمجرد الاجتماع في شيء ما، ولا تلزم في جميع الأشياء، فإذا اتفق أنَّ الجميع دخلوا الجنَّة صدقت المعية وإن تفاوتت الدرجات، فمن أحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أو أحداً من المؤمنين كان معه في الجنة بحسن النية لأنها الأصل، والعمل تابع لها ولا يلزم من كونه معهم كونه في منزلتهم، ولا أن يُجزَى مثل جزائهم من كل وجه.
575;نسان آخرت میں انہی لوگوں کے ساتھ ہو گا جن سے وہ دنیا میں محبت کرتا ہے۔
مذکورہ حدیث میں انبیاء ورسل اور نیک لوگوں سے بہت زیادہ محبت رکھنے اور حسب مراتب ان کی اتباع کرنے کی ترغیب ہے اور ان کے مخالفین سے محبت کرنے سے ڈرایا گیا ہے۔ اس لیے کہ محبت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب سے کس قدر تعلق رکھتا ہے، کس قدر اس کے اخلاق محبوب کے اخلاق سے مناسبت رکھتے ہیں اور کس حد تک وہ اس کی اقتدا کرتا ہے؟ چنانچہ محبت ان سب باتوں کے وجود کی دلیل ہے اوران پر آمادہ بھی کرتی ہے۔ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے، اس کی یہ محبت ہی وہ سب سے بڑی چیز ہے، جو اسے اللہ تعالی سے قریب کرتی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان ہے۔ وہ نیکی کرنے والے کو اس کی کاوش سے کہیں بڑھ کر بدلہ دیتاہے۔
واضح رہے کہ محبت کرنے والے کا اس شخص کے ساتھ ہونا، جس سے وہ محبت کرتا ہے، اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ دونوں مقام ومرتبہ میں بھی برابر ہوں۔ کیوںکہ مراتب تو نیک اعمال اور نفع بخش تجارتوں کے تفاوت کے لحاظ سے مختلف ہوں گے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ معیت تو کسی بھی چیز پر مجتمع ہونے کی وجہ سے حاصل ہو جاتی ہے، ضروری نہیں کہ اجتماع تمام چیزوں میں ہو۔ چنانچہ جب سب جنت میں چلے جائیں گے، تو اس سے معیت ثابت ہو جائے گی؛ اگرچہ درجات مختلف ہوں گے۔ جس نے رسول اللہ ﷺ سے یا پھر مومنین میں سے کسی سے محبت کی، وہ جنت میں اس کے ساتھ ہو گا؛ بشرطے کہ نیت اچھی رہی ہو؛ کیوں کہ نیت ہی اصل ہے اور عمل اس کے تابع ہے۔ البتہ اس کا ان کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا مقام ومرتبہ بھی وہی ہو، جو ان کا ہے اور نہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ اسے ہر اعتبار سے وہی انعامات ملے، جو ان کو ملے ہیں۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3074

 
 
Hadith   151   الحديث
الأهمية: كنت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فبال، وتوضأ، ومسح على خفيه


Tema:

میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرکے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنهما- قال: «كنتُ مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فبَالَ, وتوَضَّأ, ومَسَح على خُفَّيه».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرکے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر حذيفة بن اليمان -رضي الله عنه- أنه كان مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وذلك في المدينة، فأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يقضي حاجته، فأتى زبالة قوم خلف حائط، فبال وتوضأ ومسح على خفيه، وكان وضوؤه بعد الاستجمار، أو الاستنجاء، كما هي عادته -صلى الله عليه وسلم-.
581;ذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ یہ مدینہ شریف کی بات ہے۔ آپ ﷺ نے قضائے حاجت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ دیوار کے پیچھے لوگوں کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کے بعد وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ آپ ﷺ نے پتھر استعمال کر کے یا استنجا کرنے کے بعد وضو کیا تھا، جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3075

 
 
Hadith   152   الحديث
الأهمية: كنت جنبا فكرهت أن أجالسك على غير طهارة، فقال: سبحان الله، إن المؤمن لاينجس


Tema:

میں جنابت کی حالت میں تھا چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ میں آپ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-:"أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- لَقِيَه في بَعض طُرُقِ المدينَة وهو جُنُبٌ، قال: فَانْخَنَسْتُ مِنه، فذهبت فَاغْتَسَلْتُ ثم جِئْتُ، فقال: أين كنت يا أبا هريرة؟ قال: كُنتُ جُنُبًا فَكَرِهتُ أن أُجَالِسَك على غيرِ طَهَارَة، فقال: سبحان الله، إِنَّ المُؤمِنَ لا يَنجُس".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ مدینہ کے کسی راستے پر ان کی نبی ﷺ سے ملاقات ہو گئی۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چپکے سے لوٹ گیا اور غسل کر کے واپس آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں جنابت کی حالت میں تھا چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری کہ میں آپ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن نجس نہیں ہوتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لقي أبو هريرة النبي -صلى الله عليه وسلم- في بعض طرق المدينة، وصادف أنه جنب فكان من تعظيمه للنبي -صلى الله عليه وسلم- وتكريمه إياه، أن كره مجالسته ومحادثته وهو على تلك الحال.
فانسل في خفية من النبي -صلى الله عليه وسلم- واغتسل، ثم جاء إليه.
فسأله النبي -صلى الله عليه وسلم- أين ذهب -رضي الله عنه- فأخبره بحاله، وأنه كره مجالسته على غير طهارة.
فتعجب النبي -صلى الله عليه وسلم- من حال أبي هريرة -رضي الله عنه- حين ظن نجاسة الجنب، وذهب ليغتسل وأخبره: أن المؤمن لا ينجس على أية حال.
605;دینہ کے ایک راستے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے وہ اس وقت جنبی تھے۔ نبی ﷺ کی تعظیم وتکریم کے تقاضے کے تحت انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ اس حالت میں آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھیں اور آپ سے گفتگو کریں۔ چنانچہ وہ چپکے سے نبیﷺ کے ہاں سے نکل گئے اور غسل کر کے واپس آئے۔ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں چلے گئے تھے؟ انہوں نے آپ ﷺ کو ساری بات بتا دی کہ انہیں اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ ناپاکی کی حالت میں بیٹھیں۔
آپﷺ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر تعجب کا اظہار کیا کہ وہ جنبی کو نجس خیال کر رہے تھے چنانچہ اس وجہ سے غسل کرنے چلے گئے۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ:مومن کسی بھی حال میں نجس نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3076

 
 
Hadith   153   الحديث
الأهمية: إذا أتيتم الغائط، فلا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول، ولا تستدبروها، ولكن شرقوا أو غربوا


Tema:

جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ، تو پیشاب پاخانہ کرتے وقت نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پشت۔ بلکہ یا تو مشرق کی طرف منہ کیا کرو یا مغرب کی طرف۔

عن أبي أيوب الانصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "إذا أَتَيتُم الغَائِط, فَلاَ تَستَقبِلُوا القِبلَة بِغَائِط ولا بَول, ولا تَسْتَدْبِرُوهَا, ولكن شَرِّقُوا أو غَرِّبُوا".   قال أبو أيوب: «فَقَدِمنَا الشَّام, فَوَجَدنَا مَرَاحِيض قد بُنِيَت نَحوَ الكَّعبَة, فَنَنحَرِف عَنها, ونَستَغفِر الله عز وجل» .

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ، تو پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پشت۔ بلکہ یا تو مشرق کی طرف منہ کیا کرو یا مغرب کی طرف“۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم شام میں آئے، تو ہم نے دیکھا کہ بیت الخلا کعبہ رخ بنائے گئے تھے۔ چنانچہ ہم (جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو) کعبہ کی سمت سے ہٹ کر بیٹھتے اور اللہ عز و جل سے استغفار کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي صلى الله عليه وسلم إلى شيء من آداب قضاء الحاجة بأن لا يستقبلوا القبلة، وهى الكعبة المشرفة، ولا يستدبروها حال قضاء الحاجة؛ لأنها قبلة الصلاة، وموضع التكريم والتقديس، وعليهم أن ينحرفوا عنها قِبَلَ المشرق أو المغرب إذا كان التشريق أو التغريب ليس موجَّها إليها، كقبلة أهل المدينة.
ولما كان الصحابة رضي الله عنهم أسرع الناس قبولا لأمر النبي صلى الله عليه وسلم ، الذي هو الحق، ذكر أبو أيوب رضي الله عنه أنهم لما قدموا الشام إثر الفتح وجدوا فيها المراحيض المعدة لقضاء الحاجة، قد بنيت متجهة إلى الكعبة، فكانوا ينحرفون عن القبلة، ويستغفرون تورعا واحتياطا.
606;بی ﷺ قضائے حاجت کے کچھ آداب سکھلا رہے ہیں کہ لوگ قضائے حاجت کرتے ہوئے قبلے کی طرف جو کہ کعبہ مکرمہ ہے نہ تو منہ کریں اور نہ ہی اس کی طرف پشت کریں کیونکہ یہ نماز کا قبلہ ہے اور مکرم و مقدس جگہ ہے اوران کے لئے ضروری ہے کہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف مڑجائیں جب کہ مشرق و مغرب کعبہ کی سمت میں نہ ہوں جیسا کہ اہل مدینہ کا قبلہ ہے۔ چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے حکم کی فورا تعمیل کرتے تھے جو کہ حق ہے اس لئے ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لوگ شام کی فتح کے بعد وہاں آئے تو انہیں وہاں قضائے حاجت کے لئے تیار کئے گئے بیت الخلاء ملے جو اس طرح تیار کئے گئے تھے کہ ان کا رخ کعبہ کی طرف تھا۔ چنانچہ وہ قبلہ کی سمت سے مڑ جاتے اور ازراہ تقویٰ واحتیاط استغفار کرتے رہتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3078

 
 
Hadith   154   الحديث
الأهمية: لا يمسكن أحدكم ذكره بيمينه وهو يبول ولا يتمسح من الخلاء بيمينه ولا يتنفس في الإناء


Tema:

تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضوِ مخصوص کو نہ پکڑے، اور نہ قضائے حاجت کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور نہ (پانی پیتے وقت) برتن میں سانس لے۔

عن أبي قتادة الأنصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُم ذَكَره بَيمِينِه وهو يبول، ولا يَتَمَسَّحْ من الخلاء بيمينه، ولا يَتَنَفَّس في الإناء".

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضوِ مخصوص کو نہ پکڑے، اور نہ قضائے حاجت کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور نہ (پانی پیتے وقت) برتن میں سانس لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- المسلمَ أن لا يمس ذكره حال بوله، ولا يزيل النجاسة من القبل أو الدبر بيمينه، وينهى كذلك عن التنفس في الإناء الذي يشرب منه لما في ذلك من الأضرار الكثيرة.
606;بی ﷺ حکم دے رہے ہیں کہ کوئی مسلمان اپنے عضوِ مخصوص کو پیشاب کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ ہی نجاست کو آگے اور پیچھے کی شرم گاہ سے اپنے دائیں ہاتھ سے دور کرے۔ اسی طرح آپ ﷺ اس برتن میں سانس لینے سے منع فرما رہے ہیں جس سے انسان پانی پی رہا ہو کیونکہ اس میں بہت سے نقصانات ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3079

 
 
Hadith   155   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الخذف، وقال: إنه لا يقتل الصيد، ولا ينكأ العدو، وإنه يفقأ العين، ويكسر السن


Tema:

رسول الله ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا کہ یہ نہ تو شکار کو مار سکتی ہے، نہ دشمن کو زخمی کرسکتی ہے؛ بلکہ یہ آنکھ کو پھوڑ اور دانت کو توڑ سکتی ہے۔

عن عبد الله بن مغفل -رضي الله عنهما- قال: نَهَى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الخَذْف، وقال: «إِنَّه لاَ يَقتُلُ الصَّيدَ، ولاَ يَنْكَأُ العَدُوَّ، وإِنَّهُ يَفْقَأُ العَيْنَ، ويَكسِرُ السِّنَ».
وفي رواية: أن قَرِيباً لابن مغفل خَذَفَ فنَهَاه، وقال: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخَذْفِ، وقال: «إِنَّهَا لاَ تَصِيدُ صَيداً» ثم عاد، فقال: أُحَدِّثُك أنَّ رسول الله نهى عنه، ثم عُدتَ تَخذِفُ! لا أُكَلِّمُكَ أَبَداً.

عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا کہ (اس طرح کنکری پھینک کر) نہ تو شکار کو مارا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جاسکتا ہے؛ البتہ اس کے ذریعے صرف آنکھ کو پھوڑا جاسکتا ہے اور دانت کو توڑا جاسکتا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے کسی قریبی رشتے دار نے انگلی میں پھنسا کر کنکری پھینکی، تو انھوں نے اسے منع کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ”یہ شکار کو نہیں مار سکتی“۔ ان کے اس رشتے دار نے دوبارہ یہ حرکت کی تو عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) کہا: میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر کنکری مارنے لگ گئے ہو؟ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا!

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر عبد الله بن مغفلٍ ـرضي الله عنه- بأن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الحذف، وقال: (إنه لا يقتل صيداً) وفي لفظ: (لا يصيد صيداً) (ولا ينكأ عدواً، وإنما يفقأ العين ويكسر).
والحذف: قال العلماء: معناه أن يضع الإنسان حصاة بين السبابة اليمنى والسبابة اليسرى أو بين السبابة والإبهام، فيضع على الإبهام حصاة يدفعها بالسبابة، أو يضع على السبابة ويدفعها بالإبهام.
وقد نهى عنه النبي -صلى الله عليه وسلم- وعلَّل ذلك بأنَّه يفقأ العين ويكسر السن إذا أصابه، (ولا يصيد الصيد)؛ لأنه ليس له نفوذ (ولا ينكأ العدو) يعني لا يدفع العدو؛ لأن العدو إنما ينكأ بالسهام لا بهذه الحصاة الصغيرة.
ثم إن قريباً له خذف، فنهاه عن الخذف وأخبره أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخذف، ثم إنه رآه مرة ثانية يخذف، فقال له: (أخبرتك أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الخذف، فجعلت تخذف!! لا أكلمك أبداً) فهجره؛ لأنه خالف نهي النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;بد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے انگلیوں میں پھنسا کر کنکری پھینکنے سے منع کیا اور فرمایا: ”یہ نہ تو شکار کو مارتی ہے“۔ اورایک روایت کے الفاظ ہیں:”نہ یہ شکار کا شکار کرتی ہے اور نہ دشمن کو زخمی کرتی ہے،البتہ اس کے ذریعے صرف آنکھ کو پھوڑا جاسکتا ہے اور دانت کو توڑا جاسکتا ہے“۔
”الحذف“: علما کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کنکری کو اپنی دائیں اور بائیں شہادت کی انگلیوں کے درمیان یا شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان رکھے، پھر انگوٹھے پر کنکری رکھ کر شہادت کی انگلی سے اسے مارے یا شہادت کی انگلی پر رکھ کر انگوٹھے کے ذریعے مارے۔
نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور اس کی علت یہ بیان کی کہ کنکری اگر لگ جائے تو یہ کسی کی آنکھ پھوڑنے اور دانت توڑنے کا سبب بنتی ہے۔ ”اس سے شکار نہیں ہوتا“ کیونکہ یہ جسم کے اندر نہیں گھستی۔ ”اور نہ ہی یہ دشمن کو روکتی ہے“ کیونکہ دشمن کو تیروں سے مجروح کیا جاتا ہے، ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے نہیں۔
عبد اللہ بن مغفل کا ایک رشتے دار اس طرح کنکریاں پھینکتے ہو   ‎ دیکھا گیا تو انھوں نے اسے اس سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ نبی ﷺ نے کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن جب انھوں نے دوبارہ کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا: ”میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، اس کے باوجود تم کنکری مارنے رہے ہو؟ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا“ چنانچہ انھوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا؛ کیونکہ اس نے نبی ﷺ کے طرف سے ہونے والی ممانعت کی خلاف ورزی کی تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3080

 
 
Hadith   156   الحديث
الأهمية: نهى -صلى الله عليه وسلم- عن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس, وبعد العصر حتى تغرب


Tema:

نبی ﷺنے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو جانے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنه- قال: «شَهِد عِندِي رِجَال مَرْضِيُون - وأَرْضَاهُم عِندِي عُمر- أنَّ النَبِي صلى الله عليه وسلم نَهَى عن الصَّلاة بَعد الصُّبح حتَّى تَطلُعَ الشَّمسُ، وبعد العصر حتَّى تَغرُب».
وعن أبي سعيد -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «لا صَلاَة بعد الصُّبح حتَّى تَرتَفِعَ الشَّمسُ، ولا صَلاَة بعد العَصرِ حتَّى تَغِيبَ الشَّمس».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے سامنےچند معتبر افراد نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی ﷺنے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو جانے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نماز فجر کے بعد جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے اور عصر کے بعد جب تک سورج غروب نہ ہو جائے، کوئی نماز پڑھنا جائز نہیں"۔

نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذين الحديثين عن الصلاة بعد صلاة الصبح حتى تشرق الشمس وترتفع عن خط الأفق في نظر العين بقدر طول رمح مركوز في الأفق، وهذا يقدر ببِضْع دقائق، تفاوت العلماء في تحديدها، من 5 إلى 15 دقيقة.
ونهى أيضا عن الصلاة بعد صلاة العصر حتى تغيب الشمس، أي قبل أذان المغرب بدقائق؛ لأن في الصلاة في هذين الوقتين تشبهًا بالمشركين الذين يعبدونها عند طلوعها وغروبها، وقد نهينا عن مشابهتهم في عباداتهم؛ لأن من تشبه بقوم فهو منهم.

575;ن دونوں احادیث میں نبی ﷺ نے نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور دیکھنے میں یوں لگے کہ وہ افق پر گاڑے ہوئے ایک نیزے کی لمبائی کے بقدر اس سے بلند ہو چکا ہے۔ اس وقت کی مقدار چند منٹ ہے، جن کے تعین میں علما کے مابین 5 سے 15 منٹ وقت تک کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔ یعنی مغرب کی اذان سے کچھ منٹ پہلے تک۔ کیوں کہ ان دونوں اوقات میں نماز پڑھنے سے مشرکین کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے، جو طلوع و غروب کے اوقات میں سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ مشرکین کی عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے؛ کیوں کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں سے گردانا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3081

 
 
Hadith   157   الحديث
الأهمية: كان ابن مسعود -رضي الله عنه- يذكرنا في كل خميس


Tema:

عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن ہمیں وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔

عن شقيق بن سلمة -رحمه الله- قال: كان ابن مسعود -رضي الله عنه- يُذَكِّرُنا في كل خميس، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، لَوَدِدْتُ أنك ذَكَّرْتَنا كل يوم، فقال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أُمِلَّكُم، وإني أَتَخَوَّلُكُم بالمَوْعِظَةِ، كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَخَوَّلُنَا بها مَخَافَةَ السَّآمَةِ علينا.

شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو ایک مرتبہ وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔ تو ان سے ایک شخص نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! میری بڑی خواہش ہے کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ فرمایا کریں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے روزانہ وعظ کرنے سے یہ چیز روکتی ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا پسند نہیں کرتا، اور میں وعظ میں تمہارا خیال رکھتا ہوں، جس طرح رسول اکرم ﷺ ہمارا خیال رکھتے تھےکہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر شقيق بن سلمة -رحمه الله- أن ابن مسعود -رضي الله عنه- كان يعظهم كل خميس، فقال له رجل: إننا لنحب أن تعظنا كل يوم، فقال: إن الذي يمنعني من ذلك كراهية أن أوقعكم في الملل والضجر، وإني أتعهدكم بالموعظة وأتفقد حال احتياجكم إليها كما كان يفعل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- معنا، خشية أن يوقعنا في الملالة، إذ لا تأثير للموعظة عند الملالة.
588;قیق بن سلمہ رحمہ اللہ نے خبر دی کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ کیا کریں۔ انھوں نے جواب دیا: ایسا کرنے سے مجھے ایک ہی بات روکتی ہے کہ میں تمھیں اکتاہٹ اور بیزاری میں مبتلا کردوں۔ میں موقع و محل دیکھ کر تمھیں نصیحت کرتا ہوں جیسا کہ نبی ﷺ اس خیال سے کہ ہم اکتا نہ جائیں نصیحت کرنے میں وقت اور موقع کا لحاظ فرماتے تھے, کیوں کہ اکتاہٹ کے وقت وعظ کا کوئی فائدہ نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3082

 
 
Hadith   158   الحديث
الأهمية: ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ويعرف شرف كبيرنا


Tema:

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ليس منا من لم يَرحمْ صغيرنا، ويَعرفْ شَرَفَ كبيرنا».

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ليس من المسلمين المتمسكين بالسنة الملازمين لها من لا يرحم الصغير من المسلمين فيشفق عليه ويحسن إليه ويلاعبه، ومن لا يعرف للكبير ما يستحقه من التعظيم والإجلال، ولفظة (ليس منا) من باب الوعيد والتحذير، ولا يعني خروج الشخص من الإسلام.
608;ہ شخص پابندِ سنت مسلمانوں میں سے نہیں جو مسلمانوں میں سے چھوٹے پر رحم اور شفقت نہیں کرتا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک اور کھیل کود نہیں کرتا، اور جو یہ نہیں جانتا کہ بڑا شخص کس تعظیم اور عزت کا مستحق ہے۔
”ہم میں سے نہیں ہے“' کا لفظ وعید اور تنبیہ کے باب سے ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3083

 
 
Hadith   159   الحديث
الأهمية: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خُمًّا بين مكة والمدينة، فحمد الله، وأثنى عليه، ووعظ وذكر


Tema:

رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چشمے کے پاس، جسے خُم کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہمیں خطبہ ارشاد کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت کیا۔

عن يزيد بن حيان قال: انطلقت أنا وحُصين بن سَبْرَة وعمرو بن مسلم إلى زيد بن أرقم -رضي الله عنه- فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيتَ يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيتَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وسمعتَ حديثه، وغزوتَ معه، وصليتَ خلفه: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: يا ابن أخي، والله لقد كَبِرَتْ سني، وقَدُمَ عهدي، ونسيتُ بعض الذي كنت أَعِي من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا فلا تُكَلِّفُونِيهِ. ثم قال: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا بماء يُدعى خُمًّا بين مكة والمدينة، فحمد الله، وأثنى عليه، ووعظ وذكَّر، ثم قال: «أما بعد، ألا أيها الناس، فإنما أنا بشر يُوشِكُ أن يأتي رسول ربي فأُجِيبَ، وأنا تاركٌ فيكم ثَقَلَيْنِ: أولهما كتاب الله، فيه الهدى والنور، فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به»، فحَثَّ على كتاب الله، ورغَّبَ فيه، ثم قال: «وأهل بيتي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ في أهل بيتي» فقال له حصين: ومن أهل بيته يا زيد، أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حُرِمَ الصدقةَ بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس. قال: كل هؤلاء حُرِمَ الصدقةَ؟ قال: نعم.
وفي رواية: «ألا وإني تاركٌ فيكم ثَقَلَيْنِ: أحدهما كتاب الله وهو حبل الله، من اتبعه كان على الهدى، ومن تركه كان على ضلالة».

یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں، حُصین بن سَبرہ اور عمرو بن مسلم، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے، تو حُصین نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! آپ کو بڑی سعادتیں حاصل ہوئی ہیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، آپ ﷺ سے حدیث سنی ہے، آپ ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا ہے اور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اے زید! آپ نے بہت بڑی بھلائی پائی ہے، اے زید! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث سنی ہیں، وہ ہم سے بیان کریں۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم میں بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوں اور رسول ﷺ کی معیت کو ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد رکھی تھیں، بھول گیا ہوں۔ اس وجہ سے جو میں تم سے بیان کروں، اسے قبول کرلو اور جو میں تم سے بیان نہ کر سکوں، مجھے اس کا مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چشمے کے پاس، جسے خُم کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہمیں خطبہ ارشاد کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا: ”بعد حمد و صلوٰۃ! آگاہ رہو اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے اور میں اسے قبول کرلوں۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی اس کتاب کو پکڑے رہو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو“ چنانچہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی خوب رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: ”(دوسری چیز) میرے اہلِ بیت ہیں۔ میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں“ حُصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے ہی ہیں، اور وہ سب لوگ اہل بیت میں سے ہیں، جن پر آپ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ حُصین نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ آپ نے بتایا: علی کا خاندان، عقیل کا خاندان، جعفر کا خاندان اور عباس کا خاندان۔ پوچھا: ان سب پر صدقہ وغیرہ حرام ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں!۔ اور ایک روایت میں ہے: ”آگاہ رہو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے اور وہ اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا، وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہی پر رہے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن يزيد بن حيان قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة وعمرو بن مسلم إلى زيد بن أرقم -رضي الله عنه-، فلما جلسنا عنده قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وسمعت حديثه من فِيه، وجاهدت معه في سبيل الله، وصليت خلفه؛ لقد أوتيت خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد بما سمعت من رسول الله شِفاهًا، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أحفظ من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فما حدثتكموه فاقبلوه، وما لا فلا تكلفوني تحديثكم إياه، ثم قال محدثًا لنا: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا فينا خطيبًا عند واد فيه ماء اسمه خُم بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، وذكرهم ما قد غفلوا عنه بمزاولة الأهل والعيال من التوجه للخدمة وأداء حق العبودية، ثم قال: أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يقرب إتيان رسول ربي يعني ملك الموت لقبض روحي فأجيبه، وأنا تارك فيكم شيئين عظيمين، أولهما القرآن فيه الهدى والنور، فخذوا به واطلبوا من أنفسكم الإمساك به.
فحرض على الأخذ بالقرآن والتمسك بحبله، ورغب فيه، ثم قال: وأهل بيتي، آمركم بطاعة الله فيهم وبالقيام بحقهم قالها مرتين، فقال حصين ومن أهل بيته يا زيد؟ أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته الذين يساكنونه ويعولهم وأمرنا باحترامهم وإكرامهم، ولكن أهل بيته المرادون عند الإطلاق من حرم عليهم الصدقة الواجبة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل عليّ وآل عقيل وآل جعفر أولاد أبي طالب، وآل عباس، كل هؤلاء منعوا من أخذ الصدقة الواجبة من زكاة ونذر وكفارة.
وفي رواية: ألا وإني تارك فيكم شيئين عظيمين، أحدهما كتاب الله، وهو عهده، والسبب الموصل إلى رضاه ورحمته، ونوره الذي يهدى به، من اتبعه مؤتمرًا بأوامره منتهيًا عن نواهيه كان على الهدى الذي هو ضد الضلالة، ومن أعرض عن أمره ونهيه كان على الضلالة.
740;زید بن حیان کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمرو بن مسلم، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی طرف چلے، جب ہم ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے تو حصین نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! آپ کو بڑی سعادتیں حاصل ہوئی ہیں؛ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے۔ آپ ﷺ سے حدیث سنی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یقینا آپ کو بہت بڑی بھلائی دی گئی۔ اے زید! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث زبانى سنی ہیں، وہ ہمیں بیان کریں۔ زید نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم! میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اللہ کے رسول کی صحبت میں رہے ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کر رکھی تھیں، بھول گیا ہوں۔ اس لیے میں تم سے جو کچھ بیان کروں، اسے قبول کرلو اور جو تم سے بیان نہ کر سکوں، مجھے اس کا مکلف نہ ٹھہراؤ۔ پھر حدیث بیان کرتے ہوئے ان سے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان، ایک وادی کے پاس جس میں پانی تھا اور اس کا نام خُم تھا، ہمارے لیے خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور خدمت پر توجہ نیز حق عبودیت کی ادائیگی وغیرہ باتوں کا ذکر فرمایا، جن سے لوگ اپنے اہل و عیال میں مشغولیت کی وجہ سےغافل ہو گئے تھے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: بعد حمد و صلوٰۃ، آگاہ رہو اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے۔ یعنی ملک الموت میری روح قبض کرنے کے لیے آئے اور میں اسے قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی قرآن ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اس کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو۔
آپ ﷺ نے قرآن کو پکڑے رہنے اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی خوب رغبت دلائی۔ پھر فرمایا:اور میرے اہلِ بیت، میں تم لوگوں کو ان کے بارے میں اللہ کی فرماں برداری اور ان کے حق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے یہ بات دو بار فرمائي۔ حُصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ ﷺ کی بیویاں اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ﷺ کی بیویاں جنھوں نے آپ کے ساتھ سکونت اختیار کی اور جن کی کفالت کی ذمے داری آپ نے اٹھائی، آپ کے اہل بیت میں سے ہیں، ہمیں ان کے احترام و اکرام کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن جب اہل بیت مطلقا بولا جائے، تو وہ سارے لوگ شامل ہوتے ہیں، جن پر آپ ﷺ کے بعد وجوبی صدقہ حرام ہے۔ حُصین نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے بتایا: علی کا خاندان، عقیل کا خاندان، جعفر کا خاندان، یہ سب ابو طالب کی اولاد ہیں اور عباس کا خاندان۔ یہ سب لوگ زکوٰۃ، نذر اور کفارہ وغیرہ وجوبی صدقہ لینے سے منع کیے گیے ہیں۔
اور ایک روایت میں ہے:آ گاہ رہو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے۔ وہ اس کا عہد اور اس کی رضا و رحمت تک پہنچنے کا ذریعہ اور اس کا وہ نور ہے جس سے ہدایت حاصل کی جائے۔ چنانچہ جو اس کے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے رک کر اس کی اتباع کرے گا، وہ اس ہدایت پر رہے گا، جو گمراہی کی ضد ہے اور جو اس کے حکم و نہی سے اعراض کرے گا، وہ گمراہی پر رہے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3084

 
 
Hadith   160   الحديث
الأهمية: لَتُسَوُّنَّ صفوفَكم أو ليخالِفَنَّ اللهُ بين وُجُوهِكم


Tema:

اپنی صفوں کو سیدھا کر لو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین تفرقہ ڈال دے گا۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُم أو لَيُخَالِفَنَّ الله بين وُجُوهِكُم».
وفي رواية: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُسَوِّي صُفُوفَنَا، حتى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بها القِدَاح، حتَّى إِذَا رأى أَنْ قد عَقَلْنَا عَنهُ، ثم خَرَج يومًا فَقَام، حتَّى إِذَا كاد أن يُكَبِّرُ، فَرَأَى رَجُلاً بَادِيًا صَدرُهُ، فقال: عِبَادَ الله، لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُم أو لَيُخَالِفَنَّ الله بين وُجُوهِكُم».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی صفوں کو سیدھا کر لو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین تفرقہ ڈال دے گا“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو سیدھا فرماتے، اتنا سیدھا کہ یوں لگتا کہ آپ ﷺ ان سے تیر سیدھے کریں گے۔ یہاں تک کہ جب آپ ﷺ كو محسوس ہوا کہ ہم آپ کے فرمان کو سمجھ چکے ہیں۔ پھر ایک دن آپ ﷺ باہر آئے اور (نماز كے لیے) کھڑے ہو گئے۔ آپ ﷺ تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا، جو اپنا سینہ باہر نکالے ہوئے تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھا کرو؛ ورنہ اللہ تمھارے مابین اختلاف ڈال دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكد -صلى الله عليه وسلم- أَّنَّه إن لم تعدل الصفوف وتسوى فليخالفنَّ الله بين وجوه الذين اعوجت صفوفهم فلم يعدلوها، وذلك بأنه حينما يتقدم بعضهم على بعض في الصف، ويتركون الفرجات بينهم.
وكان -صلى الله عليه وسلم- يعلم أصحابه بالقول ويهذبهم بالفعل، فظل يقيمهم بيده، حتى ظن -صلى الله عليه وسلم- أنهم قد عرفوا وفهموا، وفي إحدى الصلوات رأى واحدا من الصحابة قد بدا صدره في الصف من بين أصحابه، فغضب -صلى الله عليه وسلم- وقال "لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم".
606;بی ﷺ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگرصفیں برابر اور سیدھی نہ کی گئیں، تواللہ تعالیٰ ان لوگوں کے مابین اختلاف پیدا فرما دیں گے، جن کی صفیں ٹیڑھی ہیں اور جنھوں نے ان کو سیدھا نہ کیا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے، جب صف میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنے مابین خالی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ نبی ﷺ قول کے ذریعے سے اپنے صحابہ کو تعلیم دیتے اور فعل کے ذریعے سے ان کی تہذیب فرماتے۔ چنانچہ آپ ﷺ انھیں اپنے ہاتھ سے درست فرماتے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اس بات کو جان چکے ہیں اورسجمھ گئے ہیں۔ ایک نماز میں آپ ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا کہ صف میں ان کا سینہ اپنے ساتھیوں کے مابین کچھ ابھرا ہوا ہے اور باہر آ رہا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ غصہ میں آ گئے اور فرمایا: ”اپنی صفوں کو سیدھا کر لو، ورنہ اللہ تمھارے مابین اختلاف ڈال دیں گے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3085

 
 
Hadith   161   الحديث
الأهمية: أما يخشى الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يحول الله رأسه رأس حمار, أو يجعل صورته صورة حمار؟


Tema:

وہ آدمی جو امام سے پہلے سر اٹھا لیتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے؟

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أما يخشى الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يُحَوِّلَ الله رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صُورة حمار؟».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص جو امام سے پہلے (رکوع و سجود میں) سر اٹھا لیتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إنَّما جعل الإمام في الصلاة ليُقتدى به ويؤتم به، بحيث تقع تنقلات المأموم بعد تنقلاته، وبهذا تحقق المتابعة، فإذا سابقه المأموم، فاتت المقاصد المطلوبة من الإمامة، لذا جاء هذا الوعيد الشديد على من يرفع رأسه قبل إمامه، بأن يجعل الله رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صورة حمار، بحيث يمسخ رأسه من أحسن صورة إلى أقبح صورة، جزاء لهذا العضو الذي حصل منه الرفع والإخلال بالصلاة.
606;ماز میں امام کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اقتداء اور اس کی پیروی کی جائے بایں طور کہ مقتدی کی نقل و حرکت اس کی نقل و حرکت کے بعد واقع ہو۔ اور اس سے امام کی پیروی حاصل ہوتی ہے۔پس اگر مقتدی اس سے پیش قدمی کر لے تو اس سے امامت کے مطلوبہ مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس شخص کے بارے میں یہ سخت وعید آئی ہے جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے، بایں طور کہ اس کے سر کو بہترین صورت سے بدترین صورت میں مسخ کر دے تا کہ یہ عضو جو پہلے اٹھا ہے اور جس نے نماز میں خلل ڈالا ہے اس کو اس کے کیے کی سزا مل سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3086

 
 
Hadith   162   الحديث
الأهمية: أنت مع من أحببت


Tema:

بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ أَعْرَابِيًا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: مَتَى السَّاعَة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» قال: حُبُّ الله ورَسُولِه، قال: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل الأعرابي (متى الساعة؟) ولو قال له الرسول -صلى الله عليه وسلم-: ما أعلمها، لما شفى نفس الأعرابي، ولكن حكمة الرسول -صلى الله عليه وسلم- مالت عن أصل السؤال إلى إجابته بما يجب عليه دون ما ليس له، وهو ما يسمى بأسلوب الحكيم، فقال الرسول -صلى الله عليه وسلم-: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» وهو سؤال تنبيه، وتذكير بما يجب عليه التفكير فيه، والانشغال به، فقال الأعرابي: "حُبُّ الله ورَسُولِه"، فجاءت إجابة الأعرابي بعفوية تفيض بالمودة والمحبة، والإيمان، والانخلاع عن الاتكال على عمله والرواية الثانية تؤكد هذه المعاني في قول الأعرابي: " مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَومٍ، ولاَ صَلاَةٍ، وَلاَ صَدَقَةٍ، ولَكِنِّي أُحِبَّ الله ورَسُولَه"؛ فلذا جاء جواب الرسول -صلى الله عليه وسلم-: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ».   ففي الحديث الحث على قوة محبة الرسل، واتباعهم بحسب مراتبهم، والتحذير من محبة ضدهم، فإن المحبة دليل على قوة اتصال المحب بمن يحبه، ومناسبته لأخلاقه، واقتدائه به.
575;یک اعرابی (دیہاتی) نے سوال کیا کہ: ” قیامت کب آئے گی؟“
اس کے جواب میں اگر آپ ﷺ یہ فرما دیتے کہ: ”میں نہیں جانتا“ تو اعرابی کا دل مطمئن نہ ہوتا۔ نبی ﷺ نے بڑے حکیمانہ انداز میں اصل سوال سے ہٹتے ہوئے ایسا جواب دیا جس کو اپنانا اس پر واجب تھا اور اس بات کو چھوڑ دیا جس کا جاننا اس پر واجب نہیں تھا۔ یہی وہ انداز ہے جسے (علم بلاغت کی اصطلاح میں) ”اسلوب حکیم“ کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟“ یہ سوال ایسے کام کی طرف متنبہ کرنے اور اس کی یاد دہانی کے لئے تھا جس میں غور و فکر کرنا اور جس میں مشغول رہنا اس پر واجب تھا۔
اعرابی نے جواب دیا کہ: ”اللہ اور اس کے رسول کی محبت“۔ اعرابی نے بے ساختہ یہ جواب دیا جو مودت و محبت اور ایمان کے جذبات سے لبریز اور صرف اپنے عمل پر بھروسے سے بالکل تہی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ان معانی کی مزید تاکید ہوتی ہے جس میں اعرابی کہتا ہے کہ: ”میں نے اس (قیامت) کے لئے نہ تو زیادہ (نفلی) روزے تیار کیے ہیں، نہ زیادہ (نفلی) نمازیں اور نہ زیادہ صدقہ۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں“۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ” بلا شبہ تم انہیں کے ساتھ ہو گے جن سے تم کو محبت ہے“۔
مذکورہ حدیث میں رسولوں اور ان کے متبعین سے ان کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے بہت زیادہ محبت رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز ان کے مخالفین سے محبت رکھنے سے ڈرایا گیا ہے۔ محبت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ محبت کرنے والا محبوب سے کس حد تک تعلق رکھتا ہے، اس کے اخلاق کس حد تک ان سے مطابقت رکھتے ہیں اور وہ کہاں تک ان کی پیروی کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3087

 
 
Hadith   163   الحديث
الأهمية: لا صلاة بحضرة طعام، ولا وهو يدافعه الأخبثان


Tema:

کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی جب انسان کو پیشاب پاخانہ کی سخت حاجت ہو۔

عن عائِشَة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «لا صلاة بِحَضرَة طَعَام، وَلا وهو يُدَافِعُه الأَخبَثَان».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی جب انسان کو پیشاب پاخانہ کی سخت حاجت ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يؤكِّد هذا الحديث رغبة الشارع في حضور قلب المكلَّف في الصلاة بين يدي ربِّه، ولا يكون ذلك إلا بقطع الشواغل؛ التي يسبب وجودها عدم الطمأنينة والخشوع؛ لهذا: فإن الشارع ينهي عن الصلاة بحضور الطعام الذي تتوق نفس المصلي إليه، ويتعلق قلبه به، وكذلك ينهى عن الصلاة مع مدافعة الأخبثين، -اللذين هما البول والغائط-؛ لانشغال خاطره بمدافعة الأذى.
575;س حدیث میں اس بات کی تاکید ہے کہ شارع کی خواہش ہے کہ بندہ نماز میں اپنے رب کے سامنے پورے حضورِ قلب کے ساتھ کھڑا ہو۔ ایسا صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب توجہ ہٹانے والی ان تمام اشیاء سے ناطہ توڑ لیا جائے جن کی موجودگی اطمینان اور خشوع کے ختم ہونے کا سبب ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے کھانے کی موجودگی میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا جس کی طرف نمازی کا دل کھنچا جاتا ہے اور اسی میں اُس کا دل لگا رہتا ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ اس وقت بھی نماز پڑھنے سے منع فرما رہے ہیں جب انسان کو پیشاب اور پاخانے کی سخت حاجت ہو رہی ہو کیونکہ اس پریشر کی وجہ سے اس کی توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3088

 
 
Hadith   164   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى بهم الظهر فقام في الركعتين الأُولَيَيْنِ، ولم يَجْلِسْ فقام الناس معه، حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كَبَّر وهو جالس فسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ


Tema:

نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہو گئے، اور مقتدی لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گیے ، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ ﷺ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے ”اللہ أكبر‏“ کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔

عن عبد الله بن بُحَيْنَةَ -رضي الله عنه- وكان من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى بهم الظهر فقام في الركعتين الأُولَيَيْنِ، ولم يَجْلِسْ، فقام الناس معه، حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه: كَبَّرَ وهو جالس فسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ».

عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ہیں، نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے انھیں ظہر کی نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں پر بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے۔ چنانچہ سارے لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب نماز ختم ہونے لگی اور لوگ آپ ﷺ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو آپ ﷺ نے ”اللہ أكبر‏“ کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے۔ پھر سلام پھیرا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بأصحابه صلاة الظهر، فلما صلى الركعتين الأُولَيَيْن قام بعدهما، ولم يجلس للتشهد الأول، فتابعه المأمومون على ذلك.
حتى إذا صلى الركعتين الأُخريين، وجلس للتشهد الأخير، وفرغ منه، وانتظر الناس تسليمه، كبَّر وهو في جلوسه، فسجد بهم سجدتين قبل أن يسلم مثل سجود صُلْبِ الصلاة، وهي سجدتي السهو، ثم سلم، وكان ذلك السجود جبراً للتشهد المتروك.
606;بی ﷺ نے صحابۂ کرام کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ جب پہلی دو رکعتیں پڑھ چکے، تو ان کے بعد تشہد اوّل کے لیے بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے۔ مقتدیوں نے بھی آپ کی اقتدا کی۔ یہاں تک کہ جب آخری دو رکعتیں پڑھ کر آخری تشہد کے لیے بیٹھ کر دعائے تشہد سے فارغ ہو گئے اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو بیٹھنے ہی کی حالت میں آپ نے ‘‘اللہ اکبر’’ کہا، پھر لوگوں کے ساتھ سلام پھیرنے سے پہلے نماز کے سجدوں کی طرح دو سجدے کیے، پھر سلام پھیر دیا۔ یہ دونوں سجدے (در اصل) چھوٹے ہوئے تشہد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3089

 
 
Hadith   165   الحديث
الأهمية: أقبلت راكبا على حِمار أَتَانٍ، وأنا يومئذ قد نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلِّي بالناس بِمِنًى إلى غير جِدار


Tema:

میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔

عن عبد الله بن عَبَّاس -رضي الله عنهما- قال: أقبلْتُ راكبا على حِمار أَتَانٍ، وأنا يومئذ قد نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلِّي بالناس بِمِنًى إلى غير جِدار، مررتُ بين يدي بعض الصفّ، فنزلت، فأرسلتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، ودخلتُ في الصفّ، فلم يُنْكِرْ ذلك عليَّ أحد.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بلوغت کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔ میں صف کے سامنے سے گزرا اور پھر اتر کر گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑدیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھے اس پر نہیں ٹوکا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أنه لما كان مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في مِنى في حجة الوداع، أقبل راكباً على أَتَان -حمار أنثى- فمرّ على بعض الصف، والنبي -صلى الله عليه وسلم- يصلى بأصحابه ليس بين يديه جِدار، فنزل عن الأَتَان وتركها ترعى، ودخل هو في الصف.
وأخبر -رضى الله عنه- أنه في ذلك الوقت قد قارب البلوغ، يعنى في السن التي ينكر عليه فيها لو كان قد أتى مُنكراً يفسد على المصلين صلاتهم، ومع هذا فلم ينكر عليه أحد، لا النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولا أحد من أصحابه.
593;بد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب وہ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو وہ ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے اور صف کے سامنے سے گزرے۔ نبی ﷺ اس وقت اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی دیوار نہیں تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ گدھی سے نیچے اترے اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گئے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت بلوغت کے قریب تھے یعنی وہ ایسی عمر میں تھے کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کے مرتکب ہوئے ہوتے جس سے نمازیوں کی نماز خراب ہو جاتی تو ان پر نکیر کی جاتی۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی نکیر نہیں کی، نہ نبی ﷺ نے اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3090

 
 
Hadith   166   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يرفع يديه حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إذا افْتَتَحَ الصلاة، وإذا كبّر للرُّكُوعِ، وإذا رفع رأسه من الركوع رَفَعَهُمَا كذلك


Tema:

نبیﷺ جب نماز شروع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اورجب رکوع سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسا ہی کرتے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يرفع يديه حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إذا افْتَتَحَ الصلاة، وإذا كبّر للرُّكُوعِ ، وإذا رفع رأسه من الركوع رَفَعَهُمَا كذلك، وقال: سَمِعَ الله لمن حَمِدَهُ رَبَّنَا ولك الحمد، وكان لا يفعل ذلك في السُّجُودِ.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب نماز شروع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسا ہی کرتے اور ”سَمِعَ الله لمن حَمِدَهُ رَبَّنَا ولَكَ الحَمْدُ“ کہتے۔ آپ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة عبادة عظيمة، فكل عضو في البدن له فيها عبادة خاصة.
ومن ذلك، اليدان فلهما وظائف، منها رفعهما عند تكبيرة الإحرام، والرفع زينة للصلاة وتعظيم لله -تعالى-، ويكون رفع اليدين إلى مقابل منكبيه، ورفعهما أيضاً للركوع في جميع الركعات، وإذا رفع رأسه من الركوع، في كل ركعة، وفي هذا الحديث، التصريح من الراوي: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لا يفعل ذلك في السجود حيث إنه هوي ونزول.
606;ماز ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ چنانچہ اس کے اندر جسم میں موجود ہر عضو کی ایک خاص عبادت ہے۔ ان اعضا میں سے دو ہاتھ بھی ہیں، جن کے اپنے وظائف ہیں۔ انہی میں سے ایک وظیفہ تکبیر تحریمہ کے وقت انھاںاٹھانا ہے۔ دراصل ہاتھوں کو اٹھانا نماز کی زینت ہے اور اس سے اللہ تعالی کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے۔ ہاتھوں کو دونوں کندھوں کے برابر اٹھایا جاتا ہے۔ اور تمام رکعتوں میں ہر رکعت کے اندر رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا جاتا ہے۔ اس حدیث میں راوی کی طرف سے تصریح ہے کہ نبی ﷺ سجدے میں ایسا نہیں کرتے تھے؛ کیوں کہ یہ جھکنے اور نیچے جانے کا مظہر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3095

 
 
Hadith   167   الحديث
الأهمية: عَلَّمَنِي رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- التَّشَهُّد، كفِّي بين كفيه، كما يُعَلِّمُنِي السورة من القرآن


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا اور اس طرح سکھایا جس طرح آپ ﷺ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن مَسْعُود -رضي الله عنه- قال: عَلَّمَنِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- التَّشَهُّد، كَفِّي بين كفيه، كما يُعَلِّمُنِي السورة من القرآن: التَّحِيَّاتُ للَّه, وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله».
وفي لفظ: «إذا قعد أحدكم في الصلاة فليقل: التحيات لله...» وذكره، وفيه: «فإنكم إذا فعلتم ذلك فقد سَلَّمْتُمْ على كل عبد صالح في السماء والأرض ...» وفيه: « ... فَلْيَتَخَيَّرْ من المسألة ما شاء».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا اور اس طرح سکھایا جس طرح آپ ﷺ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے، ”التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ“۔
ترجمہ: ”تمام بزرگیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، تمام دعائیں اور صلاتیں اور تمام پاکیزہ چیزیں بھی۔ اے نبی! آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔
ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھ جائے تو یوں کہے: التحیات للہ ...الخ“۔
اسی حدیث میں ہے کہ تمہارے ایسا کرنے پر زمین و آسمان میں موجود ہر نیک بندے پر تمہاری طرف سے سلام ہوجائے گا۔ اور اس میں مزید یہ ہے کہ ”...پھر نمازی جو دعا مانگنا چاہے مانگے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- علمه التَّشَهُّد، الذي يقال في جلوس الصلاة الأول والأخير في الصلاة الرباعية، والثلاثية، وفي الجلوس الأخير في الصلاة الثنائية، وأن النبي -صلى الله عليه وسلم- اعتنى بتعليمه التشهد، فجعل يده في يده.
فقد ابتدأت بتعظيم الله -تعالى-، التعظيم المطلق، وأنه المستحق للصلوات وسائر العبادات، والطيبات من الأقوال والأعمال والأوصاف.
وبعد أن أثنى على الله -تعالى- ثنّى بالدعاء للنبي -صلى الله عليه وسلم- بالسلامة من النقائص والآَفات، وسأل الله له الرحمة والخير، والزيادة الكاملة من ذلك، ثم دعا لنفسه والحاضرين من الآدميين والملائكة.
ثم عم بدعائه عباد الله الصالحين كلهم، من الإنس، والجن، والملائكة أهل السماء والأرض، من السابقين واللاحقين، فهذا من جوامع كلمه -صلى الله عليه وسلم-.
ثم شهد الشهادة الجازمة بأنه لا معبود بحق إلا الله، وأن محمداً -صلى الله عليه وسلم- له صفتان:
إحداهما: أنه متصف بصفة العبودية.
والثانية: صفة الرسالة.
وكلا الصفتين، صفة تكريم وتشريف، وتوسط بين الغُلُوِّ والجفاء.
وقد ورد للتشهد صفات متعددة، ولكن أفضلها وأشهرها تَّشَهُّد ابن مسعود الذي ساقه المصنف، ويجوز الإتيان بما صح من باقي الصفات.
593;بد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں تشہد سکھایا جو چار اور تین رکعت والی نماز کے پہلے اور دوسرے قعدے میں اور دو رکعت والی نماز کے آخری قعدے میں پڑھا جاتا ہے اور یہ کہ نبی ﷺ نے بہت اہتمام کے ساتھ انہیں تشہد سکھایا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا۔
تشہد کا آغاز اللہ تعالی کی عظمت کے بیان سے ہوتا ہے کہ جو مطلق تعظیم کا حامل ہے یعنی اس بات کے بیان کے ساتھ کہ وہ تمام قسم کی قولی و فعلی عبادات اور ہر قسم کے پاکیزہ اعمال و اوصاف کا مستحق ہے۔
اللہ تعالی کی ثناء کے بعد دوسرے نمبر پر نبی ﷺ کے لیے نقائص اور آفات سے سلامتی کی دعا ہے اور اس بات کا سوال ہے کہ اللہ تعالی انہیں رحمت اور خیر وبھلائی عطا کرے، اور یہ کہ اپنی طرف سے بھر پور طور پر بڑھا کر دے، پھر نمازی کی خود اپنے لیے اور وہاں موجود انسانوں اور فرشتوں کے لیے دعا ہے۔
پھر نمازی کی طرف سے زمین و آسمان کے تمام اگلے پچھلے جن و انس اور فرشتوں کی صورت میں اللہ کے بندوں کے لیے دعا ہے۔ یہ دعائے تشہد نبی ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے۔
پھر اس کے بعد قطعی شہادت ہے کہ معبودِ برحق اللہ کے سوا کوئی نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ کی دو صفات ہیں۔
اول: یہ کہ وہ بندگی کی صفت سے متصف ہیں۔
دوم: صفتِ رسالت، یہ دونوں صفات میں اکرام و اعزاز ہے اور حد سے زیادہ بلند کرنے اور ناقدری کرنے کے مابین توسط برتا گیا ہے۔
تشہد کی دعا کئی انداز میں آئی ہیں تاہم افضل ترین اور مشہور وہی ہے جو مصنف نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ذکر کی ہے ۔ تاہم دوسرے ثابت شدہ الفاظ کے ساتھ تشہد پڑھنا بھی درست ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3096

 
 
Hadith   168   الحديث
الأهمية: لو يعلم المار بين يدي الْمُصَلِّي ماذا عليه من الإثم، لكان أن يَقِفَ أربعين خيرا له من أن يَمُرَّ بين يديه


Tema:

اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کا چالیس سال تک کھڑا رہ کر انتظار کرنا اس سے بہتر ہو گا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔

عن أبي جُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأنصاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لو يعلم المار بين يدي الْمُصَلِّي ماذا عليه  لكان أن يَقِفَ أربعين خيرا له من أن يَمُرَّ بين يديه».
قال أَبُو النَّضْرِ: لا أدري: قال أربعين يوما أو شهرا أو سنة.

ابو جُہیم بن حارث بن صَمّہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کا چالیس سال تک کھڑا رہنا اس سے بہتر ہو کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے“۔
ابو نضر راوی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آیا انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس ماہ کہا یا پھر چالیس سال کہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المصلي واقف بين يدي ربه يناجيه ويناديه، فإذا مرَّ بين يديه في هذه الحال مارٌّ قطع هذه المناجاة وشوّش عليه عبادته، لذا عَظُم ذنب من تسبب في الإخلال بصلاة المصلي بمروره.
فأخبر الشارع: أنه لو علم ما الذي ترتب على مروره، من الإثم والذنب، لفضل أن يقف مكانه الآماد الطويلة على أن يمر بين يدي المصلي، مما يوجب الحذر من ذلك، والابتعاد منه.
606;ماز پڑھنے والا اپنے رب کے حضور کھڑا ہو کر اس سے مناجات کررہا ہوتا ہے اور اسے پکار رہا ہوتا ہے۔ جب اس حالت میں کوئی گزرنے والا اس کے آگے سے گزرتا ہے تو وہ مناجات میں انقطاع پیدا کرتا ہے اور نمازی کی عبادت میں خلل ڈالتا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے گزرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز میں خلل انداز ہوتا ہے اس کا گناہ بہت بڑا ہے۔
شارع نے بتایا کہ اگر اسے علم ہو جائے کہ اس کے گزرنے پر اُسے کتنا گناہ ملتا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے لمبی مدت تک اپنی جگہ پر کھڑا رہنے کو ترجیح دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل سے بچنا چاہیے اور اس سے دور رہنا چاہیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3097

 
 
Hadith   169   الحديث
الأهمية: إذا صلَّى أحدكم إلى شيء يَسْتُرُهُ من الناس، فأراد أحد أن يَجْتَازَ بين يديه فَلْيَدْفَعْهُ، فإن أبى فَلْيُقَاتِلْهُ؛ فإنما هو شيطان


Tema:

جب تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو، جو اس کے لیے لوگوں سے سترہ ہو اور کوئی اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اسے روک دے۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے، بلاشبہ وہ شیطان ہے۔

عن أبي سعيد الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه- مرفوعًا: (إذا صلَّى أحدكم إلى شيء يَسْتُرُهُ من الناس، فأراد أحد أن يَجْتَازَ بين يديه فَلْيَدْفَعْهُ، فإن أبى فَلْيُقَاتِلْهُ؛ فإنما هو شيطان).

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی ایسی شے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھ رہا ہو جو اس کے اور لوگوں کے مابین حائل ہو اور پھر بھی کوئی اس کے سامنے سے گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے روکے اور اگر وہ نہ رُکے تو اس سے لڑے اس لیے کہ وہ شیطان ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر الشرع باتخاذ الحزم والحيطة في الأمور كلها، وأهم أمور الدين والدنيا الصلاة، لذا حثَّ الشارع الحكيم على العناية بها واتخاذ السُتْرة لها إذا دخلَ المصلي في صلاته لتستره من الناس، حتى لا ينقصوا صلاته بمرورهم بين يديه، وأقبل يناجي ربه، فإذا أراد أحد أن يجتاز بين يديه، فليدفع بالأسهل فالأسهل، فإن لم يندفع بسهولة ويسر، فقد أسقط حرمته، وأصبح معتدياً، والطريق لوقف عدوانه، المقاتلة بدفعه باليد، فإن عمله هذا من أعمال الشياطين، الذين يريدون إفساد عبادات الناس، والتلبيس عليهم في صلاتهم.
588;ریعت نے تمام امور میں پختگی اور احتیاط کا حکم دیا ہے۔ دین و دنیا کا سب سے اہم کام نماز ہے۔ اس وجہ سے نبی ﷺ نے اس کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی اور اس کے لیے سترہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ جب نمازی نماز شروع کرے تو اس کے اور لوگوں کے مابین وہ آڑ بن جائے اور وہ اس کے سامنے سے گزر کر اس کی نماز میں خلل انداز نہ ہوں اور وہ پوری توجہ سے اپنے رب سے مناجات کرے۔ جب کوئی شخص اس کے سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نرم سے نرم تر انداز میں اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ نرمی اور آسانی سے نہ ہٹے تو پھر اس کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور وہ حد سے تجاوز کرنے والا بن جاتا ہے اور ایسے شخص کی زیادتی کو روکنے کا راستہ یہی ہے کہ اس سے ہاتھ کے ذریعے لڑا جائے کیونکہ اس کا یہ عمل شیاطین کی طرح کا عمل ہے جو لوگوں کی عبادات میں بگاڑ پیدا کرنے کے درپے رہتے ہیں اور ان کی نماز میں ان کی ترکیز کو گڈ مڈ کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3098

 
 
Hadith   170   الحديث
الأهمية: أكل المحرم من صيدٍ لم يُصَد لأجله ولا أعان على صيده


Tema:

محرم شخص کا ایسے شکار کے گوشت کو کھانا جو اس کے لیے شکار نہ کیا گیا ہو اور نہ ہی اس نے اس کے شکار میں کوئی مدد کی ہو۔

عن أبي  قَتَادَةَ الأنصاري -رضي الله عنه- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خرج حاجًّا، فخرجوا معه، فصرف طائفة منهم -فيهم أبو قَتَادَةَ- وقال: خذوا ساحِل البحر حتى نَلْتَقِيَ. فأخذوا ساحل البحر، فلما انصرفوا أحرموا كلهم، إلا أبا قَتَادَةَ فلم يُحرم، فبينما هم يسيرون إذ رأوا حُمُرَ وَحْشٍ، فحمل أبو قَتَادَةَ على الْحُمُرِ، فَعَقَرَ منْها أَتَانَاً، فنزلنا فأكلنا من لحمها، ثم قلنا: أنأكل لحم صيد، ونحن محرمون؟ فحملنا ما بقي من لحمها فأدركنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فسألناه عن ذلك؟ فقال: منكم أحد أمره أن يحمل عليها، أو أشار إليها؟ قالوا: لا، قال: فكلوا ما بقي من لحمها»، وفي رواية: «قال: هل معكم منه شيء؟ فقلت: نعم، فناولته الْعَضُدَ ، فأكل منها».

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کے ارادے سے نکلے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو جس میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے یہ ہدایت دے کر واپس بھیج دیا کہ تم لوگ ساحل سمندر کے راستہ پکڑ کر چلو یہاں تک کہ ہم سےآملو۔ چنانچہ انہوں نے ساحلِ سمندر کا راستہ اختیار کیا۔ جب واپس ہوئے تو سوائے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے سب نے احرام باندھ لیا۔ وہ جب چلے آ رہے تھے تو انہیں کچھ نیل گائیں دکھائی دیں۔ ابوقتادہ نے نیل گایوں پر حملہ کر کے ایک مادہ کا شکار کر لیا۔ ہم نے (ایک جگہ) پڑاؤ کیا اور اس کا گوشت کھایا۔ پھر ہمیں خیال آیا کہ کیا ہم حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کا گوشت کھا سکتے ہیں؟ چنانچہ جو کچھ گوشت بچا وہ ہم نے ساتھ لے لیا اور جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺنے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو اس پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا تھا؟ یا کسی نے اس شکار کی طرف اشارہ کیا تھا؟ سب نے کہا نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بچا ہوا گوشت بھی کھا لو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس (شکار کے گوشت) میں سے کچھ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ کہہ کر میں نےآپ ﷺ کو شانے کا گوشت دیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- عام الْحُدَيْبِيَة، يريد العُمْرة.
وقبل أن يصل إلى محرم المدينة، القريب منها، وهو "ذو الحليفة" بلغه أنَّ عَدُوُّاً أتى من قِبَل ساحل البحر يريده، فأمر طائفة من أصحابه -فيهم أبو قتادة- أن يأخذوا ذات اليمين، على طريق الساحل، ليصدُّوه، فساروا نحوه. فلما انصرفوا لمقابلة النبي -صلى الله عليه وسلم- في ميعاده، أحرموا إلا أبا قتادة فلم يحرم، وفي أثناء سيرهم، أبصروا حُمُر وَحْش، وتمنوا بأنفسهم لو أبصرها أبو قتادة لأنه حلال، فلما رآها حمل عليهاْ فعقر منها أَتاناً، فأكلوا من لحمها.
ثم وقع عندهم شكٌّ في جوازِ أكلهم منها وهم محرمون، فحملوا ما بقي من لحمها حتى لحقوا بالنبي -صلى الله عليه وسلم-، فسألوه عن ذلك فاستفسر منهم: هل أمره أحد منهم، أو أعانه بدلالة، أو إشارة؟ قالوا: لم يحصل شيء من ذلك.
فَطَمْأَن قلوبهم بأنها حلال، إذ أمرهم بأكل ما بقي منها، وأكل هو -صلى الله عليه وسلم- منها تطييبًا لقلوبهم.
589;لح حدیبیہ کے سال نبی ﷺ عمرہ کے ارادے سے نکلے۔ اہل مدینہ کا میقات یعنی ذو الحلیفہ،جو مدینہ کے قریب ہی واقع ہے، تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ ﷺ تک یہ خبر پہنچی کہ ساحلِ سمندر کی طرف سے دشمن ان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺنے اپنےصحابہ کے ایک گروہ کوجس میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حکم دیا کہ وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ داہنی طرف والا راستہ لے لیں تا کہ دشمن کو روک سکیں۔ چنانچہ وہ اس طرف چلے گیے۔ جب مقررہ وقت پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے وہ واپس ہوئے تو سوائے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے سب نے احرام باندھ لیا۔ دورانِ سفر انھیں کچھ نیل گائیں نظر آئیں اور دل ہی دل میں انھوں نے چاہا کہ کاش ابوقتادہ اسے دیکھ لیں کیوں کہ وہ حالتِ احرام میں نہیں ہیں۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جب نیل گایوں کو دیکھا تو ان پر حملہ آور ہوئے اور ایک مادہ نیل گائے کو شکار کر لیا اور سب نے اس کا گوشت کھایا۔
پھر انہیں کچھ شک لاحق ہوا کہ کیا حالت احرام میں ان کے لیے اسے کھانا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس کے باقی ماندہ گوشت کو اپنے ہمراہ لیا یہاں تک کہ نبی ﷺ کے پاس آن پہنچے اور آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کسی نے ابو قتادہ کو شکار کرنے کو کہا تھا؟ یا پھر انھیں بتا کر یا اشارہ کر کےان کی مدد کی تھی؟ انھوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔
اس پر آپ ﷺ نے انھیں اطمئنان دلایا کہ یہ ان کے لیے حلال ہے بایں طور کہ آپ ﷺ نے اس کے باقی ماندہ گوشت کو بھی کھانے کا حکم دیا اور ان کی طیب خاطر کے لیے آپ ﷺ نے خود بھی اس کا گوشت تناول فرمایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3099

 
 
Hadith   171   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في الركعتين الأُولَيَيْنِ من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين، يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، و يُسْمِعُ الآية أحيانًا


Tema:

اللہ کے رسول ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر۔ البتہ کبھی کبھار کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے۔

عن أبي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في الركعتين الأُولَيَيْنِ من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين، يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، و يُسْمِعُ الآية أحيانا، وكان يقرأ في العصر بفاتحة الكتاب وسورتين يُطَوِّلُ في الأولى، و يُقَصِّرُ في الثانية، وفي الركعتين الأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الكتاب، وكان يُطَوِّلُ في الركعة الأولى من صلاة الصبح، ويُقَصِّرُ في الثانية.

ابو قتادۃ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر۔ البتہ کبھی کبھار کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے۔ اسی طرح عصر میں فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری میں مختصر کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھتے۔ صبح کی پہلی رکعت میں قرات لمبی کرتے اور دوسری میں مختصر کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- من عادته أن يقرأ بعد سورة الفاتحة غيرها من القرآن في الركعتين الأُوليين من صلاة الظهر والعصر، ويطول في الأولى عن الثانية، ويسمع أصحابه ما يقرأ أحيانا، ويقرأ في الثالثة والرابعة بالفاتحة فقط، وكان يطول في صلاة الصبح في القراءة ويقصر في الثانية.
لكن لو قرأ الإنسان أحيانًا في الثالثة أو الرابعة بسورة بعد الفاتحة جاز؛ لورود أدلة أخرى بذلك.
570;پ ﷺ کی عادت یہ تھی کہ ظہر و عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن کی کوئی سورت تلاوت فرماتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری میں مختصر کرتے۔ کبھی کبھی صحابہ کو آپ ﷺ جو تلاوت فرما رہے ہوتے، سنا دیتے تھے۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف فاتحہ پڑھتے تھے۔ فجر کی پہلی رکعت میں قرات لمبی اور دوسری مختصر کرتے۔
تاہم اگر کبھی کوئی شخص تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت تلاوت کر لے، تو جائز ہے؛ اس لیے کہ اس سلسلے میں دوسرے بہت سارے دلائل وارد ہوئے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3100

 
 
Hadith   172   الحديث
الأهمية: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، يُخَوِّفُ الله بهما عباده، وإنهما لا يَنْخَسِفَان لموت أحد من الناس، فإذا رأيتم منها شيئا فَصَلُّوا، وَادْعُوا حتى ينكشف ما بكم


Tema:

سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ان کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تمہیں اللہ کی ان نشانیوں میں سے کوئی نظر آئے تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں لاحق ہونے والی وہ کیفیت دور ہوجائے۔

عن أبي مسعود عُقبة بن عَمْرو الأنصاري البَدْري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، يُخَوِّفُ الله بهما عباده، وإنهما لا يَنْخَسِفَان لموت أحد من الناس، فإذا رأيتم منها شيئا فَصَلُّوا، وَادْعُوا حتى ينكشف ما بكم»

ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ان کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تمہیں اللہ کی ان نشانیوں میں سے کوئی نظر آئے تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں لاحق ہونے والی وہ کیفیت دور ہوجائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيَّن -صلى الله عليه وسلم- أن الشمس والقمر من آيات الله الدالة على قدرته وحكمته، وأن تغيُّر نظامهما الطبيعي، لا يكون لحياة العظماء أو موتهم كما يعتقد أهل الجاهلية فلا تؤثر فيهما الحوادث الأرضية.
وإنما يكون ذلك لأجل تخويف العباد، من أجل ذنوبهم وعقوباتهم فيجددوا التوبة والإنابة إلى الله تعالى.
ولذا أرشدهم أن يفزعوا إلى الصلاة والدعاء، حتى ينكشف ذلك عنهم وينجلي، ولله في كونه أسرار وتدبير.
606;بی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جو اس کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ ان کے فطری نظام میں تبدیلی بڑے لوگوں کی زندگی یا موت کی وجہ سے نہیں ہوتی جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا۔ لہٰذا زمین پر رونما ہونے والے واقعات ان پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں
ایسا تو بندوں کو ان کے گناہوں اور ان پر ملنے والی سزاؤں سے ڈرانے کے لئے ہوتا ہے تا کہ وہ نئے سرے سے اللہ سے توبہ کریں اور اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اسی لئے نبی ﷺ نے ان کی راہنمائی فرمائی کہ جب تک یہ گرہن زائل نہ ہو جائے اور چھٹ نہ جائے تب تک وہ نماز اور دعا میں لگے رہیں۔ اور اللہ تعالی کے اپنی کائنات میں بہت سے اسرار اور انداز تصرف ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3101

 
 
Hadith   173   الحديث
الأهمية: إن هذه الآيات التي يُرْسِلُهَا الله -عز وجل-: لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن الله يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بها عباده، فإذا رأيتم منها شيئا فَافْزَعُوا إلى ذكر الله ودُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ


Tema:

بے شک یہ نشانیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو، تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر، دعا اور استغفار میں لگ جاؤ۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: خَسَفَت الشمس على زمان رسول الله -صلى الله عليه وسلم-. فقام فَزِعًا، ويخشى أن تكون الساعة، حتى أتى المسجد، فقام، فصلى بأطول قيام وسجود، ما رأيته يفعله في صلاته قطُّ، ثم قال: إن هذه الآيات التي يُرْسِلُهَا الله -عز وجل-: لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن الله يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بها عباده، فإذا رأيتم منها شيئا فَافْزَعُوا إلى ذكر الله و دُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے، اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے مسجد میں آ کر بہت ہی لمبے قیام اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ ﷺ کو ایسی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے نماز کے بعد فرمایا: بے شک یہ نشانیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں آتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو، تو فوراً اللہ تعالیٰ کے ذکر، دعا اور استغفار میں لگ جاؤ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما ذهب ضوء الشمس أو شيء منه في عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- قام فزعًا، لأن معرفته الكاملة بربه -تعالى- أوجبت له أن يصير كثير الخوف وشديد المراقبة؛ لضلال أكثر أهل الأرض وطغيانهم أو أن ساعة النفخ في الصور حضرت فدخل المسجد، فصلى بالناس صلاة الكسوف، فأطال إطالة لم تعهد من قبلُ إظهارا للتوبة والإنابة، فلما فرغ المصطفى من مناشدته ربه ومناجاته، توجه إلى الناس يعظهم، ويبين لهم أن هذه الآيات يرسلها الله عبرة لعباده، وتذكيرا وتخويفا، ليبادروا إلى الدعاء والاستغفار والذكر والصلاة.
606;بی ﷺ کے عہد میں جب (ایک بار) سورج کی روشنی غائب ہوگئی یا مدھم پڑ گئی، تو نبی ﷺ گھبرا کر اٹھے؛ اس لیے کہ آپ اپنے رب کی کامل معرفت کی وجہ سے، روئے زمین پر آباد اکثر لوگوں کی گم راہی اور سر کشی کے پیش نظر سخت خوف زدہ رہا کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں صور میں پھونک مارنے کی گھڑی نہ آجائے۔ چنانچہ آپ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز کسوف ادا فرمائی۔ توبہ اور انابت کے اظہار کے لیے نماز اس قدر لمبی پڑھی کہ اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے تھے۔ پھر جب نبی مصطفیٰ ﷺ رب کی بارگاہ میں فریاد اور اس سے مناجات سے فارغ ہوئے، تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور انھیں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو بندوں کی عبرت، یاد دہانی اور خوف دلانے کے لیے بھیجتا ہے؛ تاکہ وہ دعا و استغفار اور ذکر و نماز کی طرف سبقت کریں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3102

 
 
Hadith   174   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدعو: اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن فتنة الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، ومن فتنة الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے: ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدعو: اللَّهُمَّ  إني أعوذ بك من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن فتنة الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، ومن فتنة الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ».
وفي لفظ لمسلم: «إذا تَشَهَّدَ أحدكم فَلْيَسْتَعِذْ بالله من أَرْبَعٍ، يقول: اللهُمَّ إني أعوذ بك من عذاب جَهَنَّم...». ثم ذكر نحوه.

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ دعا فرماتے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ» ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔
صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: ”جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے، تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ...“ یعنی اے اللہ میں تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں... پھر باقی حدیث اسی طرح بیان کی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
استعاذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله من أربع، وأمرنا أن نستعيذ بالله في تشهدنا في الصلاة من تلك الأربع، من عذاب القبر، وعذاب النار، ومن شهوات الدنيا وشبهاتها، ومن فتنة الْمَمَات، استعاذ منها؛ لعظم خطرها، وفتن القبر التي هي سبب عذابه، ومن فتن المحيا فتنة الدَّجَّالين الذين يظهرون على الناس بصورة الحق، وهم متلبسون بالباطل، وأعظمهم فتنة، الذي صحت الأخبار بخروجه في آخر الزمان، وهو المسيح الدَّجَّال؛ ولذلك خصه بالذكر.
606;بی علیہ الصلاۃ والسلام نے چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگی اور ہمیں حکم دیا کہ ہم بھی نماز کے دوران تشہّد میں چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں، قبر اور جہنم کے عذاب سے، دنیا کی شہوتوں اور شبہات سے، موت کے فتنوں سے۔ ان سے اس لیے پناہ مانگی کہ ان کا خطرہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ قبر کے فتنے سے مُراد عذابِ قبر کے اسباب ہیں۔ زندگی کے فتنوں سے مُراد دجّالوں کا فتنہ ہے، جو سچی شکلوں کے ساتھ لوگوں پر ظاہر ہوںگے اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کریں گے۔ ان میں سب سے بڑا فتنہ کانا دجال کا فتنہ ہے، جس کے آخری زمانے میں نکلنے کے بارے میں صحیح احادیث وارد ہوئیں ہیں اور اسی وجہ سے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3103

 
 
Hadith   175   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بين التكبير والقراءة: ما تقول؟ قال: أقول: اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثَّلْجِ وَالْبَرَدِ


Tema:

یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ بتائیں کہ تکبیرِ تحریمہ اور قرأت کے مابین سکتہ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ”اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغسلني من خطاياي بالماء الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.“

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كَبَّرَ في الصلاة سكت هُنَيْهَةً قبل أن يقرأ، فقلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بين التكبير والقراءة: ما تقول؟ قال: أقول: اللَّهُمَّ باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نَقِّنِي من خطاياي كما يُنَقَّى الثوب الأبيض من الدَّنَسِ. اللهم اغْسِلْني من خطاياي بالماء والثَّلْجِ وَالْبَرَدِ.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں تکبیر تحریمہ کہتے تو قرأت کو شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ بتائیں کہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے مابین سکتہ میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ”اللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ۔ اللهم اغسلني من خَطَایَایَ بِالْمَاء وَ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ“۔
ترجمہ: اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كبر للصلاة تكبيرة الإحرام، خفض صوته مدة قليلة قبل أن يقرأ الفاتحة.
وكان الصحابة يعلمون أنه يقول شيئاً في هذه السكتة، إما لأن الصلاة كلها ذكر لا سكوت فيها لغير استماع, وإما لحركة من النبي صلى الله عليه وسلم يعلم بها أنه يقرأ، ولحرص أبي هريرة-رضي الله عنه- على العلم والسنة قال: أفديك يارسول الله بأبي وأمي، ماذا تقول في هذه السكتة التي بين التكبير والقراءة؟
فقال: أقول: " اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد ".
وهذا دعاء في غاية المناسبة في هذا المقام الشريف، موقف المناجاة، لأن المصلي يتوجه إلى الله-تعالى- في أن يمحو ذنوبه وأن يبعد بينه وبينها إبعاداً لا يحصل معه لقاء، كما لا لقاء بين المشرق والمغرب أبدًا, وأن يزيل عنه الذنوب والخطايا وينقيه منها، كما يزال الوسخ من الثوب الأبيض، وأن يغسله من خطاياه ويبرد لهيبها وحرها، - بهذه المنقيات الباردة؛ الماء، والثلج، والبرد. وهذه تشبيهات، في غاية المطابقة.   وبهذا الدعاء يكون متخلصا من آثار الذنوب فيقف بين يدي الله عز وجل على أكمل الحالات، والأولى أن يعمل الإنسان بكل الاستفتاحات الصحيحة الواردة، يعمل بهذا تارة، وبهذا تارة، وإن كان حديث أبي هريرة هذا أصحها. والله أعلم.
606;بی ﷺ جب نماز کے لیے تکبیرِ تحریمہ کہتے تو سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے کچھ دیر اپنی آواز کو پست رکھتے۔ صحابہ کرام جانتے تھے کہ آپ ﷺ اس سکتے میں کچھ پڑھتے ہیں۔ انہیں یہ علم یا تو اس وجہ سے تھا کہ نماز ساری کی ساری ذکر ہے اور سماعت (قرآن) کےعلاوہ اس میں کوئی خاموشی نہیں ہوتی، یا پھر آپ ﷺ کی حرکت کی وجہ سے معلوم ہو جاتا کہ آپ ﷺ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حصول علم اور سنت کو سیکھنے کے بہت حریص تھے اس لیے انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ تکبیرتحریمہ اور قرأت کے درمیان والے سکتے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پڑھتا ہوں: ’’ اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد‘‘۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح مشرق و مغرب میں دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے‘‘۔
یہ دعا اس اعلیٰ مقام مناجات سے بہت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نمازی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس غرض سے کہ وہ اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے اور گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ پیدا کر دے کہ وہ ایک دوسرے سے مل ہی نہ سکیں جیسا کہ مشرق و مغرب کبھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے اور یہ کہ وہ اس کے گناہوں اور خطاؤں کو ختم کر دے اور اسے ان سے پاک صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے سے گندگی صاف کی جاتی ہے اور یہ کہ وہ اس سے اس کی خطائیں دھو دے اور ان کی لپٹ اور تپش کو ان ٹھنڈی صفائی کرنے دینے والی اشیاء یعنی پانی، برف اور اولوں سے ٹھنڈا کر دے۔ یہ ایسی تشبیہات ہیں جن میں بہت ہی زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ اس دعا کے ساتھ وہ گناہوں کے آثار سے خلاصی پا لے گا اور بہترین حالت میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اور بہتر یہ ہے کہ انسان ان تمام افتتاحی کلمات (ثنا کی دعاؤں) کو پڑھے جو صحیح احادیث میں آئے ہیں۔کبھی کسی کو پڑھ لے اور کبھی کس کو۔ اگرچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ و اللہ اعلم۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3104

 
 
Hadith   176   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يُكَبِّرُ حين يقوم، ثم يُكَبِّرُ حين يركع، ثم يقول: سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ، حين يَرْفَعُ  صُلْبَهُ من الرَّكْعَةِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے، پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يُكَبِّرُ حين يقوم، ثم يُكَبِّرُ حين يركع، ثم يقول: سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ، حين يَرْفَعُ  صُلْبَهُ من الرَّكْعَةِ، ثم يقول وهو قائم: ربنا ولك الحمد، ثم يُكَبِّرُ حين يَهْوِي، ثم يُكَبِّرُ حين يَرْفَعُ  رأسه، ثم يُكَبِّرُ حين  يَسْجُدُ، ثم يُكَبِّرُ حين يَرْفَعُ  رأسه، ثم يفعل ذلك في صلاته كلها حتى يقضيها، ويُكَبِّرُ حين يقوم من الثِّنْتَيْنِ  بعد الجلوس،  ثم يقول: أبو هريرة «إني لأشَبَهُكم صلاة برسول الله -صلى الله عليه وسلم-».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے، تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے، پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّه لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے۔ پھر کھڑے ہونے کی حالت میں ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہتے۔ پھر جب (سجدہ کے لئے) جھکتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر پوری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اس کو پورا کر لیتے۔ اسی طرح جب دو رکعتوں سے، بیٹھنے کے بعد اٹھتے (تب بھی) تکبیر کہتے۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة كلها تعظيم لله بالقول والفعل، في هذا الحديث الشريف بيان شعار الصلاة، وهو إثبات الكبرياء لله -سبحانه وتعالى- والعظمة، فما جعل هذا شعارها وسمتها، إلا لأنها شرعت لتعظيم الله وتمجيده.
فحين يدخل فيها، يكبر تكبيرة الإحرام، وهو واقف معتدل القامة.
وبعد أن يفرغ من القراءة ويهوى للركوع يكبر.
فإذا رفع من الركوع، قال: "سمع الله لمن حمده" واستتم قائماً، ثم حمد الله وأثنى عليه في القيام.
ثم يكبر في هُوِيه إلى السجود، ثم يكبر حين يرفع رأسه من السجود، ثم يفعل ذلك في صلاته كلها، حتى يفرغ منها، وإذا قام من التشهد الأول في الصلاة ذات التشهدين، كبر في حال قيامه، فخص الشارع كل انتقال بالتكبير إلا الرفع من الركوع.
606;ماز پوری کی پوری قول و فعل کے ذریعے اللہ کی تعظیم پر مشتمل ہے۔ اس حدیث میں نماز کے شعار کا بیان ہے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اثبات ہے۔ اللہ نے اس کو نماز کا شعار اور خصوصیت بنایا کیونکہ نماز مشروع ہی اللہ کی عظمت و بزرگی کے بیان کے لئے ہوئی ہے۔
چنانچہ جب آدمی نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہتا ہے۔
اور جب قراءت سے فارغ ہوتا ہے اور رکوع کے لئے جھکتا ہے تو تکبیر کہتا ہے۔
جب رکوع سے اٹھتا ہے تو "سمع اللہ لمن حمدہ" کہتا ہے۔اور پوری طرح سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے، پھر حالتِ قیام میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔
پھر سجدے میں جانے کے لئے جھکتے ہوئے تکبیر کہتا ہے، پھر جس وقت سجدے سے اپنا سر اٹھاتا ہے تب بھی تکبیر کہتا ہے۔ پھر وہ اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرتا ہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب دو تشہد والی نماز میں پہلی تشہد سے اٹھتا ہے تو کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر کہتا ہے۔ چنانچہ شارع علیہ السلام نے ہر انتقال کو تکبیر کے ساتھ مخصوص کیا ہے سوائے رکوع سے اٹھنے کے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3105

 
 
Hadith   177   الحديث
الأهمية: إذا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا  بالصلاة، فإن شدة الْحَرِّ من فَيْحِ جَهَنَّمَ


Tema:

جب گرمی کی شدت زیادہ ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

عن عبد الله بن عُمَرَ وأبي هُرَيْرَةَ وأبي ذر -رضي الله عنهم- عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا  بالصلاة. فإن شدة الْحَرِّ من فَيْحِ جَهَنَّمَ».

