Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   1560   الحديث
الأهمية: لا يقضين، كانت المرأة من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- تقعد في النفاس أربعين ليلة لا يأمرها النبي -صلى الله عليه وسلم- بقضاء صلاة النفاس


Tema:

وہ قضا نہیں کریں گی۔ نبی ﷺ کی (رشتہ دار) خواتین میں سے کوئی عورت چالیس دن تک نفاس میں رہتی اور آپ ﷺ اسے مدتِ نفاس کی نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔

عَنْ كَثِيرِ بن زِيَاد، قال: حدثتني الأزْدِيَّة يعني مُسَّةَ قالت: حَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: يَا أُمَّ المؤْمِنِين، إِنَّ سَمُرَةَ بن جندب يَأْمُرُ النِّسَاءَ يَقْضِينَ صَلَاةَ الْمَحِيضِ فَقَالَتْ: «لَا يَقْضِينَ كَانَتِ المَرْأَةُ من نِسَاءِ النبي -صلى الله عليه وسلم- تَقْعُدُ فِي النِّفَاسِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا يَأْمُرُهَا النبي -صلى الله عليه وسلم- بِقَضَاءِ صَلَاةِ النِّفَاسِ»
وفي رواية: و«كنا نطلي على وُجُوهنا بِالوَرْسِ -تعني- من الكَلَف».

كثیر بن زیاد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مُسّہ ازدیہ نے بیان کیا: میں حج کو گئی تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر ہوئی۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ عورتوں کو حیض کی نمازیں قضا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: وہ قضا نہیں کریں گی۔ نبی ﷺ کی (رشتہ دار) خواتین میں سے کوئی عورت چالیس دن تک نفاس میں رہتی اور آپ ﷺ اسے مدتِ نفاس کی نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ہم جھائیوں کو دور کرنے کے لیے اپنے چہروں پر وَرس (ایک قسم کا پودا جو رنگائی کے کام ميں لايا جاتا ہے ) ملا کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
استدركت أمنا أم سلمة -رضي الله عنها- على فتوى الصحابي الجليل سمرة بن جندب -رضي الله عنه-، وهذا لما ألزم النساء بقضاء الصلاة المتروكة زمن الحيض، فقالت -رضي الله عنها-:
( لا يقضين) أي: الصلاة.،كما علَّلت -رضي الله عنها- هذه الفتوى منها بقولها: (كانت المرأة من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- تقعد في النفاس أربعين ليلة لا يأمرها النبي -صلى الله عليه وسلم- بقضاء صلاة النفاس) والمراد بنسائه غير أزواجه -صلى الله عليه وسلم- من بنات وقريبات، وأن النساء أعم من الزوجات لدخول البنات وسائر القرابات تحت ذلك.
وهاهنا إشكال، وهذا في قولها: (تقعد في النفاس ...إلخ) ذلك أن مُسَّةَ سألت أم سلمة -رضي الله عنها- عن حكم الصلاة في حالة الحيض وأخبرت عن سمرة أنه يأمر بها وأجابت أم سلمة عن صلاة النفساء.
والجواب عنه من وجهين:   الأول: أن المراد بالمحيض ها هنا هو النفاس بقرينة الجواب.
والثاني: أن أم سلمة أجابت عن الصلاة حال النفاس الذي هو أقل مدةً من الحيض، فإن الحيض قد يتكرر في السنة اثنا عشر مرة والنفاس لا يكون مثل ذلك، بل هو أقل منه جدًّا، فقالت إن الشارع قد عفا عن الصلاة في حال النفاس الذي لا يتكرر، فكيف لا يعفو عنها في حال الحيض الذي يتكرر، والله أعلم.
قولها: (وكنا نطلي على وجوهنا) أي نلطخ والطلي الادِّهان.
قولها: (الورس) الورس  نبات أصفر تتخذ منه الغمرة للوجه.
(تعني من الكَلَف) لون بين السواد والحمرة وهي حمرة كدرة تعلو الوجه وشيء يعلو الوجه.
729;ماری ماں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عظیم القدر صحابی سمره بن جندب رضی اللہ عنہ کے فتوے کی اصلاح فرمائی جب انہوں نے عورتوں پر لازم قرار دیا کہ وہ مدتِ حیض میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کریں۔ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ قضا نہیں کریں گی، یعنی نماز کی قضا نہیں کریں گی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس فتوے کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا: نبی ﷺ کی رشتہ دار خواتین میں سے کوئی عورت چالیس دن تک نفاس میں رہتی اور آپ ﷺ اسے مدتِ نفاس کی نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یہاں ”نساء النبی“ سے مراد آپ ﷺ کی بیویوں کے علاوہ آپ ﷺ کی بیٹیاں اور قریبی رشتہ دار خواتین ہیں۔ ”النساء“ کا لفظ بیویوں سے عام ہے کیونکہ اس کے تحت بیٹیاں اور باقی رشتہ دار خواتین آتی ہیں۔
یہاں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قول: ”نفاس میں رہتی ...الخ“ کی وجہ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مسہ ازدیہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حالت ِحیض میں نماز پڑھنے کے حکم کے بارے میں پوچھا تھا اور انہیں بتلايا تھا کہ سمرۃ رضی اللہ عنہ ان کی قضا کا حکم دیتے ہیں، جب کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نفاس والی عورتوں کی نماز کے بارے میں جواب دیا۔
اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
اول: جواب کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حیض کے لفظ سے نفاس مراد ہے۔
دوم: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حالتِ نفاس کی نماز کے بارے میں جواب دیا جو مدت میں حیض سے کم ہوتا ہے۔ کیوں کہ حیض دورانِ سال بارہ دفعہ آتا ہے، جب کہ نفاس اس طرح نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی بنسبت بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب شارع نے حالتِ نفاس میں نماز کو معاف کر دیا جو بار بار نہیں آتا تو حالت حیض کی نمازوں کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو بار بار آتا ہے؟!۔ واللہ اعلم۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول: ”وكنا نطلي على وجوهنا“ یعنی ہم ملتی تھیں۔ ”الطلی“ کا معنی تیل ملنا آتا ہے۔
”الورس“ ایک زرد رنگ کا پودا ہے جس سے چہرے پر ملنے کی کریم بنائی جاتی ہے۔
”تعني من الكَلَف“ الکلف سے مراد وہ رنگ ہے جو سیاہی اور سرخی کے درميان ہوتا ہے یعنی سرخی مائل مٹیالی رنگت يا کوئی اور چيز جو چہرے پر ظاہر ہوجاتی ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10008

 
 
Hadith   1561   الحديث
الأهمية: هذا شيء كتبه الله على بنات آدم، افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري


Tema:

یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ تم تمام کا م ویسے کرتی جاؤ، جیسے (تمام )حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لا نَذْكُرُ إلا الحج، حتى جِئْنَا سَرِف فَطَمِثْتُ، فدخل عليَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنا أبْكِي، فقال: «ما يُبْكِيك؟» فقلت: والله، لوَدِدْتُ أنَّي لم أكُن خرجت العَام، قال: «ما لك؟ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟» قلت: نعم، قال: «هذا شيء كَتَبه الله على بنات آدم، افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تَطُوفي بالبيت حتى تَطْهُري» قالت: فلمَّا قدمت مكة، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأصحابه «اجْعَلُوها عُمرة» فأحَلَّ الناس إلا من كان معه الهَدْي، قالت: فكان الهَدْي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبي بكر وعمر وذَوِي اليَسَارَة، ثم أهَلُّوا حين راحُوا، قالت: فلمَّا كان يوم النَّحر طَهَرْت، فأمَرَني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَأَفَضْتُ، قالت: فَأُتِيَنَا بِلَحم بَقَر، فقلت: ما هذا؟ فقالوا: أَهْدَى رسول الله -صلى الله  عليه وسلم- عن نِسَائه البقر، فلمَّا كانت ليلة الحَصْبَةِ، قلت: يا رسول الله، يرجع الناس بحجة وعُمرة وأرجع بِحَجَّة؟ قالت: فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر، فَأَرْدَفَنِي على جَمَلِه، قالت: فإني لأذْكُر، وأنا جَارية حَدِيثَةُ السِّن، أَنْعَسُ فيُصِيب وجْهِي مُؤْخِرَة الرَّحْل، حتى جِئْنَا إلى التَّنْعِيم، فَأَهْلَلْتُ منها بِعُمْرة؛ جزاء بِعُمْرَة الناس التي اعْتَمَرُوا.

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ نکلے، ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا۔ جب سرف کے مقام پر پہنچے، تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺمیرے پاس آئے جبکہ میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے پو چھا: تمھیں کونسی بات رلا رہی ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلی ہوتی! آپ نے پو چھا: تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فر مایا: یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ جیسے حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب میں مکہ پہنچی، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔ چنانچہ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ تمام لوگ حلال ہو گئے۔ قربانی کے جانور صرف رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر اور بعض اصحاب ثروت صحابہ ہی کے پاس تھیں۔ جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو حج کا تلبیہ پکارا۔ اور جب قربانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا اور میں نے طواف کر لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس گائے کا گوشت لا یا گیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قر بانی دی ہے۔ جب محصب (مینا سے روانگی) کی رات آئی، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے لوٹیں اور میں صرف حج کر کے لوٹوں؟ تو آپ ﷺنے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا۔ وہ کہتی ہیں: مجھے یا د پڑتا ہے کہ میں (اس وقت) نو عمر لڑکی تھی، (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکرا رہا تھا، حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا، عمرے کا تلبیہ پکارا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى حديث عائشة -رضي الله عنها-: "خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لا نَذْكُرُ إلا الحج".
أي: من المدينة وكان خروجه -صلى الله عليه وسلم- يوم السَبت لخمس ليالٍ بَقَيْنَ من ذي القِعدة بعد أن صلى بها الظهر أربع ركعات، ثم سَار إلى ذي الحليفة فَصَلى بها العصر ركعتين.
"لا نَذْكُرُ إلا الحج".
وفي رواية :"لا نَرَى إلا الحج". لكن جاء عنها في حديث آخر صحيح: "فمنَّا من أهَلَّ بِعمرة، ومنَّا من أهَلَّ بحج، وكنت ممن أَهَلَّ بِعمرة"، وعلى هذا يكون قولها -رضي الله عنها-: "لا نَذْكر إلا الحج"، وقولها: "لا نَرى إلا الحج" لا يخلو من الأحوال التالية:
الحال الأولى: تريد بذلك فريضة الحج من حيث الأصل، لا بيان نوع النُّسك الذي أحرموا به.
الحال الثانية: تريد بذلك عند خروجهم وقبل وصولهم إلى الميقات، والدخول في الإحرام.   الحال الثالثة : تريد بذلك حال غيرها من الصحابة، ولم تقصد نفسها.
"حتى جِئْنَا سَرِف".
يعني: حتى وصلوا موضِعا يُقال له: "سَرِفُ"، وهو مَوضع قريب من مكة.
"فَطَمِثْتُ" يعني: حاضت -رضي الله عنها-.
"فدخل عليَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنا أبْكِي، فقال: «ما يُبْكِيك؟» فقلت: والله، لوَدِدْتُ أنَّي لم أكُن خرجت العَام".
لما حصل معها ما حصل بَكَت -رضي الله عنها- وتَمَنَّت أنها لم تحج معهم هذه السَّنة؛ ظنا منها أنها لما حاضت قد تنقطع عن أعمال الحج، ويفوتها بذلك الخير.
" قال: «ما لك؟ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟»".
أي: حِضْت .
" قلت: نعم، قال: «هذا شيء كَتَبه الله على بَنَات آدم»".

أي: أن الحيض أمْر مُقَدَّر ومكتوب على بنات آدم، فليس خاصًا بك وليس بيدك؛ فلا داعي للبكاء.
"افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تَطُوفي بالبيت حتى تَطْهُري".
فأخبرها النبي -صلى الله عليه وسلم- بأن الحيض لا يمنعها من المضي في نسكها، ولا يُخِلُّ بإحرامها، وأنها تفعل ما يفعله الحاج: من الوقوف بعرفة ومنى ومزدلفة ورمي الجماروسائر أفعال الحج غير الطواف، فإنها تمتنع منه حتى تَطْهر من حيضها وتغتسل.  
"قالت: فلمَّا قَدمت مكة، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأصحابه «اجْعَلُوها عُمرة»".
تعني لما قَدِم النبي -صلى الله عليه وسلم- مكة أمَر من لم يسوقوا الهدي أن يجعلوا إحرامهم عمرة، فمن أحرم بالحج ولم يكن ساق الهدي فإنه يَقْلب إحرامه بالحج عمرة، فيطوف ويسعى ويقصر، ثم هو قد حَلَّ من إحرامه، وفي رواية أخرى لمسلم: "فأمرنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يَحِلَّ منَّا من لم يكن معه هدى، قال: فقلنا: حِلُّ ماذا؟ قال: "الحِلُّ كُلُّه".   "قالت: فأحَلَّ الناس إلا من كان معه الهَدْي، قالت: فكان الهَدْي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبي بكر وعمر وذَوِي اليَسَارَة".
تعني أن من لم يكن معه الهدي حلُّوا من إحرامهم بعد أن طافوا وسعوا وقصروا، وبقي النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعمر -رضي الله عنهما- ومن ساق الهدي ممن وسَّعَ الله عليهم بقوا على إحرامهم؛ لأنهم ساقوا الهدي ومن ساق الهدي لم يَجز له فسخ إحرامه إلى عمرة؛ لقوله -صلى الله عليه وسلم-: "لولا أني سُقْتُ الهَدْي، لفعلت مثل الذي أمَرْتُكم به".
"قالت: ثم أهَلُّوا حين راحُوا".
تعني أن الذين طافوا وسعوا وقصروا، أهلوا بالحج حين راحُوا إلى منى وذلك يوم التروية، وهو اليوم الثامن من ذي الحِجة. 


"قالت: فلمَّا كان يوم النَّحر طَهَرْت".
أي: أنها طَهَرت من حيضها يوم النحر، وهو يوم العاشر من ذِي الحِجَّة، سُمي بذلك؛ لنَحر الأضاحي فيه.
"فأمَرَني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَأَفَضْتُ". 
أي: بعد أن طَهَرت من حيضها -رضي الله عنها- يوم النَّحر أمَرَها النبي -صلى الله عليه وسلم- بأداء طواف الإفاضة فَفَعَلت.
"قالت: فَأُتِيَنَا بِلَحم بَقَر، فقلت: ما هذا؟".
يعني: أُرسل لها ولمن معها من النساء لحم بقر، ثم إنها سَألت عنه.
"فقالوا: أَهْدَى رسول الله -صلى الله  عليه وسلم- عن نِسَائه البَقر".
أي: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نَحَر عن كل واحدة من نسائه بقرة.
"فلمَّا كانت ليلة الحَصْبَةِ".
يعني لمَّا كانت ليلة النزول من منى، وهي الليلة التي بعد أيام التشريق وسميت بذلك؛ لأنهم نَفَروا من منى فنزلوا في المُحَصَّب وباتوا به، وفي البخاري : "أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رقَد رقْدَةً في المُحصَّب، ثم ركِبَ إلى البيت فطاف به".
"قلت: يا رسول الله، يرجع الناس بِحَجَّة وعُمرة وأرجع بِحَجَّة؟".
أي يرجعون بحج منفرد وعمرة منفردة؛ لأنهم كانوا متمتعين، وأرجع أنا وليس لي عمرة منفردة؛ لأنها كانت قارنة، والعمرة في القران داخلة في الحج بالنية، وفي رواية لمسلم "أيرجع الناس بأجرين وأرجع بأجر؟"، فهي أرادت أن يكون لها عمرة منفردة عن الحج، كما حصل لسائر أمهات المؤمنين وغيرهن من الصحابة الذين فسخوا الحج إلى العمرة، وأتموا العمرة وتحللوا منها قبل يوم التروية، ثم أحرموا بالحج من مكة يوم التروية، فحصل لهم عمرة منفردة وحجة منفردة، وأما عائشة فإنما حصل لها عمرة مندرجة في حجة بالقران، فقال لها النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم النفر يسعك طوافك لحجك وعمرتك، أي: وقد تما وحسبا لك جميعا، فأبت وأرادت عمرة منفردة كما حصل لباقي الناس.
"قالت: فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر، فَأَرْدَفَنِي على جَمَلِه".
أي : أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمر أخاها عبد الرحمن بن أبي بكر -رضي الله عنهما- بأن يخرج بها إلى التَّنْعِيم؛ لتأتي منه بعمرة، حتى تكون مثل بقية الناس، فأردفَها -رضي الله عنه- خَلفه كما في رواية مسلم الأخرى. 
"قالت: فإني لأذْكُر، وأنا جَارية حَدِيثَةُ السِّن، أَنْعَسُ فيُصِيب وجْهِي مُؤْخِرَة الرَّحْل".
أي: عندما أردفها عبد الرحمن بن أبي بكر -رضي الله عنه- خلفه، وسار بها إلى التنعيم كانت تَنْعَس حتى أنها رأسها يسقط من شِدَّة النُّعاس، فيضرب في مؤخرة الرَّحْل.     
"حتى جِئْنَا إلى التَّنْعِيم، فَأَهْلَلْتُ منها بِعُمْرة؛ جزاء بِعُمْرَة الناس التي اعْتَمَرُوا".
أي لما وصلا إلى التنعيم، أهلت -رضي الله عنها- بعمرة مستقلة بأعمالها مقام عمرة الناس التي اعتمروها أولا.
وفي رواية في الصحيحين أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال لها بعد أن أدَّت العمرة : "هذه مكان عمرتك" أي: هذه العمرة مكان العمرة التي كنت تريدين حصولها منفردة غير مندرجة مع الحج، فمنعك الحيض من القيام بها.

593;ائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مفہوم: ”ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ نکلے۔ ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا“ یعنی مدینہ سے۔ آپ ﷺ مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھنے کے بعد نکلے تھے۔ سنیچر کا دن تھا اور ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے عصر کی نماز دو رکعت پڑھی تھی۔
”ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے“ اور ایک روایت میں ہے: ”ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا“ جب کہ ان سے ایک اور صحیح حدیث میں اس طرح آیا ہے: ”ہم میں سے کچھ عمرہ کا تلبیہ کہہ رہے تھے اور کچھ حج کا اور میں عمرہ کا تلبیہ کہہ رہی تھی“، اس طرح ان کے یہ اقوال: ”ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے“ اور ”ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا“ مندرجہ ذیل احوال میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں:
پہلی حالت: اصل میں اس سے ان کی مراد فریضۂ حج ہے۔ اس قسم کا بیان نہیں جس کا انھوں نے احرام باندھا تھا۔
دوسری حالت: اس سے ان کی مراد گھر سے نکلتے وقت اور میقات پر پہنچ کر احرام باندھنے سے پہلے تک کا حال بیان کرنا ہے۔
تیسری حالت: ان کے علاوہ دیگر صحابہ کا حال بیان کرنا مقصود ہو گا۔ خود ان کے بارے میں نہیں۔
”یہاں تک کہ ہم سرف کے مقام تک پہنچ گئے“ یہ مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔
”فَطَمِثْتُ“ یعنی وہ حائضہ ہو گئیں۔
”رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے، تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے پو چھا: تمھیں کون سی بات رلا رہی ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی!“ یعنی جب انھیں حیض آ گیا، تو وہ رونے لگیں اور یہ خواہش کرنے لگیں کہ کاش وہ اس سال حج کا ارادہ نہ کرتیں! کیوں کہ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ حائضہ ہونے کی وجہ سے حج کے تمام اعمال سے منقطع ہو جائیں گی اور اس وجہ سے بہت بڑی خیر سے محروم رہ جائیں گی۔
”فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟“ یعنی حائضہ تو نہیں ہو گئی؟ میں نے کہا: ہاں! آپﷺ نے فرمایا: ”یہ چیز تو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے“ یعنی حیض ایک طے شدہ امر ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے لکھ دیا ہے، یہ نہ تیرے ساتھ خاص ہے اور نہ تیرے ہاتھ میں کچھ ہے۔ اس لیے رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
”تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ، جیسے (تمام ) حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو“ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بتادیا کہ حیض مناسک حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں اور نہ ہی احرام کے لیے مخل ہے۔ اس لیے دیگر حاجی جو کچھ کریں، تم بھی کرتی جاؤ۔ جیسے وقوف عرفہ ومنیٰ، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار وغیرہ۔ طواف کے علاوہ دیگر تمام ارکانِ حج ادا کر سکتی ہیں۔ جب تک پاک ہونے کے بعد غسل نہیں کر لیتیں، طواف کرنے سے اجتناب کریں گی۔
”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو“ یعنی نبی کریم ﷺ جب مکہ پہنچے، تو جو لوگ اپنے ساتھ قربانی نہیں لائے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرے کا بنا لیں؛ چنانچہ جس نے حج کے لیےاحرام باندھا تھا، لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہیں لایا تھا، وہ اپنے احرام کو بدل کر عمرہ کا احرام کر لے۔ وہ طواف کرے، سعی کرے، بال کٹوائے اور حلال ہو جائے۔ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے۔ ۔ہم نے کہا کہ کس طرح حلال ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: مکمل حلال۔
”عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ تمام صحابہ حلال ہو گئے۔ اور قربانی کا جانور صرف رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اور بعض اصحاب ثروت صحابہ ہی کے پاس تھیں“ یعنی جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، وہ طواف، سعی اور بال کٹوانے کے بعد حلال ہو گئے۔ جب کہ نبی کریم ﷺ، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور وہ صحابہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے فراوانی سے نوازا تھا، حالت احرام میں باقی رہ گئے؛ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ قربانیاں لائے تھے اور قربانی لانے والے کے لیے عمرہ کے بعد احرام اتارنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ”اگر میں قربانی لے کر نہ آیا ہوتا، تو میں بھی وہی کرتا، جو تمھیں کرنے کا حکم دیا ہے“۔
”جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو حج کا تلبیہ پکارا“ یعنی جن لوگوں نے طواف کر لیا، سعی کر لی اور بال کٹوا لیے، انھوں نے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یعنی ترویہ کے دن منی کی طرف نکلتے وقت حج کا تلبیہ پکارا۔
”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قر بانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی“ یعنی قربانی کے دن حیض سے پاک ہو گئیں۔ یہ دس ذی الحجہ کا دن تھا۔ اس دن کا نام ”یوم نحر“ قربانیوں کو نحر کرنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا، تو میں نے طواف افاضہ کر لیا“ یعنی یوم نحر کو جب حیض سے پاک ہوئیں، تو نبی کریم ﷺ نے انھیں طواف افاضہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ اس سے فارغ ہو گئیں۔
”ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟“ یعنی ان کے اور ان کے ساتھ موجود دیگر عورتوں کے لیے گائے کا گوشت بھیجا گیا، تو انھوں نے اس کے بارے میں پوچھا۔
”جواب دیا گیا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺنے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے“ یعنی نبی کریم ﷺ نے اپنی ہر بیوی کی طرف سے ایک ایک گائے قربانی کی ہے۔
”جب محصب کی رات آئی“ یعنی جب منیٰ سے روانگی کی رات آئی۔ یہ ایام تشریق کے بعد والی رات ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ حجاج منی سے نکل کر محصب آکر رات گزارتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہﷺ محصب کی رات کچھ دیر سوئے اور سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ آئے اور طواف کیا۔
”میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! لوگ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟“ یعنی وہ مستقل حج اور مستقل عمرہ کر کے لوٹیں گے؛ کیوں کہ انھوں نے حج تمتع کیا تھا اور میں الگ سے عمرہ کیے بغیر ہی لوٹ جاؤں گی؛ کیوں کہ وہ قارن تھیں اور حج قران میں عمرہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”لوگ دو اجر لے کر لوٹیں اور میں ایک ہی اجر کے ساتھ لوٹوں؟“، وہ چاہتی تھیں کہ انھیں بھی حج کے علاوہ الگ سے عمرہ کی سعادت نصیب ہو، جیسے دیگر امہات المؤمنین اور صحابہ کو نصیب ہوئی تھی، جنھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرہ کے کے احرام میں بدل لیا، عمرہ مکمل کر کے یوم الترویہ سے پہلے حلال ہو گئے، پھر ترویہ کے دن مکہ سے حج کا احرام باندھا۔ اس طرح انھیں الگ الگ حج اور عمرہ ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ جب کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا عمرہ حج قران ہی میں شامل تھا۔ چنانچہ واپسی کے دن رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمھارا طواف حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہے۔ یعنی دونوں مکمل ہو گئے ہیں اور یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ لیکن انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور دیگر لوگوں کی طرح الگ عمرہ کرنے کی خواہش پر مصر رہیں۔
”وہ کہتی ہیں: آپ ﷺ نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا“ یعنی نبی کریم ﷺ نے میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ مجھے تنعیم لے جائیں؛ تاکہ میں وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر آؤں؛ تاکہ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی الگ عمرے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے سوار کر لیا جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے۔
”وہ کہتی ہیں: مجھے یاد پڑتا ہے، میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی، راستے میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ بار بار کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا“ یعنی جب عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کیا اور تنعیم کی طرف چلے تو راستے میں شدید اونگھ کی وجہ سے ان کا سر ادھر ادھر گرتا اور کجاوے سے ٹکرا جاتا۔
”حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا عمرہ کا احرام باندھا“ یعنی جب وہ مقام تنعیم پہنچ گئے، تو انھوں نے وہاں سے مستقل عمرہ کے لیے احرام باندھا، اس عمرہ کے بدلے میں جو لوگ پہلے ہی کر چکے تھے۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے عمرے کی ادائیگی کے بعد فرمایا: ”یہ تمھارے اس عمرے کے بدلے میں ہے“ یعنی یہ عمرہ اس عمرے کی جگہ ہے، جو تم حج سے الگ مستقل طور پر کرنا چاہتی تھی اور حیض کی وجہ سے کر نہیں پائی تھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10010

 
 
Hadith   1562   الحديث
الأهمية: يا معشر النساء تصدقن فإني أريتكن أكثر أهل النار، فقلن: وبم يا رسول الله؟ قال: تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن


Tema:

اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم (عورتوں) سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند اور تجربہ کار آدمی کے عقل کو ماؤف کردینے والا نہیں دیکھا۔

