Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   1815   الحديث
الأهمية: لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد، ذهبًا ما بلغ مد أحدهم، ولا نصيفه


Tema:

تم لوگ میرے صحابہ کو گالی مت دو، کیوں کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے، تب بھی ان میں کسی کے ایک مد یا آدھا مد خرچ کرنے کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکتا

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «لا تَسُبُّوا أصحابي، فلو أنَّ أحدَكم أَنْفَقَ مثل أُحُد، ذهَبًا ما بَلَغَ مُدَّ أحدهم، ولا نَصِيفَه».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "تم لوگ میرے صحابہ کو گالی مت دو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے، تب بھی ان میں سے کسی کے ایک مد یا آدھا مد خرچ کرنے کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکتا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم عن سب أي أحد من الصحابة، وأخبر أنه لو أنفق أَحد الناس مثل جبل أُحد ذهبًا ما بلغ ثوابه في ذلك ثواب نفقة أحد الصحابة بملأ كفيه طعامًا ولا نصف ذلك؛ وذلك لأن الصحابة كلهم أفضل من جميع من جاء بعدهم، وسبب تفضيل نفقتهم أنها كانت في وقت الضرورة وضيق الحال، ولأن إنفاقهم كان في نصرته -صلى الله عليه وسلم- وحمايته وذلك معدوم بعده وكذا جهادهم وسائر طاعتهم، مع ما كان في أنفسهم من الشفقة والتودد والخشوع والتواضع والإيثار والجهاد في الله حق جهاده، وفضيلة الصحبة ولو لحظة لا يوازيها عمل، والفضائل لا تؤخذ بقياس، ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی صحابی کو گالی دینے سے منع کیا ہے اور بتایا ہے کہ کوئی دوسرا انسان اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے، تو اس سے اسے اتنا ثواب نہیں ملے گا، جتنا کسی صحابی کو لپ بھر یا اس کا آدھا کھانے کا سامان خرچ کرنے پر ملتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ اپنے بعد آنے والے تمام لوگوں سے افضل تھے۔ ان کے ذریعے خرچ کیے ہوئے مال کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ضرورت اور تنگ حالی کے وقت خرچ کیا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں خرچ کیا تھا اور یہ ایسی سعادت ہے جو بعد کے لوگوں کو حاصل نہيں ہو سکتی۔ یہی حال ان کے جہاد اور سارے نیکی کے کاموں کا ہے۔ ساتھ ہی ان کے اندر شفقت، مودت، خشوع، تواضع، ایثار اور اللہ کے راستے میں کماحقہ جہاد کا بھر پور جذبہ موجود تھا۔ نیز انھیں آپ کی صحبت، چاہے ایک لحظے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، کی سعادت حاصل تھی، جس کی برابری انسان کا کوئی عمل نہيں کر سکتا اور فضیلتیں قیاس سے حاصل نہيں کی جا سکتیں۔ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11000

 
 
Hadith   1816   الحديث
الأهمية: لن يدخل النار رجل شهد بدرًا والحديبية


Tema:

ایسا شخص ہرگز جہنم میں داخل نہيں ہو سکتا، جو بدر اور حدیبیہ میں شریک رہا ہو

عن جابر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لن يدخلَ النارَ رجلٌ شَهِد بدرًا والحُدَيْبِيَة».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : "ایسا شخص ہرگز جہنم میں داخل نہيں ہو سکتا، جو بدر اور حدیبیہ میں شریک رہا ہو"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث أنه لن يدخل النار رجل حضر غزوة بدر وصلح الحديبية مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهذه بشارة عظيمة لهم -رضي الله عنهم-.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر اور حدیبیہ میں شریک رہا ہو، کبھی جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ ان دونوں موقعوں پر حاضر رہنے والے صحابہ کے لیے بہت بڑی خرش خبری ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11148

 
 
Hadith   1817   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر للأنصار، ولأبناء الأنصار، وأبناء أبناء الأنصار


Tema:

اے اللہ! انصار کو بخش دے، انصار کے بیٹوں کو بخش دے اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کو بخش دے

عن زيد بن أرقم -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اللهمَّ اغفِرْ للأنصار، ولأبناءِ الأنصار، وأبناءِ أبناءِ الأنصار».

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "اے اللہ! انصار کو بخش دے، انصار کے بیٹوں کو بخش دے اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کو بخش دے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث دعا النبي -صلى الله عليه وسلم- للأنصار بأن يغفر الله -تعالى- لهم ولأبنائهم ولأبناء أبنائهم, وفي ذلك فضيلة ظاهرة لهم ولذريتهم من بعدهم.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کے لیے یہ دعا کی ہے کہ اللہ ان کو بخش دے، ان کے بیٹوں کو بخش دے اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں کو بخش دے۔ دراصل اس حدیث میں انصار اور ان کے بعد ان کی آنے والی نسلوں کی ایک نمایاں فضیلت موجود ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11152

 
 
Hadith   1818   الحديث
الأهمية: سألت عبد الله بن عمرو عن أشد ما صنع المشركون برسول الله -صلى الله عليه وسلم-، قال: رأيت عقبة بن أبي معيط، جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يصلي، فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقًا شديدًا


Tema:

میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا، جو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کی تھی، تو انھوں نے بتلایا: میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈالی اور اس کے ذریعے آپ ﷺ کا گلا سختی سے گھونٹنے لگا۔

عن عُروة بن الزبير، قال: سألتُ عبد الله بن عمرو عن أشد ما صنع المشركون برسول الله -صلى الله عليه وسلم-، قال: رأيتُ عُقبة بن أبي مُعَيْط جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يصلي، فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقًا شديدًا، فجاء أبو بكر حتى دفعه عنه، فقال: {أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ} [غافر: 28].

عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا، جو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کی تھی، تو انھوں نے بتلایا: میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈالی اور اس کے ذریعے آپ ﷺ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اس بدبخت کو ہٹایا اور کہا: ﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ﴾ ”کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمھارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سےکھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟“۔ (سورہ غافر: 28)

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل عروةُ بن الزبير بن العوام -رحمه الله- عبدَ الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن أشد ما صنع المشركون برسول الله -صلى الله عليه وسلم- من العذاب والأذى، فأخبره أنه رأى عقبة بن أبي معيط جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يصلي في حجر الكعبة، فوضع ثوبه أو ثوب النبي -صلى الله عليه وسلم- في عنقه الشريف، فخنقه به خنقًا شديدًا، فجاء أبو بكر فدفع بيده عقبة عن النبي  -صلى الله عليه وسلم- وهو يبكي ويقول: {أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم} [غافر: 28].
هذا أشد ما رآه عبد الله -رضي الله عنه-، وقد وقف عروة على ما هو أشد منه إذ أخبر عروة أن عائشة -رضي الله عنها- زوج النبي -صلى الله عليه وسلم- حدثته أنها قالت للنبي -صلى الله عليه وسلم-: هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد، قال: "لقد لقيت من قومك ما لقيت، وكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة، إذ عرضت نفسي على ابن عبد ياليل بن عبد كُلال، فلم يجبني إلى ما أردت، فانطلقت وأنا مهموم على وجهي، فلم أستفق إلا وأنا بقرن الثعالب فرفعت رأسي، فإذا أنا بسحابة قد أظلتني، فنظرت فإذا فيها جبريل، فناداني فقال: إن الله قد سمع قول قومك لك، وما ردوا عليك، وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم، فناداني ملك الجبال فسلم علي، ثم قال: يا محمد، فقال: ذلك فيما شئت، إن شئت أن أطبق عليهم الأخشبين؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده، لا يشرك به شيئًا" متفق عليه.
593;روہ بن زبیر بن عوام رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ ﷺکی تکلیف واذیت کے متعلق مشرکینِ مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے بتلایا کہ انھوں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ اس وقت حجر کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اس بدبخت نےاپنا کپڑا یا خود نبی ﷺ کا کپڑا آپ کی گردن مبارک میں ڈال دیا اور اسے بڑی سختی کے ساتھ گھونٹا۔ اتنے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور عقبہ کو نبی ﷺ سے دفع کیا۔ وہ روتے ہوئےکہہ رہے تھے: ”کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمھارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیلیں بھی لے کرآیا ہے؟“ ( سورہ غافر:
۲۸)
یہ سب سے سخت تکلیف تھی، جسے عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا؛ جب کہ عروہ اس سے زیادہ تکلیف دہ حرکت سے با خبر تھے۔ ان کا بیان ہے کہ نبیﷺکی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انھوں نے نبی ﷺسے پوچھا کہ کیا آپ پر کوئی دن اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپﷺ نے اس پر فرمایا: ”تمھاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی ہی مصیبتیں اٹھائی ہیں، لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔ یہ وہ موقع تھا، جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کُلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ (اور زخموں سے چور) ہو کر واپس ہوا۔ جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھے کچھ ہوش آیا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبریل علیہ السلام اس میں موجود ہیں۔ انھوں نے مجھے آوازدی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں اور ان کا جواب سن چکا ہے۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے۔ آپ ان کے بارے میں جو چاہیں، حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نےآوازدی۔ انھوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد (ﷺ)! پھر انھوں نے بھی وہی بات کہی؛ آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں)، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں، (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں) ایسے موقعے پر نبیﷺ نے فرمایا: ”مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا، جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی“۔ (متفق علیہ)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11159