عبد اللہ بن عمر، ابوہریرہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب گرمی کی شدت زیادہ ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تؤخر صلاة الظهر عند اشتداد الحر -الذي هو من تنفس ووهج جهنم- إلى وقت البرد لئلا يشغله الحر والغم عن الخشوع.
606;بی ﷺ نے حکم دیا کہ جب گرمی کی شدت بڑھ جائے جو کہ جہنم کی سانس و جوش مارنے کی وجہ سے ہوتی ہے تو نمازِ ظہر کو ٹھنڈے وقت تک موخر کر دیا جائے تا کہ گرمی اور بے چینی کی وجہ سے نمازی کا خشوع نہ جاتا رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3106

 
 
Hadith   178   الحديث
الأهمية: إذا قلت لصاحبك: أَنْصِتْ يوم الجمعة والإمام يَخْطُبُ، فقد لَغَوْتَ


Tema:

جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ "خاموش ہو جاؤ" تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی۔

عن أبي هُريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إذا قلتَ لصاحبك: أَنْصِتْ يوم الجمعة والإمام يَخْطُبُ، فقد لَغَوْتَ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ "خاموش ہو جاؤ" تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أعظم شعائر الجمعة الخطبتان، ومن مقاصدها وعظ الناس وتوجيههم، ومن آداب المستمع الواجبة: الإنصات فيهما للخطيب، ليتدبر المواعظ، ولذا حذر النبي -صلى الله عليه وسلم- من الكلام، ولو بأقل شيء، مثل نهي صاحبه عن الكلام ولو بقوله: " أنصت"، ومن تكلم والإمام يخطب فقد لغا فيحرم من فضيلة الجمعة؛ لأنه أتى بما يشغله ويشغل غيره عن سماع الخطبة.
580;معہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ خطبہ سننے والوں کے لیے جن آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ان میں سے ایک خطیب کو خاموشی سے سننا بھی ہے تاکہ وہ وعظ و نصیحت پر غور و تدبر کر سکیں۔ اسی لیے نبی ﷺ نے گفتگو کرنے سے منع فرمایا اگرچہ انتہائی کم ہی کیوں نہ ہو مثلاً اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو یہ کہہ کر بولنے سے منع کرنا کہ ”خاموش ہو جاؤ“۔ جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت اگر کوئی بات کرے تو وہ ایک لغو حرکت کا مرتکب ہوتا ہے اور یوں جمعہ کی فضیلت سےمحروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسی حرکت کی جس نے نہ صرف اسے خطبہ سننے سے بے گانہ کردیا بلکہ دوسروں کی توجہ بھی اس سے ہٹا دی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3107

 
 
Hadith   179   الحديث
الأهمية: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بن عَبْدِ الْمُطَّلِب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أن يبيت بمكة ليالي مِنى، من أجل سِقَايَتِه فأذن له


Tema:

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے (حجاج کو) پانی پلانے کے لیے ایامِ منیٰ میں، مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی۔

عن عبد الله بن عُمَر -رضي الله عنه- قال: «اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بن عَبْدِ الْمُطَّلِب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أن يبيت بمكة ليالي مِنى، من أجل سِقَايَتِه فأذن له».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے (حجاج کو) پانی پلانے کے لیے ایامِ منیٰ میں، مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المبيت بمِنى ليالي التشريق أحد واجبات الحج التي فعلها النبي -صلى الله عليه وسلم-، فإن الإقامة بـ"منى" تلك الليالي والأيام من الطاعة لله -تعالى- ومن شعائر الحج.
ولما كانت سِقاية الحجيج من القُرَبِ المفضلة، لأنها خدمة لحجاج بيته وأضيافه، رخص -صلى الله عليه وسلم- لعمه العباس في ترك المبيت بـمِنى؛ لكونه قائماً على السقاية، فيقوم بِسَقْي الحجاج، وهي مصلحة عامة، مما دلَّ على أن غيره، ممن لا يعمل مثل عمله وليس له عذر ليس له هذه الرخصة.
575;یامِ تشریق کے دوران منیٰ میں رات گزارنا حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، جنھیں نبی ﷺ نے سرانجام دیا۔ ان راتوں اور ایام میں مقامِ منیٰ میں قیام کرنا اللہ کی اطاعت اور شعائرِ حج میں سے ہے۔
چوں کہ حاجیوں کو پانی پلانا بہت ہی گراں پایہ نیکیوں میں سے ہے اس لیے کہ یہ اللہ کے گھر کے زائرین اور اس کے مہمانوں کی خدمت ہے اسی لیے آ پﷺ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو منیٰ میں رات نہ گزارنے کی رخصت دے دی کیونکہ ان پر سقایہ کی ذمہ داری تھی اور انھیں حاجیوں کو پانی پلانا تھا۔ یہ ایک عمومی مصلحت تھی جس سے معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص جس کو کوئی ایسا کام نہ کرنا ہو اور نہ ہی اسے کوئی عذر لاحق ہو اس کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3108

 
 
Hadith   180   الحديث
الأهمية: أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فإنها إن تَكُ صالحة: فخير تُقَدِّمُونَهَا إليه، وإن تَكُ سِوى ذلك: فشرٌ تَضَعُونَهُ عن رِقَابِكُمْ


Tema:

جنازے میں جلدی کرو ۔اگر وہ اچھا شخص تھا تو تم اس کو بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر کچھ اور تھا تو شر کو اپنی گردنوں سے ہٹا رہے ہو۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فإنها إن تَكُ صالحة: فخير تُقَدِّمُونَهَا إليه. وإن تَكُ سِوى ذلك: فشرٌ تَضَعُونَهُ عن رِقَابِكُمْ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنازے (کو لے جانے) میں جلدی کرو ۔اگر وہ اچھا شخص تھا تو تم اس کو بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر کچھ اور تھا تو شر کو اپنی گردنوں سے ہٹا رہے ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر الشارع الحكيم بالإسراع بدفن الجنازة، والاحتمال الآخر أن المراد الإسراع في تجهيز الميت، من التغسيل والصلاة والحمل والدفن، وذلك لأنها إذا كانت صالحة، فإنها ستقدم إلى الخير والفلاح، ولا ينبغي تعويقها عنه، وهي تقول: قَدِّموني قدموني، وإن كانت سوى ذلك، فهي شر بينكم، فينبغي أن تفارقوه، وتريحوا أنفسكم من عنائه ومشاهدته، فتخففوا منه بوضعه في قبره.
588;ارع نے جنازے کو دفن کرنے میں جلدی کرنے کا حکم دیا۔ ایک دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد اس کی تجہیز و تکفین، غسل دینے، نمازِ جنازہ پڑھنے، اٹھا کر لے جانے اور دفن میں جلدی کرنا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شخص اگر نیک ہے تو (جلدی کر کے) اسے بھلائی اور کامیابی کی طرف بڑھایا جا رہا ہو گا اور یہ مناسب نہیں کہ اس کے اور بھلائی کے مابین رکاوٹ بنا جائے جب کہ جنازہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے آگے لے کر چلو، مجھے آگے لے کر چلو۔ اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور ہو تو پھر یہ تمہارے درمیان موجود ایک شر ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ تم اس سے الگ ہو جاؤ اور اس کی مصیبت اور اس کے مشاہدے سے اپنے کو آپ کو چھٹکارا دلاؤ اور اسے قبر میں رکھ کر جلد سبکدوش ہو جاؤ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3109

 
 
Hadith   181   الحديث
الأهمية: ألا أحدثكم حديثا عن الدجال ما حدث به نبي قومه! إنه أعور، وإنه يجيء معه بمثال الجنة والنار، فالتي يقول إنها الجنة هي النار


Tema:

میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات نہ بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کونہیں بتائی !۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: ألا أُحَدِّثُكُمْ حديثا عن الدجال ما حدَّثَ به نبيٌّ قومه! إنه أعور، وإنه يَجيءُ معه بمثالِ الجنة والنار.

ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات نہ بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کونہیں بتائی! وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ما من نبي من الأنبياء إلا أنذر قومه الدجال الأعور، وأنه لا يأتي إلا في آخر الزمان، أما نبينا -صلى الله عليه وسلم- فهو الذي فصل البيان في الدجال بما لم يقله الأنبياء والمرسلين قبله، وأنه يوهم الناس، ويُلبِّس عليهم فيحسبون أن هذا الذي أطاعه أدخله الجنة، وأن هذا الذي عصاه أدخله النار، والحقيقة بخلاف ذلك.
729;ر نبی نے اپنی قوم کو کانے دجال سے ڈرایا ہے اور انہیں خبر دی ہے کہ وہ آخری زمانے میں آئے گا۔ ہمارے نبی ﷺ نے تو دجال کے بارے میں اتنی تفصیل بتائی ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی اور رسول نے اتنی تفصیل نہیں بتائی۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ وہ لوگوں کو وہم میں ڈالے گا اور حقائق کو ان کے سامنے گڈ مڈ کر کے پیش کرے گا بایں طور کہ وہ سمجھیں گے کہ جس نے اس کی اطاعت کی اسے وہ جنت میں داخل کر دے گا اور جس نے اس کی نافرمانی کی اسے وہ جہنم میں جھونک دے گا حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3110

 
 
Hadith   182   الحديث
الأهمية: اعْتَدِلُوا في السجود، ولا يَبْسُطْ أحدكم ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الكلب


Tema:

سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اورتم میں سے کوئی بھی شخص اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔

عن أَنَس بن مالك -رضي الله عنه- عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: «اعْتَدِلُوا في السجود، ولا يَبْسُطْ أحدكم ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الكلب».

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بالاعتدال في السجود، وذلك بأن يكون المصلي على هيئة حسنة في السجود، حيث يجعل كفيه على الأرض، ويرفع ذراعيه ويبعدهما عن جَنْبيه، لأن هذه الحال عنوان النشاط والرغبة المطلوبين في الصلاة، ولأن هذه الهيئة الحسنة تُمكِّن أعضاء السجود كلها من الأخذ بحظها من العبادة.
ونُهِيَ عن بسط الذراعين في السجود؛ لأنه دليل الكسل والملل، وفيه تشبه بالكلب، وهو تشبه بما لا يليق.
606;بی ﷺ نے سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ نمازی سجدے میں اچھی ہیئت اختیار کرے بایں طور کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا لے، اپنے بازوؤں کو اوپر اٹھا لے اور انھیں پہلوؤں سے دور رکھے۔ کیوں کہ یہ حالت نماز میں چستی اور دلچسپی کی غمازی کرتی ہے اور ا س اچھی ہیئت میں تمام اعضاء اس قابل ہو جاتے ہیں کہ اپنے اپنے حصے کی عبادت سر انجام دے سکیں۔ سجدے میں بازوؤں کو بچھانے سے منع کیا گیا کیوں کہ یہ سستی اور اکتاہٹ کی دلیل ہے اور اس میں کتے کی مشابہت ہوتی ہے جو کہ ایک غیر مناسب مشابہت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3111

 
 
Hadith   183   الحديث
الأهمية: سألت أنس بن مالك: أكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي في نَعْلَيْهِ؟ قال: نعم


Tema:

میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے کہا ’ہاں‘۔

عن مَسْلَمَةَ سَعِيدِ بْنِ يَزِيد قال: سألت أنس بن مالك: أكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي في نَعْلَيْهِ؟ قال: «نعم».

ابومسلمہ سعید بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے کہا ’ہاں‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من المقاصد الشرعية مخالفة أهل الكتاب، وإزالة كل شيء فيه مشقة وحرج على المسلم، وقد سأل سعيد بن يزيد وهو من ثقات التابعين أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم: أكان يصلى في نعليه؛ ليكون له قدوة فيه؟ أو كأنه استبعد ذلك لما يكون فيها من القذر والأذى غالبًا، فأجابه أنس: نعم، كان يصلى في نعليه، وأن ذلك من سنته المطهرة، وهذا ليس خاصًّا بأرض أو زمن معين.
740;ہود کی مخالفت اور اس چیز کا ازالہ جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی تنگی یا مشقت ہو اس کو دور کرنا مقاصدِ شریعت میں شامل ہے۔ سعید بن یزید جو کہ ثقات تابعین میں سے ہیں انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کےبارے میں پوچھا کہ کیا آپ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے، تاکہ یہ ان کے لیے اس سلسلے میں قابلِ تقلید نمونہ بن جائے؟ یا آپ ﷺ جوتے دور رکھتے کیوں کہ ان میں زیادہ طور پر گندگی اور تکلیف دہ چیزیں لگی ہوتی ہیں! تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ: ہاں رسول اللہ ﷺ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے اور یہ آپ کی سنت مطہرہ سے ہے، یہ کسی خاص جگہ یا مخصوص وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3112

 
 
Hadith   184   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا حتى يمر الرجل على القبر، فيتمرغ عليه ويقول: يا ليتني كنت مكان صاحب هذا القبر، وليس به الدين، ما به إلا البلاء


Tema:

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک یہ صورت حال نہ ہوجائے کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا!۔ اس کا سبب دین نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی مصیبت کی وجہ سے یہ تمنا کر ے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا حتى يمر الرجل على القبر، فَيَتَمَرَّغَ عليه ويقول: يا ليتني كنت مكان صاحب هذا القبر، وليس به الدِّينُ، ما به إلا البلاء».

ٍّؓ!ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہوجائے کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا!۔ اس کا سبب دین نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی مصیبت کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يمر الرجل بقبر الرجل فيتقلب في التراب يريد أن يكون مكانه مما أصابه من الأنكاد الدنيوية وكثرة الفتن والمحن، وذلك لاستراحة الميت من نصب الدنيا وعنائها.
وليس في الحديث تمني الموت وإنما هو إخبار عما سيقع في آخر الزمان.
606;بی کریم ﷺ ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ آخری زمانے میں ایسی صورتِ حال ہو گی کہ آدمی کا گزر قبر پر سے ہوگا اور جن دنیوی پریشانیوں اور ان گنت فتنوں اور آزمائشوں میں وہ مبتلا ہوگا ان کی وجہ سے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر یہ تمنا کرے گا کہ وہ اس قبر والے کی جگہ پر ہوتا کیونکہ مرنے والا دنیا کی تھکان اور مشقت سے خلاصی پا گیا ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ موت کی تمنا کرنی چاہیے بلکہ اس میں تو صرف اس بات کی خبر دی گئی ہے جو آخرے زمانے میں واقع ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3114

 
 
Hadith   185   الحديث
الأهمية: لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يقتتل عليه، فيقتل من كل مائة تسعة وتسعون


Tema:

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو».   وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا نبينا الكريم -صلى الله عليه وسلم- أن قرب قيام الساعة يكشف نهر الفرات عن كنز من ذهب أو جبل من ذهب بمعنى أن الذهب يخرج جبلا, وأن الناس سيقتتلون عليه لأن ذلك من الفتن, ثم ينهانا -صلى الله عليه وسلم- عن الأخذ منه لمن أدرك ذلك؛ لأنه لا أحد ينجو منه، وربما يتأول بعض من يحضر ذلك هذا الحديث ويصرفه عن معناه ليسوغ لنفسه الأخذ منه، نعوذ بالله من الفتن.
662;یارے نبی ﷺ ہمیں بتلا رہے ہیں کہ قیامت کے قریب دریائے فرات سونے کا ایک خزانہ یا سونے کا ایک پہاڑ ظاہرکرے گا، یعنی سونا ایک پہاڑ کی شکل میں نکلے گا اور لوگ اس کے حصول کے لیے باہم لڑیں گے کیونکہ یہ ایک فتنہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ ہم میں سے اس شخص کو جو اس وقت موجود ہو اس کے لینے سے منع کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اس وقت موجود ہوں ان میں سے کچھ لوگ اس حدیث کی تاویل کریں اور حديث کو اس کی حقیقی معنی سے پھیر کر کوئی اور معنی مراد ليں تاکہ اپنے لئے اس خزانے سے کچھ لينے کو جائز ٹھہرا سکیں۔ ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3115

 
 
Hadith   186   الحديث
الأهمية: يتركون المدينة على خير ما كانت، لا يغشاها إلا العوافي


Tema:

لوگ مدینے کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ جائیں گے، البتہ وہ ایسے اجڑا ہوا ہوگا کہ وہاں وحشی جانور ہی بسیں گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعتُ رسولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - يقولُ: (يتركون المدينة على خير ما كانت، لا يَغْشَاهَا إلا العَوَافِي يريد -عوافي السِّباع والطير-، وآخِر من يُحْشَرُ راعيان من مُزَيْنَةَ، يُرِيدَانِ المدينةَ يَنْعِقَانِ بغنمهما، فيَجِدَانِها وُحُوشًا، حتى إذا بلغا ثَنِيَّةَ الوَدَاعِ خَرَّا على وُجوههما).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ مدینے کو پہلے سے بہتر حالت میں چھوڑ جائیں گے، البتہ وہ ایسے اجڑا ہوا ہوگا کہ وہاں وحشی جانور (درند اور پرند) ہی بسیں گے اور سب سے آخر میں جنھیں جمع کیا جائے گا، وہ قبیلۂ مزینہ کے دو چرواہے ہوں گے؛ وہ اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے مدینہ آئیں گے، لیکن وہاں انھیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے، یہاں تک کہ جب وہ ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -ضلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن المدينة النبوية زادها الله تشريفا وتعظيما يخرج عنها ساكنوها، ولا يبقى فيها إلا السباع والطيور ليس فيها أحد، وأن هذا سيحصل في آخر الزمان، وأنه سيأتي راعيا غنم من مزينة إلى المدينة يصيحان بغنمهما، فيجدانها ذات وحشة لخلائها، وهما آخر من يحشر، فإذا بلغا ثنية الوداع سقطا ميتين.
575;س حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مدینہ طیبہ -اللہ تعالیٰ اس کے عز وشرف کو دو چند کر دے- کے باشندے اسے چھوڑ کر نکل جائیں گے اور درندوں اور پرندوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا، نیز یہ کہ یہ آخری زمانے میں ہوگا۔ آخر میں مزینہ کے دو چرواہے اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے مدینہ آئیں گے، لیکن وہ اسے سنسان اور وحشت ناک پائیں گے۔ وہ سب سے آخر میں حشر کا سامنا کرنے والے ہوں گے۔ جب وہ ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو منہ کے بل گر کر مر جائیںگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3116

 
 
Hadith   187   الحديث
الأهمية: يكون خليفة من خلفائكم في آخر الزمان يحثو المال ولا يعده


Tema:

آخری زمانے میں تمہارے خلفاء میں سے ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بغیر شمار کیے چُلّو بھر بھر کر مال دے گا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يكون خليفة من خلفائكم في آخر الزمان يحثُو المالَ ولا يَعُدُّهُ».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آخری زمانے میں تمہارے خلفاء میں سے ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بغیر شمار کیے چُلّو بھر بھر کر مال دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا الرسول الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يقوم خليفة المسلمين بإنفاق المال بلا عدد ولا حساب لكثرة الأموال والغنائم مع سخاء نفسه.
585;سول کریم ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ آخری زمانے میں مسلمانوں کا ایک ایسا خلیفہ ہو گا جو بنا شمار کیے اور بغیر حساب و کتاب کے مال خرچ کرے گا کیونکہ اس کی طبعی سخاوت کے ساتھ ساتھ اموال وغنائم کی بھی کثرت ہو گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3117

 
 
Hadith   188   الحديث
الأهمية: ليأتين على الناس زمان يطوف الرجل فيه بالصدقة من الذهب فلا يجد أحدا يأخذها منه، ويرى الرجل الواحد يتبعه أربعون امرأة يلذن به من قلة الرجال وكثرة النساء


Tema:

لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہو گا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی؛ ایسا مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ہوگا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لَيَأْتِيَنَّ على الناس زمانٌ يَطُوفُ الرجلُ فيه بالصدقة من الذهب فلا يجد أحدا يأخذها منه، ويُرَى الرجلُ الواحدُ يَتْبَعُهُ أربعون امرأة يَلُذْنَ به من قِلَّةِ الرجال وكَثْرَةِ النساء».

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہو گا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی؛ ایسا مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت کی وجہ سے ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سيكثر المال بين يدي الناس حتى لا يوجد من يأخذه، وسيقل الرجال ويكثر النساء إما بسبب الحروب الطاحنة وإما لكثرة ولادة النساء، حتى يكون للرجل الواحد أربعون امرأة، من بنات وأخوات وشبههن من القريبات يلتجئن إليه ويستغثن به.
593;ن قریب لوگوں کے یہاں مال کی بہتات ہوگی، یہاں تک کہ اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ نیز مردوں کی کمی اور عورتوں کی کثرت ہوگی؛ ایسا یا تو ہلاکت خیز جنگوں کی وجہ سے ہوگا یا خواتین کی کثرتِ ولادت کی وجہ سے۔ یہاں تک کہ ایک مرد کے پاس چالیس عورتیں ہوں گی، بشمول اس کی بیٹیوں، بہنوں اور دیگر قریبی خواتین وغیرہ کے، جو اس کی پناہ و مدد کی خواست گار ہوں گی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3118

 
 
Hadith   189   الحديث
الأهمية: اشترى رجل من رجل عقارا، فوجد الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب


Tema:

ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی اور زمین خریدنے والے کو اس میں ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: اشترى رجل من رجل عَقَارًا، فوجد الذي اشترى العَقَارَ في عَقَارِه جَرَّةً فيها ذهب، فقال له الذي اشترى العقار: خذ ذهبك، إنما اشتريت منك الأرض ولم أَشْتَرِ الذهب، وقال الذي له الأرض: إنما بِعْتُكَ الأرض وما فيها، فتحاكما إلى رجل، فقال الذي تحاكما إليه: أَلَكُمَا ولد؟ قال أحدهما: لي غلام، وقال الآخر: لي جارية قال: أنكحا الغلام الجارية، وأنفقا على أنفسهما منه وتَصَدَّقَا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی، اتفاقا خریدنے والے کو اس میں ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا۔ اس نے بیچنے والے سے کہا: اپنا سونا لے جاؤ۔ کیوں کہ میں نے تم سے زمین خریدی ہے، سونا نہیں۔ لیکن پہلے مالک نے کہا :میں نے تم سے زمین، اس میں موجود تمام اشیا سمیت بیچ دی ہے۔ چنانچہ دونوں کسی تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا: کیا تمھاری کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ دونوں کا نکاح کر دو اور سونا ان پر خرچ بھی کرو اور صدقہ بھی کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن رجلاً اشترى من رجل أرضا فوجد المشتري بها ذهبا ولشدة ورعه رد هذا الذهب إلى البائع؛ لأنه اشترى الأرض ولم يشتر الذهب الذي أودع فيه، فأبى البائع أيضا أن يأخذه؛ لشدة تحريه وورعه, ولأنه باع الأرض بما فيها، فاختصما وقالا للقاضي: ابعث من يقبضه وتضعه حيث رأيت، فامتنع, فسألهما هل عندهما أولاد؟ فأخبر أحدهما أن عنده غلام، وأخبر الآخر أن عنده جارية، فاقترح عليهما أن يزوج الشاب البنت وينفق عليهما من هذا الذهب وأن يتصدقا منه.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ ایک آدمی نے کسی سے زمین خریدی تو خریدار کو اس میں ایک سونے کا گھڑا ملا۔ اپنے تقویٰ کی وجہ سے اس نے یہ سونا بیچنے والے کو لوٹا دیا؛ کیوں کہ اس نے زمین خریدی تھی، اس میں موجود سونا نہیں۔ لیکن بیچنے والے نے بھی اپنے احتیاط کامل اور پرہیز گاری کی بنا پر لینے سے انکار کردیا۔ انکار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے زمین اس میں موجود تمام چیزوں سمیت بیچی تھی۔ دونوں کا اختلاف ہوا تو دونوں نے قاضی سے کہا: آپ کسی آدمی کو بھیجیے جو اس پر قبضہ کرلے۔ اس کے بعد جسے چاہیں دے دیں۔ لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیااور پوچھا: کیا تمھاری کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ اس نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ دونوں کا نکاح کر دو اور سونا ان پر خرچ بھی کرو اور اس میں سے خیرات بھی کرو۔   --  [صحیح]+ +[متعدد روایات کے ساتھ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3119

 
 
Hadith   190   الحديث
الأهمية: كانت امرأتان معهما ابناهما، جاء الذئب فذهب بابن إحداهما


Tema:

دو عورتوں جن کے ساتھ ان کے دو بچے تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: كانت امرأتان معهما ابناهما، جاء الذئب فذهب بابن إحداهما، فقالت لصاحبتها: إنما ذهب بابنك، وقالت الأخرى: إنما ذهب بابنك، فتحاكما إلى داود -صلى الله عليه وسلم- فقضى به للكبرى، فخرجتا على سليمان بن داود -صلى الله عليه وسلم- فأخبرتاه، فقال: ائتوني بالسكين أَشُقُّهُ بينهما، فقالت الصغرى: لا تفعل! رحمك الله، هو ابنها، فقضى به للصغرى.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”دو عورتوں جن کے ساتھ ان کے دو بچے تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔ اس نے اپنی سہیلی سے کہا کہ تیرے بچے کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہے۔ دوسری نے کہا کہ وہ تیرے بچے کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ فیصلے کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو انھوں نے بڑی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہاں سے نکلیں اور حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان کو سارا ماجرا سنایا۔ انھوں (سلیمان علیہ السلام) نے فرمایا: مجھے چھری دو اس کو درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ چھوٹی کہنے لگی کہ اللہ آپ پر رحم کرے ! ایسا نہ کرنا یہ اسی کا بیٹا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا نبينا -صلى الله عليه وسلم- عن قصة امرأتين خرجتا بابنين لهما فأكل الذئب ابن واحدة منهما وبقي ابن الأخرى، فقالت كل واحدة منهما إنه لي، فتحاكمتا إلى داود -عليه السلام- فقضى به للكبرى منهما اجتهادا منه؛ لأن الكبرى ربما تكون قد توقفت عن الإنجاب، أما الصغرى شابة وربما تنجب غيره في المستقبل، ثم خرجتا من عنده إلى سليمان -عليه السلام- ابنه، فأخبرتاه بالخبر فدعا بالسكين، وقال: أشقه بينكما نصفين، فأما الكبرى فرحبت وأما الصغرى فرفضت، وقالت هو ابن الكبرى، أدركتها الشفقة والرحمة لأنه ابنها حقيقة فقالت هو ابنها يا نبي الله، فقضى به للصغرى ببينة وقرينة كونها ترحم هذا الولد وتقول هو للكبرى ويبقى حيا أهون من شقه نصفين، فقضى به للصغرى.
606;بی کریم ﷺ نے دو عورتوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنےبیٹوں کو لے کر باہر نکلیں تو ان میں سے ایک کے بچے کو بھیڑیا کھا گیا اور ایک کا بچ گیا۔ دونوں یہ کہنے لگیں کہ جو بچ گیا ہے یہ میرا بچہ ہے۔ وہ دونوں فیصلے کے لیے حضر ت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو انھوں نے اجتہاد کرتے ہوئے فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا ۔کیوں کہ ممکن تھا کہ بڑی اب بچہ نہ جن سکے، جب کہ چھوٹی ابھی جوان تھی اور امید تھی کہ مستقبل میں وہ اور بچہ جن لے گی۔ وہ وہاں سے نکلیں اور بچے کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آ گئیں اور ان کو سارا واقعہ سنایا۔ انھوں نے چھری منگوائی اور کہا کہ میں اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں(کہ آدھا آدھا لے لو)۔ بڑی رضا مند ہو گئی جب کہ چھوٹی نے اپنا دعویٰ چھوڑ دیا اور اس کی شفقت اور رحمت غالب آئی کیوں کہ وہ حقیقتاً اس کا بچہ تھا تو وہ کہنے لگی اے اللہ کے نبی! یہ اسی کا بیٹا ہے۔ تو انھوں نے دلیل اور قرینے کی موجودگی میں چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ کیوں کہ اس کا بچے پر رحم کھانا اور یہ کہنا کہ یہ بڑی کا ہی بچہ ہے اور اس کا زندہ رہنا اس کے دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بہتر تھا۔ تو انھوں نے فیصلہ چھوٹی کے حق میں کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3120

 
 
Hadith   191   الحديث
الأهمية: يذهب الصالحون الأول فالأول، ويبقى حثالة كحثالة الشعير أو التمر لا يباليهم الله بالةً


Tema:

نیک لوگ یکے بعد دیگر گزر جائیں گے اور پھر گھٹیا جَو یا گھٹیا کھجور کی طرح کے کچھ لوگ رہ جائیں گے، جن کی اللہ تعالی کو کچھ بھی پروا نہ ہو گی۔

عن مرداس الأسلمي -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «يذهب الصالحون الأول فالأول، ويبقى حُثَالَةٌ كَحُثَالَةِ الشعير أو التمر لا يُبَالِيهُم الله بَالَةً».

مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”نیک لوگ یکے بعد دیگر گزر جائیں گے اور پھر گھٹیا جَو یا گھٹیا کھجور کی طرح کے کچھ لوگ رہ جائیں گے، جن کی اللہ تعالی کو کچھ بھی پروا نہ ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أنه في آخر الزمان يقبض الله أرواح الصالحين، ويبقى أناس ليسوا أهلًا للعناية، فلا يرفع الله لهم قدراً ولا يقيم لهم وزناً ولا يرحمهم ولا ينزل عليهم الرحمة وهم شرار الخلق عند الله وعليهم تقوم الساعة.
606;بی کریم ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ قرب قیامت میں اللہ تعالی نیک لوگوں کی روحیں قبض فرما لیں گے اور پھر ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے، جو کسی اہتمام وتوجہ کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالی نہ انھیں کوئی قدر و قیمت اور وقعت دے گا اور نہ ان پر رحمت نازل کرے گا۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین لوگ ہوں گے اور انہی پر قیامت آئے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3121

 
 
Hadith   192   الحديث
الأهمية: الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل


Tema:

آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَن النبيَّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُر أَحَدُكُم مَنْ يُخَالِل».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہو تا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- أنَّ الإنسان على عادة صاحبه وطريقته وسيرته؛ فالاحتياط لدينه وأخلاقه أن يَتَأمَّل وينظر فيمن يصاحبه، فمن رضِي دينه وخلقه صاحبه، ومن لا تجَنَبَه، فإنَّ الطباع سرَّاقة والصُحبَة مُؤثِّرة في إصلاح الحال وإفساده.
فالحاصل أن هذا الحديث يدل على أنه ينبغي للإنسان أن يصطحب الأخيار؛ لما في ذلك من الخير.
575;بوھریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انسان وہی طور طریقے اور طرز زندگی اختیار کرتا ہے، جو اس کے ساتھی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دین واخلاق کے معاملے میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس بات میں خوب غور وفکر کرے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنا رہا ہے۔ اسے چاہئے کہ جس شخص کا دینی واخلاقی کردار اسے پسند آئے، اسے وہ دوست رکھے اور جس کا دینی واخلاقی کردار پسند نہ آئے اس سے دور رہے۔ طبیعتیں نقال ہوتی ہیں اور صحبت اصلاح حال یا اسے بگاڑنے میں اثر انداز ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو دوست بنائے؛ کیوں کہ اسی میں بہتری ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3122

 
 
Hadith   193   الحديث
الأهمية: لو قد جاء مال البحرين أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا


Tema:

اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا۔

عن جابر -رضي الله عنه- قَالَ: قال لِي النبي -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «لَوْ قدْ جَاءَ مَال البَحرين أَعْطَيتُكَ هَكَذَا وهكذا وهكذا»، فَلَمْ يَجِئْ مَالُ البَحرَينِ حَتَّى قُبِضَ النَّبي -صلَّى الله عليه وسلَّم- فلمَّا جَاء مَالُ البحرينِ أمر أبو بكر -رضي الله عنه- فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِندَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- عِدَةٌ أَو دَينٌ فَلْيَأتِنَا، فَأَتَيتُهُ وقُلتُ لَهُ: إِنَّ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- قال لِي كَذَا وكذا، فَحَثَى لِي حَثِيَّةً فَعَدَدتُهَا، فَإِذَا هِيَ خَمسُمِئَةٍ، فَقَال لي: خُذْ مِثلَيهَا.

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال نہیں آیا یہاں تک کہ آپﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر جب وہ مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرایا کہ جس شخص سے نبیﷺ نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو یا نبیﷺ پر (اس کا) کوئی قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چناچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ رسول الله ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا اگر بحرین سے مال آگیا تو میں تمہیں اتنا اور اتنا دوں گا۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنے دونوں ہاتھ بھر کر مجھ کو عطا فرمایا، میں نے اس کو شمار کیا تو وہ (تعداد میں) پانچ سو تھے، پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح دو مرتبہ اور لے لو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- في هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وعده إن جاء مال البحرين أن يعطيه منه نصيبًا وافرًا, فجاء مال البحرين في خلافة أبي بكر بعد أن توفي الرسول -عليه الصلاة والسلام- فقال -رضي الله عنه-: "من كان له عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عِدَة أو دين فليأت"، عدة: يعني وعد أو دين على الرسول -عليه الصلاة والسلام-؛ لأنه ربما يكون الرسول اشترى من أحد شيئا فلزمه دين، أو وعد أحدا شيئا، فجاء جابر -رضي الله عنه- إلى أبي بكر -رضي الله عنه-، وقال: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لو جاء مال البحرين لأعطيتك هكذا وهكذا وهكذا"، فقال: خذ فأخذ بيديه من المال، فعدها فإذا هي خمسمائة، فقال أبو بكر: "خذ مثيلها"؛ لأن الرسول قال هكذا وهكذا وهكذا ثلاث مرات، فأعطاه أبو بكر -رضي الله عنه- العدة التي وعده إياها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
575;س حدیث میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہہ رہے ہیں کہ نبیﷺ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین کا مال آجائے تو انھیں اس مال سے ایک بڑا حصہ عطا کریں گے۔ نبیﷺ کی وفات کے بعد جب بحرین کا مال ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آیا تو آپ نے اعلان کیا کہ جس کسی سے نبیﷺ نے کوئی وعدہ کیا ہو یا نبیﷺ کا کوئی قرض ہو تو وہ حاضر ہو، ”عِدَۃٌ“ سے مراد نبیﷺ کا کوئی وعدہ یا قرض ہے، ہو سکتا ہے کہ نبیﷺ نے کسی سے کچھ خریدا ہو اور وہ قرض باقی ہو یا پھر کسی سے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ نبیﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں اتنا‘ اتنا اور اتنا دوں گا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مال دیا جابر رضی اللہ عنہ نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو تھے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی کے دو مثل لے لو، اس لیے کہ نبیﷺ نے کہا تھا اتنا‘ اتنا اور اتنا تین مرتبہ لہٰذا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اتنا ہی عطا کیا جتنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جابر رضی اللہ عنہ سے وعدہ کیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3123

 
 
Hadith   194   الحديث
الأهمية: أهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة غنمًا


Tema:

رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ بطور ہدی (قربانی کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف) بکریاں بھیجی تھیں۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت: «أَهدَى رسول الله صلى الله عليه وسلم مَرَّةً غَنَمًا».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ بطور ہدی (قربانی کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف) بکریاں بھیجی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- عن هدي النبي -صلى الله عليه وسلم-، والهدي هو ما يُهدى إلى مكة من بهيمة الأنعام، تقرباً إلى اللَّه -عز وجل-، ليذبح في الحرم، والهدي إلى مكة سُنة وقربة، وقد أهدى النبي -صلى الله عليه وسلم- غنماً، وأهدى إبلاً, فالسُّنة ذبحها في الحرم تقرباً إلى الله -عز وجل-، وتوزَّع بين الفقراء والمساكين: مساكين الحرم، أما الهدي الذي يجب بالتمتع، والقران، أو بشيء من ترك الواجبات، أو فعل المحرمات، فيُسمَّى فدية وهو هدي واجب، أما هذا الهدي الذي ذكرت عائشة فهو هدي يتطوع به المؤمن من بلاده، أو يشتريه من الطريق ويهديه إلى هناك هدياً بالغ الكعبة يتقرب به إلى الله -عز وجل-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی ہدی کے بارے میں بتا رہی ہیں۔ ہدی سے مراد وہ جانور ہے، جو مکہ کی طرف اللہ کی خوش نودی کے حصول کے لیے بھیجا جاتا ہے؛ تاکہ اسے حرم میں ذبح کیا جائے۔ مکہ مکرمہ کی طرف ہدی کا جانور بھیجنا سنت اور نیکی کا کام ہے۔ نبی ﷺ نے بطور ہدی بھیڑ بکریاں بھی بھیجیں اور اونٹ بھی۔ سنت یہ ہے کہ اللہ کی خوش نودی کی غرض سے ان جانوروں کو حرم میں ذبح کیا جائے اور فقرا اور مساکین حرم میں تقسیم کر دیا جائے۔ وہ ہدی جو حج تمتع یا حج قران یا پھر واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کرنے یا پھر کسی حرام کا ارتکاب کرنے لینے کی وجہ سے لازم ہوتی ہے، اسے فدیہ کہا جاتا ہے۔ یہ ہدی واجب ہوتی ہے۔ جب کہ وہ ہدی جس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا ہے، اسے مؤمن اپنے علاقے سے بطور نفل پیش کرتا ہے یا پھر راستے میں اسے خریدتا ہے اور حرم کعبہ تک پہنچا دیتا ہے اور اس سے اس کی نیت اللہ عز و وجل کی خوش نودی ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3124

 
 
Hadith   195   الحديث
الأهمية: الخازن المسلم الأمين الذي ينفذ ما أمر به فيعطيه كاملا موفرا طيبة به نفسه فيدفعه إلى الذي أمر له به، أحد المتصدقين


Tema:

مسلمان امانت دار خزانچی جسے کسی چیز کے دینے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے اسے پوری طرح بنا کسی کمی کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے جسے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو تو اس کا شمار صدقہ کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- أَنَّهُ قَالَ: «الخَاِزنُ المسلم الأمين الَّذِي يُنْفِذُ ما أُمِرَ بِهِ فَيُعْطِيهِ كَامِلاً مُوَفَّراً طَيِّبَةً بِهِ نَفسُهُ فَيَدْفَعُه إلى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ، أَحَدُ المُتَصَدِّقِين».
وفي رواية: «الذي يُعطِي مَا أُمِرَ به».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” مسلمان امانت دار خزانچی جسے کسی چیز کے دینے کا حکم دیا جائے اور وہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے اسے پوری طرح بنا کسی کمی کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے جسے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو تو اس کا شمار صدقہ کرنے والوں میں سے ہوتا ہے“۔
اور ایک روایت میں ہے ”جو شخص وہ چیزیں دیتا ہے جسے دینے کا اُسے حکم دیا گیا ہو“۔


فهو مسلم احترازا من الكافر، فالخازن إذا كان كافرا وإن كان أمينا وينفذ ما أمر به ليس له أجر؛ لأن الكفار لا أجر لهم في الآخرة فيما عملوا من الخير، قال الله تعالى: (وقدمنا إلى ما عملوا من عمل فجعلناه هباء منثورا)، وقال تعالى: (ومن يرتدد منكم عن دينه فيمت وهو كافر فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة وأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون)، أما إذا عمل خيرا ثم أسلم فإنه يسلم على ما أسلف من خير ويعطى أجره.
الوصف الثاني: الأمين يعني الذي أدى ما ائتمن عليه، فحفِظ المال، ولم يفسده، ولم يفرط فيه، ولم يعتد فيه.
الوصف الثالث: الذي ينفذ ما أمر به يعني يفعله؛ لأن من الناس من يكون أمينا لكنه متكاسل، فهذا أمين ومنفذ يفعل ما أمر به، فيجمع بين القوة والأمانة.
الوصف الرابع: أن تكون طيبة به نفسه، إذا نفذ وأعطى ما أمر به أعطاه وهو طيبة به نفسه، يعني لا يمن على المعطَى، أو يظهر أن له فضلا عليه بل يعطيه طيبة به نفسه، فهذا يكون أحد المتصدقين مع أنه لم يدفع من ماله فلسا واحدا.

Esin Hadith Caption Urdu


”الخازن“ مبتدا ہے اور ”أحد المتصدقين“خبر ہے۔ یعنی وہ خزانچی جس میں یہ چار اوصاف موجود ہوں یعنی اسلام، امانت، جس چیز کی ادائیگی کا اُسے حکم دیا جائے وہ اس کی تنفیذ کرے، اور یہ کہ جس وقت وہ خرچ کرے اور دے تو انشراح قلب، چہرے کی بشاشت اور خوشی سے دے۔
مسلمان ہونے کی قید میں کافر سے احتراز ہے۔ اگر خزانچی کافر ہو تو اسے کوئی اجر نہیں ملتا اگرچہ وہ امانت دار ہی کیوں نہ ہو اور جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے پورا ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ کیونکہ کفار جو اچھے اعمال کرتے ہیں ان کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾ ترجمہ:”اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا“۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾۔ ترجمہ:”اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے“۔تاہم نیک اعمال کرنے کے بعد اگر وہ اسلام لے آئے تو اس نے جو پہلے نیکیاں کی ہوتی ہیں ان کے ساتھ وہ اسلام لاتا ہے اور ان پر اسے اجر دیا جاتا ہے (یعنی اُس کی زمانۂ کفر کی نیکیوں کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے)۔
دوسری صفت: امانت دار۔ یعنی جس شے کی اسے امانت سونپی گئی ہو اسے وہ پورا کرے۔ مال کی حفاظت کرے، اسے خراب نہ کرے، اس میں افراط نہ برتے اور نہ ہی اس میں کوئی بے جا تصرف کرے۔تیسری صفت: جس بات کا اسے حکم دیا جائے اسے وہ بجا لائے یعنی اسے انجام دے۔ کیونکہ بعض اوقات کوئی شخص امین تو ہوتا ہے لیکن سست ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ شخص امین بھی ہے اور جس کام کا اسے حکم دیا جاتا ہے اسے پورا کرنے والا بھی ہے۔ چنانچہ اس میں قوت اور امانت دونوں صفات موجود ہیں۔
چوتھی صفت: جس بات کا اس کو حکم دیا جائے اس کی انجام دہی کے وقت اور جس شے کو دینے کا اسے کہا گیا ہو اسے دیتے وقت وہ خوش دل ہو یعنی جسے دے اس پر احسان نہ جتلائے اور نہ ہی اس پر یہ ظاہر کرے کہ وہ اس پر فضیلت رکھتا ہے بلکہ خوشدلی کے ساتھ اسے دے۔ یہ شخص صدقہ کرنے والوں میں سے گردانا جائے گا حالانکہ اس نے اپنے مال میں سے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3125

 
 
Hadith   196   الحديث
الأهمية: كان أخوان على عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- وكان أحدهما يأتي النبي -صلى الله عليه وسلم- والآخر يحترف، فشكا المحترف أخاه للنبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: لعلك ترزق به


Tema:

نبی ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور دوسرا کوئی کام کرتا تھا۔ کام کرنے والے نے اپنے بھائی کی نبی ﷺ کے حضور شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان أخوانِ على عهد النبي -صلى الله عليه وسلم- وكان أحدُهما يأتي النبي -صلى الله عليه وسلم- والآخر يَحتَرِف، فَشَكَا الُمحتَرِف أَخَاه للنبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: «لعَلَّك تُرزَقُ بِهِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور دوسرا کوئی کام کرتا تھا۔ کام کرنے والے نے اپنے بھائی کی نبی ﷺ کے حضور شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حدَّث أنس -رضي الله عنه- فقال: كان أخوان على زمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فكان أحدهما يأتي مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم-  ويلازمه ليتلقى من معارفه ويأخذ من أقواله وأفعاله، وأمَّا الآخر فيحترف الصناعة ويسعى في الكسب، فشكا المحترف أخاه في ترك الاحتراف إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال -صلى الله عليه وسلم- مسليًا له: لعل قيامك بأمره سبب لتيسير رزقك؛ لأن الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه.
575;نس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو آپ ﷺ کی مجلس میں آیا کرتا اور علم کے حصول اور آپ ﷺ کے اقوال و افعال سیکھنے کے لیے ہمہ وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتا، جب کہ دوسرا کوئی کام کاج کرتا اور روزی کماتا تھا۔ اس کام کاج کرنے والے نے نبی ﷺ کے حضور اپنے بھائی کی شکایت کی کہ وہ کام نہیں کرتا۔ اس پر آپ ﷺ نےا سے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی دیکھ بھال اور کفالت کرنا تمھارے لیے تمھارے رزق کے حصول میں آسانی کا باعث ہو۔ کیوں کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، تب تک اللہ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3126

 
 
Hadith   197   الحديث
الأهمية: إنما مثل الجليس الصالح وجليس السوء، كحامل المسك، ونافخ الكير


Tema:

اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنے والا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إنما مَثَلُ الجَلِيسِ الصالحِ وجَلِيسِ السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، ونَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إما أنْ يُحْذِيَكَ، وإما أنْ تَبْتَاعَ منه، وإما أن تجد منه رِيحًا طيبةً، ونَافِخُ الكِيرِ: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه رِيحًا مُنْتِنَةً».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنے والا۔ عطر فروش یا تو تمھیں عطر تحفے میں دے دے گا یا پھر تم اس سے خرید لو گے یا ( کم از کم )تمھیں ا س سے خوش بو تو آئے گی ہی۔ جب کہ بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا ڈالے گا یا پھر تمھیں اس سے بد بو آئے گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حَثَّ رسولنا -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث المسلم على ضرورة اختيار الصحبة الطيِّبة، فأخبر -عليه الصلاة والسلام- أن مثل الجليس الصالح كحامل المسك: إما يعطيك منه مجانا، وإما أن تشتري منه، وإما أن تجد منه رائحة طيبة، أما الجليس السوء والعياذ بالله فإنه كنافخ الكير: إما أن يحرق ثيابك بما يتطاير عليك من شرر النار، وإما أن تجد منه رائحة كريهة.
729;مارے پیارے رسول ﷺ نے اس حدیث میں اچھی صحبت اپنانے کی ترغیب دی اور بتایا کہ اچھے ہم نشیں کی مثال عطر فروش کے جیسی ہے۔ یا تو وہ مفت میں آپ کو خوش بو دے دیتا ہے یا پھر آپ اس سے خوش بو خرید لیتے ہیں یا پھر آپ کو اس سے ویسے ہی خوشبو آتی رہتی ہے۔ جب کہ برا ہم نشیں بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ یا تو اڑ اڑ کر آپ پر گرنے والی چنگاریوں سے وہ آپ کے کپڑے جلا ڈالتا ہے یا پھر آپ کو اس سے ناگوار بدبو آتی رہتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3127

 
 
Hadith   198   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يسبح على ظهر راحلته، حيث كان وجهه، يومئ برأسه، وكان ابن عمر يفعله


Tema:

رسول الله آ اپنی اونٹنی پر نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا رخ جس جانب بھی ہوتا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُسَبِّحُ على ظَهرِ رَاحِلَتِه حَيثُ كان وَجهُهُ، يُومِئُ بِرَأسِهِ، وكَان ابنُ عُمرَ يَفعَلُهُ».
وفي رواية: «كان يُوتِرُ على بَعِيرِه».
ولمسلم: «غَيرَ أنَّه لا يُصَلِّي عَليهَا المَكتُوبَة».
وللبخاري: «إلا الفَرَائِض».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ”رسول الله ﷺ اپنی اونٹنی پر نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا رخ جس جانب بھی ہوتا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: آپ ﷺ اپنے اونٹ پر ہی وتر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”تاہم آپ ﷺ فرض نماز سواری پر نہیں پڑھا کرتے تھے“۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ”سواے فرائض کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان -صلى الله عليه وسلم- يصلي النافلة فقط على ظهر راحلته حيث توجَّهت به، ولو لم تكن تجاه القبلة، ويومئ برأسه إشارة إلى الركوع والسجود، ولا يتكلف النزول إلى الأرض؛ ليركع ويسجد ويستقبل القبلة، ولا فرق بين أن تكون نفلا مطلقا، أو من الرواتب أو من الصلوات ذوات الأسباب، ولم يكن يفعل ذلك في صلوات الفريضة، وكذلك كان يوتر على بعيره.
606;بی ﷺ صرف نفل نماز اپنی سواری پر پڑھا کرتے تھے، چاہے وہ آپ ﷺ کوجس جانب بھی لے جا رہی ہوتی اور اگرچہ وہ قبلہ رخ نہ بھی ہوتی۔ اپنے سر کے اشارے سے رکوع و سجدہ کرلیتے۔ رکوع، سجدہ اور قبلہ رو ہونے کے لیے اپنی سواری سے نیچے کا تکلف نہیں فرماتے تھے۔ چاہے نماز مطلق نفل ہوتی، سنت موکدہ ہوتی یا پھر کسی سبب کی وجہ سے پڑھی جانے والی کوئ نماز ہوتی۔ البتہ فرض نمازوں میں آپ ﷺ ایسا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ وتر بھی اپنے اونٹ پر ہی ادا کر لیا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3128

 
 
Hadith   199   الحديث
الأهمية: لقد كنت على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- غلامًا، فكنت أحفظ عنه، فما يمنعني من القول إلا أن هاهنا رجالا هم أسن مني


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور میں آپ ﷺ سے (سن کر) یاد کرلیا کرتا تھا۔ (ان احادیث کو) بیان کرنے میں میرے لیے سوائے اس کے کوئی شے مانع نہیں ہوتی تھی کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔

عن سمرة بن جندب -رضي الله عنه- قال: لقد كنت على عَهْدِ رسولِ الله -صلى الله عليه وسلم- غُلاما، فكنت أحفظ عنه، فما يمنعني من القول إلا أن هاهنا رِجَالًا هم أَسَنُّ مِنِّي.

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے دور میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور میں آپ ﷺ سے (احادیث سن کر) یاد کر .لیا کرتا تھا۔ (ان احادیث کو) بیان کرنے میں میرے لیے سوائے اس کے کوئی شے مانع نہیں ہوتی تھی کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر سمرة بن جندب -رضي الله عنه- أنه كان صغير السن في زمن النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان يحفظ بعض أقواله -صلى الله عليه وسلم-، وما كان يمنعه من التحديث بها إلا أن هناك من هو أكبر منه سنا.
587;مرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں وہ کم سن تھے اور وہ آپ ﷺ کے بعض فرمودات کو ذہن نشین کر لیا کرتے تھے، جنھیں بیان کرنے سے انھیں بس یہ بات روکتی تھی کہ یہاں ان سے بڑی عمر کے لوگ موجود ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3130

 
 
Hadith   200   الحديث
الأهمية: أراني في المنام أتسوك بسواك، فجاءني رجلان، أحدهما أكبر من الآخر، فناولت السواك الأصغر، فقيل لي: كبر، فدفعته إلى الأكبر منهما


Tema:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں۔ اسی درمیان دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی، مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دے دی۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما-  أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «أراني في المنام أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ، فجاءني رجلان، أحدهما أكبر من الآخر، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الأصغرَ، فقيل لي: كَبِّرْ، فَدَفَعْتُهُ إلى الأكبر منهما».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں۔ اسی درمیان دو آدمی میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی، مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دے دی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- في النوم أنه كان يَتَسَوَّك بسواك، فجاءه رجلان أحدهما أكبر من الآخر، فأراد أن يعطيه إلى الأصغر منهما، فقيل له: قدم الأكبر في الإعطاء، فأعطاه إلى الكبير منهما.
606;بی ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کر رہے ہیں۔ اسی دوران آپ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے؛ جن میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ آپ ﷺ نے مسواک ان میں سےچھوٹے کو دینا چاہا، لیکن آپ ﷺ کو کہا گیا کہ دینے میں بڑے کو مقدم رکھیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے وہ ان میں سے بڑے کو دے دی۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسے صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3131

 
 
Hadith   201   الحديث
الأهمية: فتلت قلائد هدي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ثم أشعرتها وقلدها -أو قلدتها- ثم بعث بها إلى البيت، وأقام بالمدينة، فما حرم عليه شيء كان له حلًّا


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹے ،پھر انھیں نشان زد کیا اور آپ ﷺ نے انھیں قلادے پہنائے - یا (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) میں نے قلادے پہنائے-، پھر آپ ﷺ نے انھیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مدینے میں ہی ٹھہرے رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ پر کوئی بھی ایسی شے حرام نہیں ہوئی جو آپ ﷺ کے لیے حلال تھی۔

عائشة -رضي الله عنها- قالت: «فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رسولِ الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم أَشْعَرْتُها وَقَلَّدَهَا -أو قَلَّدْتُها-، ثم بعث بها إلى البيت، وأقام بالمدينة، فما حَرُمَ عليه شيءٌ كان له حِلًّا».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں: ”میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹے، پھر انھیں نشان زد کیا اور آپ ﷺ نے انھیں قلادے پہنائے- یا (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) میں نے قلادے پہنائے-، پھر آپ ﷺ نے انھیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مدینے میں ہی ٹھہرے رہے۔ چنانچہ آپ ﷺ پر کوئی بھی ایسی شے حرام نہیں ہوئی، جو آپ ﷺ کے لئے حلال تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يعظم البيت العتيق ويقدسه، فكان إذا لم يصل إليه بنفسه بعث إليه الهدي؛ تعظيما له، وتوسعة على جيرانه، وكان إذا بعث الهدي أشعرها وقلدها؛ ليعلم الناس أنها هدي إلى البيت الحرام؛ فيحترموها، ولا يتعرضوا لها بسوء، فذكرت عائشة -رضي الله عنها- -تأكيدا للخبر-: أنها كانت تفتل قلائدها. وكان إذا بعث بها -وهو مقيم في المدينة- لا يجتنب الأشياء التي يجتنبها المحرم من النساء، والطيب، ولبس المخيط ونحو ذلك، بل يبقى محلا لنفسه كل شيء كان حلالا له.
606;بی ﷺ بیت اللہ کی بہت تعظیم و تکریم کر تے تھے۔ جب آپ ﷺخود اس تک نہ پہنچ پاتے، تو اس کی تعظیم اور اس کے باشندوں پر فراخی کے لیے اس کی طرف ہدی کے جانور بھیج دیتے تھے۔ جب آپ ﷺ ہدی کے جانور بھیجتے تو انھیں نشان زد کر دیتے اور قلادے پہنا دیتے؛ تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ یہ بیت الحرام کی طرف جانے والے ہدی کے جانور ہیں اور یہ جان کر وہ ان کا احترام کریں اور انھیں کوئی گزند نہ پہنچائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بات میں تاکید پیدا کرنے کے لیے بیان کرتی ہیں کہ وہ ان ہدی کے جانوروں کے قلادے خود بٹا کرتی تھیں اور نبی ﷺ جب انھیں بھیج دیتے اور خود مدینے میں ہی مقیم ہوتے، تو آپ ﷺ ان اشیا سے اجتناب نہیں کرتے تھے، جن سے مُحرم شخص اجتناب کرتا ہے۔ یعنی عورتوں سے مباشرت، خوش بو اور سلے ہوئے کپڑے وغیرہ سے، بلکہ آپ ﷺ اپنے لیے ہر وہ شے حلال رکھتے، جو اس سے پہلے آپ ﷺ کے لیے حلال ہوتی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3132

 
 
Hadith   202   الحديث
الأهمية: إن الله قد أوجب لها بها الجنة، أو أعتقها بها من النار


Tema:

اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا اسے جہنم سے آزاد کردیا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: جَاءَتنِي مِسْكِينَة تَحمِل ابنَتَين لها، فَأَطْعَمْتُها ثَلاثَ تَمَرَات، فَأَعْطَت كُلَّ وَاحِدَة مِنْهُما تَمْرَة وَرَفَعت إِلَى فِيهَا تَمْرَة لِتَأكُلَها، فَاسْتَطْعَمَتْها ابْنَتَاهَا، فَشَقَّت التَّمْرَة التي كانت تريد أن تَأْكُلَها بينهما، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرت الذي صَنَعَتْ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «إِنَّ الله قَدْ أَوجَبَ لَهَا بِهَا الجَنَّة، أَو أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّار».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بچیاں اٹھا رکھی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں۔ اس عورت نے ان میں سے ہر ایک کو ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی۔ اسی اثناء میں اس کی دونوں بیٹیوں نے اس سے کھانے کے لیے مانگا۔ وہ کھجور جسے وہ کھانا چاہ رہی تھی اس نے اس کے دو حصے کر کے دونوں کے مابین اسے تقسیم کردیا۔ مجھے اس کے اس عمل نے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس کے اس فعل کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا اسے جہنم سے آزاد کردیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُصَوِّر حديث عائشة -رضي الله عنها- معلمًا جديدًا من رحمة الكبار بالصغار، حيث قالت: جاءتني مسكينة تحمل ابنتين لها فأطعمتها ثلاث تمرات: أي فأعطتها ثلاث تمرات، فما كان من المرأة المسكينة إلا أن أعطت إحدى البنتين واحدة، والثانيةَ التمرةَ الأخرى، ثم رفعت الثالثة إلى فيها لتأكلها، فاستطعمتاها: يعني أن البنتين نظرتا إلى التمرة التي رفعتها الأم ـ فلم تطعمها الأم بل شقتها بينهما نصفين، فأكلت كل بنت تمرة ونصفا والأم لم تأكل شيئًا. فذكرت عائشة -رضي الله عنها- ذلك للرسول -صلى الله عليه وسلم- وأخبرته بما صنعت المرأة، فأخبرها: "أن الله أوجب لها بها الجنة، أو أعتقها بها من النار" يعني: لأنها لما رحمتهما هذه الرحمة العظيمة أوجب الله لها بذلك الجنة.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بڑوں کی چھوٹوں پر شفقت کی ایک نشانِ راہ پیش کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بچیوں کو اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں۔ اس مسکین عورت نے ایک بیٹی کو ایک کھجور دے دی اور دوسری کو دوسری۔ پھر تیسری کو اٹھا کر وہ کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی کہ اسی دوران ان دونوں نے اسے کھانے کے لیے مانگ لیا۔ یعنی یہ دونوں بچیاں اس کھجور کو دیکھ رہی تھیں جسے ان کی ماں نے اٹھایا تھا۔ چنانچہ ماں نے اسے خود نہ کھایا بلکہ اس کے دو حصے کر کے ان دونوں کے مابین تقسیم کر دیا۔ یوں ہر بچی نے ڈیڑھ کھجور کھا لی اور ماں نے کچھ بھی نہ کھایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کو آپ ﷺ کے سامنے ذکر کیا اور عورت نے جو کچھ کیا تھا اسے آپ ﷺ کو بتایا۔ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ: "اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی اور اسے دوزخ سے نجات دے دی۔" یعنی چونکہ اس نے اس بہت بڑی رحمدلی کا مظاہرہ کیا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3133

 
 
Hadith   203   الحديث
الأهمية: الساعي على الأرملة والمسكين، كالمجاهد في سبيل الله


Tema:

بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «السَّاعِي على الأَرْمَلَةِ والمِسْكِينِ، كالمُجَاهِدِ في سبيل الله». وأَحْسَبُهُ قال: «وكالقائم الذي لا يَفْتُرُ، وكالصائم الذي لا يُفْطِرُ».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے“۔ راوی کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں یہ بھی کہا تھا؛ ”اس نماز میں کھڑے رہنے والے شخص کی طرح ہے، جو تھکتا ہی نہ ہو اور اس لگاتار روزہ رکھنے والے کی طرح ہے، جو افطار ہی نہ کرتا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الذي يقوم بمصالح المرأة التي مات عنها زوجها، والمسكين المحتاج وينفق عليهم، هو في الأجر كالمجاهد في سبيل الله، وكالقائم في صلاة التهجد الذي لا يتعب من ملازمة العبادة، وكالصائم الذي لا يفطر.
570;پ ﷺ فرماتے ہیں کہ بیوہ عورت، مسکین محتاج کا خیال رکھنے والا اور ان پر خرچ کرنے والا ثواب کے معاملے میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد کی طرح ہے اور اس شخص کی طرح ہے، جو رات بھر تہجد کی نماز پڑھتے ہوۓ تھکتا نہ ہو اور اس روزے دار کی طرح ہے، جو افطار نہ کرتا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3135

 
 
Hadith   204   الحديث
الأهمية: فإني رسولُ الله إليك بأنَّ الله قد أَحَبَّكَ كما أَحْبَبْتَهُ فيه


Tema:

میں تمھارے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اللہ بھی تم سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے تم اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتے ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «أن رجلا زَارَ أخًا له في قرية أخرى، فأَرْصَدَ الله -تعالى- على مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا، فلما أتى عليه، قال: أين تريد؟ قال: أريد أخًا لي في هذه القرية، قال: هل لك عليه من نعمةٍ تَرُبُّهَا عليه؟ قال: لا، غيرَ أني أَحْبَبْتُهُ في الله -تعالى-، قال: فإني رسولُ الله إليك بأنَّ الله قد أَحَبَّكَ كما أَحْبَبْتَهُ فيه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص اپنے بھائی کی زیارت کے لیے دوسری بستی گیا، تو اللہ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو بیٹھا دیا، جب وہ شخص اس جگہ پہنچا، تو فرشتے نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس بستی میں میرا ایک بھائی رہتا ہے، اُسی سے ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا کہ کیا تمھارے اوپر اُس کا کوئی احسان ہے، جسے تم چکا نا چاہتے ہو؟ اُس نے کہا: نہیں، میں محض اللہ کے لیے اس سے محبت رکھتا ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ میں تمھارے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اللہ بھی تم سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے تم اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتے ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن رجل من الأمم السابقة زار أخا له في قرية أخرى؛ فهيأ الله له ملكا في طريقه يحفظه ويراقبه، فسأله الملك أين هو ذاهب؟ فأخبره أنه ذاهب لزيارة أخ له في الله في هذه القرية، فسأله الملك هل هو مملوكك، أو ولدك، أو غيرهما ممن تلزمهم نفقتك وشفقتك، أو لك عنده مصلحة؟ فأخبره أن لا، ولكني أحبه في الله، وأبتغي بزيارتي مرضاة الله، فأخبره الملك بأنه رسول من الله؛ ليخبره أن الله يحبه كما أحب أخاه في الله.
606;بی ﷺ سابقہ امتوں میں سے ایک آدمی کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ ایک دوسری بستی میں اپنے بھائی کی زیارت کے لیے گیا۔ اللہ تعالی نے اس کے راستے میں اس کی حفاظت اور نگرانی کے لیے ایک فرشتہ متعین کر دیا۔ اس فرشتے نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ اس نے اسے بتایاکہ وہ اللہ کی خاطر اس بستی میں رہنے والے اپنے ایک بھائی سےملنے جا رہا ہے۔فرشتے نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تمھارا غلام ہے یا بیٹا ہے یا تمھارا کوئی اور تعلّق دار ہے، جس کا نفقہ اور جس کے ساتھ شفقت بھرا سلوک کرنا تم پر واجب ہو یا پھر تمھیں اس سے کوئی کام ہے؟ اس شخص نے فرشتے کو بتایا کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے؛ بلکہ میں تو محض اللہ کے لیے اس سے محبت کرتا ہوں اور اس زیارت سے میرا مقصود صرف اور صرف اللہ کی خوش نودی ہے۔ اس پر فرشتے نے اسے بتایا کہ اسے اللہ کی طرف سے اس کے پاس بھیجا گیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ اللہ بھی اس سے ویسے ہی محبت کرتا ہے، جیسے وہ اپنے بھائی سے اللہ کی خاطر محبت کرتاہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3136

 
 
Hadith   205   الحديث
الأهمية: بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع دينه بعرض من الدنيا


Tema:

نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مؤمن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: «بَادِرُوا بالأعمال فِتَنًا كَقِطَعِ الليل المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرجلُ مؤمنا ويُمْسِي كافرا، ويُمْسِي مؤمنا ويُصْبِحُ كافرا، يبيعُ دينه بِعَرَضٍ من الدنيا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف لپکو، ان فتنوں سے پہلے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے؛ (حالت یہ ہوگی کہ) آدمی صبح کے وقت مومن ہوگا، تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مؤمن ہوگا، تو صبح کے وقت کافر۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابتدروا وسارعوا إلى الأعمال الصالحة قبل ظهور العوائق، فإنه ستوجد فتن كقطع الليل المظلم، مدلهمة مظلمة، لا يرى فيها النور، ولا يدري الإنسان أين الحق، يصبح الإنسان مؤمنًا ويمسي كافرًا، والعياذ بالله، ويمسي مؤمنًا ويصبح كافرًا، يبيع دينه بمتاع الدنيا، سواء أكان مالا، أو جاها، أو رئاسةً، أو نساءً، أو غير ذلك.
606;یک اعمال کی طرف سبقت وجلدی کرو، فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے۔ کیوں کہ ایسے فتنے نمودار ہوں گے، جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے۔ انتہائی تاریک۔ جس میں نہ روشنی دکھائی دے گي، نہ انسان حق کا ادراک کرسکے گا۔ حالت یہ ہوگی کہ آدمی صبح کے وقت مؤمن اور شام کو کافر ہو گا۔ (اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے) اور شام کے وقت مؤمن اور صبح کو کافر ہو گا۔ دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔ یہ بیچنا خواہ مال و دولت کے بدلے ہو یا عز و شرف، عہدہ و منصب یا عورت وغیرہ کے بدلے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3138

 
 
Hadith   206   الحديث
الأهمية: كن أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- عنده، فأقبلت فاطمة -رضي الله عنها- تمشي، ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا


Tema:

تمام ازواجِ مطہرات نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں، ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كُنَّ أزواجُ النبي -صلى الله عليه وسلم- عنده، فأقبلت فاطمة -رضي الله عنها- تمشي، ما تُخْطِئُ مِشْيَتُها من مِشْيَةِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا، فلما رآها رَحَّبَ بها، وقال: «مَرْحَبًا بابنتي»، ثم أجلسها عن يمينه أو عن شماله، ثم سَارَّهَا فبكت بُكاءً شديدًا، فلما رأى جَزَعَهَا، سَارَّهَا الثانية فضحكت، فقلتُ لها: خَصَّكِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من بين نسائه بالسِّرَارِ، ثم أنت تَبْكِينَ! فلما قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سألتها: ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قالت: ما كنت لأُفْشِيَ على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِرَّهُ، فلما توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قلتُ: عَزَمْتُ عليك بما لي عليك من الحق، لما حَدَّثْتِنِي ما قال لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فقالت: أما الآن فنعم، أما حين سَارَّنِي في المرة الأولى فأخبرني أن جبريل كان يُعارضه القرآن في كل سنة مرة أو مرتين، وأنه عارضه الآن مرتين، وإني لا أرى الأَجَلَ إلا قد اقترب، فاتقي الله واصبري، فإنه نِعْمَ السَّلَفُ أنا لك، فبكيت بكائي الذي رأيتِ، فلما رأى جَزَعِي سَارَّنِي الثانية، فقال: «يا فاطمة، أما تَرْضَينَ أن تكوني سيدة نساء المؤمنين، أو سيدة نساء هذه الأمة؟» فضحكتُ ضحكي الذي رأيتِ.

اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ تمام ازواجِ مطہرات نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔ جب نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی! مرحبا! پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انھیں بٹھا لیا۔ اس کے بعد چپکے سے ان کے کان میں کچھ کہا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی، اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم میں سے صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں! جب نبی کریم ﷺ اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا تھا؟، انھوں نے کہا کہ :میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ: میرا جو حق آپ پر ہے، اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں جو رسول اللہ ﷺ نے آپ سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہاں،اب بتا سکتی ہوں، جب نبی کریم ﷺ نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ ”جبرائیل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال میرے ساتھ انھوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے، لہذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہنا اور صبر کا دامن تھامے رہنا کیوں کہ میں تمہارے لیے ایک اچھا سَلَفْ (آگے جانے والا) ہوں“۔ اس وقت میرے رونے کی وجہ یہی تھی جسے کہ آپ نے دیکھا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا: ”فاطمہ! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ)اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی تو میں ہنس پڑی جسے آپ نے دیکھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها- أن أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- كن عنده ثم جاءت فاطمة -رضي الله عنها- تعوده في مرضه وشكواه الذي قُبِض فيه، فذكرت أنَّ فاطمة -رضي الله عنها- أقبلت تمشي كأنَّ مشيتها مشية النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكانت عادته -صلى الله عليه وسلم- إذا دخلت عليه بنته فاطمة -رضي الله عنها- قام إليها وقبَّلها وأجلسها في مجلسه، فرحب بها وأجلسها بجانبه.
ثم أخبرت عائشة -رضي الله عنها-: أنه أسر إلى فاطمة -رضي الله عنها- بالقول فبكت بكاء شديدا، فلما رأى حزنها الشديد، أسر إليها بقول آخر فضحكت.
فسألتها عائشة -رضي الله عنها- عن الذي خصها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- به دون نسائه وبكت بسببه.
فقالت: لم أكن لأنشر سر رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
فلما توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أقسمت عائشة -رضي الله عنها- على فاطمة -رضي الله عنها- أن تحدثها بما قال لها الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
فقالت: أما إذا سألتني الآن فسأحدثك، أما بكائي حين أسر إلي بالقول في المرة الأولى، فإنه أخبرني أن جبريل -عليه السلام- كان يدارسه القرآن كل عام مرة أو مرتين، وأنه دارسه مرتين حينها، وظن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن هذا نذير بانتهاء مدة حياته، وأمرني بالتقوى والصبر، وأن ما يترتب على ذلك من شرف السلف لي يعدل ما قد يبدو من جزع الفراق، فبكيت حين رأيتني بكيت، فلما رأى حزني الشديد، بشرني بأني سيدة نساء المؤمنين أو سيدة نساء هذه الأمة، فضحكت ضحكي الذي رأيتيه مني.
وأما ضحكها فجاء هذا الحديث مبيِّنًا ذلك بكونها -رضي الله عنها- سيِّدة نساء أهل الجنة، ومع ذلك فقد اختلفت الروايات فيما سارها به ثانيا وضحكها لذلك على أقوال:
1. أنه إخبار إيَّاها بأنها أول أهله لحوقا به.
2. أنه إخباره إياها بأنها سيدة نساء أهل الجنة، وجعل كونها أول أهله لحوقا به مضموما إلى الأول وهو الراجح.
3. أنه قال لفاطمة إنَّ جبريل أخبرني أنه ليس امرأة من نساء المسلمين أعظم ذرية منك فلا تكوني أدنى امرأة منهن صبرًا.
ولكن يبقى قبل ذلك أنَّ حرص عائشة -رضي الله عنها- على العلم سرَّع من سؤالها لفاطمة -رضي الله عنها- عمَّا حصل في السرار، فما كان من بنت رسول الله إلا أن قالت: "مَا كُنتُ لِأُفشِيَ عَلَى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سِرَّه"، وهو الشاهد من الحديث، فلما زال المحذور بموت النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبرتها من أمر السرار.
وفي الحديث إخباره -صلى الله عليه وسلم- بما سيقع فوقع كما قال، فإنهم اتفقوا على أن فاطمة -عليها السلام- كانت أول من مات من أهل بيت النبي -صلى الله عليه وسلم- بعده حتى قبل أزواجه -رضي الله عنهن-.
575;ُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات، آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں دریں اثنا فاطمہ رضی اللہ عنھا، آپ ﷺ کے مرض الموت کے موقع پر آپ ﷺ کی عیادت کے لیے تشریف لائیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا ذکر کرتی ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا چلتی ہوئی آئیں تو ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی چال، نبی ﷺ کی چال ہے اور آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا تشریف لاتیں تو آگے بڑھ کر ان کا بوسہ لیتے اور اپنی بیٹھک میں انہیں بھی بٹھالیتے، چنانچہ آپ نے ان کا پُرتپاک خیر مقدم کیا اور اپنے بازو میں بٹھالیا۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنھا اس بات کی خبر دیتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کے کان میں کوئی راز کی بات کہی تو وہ شدت کے ساتھ رو پڑیں اور جب آپ نے ان کے شدید غم کو دیکھا تو دوسری مرتبہ کوئی اور راز کی بات ان کے کان میں کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان سے اس خاص بات کے بارے میں دریافت کیا جو آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو چھوڑ کر خاص فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمائی تھی اور جس کی وجہ سے وہ روپڑی تھیں، تو فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو عام نہیں کرسکتی۔جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگیے تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو قسم دے کر کہا کہ وہ انھیں وہ بات بتائیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں ضرور بتاؤں گی، میرے پہلے رونے کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ ﷺ نے مجھ سے پہلی مرتبہ راز کی بات کہی تو آپ نے مجھے یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال آپ کے ساتھ ایک یا دو مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ انھوں نے دو مرتبہ دور کرایا اور آپ ﷺ کا خیال تھا کہ یہ آپ کی مدت حیات کے ختم ہونے کا انتباہ ہے اور آپ نے مجھے تقوی اور صبر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی، تقوی اور صبر کے ساتھ مجھے پہنچنے والا سلف کا شرف، پیدا ہونے والی جدائی کے غم کا متبادل ہوجائے گا، اسی وجہ سے میں روپڑی جس وقت آپ نے مجھے روتے دیکھا اور جب آپ ﷺ نے میرے شدید غم کو دیکھا تو مجھے اس بات کی بشارت سنائی کہ میں جنت میں ایمان والی عورتوں کی سردار ہو ں گی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنس پڑی جو آپ نے دیکھی۔ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، اس کے باوجود روایات کے اختلاف سے اس مسئلہ میں کچھ اور اقوال پائے جاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ ان سے کیا راز کی بات فرمائی اور جس کی بناء پر وہ ہنس پڑیں، ان میں سے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں:
1- آپ ﷺ نے انھیں اس بات کی خبر دی کہ وہ آپ کے گھر والوں میں آپ سے سب سے پہلے ملیں گیں۔
2- آپ ﷺ نے انھیں یہ خبر دی کہ وہ جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور آپ کے اہل میں سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملنے کی بات کو پہلی (رازدارانہ) بات کے ساتھ جوڑ دیا اور یہی راجح قول ہے۔
3- آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ مسلمانوں کی عورتوں میں کوئی ایسی نہیں جو ذریت و نسل کے اعتبار سے تم سے زیادہ عظمت کی حامل ہو، اس لیے تمہیں ان میں سے کسی عام عورت کی طرح معمولی درجہ کا صبر رکھنے والی خاتون نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن ان معانی میں یہ معنی بھی اہمیت کا حامل ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے علمی اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنھا سے انتہائی سبقت کے ساتھ نبی ﷺ اور ان کے درمیان ہوئی راز کی باتوں کے بارے میں دریافت کیا اور نبی ﷺ کی اس عظیم دختر کے جواب کو بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ " میں نبی کریم ﷺ کے راز کو فاش نہیں کرسکتی"، اور یہی امر اس حدیث کا شاہد ہے اور جب نبی ﷺ کی موت سے افشائے راز کا ڈر و خوف ختم ہوگیا تو انھوں نے اس پردۂ راز کو اٹھادیا۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے عنقریب وقوع پذیر ہونے والے امر کی خبر دی اور وہ آپ کے فرمان کے مطابق واقع ہوئی، کیوں کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ہی وہ پہلی فرد رہیں جو نبی ﷺ کے گھرانے میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے بھی پہلے وفات پائیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3139

 
 
Hadith   207   الحديث
الأهمية: ما غرت على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- ما غرت على خديجة -رضي الله عنها-، وما رأيتها قط، ولكن كان يكثر ذكرها


Tema:

نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی حالانکہ انہیں میں نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا، لیکن آپ ﷺ ان کا ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «ما غِرْتُ على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- ما غِرْتُ على خديجة -رضي الله عنها-، وما رأيتها قط، ولكن كان يُكثر ذِكْرَها، وربما ذبح الشَّاةَ، ثم يُقطعها أَعْضَاءً، ثم يَبْعَثُهَا في صَدَائِقِ خديجة، فربما قلت له: كأن لم يكن في الدنيا إلا خديجة! فيقول: «إنها كانت وكانت وكان لي منها وَلَدٌ».
وفي رواية: وإن كان لَيَذْبَحُ الشَّاءَ، فيُهدي في خَلَائِلِهَا منها ما يَسَعُهُنَّ.
وفي رواية: كان إذا ذَبَحَ الشَّاةَ، يقول: «أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة».
وفي رواية: قالت: اسْتَأْذَنَتْ هالة بنت خويلد أخت خديجة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فعرف استئذان خديجة، فارْتَاحَ لذلك، فقال: «اللهم هالة بنت خويلد».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی، اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی حالانکہ انہیں میں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہ تھا، لیکن آپ ﷺ ان کا ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والیوں کو بھیجتے تھے۔ بسا اوقات میں آپ ﷺ سے کہتی : جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ ﷺ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ یہ خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں پہنچادو۔
ایک اور روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن، ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آگیا، آپ ﷺخوش ہو اٹھے اور فرمایا ”اللہ! یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تقول عائشة -رضي الله عنها-: ما غِرْت على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- مثلما غرت على خديجة -رضي الله عنها-، وهي أُولى زوجات النبي -صلى الله عليه وسلم-، وقد توفيت قبل أن تراها عائشة، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- في المدينة إذا ذبح شاة أخذ من لحمها وأهداه إلى صديقات خديجة -رضي الله عنها-، ولم تصبر عائشة -رضي الله عنها- على ذلك، فقالت: يا رسول الله، كأن لم يكن في الدنيا إلا خديجة.
فذكر -صلى الله عليه وسلم- أنها كانت تفعل كذا، وتفعل كذا، وذكر من خصالها -رضي الله عنها-.
وأضاف -صلى الله عليه وسلم- أيضًا مؤكدًا سرَّ هذا الحب والود والارتباط العميق: "وكان لي منها ولد" وأولاده أربع بنات وثلاثة أولاد كلهم منها إلا ولدًا واحدًا هو إبراهيم -رضي الله عنه-، فإنه كان من مارية القبطية التي أهداها إليه ملك القبط.
وجاءت مرة هالة بنت خويلد أخت خديجة -رضي الله عنهما-، فاستأذنت فكان استأذانها شبيها بصفة استئذان خديجة لشبه صوتها بصوت أختها فتذكر خديجة بذلك، ففرح بذلك وسُر -صلى الله عليه وسلم-.
575;ُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی تمام بیویوں میں جتنی غیرت مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی، اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی، اور وہ نبی ﷺ کی سب سے پہلی بیوی تھیں، عائشہ رضی اللہ عنھا کے انہیں دیکھنے سے قبل ہی ان کا انتقال ہوچکا تھا، نبی ﷺ کا مدینہ طیبہ میں یہ معمول تھا کہ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تو خدیجہ رضی اللہ عنھاکی سہیلیوں کے ہاں اس کے کچھ گوشت کاہدیہ بھیجتے ، عائشہ رضی اللہ عنھا برداشت نہ کرپاتیں اور کہہ دیا کرتیں :اے اللہ کے رسول!ایسا لگتا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا دنیا میں کوئی اور خاتون ہی نہیں۔
چنانچہ آپ ﷺ یہ فرماتے کہ وہ ایسے کرتی تھیں، یوں کرتی تھیں اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی خوبیاں ذکر فرماتے۔ نیز آپ ﷺ اس محبت، بے پناہ پیار اور انتہائی گہری وابستگی کے راز میں زور پیدا کرتے ہوئے فرماتے کہ "ان سے مجھے اولاد بھی ہے"۔ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہونے والے فرزند، ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا آپ ﷺ کی جملہ چار لڑکیاں اور تین لڑکے،خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے تھے اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو قبطی بادشاہ نے نبی ﷺ کو ہدیہ میں دیا تھا۔
ایک مرتبہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن، ہالہ بنت خویلد رضی اللہ عنہما تشریف لائیں اور گھر میں آنے کی اجازت طلب کی اور ان کے اجازت مانگنے کا انداز، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اجازت مانگنے جیسا تھا کیونکہ ان کی آواز، ان کی بہن جیسی تھی، چنانچہ آپ ﷺ کو اس سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد آگئی تو آپ ﷺ میں خوشی و مسرت کے جذبات امنڈ آئے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3140

 
 
Hadith   208   الحديث
الأهمية: ليس المسكين الذي ترده التمرة والتمرتان، ولا اللقمة واللقمتان إنما المسكين الذي يتعفف


Tema:

مسکین وہ نہیں، جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے ہی واپس لوٹا دیتے ہیں، بلکہ مسکین تو وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّ رسُولَ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «لَيسَ المِسْكِين الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَة والتَّمْرَتَان، وَلا اللُّقْمَةُ واللُّقْمَتَان، إِنَّمَا المِسْكِين الَّذِي يَتَعَفَّف».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں، جسے ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے ہی واپس لوٹا دیتے ہیں، بلکہ مسکین تو وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُوضح هذا الحديث حقيقة المسكنة، وأن المسكين الممدوح من المساكين الأحق بالصدقة والأحوج بها هو المتعفف، وإنما نفى -صلى الله عليه وسلم- المسكنة عن السائل الطوَّاف؛ لأنه تأتيه الكفاية، وقد تأتيه الزكاة فتزول خصاصته، وإنما تدوم الحاجة فيمن لا يسأل ولا يعطف عليه فيعطى.
740;ہ حدیث مسکین کی حقیقت واضح کر رہی ہے کہ مساکین میں سے قابل تعریف، صدقے کا حق دار اور اس کا ضرورت مند وہ ہے، جو سوال نہیں کرتا۔ گھوم پھر کر مانگنے والے شخص سے آپ ﷺ نے مسکینیت کی نفی کی؛ کیوں کہ اس تک بقدر کفایت سامان وغیرہ پہنچتا رہتا ہے۔ بعض اوقات اسے زکوٰۃ مل جاتی ہے، جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ ضرورت تو اس شخص کی باقی رہتی ہے، جو مانگتا نہیں ہے اور بطور شفقت اسے کوئی کچھ دیتا بھی نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3141

 
 
Hadith   209   الحديث
الأهمية: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك


Tema:

اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

عن شهر بن حوشب قال: قلت لأم سلمة -رضي الله عنها-، يا أم المؤمنين، ما كان أكثر دعاء رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كان عندك؟ قالت: كان أكثر دعائه: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك».