عن أبي سعيد الخدري-رضي الله عنه-، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في أضْحَى أو فِطْر إلى المُصَلَّى، فَمَرَّ على النساء، فقال: «يا مَعْشَرَ النساء تَصَدَّقْنَ فإني أُرِيتُكُنَّ أكثر أهْل النار». فقُلن: وبِمَ يا رسول الله؟ قال: «تُكْثِرْن اللَّعن، وتَكْفُرْن العَشِير، ما رَأَيْت من ناقِصَات عَقْل ودِين أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُل الحَازم من إحدَاكُن». قُلْن: وما نُقصَان دِينِنَا وعَقْلِنَا يا رسول الله؟ قال: «ألَيْس شهادة المرأة مثل نِصف شَهادة الرَّجُل». قُلْن: بَلَى، قال: «فذَلِك من نُقصان عقْلِها، ألَيْس إذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم». قُلْن: بَلَى، قال: «فذَلِك من نُقصان دِينِها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ ﷺ عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم (عورتوں) سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند اور تجربہ کار آدمی کے عقل کو ماؤف کردینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کيا کہ ہمارے دین اور ہماری عقل کی کمی کیا ہے اے اللہ کے رسول؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر نھیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس یہی اس کی عقل کی کمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی اس کے دین کی کمی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أبو سعيد -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم-: "خرج في أضْحَى أو فِطْر إلى المُصَلَّى، فَمَرَّ على النساء بعد أن خطب خطبة عامة للرجال والنساء خصصهن بخطبة في وعْظِهن وتذْكِيرهن وترْغِيبهن في الصدقة، لأن الصدقة تُطفئ غَضب الرَّب، ولهذا قال لهنَّ: "يا مَعْشَرَ النساء تَصَدَّقْنَ فإني أُرِيتُكُنَّ أكثر أهْل النار" أي أكثرن من الصدقة لوقاية أنْفُسِكن من عذاب الله، لأني اطلعت على النَّار وشاهدتها بعيني، فرأيت أكثر أهلها النَّساء.
"فقُلن: وبِمَ يا رسول الله؟" أي: بسبب ماذا نَكون أكثر أهل النار؟
قال: "تُكْثِرْن اللَّعن" أي بسبب أنَّكن تُكْثِرْن اللَّعن إلى الناس، وهو شَرُّ دُعاء يوجَّه إلى إنسان؛ لأن معناها الطَّرد من رحمة الله، والإبعاد عن الخير في الدنيا والآخرة، ولا شك أن في هذا مصادرة لِسَعَة رحمته التي سَبقت غضبه.
"وتَكْفُرْن العَشِير"
أي تَسترن نِعمة الزوج وتَجْحَدن فَضله وتُنْكِرن معروفه وتَنْسَين جميله، وفي رواية للبخاري ومسلم عن ابن عباس: "قيل: أيَكْفُرن بالله؟ قال: "يَكْفُرن العَشِير، ويَكْفُرن الإحسان، لو أحسنتَ إلى إحداهن الدهر، ثم رَأَتْ منك شيئا، قالت: ما رأيتُ منك خيرا ً قَط"
"ما رَأَيْت من ناقِصَات عَقْل ودِين أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُل الحَازم من إحدَاكُن"
أي لا أحد أقدْر على سَلْب عقل الرجل من المرأة، ولو كان الرَّجُل ممن عُرِف بالحَزم والشدَّة؛ وذلك لقوة تأثيرها العاطفي وسِحر جَمالها ودلالها وإغرائها، وهذا على سبيل المُبَالغة في وصْفِهن بذلك؛ لأنه إذا كان الضَابط الحازم في أموره يَنْقاد لهنَّ فغيره من باب أولى."قُلْن: وما نُقصان دِينِنَا وعَقْلِنَا يا رسول الله؟" كأنه خُفي عليهن ذلك حتى سَألن عنه"
قال: «ألَيْس شهادة المرأة مثل نِصف شَهادة الرَّجُل»، هذا استفهام تقريري منه -صلى الله عليه وسلم- وهو أن شهادة المرأة على نصف شهادة الرَّجل.
"قُلْن: بَلَى" أي أن الأمر كذلك.
قال: "فذَلِك من نُقصان عَقْلِها" والمعنى: أن النَّقص الحاصل في عقلها لأجل أن شهادتها جُعلت على نصف شهادة الرجل، وهذا فيه إشارة إلى قوله تعالى: ( واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشهداء أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى ) فالاستظهار بامرأة أخرى دليل على قِلَّة ضبطها وهو مُشْعِر بنقص عقلها.
"ألَيْس إذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم" وهذا استفهام تقريري منه -صلى الله عليه وسلم- في أن المرأة في وقت حيضها تدع الصلاة وتدع الصيام.
"قُلْن: بَلَى، أي: أن الأمر كذلك، قال: "فذَلِك من نُقصان دِينِها".
فإذا كانت المرأة تَدع الصلاة والصوم وهما من أركان الإسلام، بل من أهمها، فهذا نَقص في دِينها؛ لأنها لا تصلي ولا تقضي، وفي الصيام يفوتها إذا حاضت مشاركة المؤمنين في الطاعة في رمضان.
إلا أنهن لا يُلَمْنَ على ذلك ولا يؤاخذن عليه؛ لأنه من أصل الخِلْقَة، لكن نَبَّه النبي -صلى الله عليه وسلم- على ذلك تحذيرًا من الافتتان بهن ولهذا رتَّب العَذاب على ما ذُكر من الكُفْرَان وغيره لا على النَّقص الحاصل عندهن؛ لأنه بغير اختيارهن، ولا يُمكِن دفعه بحال.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ بيان فرما رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے دن عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ مرد و خواتین تمام لوگوں کو عمومى خطبہ دینے کے بعد آپ ﷺ کا گزر جب عورتوں کے پاس سے ہوا تو آپ ﷺ نے بطور خاص انہیں وعظ و نصیحت کرنے اور انہیں صدقہ کرنے کی ترغیب دينے کے ليے ايک خطبہ ارشاد فرمايا۔ کیونکہ صدقہ رب کے غضب کو بجھا ديتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے“ یعنی زیادہ سے زیادہ صدقہ دو تاکہ تم اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا سکو کیونکہ ميں نے جہنم ميں جھانک کر دیکھا اور اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا تو مجھے اس میں اکثریت عورتوں کی نظر آئی۔
انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ یعنی کس وجہ سے جہنم میں ہماری اکثریت ہو گی؟
آپ ﷺ نے فرمایا: تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو۔ یعنی اس وجہ سے کہ تم لوگوں کو لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور یہ کسی انسان کے لیے کی جانے والی بدترین دعا ہے کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ شخص اللہ کی رحمت سے دھتکار دیا جائے اور دنیا و آخرت کی بھلائی سے اسے دور کر دیا جائے اور کوئی شک نہیں کہ اس میں اللہ کی کشادگئ رحمت کے سلب کئے جانے کا سوال ہے جو اس کے غضب پر سبقت لے چکی ہے۔
”اور تم شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو“ یعنی تم شوہر کے احسان کو چھپاتی ہو، اس کے فضل کا انکار کرديتی ہو اور اس کے اچھے سلوک کو نظر انداز کرديتی ہو اور اس کے احسان کو بھول جاتی ہو۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ کہا گيا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ”وہ شوہروں کی نا شکری کرتی ہیں اور ان کی احسان فراموش ہوتی ہیں۔ اگر تم سارا زمانہ ان میں سے کسی سے اچھا سلوک کرتے رہو اور پھر تمہاری طرف سے اسے کوئی (خلاف مزاج) بات پیش آجائے تو کہہ دیتی ہے کہ میں نے تو تم سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں“۔
”باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے تم سے زیادہ کسی ہوش مند آدمی کی عقل مار دینے والا میں نے کوئی نہیں دیکھا“ یعنی مرد کی مت مار دینے پر عورت سے زیادہ قدرت رکھنے والا کوئی نہیں، اگرچہ آدمی احتیاط ودوراندیشی اور عزم وقوت والا ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا عورت کی جذباتی اثر انگیزی کی طاقت، اس کی خوبصورتی کے جادو، ناز وادا اور فریفتہ کرلینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ عورتوں کے بارے میں اس طرح کے وصف کا بيان بطور مبالغہ ہے کیونکہ جب اپنے معاملات میں پختہ کار اور محتاط و دوراندیش شخص ان کا تابع دار بن جاتا ہے تو پھر دوسرے لوگ تو بطریق اولیٰ ان کا شکار ہو جائیں گے۔
”انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کمی کیا ہے؟“ گویا کہ یہ بات ان سے اوجھل تھی اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں دریافت کیا۔
”آپ ﷺ نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر نھیں ہے؟“ یہ آپ ﷺ کی طرف سے استفہام تقریری تھا، اس بات کا اقرار کرانے کے لئے کہ عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔
انہوں نے جواب دیا: کیوں نھیں۔ یعنی معاملہ ایسے ہی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: ”يہی اس کی عقل کی کمی ہے“ یعنی عقلی طور پر وہ عورت اس لیے ناقص ہے کہ اس کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف ہوتی ہے۔ اس میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ﴾ ” پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے“۔ دوسری عورت سے مدد لینے میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی قوتِ حافظہ کم ہوتی ہے اور اس سے اس کی عقل کی کمی کا پتہ چلتا ہے۔
”کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟“ یہ بھی نبی ﷺ کی طرف سے استفہام تقریری ہے جس کا مقصد اس بات کا اقرار کرانا ہے کہ عورت مدت حیض میں نماز و روزہ چھوڑ دیتی ہے۔
انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، یعنی معاملہ ایسے ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی ان کے دین کی کمی ہے“ جب عورت نماز اور روزہ چھوڑ دیتی ہے جو ارکانِ اسلام میں سے ہیں بلکہ اہم ترین ارکان ميں سے ہیں تو یہ اس کے دین میں کمی ہوئی کیونکہ وہ نہ تو (ان دنوں میں) نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی اس کی قضا کرتی ہے اور رمضان میں روزوں کے دوران اگر اسے حیض آ جائے تو وہ دیگر اہل ایمان کے ساتھ نیک اعمال میں شریک ہونے سے محروم رہتی ہے۔
تاہم اس میں ان کا کوئی دوش نہیں ہے اور نہ اس پر ان کا مواخذہ ہی ہوگا، کیونکہ یہ ان کی اصلی خلقت میں ہے۔ ليکن نبی ﷺ نے ان کے فتنے میں پڑنے سے بچانے کے لیے اس پر متنبہ فرمایا۔ اسی لیے عذاب کو (شوہروں کی) مذکورہ ناشکری واحسان فراموشی کا نتیجہ قرار دیا ہے نہ کہ ان کے اندر پائے جانے والے نقص و کمی کا، کیونکہ اس میں ان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی صورت میں اس سے بچ سکتی ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10011

 
 
Hadith   1563   الحديث
الأهمية: عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في الذي يأتي امرأته وهي حائض قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار


Tema:

نبی ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے جماع کر لیتا ہے کہ وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ دے۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما-، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في الذي يأتي امرأته وهي حائض قال: «يتصدق بدينار أو نصف دينار».

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لیتا ہے کہ ’’وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الرسول -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث كفارة من جامع امرأته وهي حائض، وهي التصدق بدينار أو نصف دينار، ويعلم من الحديث حرمة مجامعة الحائض وذلك لأنه رتب عليه كفارة، وهو دليل أيضاً على وجوب التصدق لأنه في مقابلة ذنب.
585;سول اللہ ﷺ اس حدیث میں اس شخص کا کفارہ بیان فرما رہے ہیں جو اپنی بیوی سے حالتِ حیض میں ہمبستری کر لے۔ اُس کا کفارہ ایک یا نصف دینار صدقہ کرنا ہے۔ اور حدیث سے حائضہ عورت سے ہمبستری کرنے کی حرمت کا علم ہوتا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اس پر کفارہ لاگو کیا ہے۔ اور یہ اس صدقہ کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے کیونکہ یہ گناہ کے مقابلے میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10012

 
 
Hadith   1564   الحديث
الأهمية: أن اليهود كانوا إذا حاضت المرأة فيهم لم يؤاكلوها، ولم يجامعوهن في البيوت


Tema:

یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے درمیان کسی خاتون کو حیض آجاتا تو وہ اس کے ساتھ نہ کھاتے تھے اور نہ اس کے ساتھ گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن اليَهُود كانوا إذا حَاضَت المرأة فيهم لم يؤَاكِلُوها، ولم يُجَامِعُوهُن في البيوت فسأل أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- النبي -صلى الله عليه وسلم- فأنزل الله تعالى: {ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض} [البقرة: 222] إلى آخر الآية، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اصْنَعُوا كلَّ شيء إلا النكاح». فَبَلغ ذلك اليهود، فقالوا: ما يُريد هذا الرَّجُل أن يَدع من أمْرِنا شيئا إلا خَالفَنَا فيه، فجاء أُسَيْدُ بن حُضَيْر، وعَبَّاد بن بِشْر فقالا يا رسول الله، إن اليهود تقول: كذا وكذا، فلا نُجَامِعُهُن؟ فَتغيَّر وجه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى ظَنَنَا أن قد وجَد عليهما، فخرجا فَاسْتَقْبَلَهُمَا هَدِيَّة من لَبَنٍ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فأَرسَل في آثَارِهِما فَسَقَاهُمَا، فَعَرَفَا أن لم يَجِد عليهما.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے درمیان کسی خاتون کو حیض آجاتا تو وہ اس کے ساتھ نہ کھاتے تھے اور نہ اس کے ساتھ گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ نبى ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے (اس بارے میں) دریافت کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾ (البقرۃ: 222)۔ ”آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو“، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوائے صحبت کے تم سب کچھ کرو۔ یہ بات یہودیوں تک پہنچی تو وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو ہر بات میں ہماری مخالفت ہی چاہتا ہے۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے آکر کہا: اے اللہ کے رسول! یہودی لوگ ایسے ایسے کہہ رہے ہیں۔ تو کیا ہم (ان کی مخالفت میں) عورتوں سے (ایام حیض میں) صحبت نہ کر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہﷺ کا چہرہ بدل گیا یہاں تک کہ ہمیں لگا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض ہو گئے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں صحابی وہاں سے نکلے تو اس کے فوراً بعد نبی ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ آیا۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور ان دونوں کو دودھ پلایا۔ اس سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض نہیں ہوئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أنس -رضي الله عنه-: "أن اليَهُود إذا حَاضَت المرأة فيهم لم يؤَاكِلُوها ولم يُجَامِعُوهُن في البيوت" يعني: أن اليهود كانوا يمتنعون من مشاركة المرأة الحائض على الطعام ولا يَشربون من سؤرها ولا يأكلون الطعام الذي هو من صنعها؛ لأنهم يعتقدون نجاستها ونجاسة عرقها.
"ولم يُجَامِعُوهُن في البيوت، المراد بالمُجامعة هنا: المُساكنة والمخالطة، فاليهود كانت المرأة إذا حاضَت اعتزلوها فلا يخالطوها، بل يخرجوها من البيت، كما في رواية أنس -رضي الله عنه- عند أبي داود : " أن اليهود كانت إذا حاضت منهم المرأة أخرجوها من البيت، ولم يُؤاكلوها ولم يُشَارِبُوها ولم يُجامعوها في البيت".
"فسأل أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- النبي -صلى الله عليه وسلم-" أي أن أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- عندما علموا حال اليهود من اعتزال نسائهم زمن الحيض سألوا النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك.
"فأنزل الله -تعالى-: (ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض) فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اصْنَعُوا كلَّ شيء إلا النكاح»"، فأجاز الشرع مُخالطتها ومُؤاكلتها ومشاربتها ومُلامَستها ومُضاجعتها، وأباح منها كل شيء إلا الوطء في الفَرْج.
وقوله -صلى الله عليه وسلم-: "اصْنَعُوا كل شيء إلا النكاح"
فيه بيان لمجمل الآية؛ لأن الاعتزال شامل للمجامعة والمخالطة والمؤاكلة والمُشاربة والمُصاحبة فبين النبي-صلى الله عليه وسلم- أن المراد بالاعتزال ترك الجماع فقط لا غير ذلك.
"فَبَلغ ذلك اليهود" أي أن اليهود بلَغَهم أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أجاز لأصحابه أن يفعلوا مع نسائهم زمن الحيض كل شيء إلا الوطء.
"فقالوا: ما يُريد هذا الرَّجُل أن يَدع من أمْرِنا شيئا إلا خَالفَنَا فيه" يعني: إذا رآنا نعمل شيئا أمر بخلافه، وأرشد إلى خلافه، فهو يَحرص على أن يُخالفنا في كل شيء.
"فجاء أُسَيْدُ بن حُضَيْر، وعَبَّاد بن بِشْر فقالا يا رسول الله، إن اليهود تقول: كذا وكذا، فلا نُجَامِعُهُن؟" يعني: أن أُسَيْد بن حُضَيْر، وعَبَّاد بن بِشْر -رضي الله عنهما- نقلا للنبي -صلى الله عليه وسلم- ما قالته اليهود عندما علموا مخالفة النبي -صلى الله عليه وسلم- لهم، ثم إنهما -رضي الله عنهما- سألا النبي -صلى الله عليه وسلم- عن إباحة الوطء لأجل تحقيق مخالفة اليهود في كل شيء، والمعنى: إذا كنَّا قد خَالفْنَاهم في كونهم لا يخالطوهن، ونحن نخالط ونضاجع ونؤاكل ونشارب، ونفعل كل شيء إلا النكاح -الجماع- أفلا ننكحهن، حتى تتحقق مخالفتهم في جميع الأمور؟
"فَتغيَّر وجه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-" أي أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لم يقرهما على اجتهادهم، بل غَضِب وظهر معالم غَضِبه على وجهه؛ لأن قولهما مخالف للشرع؛ فالله تعالى يقول :{فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ} [البقرة:222] وبين النبي -صلى الله عليه وسلم- ما هو المراد بالاعتزال المذكور في الآية، وهو أنه لا حق لكم في جماعهن وقت الحيض.
"حتى ظننا أن قد وجَد عليهما" يعني: غَضب عليهما بسبب قولهما.
"فخرجا فَاسْتَقْبَلَهُمَا هَدِيَّة من لَبَنٍ إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فأَرسَل في آثَارِهِما فَسَقَاهُمَا -صلى الله عليه وسلم-" خرجا من عنده وفي أثناء خروجهما أستقبلهما شخص معه هَدِيَّة من لَبَنٍ يهديها إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلمَّا دخل صاحب الهَديِّة على النبي -صلى الله عليه وسلم- أرسل رسول الله -صلى الله عليه وسلم-بِمن يأتي بهما، فلما جاءا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- سَقَاهُما من ذلك اللَّبَن تلطُّفا بهما وإظهارا للرضا عنهما.
"فَعَرَفَا أن لم يَجِد عليهما" يعني: لم يغضب؛ لأنهما كانا معذورين لحُسن نيتهما فيما تكلما به، أو ما استمر غضبه عليهما، بل زال عنه الغَضَب، وهذا من مكارم أخلاقه -صلى الله عليه وسلم- وتلطفه بأصحابه.
575;نس رضی اللہ عنہ بيان كر رہے ہیں کہ یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے درمیان کسی خاتون کو حیض آجاتا تو وہ اس کے ساتھ نہ کھاتے تھے اور نہ اس کے ساتھ گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ یعنی یہودی لوگ حائضہ عورت کو نہ تو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے، نہ ہی اس کا جھوٹا پانی پیتے اور نہ ہی اس کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے تھے، کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق حائضہ عورت اور اس کا پسینہ ناپاک تھا۔
” ولم يُجَامِعُوهُن في البيوت“ یہاں مجامعت سے مراد رہائش اختیار کرنا اور مل جل کر رہنا ہے۔ جب عورت کو حیض آتا تو یہودی اس سے میل جول نہ رکھتے بلکہ اسے گھر سے نکال دیتے تھے جیسا کہ سنن ابی داود میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے درمیان کسی خاتون کو حیض آجاتا تو اسے گھر سے نکال دیتے تھے۔ وہ نہ تو اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی گھر میں اس کے ساتھ رہتے تھے۔
”صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے دریافت کیا“ یعنی اصحابِ رسول ﷺ کو جب یہودیوں کا حال معلوم ہوا کہ وہ مدتِ حیض میں عورتوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو انہوں نے نبی ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا۔
تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾ (البقرۃ: 222) ”آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو“۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سوائے صحبت کے تم سب کچھ کر سکتے ہو“۔ شریعت نے ان کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے، انہیں چھونے، ان کے ساتھ ایک بستر میں سونے اور سوائے شرم گاہ میں وطی کرنے کے سب کچھ کرنا مباح کر دیا۔
آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ”سوائے جماع کے تم سب کچھ کرو“ اس ميں آیت کے اجمال کی وضاحت ہے۔ کیونکہ اعتزال کا لفظ مل جل کر رہنے، اکٹھے کھانے پینے اور ایک ساتھ رہنے جیسے سب معانی کو محیط ہے۔ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ اعتزال سے مراد صرف اور صرف جماع (صحبت) کو ترک کرنا ہے۔
”یہ بات یہودیوں تک پہنچی“یعنی یہودیوں تک یہ بات پہنچی کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ مدتِ حیض میں اپنی بیویوں کے ساتھ سوائے وطی کے سب کچھ کر سکتے ہیں۔ تو وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو ہر بات میں ہماری مخالفت ہی کرنا چاہتا ہے۔ یعنی جب یہ ہمیں کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو اس کی مخالفت کا حکم دیتا ہے اور اس کا الٹ کرنے کو کہتا ہے۔ پس وہ ہر بات میں ہماری مخالفت کرنے کے درپے رہتا ہے۔
تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے آکر کہا: یا رسول اللہ! یہودی لوگ ایسے ایسے کہہ رہے ہیں۔ تو کیا ہم (ان کی مخالفت میں) عورتوں سے (ایام حیض میں) جماع نہ کرلیا کریں؟۔ یعنی اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے نبی ﷺ کے سامنے یہودیوں کی اس بات کا تذکرہ کیا جو انہوں نے اس وقت کہی تھی جب انہیں یہ علم ہوا تھا کہ نبی ﷺ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔ پھر انھوں نے آپ ﷺ سے وطی کو بھی جائز ٹھہرا دینے کے بارے میں پوچھا تاکہ یہودیوں کی ہر چیز میں مخالفت ہو سکے۔ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ جب ہم نے عورتوں کے ساتھ میل جول رکھنے کے معاملے میں یہودیوں کی مخالفت کی ہے اور اس کی بنا پر ہم ان کے ساتھ ملتے جلتے ہیں، ان کے ساتھ سوتے اور ان کے ساتھ اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور سوائے جماع کے ہر چیز کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم ان سے جماع بھی کر لیا کریں تاکہ تمام امور میں ان کے مخالفت ہو سکے؟
”تو رسول اللہﷺ کا چہرہ بدل گیا“ یعنی نبی ﷺ نے ان کے اجتہاد کی تائيد نہیں فرمائی بلکہ آپ ﷺ غصے میں آگئے اور غصے کے آثار بھی آپ ﷺ کے چہرے پر ظاہر ہوگئے۔ کیونکہ ان کی بات شریعت کے برخلاف تھی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾ (البقرۃ: 222) ”حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو“۔ اور آپ ﷺ نے وضاحت فرما دی کہ آیت میں مذکور اعتزال سے کیا مراد ہے اور وہ یہ کہ مدت حیض میں تمہارے لیے ان کے ساتھ جماع کرنا جائز نہیں ہے۔
”یہاں تک کہ ہمیں لگا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض ہو گئے ہیں“ یعنی آپ ﷺ ان کی بات کی وجہ سے ان پر غصہ ہو گئے ہیں۔
چنانچہ یہ دونوں صحابی وہاں سے نکلے تو اس کے فوراً بعد نبی ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ آیا۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور ان دونوں کو دودھ پلایا۔ یعنی وہ دونوں نبی ﷺ کے پاس سے نکلے۔ اور ان کے نکلنے کے دوران ایک شخص نبی ﷺ کے لئے بطور تحفہ دودھ لے کر آیا۔ جب یہ تحفہ لے کر آنے والا شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو بلانے کے لیے ایک آدمی ان کے پیچھے بھیجا۔ جب وہ دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے اظہارِ شفقت اور انہیں یہ باور کرانے کے لیے کہ آپ ﷺ ان سے راضی ہیں انہیں یہ دودھ پلایا۔
”پس انہیں معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ ان سے ناراض نہیں ہیں“ یعنی آپ ﷺ ان سے غصہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ اچھی نیت کے ساتھ کہا تھا۔ یا پھر (ابتدا ميں آپ ﷺ کو غصہ آیا) لیکن وہ غصہ جاری نہ رہا بلکہ ختم ہو گیا۔ یہ واقعہ آپ ﷺ کے مکارمِ اخلاق اور آپ ﷺ کے اپنے صحابہ کے ساتھ لطف و مہربانی کا برتاؤ کرنے کا ایک مظہر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10013

 
 
Hadith   1565   الحديث
الأهمية: كنا لا نعد الكدرة والصفرة بعد الطهر شيئًا


Tema:

ہم طہر کے بعد مٹیالے اور زرد رنگ کو (حیض) نہیں شمار کرتی تھیں۔

عن أم عطية، نُسيبة بنت الحارث الأنصارية -رضي الله عنها- قالت: «كنا لا نعد الْكُدْرَة وَالصُّفْرَة بعد الطهر شيئًا».