 
 
Hadith   1819   الحديث
الأهمية: هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين


Tema:

یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے علاوہ, اگلوں اور پچھلوں میں سے تمام ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں

عن أنس -رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأبي بكر وعمر: «هذان سَيِّدا كُهُول أهل الجنة من الأوَّلِين والآخِرين إلا النبيِّين والمرسلين».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا : "یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے علاوہ اگلوں اور پچھلوں میں سے تمام ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أبا بكر وعمر -رضي الله عنهما- هما سيِّدا كُهُول أهل الجنة، والمقصود كل من دخل الجنة إلا النبيين والمرسلين، ما قال الشراح، والكهول جمع الكهل وهو من جاوز الثلاثين أو أربعًا وثلاثين إلى إحدى وخمسين سنة، فاعتبر ما كانوا عليه في الدنيا حال هذا الحديث، وإلا فإنه ليس في الجنة كهل، بل من يدخلها ابن ثلاث وثلاثين سنة.
575;س حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نبیوں اور رسولوں کو چھوڑ کر جنت میں داخل ہونے والے تمام ادھیڑ لوگوں کے سردار ہیں۔ اس حدیث میں آئے ہوئے لفظ 'الكهول' 'الكهل' کی جمع ہے، جس کے معنی 30 یا 34 سال سے لے کر 51 سال کے بیچ کے لوگ ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ عمر کی یہ تحدید دنیا میں لوگوں کی عمر سے متعلق ہے، ورنہ جنت میں کوئی ادھیڑ نہیں ہوگا اور اس میں داخل ہونے والے سارے لوگ 33 سال کے ہوں گے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11161

 
 
Hadith   1820   الحديث
الأهمية: فاطمة بضعة مني، فمن أغضبها أغضبني


Tema:

فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

عن المسور بن مخرمة -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «فاطمة بَضْعة مني، فمَن أغضبها أغضبني».

مِسوَر بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن ابنته فاطمة جزءٌ منه، فمن أغضبها فكأنه أغضبه -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی کریم ﷺ یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کا حصہ ہے لہذا جس نے انھیں ناراض کیا گویا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو ناراض کیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11168

 
 
Hadith   1821   الحديث
الأهمية: الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة


Tema:

حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «الحَسَن والحُسَيْن سَيِّدا شَباب أهْل الجنة».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحسن والحسين ابنا فاطمة بنت النبي -صلى الله عليه وسلم- هما أفضل شباب أصحاب الجنة، أو أنهما سيدا أهل الجنة سوى الأنبياء والخلفاء الراشدين، وذلك لأن أهل الجنة كلهم في سن واحد وهو الشباب, ويمكن أن يراد أنهما سيدا كل من مات شابا ودخل الجنة.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے سب سے افضل جوان ہیں یا دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ نبیوں اور خلفائے راشدین کے علاوہ تمام جنتیوں کے سردار ہیں، کیونکہ تمام جنتی ایک ہی عمر کے یعنی جوان ہوں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ایسے تمام لوگوں کے سردار ہوں گے جو جوانی میں مر جائیں اور جنت میں داخل ہوں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11169

 
 
Hadith   1822   الحديث
الأهمية: انظروا إلى هذا، يسألني عن دم البعوض، وقد قتلوا ابن النبي -صلى الله عليه وسلم-، وسمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: هما ريحانتاي من الدنيا


Tema:

اس شخص کو دیکھو! مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے، حالاں کہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو قتل کر ڈالا۔ اور میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ: یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

عن ابن أبي نعم، قال: كنتُ شاهدا لابن عمر، وسأله رجل عن دم البَعُوض، فقال: ممن أنت؟ فقال: من أهل العراق، قال: انظروا إلى هذا، يسألني عن دم البَعُوض، وقد قتلوا ابن النبي صلى الله عليه وسلم، وسمعتُ النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «هما رَيْحَانَتاي من الدنيا».

ابو نعیم فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا ان سے ایک شخص نے (حالتِ احرام میں) مچھر مارنے کے متعلق پوچھا (کہ اس کا کیا کفارہ ہوگا) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو ؟ اس نے بتایا کہ عراق سے، فرمایا: اس شخص کو دیکھو! مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو قتل کر ڈالا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ: ”یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن رجلاً من أهل العراق سأل ابن عمر -رضي الله عنهما-: هل يجوز للرجل إذا كان محرماً أن يقتل الحشرات الصغيرة الضارة مثل البعوض أم لا؟ فقال متعجباً مستغرباً من اهتمام أمثال هذا الرجل بتوافه الأمور، مع جرأتهم على ارتكاب الكبائر، فقال: «انظروا إلى هذا، يسألني عن دم البَعُوض، وقد قتلوا ابن النبي -صلى الله عليه وسلم-!» أي: يرتكبون الموبقات ويجرؤون على قتل حفيد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم بعد ذلك يظهرون كمال التقوى والورع في نسكهم، فيسألون عن قتل البعوض، ثم قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «هما ريحانتاي من الدنيا» أي: أنهما أولادي أشمهما وأقبلهما، فكأنهما من جملة الرياحين الطيبة التي يشمها الناس.
575;ہل عراق میں سے ایک شخص نے عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ حالت احرام میں چھوٹے چھوٹے حشرات جو تکلیف پہنچاتے ہیں جیسا کہ مچھر وغیرہ کیا ان کو مارا جا سکتا ہے یا نہیں؟تو انہوں نے تعجب اور حیرت کے ساتھ اس مثال کو استعمال کرتے ہوئے ان کے معاملا ت اور کبائر کے ارتکاب پر جرات کو بیان کیا۔فرمایا: اس شخص کو دیکھو! مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو قتل کر ڈالا۔یعنی تباہی اور نواسہ رسول کو قتل کاارتکاب کرنے والے اب مناسک کی ادائیگی میں کمال تقویٰ اور خوف کا اظہار کرتے ہیں اور مچھر کے مارنے کا سوال کرتے ہیں۔پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : یہ دونوں (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ یعنی یہ میری اولاد ہیں جن کو میں سونگھتا اور بوسہ دیتا ہوں گویا کہ سب کے لیے پاکیزہ پھول ہیں جن سے لوگ خوشبو لیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11170