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ: اے ام المومنین! جب رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس ہوتے تھے تو آپﷺ زیادہ تر کون سی دعا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»
ترجمہ: اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أكثر دعائه -صلى الله عليه وسلم- أن يقول، هذا القول: (يا مقلب القلوب) أي مصرفها تارة إلى الطاعة والإقبال وتارة إلى المعصية والغفلة، (ثبت قلبي على دينك)، أي اجعله ثابتًا على دينك غير مائل عن الدين القويم والصراط المستقيم.
585;سول اللہﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ”يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ“ یعنی (اے وہ ذات جو اسے) کبھی طاعت گزاری، انابت الی اللہ اور کبھی گناہ اور غفلت کی طرف پھیرنے والی ہے۔
”ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ“ یعنی اسے اپنے دین پر ثابت قدم رکھ اور دین قویم اور صراط مستقیم سے اسے نہ ہٹا۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3142

 
 
Hadith   210   الحديث
الأهمية: إذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعًا


Tema:

جب کُتا تم میں سے کسی کے برتن سے (کچھ) پی لے، تو اسے سات مرتبہ دھو لو۔

عن أبي  هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:« إذا شَرِب الكلب في إناء أحَدِكُم فَليَغسِلهُ سبعًا».
ولمسلم: « أولاهُنَّ بالتُراب».
 عن عبد الله بن مغفل -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:« إذا وَلَغ الكلب في الإناء فاغسلوه سبعًا وعفَّرُوه الثَّامِنَة بالتُّراب».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب کُتا تم میں سے کسی کے برتن سے (کچھ) پی لے، تو اسے سات مرتبہ دھو لو“۔
مسلم کی روایت میں ہے: ”پہلی مرتبہ مٹی سے دھلو“۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کتا برتن میں منہ ڈال دے ، تو اسے سات مرتبہ دھوؤ ، اور آٹھویں دفعہ مٹی سے مانجو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الكلب من الحيوانات المستكرهة التي تحمل كثيرًا من الأقذار والأمراض أمر الشارع الحكيم بغسل الإناء الذي ولغ فيه سبع مرات، الأولى منهن مصحوبة بالتراب ليأتي الماء بعدها، فتحصل النظافة التامة من نجاسته وضرره.
670;ونکہ کتا ان ناپسندیدہ جانوروں میں سے ہے، جو بہت ساری گندگیوں اور بیماریوں کے حامل ہوتے ہیں اس لیے جب وہ برتن میں منہ ڈال دے تو اسے شارع حکیم نے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے۔ نیز پہلی مرتبہ مٹی سے مانجنے کا حکم دیا ہے؛ تاکہ اس کے بعد پانی کا استعمال ہو اور نجاست وگندگی سے مکمل نظافت حاصل ہوسکے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3143

 
 
Hadith   211   الحديث
الأهمية: الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط


Tema:

پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں؛ ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الفِطرة خَمْسٌ: الخِتَان, والاسْتِحدَاد, وقَصُّ الشَّارِب, وتَقلِيمُ الأَظفَارِ, ونَتْفُ الإِبِط».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أبو هريرة -رضي الله عنه- أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: خمس خصال من دين الإسلام، الذي فطر الله الناس عليه، فمن أتى بها، فقد قام بخصال عظام من الدين الحنيف.
وهذه الخمس المذكورة في هذا الحديث، من جملة النظافة، التي أتى بها الإسلام.
أولها: قطع قُلْفة الذكر، التي يسبب بقاؤها تراكم النجاسات والأوساخ فتحدث الأمراض والجروح.
وثانيها: حلق الشعور التي حول الفرج، سواء أكان قبلا أم دبرا، لأن بقاءها في مكانها يجعلها معرضة للتلوث بالنجاسات، وربما أخلت بالطهارة الشرعية.
وثالثها: قص الشارب، الذي بقاؤه، يسبب تشويه الخلقة، ويكره الشراب بعد صاحبه، وهو من التشبه بالمجوس.
ورابعها:تقليم الأظافر، التي يسبب بقاؤها تجمع الأوساخ فيها، فتخالط الطعام، فيحدث المرض.
وأيضا ربما منعت كمال الطهارة لسترها بعض الفرض.
وخامسها: نتف الإبط، الذي يجلب بقاؤه الرائحة الكريهة.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: پانچ خصلتیں دین اسلام میں سے ہیں، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے۔ جس نے ان کو اپنایا اس نے دین حنیف کی بڑی خصلتوں کا اپنایا۔
حدیث میں مذکور یہ پانچ خصلتیں صفائی ستھرائی سے متعلق ہیں جس، کی اسلام بڑی تاکید کرتا ہے۔
اول: مردانہ آلۂ تناسل کے سرے کی چمڑی کو کاٹنا، جس کے باقی رہنے سے گندگیاں اور میل کچیل جمع ہوتے رہتے ہیں اور امراض اور زخم پیدا ہوتے ہیں۔
دوم: شرم گاہ کے گرد موجود بالوں کو مونڈنا، چاہے شرم گاہ سامنے کی ہو یا پیچھے کی۔ کیوں کہ باقی رہنے سے شرم گاہ میں نجاستیں جم جاتی ہیں اور بسا اوقات اس سے شرعی طہارت میں بھی خلل پڑتا ہے۔
سوم: مونچھ کاٹنا، جس کا باقی رہنا بدصورتی کا سبب ہے، مونچھ والے شخص کے پیے ہو ئے مشروب کو پینے میں کراہت محسوس ہوتی ہے اور یہ مجوس کی مشابہت بھی ہے۔
چہارم: ناخنوں کو تراشنا، جن کے باقی رہنے کی وجہ سے ان میں گندگیاں جمع ہو جاتی ہیں جو کھانے کے ساتھ مل کر بیماری پیدا کرتی ہیں اور بسا اوقات اس سے پوری طرح سے طہارت بھی حاصل نہیں ہو پاتی؛ کیوں کہ ان سے جسم کا بعض حصہ چھپا رہ جاتا ہے، جس تک پانی پہنچانا فرض ہوتا ہے۔
پنجم: بغل کے بال اکھیڑنا (مونڈنا) جن کے باقی رہنے کی وجہ سے ناگوار بدبو پیدا ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3144

 
 
Hadith   212   الحديث
الأهمية: لا إله إلا الله، ويل للعرب من شر قد اقترب، فتح اليوم من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه، وحلق بأصبعيه الإبهام والتي تليها، فقلت: يا رسول الله، أنهلك وفينا الصالحون؟ قال: نعم، إذا كثر الخبث


Tema:

اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی، جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے ۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے۔ اور آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں کے ذریعے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! جب خباثتیں بڑھ جائیں گی“۔

عن زينب بنت جحش -رضي الله عنها- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل عليها فَزِعًا، يقول: «لا إله إلا الله، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قد اقْتَرَب، فُتِحَ اليوم من رَدْمِ يَأْجُوجَ ومَأجُوجَ مثل هذه»، وحلَّق بأُصبُعيه الإبهامِ والتي تَلِيها، فقلت: يا رسول الله، أنَهْلِكُ وفينا الصَّالِحُون؟ قال: «نعم، إِذَا كَثُرَ الخَبَثُ».

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لائے، تو آپ ﷺ بہت پریشان نظر آ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی، جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے“۔ اور آپ ﷺ نے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں! جب خباثتیں بڑھ جائیں گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أم المؤمنين زينب بنت جحش-رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل عليها  محمراً وجهه يقول: "لا إله إلا الله" تثبيتا ًللتوحيد وتطمينا ًللقلوب.   ثم حذَّر العرب فقال: "ويل للعرب من شر قد اقترب"، ثم بين أن هذا الشر هو أنه قد فتحت فتحة صغيرة من سد يأجوج ومأجوج، بقدر الحلقة بين الأصبعين السبابة والإبهام.
قالت زينب: "يا رسول الله، أنهلك وفينا الصالحون؟"، فأخبر أن الصالح لا يهلك، وإنما هو سالم ناج؛ لكن إذا كثر الخبث هلك الصالحون، فإذا كثرت الأعمال الخبيثة السيئة في المجتمع ولو كانوا مسلمين ولم تنكر، فإنهم قد عرضوا أنفسهم للهلاك.
575;م المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سرخ تھا اور آپ ”لا إلہ إلا اللہ“ پڑھ رہے تھے۔ یہ آپ نے توحید کے اثبات اور دل کے اطمنان کے لیے فرمایا۔
پھرعربوں کو ڈراتے ہوئے فرمایا: ”اس شر (فتنہ) سے عرب کے لیے تباہی ہے، جو قریب آگیا ہے“ پھر آپ ﷺ نے اس فتنے کی وضاحت فرمائی کہ یہ یاجوج ماجوج کا دیوار میں انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کے حلقے کے بقدر سوراخ بنا لینا ہے۔
زینب رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ! ہم میں نیک لوگ ہوں گے، پھر بھی ہم ہلاک کر دیے جائیں گے؟“ تو آپ نے بتایا کہ نیک لوگ ہلاک نہیں ہوں گے؛ بلکہ وہ محفوظ وکام ران رہیں گے۔ البتہ جب برائیاں بکثرت پھیل جائیں گي تو نیک لوگ بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ جب سماج میں برے اور گندے اعمال عام ہو جائیں گے، گرچہ سماج مسلم ہی کیوں نہ ہو اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوگا، تو گویا انھوں نے اپنے آپ کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3145

 
 
Hadith   213   الحديث
الأهمية: دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- البيت, وأسامة بن زيد وبلال وعثمان بن طلحة


Tema:

رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- البيت, وأسامة بن زيد وبلال وعثمان بن طلحة، فأغلقوا عليهم الباب فلما فتحوا كنت أولَ من وَلَجَ. فلقيتُ بلالًا, فسألته: هل صلى فيه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم , بين العَمُودَيْنِ اليَمَانِيَيْنِ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ”رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم خانۂ کعبہ کے اندر گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا، تو اندر داخل ہونے والا میں پہلا شخص تھا۔ میری ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟ انھوں نے بتلایا کہ ہاں ! آپ ﷺ نےدونوں یمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے“۔
لما فتح الله -تبارك وتعالى- مكة في السنة الثامنة من الهجرة، وطهر بيته من الأصنام والتماثيل والصور، دخل -صلى الله عليه وسلم- الكعبة المشرفة، ومعه خادماه، بلال، وأسامة، وحاجب البيت عثمان بن طلحة -رضي الله عنهم-، فأغلقوا عليهم الباب لئلا يتزاحم الناس عند دخول النبي -صلى الله عليه وسلم- فيها ليروا كيف يتعبد، فيشغلوه عن مقصده في هذا الموطن، وهو مناجاة ربه وشكره على نعمه؛ فلما مكثوا فيها طويلا فتحوا الباب.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وكان عبد الله بن عمر حريصا على تتبع آثار النبي -صلى الله عليه وسلم- وسنته، ولذا فإنه كان أول داخل لما فتح الباب، فسأل بلالا: هل صلى فيها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال بلال: نعم، بين العمودين اليمانيين. وكانت الكعبة المشرفة على ستة أعمدة، فجعل ثلاثة خلف ظهره، واثنين عن يمينه، وواحدا عن يساره، وجعل بينه وبين الحائط ثلاثة أذرع، فصلى ركعتين، ودعا في نواحيها الأربع.
580;ب اللہ تعالی نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ پر فتح عطا فرمائی اور اپنے گھر کو بتوں، مورتیوں اور تصویروں سے پاک صاف کر دیا، تو نبی ﷺ اپنے دونوں خادم، یعنی بلال رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ اور خانۂ کعبہ کے دربان عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ انھوں نے داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا؛ تا کہ نبی ﷺ کے اس میں داخل ہونے پر لوگ یہ دیکھنے کے لیے بھیڑ نہ لگا لیں کہ آپ ﷺ کیسے عبادت کرتے ہیں اور یوں اس جگہ آنے میں آپ ﷺ کا جو مقصد ہے، یعنی اللہ سے مناجات اور اس کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری، اسی سے آپ ﷺ کی توجہ ہٹا دیں۔ کافی دیر اندر رہنے کے بعد انھوں نے دروازہ کھول دیا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کے آثار اور سنت کی جستجو میں ہمیشہ آگے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے جب دروازہ کھولا گیا، تو سب سے پہلےاندر داخل ہونے والے وہی تھے۔ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟"۔ بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: "ہاں، آپ ﷺ نے دونوں یمنی ستونوں کے مابین نماز پڑھی"۔ خانۂ کعبہ کے چھے ستون تھے۔ آپ ﷺ نے تین ستونوں کو اپنی پیٹھ پیچھے، دو کو اپنی دائیں طرف اور ایک کو اپنی بائیں جانب رکھا۔ اپنے اور دیوار کے مابین آپ ﷺ نے تین گز کا فاصلہ رکھتے ہوئے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور خانۂ کعبہ کے چاروں گوشوں میں دعا مانگی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3148

 
 
Hadith   214   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث


Tema:

اے اللہ! میں ناپاک جنّوں اور جنّیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي صلى الله عليه وسلم  كان إذا دخل الخَلاء قال: ((اللهم إني أَعُوذ بك من الخُبُثِ والخَبَائِث)).

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ جاتے یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ اے اللہ! میں ناپاک جنّوں اور جنّیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر لنا أنس بن مالك -رضي الله عنه- وهو المتشرف بخدمة النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أدبًا نبويًّا حين قضاء الحاجة، وهو أنه -صلى الله عليه وسلم- من كثرة محبته والتجائه إلى ربه لا يدع ذكره والاستعانة به على أية حال، فهو -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد دخول المكان الذي سيقضي فيه حاجته استعاذ بالله، والتجأ إليه أن يقيه الشياطين من ذكور وإناث؛ لأنهم الذين يحاولون في كل حال أن يفسدوا على المسلم أمر دينه وعبادته، وفُسِّر الخبث والخبائث أيضًا بالشر وبالنجاسات.
وسبب الاستعاذة أن بيت الخلاء -وهو ما يسميه بعض الناس بالحمامات أو دورات المياه- أماكن الشياطين، وقد قال -صلى الله عليه وسلم-: "إن هذه الحشوش محتضرة، فإذا دخل أحدكم، فليقل: اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث" رواه ابن ماجه وغيره وصححه الألباني، وهناك سبب آخر وهو أن الإنسان يحتاج كشف عورته إذا دخل هذه المواضع، وقد  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ستر ما بين الجن وعورات بني آدم إذا دخل الكنيف أن يقول: بسم الله" رواه ابن ماجه وغيره وصححه الألباني أيضًا.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ جن کو نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا شرف حاصل تھا اس حدیث میں ہمارے لیے قضائے حاجت سے متعلق ایک نبوی ادب بیان کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ چونکہ اپنے رب سے بہت زیادہ محبت کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے اس لیے آپ ﷺ کسی بھی حال میں اس کا ذکر نہیں چھوڑتے تھے اور نہ ہی اس سے مدد مانگنا ترک کرتے۔ چنانچہ آپ ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ میں جاتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے اور اس کی حفاظت میں آتے ہوئے دعا فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کو خبیث جنوں اور جنیوں کی شر سے بچائے کیونکہ وہ ہر حال میں اس بات کے درپے رہتے ہیں کہ مسلمان کے دین وعبادت میں بگاڑ پیدا کر دیں۔ ’الخبث و الخبائث‘ کے الفاظ کی تفسیر شر اور نجاستوں سے بھی کی گئی ہے۔
پناہ مانگنے کا سبب یہ ہے کہ بیت الخلاء جسے بعض لوگ حمامات اور دورات المیاہ کا نام بھی دیتے ہیں، یہ شیاطین کی آماجگاہیں ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: قضائے حاجت کی ان جگہون پر شیاطین ہوتے ہیں چنانچہ جب تم میں سے کوئی ان میں داخل ہو تو وہ یوں کہے: اے اللہ میں خبیث جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اس حدیث کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کا ایک اور سبب بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان جب اس جگہ جاتا ہے تو اسے اپنی شرم گاہ کو کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بیت الخلاء میں جاتا ہے تو اس کا ”بسم اللہ“ کہنا جنات اور بنی آدم کی شرمگاہوں کے مابین آڑ بن جاتا ہے۔ ابن ماجہ وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے بھی صحیح قرار دیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3150

 
 
Hadith   215   الحديث
الأهمية: أن نبي الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- رأى رجلا يسوق بدنة, فقال: اركبها، قال: إنها بدنة، قال: اركبها


Tema:

اللہ کے نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ہدی کا ایک اونٹ ہانکے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ اس پرسوار ہو جاؤ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- «أن نبي الله -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلا يَسُوقُ بَدَنَةً, فقال: اركبها، قال: إنها بَدَنَةٌ، قال اركبها، فرأيته رَاكِبَهَا, يُسَايِرُ النبي -صلى الله عليه وسلم-».
وفي لفظ: قال في الثانية، أو الثالثة: «اركبها وَيْلَكَ أو وَيْحَكَ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ہدی کا ایک اونٹ ہانکے جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: سوار ہو جاؤ۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ اس پر سوار تھا اور نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ایک اور روایت میں ہے کہ دوسری یا تیسری دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار ہو جاؤ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلًا يسوق بدنة، هو في حاجة إلى ركوبها قال له: اركبها، ولكون الهدي معظما عندهم لا يُتعرض له استفهم الصحابي بأنها بدنة مهداة إلى البيت، فقال: اركبها وإن كانت مهداة إلى البيت، فعاوده الثانية والثالثة، فقال: اركبها، مغلظًا له الخطاب ومبينًا له جواز ركوبها ولو كانت هديًا، فركبها الرجل.
580;ب نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ ہانکے جا رہا ہے حالانکہ اس کو اس پر سوار ہونے کی ضرورت تھی تو آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ اس پر سوار ہو جاؤ۔ چونکہ ہدی کا جانور ان لوگوں کے نزدیک بہت قابلِ تعظیم ہوتا تھا جسے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا تو صحابی رسول نے استفہامی انداز میں کہا کہ یہ تو بیت اللہ کی طرف بطور ہدی جانے والا اونٹ ہے (اس پر کیسے سوار ہوا جا سکتا ہے؟)۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جاؤ اگرچہ یہ بیت اللہ کی طرف بطور ہدی بھیجا جانے والا جانور ہی ہے۔ اس شخص نے دوسری اور تیسری باری آپ ﷺ سے ایسے ہی کہا اور آپ ﷺ نے تاکید بھرے انداز میں اس کی سواری کے جائز ہونے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ اس پر سوار ہو جاؤ اگرچہ یہ ہدی ہی کا جانور ہے۔ چنانچہ وہ آدمی اس پر سوار ہو گیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3152

 
 
Hadith   216   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أشد حياءً من العذراء في خدرها


Tema:

رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناپسند گزرتی، تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر پہچان لیتے تھے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَشَدَّ حياءً من العَذْرَاءِ في خِدْرِهَا، فإذا رأى شيئا يَكْرَهُهُ عرفناه في وجهه.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناپسند گزرتی، تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر پہچان جاتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- أشد حياء من المرأة التي لم تتزوج وهي أشد النساء حياءً؛ لأنَّها لم تتزوج ولم تعاشر الرجال فتجدها حيية في خدرها، فرسول الله -صلى الله عليه وسلم- أشدُّ حياء منها، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- إذا رأى ما يكره وما هو مخالف لطبعه -صلى الله عليه وسلم- عُرف ذلك في وجهه.
606;بی ﷺ کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے، جس میں سب سے زیادہ شرم و حیا ہوتی ہے؛ کیوں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ساتھ میل جول سے دور ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ شرم و حیا کا پیکر بن کر اپنے گھر ہی میں رہتی ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ اس سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ تاہم نبی ﷺ کو جب کوئی ناپسندیدہ یا ایسی بات نظر آتی، جو آپ ﷺ کی طبیعت کے برخلاف ہوتی، تو اس کے اثرات آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر ظاہر ہو جاتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3153

 
 
Hadith   217   الحديث
الأهمية: اعبدوا الله وحده لا تشركوا به شيئا، واتركوا ما يقول آباؤكم، ويأمرنا بالصلاة، والصدق


Tema:

صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمھارے آباو اجداد جو کچھ کہتے ہیں، اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتاہے اور سچائی کا۔

عن أبي سفيان صخر بن حرب -رضي الله عنه- قال: قال هِرَقل: فماذا يَأمُرُكُم -يعني: النبي صلى الله عليه وسلم- قال أبو سفيان: قلت: يقول: «اعبدُوا الله وَحدَه لاَ تُشرِكُوا بِهِ شَيئًا، وَاترُكُوا ما يَقُول آبَاؤُكُم، ويَأمُرُنَا بِالصَّلاَة، والصِّدق، والعَفَاف، والصِّلَة».

ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہرقل نے پوچھا: وہ شخص یعنی نبی ﷺ تمھیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: وہ کہتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمھارے آباو اجداد جو کچھ کہتے ہیں، اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتاہے اور سچائی اور پاک دامنی اپنانے اور صلہ رحمی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا حديث أبي سفيان صخر بن حرب -رضي الله عنه- المشهور مع هرقل، كان أبو سفيان وقتئذ مشركًا، حيث لم يسلم إلا متأخرًا، فيما بين صلح الحديبية وفتح مكة، قَدِم أبو سفيان ومعه جماعة من قريش إلى هرقل في الشام، وهرقل كان ملك النصارى في ذلك الوقت، وكان قد قرأ في التوراة والإنجيل وعرف الكتب السابقة، وكان ملكًا ذكيًا، فلما سمع بأبي سفيان ومن معه وهم قادمون من الحجاز دعا بهم، وجعل يسألهم عن حال النبي -صلى الله عليه وسلم- وعن نسبه، وعن أصحابه، وعن توقيرهم له، وعن وفائه -صلى الله عليه وسلم-، وكلما ذكر شيئا أخبروه عرف أنه النبي الذي أخبرت به الكتب السابقة، ولكنه - والعياذ بالله- شح بملكه فلم يسلم للحكمة التي أرادها الله -عز وجل-.
وكان فيما سأل أبا سفيان سؤاله عمَّا كان يأمرهم به النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره بأنه يأمرهم أن يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا، فلا يعبدوا غير الله، لا ملكًا ولا رسولاً، ولا شجرًا ولا حجرًا، ولا شمساً ولا قمرًا، ولا غير ذلك، فالعبادة لله وحده، وهذه دعوة الرسل، فجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- بما جاءت به الأنبياء من قبله بعبادة الله وحده لا شريك له.
ويقول: "اتركوا ما كان عليه آباؤكم" وهذا من الصدع بالحق، فكل ما كان آباؤهم من عبادة الأصنام أمرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بتركه، وأما ما كان عليه آباؤهم من الأخلاق الفاضلة؛ فإنه لم يأمرهم بتركه.
وقوله: "وكان يأمرنا بالصلاة" الصلاة صلة بين العبد وبين ربه، وهي آكد أركان الإسلام بعد الشهادتين، وبها يتميز المؤمن من الكافر، فهي العهد الذي بيننا وبين المشركين والكافرين، كما قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركه فقد كفر"
وقوله: "وكان يأمرنا بالصدق" كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأمر أمته بالصدق، وهذا كقوله -تعالى-: (يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين). والصدق خلق فاضل، ينقسم إلى قسمين:
صدق مع الله، وصدق مع عباد الله، وكلاهما من الأخلاق الفاضلة.
وقوله "العفاف" أي: العفة، والعفة نوعان: عفة عن شهوة الفرج، وعفة عن شهوة البطن.
أما العفة الأولى: فهي أن يبتعد الإنسان عما حرم عليه من الزنى ووسائله وذرائعه.
أما النوع الثاني من العفاف: فهو العفاف عن شهوة البطن، أي: عما في أيدي الناس، والتعفف عن سؤالهم، بحيث لا يسأل الإنسانُ أحدًا شيئًا؛ لأن السؤال مذلة، والسائل يده دنيا، سفلى، والمعطي يده عليا، فلا يجوز أن تسأل أحدا إلا ما لابد منه.
أما قوله: "الصلة": فهي أن يصل المرء ما أمر الله به أن يوصل من الأقارب الأدنى فالأدنى، وأعلاهم الوالدان، فإن صلة الوالدين بر وصلة، والأقارب لهم من الصلة بقدر ما لهم من القرب، فالأخ أوكد صلة من العم، والعم أشد صلة من عم الأب، وصلة الرحم تحصل بكل ما تعارف عليه الناس.
740;ہ ابو سفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کی ہرقل کے ساتھ ہونے والی مشہور گفتگو ہے۔ ابو سفیان اس وقت مشرک تھے۔ کیوں کہ انھوں نے بہت دیر سے صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام قبول کیا تھا۔ ابو سفیان قریش کے کچھ لوگوں کے ہم راہ شام میں ہرقل کے پاس آئے۔ ہرقل اس وقت عیسائیوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے توریت اور انجیل پڑھ رکھی تھی اور سابقہ کتابوں کا علم رکھتا تھا۔ وہ ایک زیرک بادشاہ تھا۔ اس نے جب حجاز سے آنے والے ابو سفیان اور ان کے ہم راہیوں کے بارے میں سنا، تو انھیں بلا بھیجا اور ان سے نبی ﷺ کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ ﷺ کا نسب کیا ہے، آپ ﷺ کے صحابہ کیسے ہیں، وہ آپ ﷺ کی کیسے توقیر کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ کس حد تک وفادار ہیں؟؟ وہ جو بات پوچھتا، یہ لوگ اسے اس کے بارے میں بتاتے، یہاں تک کہ وہ جان گیا کہ آپ ﷺ وہی نبی ہیں، جس کی خبر سابقہ کتابوں نے دی ہے۔ تاہم حکمتِ الٰہی کے پیش نظر وہ اپنی بادشاہت کی لالچ میں اسلام قبول نہ کیا۔ العیاذ باللہ۔
ابو سفیان سے اس نے جوسوالات کیے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ انھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے اسے بتایا کہ آپ ﷺ انھیں حکم دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا کسی بھی فرشتے، رسول، درخت، پتھر اور سورج و چاند وغیرہ کی عبادت نہ کریں۔ عبادت کی سزاوار صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ تمام انبیا نے اسی بات کی دعوت دی۔ چنانچہ نبی ﷺ بھی وہی پیغام لے کر آئے، جوآپ ﷺ سے پہلے سابقہ انبیا لے کر آئے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی ہونی چاہیے اور یہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
اور وہ (یعنی نبی ﷺ )کہتے ہیں کہ: "جس دین پر تمھارے آباو اجداد تھے، اسے چھوڑ دو"۔ یہ حق کا برملا اظہار ہے۔ ان کے آباو اجداد جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، نبی ﷺ نے اسے چھوڑ دینے کا حکم فرمایا۔ تاہم ان کے آباو اجداد میں جو اعلی اخلاقی خوبیاں تھیں، ان کے ترک کر نے کا آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا۔
ابو سفیان نے کہا: "اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے"۔ نماز بندے اور اس کے رب کے مابین تعلق کا نام ہے۔ ارکان اسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد یہ سب سے اہم رکن ہے۔ یہی مؤمن و کافر کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ یہی وہ معاہدہ ہے، جو ہمارے اور مشرکین و کفار کے مابین ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ہمارے اور ان کے مابین جو معاہدہ ہے، وہ نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے یقینا کفر کیا"۔
ابو سفیان نے کہا: "وہ ہمیں سچائی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ نبی ﷺ اپنی امت کو سچائی کا حکم دیتے۔ یہ ایسے ہی جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ" (التوبة: 119)
ترجمہ: اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
سچائی ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، جس کی دو اقسام ہیں:
اللہ کے ساتھ سچائی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ سچائی۔ اور دونوں ہی اعلی اخلاقی صفات میں سے ہیں۔
ابو سفیان نے کہا: "اور آپ ﷺ ہمیں پاک دامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں"۔ "عفاف" کے معنی ہیں: پاک دامنی۔ عفت (پاک دامنی) کی دو اقسام ہیں: شر م گاہ کی شہوت سے عفت اور پیٹ کی شہوت سے عفت۔
پہلی قسم کی عفت سے مراد یہ ہے کہ انسان زنا اور اس کے وسائل و ذرائع سے دور رہے، جو اس کے لیے حرام ہیں۔
دوسری قسم کی عفت، پیٹ کی شہوت سے عفت ہے۔ یعنی لوگوں کے پاس جو کچھ (سامان دنیا ) ہے، اس سے عفت اختیار کرنا اور ان سے مانگنے سے پرہیز کرنا، بایں طور کہ وہ کسی شخص سے کوئی شے نہ مانگے۔ کیوں کہ مانگنا باعث ذلت ہے اور مانگنے والے کا ہاتھ کم تر اور نچلا ہوتا ہے، جب کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ چنانچہ سوائے اس شےکے جس کے بغیر چارہ ہی نہ ہو، آپ کے لیے کسی سے مانگنا جائز نہیں۔
پانچویں شے جس کے بارے میں ابو سفیان نے بتایا وہ صلہ رحمی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جن لوگوں سے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، انسان ان سے صلہ رحمی کرے اور اس سلسلے میں ان سے اپنی رشتے داری کے درجات کو ملحوظ رکھے۔ رشتے داروں میں سب سے پہلے والدین آتے ہیں، جن کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا نیکی بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ رشتے دار جتنا قریبی ہو، اسی قدر اس سے صلہ رحمی ہو گی۔ چنانچہ چچا کی بہ نسبت بھائی سے صلہ رحمی کی زیادہ تاکید ہے اور باپ کے چچا کی بہ نسبت اپنے چچا سے صلہ رحمی زیادہ اہم ہے۔
صلہ رحمی ہر اس طریقے سے ہو سکتی ہے، جو لوگوں کے نزدیک معروف ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3154

 
 
Hadith   218   الحديث
الأهمية: يا أمير المؤمنين، إن الله تعالى قال لنبيه -صلى الله عليه وسلم-: {خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين} وإن هذا من الجاهلين


Tema:

امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ}۔ اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قَدِم عُيَينَة بن حِصنٍ، فَنزَل على ابنِ أَخِيه الحُرِّ بن قَيسٍ، وكان من النَّفَر الذين يُدنِيهِم عمر -رضي الله عنه-، وكان القُرَّاء  أصحاب مَجلِس عُمر -رضي الله عنه- ومُشاوَرَتِه كُهُولا كانوا أو شُبَّانًا، فقال عيينة لابن أَخِيه: يَا ابن أخي، لك وَجْه عند هذا الأمير فَاسْتَأذِن لِي عليه، فَاسْتَأذَن فَأَذِن لَه عُمر، فَلَمَّا دَخَل قال: هي يا ابن الخطَّاب، فَوالله مَا تُعطِينَا الجَزْلَ ولا تَحكُمُ فِينَا بِالعَدلِ، فغضب عمر -رضي الله عنه- حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِه، فقال له الحُرُّ: يا أمير المؤمنين، إنَّ الله تعالى قال لِنَبِيِّه -صلى الله عليه وسلم-: {خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين}، وإِنَّ هذا مِن الجَاهِلِين، والله مَا جَاوَزَها عُمر حِين تَلاَهَا، وكان وَقَّافًا عند كِتَاب الله -تعالى-.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے اپنے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام کیا۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے، جنھیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ علما عمر رضی اللہ عنہ کے شریکِ مجلس و مشورہ رہتے تھے؛ خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ عیینہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے بھتیجے! تمھیں امیر المؤمنین کے یہاں رسوخ حاصل ہے۔ چنانچہ تم مجھے ان سے ملنے کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ جب عیینہ رضی اللہ عنہ آئے، تو کہنے لگے: اے ابن خطاب! واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو"۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ انھیں مارنے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا:"امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف:198) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔
اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب انھوں نے یہ آیت تلاوت کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے بالکل بھی تجاوز نہ کیا۔ در حقیقت آپ رضی اللہ عنہ تھے ہی ایسے کہ آپ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر ٹھہر جاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُحدِثُنا الصحابي الجليل عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- عما حصل لأمير المؤمنين عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-، حيث قدم عليه عيينة بن حصن -رضي الله عنه-، وكان من كبار قومه، فبدأ كلامه الفض بالتهجُّم والاستنكار، ثم عقَّبه بالمُعاتبة قائلاً: إِنَّك لا تُعطِينا الجزل، ولا تحكم فينا بالعدل، فغضب عمر -رضي الله عنه- غضبا حتى كاد يضربه، ولكن قام بعض القُرَّاء ومنهم ابن أخي عيينة وهو الحر بن قيس مخاطبا الخليفة الراشد -رضي الله عنه-: يا أمير المؤمنين، إن الله -تعالى- قال لنبيه -صلى الله عليه وسلم-: "خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين" ، وإن هذا من الجاهلين، فوقف عمر عندها وكتم غضبه، ولم يتجاوزها؛ لأنه كان وقَّافا عند كتاب الله -رضي الله عنه وأرضاه-، فوقف وما ضرب الرجل؛ لأجل الآية التي تُلِيت على مسامعه.
فهذا هو أدب الصحابة -رضي الله عنهم- عند كتاب الله؛ لا يتجاوزونه، إذا قيل لهم هذا قول الله وَقَفُوا، مهما كان الأمر.
580;لیل القدر صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پیش آنے والے ایک واقعہ کے بارے میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے، جو اپنی قوم کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے اپنی بے سروپا گفتگو کا آغاز درشتگی اور مذمت بھرے انداز میں کیا اور پھر ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے: "تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے اور قریب تھا کہ وہ ان کی پٹائی كر دیتے، لیکن بعض علما جن میں ایک عیینہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ بھی تھے، آگے بڑھے اور خلیفۂ راشد رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف: 199) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔
اور یہ جاہل لوگوں میں سے ہے۔ اس آیت پر عمر رضی اللہ عنہ ٹھہر گئے اور انھوں نے اپنا غصہ دبا لیا اور اس سے تجاوز نہ کیا؛ کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر رک جانے والے تھے۔ چنانچہ آپ کے سامنے تلاوت کی جانے والی اس آیت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو نہ مارا۔
اللہ کی کتاب کے معاملے میں صحابۂ کرام کا طرز عمل یہی تھا کہ وہ اس سے تجاوز نہ کرتے۔ جب ان سے یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے، تو وہ رک جاتے؛ چاہے کچھ بھی ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3155

 
 
Hadith   219   الحديث
الأهمية: إنها ستكون بعدي أثرة وأمور تنكرونها


Tema:

تم میرے بعد خود غرضی اور ایسے ایسے امور دیکھو گے، جنھیں تم برا سمجھو گے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّها سَتَكُون بَعدِي أَثَرَة وأُمُور تُنكِرُونَها!» قالوا: يا رسول الله، فَمَا تَأمُرُنَا؟ قال: «تُؤَدُّون الحَقَّ الذي عَلَيكم، وتَسأَلُون الله الذِي لَكُم».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد خود غرضی اور ایسے ایسے امور دیکھو گے، جنھیں تم برا سمجھو گے“۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے ذمے واجب حق ادا کرتے رہنا اوراپنا حق اللہ سے مانگنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث التنبيه على أمر عظيم متعلق بمعاملة الحكام، وهي ظلم الحكام وانفرادهم بالمال العام دون الرعية، حيث أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه سيستولي على المسلمين ولاة يستأثرون بأموال المسلمين يصرفونها كما شاؤوا ويمنعون المسلمين حقهم فيها.
وهذه أثرة وظلم من هؤلاء الولاة، أن يستأثروا بالأموال التي للمسلمين فيها الحق، وينفردوا بها لأنفسهم عن المسلمين، ولكن الصحابة المرضيون طلبوا التوجيه النبوي في عملهم لا فيما يتعلق بالظلمة، فقالوا: ما تأمرنا؟ وهذا من عقلهم، فقال -صلى الله عليه وسلم-: "تودون الحق الذي عليكم"، يعني: لا يمنعكم انفرادهم بالمال عليكم أن تمنعوا ما يجب عليكم نحوهم من السمع والطاعة وعدم الإثارة والوقوع في الفتن، بل اصبروا واسمعوا وأطيعوا ولا تنازعوا الأمر الذي أعطاهم الله، "وتسألون الله الذي لكم" أي: اسألوا الحق الذي لكم من الله، أي: اسألوا الله أن يهديهم حتى يؤدُّوكم الحق الذي عليهم لكم، وهذا من حكمة النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ فإنه -صلى الله عليه وسلم- علِم أنَّ النفوس لا تصبر عن حقوقها، وأنها لن ترضى بمن يستأثرعليهم بحقوقهم، ولكنه -صلى الله عليه وسلم- أرشد إلى أمر يكون فيه الخير والمصلحة، وتندفع من ورائه الشرور والفتن، وذلك بأن نؤدي ما علينا نحوهم من السمع والطاعة وعدم منازعة الأمر ونحو ذلك، ونسأل الله الذي لنا.
581;دیث میں حکمرانوں کے طرز عمل سے متعلق ایک بہت بڑی بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جو کہ ان کا ظلم کرنا اور رعایا کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا مال و دولت پر قبضہ جما لینا ہے۔ کیوں کہ نبی ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ مسلمانوں پر عنقریب ایسے حکمران مسلط ہو جائیں گے، جو ان کے اموال کو اپنے قبضے میں لے کر جیسے چاہیں گے، استعمال کریں گے اور اس میں سے ان کا حق انھیں نہیں دیں گے۔
ان حکمرانوں کی طرف سے یہ سراسر خود غرضی اور ظلم ہو گا کہ وہ ایسے مال پر قابض ہو بیٹھیں گے، جس میں مسلمانوں کا بھی حق ہے، لیکن مسلمانوں کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا اس میں تصرف کریں گے۔ تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان ظالموں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے طرز عمل کے بارے میں نبی ﷺ سے راہ نمائی چاہی اور پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یہ ان کی دانش مندی کی علامت ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:”تم اپنے ذمے واجب حق ادا کرتے رہنا“۔ یعنی ان حکمرانوں کے تن تنہا مال پر تسلط جما لینے کی وجہ سے کہیں یہ نہ ہو کہ ان کے بارے میں تم پر جو شے واجب ہے، تم اسے ادا نہ کرو، یعنی ان کی سمع و طاعت کرنا اور فتنہ و فساد انگیزی میں شریک نہ ہونا۔ اس کی بجائے صبر اور فرماں برداری کرنا اور اللہ نے انھیں جو حکومت دی ہے، اس میں ان سے مت جھگڑنا۔ ”اور اپنا حق اللہ سے مانگنا“۔ یعنی اپنے حق کو اللہ سے طلب کرنا۔ یعنی اللہ سے یہ دعا کرنا کہ وہ انھیں ہدایت دے؛ تا کہ وہ ان کے ذمے واجب تمھارا حق ادا کرنے لگ جائیں۔ یہ حکم نبی ﷺ کی حکمت کا مظہر ہے۔ آپ ﷺ کو پتہ تھا کہ انسانی نفس کو اپنا حق وصول کیے بغیر چین نہیں ملتا اور حق ماری برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ایسی بات کی طرف راہ نمائی فرمائی، جس میں خیر اور مصلحت مضمر ہے اور جس کی وجہ سے برائیاں اور فتنے دور ہوتے ہیں۔ ہم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہیں، جو ہم پر واجب ہے۔ امور سلطنت میں ان سے نہ الجھیں اور اپنا حق اللہ سے طلب کرتے رہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3156

 
 
Hadith   220   الحديث
الأهمية: من سأل الله تعالى الشهادة بصدق بلغه منازل الشهداء وإن مات على فراشه


Tema:

جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے گا، اللہ اسے شہیدوں کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو۔

عن سهل بن حنيف -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَن سَأَل الله تَعَالى الشَّهَادَة بِصِدق بَلَّغَه مَنَازِل الشُّهَدَاء وإِن مَات عَلَى فِرَاشِه».

سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے گا، اللہ اسے شہیدوں کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث بيان أنَّ صدق النية سبب لبلوغ الأجر والثواب، وأنَّ من نوى شيئاً من عمل البرّ أُثِيب عليه، وإن لم يقدر على عمله، ومن ذلك من دعا وسأل الشهادة في سبيل الله ونصرة دينه صادقاً من قلبه كتب الله له أجر الشهداء وإن لم يعمل عملهم ومات في غير الجهاد.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ صدقِ نیت اجر و ثواب کے حصول کا سبب ہے۔ جو شخص کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے، اسےاس پر اجر ملتا ہے، اگرچہ وہ اس عمل کو نہ کر سکے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جو بندہ سچے دل سے دعا کرے اور اللہ کی راہ میں اور اس کے دین کی نصرت کے لیے شہادت مانگے، اس کے لیے اللہ تعالی شہدا کا اجر لکھ دیتا ہے، اگرچہ وہ ان کی طرح کا عمل نہ کر سکے اور جہاد کی بجائے کسی اور حالت میں اس کی موت واقع ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3157

 
 
Hadith   221   الحديث
الأهمية: ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتى يلقى الله تعالى وما عليه خطيئة


Tema:

مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان، اولاد اور مال میں مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس حال میں اللہ سے ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ما يزَال البَلاء بِالمُؤمن والمُؤمِنة في نفسه وولده وماله حتَّى يَلقَى الله تعالى وما عليه خَطِيئَة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان، اولاد اور مال میں مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس حال میں اللہ سے ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإنسان في دار التكليف معرض للابتلاء بالضراء والسراء، فمتى أصيب الإنسان ببلاء في نفسه أو ولده أو ماله، ثم صبر على استمرار البلاء، فإن ذلك يكون سببًا في تكفير الذنوب والخطايا، أما إذا تسخط فإن من تسخط على البلاء فله السخط من الله -تعالى-.
575;نسان اس دار تکلیف میں (کبھی) تنگی اور (کبھی) آسودگی کی شکل میں ہمہ وقت آزمائش میں رہتا ہے۔ جب انسان کو اپنی جان و اولاد اور مال کے سلسلے میں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آزمائش کے جاری رہنے پر وہ صبر کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ اور خطائیں معاف ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ ان پر ناگواری کا اظہار کرے تو جان لینا چاہیے کہ جو شخص آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے وہ اللہ کی ناراضگی کا سزاوار ہو جاتا ہے۔   --  [حَسَن صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3159

 
 
Hadith   222   الحديث
الأهمية: إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت دعوت الله -تعالى- أن يعافيك


Tema:

اگر تم چاہو تو صبر کرو تمہیں اس پر جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دیتا ہوں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أنه قال لعطاء بن أبي رباح: ألاَ أُريكَ امرأةً مِن أَهلِ الجَنَّة؟ قال عطاء: فَقُلت: بَلَى، قال: هذه المرأة السَّوداء أَتَت النَّبي -صلى الله عليه وسلم- فقالت: إِنِّي أُصرَع، وإِنِّي أَتَكَشَّف، فَادعُ الله تعالى لِي، قال: «إِن شِئتِ صَبَرتِ ولَكِ الجَنَّةُ، وَإِن شِئْتِ دَعَوتُ الله تعالى أنْ يُعَافِيك» فقالت: أَصبِرُ، فقالت: إِنِّي أَتَكَشَّف فَادعُ الله أَن لاَ أَتَكَشَّف، فَدَعَا لَهَا.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عطاء ابن ابی رباح سے کہا کہ کیا تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھاؤں؟ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ضرور دکھائیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک سیاہ فام عورت نبی ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو تمہیں اس پر جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دیتا ہوں“۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے کہا کہ (مرگی کے وقت) میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ دعا فرما دیں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء في الحديث أن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال لتلميذه عطاء بن أبي رباح: "ألا أريك امرأة من أهل الجنة؟ قلت: بلى! قال: هذه المرأة السوداء".
امرأة سوداء لا يؤبه لها ولا يعرفها أكثر الناس، كانت تُصرع وتَنكشف، فأخبرت النبي -صلى الله عليه وسلم- وسألته أن يدعو الله لها بالشفاء من الصرع، فقال لها -صلى الله عليه وسلم-: "إن شئت دعوت الله لك، وإن شئت صبرت ولك الجنة"، فقالت: أصبر، وإن كانت تتألَّم وتتأذى من الصرع، لكنها صبرت من أجل أن تفوز بالجنة، ولكنها قالت: يا رسول الله إني أتكشف، فادع الله أن لا أتكشف، فدعا الله أن لا تتكشف، فصارت تُصرع ولا تتكشَّف.
581;دیث شریف میں اس بات کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس سیاہ فام عورت کو دیکھ لو۔ سیاہ فام عورت جس کی طرف توجہ بھی نہیں جاتی اور زیادہ تر لوگ اسے پہنچانتے تک نہیں۔ اسے مرگی کا دورہ پڑتا اور اس کا ستر کھل جاتا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو اس بارے میں بتایا اور آپ ﷺ سے گزارش کی کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اسے مرگی کے مرض سے شفاء مل جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:”اگر تم چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں اور اگر تم چاہو تو پھر صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت ملے گی“۔ تواس نے جواب دیا کہ میں صبر کرتی ہوں۔ اگرچہ اس عورت کو مرگی کی وجہ سے درد اور اذیت ہوتی تھی لیکن اس نے جنت کو پانے کے لیے صبر کو اختیار کیا۔ تاہم اس نے آپ ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرا ستر کھل جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کردیں کہ میرا ستر نہ کھلے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی کہ وہ ننگی نہ ہوا کرے۔بعد ازاں اسے مرگی کا دورہ تو پڑتا لیکن اس کا ستر نہیں کھلتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3160

 
 
Hadith   223   الحديث
الأهمية: ليس من عبد يقع في الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم أنه لايصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد


Tema:

جو شخص طاعون کے مرض میں مبتلا ہوا اور صبر اور اجر وثواب کی نیت رکھتے ہوئے وہ اپنے علاقےمیں ہی مقیم رہا، یہ یقین رکھا کہ اسے صرف وہی تکلیف پہنچے گی، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے، تو اسے شہید کے اجر کے مساوی اجر ملے گا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أَنَّها سَأَلَت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الطَّاعُون، فَأَخبَرَها أَنَّه كَان عَذَابًا يَبعَثُه الله تعالى على من يشاء، فَجَعَلَه الله تعالى رحمَة للمؤمنين، فليس من عبدٍ يقع في الطَّاعُون فَيَمكُث فِي بَلَدِه صَابِرًا مُحتَسِبًا يعلَم أَنَّه لايُصِيبُه إِلاَّ مَا كتَب الله له إلا كان له مِثلُ أجرِ الشَّهيدِ.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا۔ آپﷺ نے انھیں بتایا کہ یہ ایک عذاب تھا، جسے اللہ تعالی جس پر چاہتا، نازل کردیتا۔ تاہم ایمان والوں کے لیے اللہ تعالی نے اسے رحمت بنا دیا۔ چنانچہ جو شخص بھی طاعون کے مرض میں مبتلا ہوا اور صبر اور اجر وثواب کی نیت رکھتے ہوئے وہ اپنے علاقےمیں ہی مقیم رہا، اس یقین کے ساتھ کہ اسے صرف وہی تکلیف پہنچے گی، جو اللہ نے اس کے لئے لکھ رکھی ہے، تو اسے شہید کے اجر کے مساوی اجر ملے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث عائشة -رضي الله عنها- أنها سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الطاعون، فأخبرها أن الطاعون عذاب يرسله الله سبحانه وتعالى على من يشاء من عباده.
وسواء كان الطاعون معيناً أم كان وباء عاما مثل الكوليرا وغيرها؛ فإن هذا الطاعون عذاب أرسله الله عز وجل، ولكنه رحمة للمؤمن إذا نزل بأرضه وبقي فيها صابراً محتسباً، يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له، فإن الله تعالى يكتب له مثل أجر الشهيد، ولهذا جاء في الحديث الصحيح عن عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- أنه قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فراراً منه".
إذا وقع الطاعون بأرض فإننا لا نقدم عليها؛ لِأنَّ الإقدام عليها إلقاء بالنفس إلى التهلكة، ولكنه إذا وقع في أرض فإِنَّنا لا نخرج منها فراراً منه، لأنك مهما فررت من قدر الله إذا نزل بالأرض فإن هذا الفرار لن يغني عنك من الله شيئاً؛ لأنه لا مفر من قضاء الله إلا إلى الله.
وأما سر نيل درجة الشهداء للصابر المحتسب على الطاعون: هو أن الإنسان إذا نزل الطاعون في أرضه فإن الحياة غالية عنده، سوف يهرب، يخاف من الطاعون، فإذا صبر وبقي واحتسب الأجر وعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له، ثم مات به، فإنه يكتب له مثل أجر الشهيد، وهذا من نعمة الله -عز وجل-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺ نے انھیں بتایا کہ طاعون ایک عذاب ہے، جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، نازل کر دیتا ہے۔
چاہے یہ معین طاعون ہو یا پھر عام وبا ہو، جیسے ہیضہ وغیرہ؛ طاعون اللہ عز و جل کا بھیجا ہوا عذاب ہے۔ لیکن یہ مؤمن کے لیے رحمت ہے، بایں طور کہ یہ کسی کے علاقےمیں پھیل جائے اور وہ صبر کا دامن تھام کر، اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے، اس یقین کے ساتھ اسی علاقے میں رہے کہ اسے وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے، جو اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھی ہے، تو اللہ تعالی اس کے لیے شہید کے برابر اجر لکھ دیتا ہے۔ اسی لیے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جب تمھیں یہ معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی علاقےمیں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں ہو، تو اس سے بچنے کے لیے وہاں سے نہ نکلو"۔
جب کسی جگہ طاعون پھیل چکا ہو، تو وہاں ہم نہیں جائیں گے؛ کیوں کہ وہاں جانا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ تاہم جب وہ کسی علاقے میں پھیل چکا ہو، تواس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ہم وہاں سے نہیں نکلیں گے۔ کیوں کہ اللہ کی طرف سے مقدر کردہ شے جب زمین پر نازل ہوجائے، تو آپ اس سے جتنا بھی بھاگ لیں، آپ کا یہ بھاگنا اللہ کےمقابلے میں آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا؛ کیوں کہ اللہ کی قضا سے سوائے اس کی ذات کے اور کوئی مفر نہیں ہے۔
طاعون پر صبر کرنے والے اور اجر و ثواب کی امید رکھنے والے شخص کو شہدا کا درجہ حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ جب انسان کے علاقے میں طاعون پھیلتا ہے، تو اس کے لیے جان قیمتی ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ اس سے بھاگ اٹھے گا اور طاعون سے خوف زدہ ہو جائے گا۔ تاہم اگر وہ صبر کرے، وہیں مقیم رہے اور اجر کی امید رکھے اور یقین کر لے کہ اسے صرف وہی مصیبت لاحق ہو گی، جسے اللہ نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے اور پھر اس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے، تو اس شخص کے لیے شہید کے مساوی اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ اللہ عز و جل کی طرف سے ایک نعمت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3161

 
 
Hadith   224   الحديث
الأهمية: يقول الله -تعالى-: ما لعبدي المؤمن عندي جزاء إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ثم احتسبه إلا الجنة


Tema:

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے، اہل دنیا میں سے اس کا کوئی عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے، تو اس کے لیے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «يقول الله -تعالى-: ما لِعَبدِي المُؤمن عِندِي جَزَاء إِذَا قَبَضتُ صَفِيَّه مِنْ أَهلِ الدُّنيَا ثُمَّ احْتَسَبَه إِلاَّ الجنَّة».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے، اہل دنیا میں سے اس کا کوئی عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اس کے لیے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -عليه السلام- في هذا الحديث القدسي، أنَّ من ابتلي بفقد حبيبه من قريب ونحو ذلك إذا صبر الإنسان على قبض من يصطفيه الإنسان ويختاره ويرى أنه ذو صلة منه قوية، من ولد، أو أخ، أو عم، أو أب، أو أم، أو صديق، إذا أخذه الله -عز وجل- ثم احتسبه الإنسان فليس له جزاء إلا الجنة.
575;س حدیث قدسی میں نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے کسی قریبی عزیز وغیرہ سے محروم ہو جاتا ہےاور اپنے پسندیدہ شخص کی وفات پر صبر کرتا ہے۔ حالاںکہ وہ اس کا بہت قریبی تعلق والا ہوتا ہے، جیسے بچہ، بھائی، چچا، باپ، ماں اور دوست۔ کسی ایسے فرد کو اللہ تعالی اگر (موت دے کر) لے لے اور آدمی اس پر صبر کرے، تو جنت کے سوا اس کا کوئی بدلہ نہیں ہوتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3162

 
 
Hadith   225   الحديث
الأهمية: إنَّ المُفْلس مِنْ أُمَّتِي مَن يَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِصَلَاة وَصِيَامٍ وَزَكَاة، وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَم هذا، وقَذَفَ هذا، وأَكَل مالَ هذا، وسَفَكَ دَمَ هذا، وضَرَبَ هذا، فَيُعْطَى هَذا مِن حَسَنَاتِهِ، وهذا مِنْ حَسَنَاتِهِ


Tema:

میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ لائے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أتدرون من المفلس؟» قالوا: المُفْلِس فينا من لا دِرهَمَ له ولا مَتَاع، فقال: «إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شَتَمَ هذا، وقذف  هذا، وأكل مال هذا، وسَفَكَ دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يُقْضَى ما عليه، أخذ من خطاياهم فَطُرِحتْ عليه، ثم طُرِحَ في النار».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ کچھ سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کی صورت میں اعمال) لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا ہوگا) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں اس پر آنے والے ہرجانہ کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يسأل النبي -صلى الله عليه وسلم- الصحابة رضوان الله عليهم فيقول: "أتدرون من المفلس". فأخبروه بما هو معروف بين الناس، فقالوا: هو الفقير الذي ليس عنده نقود ولا متاع.
فأخبرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن المفلس من هذه الامة من يأتي يوم القيامة بحسنات عظيمة، وأعمال صالحات كثيرة من صلاة وصيام وزكاة، فيأتي وقد شتم هذا، وضرب هذا، وأخذ مال هذا، وقذف هذا، وسفك دم هذا، والناس يريدون أن يأخذوا حقهم؛ فما لا يأخذونه في الدنيا يأخذونه في الآخرة، فيقتص لهم منه؛ فيأخذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، وهذا من حسناته بالعدل والقصاص بالحق، فإن فنيت حسناته أخذ من سيئاتهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار.
606;بی ﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟۔ انہوں نے آپ ﷺ کو مفلس کا وہی معنی بتایا جو لوگوں کے مابین معروف ہے یعنی وہ فقیر شخص جس کے پاس نہ تو کچھ نقدی ہو اور نہ سامان۔
نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن بڑی بڑی نیکیاں لے کر آئے گا اور نماز، روزہ اور زکوۃ کی شکل میں اس کے بہت سے نیک اعمال ہوں گے لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی کو مارا ہو گا، کسی کا ناحق مال ہتھیایا ہو گا، کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور لوگ اس سے اپنا بدلہ لینا چاہیں گے۔ جو وہ دنیا میں نہ لے سکے اسے آخرت میں وصول کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالی اس سے ان کا بدلہ لے گا اور یوں یہ لوگ پورے انصاف کے ساتھ بطور بدلہ اس کی نیکیاں لے لیں گے۔ اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو پھر ان کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3165

 
 
Hadith   226   الحديث
الأهمية: والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ وذَلِكَ أَنْ الجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إلا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ


Tema:

اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ تمہاری تعداد اہل جنت میں آدھی ہوگی، اس لیے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: كُنَّا مع رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- في قُبَّةٍ نَحْوًا من أربعينَ، فقال: «أَتَرْضَونَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ؟» قلنا: نعم. قال: «أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ؟» قلنا: نعم، قال: «والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ وذَلِكَ أَنْ الجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إلا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وما أنتم في أَهْلِ الشِّرْكِ إلا كَالشَّعْرَةِ البَيْضَاء في جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أو كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ في جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ہم تقریباً چالیس آدمی ایک خیمے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو؟ ہم نے پھر اثبات میں جواب دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ تمہاری تعداد اہل جنت میں آدھی ہوگی، اس لیے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم مشرکین کے مقابلے میں ایسے ہی ہو جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جلس النبي -صلى الله عليه وسلم- مع أصحابه في خيمة صغيرة، وكانوا قرابة أربعين رجلاً، فسألهم -صلى الله عليه وسلم-: هل ترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة؟ قالوا: نعم، فقال: هل ترضون أن تكونوا ثلث أهل الجنة؟ قالوا: نعم، فأقسم النبي -صلى الله عليه وسلم- بربه ثم قال: إني لأرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة، والنصف الآخر من سائر الأمم، فإن الجنة لا يدخلها إلا مسلم فلا يدخلها كافر، وما أنتم في أهل الشرك من سائر الأمم إلا كالشعرة البيضاء في الثور الأسود، أو الشعرة السوداء في الثور الأبيض، والشك من الراوي.
575;للہ کے رسول ﷺ تقريباً چاليس صحابۂ کرام کے ساتھ ايک چھو ٹے سے خيمہ ميں بيٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم اس بات پر خوش اور راضی ہو کہ تم تمام اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر فرمايا: کیا تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہونے پر خوش ہو؟ انہوں نے پھر اثبات میں جواب دیا، تو اللہ کے رسول ﷺ نے رب كى قسم کھا کر کہا کہ: مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کا نصف ہوگے، اور دوسرا نصف باقی ساری امتوں سے ہوں گے۔ کیونکہ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوں گے، اس میں کوئی کافر نہیں جائے گا۔ اور سارے امم کے اہل شرک کے مقابلے میں تم ایسے ہی ہو جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوتاہے۔ اور يہ شک راوی کی طرف سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3166

 
 
Hadith   227   الحديث
الأهمية: أَلِظُّوا بـ ياذا الجلال والإكرام


Tema:

تم لوگ (اپنی دعاؤں میں) کثرت کے ساتھ ”يَاذَا الجَلاَلِ والإكْرامِ“ پڑھتے رہا کرو۔

عن أنس -رضي الله عنه- قَالَ: قَالَ رسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: «ألِظُّوا بـ (يَاذا الجَلاَلِ والإكْرامِ)».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ (اپنی دعاؤں میں) کثرت کے ساتھ ”يَاذا الجَلاَلِ والإكْرامِ“ پڑھتے رہا کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أمر(ألظوا)، بمعنى: الزموا هذه الدعوة وأكثروا منها، فالمراد: داوموا على قولكم ذلك في دعائكم واجعلوه على لسانكم
وقد اشتمل على اسم من أسماء الله قيل إنه الاسم الأعظم، لكونه يشمل جميع صفات الربوبية والألوهية.
581;دیث میں ”ألِظُّوْا“ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا گیا ہے جس کا معنی ہے پابندی اور کثرت کے ساتھ یہ دعا مانگو۔ مراد یہ ہے کہ اپنی دعا میں ہمیشہ یہ الفاظ کہو اور انہیں اپنی زبان پر جاری رکھو۔
ان الفاظ میں اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسم اعظم ہے کیونکہ وہ ربوبیت اور الوہیت سے متعلق تمام صفات پر مشتمل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3167

 
 
Hadith   228   الحديث
الأهمية: إذا انْتَهى أَحَدُكُم إلى المجْلِسِ فَلْيُسَلِّم، فإذا أرادَ أن يقومَ فَلْيُسَلِّمْ، فَلَيْسَت الأُولَى بأحَقَّ مِن الآخِرَةِ


Tema:

جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے، تو سلام کرے اور جب اٹھ کر جانے لگے، تو بھی سلام کرے اور پہلا دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «إذا انْتَهى أَحَدُكُم إلى المجْلِسِ فَلْيُسَلِّم، فإذا أرادَ أن يقومَ فَلْيُسَلِّمْ، فَلَيْسَت الأُولَى بأحَقَّ مِن الآخِرَةِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے، تو سلام کرے اور جب اٹھ کر جانے لگے، تو بھی سلام کرے اور پہلا (موقع) دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه بيان أدب  من آداب السلام, وهو أن الرجل إذا دخل على المجلس فإنه يسلم فإذا أراد أن ينصرف وقام وفارق المجلس فإنه يسلم, لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمر بذلك وقال: ليست الأولى بأحق من الثانية. يعني كما أنك إذا دخلت تسلم فكذلك إذا فارقت فَسَلِّمْ, ولهذا إذا دخل الإنسان المسجد سلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم-، وإذا خرج سلَّم عليه أيضا، وكما أن التسليمة الأولى إخبار عن سلامتهم من شره عند الحضور، فكذا الثانية إخبار عن سلامتهم من شره عند الغيبة، وهذا من كمال الشريعة أنها جعلت المبتدي والمنتهي على حد سواء في مثل هذه الأمور والشريعة كما نعلم جميعًا من لدن حكيم خبير.
581;دیث میں سلام کے آداب کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آدمی مجلس میں داخل ہو، تو سلام کرے۔ پھر جب لوٹنے کا ارادہ کرے اور کھڑا ہو کر مجلس سے جدا ہونا چاہے، تو سلام کرے۔ پیارے نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ”پہلا دوسرے سے زیادہ حق دار نہیں ہے“ یعنی جس طرح داخل ہوتے ہوئے سلام کیا تھا، اسی طرح جدا ہو تو سلام کرے۔ اسی طرح جب آدمی مسجد میں داخل ہو، تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور جب نکلے، تب بھی نبی ﷺ پر سلام بھیجے۔ جس طرح پہلا سلام اس بات کی خبر دیتا ہے کہ لوگ اس کی موجودگی میں اس کی برائی سے محفوظ ہیں، اسی طرح دوسرا سلام خبر دیتا ہے کہ لوگ اس کی عدمِ موجودگی میں بھی اس کے شر سے محفوط ہیں اور یہ کمالِ شریعت کی وجہ سے ہے کہ اس نے اس طرح کے امور میں ابتدا و انتہا کو یکساں کر دیا اور شریعت جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ حکیم و خبیر کی جانب سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3173

 
 
Hadith   229   الحديث
الأهمية: أن رجلًا دخل المسجد يوم الْجُمُعَةِ من باب كان نحو دار الْقَضَاءِ ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ


Tema:

ایک شخص جمعے کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا، جو دارالقضا کی طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- «أن رجلا دخل المسجد يوم الْجُمُعَةِ من باب كان نحو دار الْقَضَاءِ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائمًا، ثم قال: يا رسول الله، هَلَكَتِ الأموال، وانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ الله تعالى يُغِيثُنَا، قال: فرفع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: اللَّهُمَّ أَغِثْنَا ، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا ، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا. قال أنس: فلا والله ما نرى في السماء من سحاب ولا قَزَعَةٍ ، وما بيننا وبين سَلْعٍ من بيت ولا دار. قال: فطلعت من ورائه سَحَابَةٌ مثل التُّرْسِ. فلما تَوَسَّطَتْ السماء انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ. قال: فلا والله ما رأينا الشمس سَبْتاً.
قال: ثم دخل رجل من ذلك الباب في الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يَخْطُبُ الناس، فَاسْتَقْبَلَهُ قائمًا، فقال: يا رسول الله، هَلَكَتْ الأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ، فادع الله أن يُمْسِكَهَا عنَّا، قال: فرفع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا, اللَّهُمَّ على الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَر. قال: فَأَقْلَعَتْ، وخرجنا نمشي في الشمس».

قال شريك: فسألت أنس بن مالك: أهو الرجل الأول قال: لا أدري.


انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعے کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا، جو دارالقضا کی طرف تھا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اپنا منہ کرکے کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مال (جانور) تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی:”اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا“ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! آسمان پر کہیں کسی بادل یا بادل کی ٹکڑی کا نام و نشان تک نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، (جو ان کے دیدار میں حائل ہوتے) اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح بادل نمودار ہوا اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! (اس قدر بارش ہوئی کہ) ہم نے ایک ہفتے تک سورج نہیں دیکھا۔
پھر اسی دروازے سے دوسرے جمعے کے دن ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ وہ کھڑے کھڑے ہی آپ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (کثرتِ بارش سے) مال تباہ ہوگئے اور راستے بند ہوگئے؛ اس لیے اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ وہ بارش روک دے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی:”اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ على الآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَر“ اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا۔ ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑیوں ،وادیوں کے بیچ میں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر نازل فرما۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ پوری طرح اسی وقت تھم گیا اور ہم اس حال میں نکلے کہ دھوپ میں چل رہے تھے۔
شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی پہلا شخص تھا؟ انھوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- قائمًا يخطب في مسجده يوم الجمعة، ودخل رجل، فاستقبل النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم نادى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مبيناً له ما فيهم من الشدة والضيق، حيث هلكت الحيوانات من عدم الكلأ، وانقطعت الطرق، فهزلت الإبل التي نسافر ونحمل عليها، بسبب انحباس المطر وجفاف الأرض، وطلب منه الدعاء لهم بتفريج هذه الكربة، فرفع النبي -صلى الله عليه وسلم- يديه ثم قال: "اللهم أَغِثْنَا" ثلاث مرات، كعادته في الدعاء، والتفهيم في الأمر المهم.
ومع أنهم لم يروا في تلك الساعة في السماء من سحاب ولا ضباب إلا أنه في أثر دعاء المصطفى -صلى الله عليه وسلم-، طلعت من وراء جبل "سَلْع" قطعة صغيرة، فأخذت ترتفع.
فلما وَسَّطَتْ السَّمَاءَ توسعت وانْتَشَرَتْ، ثم أمطرت، ودام المطر عليهم سبعة أيام.
حتى إذا كانت الجمعة الثانية، دخل رجل، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قائم يخطب الناس، فقال- مبيناً أن دوام الأمطار، حَبسَ الحيوانات في أماكنها عن الرَّعْي حتى جاعت، وحبس الناس عن الضرب في الأرض والذهاب والإياب في طلب الرزق، فادع الله أن يمسكها عنا. فرفع يديه ثم قال ما معناه: اللهم اجعل المطر حول المدينة لا عليها، لئلا يضر بالناس في معاشهم، وتسير بهائمهم إلى مراعيها، وليكون نزول هذا المطر في الأمكنة التي ينفعها نزوله، من الجبال، والروابي، والأودية، والمراعي.
وأقلعت السماء عن المطر فخرجوا من المسجد يمشون، وليس عليهم مطر.
606;بی کریم ﷺ، اپنی مسجد میں جمعے کے دن کھڑے ہوکر خطبہ دے رہےتھےکہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نبی ﷺ کے مقابل کھڑے ہوکر بہ آواز بلند آپ ﷺ کے روبہ رو اپنی افتاد اور تنگ حالی کو بیان کیا کہ گھانس و چارہ نہ ہونے کی وجہ سے جانور ہلاک ہوگئے اور راستے مسدود ہوچکے ہیں، کیوں کہ قلت باراں اور زمین کے سوکھے پن و خشکی کی وجہ سے اونٹ لاغر و کم زور ہوگئے ہیں، جن پر ہم سفر کرتے ہیں اور اپنا سفری مال و متاع لادتے ہیں۔ اس شخص نے آپ ﷺ سے اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے تین مرتبہ یہ دعا فرمائی:"اے اللہ! ہم پر پانی برسا"۔ دعا اور اہم امورکی تفہیم کے سلسلے میں آپ کی عادت مبارکہ یہی تھی(کہ تین مرتبہ دوہرایا کرتے)۔ اس وقت آسمان میں بادل اور کہر کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا تھا،۔ لیکن آپ ﷺ کی دعا کے فوری بعد "سلع" نامی پہاڑ کے پیچھے سے بادل کی ایک ٹکڑی نمودار ہوئی اور آسمان پربلند ہونے لگی۔ آسمان کے بیچ میں پہنچنے کے بعد اس کی کشادگی زیادہ ہوگئی اور وہ ہر جگہ پھیل گئی۔ پھر جب برسنا شروع ہوئی، تو سات دن تک بلاتوقف برستی رہی، یہاں تک کہ جب دوسرے جمعے کا دن آیا، تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے یہ بیان کیا کہ مسلسل بارش نےجانوروں کو ان کی رہائش گاہوں میں مقید کر دیا ہے اور وہ چراہ گاہوں میں جانے سے عاجز ہوکر بھوک کا شکار ہیں اور یہ بارش، روزی کی تلاش میں سفر کرنے اور آمد و رفت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ اس بارش کو روک دے۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے ہیں، جس کے معنی ہیں: اے اللہ! اس بارش کو اہل مدینہ کے بجائے، مدینہ کے اطراف و اکناف میں نازل فرما؛ تاکہ لوگوں کی معاشی زندگی متاثر نہ ہو۔ ان کے چوپائے چراہ گاہوں تک پہنچ سکیں۔ بارش کا نزول پہاڑوں، اونچے ٹیلوں، وادیوں اور چراہ گاہوں جیسے مقامات پر ہو، جہاں اس کا برسنا نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی وقت، بارش پوری طرح بند ہو گئی۔ لوگ مسجد سے نکل کر جانے لگے تو ان پر بارش کا کوئی قطرہ نہ پڑا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3174

 
 
Hadith   230   الحديث
الأهمية: رَمَقْتُ الصلاة مع محمد -صلى الله عليه وسلم- فوجدت قيامه، فَرَكْعَتَهُ، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ بين السجدتين، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ ما بين التسليم والانصراف: قريبا من السَّوَاء


Tema:

میں نے محمد ﷺ کے ساتھ نماز کو غور سے دیکھا۔ آپ ﷺ کا قیام، رکوع، رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا، آپ ﷺ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا، آپ ﷺ کا (دوسرا) سجدہ اور سلام پھیرنے اور (نمازيوں کی طرف) رُخ كرنے کے مابین آپ ﷺ کا بیٹھنا، میں نے یہ سب اعمال تقریبا برابر پائے۔

عن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ -رضي الله عنهما- قال: «رَمَقْتُ الصلاة مع محمد -صلى الله عليه وسلم- فوجدت قيامه، فَرَكْعَتَهُ، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ بين السجدتين، فسجدته، فَجِلْسَتَهُ ما بين التسليم والانصراف: قريبا من السَّوَاء».
وفي رواية: «ما خلا القيام والقعود، قريبا من السَّوَاءِ».

براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے محمد ﷺ کے ساتھ نماز کو غور سے دیکھا۔ آپ ﷺ کا قیام، رکوع، رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا، آپ ﷺ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا، آپ ﷺ کا (دوسرا) سجدہ اور سلام پھیرنے اور (نمازيوں کی طرف) رُخ كرنےکے مابین آپ ﷺ کا بیٹھنا، میں نے یہ سب اعمال تقریبا برابر پائے۔
ایک دیگر روایت میں ہے کہ :”سوائے قیام و قعود کے، (باقی سب اعمالِ نماز) تقریبا برابر ہوتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يصف البراء بن عازب -رضي الله عنهما- صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- حيث كان يراقبه بتأمل ليعرف كيف يصلي فيتابعه، فذكر أنها متقاربة متناسبة، فإن قيامه للقراءة، وجلوسه للتشهد، يكونان مناسبين للركوع والاعتدال والسجود فلا يطوَّل القيام مثلاً، ويخفف الركوع، أو يطيل السجود، ثم يخفف القيام، أو الجلوس بل كل ركن يجعله مناسبًا للركن الآخر، وليس معناه: أن القيام والجلوس للتشهد، بقدر الركوع والسجود، وإنما معناه أنه لا يخفف واحدًا ويثقل الآخر.
576;راء بن عازب رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ یہ جاننے کے لیے غور سے آپ ﷺ کو دیکھتے تاکہ جان سکیں کہ آپ ﷺ کس طرح سے نماز پڑھتے ہیں اور یوں آپ ﷺ کی پیروی کر سکیں۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ کی نماز کے اعمال باہم قریب قریب اور متناسب ہوتے تھے۔قراءت کے لیے آپ ﷺ کا قیام اور تشہد کے لیے آپ ﷺ کا بیٹھنا، آپ ﷺ کے رکوع، اعتدال اور سجدے سے مناسبت رکھتا تھا۔۔ مثلاً ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ قیام کو بہت زیادہ لمبا کر دیتے اور رکوع کو مختصر یا پھر سجدے کو لمبا کر دیتے اور قیام یا جلوس کو مختصر۔ بلکہ آپ ﷺ نماز کے ہر رکن کو دوسرے رکن سے متناسب رکھتے۔
اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ قیام اور تشہد کے لیے بیٹھنا، آپ ﷺ کے رکوع اور سجدہ کے برابر ہوتا تھا۔
بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ ایک رکن کو مختصر کر دیتے اور دوسرے کو طویل۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3175

 
 
Hadith   231   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان في سفر، فصلى العشاء الآخِرَةَ، فقرأ في إحدى الركعتين بِالتِّينِ وَالزَّيْتُون فما سمعت أحدًا أحسن صوتًا أو قراءة منه


Tema:

نبی ﷺ سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے نمازِ عشاء ادا کی تو ایک رکعت میں ’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘ پڑھی۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ اچھی آواز والا یا آپ ﷺ سے اچھا پڑھنے والا کبھی نہیں سنا۔

عن الْبَرَاء بْن عَازِبٍ -رضي الله عنهما- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان في سفر، فصلى العشاء الآخِرَةَ، فقرأ في إحدى الركعتين بِالتِّينِ وَالزَّيْتُون فما سمعت أحدًا أحسن صوتًا أو قراءة منه».

براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے نمازِ عشاء ادا کی تو ایک رکعت میں ’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘ پڑھی۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ اچھی آواز والا یا آپ ﷺ سے اچھا پڑھنے والا کبھی نہیں سنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قرأ النبي -صلى الله عليه وسلم- بسورة التين والزيتون في الركعة الأولى في صلاة العِشاء؛ لأنه كان في سفر، والسفر يراعى فيه التخفيف والتسهيل؛ لمشقته وعنائه، ومع كون النبي -صلى الله عليه وسلم- مسافرًا، فإنه لم يترك ما يبعث على الخشوع وإحضار القلب عند سماع القرآن، وهو تحسين الصوت في قراءة الصلاة.
606;بی ﷺ نے نمازِ عشاء کی پہلی رکعت میں سورہ ’’تین‘‘ اور سورہ ’’زیتون‘‘ کی تلاوت فرمائی کیوں کہ آپ ﷺ سفر میں تھے اور سفر کی مشقت و کلفت کے پیش نظر اس میں تخفیف اور سہولت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ نبی ﷺ سفر میں تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس بات کو نہیں چھوڑا جو خشوع و خضوع پیدا کرتی ہے اور جس کی وجہ سےقرآن کی سماعت کرتے ہوئے دل یکسو ہوتا ہے اور یہ نماز میں خوبصورت آواز سےتلاوت سے عبارت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3177

 
 
Hadith   232   الحديث
الأهمية: بينما رجل واقف بِعَرَفَةَ، إذ وقع عن راحلته، فَوَقَصَتْهُ -أو قال: فَأوْقَصَتْهُ- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اغْسِلُوهُ  بماء وسدر، وكَفِّنُوهُ في ثوبيه، ولا تُحَنِّطُوهُ، ولا تُخَمِّرُوا رأسه؛ فإنه يُبْعَثُ يوم القيامة مُلبِّياً


Tema:

ایک شخص میدان عرفات میں تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یا فَأوْقَصَتْهُ (پس اس نے اُس ہڈی کو توڑ دیا اور وہ مرگیا) کہا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اس کے دونوں کپڑوں میں اسے کفن دے دو۔ اسے نہ خوشبو لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تلبیہ پڑھتا ہو گا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «بينما رجل واقف بِعَرَفَةَ، إذ وقع عن راحلته، فَوَقَصَتْهُ -أو قال: فَأوْقَصَتْهُ- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اغْسِلُوهُ  بماء وسدر، وكَفِّنُوهُ في ثوبيه، ولا تُحَنِّطُوهُ، ولا تُخَمِّرُوا رأسه؛ فإنه يُبْعَثُ يوم القيامة مُلبِّياً».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: ایک شخص میدان عرفہ میں تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یا (وَقَصَتْہُ کے بجائے یہ لفظ ) فَأوْقَصَتْهُ (پس اُس نے اس ہڈی کو توڑ دیا اور وہ فوت ہوگیا) کہا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اس کے دونوں کپڑوں میں اسے کفن دے دو۔اسے نہ خوشبو لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ تلبیہ پڑھتا ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بينما كان رجل من الصحابة واقفاً في عرفة على راحلته في حجة الوداع محرمًا إذ وقع منها، فانكسرت عنقه فمات؛ فأمرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يغسلوه كغيره من سائر الموتى، بماء، وسدر، ويكفنوه في إزاره وردائه، اللذين أحرم بهما.
وبما أنه محرم بالحج وآثار العبادة باقية عليه، فقد نهاهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يُطيبوه وأن يغطوا رأسه،
وذكر لهم الحكمة في ذلك؛ وهي أنه يبعثه الله على ما مات عليه، وهو التلبية التي هي شعار الحج.
581;جۃ الوداع کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص عرفہ کے میدان میں اپنی سواری پر حالت احرام میں کھڑا تھا کہ اس سے گر پڑا جس سے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا۔ نبی ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اسے دیگر مُردوں کی طرح پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دیں اور اسے اس کی ازار اور چادر ہی میں کفن دیں جسے اس نے احرام کے طور پر پہن رکھا تھا۔
چونکہ وہ حالتِ احرام میں تھا اور اس پر آثارِ عبادت ابھی موجود تھے اس وجہ سے نبی ﷺ نے صحابہ کو اسے خوشبو لگانے اور اس کا سر ڈھانپنے سے منع فرمایا اور انہیں اس کی حکمت بھی بتا دی کہ جس حالت پر اس کی موت واقع ہوئی ہے اللہ تعالی اسی حال میں اسے روز قیامت اٹھائے گا یعنی تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا جو کہ شعائرِ حج میں سے ایک شعار ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3180

 
 
Hadith   233   الحديث
الأهمية: اطَّلَعت في الجنة فرأيتُ أكثرَ أهلِها الفقراءَ، واطَّلعتُ في النار فرأيتُ أكثرَ أهلها النِّساءَ


Tema:

میں نےجنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔

عن ابن عباس وعمران بن الحصين -رضي الله عنهم- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «اطَّلَعت في الجنة فرأيتُ أكثرَ أهلِها الفقراءَ، واطَّلعتُ في النار فرأيتُ أكثرَ أهلها النِّساءَ».