ام عطیہ نسیبہ بنت حارث انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم طُہر کے بعد مٹیالے اور زرد رنگ کو کوئی (حیض) نہیں شمار کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نقلت أم عطية -رضي الله عنهما- سنة نبوية تقريرية فيما يخرج من أرحام النساء من دماء فقالت -رضي الله عنها-:


"كنا لا نعد الكدرة" أي: ما هو بلون الماء الوسخ الكدر.
و"الصفرة" هو: الماء الذي تراه المرأة كالصديد يعلوه اصفرار.
"بعد الطهر" أي بعد رؤية القصة البيضاء والجُفُوف.
"شيئا" أي لا نعده حيضا، وقولها: " كنا:" أشهر الأقوال فيها أنها تأخذ حكم الرفع إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لأن المراد كنا في زمانه -صلى الله عليه وسلم- مع علمه، فيكون تقريرا منه، وهو دليل على أنه لا حكم لما ليس بدم غليظ أسود يعرف، فلا يعد حيضا، بعد الطهر، وللطهر علامتان:
الأولى: القَصَّة، قيل: إنه شيء كالخيط الأبيض، يخرج من الرحم بعد انقطاع الدم.
الثانية: الجفوف، وهو أن يخرج ما يحشى به الرحم جافا.
ومفهوم قولها: "بعد الطهر" أن الصفرة والكدرة في أيام الحيض تعتبر حيضا.
593;ورتوں کے رحم سے جو خون نکلتا ہے اس کے بارے میں ام عطیہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی ایک تقریری سنت کو نقل کرتے ہوئے بیان کررہی ہیں کہ: "كنا لا نعد الكدرة"۔ یعنی جو گدلے اور مٹیالے رنگ کے پانی کی طرح چیز ہوتی۔ ”الصفرة“اس سے عورت کو نظر آنے والا وہ پانی ہے جو کچ لہو (پیپ) کی مانند اور زردی مائل ہوتا ہے۔ ”بعد الطهر“ یعنی سفید پانی نظر آنے اور خشکی ہونے کے بعد۔ "شيئا" یعنی ہم اسے حیض نہیں گردانتے تھے۔ " كنا "۔ اس کے بارے میں مشہور ترین قول یہی ہے کہ اسے مرفوع حدیث ہی سمجھا جائے گا کیونکہ ان کے ایسا کہنے سے مراد یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کے زمانے میں آپ کے علم کے ساتھ ایسا کرتی تھیں۔ چنانچہ یہ آپ ﷺ کی طرف سے تقریر ہو گا۔ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ جو گاڑھا سیاہ خون نہ ہو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور طہر کے بعد اسے حیض نہیں گردانا جائے۔
طہر کی دو علامتیں ہیں:
اول: القَصّہ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سفید دھاگے کی مانند ایک چیز ہے جو خون رکنے کے بعد رحم سے نکلتی ہے۔
دوم: خشکی۔ ا س سے مراد یہ ہے کہ رحم میں اگر کوئی چیز بھری جائے تو وہ خشک ہی باہر نکلے۔
”بعد الطهر“ اس کا مطلب یہ ہے کہ حیض کے دنوں میں نظر آنے والے زرد اور مٹیالے رنگ کو حیض ہی شمار کیا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10014

 
 
Hadith   1566   الحديث
الأهمية: امكثي قدر ما كانت تحبسك حيضتك، ثم اغتسلي


Tema:

تمہارے حیض کا خون جتنے دن تمہیں روکے رکھتا تھا، اسی قدر رُکی رہو، پھر غسل کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن أم حبيبة بنت جحش شكت إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الدم، فقال: «امكُثِي قَدْرَ ما كانت تَحبِسُكِ حَيْضَتُكِ، ثم اغتَسِلِي». فكانت تغتسل كل صلاة.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے خون کے مسلسل جاری رہنے کی شکایت کی۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے حیض کا خون جتنے دن تمہیں روکے رکھتا تھا، اسی قدر رُکی رہو، پھر غسل کرو“۔ چنانچہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث حكم المستحاضة وهو أنها تمكث أيام حيضتها المعتادة إن كانت لها عادة معروفة لا تصلي ولا تصوم، فإذا ما انتهت عادتها تغتسل وإن استمر الدم، ثم تصلي وتصوم، والمستحاضة المرأة التي يستمر معها نزول الدم ولا يتوقف.
575;س حدیث میں مستحاضہ عورت کے حکم کا بیان ہے کہ اگر حیض آنے کے دنوں کے سلسلے میں اس کی کوئی معروف عادت ہو تو پھر وہ حیض کے معتاد دنوں میں رُکی رہے اور نماز و روزہ نہ ادا کرے۔جب اس کی عادت کے ایام ختم ہو جائیں تو پھر غسل کر لے اگرچہ خون جاری ہو۔ پھر نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے۔ اور مستحاضہ عورت سے مراد: وہ عورت ہے جس کا خون مسلسل بغیر رُکے بہتا رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10015

 
 
Hadith   1567   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، إني امرأة أستحاض حيضة كثيرة شديدة، فما ترى فيها قد منعتني الصلاة والصوم، فقال: أنعت لك الكرسف، فإنه يذهب الدم، قالت: هو أكثر من ذلك


Tema:

اے اللہ کے رسول! ميں ايسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت اور شدت سے آتا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے مجھے نماز روزے سے روک رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا۔ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ تو اس سے زیادہ ہے

عن حَمْنَة بنت جَحش -رضي الله عنها- قالت: كنت أُسْتَحَاض حَيْضَة كثيرة شَدِيدة، فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَسْتَفْتِيه وأُخْبِرُه، فَوجدْتُه في بيت أختي زينب بنت جَحش فقلت: يا رسول الله، إني امرأة أُسْتَحَاض حَيْضَة كثيرة شديدة، فما تَرى فيها، قد مَنَعَتْنِي الصلاة والصوم، فقال: «أَنْعَتُ لك الكُرْسُف، فإنه يُذهِبُ الدَّم». قالت: هو أكثر من ذلك، قال: «فاتَّخِذِي ثوبا». فقالت: هو أكثر من ذلك إنما أَثُجُّ ثَجًّا، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَآمُرُك بأمْرَين أيهما فَعَلْتِ أجْزَأَ عَنْكِ من الآخر، وإن قَوِيتِ عليهما فأنتِ أعْلَم». قال لها: «إنما هذه رَكْضَةٌ من رَكَضَات الشيطان فَتَحَيَّضِي ستَّة أيام أو سبعة أيَّام في عِلْم الله، ثم اغْتَسِلِي حتى إذا رأيت أنك قد طَهُرْتِ، واسْتَنْقَأْتِ فصلِّي ثلاثا وعشرين ليلة أو أربعا وعشرين ليلة وأيامها وصومي، فإن ذلك يُجْزِيكِ، وكذلك فافْعَلي في كل شهر كما تحيض النساء، وكما يَطْهُرْن مِيقَاتُ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، وإن قَوِيت على أن تُؤَخِّري الظهر وتُعَجَلِّي العصر فَتَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بين الصلاتين الظهر والعصر، وتُؤَخِّرِين المغرب وتُعَجِّلين العشاء، ثم تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بين الصلاتين فافْعَلي، وَتَغْتَسِلِينَ مع الفجر فافْعَلي، وصُومي إن قَدِرت على ذلك»، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «وهذا أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إليَّ».
حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت اور شدت سے استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ سے حکم دریافت کرنے اور آپ ﷺ کو بتانے کے لیے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے آپ ﷺ کو اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں پایا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ميں ايسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت اور شدت سے آتا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے مجھے نماز روزے سے روک رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا۔‘‘ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ تو اس سے زیادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے بھی زيادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو میں تمھیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو۔“ (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو)۔” چنانچہ آپ ﷺنے حمنہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: “یہ استحاضہ تو دراصل شیطانی کچوکا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات روز حیض کے ایام شمار کرو۔ پھر غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ تم پاک وصاف ہوگئی ہو تو تیئیس (23) دن یا چوبیس (24) دن نماز پڑھتی رہو اور روزے رکھو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ اوراسی طرح ہر ماہ کیا کرو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔ اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لو تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اور گر تم قادر ہو تو روزہ رکھو۔‘‘ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘

معنى حديث حَمنة -رضي الله عنها- "كُنت أُسْتَحَاض حَيْضَة كثيرة شَدِيدة" أي أن الدم كان ينزل منها ويستمر لمدة طويلة بشِّدة وقوة عند خروجه.
"فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَسْتَفْتِيه وأُخْبِرُه"
ثم إنها جاءت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-تسأله عن الحكم الشَّرعي، وما الذي يجب عليها.
"فقلت: يا رسول الله، إني امرأة أُسْتَحَاض حَيْضَة كثيرة شديدة، فما تَرى فيها قد مَنَعَتْنِي الصلاة والصوم"
يعني: أن الدم النازل منها جعلها تتوقف عن الصلاة والصوم بناء على أنه دمُ حيض، وهذا هو المتبادر لها في أول الأمر، ثم بَيَّنَ لها النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الدم النازل منها بهذه الصفة إنما هو ركَضة من الشيطان وليس بِدَم حيض.
فقال: «أَنْعَتُ لك الكُرْسُف، فإنه يُذهب الدَّم».
أي: استخدمي القُطن؛ وذلك بأن تجعله على فَرجها وتَشُّده عليه حتى يُمسك الدم.
"قالت: هو أكثر من ذلك"
أي: أن الدم النازل كثير وشديد والقطن لا يمكن أن يؤدى به الغَرَضُ.
قال: «فاتَّخِذِي ثوبا».
أي: أضيفي إلى القطن ثوبا حتى يكون كثيفا يمسك به الدم.
"فقالت: هو أكثر من ذلك إنما أَثُجُّ ثَجًّا"
أي: أن الدم يَصُّب منها بكثرة وقوة، فلا يَسْتَمْسك بالقُطن ولا بالثياب؛ لأنه ينزل بغزارة وبكثرة.
"قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَآمُرُك بأمْرَين»"

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يعنى: أحد حكمين، وهما كما سيأتي :
الأول: الاغتسال لكل صلاة.   والثاني: أن تجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء وتغتسل ثلاث مرات للظهر والعصر غسلا واحدا، وللمغرب والعشاء غسلا واحدا، وللفجر غسلا واحدا.
"أيهما فعلت أجزأ عَنكِ من الآخر"
يعني: أنتِ بالخيار بين هذين الأمرين.
"وإن قَوِيتِ عليهما فأنتِ أعْلَم "أي: قَدِرتِ عليهما، أي الأول والثاني فأنت أعلم بحالك، فاختاري أيهما شئت منهما.
"ثم قال لها: «إنما هذه رَكْضَةٌ من رَكَضَات الشيطان »"
والمعنى: أن الشيطان قد وجد سبيلا إلى التَّلبيس عليها في أمْرِ دينها وطهرها وصلاتها؛ حتى أنْسَاها عادتها، وصارت في التقدير كأنها ركْضَة منه، ولا ينافي أن يكون عِرْق يقال له العَاذِل كما جاء في حديث فاطمة بنت أبي حُبيش -رضي الله عنها- في قولها :" إني امرأة استحاض فلا أطهر أفأدع الصلاة؟ قال: لا إنما ذلك عِرْق، وليس بحيض " فَيُحمل على أن الشيطان رَكَضَه حتى انْفَجَر، والأظهر أنها ركضة منه حقيقة؛ إذ لا مانع من حملها عليه. 
"فَتَحَيَّضِي ستَّة أيام أو سبعة أيَّام"
أي: دَعِي الصلاة والصوم واعتبري نفسك حائضا مدة ستة أيام أو سبعة أيام، فتجلسها وتترك الصلاة فيها، وهذا باعتبار أن غالب عادة النساء ستة أيام أو سبعة أيام.


"في عِلْم الله" أي: في حكم الله وشرعه، وقوله :"ستة أيام أو سبعة أيام"      
"فأو" هنا ليست للشك إنما هي للتنويع والدلالة على أن بعض النساء يحِضْن ستة أيام، وبعضهن يحِضْن سبعة أيام فترجع إلى قريباتها من النساء من هي في سِنْها، وأقرب إلى مِزَاجِها.
"ثم اغْتَسِلِي حتى إذا رأيتِ أنك قد طَهُرْتِ، واسْتَنْقَأْتِ فصلِّي ثلاثا وعشرين ليلة أو أربعا وعشرين ليلة وأيامها وصومي فإن ذلك يُجْزِيكِ"
يعني: إذا مضت ستة أو سبعة أيام وجب عليك الاغتسال من الحيض، ثم ما زاد على ستة أيام أو سبعة أيام وهي: إما ثلاثة وعشرون يوما أو أربعة وعشرون يوما، فهي أيام طُهر افعلي فيها كل ما تفعله الطاهرات من الصوم والصلاة، فإن هذا يكفي عنكِ.    
"وكذلك فافْعَلي في كل شَهر كما تحيض النساء، وكما يَطْهُرْن مِيقَاتُ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ"
يعني: تحيضي كل شهر ستة أيام أو سبعة أيام كعادة النساء، ثم اغتسلي وصلي، وهكذا وقت طهرك يكون بقدر ما يكون عادة غالب النساء من ثلاث وعشرين أو أربع وعشرين.


"وإن قَوِيت على أن تُؤَخِّري الظهر وتُعَجلي العصر فَتَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بين الصلاتين الظهر والعصر، وتُؤَخِّرِين المغرب وتُعَجِّلين العشاء، ثم تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بين الصلاتين فافْعَلي، وَتَغْتَسِلِينَ مع الفجر فافْعَلي، وصُومي إن قَدِرتِ على ذلك».
والمعنى: إذا قَوِيت على أن تؤخري الظهر إلى آخر وقتها وتصلي العصر في أول وقتها وكذا تؤخري المغرب إلى آخر وقتها وتصلي العشاء في أول وقتها -وهذا ما يسمَّى عند العلماء بالجمع الصُّورِيَّ- وأمَّا الفجر: فتغتسل للصلاة غسلا واحدا، فإن قَدِرت  على ذلك فافعلي، وعلى هذا : تغتسل المستحاضة ثلاث مرات للظهر والعصر غسلا واحدا وللمغرب والعشاء غسلا واحدا وللفجر غسلا واحدا وتجمع بين الصلاتين جمعا صوريا.
"وهذا أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إليَّ"
يعني أن هذا الأمر أحبُّ إليَّ، وهو : كونها تجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء وتغتسل ثلاث مرات للظهر والعصرغسلا واحدا، وللمغرب والعشاء غسلا واحدا، وللفجر غسلا واحدا.
وأما الأمر الأول، فهو الغسل لكل صلاة، لكن ليس في هذا الحديث ذكر الاغتسال لكل صلاة، إلا أنه قد جاء في رواية أخرى عند أبي داود أنها تغتسل لكل صلاة، وهي قوله: "إن قَوِيت فاغتسلي لكل صلاة وإلا فاجْمَعي بين الصلاتين بغسل واحد"
608;لا شك أن الاغتسال لكل صلاة مشَقَّة ظاهرة ولهذا قال -صلى الله عليه وسلم- في الأمر الثاني: "وهذا أعجب الأمرين إليَّ"
يعني: أحبهما إليَّ؛ لأنه أسهل وأخَف من الأول.
حمنہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مفہوم: ’’مجھے استحاضہ کا خون بہت زیادہ آتا تھا۔‘‘
یعنی ان کا خون بہت لمبے عرصے تک جاری رہتا اور بہت شدت اور تیزی سے نکلتا تھا۔
’’میں رسول اللہ ﷺ سے حکم دریافت کرنے اور آپ ﷺ کو بتانے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔‘‘
” یعنی حمنہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے پاس یہ دریافت کرنے آئیں کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے اور اس سلسلے میں ان پر کیا کرنا واجب ہے۔
’’چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت اور شدت سے آتا ہے، جس نے مجھے نماز روزے سے روک رکھا ہے۔‘‘
” یعنی وہ اس آنے والےخون کی وجہ سے نماز روزے سے رکی ہوئی تھیں اس خیال سے کہ یہ حیض کا خون ہے اور شروع میں انہیں ایسے ہی لگا تھا۔ بعد ازاں نبی ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ان کا اس انداز میں بہنے والا خون حیض کا نہیں بلکہ شیطان کے کچوکے کا اثر ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں، کیوں کہ اس سے خون بند ہو جائے گا۔‘‘
یعنی روئی کا استعمال کرو بایں طور کہ اسے اپنی شرم گاہ پر رکھ کر باندھ لو تاکہ خون رک جائے۔
’’انھوں نے کہا: وہ تواس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
یعنی نکلنے والا خون بہت زیادہ اور شدید ہے اور روئی سے مقصد پورا نہیں ہوگا۔
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر کپڑا رکھ لو۔‘‘
یعنی روئی کے ساتھ ساتھ کپڑا بھی رکھ لو تاکہ یہ دبیز (موٹا) ہوجائے اور اس سے خون رک جائے۔
’’تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اس سے بھی زيادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے۔‘‘
یعنی خون کثرت اور زور سے بہ رہا ہے، لھٰذا وہ نہ تو روئی سے رکنے والا ہے اور نہ ہی کپڑے سے، کیونکہ وہ بہت زیادہ ہے۔
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں۔‘‘
یعنی دو حکموں میں سے کسی ایک کا، اور ان دونوں کی تفصیل اس طرح ہے:
پہلا: ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے۔
دوسرا: ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھی جائیں اور تیں بار غسل کیا جائے۔ ایک غسل ظہر اور عصر کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لیے اور ایک غسل فجر کے لیے۔
’’ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے دوسرے کی طرف سے کافی ہو گا۔‘‘
یعنی تمہیں ان دونوں باتوں میں اختیار ہے کہ جو چاہو کر لو۔
’’اگر تم میں ان دونوں کو کرنے کی طاقت ہے تو تم بہتر جانتی ہو۔‘‘ یعنی پہلے اور دوسرے دونوں کاموں کو کرنے کی اگر تم میں طاقت ہے تو تم اپنے بارے میں زیادہ جانتی ہو۔ بہر حال ان میں سے جو چاہو اختیار کر لو۔
’’پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ در اصل شیطان کے کچوکے مارنے کا اثر ہے۔‘‘
یعنی شیطان کو ان کے دین، پاکیزگی اور نماز کے بارے میں انہیں اشتباہ میں ڈالنے کا موقع مل گیا یہاں تک کہ اس نے انہیں ان کی عادت بھلوا دی اور وہ اندازہ کرنے کے زمرے میں ہو گئی۔ گویا یہ شیطان کی طرف سے ایک ٹھوکر ہے۔ جبکہ یہ بات اس کے منافی نہیں کہ اس کا سبب "عاذل" نام کی ایک رگ بھی ہو جیسا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا: ’’میں ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون آتا ہے، جس کی وجہ سے میں پاک نہیں ہوتی۔ تو کیا میں نماز کو چھوڑے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ حیض نہیں بلکہ ایک رگ سے بہنے والا خون ہے۔‘‘ چنانچہ یہ کہا جائے گا کہ شیطان اس رگ پر لات مارتا ہے جس سے یہ پھٹ جاتی ہے۔ راجح یہی ہے کہ وہ حقیقت میں لات مارتا ہے کیونکہ یہ معنیٰ مراد لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
’’چھ یا سات دن حیض کے شمار کرو۔‘‘
یعنی چھے یا سات دن تک یہ سمجھو کہ تم حیض میں ہو اور ان میں نماز و روزے کو ترک کر دو۔ یہ اس اعتبار سے ہے کہ عموماً عورتوں کو چھ یا سات دن ہی حیض آتا ہے۔ ’’اللہ کے علم میں‘‘ یعنی اللہ کے حکم اور اس کے شریعت کی رو سے۔ آپ ﷺ کے فرمان: ’’چھے یا سات دن‘‘ میں (یا) بیانِ شک کے لیے نہیں ہے، بلکہ تنویع کے لیے اور یہ اس بات پر دلالت کرنے کے لیے ہے کہ بعض عورتوں کو چھے دن حیض آتا ہے اور بعض کے ایامِ حیض سات دن ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ان قریبی رشتہ دار خواتین کو دیکھے گی جو اس کی ہم عمر ہوں اور ان کا مزاج اس سے ملتا جلتا ہو۔ (اور پھر فیصلہ کریں گی کہ ان کے ایام حیض چھے دن ہوں گے یا سات دن)۔
’’پھر غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ تم پاک وصاف ہوگئی ہو تو تیئیس (23) دن یا چوبیس (24) دن نماز پڑھتی رہو اور روزے رکھو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔‘‘
یعنی چھے یا سات دن گزر جائیں تو پھر حیض ختم ہو جانے کی وجہ سے تم پر غسل کرنا واجب ہو گا۔ پھر چھے یا سات دن گزرنے کے بعد جتنے دن بچیں گے جو یا تو تیئیس دن ہوں گے یا پھر چوبیس دن، وہ ایامِ طہر ہوں گے۔ ان میں تم وہ سب کچھ کرو گی جو حیض سے پاک عورتیں کرتی ہیں یعنی نماز پڑھو گی اور روزہ رکھو گی۔ تمہارے لئے ایسا کرنا کافی ہے۔
’’اوراسی طرح ہر ماہ کیا کرو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔ ‘‘
یعنی ہر مہینے میں چھے یا سات دن حیض کے شمار کرو جیسا کہ دیگر عورتوں کے دن ہوتے ہیں۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھو۔ اس طرح سے تمہاری مدتِ طہر اتنی ہی ہو گی جتنی عموماً دیگر عورتوں کی ہوتی ہے یعنی تیئیس یا چوبیس دن۔
’’اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لو تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اور گر تم قادر ہو تو روزہ رکھو۔‘‘
يعنی اگر تم میں اس بات کی قدرت ہو کہ ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت تک موخر کر دو اور عصر کی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھ لو اور اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت تک موخر کر دو اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھ لو، جسے علماء جمعِ صوری کہتے ہیں، جب کہ فجر کی نماز کے ليے الگ سے غسل کرليا کرو، اگر تم میں ایسا کرنے کی طاقت ہو تو ایسا کرلو۔ اس طرح سے مستحاضہ عورت تین دفعہ غسل کرے گی۔ ایک غسل ظہر اور عصر کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے اور دو دو نمازوں کے مابین جمعِ صوری کرے گی۔
’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔”
یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنا اور تمہارا تین دفعہ غسل کرنا بایں طور کہ ایک غسل ظہر اور عصر کے لئے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لئے اور ایک غسل فجر کے لئے مجھے زیادہ پسند ہے۔
پہلی بات ہر نماز کے لیے غسل کرنا ہے لیکن اس حدیث میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن ابو داود کی ایک اور روایت میں ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کریں۔ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر تم میں طاقت ہو تو پھر ہر نماز کے لئے غسل کرو، ورنہ ایک غسل کے ساتھ دو دو نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھ لو۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے میں واضح مشقت ہے اسی لیے نبی ﷺ نے دوسری صورت کے بارے میں فرمایا: ’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘
یعنی ان دونوں میں سے یہ مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ یہ پہلی صورت سے زیادہ سہل اور آسان ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10016

 
 
Hadith   1568   الحديث
الأهمية: سبحان الله، إن هذا من الشيطان لتجلس في مركن، فإذا رأت صفرة فوق الماء فلتغتسل للظهر والعصر غسلا واحدا، وتغتسل للمغرب والعشاء غسلا واحدا، وتغتسل للفجر غسلا واحدا، وتتوضأ فيما بين ذلك


Tema:

سبحان اللہ ! یہ تو شیطان کی طرف سے ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک ٹب میں بیٹھ جائیں، جب پانی کے اوپر زردی دیکھیں تو ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، اسی طرح ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے کر لیا کریں اور ان کے مابین وضوء کرتی رہیں

عن أسماء بنت عُمَيْس -رضي الله عنها- قالت: قلت: يا رسول الله، إن فاطمة بنت أبي حُبَيْش اسْتُحِيضَتْ -مُنْذُ كذا وكذا- فلم تُصَل فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سُبحان الله، إن هذا من الشَّيطان لِتَجْلِسْ في مِرْكَنٍ، فإذا رأت صُفْرَة فوق الماء فلتَغْتَسِل للظهر والعصر غُسْلاً واحدا، وتغتسل للمغرب والعشاء غسلا واحدا، وتغتسل للفجر غسلا واحدا، وتتوضأ فيما بَيْنَ ذلك».

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ بنت ابی حبیش کو اتنے دنوں سے استحاضہ کا خون آرہا ہے اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ ! یہ تو شیطان کی طرف سے ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک ٹب میں بیٹھ جائیں، جب پانی کے اوپر زردی دیکھیں تو ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، اسی طرح ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے کر لیا کریں اور ان کے مابین وضوء کرتی رہیں۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر أسماء بنت عُمَيْس -رضي الله عنها- عما أصاب فاطمة بنت أبي حبيش من الدم ،وأن ذلك منعها من الصلاة منذ وقت.


"فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: سُبحان الله .." هذا من باب التَّعجب، والمعنى: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- تَعَجَّب من انقطاعها عن الصلاة، مع أن الدَّم ليس بِدم حيض، بل هو رَكْضَة من الشَّيطان، كما في الحديث الآخر "لِتَجْلِسْ في مِرْكَنٍ فإذا رأت صُفْرَة فوق الماء" ثم أرشدها النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لتمييز الحيض من الاستحاضة، بأن تَجْلس في مِرْكَنٍ وهو وعاء تَغسل فيه الثياب فإذا رأت صُفْرَة فوق الماء الذي قَعَدت عليه، فهذا دليل على أنها قد طهرت من حيضها؛ لأن دم الحيض أسْوَد غَليظ، وما سواه دم استحاضة.
"فلتَغْتَسِل للظهر والعصر غُسْلاً واحدا، وتغتسل للمغرب والعشاء غسلا واحدا، وتغتسل للفجر غسلا واحدا" يعني: إذا رأت الصُّفْرة فوق الماء، فلتغتسل في يومها وليلتها ثلاث مرات، للظهر والعصر غسلا واحدا وللمغرب والعشاء غسلا واحدا وللفجر غسلا واحدا.
"وتتوضأ فيما بَيْنَ ذلك" يعني: إذا أرادت أن تصلي بين الصلوات صلاة أخرى، لزمها أن تتوضأ للصلاة، وقد رأت ناقضا فإنها تتوضأ ولا تغتسل له؛ لأن الغسل مختص بالصلوات الخمس.
وهذا الاغتسال مستحب وليس بواجب كما في الأحاديث الأخرى.
575;سماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (استحاضہ کے) اس خون کے بارے میں بتا رہی ہیں جو فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو لاحق ہوا تھا اور اس نے ایک عرصے سے انہیں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔ ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ“ آپ ﷺ کا یہ فرمانا اظہارِ تعجب کے لیے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے نماز نہ پڑھنے پر تعجب کا اظہار فرمایا حالانکہ یہ خون حیض کا خون نہیں بلکہ شیطان کا ايک کچوکا ہے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے۔
”انہیں چاہیے کہ وہ ایک ٹب میں بیٹھ جائیں، جب پانی کے اوپر زردی دیکھیں“ پھر نبی ﷺ نے انہیں حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کرنے کا طریقہ بتایا کہ وہ ایک ٹب (لگن) میں بیٹھ جائیں۔ اور وہ ایسا برتن ہوتا ہے جس میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ جب اس پانی کے اوپر جس ميں وہ بیٹھی ہوں زردی ديکھيں تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ وہ اپنے حیض سے پاک ہو چکی ہیں کیونکہ حیض کا خون سیاہ اور گاڑھا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ہر خون استحاضہ کا خون ہوتا ہے۔
”تو ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، اسی طرح ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے کر لیا کریں“ یعنی جب پانی پر زردی دیکھ لیں تو پھر دن رات میں تین دفعہ غسل کریں۔ ایک غسل ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے۔
”اور ان کے مابین وضو کرتی رہا کریں“ یعنی ان (فرض) نمازوں کے مابين اگر کوئی اور نماز پڑھنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کریں جب کہ انہوں نے ایک ناقضِ وضو کو دیکھا ہے۔ اس صورت میں وہ غسل نہیں کریں گی کیونکہ غسل پنچ وقتہ فرض نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
یہ غسل مستحب ہے، واجب نھیں ہے، جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10017

 
 
Hadith   1569   الحديث
الأهمية: قتلوه قتلهم الله ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال، إنما كان يكفيه أن يتيمم ويعصر -أو يعصب- على جرحه خرقة، ثم يمسح عليها، ويغسل سائر جسده


Tema:

انہوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ انہیں قتل کرے۔ جب انہیں علم نہیں تھا تو (کسی سے) سوال کیوں نہ کیا؟ کیونکہ لا علمی کا علاج سوال ہی تو ہے۔ اس شخص کے لئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا (یا پٹی) باندھ کر اس پر مسح کرلیتا اور بقیہ جسم کو دھو لیتا۔

عن جابر -رضي الله عنه- قال: خرجنا في سَفَر فأصاب رجُلا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ في رأسه، ثم احتلم فسأل أصحابه فقال: هل تجدون لي رُخْصَة في التَّيمم؟ فقالوا: ما نَجِد لك رُخْصَة وأنت تَقْدِرُ على الماء فاغْتَسَل فمات، فلمَّا قَدِمْنَا على النبي -صلى الله عليه وسلم- أخبر بذلك فقال: «قَتَلُوه قَتَلَهُم الله ألا سَألُوا إذ لم يعلموا فإنَّما شِفَاء العِيِّ السؤال، إنما كان يَكفيه أن يَتيمَّم ويَعْصِر-أو يَعْصِب- على جُرحِه خِرقَة، ثم يمسح عليها، ويَغسل سائر جسده».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم ایک سفر پر نکلے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگ گیا جس سے اس کے سر پر زخم آ گیا۔ پھر (اسی رات) اسے احتلام ہو گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میرے لیے تیمم کرنے کی رخصت ہے؟ انہوں نے جواب دیا:چونکہ تم پانی کے استعمال پر قادر ہو، اس لئے ہمارے نزدیک تمہارے لئے کوئی رخصت نہیں۔ لہٰذا اس نے غسل کر لیا اور اس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ جب ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ انہیں قتل کرے۔ جب انہیں علم نہیں تھا تو (کسی سے) سوال کیوں نہ کیا؟ کیونکہ لا علمی کا علاج سوال ہی تو ہے۔ اس شخص کے لئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا (پٹی) باندھ کر اس پر مسح کرلیتا اور بقیہ جسم کو دھو لیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر جابر -رضي الله عنه- أنهم خرجوا في سفر، فأُصيب رَجُل منهم بِحَجر فَشُجَّ رأسه، ثم إنه احتلم فسأل أصحابه عن إجزاء التيمم بدلاً عن غسل العضو.
"فقالوا: ما نَجِد لك رُخْصَة وأنت تَقْدِرُ على الماء فاغْتَسَل فمات" أي أنه لا يجزئ التيمم في هذه الحال؛ لوجود الماء، وإنما الرُّخصة في التيمم لفاقد الماء، وأما مع وجوده فلا رخصة لك، ثم إنه اغتسل فتأثر جُرحه بالماء فمات -رضي الله عنه-.
فلما قدموا المدينة أخبروا النبي -صلى الله عليه وسلم- بالقصة فأعابهم بقوله: "قَتَلُوه قَتَلَهُم الله" دعا عليهم النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنهم تسببوا في قتله بفتواهم الخاطئة.
" ألا سَألُوا إذ لم يعلموا " أي: كان الواجب عليهم أن يسألوا ولا يتسرعوا في الفتوى؛ لما فيها من إلحاق الضرر بالغير وهو ما قد وقع.
"فإنَّما شِفَاء العِيِّ السؤال" العِيُّ: الجَهل، والمعنى: لمَ لمْ يسألوا حين لم يعلموا؛ لأن شِفاء الجَهل السؤال، فإذا كان الإنسان يجهل الحكم الشرعي، فإن الشِّفاء من هذا الجَهل أن يسأل، ولا يفتي بشيء يؤدي إلى الضرر أو يلحق الهلاك بالناس،
ثم بَيَّن لهم البني -صلى الله عليه وسلم- الحكم الشرعي في المسألة بقوله:


"إنما كان يَكفيه أن يَتيمَّم ويَعْصِر-أو يَعْصِب- على جُرحِه خِرقة، ثم يمسح عليها، ويَغسل سائر جسده" هذا ما يلزمه، وهو الموافق لأصول الشريعة، أما إلزامه بالاغتسال مع ما يترتب عليه من ضَرر بدنه أو هلاكه  أو تأخير برء، فهذا مخالف لأصول الشريعة.  
وبناءا عليه: يُرخص لصاحب الجِراحة أو الشَّجة أن يَغسل سائر جسده بالماء ويمسح على العِصَابة ويكفي، أما بالنسبة للتيمم مع وجود الجبيرة، فلا يشرع؛ لأن إيجاب طهارتين لعضو واحد مخالف لقواعد الشريعة.
 ويحمل الحديث -والله أعلم- على أن العِصَابة زائدة على الحاجة، ويَشُق أو يَضُر نَزْعُها؛ لذا شُرع  التيمم عن الزائد من العِصَابة، أو يحمل على أن أعضاء الوضوء كانت جريحة، فتعذر إيصال الماء إليها، فعدل إلى التيمم بدلا عن غسل العضو.
580;ابر رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ وہ ایک سفر پر نکلے، تو ان میں سے ایک آدمی کو پتھر لگ گیا جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ پھر اسے احتلام ہو گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا عضو کو دھونے کے بجائے تیمم کرنا کافی ہے؟
’’انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ تم پانی کے استعمال پر قادر ہو، اس لئے ہمیں تو تمہارے لئے کوئی رخصت نظرنہیں آتی۔ لہٰذا اس نے غسل کر لیا اور وہ مرگیا۔‘‘
یعنی اس حال میں تیمم کرنا کفایت نہیں کرے گا کیونکہ پانی موجود ہے۔ اور تیمم کی رخصت تو اس شخص کے لئے ہے جسے پانی نہ ملے۔ لیکن جب پانی موجود ہے تو تمھارے لیے کوئی رخصت نہیں۔ پھر اس شخص نے غسل کر لیا اور پانی کی وجہ سے اس کا زخم متاثر ہوا اور اس کی موت واقع ہو گئی ۔ رضی اللہ عنہ ۔
جب وہ لوگ مدینہ آئے تو آپ ﷺ کو یہ قصہ سنایا، تو آپ ﷺ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
’’انہوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ انہیں قتل کرے۔‘‘ نبی ﷺ نے انہیں بددعا دی کیونکہ وہ اپنے غلط فتوے کی وجہ سےاس کی موت کا سبب بنے تھے۔
’’جب وہ جانتے نہیں تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا‘‘
یعنی ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ کسی سے پوچھ لیتے اور فتوی دینے میں جلدی نہ کرتے۔.کیونکہ ایسا کرنے میں دوسرے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہاں درحقیقت یہی ہوا ہے۔
’’لا علمی کا علاج تو پوچھ لینا ہے۔‘‘
’’العی‘‘ کا معنی ہے لاعلمی، مفہوم یہ ہے کہ جب وہ جانتے نہ تھے تو انہوں نے پوچھ کیوں نہ لیا۔ کیونکہ لاعلمی کا علاج تو پوچھ لینا ہے۔ جب انسان کسی حکم شرعی سے نا واقف ہو تو اس جہالت کا علاج یہ ہے کہ وہ پوچھ لے اور کسی ایسی بات کا فتوی نہ دے جس سے نقصان ہو، یا لوگ ہلاکت کا شکار ہوں۔
پھر آپ ﷺ نے اس مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس شخص کے لئے کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا یا پٹی باندھ لیتا اور پھر اس پر مسح کرلیتا اور بقیہ جسم کو دھو لیتا۔‘‘
بس اس قدر کرنا اس پر لازم تھا اور یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ البتہ اس پر غسل کو لازم کرنا جب کہ اس کے نتیجے میں جسمانی نقصان یا ہلاکت یا شفایابی میں تاخیر ہوتی ہے، تو یہ بات شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اس بنا پر جس شخص کے بدن پر یا سر پر زخم لگا ہو اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ اپنے باقی سارے جسم کو پانی سے دھو لے اور پٹی پر مسح کر لے۔ اتنا کرلینا کافی ہے۔ البتہ پٹی کے ہوتے ہوئے تیمم کرنا مشروع نہیں ہے، کیونکہ ایک ہی عضو کے لئے دو طہارت واجب کرنا شریعت کے قواعد کے خلاف ہے۔ اور اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے گا (اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے) کہ پٹی زائد از ضرورت تھی اور اس کا اتارنا مشقت کا باعث یا نقصان دہ تھا۔ اس لئے زائد از ضرورت پٹی کے لئے تیمم مشروع کیا گیا یا پھر اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وضو کے اعضاء زخم آلود تھے، چنانچہ ان تک پانی نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس لئے عضو کو دھونے کے بجائے تیمم کو اختیار کیا گیا۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10019

 
 
Hadith   1570   الحديث
الأهمية: أصبت السنة، وأجزأتك صلاتك


Tema:

تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہارے لیے کافی ہو گئی۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: خرج رَجُلَان في سفر، فَحَضَرَتِ الصلاة وليس معهما ماء؛ فَتَيَمَّمَا صَعيدا طيِّبا فَصَلَّيَا، ثمَّ وجَدَا الماء في الوقت، فأعاد أَحَدُهُمَا الصلاة وَالوُضُوءَ ولم يُعِدِ الآخر، ثم أتَيَا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكَرَا ذلك له فقال لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: «أَصَبْتَ السنة، وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ». وقال للذي توضأ وأعاد: «لك الأجر مرَّتَين».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ جب نماز کا وقت ہوا، تو ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ چنانچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کر لیا اور نماز ادا کر لی۔ پھر جب ان کو پانی ملا، تو ان میں سے ایک نے دوبارہ وضو کیا اور نماز دوہرائی، جب کہ دوسرے نے نہیں دوہرائی۔ جب وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ بات آپ کے سامنے رکھی، تو جس نے نماز نہیں دوہرائی تھی، اس سے فرمایا: تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہارے لیے کافی ہو گئی۔ اور جس نے وضو اور نماز کو دوہرایا تھا، اس سے فرمایا: تمہارے لیے دوہرا اجر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقص الصحابي الجليل أبو سعيد الخدري -رضي الله عنه- فيقول:
(خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة) أي: جاء وقتها.
(وليس معهما ماء؛ فتيمما صعيدا طيبا) أي: قصداه على الوجه المخصوص، أوفتيمما بالصعيد.
(فصليا، ثم وجدا الماء في الوقت، فأعاد أحدهما الصلاة بوضوء) إما ظنا بأن الأولى باطلة، وإما احتياطا.
(ولم يعد الآخَر) بناء على ظن أن تلك الصورة صحيحة.
(ثم أتيا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكرا ذلك) أي: ما وقع لهما.   فقال -صلى الله عليه وسلم- للذي لم يعد: (أصبت السنة) أي: صادفت الشريعة الثابتة بالسنة. (وأجزأتك صلاتك) تفسير لما سبق، وتوكيد له.
وأما الآخر: (وقال للذي توضأ) أي: للصلاة (وأعاد) أي: الصلاة في الوقت، «لك الأجر مرتين» أي: لك أجر الصلاة مرتين؛ فإن كلا منهما صحيحة تترتب عليها مثوبة، وإنَّ الله لا يضيع أجر من أحسن عملاً، وفيه إشارة إلى أنَّ العمل بالأحوط أفضل، كما قال -صلى الله عليه وسلم-: «دع ما يريبك إلى ما لا يريبك».
580;لیل القدر صحابی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس حدیث میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے اور نماز حاضر ہو گئی، یعنی نماز کا وقت ہو گیا۔ ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ،انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کر لیا، یعنی اپنے چہرے پر مخصوص انداز سے اس کو پھیر لیا یا دونوں نے مٹی سے تیمم کر لیا۔ دونوں نے نماز پڑھ لی اور جب انہیں پانی ملا تو ایک نے وضو اور نماز کو دوہرا لیا، اس خیال سے کہ پہلی والی باطل ہو گئی ہے یا پھر احتیاطاً ایسا کیا۔ اور دوسرے نے نہ دوہرائی، یہ خیال کرتے ہوئے کہ پہلی والی صورت بھی ٹھیک تھی۔ پھر وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا، یعنی جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔
جس نے وضو اور نماز نہیں دوہرائی تھی اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے سنت کو پایا، یعنی شریعت سے ثابت سنت کو پایا ہے۔ اور تمہاری نماز تمہارے لیي کافی ہے، یہ ما قبل کی وضاحت اور تاکید ہے۔
جبکہ جو دوسرا تھا: جس نے وضو کیا تھا اس سے فرمایا، یعنی نماز کے لیے وضو کیا اور دوہرایا، یعنی نماز کو اس کے وقت میں ہی۔ تمہارے لیے دوہرا اجر ہے یعنی تیری نماز کا دوہرا اجر ہے۔
ان دونوں کے عمل کے صحیح ہونے کی وجہ سے ان کے عمل پر ثواب جاری ہوا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ کسی کے اچھے عمل کے اجر کو رائیگاں نہیں کرتے۔ا ور اس میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ عمل کی ادائیگی میں احتیاط افضل ہے جیسا کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا: ”جو تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو اور وہ اختیار کر جس میں شک نہیں“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10022

 
 
Hadith   1571   الحديث
الأهمية: الصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فأمسه جلدك فإن ذلك خير


Tema:

پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے۔ جب تم پانی پا جاؤ، تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو؛ اس لیے کہ یہ بہتر ہے۔

عن أبي ذر جندب بن جنادة -رضي الله عنه- قال: اجتمعت غنيمة عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «يا أبا ذر اُبْدُ فيها» فبَدَوْتُ إلى الرَّبذَة فكانت تُصيبني الجنابة فأمكث الخَمْسَ والسِّتَّ، فأتيتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أبو ذر» فَسَكَتُّ فقال: «ثَكِلَتْكَ أمك أبا ذر لأمِّكَ الوَيْلُ» فدعا لي بجارية سوداء فجاءت بِعُسٍّ فيه ماء فستَرتْنِي بثَوب واستَتَرْتُ بالرَّاحلة، واغتسلتُ فكأني أَلقَيْتُ عني جَبَلًا فقال «الصعيدُ الطيِّبُ وُضُوءُ المسلم ولو إلى عشر سنين، فإذا وجدتَ الماء فأَمِسَّهُ جِلدَكَ فإن ذلك خَيرٌ».

ابو ذر جندب بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال غنیمت جمع ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ذر! انھیں لے کر دیہات کی طرف چلے جاؤ“۔ چنانچہ میں مقام ربذہ کی طرف آ گیا۔ وہاں مجھے جنابت لاحق ہوتی اور میں پانچ چھے دن ویسے ہی رہ جایا کرتا تھا۔ پھر میں نبی ﷺ کی خدمت میں آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابو ذر ہو؟ میں چپ رہا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کرے، تیری ماں کے لیے خرابی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے میرے لیے ایک سیاہ فام باندی کو بلایا، جو ایک بڑے برتن میں پانی لے آئی۔ پھر ایک کپڑے کے ذریعے میرے لیے پردہ کیا۔ میں نے سواری کی اوٹ لی اور غسل کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا میں نے کوئی پہاڑ اتار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے۔ پھر جب تم پانی پا جاؤ، تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو۔ اس لیے کہ یہ بہتر ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين هذا الحديث معلماً من معالم يسر هذه الشريعة، وهو الإرشاد إلى طهارة التيمم عند فقد الماء.


(الصعيد الطيب): أي تراب الأرض الطهور ونحوه مما علا فوق الأرض من جنسها، سمي به لأن الآدميين يصعدونها ويمشون عليها.
(وَضوء المسلم) وفي هذا الكلام تشبيه الصعيد الطيب بالماء في الطهارة،  فأطلق الشارع على التيمم أنه وضوء لكونه قام مقامه.
وهذا التخفيف بالبدلية مستمر ما وجد العذر؛ ولذلك قال عليه الصلاة والسلام: (وإن لم يجد الماء عشر سنين) أو عشرين أو ثلاثين أو أكثر فالمراد بالعشر التكثير لا التحديد، وكذا إن وجده وهناك مانع حسي أو شرعي.
فهذا يفيد أن التيمم يقوم مقام الوضوء ولو كانت الطهارة به ضعيفة لكنها طهارة ضرورة لأداء الصلاة قبل خروج الوقت.
ومع ذلك فالترخص بالتيمم منقطع لحظة وجود الماء والقدرة على استعماله؛ ولذلك أرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا ذر بضرورة الرجوع إلى الأصل في الطهارة -وهو استعمال الماء- فقال عليه -الصلاة والسلام-:
(فإذا وجدت الماء فأصبه بشرتك) أي أوصله إليها وأسِلْه ُعليها في الطهارة من وضوء أو غسل، وفي رواية الترمذي: "فإذا وجد الماء فليمسه بشرته فإن ذلك خير" فأفاد أن التيمم ينقضه رؤية الماء إذا قدر على استعماله؛ لأن القدرة هي المرادة بالوجود.
740;ہ حدیث شریعت اسلامیہ کے امتیازات میں سے ایک امتیاز کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ ہے پانی کی غیر موجودگی میں تیمم کے ذریعے پاکی حاصل کرنے کی طرف رہ نمائی۔
”الصعيد الطيب“: یعنی زمین کی پاک مٹی یا اس طرح کی کوئی اور شے جو زمین کے اوپر ہو اور اسی کی جنس سے ہو۔ اسے صعید کا نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ لوگ اس پر چلتے اور چڑھتے ہیں۔
”وَضوء المسلم“: ان الفاظ میں پاک مٹی کو طہارت کے حصول میں پانی کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تیمم پر وُضو کے پانی کا اطلاق کیا؛ کیوں کہ یہ اس کا قائم مقام ہے۔ پانی کے بدلے میں تیمم کرنے کے سلسلے میں یہ فراہم کردہ آسانی تب تک جاری رہتی ہے، جب تک عذر باقی رہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا:
”اگرچہ اسے دس سال تک پانی نہ ملے“ یا بیس یا تیس یا اس سے بھی زیادہ سال نہ ملے۔ یہاں دس سے مراد کثرت کا بیان ہے نہ کہ تحدید۔ اسی طرح اگر اسے پانی تو مل رہا ہو، لیکن (پانی کے استعمال میں) کوئی حسی یا شرعی مانع ہو، تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمم وضو کے قائم مقام ہے، اگرچہ اس سے حاصل شدہ طہارت ہلکی ہوتی ہے، لیکن یہ ضرورت کی وجہ سے طہارت ہے؛ تاکہ نماز کا وقت نکلنے سے پہلے اس کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔
اس کے باجود جب پانی مل جائے اور اس کی استعمال پر قدرت حاصل ہو جائے، تو تیمم ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی اس بات کی طرف راہ نمائی فرمائی کہ حصول طہارت میں جو شے اصل ہے -یعنی پانی کا استعمال-، اس کی طرف رجوع کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
”جب تمھیں پانی مل جائے، تو اسے اپنے جسم پر بہاؤ“ یعنی حصول طہارت کے لیے وضو یا غسل کرتے ہوئے جسم تک اسے پہنچاؤ اور اس پر اسے انڈیلو۔ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے: ”جب اسے پانی مل جائے، تو وہ اسے اپنی جلد پر بہائے، یہ اس کے لیے زیادہ اچھا ہے“ آپ ﷺ نے بتایا کہ پانی کو دیکھتے ہی تیمم ختم ہو جاتا ہے، بشرطے کہ اسے پانی کے استعمال کی قدرت بھی ہو؛ کیوں کہ موجودگی سے مراد قدرت ہی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10023

 
 
Hadith   1572   الحديث
الأهمية: نصرت بالرعب، وأعطيت مفاتيح الأرض، وسميت أحمد، وجعل التراب لي طهورا، وجعلت أمتى خير الأمم


Tema:

میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں، میرا نام احمد رکھا گیا، مٹی کو میرے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا گیا اور میری امت کو بہترین امت بنایا گیا۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- مرفوعاً: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "أُعطِيتُ ما لم يُعطَ أحدٌ من الأنبياءِ". فقلنا: يارسول الله، ما هو؟ قال: "نُصِرتُ بالرُّعبِ، وأُعطِيتُ مَفَاتِيحَ الأرضِ، وسُمِّيتُ أحمدَ، وجُعِلَ التُّرابُ لي طَهُوراً، وجُعِلَتْ أمَّتي خيرَ الأممِ".

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے وہ کچھ دیا گیا جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دیا گیا“، ہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں، میرا نام احمد رکھا گیا، مٹی کو میرے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا گیا اور میری امت کو بہترین امت بنایا گیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله: "أعطيت ما لم يعط أحد من الأنبياء قبلي" ظاهره أن كل واحدة مما ذكر لم تكن لأحد قبله، قوله: "نصرت بالرعب" أي: بخوف العدو مني، وهو الذي قطع قلوب أعدائه وأخمد شوكتهم وبدد جموعهم، قوله: "وأعطيت مفاتيح" جمع مفتاح اسم للآلة التي يفتح بها، وهو في الأصل كل ما يتوصل به إلى استخراج المغلقات التي يتعذر الوصول إليها بها، قوله: "الأرض" استعارة لوعد الله له بفتح البلاد، قوله: "وسميت أحمد" فلم يسم به أحد قبله حماية من الله؛ لئلا يدخل لبس على ضعيف القلب أو شك في كونه هو المنعوت بأحمد في الكتب السابقة، قوله: "وجعل لي التراب طهوراً" أي: مطهراً عند تعذر الماء.
570;پ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے وہ کچھ دیا گیا جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دیا گیا“ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے وہ تمام باتیں جو ذکر ہوئیں ان میں سے کوئی بھی آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں تھی۔ فرمایا: ”میری رعب کی ساتھ مدد کی گئی“ یعنی دشمن کو مجھ سے خوفزدہ کر کے۔ جس نے دشمنوں کے دلوں کو چیر کر رکھ دیا، ان کی شان و شوکت کو ختم کر دیا اوران کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وأعطيت مفاتيح“ یہ مفتاح کی جمع ہے جو ایک ایسے آلے کا نام ہے جس کے ساتھ (تالا وغیرہ) کھولا جاتا ہے۔ دراصل اس سے مراد وہ شے ہے جس کے ذریعے ان تالہ بند اشیاء کو نکالا جاتا ہے جن تک اس کے بغیر رسائی حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ”زمین کے خزانے“ یہ اللہ کی طرف سے ممالک کے فتح ہونے کے وعدے کا استعارہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرا نام احمد رکھا گیا“ آپ سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ اللہ کی طرف سے بطور حفاظت تھا تاکہ اس نام سے موسوم شخص کے متعلق کمزور دل والے التباس اور شک میں مبتلا نہ ہوں کہ سابقہ کتابوں میں احمد کی صفت کے ساتھ موصوف شخص یہی ہے۔ ”وجعل لي التراب طهوراً“ یعنی مٹی کو مطَہِّرْ ( پاک کرنے والی شے) بنادیا گیا ہے جس وقت کہ پانی کا ملنا دشوار ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10025

 
 
Hadith   1573   الحديث
الأهمية: فضلنا على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة، وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا، وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء


Tema:

ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے: ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی رکھی گئی ہیں، ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

عن حذيفة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «فُضِّلْنَا على الناس بِثَلاث: جُعِلَت صُفُوفَنا كصفُوف الملائِكة، وجُعلت لنَا الأرض كُلُّها مسجدا، وجُعلت تُرْبَتُهَا لنا طَهُورا، إذا لم نَجِد الماء. وذَكر خِصْلَة أُخرى».

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے: ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی رکھی گئی ہیں، ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے“۔ آپ ﷺ نے ایک اور خصلت کا بھی ذکر فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث لبيان شرف هذه الأمة وتفضيلها على باقي الأمم ببعض المميزات، وقوله -عليه الصلاة والسلام- :
"فُضِّلْنَا على الناس بِثَلاث" أي: أن الله تعالى فَضَّلَنا على جميع الأمم السابقة بثلاث خِصال، وليس فيه انْحِصار خصوصيات هذه الأمة في الثلاث; لأنه عليه الصلاة والسلام كان تنزل عليه خصائص أُمَّته شيئاً فشيئاً، فيُخْبِر عن كل ما نَزَل عليه عند إنزاله مما يناسبه.
"جُعِلَت صُفُوفَنا كصفُوف الملائِكة" وهي: أن وقُوفَنَا في الصلاة، كما تَقِف الملائكة عند ربِّها، وهو أنهم يُتِمُّون المُقدم، ثم الذي يَلِيه من الصفوف ثم يَرُصُّون الصَّفَّ كما ورد التصريح بذلك في سنن أبي داود وغيرها (ألا تصفون كما تَصُف الملائكة عندَ ربِّها؟) فقلنا: يا رسول الله، وكيف تَصُفُّ الملائكة عند ربِّها؟ قالَ: (يتمون الصفوف الأولى، ويتراصون في الصَفِّ).
وهذا بخلاف الأمم السابقة، فإنهم كانوا يَقِفُون في الصلاة كيف ما اتَفق.
"وجُعلت لنَا الأرض كُلُّها مسجداً، وجُعلت تُرْبَتُهَا لنا طَهُوراً أي: أنَّ الله تعالى جعل الأرض كلها مواضع صالحة للصلاة، فيصلِّي في أي مكان تُدركه الصلاة فيه، فلا يختص به موضعٌ دون غيره تخفيفاً عليهم وتيسيراً لهم، بخلاف الأمم السابقة، فإنهم لا يصلون إلا في الكنائس والبِيَع؛ ولذا جاء في بعض روايات هذا الحديث عند أحمد: (وكان مَنْ قبلي إنَّما يُصلون في كنائسهم)  وفي رواية أخرى: (ولم يَكن أحَدٌ من الأنبياء يصلِّي حتى يبلغ مِحْرَابه).
لكن خُصَّ من عموم هذا الحديث ما نَهَى الشَّارع عن الصلاة فيه، كالحمام والمقبرة وأعطان الأبل والمواضع النجسة. 