 
 
Hadith   1823   الحديث
الأهمية: اللهم إني أحبه فأحبه، وأحب من يحبه


Tema:

اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر، جو اس سے محبت کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كنتُ مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في سوق من أسواق المدينة، فانصرف فانصرفتُ، فقال: «أين لُكَعُ -ثلاثا- ادعُ الحسن بن علي». فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه السِّخَاب، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- بيده هكذا، فقال الحسن بيده هكذا، فالتزمه فقال: «اللهم إني أُحبه فأَحبَّه، وأَحبَّ من يحبه». وقال أبو هريرة: فما كان أحد أحب إليَّ من الحسن بن علي، بعد ما قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما قال.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینے کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ آں حضرت ﷺ واپس ہوئے، تو میں آ پ کے ساتھ واپس ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا: بچہ کہاں ہے؟ -یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا- حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آرہے تھے اور ان کی گردن میں ہار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلا یا ( آپ حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے)، حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ آں حضرت ﷺ سے لپٹ گئے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر، جو اس سے محبت رکھیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی بھی شخص حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أبو هريرة -رضي الله عنه- مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في سوق من أسواق المدينة، فانصرف -عليه الصلاة والسلام- من السوق وانصرف معه أبو هريرة، فأتى -صلى الله عليه وسلم-  إلى بيت فاطمة -رضي الله عنها- فسأل عن الحسن -رضي الله عنه- فقال: «أين لُكَع» يعني: أين الطفل الصغير؟ ادعوه لي، فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه قلادة فمد النبي -صلى الله عليه وسلم- يده ليعانق الحسن، ومد الحسن يده فاعتنقا، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: اللهم إني أحب الحسن فأحبه، وأحب كل من يحبه. قال أبو هريرة: فما كان أحد أحب إلي من الحسن بن علي -رضي الله عنهما- بعدما قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما قال.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینے کے کسی بازار میں تھے، آپ بازار سے واپس ہوئے تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ میں لوٹ آئے۔ رسول اللہ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور ان سے حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے فرمایا: «أين لكع» یعنی چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ میرے پاس لاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور چلنا شروع کر دیا۔ ان کے گلے میں ایک ہار تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلائے تاکہ حسن رضی اللہ عنہ کو گلے لگائیں اور حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ہاتھ پھیلادیے۔ دونوں نے معانقہ کیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ! میں حسن (رضی اللہ عنہ) سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کر ے، اس سے بھی محبت فرما! ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11171

 
 
Hadith   1824   الحديث
الأهمية: أخرج النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات يوم الحسن، فصعد به على المنبر، فقال: ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين


Tema:

ایک دن نبی کریم ﷺ حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے کر باہر نکلے اور ان کو لے کر منبر پر چڑھ گئے ،پھر فرمایا:میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔

عن أبي بكرة -رضي الله عنه- قال: أخرج النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات يوم الحسن، فصعد به على المنبر، فقال: «ابني هذا سيِّد، ولعلَّ اللهَ أن يُصلحَ به بين فئتين من المسلمين».

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے کر باہر نکلے اور ان کو لے کر منبر پر چڑھ گیے، پھر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخرج النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات يوم الحسن معه إلى المسجد وهو غلام صغير، فصعد به على منبر مسجده الشريف، وأخبر الناس أن ابنه الحسن سيد، كريم الأصل، شريف النسب، ينتمى إلى أشرف بيت وُجد على وجه الأرض، وأن الله -سبحانه- سيصلح به بين جماعتين متخاصمتين متقاتلتين من المسلمين، فيجمع الله به بين تلك الجماعتين خاصة، ويلتئم بذلك شمل المسلمين عامة.
ولا شك أن في هذا الحديث الشريف علامة من علامات نبوته -صلى الله عليه وسلم- حيث أخبر فيه -صلى الله عليه وسلم- على ما يقوم به هذا السيد الكريم الحسن بن علي -رضي الله عنهما- من جمع كلمة المسلمين، والإِصلاح بينهم، ورفع النزاع بين الطائفتين، ووقع ذلك بتنازله عن الخلافة لمعاوية، مما أدى إلى التئام الشمل، وحقن الدماء، وذلك في عام الجماعة سنة 40 أو 41.
575;یک دن رسول اللہ ﷺ حسن رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مسجد کی طرف نکلے اور حسن رضی اللہ عنہ اس وقت چھوٹے سے بچے تھے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں منبر پر چڑھے اور لوگوں کو بتایا کہ ان کا یہ بیٹا سردار، باعزت خاندانی اور شریف النسب ہے اور روئے زمین پر پائے جانے والے سب سے معزز گھرانے سے اس کا تعلق ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی ایسی دو جماعتیں جو آپس میں لڑائی جھگڑا اور قتال کر رہی ہوں گی اُن کے مابین صلح کرائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے خاص طور پر ان دو جماعتوں کو آپس میں ملا دے گا اور اس میں عام مسلمان بھی ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث رسول اللہﷺ کی نبوت کی علامات میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے معزز شہزادے حسن بن علی - رضی اللہ عنہما - کے بارے میں بتایا کہ وہ مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کر دیں گے اور ان کے مابین صلح کراکے دونوں جماعتوں کے نزاع کو ختم کر دیں گے۔ اور یہ معاویہ - رضی اللہ عنہ- کے حق میں خلافت سے دستبرادری کے ذریعہ ہوا، جس سے کلمہ متحد ہوگیا، اورلوگوں کا خون محفوظ رہا، اور ایسا سنہ 40، یا 41 ہجری کے سال ہوا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11172

 
 
Hadith   1825   الحديث
الأهمية: من أحب الحسن والحسين فقد أحبني، ومن أبغضهما فقد أبغضني


Tema:

جو حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جس نے ان کو ناراض کیا گویا اس نے مجھے ناراض کیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «مَن أحبَّ الحسن والحُسين فقد أحبَّني، ومَن أبغضهما فقد أبغضني».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) سے محبت کی اُس نےمجھ سے محبت کی اور جس نے ان کو ناراض کیا گویا اس نے مجھے ناراض کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أحب الحسن والحسين سبطي النبي -صلى الله عليه وسلم- فقد أحب النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومن كرههما فقد كره النبي -صلى الله عليه وسلم-، وهذا دليل على مكانتهما.
585;سول اللہ ﷺ کے نواسے حسن اور حسین جو محبت رکھتا ہے گویاہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتا ہے۔ اور جو ان کو ناپسند کرتا ہے گویا وہ رسول اللہﷺ سے نفرت کرتا ہے۔یہ بات ان کے مقام و مرتبہ کی دلیل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11173

 
 
Hadith   1826   الحديث
الأهمية: خيركم خيركم لأهلي من بعدي، قال: فباع عبد الرحمن بن عوف حديقة بأربع مائة ألف، فقسمها في أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