ابن عباس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”میں نےجنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- في الحديث أنه اطَّلَع في الجنة فرأى أكثرَ أهلِها الفقراءَ، وذلك لأن الفقراء ليس عندهم ما يطغيهم، فهم متمسكنون خاضعون, ولهذا من تأمل الآيات؛ وجد أن الذين يكذبون الرسل هم الملأ الأشراف والأغنياء، وأن المستضعفين هم الذين يتبعون الرسل، فلهذا كانوا أكثر أهل الجنة.
والحديث لا يوجب فضل كل فقير على كل غني، وإنما معناه الفقراء في الجنة أكثر من الأغنياء فأخبر عن ذلك، وليس الفقر أدخلهم الجنة، وإن كان خفف من حسابهم، إنما دخلوا بصلاحهم معه، فالفقير إذا لم يكن صالحاً لا يفضل.
كما أخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه اطَّلَع في النار فرأى أكثرَ أهلِها النساء؛ وذلك لقيامهن بعادات سيئة تغلب على طباعهن, وتتعلق بهن, من ذلك كُفران العشير وكثرة اللعن.
فالواجب عليهن أن يحافظن على أمر الدين ليسلمن من النار.
606;بی ﷺ اس حدیث میں بیان فرما رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں زیادہ تر غریب لوگ تھے کیونکہ غریبوں کے پاس ایسی کوئی شے ہوتی ہی نہیں جو انہیں سرکش بنائے۔ یہ لوگ پابندِ دین اور مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ اسی لیے جو شخص آیات میں غور و فکر کرتا ہے اس پر یہ آشکارا ہوتا ہے کہ صاحبِ حیثیت اور امیر لوگ ہی رسولوں کو جھٹلاتے ہیں جب کہ کمزور وناتواں لوگ رسولوں کی پیروی کرتے ہیں اس لیے جنت میں زیادہ تر یہی لوگ ہوں گے۔
حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر غریب کو ہر امیر پر فضیلت حاصل ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں غریب لوگ امیر لوگوں سے زیادہ ہیں اور اسی بات کی آپ ﷺ نےخبر دی ہے۔ ان کی غربت ان کے جنت میں جانے کا سبب نہیں اگرچہ اس کی وجہ سے ان کے حساب میں کچھ تخفیف ضرور ہو گی۔ اس کے بجائے وہ اپنی راستگی کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔ غریب آدمی اگر راست رو نہ ہو تو اسے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اس میں زیادہ تر عورتیں نظر آئیں۔ کیونکہ عورتوں میں ایسی بری عادات ہوتی ہیں جن کا رنگ ان کی طبیعتوں پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ ان میں رچ بس جاتی ہیں۔ شوہر کی ناشکری اور کثرت کے ساتھ لعن طن کرنا انہی بری عادات میں سے ہے۔
اس لیے ان پر ضروری ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کریں تاکہ جہنم سے محفوظ رہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3184

 
 
Hadith   234   الحديث
الأهمية: أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل المسجد، فدخل رجل فصلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ


Tema:

نبی ﷺ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک شخص مسجد ميں داخل ہوا، اس نے نماز پڑھی، پھر آپﷺ کے پاس آيا اورسلام کیا، آپﷺنے فرمایا: ”جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔

عن أبي هُرَيْرَةَ -رضي الله عنه- «أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل المسجد، فدخل رجل فصلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ، فرجع فصلَّى كما صلَّى، ثم جاء فسلَّم على النبي -صلى الله عليه وسلَّم- فقال: ارجع فصلِّ، فإنك لم تُصَلِّ -ثلاثا- فقال: والذي بعثك بالحق لا أُحْسِنُ غيره، فَعَلِّمْنِي، فقال: إذا قُمْتَ إلى الصلاة فَكَبِّرْ، ثم اقرأ ما تيسر من القرآن، ثم اركع حتى تَطْمَئِنَّ راكعا، ثم ارفع حتى تعتدل قائما، ثم اسجد حتى تَطْمَئِنَّ ساجدا, ثم ارفع حتى تطمئن جالسا، وافعل ذلك في صلاتك كلها».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک شخص مسجد ميں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر آکر نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺنے فرمایا: ”لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔ اس نے لوٹ کر (دوبارہ) نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا: ”لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تو اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر (نماز) نہیں پڑھ سکتا ہوں۔ لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجيے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ ميں تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل النبي -صلى الله عليه وسلم- المسجد، فدخل رجل من الصحابة، اسمه (خَلاّد بن رافع)، فصلى صلاة خفيفة غير تامة الأفعال والأقوال، فلما فرغ من صلاته، جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فسلم عليه فرد عليه السلام  ثم قال له: ارجع فَصَلِّ، فإنك لم تصل، فرجع وعمل في صلاته الثانية كما عمل في صلاته الأولى، ثم جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال له: ارجع فَصَلِّ فإنك لم تصل ثلاث مرات، فأقسم الرجل بقوله: والذي بعثك بالحق -وهو الله تعالى- ما أحسن غير ما فعلت فعَلِّمني، فعندما اشتاق إلى العلم، وتاقت نفسه إليه، وتهيأ لقبوله وانتفى احتمال كونه ناسيا بعد طول الترديد قال له النبي -صلى الله عليه وسلم- ما معناه: إذا قمت إلى الصلاة فكبر تكبيرة الإحرام، ثم اقرأ ما تيسر من القرآن، بعد قراءة سورة الفاتحة ثم اركع حتى تطمئن راكعا، ثم ارفع من الركوع حتى تعتدل قائما، وتطمئن في اعتدالك  ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع من السجود واجلس حتى تطمئن جالسا، وافعل هذه الأفعال والأقوال في صلاتك كلها، ماعدا تكبيرة الإحرام، فإنها في الركعة الأولى دون غيرها من الركعات.
وكون المراد بما تيسر سورة الفاتحة على الأقل مأخوذ من روايات الحديث ومن الأدلة الأخرى.
606;بی ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ جن کا نام خلاد بن رافع تھا ،مسجد ميں آئے اور ہلکی نماز پڑھی جس ميں مکمل طور پر تمام اقوال وافعال کی ادائيگی نہيں کی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپﷺ نے سلام کا جواب ديا، پھر ان سے فرمایا: لوٹ جاؤ پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گئے اور دوبارہ اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر نبی ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ نےان سے کہا: لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اسی طرح تین مرتبہ ہوا، وہ صحابی قسم کھا کر عرض کیا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمايا، میں نے جس طرح نماز پڑھی ہے اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجئے۔ جب ان کے اندر سيکھنےکا شوق اور جذبہ پيدا ہوگيا اور وہ صحيح طريقۂ نماز جاننے کے لیے بالکل آمادہ ہوگئے، نیز بار بار لوٹانے کے بعد ان کے بھولنے کا احتمال بھی ختم ہوگيا، تو آپ ﷺ نے ان سےفرمایا: (جس کا مفہوم یہ ہے کہ) جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیرۂ تحريمہ کہو، پھر سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ اطمینان سے رکوع کرلو، پھر رکوع سے اٹھو یہاں تک کہ اطمينان کے ساتھ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو، پھرسجدے سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور ان اقوال وافعال کی ادائيگی اسی طرح پوری نماز میں کرو سوائے تکبيرۂ تحريمہ کے، کيونکہ تکبيرۂ تحريمہ پہلی رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت ميں نہيں ہے۔
اور ”مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ“ (يعنی جتنا قرآن سے آسان ہو) سے مراد کم سے کم سورۂ فاتحہ ہے، يہ بات اسی حديث کی دوسری روايات اور دوسرے دلائل سے مأخوذ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3185

 
 
Hadith   235   الحديث
الأهمية: قال رجل للنبي -صلى الله عليه وسلم- يومَ أُحُدٍ: أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا؟ قال: "في الجَنَّة"، فأَلْقَى تَمراتٍ كُنَّ في يَدِه، ثم قاتل حتى قُتِلَ


Tema:

ایک شخص نے اُحُد کے دن آپ ﷺ سے کہا: آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر میں مارا گیا تو میں کہاں رہوں گا (میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا)؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں پھینکیں اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال رجل للنبي -صلى الله عليه وسلم- يومَ أُحُدٍ: أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا؟ قال: «في الجَنَّةِ» فأَلْقَى تَمراتٍ كُنَّ في يَدِه، ثم قاتل حتى قُتِلَ.

جابر بن عبد اللہ - رضی اللہ عنہما - سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اُحُد کے دن آپ ﷺ سے کہا: آپ کیا کہتے ہیں اگر میں مارا گیا تو میں کہاں رہوں گا (یعنی میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا)؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا جنت میں۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں پھینک دیں اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر جابر -رضي الله عنه- أن رجلًا -قيل: اسمه عُمير بن الحُمَام وقيل: غيره- قال للنبي -صلى الله عليه وسلم- يوم غزوة أحد: يا رسول الله! أرأيتَ إن قاتلتُ حتى قُتلتُ، يعني جاهدت المشركين وقتلت في هذه الوقعة ما مصيري؟ قال: "أنت في الجنة"، فألقى تمرات كانت معه، وقال: (إنها لحياة طويلة إن بقيت حتى آكل هذه التمرات) ثم تقدم فقاتل حتى قتل -رضي الله عنه-.
580;ابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص -جن کا نام عمیر بن الحمام تھا- نے غزوہ احد کے موقعے پر آپ ﷺ سے پوچھا، اے اللہ کے رسول! ذرا بتلائیے اگر میں لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں یعنی میں مشرکین کے ساتھ جہاد کروں اور اسی میں مارا جاؤں تو میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم جنت میں رہو گے۔ انھوں نے کھجوریں پھینک دی اور کہا۔ اگر میں زندہ رہا تو زندگی لمبی ہوگی کھجوریں پھر کھا لوں گا، آگے بڑھے اور لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3194

 
 
Hadith   236   الحديث
الأهمية: دعوة المرء المسلم لأخيه بظهر الغيب مستجابة، عند رأسه ملك موكل كلما دعا لأخيه بخير قال الملك الموكل به: آمين، ولك بمثل


Tema:

آدمی کی اپنے بھائی کےحق میں پس پشت دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیرکرتا ہے تو اس پر یہ متعین کردہ فرشتہ کہتا ہے: ’آمین، اور تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو‘۔

عن أم الدرداء -رضي الله عنها- مرفوعاً: « دعوة المرء المسلم لأخيه بظَهْرِ الغيب مستجابة، عند رأسه مَلَك مُوَكَّلٌ كلما دعا لأخيه بخير قال الملك المُوَكَّلُ به: آمين، ولك بمِثْلٍ».

ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کی اپنے بھائی کےحق میں پیٹھ پیچھے دعا قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیرکرتا ہے تو اس پر یہ متعین کردہ فرشتہ کہتا ہے: آمین، اور تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعاء المسلم لأخيه وهو غائب عنه لا يعلم مستجاب مقبول عند الله، فإذا دعا لأخيه وقف ملك من الملائكة عند رأسه يقول آمين ولك مثل هذا الخير الذي دعوت به لأخيك.
605;سلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔ جب بندہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے سر پر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: آمین، اور تیرے نصیب میں بھی وہی خیر ہو جس کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3219

 
 
Hadith   237   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا صَلَّى فرّج بين يديه، حتى يبدو بياض إبْطَيْهِ


Tema:

نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر کشادہ کرتے کہ آپ ﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔

عن عبد الله بن مالك بن  بُحَيْنَةَ -رضي الله عنهم-: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا صَلَّى فرّج بين يديه، حتى يَبْدُوَ بياضُ إبْطَيْهِ».

عبد اللہ بن مالک بن بُحَینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر کشادہ کرتے کہ آپ ﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا سجد يباعد عضديه عن جنبيه؛ لتنال اليدان حظهما من الاعتماد والاعتدال في السجود، ومن شدة التفريج بينهما يظهر بياض إبطيه.
وهذا لأنه -صلى الله عليه وسلم- كان إماما أو منفردا، أما المأموم الذي يتأذى جاره بالمجافاة؛ فلا يشرع له ذلك.
606;بی ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے تاکہ سجدے میں ہاتھ اچھی طرح سے ٹک جائیں اور اعتدال میں آ جائیں۔ انھیں بہت زیادہ کشادہ کرنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی۔
ایسا اس وجہ سے ہوتا کیوں کہ آپ ﷺ یا تو امام ہوتے یا پھر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوتے۔ جب کہ مقتدی جس کے بازو پھیلانے سے اس کے ساتھ نمازی کو تکلیف ہوتی ہو اس کے لیے ایسا کرنا مشروع نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3220

 
 
Hadith   238   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُصَلِّي وهو حامل أُمَامَةَ  بنت زينب بنت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

نبی ﷺ اُمامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔

عن أبي  قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ -رضي الله عنه- قال: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يُصَلِّي وهو حامل أُمَامَةَ بنت زينب بنت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».
ولأبي العاص بن الربيع بن عبد شَمْسٍ -رضي الله عنه-: «فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها».

ابو قتادہ انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اُمامہ بنتِ زینب بنت رسول (ﷺ) -ابوالعاص بن ربیع بن عبدالشمس کی بیٹی- کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو ان کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يحمل بنت ابنته وهي أمامة بنت زينب وهو في الصلاة، حيث يجعلها على عاتقه إذا قام، فإذا ركع أو سجد وضعها في الأرض محبةً وحنانًا.
606;بی ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھنے کی حالت میں کندھے پر اٹھائے رکھتے، جب کھڑے ہوتے تو ان کو اپنے کندھے پر اٹھا لیتے، اور جب رکوع یا سجدہ کرتے تو انہیں محبت اور پیار سے زمین پر اتار دیتے .

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3226

 
 
Hadith   239   الحديث
الأهمية: إني لا آلُو أن أُصَلِّيَ بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي بنا


Tema:

جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے میں بالکل اسی طرح تمھیں نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔

عن أنس -رضي الله عنه- أنه قال: «إني لا آلُو أن أُصَلِّيَ بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي بنا، قال ثابت فكان أَنَس يصنع شيئا لا أراكم تصنعونه: كان إذا رفع رأسه من الركوع انْتَصَبَ قائما، حتى يقول القائل: قد نَسِيَ، وإذا رفع رأسه من السَّجْدَةِ مكث، حتى يقول القائل: قد نَسِيَ».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے میں بالکل اسی طرح تمھیں نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ ثابت نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں اور اسی طرح جب وہ سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے (تو دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک) ٹھرتے تھے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ وہ بھول گئے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أنس -رضي الله عنه- يقول إني سأجتهد فلا أقَصر أن أصلي بكم كما كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلى بنا، لتقتدوا به، فتصلوا مثله.
قال ثابت البناني: فكان أنس يصنع شيئا من تمام الصلاة وحسنها، لا أراكم تصنعون مثله،كان يطيل القيَام بعد الركوع، والجلوس بعد السجود، فكان إذا رفع رأسه من الركوع انتصب قائما حتى يقول القائل -من طول قيامه- قد نَسيَ أنه في القيام الذي بين الركوع والسجود، وإذا رفع رأسه من السجدة مكث حتى يقول القائل -من طول جلوسه-: قد نسي أيضا.
575;نس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ تمہیں ویسے ہی نماز پڑھاؤں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے تاکہ تم اس کی پیروی کرسکو اور اسی جیسی نماز پڑھو۔
ثابت بنانی کہتے ہیں کہ: انس رضی اللہ عنہ نماز کی خوبصورتی اور اتمام میں ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا، جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو دیر تک کھڑے رہتے تھے اور سجدوں کے بعد دیر تک بیٹھے رہتے۔
چنانچہ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے طولِ قیام کی وجہ سے کہنےوالا کہتا کہ آپ بھول گئے ہیں کہ آپ رکوع اور سجود کے درمیان کے قیام میں ہیں، اور اسی طرح جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو (دونوں سجدوں کے درمیان) اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ آپ کے طولِ جلوس کی وجہ سے کہنے والا کہتا کہ بھول گئے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3227

 
 
Hadith   240   الحديث
الأهمية: نُهِينَا عن اتِّبَاعِ الجنائز، ولم يُعْزَمْ علينا


Tema:

ہمیں جنازہ کے ساتھ چلنے سے روکا گیا ہے، لیکن ہم پر اس میں سختی نہ کی گئی۔

عن أُمِّ عَطِيَّةَ الأنصارية -رضي الله عنها- قالت: «نُهِينَا عن اتِّبَاعِ الجنائز ولم يُعْزَمْ علينا».

ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا تاہم اس سلسلے میں سختی نہیں کی گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أُمُّ عَطِيَّةَ الأنصارية من الصحابيات الجليلات تفيد أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى النساء عن اتباع الجنائز؛ لما فيهن من شدة الرقة والرأفة، فليس لديهن صبر الرجال وتحملهم للمصائب؛ فخروجهن يؤدي إلى الهلع والفتنة بما يشاهدن من حال حمل الجنازة والانصراف عنها، ولكن مع هذا فهمت من قرائن الأحوال أن هذا النهي ليس على سبيل العزم والتأكيد؛ فكأنه لا يفيد تحريم ذلك عليهن، والصحيح المنع، وقال ابن دقيق العيد: قد وردت أحاديث أدل على التشديد في اتباع الجنائز أكثر مما يدل عليه هذا الحديث.
575;م عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ نے عورتوں کو جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا کیونکہ ان میں بہت رقت قبلی اور نرمی ہوتی ہے۔ ان کے پاس مردوں کی طرح صبر کرنے اور مصائب کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان کے جنازوں کے ساتھ جانے کی وجہ سے وہ جزع فزع کریں گی اور جنازے کو اٹھانے اور پھر اسے دفنا کر واپس آنے کو دیکھ کر وہ آزمائش میں مبتلا ہوں گی۔ اس کے باوجود ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے قرائن سے یہ بات سمجھی کہ نبی ﷺ نے بہت سختی کے ساتھ یہ ممانعت نہیں کی تھی۔ گویا کہ نبی ﷺ اس جانے کو عورتوں کے لیے حرام قرار نہیں دے رہے تھے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع ہے۔ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’بہت سی ایسی احادیث آئی ہیں جو اس حدیث سے زیادہ سختی کے ساتھ عورتوں کے جنازوں کے ساتھ جانے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3228

 
 
Hadith   241   الحديث
الأهمية: أُمِرَ الناس أن يكون آخر عَهْدِهِمْ بالبيت، إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض


Tema:

لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو، البتہ حائضہ سے یہ حکم معاف ہو گیا تھا۔

عن عبد الله بن عبَّاس رضي الله عنهما قال: «أُمِرَ الناس أن يكون آخر عَهْدِهِمْ بالبيت، إلا أنه خُفِّفَ عن المرأة الحائض».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو (یعنی طواف وداع کریں) البتہ حائضہ سے یہ حُکم معاف ہو گیا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لهذا البيت الشريف تعظيم وتكريم؛ فهو رمز لعبادة الله والخضوع والخشوع بين يديه، فكان له في الصدور مهابة، وفِى القلوب إجلال، وتعلق، ومودة.
ولذا أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- الحاج قبل السفر أن يكون آخر عهده به، وهذا الطواف الأخير هو طواف الوداع، إلا المرأة الحائض؛ فلكونها تلوث المسجد بدخولها سقط عنها الطواف بلا فداء، وهذا النص في الحج فلا يتناول العمرة.
576;یت اللہ شریف کی اپنی عظمت و کرامت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے سامنے خشوع و عاجزی کی نشانی ہے، سینوں میں اس کا رعب اور دلوں میں اس کا جلال، تعلق اور محبت سمائی ہوئی ہے۔
اسی وجہ سے اللہ کے نبی ﷺ نے حاجی کو سفر سے پہلے حکم دیا کہ اس کا آخری وقت بیت اللہ میں گزرے، یہ طوافِ اخیر ہے جسے طوافِ وداع کہتے ہیں، سوائے حائضہ عورت کے، اس لیے کہ اس کے داخل ہونے سے مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، چنانچہ اس سے بغیر فدیہ کے طواف ساقط ہوگیا، یہ حدیث صرف حج کے بارے میں ہے عمرے کو یہ (حکم) شامل نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3229

 
 
Hadith   242   الحديث
الأهمية: أُمِرْتُ أن أسجدَ على سبعةِ أَعْظُم


Tema:

مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں۔

عن عبد الله بن عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أُمِرْتُ أن أَسْجُدَ على سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: على الْجَبْهَةِ -وأشار بيده إلى أنفه- واليدين، والرُّكْبَتَيْنِ ، وأطراف القدمين».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں: پیشانی پر -آپ ﷺ نے ہاتھ سے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا-، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے اطراف پر“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر الله -تعالى- نبيه محمدًا -صلى الله عليه وسلم- أن يسجد له على سبعة أعضاء، هي أشرف أعضاء البدن وأفضلها؛ ليكون ذله وعبادته لله، وقد أجملها النبي -صلى الله عليه وسلم-، ثم فصلها ليكون أبلغ في حفظها وأشوق في تلقيها:
الأولى منها: الجبهة مع الأنف.
والثاني والثالث: اليدان، يباشر الأرض منهما بطونهما.
والرابع والخامس: الركبتان.
والسادس والسابع: أطراف القدمين، موجهًا أصابعهما نحو القبلة.
575;للہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ سات اعضاء پر سجدہ کریں جو کہ جسم کے اشرف و افضل ترین اعضاء ہیں تا کہ آپ کا جھکنا اورعبادت، اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ نبی ﷺ نے پہلے اجمالا ان کا ذکر کیا اور پھر اس کی تفصیل بیان کی تا کہ انہیں یاد رکھنا آسان ہو اور پورے شوق کے ساتھ انہیں سیکھا جائے۔
ان میں سے پہلا عضو پیشانی بشمول ناک ہے۔
دوسرے اور تیسرے اعضاء دونوں ہاتھ ہیں بایں طور کہ نمازی ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے۔
چوتھے اور پانچویں اعضاء دونوں گھٹنے ہیں۔
اور چھٹے اور ساتویں دونوں پاؤں کے کنارے ہیں، اس حال میں کہ ان کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف رکھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3230

 
 
Hadith   243   الحديث
الأهمية: لا تدعوا على أنفسكم؛ ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء فيستجيب لكم


Tema:

نہ تم اپنے خلاف بد دعا کرو اور نہ اپنے مال و اولاد پر۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا ہو اور وہ تمہاری بد دعا قبول کر لے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «لا تدعوا على أنفسكم؛ ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يُسأل فيها عطاءٌ فيستجيب لكم».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ تم اپنے خلاف بد دعا کرو اور نہ ہی اپنے مال و اولاد پر۔ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعا کا وقت اللہ کی طرف سے قبولیت کا ہو اور وہ تمہاری بد دعا قبول کر لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحذر الرسول -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث وينهى عن الدعاء على النفس والأولاد والأموال؛ لأن الدعاء شأنه عظيم، قد يمضيه الله على العباد، لو وافق ساعة إجابة فيكون ضرره على صاحبه وما يتعلق به من أولاده وماله.
585;سول اللہ ﷺ اس حدیث میں (ہمیں) اپنے آپ، اولاد اور اموال کے خلاف بدعا کرنے سے ڈریا اور اس سے منع فرما رہے ہیں کیونکہ دعاء ایک عظیم الشان عمل ہے اور اگر گھڑی قبولیت کی ہوئی تو اللہ تعالی بندوں کی دعا قبول کرلیتا ہے۔ اس طرح سے دعا مانگنے والے اور اس کی اولاد اور مال کو نقصان پہنچتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3231

 
 
Hadith   244   الحديث
الأهمية: يستجاب لأحدكم ما لم يعجل: يقول: قد دعوت ربي، فلم يستجب لي


Tema:

تم ميں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے: میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: يُستجاب لأحدكم ما لم يَعْجَلْ: يقول: قد دعوت ربي، فلم يستجب لي».
وفي رواية لمسلم: «لا يزال يُستجاب للعبد ما لم يَدْعُ بإثم، أو قطيعة رحم، ما لم يَسْتَعْجِلْ» قيل: يا رسول الله ما الاستعجال؟ قال: «يقول: قد دعوت، وقد دعوت، فلم أر يستجب لي، فَيَسْتَحْسِرُ عند ذلك ويَدَعُ الدعاء».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ميں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے : میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
مسلم کی روایت میں ہے: ”بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے، جب تک وہ کسی برائی اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ کرے“۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت مرتبہ دعا کی تھی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ قبول ہوئی۔ اس پر وہ افسوس شروع کردے اور دعا کرنا چھوڑ دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه يستجاب للعبد دعاؤه ما لم يدع بمعصية أو قطيعة رحم، وما لم يستعجل، فقيل: يا رسول الله ما الاستعجال المرتب عليه المنع من إجابة الدعاء، قال: يقول: قد دعوت وقد دعوت، وتكرر مني الدعاء، فلم يستجب لي؛  فيستعجل عند ذلك ويترك الدعاء.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ بندے کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ دعا کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو اور وہ اس میں جلدی نہ کرے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اس جلد بازی سے کیا مراد ہے، جو دعا کی قبولیت میں آڑے آتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ یوں کہے: میں نے دعا مانگی اور بار بار مانگی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ جلد بازی کرتے ہوئے وہ دعا ہی کرنا چھوڑ دے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3232

 
 
Hadith   245   الحديث
الأهمية: أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات


Tema:

کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے آخر میں کی گئی دعا۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- مرفوعاً: قيل لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أيُّ الدعاء أسمع؟ قال: «جَوْفَ الليل الآخِر، ودُبُر الصلوات المكتوبات».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے آخر میں کی گئی دعا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الدعاء أقرب للإجابة، فأخبر صلى الله عليه وسلم أنه الدعاء الذي في آخر الليل، والذي في آخر الصلوات المفروضة، والمراد بدبر الصلوات: آخرها قبل التسليم، وهذا وإن كان خلاف المتبادر، لكن يؤيده أن الله جعل ما بعد انتهاء الصلاة ذكراً، والنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جعل ما بين التشهد والتسليم دعاء.
والمحافظة على الدعاء بعد الفريضة وكذلك النافلة ليس بسنة بل هو بدعة؛ لأن المحافظة عليه يلحقه بالسنة الراتبة سواء كان قبل الأذكار الواردة بعد الصلاة أم بعدها، وأما فعله أحياناً فلا بأس به، وإن كان الأولى تركه؛ لأن الله تعالى لم يشرع بعد الصلاة سوى الذكر لقوله تعالى: (فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ)، ولأن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يرشد إلى الدعاء بعد الصلاة، وإنما أرشد إلى الدعاء بعد التشهد قبل التسليم، وكما أن هذا هو المسموع أثراً فهو الأليق نظراً، لكون المصلي يدعو ربه حين مناجاته له في الصلاة قبل الانصراف.
606;بی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے بتایا کہ وہ دعا جو رات کے آخری حصے میں مانگی جائے اور وہ دعا جو فرض نمازوں کے آخر میں مانگی جائے۔ "دبر الصلوات" سے مراد نماز کا سلام پھیرنے سے پہلے آخری حصہ ہے۔ یہ اگرچہ اس معنی کے برخلاف ہے جو فوری طور پر ذہن میں آتا ہے، تاہم اس کی تایید اس بات سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے نماز کے بعد کے وقت کو ذکر کا وقت قرار دیا اور نبی صلى الله عليه وسلم نے تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیانی وقت کو دعا کا وقت قرار دیا۔
فرض نمازوں کے بعد پابندی کے ساتھ دعا کرنا اور اسی طرح نفل نمازوں کے بعد دعا کرنا سنت نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے، کیوںکہ پابندی کے ساتھ دعا مانگنا اسے سنت راتبہ کے درجے تک پہنچادیتا ہے، چاہے یہ دعا نماز کے بعد کئے جانے والے اذکار سے پہلے کی جائے یا بعد میں۔ تاہم کبھی کبھی دعا مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایسا نہ ہی کیا جائے۔ کیوںکہ اللہ تعالی نے نماز کے بعد صرف ذکر کو مشروع کیا ہے: ”فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ“ ترجمہ: جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو۔ اور نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز کے بعد دعا مانگنے کی تعلیم نہیں دی، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دعا مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ اور جب نص سے یہی ثابت ہے تو عقلی اعتبار سے بھی یہی زیادہ بہتر ہے۔ کیوںکہ نمازی نماز میں اپنے رب سے مناجات کے دوران نماز ختم کرنے سے پہلے اس سے دعا کرتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3236

 
 
Hadith   246   الحديث
الأهمية: كنا إذا أتينا النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس أحدنا حيث ينتهي


Tema:

جب ہم نبی ﷺ کے پاس آتے، تو ہم میں سے جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتا۔

عن جابر بن سمرة -رضي الله عنه- قال:كنا إذا أتينا النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس أحدنا حيث ينتهي.

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ کے پاس آتے، تو ہم میں سے جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه بيان أدب الصحابة -رضي الله عنهم- في مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم-, حيث كانوا إذا جاء أحدهم مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم- جلس حيث انتهى به المجلس سواء كان في صدر المحل أو أسفله، فالإنسان إذا دخل على جماعة يجلس حيث ينتهي به المجلس، ولا يتقدم إلى صدر المجلس إلا إذا آثره أحد بمكانه أو كان قد ترك له مكان في صدر المجلس فلا بأس، وأما أن يشق المجلس وكأنه يقول للناس ابتعدوا وأجلس أنا في صدر المجلس، فهذا خلاف هدي النبي -صلى الله عليه وسلم- وهدي أصحابه -رضي الله عنهم-، وهو يدل على أن الإنسان عنده شيء من الكبرياء والإعجاب بالنفس.
575;س حدیث میں نبی ﷺ کی مجلس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے (اُسوہ) ادب کو واضح کیا گیا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں جب کوئی صحابی تشریف لاتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہ وہیں بیٹھ جاتے، چاہے وہ اس مجلس کا ابتدائی حصہ ہو یا آخری حصہ۔ لہذا جب کوئی شخص کسی جماعت میں داخل ہو تو وہیں بیٹھ جائے جہاں مجلس ختم ہوتی ہو اور مجلس کے ابتدائی حصہ کی جانب نہ بڑھے، الا یہ کہ کوئی اس کو فوقیت دیتے ہوئے اپنی جگہ بٹھادے یا اس کے لیے مجلس کے ابتدائی حصہ میں جگہ چھوڑ دے تو (اس جگہ بیٹھنے میں) کوئی حرج و مضائقہ نہیں، تاہم رہا وہ شخص جو اہلِ مجلس کو مشقت میں مبتلا کرتے ہوئے لوگوں سے یوں کہنے لگے کہ پرے ہٹو، میں مجلس کے ابتدائی حصہ میں بیٹھوں گا تو یہ عمل نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ہدایت و منہج کے خلاف ہوگا اور یہ اس بات کی بھی علامت ہوگی کہ اس انسان میں کچھ تکبر اور خودپسندی کا جذبہ موجود ہے۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3253

 
 
Hadith   247   الحديث
الأهمية: فارجع إلى والديك، فأحسن صحبتُهما


Tema:

تم لوٹ جاؤ اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: أقبَلَ رجل إلى نبي الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: أُبَايِعُكَ على الهجرة والجهاد أَبْتَغِي الأجر من الله -تعالى- قال: «فَهَل لَكَ من وَالِدَيك أحد حيٌّ؟» قال: نعم، بل كلاهما، قال: «فتبتغي الأجر من الله تعالى؟» قال: نعم، قال: «فَارْجِع إلى وَالِدَيك، فَأَحْسِن صُحْبَتَهُمَا».
 وفي رواية لهما: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنه في الجهاد، فقال: «أَحَيٌّ والداك؟»، قال: نعم، قال: «فَفِيهِمَا فجاهد».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کے لیے بیعت کرتا ہوں اور اللہ سے اس کا اجر چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں بلکہ دونوں زندہ ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم واقعی ﷲ سے (اپنی ہجرت اور جہاد کا) بدلہ چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی ہاں (میں اللہ سے اجر چاہتا ہوں)، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ تم لوٹ جاؤ، اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
بخاری ومسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آکر آپ ﷺ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا : کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں ۔آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت میں جہاد کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يخبره برغبته وحبه للجهاد والهجرة في سبيل الله -تعالى-، وكان هذا الرجل قد ترك خلفه والداه، وجاء في رواية أبي داود : " يبكيان "، خوفا عليه من الهلاك، فسأله النبي -صلى الله عليه وسلم-:" هل لك من والديك أحد حيٌّ؟" قال: نعم، بل كلاهما، قال: "فتبتغي الأجر من الله تعالى؟" قال: نعم، قال: "فارجع إلى والديك، فأحسن صُحْبتهما"، وفي رواية أبي داود: "ارجع عليهما فأضحكهما كما أبكيتهما".
فرده النبي -صلى الله عليه وسلم- لما هو أولى وأوجب في حقه، وهو الرجوع إلى والديه وأن يحسن صحبتهما، فإن ذلك من مجاهدة النفس في القيام بخدمتهما وإرضائهما وطاعتهما، كما جاء في رواية البخاري ومسلم: " ففيهما فجاهد".
وقد صرح في حديث آخر بأن بر الوالدين وطاعتهما والإحسان إليهم أفضل من الجهاد في سبيل الله كما جاء في رواية عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فسأله عن أفضل الأعمال فقال: "الصلاة" قال: ثم مه: قال: "الجهاد" قال: فإن لي والدين، فقال: "برك بوالديك خير" أخرجه ابن حبان، فقد دل هذا الحديث على أن بر الوالدين أفضل من الجهاد، إلا إذا كان الجهاد فرض عين، فإنه يُقدم على طاعتهما؛ لتعينه.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور اللہ کی راہ میں جہاد اور ہجرت کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگا۔ یہ شخص اپنے پیچھے اپنے والدین کو چھوڑ کر آیا تھا ۔ ابوداود کی روایت میں ہے کہ "وہ رو رہے تھے " اس اندیشے کی وجہ سے کہ وہ مارا جائے گا۔ (یہ شخص گویا آپ ﷺ سے اپنے اس فعل کی تصدیق چاہتا تھا)۔
رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ۔ بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا: کیا تم واقعی اللہ تعالی سے اجر چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں ۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس لوٹ جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ابوداود کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ان کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں اسی طرح ہنساؤ جس طرح سے تم نے انہیں رلایا ہے ۔
چنانچہ رسول اللہﷺ نے اسے اس کام کی طرف لوٹا دیا جس کا کرنا اس کے لیے زیادہ لائق اور زیادہ ضروری تھا۔ یعنی والدین کے پاس جا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اس سے مراد ان کی خدمت ، رضا جوئی اور فرماں برداری میں جد وجہد کرنا ہے ۔ جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت میں جہاد کرو۔
اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرنا جہاد فی سبیل اللہ سے بہتر عمل ہے ۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: نماز۔ اس نے پوچھا : اس کے بعد کون سا عمل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد۔ وہ کہنے لگا کہ میرے تو والدین ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ اس حدیث کو ابن حبان نے ذکر کیا ہے اور اس میں دلیل ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے ۔ ماسوا اس وقت کے جب جہاد فرض عین ہوجائے کیونکہ فرض ہونے کی وجہ سے اسے والدین کی فرماں برداری پر مقدم رکھا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3260

 
 
Hadith   248   الحديث
الأهمية: احْتَجَّتِ الجنَّة والنَّار، فقالتِ النَّار: فيَّ الجبَّارون والمُتَكَبِّرُون. وقالتِ الجنَّة: فيَّ ضُعَفَاء الناسِ ومساكِينُهُم


Tema:

جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا کہ میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔ اور جنت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «احْتَجَّتِ الجنَّة والنَّار، فقالتِ النَّار: فيَّ الجبَّارون والمُتَكَبِّرُون. وقالتِ الجنَّة: فيَّ ضُعَفَاء الناسِ ومساكِينُهُم، فقضى الله بَيْنَهُمَا: إِنك الجنَّة رحْمَتي أَرحم بك من أشاء، وإِنك النَّار عذابي أُعذب بك من أشاء، ولِكِلَيْكُمَا عليَّ مِلْؤُهَا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا کہ میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔ اور جنت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا:’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن الجنة والنار تحاجتا فيما بينهما، كل واحدة تدلي بحجتها، وهذا من الأمور الغيبية التي يجب علينا أن نؤمن بها حتى وإن استبعدتها العقول
فالجنة احتجت على النار، والنار احتجت على الجنة، النار احتجت بأن فيها الجبارين والمتكبرين، الجبارون أصحاب الغلظة والقسوة، والمتكبرون أصحاب الترفع والعلو، والذين يغمطون الناس ويردون الحق، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم في الكبر: (إنه بطر الحق وغمط الناس).
فأهل الجبروت وأهل الكبرياء هم أهل النار والعياذ بالله، وربما يكون صاحب النار لين الجانب للناس، حسن الأخلاق، لكنه جبار بالنسبة للحق، مستكبر عن الحق، فلا ينفعه لينه وعطفه على الناس، بل هو موصوف بالجبروت والكبرياء ولو كان لين الجانب للناس؛ لأنه تجبر واستكبر عن الحق.
أما الجنة فقالت: إن فيها ضعفاء الناس وفقراء الناس. فهم في الغالب الذين يلينون للحق وينقادون له، وأما أهل الكبرياء والجبروت؛ ففي الغالب أنهم لا ينقادون.
فقضى الله عز وجل بينهما فقال للجنَّة : ( إنك الجنة رحمتي أرحم بك من أشاء ) وقال للنار: ( إنك النار عذابي أعذب بك من أشاء )
ثم قال عز وجل: ( ولكليكما عليَّ ملؤها ) تكفل عز وجل وأوجب على نفسه أن يملأ الجنة ويملأ النار، وفضل الله سبحانه وتعالى ورحمته أوسع من غضبه، فإنه إذا كان يوم القيامة ألقى من يلقى في النار، وهي تقول : هل من مزيد، يعني أعطوني. أعطوني. زيدوا. فيضع الله عليها رجله، وفي لفظ عليها : قدمه، فينزوي بعضها على بعض، ينضم بعضها إلى بعض من أثر وضع الرب عز وجل عليها قدمه، وتقول:  قط قط، يعني: كفاية كفاية، وهذا ملؤها.
أما الجنة فإن الجنة واسعة، عرضها السَّمَوَاتِ والأرض يدخلها أهلها ويبقى فيها فضل زائد على أهلها، فينشئ الله تعالى لها أقواماً فيدخلهم الجنة بفضله ورحمته؛ لأن الله تكفل لها بملئها.
575;س حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جنت ودوزخ کے مابین جھگڑا ہوا تو ہر کسی نے اپنی اپنی دلیل دی ۔ (اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا) اس کا تعلق امور غیب سے ہے جس پر ایمان لانا ہم پر واجب ہے اگرچہ عقل اسے بعید ہی جانے ۔
جنت نے دوزخ کے مقابلے میں اپنی دلیل دی اور دوزخ نے جنت کے خلاف اپنی دلیل پیش کی ۔ دوزخ نے کہا کہ اس میں سرکش و متکبر لوگ ہوں گے ۔ جبار لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں سختی اور درشتگی ہوتی ہے اور متکبر لوگ وہ ہیں جو اپنی برتری اور بڑکپن جتاتے ہیں یعنی جو لوگوں کو حقیر جانتے ہیں اور حق کو جھٹلاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کبر کے بارے فرمایا کہ (کبر سے مراد) حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ چنانچہ سرکش اور متکبر لوگ دوزخی ہیں ۔ العیاذ باللہ ۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ دوزخی شخص لوگوں کے لیے تو بڑا نرم خو اور خوش اخلاق ہوتا ہے تاہم حق کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں وہ سرکشی دکھاتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے چنانچہ ایسے شخص کو لوگوں کے ساتھ اس کی یہ نرم خوئی اور مہربانی کوئی فائدہ نہیں دیتی، بلکہ اس کے باوجود بھی وہ سرکش و متکبر ہی ہوتا ہے اگرچہ لوگوں کے لیے وہ نرم خو ہی کیوں نہ ہو ۔
پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا اور جنت سے کہا:’’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا‘‘ اور جہنم سے کہا: اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا‘‘ اور پھر عزوجل نے کہا: ’’ اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے۔'' اللہ عزوجل نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اور وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ جنت وجہنم کو بھردے گا، تاہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فضل ومہربانی اس کے غضب سے وسیع ہے۔ چنانچہ روزِقیامت جب جہنمیوں کو آگ میں ڈال چکے گا تو جہنم کہے گی: اور کوئی ہے، یعنی مجھے اور دو، مجھے اور دو، زیادہ دو، چنانچہ اس میں اللہ اپنے پیرکو رکھے گا، اور ایک لفظ میں ’’قدم‘‘ کا ذکر ہے، چنانچہ جہنم کے حصے آپس میں سکڑ جائیں گے، اور رب عزّ وجلّ کے اس میں قدم رکھنے کی وجہ سے آپس میں جہنم مل جائے گی، اور کہے گی: بس بس یعنی کافی ہے کافی ہے، اور یہی جہنم کا بھرنا ہے۔
رہی بات جنت کی توجنت بہت وسیع ہے، اس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے، اس میں جنتی داخل ہوں گے اور ان جنتیوں کے مقدار کے مطابق زائد حصہ باقی رہ جائے گا، چنانچہ اس کے لیے اللہ ایک ایسی قوم کو پیدا کرے گا جنہیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کرے گا، کیونکہ اللہ نے اس کے بھرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3261

 
 
Hadith   249   الحديث
الأهمية: أتي النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شرب خمرًا، قال: «اضربوه»


Tema:

نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے مارو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: أُتِي النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شَرِب خمرا، قال: «اضربوه».   قال أبو هريرة: فمنا الضارب بيده، والضارب بنعله، والضارب بثوبه، فلما انصرف، قال بعض القوم: أخزاك الله، قال: «لا تقولوا هكذا، لا تُعِينُوا عليه الشيطان».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے مارو۔ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ كا بيان ہے کہ: تو ہم میں سے کوئى اسے اپنے ہاتھ سے، كوئى اپنے جوتے سے اور کوئى اپنے کپڑے سے ماررہا تھا۔ جب وہ (مار كهاكر) جانے لگا تو لوگوں میں سے کسی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الصحابة -رضي الله تعالى عنهم- جاءوا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- برجل قد شرب الخمر، فأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بضربه فضربه الصحابة، فبعضهم ضربه بيده دون استعمال أداة أخرى من أدوات الضرب، ومنهم الضارب بنعله وهذا من التنكيل به ومنهم الضارب بثوبه، ولم يستعملوا السوط الذي هو أداة الحد في الضرب، وجاء في رواية أنه أمر عشرين رجلًا فضربه كل رجل جلدتين بالجريد والنعال، وهذا يفسر أن الجلد أربعين، وما جاء عن الخلفاء الراشدين من زيادة على ذلك فهو تعزير راجع للإمام.
ثم لما فرغ الناس من ضربه، دعا عليه بعضهم بقوله : " أخزاك الله" أي: دعا عليه بالخزي، وهو الذل والمهانة والفضيحة بين الناس، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لا تقولوا له هكذا لا تعينوا عليه الشيطان"؛ لأنهم إذا دعوا عليه بالخزي ربما استجيب لهم، فبلغ الشيطان مأربه، ونال مقصده ومطلبه، وحتى لا ينفر العاصي وقد حد.
581;دیث کا معنی: صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبیﷺ کے پاس ایک آدمی کو لے کر آئے جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابۂ کرام نے اسے مارا۔ ان میں سے کچھ نے اسے مارنے کے کسی دوسرے آلے کے استعمال کے بغیر خالی اپنے ہاتھ سے مارا، تو کسی نے اسے اپنے جوتے سے مارا اور یہ اسے عبرتناک سزا دینے کے طورپر تھی، اور کسی نے اسے اپنے کپڑے سے مارا۔ جبکہ انہوں نے کوڑے کا استعمال نہیں کیا جو کہ مارنے سے متعلق شرعی حد (کے نفاذ) کا آلہ ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے بیس آدمیوں کو حکم دیا تو ان میں سے ہر ایک نے اسے چھڑی اور جوتے سے دو دو ضرب لگائے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ کوڑوں کی تعداد چالیس ہے، اور خلفائے راشدین سے اس پر جو اضافہ وارد ہے وہ بطور تعزیر ہے جو امام وقت (حاکم) کی صوابدید پر منحصر ہے۔
پھر جب لوگ اسے مار نے سے فارغ ہوگئے تو ان میں سے کسی نے اسے یہ بددعا دی کہ: ”اللہ تجھے رسوا کرے“ یعنی اسے رسوائی کی بددعا دی، جس کا مطلب لوگوں کے بیچ ذلت وخواری، اہانت و حقارت اور فضیحت ورسوائی ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”ا سے اس طرح مت کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو“۔ کیونکہ جب لوگ اسے ذلت ورسوائی کی بددعا دیں گے تو بسا اوقات ان کی بددعا قبول ہوسکتی ہے، تو اس طرح شیطان اپنی مراد کو پہنچ جائے گا اور اس کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ نیز اس لیے تاکہ گناہ گار سے نفرت نہ کی جائے جبکہ اس پرحد کا نفاذ ہو چکا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3262

 
 
Hadith   250   الحديث
الأهمية: إِنِّي أَرَى ما لا تَرَوْنَ، أَطَّت السَّمَاءُ وَحُقَّ لها أَنْ تَئِطَّ، ما فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصابِعَ إِلَّا ومَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَه سَاجِدًا للهِ -تعالى-


Tema:

جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ بے شک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کیے ہوئے نہ پڑا ہو۔

عن أبي ذر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إني أرى ما لا ترون، أطَّتِ السماء وحُقَّ لها أن تَئِطَ، ما فيها موضع أربع أصابع إلا ومَلَكٌ واضع جبهته ساجدا لله تعالى، والله لو تعلمون ما أعلم، لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا، وما تلذذتم بالنساء على الفُرُشِ، ولخرجتم إلى الصُّعُداتِ تَجْأَرُون إلى الله تعالى».

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں وہ کچھ دیکھتا ہوں، جو تم نہیں دیکھتے۔ آسمان سے چرچرانے کی آواز نکلتی ہے اور اس کا ایسی آواز دینا بالکل بجا ہے۔ آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی جگہ نہیں، جہاں کوئی فرشتہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم وہ کچھ جانتے ہوتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو پاتےاور اللہ سےفریادیں کرتے ہوئے گلیوں چوراہوں میں نکل آتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إني أبصر وأعلم ما لا تبصرون ولا تعلمون، حصل للسماء صوت كصوت الرحْلِ إذا رُكب عليه، ويحق لها ذلك؛ فما فيها موضع أربع أصابع إلا وفيه ملك واضِعٌ جبهته ساجدا لله -تعالى- والله لو تعلمون ما أعلم من عِظَمِ جلال الله -تعالى- وشدة انتقامه، لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا خوفا من سطوته -سبحانه وتعالى-، وما تلذذتم بالنساء على الفرش من شدة الخوف، ولخرجتم إلى الطرقات ترفعون أصواتكم بالاستغاثة إلى الله -تعالى-.
585;سول اللہ ﷺ نے فرمایا میں وہ کچھ دیکھتا اور جانتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور تم نہیں جانتے۔ آسمان سے ایسے آواز آتی ہے جیسی کجاوے پر بیٹھتے ہوئے اس میں سے آواز آتی ہے اور ایسی آواز آنی بھی چاہئے۔ آسمان میں چار انگل کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکے سجدہ ریز نہ پڑا ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم اللہ کے جلال کی عظمت اور اس کے انتقام کی شدت کو ویسے جانتے ہوتے جیسے میں جانتا ہوں تو تم اس کی غالبیت کے خوف کی وجہ سے ہنستے کم اور روتے زیادہ اور خوف کی شدت کی وجہ سے تم بستروں پر اپنی عورتوں سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکتے اور با آواز بلند اللہ تعالی سے مدد مانگتے ہوئے تم راستوں میں نکل آتے۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3265

 
 
Hadith   251   الحديث
الأهمية: أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ: دِينَارٌ يُنْفِقُهُ على عِيَالِهِ، ودِينَارٌ يُنْفِقُهُ على دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، ودِينَارٌ يُنْفِقُهُ على أَصْحَابِهِ في سَبِيلِ اللهِ


Tema:

سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اور جو اللہ کی راہ میں اپنی سواری کے جانور پر خرچ کرتا ہے نیز وہ دینار جو اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے۔

عن ثوبان - رضي الله عنه- مولى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «َأفضل دينار ينُفِقُهُ الرجل: دينار ينفقه على عياله، ودينار ينفقه على دَابَّتِهِ في سبيل الله، ودينار ينفقه على أصحابه في سبيل الله».

ثوبان رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور جو اللہ کی راہ میں اپنی سواری کے جانور پر خرچ کرتا ہے نیز وہ دینار جو اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفضل الأموال التي ينفقها الرجل في سبيل الخير، مالٌ ينفقه على عياله، وهم كل من يعوله، أي يتولى معيشته من ابن وبنت وزوجة وخادم وغير ذلك، ومال ينفقه على دابته التي تحمله في طاعة الله -عز وجل- من جهاد وغيره، ومال ينفقه على أصحابه في طاعة الله -عز وجل-، والقول الآخر أن (في سبيل الله) هو الجهاد فقط.
576;ھلائی کے کاموں میں خرچ کیے جانے اموال میں سے سب سے افضل مال وہ ہے جسے آدمی اپنے گھر والوں پرخرچ کرتا ہے اور اس جانور پر خرچ کرتا ہے جو جہاد وغیرہ جیسے اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے کاموں میں اس کی سواری کا کام دیتا ہے اور وہ مال جو وہ اللہ کی راہ میں اپنے دوست احباب پر خرچ کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3267

 
 
Hadith   252   الحديث
الأهمية: خير المجالس أوسعها


Tema:

سب سے اچھی مجلس وہ ہے جو سب سے زیادہ کشادہ ہو۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، يَقُولُ:«خير المجالس أوسعها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”سب سے اچھی مجلس وہ ہے جو سب سے زیادہ کشادہ ہو“۔

دل الحديث على فضل سعة المجالس, فإن المجالس الواسعة من خير المجالس؛ لأنها إذا كانت واسعة حملت أناسا كثيرين وصار فيها انشراح وسعة صدر, وهذا على حسب الحال فقد يكون بعض الناس حُجَرُ بيته ضيقة، لكن إذا أمكنت السعة فهو أحسن؛ لما سبق.

740;ہ حدیث، نشست گاہوں میں کشادگی و کشائش پیدا کرنےکی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کشادہ مجالس خیر کی مجالس میں شمار ہوتی ہیں اس لیے کہ یہ کشادہ ہوں تو بہت سے افراد کی نشستوں و بیٹھکوں کے قابل ہوں گی اور اس میں دلوں کی وسعتیں بھی کھل جاتی ہیں اور یہ بات مقتضائے حال کے مطابق ہوگی کیونکہ کبھی کچھ لوگوں کے گھروں کے کمرے تنگ دامنی کا شکوہ کرتے ہیں لیکن اگر اس میں کشادگی کا امکان ہو تو وہ تنگ کمرے بھی اپنی سابقہ حالت سے زیادہ عمدہ مجالس بن جاتی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3270

 
 
Hadith   253   الحديث
الأهمية: والذي نفسُ مُحمَّد بيدِه، لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمة يهوديٌّ، ولا نصرانيٌّ، ثم يموتُ ولم يؤمن بالذي أُرْسِلتُ به، إلَّا كان مِن أصحاب النار


Tema:

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس امت کا کوئی بھی انسان جو میرے بارے میں سنے، وہ یہودی ہو یا نصرانی اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے، جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں اور اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے، تو وہ جہنمی ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «والذي نفسُ مُحمَّد بيدِه، لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمة يهوديٌّ، ولا نصرانيٌّ، ثم يموتُ ولم يؤمن بالذي أُرْسِلتُ به، إلَّا كان مِن أصحاب النار».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اس امت کا کوئی بھی انسان جو میرے بارے میں سنے، وہ یہودی ہو یا نصرانی اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں اور اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے، تو وہ جہنمی ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحلف النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله أنه «لا يسمع به أحد من هذه الأمة» أي: ممن هو موجود في زمانه وبعده إلى يوم القيامة «يهودي، ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أُرسلتُ به، إلا كان من أصحاب النار» فأي يهودي أونصراني وكذلك غيرهما تبلغه دعوة النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم يموت ولا يؤمن به إلا كان من أصحاب النار خالدًا فيها أبدًا.   وإنما ذَكر اليهودي والنصراني تنبيهًا على من سواهما؛ وذلك لأن اليهود والنصارى لهم كتاب، فإذا كان هذا شأنهم مع أن لهم كتابًا، فغيرهم ممن لا كتاب له أولى، فكلُّهم يجب عليهم الدخول في دينه وطاعته -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی ﷺ نے اللہ کی قسم کھائی کہ: ”اس امت کا کوئی فرد آپ کے بارے میں سنے“ یعنی جو آپ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور آپ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ ”چاہے یہودی ہو یا نصرانی، پھر وہ مر جائے اور وہ اس شریعت پر ایمان نہ لائے، جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا“ یعنی یہودی و نصرانی اور ان کے علاوہ دوسرے وہ لوگ، جن تک نبی ﷺ کی دعوت پہنچی، پھر وہ آپ ﷺ پر بغیر ایمان لائے مر گئے، تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنمی ہیں۔
یہود و نصاریٰ کا ذکر دوسرے لوگوں کے لیے بطور تنبیہ ہے اور وہ اس وجہ سے ہے کہ یہود و نصاریٰ اہل کتاب ہیں۔ جب اہل کتاب ہونے کے باوجود ان کی یہ حالت ہوگی، تو ان کے علاوہ دوسرے لوگ بدرجۂ اولیٰ اس کے مستحق ہوں گے۔ اس لیے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ دین اسلام میں داخل ہوکر نبی ﷺ کی اطاعت کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3272

 
 
Hadith   254   الحديث
الأهمية: الإيمانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أو بِضْعٌ وسِتُونَ شُعْبَةً: فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إله إلا الله، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ


Tema:

ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الإيمانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أو بِضْعٌ وسِتُّونَ شُعْبَةً: فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إله إلا الله، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإيمان ليس خصلة واحدة، أو شعبة واحدة، ولكنه شعب كثيرة، بضع وسبعون، أو بضع وستون شعبة، ولكن أفضها كلمة واحدة: وهي لا إله إلا الله، وأيسرها إزالة كل ما يؤذي المارين، من حجر، أو شوك، أو غير ذلك من الطريق، والحياء شعبة من الإيمان، فالأعمال من الإيمان عند أهل السنة والجماعة، وهو الحق الذي دلت عليه الأدلة الشرعية وهذه منها.
575;یمان صرف ایک ہی خصلت یا ایک ہی شعبے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں، ستّر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شعبہ جات ہیں۔ تاہم ان میں سے افضل ترین کلمہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ہلکا شعبہ ہر اس شے کو راستے سے ہٹانا ہے جس سے راہ گیروں کو تکلیف پہنچے جیسے پتھر، کانٹا وغیرہ جیسی اشیاء۔ اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3276

 
 
Hadith   255   الحديث
الأهمية: أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى


Tema:

مونچھیں تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

وعن ابن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مونچھیں تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن المُسلم مأمور بالأخذ من شَارِبه ولا يتركه أكثر من أربعين يوما ما لم يَفْحش؛ لما رواه مسلم عن أنس -رضي الله عنه-: "وُقِّت لنا في قَصِّ الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة، أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة"
وفي رواية أبي داود: "وَقَّتَ لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حلق العانة وتقليم الأظفار وقصّ الشارب أربعين يومًا مرةً"
وقد وقع عند أحمد والنسائي: "من لم يأخذ من شَارِبه فليس مِنَّا"، وصححه الشيخ الألباني في صحيح الجامع الصغير وزيادته (2/1113) برقم (6533).
فيتأكد الأخذ من الشارب، سواء بِحَفِّه حتى يَبْدُوَ بياض الجلد أو بأخذ ما زاد على الشفه مما قد يَعْلق به الطعام.
" وإعفاء اللحية "واللحية : قال أهل اللغة: إنها شعر الوجه واللحيين يعني: العَوَارض وشَعَر الخَدَّيْنِ فهذه كلها من اللحية.
والمقصود من إعفائها: تركها مُوَفَّرَةٌ لا يتعرض لها بحلق ولا بتقصير، لا بقليل ولا بكثير؛ لأن الإعفاء مأخوذ من الكثرة أو التوفير، فاعفوها وكثروها، فالمقصود بذلك: أنها تترك وتوفر، وقد جاءت الأحاديث الكثيرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بإعفائها بألفاظ متعددة؛ فقد جاء بلفظ : "وفروا" وبلفظ: " أرخوا " وبلفظ: " أعفوا ".
وكلها تدل على الأمر بإبقائها وتوفيرها وعدم التَعرض لها.
وقد كان من عادة الفرس قص اللحية، فنهى الشرع عن ذلك، كما في البخاري من حديث ابن عمر بلفظ " خالفوا المشركين..".
وهذا الأمر مع تعليله بمخالفة المشركين يدل على وجوب إعفائها، والأصل في التشبه التحريم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: (من تشبه بقوم فهو منهم).
605;فہوم حدیث: مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی مونچھیں تراشے اور چالیس دن سے زیادہ انہیں بغیر کاٹے نہ رہنے دے بشرطیکہ وہ بہت زیادہ نہ ہوجائیں۔ کیونکہ امام مسلم نے انس رضی اللہ سے روایت کیا ہے: ”مونچھیں کترنے ، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنےکے لیے ہمارے لیے وقت مقرر فرمادیاگیا۔ وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں“۔
ابوداؤد کی روایت میں ہے:”رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے زیرِ ناف بال مونڈنے، ناخن کاٹنے اور مونچھوں کے بال کاٹنے کے لیے وقت مقرر فرما دیا“۔
امام احمد اور امام نسائی کی روایت میں آیا ہے کہ: ”جس نے اپنی مونچھیں چھوٹی نہ کیں وہ ہم میں سے نہیں“۔
شیخ البانی نے کتاب 'الجامع الصغیر و زیادته' (2/1113) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے۔ حدیث نمبر (6533)۔
چنانچہ اس سے مونچھ کا کچھ حصہ لینا ثابت ہوتا ہے چاہے ایسا اسے کاٹ کر کیا جائے یہاں تک کہ جلد کی سفیدی ظاہری ہوجائے یا پھر ہونٹ پر آ جانے والے اس حصے کو کاٹا جائے جس سے کھانا لگ جاتا ہے۔
”وإعفاء اللحية“: اہلِ لغت کے نزدیک 'لحية' سے مراد چہرے اور جبڑے پر اگنے والے بال ہیں یعنی رخساروں کے بالائی حصے اور گالوں پر اُگے ہوئے بال۔ یہ سب 'لحية' میں شامل ہیں۔
ان کے 'إعفاء' سے مراد ہے: انہیں گھنے ہونے دینا بایں طورکہ مرد نہ تو وہ انہیں مونڈے اور نہ ہی انہیں تھوڑا بہت کاٹ کر چھوٹا کرے۔کیونکہ 'إعفاء' کا لفظ کثرت اور بہتات کا معنی دیتا ہے چنانچہ مراد یہ ہے کہ انہیں زیادہ ہونے دو۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ بالوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور گھنے ہونے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں جن میں انہیں متعدد الفاظ کے ساتھ بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض اوقات ”وفروا“ کا لفظ آیا ہے، کبھی ”أرخوا“ کا لفظ اور کبھی ”أعفوا“ كا لفظ آیا ہے۔
یہ سب کلمات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جائے، انہیں بڑھنے دیا جائے اور ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔فارسی لوگوں کی عادت تھی کہ وہ داڑھی کٹواتے تھے۔ شریعت نے اس سے منع کردیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ: ”مشرکین کی مخالفت کرو...“۔
مشرکین کی مخالفت کرنے کی علت کے ساتھ یہ حکم داڑھی کو بڑھانے کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مشابہت اختیار کرنے میں اصل یہی ہے کہ وہ حرام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے“۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3279

 
 
Hadith   256   الحديث
الأهمية: إذا توضَّأ العبدُ المسلم، أو المؤمن فغسل وجهه خرج من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء، أو مع آخر قطر الماء


Tema:

جب کوئی مومن یا مسلم وضو کرتے وقت چہرہ دھوتا ہے، تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے، یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا توضَّأ العبدُ المسلم، أو المؤمن فغسل وَجهَهُ خرج مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نظر إليها بِعَينَيهِ مع الماء، أو مع آخر قَطْرِ الماء، فإذا غسل يديه خرج من يديه كل خطيئة كان بَطَشَتْهَا يداه مع الماء، أو مع آخِرِ قطر الماء، فإذا غسل رجليه خرجت كل خطيئة مَشَتْهَا رِجْلَاه مع الماء أو مع آخر قطر الماء حتى يخرج نَقِيًا من الذنوب».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی مومن، یا مسلم وضو کرتے وقت چہرہ دھوتا ہے، تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے، تو جیسے ہی ہاتھوں سے پانی کے قطرے گرتے ہیں یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے ہاتھوں سے کیے تھے اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے، تو جیسے ہی اس کے پاؤں سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے، اس کے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے اپنے پاؤں سے کیے تھے، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الوضوء الشرعي تُطهَّر فيه الأعضاء الأربعة: الوجه، اليدان، والرأس، والرجلان.
وهذا التطهير يكون تطهيرًا حسيا، ويكون تطهيرا معنويا، أما كونه تطهيرا حسيا فظاهر؛ لأن الإنسان يغسل وجهه، ويديه، ورجليه، ويمسح الرأس، وكان الرأس بصدد أن يغسل كما تغسل بقية الأعضاء، ولكن الله خفف في الرأس؛ ولأن الرأس يكون فيه الشعر، والرأس هو أعلى البدن، فلو غسل الرأس ولا سيما إذا كان فيه الشعر؛ لكان في هذه مشقة على الناس، ولا سيما في أيام الشتاء، ولكن من رحمة الله -عز وجل- أن جعل فرض الرأس المسح فقط، فإذا توضأ الإنسان لا شك أنه يطهر أعضاء الوضوء تطهيرا حسيا، وهو يدل على كمال الإسلام؛ حيث فرض على معتنقيه أن يطهروا هذه الأعضاء التي هي غالبا ظاهرة بارزة.
أما الطهارة المعنوية، وهي التي ينبغي أن يقصدها المسلم، فهي تطهيره من الذنوب، فإذا غسل وجهه خرجت كل خطايا نظر إليها بعينه، وذكر العين -والله أعلم- إنما هو على سبيل التمثيل، وإلا فالأنف قد يخطئ، والفم قد يخطئ؛ فقد يتكلم الإنسان بكلام حرام، وقد يشم أشياء ليس له حق يشمها، ولكن ذكر العين؛ لأن أكثر ما يكون الخطأ في النظر.
وتكفير الذنوب في الحديث يراد بها الصغائر، أما الكبائر فلا بد لها من توبة.
588;رعی وضو میں چار اعضا کو پاک وصاف کیاجاتاہے۔ چہرہ ، دونوں ہاتھ ، سر اور دونوں پاؤں۔
یہ صفائی حسی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔
اس کا حسی ہونا تو ظاہر ہے۔ کیوںکہ اس میں انسان اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ، اور دونوں پاوں دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سر کو بھی اسی طرح دھویا جاتا، جیسے بقیہ اعضا کو دھویا جاتاہے، لیکن اللہ تعالی نے سر کے معاملے میں تخفیف فرما دی۔ کیوںکہ سر میں بال ہوتے ہیں اور یہ بدن کا سب سے اوپر والا حصہ ہے۔ چنانچہ اگر سر کو دھویا جاتا، خاص طور پر جب کہ اس میں بال بھی ہوں، تو اس میں لوگوں کے لیے مشقت ہوتی، خصوصا سردی کے دنوں میں ۔ لیکن یہ اللہ عزوجل کی رحمت ہے کہ اس نے سر کے معاملے میں صرف مسح کرنا فرض کیا۔ جب انسان وضو کرتاہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اعضا وضو کو حسی طور پر صاف کرتاہے ۔ یہ اسلام کی اکملیت پر دلیل ہے کہ اس کے ماننے والوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ ان اعضا کو صاف کریں جو اکثر ظاہر اور کھلے رہتے ہیں ۔ اور طہارت معنویہ سے مراد ایک مسلمان بندے کا گناہوں سے پاکی حاصل کرنے کا عمل ہے۔ جب وہ اپنے چہرے کو دھوتا ہے، تو وہ سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں، جن کا ارتکاب آنکھوں سے ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں آنکھ کا ذکر _واللہ اعلم_ بطور تمثیل ہے۔ ورنہ ناک سے بھی خطا ہوتی ہے، منہ سے بھی خطا ہوتی ہے؛ انسان ایسی باتیں کر لیتا ہے، جو حرام ہیں، ایسی چیزیں سونگھ لیتا ہے، جنھیں سونگھنے کا اسے حق نہیں ہوتا، لیکن آنکھ کا ذکر بطور خاص اس لیے ہواہے کہ اکثر گناہ آنکھ سے ہی سر زد ہوتے ہیں۔ اور اس حدیث میں گناہوں کی معافی سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے۔ جب کہ کبیرہ گناہوں کی بخشش کے لیے توبہ ضروری ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3284

 
 
Hadith   257   الحديث
الأهمية: إذا رأى أحدكم رؤيا يُحِبُّهَا، فإنما هي من الله تعالى، فليَحْمَد الله عليها، وَلْيُحَدِّثْ بها


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پس وہ اس پر اللہ کی حمد ادا کرے اور اسے بیان کرے۔

عن أبي سعيد الخُدْرِيِّ -رضي الله عنه-: أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إذا رأى أحدُكُم رُؤيا يُحِبُّهَا، فإنما هي من الله تعالى، فليَحْمَد الله عليها، وَلْيُحَدِّثْ بها - وفي رواية: فلا يُحَدِّثْ بها إلا من يُحَبُّ- وإذا رأى غير ذلك مِمَّا يَكْرَه، فإنما هي من الشيطان، فَلْيَسْتَعِذْ من شَرِّهَا، ولا يَذْكُرْهَا لأحد؛ فإنها لا تضره».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پس وہ اس پر اللہ کی حمد ادا کرے اور اسے بیان کرے“۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: ”اس کا ذکر صرف ایسے لوگوں سے کرے جو اس سے محبت رکھتے ہوں، اورجب اس کے برعکس ناپسندیدہ بات خواب میں دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے لہذا اس کے شر سے پناہ مانگے، اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے کیوں کہ وہ اسے نقصان نہیں دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا رأى المسلم في منامه ما يسره، فإنما هي بشارة له من الله تعالى فليحمد الله عز وجل على هذه البشارة، ولا يحدث بها إلا من يحب من أهله وجيرانه وأصحابه الصالحين منهم، وإذا رأى غير ذلك مما يكره من الرؤيا القبيحة التي يكره صورتها، أو يكره تأويلها فإنما هي خيالات شيطانية يصورها الشيطان لنفس النائم في منامه، ليخوفه ويحزنه بها، فإذا رأى ذلك فليستعذ بالله من شَرِّها.
580;ب کوئی مسلمان خواب میں کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے اچھی لگے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے خوش خبری ہے،اس بشارت پر اسے اللہ کی حمد ادا کرنی چاہیے، اور اس کو اپنے اہل و عیال، پڑوسیوں اور نیک ساتھیوں میں سے صرف انہیں کو بتائے جن سے وہ محبت کرتا ہو، اورجب کوئی برا خواب دیکھے جس کا دیکھنا یا جس کی تاویل اسے ناپسند ہو تو وہ شیطانی خیالات ہیں جسے شیطان بحالت نیند سونے والے کے سامنے اس کے خواب میں پیش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اسے ڈرائے اور کبیدہ خاطر کرے، جب ایسا خواب دیکھے تواللہ تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3285

 
 
Hadith   258   الحديث
الأهمية: من كظم غيظا، وهو قادر على أن ينفذه، دعاه الله سبحانه وتعالى على رؤوس الخلائق يوم القيامة حتى يخيره من الحور العين ما شاء


Tema:

جو شخص اپنے غصے کو پورا کرنے کی قدرت ہونے کے باجود اسے دبا لیتا ہے، اسے اللہ سبحانہ و تعالی روز قیامت سب مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جنت کی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جسے چاہے، چن لے۔

عن معاذ بن أنس -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَن كَظَمَ غَيظًا، وَهُو قادر على أن يُنفِذَه، دَعَاه الله سبحانه وتعالى على رؤوس الخَلاَئِق يوم القيامة حتَّى يُخَيِّره من الحُور العَين مَا شَاء».

معاذ ابن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے غصے کو پورا کرنے کی قدرت ہونے کے باجود اسے دبا لیتا ہے، اسے اللہ سبحانہ و تعالی روز قیامت سب مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جنت کی بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جسے چاہے، چن لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن الإنسان إذا غَضِب من شخص وهو قادر على أن يفتك به، ولكنه ترك ذلك ابتغاء وجه الله، وصبر على ما حصل له من أسباب الغيظ فله هذا الثواب العظيم، وهو أنه يدعى على رؤوس الخلائق يوم القيامة ويخيَّر من أي نساء الجنة الحسناوات شاء.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ انسان کو جب کسی شخص پر غصہ آ جائے اور وہ اس کی گرفت پر قادر ہونے کے باجود محض اللہ کی رضا کے لئے اسے چھوڑ دے اور جن اسباب کی بنا پر اسے غصہ آیا، ان پر صبر کرے، تو اس کو یہ عظیم اجر ملتا ہے کہ اسے روزِ قیامت تمام مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا اور اختیار دیا جائے گا کہ وہ جنت کی خوب صورت عورتوں میں سے جسے، چاہےچن لے۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3287

 
 
Hadith   259   الحديث
الأهمية: لم تحل الغنائم لأحد قبلنا، ثم أحل الله لنا الغنائم لما رأى ضعفنا وعجزنا فأحلها لنا


Tema:

ہم سے پہلے مال غنیمت کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے اسے ہمارے لیے جائز کر دیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «غَزَا نَبِيٌّ مِن الأَنبِيَاء -صلوات الله وسلامه عليهم- فقال لقومه: لاَ يَتبَعَنِّي رجُل مَلَك بُضْعَ امرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أنْ يَبنِي بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلاَ أحَدٌ بَنَى بُيُوتًا لم يَرفَع سُقُوفَهَا، ولاَ أَحَدٌ اشتَرَى غَنَمًا أو خَلِفَات وهو يَنتظِرُ أَولاَدَها، فَغَزَا فَدَنَا مِنَ القَريَةِ صَلاةَ العَصر أو قَرِيباً مِن ذلك، فَقَال للشَّمسِ: إِنَّك مَأمُورَة وأَنَا مَأمُور، اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَينَا، فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ الله عليه، فَجَمَع الغَنَائِم فَجَاءَت -يعني النار- لِتَأكُلَهَا فَلَم تَطعَمها، فقال: إِنَّ فِيكُم غُلُولاً، فَليُبَايعنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَة رجل، فَلَزِقَت يد رجل بِيَدِهِ فقال: فِيكُم الغُلُول فلتبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فَجَاؤوا بِرَأس مثل رأس بَقَرَةٍ من الذَّهَب، فَوَضَعَهَا فجاءت النَّارُ فَأَكَلَتهَا، فَلَم تَحِلَّ الغَنَائِم لأحَدٍ قَبلَنَا، ثُمَّ أَحَلَّ الله لَنَا الغَنَائِم لَمَّا رَأَى ضَعفَنَا وَعَجزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انبیا علیہم الصلوۃ و السلام میں سے ایک نبی نےجنگ كا ارادہ کیا، تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ جہاد میں نہ آئے، جس کا کسی عورت سے نکاح ہوا ہو اور ابھی تک اس سے شب باشی نہ کی، ہو جب کہ وہ اس کا ارادہ رکھتا ہو۔ وہ شخص (بھی نہ آۓ) جس نے گھر تعمیر کیا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو۔ وہ شخص (بھی نہ آۓ) جس نے بھیڑ بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو۔ پھر انھوں نے جہاد کیا اور عصر کے وقت یا اس کے قریب قریب بستی کے پاس پہنچے۔ اور سورج سے کہنے لگے کہ: "تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے"۔ چنانچہ سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انھوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لیے آئی؛ لیکن جلا نہ سکی۔ یہ دیکھ کر نبی نے کہا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لیے ہر قبیلے کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے۔ (جب بیعت ہوئی تو) ایک قبیلے کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر چپک گیا۔ انھوں نے کہا کہ چوری تمھارے قبیلے والوں نے کی ہے۔ اب تمھارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو یاتین آدمیوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے پر چپک گیا تو انھوں نے فرمایا کہ چوری تمہی لوگوں نے کی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا، تو آگ نے آ کر اسے جلا دیا۔ ہم سے پہلے مال غنیمت کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے اسے ہمارے لیے جائز کر دیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن نبي من الأنبياء -عليهم الصلاة والسلام- أنه غزا قومًا أُمِر بجهادهم، لكنه -عليه الصلاة والسلام- مَنَع كل إنسان عَقَد على امرأة ولم يَدخُل بها، وكل إنسان بنى بيتًا ولم يرفع سقفه، وكل إنسان اشترى غنمًا أو خَلِفَات وهو ينتظر أولادها، وذلك لأَنَّ هؤلاء يكونون مشغولين بما أهمهم، فالرجل المتزوج مشغول بزوجته التي لم يدخل بها، فهو في شوق إليها، وكذلك الرجل الذي رفع بيتًا ولم يُسَقِّفه، هو أيضا مشتغل بهذا البيت الذي يريد أن يسكنه هو وأهله، وكذلك صاحب الخلفات والغنم مشغول بها ينتظر أولادها.
والجهاد ينبغي أن يكون الإنسان فيه مُتَفَرِّغًا، ليس له همٌّ إلا الجهاد، ثم إن هذا النبي غزا، فنَزَل بالقوم بعد صلاة العصر، وقد أَقْبَل اللَّيل، وخاف إن أظلَم اللَّيلُ أن لا يكون هناك انتصار، فجعل يخاطب الشمس يقول: أنت مأمورة وأنا مأمور، لكن أمر الشمس أمر كوني وأما أمره فأمر شرعي.
فهو مأمور بالجهاد والشمس مأمورة أن تسير حيث أمرها الله عز وجل، قال الله: (والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم)، منذ خلقها الله عز وجل وهي سائرة حيث أمرت لا تتقدم ولا تتأخر ولا تنزل ولا ترتفع.
قال: "اللهم فاحبسها عنا" فحبس الله الشمس ولم تغب في وقتها، حتى غزا هذا النبي وغنم غنائم كثيرة، ولما غنم الغنائم وكانت الغنائم في الأمم السابقة لا تحل للغزاة، بل حل الغنائم من خصائص هذه الأمة ولله الحمد، أما الأمم السابقة فكانوا يجمعون الغنائم فتنزل عليها نار من السماء فتحرقها إذا كان الله قد تقبلها، فجُمِعَت الغنائم فنزلت النار ولم تأكلها، فقال هذا النبي: فيكم الغلول.
ثم أمر من كل قبيلة أن يتقدَّم واحد يبايعه على أنَّه لا غُلُول، فلمَّا بايعوه على أنَّه لا غلول لَزِقَت يد أحد منهم بيدِ النبي -عليه الصلاة والسلام-، فلمَّا لَزِقَت قال: فيكم الغلول -أي: هذه القبيلة- ثم أمر بأن يبايعه كل واحد على حدة من هذه القبيلة، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة منهم، فقال: فيكم الغلول: فجاؤوا به، فإذا هُم قد أخفوا مثل رأس الثور من الذهب، فلمَّا جيء به ووضع مع الغنائم أكلتها النار.
606;بی ﷺ نے انبیا علیہم الصلوۃ و السلام میں سے ایک نبی کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے ایک قوم کے ساتھ جنگ کا ارادہ کیا، جن سے جہاد کا انھیں حکم دیا گیا تھا۔ لیکن آپ علیہ السلام نے ہر اس شخص کو جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو، لیکن ابھی تک اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور ہر اس شخص کو جس نے گھر تیار کیا ہو، لیکن ابھی تک اس کی چھت نہ رکھی ہو اور ہر اس آدمی کو جس نے کچھ بھیڑ بکریاں اور حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور ان کے بچے جننے کا منتظر ہو، ان سب کو (جہاد میں شرکت سے) روک دیا۔کیوںکہ ان کے دل ان چیزوں میں لگے ہوتے ہیں، جو ان کے لیے باعث دل چسبی ہیں۔ شادی شدہ آدمی کی توجہ اپنی بیوی پر ہوتی ہے،جس سے اس نے ابھی تک مباشرت نہ کی ہو۔ وہ اس کے لیے مشتاق رہتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جس نے گھر کی دیواریں تو اٹھا لی ہوتی ہیں، لیکن اس کی چھت نہیں ڈالی ہو، اس کا ذہن بھی اپنے گھر پر لگا ہوتا ہے، جس میں وہ اور اس کے اہل خانہ رہائش پذیر ہونا چاہتے ہیں۔اسی طرح حاملہ اونٹنیوں اور بھیڑ بکریوں کے مالک کا دل بھی ان میں لگا ہوتا ہے اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہوتا ہے۔
جہاد کے لیے تو انسان کو بالکل فارغ ہونا چاہیے، بایں طور کہ جہاد کے سوا اسے کوئی اور فکر نہ ہو۔ پھر اس نبی نے جنگ کی اور اس قوم پر نماز عصر کے بعد حملہ کیا۔ رات قریب آ رہی تھی، چنانچہ انھیں اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر رات کی تاریکی چھا گئی، تو فتح حاصل نہ ہوسکے گی۔ اس لیے انھوں نے سورج سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تو بھی حکم کا پابند ہے اور میں بھی حکم کا پابند ہوں"۔ تاہم سورج کا حکم تکوینی حکم تھا اور اللہ کی طرف سے اس نبی کو جو حکم تھا وہ تشریعی تھا۔
نبی کو جہاد کرنے کا حکم تھا اور سورج مامور تھا کہ جہاں اللہ نے حکم دیا، اس طرف رواں دواں رہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: الشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ" (يس: 38)
ترجمہ: اور سورج کے لیے جو مقرره راه ہے، وه اسی پر چلتا رہتا ہے۔۔ یہ غالب باعلم اللہ تعالی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یہ جہاں کا حکم ہے، وہاں چلا جا رہا ہے، بایں طور کہ نہ تو آگے پیچھے ہوتا ہے اور نہ ہی اوپر نیچے۔
اس نبی نے دعا کی: ”اے اللہ!ہمارے لیے اسے اپنی جگہ روک دے“۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سورج کو روک دیا اور وہ اپنے وقت پر غروب نہ ہوا، یہاں تک کہ اس نبی نے جنگ کر لی اور بہت سارا مال غنیمت ان کے ہاتھ آیا۔ سابقہ امتوں میں جنگ میں شریک ہونے والوں کے لیے اموال غنیمت حلال نہیں تھے، بلکہ اموال غنیمت کا حلال ہونا صرف اور صرف اس امت کی خصوصیت ہے۔ و للہ الحمد۔ جب کہ سابقہ امتوں کے لوگ مال غنیمت کو اکٹھا کرتےاور اگر اللہ کہ ہاں یہ مقبول ہوتا، تو ایک آگ نازل ہو کر اسے جلا ڈالتی۔ اس نبی کو جب مال غنیمت حاصل ہوا اور وہ جمع کیا گیا، تو آگ نے نازل ہو کر اسے نہ جلایا۔ اس پر یہ نبی کہنے لگے: ”تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے“۔
پھر انھوں نے حکم دیا کہ ہر قبیلے میں سے ایک آدمی آگے آ کر اس بات پر ان سے بیعت کرے کہ انھوں نے چوری نہیں کی ہے۔ جب انھوں سے اس بات پر بیعت کرنا شروع کیا کہ انھوں نے چوری نہیں ہے تو اس دوران ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ میں چپک گیا ۔ہاتھ چپکنے پر انھوں نے فرمایا: "چوری تم میں ہے"۔ یعنی اس قبیلہ والوں نے چوری کی ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس قبیلے میں سے ہر کوئی الگ الگ بیعت کرے۔ اس پر ان میں سے دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے۔ اس نبی نے فرمایا: ”چوری تمھارے اندر ہے“۔ چنانچہ وہ لوگ چوری شدہ مال لے کر آئے۔ انھوں نے سونے سے بنی بیل کے سر کی مانند ایک شے چھپا رکھی تھی۔ جب اسے لا کر مال غنیمت میں رکھ دیا گیا تو آگ نے اسے جلا دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3288

 
 
Hadith   260   الحديث
الأهمية: إنَّ لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب


Tema:

جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو

عن أسامة بن زيد بن حارثة -رضي الله عنهما- قال: أرسلت بنت النبي -صلى الله عليه وسلم- إنَّ ابني قد احتُضِر فاشْهَدنَا، فأرسَل يُقرِىءُ السَّلام، ويقول: «إنَّ لِلَّه ما أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب». فأرسلت إليه تُقسِم عَليه لَيَأتِيَنَّها، فقام ومعه سعد بن عبادة، ومعاذ بن جبل، وأبي بن كعب، وزيد بن ثابت، ورجال -رضي الله عنهم- فَرفع إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الصَّبِي، فأَقعَدَه في حِجرِه ونَفسه تَقَعقَع، فَفَاضَت عينَاه فقال سعد: يا رسول الله، ما هذا؟ فقال: «هذه رَحمَة جَعلَها الله تعالى في قُلُوب عِباده» وفي رواية: «في قلوب من شاء من عباده، وإنَّما يَرحَم الله من عِبَاده الرُّحَماء».

اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک بیٹی نے پیغام بھیجا کہ ان کا بچہ قریب المرگ ہے، لہذا آپ تشریف لائیے۔ آپ ﷺ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو کہ جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے اس لیے صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ آپ ﷺ کی بیٹی نے قسم دے کر پھر پیغام بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ اس پر آپ ﷺ اٹھ پڑے۔ آپ ﷺ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ اور لوگ بھی تھے۔ رضی اللہ عنہم۔ (جب آپ ﷺ گھر پہنچے تو) بچے کو اٹھا کر آپ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ ﷺنے اسے گود میں لے لیا۔ اس کی جان نکل رہی تھی۔ یہ حال دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے: ”اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں اللہ نے چاہا، اسے (رحمت کو) رکھا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے، جورحم دل ہوتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- أن إحدى بنات رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أرسلت إليه رسولاً، تقول له إن ابنها قد احتضر، أي: حضره الموت. وأنها تطلب من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يحضر، فبلَّغ الرسول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- "مرها فلتصبر ولتحتسب، فإن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى".
أمر النبي -عليه الصلاة والسلام- الرجل الذي أرسلته ابنته أن يأمر ابنته -أم هذا الصبي- بهذه الكلمات:
قال: "فلتصبر" يعني على هذه المصيبة "ولتحتسب": أي: تحتسب الأجر على الله بصبرها؛ لأن من الناس من يصبر ولا يحتسب، لكن إذا صبر واحتسب الأجر على الله، يعني: أراد بصبره أن يثيبه الله ويأجره، فهذا هو الاحتساب.
قوله: "فإن لله ما أخذ وله ما أعطى": هذه الجملة عظيمة؛ إذا كان الشيء كله لله، إن أخذ منك شيئاً فهو ملكه، وإن أعطاك شيئاً فهو ملكه، فكيف تسخط إذا أخذ منك ما يملكه هو؟
ولهذا يسن للإنسان إذا أصيب بمصيبة أن يقول "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ" يعني: نحن ملك لله يفعل بنا ما يشاء، وكذلك ما نحبه إذا أخذه من بين أيدينا فهو له سبحانه له ما أخذ وله ما أعطى، حتى الذي يعطيك أنت لا تملكه، هو لله، ولهذا لا يمكن أن تتصرف فيما أعطاك الله إلا على الوجه الذي أذن لك فيه؛ وهذا دليل على أن ملكنا لما يعطينا الله ملك قاصر، ما نتصرف فيه تصرفا مطلقاً.
ولهذا قال: "لله ما أخذ وله ما أعطى" فإذا كان لله ما أخذ، فكيف نجزع؟ كيف نتسخط أن يأخذ المالك ما ملك سبحانه وتعالى؟ هذا خلاف المعقول وخلاف المنقول!
قال: "وكل شيء عنده بأجل مسمى" كل شيء عنده بمقدار.
"بأجل مسمى" أي: معين، فإذا أيقنت بهذا؛ إن لله ما أخذ وله ماأعطى، وكل شيء عنده بأجل مسمى؛ اقتنعت. وهذه الجملة الأخيرة تعني أن الإنسان لا يمكن أن يغير المكتوب المؤجل لا بتقديم ولا بتأخير، كما قال الله تعالى:  (لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُون) ، فإذا كان الشيء مقدراً لا يتقدم ولا يتأخر، فلا فائدة من الجزع والتسخط؛ لأنه وإن جزعت أو تسخطت لن تغير شيئاً من المقدور.
ثم إن الرسول أبلغ بنت النبي -صلى الله عليه وسلم- ما أمره أن يبلغه إياها، ولكنها أرسلت إليه تطلب أن يحضر، فقام -عليه الصلاة والسلام- هو وجماعة من أصحابه، فوصل إليها، فرفع إليه الصبي ونفسه تصعد وتنزل، فبكى الرسول -عليه الصلاة والسلام- ودمعت عيناه. فظن سعد بن عباده أن الرسول -صلى الله عليه وسلم- بكى جزعاً، فقال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "هذه رحمة" أي بكيت رحمة بالصبي لا جزعاً بالمقدور.
ثم قال -عليه الصلاة والسلام-: "إنما يرحم الله من عباده الرحماء" ففي هذا دليل على جواز البكاء رحمة بالمصاب.
575;سامہ بن زید رضی اللہ عنہماکابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک بیٹی نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ ان کابچہ قریب المرگ ہے یعنی وہ وفات پارہاہے۔ وہ نبیﷺ سے چاہ رہی تھیں کہ آپ ﷺ تشریف لائیں۔پیغام لانے والے نے آکر رسول اللہ ﷺ کو پیغام دیا،تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا:”ان سے کہو کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقررہے“۔
یعنی نبیﷺ نے اس شخص کو،جسے آپ ﷺ کی بیٹی نے بھیجاتھا،حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کی بیٹی جواس بچے کی ماں تھیں، انھیں یہ الفاظ کہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:”صبر کریں“۔ یعنی اس مصیبت پر صبر کریں اور ”ثواب کی امید رکھیں“۔یعنی اپنے صبرپراللہ سے اجرکی امیدوار ہوں۔ کیوںکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ صبر تو کرتے ہیں، لیکن ثواب کی امید نہیں رکھتے۔ تاہم انسان جب صبر کرتا ہے اور اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے، یعنی اپنے صبر کرنے سے اس کی نیت یہ ہو تی ہے کہ اللہ تعالی اسے اجر وثواب سے نوازے گا،تو یہی ثواب کی امید رکھنا ہوتا ہے۔
آپﷺنے فرمایا:”جو اللہ نے لے لی، وہ اسی کی تھی اور جو اس نے دی تھی، وہ بھی اسی کی تھی“ یہ ایک بہت ہی معنی خیز جملہ ہے۔ جب ہر شے اللہ کی ہے، بایں طور کہ اگر آپ سے کوئی شے لے لے، تو وہ اس کی ملکیت ہے اور اگر کوئی شے دے دے، تو وہ بھی اسی کی ملکیت ہے، تو پھر اگر اپنی مملوکہ شے کو وہ لے لے، تو اس پر ناراضگی کا اظہار کیا معنی رکھتا ہے؟
اسی وجہ سے انسان کے لیے یہی مشروع ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت پہنچے، تو وہ کہے:”إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“۔ یعنی ہم سب اللہ کی ملکیت ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ ہم سے ہماری کوئی پسندیدہ شے لے لے، تو (جان رکھنا چاہیے کہ)جس شے کو وہ لیتا ہے یا جس شے کو وہ دیتا ہے،سب اسی کی ہے۔ حتی کہ جو شے اللہ تعالی آپ کو دیتا ہے، آپ اس کے مالک نہیں ہوتے؛بلکہ وہ اللہ ہی کی ہوتی ہے۔ اسی لیے جو اشیا اللہ آپ کو دیتا ہے، وہ آپ کی ملکیت نہیں، بلکہ وہ اللہ کی ہیں۔ اس لیے ان میں آپ اسی طرح سے تصرف کر سکتے ہیں، جس طرح سے اللہ اجازت دے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی عطا کردہ اشیا پر ہماری ملکیت ناقص ملکیت ہےاور ان میں ہم تصرف مطلق نہیں کر سکتے۔اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:”جو شے اللہ لے لیتا ہے، وہ بھی اسی کی اور جو شے دے دیتا ہے، وہ بھی اسی کی ہے“۔ اگر وہ شے بھی اللہ ہی کی ہے، جسے وہ لے لیتا ہے، تو پھر ہمارا بے تاب ہونا کیسا ہے؟ ہم اس بات پر کیسے ناراض ہوتے ہیں کہ مالک سبحانہ و تعالی اپنی مملوکہ شے کو لے لے؟ یہ بات خلاف معقول بھی ہے اور خلاف منقول بھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے ہاں ہر شے کا ایک وقت مقررہے“۔ یعنی ہر شے کی اس کے ہاں ایک مقدار ہے۔"بأجل مسمى" یعنی معین(مدت)۔جب آپ کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ اللہ جوکچھ لیتایا جو کچھ دیتا ہے، سب اسی کا ہے اور یہ کہ اس کے ہاں ہر شے کاایک وقت مقرر ہے، تو آپ مطمئن ہو جاتے ہیں۔اس آخری جملے کامعنی یہ ہے کہ جس شے کا واقع ہونا معینہ وقت پر لکھ دیا گیا ہو،اس میں انسان تبدیلی نہیں کر سکتا،بایں طور کہ نہ تو اسے آگے کر سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ”لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ“ (يونس:49) ترجمہ:ہ ر امت کے لیے ایک معین وقت ہے۔جب ان کاوه معین وقت آپہنچتا ہے،تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ اگر ہر شے متعین ہے اور آگے پیچھے نہیں ہو سکتی،تو پھر بے صبری کرنے اور نالاں ہونےمیں کوئی فائدہ نہیں، کیوںکہ بے صبری کر کے اور نالاں ہو کر آپ جو شے مقدر ہو،اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔
اس پیغام لانے والے نے نبی ﷺ کی صاحب زادی تک وہ بات پہنچا دی،جسے پہنچانے کا آپ ﷺ نے حکم دیا تھا؛لیکن انھوں نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپﷺتشریف لائیں۔اس پر آپﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ جب ان کے پاس پہنچے،تو بچے کو آپ ﷺ کے پاس لایا گیا،اس حال میں کہ اس کا سانس اوپر نیچے ہو رہا تھا۔اس پر رسول اللہ ﷺ رو دیے اور آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ صبر نہ کرپانے کی وجہ سے روپڑے ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:”یہ تو رحمت ہے“ یعنی میں تقدیر پر بے صبرا ہوکر نہیں بلکہ بچے پر رحم کی وجہ سے رویا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتے ہیں، جو رحم دل ہوتے ہیں“۔ اس میں دلیل ہے کہ رحم دلانہ جذبات کے ساتھ کسی مصیبت زدہ پر از راہ رحمت رونا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3290

 
 
Hadith   261   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كالسورة من القرآن


Tema:

رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے، جس طرح قرآن مجيد كى سورت كى۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُعلمنا الاسْتِخَارَةَ في الأمور كلها كالسورة من القرآن، يقول: «إذا هَمَّ أحدُكم بالأمر، فلْيَرْكَعْ ركعتين من غير الفَرِيضَةِ، ثم لْيَقُلْ: اللهم إني أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وأَسْأَلُكَ من فَضلك العظيم، فإنك تَقْدِرُ ولا أَقْدِرُ، وتعلمُ ولا أعلمُ، وأنت عَلَّامُ الغُيُوبِ. اللهم إن كنتَ تعلم أن هذا الأمر خيرٌ لي في ديني ومَعَاشِي وعَاقِبَةِ أَمْرِي» أو قال: «عَاجِلِ أَمْرِي وآجِلِهِ، فاقْدُرْهُ لي ويَسِّرْهُ لي، ثم بَارِكْ لي فيه. وإن كنت تعلمُ أن هذا الأمر شرٌّ لي في ديني ومَعَاشِي وعَاقِبَةِ أَمْرِي» أو قال: «عَاجِلِ أَمْرِي وآجِلِهِ؛ فاصْرِفْهُ عَنِّي، واصْرِفْنِي عنه، واقْدُرْ لِيَ الخيرَ حيث كان، ثم أَرْضِنِي به» قال: «ويُسَمِّي حَاجَتَهُ».

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے، جس طرح قرآن مجيد كى سورت كى۔۔ آپ ﷺ فرماتے: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو دو رکعات (نفل) پڑھے۔ اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں تیرے علم کے واسطہ سے، تجھ سے قدرت مانگتا ہوں تیری قدرت کے واسطہ سے اور تیرا فضلِ عظیم چاہتا ہوں، کیوں کہ تو قادر مطلق ہے میرے اندر قدرت نہیں، تو علم والا ہے مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے؛ میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے -یا دعا میں یہ الفاظ کہے: اِس جہاں اور اُس جہاں میں بہتر ہے- تو اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے؛ میرے دین کے لیے ، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے -یا یہ الفاظ فرمائے: اِس جہاں اور اُس جہاں کے لئے برا ہے- تو اسے مجھ سے پھیر دے، مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے۔ اور فرمایا: (اس کے بعد) اپنی ضرورت کا بیان کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يحرص على تعليم صحابته كيفية صلاة الاستخارة، كحرصه على تعليمهم السورة من القرآن.
فأرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يصلي الإنسان ركعتين من غير صلاة الفريضة ثم بعد السلام يسأل الله أن يشرح صدره لخير الأمرين أو الأمور، فإن الله يعلم كيفيات الأمور وجزئياتها، إذ لا يحيط بخير الأمرين إلا العالم بذلك، وليس ذلك إلا لله، ويسأل من الله القدرة على خير الأمرين، ويسأله من فضله العظيم، فإنه يقدر على كل ممكن تعلقت به إرادته، والإنسان لا يقدر.
والله -عز وجل- يعلم كل شيء كلي وجزئي، والإنسان لا يعلم شيئا من ذلك إلا ما علمه الله؛ فإن الله لا يشذّ عن علمه من الغيوب شيء.
ثم يسأل ربه عز وجل إن كان يعلم أن هذا الأمر الذي عزم عليه –ويسميه- خير ولا يترتب عليه نقص دينيّ ولا دنيوي، أن يقدره له وييسره.
وإن كان يعلم أن هذا الأمر سيترتب عليه نقص دينيّ أو دنيوي، أن يصرفه عنه، ويصرف هذا الأمر عنه، وأن يقدر له الخير حيث كان ثم يجعله راضيا بقضاء الله وقدره به.
606;بی ﷺ اپنے صحابہ کو نمازِ استخارہ کی کیفیت سکھلانے کی اسی طرح حرص رکھتے تھے، جس طرح انھیں قرآن کی سورت کی تعلیم دینے کی حرص رکھتے تھے۔
نبی ﷺ نے بتایا کہ انسان فرض نمازوں کے علاوہ دو رکعات نماز ادا کرے، پھر سلام کے بعد اللہ سے دعا کرے کہ وہ (زیر ‏غور) دو معاملوں یا معاملات میں بہتر کی طرف اس کے سینے کو کھول دے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمام امور کی کیفیات و جزئیات کا علم رکھتا ہے۔ اسے یوں سمجھا جا   ‎
ئے کہ دونوں معاملوں میں بہتر کا احاطہ وہی کر سکتا ہے، جو اس سے واقف ہو اور ایسا اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں معاملوں میں سے جو اچھا ہو، اس کے کرنے کی طاقت مانگے اور اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرے؛ کیوں کہ وہ ان تمام ممکنہ امور کی طاقت رکھتا ہے، جو اس کی مشیئت کے مطابق ہوں، جب کہ انسان کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتا۔ اللہ عز و جل ہر کلی و جزئی چیز کو جانتا ہے اور انسان اس میں سے اتنا ہی جانتا ہے، جتنا اللہ نے اسے سکھایا ہو؛ کیوں کہ اللہ کے علم غیب کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔
پھر اپنے رب سے طلب کرے کہ اگر یہ کام (اور اس کا نام لے) جس کا اس نے اردہ کیا ہے، اس کے علم میں بہتر ہے اور اس کی وجہ سے کوئی دینی یا دنیوی نقصان مرتب نہیں ہوگا، تو اسے اس کے لیے مقدر و آسان کردے۔
اور اگر یہ کام اس کے علم کے مطابق کسی دینی یا دنیوی نقصان کا باعث ہو، تو اسے اس سے دور کردے اور اس کام کو اس سے دور کردے، اور بھلائی اس کا مقدر کردے، چاہے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر اسے اللہ کی قضا و قدر سے راضی کردے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3293

 
 
Hadith   262   الحديث
الأهمية: إنما الصبر عند الصدمة الأولى


Tema:

صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: مرَّ النَّبي - صلى الله عليه وسلم - بامرَأَة تَبكِي عِند قَبرٍ، فقال: «اتَّقِي الله واصْبِري» فقالت: إليك عَنِّي؛ فَإِنَّك لم تُصَب بِمُصِيبَتِي ولم تَعرِفه، فقِيل لها: إِنَّه النَّبِي - صلى الله عليه وسلم - فأتت باب النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم تجد عنده بوَّابِين، فقالت: لم أَعرِفكَ، فقال: «إِنَّما الصَّبرُ عِند الصَّدمَةِ الأُولَى».
وفي رواية: «تَبكِي على صبِّي لها».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ بولی آپ جائیں ۔ آپ پر تو وہ مصیبت آئی ہی نہیں جو مجھ پر پڑی ہے۔ اس نے آپ ﷺ کو پہچانا نہ تھا۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی ﷺ تھے تو وہ (گھبرا کر) نبی ﷺ کے دروازہ پر آئی۔ آپ ﷺ کے پاس اسے کوئی دربان نہ ملا۔ کہنے لگی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔(مجھے معاف کر دیجئے)۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:”صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’وہ اپنے بچے کی وفات پر رو رہی تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مر النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة وهي عند قبر صبي لها قد مات، وكانت تحبه حبًّا شديدًا، فلم تملك نفسها أن تخرج إلى قبره لتبكي عنده. فلما رآها النبي صلي الله عليه وسلم أمرها بتقوى الله والصبر.
فقالت: ابعد عني فإنك لم تصب بمثل مصيبتي.
ثم قيل لها: إن هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فندمت وجاءت إلى رسول الله، إلى بابه، وليس على الباب بوابون يمنعون الناس من الدخول عليه. فأخبرته وقالت: إنني لم أعرفك، فأخبرها النبي صلى الله عليه وسلم، أن الصبر الذي يثاب عليه الإنسان هو أن يصبر عند أول ما تصيبه المصيبة.
606;بی ﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو اپنے مر جانے والے بچے کی قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ اس سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی چنانچہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کی قبر پر آ کر رونے لگی۔ جب نبی ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ ﷺ نے اسے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی۔ وہ کہنے لگی: مجھ سے دور ہٹو، تمہیں تو وہ مصیبت نہیں پہنچی ہے جو مجھے لاحق ہوئی ہے۔
پھر جب اسے بتایا گیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ تھے تو وہ نادم ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ ﷺ کے دروازے پر آئی۔ دروازے پر لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے روکنے کے لیے کوئی دربان نہیں تھا۔ اس نے آپ ﷺ کو بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا (اس لیے یہ سب کہہ بیٹھی)۔ اس پر نبی ﷺ نے اسے بتایا کہ وہ صبر جس پر انسان کو ثواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس وقت صبر کرے جب اسے مصیبت ابھی ابھی پہنچی ہی ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3295

 
 
Hadith   263   الحديث
الأهمية: عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله له خير، وليس ذلك لأحد إلا للمؤمن: إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له، وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له


Tema:

مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔

عن صُهيب بن سِنان الرومي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «عجَبًا لِأَمر المُؤمِن إِنَّ أمرَه كُلَّه له خير، وليس ذلك لِأَحَد إِلَّا لِلمُؤمِن: إِنْ أَصَابَته سَرَّاء شكر فكان خيرا له، وإِنْ أَصَابته ضّرَّاء صَبَر فَكَان خيرا له».

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أظهر الرسول -عليه الصلاة والسلام- العَجَب على وجه الاستحسان لشأن المؤمن؛ لأنه في أحواله وتقلباته الدنيوية لا يخرج عن الخير والنجاح والفلاح، و هذا الخير ليس لأحد إلا المؤمن.
ثم أخبر -صلى الله عليه وسلم- أن المؤمن على كل حال قدَّره الله عليه على خير، إن أصابته الضراء صبر على أقدار الله، وانتظر الفرج من الله، واحتسب الأجر على الله؛ فكان ذلك خيرًا له.
وإن أصابته سراء من نعمة دينية؛ كالعلم والعمل الصالح، ونعمة دنيوية؛ كالمال والبنين والأهل شكر الله، وذلك بالقيام بطاعة الله -عز وجل-، فيشكر الله فيكون خيرا له.
585;سول اللہ ﷺ نے پسندیدگی کے انداز میں مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایا؛ کیوں کہ وہ اپنے تمام احوال اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیر و فلاح اور کامیابی ہی میں رہتا ہےاور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
پھر نبی ﷺ نے بتایا کہ اللہ تعالی نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر رکھا ہے۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کی تقدیر پر صبر کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔
اور اگر اسے کوئی خوش کن بات پیش آئے مثلا کوئی دینی نعمت کا حصول ہو، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملے، جیسے مال، اولاد نرینہ اور اہل و عیال، تو اس پر شکر گزار ہوتا ہے، بایں طور کہ اللہ عز و جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے، چنانچہ اللہ اس کی قدر کرتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3298

 
 
Hadith   264   الحديث
الأهمية: إنكم لتعملون أعمالا هي أدق في أعينكم من الشعر، كنا نعدها على عهد رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم من الموبقات


Tema:

تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک یعنی حقیر ہیں جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز کام شمار کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: «إنكم لتعملون أعمالا هي أَدَقُّ في أعينكم من الشَّعْرِ، كنا نَعُدُّهَا على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المُوبِقَاتِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں تصور کرتے) جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز امور تصور کرتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خاطب الصحابي الجليل أنس بن مالك رضي الله عنه جماعة من المتساهلين في الأعمال قائلا: إنكم تستهينون ببعض المعاصي لعدم نَظَرِكم إلى عظم المعصي بها، فهي عندكم صغيرة جدا، أما عند الصحابة فكانوا يعدونها من المهلكات لعظم من يعصونه، ولشدة خوفهم ومراقبتهم ومحاسبتهم لأنفسهم.
580;لیل القدر صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا جو اعمال میں سستی برتتے ہیں کہ تم بعض گناہوں کو چھوٹا سمجھتے ہو کیونکہ ان کے ذریعے جس ذات کی معصیت کی جاتی ہے اس کی عظمت کی طرف تمہاری نظر نہیں جاتی چنانچہ تمہارے نزدیک یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم انہیں ہلاک کر دینے والی اشیاء میں سے شمار کرتے تھے کیونکہ جس ذات کی معصیت ہوتی ہے اس کی عظمت سے وہ آگاہ تھے، اور ان میں بہت زیادہ خوف پایا جاتا تھا اور وہ اپنے آپ پر نظر رکھتے اور اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3300

 
 
Hadith   265   الحديث
الأهمية: قصة الغلام مع الملك والساحر والراهب


Tema:

لڑکے کی کہانی، بادشاہ، جادوگر اور راہب کے ساتھ

عن صهيب بن سنان الرومي -رضي الله عنه- مرفوعا: «كان ملك فيمَن كان قَبلَكم وكان له ساحِر فَلَمَّا كَبِرَ قال للمَلِكِ: إنِّي قد كَبِرْتُ فَابْعَثْ إلى غلامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْر؛ فبعث إليه غلامًا يُعَلِّمُهُ، وَكانَ في طرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ، فَقَعدَ إليه وسَمِعَ كَلامَهُ فَأعْجَبَهُ، وكان إذا أتَى السَّاحِرَ، مَرَّ بالرَّاهبِ وَقَعَدَ إليه، فَإذَا أَتَى الساحر ضَرَبَهُ، فَشَكَا ذلِكَ إِلَى الرَّاهِب، فَقَالَ: إِذَا خَشِيتَ الساحر فَقُل: حَبَسَنِي أَهلِي، وَإذَا خَشِيتَ أهلَكَ فَقُل: حَبَسَنِي السَّاحِرُ .
فَبَينَما هو عَلَى ذلِك إِذ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَد حَبَسَت النَّاسَ، فَقَال: اليومَ أعلَمُ السَّاحرُ أفضَلُ أم الرَّاهبُ أفضَل؟ فَأخَذَ حَجَرا، فَقَالَ: اللَّهُم إن كَانَ أمرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إليكَ مِن أمرِ السَّاحِرِ فَاقتُل هذه الدّابَّة حَتَّى يَمضِي النَّاسُ، فَرَمَاهَا فَقَتَلَها ومَضَى النَّاسُ، فَأتَى الرَّاهبَ فَأَخبَرَهُ. فَقَالَ لَهُ الرَّاهبُ: أَي بُنَيَّ أَنتَ اليومَ أفضَل منِّي قَد بَلَغَ مِن أَمرِكَ مَا أَرَى، وَإنَّكَ سَتُبْتَلَى، فَإن ابتُلِيتَ فَلاَ تَدُلَّ عَلَيَّ؛ وَكانَ الغُلامُ يُبرِىءُ الأكمَهَ وَالأَبرصَ، ويُداوي النَّاس من سَائِرِ الأَدوَاء، فَسَمِعَ جَليس لِلملِكِ كَانَ قَد عَمِيَ، فأتاه بَهَدَايا كَثيرَة، فَقَالَ: مَا ها هُنَا لَكَ أَجمعُ إن أنتَ شَفَيتَنِي، فقال: إنّي لا أشْفِي أحَدًا إِنَّمَا يَشفِي اللهُ تَعَالَى، فَإن آمَنتَ بالله تَعَالَى دَعَوتُ اللهَ فَشفَاكَ، فَآمَنَ بالله تَعَالَى فَشفَاهُ اللهُ تَعَالَى، فَأَتَى المَلِكَ فَجَلسَ إليهِ كَما كَانَ يَجلِسُ، فَقَالَ لَهُ المَلِكُ: مَن رَدّ عليكَ بَصَرَكَ؟ قَالَ: رَبِّي، قَالَ: وَلَكَ رَب غَيري؟ قَالَ: رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ، فَأَخَذَهُ فَلَم يَزَل يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الغُلامِ، فَجيء بالغُلاَمِ، فَقَالَ لَهُ المَلِك: أيْ بُنَيَّ، قد بَلَغَ مِن سِحرِك مَا تُبْرىء الأكمَهَ وَالأَبْرَصَ وتَفعل وتَفعل؟! فَقَالَ: إنِّي لا أَشفي أحَدًا، إِنَّمَا يَشفِي الله تَعَالَى. فَأَخَذَهُ فَلَم يَزَل يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهبِ؛ فَجِيء بالرَّاهبِ فَقيلَ لَهُ: ارجِع عن دينكَ، فَأَبى، فَدَعَا بِالمنشَار فَوُضِعَ المِنشارُ في مَفْرق رأسه، فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ثُمَّ جِيءَ بِجَليسِ المَلِكِ فقيل لَهُ: ارجِع عن دِينِك، فَأَبَى، فَوضِعَ المِنشَارُ في مَفْرِق رَأسِه، فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ثُمَّ جِيءَ بالغُلاَمِ فقيلَ لَهُ: ارجِع عَن دِينكَ، فَأَبَى، فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَر مِن أصحَابه، فَقَالَ: اذهبوا بِه إِلى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَاصعَدُوا بِهِ الجَبَل، فَإِذَا بَلَغتُم ذِرْوَتَهُ فَإِن رَجَعَ عَن دِينِهِ وَإلاَّ فَاطرَحُوهُ. فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الجَبَلَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أكْفنيهم بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بهِمُ الجَبلُ فَسَقَطُوا، وَجاءَ يَمشي إِلَى المَلِكِ، فَقَالَ لَهُ المَلِكُ: مَا فَعَلَ أصْحَابُكَ؟ فَقَالَ: كَفَانِيهمُ الله تَعَالَى، فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَر مِن أَصحَابِه فَقَالَ: اذهَبُوا بِهِ فاحمِلُوهُ في قُرْقُورٍ وتَوَسَّطُوا بِهِ البَحر، فَإن رَجعَ عَن دِينِه وإِلاَّ فَاقْذِفُوه. فَذَهَبُوا بِهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنيهم بمَا شِئتَ، فانكَفَأَت بِهمُ السَّفينةُ فَغَرِقُوا، وَجَاء يمشي إِلَى المَلِكِ. فقال له الملِك: ما فعلَ أصحابك؟ فَقَالَ: كَفَانيهمُ الله تَعَالَى. فَقَالَ لِلمَلِكِ: إنَّكَ لست بقاتلي حتى تفعل ما آمُرُكَ به. قَالَ: ما هو؟ قَالَ: تجمع الناس في صعيد واحد وتَصْلبني على جِذع، ثم خُذ سهمًا من كِنَانَتي، ثم ضَعِ السهم في كَبدِ القوس ثم قل: بسم الله رب الغلام، ثم ارْمِني، فإنَّكَ إِذَا فَعَلت ذلك قَتَلتَني، فَجَمَعَ النَّاسَ في صَعيد واحد، وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْع، ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا من كِنَانَتِهِ، ثم وضع السهم في كَبِدِ القوس، ثم قَالَ: بسم الله رب الغلام، ثم رَمَاهُ فَوقَعَ في صُدْغِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ في صُدْغِهِ فمات، فقال الناس: آمَنَّا بِرَبِّ الغُلامِ، فأتي المَلِكُ فقيلَ لَهُ: أَرَأَيْتَ مَا كنت تَحْذَرُ قَد والله نَزَلَ بكَ حَذَرُكَ، قد آمَنَ الناس. فأَمَرَ بِالأُخْدُودِ بأفْواهِ السِّكَكِ فَخُدَّتْ وأُضْرِمَ فيها النِّيرانُ وقال: من لم يَرْجِع عن دينه فأقحموه فيها، أو قيلَ لَهُ: اقتَحِم فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءت امرأة ومعَها صَبيٌّ لها، فتَقَاعَسَت أن تَقَع فيها، فقال لها الغُلام: يا أمه اصبِري فإنَّكِ َعلى الحقِّ».

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادو گر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں تو بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لیے جادوگر کے پاس بھیج دیا، جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں، پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا، تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا: میں آج جاننا چاہتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا ”الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں“۔ پھر لڑکے نے اس جانور کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ ہر ایک بیماری کا علاج بھی کر دیتا تھا۔ بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لیے ہوجائیں گے، اس لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے۔ پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔ پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا، بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ اس نے کہا کہ کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا : میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ چنانچہ اس لڑکے کو لایا گیا، تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، بلکہ شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔راہب پکڑ لیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پربادشاہ نے آرا منگوا کراس کے سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کروا دیا پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا، بادشاہ نے آرا منگوا کراس کے بھی سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چروا کر دو ٹکڑے کرادیا پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے، اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ: تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک چھوٹی کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے۔ لڑکے نے کہا کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے، پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اس لڑکے نے کہا کہ سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو پھر اس تیر کو کمان کے وسط میں رکھو اور پھر کہو:اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو پھر بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھ کر کہا: اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا تو سب لوگوں نے کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے! بادشاہ آیا اور اس سے کہا گیا کہ جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے گلیوں کے دہانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا کہ جو شخص اس (لڑکے) کے دین سے نہ پھرے، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں داخل ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجھکی (پیچھے ہٹی) تو بچے نے کہا کہ اے امی جان! صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه قصة عجيبة: وهي أن رجلاً من الملوك فيمن سبق كان عنده ساحر اتخذه الملك مستشارًا؛ من أجل أن يستخدمه في مصالحه ولو على حساب الدين؛ لأن هذا الملك لا يهتم إلا بما فيه مصلحته، وهو ملك مستبد قد عبَّد الناس لنفسه.
هذا الساحر لما كبُر قال للملك: إني قد كبرت فابعث إلى غلاما أعلمه السحر.
واختار الغلام ؛ لأن الغلام أقبل للتعليم؛ ولأن التعليم للغلام الشاب هو الذي يبقي، ولا ينسى.
ولكن الله تعالى قد أراد بهذا الغلام خيراً‍.
مرَّ هذا الغلام يوماً من الأيام براهب، فسمع منه فأعجبه كلامه؛ لأن هذا الراهب- يعني العابد- عابد لله عز وجل، لا يتكلم إلا بالخير، وقد يكون راهباً عالماً لكن تغلب عليه العبادة فسمي بما يغلب عليه من الرهبانية، فصار هذا الغلام إذا خرج من أهله جلس عند الراهب فتأخَّر على الساحر، فجعل الساحر يضربه، لماذا تتأخر؟ فشكا الغلام إلى الراهب وطلب أمرًا يتخلص به، قال: إذا ذهبت إلى الساحر وخشيت أن يعاقبك فقل: أخرني أهلي. وإذا ذهبت لأهلك وسألوك فقل: إن الساحر أخَّرني؛ حتى تنجو من هذا ومن هذا.
وكان الراهب -والله أعلم- أمره بذلك -مع أنه كذب- لعله رأى أن المصلحة في هذا تزيد على مفسدة الكذب، أو قصد التورية، والحبس المعنوي، ففعل، فصار الغلام يأتي إلى الراهب ويسمع منه، ثم يذهب إلى الساحر، فإذا أراد أن يعاقبه على تأخره قال: إن أهلي أخَّروني، وإذا رجع إلى أهله وتأخر عند الراهب قال: إنَّ الساحر أخَّرني.
فمرَّ ذات يوم حيوان عظيم، وهو أسد، قد حبس الناس عن التجاوز، فلا يستطيعون أن يتجاوزوه، فأراد هذا الغلام أن يختبر: هل الراهب خير له أم الساحر، فأخذ حجراً، ودعا الله سبحانه وتعالى إن كان أمر الراهب خير له أن يقتل هذا الحجر الدابة، فرمى بالحجر، فقتل الدابة، فمشى الناس.
فعرف الغلام أن أمر الراهب خير من أمر الساحر، فأخبر الراهب بما جرى فقال له الراهب: أنت اليوم خير مني، قد بلغ من أمرك ما أرى وإنك ستبتلي فإن ابتليت فلا تدل علي.
وكان الغلام يبرئ الأكمه والأبرص، ويداوي الناس من سائر الأدواء. فسمع جليس للملك كان قد أصابه العمى، فأتاه بهدايا كثيرة فقال: ما هاهنا لك أجمع إن أنت شفيتني فقال: إني لا أشفي أحداً، إنما يشفي الله تعالى، فإن آمنت بالله دعوتُ الله فشفاك، فآمن بالله  تعالى فشفاه الله، ثم جئ بالرجل الأعمى الذي كان جليساً عند الملك وآمن بالله، وكفر بالملك، فدعي أن يرجع عن دينه فأبى، وهذا يدل على أن الإنسان عليه أن يصبر.
فجيء بالراهب فقيل له: ارجع عن دينك فأبى فدعا بالمنشار فوضع المنشار في مفرق رأسه فشقه به حتى وقع شقاه، ثم جيء بالغلام فقيل له: ارجع عن دينك فأبى، فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به إلى جبل كذا وكذا فاصعدوا به الجبل، فإذا بلغتم أعلاه  فإن رجع عن دينه وإلا فاطرحوه فذهبوا به فصعدوا به الجبل، فقال: اللهم اكفينهم بما شئت، فاهتز بهم الجبل فسقطوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل بك بأصحابك؟ فقال: كفانيهم الله تعالى، فدفعه إلى نفر من اصحابه فقال: اذهبوا به فاحملوه في سفينة وتوسطوا به البحر، فإن رجع عن دينه وإلا فاقذفوه، فذهبوا به فقال: اللهم اكفينهم بما شئت، فانقلبت بهم السفينة فغرقوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل بأصحابك؟ فقال: كفانيهم الله تعالى، فقال للملك: إنك لن تستطيع قتلي حتى تفعل ما آمرك به، قال: ما هو؟ قال: تجمع الناس في مكان واحد وتصلبني على جذع، ثم خذ سهما من وعائي الذي أضع فيه السهام، ثم ضع السهم في وسط القوس، ثم قل: بسم الله رب الغلام، ثم ارمني، فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني. فجمع الناس في صعيد واحد، وصلبه على جذع، ثم أخذ سهمًا من وعائه الذي يضع فيها السهام، ثم وضع السهم في وسط القوس، ثم قال: بسم الله رب الغلام، ثم رماه فوقع السهم في صدغه، فوضع يده في صدغه فمات.
فقال الناس: آمنا برب الغلام، فأتى الملك فقيل له: أرأيت ما كنت تحذر؟ قد والله نزل بك ما كنت تحذر، قد آمن الناس. فأمر بالأخدود بأبواب الطرق فَشُقَّت، وأُوقِدَت فيها النيران وقال: من لم يرجع عن دينه فاقحِمُوه فيها، أو قيل له: اقتحم، ففعلوا، حتى جاءت امرأة ومعها صبي لها، فتأخرت أن تقع فيها رحمة بصبيها، فقال لها الصبي: يا أماه اصبري فإنك على الحق.
575;س حدیث میں ایک عجیب وغریب قصّے کا بیان ہے اور وہ یہ کہ سابقہ زمانہ میں ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا، بادشاہ نے اس جادوگر کو اپنا خاص مشیر بنا رکھا تھا تاکہ اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرے گرچہ وہ دین کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ذاتی مقاصد کا خاص دھیان رکھتا تھا اور وہ ظالم بادشاہ تھا جو لوگوں کو اپنی عبادت کے لیے بھی مجبور کرتا تھا۔ یہ جادوگر جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں۔ جادوگر نے لڑکے کا انتخاب کیا کیونکہ لڑکا تعلیم حاصل کرنے اہل اور زیادہ مناسب ہوتا ہے اور وہ جب کوئی چیز سیکھتا ہے تو جلدی نہیں بھولتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کے ساتھ اچھائی کا ارادہ کیا، چنانچہ اس لڑکے کا گزر ایک دن ایک راہب کے پاس سے ہوا اور اس نے اس کی باتیں سنیں جو اس کو پسند آئیں، کیونکہ یہ راہب یعنی عبادت گزار اللہ کی عبادت کرتا اور صرف اچھی باتیں بولتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی عبادت گزار عالم ہو لیکن اس پر رہبانیت کا غلبہ تھا، اسی لیے اس کا نام راہب پڑا۔ چنانچہ یہ لڑکا جب گھر سے نکلتا اور راہب کے پاس بیٹھتا تو جادوگر کے پاس دیر سے پہنچتا تو جادوگر اس لڑکے کو مارتا کہ تو دیر سے کیوں آتا ہے؟ لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی اور مار سے بچنے کا نسخہ دریافت کیا، راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر کے پاس جائے اور مار کا ڈر ہو تو کہہ دیا کرنا کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اورجب تو گھر والوں کے پاس جائے اور تاخیر کی وجہ پوچھیں تو کہہ دینا کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا، اس طرح تو دونوں کی ڈانٹ سے محفوظ ہوجائے گا ـــــــ اللہ ہی بہتر جانے ــــــــ راہب نے اس لڑکے کو ایسا کرنے کے لیے کہا جب کہ وہ جھوٹ تھا، شاید اس نے یہ سوچا ہوگا کہ اس میں جو مصلحت پوشیدہ ہے وہ جھوٹ کے نقصان پر غالب ہے، یا پھر اس کا ارادہ توریہ اور معنوی طور پر روکنے کا رہا ہے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور اس قابل ہوگیا کہ وہ راہب کے پاس آتا اور اس کی باتیں سنتا اور پھر جادوگر کے پاس جاتا، جب جادوگر اپنے پاس دیر سے آنے پر اس کو سزا دیتا تو کہتا کہ میرے گھر والوں نے مجھے روک لیا تھا اور جب گھر لوٹتا اور راہب کے پاس دیر ہوجاتی تو کہتا ہے کہ جادوگر نے روک لیا تھا۔
ایک دن ایک بہٹ بڑا جانور شیر گزرا اور اس نے لوگوں کا راستہ روک لیا، لڑکا اس طرف آیا تو اس نے کہا میں آج آزمانا چاہوں گا کہ جادوگر میرے لیے افضل ہے یا راہب بہترہے، اورپھر ایک پتھر لیا اور کہنے لگا: اے اللہ! اگر راہب کا معاملہ میرے لیے بہتر ہے تو اس پتھر سے یہ جانور مرجائے، پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مرگیا اور لوگ گزرنے لگے۔
اور لڑکے نے جان لیا کہ راہب کا معاملہ جادوگر کے بالمقابل اس کے حق میں بہتر ہے۔ پھر لڑکے نے راہب کو اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: آج تو مجھ سے افضل ہے، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا،اور اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔
(اس لڑکے کا حال یہ تھا کہ) وہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کی ہر بیماری کا علاج بھی کردیتا تھا۔ بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفائف لے کراس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحائف جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ تمہارے لیے ہوجائیں گے، اس لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اگر تم اللہ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں شفا دے دے، پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرمادی۔پھر اس اندھے آدمی کو لایا گیا جوکہ بادشاہ کا ہم نشین تھا، وہ اللہ پر ایمان لے آیا اور بادشاہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، بادشاہ نے اس سے کہا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائے لیکن لڑکے نے انکار کردیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ (مشکل حالات میں) انسان کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ پھر راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھرجا، راہب نے انکار کردیا۔ اس پر بادشاہ نے آرا منگوا کر اس کے سر کی مانگ پر رکھوایا اور اسے چروا کر دو ٹکڑے کروادیا۔ پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا، وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھرجا۔ اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا: اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ، اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کردے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے دھکیل دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو میرے لیے اُن کے بالمقابل کافی ہے، جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے۔ اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گرگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچالیا ہے۔پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائےتو خیر، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے، لڑکے نے کہا کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے، چنانچہ وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہوگئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کے پاس پہنچا۔بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مارے سکے گا جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے، بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اس لڑکے نے کہا کہ سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ پھر میرے ترکش سے ایک تیر نکالو اور اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھو اور پھر کہو: اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو! چنانچہ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکادیا، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور اس تیر کو کمان کے بیچ میں رکھ کر کہا کہ اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا، تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا، (یہ دیکھ کر) سب لوگوں نے کہا کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پرایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ آیا اور اس سے کہا گیا کہ: جس سے ڈر رہے تھے وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ چنانچہ بادشاہ نے راستوں کے دروازوں پر خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔ پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں میں آگ جلادی گئی، بادشاہ نے کہا: جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے) نہ پھرے اسے خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں داخل ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کی گود میں اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت (بچے کی وجہ سے) آگ میں کودنے سے پیچھے ہٹی تو بچے نے کہا کہ: اے امی جان صبر کر! اس لیے کہ تو حق پر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3303

 
 
Hadith   266   الحديث
الأهمية: إنكم ستلقون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض


Tema:

میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔

عن أسيد بن حضير وأنس بن مالك -رضي الله عنهما- أنَّ رجُلاً من الأنصار، قال: يا رسول الله، ألاَ تَستَعمِلُنِي كما استَعمَلت فُلانًا، فقال: «إِنَّكُم سَتَلقَون بَعدِي أَثَرَة فَاصبِرُوا حَتَّى تَلقَونِي على الحَوض».

اسید بن حضیر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں شخص کی طرح مجھے بھی آپ عامل بنادیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل ٌ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وطلب منه أن يجعله عاملاً على منصب من المناصب كبقية الذين ولاهم، فإنّه أخبره النبي -عليه  السلام- بأمر وهو أنه عليه وعلى أصحابه أن يصبروا على ما يلقونه من ظلم وجور في المستقبل من حكام ينفردون بالمال والخيرات دون رعيتهم، فأمرهم بالصبر حتى يردوا عليه حوضه -عليه السلام-.
575;یک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ ﷺ اسے بھی کسی حکومتی منصب پر فائز کر دیں، جس طرح آپ ﷺ نے دیگر لوگوں کو حکومتی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں بتایا کہ وہ شخص اور آپ ﷺ کے صحابہ مستقبل میں حکام کی طرف سے پیش آنے والے ظلم و جور پر صبر کا مظاہرہ کریں، جو اپنی رعیت کو محروم رکھتے ہوئے تن تنہا مال و دولت پر قابض ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ آپ ﷺ نے انھیں صبر سے کام لینے کی تلقین کی، یہاں تک کہ وہ حوض پر آپ ﷺ سے آ ملیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3305

 
 
Hadith   267   الحديث
الأهمية: ليس على أبيك كرب بعد اليوم


Tema:

آج کے بعد پھر تمھارے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں لاحق ہوگی!

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: لمَّا ثَقُل النبي -صلى الله عليه وسلم- جَعَل يَتَغَشَّاه الكَرب، فقالت فاطمة -رضي الله عنها-: واكَربَ أَبَتَاه، فقال: «لَيسَ عَلَى أَبِيك كَرب بعد اليوم». فلما مات، قالت: يا أَبَتَاه، أجاب ربًّا دَعَاه! يا أبَتَاه، جَنَّة الفِردَوس مَأوَاه! يا أبتاه، إلى جبريل نَنعَاه! فلمَّا دُفِن قالت فاطمة -رضي الله عنها-: أَطَابَت أَنفُسُكُم أَن تَحثُوا عَلَى رسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- التُّراب؟!

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کے مرض کی شدت میں اضافہ ہوگیا، تو آپ ﷺ پر (سکرات) کی سختی طاری ہونے لگی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہاے میرے ابا جان کو کیسی بے چینی لاحق ہو گئی ہے! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج کے بعد پھر تمھارے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں لاحق گی!“۔ پھر جب آپ ﷺ کی وفات ہو گئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہائے ابا جان! آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا، ہائے اباجان! آپ اپنے مستقر یعنی جنت الفردوس میں چلے گئے، ہائے ابا جان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر دیتے ہیں! جب آپ ﷺ کی تدفین ہو چکی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم لوگوں نے آخر یہ کیسے گوراہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دو ؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُصوِّر هذا الحديث صبر نبينا -صلى الله عليه وسلم- على سكرات الموت، فلمَّا ثقل في مرضه الذي مات فيه جعل يغشى عليه من الكرب من شدة ما يصيبه؛ لأنه -عليه الصلاة والسلام- يتشدد عليه الألم  والمرض، وهذا لحكمة بالغة: حتى ينال ما عند الله من الدرجات العلى جزاء صبره، فإذا غشيه الكرب تقول فاطمة -رضي الله عنها-: "وأكرب أبتاه" تتوجع له من كربه، لأنها امرأة، والمرأة لا تطيق الصبر.
فقال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "لا كرب على أبيك بعد اليوم"؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- لما انتقل من الدنيا انتقل إلى الرفيق الأعلى، كما كان -صلى الله عليه وسلم -وهو يغشاه الموت- يقول "اللهم في الرفيق الأعلى، اللهم في الرفيق الأعلى وينظر إلى سقف البيت -صلى الله عليه وسلم-".
توفي الرسول -عليه الصلاة والسلام-، فجعلت -رضي الله عنها- تندبه، لكنه ندب خفيف، لا يدل على التسخط من قضاء الله وقدره.
وقولها "أجاب ربا دعاه"؛ لأن الله تعالى هو الذي بيده ملكوت كل شيء، وآجال الخلق بيده.
فأجاب داعي الله، وهو أنه -صلى الله عليه وسلم- إذا توفي صار كغيره من المؤمنين، يصعد بروحه حتى توقف بين يدي الله سبحانه فوق السماء السابعة.
وقولها: "وابتاه جنة الفردوس مأواه" -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنه -عليه الصلاة والسلام- أعلى الخلق منزلة في الجنة، كما قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "اسألوا الله لي الوسيلة؛ فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو"، ولا شك أن النبي -صلى الله عليه وسلم- مأواه جنة الفردوس، وجنة الفردوس هي أعلي درجات الجنة، وسقفها الذي فوقها عرش الرب جل جلاله، والنبي -عليه الصلاة والسلام- في أعلى الدرجات منها.
قولها: "يا أبتاه إلى جبريل ننعاه" وقالت: إننا نخبر بموته جبريل لأن جبريل هو الذي كان يأتيه ويدارسه بالوحي زمن حياته، والوحي مرتبط بحياة النبي -عليه الصلاة والسلام-.
ثمَّ لمَّا حُمِل ودفِن، قالت -رضي الله عنها-: "أطابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- التراب؟" يعني من شدة حزنها عليه، وحزنها وألمها على فِراق والدها، ومعرفتها بأن الصحابة -رضي الله عنهم- قد ملأ الله قلوبهم محبة الرسول -عليه الصلاة والسلام- سألتهم هذا السؤال، لكن الله سبحانه هو الذي له الحكم، وإليه المرجع، وكما قال الله -تعالى- في كتابة: (إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ).
740;ہ حدیث سکرات الموت میں ہمارے نبی ﷺ کے صبر کی منظر کشی کرتی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا مرض شدت اختیار کر گیا، تو تکلیف کی شدت سے آپ ﷺ پر غشی طاری ہونے لگی۔ آپ ﷺ شدید تکلیف اور مرض سے دو چار تھے۔ اس میں ایک بڑی حکمت بھی تھی؛ حکمت یہ تھی کہ آپ کو صبر کے عوض میں اللہ تعالی کے پاس اونچے درجات حاصل ہوں۔ جب آپ پر بے چینی طاری ہوتی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتیں: ”ہاے میرے ابا جان کو کیسی تکلیف لاحق ہو گئ ہے! انہیں آپ ﷺ کی کرب وتکلیف دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا، کیوں کہ وہ ایک عورت تھیں اور عورت میں صبر کی طاقت نہیں ہوتی۔
اس پرنبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”آج کے بعد پھر تمہارے ابا جان کو کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوگی!“۔ کیوں کہ آپ ﷺ دنیا سے رفیق اعلی کے پاس منتقل ہو گئے۔ جیسا کہ بوقت وفات آپ ﷺ فرما رہے تھے: ”اللهم في الرفيق الأعلى، اللهم في الرفيق الأعلى“۔
ترجمہ: اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا دے، اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا دے۔
یہ الفاظ کہتے ہوۓ آپ ﷺ گھر کی چھت کی طرف دیکھ رہےتھے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رو رو کر آپ کے کچھ احوال بیان کرنے لگیں۔ تاہم اس کی نوعیت بہت معمولی تھی اور اس میں اللہ کی قضا و قدر پر ناراضگی کا اظہا ر بھی نہیں تھا۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا“۔ کیوں کہ ہر شے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمام مخلوق کے اوقاتِ مرگ بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اللہ کے بلاوے پر لبیک کہا۔ دراصل آپ ﷺ کی جب وفات ہوگئی تو آپ دیگر ایمان والوں کی طرح ہو گئے۔ آپ ﷺ کی روح مبارک بھی اوپراٹھتی گئی یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر اللہ سبحانہ و تعالی کے حضور جا کر رک گئی۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”ہائے اباجان! آپ اپنے مستقر یعنی جنت الفردوس میں چلے گئے“ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا اس لیے کہا، کیوں کہ جنت میں آپ ﷺ کا مرتبہ سب مخلوق سے اعلی ہو گا، جیسا کہ نبی ﷺ نےفرمایا: ”اللہ تعالی سے میرے لیے وسیلہ مانگو۔ یہ جنت میں ایک ایسا مرتبہ ہے، جس کا سزاوار اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی بندہ ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ جنت الفردوس جنت کے درجات میں سب سے اعلی درجہ ہے، جس کے اوپر موجود چھت رب تعالی شانہ کا عرش ہے۔ نبی ﷺ جنت الفردوس کے بھی سب سے اعلی درجے میں ہوں گے۔
”ہائے ابا جان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر دیتے ہیں“۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم آپ ﷺ کی وفات کی خبر جبریل علیہ السلام کو دیتے ہیں؛ کیوں کہ یہ جبریل علیہ السلام ہی تھے، جو آپ ﷺ کے پاس آتے اور آپ ﷺ کی حیات میں آپ ﷺ کے ساتھ وحی کا مذاکرہ کرتے تھے اور وحی آپ کی حیات کے ساتھ مربوط ہے۔
جب آپ ﷺ کو لے جا کر دفن کر دیا گیا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ”تم لوگوں نے آخر یہ کیسے گوراہ کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دو ؟“ انھوں نے ان سے یہ سوال اس لیے کیا، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کی وفات پر شدید غم زدہ اور آپ ﷺ کی جدائی کے دکھ اور درد میں مبتلا تھیں اور جانتی تھیں کہ اللہ تعالی نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں کو اپنے رسول کی محبت سے بھر رکھا ہے۔ تاہم فیصلہ کرنے کا اختیار تو اللہ کے پاس ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ: ”إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ“ (الزمر:30)
ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3306

 
 
Hadith   268   الحديث
الأهمية: أمر بلال أن يشفع الأذان, ويوتر الإقامة


Tema:

بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کے کلمات کو دو دو دفعہ اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أُمِر بِلاَل أن يَشفَع الأَذَان، ويُوتِر الإِقَامَة».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کےکلمات کو دو دو دفعہ اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- مؤذنه بلالا -رضي الله عنه- أن يشفع الآذان لأنه لإعلام الغائبين، فيأتي بألفاظه مثنى، وهذا عدا (التكبير) في أوله، فقد ثبت تربيعه و(كلمة التوحيد) في آخره، فقد ثبت إفرادها،كما أمر بلالا أيضا أن يوتر الإقامة، لأنها لتنبيه الحاضرين، وذلك بأن يأتي بجملها مرة مرة، وهذا عدا (التكبير)، و"قد قامت الصلاة" فقد ثبت تثنيتهما فيها.
606;بی ﷺ نے اپنے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کے کلمات کو دوہرا کر کہیں، کیوںکہ یہ غیر موجود لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے ہوتی ہے، اس لیے اس کے الفاظ کو دو دو دفعہ کہیں۔ ماسوا شروع والی تکبیر کے؛ کیوں کہ اسے چار دفعہ کہنا ثابت ہے اور سوائے آخر میں بولےجانے والے کلمہ توحید کے؛ کیوں کہ اسے ایک دفعہ کہنا ثابت ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اقامت کو اکہرا کہیں؛ کیوں کہ یہ موجود لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہوتی ہے، بایں طور کہ اس کے جملوں کو ایک ایک دفعہ کہیں، سوائے تکبیر اور "قد قامت الصلوۃ" کے؛ کیوں کہ انھیں دو دو دفعہ کہنا ثابت ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3307

 
 
Hadith   269   الحديث
الأهمية: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ يَقْدَمُ مكَّة إذا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ -أَول ما يَطُوفُ- يَخُبُّ ثَلاثَةَ أَشْوَاطٍ


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لاتے، تو پہلے طواف شروع کرتے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے پہلے تین چکروں میں رمل کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: « تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِي حَجَّةِ الوَدَاع بالعُمرَة إلى الحج وأهدَى، فَسَاقَ مَعَهُ الهَدْيَ مِن ذِي الحُلَيفَة، وَبَدَأَ رَسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَهَلَّ بالعمرة, ثُمَّ أَهَلَّ بالحج, فَتَمَتَّعَ النَّاس مع رسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأَهَلَّ بالعمرة إلَى الحج, فَكَان مِن النَّاس مَنْ أَهْدَى, فَسَاقَ الهَدْيَ مِن ذي الحُلَيفَة، وَمِنهُم مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رسول اللَّه -صلى الله عليه وسلم- قَالَ للنَّاس: مَنْ كَانَ مِنكُم أَهْدَى, فَإِنَّهُ لا يَحِلُّ مِن شَيء حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَن لَم يَكُن أَهْدَى فَلْيَطُفْ بالبَيت وَبالصَّفَا وَالمَروَة, وَلْيُقَصِّر وَلْيَحْلِل, ثُمَّ لِيُهِلَّ بالحج وليُهدِ, فَمَن لم يجد هَدْياً فَلْيَصُم ثَلاثَةَ أَيَّام فِي الحج وَسَبعة إذَا رَجَعَ إلى أَهلِهِ فَطَافَ رسول اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، وَاستَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ, ثُمَّ خَبَّ ثَلاثَةَ أَطْوَافٍ مِنْ السَّبْعِ, وَمَشَى أَربَعَة, وَرَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بالبيت عِند المَقَام رَكعَتَين, ثُمَّ انصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا, وطاف بِالصَّفَا وَالمَروَة سَبعَةَ أَطوَاف, ثُمَّ لَم يَحلِل مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ منه حَتَّى قَضَى حَجَّهُ, وَنَحَرَ هَدْيَهُ يوم النَّحرِ، وَأَفَاضَ فَطَافَ بالبيت, ثُمَّ حَلَّ مِن كُلِّ شَيء حَرُمَ مِنهُ, وَفَعَلَ مِثل مَا فَعَلَ رَسول اللَّه -صلى الله عليه وسلم-: مَن أَهدَى وَسَاقَ الهَديَ مِن النَّاسِ».
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ يَقْدَمُ مكَّة إذا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ -أَول ما يَطُوفُ- يَخُبُّ ثَلاثَةَ أَشْوَاطٍ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا اور ذوالحلیفہ کے مقام سے ہدی (قربانی) کا جانور ساتھ لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پڑھا پھر اس کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔ بعض لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، چنانچہ وہ ذو الحلیفہ سے انہیں لیکر چلے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ (مکہ) پہنچ گئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے، اس کے لئے کوئی حرام چیزحلال نہیں ہے جب تک کہ وہ حج کو پورا نہ کرلے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہے تو وہ (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے اوربال کتروا کر (عمرہ کا) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کر لے) اور اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور قربانی کرے۔ جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو وہ ایام حج میں تین روزے رکھے اورسات روزے تب رکھےجب وہ اپنے اہل و عیال میں واپس پہنچ جائے۔ بہر کیف رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور سب سے پہلےحجر اسود کو استلام کیا۔ پھر طواف کے سات چکروں میں سے تین چکروں میں رمل فرمایا (یعنی تیز رفتاری سے چلے) اور باقی چار چکروں میں اپنی معمول حالت میں چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے لوٹ کر صفاء پر آئے اور صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ پھر ان چیزوں میں سے کسی کو اپنے اوپر حلال نہیں فرمایا جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ ﷺاپنے حج سے فارغ ہوگئے اور قربانی کے دن اپنی قربانی ذبح کی اور پھر مکہ واپس لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا اور ان چیزوں کو جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا حلال کرلیا اور لوگوں میں سے جو لوگ اپنے ساتھ قربانی لائے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا۔
(ایک اور روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تو طواف شروع کرتے وقت پہلے حجر اسود کو استلام کیا اور (طواف کے سات چکروں میں سے) تین چکروں میں رمل کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ذي الحليفة "ميقات أهل المدينة" ليحج حجته التي ودع فيها البيت ومناسك الحج، وودع فيها الناس، وبلغهم برسالته وأشهدهم على ذلك، أحرم -صلى الله عليه وسلم- بالعمرة والحج، فكان قارنا، والقران تمتع، فتمتع الناس مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فبعضهم أحرم بالنسكين جميعا، وبعضهم أحرم بالعمرة، ناويا الحج بعد فراغه منها، وبعضهم أفرد الحج فقط، فقد خيرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- بين الأنساك الثلاثة، وساق -صلى الله عليه وسلم- وبعض أصحابه الهدي معهم من ذي الحليفة، وبعضهم لم يسقه، فلما اقتربوا من مكة حَضَّ من لم يسق الهدي من المفردين والقارنين إلى فسخ الحج وجعلها عمرة، فلما طافوا وسعوا، أكد عليهم أن يقصروا من شعورهم، ويتحللوا من عمرتهم ثم يحرموا بالحج ويهدوا، لإتيانهم بنسكين بسفر واحد، فمن لم يجد الهدي، فعليه صيام عشرة أيام، ثلاثة في أيام الحج، يدخل وقتها بإحرامه بالعمرة، وسبعة إذا رجع إلى أهله.
فلما قدم النبي -صلى الله عليه وسلم- مكة استلم الركن، وطاف سبعة، خب ثلاثة، لكونه الطواف الذي بعد القدوم، ومشى أربعة، ثم صلى ركعتين عند مقام إبراهيم، ثم أتى إلى الصفا، فطاف بينه وبين المروة سبعا، يسعى بين العلمين، ويمشي فيما عداهما، ثم لم يحل من إحرامه حتى قضى حجه، ونحر هديه يوم النحر، فلمَّا خلص من حجه ورمى جمرة العقبة، ونحر هديه وحلق رأسه يوم النحر، وهذا هو التحلل الأول، أفاض في ضحوته إلى البيت، فطاف به، ثم حل من كل شيء حرم عليه حتى النساء، وفعل مثله من ساق الهدي من أصحابه.
606;بی ﷺ جب اپنے اس حج کے لیے اہل مدینہ کے میقات ذو الحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، جس میں آپ ﷺ نے بیت اللہ، مناسکِ حج اور لوگوں کو الوداع کہا، لوگوں تک اپنا پیغام رسالت پہنچایا اور اس پر انھیں گواہ بنایا، تو آپ ﷺ نے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا۔ آپ ﷺ حج قران کر رہے تھے۔ حج قران تمتع کہلاتا ہے۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے تو عمرہ و حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا اور بعض نے صرف عمرہ کے لیےاحرام باندھا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دل میں حج کی نیت رکھی، جب کہ کچھ لوگوں نے اکیلے حج کی نیت سے احرام باندھا۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو ان تینوں صورتوں میں اختیار دیا تھاکہ وہ جیسے چاہیں، کر لیں۔ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے کچھ صحابہ ذو الحلیفہ ہی سے اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے کر چلے تھے، جب کہ بعض لوگوں نے ہدی کے جانور اپنے ساتھ نہیں لیے تھے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور انھوں نے یا تو اکیلے حج کی نیت کر رکھی تھی یا پھر عمرہ و حج دونوں کی نیت کے ساتھ احرام باندھا تھا، ترغیب دلائی کہ وہ حج کی نیت کو فسخ کرتے ہوئے اسے عمرہ بنا دیں۔ جب انھوں نے طواف اور سعی کر لی، تو آپ ﷺ نے انھیں تاکید فرمائی کہ اپنے بال کتروا کر عمرہ کا احرام کھول دیں اور پھر حج کے لیے احرام باندھیں اور قربانی دیں؛ کیوںکہ انھوں نے ایک ہی سفر میں دو عبادتیں کی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جسے قربانی کا جانور دستیاب نہ ہو، وہ دس دن روزے رکھے۔ تین دن ایام حج میں۔ ان کا وقت تب سے شروع ہو جاتا ہے، جب آدمی عمرہ کے لیے احرام باندھتا ہے اور سات اس وقت رکھے، جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹ آئے۔
نبی ﷺ جب مکہ تشریف لائے، تو حجر اسود کو استلام کیا اور کعبہ کےگرد سات چکر لگائے۔ تین میں رمل کیا؛ کیوںکہ یہ مکہ آنے کے فورا بعد کیا جانے والا طواف تھا اور چار چکروں کو چل کر پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر صفا پر آئے اور اس کے اور مروہ کے مابین سات چکر لگائے؛ دونوں علامتوں کے درمیان آپ ﷺ دوڑتے اور باقی مسافت چل کر طے کرتے۔آپ ﷺ نے تب تک اپنا احرام نہیں کھولا، جب تک اپنا حج پورا کر کے یوم النحر میں قربانی ذبح نہیں کرلیا۔ جب آپ ﷺ اپنے حج، جمرہ عقبہ کی رمی، یوم النحر کو قربانی ذبح کرکے اور اپنے سر کو مونڈ کر فارغ ہو چکے،جسے تحلل اول کہا جاتا ہے، تو اس دن صبح کو بیت اللہ کی طرف لوٹ گئے اور اس کا طواف (یعنی طواف افاضہ) کیا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے لیے ہر اس شے کو حلال کر لیا، جس سے آپ ﷺ (احرام کی وجہ سے) اجتناب کر رہے تھے، حتی کہ بیویوں سے مباشرت بھی۔ آپ ﷺ کے جو صحابہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے تھے، انھوں نے بھی ویسے ہی کیا، جیسے آپ ﷺ نے کیا ۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3309

 
 
Hadith   270   الحديث
الأهمية: وضعت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- وضوء الجنابة، فأكفأ بيمينه على يساره مرتين -أو ثلاثا- ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔

عن ميمونة بنت الحارث -رضي الله عنها- قالت: "وَضَعتُ لِرسولِ الله -صلى الله عليه وسلم- وَضُوءَ الجَنَابَة, فَأَكفَأ بِيَمِينِهِ على يساره مرتين -أو ثلاثا- ثم غَسَل فَرجَه, ثُمَّ ضَرَب يَدَهُ بالأرضِ أو الحائِطِ مرتين -أو ثلاثا- ثم تَمَضْمَضَ واسْتَنْشَقَ, وَغَسَلَ وَجهَه وذِرَاعَيه, ثُمَّ أَفَاضَ على رَأسِه الماء, ثم غَسَل جَسَدَه, ثُمَّ تَنَحَّى, فَغَسَل رِجلَيه, فَأَتَيتُه بِخِرقَة فلم يُرِدْهَا, فَجَعَل يَنفُضُ الماء بِيَده".

میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازؤوں کو دھویا، پھر سر پر پانی بہایا اور اپنے سارے جسم کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ میں آپ ﷺ کے پاس کپڑا لائی، لیکن آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث تبين أم المؤمنين ميمونة -رضي الله عنها- بنت الحارث كيفية من كيفيات غسل النبي -صلى الله عليه وسلم- من الجنابة حيث وضعت له في المكان المعد لغسله ماء ليغتسل به، فصب بيده اليمنى على اليسرى فغسلهما مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه لتنظيفه مما علق به من أثر الجنابة، ثم ضرب الأرض أو الحائط بيده ودلكها مرتين أو ثلاثا، ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض الماء على رأسه، ثم غسل بقية جسده، ثم تحول من مكانه فغسل قدميه في مكان ثان حيث لم يغسلهما من قبل، ثم أتته بخرقة ليتنشف بها، فلم يأخذها وجعل يسلت الماء عن جسده بيده.
575;س حدیث میں ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے غسلِ جنابت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ کو بیان کر رہی ہیں کہ انھوں نے غسل کے لیے مخصوص جگہ پر آپ ﷺ کے غسل کرنے کے لیے پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دو یا تین دفعہ دھویا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی شرم گاہ کو دھویا، تاکہ اس کے ساتھ لگے آثار جنابت صاف ہو جائیں۔ پھر آپ ﷺ نے زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ مارا اور اسے دو یا تین دفعہ رگڑا۔ پھر مسح فرمایا اور ناک میں پانی ڈالا او ر اپنے چہرے اور دونوں بازؤوں کو دھویا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر پانی ڈالا اور بقیہ جسم کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دوسری جگہ پر آکر اپنے دونوں پاؤں کودھویا؛ کیوںکہ انھیں آپ ﷺ نے پہلے نہیں دھویا تھا۔ پھرمیمونہ رضی اللہ عنہا پانی پونچھنے کے لیے آپ ﷺ کے پاس ایک کپڑا لائیں، لیکن آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور اپنے ہاتھ سے ہی اپنے جسم سے پانی کو صاف کرنےلگ گئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3310

 
 
Hadith   271   الحديث
الأهمية: يا أبا ذر، إني أراك ضعيفًا، وإني أحب لك ما أحب لنفسي، لا تأمرن على اثنين، ولا تولين مال يتيم


Tema:

اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا۔

عن أبي ذر -رضي الله عنه- قال: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، لاَ تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَينِ، وَلاَ تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ».

ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمہاری لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو ذر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال له: "إني أراك ضعيفاً وإني أحب لك ما أحب لنفسي فلا تأمرن على اثنين ولا تولين على مال يتيم" هذه أربع جمل بيَّنها الرسول -عليه الصلاة والسلام- لأبي ذر:
الأولى: قال له: "إني أراك ضعيفاً"، وهذا الوصف المطابق للواقع يحمل عليه النصح، فلا حرج على الإنسان إذا قال لشخص مثلا: إن فيك كذا وكذا، من باب النصيحة لا من باب السب والتعيير.
الثانية: قال: "وإني أحب لك ما أحبه لنفسي" وهذا من حسن خلق النبي -عليه الصلاة والسلام-، لما كانت الجملة الأولى فيها شيء من الجرح قال: "وإني أحب لك ما أحب لنفسي" يعني: لم أقل لك ذلك إلا أني أحب لك ما أحب لنفسي.
الثالثة: "فلا تأمرنَّ على اثنين"، يعني: لا تكن أميرًا على اثنين، وما زاد فهو من باب أولى.
والمعنى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهاه أن يكون أميرًا؛ لأنه ضعيف، والإمارة تحتاج إلى إنسان قوي أمين، قوي بحيث تكون له سلطة وكلمة حادة؛ وإذا قال فعل، لا يكون ضعيفا أمام الناس؛ لأن الناس إذا استضعفوا الشخص لم يبق له حرمة عندهم، وتجرأ عليه السفهاء، لكن إذا كان قويًّا لا يتجاوز حدود الله عز وجل، ولا يقصر عن السلطة التي جعلها الله له فهذا هو الأمير حقيقة.
الرابعة: "ولا تولين مال يتيم" واليتيم هو الذي مات أبوه قبل أن يبلغ، فنهاه الرسول -عليه الصلاة والسلام- أن يتولى على مال اليتيم؛ لأنَّ مال اليتيم يحتاج إلى عناية ويحتاج إلى رعاية، وأبو ذر ضعيف لا يستطيع أن يرعى هذا المال حق رعايته فلهذا قال: "ولا تولين مال يتيم" يعني لا تكن وليا عليه دعه لغيرك.
وليس في هذا انتقاصًا لأبي ذر فقد كان يأمر بالمعروف وينهى عن المنكر بالإضافة للزهد والتقشف، ولكنه ضعف في باب معين وهو باب الولاية والإمارة.
575;بو ذر رضی اللہ عنہ بیان کررہے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔ یہ تین جملے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمائے:
اول: آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔ اس نصیحت کو مبنی پر حقیقت صورت حال پر محمول کیا جائے گا۔ کسی آدمی کا کسی دوسرے شخص کو ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مثلا تم میں یہ یہ کمزوریاں ہیں؛ بشرطے کہ اس کا یہ کہنا نصیحت کی غرض سے ہو، نہ کہ برا بھلا کہنے اور عار دلانے کےلیے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔
دوم: آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔ یہ نبی ﷺ کے حسن اخلاق کا ایک مظہر ہے۔ چوں کہ پہلے جملے میں کچھ دل آزاری کا پہلو تھا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔
سوم: ”دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا“۔ یعنی دو آدمیوں پر بھی کبھی امیر نہ بننا۔ اس سے زیادہ پر امیر بننے کی ممانعت تو بطریق اولی ہو گی۔
مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں امیر بننے سے منع کیا؛ کیوں کہ وہ کمزور تھے، جب کہ امارت کے لیےطاقت ور اور امانت دار شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ طاقت ور اس طرح سے کہ وہ صاحب اقتدار ہو اور اس کی بات میں تیز پن ہو۔ بایں طور کہ جو کہے اسے کر گزرے اور لوگوں کے سامنے کمزوری ظاہر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ لوگ جب کسی شخص کو کمزور سمجھنا شروع کردیں، تو ان کے ہاں اس کا احترام باقی نہیں رہتا اور بے وقوف لوگ اس پر جری ہو نے لگتے ہیں۔ تاہم اگر وہ طاقت ور ہو، اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرتا ہو اور نہ اللہ کے عطا کردہ اقتدار میں کوئی کوتاہی برتتا ہو، تو یہ شخص ہی حقیقی امیر ہوتا ہے۔
چہارم: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یتیم اس بچے کو کہا جاتا ہے، جس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا باپ فوت ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یتیم کے مال کی ذمے داری اٹھانے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ یتیم کے مال کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ابو ذررضی اللہ عنہ کمزور شخص تھے، جو اس کی کما حقہ دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یعنی یتیم کے مال کا نگران نہ بننا، بلکہ یہ ذمے داری کسی اور کے لیے چھوڑ دینا۔
اس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ ساتھ ہی آپ بہت زاہد اور تقشف اختیار کرنے والے تھے۔ یہ تو بس ایک میدان میں کمزور تھے؛ امارت اور حکومت کا میدان۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3311

 
 
Hadith   272   الحديث
الأهمية: من توضأ نحو وضوئي هذا, ثم صلى ركعتين, لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه


Tema:

جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی، جس میں اس نے اپنے جی میں کوئی بات نہ کی، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دییے جاتے ہیں۔

عن حمران مولى عثمان أنَّه رأى عثمان دعا بوَضُوء, فأفرَغ على يَدَيه مِن إنائه, فغَسَلهُما ثلاثَ مرَّات، ثمَّ أدخل يَمينَه في الوَضُوء, ثمَّ تَمضمَض واستَنشَق واستَنثَر، ثُمَّ غَسل وَجهه ثَلاثًا, ويديه إلى المرفقين ثلاثا, ثم مسح برأسه, ثمَّ غَسل كِلتا رجليه ثلاثًا, ثمَّ قال: رأيتُ النَّبِي -صلى الله عليه وسلم- يتوضَّأ نحو وُضوئي هذا، وقال: (من توضَّأ نحو وُضوئي هذا, ثمَّ صلَّى ركعتين, لا يحدِّث فِيهما نفسه غُفِر له ما تقدَّم من ذنبه).

حمران رحمہ اللہ جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام ہیں، روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا اوربرتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر تین دفعہ انھیں دھویا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ کو وضو کے پانی میں ڈالا اور کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑا۔ پھر اپنے چہرے کو تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنے دونوں پاؤں کو تین دفعہ دھویا اور فرمایا: "میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی، جس میں اس نے اپنے جی میں کوئی بات نہ کی، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشتمل هذا الحديث العظيم على الصفة الكاملة لوضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-.
فإن عثمان -رضي الله عنه- من حسن تعليمه وتفهيمه علمهم صفة وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم- بطريقة عملية، ليكون أبلغ تفهُّماً، فإنه دعا بإناء فيه ماء، ولئلا يلوثه، لم يغمس يده فيه، وإنما صب على يديه ثلاث مرات حتى نظفتا، بعد ذلك أدخل يده اليمنى في الإناء، وأخذ بها ماء تمضمض منه واستنشق، ثم غسل وجهه ثلاث مرات، ثم غسل يديه مع المرفقين ثلاثا، ثم مسح جميع رأسه مرة واحدة، ثم غسل رجليه مع الكعبين ثلاثا.
فلما فرغ -رضي الله عنه- من هذا التطبيق والوضوء الكامل أخبرهم أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- توضأ مثل هذا الوضوء، وأخبرهم -صلى الله عليه وسلم- أنه من توضأ مثل وضوئه، وصلى ركعتين، خاشعًا مُحْضراً قلبه بين يدي ربه عز وجل فيهما، فإنه- بفضله تعالى يجازيه على هذا الوضوء الكامل، وهذه الصلاة الخالصة بغفران ما تقدم من ذنبه.
575;س عظیم حدیث میں نبی ﷺ کے وضو کے مکمل طریقۂ کار کا بیان ہے۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے انتہائی اچھے اور خوب صورت انداز میں لوگوں کو عملی طور پر نبی ﷺ کے وضو کے طریقے کی تعلیم دی، تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ انھوں نے ایک برتن منگوایا، جس میں کچھ پانی تھا اور اس خیال کے پیش نظر کہ کہیں وہ خراب نہ ہو جائے، انھوں نے اپنا ہاتھ اس میں نہیں ڈالا، بلکہ اپنے ہاتھو ں پر تین دفعہ پانی بہایا، تا کہ وہ صاف ہو جائیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر اس میں سے کچھ پانی لیا اور اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرے کو تین دفعہ دھویا اور اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین دفعہ دھویا۔ پھر ایک دفعہ اپنے پورے سر کا مسح کیا اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو تین دفعہ ٹخنوں سمیت دھویا۔
جب عثمان رضی اللہ عنہ اس عملی تطبیق سے فارغ ہو گئے اور پوری طرح وضو کر چکے، تو لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے نبی ﷺ کو اسی طرح سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ آپ ﷺ نے انھیں بتایا کہ جو شخص آپ ﷺ کے وضو کی طرح وضو کرتا ہے اور پھر پورے خشوع کے ساتھ اور اپنے دل کو اللہ عز و جل کی بارگاہ میں یکسو رکھتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھتا ہے، تو اس طرح سے کامل وضو کرنے اور خالص نماز کی ادائیگی پر اللہ تعالی اسے اپنے فضل و احسان کے ساتھ یہ بدلہ دیتا ہے کہ اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3313

 
 
Hadith   273   الحديث
الأهمية: يدخل الجنة أقوام أفئدتهم مثل أفئدة الطير


Tema:

جنت میں کتنے ہی لوگ ایسے جائیں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مانند ہوں گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يَدخُلُ الجّنَّة أَقْوَام أَفئِدَتُهُم مِثل أًفئِدَة الطَّير».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں کتنے ہی لوگ ایسے جائیں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مانند ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- عن وصف قوم من أهل الجنة وأن قلوبهم رقيقة فزعة كما تفزع الطير، وذلك  لخوف هؤلاء المؤمنين من ربهم ،كما أن الطير كثيرة الفزع والخوف، وهم أيضاً أكثر الناس توكلاً على الله في طلب حاجاتهم كما تخرج الطير صباحاً لطلب رزقها.
606;بی ﷺ کچھ جنتی لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ ان کے دل اس طرح رقیق اور سہمے ہوئے ہوں گے، جیسے پرندے سہم جاتے ہیں؛ کیوں کہ یہ مؤمن اپنے رب سے ڈرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کہ پرندے بہت گھبرائے گھبرائے اور خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اپنی ضروریات کے سلسلے میں بھی یہ لوگ اللہ پر سب سےزیادہ توکل رکھتے ہیں، جیسا کہ پرندے صبح کو رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3314

 
 
Hadith   274   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا اغتسل من الجنابة غسل يديه ثم توضأ وضوءه للصلاة ثم اغتسل


Tema:

نبی ﷺ جب جنابت کا غسل کرتے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتے اور پھر غسل فرماتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: (كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا اغْتَسَلَ من الجَنَابَة غَسَل يديه, ثُمَّ تَوَضَّأ وُضُوءَه للصَّلاة, ثمَّ اغْتَسَل, ثُمَّ يُخَلِّلُ بِيَدَيه شعره, حتى إِذَا ظَنَّ أنَّه قد أَرْوَى بَشَرَتَهُ, أَفَاض عليه الماء ثَلاثَ مرَّات, ثمَّ غَسَل سائر جسده. وكانت تقول: كُنت أغتسِل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إِنَاء واحِد, نَغْتَرِف مِنه جَمِيعًا).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ جب جنابت کا غسل کرتے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتےاور پھر غسل فرماتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے بالوں کا خلال کرتے اور جب یقین کر لیتے کہ جسم تر ہو گیا ہے، تو تین مرتبہ اس پر پانی بہاتے، پھر تمام بدن کا غسل کرتے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرمایا کرتی تھیں کہ: میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم بیک وقت اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تصف عائشة -رضي الله عنها- غسل النبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه إذا أراد الغسل من الجنابة بدأ بغسل يديه، لتكونا نظيفتين حينما يتناول بهما الماء للطهارة، وتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ولكونه -صلى الله عليه وسلم- ذا شعر كثيف، فإنه يخلله بيديه وفيهما الماء حتى إذا وصل الماء إلى أصول الشعر، وأروى البشرة، صب الماء على رأسه ثلاث مرات ثم غسل باقي جسده.
ومع هذا الغسل الكامل، فإنه يكفيه هو وعائشة، إناء واحد، يغترفان منه جميعا.
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا، نبی ﷺ کے غسل کا طریقہ بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ غسل جنابت کا ارادہ کرتے، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لیتے؛ تاکہ دونوں ہاتھ اس وقت پاک و صاف رہیں، جب ان سے طہارت وپاکی کے لیے پانی لیا جائے۔ پھر نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو فرماتے اور بہت گھنے بال ہونے کی وجہ سے اپنے دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر سر کا خلال فرماتے، تاآں کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے اور جسم کو تر فرماتے، اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے اور پھر باقی تمام جسم کو دھوتے۔ اس کامل غسل کے باوجود، آپ ﷺ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے لیے ایک برتن پانی ہی کافی ہوجاتا۔ دونوں ہی چلو بھر بھر کر اس میں سے پانی لیتے (ہوئے غسل فرماتے)۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3316

 
 
Hadith   275   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا عطس وضع يده أو ثوبه على فيه، وخفض  بها صوته


Tema:

رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور اس سے اپنی آواز کو ہلکی یا پست کرتے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا عطس وضع يده أو ثوبه على فيه، وخفض -أو غض- بها صوته،   شك الراوي.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتےاور اس سے اپنی آواز کو ہلکی یا پست کرتے۔
راوی کو شک ہے کہ صحابی نے ”خَفَضَ“ کا لفظ استعمال کیا تھا یہ ”غَضّ“ کا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أدب من الآداب المتعلقة بالعطاس، فيُستحب للعاطس أن لا يبالغ في إخراج العطاس ولا يرفع صوته, بل يخفضه ويغطي وجهه إن أمكن.
740;ہ حدیث چھینک سے متعلقہ آداب میں سے ایک ادب پر دلالت کرتی ہے، چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ چھینک نکالنے میں مبالغہ سے کام نہ لے اور نہ آواز ہی بلند کرے بلکہ آہستہ آواز سے چھینک نکالے اور جہاں تک ممکن ہو چہرے کو ڈھک لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3317

 
 
Hadith   276   الحديث
الأهمية: كان كلام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كلاما فصلا يفهمه كل من يسمعه


Tema:

رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كَانَ كَلاَمُ رَسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَلاَمًا فَصلاً يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ يَسْمَعُهُ.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عائشة -رضي الله عنها- أنها قالت: إنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- كان كلامه فصلا، معناه أنه كان مفصلا لا يدخل الحروف بعضها على بعض، ولا الكلمات بعضها على بعض، بيِّن ظاهر لكل من سمعه ليس فيه تعقيد ولا تطويل، حتى لو شاء العاد أن يحصيه لأحصاه من شدة تأنيه -صلى الله عليه وسلم- في الكلام؛ وهذا لأنَّ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أُعْطِيَ جوامع الكلم واختصر له الكلام اختصارا، وجوامع الكلم أن تجمع المعاني الكثيرة في اللفظ القليل.
وهكذا ينبغي للإنسان أن لا يكون كلامه متداخلا بحيث يخفى على السامع؛ لأن المقصود من الكلام هو إفهام المخاطب، وكلما كان أقرب إلى الإفهام كان أولى وأحسن.
ثم إنه ينبغي للإنسان إذا استعمل هذه الطريقة، يعني إذا جعل كلامه فصلا بينا واضحا، وكرَّره ثلاث مرات لمن لم يفهم، ينبغي أن يستشعر في هذا أنه متبع لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى يحصل له بذلك الأجر وإفهام أخيه المسلم.
وهكذا جميع السنن اجعل على بالك أنك متبع فيها لرسول -صلى الله عليه وسلم- حتى يتحقق لك الاتباع وثوابه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا اپنی اس حدیث میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے۔ یعنی آپ کی گفتگو جدا جدا ہوتی، بایں طو رکہ حروف و کلمات باہم خلط ملط نہیں ہوتے تھے اور آپ ﷺ کی گفتگو سننے والے کے لیے بالکل واضح اور پیچیدگی و طوالت سے پاک ہوتی تھی۔ آپ ﷺ گفتگو اتنی آہستہ روی سے فرماتے کہ اگر کوئی شمار کرنے والا آپ کی گفتگو کے الفاظ شمار کرنا چاہتا، تو کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھےاور آپ ﷺ کی گفتگو بہت ہی مختصر ہوتی تھی۔ جوامع الکلم سے مراد یہ ہے کہ تھوڑے الفاظ میں بہت سارے معانی سمو دیے جائیں۔
اس لیے مناسب ہے کہ انسان کی گفتگو اس طرح سے گڈ مڈ نہ ہو کہ وہ سننے والے کو سمجھ ہی میں نہ آئے؛ کیوں کہ گفتگو کا مقصد مخاطب کو بات سمجھانا ہوتا ہے۔ اس لیے گفتگو تفہیم سے جتنی قریب تر ہو گی، اتنا ہی بہتر اور اچھا ہو گا۔
پھر انسان جب یہ طرز عمل اپنائے، یعنی اپنی گفتگو کو جدا جدا، صاف اور واضح رکھے اور جو شخص نہ سمجھ پائے، اس کے لیے اسے تین دفعہ دوہرائے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس دوران یہ بات ذہن میں رکھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہا ہے؛ تا کہ اس کی وجہ سے اسے اجر بھی حاصل ہو جائے اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو (اپنی بات) بھی سمجھا دے۔
اسی طرح تمام سنتوں میں اپنے ذہن میں یہی رکھیں کہ آپ ان پر کاربند ہو کر رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہے ہیں؛ تا کہ اتباع بھی ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ثواب بھی مل جائے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3321

 
 
Hadith   277   الحديث
الأهمية: قوموا فلأصلي لكم


Tema:

اٹھو، تاکہ میں تمہیں نماز پڑھا دوں

عن أَنَس بنِ مَالِكٍ -رضي الله عنه- «أنَّ جَدَّتَهُ مُلَيكَة دَعَت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لِطَعَام صَنَعتُه، فَأَكَل مِنه، ثم قال: قُومُوا فَلِأُصَلِّي لَكُم؟ قال أنس: فَقُمتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قد اسوَدَّ من طُولِ مَا لُبِس، فَنَضَحتُه بماء، فقام عليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وَصَفَفتُ أنا واليَتِيمُ وَرَاءَهُ، والعَجُوزُ مِن وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَكعَتَين، ثُمَّ انصَرَف».
#1608;لمسلم «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلى به وبِأُمِّه فَأَقَامَنِي عن يَمِينِه، وأقام المَرأةَ خَلْفَنَا».