"وجُعلت تُرْبَتُهَا لنا طَهُورا" يعني أن الانتقال إلى التيمم مشروط بعدم وجود الماء، وقد دَلَّ على ذلك أيضا القرآن، قال تعالى: (فلم تجدوا ماءا فتيمموا صعيداً طيباً) وهذا محل إجماع من العلماء، ويلحق بفاقد الماء، من تَضرر باستعماله.
"وذَكر خِصْلَة أُخرى" ما تقدم خَصْلَتان؛ لأن ما ذُكِر عن الأرض من كَونها مسجدًا وطهورًا خَصْلَة واحدة وأما الثالثة فَمَحْذُوفة هُنا، وجاء ذِكْرُها في رواية النسائي من طريق أبي مالك الراوي هُنا في مسلم قال: (وأُوتِيتُ هؤلاء الآيات آخر سورة البقرة من كَنْز تحت العَرْش لم يُعْطَ منه أحَدٌ قَبْلِي، ولا يُعْطَى منه أحَدٌ بَعْدِي).
575;س حدیث میں اس امت کے مقام ومرتبے اور بعض امتیازی خصوصیات کی بنا پر باقی امتوں پر اس کی فضیلت کا بیان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت دی گئی“ یعنی تمام سابقہ امتوں پر اللہ تعالی نے ہمیں تین خصلتوں کے ساتھ فضیلت بخشی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اس امت کی خصوصیات صرف تین تک محدود ہیں، کیوں کہ آپ ﷺ پر اس امت کی خصوصیات کا نزول درجہ بدرجہ ہوتا تھا اور ان کے نازل ہونے پر جو بات مناسب ہوتی، اس کے بارے میں آپ ﷺ بتادیا کرتے تھے۔
”ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند رکھی گئیں“ وہ اس طرح کہ نماز میں ہم ایسے کھڑے ہوتے ہیں، جیسے فرشتے اپنے رب کےحضور کھڑے ہوتے ہیں، بایں طور کہ وہ پہلے اگلی صف کو پورا کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد والی صفوں کو اور صف میں باہم جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سنن ابی داود اور دیگر کتب ِحدیث میں اس کی تصریح آئی ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): کیا تم اس طرح سے صفیں نہیں باندھوں گے، جیسے فرشتے اپنے رب کے حضور صف بستہ ہوتے ہیں؟۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! فرشتے اپنے رب کے حضور کیسے صف بستہ ہوتے ہیں؟۔ آپ ﷺنے فرمایا: پہلے وہ پہلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور صف میں باہم مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ سابقہ امتیں ایسے نہیں کرتی تھیں، بلکہ وہ لوگ جیسے بھی ہوتے، نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔
”ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیاگیا اور اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا“ یعنی اللہ تعالی نے زمین کی تمام جگہوں کو نماز کے لیے موزوں قرار دے دیا۔ چنانچہ نمازی جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے، وہیں نماز ادا کر سکتا ہے اور لوگوں کو سہولت اور آسانی کے پیش نظر کسی جگہ کو نماز کی ادائیگی کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا، بخلاف سابقہ امتوں کے۔ وہ لوگ صرف اپنے گرجا گھروں اور کلیساؤں میں نماز پڑھتے تھے۔ اسی لیے مسند احمد میں اس حدیث کی کچھ روایات میں آیا ہے کہ ”مجھ سے پہلے والے لوگ اپنے گرجا گھروں میں نماز پڑھتے تھے“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”کوئی بھی نبی اس وقت تک نماز نہ پڑھتا جب تک کہ وہ اپنے محرابِ عبادت تک نہ پہنچ جاتا“۔
تاہم اس حدیث کے عموم کی ان مقامات کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے، جن میں نماز پڑھنے سے شارع علیہ السلام نے منع فرمایا ہے، جیسے غسل خانہ، قبرستان، اونٹوں کے باڑے اور ناپاک جگہیں۔
”اور اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا“ یعنی تیمم کی طرف منتقل ہونےکے لیے پانی کا نہ ملنا شرط ہے۔ اس کی دلیل بھی قرآن میں ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ ”اورتمھیں پانی نہ ملے، تو پاک مٹی کا قصد کرو“۔ اس پر علما کا اجماع ہے۔ جس شخص کو پانی کے استعمال سے کوئی ضرر پہنچتا ہو، اس کا بھی وہی حکم ہے، جو اس شخص کا ہے، جسے پانی دستیاب نہ ہو۔
”اور آپ ﷺ نے ایک اور خصلت کا بھی ذکر فرمایا“ ما قبل گزرنے والی عبارت میں دو خصلتوں کا بیان ہے؛ کیوں کہ زمین کے بارے میں جو آیا کہ وہ مسجد ہے اور حصول طہارت کا ذریعہ ہے، یہ دونوں ایک ہی خصلت شمار ہوتی ہیں، جب کہ تیسری خصلت کا یہاں بیان نہیں ہے۔ اس کا ذکر سنن نسائی کی روایت میں ہے، جو اسی راوی یعنی ابو مالک سےمروی ہے، جو مسلم شریف کی اس حدیث کا بھی راوی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے سورۂ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش تلے موجود خزانے سے دی گئی ہیں، جس میں سے نہ تو مجھ سے پہلے کسی کو کچھ دیا گیا اور نہ ہی میرے بعد کسی کو اس میں سے دیا جائے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10026

 
 
Hadith   1574   الحديث
الأهمية: كنت أغتسل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إناء واحد، تختلف أيدينا فيه من الجنابة


Tema:

میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن (میں موجود پانی) سے غسلِ جنابت کرتے اور (چلو بھرنے کے لیے) ہمارے ہاتھ باری باری اس میں جاتے۔

عن عائشة  -رضي الله عنها- قالت: «كُنت أغْتَسِل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إناء واحد، تَخْتَلِفُ أَيْدِينَا فيه من الجَنَابة».
وفي رواية: «وتَلْتَقِي».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن (میں موجود پانی) سے غسل جنابت کرتے اور (چلو بھرنے کے لیے) ہمارے ہاتھ باری باری اس میں جاتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اور (ہمارے ہاتھ ایک دوسرے سے) ملتے تھے۔
تحكي أمنا عائشة -رضي الله عنها- أنها شاركت النبي -صلى الله عليه وسلم- في الاغتسال من الماء الموجود في الإِناء الواحد؛ لأجل رفع الحدث الأكبر، وهو: الجنابة.
كما تصوِّر هيئة ذلك الاشتراك بقولها: "تختلف أيدينا فيه" أي فأدخل يدي في الإِناء مرة لأغترف منه، ويدخل يده -صلى الله عليه وسلم- في الإِناء مرة ليغترف منه، كما جاء في رواية للبخاري عن عائشة أنها قالت: "كنت أغتسل أنا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- من إناء واحد، نغرف منه جميعاً"

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وأما رواية ابن حبان الثانية، فجاءت بتفصيل دقيق لهيئة هذا الاجتماع في الاغتسال، وهذا في قولها: "وتَلْتَقِي" أي: الأيدي أي تجتمعان أثناء الأخْذ والغَرْف من الإناء.
وعلى هذه الرواية: فإن الأيْدي تَخْتَلف في بعض الغَرَفَات وتَلْتَقي في بعضها.
575;ماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ غسل کرتے ہوئے ایک ہی برتن میں موجود پانی استعمال کرتی تھیں تاکہ حدثِ اکبر یعنی جنابت کو دور کر سکیں۔ اپنی اس شراکت کی ہیئت کو بیان کرتے ہوئے وہ فرماتی ہیں: "تختلف أيدينا فيه'' یعنی کبھی میں اپنے ہاتھ کو چلو بھرنے کے لیے برتن میں داخل کرتی اور کبھی آپ ﷺ اس سے چلو بھرنے کے لیے اپنا ہاتھ اس میں لے جاتے۔جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ”میں اور رسول اللہ ﷺ ایک برتن سے غسل کرتے اور ہم دونوں ہی اس سے چلو بھرتے“۔
جب کہ ابن حبان کی دوسری روایت میں انہوں نے اکٹھے غسل کرنے کی اس ہیئت کو بڑے دقیق انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ: ”وتَلْتَقِي“ یعنی برتن سے پانی لیتے ہوئے اور چلو بھرتے ہوئے ہمارے ہاتھ اکٹھے ہو جاتے۔
اس روایت کی بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ کبھی تو ہاتھ باری باری چُلّو بھرتے اور کبھی اکٹھے چلو بھرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10028

 
 
Hadith   1575   الحديث
الأهمية: إنما يكفيك أن تحثي على رأسك ثلاث حثيات ثم تفيضين عليك الماء فتطهرين


Tema:

تمہارے لیے بس اتنا کرنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال لو اور پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہا لو۔ اس سے تم پاک ہو جاؤگی

عن أم سلمة -رضي الله عنها- قالت: قلت: يا رسول الله، إنِّي امرأة أَشُدُّ ضَفْرَ رأسي فَأَنْقُضُهُ لغُسل الجَنابة [وفي رواية: والحَيْضَة]؟ قال: «لا، إنَّما يَكْفِيك أن تَحْثِي على رأْسِك ثلاث حَثَيَاتٍ ثم تُفِيضِينَ عليك الماء فَتَطْهُرين».

ام سلمہ رضی اللہ عنہا بيان کرتی ہيں کہ ميں نے عرض کيا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بالوں کو مضبوطی سے باندھ ليتى ہوں تو کیا میں غسل جنابت کے لیے انہيں کھولوں [ایک اور روایت میں ہے کہ: اور غسلِ حیض کے لیے انہيں کھولوں]؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، تمہارے لیے بس اتنا کرنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال لو اور پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہا لو۔ اس سے تم پاک ہو جاؤگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر أم سَلَمة -رضي الله عنها- أنها تجعل شَعَر رأسها ضَفَائر، ثم إنها سألت النبي -صلى الله عليه  وسلم- عن كيفية الاغتسال من الحَدَث الأكبر [ غسل الحيض والجَنَابة ]، هل يلزمها تفريق شَعْرها لأجل إيصال الماء إلى باطنه، أو لا يجب عليها تفريقه؟  قال: «لا، إنَّما يَكْفِيك أن تَحْثِي على رأْسِك ثلاث حَثَيَاتٍ » أي: لا يلزمُك، بل يكفيك أن تَصُبِّي الماء على رأسك بِملء كفيك ثلاث مرات، مع ظَنَّ حصول الإرواء لأصول الشَّعر، سواء وصل الماء إلى باطِن الشَّعر أو لم يَصَل؛ لأنه لو وجب إيصاله إلى باطِنه للزم نَقْضُه ليُعلم أن الماء قد وصَل إليه أو لم يصل.  
"ثلاث حَثَيَاتٍ" لا يُراد بالحَثَيَات الثلاث الحَصْر، بل المَطلوب إيصال الماء إلى أصول الشَّعر، فإن وصَل بمرة فالثلاث سُنَّة، وإن لم يَصل فالزيادة واجِبة، حتى يَبلغ أصوله مع ظن الإرواء. 


"ثم تُفِيضِينَ عليك الماء" أي: تُصُبِّين الماء على جميع جَسدك، وفي حديث عائشة -رضي الله عنها-: "ثمَّ تَصُبِّينَ على رأسِكِ الماءَ".
" فَتَطْهُرين" وفي رواية عند أبي داود وغيره: "فإذا أنت قد طَهُرت" أي: من الحَدث الأكبر الذي أصَابك.
والحاصل: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أفتاها بأنه لا يلزمها نَقْض شَعَر رأسها لغُسل الجَنَابة والحيضة، وإنما يكفيها أن تحثي على رأسها ثلاث غَرَفات بمليء كفيها، وتَعُم جسدها بالماء، وبذلك تكون قد طهرت من الحدث الأكبر.
575;م سلمہ رضی اللہ عنہا بتلا رہی ہیں کہ وہ اپنے سر کے بالوں کو چوٹيوں کی صورت ميں باندھ ليا کرتی تھیں۔ انہوں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ حدثِ اکبر سے پاک ہونے کے لیے غسل (يعنى غسلِ حیض اور غسل ِجنابت) کیسے کریں؟ کیا پانی کو اندر تک پہنچانے کے لیے ان کا اپنے بالوں کو کھولنا ضروری ہے یا انھیں کھولنا ضروری نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال لیا کرو“ یعنی تمہارے لیے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ تم چلو بھر کر تین دفعہ اپنے سر پر پانی ڈال لیا کرو بایں طور کہ غالب گمان ہو جائے کہ بالوں کی جڑیں تر ہو گئی ہیں، چاہے پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچے یا نہ پہنچے۔ کیونکہ اگر پانی کا بالوں کی تہ تک پہنچانا واجب ہوتا تو پھر بالوں کا کھولنا ضروری ہوتا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پانی اندر تک پہنچ گیا ہے یا نہیں۔
”تین چلو“ تین چلو سے معین طور پر صرف تین کا عدد مراد نہیں ہے، بلکہ پانی کو بالوں کی جڑوں تک پہنچانا مطلوب ہے۔ اگر پانی ایک ہی دفعہ میں جڑ تک پہنچ جائے تو پھر تین دفعہ ڈالنا سنت ہو گا اور اگر نہ پہنچے تو پھر اس سے زیادہ دفعہ ڈالنا واجب ہو گا یہاں تک کہ جڑوں تک پہنچ جائے اور ان کے تر ہو جانے کا غالب گمان ہو جائے۔
”پھر اپنے اوپر پانی بہا لو“ یعنی اپنے پورے بدن پر پانی بہا لو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ پھر تم اپنے سر پر پانی انڈیلو۔
”تم پاک ہو جاؤ گی“ سنن ابو داود وغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”فإذا أنت قد طَهُرت“ (تو سمجھ لو کہ تم پاک ہو گئیں) یعنی لاحق ہونے والے حدثِ اکبر سے تم پاک ہو جاؤگی۔
حاصل یہ کہ نبی ﷺ نے انہیں فتوی دیا کہ غسلِ جنابت یا غسلِ حیض کرتے ہوئے ان کے لیے اپنے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں ہے بلکہ ان کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ تین چلو بھر کر اپنے سر پر ڈال لیں اور اپنے پورے جسم پر پانی بہا لیں۔ ا س سے وہ حدث اکبر سے پاک ہو جائیں گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10030

 
 
Hadith   1576   الحديث
الأهمية: صببت للنبي -صلى الله عليه وسلم- غسلا


Tema:

میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا

عن ميمونة -رضي الله عنها- قالت: «صَبَبْتُ للنبي -صلى الله عليه وسلم- غُسْلا، فَأَفْرَغ بيمينه على يساره فغَسَلَهُما، ثم غَسل فَرْجَه، ثم قال بِيَدِه الأرض فَمَسَحَها بالتُّراب، ثم غَسلها، ثم تَمَضْمَضَ واسْتَنْشَقَ، ثم غَسَل وجْهَه، وأفَاضَ على رأسِه، ثم تَنَحَّى، فغسل قَدَمَيه، ثم أُتِيَ بمنْدِيل فلم يَنْفُضْ بها».

میمونہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے پہلے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر بہا یا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مار کر مٹی کے ساتھ اسے رگڑا اور پھر اسے دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرے کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ ﷺ نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: تخبر ميمونة أنها هيَّأت له الماء لأجل أن يَغتسل به رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من الجَنَابة، فتناول الإناء بيمينه، فصبَّه على يساره، ثم غسل كلتا يديه معاً؛ لأن اليدين آلة لنقل الماء، فاستحب غسلهما تحقيقا لطهارتهما، وتنظيفا لهما.      
فَغَسَلهُما، وفي رواية أخرى عن ميمونة -رضي الله عنها- عند البخاري: "فغسل يديه مرتين أو ثلاثا".  
وبعد أن غَسل يديه غَسل فَرْجَه بشماله لإزالة ما لوثه من آثار المَني وغيره، والمراد بالفَرْجِ هُنا: القُبل، يوضحه رواية البخاري: " ثم أفرغ على شِماله، فغسل مَذَاكِيرَه ".
ثم قال بِيَدِه الأرض والمراد ضرب بها الأرض واليد هنا: " اليَد اليُسرى، يوضحه رواية البخاري: " ثم ضَرب بِشِمَاله الأرض، فدَلَكَها دَلْكَا شديدا ".
فَمَسَحَها بالتُّراب لِيُزِيل ما قد يعَلق بها من آثار مُسْتَقْذَرة أو روائح كَرِيهة، ثم غَسل يَده اليُسرى بالماء لإزالة ما عَلَق بها من تُراب وغيره مما يُسْتَقْذَر، وبعد أن غسل يديه ونَظَّفَها مما قد يعَلق بها تمضمض وستنشق، ثم غَسَل وجْهَه. وليس فيه أنه توضأ -عليه الصلاة والسلام- ، لكن في حديثها الآخر عند البخاري ومسلم :" ثم توضأ وضوءه للصلاة "وهكذا جاء عن عائشة -رضي الله عنها-.
ثم صَبَّ الماء على رأسه، وفي روايتها الأخرى: " ثم أَفْرَغ على رأسه ثلاث حَفَنَات مِلءَ كَفِّه، ثم غَسَل سَائر جَسَده ".
ويُكتفى بالمرة الواحدة، إذا عَمَّت جميع البَدن.
ثم تحول إلى جهة أخرى بعيدا عن موضع الاغتسال فغسل قَدَمَيه بعد أن فَرَغ من وضوءه واغتساله، غسل قَدَميه مرة ثانية.
ثم أُتِيَ بمنْدِيل فلم يَنْفُضْ بها ولم يَتَمَسَّح بالمِنْدِيل من بَلَلِ الماء، وفي رواية أخرى عنها -رضي الله عنها-: " ثم أَتَيْتُه بالمِندِيل فَرَدَّه " وفي رواية أخرى : " أُتِيَ بِمِنْدِيلٍ فلم يَمَسَّه وجعل يقول: بالماء هكذا " يعني يَنْفُضُه.
581;دیث کا مفہوم: میمونہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی تیار کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ سے برتن کو تھاما اور اپنے بائیں ہاتھ پر انڈیلا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ساتھ دونوں ہاتھوں کو دھویا؛ کیوں کہ ہاتھ پانی منتقل کرنے کا آلہ ہیں۔ چنانچہ ان کی اچھی طرح سے طہارت و صفائی کے لیے آپ ﷺ نے انھیں دھونا پسند فرمایا۔
”دونوں ہاتھوں کو دھویا“ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دو یا تین دفعہ دھویا۔
اپنے ہاتھ دھو لینے کے بعد شرم گاہ پر منی وغیرہ کی گندگی کے اثرات کو دور کرنے لیے آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو دھویا۔ یہاں شرم گاہ سے مراد سامنے کی شرم گاہ ہے، جس کی وضاحت بخاری شریف کی روایت سے ہوتی ہے (جس میں یہ الفاظ ہیں کہ): ”پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اوراس سے اپنے عضو تناسل كو دھويا“۔
”ثم قال بِيَدِه الأرض“ یعنی اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا۔ یہاں ہاتھ سے مراد بایاں ہاتھ ہے، جس کی وضاحت بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ: پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور زور سے رگڑا۔
آپ ﷺ نے اسے مٹی کے ساتھ رگڑا، تا کہ اس کے ساتھ لگی گندگی اور بدبو زائل ہو جائے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو اس پر لگی مٹی اور میل کچیل دور کرنے کے لیے دھویا۔ اپنے ہاتھوں سے لگے میل کچیل کو دھولینے اور صاف کر لینے کے بعد آپ ﷺ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور پھر اپنا چہرہ مبارک دھویا۔ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نے وضو بھی فرمایا، تاہم صحیح بخاری و صحیح مسلم میں میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو فرمایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایسے ہی مروی ہے۔
پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر پانی ڈالا اور ایک اور روایت میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر پر تین چلو ہتھیلی بھر کر ڈالے اور پھر سارےجسم کو دھویا۔
ایک دفعہ پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، بشرطے کہ پانی سارے جسم تک پہنچ جائے۔
پھر آپ ﷺ نے غسل کی جگہ سے دور ایک دوسری جانب ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، یعنی جب آپ ﷺ اپنے وضو اور غسل سے فارغ ہو چکے، تو آپ ﷺ نے دوسری دفعہ اپنے پاؤں دھوئے۔
پھر آپ ﷺ کے پاس رومال لایا گیا، تو آپ ﷺ نے پانی کی تری کو اس سے خشک نہ کیا اور نہ ہی اس سے پونچھا۔ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں ہے : پھر میں آپ ﷺ کے پاس رومال لائی، تو آپ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ ایک اور روایت میں ہے: آپ ﷺ کے پاس ایک رومال لایا گیا، لیکن آپ ﷺ نے اسے چھویا تک نہیں اور اس طرح سے پانی جھٹکنے لگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10031

 
 
Hadith   1577   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا اغتسل من الجنابة يبدأ فيغسل يديه، ثم يفرغ بيمينه على شماله فيغسل فرجه، ثم يتوضأ وضوءه للصلاة


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر نماز کی وضو کی طرح وضو کرتے۔

عن عائشة، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجَنَابَة يبدأ فيغسل يديه، ثم يُفرغ بيمينه على شماله فيغسل فَرْجَه، ثم يتوضأ وضوءه للصلاة، ثم يأخذ الماء فيُدخل أصابعه في أصول الشَّعَرِ، حتى إذا رأى أن قد اسْتَبْرَأَ حَفَنَ على رأسه ثلاث حَفَنَات، ثم أفاض على سائر جسده. ثم غسل رجليه».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر نماز کی وضو کی طرح وضو کرتے اور اپنی انگلیاں پانی میں ڈال کر ان سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے، یہاں تک کہ جب بالوں کی جڑوں تک تَرِیْ دیکھ لیتے تو پھر اپنے سر پر تین لپ (دونوں ہاتھوں سے بھر کر) پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر پانی گراتے اور اپنے پاؤں دھوتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تصف عائشة -رضي الله عنها- غُسل النبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه إذا أراد الغسل من الجنابة بدأ بغسل يديه؛ لتكونا نظيفتين حينما يتناول بهما الماء للطهارة، وتوضأ كما يتوضأ للصلاة.
ولكونه -صلى الله عليه وسلم- ذا شعر كثيف، فإنه يخلله بيديه وفيهما الماء، حتى إذا وصل الماء إلى أصول الشعر، وأوصل الماء إلى جميع  البشرة، أفاض الماء على رأسه ثلاث مرات ثم غسل باقي جسده ثم أخّر غسل رجليه في النهاية.
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا، نبی کریم ﷺ کے غسل کا طریقہ بیان فرما رہی ہیں کہ آپ ﷺ جب غسلِ جنابت کا ارادہ فرماتے تو سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے تاکہ وہ اس وقت پاک و صاف رہیں جب طہارت کے لیے ان ہاتھوں سے پانی لیں پھر نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو فرماتے۔
اور چوں کہ آپ ﷺ کے بال بہت زیادہ گھنے تھے،اس لیے آپ ﷺ اپنے تر شدہ ہاتھوں سے بالوں کا خلال کرتے، یہاں تک کہ جب پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتا اور آپ اپنے تمام جلد پر پانی پہنچا دیتے تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے، پھر باقی جسم کو غسل دیتے اور سب سے آخر میں اپنے پاؤں دھوتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10032

 
 
Hadith   1578   الحديث
الأهمية: إذا أتى أحدكم أهله ثم أراد أن يعود فليتوضأ بينهما وضوءا


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے (صحبت کرے) اور پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کرے۔

عن أبي سعيد الخُدْرِي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا أَتَى أحَدُكُم أهله ثم أرَاد أن يَعود فَلْيَتَوَضَّأْ بينهما وضُوءًا».
  وفي رواية الحاكم: «فإنه أَنْشَطُ لِلْعَوْد».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے (صحبت کرے)اور پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے، تو درمیان میں وضو کرے“۔
امام حاکم کی روایت میں ہے: کیونکہ وضو کرنا دوبارہ جماع کرنے کے لیے زیادہ باعث نشاط ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث سِيقَ لبيان الهدي النبوي فيمن أراد تكرار جماع أهله، حيث يقول عليه الصلاة والسلام: "إذا أَتَى أحَدُكُم أهله ثم أرَاد أن يَعود" أي: إذا جامع الرجل أهله، ثم رغِبَ أن يُعَاوِد الجماع مرَّة ثانية وثالثة.
والإرشاد النبوي تمثل في قوله عليه الصلاة والسلام: "فَلْيَتَوَضَّأْ بينهما وضُوءًا" أي: بعد الجماع الأول وقبل الثاني. والمراد بالوضوء هنا: الوضوء للصلاة؛ لأن الوضوء إذا أطلق فالأصل حَمله على الوضوء الشرعي، وقد جاء مصرحًا به عند ابن خزيمة والبيهقي، وفيه: " فتوضَّأ وضُوءك للصلاة"، وهذا الوضوء مستحب.
740;ہ حدیث اس شخص کی خاطر نبوی طریقہ بیان کرنے کے لیے لائی گئی ہے، جو اپنی بیوی سے دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے اور پھر دوبارہ صحبت کا ارادہ کرے“ یعنی ایک شخص اپنی بیوی سے صحبت کرنے کے بعد دوبارہ سہ بارہ کا ارادہ رکھتا ہو۔
”توان درمیان میں وضو کرے“ اس میں اس حکم کی رہنمائی ملتی ہے، یعنی پہلی بارصحبت کرنے کےبعد اور دوبارہ صحبت کرنے سے پہلے۔
اور یہاں وضو سےمراد نماز کے لیے وضو کی طرح وضو کرناہے؛ کیوں کہ وضو کا لفظ جب مطلق بولا جائے، تو اس سے مراد شرعی وضو ہی ہوتا ہے اور اس بات کی وضاحت صحیح ابن خزیمہ اور سنن بیہقی کی ایک روایت سے ہوتی ہے، جس میں اس بات کی صراحت ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر نماز کے لیے وضو کی طرح وضو کرو۔ یہ وضو مستحب ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10033

 
 
Hadith   1579   الحديث
الأهمية: من توضأ يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو أفضل


Tema:

جس نے جمعے کے دن وضو کیا، اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے اور جس نے غسل کیا، تو یہ افضل ہے

عن سمرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من توضَّأَ يوم الجُمعة فَبِهَا ونِعْمَتْ، ومن اغْتَسَل فهو أفْضَل».

سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے جمعے کے دن وضو کیا، اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے اور جس نے غسل کیا، تو یہ افضل ہے“۔

Esin Hadith Caption Urdu


"من توضَّأَ يوم الجُمعة" المراد به: الوضوء لصلاة الجمعة.
quot;فَبِهَا" أي أنه أخَذ بالسُّنة والرُّخصة، "ونِعْمَتْ" أي: نِعم ما فعل بأخذه بالسُّنة، فهذا ثَناء عليه.
quot;ومن اغْتَسَل فهو أفْضَل" يعني: من اغْتسل للجمعة مع الوضوء، فهو أفضل من الوضوء المُجرد عن الغُسل.
nbsp;وبهذا أخذ جمهور العلماء، ومنهم الأئمة الأربعة، ومن أدلتهم أيضًا حديث مسلم: (من توضأ فأحْسَن الوضوء، ثم أتَى الجُمعة فاسْتَمَع وأنْصَت غُفر له ما بين الجمعة إلى الجمعة وزيادة ثلاثة أيام)

Esin Hadith Caption Urdu


”من توضَّأَ يوم الجُمعة“ اس سے مراد نماز جمعے کے لیے وضو ہے۔ ”فَبِهَا“ یعنی اس نے سنت اور رخصت کو اختیار کیا۔ ”ونِعْمَتْ“ یعنی سنت کو اختیار کر کے اس نے اچھا کیا اور اس پر اس کی تحسین کی گئی ہے۔ ”ومن اغْتَسَل فهو أفْضَل“ یعنی جس نے وضو کے ساتھ ساتھ جمعے کے لیے غسل بھی کیا، وہ اس وضو سے افضل ہے، جو غسل سے خالی ہے۔ جمہور علماء اور ائمۂ اربعہ نے اسی سے استنباط کیا ہے اور ان کے دلائل میں سے ایک دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے: ”جو شخص اچھے طریقے سے وضو کرے، پھر جمعہ کے لیے چلے، خاموش رہے اور توجہ سے سنے تو ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک، نیز مزید تین دن کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں“۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10035

 
 
Hadith   1580   الحديث
الأهمية: الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم، وأن يستن، وأن يمس طيبا إن وجد


Tema:

جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل کرنا واجب ہے۔ نیز یہ کہ مسواک کرے اور اگر خوش بو میسر ہو تو لگائے۔

عن عمرو بن سليم الأنصاري قال: أشهد على أبي سعيد قال: أشهد على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «الغُسْل يوم الجمعة واجِب على كل مُحْتَلِمٍ، وأن يَسْتَنَّ، وأن يَمَسَّ طِيبًا إن وجَد».

عمرو بن سلیم انصاری کہتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل کرنا واجب ہے۔ نیز یہ کہ مسواک کرے اور اگر خوش بو میسر ہو تو لگائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول أبو سعيد الخدري -رضي الله عنه-:" أشهد على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-" أي أخبركم عن النبي -صلى الله عليه وسلم- خبراً أكيداً صادراً عن يقين وعلم قاطع، أنه -صلى الله عليه وسلم- قال: "الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم" أي: الغسل يوم الجمعة متأكد على كل ذكر بالغ من المسلمين مطلقاً، جامع أو لم يجامع، أجنب أو لم يجنب، ويخرجه من الوجوب حديث سمرة بن جندب -رضي الله عنه- مرفوعا: "من توضأ يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو أفضل"، أي: من اكتفى يوم الجمعة بالوضوء فقد أخذ بالرخصة، وأجزأه الوضوء، ونعمت الرخصة، ومن اغتسل، فالغسل أفضل؛ لأنه سنة مستحبة.
قوله: "وأن يستن" أي: وأن يستاك، من الاستنان وهو الاستياك.
وأما قوله: "وأن يمس طيباً إن وجد" فيعني: وأن يتطّيب بأي رائحة عطرية، والجملتان معطوفتان على الجملة الأولى.
575;بو سعید خدری فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یعنی میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے ایک یقینی اور علم قطعی پر مشتمل خبر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل کرنا واجب ہے یعنی جمعہ کے دن مطلق طور پر ہر بالغ مسلمان مرد پر غسل واجب ہے؛ چاہے اس نے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو، جنبی ہو یا نہ ہو۔ جب کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے جمعے کے دن وضو کیا، اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے اور جس نے غسل کیا، تو یہ افضل ہے“ یعنی جس نے جمعے کے دن وضو پر اکتفا کیا، اس نے رخصت کو اختیار کیا اور اس کے لیے وضو کافی ہے اور یہ رخصت بھی سنت ہے۔ البتہ اگر کوئی غسل کرے، تو یہ افضل ہے؛ کیوں کہ یہ پسندیدہ سنت ہے۔
آپ نے فرمایا: ”وأن يَسْتَنَّ“ یعنی مسواک کرے۔ یہ 'استنان' سے ہے، جس کے معنی ہیں مسواک کرنا۔
آپ نے فرمایا: ”وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إنْ وجَد“ یعنی کوئی بھی خوشبو دار شے میسر ہونے پر استعمال کرے۔ دونوں جملوں کا عطف پہلے جملے پر ہوا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10036

 
 
Hadith   1581   الحديث
الأهمية: أن ثمامة الحنفي أسر، فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يغدو إليه، فيقول: ما عندك يا ثمامة؟ فيقول: إن تقتل تقتل ذا دم، وإن تمن تمن على شاكر، وإن تُرِد المال نُعْطِ منه ما شئت


Tema:

جب ثمامہ الحنفی کو قیدی بنایا گیا تو صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ (گھر سے نکل کر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: ثمامہ! تمہارے پاس کیا (خبر) ہے؟ اس نے جواب دیا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر مال چاہتے ہیں تو طلب کیجئے، آپ جو چاہتے ہیں، آپ کو دیا جائے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، أن ثُمَامَة الحَنَفِي أُسِر، فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يَغْدُو إليه، فيقول: «ما عندك يا ثُمَامَة؟»، فيقول: إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم، وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر، وإن تُرِدَّ المال نُعْطِ منه ما شِئْتَ. وكان أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتْل هذا؟ فمرَّ عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- يومًا، فأسْلَم، فحَلَّه، وبَعث به إلى حَائِط أبِي طلْحَة، فأَمَرَه أن يغتسل فاغَتَسَل، وصلَّى ركعتين، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «لقد حَسُن إسلام أخِيكُم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ثمامہ حنفی کو قیدی بنایا گیا تو صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ (گھر سے نکل کر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: ثمامہ! تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیں تو ہم منہ مانگا دیں گے۔ صحابۂ کرام کی خواہش تھی کہ فدیہ لے لیں، وہ کہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ ایک آپ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو ثمامہ نے اسلام قبول کرلیا۔آپ ﷺ نے اُن کی بیڑیاں کھول دیں اور انھیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہاں جاکر غسل کرلیں، انھوں نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لَقَدْ حَسُنَ إسْلَامُ أخِيكُم“ بے شک تمہارے بھائی کا اسلام بہت اچھا رہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- عن ثُمَامَة -رضي الله عنه- أنه أُسِر، ورُبط في إحدى سواري المسجد، كما في بعض روايات الحديث،  فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يَغْدُو إليه بعد أن أُسِر، كان يأتي إليه ويزوره، وكرر ذلك ثلاثة أيام -كما في الروايات الأخرى-، وفي كل زيارة يسأله: "ما عندك يا ثُمَامَة؟" أي: ماذا تَظن أنِّي فاعل بِك؟ "فيقول: إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم" أي: هناك من يطالب بدمه ويثأر له، "وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر"، وفي رواية في الصحيحين: "وإن تُنْعِم تُنْعِم على شاكر"، والمعنى : إن تُنْعم عليَّ بالعَفو، فإن العَفو من شِيَم الكِرام، ولن يَضيع معروفك عندي؛ لأنك أنْعَمْتَ على كريم يحفظ الجميل، ولا يَنْسَى المعروف أبدًا.  
"وإن تُرِد المال" يعني: وإن كُنت تريد المال مقابل إطلاق سراحي، "نُعْطِ منه ما شِئْتَ" أي: لك ما طلبت.
 "وكان أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتِل هذا؟ "يعني: أن الصحابة -رضي الله عنهم- كانوا يُحبون أن يأخذوا الفِدْية، سواء كانت الفِدْيَة على مال مقابل إطلاقِه أو إطلاق أسِير من المسلمين مقابل أسِير من الكفار؛ لأن المال أو مُبادلة أسِير مسلم بكافر أفضل وفيه نفع للمسلمين، أما قتله فإنه أقَلُّ نفعا من الفداء.
"فمرَّ عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- يوما، فأسْلَم، فحَلَّه"، وهذا في المرة الأخيرة التي جاء فيها النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ثَمامة -رضي الله عنه- وسأله عن حاله كالعادة : "ما عندك يا ثمامة؟" بادر بالإسلام -رضي الله عنه-، فأطلقه -صلى الله عليه وسلم-، وفي رواية في الصحيحين: أمَر بإطلاقه.
"وبَعَث به إلى حَائِط أبِي طلْحَة": يعنى بعد أن أسْلم أرسله النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى بستان لأبي طلحة، كان فيه ماء ونخل، كما في رواية  أخرى: "فانْطَلق إلى نَخْل قَريب من المسجد".
"فأَمَرَه أن يغتسل فاغتسل، وصلى ركعتين" أي: بعد أن أسْلَم أمره -صلى الله عليه وسلم- أن يغتسل، فاغتسل؛ امتثالا لأمره -صلى الله عليه وسلم- وصلَّى ركعتين، بعد أن تَطهَّر.
والمشروع له الغسل لهذا الحديث، وأيضا لما رواه أحمد والترمذي "أنَّ قيس بن عاصم لما أسلم أمره النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أنْ يغتسل"، قال الشيخ الألباني: إسناده صحيح.
"فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لقد حَسُن إسلام أخِيكُم" بشَّر النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه بإسلام ثمامة -رضي الله عنه-، بل وبِحُسن إسلامه أيضاً، ولعله -رضي الله عنه- أظهر شيئا مما جَعل النبي -صلى الله عليه وسلم- يثني على تمسكه بالإسلام، ويحتمل أن يكون ذلك وحيًا من الله -تعالى- لنبيِّه -صلى الله عليه وسلم-.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے کہ جب ثمامہ کو قیدی بنا لیا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا جیسا کہ بعض روایات میں یہ موجود ہے۔رسول اللہ ﷺ اس کی قید کے بعد صبح کے وقت اس کے پاس ملاقات کے لیے آئے اور مسلسل تین دن تک آپ ﷺ اس کے پاس آتے رہے۔(جیسا کہ دیگر روایات میں موجود ہے) اور ہر ملاقات پر اس کو یہی پوچھتے رہے کہ ثمامہ تمہارا کیا حال ہے؟یعنی تو کیا سوچتا ہے کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟تو اس نے جواب دیا کہ ”إن تَقْتُل تَقْتُل ذَا دَم“ اگر آپ قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے اور اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔یعنی اس کی طرف سے خون کا مطالبہ کرنے والے بھی ہیں اور احسان کا بدلہ دینے والے بھی "وإن تَمُنَّ تَمُنَّ على شَاكِر" ۔صحیحین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ”وإن تُنْعِم تُنْعِم على شاكر“ یعنی اگر تو مجھ پر معافی کا احسان کرے گا تو معاف کرنا صاحب کرم لوگوں کا شیوا ہے اور تیری یہ نیکی ہم رائیگاں نہیں جانے دیں گے کیونکہ آپ اس شخص پر احسان کریں گے جو اس کی باکمال حفاظت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کی گئی نیکی کو کبھی بھولتا نہیں۔اور اگر تو مال چاہتا ہے یعنی اگر تو بے بہا مال چاہتا ہے تو ہم تجھے اتنا مال دیں گے یعنی جتنا تو چاہتا ہے۔ ”وَكَانَ أَصْحَابُ النَّبيِّ ﷺ يُحِبُّون الفِدَاءَ، ويقولون: ما نَصنع بقَتِل هذا؟“ صحابہ کرام یہی چاہتے تھے کہ اس سے فدیہ لے لیا جائے اس کو قتل کر کے کیا لیں گے؟یعنی صحابہ یہ چاہتے تھے کہ اس سے فدیہ لیا جائے چاہے تو اس کی حیثیت کے مطابق مال لے لیا جائے یا کفار کے قیدی کے بدلے مسلمان قیدی چھڑا لیے جائیں کیونکہ مال یا مسلم قیدیوں کی رہائی مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند اور بہتر ہے ۔اگر اسے قتل کر دیں گے تو اس میں فدیہ کی نسبت فائدہ کم ہے۔ایک دن رسول اللہ ﷺ اس کے پاس سے گزرے ،اس کو سلام کیا اور اسے آزاد کر دیا اور یہ رسول اللہ ﷺ کا آخری مرتبہ کا آنا تھا جس میں آپ ﷺ ثمامہ کے پاس آ کر یہ پوچھتے تھے کہ ’ثمامہ تیرا کیا حال ہے؟‘اس نے اسلام قبول کر لیا اور آپ ﷺ نے اسے آزاد کر دیا۔صحیحین کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اس کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا اور اس کو ابو طلحہ کے باغ کی طرف بھیجا۔یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے س کو ابو طلحہ کے باغ کی طرف بھیجا جس میں پانی اور کھجوریں تھیں۔جیساکہ بعض دوسری روایات میں ہے کہ اس کو مسجد کے قریب کھجور کی طرف بھیجا،اس کو حکم دیا کہ غسل کرے ،اس نے غسل کیا اور دو رکعتیں پڑھیں یعنی قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ غسل کرے اور اس نے آپ کے حکم کی تعمیل میں غسل کیا اور پاک ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کیں۔اس حدیث کے مطابق یہ اس کے لیے مشروع غسل تھا جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے کہ :قیس بن عاصم نے جب اسلام قبول کیا تو نبی کریمﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ غسل کرے۔علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے: لقد حَسُن إسلام أخِيكُم فرما کر ثمامہ کے قبول اسلام کی خوشخبری صحابہ کرام کو دی بلکہ بہترین اسلام کی۔ نبی کریم ﷺ کا اس کے اسلام کی تعریف کرنا اس لیے تھا تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے۔ اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمﷺ کی طرف وحی تھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10037

 
 
Hadith   1582   الحديث
الأهمية: إن ماء الرجل غليظ أبيض، وماء المرأة رقيق أصفر، فمن أيهما علا، أو سبق، يكون منه الشبه


Tema:

مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے ، ان دونوں میں سے جس (کے حصے) کو غلبہ مل جائے یا (نئی تشکیل میں) سبقت لے جائے تو اسی سے (بچے کی) مشابہت ہوتی ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه-: أن أم سُلَيم حدَّثَت أنَّها سألت نَبِي الله -صلى الله عليه وسلم- عن المرأة تَرى في مَنَامِها ما يَرى الرَّجل، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا رَأَت ذلك المرأة فَلْتَغْتَسِل» فقالت أم سُلَيْم: واسْتَحْيَيْتُ من ذلك، قالت: وهل يَكون هذا؟ فقال نَبِي الله -صلى الله عليه وسلم-: «نعم، فمِن أين يَكُون الشَّبَه؟ إنَّ ماء الرَّجُل غَليِظ أبْيَض، وماء المرأة رقِيق أصْفَر، فَمِنْ أَيِّهِمَا عَلَا، أو سَبَقَ، يَكُونُ مِنْه الشَّبَهُ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے (انھیں) بتایا کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا جو نیند میں وہی چیز دیکھتی ہے جو مرد دیکھتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب عورت یہ چیز دیکھے تو غسل کرے“۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اس بات پر شرما گئی۔ (پھر) آپ بولیں :کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہاں، (ورنہ) پھر مشابہت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ مرد کا پانی (منی) گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے، ان دونوں میں سے جو بھی غالب ہوجائے یا سبقت لے جائے تو اسی سے (بچے کی) مشابہت ہوتی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن أُمِّهِ أُمِّ سُلَيم -رضي الله عنها- أنَّها سألت نَبِي الله -صلى الله عليه وسلم- عن المرأة تَرى في مَنَامِها ما يَرى الرَّجل" بمعنى تَرى المرأة في منامها ما يراه الرَّجُل من الجِماع.
فأجابها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا رَأَت ذلك المرأة فَلْتَغْتَسِل» يعني: إذا رأت المرأة في منامها ما يراه الرَّجل، فلتغتسل، والمراد به: إذا أنزلت الماء كما في البخاري، "قال: نعم إذا رأت الماء" أي: المَني، تراه بعد الاستيقاظ، أما إذا رأت احتلاما في النوم ولم تَر مَنِيًّا، فلا غُسْل عليها؛ لأن الحكم مُعلق بالإنزال، ولهذا لما سئل النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الرَّجُل يَجد البَلل ولا يَذْكُر احْتِلَاما، قال: "يغتسل" وعن الرَّجُل يَرى أن قد احْتَلم، ولا يَجِد البَلل، فقال: لا غُسْل عليه. فقالت أم سُليم: المرأة تَرى ذلك عليها الغسل؟ قال: نعم، إنما النَّساء شقائق الرجال" رواه أحمد وأبو داود.  

فلما سمعت أم سُلَيْم الإجابة من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اسْتَحْيَت من ذلك، وقالت: "وهل يَكون هذا؟".
أي: هل يمكن أن تَحتلم المرأة وتنزل، كما هو الحال في الرَّجل؟
فقال نَبِي الله -صلى الله عليه وسلم-: "نعم": أي: يحصل من المرأة احتلام وإنزال، كما هو يحصل من الرَّجل ولا فرق.
ثم قال لها معللا ذلك: "فمِن أين يُكون الشَّبَه؟" وفي رواية أخرى في الصحيحين: "فَبِم يَشْبِهُها ولدُها" أي: فمن أين يكون شَبَه الولد بأُمه، إذا لم تُنزل مَنِيًّا؟!
ثم بَيَّن لها النبي -صلى الله عليه وسلم- صِفَة مَنِي الرَّجُل وصِفَة مَنِي المرأة بقوله: "إن ماء الرَّجُل غَليِظ أبْيَض، وماء المرأة رقِيق أصْفَر" وهذا الوصف باعتبار الغالب وحال السلامة؛ لأن مَنِي الرَّجُل قد يَصير رقيقا بسبب المرض، ومُحْمَرًّا بكثرة الجِماع، وقد يَبْيَض مَنِي المرأة لقُوَتها.
وقد ذَكر العلماء -رحمهم الله- أن لمَنِي الرَّجل علامات أخرى يُعرف بها، وهي: تدفقه عند خروجه دَفْقَة بعد دفْقَة، وقد أشار القرآن إلى ذلك، قال -تعالى-: (من ماء دافق)، ويكون خروجه بشهوة وتلذذ، وإذا خرج اسْتَعْقَبَ خروجه فُتورا ورائحة كرائحة طلع النَّخل، ورائحة الطَّلع قريبة من رائحة العَجين.

وأما مَنِي المرأة فقالوا فيه: إن له علامتين يُعرف بواحدة منهما إحداهما: أن رائحته كرائحة مني الرَّجل، والثانية: التلذذ بخروجه، وفتور شهوتها عَقِب خروجه. 
ولا يشترط في إثبات كونه مَنِيا اجتماع جميع الصفات السابقة، بل يكفي الحكم عليه كونه منيًا من خلال صفة واحدة، واذا لم يوجد شيء منها لم يحكم بكونه منِيًّا، وغلب على الظن كونه ليس منِيًّا.
"فَمِنْ أَيِّهِمَا عَلَا، أو سَبَقَ، يَكُونُ مِنْه الشَّبَهُ" وفى الرواية الأخرى: "غَلَب" أي من ماء الرجل أو ماء المرأة؛

فَمن غَلَب ماؤه ماء الآخر؛ بسبب الكثرة والقوة كان الشَّبَه له، أو سَبَق أحدهما الآخر في الإنزال كان الشَّبَه له.
وقال بعض العلماء: إن عَلَا بمعنى سَبَق، فإن سَبَق ماء الرَّجل كان الشَّبَه له وإن سَبَق ماء المرأة كان الشَّبَه له.
وذلك أن مني الرَّجل ومنِي المرأة يجتمعان في الرحم، فالمرأة تُنزل والرَّجل يُنزل ويجتمع ماؤهما، ومن اجتماعهما يخلق الجَنين؛ ولهذا قال -تعالى-: (إنا خلقنا الإنسان من نُطفة أمْشَاج) [الإنسان 1 ، 2] أي مُختلط من ماء الرجل وماء المرأة.

575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جو نیند میں وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) یعنی جیسے خواب میں مرد جماع کا منظر دیکھتا ہے اسی طرح عورت بھی اگر دیکھے تو؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ”إذا رَأَت ذلك المرأة فَلْتَغْتَسِل“ یعنی جب عورت وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو غسل کرے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اس کو انزال ہو جائے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے :فرمایا: ”قال: نعم إذا رأت الماء“ ہاں اگر وہ پانی دیکھے ۔یعنی نیند سے بیداری پر اگر منی دیکھے۔ اگر نیند میں احتلام دیکھے لیکن منی خارج نہ ہو تو اس پرغسل نہیں کیوں کہ یہ حکم انزال کے ساتھ معلق ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ سے ایسے شخص کےبارے میں سوال کیا گیا جو تری دیکھے لیکن اس کو احتلام یاد نہ ہو تو فرمایا:وہ غسل کرے۔ اورایسا شخص جو احتلام دیکھے لیکن تری نہ دیکھے تو اس کے بارے میں فرمایا کہ اس پر غسل نہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر عورت بھی یہ دیکھے تو اس پر غسل ہے؟ فرمایا :ہاں۔ بے شک عورتیں اصل خلقت وطبیعت میں مردوں کی ہم مثل ہیں۔ اس کو احمد و ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس طرح جواب سنا تو اس سے بڑی شرم محسوس کی اور کہنے لگیں : ”کیا ایسے بھی ہوتا ہے؟“ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ جیسے مرد کو احتلام ہوتا ہے ویسے ہی عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "نعم" (ہاں) یعنی عورت کو بھی احتلام اور انزال ویسے ہی ہوتا ہے جیسے مرد کو ہوتا ہے، اس میں کوئی فرق نہیں۔
پھر آپ ﷺ نے اس کی توجیہہ بیان کی کہ: ”پھر یہ مشابہت کیسے پیدا ہوتی ہے؟“ صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے: ”تو بچے کی مشابہت پھر کیسے ہوتی ہے“ یعنی بچہ ماں کے مشابہ کیسے ہوتا ہے اگر اس کی منی خارج نہیں ہوتی ؟
پھر نبی کریمﷺ نے مرد اور عورت کی منی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ”مرد کا پانی (منی) گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے“ یہ وصف باعتبارِ غالب کے لحاظ سے ہے یا پھر اس کی اصل حالت کے اعتبار سے۔ کیوں کہ بسااوقات آدمی کی منی بیماری کی وجہ سے پتلی ہو جاتی ہے اور کثرتِ جماع کی وجہ سے سرخ اور عورت کی طاقت کی وجہ سے منی سفید ہو جاتی ہے۔
علمائے کرام نے مرد کی منی کو پہچاننے کی دیگر علاماتیں بھی بیان کی ہیں جیسا کہ اس کے خروج کے وقت اچھال پے اچھال پایا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ﴾ ”اچھلتے پانی سے“ یہ شہوت اور لذت کے ساتھ خارج ہوتا ہے اور جب یہ خارج ہوتا ہے تو جوش بھی ختم ہو جاتا ہے اور اس کی بوکھجور کے گودے کی طرح ہوتی ہے۔
جب کہ عورت کی منی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے پہچان سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی بو بھی آدمی کی منی کی بو کی طرح ہوتی ہے اور دوسری اس کے خارج ہونے سے لذت محسوس ہوتی ہے اور خروج کے بعد شہوت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
منی کے ثبوت کے لیے سابقہ تمام شروط کا اکٹھا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے اتنا ہی کافی کہ کسی ایک علامت سے اس کے منی ہونے کا حکم ثابت ہو جائے۔ اور اگر ان علامات میں سےکوئی علامت موجود نہ ہو تو اس کا حکم منی کا نہیں ہوگا اور ظن غالب بھی یہی ہے کہ وہ منی نہیں ہو گی۔ ان میں سے کوئی ایک بلند ہو جائے یا سبقت لے جائے تو اس سے مشابہت پیدا ہوتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: ”غالب آجائے“ یعنی مرد یا عورت کے پانی میں سے کسی کی منی کا غالب آنا۔ جس کی منی دوسرے پر زیادتی یا طاقت کے اعتبار سے غالب ہو جائے تو مشابہت بھی اسی سے ہوگی۔ یا ان دونوں میں سے جو انزال میں سبقت لے گیا اس سے مشابہت ہو گی۔
بعض علماء نے یہ کہا : ’علا ‘بمعنی ’سبق ‘ہے ۔اگر مرد کی منی سبقت لے جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہو گا اور اگر عورت کی منی غالب ہو جائے تو اس کے مشابہ ہو گا کیوں کہ مرد اورعورت دونوں کا پانی رحم میں اکٹھا ہوجاتا ہے۔ عورت کو انزال ہوتا ہے اور مرد کو بھی انزال ہوتا ہے اوران دونوں کا پانی جمع ہوتا ہے اور ان کے اجتماع سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ﴾ ”بے شک ہم نے انسان کو مِلے جُلے نطفہ سے پیدا کیا“ (سورہ انسان: 2) یعنی مرد اور عورت کے اختلاط والے پانی (منی) سے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10039

 
 
Hadith   1583   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، أرأيت الرجل يعجل عن امرأته ولم يمن، ماذا عليه؟ قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إنما الماء من الماء


Tema:

اے اللہ کے رسول ! آپ کی اس مرد کے بارے میں کیا رائے ہے جو بیوی سے جلدی ہٹا دیا جائے ، حالانکہ اس نے منی خارج نہ کی ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانی، صرف پانی سے ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: خَرَجْتُ مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يوم الاثنين إلى قباء إِذَا كُنَّا فِي بَنِي سَالِمٍ وقف رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على باب عِتْبَانَ فَصَرَخَ بِهِ، فَخَرَجَ يَجُرُّ إزاره، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَعْجَلْنَا الرَّجُلَ» فقال عتبان: يا رسول الله، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يُعْجَلُ عن امرأته ولم يُمْنِ، ماذا عليه؟ قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِنَّمَا المَاءُ مِنَ الماءِ».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دوشنبہ کے دن رسول اللہ ﷺ کےساتھ قباء گیا، جب ہم بنو سالم کے محلے میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ عتبان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر رک گیے اور اسے آواز دی تو وہ اپنا تہبند گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم نے اس آدمی کو جلدی میں ڈال دیا۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کی اس مرد کے بارے میں کیا رائے ہے جو بیوی سے جلدی ہٹا دیا جائے، حالانکہ اس نے منی خارج نہ کی ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانی پانی سے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- هذا أن الاغتسال إنما يكون من الإنزال، فالماء الأول المعروف، والثاني المني، والحديث دال بمفهوم الحصر على أنه لا غسل إلا من الإنزال، ولا غسل من مجاوزة الختان الختان، لكنه منسوخ، والغسل واجب من الجماع ولو لم يحصل إنزال؛ لحديث: (إذا التقى الختانان فقد وجب الغسل).
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ غسل کا تعلق انزال کے ساتھ ہے اور پہلے پانی سے مراد معروف پانی ہے جبکہ دوسرے پانی سے مراد منی ہے۔ اور حدیث بالحصر اس مفہوم پر دلالت کر رہی ہے کہ غسل صرف انزال کے ساتھ ہے ،شرمگاہ کا شرمگاہ سے ملنے پر غسل نہیں لیکن یہ حکم منسوخ ہے ۔جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے چاہے انزال نہ بھی ہو جیسا کہ حدیث میں ہے ”إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ“ کہ جب شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10040

 
 
Hadith   1584   الحديث
الأهمية: استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه


Tema:

پیشاب (کے چھینٹوں) سے بچو؛ کیوں کہ عموما قبر کا عذاب اسی وجہ سے ہوتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «اسْتَنْزِهوا من البول؛ فإنَّ عامَّة عذاب القبر منه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پیشاب (کے چھینٹوں) سے بچو؛ کیوں کہ عمومم قبر کا عذاب اسی وجہ سے ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين لنا النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أحد أسباب عذاب القبر، وهو الأكثر شيوعاً، ألا وهو عدم الاستنزاه والطهارة من البول.
575;س حدیث میں نبی ﷺ عذاب قبر کے اسباب میں سے ایک سبب کو ہمارے لیے بیان فرما رہے ہیں، جو کہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے، یعنی پیشاب سے نہ بچنا اور اس سے پاک صاف نہ رہنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام دارقطنی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10044

 
 
Hadith   1585   الحديث
الأهمية: نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يستنجى بروث أو عظم، وقال: إنهما لا تطهران


Tema:

نبی ﷺ نے گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ ان سے طہارت حاصل نہیں ہوتی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- أَنْ يُسْتَنْجَى بِرَوْثٍ أو عَظْمٍ، وقال: «إِنَّهُمَا لَا تُطَهِّرَان».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی ﷺ نے گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ ان سے طہارت حاصل نہیں ہوتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر راوية الإسلام أبو هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -عليه الصلاة والسلام- نهاهم في باب الاستنجاء، عن استعمال شيئين في قطع النجو، وهو الغائط الخارج من السبيل، وهما:
الروث والعظم، أما الروث فلنجاستها، أو لعلة إبقائها ليستفيد منها دواب الجن؛ لقوله -عليه الصلاة والسلام- كما عند الترمذي: "لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام؛ فإنها زاد إخوانكم من الجن".
وأما العظم فعلة النهي ملاسة العظم فلا يزيل النجاسة، وقيل علته أنه يمكن مصه أو مضغه عند الحاجة، وقيل لقوله -عليه الصلاة والسلام-: «إن العظم زاد إخوانكم من الجن» اهـ. يعني: وإنهم يجدون عليه من اللحم أوفر ما كان عليه، وقيل لأن العظم ربما يجرح.
ثم خُتِم الحديث بتوكيد علة النهي من استعمال الأرواث والعظام في الاستنجاء؛ وذلك لأنها تفوت المقصود من الاستنجاء، وهو تحصيل الطهارة؛ ولذلك قال -عليه الصلاة والسلام-: إنهما لا يطهران.
585;اوی اسلام ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو استنجا کے سلسلے میں دو چیزوں کو شرمگاہ سے نکلنے والی غلاظت کو صاف کرنے کے لیے استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ یہ دو چیزیں گوبر اور ہڈی ہیں۔ گوبر سے تو اس لیے منع فرمایا کیونکہ یہ نجس ہوتا ہے یا پھر اس لیے منع کیا گیا تا کہ جنات کے چوپائے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا جیسا کہ ترمذی میں ہے کہ: ”گوبر اور ہڈیوں سے استنجاء نہ کرو، یہ تمہارے ’جنّ‘ بھائیوں کی خوراک ہیں“، جب کہ ہڈی سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے جس کے بسبب یہ نجاست کو زائل نہیں کرتی۔ ایک اور قول کی رو سے اس کی علت یہ ہے کہ بوقتِ ضرورت اسے چوسا اور چبایا جا سکتا ہے۔ ایک اور قول یہ ہے کہ یہ ممانعت اس لیے ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہڈی تمہارے جنّ بھائیوں کی خوراک ہے“ یعنی وہ اس پر پہلے سے بھی زیادہ گوشت پاتے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممانعت اس لیے ہے کیوں کہ ہڈی زخم کر سکتی ہے۔ پھر حدیث کا اختتام استنجا کے لیے گوبر اور ہڈیوں کے استعمال کی ممانعت کی علت کے بیان کے ساتھ کیا گیا کہ ان سے استنجا کا مقصد پورا نہیں ہوتا جو کہ طہارت کا حصول ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان سے طہارت حاصل نہیں ہوتی“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام دارقطنی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10045

 
 
Hadith   1586   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا خرج من الغائط قال: غفرانك


Tema:

نبی ﷺ جب قضاے حاجت کی جگہ سے باہر آتے، تو فرماتے: ”غُفْرَانَكَ“ (اے اللہ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں)

عن عائشة قالت : كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا خرج من الغائط قال: "غُفْرَانَكَ".
وعن ابن مسعود قال: «أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- الغائط فأمرني أن آتيه بثلاثة أحجار، فوجدت حجرين، والتمست الثالث فلم أجده، فأخذت رَوْثَةً فأتيته بها، فأخذ الحجرين وألقى الروثة». وقال: «هذا رِكْسٌ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب قضاے حاجت کی جگہ سے باہر آتے، تو فرماتے: ”غُفْرَانَكَ“ (اے اللہ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں)۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ قضاے حاجت کے لیےتشریف لائے۔ آپ ‎   ﷺ نے مجھے تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ مجھے دو پتھر تو مل گئے۔ لیکن تلاس کے باوجود تیسرا نہ مل سکا۔ میں نے اس کی جگہ خشک گوبر کا ایک ٹکڑا اٹھا لیا اور انہیں لے کر آپ ﷺ کے پاس آ گیا۔ آپ ﷺ نے دو پتھر تو لے لیے، لیکن گوبر کو پھینک دیا اور فرمایا: ”یہ ناپاک ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث عائشة -رضي الله عنها- كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: "غفرانك" عند الخروج من مكان قضاء الحاجة، يعني يطلب من الله المغفرة؛ ولعل الحكمة والله أعلم أنه لما تخفف من الأذى الحسي ناسب أن يطلب التخفيف من الأذى المعنوي.
وفي حديث ابن مسعود -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أتى الغائط فأمره أن يأتيه بثلاثة أحجار فوجد حجرين ولم يجد ثالثا، فأخذ رجيع الدابة، وجاء بها ظنًّا منه أنها تجزئ -رضي الله عنه- فأخذ النبي -صلى الله عليه وسلم- الحجرين وتنظف بهما، وألقى الروثة، وبين السبب، وهو أنها نجسة لا يصح تنظيف محل الخارج بها، وهذا في كل روث؛ لأنَّها إن كانت من غير مأكول اللحم كما في الحديث فهي رِجْسٌ نجس، وإن كانت من مأكول اللحم فهي زاد بهائم الجن.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی ﷺ جب قضاے حاجت کی جگہ سے باہر تشریف لاتے تو آپ ﷺ فرماتے: ”غفرانك“ یعنی آپ ﷺ اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ قضاے حاجت کی وجہ سے جب انسان کی حسی گندگی میں کمی ہوتی ہے تو مناسب یہ ہے کہ وہ معنوی گندگی میں کمی کی بھی دعا کرے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی ﷺ قضاے حاجت کے لیے تشریف لے گۓ تو آپ ﷺ نے انہیں تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ انہیں دو پتھر تو مل گئے لیکن تیسرا نہ ملا۔ اس پر انہوں نے چوپائے کے خشک گوبر کواٹھا لیا اور یہ سوچ کر آپ ﷺ کے پاس آ گئے کہ پتھر کی بجائے اس سے کام چل جائے گا۔ نبی ﷺ نے دو پتھر لے لیے، ان سے طہارت حاصل کی، گوبر کو پھینک دیا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ناپاک ہے اور اس سے پاخانے کی جگہ کو صاف کرنا درست نہیں ہے۔ یہ حکم ہر قسم کے گوبر کے بارے ہے۔ کیوںکہ اگر گوبر ان جانوروں کا ہو، جن کا گوشت کھانا جائز نہیں، جیسا کہ اس حدیث میں ہے، تو یہ ناپاک ہے اور اگر ان جانوروں کا ہو، جن کا گوشت حلال ہے، تو اس صورت میں یہ جنات کے چوپایوں کی خوراک ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10046

 
 
Hadith   1587   الحديث
الأهمية: لقد نهانا أن نستقبل القبلة لغائط، أو بول، أو أن نستنجي باليمين، أو أن نستنجي بأقل من ثلاثة أحجار، أو أن نستنجي برجيع أو بعظم


Tema:

ہمیں آپ ﷺ نے بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے روکا ہے۔ اسی طرح داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے، تین سے کم پتھروں کے استعمال کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے بھی روکا ہے۔

عن سلمان -رضي الله عنه-، قال: قيل له: قد عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُم -صلى الله عليه وسلم- كل شيء حتى الخِرَاءَةَ، قال: فقال: أجَل «لقد نَهَانا أن نَستقبل القِبْلَة لِغَائِطٍ، أو بَول، أو أن نَسْتَنْجِيَ باليمين، أو أن نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ من ثلاثة أحْجَار، أو أن نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَو بِعَظْمٍ».

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا کہ تمھارے نبی تمھیں ہر چیز سکھاتے ہیں، حتیٰ کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں۔ ہمیں آپ ﷺ نے بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے روکا ہے، اسی طرح داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے، تین سے کم پتھروں کے استعمال کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے بھی روکا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: "عن سلمان، قال: قيل له: قد عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُم -صلى الله عليه وسلم- كل شيء حتى الخِرَاءَةَ" يعني: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- علَّم أصحابه آداب قضاء الحاجة من أول ما يَدخل محل قضاء الحاجة إلى أن يخرج منه، ومن ذلك: استقبال القبلة واستدبارها حال قضاء الحاجة، والنهي عن الاستنجاء باليمين، وبالرَّجِيع والعَظام.
"قال: أجَل: لقد نَهَانا أن نَستقبل القِبْلَة لِغَائِطٍ، أو بَول" يعني: نعم، نهانا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نستقبل القبلة حال التَّغَوط أو التَّبول، فما دام أنه يقضي حاجته ببول أو غائط، فإنه لا يستقبل القبلة ولا يستدبرها؛ لأنَّها قِبْلة المسلمين في صلاتهم وغيرها من العبادات، وهي أشرف الجهات، فلا بد من تكريمها وتعظيمها قال -تعالى-: (وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ) [الحج: 30].
"أو أن نَسْتَنْجِيَ باليَمِين" أيضا: مما نهاهم عنه الاستنجاء باليمين؛ لأن اليَد اليُمنى تستعمل في الأمور الطيبة المحترمة المحمودة، وأما الأمور التي فيها امتهان كإزالة الخارج من السَّبيلين، فإنه يكون باليَد اليُسرى لا اليَد اليُمنى. وفي الحديث الآخر: (ولا يَتَمَسح من الخلاء بيمنيه).
"أو أن نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ من ثلاثة أحْجَار" أيضا: مما نهاهم عنه الاستنجاء بأقل من ثلاثة أحْجَار ولو حصل الإنقاء بأقل منها؛ لأن الغالب أن دون الثلاث لا يحصل بها الإنقاء، ويقيَّد هذا النَّهي إذا لم يَرد إتباع الحجارة الماء، أما إذا أراد إتباعها بالماء، فلا بأس من الاقتصار على أقلَّ من ثلاثة أحجار؛ لأنَّ القَصد هُنا هو تخفيف النَّجاسة عن المكان فقط، لا التطهُّرُ الكامل.
"أو أن نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ" أيضا: مما نهاهم عنه الاستنجاء بالرَّجيع؛ لأنه عَلف دَوَاب الجِن، كما جاء مصرحا به في صحيح مسلم أن وفداً من الجِن جاءوا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فسألوه الزاد فقال: (لكم كل عَظْم ذُكِر اسم الله عليه، يقع في أيديكم أوفَر ما يكون لحْمَا، وكل بَعَرة علف لِدَوابِّكم). 
"أَو بِعَظْمٍ" أيضا: مما نهاهم عنه الاستنجاء بالعظام؛ لأنها طعام الجن، للحديث السابق حيث قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (فلا تستنجوا بهما فإنهما طعام إخوانكم).
فإذا: السنة جاءت مبينة أن الحِكمة في ذلك عدم تقذيرها وإفسادها على من هي طعام لهم؛ لأنها إذا استعملت فيها النجاسة، فقد أفسد عليهم طعامهم.
581;دیث کا مفہوم:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: ”قد عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُم ﷺ كل شيء حتى الخِرَاءَةَ“ یعنی آپ ﷺ اپنے صحابہ کو بیت الخلا میں داخل ہونے سے لے کر باہر نکلنے تک، قضاے حاجت کے آداب سکھلاتے ہیں۔ اسی میں سے قضاے حاجت کے وقت قبلے کی طرف رُخ اور پیٹھ کرنا اور داہنے ہاتھ، گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کرنا ہے۔
ہاں! ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے منع فرمایا کہ قضاے حاجت کے وقت قبلے کی طرف رُخ بھی نہیں کرنا چاہیے اور پیٹھ بھی۔ اس لیے کہ یہ نماز وغیرہ میں مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہ سب سے محترم جہت ہے، اس کی عزت اور تکریم ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّه﴾ ”جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔“ (الحج:30).
داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس لیے کہ داہنا ہاتھ پاکیزہ، محترم اور اچھے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ جن کاموں میں ذلت اور توہین کا پہلو ہوتا ہے، جیسے پاخانہ صاف کرنا تو یہ بائیں ہاتھ کے کام ہیں۔ دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: ”ولا يَتَمَسح من الخلاء بيمنيه“ (اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرے)۔
تین سے کم پتھر استنجا میں استعمال کرنا بھی ممنوع ہے، اگرچہ صفائی اس سے کم سے بھی حاصل ہو جائے۔ اس لیے کہ اکثر تین سے کم پتھروں سے پاکی حاصل نہیں ہوتی، تین پتھروں کی قید اس وقت ہے جب پتھروں کے بعد پانی استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ اگر پتھروں کے بعد پانی کا استعمال بھی ہو، تو تین پتھروں سے کم پر بھی اکتفا کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس وقت یہاں پتھروں سے مقصود نجاست کا کم کرنا ہے، مکمل طہارت حاصل کرنا نہیں۔
گوبر سے استنجا کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس لیے کہ یہ جنات کے جانوروں کی غذا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ جنات کا ایک وفد آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے کھانے کا مطالبہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمھارے لیے ہر وہ ہڈی ہے، جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور وہ تمھارے ہاتھوں میں آجائے، اس پر پہلے سے زیادہ گوشت آجاتا ہے اور ہر مینگنی یا لید تمھارے جانوروں کا چارہ ہے“۔
ہڈیوں سے استنجا کرنا بھی شریعت میں ممنوع ہے۔ اس لیے کہ یہ جنات کی خوراک ہے۔ جیسے کہ گزشتہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان سے استنجا نہ کیا کرو؛ کیوںکہ یہ تمھارے جن بھائیوں کی خوراک ہے“۔
اس طرح، حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ ہڈیوں سے استنجا نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ انھیں گندہ نہ کیا جاۓ؛تاکہ انھیں بطور غذا استعمال کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔ کیوں کہ جب انھیں نجاست صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاۓ گا، ان کی غذا خراب ہو جاۓ گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10048

 
 
Hadith   1588   الحديث
الأهمية: اتقوا اللعانين قالوا: وما اللعانان يا رسول الله؟ قال: الذي يتخلى في طريق الناس، أو في ظلهم


Tema:

دو چیزیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں ان سے بچو۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کے راستوں یا ان کی سایہ دار جگہوں پر قضائے حاجت کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «اتقوا اللَّعَّانَيْن» قالوا: وما اللَّعَّانَانِ يا رسول الله؟ قال: «الذي يَتَخَلَّى في طريق الناس، أو في ظِلِّهم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو چیزیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں ان سے بچو۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کے راستوں یا ان کی سایہ دار جگہوں پر قضائے حاجت کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اجتنبوا الأمرين الجَالِبَين لِلَّعْنِ من الناس، الدَّاعيين إليه؛ وذلك أن من فعلهما شُتم ولُعِن في العادة؛ يعني أن عادة الناس أن تَلْعَنه، فهو سَبب في اللَّعن، فلما كان كذلك أُضيف اللَّعن إليهما، وهما التخلَّي في طريق النَّاس أو ظِلِّهم، وهذا مثل قوله -تعالى-: (وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ). [الأنعام:108] أي: أنتم تتسببون في أنهم يَسُبُّون الله؛ لأنكم سببتم آلهتهم، وأيضا: نهيه -صلى الله عليه وسلم- عن سَبِّ الرَّجل أبَاه وأُمَّه:  قالوا: وهل يَسُب الرَّجُل والِدَيه؟ قال: نعم، يَسُبُّ الرَّجُلُ أبَا الرَّجُل، فَيَسُبُّ أبَاهُ، ويَسُبُّ أَمَّهُ) فيكون كأنه هو الذي سَبَّ أبَاه؛ لأنه تسبب في ذلك.
وقوله: "الذي يتخلَّى في طريق النَّاس"، أي: يقضي حاجته ببول أو غائط في الأماكن التي يَسلكها الناس ويطرقونها، ولا شك في حُرمته، سواء كان ذلك في حَضَر أو سَفر؛ لأن في ذلك أذية لهم، وقد قال -تعالى-: (وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا) [الأحزاب : 58] أما إذا كانت الطريق غير مسلوكة، فلا حرج في قضاء حاجَته فيها؛ لانتفاء العلة.
وقوله: "أو في ظِلِّهم" أي: يقضي حاجته في الظِّل الذي يتخذه الناس مقيلاً ومناخاً ينزلونه ويقعدون فيه، أما الظِل في الأماكن الخالية التي لا يأتيها الناس ولا يقصدونها، فلا حرج من قضاء الحاجة تحته؛ لانتفاء العلة؛ ولأن النبي -صلى الله عليه وسلم- قَعد تحت حائش النَّخل لحاجته وله ظِل.
583;و ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن کی وجہ سے لوگ لعنت کرتے ہیں بایں طور کہ جو ان کو کرتا ہے اسے عموماً بُرا بھلا کہا جاتا ہے اور اس پر لعنت کی جاتی ہے یعنی عموماً لوگ انھیں کرنے والے کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وجہ سے لعنت کو ان دو باتوں کی طرف منسوب کیا گیا۔ ان سے مراد لوگوں کی گزر گاہوں اور ان کی سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ: ﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ”اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیوں کہ پھر وه براهِ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے“۔ (الانعام: 108)
یعنی تم اس بات کا سبب بنو گے کہ وہ اللہ کو برا بھلا کہیں کیوں کہ تم نے ان کے معبودوں کو برا بھلا کہا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے باپ یا ماں کو گالی دے۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ: کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے!؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ آدمی کسی اور شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے۔ جواباً وہ بھی اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔ چنانچہ یہ ایسے ہی ہو گیا کہ گویا اس نے اپنے ہی باپ کو گالی دی کیوں کہ وہی اس کا سبب بنا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ایسی جگہوں پر پیشاب پاخانہ کرتا ہے جہاں لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور جہاں ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ اس عمل کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں، چاہے ایسا حالت اقامت میں ہو یا دورانِ سفر، کیوں کہ ایسا کرنے سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ ”اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں“۔ (الاحزاب: 58)
تاہم اگر راستہ غیر آباد ہو تو اس پر قضائے حاجت میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اب حرمت کی علت باقی نہیں رہی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: کسی ایسی سایہ دار جگہ پر قضائے حاجت کرے جہاں لوگ دوپہر کو قیام کرتے ہوں اور پڑاؤ ڈالتے ہوں۔ تاہم ویران علاقوں میں موجود جگہیں جہاں لوگوں کا آنا جانا نہیں ہوتا، ان میں قضائے حاجت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ یہاں بھی علت نہیں پائی جاتی اس لیے کہ آپ ﷺ خود کھجوروں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے جو سایہ دار تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10051

 
 
Hadith   1589   الحديث
الأهمية: اذهبْ بِنَعْلَيَّ هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مُسْتَيْقِنًا بها قلبه، فَبَشِّرْهُ بالجنّة


Tema:

ميرے یہ دونوں نعلین (بطور نشانی) کے لے جاؤ اورجو شخص تمہیں باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ ’’لا إله إلا الله‘‘ کہتا ہوا ملے اسے جنت کی بشارت دے دو.

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كنَّا قعودا حول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ومعنا أبو بكر وعمر -رضي الله عنهما- في نَفَرٍ، فقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من بين أَظْهُرِنَا فأبطأ علينا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دوننا وفزعنا فقمنا، فكنت أول من فزع، فخرجت أبتغي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حتى أتيت حائطا للأنصار لبني النجار، فدُرْتُ به هل أجد له بابا؟ فلم أجدْ! فإذا رَبِيعٌ يدخل في جوف حائط من بئر خارجه - والربيع: الجدول الصغير - فَاحْتَفَرْتُ، فدخلت على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أبو هريرة؟» فقلت: نعم، يا رسول الله، قال: «ما شأنك؟» قلت: كنت بين أَظْهُرِنَا فقمت فأبطأت علينا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دوننا، ففَزِعْنَا، فكنت أول من فزع، فأتيت هذا الحائط، فَاحْتَفَزْتُ كما يَحْتَفِزُ الثعلب، وهؤلاء الناس ورائي. فقال: «يا أبا هريرة» وأعطاني نعليهِ، فقال: «اذهبْ بِنَعْلَيَّ هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مُسْتَيْقِنًا بها قلبه، فَبَشِّرْهُ بالجنّة... » وذكر الحديث بطوله.