تم میں بہترین شخص وہ ہے جو میرے بعد میرے اہل خانہ کے ساتھ اچھاسلوک کرنے والا ہو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف نے اپنا ایک باغ چار لاکھ میں فروخت کیا اور اس کی رقم نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں تقسیم کر دی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «خيرُكم خيركم لأهلي مِن بعدي». قال: فباع عبد الرحمن بن عوف حديقةً بأربع مائة ألف، فقسَّمها في أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم-.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو میرے بعد میرے اہل خانہ کے ساتھ اچھاسلوک کرنے والا ہو“۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف نے اپنا ایک باغ چار لاکھ میں فروخت کیا اور اس کی رقم نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں تقسیم کر دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خيركم أيها الصحابة خيركم لأهلي: زوجاتي وعيالي وأقاربي من بعد وفاتي.
وقد قبل الصحابة وصيته -صلى الله عليه وسلم- فقابلوهم بالإكرام والاحترام، فمن ذلك أن عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- باع حديقة بأربع مائة ألف، فقسَّمها بين أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم-.
605;یرے صحابہ! تم میں بہترین شخص وہ ہے جو میرے اہل کے لیے بہتر ہے یعنی میری وفات کے بعد میری بیویوں میرے بچوں اور میرے عزیز واقارب کے ساتھ (اچھا سلوک کرے)۔صحابہ آپ ﷺ کی وصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔اسی قبیل سے یہ واقعہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک باغ چار لاکھ میں فروخت کرنے کے بعد اس کی رقم امہات المؤمنین میں تقسیم کر دیا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11174

 
 
Hadith   1827   الحديث
الأهمية: ما غرت على نساء النبي -صلى الله عليه وسلم-، إلا على خديجة، وإني لم أدركها، قالت: وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا ذبح الشاة، فيقول: أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة


Tema:

میں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا سوائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حالانکہ میں نے ان کو نہیں پایا۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بکری ذبح کرتے تھے تو آپ ﷺ فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھیج دو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ما غِرْتُ على نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا على خديجة، وإني لم أُدركها، قالت: وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا ذبح الشاة، فيقول: «أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة»، قالت: فأغضبتُه يوما، فقلتُ: خديجة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إني قد رُزِقْتُ حُبَّها».

اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا سوائے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حالانکہ میں نے ان کو نہیں پایا۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بکری ذبح کرتے تھے تو آپ ﷺ فرماتے: ”اس کا گوشت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھیج دو“۔ اُم المؤمنین فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا خدیجہ خدیجہ ہی ہو رہی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے دل میں ان کی محبت ڈالی جا چکی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- أنها ما غارت على أحد من نساء النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا على خديجة -رضي الله عنها-، مع أن خديجة ماتت قبل أن تتزوج عائشة من النبي -صلى الله عليه وسلم-، وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا ذبح الشاة أرسل بها إلى صديقات خديجة، فأغضبت عائشةُ النبي -صلى الله عليه وسلم- يومًا، وقالت له إنه يكثر من ذكر خديجة، فأخبرها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن الله قد رزقه حبها.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ میں نے آپ ﷺ کی ازواج میں سے کسی پر غیرت نہیں کھائی، سوائے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے، حالانکہ وہ آپ ﷺ کی مجھ سے شادی کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئی تھی۔ آپ ﷺ جب بکری ذبح کرتے تو اسے خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بھیجتے تھے۔ ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا غصہ ہوئیں اور فرمایا کہ آپ خدیجہ کا ذکر بہت زیادہ کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ نے میرے دل میں ان کی محبت ڈالی ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11175

 
 
Hadith   1828   الحديث
الأهمية: لم يتزوج النبي -صلى الله عليه وسلم- على خديجة حتى ماتت


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں کسی اور سے شادی نہیں کی حتی کہ آپ - رضی اللہ عنہا- فوت ہو گئیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: «لم يتزوج النبي -صلى الله عليه وسلم- على خديجة حتى ماتت».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں کسی اور سے شادی نہیں کی حتی کہ آپ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لم يتزوج النبي -صلى الله عليه وسلم- على خديجة بنت خويلد -رضي الله عنها- حتى ماتت, وهذا يدل على مكانة خديجة عند النبي -صلى الله عليه وسلم-، وهي أولى زوجاته.
585;سول اللہ ﷺ نے خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں (دوسری) شادی نہیں کی یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، اور اس س نبیﷺ کے نزدیک خدیجہ کے مقام و مرتبے کا پتہ چلتا ہے اور وہ آپﷺ کی پہلی بیوی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11176

 
 
Hadith   1829   الحديث
الأهمية: أن جبريل جاء بصورة عائشة في خرقة حرير خضراء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال: هذه زوجتك في الدنيا والآخرة


Tema:

جبریل علیہ السلام ریشم کے سبز ٹکڑے میں عائشہ رضٰی اللہ عنہا کی تصویر لے کر نبیﷺ کی خدمت میں آئے اور فرمایا: یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، أنَّ جبريل جاء بصورتها في خِرْقَة حَرير خضراء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال: «هذه زوجتُك في الدنيا والآخرة».

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام ریشم کے سبز ٹکڑے میں ان (عائشہ رضی اللہ عنہا) کی تصویر لے کر نبیﷺ کی خدمت میں آئے اور فرمایا: یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء جبريل في المنام إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بعائشة -رضي الله عنها- في قطعة حرير خضراء، والمراد إتيان منامي وليس في الحقيقة، فقال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: هذه المرأة هي زوجتك في الدنيا والآخرة.
580;بریل علیہ السلام خواب میں نبی ﷺ کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ سبز رنگ کے ریشمی کپڑے کے ٹکڑے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر تھی۔ یہاں مراد خواب میں آنا ہی ہے؛ حقیقت میں نہیں۔ جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ سے کہا کہ یہ وہ عورت ہے جو دنیا و آخرت میں آپ کی زوجہ ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11177

 
 
Hadith   1830   الحديث
الأهمية: «يا عائش، هذا جبريل يقرئك السلام» فقلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته، ترى ما لا أرى


Tema:

اے عائش! یہ جبریل ہیں، جو تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ان پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ میں جو نہیں دیکھ پاتی آپ اسے دیکھتے ہیں

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يومًا: «يا عائش، هذا جبريل يُقرِئك السلام» فقلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته، تَرى ما لا أَرى. تريد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اے عائشہ یہ جبریل ہیں، جو تم کو سلام کہہ رہے ہیں"۔ میں نے کہا: ان پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ میں جو نہیں دیکھ پاتی آپ اسے دیکھتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عائشة أن جبريل يُسلم عليها. فقالت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته، إنك ترى يا رسول الله ما لا أرى، تريد أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يرى جبريل وهي لا تراه.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ جبریل علیہ السلام تم کو سلام کر رہے ہیں، تو انھوں نے کہا : ان پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ اے اللہ کے رسول! میں جو نہیں دیکھ پاتی آپ اسے دیکھتے ہیں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ تو جبریل کو دیکھ لیتے ہیں اور وہ ان کو دیکھ نہیں پاتیں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11178

 
 
Hadith   1831   الحديث
الأهمية: كَمُلَ من الرجال كثير، ولم يكمل من النساء: إلا آسية امرأة فرعون، ومريم بنت عمران، وإن فضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام


Tema:

مردوں میں سے بہت سے لوگ مرتبۂ کمال تک پہنچے، لیکن عورتوں میں سے صرف فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران ہی مرتبۂ کمال تک پہنچیں اور عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے، جو فضیلت ثرید کو سارے کھانوں پر حاصل ہے