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی مُلیکہ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کھانے پر بلایا، جو انہوں نے آپ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا، پھر فرمایا: ”اٹھو، تاکہ میں تمہیں نماز پڑھا دوں“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اٹھا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہوگئی تھی۔ میں نے اس پر پانی کا چھينٹا مارا، پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے۔ میں اور ایک یتیم لڑکے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بوڑھی دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ واپس تشریف لے گئے۔
صحيح مسلم کی روايت ميں ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے انہيں اور ان کی ماں کو نماز پڑھائی۔ تو مجھے اپنے دائیں کھڑا کيا اور ماں کو ہمارے پيچھے کھڑا کيا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعت مليكة -رضي الله عنها- رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لطعام صنعته، وقد جبله الله تعالى على أعلى المكارم وأسمى الأخلاق، ومنها التواضع الجم، فكان على جلالة قدره وعلو مكانه يجيب دعوة الكبير والصغير، والذكر والأنثى، والغني والفقير، يريد بذلك الأهداف السامية، والمقاصد الجليلة من جبر قلوب البائسين، والتواضع للمساكين، وتعليم الجاهلين، إلى غير ذلك من مقاصده الحميدة، فجاء إلى هذه الداعية، وأكل من طعامها، ثم اغتنم هذه الفرصة ليعلِّم هؤلاء المستضعفين الذين ربما لا يزاحمون الكبار على مجالسه المباركة، فأمرهم بالقيام ليصلي بهم، حتى يتعلموا منه كيفية الصلاة، فعمد أنس إلى حصير قديم، قد اسود من طول المكث والاستعمال، فغسله بالماء، فقام عليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصلى بهم، وصف أنسا، ويتيما معه، صفا واحدا خلف النبي صلى الله عليه وسلم، وصفت العجوز-صاحبة الدعوة- من وراء أنس واليتيم، تصلي معهم، فصلى بهم ركعتين، ثم انصرف -صلى الله عليه وسلم- بعد أن قام بحق الدعوة والتعليم -صلى الله عليه وسلم-، ومنَّ الله علينا باتباعه في أفعاله وأخلاقه.
605;ليکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے بلایا، جو انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اعلی اخلاق اوربلند کردارسے سرفراز کياتھا۔ انہی میں سے ایک آپ کی بے حد تواضع و خاکساری ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ عظيم مقام ومرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود چھوٹے بڑے، مرد وعورت، امير وغريب سب کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ آپ ﷺ اس کے ذريعہ کمزوروں اور محتاجوں کی غمگساری، فقيروں اور مسکينوں سے ہمدردی اور جاہلوں کی تعليم وتربيت جيسے اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پس آپ ﷺ اس دعوت دینے والی خاتون کے ہاں تشریف لائے اور اس کا کھانا تناول فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس موقع کو غنيمت جانتے ہوئے ان کمزوروں کو، جو بسا اوقات بڑوں کے ساتھ آپ ﷺ کی مبارک مجلسوں ميں نہيں حاضر ہوتے ہيں، تعليم دينا چاہا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سب کو کھڑے ہونے کا حکم ديا تاکہ انہيں نماز پڑھائيں جس سے انہيں نماز کی کيفيت کا علم ہو جائے۔
انس رضی اللہ عنہ ايک پرانی چٹائی کی طرف متوجہ ہوئے جو کثرت استعمال کی وجہ سے سياہ ہو چکی تھی، اس کو پانی سے دھلا۔ پھر آپ ﷺ انھیں نماز پڑھانے کے لیے اس پر کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ايک يتيم لڑکا نبی ﷺ کے پيچھے ايک صف ميں کھڑے ہوئے اور مليکہ رضی اللہ عنہا -جو میزبان تھیں- نماز پڑھنے کے لیے انس رضی اللہ عنہ اور يتيم لڑکے کے پيچھے کھڑی ہوئيں۔ آپ ﷺ نے انھیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ دعوت وتعليم کا حق ادا کرنے کے بعد واپس آگئے۔ الحمد للہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان کہ ہميں آپ ﷺ کے افعال واخلاق میں آپ کا متبع بنايا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3324

 
 
Hadith   278   الحديث
الأهمية: إذا استأذنت أحدَكم امرأتُه إلى المسجد فلا يمنعها


Tema:

جب تم میں سے کسی سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے نہ روکے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عَنِ النَّبيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «إذا اسْتَأذَنَت أَحَدَكُم امرَأَتُه إلى المسجِد فَلا يَمنَعهَا، قال: فقال بلال بن عبد الله: والله لَنَمنَعُهُنَّ، قال: فَأَقبَلَ عليه عبد الله، فَسَبَّهُ سَبًّا سَيِّئًا، ما سَمِعتُه سَبَّهُ مِثلَهُ قَطُّ، وقال: أُخبِرُك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول: والله لَنَمنَعُهُنَّ؟».
وفي لفظ: «لا تَمنَعُوا إِمَاء الله مسَاجِد الله...».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے نہ روکے“۔ (سالم نے) کہا: بلال بن عبد اللہ نے کہا: اللہ کی قسم ہم تو انھيں ضرور روکیں گے، (راوی حدیث) کہتے ہیں: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی طرف رخ کیا اور بلال کو سخت برا بھلا کہا، میں نے انہیں کبھی (کسی کو) اتنا برا بھلا کہتے نہیں سنا، اور فرمايا: ميں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان بتا رہا ہوں اور تم کہتے ہو: اللہ کی قسم! ہم انھيں ضرور روکیں گے؟
ايک دوسری روايت ميں یہ الفاظ آئے ہیں: ”اللہ کی بنديوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو...“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رَوى ابن عمر-رضي الله عنهما- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: إذا استأذنت أحدكم امرأته إلى المسجد فلا يمنعها؛ لئلا يحرمها فضيلة الجماعة في المسجد، وفيه بيان حكم خروج المرأة إلى المسجد للصلاة، وأنه جائز،
وكان أحد أبناء عبد الله بن عمر حاضرا حين حدث بهذا الحديث، وكان قد رأى الزمان قد تغير عن زمن النبي -صلى الله عليه وسلم- بتوسُّع النساء في الزينة، فحملته الغيرة على صون النساء، على أن قال- من غير قصد الاعتراض على المشرِّع-: والله لنمنعهن، ففَهِم أبُوه من كلامه أنه يعترض- برده هذا- على سنَّة النبي -صلى الله عليه وسلم- فحمله الغضب لله ورسوله، على أن سبَّه سبًّا شديدًا. وقال: أخبرك عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وتقول: والله لنمنعهن؟
575;بن عمر رضي اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب تم ميں سے کسی کی بيوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے، تاکہ وہ مسجد میں جماعت کی فضيلت سے محروم نہ رہے۔ اس حديث ميں عورت کے نماز کے لیے مسجد جانے کے جواز کا ثبوت ہے، اس حدیث کو بیان کرتے وقت اسی مجلس ميں عبد اللہ بن عمر کے صاحب زادے بلال بھی موجود تھے انھوں نے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بڑھ کرعورتوں کی زيب و زينت میں توسّع کو دیکھ کر ان کی عصمت وعفت کی حفاظت کے پیش نظر - شارع پراعتراض کا قصد کئے بغیر- فرمایا: "اللہ کی قسم ہم انھيں ضرور منع کریں گے."، اس بات کو سن کر ان کے والد ابن عمر نے سمجھا کہ وہ اس تردید کے ذریعہ سنتِ رسول پر اعتراض کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اللہ اور اس کے رسول کى خاطر بہت ناراض ہوئے اور انھيں بہت ہی برا بھلا کہا۔ اور فرمايا: ميں اللہ کے رسول صلی عليہ وسلم کی حديث بيان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3325

 
 
Hadith   279   الحديث
الأهمية: صَلَّيْتُ مع أبي بكر وعمر وعثمان، فلم أسمع أحدا منهم يقرأ "بسم الله الرحمن الرحيم"


Tema:

میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، تو میں نے ان میں سے کسی کو بھی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔

عن أَنَس بن مالك -رضي الله عنه- «أنّ النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر وعمر -رضي الله عنهما-: كانوا يَسْتَفْتِحُونَ الصلاة بـ"الحمد لله رب العالمين"».
وفي رواية: « صَلَّيْتُ مع أبي بكر وعمر وعثمان، فلم أسمع أحدا منهم يقرأ "بسم الله الرحمن الرحيم"».
ولمسلم: « صَلَّيْتُ خلف النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبي بكر وعمر وعثمان فكانوا يَسْتَفْتِحُونَ بـ"الحمد لله رب العالمين"، لا يَذْكُرُونَ "بسم الله الرحمن الرحيم" في أول قراءة ولا في آخرها».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔
اور ایک روایت میں ہے: میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے سا تھ نماز پڑھی، تو میں نے ان میں سے کسی کو بھی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
اور مسلم کی روایت میں ہے: میں نے نبی ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے اور ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کا ذکر نہ شروع قراءت میں اور نہ آخر میں کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أنس بن مالك، -رضى الله عنه-: أنه- مع طول صحبته للنبي -صلى الله عليه وسلم- وملازمته له ولخلفائه الراشدين - لم يسمع أحداً منهم يقرأ (بسم الله الرحمن الرحيم) في الصلاة، لا في أول القراءة، ولا في آخرها، وإنما يفتتحون الصلاة بـ"الحمد لله رب العالمين"، وقد اختلف العلماء في حكم قراءة البسملة والجهر بها على أقوال، والصحيح من أقوال العلماء أن المصلي يقرأ البسملة سرا قبل قراءة الفاتحة في كل ركعة من صلاته، سواء كانت الصلاة سرية أم جهرية.
575;نس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انھوں نے، نبی ﷺ کے ساتھ لمبی صحبت و وابستگی اور خلفاے راشدین کی ہم نشینی کے باوجود، کبھی ان میں سے کسی کو نماز میں ”بسم الله الرحمن الرحيم“ پڑھتے نہیں سنا؛ نہ ہی شروع قراءت میں اور نہ ہی آخر میں۔ وہ نماز ”الحمد لله رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔
بسم اللہ کو جہراً پڑھنے کی مشروعیت کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک اقوال وارد ہیں اور ان میں صحیح قول یہی ہے کہ نمازی نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ سراً پڑھے گا؛ نماز خواہ سری ہو یا جہری۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3327

 
 
Hadith   280   الحديث
الأهمية: إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى المرأة وتفضي إليه، ثم ينشر سرها


Tema:

قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا، جو اپنی بیوی سے ملے اور بیوی اس سے ملے اور پھر وہ اس کے راز ظاہر کرتا پھرے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِندَ الله مَنزِلَةً يَومَ القِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفضِي إِلَى المَرْأَةِ وَتُفْضِي إِلَيه، ثُمَّ يَنشُرُ سِرَّهَا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا، جو اپنی بیوی سے ملے اور بیوی اس سے ملے اور پھر وہ اس کے راز ظاہر کرتا پھرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي الكريم -صلى الله عليه وسلم- أن من شر الناس مرتبة عند الله يوم القيامة المتصف بهذه الخيانة، وهو الذي يعمد إلى نشر سر البيت الزوجي، الذي لا يطلع عليه إلا الزوجان، ففي هذا الحديث تحريم إفشاء الرجل ما يجري بينه وبين امرأته من أمور الاستمتاع ووصف تفاصيل ذلك، وما يجري من المرأة فيه من قول أو فعل ونحوه.
فأما مجرد ذكر الجماع، فإن لم تكن فيه فائدة، ولا حاجة فمكروه؛ لأنَّه خلاف المروءة، وقد قال -صلى الله عليه وسلم-: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصمت" ، وإن كان إليه حاجة، أو ترتب عليه فائدة، بأن ينكر عليه إعراضه عنها، أو تدعي عليه العجز عن الجماع، أو نحو ذلك، فلا كراهة في ذكره لوجود المصلحة في ذلك وقد دلت عليه السنة.
606;بی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ روزِقیامت اللہ کے ہاں مرتبے کے لحاظ سے بدترین شخص وہ ہو گا، جو اس خیانت سے متصف ہو گا، یعنی وہ شخص جو ایسے گھریلو ازدواجی راز کو افشا کرتا ہے، جس سے صرف میاں بیوی ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں مرد اور اس کی بیوی کے مابین جنسی لطف اندوزی سے متعلقہ امور اور ان کی تفاصیل اور اس دوران بیوی کی طرف سےجو باتیں یا افعال وغیرہ ہوتے ہیں، انھیں بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
جہاں تک محض جماع کا تعلق ہے، تو بنا کسی فائدے اور ضرورت کے بس یوں ہی اس کا ذکر کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ یہ بات مروت کے خلاف ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ یا تو اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے“۔ اگر اس کے ذکر کرنے کی ضرورت ہویا پھر ایسا کرنے میں کوئی فائدہ ہو، بایں طور کہ اسے ملامت کیا جا رہا ہو کہ وہ اپنی بیوی سے بے گانگی برتتا ہے یا پھر اس کے خلاف یہ دعوی دائر کر دیا جائے کہ وہ جماع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا ایسی کسی اور غرض کی بنا پر اس کا ذکر کرنے میں کوئی کراہت نہیں؛ کیوں کہ ان صورتوں میں اس کے ذکر کرنے کی مصلحت پائی جا رہی ہے اور سنت بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3328

 
 
Hadith   281   الحديث
الأهمية: لعنة الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد -يحذر ما صنعوا-، ولولا ذلك أبرز قبره، غير أنه خشي أن يتخذ مسجدًا


Tema:

یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ آپ ﷺ اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے آگاہ کر رہے تھے۔ اور اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن یہ ڈر تھا کہ کہیں اسے مسجد (سجدہ گاہ) نہ بنا لیا جائے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: لما نُزِلَ برسول الله -صلى الله عليه وسلم-، طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً له على وجهه، فإذا اغْتَمَّ بها كشفها فقال -وهو كذلك-: "لَعْنَةُ الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد -يُحَذِّرُ ما صنعوا".


ولولا ذلك أُبْرِزَ قَبْرُهُ، غير أنه خَشِيَ أن يُتَّخَذَ مسجدا.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ پر (وفات کے لمحے) طاری ہوئے تو آپ اپنی ایک چادر اپنے چہرے پر ڈالتے تھے اور جب جی گھبراتا تو اسے چہرے سے ہٹا لیتے تھے، آپ اسی حالت میں تھے کہ آپ نے فرمایا: ”یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا“۔ [راوی کہتے ہیں کہ] آپ ﷺ اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے آگاہ کر رہے تھے۔
اور اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن یہ ڈر تھا کہ کہیں اسے مسجد (سجدہ گاہ) نہ بنا لیا جائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- أنه حينما حضرت النبي -صلى الله عليه وسلم- الوفاة قال وهو في سكرات الموت: "لعن الله اليهود والنصارى"؛ وذلك لأنهم بنوا على قبور أنبيائهم مساجد. ثم استنتجت عائشة -رضي الله عنها- أنه يريد بذلك تحذير أمته من أن تقع فيما وقعت فيه اليهود والنصارى فتبني على قبره مسجدا، ثم بينت أن الذي منع الصحابة من دفنه خارج غرفته هو خوفهم من أن يتخذ قبره مسجدًا.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بتلا رہی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے نزع کی حالت میں فرمایا: ”یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو“۔ اور یہ اس لئے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں پر مسجدیں بنالیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ آپ ﷺ کی مراد اس سے اپنی امت کو یہود ونصاری کے عمل سے آگاہ کرنا تها تاکہ یہ امت اس میں نہ واقع ہو جس میں یہود ونصاری مبتلا تھے اور انہیں کی طرح آپ ﷺ کی قبر پر مسجد نہ بنائیں، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے واضح کیاکہ آپ ﷺ کو آپ کے کمرے سے باہر دفن کرنے سے جس چیز نے صحابہ کو روکا وہ اسی بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ ﷺ کی قبر کو عبادت گاہ نہ بنالیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3330

 
 
Hadith   282   الحديث
الأهمية: اجتنبوا السبع الموبقات


Tema:

سات ہلاک کرنے والی چيزوں (گناہوں) سے بچو

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "اجتنبوا السبع المُوبِقَات، قالوا: يا رسول الله، وما هُنَّ؟ قال: الشركُ بالله، والسحرُ، وقَتْلُ النفسِ التي حَرَّمَ الله إلا بالحق، وأكلُ الرِّبا، وأكلُ مالِ اليتيم، والتَّوَلّي يومَ الزَّحْفِ، وقذفُ المحصناتِ الغَافِلات المؤمنات".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سات ہلاک کرنے والی چيزوں (گناہوں) سے بچو“۔ صحابۂ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کيا ہيں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، لڑائی کے موقع پر پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور بھولی بھالی پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أمته بالابتعاد عن سبع جرائم مهلكاتٍ، ولما سُئل عنها ما هي؟ بيّنها بأنها الشرك بالله، باتخاذ الأنداد له من أي شكل كانت، وبدأ بالشرك؛ لأنه أعظم الذنوب، وقتلِ النفس التي منع الله من قتلها إلا بمسوغٍ شرعي، والسحر، وتناول الربا بأكلٍ أو بغيره من وجوه الانتفاع، والتعدي على مال الطفل الذي مات أبوه، والفرار من المعركة مع الكفار، ورمي الحرائر العفيفات بالزنا.
606;بی كريم ﷺ اپنی امت کو سات مہلک جرائم سے دور رہنے کا حکم دے رہے ہیں۔ جب آپ ﷺ سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ وہ جرائم یہ ہیں: دوسروں کو کسی بھی انداز میں اللہ کا ہم سر بنا کر اس کے ساتھ شرک کرنا۔ آپ ﷺ نے شرک كا ذكر پہلے فرمايا کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ کسی ایسی جان کو قتل کرنا جس کے قتل کرنے سے اللہ نے منع کیا ہے بجز اس صورت کے جب ایسا کرنے کا کوئی شرعی وجہ جواز ہو۔ جادو کرنا، سود لینا چاہے اسے کھایا جائے یا کسی بھی اور انداز میں اس سے نفع اٹھایا جائے، جس بچے کا باپ وفات پا چکا ہو اس کے مال ميں ناحق تصرف کرنا، کفار کے ساتھ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور پاک دامن آزاد عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3331

 
 
Hadith   283   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا، وإذا أراد بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يوافى به يوم القيامة


Tema:

جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہ کی سزاد دینے سے رکا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دے گا۔

عن أنس -رضي الله عنه - أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا، وإذا أراد بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يُوَافِيَ به يومَ القيامة".

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہ کی سزاد دینے سے رُکا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن علامة إرادة الله الخيرَ بعبده معاجلته بالعقوبة على ذنوبه في الدنيا حتى يخرج منها وليس عليه ذنب يوافي به يوم القيامة؛ لأن من حوسب بعمله عاجلاً خفّ حسابه في الآجل، ومن علامة إرادة الشر بالعبد أن لا يجازى بذنوبه في الدنيا حتى يجيء يوم القيامة مستوفر الذنوب وافيها، فيجازى بما يستحقه يوم القيامة.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنے کی علامت یہ ہے کہ وہ اسے اس کے گناہوں پر دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے یہاں تک کہ وہ دنیا میں سے اس حال میں جاتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ ایسا نہیں ہوتا جس کا حساب روزِ قیامت چکایا جانا ہو کیونکہ جس شخص کا فوری حساب کر لیا جاتا ہے اس کا آخرت میں حساب ہلکا ہو جاتا ہے۔ اور بندے کے ساتھ شر کا معاملہ کرنے کی علامت یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں اس کے گناہوں کا بدلہ نہیں دیتا یہاں تک کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ گناہوں سے لدا پھندا آئے گا اور اس سے پورا پورا حساب لیا جائے اور جس بدلے کا وہ مستحق ہو گا وہ اسے ملے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3332

 
 
Hadith   284   الحديث
الأهمية: ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الشرك الخفي، يقوم الرجل فيصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل


Tema:

کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شرک خفی“ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی دوسرا اسے دیکھ رہا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "ألا أخبركم بما هو أَخْوَفُ عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الشرك الخفي يقوم الرجل فيصلي فَيُزَيِّنُ صلاته لما يرَى من نَظَرِ رَجُلٍ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شرک خفی“ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی دوسرا اسے دیکھ رہا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة يتذاكرون فتنةَ المسيح الدجال ويتخوفون منها، فأخبرهم -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن هناك محذوراً يخافه عليهم أشد من خوفِ فتنة الدجال وهو الشرك في النية والقصد الذي لا يظهر للناس، ثم فسَّره بتحسين العمل الذي يُبتغى به وجه الله من أجل رؤية الناس.
589;حابہ کرام باہم مسیح دجال کے فتنے کا ذکر کر رہے تھے اور اس سے خوف کا اظہار کر رہے۔ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ ایک ایسی ممنوعہ شے ہے جس کا آپ ﷺ کو ان کے سلسلے میں دجال کے فتنے سے بھی زیادہ ڈر ہے ، اور وہ ہے نیت اور ارادے میں شرک کا ارتکاب کرنا۔ جو لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے عمل کو جس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہو لوگوں کو دکھانے لیے خوب سنوار کر کیا جائے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3333

 
 
Hadith   285   الحديث
الأهمية: قول الله -تعالى-: فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ، قال ابن عباس في الآية: الأنداد: هو الشرك، أخفى من دببيب النمل على صفاة سوداء في ظلمة الليل


Tema:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل“ انداد: یہ ایسا شرک ہے جو کہ سیاہ چٹان پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔

قول الله -تعالى-: {فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}. قال ابن عباس في الآية: "الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل". وهو أن تقول: والله وحياتك يا فلان، وحياتي، وتقول: لولا كُلَيْبَةُ هذا لأتانا اللصوص، ولولا البط في الدار لأتانا اللصوص، وقول الرجل لصاحبه: ما شاء الله وشئت، وقول الرجل: لولا الله وفلان، لا تجعل فيها فلانا؛ هذا كله به شرك".

ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”الأنداد: هو الشرك، أخفى من دَبِيبِ النمل على صَفَاةٍ سوداء في ظلمة الليل“ انداد: یہ ایسا شرک ہے جو کہ سیاہ چٹان پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تو اس طرح کہے: اے فلاں !اللہ اور تیری جان کی قسم، یا میری جان کی قسم۔ یا تو اس طرح کہے: اگر یہ کتا نہ ہوتا تو چور آجاتے، اگر بطخ نہ ہوتی تو چور داخل ہو جاتے۔ اور اسی طرح آدمی کا کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ:جو اللہ چاہے اور تو چاہے۔ اور آدمی کا یہ کہنا:اگر اللہ اورفلاں نہ ہوتا۔اس میں فلاں کو شامل نہ کر، کیوں کہ یہ سب اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال الله -تبارك وتعالى-: {فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ}، فنهى الناس أن يتخذوا له أمثالًا ونظراء يصرفون لهم شيئًا من عبادته؛ وهم يعلمون أن الله وحده الخالق الرازق؛ وأن هذه الأنداد عاجزة فقيرة ليس لها من الأمر شيء، وعرف ابن عباس -رضي الله عنه- الأنداد بالشركاء، وذكر أمثلة لاتخاذها، وهو أخفى من خفاء أثر دبيب النمل على الحجر الأملس الأسود في ظلمة الليل، ثم ذكر أمثلة على ذلك: وهو أن تحلف بغير الله، وأعظم منها أن تساوي بها الله فتقول: والله وحياتي، أو أن تنظر إلى السبب دون المسبب، ولا ترجع الأمر لله، فتقول: لولا كلب هذا يحرسنا لأتانا اللصوص، أو أنه يقول: لولا البط في الدار ينبهنا لو دخل أحد غريب لأتى اللصوص، ومن الشرك: قول الرجل لصاحبه: ما شاء الله وشئت، وقول الرجل: لولا الله وفلان، لا تجعل فيها فلانا، ثم أكد على أن ذلك كله شرك أصغر، ولو اعتقد قائله أن الرجل أو البط أو الكلب هو المؤثر بذاته دون الله فهو شرك أكبر.
575;للہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:{فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} ”خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو“۔ لوگوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ کسی کو اللہ کے مثل یا نظیر بنائیں اور اس کے لیے کسی قسم کی عبادت بجا لائیں ۔ان کو اس بات کا علم ہے کہ اللہ وحدہ خالق و رازق ہے اور جتنے بھی اس کے شریک ہیں وہ سارے اس کے سامنے فقیر ہیں اوراس کے اختیارات میں سے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انداد کی تعریف شرکاء سےکی ہے۔ شرک کا شکار ہونے کی مثال یہ بیان کی ہے کہ :یہ سیاہ چٹیل پتھر (چٹان) پر سیاہ رات میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ پھراس کی یہ مثالیں پیش کیں کہ: تو غیر اللہ کی قسم اٹھائے،اوراس سے بھی بڑا شرک یہ ہے کہ تو کسی کو اللہ کے مساوی قرار دیتے ہوئے یہ کہے: اللہ کی قسم اور میری جان کی قسم، مسبب کو چھوڑ کر سبب کو ہی دیکھے، معاملے کو اللہ کی طرف نہ لوٹائے اور تو کہے: اگر یہ کتا ہماری رکھوالی نہ کرتا تو چور آجاتے۔ یا یہ کہے کہ: اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی جو ہمیں گھر میں کسی اجنبی کے داخل ہونے سے بیدار کرتی تو چور داخل ہوجاتے۔ اسی طرح یہ بھی شرک ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں یہ کہے: جو اللہ چاہے اور تو چاہے، اور آدمی کا یہ کہنا کہ: اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے تو اس میں فلاں کو شامل نہ کرو۔ پھر تاکید کے ساتھ یہ بات بتائی کہ یہ ساری کی ساری شرک اصغر کی صورتیں ہیں اور اگر کہنے والے کا یہ عقیدہ ہو کہ آدمی، بطخ اور کتا اللہ کو چھوڑ کر فی ذاتہ موثر ہیں تو یہ شرک اکبر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی حاتم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3334

 
 
Hadith   286   الحديث
الأهمية: اللهم لا تجعل قبري وثنا يُعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد


Tema:

اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی پوجا ہونے لگے۔ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نازل ہوا۔

عن عطاء بن يسار وأبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "اللهم لا تجعل قبري وثنا يُعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد".

عطاء بن یسار رحمہ اللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا جس کی پوجا ہونے لگے۔ جن لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نازل ہوا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خاف -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن يقع في أمته مع قبره ما وقع من اليهود والنصارى مع قبور أنبيائهم من الغلو فيها حتى صارت أوثاناً، فرغِب إلى ربه أن لا يجعل قبره كذلك، ثم نبّه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على سبب لحوق شدة الغضب واللعنة باليهود والنصارى، أنه ما فعلوا في حق قبور الأنبياء حتى صيّروها أوثاناً تعبد، فوقعوا في الشرك العظيم المضاد للتوحيد.
606;بی ﷺ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کی امت بھی آپ ﷺ کی قبر کے سلسلے میں وہی کچھ نہ کرنے لگیں جس طرح یہود و نصاری نے اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ کیا بایں طور کہ انہوں نے ان (کی تقدیس) میں غلو کیا اور وہ پوجا پاٹ کی جگہیں بن گئیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے رب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آپ ﷺ کی قبر کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے۔ پھر آپ ﷺ نے یہود و نصاریٰ پر سخت غضب اور لعنت ہونے کا سبب بیان کیا کہ ایسا اس وجہ سے ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو بت بنا لیا تھا جن کی وہ پوجا کرتے اور یوں وہ توحید کے بالکل برخلاف عظیم شرک میں مبتلا ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3336

 
 
Hadith   287   الحديث
الأهمية: إن الله زوى لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها، وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها، وأعطيت الكنْزين الأحمر والأبيض


Tema:

اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے۔

عن ثوبان -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "إن الله زَوَى لي الأرض، فرأيت مشارقها ومغاربها، وإن أمتي سيبلغ ملكُها ما زُوِيَ لي منها. وأعطيت الكنْزين الأحمر والأبيض. وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسَنَةٍ بعامةٍ، وأن لا يُسَلِّطَ عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ؛ وإن ربي قال: يا محمد، إذا قضيتُ قضاءً فإنه لا يُرَدُّ، وإني أعطيتك لأمتك أن لا أهلكهم بسنة عامة، وأن لا أُسَلِّطَ عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ولو اجتمع عليهم مَنْ بأقطارها، حتى يكون بعضُهم يُهْلِكُ بعضًا ويَسْبِي بعضُهم بعضًا".
ورواه البرقاني في صحيحه، وزاد: "وإنما أخاف على أمتي الأئمةَ المضلين، وإذا وقع عليهم السيف لم يرفع إلى يوم القيامة. ولا تقوم الساعة حتى يلحق حي من أمتي بالمشركين، وحتى تعبد فِئامٌ من أمتي الأوثان. وإنه سيكون في أمتي كذابون ثلاثون؛ كلهم يزعم أنه نبي، وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي. ولا تزال طائفة من أمتي على الحق منصورة لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله تبارك وتعالى".

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری امت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی۔اور مجھے سرخ اورسفید دو خزانے عطا کئے گئے اورمیں نے اپنے رب سےاپنی امت کے لیے دعا مانگی کہ وہ انہیں عمومی قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور اپنےعلاوہ ان پر کوئی ایسا دشمن بھی مسلط نہ کرے جو ان سب کی جانوں کی ہلاکت کو مباح سمجھے۔ میرے رب نے فرمایا:اے محمد! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہوں تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا اور بے شک میں نے آپ کی امت کے لیے فیصلہ کرلیا ہے کہ انہیں عام قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ ان پر ایسا کوئی دشمن مسلط کروں گا جوان سب کی جانوں کو مباح وجائز سمجھ کر انہیں ہلاک کر دے اگرچہ ان کے خلاف زمین کے چاروں اطراف سے ہی لوگ جمع کیوں نہ ہو جائیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو خود ہی قیدی بنائیں گے۔
امام برقانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ (حکمران، علماء اور پیشواؤں) کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑے گی تو قیامت تک نہیں رکے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ میری اُمت کا ایک قبیلہ مشرکین کے ساتھ نہ مل جائے اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ گروہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب اٹھیں گے جن میں سے ہرایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آن پہنچے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا حديثٌ جليلٌ يشتمل على أمور مهمة وأخبار صادقة، يخبر فيها الصادق المصدوق -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن الله سبحانه جمع له الأرض حتى أبصر ما تملكه أمته من أقصى المشارق والمغارب، وهذا خبرٌ وُجد مخبره، فقد اتسع ملك أمته حتى بلغ من أقصى المغرب إلى أقصى المشرق، وأخبر أنه أُعطي الكنزين فوقع كما أخبر، فقد حازت أمته ملكي كسرى وقيصر بما فيهما من الذهب والفضة والجوهر، وأخبر أنه سأل ربه لأمته أن لا يهلكهم بجدبٍ عامٍّ ولا يسلط عليهم عدواً من الكفار يستولي على بلادهم ويستأصل جماعتهم، وأن الله أعطاه المسألة الأولى، وأعطاه المسألة الثانية ما دامت الأمة متجنبة للاختلاف والتفرق والتناحر فيما بينها، فإذا وُجد ذلك سلط عليهم عدوهم من الكفار، وقد وقع كما أخبر حينما تفرقت الأمة.
وتخوّف -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على أمته خطر الأمراء والعلماء الضالين المضلين؛ لأن الناس يقتدون بهم في ضلالهم. وأخبر أنها إذا وقعت الفتنة والقتال في الأمة فإن ذلك يستمر فيها إلى يوم القيامة وقد وقع كما أخبر، فمنذ حدثتِ الفتنة بمقتل عثمان رضي الله عنه وهي مستمرة إلى اليوم.
وأخبر أن بعض أمته يلحقون بأهل الشرك في الدار والديانة. وأن جماعاتٍ من الأمة ينتقلون إلى الشرك وقد وقع كما أخبر، فعُبدت القبور والأشجار والأحجار.
وأخبر عن ظهور المدّعين للنبوة -وأن كل من ادعاها فهو كاذب؛ لأنها انتهت ببعثته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وبشّر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ببقاء طائفة من أمته على الإسلام رغمَ وقوع هذه الكوارث والويلات، وأن هذه الطائفة مع قِلّتها لا تتضرر بكيد أعدائها ومخالفيها.
740;ہ ایک بہت جلیل القدر حدیث ہے جس میں بہت سے اہم امور اور سچی خبریں ہیں۔ نبی صادق و مصدوق ﷺ اس حدیث میں خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے ساری زمین کو سمیٹ دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مشرق بعید سے لے کر مغرب بعید تک وہ سارا علاقہ دیکھ لیا جو آپ ﷺ کی امت کی ملکیت میں آئے گا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جس کا مصداق وجود میں آ چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کا دائرہ اقتدار اتنا وسیع ہوا کہ وہ مغرب بعید سے لے کر مشرق بعید تک پھیل گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو دو خزانے دیے گئے۔ آپ ﷺ نے جیسے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ کی امت کو کسری و قیصر کی سلطنت پر غلبہ حاصل ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ سونا و چاندی اور جواہرات بھی ان کے ہاتھ آئے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنے رب سے اپنی امت کے حق میں دعا کی کہ وہ انہیں کسی عمومی قحط سے ہلاک نہ کرے اور یہ کہ کفار میں سے ان پر کوئی ایسا دشمن نہ مسلط کر دے جو ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ان کی پہلی دعا قبول کر لی اور دوسری بھی جب تک کہ امت اختلافات و تفرقہ اور باہمی لڑائے جھگڑے سے پرہیز کرتی رہے گی۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگ جائے گا تو پھر اللہ ان پر کفار میں سے دشمن کو مسلط کر دے۔ جب امت تفرقے کا شکار ہو گئی تو یہ سب کچھ بھی واقع ہو گیا۔
آپ ﷺ نے امت کے سلسلے میں حکام اور خود گمراہ اور گمراہ کن علما کے خوف کا اظہار کیا۔ کیونکہ لوگ بھی ان کے گمراہی میں ان کی اقتدا کریں گے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ جب امت میں فتنہ اور قتل و غارت گری کا آغاز ہو جائے گا تو پھر یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ سب کچھ ویسے ہی ہو چکا ہے جیسے آپ ﷺ نے خبر دی۔ جب سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے فتنہ پیدا ہوا ہے تب سے لے کر آج تک ویسے ہی جاری ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ ﷺ کی امت کے بعض لوگ مشرکین کے علاقوں میں چل جائیں گے اور ان کا دین اختیار کر لیں گے اورامت کے کچھ گروہ شرک کی طرف راغب ہو جائیں گی۔ یہ سب کچھ جیسے آپ ﷺ نے بتایا ویسے ہو چکا ہے۔ چنانچہ قبروں، درختوں اور پتھروں ساری چیزوں کی پوجا کی گئی۔
آپ ﷺ نے نبوت کے دعوے دار ظاہر ہونے کے خبر دی اور فرمایا کہ جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا کیونکہ آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ آپ ﷺ نے خوشخبری دی کہ آپ ﷺ کی امت میں سے ایک گروہ اسلام پر قائم رہے گا حالانکہ بہت المناک واقعات اور مصائب کا ظہور ہو گا اور یہ کہ یہ گروہ باوجود اپنی قلت کے اپنے دشمنوں اور مخالفین سے بالکل بھی زک نہیں اٹھائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3337

 
 
Hadith   288   الحديث
الأهمية: إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله -تعالى- إذا أحب قوما ابتلاهم؛ فمن رضي فله الرضى، ومن سخط فله السخط


Tema:

آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اس کو آزمائش سے دوچار فرماتا ہے۔ پس جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "إن عِظَمَ الجزاءِ مع عِظَمِ البلاءِ، وإن الله -تعالى- إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رَضِيَ فله الرِضا، ومن سَخِطَ فله السُّخْطُ".

انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اس کو آزمائش سے دوچار کرتا ہے۔ پس جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن المؤمن قد يحل به شيء من المصائب في نفسه أو ماله أو غير ذلك، وأن الله سيثيبه على تلك المصائب إذا هو صبر، وأنه كلما عظمت المصيبة وعظم خطرها عظم ثوابها من الله، ثم يبين -صلى الله عليه وسلم- بأن المصائب من علامات حب الله للمؤمن، وأن قضاء الله وقدره نافذان لا محالة، ولكن من صبر ورضي، فإن الله سيثيبه على ذلك برضاه عنه وكفى به ثوابا، وأن من سخط وكره قضاء الله وقدره، فإن الله يسخط عليه وكفى به عقوبة.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ مومن کو اس کے جان و مال وغیرہ میں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ صبر کرے گا تو اللہ ان مصائب پر اسے ثواب دے گا اور یہ کہ مصیبت جتنی بڑی اور خطرناک ہوتی ہے اس پر اللہ کی طرف سے اتنا ہی بڑا ثواب ملتا ہے۔ پھر نبی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ مصائب کا آنا اللہ تعالیٰ کی مومن کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور یہ کہ جو اللہ کی قضا و قدر میں لکھا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہنا ہے لیکن جو شخص صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے اسے اللہ تعالی اپنی رضا کے ساتھ نوازے گا اور اسے ثواب دے گا اور جو برہم ہوتا ہے اور اللہ کی قضا و قدر کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس پر برہم ہوتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3339

 
 
Hadith   289   الحديث
الأهمية: مثل القائم في حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة فصار بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم


Tema:

اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگ کشتی کے اوپر والے حصے میں اور بعض نیچے والے حصے میں آ گئے۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «مَثَلُ القَائِم في حُدُود الله والوَاقِعِ فيها كمَثَل قَوم اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَة فصارَ بعضُهم أَعلاهَا وبعضُهم أسفَلَها، وكان الذين في أسفَلِها إِذَا اسْتَقَوا مِنَ الماءِ مَرُّوا على من فَوقهِم، فَقَالُوا: لَو أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقاً وَلَم نُؤذِ مَنْ فَوقَنَا، فَإِنْ تَرَكُوهُم وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعاً، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيدِيهِم نَجَوا وَنَجَوا جَمِيعاً».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگ کشتی کے اوپر والے حصے میں اور بعض نیچے والے حصے میں آ گئے۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں (اور انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے) تو یہ خود بھی بچ جائیں گے اور باقی لوگ بھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث النعمان بن بشير الأنصاري -رضي الله عنهما- في باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "مثل القائم في حدود الله والواقع فيها" القائم فيها يعني الذي استقام على دين الله فقام بالواجب، وترك المحرم، والواقع فيها أي: في حدود الله، أي: الفاعل للمحرم، أو التارك للواجب.
"كمثل قوم استهموا على سفينة" يعني ضربوا سهما، وهو ما يسمى بالقرعة، أيهم يكون الأعلى؟.
"فصار بعضهم أعلاها، وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا الماء"، يعني إذا طلبوا الماء؛ ليشربوا منه "مروا على من فوقهم"، يعني الذين في أعلاها؛ لأن الماء لا يقدر عليه إلا من فوق.
"فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا"، يعني لو نخرق خرقا في مكاننا نستقي منه، حتى لا نؤذي من فوقنا، هكذا قدروا وأرادوا وتمنوا.
قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "فإن تركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا"؛ لأنهم إذا خرقوا خرقا في أسفل السفينة دخل الماء، ثم أغرق السفينة كلها.
"وإن أخذوا على أيديهم" ومنعوهم من ذلك "نجوا ونجوا جميعا"، يعني نجا هؤلاء وهؤلاء.
وهذا المثل الذي ضربه النبي -صلى الله عليه وسلم- هو من الأمثال التي لها مغزى عظيم ومعنى عال، فالناس في دين الله كالذين في سفينة في لجة النهر، فهم تتقاذفهم الأمواج، ولابد أن يكون بعضهم إذا كانوا  كثيرين في الأسفل وبعضهم في أعلى، حتى تتوازن حمولة السفينة وقد لا يضيق بعضهم بعضا، وفيه أن هذه السفينة المشتركة بين هؤلاء القوم إذا أراد أحد منهم أن يخربها فإنه لابد أن يمسكوا على يديه، وأن يأخذوا على يديه؛ لينجوا جميعا، فإن لم يفعلوا هلكوا جميعا، هكذا دين الله، إذا أخذ العقلاء وأهل العلم والدين على الجهال والسفهاء نجوا جميعا، وإن تركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا، كما قال الله -تعالى-: (واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة واعلموا أن الله شديد العقاب).
606;عمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب سے متعلق ہے۔ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
”مثل القائم في حدود الله والواقع فيها“: یعنی جو اللہ کے دین پر ثابت قدم رہا، واجبات کی ادائیگی کرتا رہا اور حرام کردہ اشیاء سے بچتا رہا اور وہ جو حدود میں جا پڑنے والا ہے یعنی حرام کا ارتکاب کرنے والا اور واجبات کو ترک کرنے والا ہے۔
”كمثل قوم استهموا على سفينة“: اس کی مثال ان لوگوں کی طرح جنہوں نے تیر پھینکے یعنی جنہوں نے اس سلسلے میں قرعہ اندازی کی کہ کون اوپر والے حصے میں رہے گا؟۔
”فصار بعضهم أعلاها، وبعضهم أسفلها، وكان الذين في أسفلها إذا استقوا الماء“: یعنی جب انہیں پینے کے لیے پانی کی طلب ہوتی تو وہ اپنے اوپر والوں کے پاس سے گزرتے کیونکہ اوپر والی منزل سے ہی (ڈول لٹکا کر) پانی نکالا جا سکتا ہے۔
”فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا“: یعنی اگر ہم اپنی جگہ پر پانی نکالنے کے لیے ایک سوراخ کرلیں تو یہ بہتر ہو گا تاکہ ہم اپنے اوپر والے لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ وہ یہ فیصلہ کرلیں اور ایسا کرنے کا ارادہ اور خواہش رکھیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا ”اگر اوپر والے انہیں ویسا کرنے دیں گے جسا کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے“۔ کیونکہ جب وہ نچلے حصے میں سوراخ کریں گے تو اس میں سے پانی اندر آ جائے گا جو پورے جہاز کو غرق کر دے گا۔
”اگر وہ ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں گے“ اور انہیں روک دیں گے تو یہ بھی بچ جائیں گے اور وہ بھی۔
یہ ایک مثال ہے جو نبی ﷺ نے دی۔ یہ ایسی مثال ہے جو اپنے لب لباب کے لحاظ سے عظیم اور معنوی اعتبار سے بہت بلند ہے۔ لوگ اللہ کے دین میں ایسے ہی ہیں جیسے دریا کے طلاطم میں جہاز ہوتا ہے۔ اس پر سوار لوگوں کو موجیں ادھر ادھر پھینکتی ہیں۔ جب لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو کچھ اوپری حصے پر چلے جاتے ہیں اور کیچھ نیچے والے میں تاکہ جہاز کا توازن قائم رہے اور وہ ایک دوسرے سے وہ تنگی محسوس نہ کریں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ یہ کشتی سب کی مشترک ہے۔ اگر ان میں سے کوئی اسے خراب کرنے کا ارادہ کرے تو دوسروں پر لازم ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیں تاکہ سب نجات پا جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اللہ کا دین بھی ایسے ہی ہے۔ جب عقل مند لوگ، اہل علم اور دین دار حضرات جاہلوں اور بے وقوفوں کو روک لیں گے تو سب کی خلاصی ہو جائے گی اور اگر انہیں بنا روکے چھوڑ دیں گے اور انہیں جو وہ کرنا چاہتے ہوں گے کرنے دیں گے تو سب ہلاک ہو جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (لأنفال: 25)۔
ترجمہ: "اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے/۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3341

 
 
Hadith   290   الحديث
الأهمية: أنا أغنى الشركاء عن الشرك؛ من عمل عملا أشرك معي فيه غيري تركته وشركه


Tema:

میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ کوئی شخص جب كوئی عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرتا ہے تو میں اسے اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعا: "قال -تعالى-: أنا أغنى الشركاء عن الشرك؛ من عمل عملا أشرك معي فيه غيري تركتُه وشِرْكَه".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمام شرکاء کی بنسبت شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ کوئی شخص جب كوئی عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرتا ہے تو میں اسے اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يروي النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن ربه عز وجل -ويسمَّى بالحديث القدسي- أنه يتبرأ من العمل الذي دخله مشاركةٌ لأحد برياءٍ أو غيره؛ لأنه سبحانه لا يقبل إلا ما كان خالصاً لوجهه.
606;بی ﷺ اللہ عز و جل کے ارشاد کو بیان کر رہے ہیں جسے حدیث قدسی کہا جاتا ہے کہ اللہ ہر اس عمل سے براءت کا اظہار کرتا جس میں ریاکاری یا کسی اور صورت میں شرک پایا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو خالصتا اس کی رضا کے لیے کیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3342

 
 
Hadith   291   الحديث
الأهمية: حدثوا الناس بما يعرفون، أتريدون أن يُكذَّب اللهُ ورسولهُ


Tema:

لوگوں سے ایسی بات کرو جنہیں وہ جانتے ہوں، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیا جائے؟

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: "حدثوا الناس بما يعرفون، أتريدون أن يُكذَّب اللهُ ورسولهُ؟".

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”لوگوں سے ایسی بات کرو جنہیں وہ جانتے ہوں، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیا جائے؟“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- إلى أنه لا ينبغي أن يحدث عامة الناس إلا بما هو معروف ينفع الناس في أصل دينهم وأحكامه من التوحيد وبيان الحلال والحرام ويُترك ما يشغل عن ذلك؛ مما لا حاجة إليه أو كان مما قد يؤدي إلى رد الحق وعدم قبوله مما يشتبه عليهم فهمه، ويصعب عليهم إدراكه.
575;میر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رہنمائی فرما رہے ہیں کہ عام لوگوں سے وہی باتیں کرنی چاہئے جو ان کے ہاں معروف ہوں اور جو انہیں ان کے دین کے سلسلے میں فائدہ دیں جیسے توحید اورحلال و حرام کی وضاحت اور جو باتیں ان سے دور رکھنے والی ہوں اور جن کی ضرورت نہ ہو یا پھر وہ باتیں جو حق کو جھٹلانے اور اس کے قبول نہ کرنے کا باعث ہوں اور جن کو سمجھنا ان کے لیے مشتبہ اور جن کا ادراک کرنا ان کے لیے مشکل ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3344

 
 
Hadith   292   الحديث
الأهمية: يا فلان، ما لك؟ ألم تك تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ فيقول: بلى، كنت آمر بالمعروف ولا آتيه، وأنهى عن المنكر وآتيه


Tema:

اے فلاں ! تجھے کیا ہوگیا؟ کیا تو نیکی کا حکم اور برائی سے رُکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور گناہوں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رُکتا تھا۔

عن أسامة بن زيد بن حارثة -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «يُؤتَى بِالرَّجُل يَومَ القِيَامَة فَيُلْقَى في النَّار، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَاب بَطْنِه فَيدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الحِمَارُ فِي الرَّحَى، فَيَجْتَمِع إِلَيه أَهلُ النَّارِ، فَيَقُولُون: يَا فُلاَنُ، مَا لَكَ؟ أَلَم تَكُ تَأمُرُ بِالمَعرُوف وَتَنْهَى عَن المُنْكَر؟ فيقول: بَلَى، كُنتُ آمُرُ بِالمَعرُوف وَلاَ آتِيهِ، وَأَنهَى عَن المُنكَر وَآتِيهِ».

اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کرجہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دیکھ کر جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھے کیا ہوگیا؟ کیا تو نیکی کا حکم اور برائی سے رُکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور گناہوں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رُکتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه التحذير الشديد من الرجل الذي يأمر بالمعروف ولا يأتيه، وينهى عن المنكر ويأتيه، والعياذ بالله.   تأتي الملائكة برجل يوم القيامة فيلقى في النار إلقاء، لا يدخلها برفق، ولكنه يلقى فيها كما يلقى الحجر في البحر، فتخرج أمعاؤه من بطنه من شدة الإلقاء، فيدور بأمعائه  كما يدور الحمار في الطاحون، فيجتمع إليه أهل النار، فيقولون له: ما لك؟ أي شيء جاء بك إلى هنا، وأنت تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ فيقول مُقِرًّا على نفسه: كنت آمر بالمعروف ولا أفعله، وأنهى عن المنكر وأفعله، فالواجب على المرء أن يبدأ بنفسه فيأمرها بالمعروف وينهاها عن المنكر؛ لأن أعظم الناس حقا عليك بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نفسك.
581;دیث شریف میں اس آدمی کے لیے سخت ڈراوا ہے جو اچھے کام کی دوسروں کو تو تلقین تو کرتا ہے لیکن خود اسے نہیں کرتا، اسی طرح لوگوں کو برائیوں سے منع کرتا ہے اور خود ان کا ارتکاب کرتا ہے۔ (العیاذ باللہ)
قیامت کے دن فرشتے ایک آدمی کو لے کر آئیں گے اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اسے آہستہ سے جہنم میں نہیں پھینکا جائے گا بلکہ ایسے پھینکا جائے گا جیسے پتھر کو سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ سختی کے ساتھ پھینکنے کی وجہ سے اس کی آنتیں اس کے پیٹ سے باہر آ جائیں اور وہ ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی میں گھومتا ہے۔ جہنم والے اس کے پاس اکٹھے ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ تجھے کیا ہوا؟ تجھے یہاں کون سی شے لے آئی؟ تو تو اچھائی کی تلقین کیا کرتا تھا اور برائی سے روکا کرتا تھا؟ وہ اقرار کرتا ہوا کہے گا کہ ہاں میں نیکی کی تلقین تو کیا کرتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں برائی سے منع کیا کرتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ چنانچہ بندے پر یہ واجب ہے کہ وہ نیکی کی تلقین اور برائی سے منع کرنے کا آغاز خود اپنے آپ سے کرے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے حق کے بعد سب سے زیادہ حق آپ پر اپنے آپ کا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3345

 
 
Hadith   293   الحديث
الأهمية: لا تتخذوا قبري عيدا، ولا بيوتكم قبورا، وصلوا علي، فإن تسليمكم يبلغني أين كنتم


Tema:

میری قبر کو عید ( میلا) نہ بنا لینا اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بننا۔ مجھ پر درود وسلام بھیجا کرو۔ کیوں کہ تمھارا بھیجا گیا سلام مجھ تک پہنچتا ہے چاہے، تم جہاں بھی ہو۔

عن علي بن الحسين: "أنه رأى رجلا يجيء إلى فُرْجَةٍ كانت عند قبر النبي -صلى الله عليه وسلم- فيدخل فيها فيدعو، فنهاه، وقال: ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي عن جدي عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:« لا تتخذوا قبري عيدا، ولا بيوتكم قبورا، وصلوا علي، فإن تسليمكم يبلغني أين كنتم».

علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا، جو نبی ﷺ کی قبر کے پاس موجود ایک شگاف میں سے اندر داخل ہوتا اور پھر دعا مانگا کرتا۔ انھوں نے اسے کہا: کیا میں تمھیں ایک ایسی حدیث نہ سناؤں، جو میں نے اپنے ابا سے اور انھوں نے میرے دادا سے سنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری قبر کو عید ( میلا) نہ بنا لینا اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بننا۔ مجھ پر درود وسلام بھیجا کرو۔ کیوں کہ تمھارا بھیجا گیا سلام مجھ تک پہنچتا ہے چاہے، تم جہاں بھی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا علي بن الحسين -رضي الله عنه- بأنه رأى رجلا يدعو الله سبحانه عند قبر النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأنه نهاه عن ذلك مستدلا بحديث النبي -صلى الله عليه وسلم- الذي ورد فيه النهي عن اعتياد قبره للزيارة، والنهي عن تعطيل البيوت من عبادة الله وذكره، وتشبيهها بالمقابر مخبرا أن سلام المسلم سيبلغه -صلى الله عليه وسلم- في أي مكان كان فيه المسلّم.
593;لی بن الحسین (رحمہ اللہ) بتا رہے ہیں کہ انھوں نے ایک شخص کو نبی ﷺ کی قبرمبارک کے پاس کھڑے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ انھوں نے اس حدیث نبوی ﷺ کی بنیاد پر اسے ایسا کرنے سے منع فرمایا، جس میں آپ ﷺ کی قبر پر بار بار آنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس حدیث میں گھروں کو اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے تہی کرنے سے بھی منع فرمایا گیا اور ایسے گھروں کو قبروں سے تشبیہہ دی گئی اور یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان کی طرف سے کیا گیا سلام آپ ﷺ تک پہنچتا ہے، چاہے وہ جس جگہ پربھی ہو۔   --  [یہ حدیث اپنی دیگر اسانید اور شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3346

 
 
Hadith   294   الحديث
الأهمية: إني أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل، فإن الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا


Tema:

میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا، تو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بناتا۔

عن جندب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- قبل أن يموت بخمس، وهو يقول: «إني أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل، فإن الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد، فإني أنهاكم عن ذلك».

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وفات سے پانچ دن قبل فرماتے ہوئے سنا: ”میں اللہ تعالی کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا، تو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بناتا۔ خبردار! بے شک تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ لہذا خبردارتم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يتحدث -صَلّى اللَّه عَلَيْهِ وَسلّمَ- قبيل وفاته إلى أمته بحديث مهمّ، فيخبر عن مكانته عند الله، وأنها بلغت أعلى درجات المحبة، كما نالها إبراهيم -عليه السلام-، ولذلك نفى أن يكون له خليلٌ غير الله؛ لأن قلبه امتلأ من محبته وتعظيمه ومعرفته، فلا يتسع لأحد، والخلة في قلب المخلوق لا تكون إلا لواحد، ولو كان له خليلٌ من الخلق لكان أبا بكر الصديق -رضي الله عنه-، وهو إشارةٌ إلى فضل أبي بكر واستخلافه من بعده، ثم أخبر عن غلو اليهود والنصارى في قبور أنبيائهم حتى صيّروها متعبدات شركية، ونهى أمته أن يفعلوا مثل فعلهم، والنصارى ليس لهم إلا نبي واحد وهو عيسى، لكنهم يعتقدون أن له قبرًا في الأرض، والجمع باعتبار المجموع، والصحيح أن عيسى -عليه السلام- رفع ولم يصلب ولم يدفن.
606;بی ﷺ اپنی وفات سے کچھ قبل اپنی امت سے ایک بہت اہم بات ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مقام کو بیان کر رہے ہیں کہ وہ محبت کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں، جیسا کہ یہ درجہ ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا آپ ﷺ کا کوئی خلیل نہیں ہے؛ کیوں کہ آپ ﷺ کا دل اللہ کی محبت و عظمت اور اس کی معرفت سے لبریز ہے اور اس میں کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ مخلوق کے دل میں دوستی (الخلة) صرف ایک ہی کے لیے ہوا کرتی ہے۔ اگر مخلوق میں سے کوئی آپ ﷺ کا خلیل ہوتا، تو وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔ اس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضلیت اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے خلیفہ ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے غلو کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو شرکیہ عبادت گاہیں بنا لیں۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو ان کی طرح کرنے سے منع فرمایا۔ عیسائیوں کا نبی تو ایک ہی ہے، یعنی عیسی علیہ السلام، تاہم وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی قبر زمین پر ہے۔ یہاں 'انبیاء' کا جو جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، وہ یہود و نصاری کے مجموعہ کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ صحیح بات تو یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا گیا ہے وہ نہ تو سولی چڑھے تھے اور نہ ہی کہیں مدفون ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3347

 
 
Hadith   295   الحديث
الأهمية: كنت رجلا مذَّاءً، فاستحييت أن أسأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لمكان ابنته مني، فأمرت المقداد بن الأسود فسأله، فقال: يغسل ذكره، ويتوضأ


Tema:

مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے ساتھ میرا جو رشتہ تھا اس کی بنا پر مجھے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھنے میں شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنا آلہ تناسل کو دھو کر وضوء کر لیا کرے“۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: ((كُنتُ رَجُلاً مَذَّاءً, فَاسْتَحْيَيتُ أَن أَسأَل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لِمَكَان ابنَتِهِ مِنِّي, فَأَمرت المِقدَاد بن الأسود فَسَأَله, فقال: يَغْسِل ذَكَرَه, ويَتَوَضَّأ)).
وللبخاري: ((اغسل ذَكَرَك وتوَضَّأ)).
 ولمسلم: ((تَوَضَّأ وانْضَح فَرْجَك)).

علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے ساتھ میرا جو رشتہ تھا، اس کی بنا پر مجھے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھنے میں شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے آلۂ تناسل کو دھو کر وضو کر لیا کرے“۔
صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: ”اپنا آلۂ تناسل دھو کر وضو کر لیا کرو“۔
اور صحیح مسلم میں ہے: ”وضو کر لیا کرو اور اپنی شرم گاہ پر پانی چھڑک لیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول علي -رضي الله عنه-: كنت رجلًا كثير المذْيِ، وكنت أغتسل منه حتى شق عليَّ الغُسل؛ لأني ظننت حكمه حكم المني، فأردت أن أتأكد من حكمه، وأردت أن أسأل النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولكن لكون هذه المسألة تتعلق بالفروج، وابنته تحتي، استحييت من سؤاله، فأمرتُ المقداد -رضي الله عنه- أن يسأله، فسأله فقال: إذا خرج منه المذي فليغسل ذَكَرَهُ حتى يتقلص الخارج الناشئ من الحرارة، ويتوضأ لكونه خارجًا من أحد السبيلين، والخارج من أحدهما من نواقض الوضوء، فيكون -صلى الله عليه وسلم- قد أرشد السائل بهذا الجواب إلى أمر شرعي وأمر طبي.
593;لی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ مذی آتی تھی اور میں اس کے آنے پر غسل کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ غسل کرنا میرے لیے بہت دشوار ہو گیا؛ کیوںکہ میرے خیال میں اس کا بھی وہی حکم تھا، جو منی کا ہوتا ہے۔ میں نے اس کے حکم کے بارے میں یقین کرنا چاہا اور ارادہ کیا کہ نبی ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھوں۔ چوںکہ اس مسئلے کا تعلق شرم گاہ سے تھا اور آپ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں تھیں، اس لیے مجھے یہ سوال پوچھتے ہوئے شرم محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے جب آپ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب اس کی مذی نکلا کرے، تو وہ اپنے آلۂ تناسل کو دھو لیا کرے؛ تا کہ گرمی کی وجہ سے نکلنے والا یہ مادہ پانی کے چھڑکاؤ سے ختم ہوجائے۔ پھر وہ وضو کر لے؛ کیوںکہ یہ دونوں راستوں میں سے ایک سے نکلتی ہے اور جو شے ان میں سے کسی ایک سے نکلے، وہ نواقضِ وضو میں سے شمار ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے اس جواب کے ذریعے سوال پوچھنے والے کی ایک شرعی اور ایک طبی امر کی طرف راہ نمائی فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3348

 
 
Hadith   296   الحديث
الأهمية: لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا عليّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم


Tema:

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔ مجھ پر درود بھیجو۔ تمہارا بھیجا گیا درود مجھ تک پہنچتا ہے چاہے تم جہاں بھی ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا عليّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔ مجھ پر درود بھیجو۔ تمہارا بھیجا گیا درود مجھ تک پہنچتا ہے چاہے تم جہاں بھی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن إخلاء البيوت من صلاة النافلة فيها والدعاء وقراءة القرآن فتكون بمنزلة القبور؛ لأن النهي عن الصلاة عند القبور قد تقرر عندهم فنهاهم أن يجعلوا بيوتهم كذلك، ونهى عن تكرار زيارة قبره والاجتماع عنده على وجهٍ معتاد؛ لأن ذلك وسيلةٌ إلى الشرك، وأمر بالاكتفاء عن ذلك بكثرة الصلاة والسلام عليه في أي مكان من الأرض؛ لأن ذلك يبلغه من القريب والبعيد على حدّ سواء، فلا حاجة إلى التردد إلى قبره.
606;بی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ گھروں کو نفل نمازوں، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت سے خالی رکھا جائے اور اس طرح سے یہ گویا قبریں بن جائیں کیونکہ صحابہ کرام کو یہ تو معلوم تھا کہ قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ اپنے گھروں کو ہی ایسا بنا دیں جیسے قبریں ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی قبر مبارک کی بار بار زیارت اور اس پر جمع ہونے کو معمول بنا لینے سے منع فرمایا کیونکہ یہ شرک تک لے جانے کا ایک سبب ہے اور حکم فرمایا کہ آپ ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود و سلام بھیجنے پر اکتفاء کیا جائے چاہے وہ زمین کے کسی بھی گوشے سے ہو۔ کیونکہ آپ ﷺ تک یہ درود قریب و بعید ہر شخص کی طرف سے برابر طور پر پہنچتا ہے لہذا آپ ﷺ کی قبر پر بار بار آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3350

 
 
Hadith   297   الحديث
الأهمية: يا رسول الله, إن الله لا يستحيي من الحق، فهل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: نعم, إذا رأت الماء


Tema:

یا رسول اللہ! اللہ تعالی حق کو بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا۔ آپ یہ بتائیں کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہے؟۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جب وہ پانی دیکھ لے۔

عن أم سلمة -رضي الله عنها- قالت: «جاءت أمُّ سُلَيمٍ امرأةُ أَبِي طَلحة إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقالت: يا رسول الله, إنَّ الله لا يَسْتَحيِي من الحَقِّ, فهل على المرأة من غُسْلٍ إِذَا هِيَ احْتَلَمَت؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: نعم, إِذَا رَأَت المَاء».

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو طلحہ کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: یا رسول اللہ! اللہ تعالی حق کو بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا۔ آپ یہ بتائیں کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے، تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہے؟۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، جب وہ پانی دیکھ لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاءت أم سليم الأنصارية -رضي الله عنها- إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- لتسأله، ولما كان سؤالها مما يتعلق بالفروج، وهي مما يستحيا من ذكره عادة قدمت بين يدي سؤالها تمهيداً لإلقاء سؤالها؛ حتى يخف موقعه على السامعين.
 فقالت: إن الله -عز وجل- وهو الحق، لا يمتنع من ذكر الحق الذي يستحيا من ذِكره من أجل الحياء، مادام في ذكره فائدة، فلما ذكرت أم سليم هذه المقدمة التي لطفت بها سؤالها، دخلت في صميم الموضوع، فقالت: هل على المرأة غسل إذا هي تخيلت في المنام أنها تجامع؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: نعم، عليها الغسل، إذا هي رأت نزول ماء الشهوة.
575;م سلیم انصاریہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے آئیں۔ چونکہ ان کے سوال کا تعلق شرم گاہوں سے تھا جن کے ذکر سے عموما حیاء محسوس کی جاتی ہے اس لئے انہوں نے اپنا سوال رکھنے سے پہلے تمہید باندھی تاکہ سننے والوں پر اس کا اثر کچھ کم ہو جائے۔
کہنے لگیں کہ اللہ عز و جل جو بذات خود حق ہیں، ایسی حق بات کے بیان سے نہیں رکتا جسے ذکر کرنے میں حیاء محسوس کی جاتی ہے جب کہ اس کے بیان میں کوئی فائدہ ہو۔ اس مقدمہ کو ذکر کرنے کے بعد جس سے ان کے سوال کی شدت کم ہو گئی، ام سلیم رضی اللہ عنہا اصل موضوع کی طرف آئیں اور پوچھنے لگیں: اگر عورت خواب میں دیکھے کہ وہ مجامعت کر رہی ہے تو کیا اس پر غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس پر غسل واجب ہو جاتا ہےجب کہ وہ شہوت سے نکلنے والے پانی (مادہ منویہ) کو دیکھ لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3351

 
 
Hadith   298   الحديث
الأهمية: لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان


Tema:

اس طرح مت کہو کہ: جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں چاہے۔

عن حذيفة بن اليمان - رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس طرح مت کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور پھر جو فلاں چاہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهى - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن يُعطف اسم المخلوق على اسم الخالق بالواو بعد ذكر المشيئة ونحوها؛ لأن المعطوف بها يكون مساوياً للمعطوف عليه؛ لكونها إنما وُضعت لمطلق الجمع فلا تقتضي ترتيباً ولا تعقيباً؛ وتسوية المخلوق بالخالق شركٌ، ويُجوِّز -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عطف المخلوق على الخالق بثُمّ؛ لأن المعطوف بها يكون متراخياً عن المعطوف عليه بمهلة فلا محذور؛ لكونه صار تابعاً.
606;بی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مشیئت وغیرہ جیسے افعال کے ذکر کے بعد مخلوق کے نام کا عطف خالق کے نام پر حرف "و" کے ساتھ کیا جائے اس لیے کہ واؤ کے ساتھ کیا گیا معطوف، معطوف علیہ کے مساوی ہوتا ہے کیونکہ واؤ کی وضع مطلق جمع کے لیے ہے اور یہ ترتیب و تعقیب کا تقاضا نہیں کرتا اور مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرانا شرک ہے۔ تاہم نبی ﷺ نے مخلوق کے نام کا خالق کے نام پر "ثم" کے ذریعے عطف کرنے کو جائز قرار دیا کیونکہ "ثم" کے ساتھ کیا گیا معطوف، معطوف علیہ سے کچھ مؤخر ہوتا ہے چنانچہ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں یہ تابع ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3352

 
 
Hadith   299   الحديث
الأهمية: لأن أحلف بالله كاذبًا أحب إليَّ من أن أحلف بغيره صادقًا


Tema:

میرے نزدیک غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا زیادہ بہتر ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: "لأن أحلف بالله كاذبًا أحب إليَّ من أن أحلف بغيره صادقًا".

عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا زیادہ بہتر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول ابن مسعود -رضي الله عنه-: إقسامي بالله على شيء أنا كاذبٌ فيه على فرض وقوعه أحب إلي من إقسامي بغير الله على شيءٌ أنا صادقٌ فيه؛ وإنما رجح الحلف بالله كاذباً على الحلف بغيره صادقاً؛ لأن الحلف بالله في هذه الحالة فيه حسنة التوحيد، وفيه سيئة  الكذب، والحلف بغيره صادقاً فيه حسنة الصدق وسيئة الشرك، وحسنة التوحيد أعظم من حسنة الصدق، وسيئة الكذب أسهل من سيئة الشرك
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ بالفرض اگر میں کسی ایسی بات پر اللہ کی قسم اٹھاؤں، جس میں میں جھوٹا ہوں، تو یہ مجھے اس سے زیادہ بہتر لگتا ہے کہ میں کسی ایسی شے پر غیر اللہ کی قسم اٹھاؤں جس میں میں سچا ہوں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ کی جھوٹی قسم کو غیر اللہ کی سچی قسم پر ترجیح دی؛ کیوں کہ اس حالت میں اللہ کی قسم اٹھانے میں توحید کی نیکی اور جھوٹ کی برائی پائی جاتی ہے، جب کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانے میں سچائی کی نیکی اور شرک کی برائی پائی جاتی ہے۔ توحید کی نیکی صدق کی نیکی سے بڑی ہے اور جھوٹ کی برائی شرک کی برائی سے کم تر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3353

 
 
Hadith   300   الحديث
الأهمية: إن الله -تعالى- يغار، وغيرة الله -تعالى-، أن يأتي المرء ما حرم الله عليه


Tema:

اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّ الله -تَعَالى- يَغَارُ، وغَيرَةُ الله -تَعَالَى-، أَنْ يَأْتِيَ المَرء ما حرَّم الله عليه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہےکہ بندہ وہ کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء الحديث ليبين أن الله يغار على محارمه، يبغض ويكره انتهاك حدوده، ومن ذلك فاحشة الزنا، فهو طريق سافل سيِّئ، ومِن ثَمَّ حرَّم الله على عباده الزنا وجميع وسائله، فإذا زنى العبد، فإنَّ الله يغار غيرة أشد وأعظم من غيرته على ما دونه من المحارم، وكذلك أيضا اللِّوَاط، وهو إتيان الذَكَر، فإِنَّ هذا أعظم وأعظم؛ ولهذا جعله الله تعالى أشدَّ في الفُحش من الزنا.
 وكذلك أيضا السرقة وشرب الخمر وكل المحارم يغار الله منها، لكن بعض المحارم تكون أشد غيرة من بعض، حسب الجُرم، وحسب المضَّار التي تترتَّب على ذلك.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ محرمات (حرام کردہ کاموں) کے ارتکاب پر اللہ کو غیرت آتی ہے اور اس کو یہ بات مبغوض وناپسندیدہ ہے کہ اس کی حدود کو پامال کیا جائے۔ اور ان میں سے ایک زنا ہے۔ یہ بہت ہی گھٹیا اور براعمل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر زنا کو اس کے تمام ذرائع سمیت حرام کیا ہے۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو اللہ کو دوسرے حرام کاموں کی بنسبت زیادہ غیرت آتی ہے۔ اسی طرح لواطت ہے یعنی مرد کے ساتھ بد فعلی کرنا۔ یہ تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برائی کے اعتبار سے اسے زنا سے بھی زیادہ سخت جرم قرار دیا ہے۔ بعینہ چوری، شراب نوشی اور تمام قسم کے حرام کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے۔تاہم بعض حرام کام پر ـــــــــــ جرم اور اس پر مرتب ہونے والے مضر اثرات کے لحاظ سے دوسرے حرام کاموں کی بنسبت زیادہ غیرت آتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3354

 
 
Hadith   301   الحديث
الأهمية: لتتبعن سنن من كان قبلكم، حذو القذة بالقذة، حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه. قالوا: يا رسول الله، اليهود والنصارى؟ قال: فمن؟


Tema:

تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے جیسے تیار کیا ہوا تیر دوسرے تیر کے مطابق ہوتا ہے حتى كہ اگر وہ گوہ کی بِل ميں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے. صحابہ كرام نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اور کون؟!

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لتتبعن سنن من كان قبلكم، حذو القذة بالقذة، حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه. قالوا: يا رسول الله، اليهود والنصارى؟ قال: فمن؟ "

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے جیسے تیار کیا ہوا تیر دوسرے تیر کے مطابق ہوتا ہے حتى كہ اگر وہ گوہ کی بِل ميں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے“۔ صحابہ كرام نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اور کون؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا أبو سعيد -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أخبر بأن هذه الأمة ستقلد الأمم السابقة في عاداتها وسياساتها ودياناتها، وأنها ستحاول مشابهتهم في كل شيء، كما تشبه ريشة السهم للريشة الأخرى، ثم أكد هذه المشابهة والمتابعة بأن الأمم السابقة لو دخلت جحر ضب مع ضيقه وظلمته لحاولت هذه الأمة دخوله، ولما استفسر الصحابة -رضي الله عنهم- عن المراد بمن كان قبلهم، وهل هم اليهود والنصارى؟ أجاب بنعم.
575;بو سعید رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ امت سابقہ امتوں کی ان کی عادات، ان کے طور طریقوں اور ان کے دینی امور میں تقلید کرے گی اور ہر شے میں ان کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرے گی جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے پر سے مشابہ ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس مشابہت اور اتباع کی تاکید میں فرمایا کہ اگر سابقہ امتیں گوہ کی بل میں باوجود اس کی تنگی اور اندھیرے کے داخل ہوئی ہوں گی تو یہ امت بھی اس میں گھسنے کی کوشش کرے گی۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ کیا پچھلی امتوں سے یہودی اور نصرانی مراد ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3355

 
 
Hadith   302   الحديث
الأهمية: إذا لبستم، وإذا توضأتم، فابدأوا بأيامنكم


Tema:

جب تم لباس پہنو اور جب تم وضو کرو، تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِذَا لَبِسْتُم، وَإِذَا تَوَضَّأتُم، فَابْدَأُوا بَأَيَامِنُكُم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم لباس پہنو اور جب تم وضو کرو، تو اپنی دائیں جانب سے شروع کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكَّد حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- موضوع استحباب التيمن في الأمور الكريمة، فروى أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:
"إذا لبستم" أي أردتم اللبس
و"إذا توضأتم" أي أردتم أعماله.
 "فابدءوا بأيامنكم" جمع أيمن وهو خلاف الأيسر، فيدخل الجانب الأيمن في نحو القميص، قبل الأيسر ويقدم اليمنى من يديه ورجليه في الوضوء، ثم اعلم أن من أعضاء الوضوء ما لا يستحب فيه التيامن، وهو الأذنان، والكفان، والخدان، بل يطهران دفعة واحدة، فإن تعذر ذلك كما في حق الأقطع ونحوه قدَّم اليمين.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں اچھے کاموں کے دائیں طرف سے آغاز کے استحباب کی تاکید ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
"إذا لبستم" یعنی جب تم لباس پہننے کا ارادہ کرو۔
"إذا توضأتم" یعنی جب تمھارا وضو کے اعمال سر انجام دینے کا ارادہ ہو۔
”فابدءوا بأيامنكم“ 'أيامن' جمع ہے 'أيمن' کی، جو کہ 'الأيسر' کی ضد ہے۔ چنانچہ قمیص وغیرہ میں دائیں جانب کو بائیں طرف سے پہلے داخل کرے اور وضو میں اپنے دائیں ہاتھ اور پاؤں کو مقدم رکھے۔ حتی کہ معذور شخص بھی وضو کے تمام اعمال میں دائیں طرف سے آغاز کرے گا۔
واضح رہے کہ وضو کے کچھ اعضا ایسے ہیں، جن میں دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب نہیں، بلکہ انھیں یکبارگی پاک کیا جاتا ہے، جیسے دونوں کان، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں رخسار۔ اگر کسی کے لیے ایک ساتھ پاک کرنا ممکن نہ ہو، جیسے ایک ہاتھ سے معذور آدمی، تو وہ داہنے حصے کو مقدم رکھے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3356

 
 
Hadith   303   الحديث
الأهمية: من ابتلي من هذه البنات بشيء فأحسن إليهن كُنَّ له سترًا من النار


Tema:

جو شخص ان بچیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: دَخَلَت عَلَيَّ امرأَة ومعَهَا ابنَتَان لَهَا، تَسْأَل فَلَم تَجِد عِندِي شَيئًا غَير تَمرَة وَاحِدَة، فَأَعْطَيتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمتْهَا بَينَ ابنَتَيهَا وَلَم تَأكُل مِنهَا، ثُمَّ قَامَت فَخَرَجَت، فَدَخَل النبي -صلى الله عليه وسلم- علينا، فَأَخْبَرتُه فقال: «مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هذه البنَاتِ بِشَيءٍ فأَحْسَن إِلَيهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِن النَّار».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں۔ اس نے مجھ سے مانگا لیکن اُسے میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہ مل سکا۔ چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی۔ اس نے اس کھجور کو اپنی دونوں بچیوں میں بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اتنے میں نبی ﷺ گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ان بچیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخلت على عائشة -رضي الله عنها- امرأة ومعها ابنتان لها تسأل -وذلك لأنها فقيرة- قالت: فلم تجد عندي إلا تمرة واحدة، قالت: فأعطيتها إياها فقسمتها بين ابنَتَيها نِصفَين، وأَعطَت وَاحِدة نصف التمرة، وأعطت الأخرى نصف التمرة الآخر، ولم تأكل منها شيئا.
فدخل النبي -صلى الله عليه وسلم- على عائشة فأخبرته لأنها قصة غريبة عجيبة، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "من ابتلي بشيء من هذه البنات فأحسن إليهن كن له سترا من النار".
 ولا يفهم من قوله -صلى الله عليه وسلم-: "من ابتلي": بلوى الشر، لكن المراد: من قُدِّر له، كما قال الله -تعالى-: (ونبلوكم بالشر والخير فتنة وإلينا ترجعون) . يعني من قُدِّر له ابنتان فأحسن إليهما كُنَّ له سِترا من النَّار يوم القيامة، يعني أن الله -تعالى- يحجِبُه عن النار بِإِحسانه إلى البنات؛ لأنَّ البِنت ضعيفة لا تستطيع التَكَسُّب، والذي يكتسب هو الرجل، قال الله -تعالى-: (الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم)  .
593;ائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ وہ آپ رضی اللہ عنہا سے مانگ رہی تھی کیونکہ وہ غریب عورت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اسے میرے پاس سے صرف ایک کھجور ہی ملی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اسے یہ دے دی۔ اس نے یہ کھجور آدھی آدھی کر کے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی۔ آدھی ایک بیٹی کو دے دی اور آدھی دوسری کو اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔نبی ﷺ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا کیونکہ یہ بہت عجیب وغریب قصہ تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اوراس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی“۔
نبی ﷺ کے فرمان: ”جس شخص کی آزمائش کی گئی“ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے مراد بری آزمائش ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کے مقدر میں یہ ہوئیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [الأنبياء: 35] ترجمہ:”ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارہی ہی طرف لوٹائے جاؤگے“۔ یعنی جس کے مقدر میں دو بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تو وہ قیامت کے دن اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔ یعنی بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے اوٹ میں کر دے گا کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور کمائی نہیں کر سکتی۔ کمائی مرد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ [النساء: 34]۔
ترجمہ: ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں“۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3358

 
 
Hadith   304   الحديث
الأهمية: من حلف بغير الله قد كفر أو أشرك


Tema:

جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "من حلف بغير الله قد كفر أو أشرك"

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر کیا یا شرک کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في هذا الحديث خبراً معناه النهي: أن من أقسم بغير الله من المخلوقات فقد اتخذ ذلك المحلوف به شريكاً لله وكفر بالله؛ لأن الحلف بالشيء يقتضي تعظيمه، والعظمة في الحقيقة إنما هي لله وحده، فلا يُحلف إلا به أو بصفة من صفاته.
575;س حدیث میں آپ ﷺ خبر دینے کے انداز میں منع فرما رہے ہیں کہ جس نے اللہ کے سوا مخلوق میں سے کسی کی قسم کھائی، تو اس نے اس چیز کو اللہ کا شریک بنایا اور اللہ کے ساتھ کفر کیا، اس لیے کہ کسی چیز کی قسم کھانا اس کی تعظیم کا تقاضہ کرتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں عظمت صرف ایک اللہ کی ہے، لہٰذا صرف اس کی ذات یا صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھائی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3359

 
 
Hadith   305   الحديث
الأهمية: من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين


Tema:

جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ عَالَ جَارِيَتَين حتَّى تَبلُغَا جاء يَومَ القِيَامَة أَنَا وَهُو كَهَاتَين» وضَمَّ أَصَابِعَه.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے“۔ (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث فضل عول الإنسان للبنات، وذلك أنَّ البنت قاصرة ضعيفة، والغالب أنَّ أهلها لا يأبَهُون بها، ولا يهتمُّون بها، فلذلك قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "من عال جاريتين حتى تبلغا، جاء يوم القيامة أنا وهو كهاتين" وضَمَّ إصبعيه: السبابة والوسطى، والمعنى أنه يكون رفيقا لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- في الجنة إذا عال الجارتين، يعني الأنثيين من بنات أو أخوات أو غيرهما، أي أنه يكون مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الجنة، وقرن بين إصبعيه -عليه الصلاة والسلام-.
والعول في الغالب يكون بالقيام بمؤونة البدن، من الكسوة والطعام والشراب والسكن والفراش ونحو ذلك، وكذلك يكون بالتعليم والتهذيب والتوجيه والأمر بالخير والنهي عن الشر وما إلى ذلك، فيجمع القائم بمصالح البنات بالنفع العاجل الدنيوي، والآجل الأخروي.
575;س حدیث میں انسان کے بچیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت کا بیان ہے، کیونکہ بیٹی عاجز و کمزور ہوتی ہے اور اکثر اس کے گھر والے اس کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے“۔ اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھی ہو گا اگر اس نے دو لڑکیوں یعنی دو بیٹیوں یا بہنوں وغیرہ کی پرورش کی ہوگی۔ یعنی وہ جنت میں نبی ﷺ کے ساتھ ہو گا، اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو باہم ملا لیا۔
پرورش زیادہ تر جسمانی ضروریات کو پورا کر کے ہوتی ہے جیسے کپڑا، کھانا پینا، رہائش اور بستر وغیرہ، اور اسی طرح یہ تعلیم وتربیت کرنے، مہذب وشائستہ بنانے، راہنمائی کرنے، اچھی باتوں کی تلقین اور بری باتوں سے روک کر بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ لڑکیوں کے مفادات کا نگہبان شخص ان کی دنیوی منفعت کے ساتھ ہی ان کی اخروی منفعت کا خیال رکھے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3360

 
 
Hadith   306   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده، لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ أفشوا السلام بينكم


Tema:

قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ تَدْخُلُوا الجَنَّة حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُوا، أَوَلاَ أَدُلُّكُم عَلَى شَيءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُم؟ أَفْشُوا السَّلاَم بَينَكُم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صدَّر المصطفى -صلى الله عليه وسلم- الحديث بالقسم المفيد للتوكيد على أهمية ما تحمله هذه الوصية النبوية العظيمة، والتي تحمل في مضمونها الأسباب الخُلقية التي متى تمسَّك بها المجتمع المسلم تماسَك بنيانه وقَوِيَ.
فقوله -صلى الله عليه وسلم-: "لاتدخلوا الجنة حتى تؤمنوا" على ظاهره وإطلاقه، فلا يدخل الجنة إلا من مات مؤمنًا وإن لم يكن كامل الإيمان فإن مآله الجنة، فهذا هو الظاهر من الحديث.
وأما قوله -صلى الله عليه وسلم-: "ولا تؤمنوا حتى تحابوا" معناه لا يكمل إيمانكم ولا يصلح حالكم في الإيمان إلا بالتحاب.
وأما قوله: "أفشوا السلام بينكم" ففيه الحث العظيم على إفشاء السلام وبذله للمسلمين كلهم من عرفت ومن لم تعرف، والسلام أول أسباب التآلف ومفتاح استجلاب المودة، وفي إفشائه تكمن ألفة المسلمين بعضهم لبعض وإظهار شعارهم المميز لهم من غيرهم من أهل الملل مع ما فيه من رياضة النفس ولزوم التواضع وإعظام حرمات المسلمين.
606;بی ﷺ نے اس حدیث میں مفید و کارآمد شے کا ذکر فرمایا ہے تاکہ عظیم نبوی وصیت کے حامل ان امور کی اہمیت کو پرزور انداز میں پیش کیا جائے اور جس وصیت کا مضمون، ان اخلاقی اسباب و ذرائع پر مشتمل ہے کہ اگر مسلم معاشرہ، ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے تو اس معاشرہ کی بنیاد باہم پیوست اور مستحکم ہوجاتی ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: ”تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ“ تو اس کا ظاہری اور مطلق معنی ہی مراد ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جس کی حالتِ ایمان پر موت واقع ہو، چاہے اس کے ایمان میں کمال نہ ہو کیوں کہ بالآخر اس کا انجام کار جنت ہی ہے اور حدیث کا یہی ظاہری معنی ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: ”اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو“ تو اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے ایمان میں کمال نہیں آئے گا اور تمہارے ایمان کی حالت اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔
آپ ﷺ کے فرمان: ”آپس میں سلام کو عام کرو“ میں سلام کو عام کرنے اور (بلاتفریق) جانے اور انجانے سارے ہی مسلمانوں میں اس کو پھیلانے کی بے پناہ ترغیب دی گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سلام ہی باہمی الفت و محبت کا سب سے اولین ذریعہ اور محبت و مودت کو پیدا کرنے کی کلید ہے۔ اس کو عام کرنے میں مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے راز پنہاں ہیں اور ان کے اس شعار کے اظہار میں دوسری ملتوں سے ان کا امتیاز و خصوصیت نمایاں ہوجاتی ہے، نیز اس میں نفس کی تربیت، تواضع و انکساری کو اختیار کرنے اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو عظیم تر قرار دینے کے معانی بھی پائے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3361

 
 
Hadith   307   الحديث
الأهمية: قال الله -تعالى-: وجبت محبتي للمتحابين في، والمتجالسين في، والمتزاورين في، والمتباذلين في


Tema:

اللہ تعالی کا فرمان ہے: میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرےسے تعاون كرنے والوں كے لیے میری محبت واجب ہوگئی۔

عن أبي إدريس الخولاني -رحمه الله- قال: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشقَ، فَإِذَا فَتًى بَرَّاق الثَنَايَا وَإِذَا النَّاس مَعَه، فَإِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيءٍ، أَسْنَدُوهُ إِلَيهِ، وَصَدَرُوا عَنْ رَأْيِهِ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَقِيل: هَذَا مُعَاذ بْنُ جَبَلٍ -رضي الله عنه- فَلَمَّا كان مِنَ الغَدِ، هَجَّرتُ، فَوَجَدتُه قَدْ سَبِقَنِي بِالتَهْجِير، وَوَجَدتُهُ يُصَلِّي، فَانتَظَرتُهُ حَتَّى قَضَى صَلاَتَه، ثُمَّ جِئتُهُ مِن قِبَلِ وَجْهِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيه، ثُمَّ قُلتُ: وَالله إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّه، فَقَال: آلله؟ فَقُلتُ: آلله، فقال: آللهِ؟ فقُلْتُ: آلله، فَأَخَذَنِي بَحَبْوَةِ رِدَائِي، فَجَبَذَنِي إِلَيه، فَقَال: أَبْشِر! فَإِنِّي سَمِعتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «قَالَ الله -تعَالَى-: وَجَبَت مَحَبَّتِي لِلمُتَحَابِّين فِيَّ، وَالمُتَجَالِسِينَ فِيَّ، وَالمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ، وَالمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ».

ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا، تو دیکھا کہ وہاں چمک دار دانتوں والا ایک جوان ہے، جس کے ساتھ لوگ بیٹھے ہیں۔ جب ان کا کسی بات میں اختلاف ہوجاتا، تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے اور جو رائے وہ دیتا، اسے تسلیم کر لیتے۔ میں نے اس جوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون ہے؟ تو بتایا گیا کہ وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب اگلا دن آیا، تو میں نے جلدی کی، لیکن (جب مسجد پہنچا تو) میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں ان کا انتظار کرنے لگا، یہاں تک کہ انھوں نے اپنی نماز پوری کر لی۔ میں ان کے سامنے کی طرف سے ان کے پاس آیا اور انھیں سلام کرنے کے بعد میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم کھاتے ہو؟۔ میں نے کہا: میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں۔ انھوں نے پھر کہا: اللہ کی قسم کھاتے ہو؟۔ میں نے جواب دیا : میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں۔ اس پر انھوں نےمیری چادر کے پہلو سے مجھے پکڑا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا: خوش ہو جاؤ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ”میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرےسے تعاون كرنے والوں كے لیے میری محبت واجب ہوگئی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث فضل التحابب في الله، والمراد أن فاعل كل هذه الأمور من الجانبين كما يدل عليه صيغة التفاعل إذا كان لوجه الله -تعالى- لا لعرض فانٍ، ولا لغرض فإنه تجب له محبة مولاه، وهذا أعظم الجزاء فيدل على شرف هذا، وقد ورد «من أحبّ في الله وأبغض في الله وأعطى لله ومنع لله فقد استكمل الإيمان».
ففي قوله: "فقلت والله إني لأحبك لله قال: آلله فقلت: آلله" دليل على أن الأيمان كانت تجري على ألسنتهم على معنى تحقيق الخبر ويؤكد بتكرارها واستدعاء تأكيدها.
وقوله: "فأخذ بحبوة ردائي" يريد بما يحتبي به من الرداء وهو طرفاه.
وقوله: "وجبذني إلى نفسه" على معنى التقريب له والتأنيس وإظهار القبول لما أخبر به وتبشيره بما قاله النبي -صلى الله عليه وسلم- لمن فعل ذلك.
فقال له: "أبشر" يريد بما أنت عليه، فإني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: قال الله -عزو جل- على معنى إضافة ما يبشره إلى خبر النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو الصادق المصدوق عن ربه -تبارك وتعالى-، ليستيقن أبو إدريس وتتم له البشرى بهذا الخبر, حيث إنه من قول النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ربه, لا من اجتهاد معاذ -رضي الله عنه-.
وقوله عزو جل: "وجبت محبتي" يريد ثبتت محبتي لهم.
"للمتحابين والمتجالسين فيَّ" يريد أن يكون جلوسهم في ذات الله -عزو جل- من التعاون على ذكر الله -تعالى- وإقامة حدوده والوفاء بعهده والقيام بأمره وبحفظ شرائعه واتباع أوامره واجتناب محارمه.
 وقوله -تبارك وتعالى- "والمتزاورين فيَّ": يريد -والله أعلم- أن يكون زيارة بعضهم لبعض من أجله وفي ذاته وابتغاء مرضاته من محبة لوجهه أو تعاون على طاعته.
وقوله -تبارك وتعالى-: "والمتباذلين فيَّ": يريد يبذلون أنفسهم في مرضاته من الاتفاق على جهاد عدوه وغير ذلك مما أمروا به ويعطيه ماله إن احتاج إليه.
575;س حدیث میں اللہ کے لیے باہم محبت کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ مراد یہ کہ یہ تمام امور طرفین سے ہوں، جیسے کہ تفاعل باب کا صیغہ دلالت کرتا ہے اور اللہ کی رضا کی کے لیے ہوں، نہ کہ کسی عارضی غرض کی بنا پر۔ ایسے شخص کے لیے اس کے مولی کی محبت واجب ہو جاتی ہے، جو کہ عظیم ترین جزا ہے اور اس شخص کی بلندی مرتبہ کی دلیل ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: ”جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اسی کے لیے نفرت کی، اسی کی خاطر دیا اور اسی کی خاطر روک لیا، تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا“۔
ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم قسم کھاتے ہو؟۔ یہ دلیل ہے کہ وہ بات کے اثبات کے لیے قسمیں کھا تے تھےاور بار بار قسم کھا کر اور اٹھوا کر بات کی تاکید کی جاتی تھی۔
ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: انھوں نے میری چادر کے پہلو سے مجھے پکڑا۔ اس سے مراد چادر کا وہ حصہ ہے، جس سے ”احتباء“ کیا جاتا ہے یعنی اس کے دونوں کنارے۔
”انھوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا“ ایسا انھوں نے انہیں اپنے قریب اور مانوس کرنے اور جو بات وہ بتا رہے تھے، اس پر اظہار رضامندی اور انھیں وہ خوش خبری سنانے کے لیے کیا، جو نبی ﷺ نے ہر اس شخص کے لیے دی ہے، جو ایسے کرتا ہے۔
”خوش ہو جاؤ“ یعنی اپنی اس حالت پر خوش ہو جاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالی فرماتا ہے“۔ ایسا انھوں نے اپنی طرف سے دی جانے والی اس خوش خبری کو نبی صادق و مصدوق ﷺ کے واسطے سے رب تعالی شانہ کی طرف منسوب کرنے کے لیے کہا؛ تا کہ ابو ادریس رحمہ اللہ کو پوری طرح یقین ہو جائے اور اس بات کے ذریعے سے انھیں مکمل خوش خبری ملے (یہ جان کر) کہ یہ نبی ﷺ کے واسطے سے ان کی رب کی بات ہے، نہ کہ معاذ رضی اللہ عنہ کا اپنا ذاتی اجتہاد۔
اللہ عز و جل نے فرمایا: ”میری محبت واجب ہو گئی“۔ یعنی ان کے لیے میری محبت یقینی ہو گئی۔
”میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے سے مل بیٹھنے والوں کےلیے“۔ مراد یہ کہ ان کا بیٹھنا اللہ عز و جل کی ذات کے لیے ہو، بایں طور کہ وہ اللہ کے ذکر، اس کی حدود کو قائم کرنے، اس کے وعدے کو پورا کرنے، اس کے حکم کی پاس داری کرنے، اس کے مشروع کردہ احکامات و اوامر کو بجا لانے اور اس کی حرام کردہ اشیا سے اجتناب کرنے میں ایک دوسری کے ساتھ تعاون کریں۔
”میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لیے“۔ یعنی ان کا ایک دوسرے سے ملنا اللہ کی خاطر اور اس کی ذات اورخوش نودی کے لیے ہو، بایں طور کہ وہ اس کی رضا کے لیے محبت کریں یا اس کی اطاعت گزاری میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
”میری خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرنے والوں کے لیے“۔ جو اللہ کی خوش نودی کے لیے تن و روح لگا دیتے ہیں، بایں طور کہ اس کے دشمن کے خلاف جہاد اور اس کے علاوہ دیگر حکم کردہ معاملات میں باہم متحد ہو جاتے ہیں یا پھر اگر دوسرے کو مال کی ضرورت ہو، تو وہ اپنا مال اسے دے دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3362

 
 
Hadith   308   الحديث
الأهمية: لولا أن أشق على أمتي؛ لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة


Tema:

اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (لولاَ أن أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي؛ لَأَمَرتُهُم بِالسِّوَاك عِندَ كُلِّ صَلاَة).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من كمال نصح النبي -صلى الله عليه وسلم- ومحبته الخير لأمته، ورغبته أن يفعلوا كل فعل يعود عليهم بالنفع؛ لينالوا كمال السعادة أن حثهم على التسوك، فهو -صلى الله عليه وسلم- لما علِم من كثرة فوائد السواك، وأثر منفعته عاجلا وآجلا؛ كاد يلزم أمته به عند كل وضوء أو صلاة؛ لورود رواية: (مع كل وضوء)، ولكن -لكمال شفقته ورحمته- خاف أن يفرضه الله عليهم؛ فلا يقوموا به؛ فيأثموا؛ فامتنع من فرضه عليهم خوفاً وإشفاقاً، ومع هذا رغبهم فيه وحضَّهم عليه.
606;بی ﷺ کی اپنی امت کے ساتھ بہت زیادہ خیر خواہی، آپ ﷺ کی اپنی امت کے لیے بھلائی کی چاہت اور اس بات کی رغبت کہ وہ ہر ایسا کام کریں جو ان کے لیے فائدے مند ہو تاکہ انہیں پوری سعادت حاصل ہو سکے، اس کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں مسواک کرنے کی ترغیب دی کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس میں بہت زیادہ فوائد اور دنیوی و اخروی منفعت ہے۔ آپ ﷺ اسے ہر وضو یا ہر نماز کے ساتھ اپنی امت پر لازم کرنے کے قریب تھے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ”ہر وضو کے ساتھ“ کے الفاظ آتے ہیں لیکن اپنے کمال شفقت اور رحمت کی بدولت آپ ﷺ کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان پر اسے فرض ہی نہ کردے اور وہ اس کو نہ کر سکیں اور یوں گناہ گار ہوں ۔ چنانچہ اس خوف اور شفقت کی وجہ سے آپ ﷺ نے اسے ان پر فرض نہ کیا۔ تاہم اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں مسواک کرنے کی ترغیب دی اور اس پر انہیں ابھارا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3364

 
 
Hadith   309   الحديث
الأهمية: سألت النبي -صلى الله عليه وسلم-: أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها. قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدين


Tema:

میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: (سَأَلتُ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم-: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إلى الله؟ قال: الصَّلاَةُ عَلَى وَقتِهَا. قلت: ثم أَيُّ؟ قال: بِرُّ الوَالِدَينِ. قلت: ثم أَيُّ؟ قال: الجِهَادُ في سَبِيلِ الله. قال: حَدَّثَنِي بِهِنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ولو اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي).

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستےمیں جہاد کرنا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ وہ اعمال ہیں، جو رسول اللہ ﷺ نےمجھے بتائے۔ اگر میں آپ ﷺ سے اور زیادہ پوچھتا، تو آپ ﷺ مجھے اور زیادہ بتاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل ابن مسعود -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الطاعات لله، أيها أحب إلى الله -تعالى-؟ فكلما كان العمل أحب إلى الله، كان ثوابه أكثر.
فقال -صلى الله عليه وسلم- مبينًا: إن أحبها إلى الله -تعالى-، الصلاة المفروضة في وقتها، الذي حدده الشارع لأن فيه المبادرة إلى نداء الله تعالى وامتثال أمره، والاعتناء بهذا الفرض العظيم.
ومن رغبته -رضي الله عنه- في الخير، لم يقف عند هذا، بل سأله عن الدرجة الثانية، من محبوبات الله -تعالى- قال: بر الوالدين.
فإن الأول محض حق الله، وهذا محض حق الوالدين، وحق الوالدين يأتي بعد حق الله، بل إنه -سبحانه- من تعظيمه له يقرن حقهما وبرهما مع توحيده في مواضع من القرآن الكريم، لما لهما من الحق الواجب، مقابل ما بذلاه من التسبب في إيجادك وتربيتك، وتغذيتك، وشفقتهما وعطفهما عليك.
ثم إنه -رضي الله عنه- استزاد من لا يبخل، عن الدرجة التالية من سلسلة هذه الأعمال الفاضلة، فقال: الجهاد في سبيل الله، فإنه ذروة سنام الإسلام وعموده، الذي لا يقوم إلا به، وبه تعلو كلمة اللَه وينشر دينه.
وبتركه -والعياذ بالله- هدم الإسلام، وانحطاط أهله، وذهاب عزهم، وسلب ملكهم، وزوال سلطانهم ودولتهم.
وهو الفرض الأكيد على كل مسلم، فإن من لم يغْزُ، ولم يحدث نفسه بالغزو، مات على شعبة من النفاق.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اللہ کی خاطر کیے جانے والے نیک اعمال کے بارے میں دریافت کیا کہ اللہ تعالی کو ان میں سے کون سا نیک عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ کیوں کہ عمل جتنا زیادہ اللہ تعالی کا محبوب ہو گا، اتنا ہی اس کا ثواب زیادہ ہو گا۔
آپ ﷺ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل فرض نماز کو اس کے شارع کی طرف سے مقرر کردہ وقت میں ادا کرنا ہے؛ کیوں کہ یہ اللہ تعالی کے بلاوے کو قبول کرنے میں پیش قدمی، اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس عظیم فرض کے اہتمام کا مظہر ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نیکی میں رغبت رکھنے کی وجہ سے انھوں نے اس پر اکتفا نہ کیا، بلکہ آپ ﷺ سے اللہ کے پسندیدہ اعمال میں سے دوسرے درجے کے نیک عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کی فرماں برداری کرنا۔
پہلا نیک عمل محض اللہ کا حق ہے، جب کہ دوسرا محض والدین کا حق ہے اور والدین کے حق کا درجہ اللہ کے حق کے بعد آتا ہے۔ بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تو اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن کریم کے کئی مقامات پر اللہ تعالی والدین کے حق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی توحید کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے؛ کیوں کہ آپ کے وجود کا سبب ہونے، آپ کی تربیت اور پرورش اور آپ پر شفقت و مہربانی کرنے کی وجہ سے والدین کا یہ حق واجب ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے مزید سوال کیا، جو (خیر کی بات بتانے میں) بخل نہیں کرتے کہ اہم ترین نیک اعمال کے اس سلسلے میں اس کے بعد والا درجہ کس نیک عمل کا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ یہ اسلام کی چوٹی اور اس کا ستون ہے۔ اسی سے اسلام کا وجود ہے اور اسی سے اللہ کا حکم سر بلند ہوتا ہے اور اس کا دین پھیلتا ہے۔
اس کو چھوڑ دینے میں اسلام کا انہدام ہے، مسلمان زوال و انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، ان کی عزت جاتی رہتی ہے، ان کا اقتدار چھن جاتا ہے اور ان کی سلطنت و حکومت زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر تاکید کے ساتھ فرض ہے۔ پس جس نے جہاد نہ کیا اور نہ ہی اس کے دل میں جذبہ جہاد پیدا ہوا، گویا وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3365

 
 
Hadith   310   الحديث
الأهمية: أثقل الصلاة على المنافقين: صلاة العشاء وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيها لأتوهما ولو حبوًا، ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام, ثم آمر رجلا فيصلي بالناس, ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار


Tema:

منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر کی نماز ہے اور اگر انھیں ان نمازوں کے ثواب کا اندازہ ہو جاتا، تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ میرا تو پختہ عزم ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اپنے ہم راہ کچھ لوگوں کو لے چلوں، جن کے ساتھ آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر ہوں، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت نذر آتش کردوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن  النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أَثقَل الصَّلاةِ على المُنَافِقِين: صَلاَة العِشَاء، وصَلاَة الفَجر، وَلَو يَعلَمُون مَا فِيها لَأَتَوهُمَا وَلَو حَبْوُا، وَلَقَد هَمَمتُ أًن آمُرَ بِالصَّلاَةِ فَتُقَام، ثُمَّ آمُر رجلاً فيصلي بالنَّاس، ثُمَّ أَنطَلِق مَعِي بِرِجَال معهُم حُزَمٌ مِن حَطَب إلى قَومٍ لاَ يَشهَدُون الصَّلاَة، فَأُحَرِّقَ عَلَيهِم بُيُوتَهُم بالنَّار».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر کی نماز ہے اوراگر انھیں ان نمازوں کے ثواب کا اندازہ ہو جاتا، تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ میرا تو پختہ ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اس اپنے ہم راہ کچھ لوگوں کو لے چلوں، جن کے ساتھ آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر ہوں، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت نذر آتش کردوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لقد كان المنافقون يراؤون الناس، ولا يذكرون الله إلا قليلا، كما أخبر الله -تعالى- عنهم، ويظهر كسلهم في صلاة العشاء وصلاة الفجر؛ لأنهما بوقت ظلام، فما يراهم الناس الذين يصلون؛ لأن َّجلَّ المنافقين نجدهم يقصرون في هاتين الصلاتين اللتين تَقَعان في وقت الراحة ولذة النوم ولا ينشط لأدائهما مع الجماعة إلا من حَدَاه داعي الإيمان بالله -تعالى-، ورجاء ثواب الآخرة، ولمَّا كان الأمر على ما ذكر كانت هاتان الصلاتان أشق وأثقل على المنافقين، ولو يعلمون ما في فعلهما مع جماعة المسلمين في المسجد من الأجر والثواب لأتوهما ولو حبوا كحبو الطفل بالأيدي والركب، وأقسم -صلى الله عليه وسلم- أنَّه قد هم بمعاقبة المتخلفين المتكاسلين عن أدائهما مع الجماعة، وذلك بأن يأمر بالصلاة فتقام جماعة، ثم يأمر رجلًا فيؤم الناس مكانه، ثم ينطلق ومعه رجال يحملون حزمًا من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فيحرق عليهم بيوتهم بالنار؛ لشدة ما ارتكبوه في تخلفهم عن صلاة الجماعة، لولا ما في البيوت من النساء والصبيان الأبرياء، الذين لا ذنب لهم، كما ورد في بعض طرق الحديث.
605;نافقین کا یہ رویہ تھا کہ وہ لوگوں کو دکھانے اور نام و نمود کے لیے اعمال کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی کم کرتے تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کی یہ سستی اور کاہلی عشا اور فجر کی نمازوں میں پوری طرح کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے؛ کیوں کہ یہ دونوں نمازیں، تاریکی کے اوقات میں ادا ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ بے نمازی، نمازیوں کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیش تر منافقین کو راحت و آرام اور میٹھی نیند کے وقت پڑھی جانے والی ان دو نمازوں میں ہم کوتاہ عمل پاتے ہیں۔ در حقیقت ان دو نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں چستی و نشاط وہی دکھا پاتے ہیں، جنھیں ایمان باللہ کی حرارت اور آخرت کے اجر و ثواب کی امید، ان نمازوں کی ادائیگی پر آمادہ رکھتی ہے۔ جب بات ایسی ہی ہے، جیسی ذکر کی گئی، تو یہ دونوں نمازیں منافقین پر سب سے گراں اور مشکل ہوجاتی ہی۔ لیکن اگر انھیں اس بات کا علم ہو جائے کہ انھیں مسجد میں باجماعت ادا کرنے کا کس قدر اجر و ثواب ہے، تو وہ ان میں ضرور شریک ہوں گے، چاہے انھیں (معذوری وغیرہ کی بنا پر) رینگتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے، جس طرح بچہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل رینگتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ آپ کا پختہارادہ ہو گیا تھا کہ جماعت کے ساتھ ان دو نمازوں کی ادائیگی میں سستی و کاہلی اختیار کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کو سخت سزا دیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے نماز باجماعت قائم کی جائے، پھر کسی شخص کو آپ ﷺ اپنے مقام پر امامت پر مامور فرمادیں اور پھر اپنے ہم راہ کچھ افراد کو لے لیں، جو آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر اٹھاکر ان لوگوں کے پاس پہنچیں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوئے ہیں اور انھیں ان کے گھروں کے ساتھ نذر آتش کردیں؛ کیوں کہ وہ باجماعت نماز ادا نہ کرنے کے سخت ترین گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر گھروں میں عورتیں اوربے گناہ و معصوم بچے نہ ہوتے (تو آپ ایسا ضرور کرتے)، جیسا کہ حدیث کی دیگر سندوں میں اس طرح کے الفاظ وارد ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3366

 
 
Hadith   311   الحديث
الأهمية: هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم؟


Tema:

یہ تم میں سے کمزور لوگ ہی تو ہیں، جن کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے۔

رأى سعد أنَّ له فَضلاً على مَن دُونَه، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «هَل تُنْصَرون وتُرْزَقُون إِلاَّ بِضُعَفَائِكُم؟».
عن أبي الدرداء عويمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ابغُونِي الضُعَفَاء؛ فَإِنَّما تُنصَرُون وتُرزَقُون بِضُعَفَائِكُم».

سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو خیال گزرا کہ انھیں ان لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، جو مالی لحاظ سے ان سے کم تر ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ تم میں سے کمزور لوگ ہی تو ہیں، جن کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھا رزق دیا جاتا ہے“۔
ابو الدرداء رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(مالی و جسمانی طور پر) کمزور لوگوں کی تلاش میں میری مدد کرو۔ تم میں سے کمزور لوگوں ہی کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذين الحديثين ما يدل على أنَّ الضعفاء سبب للنصر، وسبب للرزق في الأمة، فإذا حَنَّ عليهم الإنسان وعَطَف عليهم وآتاهم مما آتاه الله -عز وجل-؛ كان ذلك سبباً للنصر على الأعداء، وكان سبباً للرزق؛ لأنَّ الله -تعالى- أخبر أنَّه إِذَا أنفق الإنسان لرَبِّه نفقة فإِنَّ الله -تعالى- يُخلِفُها عليه. قال الله -تعالى-: (وما أنفقتم من شيء فهو يخلفه وهو خير الرازقين)، يُخلفه: أي يأتي بخَلَفِه وبدله.
575;س حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کمزور لوگ امت کی نصرت اور رزق کا سبب ہیں۔ جب انسان ان پر رحم اور شفقت کرتا ہے اور جو کچھ اللہ عز و جل نے اسے دیا ہے، اس میں سے انھیں بھی دیتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے دشمنوں پر مدد ملتی ہے اور یہ بات رزق ملنے کا سبب ہوتی ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب انسان اپنے رب کی رضا کے لیے کچھ خرچ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ [سوره سبأ: 39] ترجمہ:”تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وه سب سے بہتر روزی دینے واﻻ ہے“۔ یعنی وہ اس کا عوض اور بدل دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3367

 
 
Hadith   312   الحديث
الأهمية: تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء


Tema:

مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا۔

عن أبي  هريرة -رضي الله عنه- قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ((إن أمتي يُدْعَون يوم القيامة غُرًّا مُحَجَلِّين من آثار الوُضُوء)). فمن اسْتَطَاع منكم أن يُطِيل غُرَّتَه فَليَفعل.
وفي لفظ لمسلم: ((رأَيت أبا هريرة يتوضَّأ, فغسل وجهه ويديه حتى كاد يبلغ المنكبين, ثم غسل رجليه حتى رَفَع إلى السَّاقين, ثم قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنَّ أمتي يُدْعَون يوم القيامة غُرًّا مُحَجَّلِين من آثار الوُضُوء)) فمن استطاع منكم أن يطيل غُرَّتَه وتَحْجِيلَه فَليَفعَل.
وفي لفظ لمسلم: سمعت خليلي -صلى الله عليه وسلم- يقول: ((تَبْلُغ الحِليَة من المؤمن حيث يبلغ الوُضُوء)).

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کے لوگوں کو قیامت والے دن اس حال میں پکارا جائے گا کہ وضو کے نشانات سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں روشن ہونگے“۔ پس تم میں سے جو اپنی روشنی بڑھانے کی طاقت رکھے تو وہ ضرور ایسا کرے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”میں نے ابو ہریرہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئے یہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے، پھر انہوں نے اپنے پاؤں دھوئے یہاں تک کہ اوپر پنڈلیوں تک لے گئے، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ میری امت کے لوگوں کو قیامت والے دن اس حال میں پکارا جائے گا کہ وضو کے نشانات سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں روشن ہونگے۔ پس تم میں سے جو اپنی چمک اور روشنی بڑھانے کی طاقت رکھے تو وہ ضرور ایسا کرے“۔
صحیح مسلم کے دوسرے الفاظ یہ ہیں: ”میں نے اپنے خلیل ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ (جنت میں) مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک وضو پہنچے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبشر النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته بأن الله -سبحانه وتعالى- يخصهم بعلامة فضل وشرف يومَ القيامة، من بين الأمم، حيث ينادون فيأتون على رؤوس الخلائق تتلألأ وجوههم وأيديهم وأرجلهم بالنور، وذلك أثر من آثار هذه العبادة العظيمة، وهي الوضوء الذي كرروه على هذه الأعضاء الشريفة ابتغاء مرضاة الله، وطلبا لثوابه، فكان جزاؤهم هذه المحمدة العظيمة الخاصة. ثم يقول أبو هريرة -رضي الله عنه- : "من قدر على إطالة هذه الغرّة فليفعل"؛ لأنه كلما طال مكان الغسل من العضو طالت الغرة والتحجيل، ولكن المشروع فقط أن يكون غسل اليدين في الوضوء إلى المرفقين ويستوعب المرفق بالشروع في العضد وغسل جزء منه، وغسل القدمين إلى الكعبين يستوعب الكعبين بالشروع في الساق، ولا يغسل العضد والساق في الوضوء، وفي الرواية الخرى ينقل عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن حلية المؤمن في الجنة تبلغ ما بلغ ماء الوضوء.
606;بی ﷺ اپنی امت کو اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کےدن انہیں دیگر امتوں کے ما بین شرف وفضیلت کی ایک مخصوص نشانی بخشے گا اس طور پر کہ جب انہیں پکارا جائے گا تووہ لوگوں کے سامنے حاضر ہونگے اور ان کے چہرےاور ہاتھ اور پیر روشنی سے چمک رہے ہوں گے، اوریہ سب وضو جیسی عظیم عبادت کے نتیجے میں ہوگا، وہ وضو جسے وہ اللہ کی رضا اور ثواب کی امید میں بار بار ان اعضاء شریفہ پر کرتے تھے، تو یہ ان کا خاص بڑا انعام اور بدلہ ہے۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی اس چمک کو بڑھانے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ ایسا کرے۔کیوں کہ دھلنے کی جگہیں جس قدر دراز ہوں گی اسی قدر روشنی اور چمک بھی لمبی ہوگی، کیوں کہ روشنی کا زیور وہاں تک پہونچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہونچا ہے۔ لیکن وضو میں مشروع صرف کہنی تک دونوں ہاتھوں کا دھلنا ہے اس لئے کہنی کو مکمل دھوئے گا بازو سے شروع کرتے ہوئے اور اس کے کچھ حصہ کو دھلتے ہوئے اسی طرح دونوں پاوں کو دھوئے گا دونوں ٹخنوں کومکمل دھوتے ہوئے پنڈلی سے شروع کرتے ہوئے، البتہ وضو میں بازو اور پنڈلی کا دھلنا مشروع نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ”جنت میں مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3368

 
 
Hadith   313   الحديث
الأهمية: إن الله -تعالى- يقول يوم القيامة: أين المتحابون بجلالي؟ اليوم أظلهم في ظلي يوم لا ظل إلا ظلي


Tema:

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا، آج کے دن جب کہ میرے سایے کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إِنَّ الله تَعَالى يَقُول يَوْمَ القِيَامَة: أَيْنَ المُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِي؟ اليَوم أُظِلُّهُم فِي ظِلِّي يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّي».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا، جب کہ آج کے دن میرے سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينادي الله -جل في علاه- يوم القيامة في أهل الموقف فيقول: (أين المتحابون بجلالي؟) والسؤال عنهم مع علمه بمكانهم وغيره من أحوالهم؛ لينادي بفضلهم في ذلك الموقف، ويُصرِّح به؛ لبيان عظمته، والمعنى: أين الذين تحابوا لجلالي وعظمتي لا لغرض سوى ذلك من دنيا أو نحوها، ثم يقول -تعالى-: (اليوم أظلهم في ظلي) وإضافة الظل إليه -تعالى- إضافة تشريف، والمراد ظل العرش، وجاء في غير رواية مسلم: "ظل عرشي" (يوم لا ظل إلا ظلي) أي لا يكون في ذلك اليوم  ظِلٌّ إلا ظِلُّ عرش الرحمن.
602;یامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل محشر کو آوا ز دے گا اور فرمائے گا: ” أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي؟“ کہ (میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟) وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں، اس سے واقف ہونے کے باوجود اللہ تعالی یہ سوال اس لیے کرے گا؛ تاکہ میدان حشر میں ان کے مقام ومرتبے کا اعلان کر دے اور یہ اعلان در اصل خود اللہ تعالی کی عظمت بیان کرنے کا ایک بہانہ ہوگا۔ اس طرح اس کے معنی یہ ہوں گے: کہاں ہیں وہ لوگ جو دنیوی سے مقاصد سے اوپر اٹھ کر میرے جلال اور عظمت کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ” الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي“ آج میں انھیں اپنے سایے میں رکھوں گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا سایے کی نسبت اپنی طرف کرنا، اضافت تشریفی ہے اور اس سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ مسلم کے علاوہ دیگر روایات میں ہے: میرے عرش کے سایے میں۔ ” يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي“ یعنی اس دن رحمٰن کے عرش کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3369

 
 
Hadith   314   الحديث
الأهمية: هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ به في النَّارِ مُنْذُ سبْعِينَ خَرِيفًا، فهو يَهْوِي فِي النَّارِ الآنَ حتى انتهى إلى قَعْرِهَا فَسَمِعْتُمْ وَجْبَتَهَا


Tema:

یہ ایک پتھر ہے، جو ستر سال پہلے دوزخ میں پھینکا گیا تھا اور وہ لگاتار دوزخ میں گر رہا تھا، یہاں تک کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا ہے، جس کی گڑگراہٹ تم نے سنی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كُنَّا مع رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذْ سَمِعَ وَجْبَةً، فقال: «هَلْ تَدْرُونَ ما هَذَا؟» قُلْنَا: اللهُ ورسولُهُ أَعْلَمُ. قال: «هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ به في النَّارِ مُنْذُ سبْعِينَ خَرِيفًا، فهو يَهْوِي فِي النَّارِ الآنَ حتى انتهى إلى قَعْرِهَا فَسَمِعْتُمْ وَجْبَتَهَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک گڑگراہٹ کی آواز سنائی دی، تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟“ ہم نےکہا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک پتھر ہے، جو ستر سال پہلے دوزخ میں پھینکا گیا تھا اور وہ لگاتار دوزخ میں گر رہا تھا، یہاں تک کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا ہے، جس کی گڑگراہٹ تم نے سنی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فسمعوا سقطة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: هل تدرون ما هذا؟ فقالوا: الله ورسوله أعلم. فقال: هذا صوت حجر رُمي به في النار من سبعين عاما، فهو ينزل في النار الآن حين انتهى إلى قعرها؛ فسمعتم صوت اضطراب النار من نزول الحجر إليها.
589;حابۂ کرام نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ انھوں نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اس پتھر کی آواز ہے، جسے ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا، وہ آگ میں نیچے جا رہا تھا کہ اب اس کی تہہ تک جا پہنچا، جس کی وجہ سے تم نے آگ کے اضطراب کی آواز سنی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3370

 
 
Hadith   315   الحديث
الأهمية: أَنَّ رَجُلا أَكَلَ عِندَ رَسُولِ اللهِ -صَلَى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِشِمَالِهِ، فقالَ: كُلْ بِيَمِينِك، قال: لَا أَسْتَطِيع. قَالَ: لَا اسْتَطعْتَ، مَا مَنَعَهُ إِلَّا الكِبر فَمَا رَفَعَهَا إِلَى فيه


Tema:

ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ: میں(دائیں ہاتھ سے) نہیں کھا سکتا۔ اس پر آپ ﷺ نے (اسے بددعا دیتے ہوئے) فرمایا: (اب) تو ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ اس نے محض تکبر کی وجہ سے انکار کیا تھا چنانچہ پھر وہ اپنے ہاتھ کو (شل ہوجانے کی وجہ سے) اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔

عن سلمة بن الأكوع -رضي الله عنه-: أن رجلا أكَلَ عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشماله، فقال: «كُلْ بيمينك» قال: لا أستطيع. قال: «لا استطَعْتَ» ما مَنَعَهُ إلا الكِبْر فما رَفَعَهَا إلى فِيهِ.

سلمہ بن اکوع - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ: میں(دائیں ہاتھ سے) نہیں کھا سکتا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تو ایسا کر بھی نہ سکے۔ اس نے محض تکبر کی وجہ سے انکار کیا تھا چنانچہ پھر وہ اپنے ہاتھ کو (شل ہوجانے کی وجہ سے) اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكل رجل عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بشماله تكبرا؛ فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: "كل بيمينك" فقال في عِناد: لا أستطيع. وهو غير صادق في هذا؛ فدعا عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- بقوله: "لا استطعت". فما استطاع أن يرفع يده إلى فمه، وذلك أنها أصيبت بشلل بدعاء النبي -صلى الله عليه وسلم- عليه؛ لتكبره ورده للأمر النبوي.
585;سول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ایک شخص ازراہ تکبر بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے کہا کہ: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے سرکشی دکھاتے ہوئے کہا کہ: میں ایسا نہیں کر سکتا۔ حالانکہ وہ اپنی اس بات میں سچا نہیں تھا۔ (یعنی اگر وہ دائیں ہاتھ سے کھانا چاہتا تو اس میں کوئی بات مانع نہیں تھی۔)۔ اس پر آپ ﷺ نے اس کو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ: تو نہ کر سکے۔ چنانچہ پھر وہ شخص اپنے ہاتھ کو اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا کیونکہ اس کے تکبر اور نبی ﷺ کے حکم کو رد کرنے کی بنا پر آپ ﷺ نے اس کے خلاف جو بددعا کی تھی اس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو چکا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3372

 
 
Hadith   316   الحديث
الأهمية: من دعا إلى هدى، كان له من الأجر مثل أجور من تبعه، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئًا، ومن دعا إلى ضلالة، كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئًا


Tema:

جس شخص نے کسی کو ہدایت کی طرف بُلایا اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والے کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی طرف کسی کو بلایا اُس کے اوپر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «مَن دَعَا إلى هُدى، كَان لَه مِنَ الأَجر مِثل أُجُور مَن تَبِعَه، لاَ يَنقُصُ ذلك مِن أُجُورِهِم شَيئًا، ومَنْ دَعَا إلى ضَلاَلَة، كان عَلَيه مِن الإِثْم مِثل آثَامِ مَن تَبِعَه، لاَ يَنقُصُ ذلك مِن آثَامِهِم شَيْئًا».

ابو ہريره رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "من دعا إلى هدى؛ كان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئاً"، من دعا إلى هدى: يعني بيّنه للناس ودعاهم إليه، مثل: أن يبين للناس أن ركعتي الضحى سنة، وأنه ينبغي للإنسان أن يصلي ركعتين في الضحى، ثم تبعه الناس وصاروا يصلون الضحى، فإن له مثل أجورهم من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً؛ لأن فضل الله واسع.
أو قال للناس مثلاً: اجعلوا أخر صلاتكم بالليل وتراً، ولا تناموا إلا على وتر إلا من طمع أن يقوم من آخر الليل فليجعل وتره في آخر الليل، فتبعه ناس على ذلك؛ فإن له مثل أجرهم، يعني كلما أوتر واحد هداه الله على يده؛ فله مثل أجره، وكذلك بقية الأعمال الصالحة.
وفي قوله -صلى الله عليه وسلم-: "من دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئاً"، أي إذا دعا إلى وزر وإلى ما فيه الإثم، مثل أن يدعو الناس إلى لهو أو باطل أو غناء أو ربا أو غير ذلك من المحارم، فإن كل إنسان تأثر بدعوته فإنه يُكتب له مثل أوزارهم؛ لأنه دعا إلى الوزر.
فالدعوة إلى الهدى والدعوة إلى الوزر تكون بالقول، كما لو قال أفعل كذا أفعل كذا، وتكون بالفعل خصوصاً من الذي يقتدى به من الناس، فإنه إذا كان يَقتدي به ثم فعل شيئاً فكأنَّه دعا الناس إلى فعله، ولهذا يَحتَجُّون بفعله ويقولون فعل فلان كذا وهو جائز، أو ترك كذا وهو جائز.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔ "من دعا إلى هدى": یعنی جسے نے ہدایت کو لوگوں کے سامنے واضح کیا اور اس کی طرف انہیں بلایا۔ مثلا وہ لوگوں کو بتائے کہ چاشت کی دو رکعت نماز سنت ہے اور یہ کہ انسان کو چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اگر لوگ اس کی بات مان کر چاشت کی نماز پڑھنا شروع کر دیں تو اسے ان کے اجر کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے کہ اس سے ان کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ کیونکہ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے۔ یا پھر اس نے لوگوں سے کہا کہ رات کو وتر کو اپنی آخری نماز بناؤ اور وتر پڑھے بغیر نہ سویا کرو، سوائے اس شخص کے جو رات کے آخری حصے میں اٹھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے۔ لوگوں نے اس پر اس کی اتباع شروع کر دی تو اسے ان کی طرح کا اجر ملے گا۔ یعنی جب بھی کوئی وتر پڑھے گا گویا اس شخص کو اللہ نے اس کے ہاتھ پر ہدایت دی اس لیے اسے اس کے برابر اجر ملے گا۔ اسی طرح دیگر نیک اعمال ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی“ یعنی جب اس نے کسی گناہ یا پھر ایسے کام کی طرف دعوت دی جس میں گناہ ہو مثلا وہ لوگوں کو لہو لعب و لغو، گانے بجانے یا سود وغیرہ جیسے حرام اشیاء کی طرف بلائے تو اس صورت میں جو انسان بھی اس کی دعوت سے متاثر ہو گا ان کا گناہ اس کے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا کیونکہ اس نے گناہ کی دعوت دی تھی۔ ہدایت اور گناہ کی طرف دعوت قول کے ذریعے بھی ہوتی ہے جیسے وہ کہے کہ تم اس طرح کرو یا تم ایسے کرو، اور فعل کے ذریعے بھی ہوتی ہے بطورِ خاص لوگوں میں سے اس شخص کے فعل سے جس کی اقتداء کی جاتی ہو۔ اگر وہ شخص ایسا ہو جس کی اقتداء کی جاتی ہو اور وہ کوئی کام کرے تو وہ گویا لوگوں کو اپنے اس فعل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس کے فعل کو دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلان نے ایسا کیا اس لیے یہ کام جائز ہے یا فلاں نے اس کام کو چھوڑ دیا چنانچہ یہ (اس کا چھوڑنا) جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3373

 
 
Hadith   317   الحديث
الأهمية: إن من شرار الناس من تدركهم الساعة وهم أحياء، والذين يتخذون القبور مساجد


Tema:

بد ترین لوگ جن پر قیامت آئے گی وہ ہیں جو اُس وقت باحیات ہوں گے اور وہ لوگ ہوں گے جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: "إن من شرار الناس من تُدركهم الساعة وهم أحياء، والذين يتخذون القبور مساجد".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بد ترین لوگ جن پر قیامت آئے گی وہ ہیں جو اُس وقت باحیات ہوں گے اور وہ لوگ ہوں گے جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عمن تقوم الساعة عليهم وهم أحياءٌ أنهم شرار الناس، ومنهم الذين يصلون عند القبور وإليها ويبنون عليها القباب، وهذا تحذيرٌ لأمته أن تفعل مع قبور أنبيائهم وصالحيهم مثل فعل هؤلاء الأشرار.
606;بی ﷺ ان لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اس وقت زندہ ہوں گے جب قیامت آئے گی اور وہ بد ترین لوگ ہوں گے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو قبروں کے پاس اور ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے اور ان پر قبّے بنائیں گے۔ اس حدیث میں ایک طرح سے آپ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات سے ڈرایا ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کے ساتھ وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو یہ بدترین لوگ کریں گے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3375

 
 
Hadith   318   الحديث
الأهمية: ما فرق هؤلاء؟ يجدون رقة عند محكمه، ويهلكون عند متشابهه


Tema:

ان لوگوں کا خوف کیسا ہے؟ محکم (واضح) نصوص سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور جب کوئی متشابہ نصوص سنتے ہیں تو ہلاک ہو جاتے ہیں (یعنی انکار کر بیٹھتے ہیں )

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أنه رأى رجلا انْتَفَضَ لما سمع حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم في الصفات -استنكارا لذلك– فقال: "ما فَرَقُ هؤلاء؟ يجدون رِقَّةً عند مُحْكَمِهِ، ويَهْلِكُونَ عند مُتَشَابِهِهِ" .

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ: انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جب اس نے اللہ کی صفات کے بارے میں نبی ﷺ کی ایک حدیث سنی تو - بطور انکار - اس پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ تو انہوں نے فرمایا:ان لوگوں کا خوف کیسا ہے؟ محکم (واضح) نصوص سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور جب کوئی متشابہ نصوص سنتے ہیں تو ہلاک ہو جاتے ہیں (یعنی انکار کر بیٹھتے ہیں)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينكر ابن عباس -رضي الله عنهما- على أناس ممن يحضر مجلسه من عامة الناس يحصل منهم خوفٌ عندما يسمعون شيئا من أحاديث الصفات ويرتعدون استنكارا لذلك، فلم يحصل منهم الإيمان الواجب بما صح عن رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وعرفوا معناه من القرآن وهو حق لا يرتاب فيه مؤمن، وبعضهم يحمله على غير معناه الذي أراده الله فيهلك بذلك.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی مجلس میں عوام الناس میں سے حاضر ہونے والے ایسے لوگوں پر نکیر کر ربے ہیں جو اللہ کی صفات کے بارے میں کوئی حدیث سنتے ہیں تو خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بطور انکار ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اس چیز پر واجب ایمان نہیں رکھتے جو رسول ﷺ سے صحیح ثابت ہے اور انہوں نے اس کے معنی کو قرآن سے جان لیا ہے۔ جو کہ برحق ہے جس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا۔اور بعض اسے اس معنی پر محمول کرتے ہیں جو اللہ کی مراد نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجا تا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3376

 
 
Hadith   319   الحديث
الأهمية: كان عمر -رضي الله عنه- يُدْخِلُنِي مع أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُم وَجَدَ في نفسه


Tema:

عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض کو یہ ناپسند گزرا۔

عن عبد الله ابن عباس -رضي الله عنهما- كان عمر -رضي الله عنه- يُدْخِلُنِي مع أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُم وَجَدَ في نفسه، فقال: لم يُدْخِلُ هذا معنا ولنا أبناءٌ مثله؟! فقال عمر: إنه من حَيْثُ عَلِمْتُمْ! فدعاني ذاتَ يومٍ فأَدَخَلَنِي مَعَهُمْ فما رأيتُ أنه دعاني يَوْمَئِذٍ إلا لِيُرِيَهُم، قال: ما تقولون في قول الله:(إذا جاء نصر الله والفتح)، [الفتح: 1]، فقال بعضهم: أَمَرَنَا نَحْمَدُ اللهَ ونَسْتَغْفِرُهُ إذا نصرنا وفَتَحَ علينا، وسكتَ بعضُهُم فَلَمْ يَقُلْ شيئًا، فقال لي: أكذلك تقولُ يا ابنَ عباس؟ فقلت: لا، قال: فما تقول؟ قلت: هو أَجَلُ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أَعْلَمَهُ له، قال: "إذا جاء نصر الله والفتح" وذلك علامةُ أجلِكَ، "فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا" فقال عمر -رضي الله عنه-: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إلَّا مَا تَقُولُ.

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے۔ ان میں سے کسی کو یہ ناپسند گزرا تو انہوں نے کہا کہ اسے مجلس میں ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔پھر انہوں نے مجھے ایک دن بلایا اور ان بدری صحابہ کے ساتھ بٹھا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے اس دن اس لیے بلایا ہے تاکہ انہیں دکھا سکیں۔ پھر اُن سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ ۔ ”إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ“ (الفتح:1)۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ: اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا ہے اور فرمایا: کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچے۔ جو کہ آپ کی وفات کی علامت ہو گی تو پھر آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجیے اور اس سے بخشش مانگا کیجیے ۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے علم کے مطابق بھی یہی معنی ہے جو تم نے بیان کیا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هدي عمر -رضي الله عنه- أنه يشاور الناس ذوي الرأي فيما يُشكِلُ عليه، وكان يُدخل مع أشياخ بدر وكبار الصحابة عبد الله بن عباس وكان صغير السن بالنسبة لهؤلاء، فغضبوا من ذلك، كيف يُدخل ابن عباس -رضي الله عنهما- ولا يُدخل أبناؤهم، فأراد عمرُ أن يريهم مكانة عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- من العلم والذكاء والفطنة، فجمعهم ودعاه، فعرض عليهم هذه السورة: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}، فانقسموا إلى قسمين لما سألهم عنها ما تقولون فيها؟ قسمٌ سكت، وقسمٌ قال: إن الله أمرنا إذا جاء النصر والفتح، أن نستغفر لذنوبنا، وأن نحمده ونسبح بحمده؛ ولكن عمر -رضي الله عنه- أراد أن يعرف ما مغزى هذه السورة، ولم يرد أن يعرف معناها من حيث الألفاظ والكلمات.
فسأل ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: ما تقول في هذه السورة؟ قال: هو أجل رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، يعني علامة قرب أجله، أعطاه الله آية: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} يعني فتح مكة، فإن ذلك علامة أجلك؛ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا} فقال: ما أعلم فيها إلا ما علمت.
وظهر بذلك فضل عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما-.
593;مر رضی اللہ عنہ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ صاحب الرائے لوگوں سے ان معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے جن میں آپ کو کوئی اشکال ہوتا اور بدری بزرگوں اور بڑے بڑے صحابہ کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی شامل کیا کرتے تھے جو ان کی بنسبت بہت کم سن تھے۔ وہ اس سے ناراض ہوئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور ان کے بیٹوں کو شامل نہیں کرتے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ انہیں عبد اللہ بن عباس کی علمی قدر و منزلت اور ذہانت و فطانت سے آگاہ کریں۔ انہوں نے انہیں جمع کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی بلایا اور ان پر اس سورت کو پیش کیا: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ (سورہ نصر) ترجمہ: جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے۔ تو اپنے رب کی تسبیح کرنے میں جُٹ جا، حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے۔‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس سورت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ تو چپ رہا اور ایک گروہ نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب نصرت اور مدد آ جائے تو ہم اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور اس کی حمد و تسبیح بیان کریں۔ تاہم عمر رضی اللہ عنہ اس سورت کا اصل مدعا جاننا چاہتے تھے اور ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ الفاظ و کلمات کا معنیٰ معلوم کریں۔ انہوں ںے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم اس سورت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت آپ ﷺ کو عطا کی کہ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} یعنی جب مکہ فتح ہو جائے گا تو یہ تمہاری وفات کی علامت ہو گی چنانچہ۔ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ ترجمہ:’’تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بے شک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے‘‘۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ نے کہا: مجھے بھی اس سورت کے بارے میں وہی کچھ معلوم ہے جو تم جانتے ہو۔ اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت واضح ہو گئی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3377

 
 
Hadith   320   الحديث
الأهمية: ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا


Tema:

کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے نہ ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے نہ ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يمر على الناس يوم إلا وملكان ينزلان، فيقول أحدهما: اللهم أعط من أنفق ماله في الخير كالطاعات وعلى العيال والضيفان عوضا، في الدنيا والآخرة، ويقول الآخر: اللهم أهلك البخيل الذي يمسك عما أوجب الله عليه من بذل المال فيه هو وماله.
604;وگوں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب دو فرشتے نہ اترتے ہوں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! جو اپنے مال کو خیر کے کاموں خرچ کرتا ہے جیسے طاعت وبندگی، اہل و عیال اور اپنے مہمانوں پر تو، تو اسے دنیا اور آخرت میں اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! بخیل کو اور اس کے مال کو ہلاک کر دے جو اپنے مال کو ان مصارف میں خرچ نہیں کرتا جن میں خرچ کرنا اللہ تعالی نے اس پر واجب کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3379

 
 
Hadith   321   الحديث
الأهمية: لقد تابت توبةً لو قُسِمَتْ بين سبعين من أهل المدينة لَوَسِعَتْهُم، وهل وَجَدَتْ أفضل من أن جَادَتْ بنفسها لله - عز وجل؟!


Tema:

اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر باشندوں میں بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔ کیا تم اس سے زیادہ بھی کوئی افضل بات پاتے ہو کہ اس نے اللہ عز و جل کے لیے اپنی جان ہی قربان کر دی۔؟!

عن أبي نُجَيد عمران بن حصين الخزاعي -رضي الله عنه- أن امرأة من جهينة أتت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهي حُبْلَى من الزنى، فقالت: يا رسول الله، أصبتُ حدًّا فَأَقِمْهُ عليَّ، فدعا نبيُّ الله -صلى الله عليه وسلم- وَلِيَّهَا، فقال: «أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فإذا وَضَعَتْ فَأْتِنِي» ففعل، فأمر بها نبي الله -صلى الله عليه وسلم- فَشُدَّتْ عليها ثيابها، ثم أمر بها فَرُجِمَتْ، ثم صلى عليها. فقال له عمر: تُصَلِّي عليها يا رسول الله وقد زنت؟ قال: «لقد تابت توبةً لو قُسِمَتْ بين سبعين من أهل المدينة لَوَسِعَتْهُم، وهل وَجَدَتْ أفضل من أن جَادَتْ بنفسها لله -عز وجل-؟!».

ابو نجید عمران بن حصین خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جو کہ زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ وہ کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں نے ایک ایسا گناہ کیا جس پر میں حد کی سزا کی مستحق ہوتی ہوں چنانچہ اسے میرے اوپر لاگو کیجئے۔ آپ ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور فرمایا: ”اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جن چکے تو میرے پاس لانا“۔ اس نے ایسے ہی کیا۔ آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس عورت کے کپڑے اس پر باندھ دیے گئے۔ پھر آپ ﷺ کےحکم سے اسے سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر باشندوں میں بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے۔ کیا تم اس سے زیادہ بھی کوئی افضل بات پاتے ہو کہ اس نے اللہ عز و جل کے لیے اپنی جان ہی قربان کر دی؟!“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاءت امرأة من جهينة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهي حاملٌ قد زنت رضي الله عنها، فأخبرته أنها قد أصابت شيئا يوجب عليها الحد؛ ليقيمه عليها، فدعا النبي صلي الله عليه وسلم وليها، وأمره أن يحسن إليها، فإذا وضعت فليأت بها إليه، فلما وضعت أتى بها وليها إلى النبي صلي الله عليه وسلم، فلفت ثيابها وربطت لئلا تنكشف، ثم أمر بها فرجمت بالحجارة حتى ماتت، ثم صلى عليها النبي صلى الله عليه وسلم ودعا لها دعاء الميت، فقال له عمر رضي الله عنه: تصلي عليها يا رسول الله وقد زنت؟ فأخبره النبي صلى الله عليه وسلم أنها قد تابت توبة واسعة لو قسمت على سبعين من المذنبين لوسعتهم ونفعتهم، فإنها جاءت سلمت نفسها من أجل التقرب إلى الله عز وجل والخلوص من إثم الزنى؛ فهل هناك أعظم من هذا؟.
580;ہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی جو حاملہ تھی۔ اس نے زنا کیا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو بتایا کہ اس نے ایک ایسی چیز کا ارتکاب کیا ہے جس سے اس پر حد کی سزا واجب ہوتی ہے۔ (اس کے بتانے کا مقصد یہ تھا) کہ آپ ﷺ اس پر یہ حد نافذ کریں۔ نبی ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور اسے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ جب وہ بچہ جن دے تو اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آئے۔جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کا ولی اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آیا۔ اس کے کپڑے لپیٹ کر باندھ دیے گئے تا کہ وہ ننگی نہ ہو اور پھر آپ ﷺ کے حکم سے اسے سنگسار کر دیا گیا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ پھر نبی ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور اس کے لیے وہ دعا مانگی جو مرنے والے کے لیے مانگی جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا؟۔ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس نے تو اتنی بڑی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ستر گناہ گاروں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو ان کے لیے کافی ہوجائے۔ اس نے تو اللہ کی رضا کے لیے اور زنا کے گناہ سے خلاصی پانے کے لیے اپنی جان ہی دے دی۔ کیا اس سے بھی کوئی بڑا کام ہو سکتا ہے۔؟   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3380

 
 
Hadith   322   الحديث
الأهمية: أخوف ما أخاف عليكم: الشرك الأصغر، فسئل عنه، فقال: الرياء


Tema:

مجھے تمہارے بارے میں جس شے کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری۔

عن محمود بن لبيد -رضي الله عنه- مرفوعاً: "أَخْوَفُ ما أخاف عليكم: الشرك الأصغر، فسئل عنه، فقال: الرياء".

محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”مجھے تمہارے بارے میں جس شے کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔ آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أنه يخاف علينا، وأكثر ما يخاف علينا من الشرك الأصغر، وذلك لما اتصف به -صلى الله عليه وسلم- من كمال العطف والرحمة بأمته، والحرص على ما يصلح أحوالهم، ولما عرفه من قوة أسباب الشرك الأصغر الذي هو الرياء وكثرة دواعيه، فربما دخل على المسلمين من حيث لا يعلمون فيضر بهم؛ لذا حذرهم منه وأنذرهم.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ آپ ہمارے بارے میں خوف محسوس کرتے تھے، اور آپ کو ہمارے متعلق جس چیز کا سب سے زیادہ خوف تھا وہ شرک اصغر ہے، کیونکہ آپ ﷺ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق اور مھربان تھے اور آپ ﷺ ہر ایسی بات کے حریص تھے جو ان کی بہتری کا سبب ہو۔ اور اس وجہ سے کہ آپ ﷺ کو شرک اصغر یعنی ریاکاری کے اسباب کی قوت و طاقت اور اس کے محرکات کی کثرت کی جانکاری تھی۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ مسلمان انجانے میں اس کا شکار ہو جائیں اور یہ ان کو نقصان پہنچائے۔ لھٰذا آپ ﷺ نے انہیں اس سے متنبہ فرمایا اور خبردار کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3381

 
 
Hadith   323   الحديث
الأهمية: الطيرة شرك، الطيرة شرك، وما منا إلا، ولكن الله يذهبه بالتوكل


Tema:

بدشگونی لینا شرک ہے۔ بد شگونی لینا شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: "الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وما منا إلا، ولكنَّ الله يُذْهِبُهُ بالتوكل".
(وما منا إلا، ولكنَّ الله يُذْهِبُهُ بالتوكل) من قول ابن مسعود وليس مرفوعًا.

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” بدشگونی لینا شرک ہے۔ بد شگونی لینا شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے“۔
” اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی اسے توکل سے دور فرمادیتا ہے“ یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے نہیں بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يخبر ويكرر الإخبار؛ ليتقرر مضمونه في القلوب، أن الطيرة -وهي التشاؤم الذي يمنع الشخص من فعل أو يدفعه إليه- شرك؛ لما فيها من تعلق القلب على غير الله وسوء الظن به.
وقال ابن مسعود: وما منا من أحد إلا وقد وقع في قلبه شيء من التشاؤم، ولكن الله يُذهب هذا التشاؤم بالتوكل والاعتماد عليه، وهذا -والله أعلم- على سبيل التواضع والمبالغة، مع بيان العلاج إذا حصل ذلك.
585;سول اللہ ﷺ خبر دے رہے ہیں اور اسے مکرر کہ رہے ہیں تاکہ اس کا مفہوم اچھی طرح دلوں میں بیٹھ جائے کہ 'طیرۃ' جس سے مراد بدشگونی ہے جو انسان کو کسی کام سے روکتی ہے یا پھر اسے اس پر آمادہ کرتی ہے، شرک ہے کیونکہ اس میں دل غیر اللہ کے ساتھ لگتا ہے اور اللہ سے بد گمانی پیدا ہوتی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کے دل میں بدشگونی پیدا ہوتی ہے تاہم اللہ تعالی اپنے اوپر توکل اور اعتماد کی وجہ سے اس بدشگونی کو زائل کر دیتا ہے۔ اور یہ( بیان)۔ واللہ اعلم۔ تواضع اور مبالغہ کے طور پر ہے اور ساتھ ہی ساتھ بدشگونی ہونے پر اس کےعلاج کا (بھی) ذکر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3383

 
 
Hadith   324   الحديث
الأهمية: أليس يحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ ويحلون ما حرم الله فتحلونه؟ فقلت: بلى، قال: فتلك عبادتهم


Tema:

کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اور جو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ: کیوں نہیں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے۔

عن عدي بن حاتم -رضي الله عنه-: "أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ هذه الآية: "اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ" فقلت له: إنا لسنا نعبدهم، قال: أليس يُحَرِّمُونَ ما أحل الله فتُحَرِّمُونَهُ؟ ويُحِلُّونَ ما حَرَّمَ الله فتُحِلُّونَهُ؟ فقلت: بلى، قال: فتلك عبادتهم".

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ’’اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ‘‘ (التوبه: 31) ترجمہ:”انہوں نے اپنےعلماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ اللہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں“۔ (عدی کہتے ہیں) میں نے آپ ﷺ سے کہا: ہم (زمانۂ کفر میں) ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اورجو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے؟‘‘میں نے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حينما سمع هذا الصحابي الجليل تلاوة الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لهذه الآية التي فيها الإخبار عن اليهود والنصارى: بأنهم جعلوا علماءهم وعبّادهم آلهة لهم يشرعون لهم ما يخالف تشريع الله فيطيعونهم في ذلك، استشكل معناها، لأنه كان يظن أن العبادة مقصورة على السجود ونحوه، فبين له الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أن من عبادة الأحبار والرهبان: طاعتهم في تحريم الحلال وتحليل الحرام، خلاف حكم الله -تعالى- ورسوله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.
580;ب اس جلیل القدر صحابی نے رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا جس میں یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا بایں طور کہ وہ ان کے لیے ایسے قوانین وضع کرتے جو اللہ کی شریعت کے مخالف ہوتے اور وہ اس میں ان کی اطاعت کرتے، تو انہیں اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں اشکال ہوا کیونکہ ان کے خیال میں عبادت صرف سجدے وغیرہ تک محصور تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ بھی احبار و رہبان کی عبادت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف حلال کو حرام ٹھہرانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں ان کی اطاعت کی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3384

 
 
Hadith   325   الحديث
الأهمية: جاء حبر من الأحبار إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا محمد، إنا نجد أن الله يجعل السماوات على إصبع، والأرضين على إصبع


Tema:

ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: "جاء حَبْرٌ من الأحبار إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا محمد، إنا نجد أن الله يجعل السماوات على إِصْبَعٍ، والأَرَضَينَ على إِصْبَعٍ، والشجر على إِصْبَعٍ، والماء على إِصْبَعٍ، والثَّرَى على إِصْبَعٍ، وسائر الخلق على إِصْبَعٍ، فيقول: أنا الملك، فضحك النبي -صلى الله عليه وسلم- حتى بَدَتْ نَوَاجِذَهُ تَصْدِيقًا لقول الحبر، ثم قرأ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ).
وفي رواية لمسلم: "والجبال والشجر على إِصْبَعٍ، ثم يَهُزُّهُنَّ فيقول: أنا الملك، أنا الله".
وفي رواية للبخاري: "يجعل السماوات على إِصْبَعٍ، والماء والثَّرَى على إِصْبَعٍ، وسائر الخلق على إِصْبَعٍ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی کو ایک انگلی پر، مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا:میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ ہنس پڑے، جس سے آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ در اصل آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ”اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی اور حال یہ ہے کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن“۔
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ”اور پہاڑ و درخت ایک انگلی پر۔ پھر انھیں حرکت دیتے ہوئے فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں! میں اللہ ہوں!“
اور بخاری کی روایت میں ہے: ”آسمانوں کو ایک انگلی پر، پانی و مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن مسعود -رضي الله عنه- أن رجلا من علماء اليهود جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وذكر له أنهم يجدون في كتبهم أن الله -سبحانه- يوم القيامة يجعل السموات على إصبع، والأرضين على إصبع، والشجر على إصبع، والثرى على إصبع، وفي رواية: والماء على إصبع، وسائر المخلوقات على إصبع، من أصابعه -جل وعلا-، وهي خمسة كما في الروايات الصحيحة، وليست كأصابع المخلوقين، وأنه يظهر شيئا من قدرته وعظمته عزوجل فيهزهن ويعلن ملكه الحقيقي، وكمال تصرفه المطلق وألوهيته الحقة.
فضحك النبي -صلى الله عليه وسلم- حتى بدت نواجذه تصديقا لقول الحبر، ثم قرأ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ}.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک یہودی عالم نے نبی ﷺ کے پاس آکر بتایا کہ وہ اپنی کتابوں میں پاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمینوں کو، ایک انگلی پر درخت کواور ایک انگلی پر مٹی کو اٹھائے گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پانی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اٹھائے گا۔ یہ کل پانچ انگلیاں ہوئیں جیسا کہ صحیح روایات میں موجود ہے؛ البتہ اللہ کی انگلیاں مخلوقات کی انگلیوں کی طرح نہیں ہیں۔ پھر اللہ عز و جل اپنی عظمت و قدرت کا قدرے اظہار کرے گا۔ چنانچہ وہ انھیں حرکت دے گا اور اپنی حقیقی بادشاہت، مطلق کمالِ تصرف اورالوہیتِ حقہ کا اعلان کرے گا! چنانچہ آپ اس کی بات کی تصدیق کے طور پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ”اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہیے تھی اور حال یہ ہے کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3386

 
 
Hadith   326   الحديث
الأهمية: يطوي الله السماوات يوم القيامة، ثم يأخذهن بيده اليمنى، ثم يقول: أنا الملك أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟ ثم يطوي الأرضين السبع، ثم يأخذهن بشماله، ثم يقول: أنا الملك، أين الجبارون؟ أين المتكبرون


Tema:

روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو متکبر بنے پھرتے تھے؟ پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے تھے؟

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "يَطْوِي الله السماوات يوم القيامة، ثم يَأْخُذُهُنَّ بيده اليمنى، ثم يقول: أنا الملك أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟ ثم يَطْوِي الأَرَضِينَ السبع، ثم يأخذهن بشماله، ثم يقول: أنا الملك، أين الجبارون؟ أين المتكبرون؟".

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو متکبر بنے پھرتے تھے؟ پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے تھے؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن عمر -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبرهم بأن الله -عز وجل- سوف يطوي السموات السبع يوم القيامة ويأخذهن بيده اليمنى، ويطوي الأرضين السبع ويأخذهن بيده الشمال، وأنه كلما طوى واحدة منهن نادى أولئك الجبارين والمتكبرين مستصغرا شأنهم معلنا أنه هو صاحب الملك الحقيقي الكامل الذي لا يضعف ولا يزول، وأن كل من سواه من ملك ومملوك وعادل وجائر زائل وذليل بين يديه عزوجل، لا يسأل عما يفعل وهم يسألون.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیں بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرام کو بتایا کہ قیامت کے دن اللہ عز وجل ساتوں آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور یہ کہ وہ جب بھی ان میں سے کسی کو لپیٹے گا تو ان سرکشوں اور متکبروں کو تحقیر آمیز لہجے میں پکار کر اعلان کرے گا کہ وہی حقیقی و کامل بادشاہت کا مالک ہے، جس میں نہ کوئی کمزوری آتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی ختم ہوتی ہے اور یہ کہ اس کے سوا ہر بادشاہ، غلام، انصاف پرور اور ظالم سب ختم ہو جانے والے اور اس کے سامنے بے حیثیت ہیں۔ اللہ اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب ده نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب ده ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3387

 
 
Hadith   327   الحديث
الأهمية: كنت أغسل الجنابة من ثوب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فيخرج إلى الصلاة، وإن بقع الماء في ثوبه


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو دھو ڈالتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے؛ حالاںکہ پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے پر موجود ہوتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ((كُنْت أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَيَخْرُجُ إلَى الصَّلاةِ، وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ)).

وَفِي رواية: ((لَقَدْ كُنْتُ أَفْرُكُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَرْكاً، فَيُصَلِّي فِيهِ)).

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے؛ حالاںکہ پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے میں موجود ہوتے۔
ایک اور روایت میں ہے: میں رسول الله ﷺ کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیتی تھی اور آپ ﷺ اسے پہن کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تذكر عائشة -رضي الله عنها-: أنه كان يصيب ثوب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- المني من الجنابة، فتارة يكون رطبا فتغسله من الثوب بالماء، فيخرج إلى الصلاة، والماء لم يجف من الثوب، وتارة أخرى، يكون المني يابسًا، وحينئذ تفركه من ثوبه فركًا، فيصلى فيه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑے کو جنابت کی وجہ سے منی لگ جاتی۔ بعض اوقات یہ گیلی ہوتی تو وہ پانی کے ذریعے اسے کپڑے سے صاف کر دیتیں۔ پانی ابھی کپڑے سے سوکھا نہیں ہوتا تھا کہ آپ ﷺ اسی حالت میں نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ بعض اوقات منی سوکھی ہوتی، اس صورت میں وہ اسے کھرچ کر کپڑے سے اتار دیتیں اور آپ ﷺ اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3388

 
 
Hadith   328   الحديث
الأهمية: انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقلنا: أنت سيدنا، فقال السيد الله -تبارك وتعالى-


Tema:

میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے سید ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا ”سید تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔

عن عبد الله بن الشخير -رضي الله عنه- قال: "انطلقت في وفد بني عامر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقلنا: أنت سيدنا. فقال السيد الله -تبارك وتعالى-. قلنا: وأَفْضَلُنَا فَضْلًا وأَعْظَمُنْا طَوْلًا. فقال: قولوا بقولكم أو بعض قولكم، ولا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشيطان".

عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بنو عامر کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، تو ہم نے کہا: آپ ﷺ ہمارے سید ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا ” سید تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔“ ہم نے کہا: آپ ﷺہم میں سب سے فضیلت والے اور صاحب جود و سخا ہیں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا: ” تم اس طرح کی بات کہہ سکتے ہو۔ مگر کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنا لے“ ( کہ کوئی ایسی بات کہہ گزرو، جو میری شان کے مطابق نہ ہو)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما بالغ هذا الوفد في مدح النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- نهاهم عن ذلك؛ تأدبًا مع الله -سبحانه- وحماية للتوحيد، وأمرهم أن يقتصروا على الألفاظ التي لا غلوّ فيها ولا محذور؛ كأن يدعوه بمحمد رسول الله، كما سماه الله -عز وجل-، أو: نبي الله، أو: أبا القاسم، وحذرهم من أن يتخذهم الشيطان وكيلًا عنه في الأفعال التي يوسوس بها لهم.
575;س وفد میں شامل لوگوں نے جب نبی کریم ﷺ کی مدح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا، تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ادب اور اس کی توحید کے تحفظ کے پیش نظر ان کو اس سے منع فرمادیا اور یہ حکم دیا کہ وہ ایسے الفاظ ہی استعمال کریں، جن میں غلو اور گناہ نہ ہو۔ مثلا آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کہہ کر پکاریں، جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی نام سے پکارا ہے۔ آپﷺ نے انھیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں شیطانی انھیں وسوسہ اندازی کے لیے اپنا وکیل نہ بنا لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3389

 
 
Hadith   329   الحديث
الأهمية: إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فليكن أولَ ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله


Tema:

تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لما بعث معاذا إلى اليمن قال له: "إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فليكن أولَ ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله" -وفي رواية: "إلى أن يوحدوا الله-، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فَتُرَدُّ على فقرائهم، فإن هم أطاعوك لذلك فإياك وكَرَائِمَ أموالِهم، واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب".

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے تم انھیں اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم انھیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان میں سے اصحابِ ثروت سے وصول کر کے انہی میں سے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لما وجه معاذ بن جبل -رضي الله عنه- إلى إقليم اليمن داعيا إلى الله ومعلما، رسم له الخطة التي يسير عليها في دعوته، فبين له أنه سيواجه قوما أهل علم وجدَل من اليهود والنصارى؛ ليكون على استعداد لمناظرتهم ورد شبههم، ثم ليبدأ في دعوته بالأهم فالأهم، فيدعو الناس إلى إصلاح العقيدة أولا؛ لأنها الأساس، فإذا انقادوا لذلك أمرهم بإقام الصلاة، لأنها أعظم الواجبات بعد التوحيد، فإذا أقاموها أمر أغنياءهم بدفع زكاة أموالهم إلى فقرائهم؛ مواساة لهم وشكرا لله، ثم حذّره من أخذ جيد المال؛ لأن الواجب الوسط، ثم حثّه على العدل وترك الظلم؛ لئلا يدعو عليه المظلوم ودعوتُه مستجابة.
606;بی ﷺ نے جب معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کو یمن کے ایک علاقے میں داعی اور معلم بنا کر بھیجا تو انہیں دعوت دینے کے سلسلے میں ایک لائحہ عمل فراہم کیا۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ان کا سامنا یہود و نصاری کے ایک ایسے گروہ سے ہوگا جو اہل علم اور بحث کرنے والے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے اور ان کے شبہات کو دور کرنے کے لیے پوری طرح تیار رہیں۔ پھر آپ نے ان کو تلقین کی کہ اپنی دعوت کا آغاز سب سے اہم چیز کے ساتھ کریں اور اس کے بعد ان چیزوں کی دعوت دیں جو اس سے کم اہم ہوں۔چنانچہ لوگوں کو سب سے پہلے عقیدے کی درستگی کی دعوت دیں کیوں کہ یہ بنیاد ہے۔ جب وہ ان کی بات کو مان لیں تو پھر انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیں کیوں کہ یہ توحید کے بعد واجبات میں سے سب سے بڑا واجب ہے۔ جب وہ نماز کو قائم کرنے لگ جائیں تو ان کے امیر لوگوں کو اپنے اموال کی زکوۃ نکال کر کے اپنے فقراء کو دینے کا حکم دیں تاکہ فقراء کی دلجوئی ہو سکے اور اللہ کا شکر ادا ہو سکے۔پھر آپ ﷺ نے معاذ بن جبل کو اس بات سے منع کیا کہ وہ (بطورِ زکوۃ) ان کا عمدہ مال لیں کیوں کہ فرض درمیانہ مال ادا کرنا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عدل کرنے اور ظلم کو ترک کرنے کی ترغیب دی تاکہ یہ نہ ہو کہ کوئی مظلوم ان کے خلاف دعا کردے کیوں کہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہو کر رہتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3390

 
 
Hadith   330   الحديث
الأهمية: ارفع رأسك وقل يُسمع، وسل تُعط، واشفع تُشفَّع


Tema:

اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم-: "أنه يأتي فيسجد لربه ويحمده [لا يبدأ بالشفاعة أولا]، ثم يقال له: "ارفع رأسك وقل يُسمع، وسَلْ تُعط، واشفع تُشفَّع".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: نبی ﷺ نے بتلایا کہ ’’آپ ﷺ (روز قیامت) اپنے رب کے سامنے آکر سجدہ ریز ہو جائیں گے اور اس کی حمد بیان کریں گے (یعنی پہلے شفاعت نہیں کریں گے) پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا: ”اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأتي رسول الله –صلى الله عليه وسلم -  يوم القيامة فيسجد لله، ويدعو، ثم يأذن الله له في الشفاعة العظمى، ويقول له ربه: سل تعط واشفع تشفع، أي سؤالك مقبول وشفاعتك مقبولة.
585;وز قیامت رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں گے اور اللہ کو سجدہ کریں گے اور اس سے دعا کریں گے۔ پھر اللہ تعالی آپ ﷺ کو شفاعت عظمی کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے کہے گا: مانگیں، آپ کو دیا جائے گا، شفاعت کریں، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی یعنی آپ کا سوال قابل قبول اور آپ کی شفاعت مقبول ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3393

 
 
Hadith   331   الحديث
الأهمية: أولئكِ إذا مات فيهم الرجل الصالح أو العبد الصالح بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئكِ شرار الخلق عند الله


Tema:

وہ ایسے لوگ تھے کہ اگر اُن میں سے کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدترین ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: "أن أم سلمة ذكرت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- كنيسة رأتها بأرض الحبشة وما فيها من الصور، فقال: أولئك إذا مات فيهم الرجل الصالح أو العبد الصالح بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله".

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے ایک گرجا گھر کا ذکر کیا جس کو انھوں نے حبشہ کے ملک میں دیکھا ،اس میں جو تصاویر دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور پھر اس کی تصویر اس میں رکھتے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن أمّ سلمة وصفت عند النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وهو في مرض الموت ما شاهدته في معبد النصارى من صور الآدميّين، فبين -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- السبب الذي من أجله اتخذوا هذه الصور؛ وهو الغلو في تعظيم الصالحين؛ مما أدى بهم إلى بناء المساجد على قبورهم ونصب صورهم فيها، ثم بيّن حكم من فعل ذلك بأنهم شرار الناس؛ لأنهم جمعوا بين محذورين في هذا الصنيع هما: فتنة القبور باتخاذها مساجد، وفتنة تعظيم التماثيل مما يؤدي إلى الشرك.
575;م سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے (جب آپ ﷺ مرض الموت میں مبتلا تھے) نصاریٰ کے گرجوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان میں موجود آدمیوں کی تصویروں کے حوالے سے بات کی جو انھوں نے وہاں دیکھی تھیں۔تو رسول اللہﷺ نے ان تصویروں کا سبب اور وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کا اپنے صلحاء کی تعظیم میں غلو ہے، جس نے انھیں اس نتیجہ پر پہنچادیا کہ وہ ان کی قبروں پر عبادت گاہیں بنائیں اور پھر ان کے اندر ان کی تصویریں لگائیں۔ پھر اس کا حکم بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنھوں نے ایسا کیا وہ بدترین لوگ ہیں کیوں کہ انھوں نے دو ایسی چیزوں کو جمع کر دیا جن سے بچنا ضروری تھا؛ ایک، قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا فتنہ اور دوسرا تماثیل (مجسموں) کی تعظیم کا فتنہ جو شرک کی طرف لے جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3394

 
 
Hadith   332   الحديث
الأهمية: إياكم والغلو؛ فإنما أهلك من كان قبلكم الغلو


Tema:

غلو سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاک کیا ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إياكم والغُلُوَّ؛ فإنما أهلك من كان قبلكم الغُلُوُّ".