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، اچانک رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے اور دیر تک ہمارے پاس تشریف نہ لائے۔ تو ،ہم ڈر گئے کہ ہماری غیر موجودگی میں آپ کو قتل نہ کر دیا گیا ہو۔ اس لیے ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور میں سب سے پہلے گھبرانے والا تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا، یہاں تک کہ میں انصار کے قبیلے بنو نجار کے باغ تک پہنچ گیا۔ میں اسکے چاروں طرف گھوما کہ مجھے کوئی دروازہ مل جائے مگر مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک چھوٹا سا نالہ دکھائی دیا جو ایک بیرونی کنویں سے باغ کے اندر جارہا تھا۔ - ربیع چھوٹے سے نالے کو کہتے ہیں -، میں اسی نالہ میں سمٹ کر داخل ہوا اور آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :”ابوہریرہ؟“ میں نے عرض کیا :جی ہاں، اے اللہ کے رسول ﷺ! فرمايا: ”کيا بات ہے؟“ ميں نے عرض کيا کہ آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر چلے گئے اور ہمارے پاس واپس آنے میں آپ کو دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں ہماری غیر موجودگی میں آپ کو قتل نہ کر دیا گیا ہو۔ اس لیے ہم گھبرا اٹھے۔ گھبرانے والوں میں سب سے پہلا آدمی میں تھا۔ اس لیے (تلاش کرتے ہوئے) میں اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا :”اے ابو ہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) لے کے جاؤ اور اس باغ کے باہر جو بھی ملے، جو دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی گواہی ديتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔ اور پوری حديث ذکر کی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- جالسًا في أصحابه في نفرٍ منهم، ومعه أبو بكر وعمر، فقام النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم أبطأ عليهم، فخشوا أن يكون أحد من الناس اقتطعه دونهم أي أصابه بضرر؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- مطلوب من جهة المنافقين، ومن جهة غيرهم من أعداء الدين، فقام الصحابة -رضي الله عنهم- فزعين، فكان أول من فزع أبو هريرة -رضي الله عنه- حتى أتى حائطًا لبني النجار، فجعل يطوف به لعله يجد بابًا مفتوحًا فلم يجد، ولكنه وجد فتحة صغيرة في الجدار يدخل منها الماء، فضم جسمه حتى دخل فوجد النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال له: "أبو هريرة؟" قال: نعم. فأعطاه نعليه -عليه الصلاة والسلام- أمارةً وعلامةً أنه صادق، وقال له: "اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنًا به قلبه، فبشره بالجنة" لأن الذي يقول هذه الكلمة مستيقنا بها قلبه لابد أن يقوم بأوامر الله، ويجتنب نواهي الله؛ لأن معناها: لا معبود بحق إلا الله، وإذا كان هذا معنى هذه الكلمة العظيمة فإنه لابد أن يعبد الله -عز وجل- وحده لا شريك له؛ أما من قالها بلسانه ولم يوقن بها قلبه فإنها لا تنفعه.
606;بی ﷺ اپنے بعض اصحاب کے ساتھ تشريف فرما تھے۔مجلس ميں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ اچانک رسول اللہ ﷺ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور دیر تک تشریف نہ لائے۔ صحابۂ کرام کو خوف لاحق ہوا کہ کہيں ان کی غیر موجودگی میں کسی نے آپ کو پکڑ نہ لیا ہو اور آپ کو تکليف پہونچی ہو۔کيونکہ آپ ﷺ منافقوں اور دوسرے اسلام کے دشمنوں کی آنکھوں ميں کھٹکتے تھے۔ اس لیے صحابہ کرام گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے، سب سے پہلے ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ ہوئی، (وہ رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلے) یہاں تک کہ بنو نجار کے باغ تک پہنچ گئے اور اس کا چکر لگانے لگے تاکہ کوئی دروازہ کھلا ہوا پاجائيں مگر انھیں نہیں ملا۔ ليکن انہوں نے پانی کے داخل ہونے کے لیے دیوار میں ايک چھوٹا سا راستہ کھلا ہوا پايا تو اپنے جسم کو سميٹ کر اندر داخل ہونے ميں کامياب ہو گئے۔ چنانچہ نبی ﷺ کو وہاں پر موجود پايا۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا”ابو ہريرہ؟“، انہوں نے عرض کيا جی ہاں، تو آپ ﷺ نے انھیں اپنی جوتياں ديں جو اس بات کی علامت اور نشانی کے طور پر تھی کہ ابو ہريرہ جو خبر دينے والے ہیں وہ اس ميں سچے ہیں، اور فرمایا ”میری یہ دونوں جوتیاں لےجاؤ اور اس باغ کے باہر جو بھی ملے، جو دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی گواہی ديتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ کيونکہ سچے دل سے اس کلمے کی گواہی دينے والا ضرور اللہ کے احکام کی بجا آوری کرے گا اور اللہ کی منع کردہ چيزوں سے بچے گا۔ اس لیے کہ اس کا معننی ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں۔ جب اس عظيم الشان کلمے کا يہ معنیٰ ہے تو ہر صورت ميں وہ شخص اللہ عزوجل ہی کی عبادت کرے گا جس کا کوئی شريک وساجھی نہيں۔ ليکن وہ شخص جو صرف زبان سے اس کلمے کی ادائيگی کرتا ہے اور سچے دل سے اس پر يقين نہيں رکھتا، تو اسے اس سے کوئی فائدہ نہيں ملے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10094

 
 
Hadith   1590   الحديث
الأهمية: للهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا


Tema:

اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: قَدِمَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- بِسَبْيٍ فإذا امرأةٌ مِنَ السَّبْيِ تَسْعَى، إِذْ وَجَدَتْ صَبِيَّا في السَّبْيِ أَخَذَتْهُ فَأَلْزَقَتْهُ بِبَطْنِهَا فَأَرْضَعَتْهُ، فقال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «أَتَرَوْنَ هَذِهِ المرأةَ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ؟» قلنا: لا واللهِ. فقال: «للهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جو دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اسے اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟۔ ہم نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم نہیں۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جيء لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- بأسرى، فإذا امرأة تسعى تبحث عن ولدها، إذ وجدت صبيًّا في السبي فأخذته وألصقته ببطنها رحمة له وأرضعته؛ فعلم النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه أن رحمة الله أعظم من رحمة الأم لولدها.
585;سول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ اتنے میں ایک عورت اپنے بچے کو تلاش کرتے ہوئے دوڑتی ہوئی آئی۔ اسے قیدیوں میں ایک بچہ ملا جسے اس نے اٹھا کر شفقت بھرے انداز میں اپنے پیٹ سےلگا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی۔اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کو بتایا کہ اللہ کی رحمت ماں کی اپنے بچہ کے لیے رحمت سے کہیں زیادہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10095

 
 
Hadith   1591   الحديث
الأهمية: إذا أَحَبَّ اللهُ -تعالى- العَبْدَ، نَادَى جِبْرِيلَ: إنَّ اللهَ تعالى يُحِبُّ فلانا، فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي في أَهْلِ السَّمَاءِ: إنَّ اللهَ يحِبُّ فلانا، فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ في الأرضِ


Tema:

اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہےتو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فُلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان والوں میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فُلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ اس سے آسمان والے بھی محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا أَحَبَّ اللهُ -تعالى- العَبْدَ، نَادَى جِبْرِيلَ: إنَّ اللهَ تعالى يُحِبُّ فلاناً، فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي في أَهْلِ السَّمَاءِ: إنَّ اللهَ يحِبُّ فلاناً، فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ في الأرضِ».
وفي رواية: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إنَّ اللهَ -تعالى- إذا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ، فقال: إني أُحِبُّ فلاناً فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثم ينادي في السَّمَاءِ، فيقول: إنَّ اللهَ يُحِبُّ فلاناً فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ له القَبُولُ في الأرضِ، وإذا أَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ، فيقول: إني أُبْغِضُ فلاناً فَأَبْغِضْهُ. فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ ينادي في أَهْلِ السَّمَاءِ: إنَّ اللهَ يُبْغِضُ فلاناً فَأَبْغِضُوهُ، ثُمَّ تُوضَعُ له البَغْضَاءُ في الأرضِ».

ابو ہریرہ ریض اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبرائیل علیہ السلام کو پکار کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں اس لیے تو بھی اس سے محبت رکھ۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اہلِ آسمان میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے اس لیے تم سب بھی اس سے محبت کرو چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور زمین میں اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہےتو جبرائیل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فُلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ اس سے آسمان والے بھی محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت لکھ دی جاتی ہے اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر کہتا ہے کہ میں فُلاں سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو۔چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے نفرت کرتے ہیں، پھر آسمان والوں میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فلاں سے نفرت کرتا ہے اس لیے تم لوگ بھی اس سے نفرت کرو۔ پھر زمین میں اس کے لیے نفرت لکھ دی جاتی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث في بيان محبة الله -سبحانه وتعالى-، وأن الله تعالى إذا أحب شخصًا نادى جبريل، وجبريل أشرف الملائكة، كما أن محمدًا -صلى الله عليه وسلم- أشرف البشر، فيقول -تعالى-: إني أحب فلانًا فأحبه. فيحبه جبريل، ثم ينادي في أهل السماء: إن الله يحب فلانًا فأحبوه. فيحبه أهل السماء، ثم يوضع له القبول في الأرض فيحبه أهل الأرض، وهذا أيضاً من علامات محبة الله، أن يوضع للإنسان القبول في الأرض، بأن يكون مقبولاً لدى الناس، محبوباً إليهم، فإن هذا من علامات محبة الله تعالى للعبد.
وإذا أبغض الله أحدًا نادى جبريل: إني أبغض فلانًا فأبغضه.  فيبغضه جبريل، والبغض شدة الكره، ثم ينادي جبريل في أهل السماء: إن الله يبغض فلانًا فأبغضوه، فيبغضه أهل السماء، ثم يوضع له البغضاء في الأرض ؛ فيبغضه أهل الأرض.
575;س حدیث میں اللہ تعالی کی محبت کا بیان ہے اور اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام جو ویسے ہی اشرف الملائکہ ہیں جیسے محمد ﷺ اشرف البشر ہیں کو پکار کر کہتا ہے کہ میں فُلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور آسمان میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فُلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ اس سے آسمان والے بھی محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ چنانچہ زمین والے اس سے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ اللہ کی محبت کی علامات میں سے ہے کہ بندے کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جائے بایں طور کہ وہ لوگوں میں مقبول اور ہر دلعزیز ہوجائے۔ یہ اللہ کی اپنے بندے کے ساتھ محبت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
جب اللہ تعالی کسی شخص سے نفرت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو پکار کر کہتا ہے کہ میں فُلاں سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے نفرت کرتے ہیں، پھر آسمان والوں میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فلاں سے نفرت کرتا ہے اس لیے تم لوگ بھی اس سے نفرت کرو۔ پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ چنانچہ زمین والے سب اس سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10096

 
 
Hadith   1592   الحديث
الأهمية: مَا مِنْ عَبْدٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إلا اللهُ، وأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورسولُهُ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إلَّا حَرَّمَهُ اللهُ على النَّارِ


Tema:

جو بندہ اپنے دل کی سچائی سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد (ﷺ)اس کے بندے اور رسول ہیں، اس پر اللہ جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ومعاذ رديفه على الرَّحْلِ، قال: «يا معاذ» قال: لبَّيْكَ يا رسول الله وسَعْدَيْكَ، قال: «يا معاذ» قال: لَبَّيْكَ يا رسول الله وسَعْدَيْكَ، قال: «يا معاذ» قال: لبَّيْكَ يا رسول اللهِ وسَعْدَيْكَ، ثلاثا، قال: «ما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله، وأَنَّ محمدا عبده ورسوله صِدْقًا من قلبه إلَّا حرمه الله على النار» قال: يا رسول الله، أفلا أُخْبِر بها الناس فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قال: «إِذًا يتكلوا» فأخبر بها معاذ عند موته تَأَثُّمًا.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے، جب کہ معاذ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، تین مرتبہ ارشاد فرمایا: اے معاذ!، انھوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ!، انھوں نے جواب دیا: حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اے معاذ!، انھوں نے جواب دیا: حاضر ہوں اے اللہ کے رسول!۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو بندہ اپنے دل کی سچائی سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد (ﷺ)اس کے بندے اور رسول ہیں، اس پر اللہ جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے“۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں تا کہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تب وہ اسی پر بھروسا کر لیں گے“۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت (کتمانِ علم کے) گناہ سے بچنے کے لیے اس حدیث کو بیان فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان معاذ -رضي الله عنه- راكبًا وراء النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: يا معاذ؛ فقال: لبيك يا رسول وسعديك  أي إجابة بعد إجابة، وطاعة لك، (وسعديك) ساعدت طاعتك مساعدة لك بعد مساعدة ، ثم قال: يا معاذ؛ فقال: لبيك يا رسول وسعديك، ثم قال: يا معاذ؛ فقال: لبيك يا رسول وسعديك، قال: ما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمد عبده ورسوله، صادقا من قلبه لا يقولها بلسانه فقط؛ إلا حرمه الله على الخلود في النار؛ فقال معاذ: يا رسول الله ألا أخبر الناس لأدخل السرور عليهم؛ فقال صلى الله عليه وسلم: لا لئلا يعتمدوا على ذلك ويتركوا العمل، فأخبر بها معاذ في آخر حياته مخافة من إثم كتمان العلم.
605;عاذ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پیچھے سوار تھے۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اے معاذ! انہوں نے جواب دیا: لبیک یا رسول اللہ و سعدیک یعنی میں بار بار حاضر ہوں اور آپ کے لیے میری اطاعت ہے۔ ”وسَعْدَيْكَ“ یعنی میں مسلسل آپ کا فرماں بردار ہوں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اے معاذ! انہوں نے جواب دیا: لبیک یا رسول اللہ و سعدیک۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اے معاذ!۔ تو انہوں نے جواب دیا: لبیک یا رسول اللہ و سعدیک۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا: جو بندہ اپنے دل کی سچائی سے نہ کہ صرف اپنی زبان سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں تو اللہ تعالی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو اس پر حرام کر دیتا ہے۔ معاذ رضی اللہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں تا کہ وہ خوش ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ نہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ اسی پر بھروسا کر لیں اور عمل کرنا چھوڑ بیٹھیں۔ معاذ رضی اللہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کتمانِ علم کے گناہ کے ڈر سے اس حدیث کو بیان فرمایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10098

 
 
Hadith   1593   الحديث
الأهمية: لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ في الجنةِ في شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ كَانتْ تُؤْذِي المسلمينَ


Tema:

میں نے ایک آدمی کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا،اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان میں تھا اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ في الجنةِ في شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ كَانتْ تُؤْذِي المسلمينَ».
وفي رواية: «مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَةٍ عَلَى ظَهْرِ طَرِيقٍ، فقالَ: واللهِ لأُنَحِّيَنَّ هَذَا عَنِ المسلمينَ لَا يُؤْذِيهِمْ، فَأُدْخِلَ الجَنَّةَ».
وفي رواية: «بينما رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ فَشَكَرَ اللهُ لهُ، فَغَفَرَ لهُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے ایک آدمی کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا، اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان میں تھا اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”ایک آدمی ایک درخت کی ٹہنی کے پاس سےگزرا جو راستے کے درمیان میں تھی۔ اس نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! میں اسے مسلمانوں سے دور کر دوں گا (تاکہ) انھیں تکلیف نہ پہنچائے۔ چنانچہ اسے (اس عمل کی وجہ سے) جنت میں داخل کردیا گیا“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”ایک دفعہ ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا، اس نے راستے پرایک کانٹے دار شاخ دیکھی،اس نے اسے پیچھے کردیا۔ اللہ نےا س کے اس عمل کی قدر فرمائی اوراس کو بخش دیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذه الأحاديث المذكورة ظاهرة في فضل إزالة الأذى عن الطريق، سواء كان الأذى شجرة تؤذي، أو غصن شوك، أو حجرا يعثر به، أو قذرا، أو جيفة وغير ذلك.
وإماطة الأذى عن الطريق من شعب الإيمان كما في الحديث الصحيح.
فأخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه رأى رجلاً يتردد ويتنعم في الجنة بسبب شجرة قطعها من ظهر الطريق، كان الناس يتأذون بها، قال النووي: أي يتنعم في الجنة بملاذها بسبب إزالة الشجرة من الطريق وإبعادها عنه
قال القاري: وفيه مبالغة على قتل المؤذي وإزالته بأي وجه يكون.اهـ
كما ينبه الحديث على فضيلة كل ما نفع المسلمين وأزال عنهم ضررا.
575;ن مذکورہ احادیث میں راستے میں پڑی تکلیف دہ شے کو ہٹانے کی فضیلت کا بیان ہے چاہے وہ تکلیف دہ شے کوئی درخت ہو یا پھر کوئی کانٹے دار ٹہنی یا کوئی ایسا پتھرہو جس سے ٹھوکر کھا کر گرا جا سکتا ہو یا گندگی ہو يا پھر کوئی مردار وغیرہ ہو۔
راستے سے تکلیف دہ چيز کو ہٹانا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کا ذکر ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ: آپﷺ نے ایک آدمی کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا، وہ جنت میں مزے کر رہا تھا، ایک درخت کے سبب جسے اس نے کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان میں تھا اور لوگ اس سے تکلیف محسوس کرتے تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: راستے سے درخت کو ہٹانے اور اسے دور کرنے کی وجہ سے وہ جنت کی نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
ملا علی القاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں کسی بھی طریقے سے نقصان دہ چیز کو ختم کرنے اور اس کا ازالہ کرنے میں مبالغہ کا پتہ چلتا ہے۔
اسی طرح یہ حدیث ہر اس چیز کی فضیلت سے باخبر کرتی ہے جو مسلمانوں کو نفع بخشے اور ان سے نقصان کو دور کرے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10099

 
 
Hadith   1594   الحديث
الأهمية: بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكْيَةٍ قد كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ إذ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَاسْتَقَتْ له بهِ فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لها بِهِ


Tema:

ایک کتا کنویں کی منڈیر کے گرد چکر لگا رہا تھا اور قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مر جائے کہ اسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے کنویں سے پانی نکال کر اسے پلا دیا۔ اسے اس کے اس عمل کی وجہ سے معاف کر دیا گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «بينما رجلٌ يمشي بطريقٍ اشتَدَّ عليه العَطَشُ، فوَجَدَ بِئْرًا فنزل فيها فَشَرِبَ، ثم خَرَجَ فإذا كَلْبٌ يَلْهَثُ يأكل الثَّرَى مِنَ العَطَشِ، فقال الرجلُ: لقد بَلَغَ هذا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلَ الذِي كان قَدْ بَلَغَ مِنِّي، فنَزَلَ البِئْرَ، فَمَلَأَ خُفَّهُ ماءً ثم أَمْسَكَهُ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ، فَسَقَى الكَلْبَ، فشَكَرَ اللهُ له، فَغَفَرَ لهُ» قالوا: يا رسول الله، إنَّ لَنَا في البَهَائِمِ أَجْرًا؟ فقال: «في كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ».
وفي رواية: «فشَكَرَ اللهُ له، فغَفَرَ له، فَأَدْخَلَهُ الجَنَّةَ».

وفي رواية: «بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكْيَةٍ قد كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ إذ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَاسْتَقَتْ له بهِ فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لها بِهِ».

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ایک آدمی راستے میں چلا جا رہا تھا کہ اسے پیاس نے ستایا۔ اسے ایک کنواں دکھائی دیا اور تو وہ اس میں اترا اور پانی پیا ۔ جب باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتاہا نپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے کیونکہ اسے شدید پیاس لگی ہوئی تھی‘ اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی اس طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے پیاس لگی تھی۔ لہٰذا وہ پھر کنویں میں اترا، اپنے موزے کو پانی سے بھرا، اسے اپنے منہ سے تھاما اورباہر آ کر کتے کو پانی پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی نیکی کا صلہ دیا اور اسے بخش دیا۔ صحابہ کرام ۔ رضی اللہ عنہم۔ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا جانوروں کی وجہ سے بھی ہمیں اجرو ثواب ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہرتر کلیجے (زندہ چیز) کی وجہ سے اجرو ثواب ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: ”اللہ تعالی نے (اس کے اس فعل کی قدر دانی میں) اسے صلہ دیتے ہوئے بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: ”ایک کتا کنویں کی منڈیر کے گرد چکر لگا رہا تھا اور قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مر جائے کہ اسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے کنویں سے پانی نکال کر اسے پلا دیا۔ اسے اس کے اس عمل کی وجہ سے معاف کردیا گیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بينا رجل يمشي في الطريق مسافرًا، أصابه العطش، فنزل بئرًا فشرب منها، وانتهى عطشه، فلما خرج وجد كلباً يأكل الطين المبتل الرطب بسبب العطش، من أجل أن يمص ما فيه من الماء، من شدة عطشه، فقال الرجل: والله لقد أصاب الكلب من العطش ما أصابني، ثم نزل البئر وملأ خفه ماء وأمسكه بفيه، وجعل يصعد بيديه، حتى صعد من البئر، فسقى الكلب، فلما سقى الكلب شكر الله له ذلك العمل وغفر له، وأدخله الجنة بسببه.
ولَمَّا حَدَّثَ -صلى الله عليه وسلم- الصحابةَ بهذا الحديث، سألوا النبي -عليه الصلاة والسلام- قالوا: يا رسول الله، إن لنا في البهائم أجرًا؟ يعني: تكون سببًا لنا في الأجر إذا سقيناها، قال: (في كل كبدٍ رطبةٍ أجر)؛ أي: في إروائها، فالكبد الرطبة تحتاج إلى الماء؛ لأنه لولا الماء ليبست وهلك الحيوان.
وفي رواية: أن امرأة زانية من بني إسرائيل رأت كلباً يدور حول بئر عطشان، لكن لا يمكن أن يصل إلى الماء؛ فنزعت خفها فملأته ماء وسقت الكلب فغفر الله لها بسبب ذلك العمل.
575;یک شخص سفر کرتا ہوا راستے میں جا رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا اور یوں اس کی پیاس ختم ہوئی۔ جب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے گیلی مٹی کو کھا رہا ہے تاکہ اس میں موجود پانی کو چوس سکے۔ اس پر اس آدمی نے کہا کہ: اللہ کی قسم! اس کتے کو بھی ویسے ہی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی۔ وہ کنویں میں داخل ہوا، اپنا موزہ پانی سے بھرا، اسے اپنے منہ سے تھاما اور اپنے ہاتھوں کی مدد سے اوپر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ کنویں سے باہر آکر اس نے کتے کو پانی پلا دیا۔ جب وہ کتے کو پانی پلا چکا تو اللہ نے اس کے اس فعل کو پسند فرمایا اور اس کے بدلے میں اس کی بخشش کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل کر دیا۔
نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو جب یہ حدیث سنائی تو انھوں نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ: اے اللہ کے رسول! کیا چوپایوں کے ساتھ نیکی کرنے میں بھی ہمیں ثواب ملتا ہے؟۔ یعنی کیا یہ بھی اجر و ثواب کا سبب ہیں؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر تر کلیجے کے ساتھ نیکی کرنے میں اجر ہے یعنی ہر تر کلیجے کو سیراب کرنے میں اجر ملتا ہے۔ کلیجے کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ اگر پانی نہ ہوتا تو یہ سوکھ جاتا اور جاندار ہلاک ہو جاتا۔
اور ایک روایت میں ہے: بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کے مارے کنویں کے گرد گھوم رہا تھا، لیکن اس کی پانی تک رسائی ممکن نہیں ہوئی، چنانچہ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اسے پانی سے بھرا اور کتے کو پلا دیا لہٰذا اس عمل کے بدلے اللہ نے اس کی مغفرت کردی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10100

 
 
Hadith   1595   الحديث
الأهمية: المسلمُ من سَلِمَ المسلمونُ من لسانهِ ويَدِهِ، والمهاجرُ من هَجَرَ ما نهى اللهُ عنه


Tema:

کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے مسلمان محفوظ رہیں اور حقیقی مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمرو وجابر بن عبد الله -رضي الله عنهم- مرفوعاً: «المسلمُ من سَلِمَ المسلمونُ من لسانهِ ويَدِهِ، والمهاجرُ من هَجَرَ ما نهى اللهُ عنهُ».
وعن أبي موسى -رضي الله عنه- قال: قلتُ: يا رسولَ اللهِ أَيُّ المسلمينَ أَفْضَلُ؟ قال: «مَنْ سَلِمَ المسلمونُ من لِسانِهِ وَيَدِهِ».

Esin Hadith Text


عبد اللہ بن عمرو اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے مسلمان محفوظ رہیں اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کون سا مسلمان سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے مسلمان محفوظ رہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المسلم من سلم المسلمون من لسانه فلا يسبهم، ولا يلعنهم، ولا يغتابهم، ولا يسعى بينهم بأي نوع من أنواع الشر والفساد، وسلموا من يده فلا يعتدي عليهم، ولا يأخذ أموالهم بغير حق، وما أشبه ذلك، والمهاجر من ترك ما حرم الله -تعالى-.
705;امل مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں یعنی نہ وہ انہیں گالیاں دے، نہ ان پر لعنت بھیجے، نہ ان کی غیبت کرے اور نہ ہی ان کے مابین کسی قسم کا شر و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اسی طرح وہ اس کے ہاتھ سے بھی محفوظ رہیں بایں طور کہ وہ ان پر کوئی ظلم نہ کرے، ناحق اُن سے ان کے مال نہ لے اور اس طرح کی کوئی بھی زیادتی ان کے ساتھ نہ کرے۔ اور حقیقی مہاجر وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کی حرام کردہ (امور) کو چھوڑ دے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10101

 
 
Hadith   1596   الحديث
الأهمية: كِخْ كِخْ ارْمِ بها، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّا لا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ


Tema:

تھو، تھو! اسے پھینک دو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے؟

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: أخذ الحسن بن علي -رضي الله عنهما- تمرة من تمر الصدقة فجعلها في فيه، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كَخْ كَخْ ارْمِ بها، أما علمت أنَّا لا نأكل الصدقة!؟».
وفي رواية: «أنَّا لا تَحِلُّ لنا الصدقة».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں ڈال لی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمايا :”تھو، تھو! اسے پھینک دو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقے کی چيز نہیں کھاتے؟“ ایک اور روایت میں ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا): ”ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخذ الحسن بن علي -رضي الله عنهما- تمرة مما جمع من زكاة التمر فوضعها في فمه، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "كخ كخ" يعني أنها لا تصلح لك، ثم أمره أن يخرجها من فمه، وقال: "إننا لا تحل لنا الصدقة".
فالصدقة لا تحل لآل محمد؛ وذلك لأنهم أشرف الناس، والصدقات والزكوات أوساخ الناس، ولا يناسب لأشراف الناس أن يأخذوا أوساخ الناس، كما قال النبي -صلى الله عليه وسلم- لعمه العباس بن عبد المطلب -رضي الله عنه-: "إنا آل محمد لا تحل لنا الصدقة؛ إنما هي أوساخ الناس".
581;سن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکوۃ کی جمع شدہ کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر اپنے منہ میں ڈال لی۔ تو نبى ﷺ نے فرمايا: ”تھو، تھو!“ یعنی یہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں اسے منہ سے نکالنے کا حکم دیا اور فرمایا: ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
چنانچہ آل محمد کے لیے صدقہ لينا حلال نہیں ہے کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے معزز ہیں۔ جب کہ صدقات اور زکات لوگوں کے میل کچیل ہیں اور معزز لوگوں کے لیے میل کچیل کو لینا مناسب نہیں ہے۔ جیسا کہ نبى ﷺ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ہم آل محمد کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے، یہ تو محض لوگوں کا میل کچیل ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 10102

 
 
Hadith   1597   الحديث
الأهمية: أنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أَمَرَ بَلَعْقِ الأَصَابِعِ والصَّحْفَةِ، وقال: إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيِّهَا البرَكَةُ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے (کھانے کے بعد) انگلياں اور پليٹ چاٹ لينے کا حکم ديا، اور فرمايا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان ميں سے کس (کھانے ) میں برکت ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-، أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أمر بَلَعْقِ الأصابع والصَّحْفَةِ، وقال: «إنَّكم لا تدرون في أَيِّهَا البركة».
وفي رواية: «إذا وقعت لُقْمَةُ أحدكم فليأخذها، فَلْيُمِطْ ما كان بها من أذى، وليأكلها ولا يدعها للشيطان، ولا يمسح يده بالمِنْدِيلِ حتى يَلْعَقَ أصابعه فإنه لا يدري في أَيِّ طعامه البركة».
وفي رواية: «إن الشيطان يحضر أحدكم عند كل شيء من شأنه، حتى يحضره عند طعامه، فإذا سقطت من أحدكم اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ ما كان بها من أذى، فليأكلها ولا يدعها للشيطان».

جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (کھانے کے بعد) انگلياں اور پليٹ چاٹ لينے کا حکم ديا، اور فرمايا: ”تم نہیں جانتے کہ ان ميں سے کس (کھانے) میں برکت ہے“۔
ایک دوسرى روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر ج