عن أبي موسى -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كَمُل من الرجال كثير، ولم يَكمُل من النساء: إلا آسية امرأة فرعون، ومريم بنت عِمران، وإنَّ فضلَ عائشة على النساء كفضل الثَّرِيد على سائر الطعام».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردوں میں سے بہت سے لوگ مرتبۂ کمال تک پہنچے، لیکن عورتوں میں سے صرف فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران ہی مرتبۂ کمال تک پہنچیں اور عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے، جو فضیلت ثرید کو سارے کھانوں پر حاصل ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الذين بلغوا مرتبة الكمال في الفضائل الدينية والأخلاقية من الرجال كثيرون، منهم من بلغ مرتبة الكمال العادي كالعلماء والصلحاء والأولياء، ومنهم من بلغ أسمى مراتب الكمال كالأنبياء، أما اللواتي كملن من النساء فهن قليلات جداً، وعلى رأسهن آسية امرأة فرعون، وهي آسية بنت مزاحم التي ضرب الله بها المثل في كمال الإِيمان، فقال: {وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ} وذلك لأنها آمنت بموسى حين تغلب على سحرة فرعون، فلما علم فرعون بإيمانها عذبها عذابًا شديدًا إلى أن ماتت متمسكة بإيمانها. وأما الثانية: فهي مريم بنت عمران التي ضرب الله بها المثل في حصانتها لنفسها، وكمال عبادتها. ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: «وإن فضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام» فالثريد أشهى الأطعمة عند العرب وهو يتخذ من خبز ولحم، فعائشة في فضلها على النساء كفضل هذا الثريد الذي هو أشهى الأطعمة على جميع الأطعمة.
575;یسے مرد جو دینی اور اخلاقی فضیلتوں میں مرتبۂ کمال کو پہنچے، بہت ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ تو عام مرتبۂ کمال کو پہنچے، جیسے علما، صالحین اور اولیا۔ جب کہ کچھ لوگ کمال کے سب سے اونچے مرتبے پر فائز ہوئے، جیسے انبیاے کرام۔ لیکن اس کے بالمقابل ایسی عورتیں جو مرتبۂ کمال کو پہنچیں، بہت کم ہیں۔ جن میں سر فہرست دو عورتیں ہیں: ایک فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم، جن کے کامل ایمان کی مثال اللہ نے دی ہے۔ ارشاد ہے : {وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ} (اور اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔) در اصل جب موسی علیہ السلام فرعون کے جادوگروں پر غالب آگئے، تو وہ ان پر ایمان لے آئیں اور جب فرعون کو ان کے ایمان کی خبر ہوئی، تو اس نے ان کو اتنی اذیتیں دیں کہ وہ دنیا سے سدھار گئیں۔ لیکن ہاں! ایمان کی دولت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب کہ دوسری عورت مریم بنت عمران ہیں، جن کی پاک بازی اور کمال عبادت کی اللہ نے مثال دی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے فرمایا : "عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے، جو فضیلت ثرید کو سارے کھانوں پر حاصل ہے"۔ ثرید جو روٹی اور گوشت سے بنتا ہے، عربوں کا سب سے پسندیدہ پکوان ہے اور تمام عورتوں میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی کچھ اسی طرح ہے, جیسے کہ سب سے زیادہ پسندیدہ کھانے ثرید کو تمام کھانوں فضیلت حاصل ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11179

 
 
Hadith   1832   الحديث
الأهمية: إني لأعلم إذا كنت عني راضية، وإذا كنت علي غضبى


Tema:

مجھے بخوبی پتہ چل جاتا ہے، جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إنِّي لأعلمُ إذا كنتِ عنِّي راضيةً، وإذا كنتِ عليَّ غَضْبَى». قالت: فقلتُ: مِن أين تَعْرف ذلك؟ فقال: «أمَّا إذا كنتِ عني راضيةً، فإنكِ تقولين: لا وربِّ محمد، وإذا كنتِ علي غَضبى، قلتِ: لا وربِّ إبراهيم». قالت: قلتُ: أجل والله يا رسول الله، ما أهْجُرُ إلَّا اسمَك.

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : "مجھے بخوبی پتہ چل جاتا ہے، جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو"۔ میں نے کہا: بھلا آپ کو یہ کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ تو فرمایا : "جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو، تو کہتی ہو : نہیں، محمد کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو، تو کہتی ہو: نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم!" عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: یہ ٹھیک ہے، لیکن اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں صرف آپ کا نام بھر لینے سے بھی گریز کرتی ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قالت عائشة -رضي الله عنها-: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إني لأعلم متى تكونين راضية عني، ومتى تكونين غضبانة علي. فقالت له: من أين تعرف ذلك؟ فقال -صلى الله عليه وسلم-: إذا كنت راضية عني فإنك تقولين: لا ورب محمد، فتذكرين اسمي في قسمك، وإذا كنت غضبانة علي من وجه من الوجوه الدنيوية المتعلقة بالمعاشرة الزوجية قلت في قسمك: لا ورب إبراهيم، فتعدلين عن اسمي إلى اسم إبراهيم. قالت: نعم والله يا رسول الله، ما أترك إلا ذكر اسمك عن لساني مدة غضبي، ولكن المحبة ثابتة دائمًا في قلبي.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : مجھے پتہ ہو جاتا ہے کہ کب تم مجھ سے خوش رہتی ہو اور کب ناخوش۔ انھوں نے عرض کیا کہ وہ کیسے؟ تو فرمایا : جب مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں، محمد کے رب کی قسم۔ یعنی قسم میں میرا نام لیتی ہو۔ لیکن جب ازدواجی زندگی سے متعلق کسی بھی دنیوی سبب کی بنا پر مجھ سے ناخوش رہتی ہو، تو قسم کھاتے وقت کہتی ہو: نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم۔ یعنی میرے بجائے ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی ہو۔ انھوں نے کہا: ہاں، ایسا تو ہے۔ لیکن اے اللہ کے رسول! سچائی یہ ہے کہ میں ناراضگی کے دوران محض زبان سے آپ کا نام لینے سے گریز کرتی ہوں اور آپ کی محبت میرے دل کی گہرائیوں میں پیوست رہتی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11180

 
 
Hadith   1833   الحديث
الأهمية: إن إبراهيم ابني وإنه مات في الثدي، وإن له لظئرين تكملان رضاعه في الجنة


Tema:

ابراہیم میرا بیٹا ہے، وہ شیرخوارگی کی حالت میں فوت ہوا، اس کے لیے دو دایہ متعین کی گئی ہیں جو جنت میں اس کی مدتِ شِیر خوارگی کو پورا کررہی ہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: «ما رأيتُ أحدا كان أرحم بالعِيال من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-»، قال: «كان إبراهيم مُسْتَرضَعًا له في عَوَالي المدينة، فكان ينطلق ونحن معه، فيدخل البيت وإنه ليُدَخَّن، وكان ظِئْره قَيْنًا، فيأخذه فيُقبِّله، ثم يرجع».
قال عمرو: فلما تُوفي إبراهيم قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن إبراهيم ابني، وإنه مات في الثَّدي، وإن له لظِئْرين تُكمِلان رضاعه في الجنة».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے اہل وعیال پر مہربان اور شفیق نہیں دیکھا۔ انس رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ مدینہ کے بالائی حصے میں دودھ پلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپ ﷺ وہاں جایا کرتے تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے۔ آپ ﷺ گھر میں داخل ہو جاتے جو دھویں سے بھرا ہوتا کیونکہ دایہ کا شوہر لوہار تھا۔ پھر آپ ﷺ اپنے بیٹے کو لے کر اسے چومتے اور واپس لوٹ آتے۔
عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم میرا بیٹا ہے اور وہ شیرخوارگی کی حالت میں فوت ہوا ہے، اس کے لیے دو دایہ مقرر ہیں جو جنت میں اس کی مدتِ رضاعت کو پورا کر رہی ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنه ما رأى أحدا كان أرحم بالعِيال والأطفال الصغار من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وكان إبراهيم ابن النبي -صلى الله عليه وسلم- ترضعه مرضعة في قرى عند المدينة، فكان -صلى الله عليه وسلم- يذهب وبعض الصحابة معه ليزوره، فيدخل البيت فيجد البيت يدخن؛ وذلك لأن زوج مرضعته كان حدادًا، فكان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأخذ إبراهيم فيُقبِّله ثم يرجع، فلما تُوفي إبراهيم قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إن إبراهيم ابني، وإنه مات وهو في سن الرضاع، وإن له مرضعتين تتمان رضاعه في الجنة حتى يتم السنتين؛ وذلك لأن إبراهيم توفي وله ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا، فترضعانه بقية السنتين فإنه تمام الرضاعة بنص القرآن، وهذا كرامة له ولأبيه -صلى الله عليه وسلم-.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو اپنے اہل و عیال اور چھوٹے بچوں پر رسول اللہ ﷺ سے زیادہ شفیق اور مہربان ہو۔ نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو مدینہ کے قریب آباد ایک بستی کی دایہ دودھ پلایا کرتی تھی۔ نبی ﷺ ابراہیم کی زیارت کے لیے وہاں جایا کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے کچھ صحابہ بھی ہوتے۔ آپ ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو گھر دھویں سے بھرا ہوتا تھا کیونکہ دایہ کا شوہر لوہار تھا۔ نبی ﷺ ابراہیم رضی اللہ عنہ کو اٹھاتے، انہیں پیار کرتے اور واپس لوٹ آتے۔جب ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابراہیم میرا بیٹا ہے، وہ شِیرْخوارگی کی حالت میں فوت ہو گیا ہے، جنت میں دو دایہ اس کی مدت رضاعت پورا کرنے کے لیے اسے دودھ پلا رہی ہیں تاکہ دو سال مکمل ہو جائیں۔ کیونکہ ابراہیم رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو ان کی عمر سولہ یا سترہ ماہ تھی۔ دو سال میں سے جو مدت باقی رہ گئی اسے پورا کرنے کے لیے وہ دونوں دایہ انہیں دودھ پلا رہی تھیں کیونکہ قرآن کی رو سے مدت رضاعت دو سال ہے۔ یہ ابراہیم رضی اللہ عنہ اور ان کے والد ﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے بطورِ اکرام تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11188