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاک کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهانا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث عن الغلو في الدين وهو مجاوزة الحد فيه؛ لئلا نهلك كما هلكت الأمم السابقة حينما غلو في دينهم وتجاوزوا الحد في عبادتهم.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں دین میں غلو کرنے سے منع فرما رہے ہیں۔ غلو سے مراد ہے دینی معاملات میں حد سے تجاوز کرنا۔اور ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں ہم بھی سابقہ امتوں کی طرح ہلاک نہ ہو جائیں جب انہوں نے اپنے دین میں غلو کیا اور اپنی عبادت میں حد سے تجاوز کر گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3395

 
 
Hadith   333   الحديث
الأهمية: كنت عند سعيد بن جبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقض البارحة؟ فقلت: أنا، ثم قلت: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لدغت


Tema:

میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، تو انھوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا، جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا۔ پھر میں نے کہا: میں اس وقت نماز میں نہیں تھا؛ کیوں کہ مجھے کسی زہریلے جانور نے ڈس لیا تھا۔

عن حُصين بن عبد الرحمن قال: كنتُ عند سعيد بن جُبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقَضَّ البارحة؟ فقلتُ: أنا، ثم قلتُ: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لُدغْتُ، قال: فما صنعتَ؟ قلت: ارتقيتُ، قال: فما حَمَلك على ذلك؟ قلت: حديث حدَّثَناه الشعبي، قال: وما حدَّثَكم؟ قلتُ حدثنا عن بريدة بن الحُصيب أنه قال: "لا رُقْية إلا مِن عَيْن أو حُمَة"، قال: قد أحسَن مَن انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال:
"عُرضت عليّ الأُمم، فرأيتُ النبي ومعه الرَّهط والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رُفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمَّتي، فقيل لي: هذا موسى وقومه، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه أمَّتك، ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منْزله، فخاض الناس في أولئك؛ فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحِبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلِدُوا في الإسلام فلم يشركوا بالله شيئا، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبروه، فقال: هم الذين لا يَسْتَرقون، ولا يَكْتَوُون، ولا يَتَطَيَّرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عُكاشة بن مِحصَن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، قال: أنت منهم، ثم قام جل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: سَبَقَك بها عكاشة".

حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ: میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا: میں اس وقت نماز میں نہیں تھا کیونکہ میں (کسی زہریلے بچھو کے ذریعہ) ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: جھاڑ پھونک کیا۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس چیز نے اس بات پر ابھارا؟ میں نے کہا: شعبی کی بیان کردہ ایک حدیث نے۔ انہوں نے کہا: شعبی نے کیا بیان کیا؟ میں نے کہا: ہم سے انہوں نے بریدہ بن حُصیب سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ انہوں نے کہا: جو کچھ تم نے سنا ٹھیک سنا۔ لیکن مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کردہ حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ مجھ سے کہا گیا کہ: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے، اور کچھ لوگ کہنے لگے: شاید کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت پائی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام میں ہوئی اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ اور بہت سی باتیں لوگوں نے کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور آپ کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، داغ کر علاج نہیں کرتے اور بد شگونی و فال نہیں لیتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عکاشہ تم سے بازی لے گئے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا حُصين بن عبد الرحمن -رحمه الله- عن محاورة جرت بينه وبين سعيد بن جبير -رحمه الله- في شأن الرقية، وذلك أن حصينًا لدغته عقرب وارتقى منها بالرقية المشروعة، ولما سأله سعيد عن دليله أخبره بحديث الشعبي الذي يبيح الرقية من العين والسم، فامتدحه سعيد على ذلك، ولكنه روى له حديثًا يحبذ ترك الرقية، هو حديث ابن عباس الذي يتضمن الصفات الأربع التي من اتصف بها استحق الجنة بلا حساب ولا عذاب، وهي عدم طلب الرقية، وعدم الاكتواء، وعدم التشاؤم، وصدق الاعتماد على الله -تعالى- ولما طلب عكاشة من النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن يدعو له أن يكون منهم أخبره بأنه معهم، ولما قام رجل آخر لنفس الغرض تلطف معه النبي -صلى الله عليه وسلم- في المنع سدًّا للباب وقطعًا للتسلسل.
581;صین بن عبد الرحمٰن رحمہ اللہ نے جھاڑ پھونک سے متعلق اپنے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے مابین ہونے والی گفتگو کو بیان کیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ حصین کو بچھو نے ڈس لیا اور انھوں نے مشروع رقیہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کیا۔ جب سعید نے ان سے دلیل طلب کی، تو انھوں نے شعبی کی وہ حدیث بیان کی، جو نظر بد اور زہر کے لیے جھاڑ پھونک کو مباح قرار دیتی ہے۔ سعید نے اس پر ان کی تعریف کی، لیکن اس کے ساتھ ان کے لیے ترکِ رقیہ کو بہتر قرار دینے والی حدیث بیان کی۔ وہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے، جس میں چار صفات سے متصف لوگوں کو حساب و عذاب کے بغیر جنت کا مستحق بتایا گیا ہے، جو درج ذیل ہیں:جھاڑ پھونک سے اجتناب کرنا، داغنے کے علاج سے پرہیز کرنا، بد فالی سے دور رہنا اور اللہ تعالیٰ پر سچا بھروسہ کرنا۔ جب عکاشہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی، تو آپ نے بتایا کہ تم انھیں میں سے ہو۔ لیکن جب یہی گزارش دوسرے صحابی نے کی، تو آپ نے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے منع کر دیا؛ تاکہ اس سلسلے کا سد باب کیا جا سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3396

 
 
Hadith   334   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سئل عن النُّشرة؟ فقال: هي من عمل الشيطان


Tema:

رسول اللہ ﷺ سے نُشرَہ کے بارےمیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطانی عمل ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سئل عن النُّشْرَةِ؟ فقال: هي من عمل الشيطان.

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نُشرَہ ( زمانۂ جاہلیت کا ایک منتر ہے جس سے آسیب زدہ لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ شیطانی عمل ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- سئل عن علاج المسحور على الطريقة التي كانت تعملها الجاهلية، مثل: حل السحر بالسحر ما حكم ذلك، فأجاب -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بأنه من عمل الشيطان أو بواسطته؛ لأنه يكون بأنواع سحرية واستخداماتٍ شيطانيةٍ، فهي شركية ومحرمة.
أما النشرة الجائزة: فهي فك السحر بالرقية أو بالبحث عنه، وفكه باليد مع قراءة القرآن أو بالأدوية المباحة.
585;سول اللہ ﷺ سے جادو کے علاج کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جیسے جاہلیت میں علاج کیا جاتاتھا مثلاً جادو کا علاج جادو کے ذریعے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ یہ شیطانی عمل ہے یا اس کے واسطے سے ہے کیوں کہ اس میں بہت ساری جادو کی اقسام اور شیطانی خدمات کا استعمال ہوتا ہے، لہذا یہ شرکیہ اور حرام عمل ہے۔ اور ’’جائز نشرہ‘‘ جادو کا ــــــــــ دم کے ذریعہ، یا اس کا کھوج کرکے توڑنا ہے، اسی طرح اسے ہاتھ کے ذریعہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ یا جائز ادویات سے توڑنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3402

 
 
Hadith   335   الحديث
الأهمية: لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم؛ إنما أنا عبد، فقولوا: عبد الله ورسوله


Tema:

میری تعریف میں ایسے حد سے نہ گزرو، جیسے عیسائی لوگ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں حد سے گزر گئے۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں۔ اس لیے یوں کہو کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «لا تُطْروني كما أَطْرت النصارى ابنَ مريم؛ إنما أنا عبده، فقولوا: عبد الله ورسوله».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری تعریف میں ایسے حد سے نہ گزرو، جیسے عیسائی لوگ عیسی ابن مریم (علیہ السلام) کی تعریف میں حد سے گزر گئے۔ میں تو محض ایک بندہ ہوں۔ اس لیے یوں کہو کہ یہ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حرصاً منه على توحيد الله -تعالى-، وخوفاً على أمته من الشرك الذي وقعت فيه الأمم السابقة، حذَّرها من الغلو فيه، ومجاوزة الحد في مدحه مثل وصفه بأوصاف الله -تعالى- وأفعاله الخاصة به، كما غلت النصارى في المسيح بوصفه بالألوهية والبنوة لله -تعالى-، فوقعت في الشرك كما قال تعالى: {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ} ثم قال: «فإنما أنا عبده، فقولوا عبد الله ورسوله» أي: فصفوني بالعبودية والرسالة كما وصفني الله -تعالى- بذلك، ولا تتجاوزوا بي حدود العبودية إلى مقام الألوهية أو الربوبية كما فعلت النصارى، فإن حق الأنبياء العبودية والرسالة، أما الألوهية فإنها حق الله وحده، ومع هذا التحذير فقد وقع بعض الناس فيما حذر منه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- منه، فاحذر من أن تكون منهم.
606;بی ﷺ نے اللہ کی توحید کے اثبات کی حرص اور اس اندیشے کے تحت کہ کہیں آپ ﷺ کی امت بھی اس شرک میں مبتلا نہ ہوجائے، جس میں سابقہ امتیں مبتلا ہوئیں، اپنے بارے میں غلو کرنے سے منع فرمایا اور اس بات سے روکا کہ آپ ﷺ کی تعریف میں حد سے تجاوز کیا جائے۔ مثلا آپ ﷺ کو اللہ کے اوصاف اور اس کے ساتھ خاص افعال کے ساتھ متصف کیا جائے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا کہ انہیں الوہیت اور اللہ تعالی کے بیٹے ہونے کے وصف سے موصوف کر دیا اور یوں عیسائی شرک میں پڑ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ ترجمہ: ”بے شک وه لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ حاﻻںکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو، جو میرا اور تمہارا، سب کا رب ہے۔ یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہ گاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا“۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو اس کا ایک بندہ ہوں، یوں کہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔ یعنی مجھے عبودیت اور رسالت کے اوصاف کے ساتھ متصف کرو، جس طرح خود اللہ تعالی نے محھےان صفات سے متصف کیا ہے اور مجھے حدود عبودیت سے باہر نکال کر مقام الوہیت یا مقام ربوبیت تک نہ لے جاؤ، جیسا کہ عیسائیوں نے کیا۔ انبیا کا حق عبودیت اور رسالت ہے۔ جب کہ الوہیت صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ اس تنبیہہ کے باوجود کچھ لوگ اسی بات میں مبتلا ہیں، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا۔ احتیاط کریں کہ کہیں آپ ان میں سے نہ ہوجائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3406

 
 
Hadith   336   الحديث
الأهمية: لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر


Tema:

چھوت لگنے، بدشگونی، الو کی نحوست اور ماہ صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

عن أبي هريرة  -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا عَدْوَى ولا طِيَرَة ولا هَامَةَ ولا صَفَرَ" أخرجاه.
 زاد مسلم "ولا نَوْءَ ولا غُولَ".

ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چھوت لگنے، بدشگونی، الو کی نحوست اور ماہ صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔
یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم دونوں ہی نے ذکر کی ہے۔ امام مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”اور نہ تارے کی گردش میں کوئی تاثیر ہے اور نہ بھوت کی کوئی حقیقت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كانت الجاهلية تعج بكثير من الخرافات والأوهام التي لا تستند إلى برهان، أراد الإسلام أن يقي أتباعه من تلك الأباطيل، فأنكر ما كان يعتقده المشركون في هذه الأشياء المذكورة في الحديث، فبعضها نفى وجوده أصلا كالطيرة، والبعض الآخر نفى تأثيره بنفسه؛ لأنه لا يأتي بالحسنات إلا الله، ولا يدفع السيئات إلا هو.
670;وںکہ زمانۂ جاہلیت میں بہت سی ایسی خرافات اور اوہام کا دور دورہ تھا، جن کے پیچھے کوئی بھی دلیل نہیں تھی، اس لیے اسلام نے چاہا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو ان باطل عقائد سے بچائے۔ چناںچہ اسلام نے حدیث میں مذکورہ ان اشیا کے بارے میں مشرکین کا جو عقیدہ تھا، اسے ناپسند کیا۔ ان میں سے کچھ کے بارے میں تو اس نے یہ کہا کہ ان کا بالکل کچھ وجود ہی نہیں ہے، جیسے بد شگونی لینا اور بعض میں بذات خود کسی تاثیر کے ہونے کی نفی کی۔ کیوںکہ اچھی چیزوں کو اللہ ہی لاتا ہے اور بری اشیا کو دور ہٹانے والے بھی وہی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3407

 
 
Hadith   337   الحديث
الأهمية: لا يحل السحر إلا ساحر


Tema:

جادو کو جادوگر ہی اتار سکتا ہے۔

ورُوي عن الحسن أنه قال: "لا يحل السحر إلا ساحر".

حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں: ”جادو کو جادوگر ہی اتار سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
النشرة حل السحر، وظاهر كلام الحسن منعه مطلقا؛ لأنه لا يقدر على حل السحر إلا من له معرفةٌ بالسحر، وهذا محمولٌ على حل السحر بسحرٍ مثله، وهو من عمل الشيطان، وقد فصل ابن القيم ما حاصله: أن علاج المسحور بأدوية مباحة وقراءة قرآن أمر جائز - وعلاجه بسحر مثله محرم.
606;ُشرہ (ایک قسم کا منتر ہے جو جادو کے توڑ کے لیے پڑھا جاتا ہے) حسن بصری رحمہ اللہ کا کلام بظاہر نُشرہ کی مطلقاً نفی کرتا ہے، اس لیے کہ جادو کو وہی شخص ختم کرسکتا ہے جو اس کے بارے میں جانتا ہو۔ یہ جادو کو جادو کے ذریعے سے ختم کرنے پر محمول ہے جو کہ شیطانی کام ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ علیہ نے اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جادو کا علاج جائز دواؤں اور تلاوت قرآن کے ذریعے سے کرنا جائز ہے۔ جب کہ جادو کا علاج جادو ہی کے ذریعے سے ناجائز اور حرام ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام خطابی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3408

 
 
Hadith   338   الحديث
الأهمية: لأعطين الراية غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله، يفتح الله على يديه


Tema:

کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اُسے عزیز رکھتے ہیں۔

عن سهل بن سعد الساعدي -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لأعطين الراية غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله، يفتح الله على يديه، فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها فلما أصبحوا غدوا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كلهم يرجو أن يعطاها: فقال: أين علي بن أبي طالب؟ فقيل: هو يشتكي عينيه، فأرسلوا إليه فأتي به، فبصق في عينيه، ودعا له فبرأ كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية فقال: انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله -تعالى- فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من حمر النعم".

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا: کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اسے عزیز رکھتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزر گئی کہ دیکھیں، نبی کریم ﷺعَلم کسے عطا فرماتے ہیں۔صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اس امید کے ساتھ کہ عَلم انہیں کو ملے لیکن نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ جب وہ لائے گئے تو آپ ﷺ نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہو گئیں جیسے پہلے کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے انہیں عَلم دیتے ہوئے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو، ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بشّر الصحابة بانتصار المسلمين على اليهود من الغد على يد رجل له فضيلةٌ عظيمة وموالاة لله ولرسوله فاستشرف الصحابة لذلك، كلٌّ يود أن يكون هو ذلك الرجل من حرصهم على الخير، فلما ذهبوا على الموعد طلب النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- علياً وصادف أنه لم يحضر لِما أصابه من مرض عينيه، ثم حضر فتفل النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فيهما من ريقه المبارك فزال ما يحس به من الألم زوالاً كاملاً وسلَّمه قيادة الجيش، وأمره بالمضي على وجهه برفق حتى يقرب من حصن العدو فيطلب منهم الدخول في الإسلام، فإن أجابوا أخبرهم بما يجب على المسلم من فرائض، ثم بين -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لعلي فضل الدعوة إلى الله وأن الداعية إذا حصل على يديه هداية رجل واحد فذلك خير له من أنفس الأموال الدنيوية، فكيف إذا حصل على يديه هداية أكثر من ذلك.
570;پ ﷺ نے صحابہ کو کل کے دن یہودیوں کے خلاف ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری سنائی جنہیں بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور اس کی اللہ اور کے رسول کے ساتھ دوستی بھی ہے۔ صحابہ کرام اس شخص کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ہر ایک اپنی خیر وبھلائی کی تڑپ کی وجہ سے یہ خواہش رکھتا تھا کہ یہ شخص میں ہوں۔ جب مقررہ وقت آیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے علی - رضی اللہ عنہ- کو بلایا، اتفاق سے وہ آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے تھے، پھر جب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، تو جو درد وہ محسوس کررہے تھے وہ بالکل ختم ہوگیا اور آپ نے ان کو لشکر کی کمان سونپی اور آہستہ آہستہ چلنے کو کہا یہاں تک کہ جب وہ دشمن کے قلعہ کے قریب ہوجائیں، تو ان سے اسلام قبول کرنے کا مطالبہ کرو، اگر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں تو انہیں ایک مسلمان پر لازم فرائض بتلا دو، پھر آپ ﷺ نے علی - رضی اللہ عنہ- سے اللہ کی طرف دعوت دینے کی فضیلت بیان کی کہ اگر ایک شخص بھی داعی کے ذریعہ راہِ ہدایت پر آ گیا تو یہ ان کے لیے دنیا کے قیمتی مال و متاع سے بہتر ہے، اس (اجر اور فضیلت کا کیا کہنا) جب داعی کے ذریعہ ایک سے زائد افراد راہ ہدایت پر آجائیں!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3409

 
 
Hadith   339   الحديث
الأهمية: لما حضرَتْ أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعنده عبد الله بن أبي أمية وأبو جهل، فقال له: يا عم قل لا إله إلا الله، كلمة أحاج لك بها عند الله


Tema:

جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس اس وقت عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ ”لا إله إلا الله“ کہہ دیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔

عن سعيد بن المسيب عن أبيه المسيب بن حزن -رضي الله عنه- قال: "لما حضرَتْ أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعنده عبد الله بن أبي أمية وأبو جهل، فقال له: يا عَمِّ قل لا إله إلا الله، كلمة أُحَاجُّ لك بها عند الله، فقالا له: أَتَرَغَبُ عن ملة عبد المطلب؟ فأعاد عليه النبي -صلى الله عليه وسلم-، فأعادا، فكان آخر ما قال هو على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول لا إله إلا الله، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لأستغفرن لك ما لم أُنْهَ عنك، فأنزل الله: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قربى...} الآية"، وأنزل الله في أبي طالب: {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}.

سعید بن مسیب سے روایت ہے انہوں نے اپنے باپ مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس اس وقت عبداللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ ”لا إله إلا الله“ کہہ دیں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ ﷺ برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔انہوں نے ”لا إله إلا الله“ کہنے سے انکار کردیا، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ﴾ ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہ دار ہی ہوں“ اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عاد النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا طالب وهو في سياق الموت وعرض عليه الإسلام؛ ليكون خاتمة حياته ليحصل له بذلك الفوز والسعادة، وطلب منه أن يقول كلمة التوحيد، وعرض عليه المشركون أن يبقى على دين آبائه الذي هو الشرك؛ لعلمهم بما تدل عليه هذه الكلمة من نفي الشرك وإخلاص العبادة لله وحده، وأعاد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- طلب التلفظ بالشهادة من عمه، وأعاد المشركون المعارضة وصاروا سبباً لصده عن الحق وموته على الشرك.
وعند ذلك حلف النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ليطلُبن له من الله المغفرة ما لم يمنع من ذلك، فأنزل الله المنع من ذلك وبيّن له أن الهداية بيد الله يتفضل بها على من يشاء؛ لأنه يعلم من يصلح لها ممن لا يصلح.
فأنزل الله -عز وجل-: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ}، وأنزل الله في أبي طالب: {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}.
606;بی ﷺ نے ابو طالب کی جانکنی کے وقت عیادت کی اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تاکہ ان کی زندگی کا خاتمہ اسلام پر ہو اور اس کے ذریعہ انہیں فلاح اور سعادت حاصل ہو جائے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ کلمہ توحید پڑھ لیں جب کہ مشرکین نے اپنے آبائی دین یعنی شرک پر قائم رہنے کی پیشکش ان سے کرتے رہے، چونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ کلمہ، شرک کی نفی کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ ہی کے لیے خاص کرتا ہے، نبی ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے دوبارہ فرمایا: اے چچا! تم کلمہ شہادت کہہ لو اور مشرکین بھی اپنی پیشکش کرتے رہے چنانچہ یہ مشرکین انہیں حق سے روک دینے اور شرک پر وفات پانے کا سبب بنے۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب میں اللہ تعالی سے تمہارے لیے اس وقت تک دعا کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے منع نہ کر دیا جائے، تو اللہ تعالی نے اس سے منع کرتے ہوئے آیت نازل فرمائی اور یہ بیان کر دیا کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے عنایت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون اس کے لائق ہے اور کون اس کے لائق نہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (سورہ التوبہ: 113)۔ ترجمہ: ”نبی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگر چہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“۔
اور ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: ﴿إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (سورہ القصص: 56) ترجمہ: ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3410

 
 
Hadith   340   الحديث
الأهمية: ما السماوات السبع والأرضون السبع في كف الرحمن إلا كخردلة في يد أحدكم


Tema:

ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اللہ کی ہتھیلی میں ایسے ہیں جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی میں رائی کا دانہ۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: "ما السماوات السبع والأرضون السبع في كَفِّ الرحمن إلا كَخَرْدَلَةٍ في يد أحدكم".

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اللہ کی ہتھیلی میں ایسے ہیں جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی میں رائی کا دانہ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن عباس -رضي الله عنهما- في هذا الأثر أن نسبة السموات السبع والأرضين السبع مع عظمهن إلى كف الرحمن، كنسبة الخَرْدَلَةِ الصغيرة إلى كف أحدنا، وذلك تشبيه للنسبة بالنسبة، وليس تشبيها للكف بالكف؛ لأن الله لا يشبه صفاته شيء كما لا يشبه ذاته شيء.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اس حدیث میں بیان کر رہے ہیں کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین باوجود اس کے کہ بہت بڑے ہیں تاہم اللہ تعالی کی ہتھیلی میں ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ہم میں سے کسی کی ہتھیلی پر رائی کا ایک چھوٹا سا دانہ ہوتا ہے۔ یہ نسبت کی نسبت کے ساتھ تشیبہہ ہے نہ کہ ہتھیلی کی ہتھیلی کے ساتھ۔کیونکہ اللہ کی تعالی کی جس طرح ذات کے ساتھ کوئی شے مشابہہ نہیں اسی طرح اس کی صفات کے ساتھ بھی کوئی شے مشابہہ نہیں ہے۔   --  [شیخ البانی نے اس حدیث کی تصحیح کو ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔]+ +[اسے ابنِ جریر نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ذھبی نے اپنی کتاب ”العلو“ میں روایت کیا ہے۔ - اسے عبد اللہ بن امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3412

 
 
Hadith   341   الحديث
الأهمية: ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض


Tema:

کرسی عرش کے مقابلہ میں یوں ہے جیسے لوہے کا چھلّا زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا ہو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: "ما الكرسي في العرش إلا كحلقة من حديد ألقيت بين ظهري فلاة من الأرض".

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالی کی) کرسی عرش کے مقابلے میں یوں ہے جیسے لوہے کا چھلّا زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في حديث أبي ذرّ أن الكرسي مع سعته وعظمته بالنسبة للعرش كحلقة حديد وُضعت في صحراء واسعة من الأرض؛ وهذا يدل على عظمة خالقها وقدرته التامة.
606;بی ﷺ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بتا رہے ہیں کہ کرسی باوجود اپنی وسعت اور عظمت کے عرش کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے زمین کے کسی وسیع و عریض صحراء میں پڑا لوہے کا ایک چھلّا ہوتا ہے۔ اس سے عرش کے خالق کی عظمت اور اس کی قدرت تامہ کا علم ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”العرش“ میں روایت کیا ہے۔ - اسے امام ذھبی نے اپنی کتاب ”العلو“ میں روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3413

 
 
Hadith   342   الحديث
الأهمية: من أسعد الناس بشفاعتك؟ قال: من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه


Tema:

آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قلت: يارسول الله، "من أسعد الناس بشفاعتك؟ قال: من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه".

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو هريرة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أكثر الناس سعادة بشفاعته -عليه الصلاة والسلام- وأكثرهم حظوة بها فأخبره -عليه الصلاة والسلام- بأنهم الذين قالوا هذه الشهادة وهي شهادة أن لا إله إلا الله محمدا رسول الله، خالصة من القلب لا يشوبها شرك و لا رياء.
575;بو ھریرۃ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور کون ہوگا؟ تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: وہ لوگ جو اس بات کی گواہی اپنے دل سے اخلاص کے ساتھ دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اس میں شرک اور دِکھاوا شامل نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3414

 
 
Hadith   343   الحديث
الأهمية: من ذا الذي يتألى عليَّ أن لا أغفر لفلان؟ إني قد غفرت له، وأحبطت عملك


Tema:

یہ کون ہے جو مجھ پر قسم اٹھا رہا ہے کہ میں فلاں کی مغفرت نہیں کروں گا؟ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کر دیا ہے۔

عن جندب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "قال رجل: والله لا يغفر الله لفلان، فقال الله: من ذا الذي يتألى عليَّ أن لا أغفر لفلان؟ إني قد غفرت له، وأحبطت عملك".
 وفي حديث أبي هريرة: أن القائل رجل عابد، قال أبو هريرة: "تكلم بكلمة أوبقت دنياه وآخرته".

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ فلاں شخص کی مغفرت نہیں کرے گا۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا: یہ کون ہے جو مجھ پر قسم اٹھا رہا ہے کہ میں فلاں کی مغفرت نہیں کروں گا؟ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کر دیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایسا کہنے والا ایک عبادت گزار شخص تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کر کے رکھ دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- على وجه التحذير من خطر اللسان، أن رجلاً حلف أن الله لا يغفر لرجلٍ مذنبٍ؛ فكأنه حكم على الله وحجر عليه؛ لما اعتقد في نفسه عند الله من الكرامة والحظّ والمكانة، ولذلك المذنب من الإهانة، وهذا إدلالٌ على الله وسوءُ أدب معه، أوجب لذلك الرجل الشقاءَ والخسران في الدنيا والآخرة.
606;بی ﷺ زبان کی خطرناکی پر متنبہ کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ایک شخص نے قسم اٹھائی کہ اللہ فلاں گناہ گار آدمی کو نہیں بخشے گا۔گویا کہ اس نے اللہ کے مقابلے میں اپنا ہی فیصلہ صادر کر دیا اور مغفرت کا دروازہ اس شخص کے لیے بند کر دیا کیونکہ اپنے تئیں وہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے ہاں بڑا معزز اور صاحبِ منزلت ہے اور اس کی نگاہ میں وہ گناہ گار شخص قابل حقارت تھا۔ یہ اللہ پر خوامخواہ کا ناز اوراس کے سامنے بے جا جرأت و بے ادبی کا مظاہرہ ہے جس کی وجہ سے وہ شخص دنیا اور آخرت کی بد بختی اور خسارے کا مستوجب ہو گیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3415

 
 
Hadith   344   الحديث
الأهمية: مَن ردته الطيرة عن حاجته فقد أشرك، قالوا: فما كفارة ذلك؟ قال: أن تقول: اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طير إلا طيرك، ولا إله غيرك


Tema:

جس شخص نے بدشگونی کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس کا کفارہ یہ ہے کہ) تم یوں کہو ”اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ“۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص - رضي الله عنه- مرفوعاً: "مَن ردته الطِّيَرَة عن حاجته فقد أشرك، قالوا: فما كفارة ذلك؟ قال: أن تقول: اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ ولا إله غيرك".

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بدشگونی کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ: اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس کا کفارہ یہ ہے کہ) تم یوں کہو: ”اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ“۔ اے اللہ! تیری طرف سے ملنے والی خیر کے علاوہ کوئی خیر نہیں، تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں اور تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من منعه التشاؤم عن المضي فيما يعتزم فإنه قد أتى نوعًا من الشرك، ولما سأله الصحابة عن كفارة هذا الإثم الكبير أرشدهم إلى هذه العبارات الكريمة في الحديث التي تتضمن تفويض الأمر إلى الله -تعالى- ونفي القدرة عمن سواه.
575;س حدیث میں رسول اللہ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جس شخص کو بدشگونی نے اس کام سے پھیر دیا جس کا وہ ارادہ رکھتا تھا تو اس نے گویا ایک طرح کا شرک کیا۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس گناہ کبیرہ کے کفارے کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کی حدیث میں موجود اس مکرم عبارت کی طرف رہنمائی فرمائی جس میں معاملے کو اللہ کے سپرد کرنے اور اس کے علاوہ ہر کسی سے طاقت و قدرت کی نفی کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3416

 
 
Hadith   345   الحديث
الأهمية: من شهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله، وأن عيسى عبد الله ورسوله وكلمته ألقاها إلى مريم ورُوُحٌ منه، والجنة حق والنار حق، أدخله الله الجنة على ما كان من العمل


Tema:

جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ بے شک عیسٰی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم تک پہنچایا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں اور جنت اور دوزخ بر حق ہیں اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- "مَنْ شهِد أنْ لا إله إلا الله وحده لا شرِيك له وأنَّ محمَّدا عبده ورسُولُه، وأنَّ عِيسى عبدُ الله ورسُولُه وكَلِمَتُه أَلقَاها إِلى مريم ورُوُحٌ مِنه، والجنَّة حَقٌّ والنَّار حقٌّ، أَدْخَلَه الله الجنَّة على ما كان مِنَ العمَل".

عبادة بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی حقیقی معبودِ نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ عیسٰی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نیز اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم تک پہنچایا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں اور جنت اور دوزخ بر حق ہیں اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا هذا الحديث أن من نطق بكلمة التوحيد وعرف معناها وعمل بمقتضاها، وشهد بعبودية محمد -صلى الله عليه وسلم- ورسالته، واعترف بعبودية عيسى ورسالته، وأنه خلق بكلمة كن من مريم، وبرأ أمه مما نسبه إليها اليهود الأعداء، واعتقد بثبوت الجنة للمؤمنين وثبوت النار للكافرين، ومات على ذلك دخل الجنة على ما كان من العمل.
740;ہ حدیث ہمیں اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ جس شخص نے کلمہ توحید کا زبان سے اقرار کیا اور اس کے معنی کو جانا اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا اور محمد ﷺ کے بندے اور ان کے رسول ہونے کی گواہی دی نیز عیسٰی علیہ السلام کے بندے اور ان کے رسول ہونے کی گواہی دی، اور یہ کہ عیسٰی علیہ السلام کلمہ ”کُنْ“ کے ذریعہ مریم علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے، اور اللہ نے ان کی ماں کو اس چیز سے بری کر دیا جس کی نسبت دشمن یہود نے ان کی طرف کی تھی، اور مومنوں کے لیے جنت اور کافروں کے لیے جہنم کے ثبوت کی تصدیق کیا، اگر وہ اس (عقیدہ) پر مرتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3417

 
 
Hadith   346   الحديث
الأهمية: من لقي الله لا يشرك به شيئًا دخل الجنة، ومن لقيه يشرك به شيئًا دخل النار


Tema:

جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "مَنْ لَقِيَ الله لا يُشْرِك به شَيئا دخل الجنَّة، ومن لَقِيَه يُشرك به شيئا دخَل النار".

جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من مات لا يشرك مع الله غيره لا في الربوبية ولا في الألوهية ولا في الأسماء والصفات دخل الجنة، وإن مات مشركا بالله -عز وجل- فإن مآله إلى النار.
606;بی ﷺ نے ہمیں اس حدیث میں خبر دے رہے ہیں کہ جو کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا نہ تو ربوبیت میں، نہ ہی الوہیت میں اور نہ ہی اسماء وصفات میں، تو وہ جنت میں داخل ہوگا اورجو کوئی اس حال میں میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3418

 
 
Hadith   347   الحديث
الأهمية: من مات وهو يدعو من دون الله ندًّا دخل النار


Tema:

جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی پکارتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جائے گا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "مَنْ مات وهو يدعُو مِنْ دون الله نِدًّا دخَل النَّار".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی پکارتا رہا (اللہ کا شریک و ہمسر ٹھہراتا رہا) ہو تو وہ جہنم میں داخل گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من صرف شيئا مما يختص به الله إلى غيره، ومات مصرا على ذلك فإن مآله إلى النار.
575;س حدیث میں نبی ﷺ ہمیں اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کے لیے مخصوص اشیاء (عبادتوں) میں سے کچھ بھی غیر اللہ کے لئے کرے اور اسی پر مصر رہتے ہوئے مر جائے تو اس کا انجام جہنم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3419

 
 
Hadith   348   الحديث
الأهمية: هلك المتنطعون -قالها ثلاثا-


Tema:

غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "هلك المُتَنَطِّعون -قالها ثلاثا-".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوضح النبي -صَلى اللّه عليه وسلّم- أن التعمُّق في الأشياء والغلو فيها يكون سبباً للهلاك، ومراده -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- النهي عن ذلك، ومن ذلك إجهاد النفس في العبادة حتى تنفر وتنقطع، ومن ذلك التنطع في الكلام والتقعر فيه، وأعظم صور التنطُّع جُرْما، وأولاه بالتحذير منه: الغلو في تعظيم الصالحين إلى الحدِّ الذي يفضي إلى الشرك.
606;بی ﷺ اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ چیزوں میں غلو اور اُن کی چندی کی بندی کرنا ہلاکت کا سبب ہے، اس سے آپ ﷺ کی مراد اس امر سے روکنا اور منع کرنا ہے، اسی سے عبادت میں اپنے نفس کو اتنا تھکا دینا ہے کہ نفس عبادت سے متنفر ہو جائے اور اس سے کٹ جائے، اسی سے بات چیت میں غلو کرنا اور چیخنا بھی ہے، اور جرم کے اعتبار سے غلو کی سب سے بڑی مثال کہ جس سے بچنا بدرجۂ اَوْلی ضروری ہے وہ ہے نیک لوگوں کی تعظیم میں اس حد تک غلو کرنا کہ وہ شرک تک جا پہنچے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3420

 
 
Hadith   349   الحديث
الأهمية: في قول الله -تعالى-: (وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا) قال ابن عباس -رضي الله عنهما-: هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح


Tema:

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ قومِ نوح کے چند نیک لوگوں کے نام ہیں۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قول الله -تعالى-: (وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا) قال: "هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هَلَكوا أَوحى الشَّيطان إلى قَومِهِم أنِ انْصِبُوا إلى مَجَالِسِهِم الَّتي كانوا يَجْلِسون فيها أنصَابًا، وسَمُّوها بأسمَائِهِم، فَفَعَلُوا، ولم تُعْبَد، حتَّى إِذَا هَلَك أُولئك ونُسِيَ العلم عُبِدت".

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ”اور انھوں نے کہا کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“۔ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ قوم نوح کے نیک آدمیوں کے نام ہیں۔ جب وہ فوت ہو گیے تو شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان کی کوئی یادگار بنائیں وہ جہاں بیٹھتے ان کی یادگار بنا دیتے اور ان کے نام پر اس کا نام رکھتے۔ سو انھوں نے ایسا کیا لیکن ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گیے اور اصل بات بھی بھلا دی گئی تو ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يفسر ابن عباس -رضي الله عنهما- هذه الآية الكريمة بأن هذه الآلهة التي ذكر الله -تعالى- أن قوم نوح تواصوا بالاستمرار على عبادتها بعدما نهاهم نبيهم نوح -عليه السلام- عن الشرك بالله- أنها في الأصل أسماء رجال صالحين منهم، غلوا فيهم بتسويل الشيطان لهم حتى نصبوا صورهم، فآل الأمر بهذه الصور إلى أن صارت أصناماً تعبد من دون الله.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کریمہ کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ معبودان جن کا اللہ تعالیٰ نے تذکرہ کیا کہ قومِ نوح نے ان کی عبادت کو جاری رکھنے کی ایک دوسرے کو وصیت فرمائی جب کہ ان کے نبی نوح علیہ السلام نے انھیں اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے روکا تھا۔ یہ دراصل ان کی قوم کے نیک لوگ تھے، لوگوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ان کی شان میں غلو کیا، یہاں تک کہ ان کی تصاویر نصب کردیں، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں چل کر یہی تصاویر بت ہوگئیں اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جانے لگیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3421

 
 
Hadith   350   الحديث
الأهمية: لا عدوى ولا طيرة، ويعجبني الفأل. قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيبة


Tema:

بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں، اور مجھے فال اچھی لگتی ہے، صحابہ کرام نے پوچھا فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھی بات“۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  "لا عدوى وَلَا طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الفَأْلُ. قالوا: وما الفأل؟ قال: الكلمة الطيِّبة".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا (متعدی ہونا) اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں اور مجھے فال اچھی لگتی ہے، صحابہ کرام نے پوچھا فال کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھی بات“ (کا سننا اور اس سے خیر کی امید وابستہ کر لینا)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الخير والشر كله مقدر من الله نفى النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث تأثير العدوى بنفسها، ونفى وجود تأثير الطيرة، وأقر التفاؤل واستحسنه؛ وذلك لأن التفاؤل حسن ظن بالله، وحافز للهمم على تحقيق المراد، بعكس التطير والتشاؤم.
وفي الجملة الفرق بين الفأل والطيرة من وجوه، أهمها:
1- الفأل يكون فيما يسر، والطيرة لا تكون إلا فيما يسوء.
2- الفأل فيه حسن ظنٍّ بالله، والعبد مأمورٌ أن يحسن الظن بالله، والطيرة فيها سوء ظن بالله، والعبد منهيّ عن سوء الظن بالله.
580;ب خیر اور بھلائی سب اللہ کی طرف سے مقدر ہیں، چنانچہ نبی ﷺ نے اس حدیث میں بیماری کے بذات خود متعدی ہونے اور اسی طرح سے بدشگونی کے وجود کی نفی کی ہے نیز آپ ﷺ نے اچھے شگون کا اقرار کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے؛ کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہے اور ہمتوں کو ابھارنے والی ہے کہ وہ اپنی مراد کو حاصل کرلیں، توہم پرستی اور مایوسی کے برعکس ہے، حاصل کلام! شگون اور بدشگون کے درمیان کئی اعتبار سے فرق ہے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے:
1۔ فال ان چیزوں میں ہوتا ہے جو کہ خوش کر دیں جب کہ بدشگونی صرف بری چیزوں میں ہوتا ہے۔
2. نیک شگون میں اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہوتا ہے اور بندہ کو اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ بد شگونی میں اللہ کے ساتھ بد گمانی ہے اور بندے کو اللہ کے ساتھ بد گمانی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3422

 
 
Hadith   351   الحديث
الأهمية: إذا عَطَسَ أَحَدُكُم فَلْيَقُل: الحَمْدُ للهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أو صاحبُهُ: يَرْحَمُكَ الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم


Tema:

جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ”الحمد اللہ“ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ”يَرْحَمُكَ الله“ کہے۔ جب ساتھی ”يَرْحَمُكَ اللہ“ کہے، تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ کہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا عَطَسَ أَحَدُكُم فَلْيَقُل: الحَمْدُ للهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أو صاحبُهُ: يَرْحَمُكَ الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ”الحمد اللہ“ کہے اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ”يَرْحَمُكَ الله“ کہے۔ جب ساتھی ”يَرْحَمُكَ اللہ“ کہے، تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ (اللہ تمھیں ہدایت دے اور تمھارے حالات درست فرمادے) کہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أن المسلم إذا عطس فعليه أن يحمد الله -تعالى-؛ لأن العاطس قد حصل له بالعطاس نعمة ومنفعة بخروج الأبخرة المحْتَقَنَة في دِماغِه التي لو بقيت فيه لأحدثت له أمراضًا عَسِرَة, لذا شُرع له حمد الله -تعالى- على هذه النعمة, ثم يجب على من يسمعه أن يشمته, بأن يقول له: يرحمك الله، ويرد عليه العاطس بقوله: يهديكم الله ويصلح بالكم، فحصل بالعطاس منفعةٌ عائدة على العاطس وعلى السامع, وهذا من عظيم فضل هذا الدين على الناس.
581;دیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی مسلمان چھینکے، تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف بیان کرے؛ کیوں کہ چھینکنے والا چھینک کے ذریعے اپنے دماغ میں موجود گندے بخارات کے نکلنے کی نعمت و منفعت کو حاصل کرتا ہے کہ اگر وہ دماغ میں موجود رہتے، تو اس سے بہتیری تکلیف دہ بیماریاں پیدا ہوتیں۔ اس لیے اس نعمت کے حصول پر اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اللہ کی تعریف و حمد بیان کرے۔ پھر اس کا سننے والا ”يَرْحَمُكَ الله“ کہہ کر اسے دعا دے۔ اور چھینکنے والا ”يَهْدِيكُم الله ويُصْلِحُ بَالَكُم“ کہہ کر اس کا جواب دے۔ اس طرح چھینک کے ذریعے چھینکنے والے اور سننے والے کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور یہ لوگوں پر اس دین کے عظیم فضل و مہربانی کی وجہ سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3433

 
 
Hadith   352   الحديث
الأهمية: صلاة الرجل في جماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسا وعشرين ضعفًا


Tema:

آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز، گھر میں یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجہ بہتر ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «صلاة الرجل في جماعة تَضعُفُ على صلاته في بيته وفِي سُوقِه خمسا وعشرين ضِعفًا، وذلك: أَنَّه إِذَا تَوَضَّأ، فَأَحسَن الوُضُوء، ثمَّ خرج إلى المسجد لاَ يُخرِجُهُ إلاَّ الصلاة؛ لَم يَخْطُ خُطوَةً إِلاَّ رُفِعَت له بِها درجة، وَحُطَّ عَنهُ بها خطيئة، فإذا صلَّى لم تزل الملائكة تُصَلِّي عليه، ما دام في مُصَلاَّه: اللهُمَّ صَلِّ عليه، اللهم اغفِر له، اللهم ارْحَمه، ولا يزال في صلاة ما انتظر الصلاة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز، گھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد کی راہ لیتا ہے اور سوائے نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا جاتا ہے۔ وہ جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے، تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن صلاة الرجل في جماعة تزيد أجرًا وثوابًا على صلاته في بيته وفي سوقه، أي: منفرداً كما يومىء إليه مقابلته بصلاة الجماعة؛ ولأن الغالب في فعلها في البيت والسوق الانفراد، ومقدار الزيادة خمسٌ وعشرون ضعفاً، وقوله: (وذلك) إن كان المشار إليه فضل صلاة الجماعة على صلاة الفذ اقتضى اختصاص ذلك بجماعة المسجد، وقوله: (أنه) أي الشأن أو الرجل إذا توضأ فأحسن الوضوء أي أسبغه مع الإتيان بالسنن والآداب ثم خرج إلى المسجد متوجهاً إليه لا يخرجه إلا الصلاة -فإن أخرجه إليه غيرها، أو هي مع غيرها فاته ما يأتي-: لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة وحط عنه بها خطيئة، أي من الصغائر المتعلقة بحق الله -تعالى-، فإذا صلى لم تزل الملائكة تصلي عليه تترحم وتستغفر له ما دام في مصلاه أي جالساً فيه، ويحتمل أن يراد ما دام مستمراً فيه ولو مضطجعاً، ما لم يحدث قول: (اللهم صل عليه اللهم ارحمه)، ولا يزال المصلي في صلاة ما انتظر الصلاة، أي: مدة انتظاره إياها.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کا اجر و ثواب اپنےگھر یا بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد تنہا پڑھی جانے والی نماز ہے، جیسا کہ اس کے مقابلے میں باجماعت نماز کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے؛ کیوںکہ آدمی گھر یا بازار میں زیادہ تر تنہا ہی نماز پڑھتا ہے۔ ثواب پچیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”وذلك“۔ میں مشار الیہ اگر نماز باجماعت کی تنہا شخص کی نماز پر فضیلت ہے، تو اس کی رو سے یہ فضیلت مسجد کی جماعت کے ساتھ خاص ہو گی۔ آپ ﷺ کے فرمان: ”أنه“۔ میں ضمیر یا تو ضمیر شان ہے یا مراد یہ ہے کہ وہ شخص جب اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، یعنی سنن و آداب کو پورا کرتے ہوئے کامل طریقے سے وضو کرتا ہے، پھر نکل کر مسجد کی طرف چل پڑتا ہے اور نماز کے علاوہ اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا، تو ہر اٹھائے جانے والے قدم پر اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ یعنی ان صغیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی اور غرض سے نکلا ہو یا پھر نماز کے ساتھ ساتھ اس کا کوئی اور بھی ارادہ ہو، تو اس صورت میں اسے یہ ثواب نہیں ملتا۔ جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو فرشتے اس کے لیے تب تک دعاے رحمت کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے برابر رحم اور مغفرت مانگتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہتا ہے۔ یہ بھی احتما ل ہے کہ اس سے مراد اس جگہ موجود رہنا ہو، چاہے وہ لیٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے۔ فرشتے کہتے ہیں:اے اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ نمازی جب تک نماز کے انتظار میں رہتا ہے، تب تک وہ گویا نماز میں ہی ہوتا ہے۔ یعنی نماز کے انتظار کی مدت نماز ہی میں شمار ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3435

 
 
Hadith   353   الحديث
الأهمية: كان عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إذا أتى عليه أمداد أهل اليمن سألهم: أفيكم أويس بن عامر؟


Tema:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب بھی یمن کا امدادی لشکر آتا تو آپ رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کہ :کیا تمھارے اندر اویس بن عامر ہیں؟

عن أُسَير بن عمرو، ويقال: ابن جابر قال: كَانَ عُمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إِذَا أَتَى عَلَيه أَمْدَادُ أَهْلِ اليَمَن سَأَلَهُم: أَفِيكُم أُوَيس بنُ عَامِر؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيس -رضي الله عنه- فقال له: أَنْت أُوَيس بنُ عَامِر؟ قال: نَعَم، قال: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرْنٍ؟ قَالَ: نَعَم، قَال: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ، فَبَرَأَتَ مِنُه إِلاَّ مَوْضِعّ دِرهَم؟ قال: نعم، قَالَ: لَكَ وَالِدة؟ قال: نعم، قال: سَمِعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يَأتِي عَلَيكُم أُوَيس بنُ عَامِر مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ اليَمَن مِنْ مُرَاد، ثُمَّ مِنْ قَرْن كَانَ بِهِ بَرَصٌ، فَبَرَأَ مِنْهُ إِلاَّ مَوضِعَ دِرْهَم، لَهُ وَالِدَة هُوَ بِهَا بَرُّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى الله لَأَبَرَّه، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَه عُمر: أَيْنَ تُرِيد؟ قَالَ: الكُوفَة، قال: أَلاَ أَكتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قال: أَكُون فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ العَام الْمُقْبِل حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِم، فَوَافَقَ عُمَر، فَسَأَلَه عَنْ أُوَيس، فقال: تَرَكْتُهُ رَثَّ البَّيت قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يَأْتِي عَلَيكُم أُوَيس بنُ عَامِر مَعَ أَمْدَادٍ مِنْ أَهْلِ اليَمَن مِنْ مُرَاد، ثُمَّ مِنْ قَرْن، كَانَ بِهِ بَرَص فَبَرَأَ مِنْه إِلاَّ مَوْضِعَ دِرْهَم، لَهُ وَالِدَة هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلى الله لَأَبَرَّهُ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِر لَكَ، فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيسًا، فقال: اسْتَغْفِر لِي، قال: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قال: لَقِيتَ عمر؟ قال: نَعَم، فاستغفر له، فَفَطِنَ لَهُ النَّاس، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ.
 وفي رواية أيضا عن أُسَير بن جابر: أنَّ أَهلَ الكُوفَةِ وَفَدُوا على عمر -رضي الله عنه- وفيهم رَجُلٌ مِمَّن كان يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ، فقال عمر: هَل هاهُنَا أَحَدٌ مِنَ القَرَنِيِّين؟ فَجَاء ذلك الرجل، فقال عمر: إِنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَدْ قال: «إِنَّ رَجُلاً يَأْتِيكُم مِنَ اليَمَنِ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، لاَ يَدَعُ بِاليَمَنِ غَيرَ أُمٍّ لَهُ، قَد كَان بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا الله -تعالى-، فَأَذْهَبَهُ إِلاَّ مَوضِعَ الدِّينَارِ أَو الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَسْتَغْفِر لَكُم».
وفي رواية له: عن عمر -رضي الله عنه- قال: إِنِّي سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِنَّ خَيرَ التَّابِعِين رَجُلٌ يُقَال لَهُ: أُوَيسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَمُرُوهُ، فَلْيَسْتَغْفِر لَكُم».

اسیر بن عمرو (انہیں اسیر بن جابر بھی کہا جاتا ہے) کہتے ہیں کہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب بھی یمن کا امدادی لشکر آتا تو عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کہ :کیا تمھارے اندر اویس بن عامر ہیں؟ یہاں تک کہ( ایک جماعت میں) اویس آگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو کہ ایک درہم جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کی والدہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے ہوئے سنا ہے کہ: ”تمہارے پاس اویس بن عامر یمن کی کمک کے ساتھ آئیں گے جو قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے، ان کو برص کی بیماری تھی، جو ایک درہم جتنی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی۔ ان کی والدہ ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لیے دعائے مغفرت کروانا“۔ لھٰذا آپ میرے لیے مغفرت کی دعا فرما دیں۔ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کر دی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: کوفہ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا میں آپ کے لیے وہاں کے گورنر کو لکھ کر نہ دے دوں؟۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: مجھے مسکین لوگوں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے معزز لوگوں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر بوسیدہ اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ: ”تمہارے پاس اویس بن عامر یمن کی ایک امدادی لشکر کے ساتھ آئیں گے جو کہ قبیلۂ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے، ان کو برص کی بیماری تھی، جو اچھی ہوگئی یے مگر ایک درہم جتنی جگہ برص باقی ہے، ان کی والدہ ہیں جن کے وہ بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔ چنانچہ وہ آدمی اویس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا: میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم ایک نیک سفر سے نئے نئے آئے ہو، لھٰذا تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اويس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی سے پوچھا کہ: کیا تم عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تھے؟ اس آدمی نے کہا: ہاں۔ تو پھر اویس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ اس وقت لوگ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ سمجھے، اور وہ وہاں سے سیدھے چل پڑے۔
اور مسلم ہی کی ايک دوسری روايت میں اسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کوفہ کے لوگ ایک وفد لے کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آئے۔ اس وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تمسخر کیا کرتا تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا یہاں قرنیوں میں سے بھی کوئی ہے؟ چنانچہ وہی آدمی آیا۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”تمہارے پاس یمن سے ایک آدمی آئے گا جسے اویس کہا جاتا ہوگا۔ وہ یمن میں کسی کو نہ چھوڑے گا سوائے اپنی ماں کے، اور اسے برص کی بیماری ہوگئی تھی، اس نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس سے اس بیماری کو دور فرمادیا مگر ایک دینار یا ایک درہم کے برابر باقی ہے (یعنی ایک دینار یا درہم کے بقدر برص کا داغ باقی رہ گیا ہے) تو تم میں سے جو کوئی بھی اس سے ملاقات کرے وہ اپنے لئے اس سے مغفرت کی دعا کروائے“۔
اور مسلم ہی کی ايک اور روايت میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ”تابعین میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جسے اویس کہا جاتا ہے اس کی ماں (زندہ) ہیں اور اس کے جسم پر سفید داغ تھے۔ تم اس سے کہنا کہ وہ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان عمر بن الخطاب إذا أتى عليه جماعات الغزاة من أهل اليمن الذين يمدون جيوش الإسلام في الغزو، سألهم: أفيكم أويس بن عامر، فما زال كذلك حتى جاء أويس -رحمه الله- فقال له عمر: هل أنت أويس بن عامر؟ قال: نعم، قال عمر: هل أنت من قبيلة مراد ثم من قرن؟ قال: نعم، ثم قال له عمر: وهل كان بك برص فشُفيت منه إلا موضع درهم؟ قال: نعم، قال عمر: هل لك والدة؟ قال: نعم، فقال عمر: فإني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنه سيأتي عليكم أويس بن عامر، مع جماعات الغزاة من أهل اليمن من قبيلة مراد ثم من قرن وكان به برص فشفاه الله منه إلا موضع درهم، له والدة هو بار بها، لو أقسم على الله بحصول أمر لأبرّه الله بحصول ذلك المقسم على حصوله فإن استطعت يا عمر أن يستغفر لك فافعل،
ولا يفهم من هذا أفضليته على عمر، ولا أن عمر غير مغفور له للإجماع على أن عمر أفضل منه لأنه تابعي والصحابي أفضل منه، إنما مضمون ذلك الإخبار بأن أويساً ممن يستجاب له الدعاء، وإرشاد عمر إلى الازدياد من الخير واغتنام دعاء من تُرجى إجابته، وهذا نحو مما أمرنا النبي به من الدعاء له، والصلاة عليه وسؤال الوسيلة له وإن كان النبي أفضل ولد آدم.
ثم سأله عمر أن يستغفر له فاستغفر له، ثم قال له عمر: ما هو المكان الذي سوف تذهب إليه؟ فقال: الكوفة، قال عمر: هل أكتب لك إلى أميرها ليعطيك من بيت مال المسلمين ما يكفيك؟ قال أويس: لأن أكون في عوام الناس وفقرائهم أحبّ إلي، فلما كان من العام المقبل، حج رجل من أشراف أهل الكوفة فقابل عمر فسأله عمر عن أويس فقال: تركته وبيته متواضع وأثاث بيته قليل قال عمر سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنه سيأتي عليكم أويس بن عامر، مع جماعات الغزاة من أهل اليمن من قبيلة مراد ثم من قرن وكان به برص فشفاه الله منه إلا موضع درهم، له والدة هو بار بها، لو أقسم على الله بحصول أمر لأبرّه الله بحصول ذلك المقسم على حصوله فإن استطعت يا عمر أن يستغفر لك فافعل.
فأتى ذلك الرجل أويساً فقال له: استغفر لي، فقال: أويس أنت أقرب عهداً بسفر صالح فاستغفر لي، فتنبه أويس أنه لعله لقي عمر،  فقال له: هل لقيت عمر؟ قال: نعم، فاستغفر أويس له فتنبه الناس لهذا الأمر فأقبلوا عليه، فخرج من الكوفة وذهب إلى مكان آخر لا يعرفه فيه الناس.
593;مر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب بھی یمن سے مجاہدین کی کوئی امدادی جماعت آتی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے پوچھتے کہ کیا تم میں کوئی اویس بن عامر ہے؟ یہاں تک کہ ایک جماعت میں اویس رحمہ اللہ آگئے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ قبیلہ مراد سے اور پھر قرن خاندان سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کو برص کی بیماری تھی اور آپ کو اس سے شفا مل گئی سوائے ایک درہم جتنی جگہ کے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کی والدہ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ ”تمہارے پاس یمن کے مجاہدین کی ایک جماعت کے ساتھ اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری تھی پھر اللہ نے انہیں اس بیماری سے شفا عطا فرمائی صرف درہم کے بقدر باقی ہے، ان کی ایک ماں ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ کسی چیز کی حصول یابی کے لیے اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، اے عمر! اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔
ليکن اس کا يہ معنیٰ نہيں ہے کہ اويس رحمہ اللہ عمر رضی اللہ عنہ سے افضل ہيں اور عمر مغفورين ميں سے نہيں ہيں، اس لئے کہ اس پر لوگوں کا اجماع ہے کہ عمر رضي اللہ عنہ اويس رحمہ اللہ سے افضل ہيں کيوں کہ اویس تابعی ہیں اور صحابی تابعی سے افضل ہوتا ہے، بس اس واقعہ سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اويس ان لوگوں ميں سے ہيں جن کی دعا قبول ہوتی ہے، اور عمر رضي اللہ عنہ کو زيادہ نيکی کرنے اور ايسے لوگوں سے جن کی دعا قبول ہوتی ہے، ان سے دعا کروانے کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے۔ اور يہ اسی قبيل سے ہے جس کا حکم آپ ﷺ نے ہم کو ديا ہے کہ ہم آپ ﷺ لیے دعا کريں اور آپ پر درود بھیجيں اور آپ کے لیے اللہ سے وسيلہ کی دعا کريں حالاں کہ آپ ﷺ تمام اولادِ آدم سے افضل ہيں، پھر عمر رضي اللہ عنہ نے ان سے دعا کی درخواست کی کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیں، اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعائے مغفرت کر دی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: کوفہ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا میں وہاں کے گورنر کو لکھ دوں کہ بيت المال سے آپ کوکچھ دے ديں جو کہ آپ کے لیے کافی ہو؟ اویس رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ: مجھے مسکین و فقیر لوگوں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو کوفہ کے سرداروں میں سے ایک آدمی حج کے لئے آیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اویس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا، تو وہ آدمی کہنے لگا کہ: میں اویس کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ ان کا گھر معمولی سا اور ان کے پاس نہایت کم سامان تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”تمہارے پاس یمن کی ایک جماعت کے ساتھ اویس بن عامر آئیں گے جو کہ قبیلہ مراد اور خاندانِ قرن سے ہوں گے ان کو برص کی بیماری تھی پھر اللہ نے انہیں اس بیماری سے شفا عطا فرمائی بس ایک درہم کے برابر بیماری باقی ہے، ان کی ایک والدہ ہیں اور وہ اپنی والدہ کے بڑے فرماں بردار ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرما دے گا، عمر! اگر تم سے ہو سکے تو ان سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا“۔
وہ آدمی اویس رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہنے لگا: میرے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم جلد ہی ایک نیک سفر سے واپس آئے ہو، تو تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ اویس رحمۃ اللہ علیہ کو يہ احساس ہوا کہ شايد يہ عمر رضي اللہ عنہ سے مل کر آيا ہے، انہوں نے اس آدمی سے پوچھا کہ: کیا تم عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تھے؟ اس آدمی نے کہا: ہاں۔ تو پھر اویس رحمۃ اللہ علیہ نے اس آدمی کے لئے دعائے مغفرت فرما دی۔ پھر لوگوں نے اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام کو جان لیا اور آپ کے پاس دعا کی غرض سے آنے لگے، چنانچہ وہ کوفہ سے نکل کر کسی ايسی جگہ چلے گئے جہاں ان کو کوئی نہيں جانتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3436

 
 
Hadith   354   الحديث
الأهمية: من جهز غازيا في سبيل الله فقد غزا، ومن خلف غازيًا في أهله بخير فقد غزا


Tema:

جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے سامان سفر کا انتظام کیا، اس نے درحقیقت جہاد کیا اورجس نے مجاہد کے اہل وعیال میں اس کی اچھے انداز میں جانشینی کی، حقیقت میں اس نے جہاد کیا

عن زيد بن خالد الجهني -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ جَهَّز غَازِياً فِي سَبِيلِ الله فَقَد غَزَا، وَمَنْ خَلَّف غَازِياً في أهلِه بخَير فقَد غزَا».

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے سامان سفر کا انتظام کیا، اس نے درحقیقت جہاد کیا اورجس نے مجاہد کے اہل وعیال میں اس کی اچھے انداز میں جانشینی کی، حقیقت میں اس نے جہاد کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا جهَّز الإنسان مجاهدًا براحلته ومتاعه وسلاحه فقد كتب الله له أجر الغازي؛ لأنه أعانه على الخير، ولو أنَّ الغازي أراد أن يجاهد ولكنَّه أشكل عليه أهله مَن يكون عند حاجاتهم، فدعا رجلاً من المسلمين وقال: أخلِفني في أهلي بخير، فإنَّ هذا الذي خلَّفه يكون له أجر المجاهد؛ لأنه أعانه، ويؤخذ من هذا أنَّ كُلَّ من أَعان شخصاً في طاعة الله فله مثل أجره، فإذا أُعِين طالب علم في شراء الكتب له، أو تأمين السكن، أو النفقة، أو ما أشبه ذلك، فإن له أجراً مثل أجره، من غير أن ينقص من أجره شيئاً.
580;ب آدمی کسی مجاہد کو اس کی سواری، سازو سامان اور اسلحہ فراہم کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کے لیے جہاد کرنے والے کے برابر اجر لکھ دیتا ہے؛ کیوںکہ یہ شخص خیر کے کام میں معاونت کرتا ہے۔ اگر کوئی مجاہد جہاد پر جانے کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن اسے یہ مشکل درپیش ہو کہ اس کے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست کون کرے گا اور پھر وہ کسی مسلمان کو بلاکر کہے کہ تم اچھے انداز میں میرے گھر والوں کے سلسلے میں میری نیابت کرنا، تو یہ شخص جسے وہ اپنا جانشین مقرر کرتا ہے، اسے بھی مجاہد کے برابر اجر ملتا ہے؛ کیوں کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اس سے یہ قاعدہ اخذ ہوتا ہے کہ جو آدمی بھی اللہ کی اطاعت گزاری میں کسی شخص کی مدد کرتا ہے، اسے اس کے مساوی اجر ملتا ہے۔ اگر طالب علم کی کتابیں خریدنے میں مدد کی جائے یا پھر اس کی رہائش یا خرچ یا اس طرح کی کسی اور شے کی ذمہ داری اٹھا لی جائے، تو ان میں سے ہر صورت میں طالب علم کے مساوی اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ اس سے اس طالب علم کے اجر میں کچھ کمی واقع ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3437

 
 
Hadith   355   الحديث
الأهمية: أنه -صلى الله عليه وسلم- قال في الأنصار: لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، من أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه الله


Tema:

نبی کریم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ان سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔ پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو اُن سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔

عن البراء بن عازب -رضي الله عنهما- أنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- قال في الأَنصَار: «لاَ يُحِبُّهُم إِلاَّ مُؤمِن، وَلاَ يُبْغِضُهُم إِلاَّ مُنَافِق، مَنْ أَحَبَّهُم أَحَبَّهُ الله، وَمَنْ أَبْغَضَهُم أَبْغَضَه اللَّه».

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ”ان سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا۔ پس جو شخص ان سے محبت کرے اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر البراء بن عازب -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حث على حب الأنصار، وجعله علامة الإيمان؛ وفاءً لجميل الأنصار؛ وهذا لسابقتهم في خدمة الرسالة، وما كان منهم في نصرة دين الإسلام، والسعي في إظهاره وإيواء المسلمين، وقيامهم في مهمات دين الإسلام حق القيام، وحبهم النبي -صلى الله عليه وسلم- وحبه إياهم، وبذلهم أموالهم وأنفسهم بين يديه، وقتالهم ومعاداتهم سائر الناس إيثارًا للإسلام، بل صرح الصادق المصدوق أن بغضهم لا يتصور إلا من رجل لا يؤمن بالله واليوم الآخر مغموس بالنفاق.
576;راء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے محبت کرنے پر ابھارا، اور انصار کی خوبیوں کے پیشِ نظر اسے (انصار سے محبت کو) ایمان کی علامت قرار دیا اس لیے کہ انھوں نے آپ کی خدمت میں سبقت کی تھی اور اسی طرح دینِ اسلام کی خدمت اور اس کے غلبے اور مسلمانوں کو پناہ دینے والی صفات جو ان میں تھیں، اسلام کے اہم معاملات کو کماحقہ قائم کرنے اور آپ ﷺ سے ان کی محبت اور ان سے آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کے لیے ان کا اپنا مال اور جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اسلام کی خاطر قربانی دیتے ہوئے ان کا جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر دوسرے لوگوں سے دشمنیاں مول لینے کی وجہ سے ان سے محبت کرنے کو کہا گیا ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے صراحت فرمائی کہ ان سے بُغض اسی شخص سے تصور کیا جاسکتا ہے جو اللہ، آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور نفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3438

 
 
Hadith   356   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بَشَّر خديجة -رضي الله عنها- ببيت في الجنة من قصب، لا صخب فيه، ولا نصب


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں موتیوں سے بنے ایک گھر کی بشارت دی جس میں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ ہی کوئی تھکن۔

عن عبد الله بن أبي أوفى -رضي الله عنهما- أنَّ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بَشَّرَ خَدِيجَةَ -رضي الله عنها- بِبَيتٍ فِي الجنَّة مِنْ قَصَبٍ، لاَ صَخَبَ فِيهِ، ولاَ نَصَبٍ.

عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں موتیوں سے بنے ایک گھر کی بشارت دی جس میں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ ہی کوئی تھکن۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بشر النبي -صلى الله عليه وسلم- خديجة -رضي الله عنها- بواسطة جبريل -عليه السلام-، بقصر في الجنة من لؤلؤ مجوف ليس فيه أصوات مزعجة وليس فيه تعب، وأم المؤمنين خديجة هي أوَّل امرأة تزوجها النبي -صلى الله عليه وسلم-، تزوجها وهو -صلى الله عليه وسلم- ابن خمس وعشرين سنة، ولها أربعون سنة، وقيل ثمانية وعشرون سنة، وكانت ثيبًا، وولدت له بناته الأربع وأولاده الثلاثة أو الاثنان، ولم يتزوج عليها أحدا حتى ماتت -رضي الله عنها-، وكانت امرأة عاقلة ذكية حكيمة، لها مناقب معروفة.
606;بی ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں کھوکھلے موتیوں سے بنے ایک محل کی خوشخبری دی جس میں نہ تو پریشان کن آوازیں ہوں گی اور نہ ہی تھکن۔ اُم المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے پہلی خاتون ہیں جن سے نبی ﷺ نے شادی کی۔ نبی ﷺ نے جب ان سے شادی کی تو آپ ﷺ کی عمر پچیس سال جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ وہ اس وقت ثیبہ تھیں اور آپ ﷺ کی چاروں بیٹیاں اور تینوں یا دونوں بیٹے ان ہی سے پیدا ہوئے۔ ان کے ہوتے ہوئے آپ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے شادی نہ کی یہاں تک کہ وہ وفات پا گئیں۔ رضی اللہ عنہا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت ہی عقل مند، ذہین اور حکیم خاتون تھیں جن کی اخلاقی صفات اور خوبیاں مشہور ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3439

 
 
Hadith   357   الحديث
الأهمية: لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- على شيء من النوافل أشد تعاهدًا منه على ركعتي الفجر


Tema:

نبی ﷺ جس قدر اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔

عن عائشة بنت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- قالت: «لم يَكُن النبي -صلى الله عليه وسلم- على شيء من النَّوَافل أشد تَعاهُدَاً منْهُ على ركْعَتَي الفَجْرِ».
وفي رواية: «رَكْعَتا الفَجْرِ خيرٌ منَ الدُّنيا وما فيها».

عائشہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ جس قدر اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو رکعتیں دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان لما لركعتي الفجر من الأهمية والتأكيد، فقد ذكرت عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أكدهما وعظم شأنهما بفعله، حيث كان شديد المواظبة عليهما، وبقوله، حيث أخبر أنهما خير من الدنيا وما فيها.
575;س حدیث میں فجر کی دو رکعت سنتوں کی اہمیت اور ان کے بارے میں وارد ہونے والی تاکید کا بیان ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ان پر بہت زور دیا ۔ آپ ﷺ نے اپنے عمل سے بھی ان کی اہمیت کو اجاگر کیا بایں طور کہ آپ ﷺ ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے اور قولی طور پر اس کی اہمیت پر یہ فرما کر زور دیا کہ یہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3440

 
 
Hadith   358   الحديث
الأهمية: صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة


Tema:

جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ افضل ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: «صلاةُ الجَمَاعَة أَفضَلُ من صَلاَة الفَذِّ بِسَبعٍ وعِشرِين دَرَجَة».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ افضل ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشير هذا الحديث إلى بيان فضل صلاة الجماعة على صلاة المنفرد، بأن الجماعة -لما فيها من الفوائد العظيمة والمصالح الجسيمة- تفضل وتزيد على صلاة المنفرد بسبع وعشرين مرة من الثواب؛ لما بين العملين من التفاوت الكبير في القيام بالمقصود، وتحقيق المصالح، ولاشك أنَّ من ضيَّع هذا الربح الكبير محروم.
575;س حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باجماعت پڑھی جانے والی نماز منفرد شخص کی نماز سے افضل ہے بایں طور کہ با جماعت نماز جس میں بہت زیادہ فوائد اور مصالح ہیں، ثواب کے لحاظ سے منفرد شخص کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے کیونکہ حصول مقاصد و فوائد کے اعتبار سے دونوں عملوں میں بہت زیادہ تفاوت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے اس عظیم نفع کو کھو دیا وہ محروم رہا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3441

 
 
Hadith   359   الحديث
الأهمية: من عاد مريضًا أو زار أخًا له في الله، ناداه مناد: بأن طبت، وطاب ممشاك، وتبوأت من الجنة منزلًا


Tema:

جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا اپنے کسی دینی بھائی سے ملاقات کی، تو اس کو ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: ”تو خوش رہے، تیرا چلنا مبارک ہو اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ عَادَ مَرِيضًا أَو زَارَ أَخًا لَهُ فِي الله، نَادَاهُ مُنَادٍ: بِأَنْ طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاكَ، وَتَبَوَّأتَ مِنَ الجَنَّةِ مَنْزِلاً».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا اپنے کسی دینی بھائی سے ملاقات کی، اس کو ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: ”تو خوش رہے، تیرا چلنا مبارک ہو اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من ذهب ليعود مريضًا أو يزور أخًا له لوجه الله -عز وجل- فإن ملكًا يناديه من عند الله -تعالى- أن طهرت من الذنوب وانشرحت بما لك عند الله من جزيل الأجر، واتخذت من الجنة قصرًا تسكنه.
580;و شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے یا پھر اللہ کی خاطر اپنے کسی بھائی سے ملاقات کے لیےجاتا ہے، اللہ کے ہاں سے ایک فرشتہ اسے پکار کر کہتا ہے کہ تو گناہوں سے پاک ہو، اللہ کے ہاں تیرے لیے جو بے پناہ اجر ہے اس سے تو خوش ہو اور جنت کا محل تیرا مسکن بنے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3442

 
 
Hadith   360   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزور قباء راكبًا وماشيًا، فيصلي فيه ركعتين


Tema:

نبی ﷺ سوار اور پیادہ (مسجدِ) قباء تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزورُ قُبَاءَ راكبًا وماشيًا، فيُصَلِّي فيه ركعتين.
وفي رواية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأتي مسجد قُبَاءَ كل سَبْتٍ راكبًا وماشيًا، وكان ابن عُمر يفعله.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سوار اور پیادہ (مسجدِ) قباء تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ مسجد قباء میں ہر ہفتے کے دن سوار اور پیادہ تشریف لاتے۔ اور ابن عمر بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
منطقة قباء التي بُنِيَ بها أول مسجد في الإسلام قرية قريبة من مركز المدينة من عواليها، فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزوره راكبا وماشيا، وقوله كل سبت: حيث كان يخصص بعض الأيام بالزيارة

والحكمة في مجيئه -صلى الله عليه وسلم- إلى قباء يوم السبت من كل أسبوع، إنما كان لمواصلة الأنصار وتفقُّد حالهم وحال من تأخَّر منهم عن حضور الجمعة معه، وهذا هو السِر في تخصيص ذلك بالسبت.

602;باء کا علاقہ جس میں اسلام کی سب سے پہلی مسجد تعمیر کی گئی مدینہ کے بالائی حصے کے قریب واقع ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ نبی ﷺ سوار اور پیادہ اس کی زیارت کے لیے تشریف لاتے۔ راوی کا یہ کہنا کہ "ہر ہفتے کے دن" تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے بعض ایام کو زیارت کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ نبی ﷺ کی ہر ہفتے کے دن قباء آنے میں حکمت یہ تھی کہ آپ ﷺ کا انصاری لوگوں سے تعلق قائم رہے اور آپ ﷺ ان کا اور ان لوگوں کا حال جان سکیں جو آپ ﷺ کے ساتھ نمازجمعہ میں حاضر ہونے سے رہ جاتے تھے۔ اور بطور خاص ہفتے کے دن آنے میں یہی راز پنہاں تھا۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3443

 
 
Hadith   361   الحديث
الأهمية: شهدت عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ فدعا بتور من ماء، فتوضأ لهم وضوء رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

میں عمرو بن ابی حسن کے پاس تھا کہ انھوں نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔۔ اس پر انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور لوگوں کو اس طرح سے وضوکر کے دکھایا، جیسے رسول اللہ ﷺ وضو کیا کرتے تھے۔

عن يحيى المازني -رحمه الله- قال: ((شَهِدتُّ عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وُضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ فدعا بتَور من ماء، فتوضَّأ لهم وُضُوء رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأكفَأ على يديه من التَّورِ، فغسَل يديه ثلاثًا، ثم أدخل يدهُ في التور، فمَضْمَض واسْتَنْشَق واسْتَنْثَر ثلاثا بثلاثِ غَرَفَات، ثم أدخل يده فغسل وجهه ثلاثا، ثم أدخل يده في التور، فغَسَلَهُما مرَّتين إلى المِرْفَقَين، ثم أدخل يدَه في التَّور، فمَسَح رأسَه، فأَقْبَل بهما وأَدْبَر مرَّة واحدة، ثم غَسَل رِجلَيه)).
وفي رواية: ((بدأ بمُقَدَّم رأسه، حتى ذَهَب بهما إلى قَفَاه، ثم رَدَّهُما حتَّى رَجَع إلى المكان الذي بدأ منه)).
وفي رواية ((أتانا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخْرَجنا له ماء في تَورٍ من صُفْرٍ)).

یحی مازنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں عمرو بن ابی حسن کے پاس تھا کہ انھوں نے عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔۔ اس پر انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور لوگوں کو اس طرح وضو کر کے دکھایا، جیسے رسول اللہ ﷺ وضو کیا کرتے تھے۔ انھوں نے طشت سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا، پھر تین بار اپنے ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا، پھر تین دفعہ تین چلوؤں سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے صاف کیا۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور اپنے سر کا مسح کیا؛ چنانچہ ان کو ایک مرتبہ آگے لائے اور پھر پیچھے لے گئے اور پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنے سر کے اگلے حصے سے(مسح کرنا) شروع کیا، یہاں تک کہ ہاتھوں کو گدی تک لے گئے اور پھر انھیں لوٹا کر اسی جگہ لے آئے، جہاں سے شروع کیا تھا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ ہم آپ ﷺ کے پاس تانبے سے بنے ایک طشت میں پانی لائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أجل حرص السلف الصالح -رحمهم الله- على اتباع السنة، كانوا يتساءلون عن كيفية عمل النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ ليتأسوا به فيها، وفي هذا الحديث يحدث عمرو بن يَحيى المازني عن أبيه: أنه شهد عمه عمرو بن أبي حسن، يسأل عبد الله بن زيد أحد الصحابة -رضي الله عنه- عن كيفية وضوء النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ فأراد عبد الله أن يبينها له بصورة فعلية؛ لأن ذلك أسرع إدراكا، وأدق تصويرا وأرسخ في النفس، فطلب إناء من ماء، فبدأ أولا بغسل كفيه؛ لأنهما آلة الغسل وأخذ الماء، فأكفأ الإناء فغسلهما ثلاثا، ثم أدخل يده في الإناء، فاغترف منه ثلاث غرفات يتمضمض في كل غرفة ويستنشق ويستنثر، ثم اغترف من الإناء فغسل وجهه ثلاث مرات، ثم اغترف منه فغسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين، ثم أدخل يديه في الإناء فمسح رأسه بيديه بدأ بمقدم رأسه حتى وصل إلى قفاه أعلى الرقبة، ثم ردهما حتى وصل إلى المكان الذي بدأ منه، صنع هكذا؛ ليستقبل شعر الرأس ويستدبره فيعم المسح ظاهره وباطنه، ثم غسل رجليه إلى الكعبين، وبيَّن عبد الله بن زيد -رضي الله عنه- أن هذا صنيع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين أتاهم، فأخرجوا له ماء في تور من صفر؛ ليتوضأ به -صلى الله عليه وسلم-، بيَّن ذلك عبد الله؛ ليثبت أنه كان على يقين من الأمر.
587;لف صالحین رحمہم اللہ اتباعِ سنت کی بہت زیادہ حرص رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبی ﷺ کے عمل کی کیفیت کے بارے میں دریافت کرتے رہتے، تا کہ آپ ﷺ کی پیروی کر سکیں۔ اس حدیث میں عمرو بن یحی مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے چچا عمرو بن ابی حسن کے پاس تھے کہ انھوں نے صحابی رسول عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کے وضو کی کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ عملی انداز میں اسے بیان کردیں؛ کیوںکہ عملی انداز سے بات جلد سمجھ میں آ جاتی ہے، کیفیت زیادہ دقیق انداز میں سامنے آتی ہے اور بات زیادہ ذہن نشین ہوتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور پہلے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھویا؛ کیوںکہ یہ دھونے اور پانی لینے کا آلہ ہیں۔انھوں نے برتن کو انڈیل کر دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انھیں دھویا۔ انھوں نے اپنا ہاتھ پھر برتن میں ڈال کر اس سے تین چلو بھرے اور ہر چلو سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے جھاڑا۔ اس کے بعد پھر برتن سے چلو بھر کے تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر اس سے پانی لے کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو دو دفعہ دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ سر کے آگے والے حصے سے آغاز کیا، یہاں تک کہ ہاتھوں کو گردن کے بالائی حصے تک لے گئے اور پھر انھیں لوٹا کر وہیں لے آئے،جہاں سے آغاز کیا تھا۔ انھوں نے اس طرح اس لیے کیا، تا کہ آگے سے بھی سر کے بالوں پر ہاتھ پھیر دیں اور پیچھے سے بھی۔ یوں سر کے بیرونی اور اندرونی ہر حصے کا مسح ہو جائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے وضاحت کی کہ رسول اللہ جب صحابہ کے پاس تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا۔ وہ پیتل سے بنے ایک طشت میں آپﷺ کے وضو کے لیے پانی لے کر آئے ۔ عبد اللہ رضی اللہ نے یہ وضاحت اس لیے کی؛ تا کہ ثابت ہو جائے کہ انھیں اس بات کا یقینی طور پر علم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3444

 
 
Hadith   362   الحديث
الأهمية: ليس من نفسٍ تقتل ظلمًا إلا كان على ابن آدم الأول كِفْلٌ من دمها؛ لأنه كان أول من سن القتل


Tema:

جو شخص بھی ظلما قتل کر دیا جاتا ہے، اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو بھی جاتا ہے؛ کیوںکہ قتلِ ناحق کی ریت اسی نے ڈالی تھی۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ليس مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلماً إِلاَّ كَان على ابنِ آدَمَ الأَوَّل كِفْلٌ مِن دمِهَا؛ لِأَنَّه كان أوَّل مَن سَنَّ القَتْلَ».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”جو شخص بھی ظلما قتل کر دیا جاتا ہے، اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو بھی جاتا ہے؛ کیوںکہ قتلِ ناحق کی ریت اسی نے ڈالی تھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي هذا الحديث سبب تَحمُّل أحد ابني آدم تَبِعَات الدِّماء التي تُهدَر بعده، قيل: قابيل قتل أخاه هابيل حسدا له، فهما أول قاتل ومقتول من ولد آدم؛ فيتحمَّل قابيل نصيبًا من إثم الدماء التي تسفك من بعده؛ لأنه كان أول من سنَّ القتل؛ لأنَّ كل من فعله بعده مُقتدٍ به.
740;ہ حدیث اس سبب کو بیان کر رہی ہے، جس کی وجہ سے آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے ایک پر، اس کے بعد بہائے جانے والے ہرناحق خون کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ سب سے پہلے قاتل اور مقتول تھے۔ چنانچہ قابیل کے بعد جو بھی ناحق خون کیا جاتا ہے، اس کے گناہ کا ایک حصہ قابیل کے کھاتے میں جاتا ہے؛ کیوںکہ اسی نے قتل کی ریت ڈالی تھی اور اس کے بعد آنے والا ہر شخص اسی کی اقتدا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3445

 
 
Hadith   363   الحديث
الأهمية: أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله، وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وأن الحج يهدم ما كان قبله؟


Tema:

کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہ کو منہدم کرتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے کے گناہ کو ختم کردیتی ہے اور حج اپنے سے پہلے کے گناہ کو ختم کرتا ہے؟۔

عن ابن شماسة المهري قال: حَضَرنَا عَمرو بن العاص -رضي الله عنه- وهُو فِي سِيَاقَةِ الْمَوتِ، فَبَكَى طَوِيلاً، وَحَوَّلَ وَجهَهُ إِلَى الجِدَارِ، فَجَعَلَ ابنَهُ، يقول: يَا أَبَتَاهُ، أَمَا بَشَّرَكَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بكَذَا؟ أمَا بشَّركَ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِكَذَا؟ فَأَقبَلَ بِوَجهِهِ، فقَالَ: إِنَّ أَفضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسولُ الله، إِنِّي قَدْ كُنتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلاَثٍ: لَقَدْ رَأَيتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- مِنِّي، وَلاَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الإِسْلاَمَ فِي قَلْبِي أَتَيتُ النَبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-، فَقُلتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلِأُبَايِعُكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ فَقَبَضْتُ يَدِي، فقال: «مَا لَكَ يَا