 
 
Hadith   1834   الحديث
الأهمية: لما توفي إبراهيم -عليه السلام-، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إن له مرضعًا في الجنة


Tema:

جب سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔

عن البراء -رضي الله عنه- قال: لما تُوفِّي إبراهيم -عليه السلام-، قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إنَّ له مُرْضِعًا في الجنة».

براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوئی، تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”ان کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
توفي إبراهيم ابن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من مارية القبطية، وهو ابن ثمانية عشر شهراً، فأخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الله -تعالى- قد أعد له في الجنة من يقوم بإرضاعه حتى يتم رضاعته.
585;سول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا جو کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، وفات کے وقت ان کی عمر اٹھارہ ماہ کی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی کو مقرر کر رکھا ہے، جو انہیں دودھ پلائے گی اور ان کے ایامِ رضاعت کو پورا کرے گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11189

 
 
Hadith   1835   الحديث
الأهمية: إن لكل أمة أمينا، وإن أميننا -أيتها الأمة- أبو عبيدة بن الجراح


Tema:

ہر اُمت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے میری امت! ہمارے امین ابو عبیدہ بن الجراح ہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إنَّ لكل أُمَّة أمِينًا، وإنَّ أمِيننا -أيتُها الأمة- أبو عُبيدة بن الجَرَّاح».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر اُمت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے میری امت! ہمارے امین ابو عبیدہ بن الجراح ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في كل أمة من الأمم رجل أمين اشتهر بالأمانة أكثر من غيره، وأشهر هذه الأمة بالأمانة أبو عبيدة عامر بن الجراح -رضي الله عنه-، فإنه وإن كانت الأمانة صفة مشتركة بينه وبين الصحابة -عليهم الرضوان-، لكن سياق الحديث يشعر بأنه يزيد عليهم في ذلك.
578;مام امتوں میں سے ہر امت میں ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو امانت میں دوسروں سے زیادہ معروف ہوتا ہے۔ امانت کے لحاظ سے اس امت کے سب سے زیادہ مشہور شخص ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگرچہ ان میں اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں صفتِ امانت ایک مشترک صفت تھی تاہم حدیث کے سیاق سے یہ پتا چلتا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس صفت میں دوسروں سے بڑھ کر تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11190

 
 
Hadith   1836   الحديث
الأهمية: كان على النبي -صلى الله عليه وسلم- درعان يوم أحد، فنهض إلى الصخرة، فلم يستطع، فأقعد طلحة تحته، فصعد النبي -صلى الله عليه وسلم- عليه حتى استوى على الصخرة، فقال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: أوجب طلحة


Tema:

اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ ایک چٹان پر چڑھنے لگے، لیکن چڑھ نہ سکے تو آپ ﷺ نے اپنے نیچے طلحہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اوپر چڑھنے لگے، یہاں تک کہ چٹان پرسیدھے کھڑے ہوگئے۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کرلی۔

عن الزُّبير بن العَوَّام -رضي الله عنه- قال: كان على النبي -صلى الله عليه وسلم- دِرْعان يوم أحد، فنهض إلى الصَّخرة فلم يستطع، فأَقعد طلحة تحته، فصعد النبي -صلى الله عليه وسلم عليه- حتى استوى على الصخرة، فقال: سمعتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «أَوْجِبْ طلحة».

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ ایک چٹان پر چڑھنے لگے، لیکن چڑھ نہ سکے تو آپ ﷺ نے اپنے نیچے طلحہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اوپر چڑھنے لگے، یہاں تک کہ چٹان پرسیدھے کھڑے ہوگئے۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کرلی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يلبس قميصين من حديد؛ لحمايته من طعنات الأعداء في غزوة أحد، فقام متوجها لصخرة؛ ليصعد عليها فلم يستطع، فجاء طلحة -رضي الله عنه- فقعد تحت النبي -صلى الله عليه وسلم- فصعد عليه حتى صعد على الصخرة، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «أوجب طلحة»؛ أي: أن طلحة قد أثبت لنفسه بعمله هذا أو بما فعل في ذلك اليوم الجنة، واستحقها بما عمل.
606;بی ﷺ نے غزوۂ احد کے دن دشمنوں کے نیزوں اور تیروں سے بچنے کے لیے لوہے سے بنی دو قمیصیں پہن رکھی تھیں۔ آپ ﷺ ایک چٹان کی طرف جانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ اس پر چڑھنا چاہتے تھے، لیکن نہیں پا رہے تھے۔ اس پر طلحہ رضی اللہ عنہ آکر نبی ﷺ کے نیچے بیٹھ گئے۔ نبی ﷺ ان پر سوار ہو کر چٹان پرچڑھ گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا: "طلحہ نے واجب کر لی۔" یعنی طلحہ نے اپنے اس عمل کی وجہ سے یا غزوۂ احد میں انھوں نے جو کچھ کیا، اس کی وجہ سے اپنے لیےجنت واجب کر لی اور اپنے عمل کی وجہ سے اس کے حق دار ہو گئے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11191

 
 
Hadith   1837   الحديث
الأهمية: إن لكل نبي حواريا، وحواري الزبير


Tema:

ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر (رضی اللہ عنہ) ہیں۔

عن جابر -رضي الله عنهما- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «مَن يأتيني بخبر القوم؟» يوم الأحزاب. قال الزُّبير: أنا، ثم قال: «مَن يأتيني بخبر القوم؟»، قال الزُّبير: أنا، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إنَّ لكل نبي حَوَاريًّا، وحَوَاريِّ الزُّبير».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احزاب کے دن فرمایا: کون ہے جو دشمن کی خبر لائے گا؟، زبیر نے فرمایا کہ میں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا:کون ہے جو دشمن کی خبر لائے گا۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر (بن عوام) ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كانت غزوة الأحزاب وجاءت قريش وغيرهم إلى المدينة؛ ليقاتلوا المسلمين، وحفر النبي صلى الله عليه وسلم الخندق، بلغ المسلمين أن بني قريظة من اليهود نقضوا العهد الذي كان بينهم وبين المسلمين، ووافقوا قريشا على حرب المسلمين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من يأتيني بخبر بني قريظة؟ فقال الزبير بن العوام: أنا آتيك بخبرهم، ثم قال عليه الصلاة والسلام مرة أخرى: من يأتيني بخبر بني قريظة؟ فقال الزبير: أنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم حينئذ: إن لكل نبي ناصرًا، وناصري هو الزبير.
580;ب غزوۂ احزاب ہوا اور قریش و دیگر قبائل مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے آئے اور رسول اللہ ﷺ نے خندق کھدوائی تو اس وقت مسلمانوں کو یہ اطلاع ملی کہ یہود کے قبیلہ بنوقریظہ نے عہد شکنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو بنو قریظہ کی خبر لائے گا؟ تو زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ ﷺ تک ان کی خبریں پہنچاؤں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر دوسری مرتبہ پوچھا کہ میرے پاس بنو قریظہ کی خبر کون لائے گا؟ تو زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لاؤں گا۔ اس وقت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی ناصر (مدد گار یا حواری) ہوتا ہے اور میرے مددگار زبیر ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11192

 
 
Hadith   1838   الحديث
الأهمية: الزبير ابن عمتي، وحواري من أمتي


Tema:

زبیر میری پھوپھی کا بیٹا ہے اور میری امت میں سے میرا حواری ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنه- مرفوعًا: «الزُّبير ابن عَمَّتي، وحَوَاريِّ من أُمَّتي».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زبیر میری پھوپھی کا بیٹا ہے اور میری امت میں سے میرا حواری ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الزبير بن العوام -رضي الله عنه- هو ابن عمته صفية بنت عبد المطلب -رضي الله عنها-، وأنه ناصره من أمته.
606;بی کریم ﷺ بتا رہے ہیں کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی پھوپھی صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا کے بیٹے اور آپ ﷺ کی امت میں آپ ﷺ کے مدد گار ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11193

 
 
Hadith   1839   الحديث
الأهمية: أقبل سعد، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: هذا خالي فليرني امرؤ خاله


Tema:

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں، اگر کوئی شخص ایسا ماموں رکھتا ہے تو وہ مجھے دکھائے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-، قال: أقبل سعد، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «هذا خالي فليُرِني امرؤٌ خالَه».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یہ میرے ماموں ہیں، اگر کوئی شخص ایسا ماموں رکھتا ہے تو وہ مجھے دکھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أقبل سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- إلى مجلس النبي -صلى الله عليه وسلم- فلما رآه النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: هذا خالي أتباهى به، فليُرني أي إنسان خاله؛ ليظهر حينئذ أنه ليس لأحد خال مثل خالي، وكان سعد من بني زهرة، وكانت أم النبي -صلى الله عليه وسلم- آمنة من بني زهرة أيضًا، فهو قريب آمنة، وأقارب الأم أخوال.
587;عد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی مجلس مبارک کی طرف آ رہے تھے۔ جب نبی ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں جن پر مجھ فخر ہے۔ کوئی مجھے اپنا ماموں دکھائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ میرے ماموں جیسا کوئی ماموں نہیں ہے۔ سعد بن وقاصرضی اللہ عنہ قبیلہ بنی زھرہ میں سے تھے اور نبی ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ بھی بنی زھرہ سے تھیں۔ سعد رضی اللہ عنہ بی بی آمنہ کے رشتہ دار تھے اور ماں کی طرف کے رشتہ دار ماموں ہوا کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11194

 
 
Hadith   1840   الحديث
الأهمية: ما رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يفدي رجلا بعد سعد، سمعته يقول: ارم فداك أبي وأمي


Tema:

میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کے متعلق نبی کریمﷺنے فرمایا ہو کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: تیرمارنا جاری رکھ، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔

عن علي -رضي الله عنه- قال: ما رأيتُ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- يُفَدِّي رجلًا بعد سعد سمعتُه يقول: «ارم فداك أبي وأمي».

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا، جس کے متعلق نبی کریمﷺنے فرمایا ہو کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: تیر مارنا جاری رکھ، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر علي -رضي الله عنه- أنه ما رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- يُفدِّي رجلًا بعد سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه-، حيث سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول له في غزوة أحد: ارم الكفار بالنبال، أفديك بأبي وأمي. أي: أقدم أبوي؛ ليكونا فداء لك وتسلم، وقد ثبت في الحديث الصحيح أن النبي -صلى الله عليه وسلم- فدَّى الزبير -رضي الله عنه- بأبويه في غزوة الخندق، ويجمع بينهما باحتمال أن يكون علي -رضي الله عنه- لم يطلع على ذلك، أو مراده ذلك بقيد غزوة أحد.
593;لی رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کے لیے یہ کہا ہو کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان! علی رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ کو غزوۂ احد میں یہ کہتے سنا کہ کفار پر تیر اندازی کرتے رہو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان!۔ یعنی میں اپنے ماں باپ کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تیرے اوپر فدا ہوں اور تو محفوظ رہے۔ البتہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع زبیر رضی اللہ عنہ کے لیے بھی اپنے والدین کے فدا ہونے کی بات کہی۔ ان دونوں احادیث کی تطبیق اس احتمال کے ساتھ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ ہو یا پھر ان کی مراد بطور خاص غزوۂ احد کے موقع پر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11195

 
 
Hadith   1841   الحديث
الأهمية: إن أمركن لمما يهمني بعدي، ولن يصبر عليكن إلا الصابرون


Tema:

میرے بعد تمھارا (ازواج مطہرات کا) معاملہ کچھ ایسا ہے، جو مجھے فکرمند رکھتا ہے۔ تمھارا خرچ وہی اٹھائیں گے، جو صابر لوگ ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «إنَّ أمركنَّ لمِمَّا يُهِمُّني بعدي، ولن يصبر عليكن إلا الصابرون». قال: ثم تقول عائشة، فسقى الله أباك من سَلْسَبيل الجنة، تريد عبد الرحمن بن عوف، وقد كان وَصَل أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- بمال، يقال: بيعت بأربعين ألفا.

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرمایا کرتے تھے: ”میرے بعد تمھارا معاملہ کچھ ایسا ہے، جو مجھے فکرمند رکھتا ہے۔ تمھارا خرچ وہی اٹھائیں گے، جو صابر لوگ ہیں“۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ تمھارے باپ کو جنت کے چشمۂ سلسبیل سے سیراب فرمائے۔ اس سے ان کی مراد عبد الرحمن بن عوف تھے۔ انھوں نے آپ ﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جو -کہا جاتا ہے کہ- چالیس ہزار (دینار) میں بکا، اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف -رحمه الله- أن أم المؤمنين عائشة -رضي الله عنها- قالت: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خاطب أزواجه قائلا: إنه ليحزنني شأنكن ومعيشتكن بعد وفاتي، حيث لم أترك لكن ميراثا، وإنه لن يصبر على تحمل الإنفاق عليكن إلا الصابرون. ثم قالت عائشة لأبي سلمة: سقى الله أباك عبد الرحمن بن عوف من عين الجنة التي تسمى سلسبيلا، وقد كان عبد الرحمن بن عوف قد تصدق على أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- بحديقة بيعت بأربعين ألف دينار.
575;بو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ بیان کر رہے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ یہ کہتے ہوئے اپنی ازواجِ مطہرات سے مخاطب ہوئے کہ مجھے اپنی وفات کے بعد تمھارے معاملے اور تمھارے گزر بسر کے بارے فکر لاحق ہے؛ کیوں کہ میں نے تمھارے لیے کوئی میراث نہیں چھوڑی اور تمھارے اوپر خرچ کرنے کا بار صرف صبر کرنے والے لوگ ہی برداشت کریں گے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابو سلمہ رحمہ اللہ سے کہا کہ اللہ تیرے باپ عبد الرحمن بن عوف کو جنت کے اس چشمے سے سیراب کرے، جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ نے ازواج رسول ﷺ کے لیے ایک باغ بطور صدقہ دے دیا تھا، جو چالیس ہزار دینار میں فروخت ہوا تھا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11196

 
 
Hadith   1842   الحديث
الأهمية: اللهم اجعله هاديًا مهديًّا واهد به


Tema:

اے اللہ ! تو ان کو ہدایت دے، انھیں ہدایت یافتہ بنا، او ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔

عن عبد الرحمن بن أبي عميرة وكان من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال لمعاوية: «اللهم اجعله هاديًا مَهْديًّا واهدِ به».

عبدالرحمن بن ابی عُمیرہ جو کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے تھے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ ! تو ان کو ہدایت دے، انھیں ہدایت یافتہ بنا اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعا النبي -صلى الله عليه وسلم- لمعاوية بن أبي سفيان بأن يجعله الله -تعالى- دالًّا على الخير، وأن يجعله مهتديًا في نفسه، وأن يهد به الناس.
606;بی کریم ﷺ نے معاویہ بن ابی سفیان کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انھیں خیر کا راستہ دکھانے والا بنائے، ان کو اپنی ذات کے اعتبار سے ہدایت یافتہ بنائے اور ان کے ذریعے دوسرے لوگوں کو ہدایت بھی دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11197

 
 
Hadith   1843   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله قبض عبد بأرض جعل له بها حاجة


Tema:

جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت پیدا کر دیتا ہے۔

عن أبي عزة الهذلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله وسلم: «إذا أراد اللهُ قَبْضَ عبد بأرض جعلَ له بها حاجة».

ابو عزۃ الھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت پیدا کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا أراد الله -تعالى- لعبد من عباده أن يموت بأرض محددة، وليس هو فيها؛ جعل له إلى هذه الأرض حاجة، فإذا ذهب إلى حاجته في هذه الأرض توفاه الله تعالى، وما قدره الله -عز وجل- وكتبه لا بد أن يقع كما قدره، وهذا من الإيمان بالقضاء والقدر.
580;ب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی روح کسی مخصوص زمین میں نکالنے کا ارادہ کر لے اور بندہ اس جگہ نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اس جگہ اس کی کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔ جب بندہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس جگہ جاتا ہے تو اللہ اسے وہاں موت دے دیتا ہے۔ جو کچھ اللہ تعالی نے بندے کے حق میں مقدر اور لکھ کر رکھا ہے وہ ویسے ہی ہو کر رہے گا، یہ قضاء و قدر پر ایمان رکھنے کا حصہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے ابو داؤد الطیالسی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11202

 
 
Hadith   1844   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بعبد خيرا استعمله قبل موته


Tema:

جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے استعمال کرتا ہے۔

عن عمر الجمعي -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا أراد اللهُ بعبدٍ خيرًا استعملَه قبل موتِه» فسأله رجلٌ من القوم: ما استعملَه؟ قال: «يهديه اللهُ عزَّ وجلَّ إلى العمل الصالح قبل موتِه، ثم يقبضه على ذلك».

عمر جمعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالی کسی بندہ کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے استعمال کرتا ہے“ کسی نے پوچھا کہ استعمال سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ عزّ وجلّ اس کے مرنے سے پہلے اسے نیک عمل کی توفیق دے دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله -تعالى- إذا أراد بعبد من عباده خيرا وفقه لعمل صالح قبل موته حتى يموت على ذلك العمل، فتحصل له حسن الخاتمة، فيدخل الجنة.
576;ے شک اللہ تعالی جب کسی بندہ کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے نیک عمل کی توفیق دے دیتا ہے تاکہ اس کی وفات اس عمل پر ہو اور اسے حسنِ خاتمہ نصیب ہو جائے اور وہ انجامِ کار کے طور پر جنت میں داخل ہوجائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11203

 
 
Hadith   1845   الحديث
الأهمية: إن القبر أول منزل من منازل الآخرة، فإن نجا منه فما بعده أيسر منه، وإن لم ينج منه فما بعده أشد منه


Tema:

قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر بندہ اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس منزل سے نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔

عن هانئ مولى عثمان قال: كان عثمان إذا وقف على قبر بَكى حتى يَبُلَّ لحيته، فقيل له: تَذْكُر الجنة والنار فلا تَبكي وتبكي مِن هذا؟ فقال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم- قال: «إنَّ القبرَ أولُ مَنْزِل من منازل الآخرة، فإنْ نجا منه فما بعده أيسر منه، وإنْ لم ينجُ منه فما بعده أشد منه».

عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہانئ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو بہت روتے یہاں تک کہ (آنسوؤں سے) اپنی داڑھی کو ترکر لیتے۔ ان سے عرض کیا گیا کہ کیا بات ہے کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرہ پر نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، اگر بندہ اس سے نجات پاگیا تو آگے کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس منزل سے نجات نہ پاسکا تو بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان عثمان بن عفان -رضي الله عنه- إذا وقف على قبر بكى حتى تبل دموعه لحيته، فقيل له: تذكر الجنة والنار فلا تبكي وتبكي من القبر؟ فأخبرهم أنه يبكي لأنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يخبر أن القبر أول منزل من منازل الآخرة، فإن نجا الإنسان من القبر وما فيه من امتحان وشدة وعذاب فما بعده أسهل منه؛ لأنه لو كان عليه ذنب لكُفِّر بعذاب القبر، وإن لم ينج منه، ولم يتخلص من عذاب القبر ولم يكفر ذنوبه به وبقي عليه شيء مما يستحق العذاب به فما بعده أشد منه؛ لأن عذاب النار أشد.
593;ثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ جنت اور دوزخ کا ذکر ہوتا ہے تو آپ نہیں روتے جب کہ قبر کو دیکھ کر آپ اس قدر روتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے اولین منزل ہے۔ اگر انسان قبر اور اس کےامتحان، سختی اور عذاب سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے آسان ہوں گی کیوں کہ اگر اس پر کوئی گناہ ہوا تو عذاب قبر کی وجہ سے وہ معاف ہو جائے گا اور اگر وہ قبر سے نجات نہ پا سکا اور عذابِ قبر سے اس کی خلاصی نہ ہوئی اور اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف نہ ہو ئے اور اس کے ذمہ ایسی چیزیں باقی رہیں جن کی وجہ سے وہ عذاب کا حق دار ہوا تو پھر اس کے بعد آنے والی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی کیوں کہ دوزخ کا عذاب تو بہت ہی شدید ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11205

 
 
Hadith   1846   الحديث
الأهمية: صدقتا، إنهم يعذبون عذابا تسمعه البهائم كلها


Tema:

ان دونوں نے سچ کہا تھا۔ ان کو ایسا عذاب ہوتا ہے کہ اسےسب مویشی بھی سنتے ہیں.

عن عائشة -رضي الله عنها- ، قالت: دخلت عليَّ عجوزان من عُجُز يهود المدينة، فَقَالَتا لي: إنَّ أهلَ القبور يُعذَّبون في قبورهم، فكذَّبتُهما، ولم أُنْعِم أنْ أُصَدِّقهما، فَخَرَجَتَا، ودخل عليَّ النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقلت له: يا رسول الله، إنَّ عجوزين، وذكرتُ له، فقال: «صَدَقَتَا، إنَّهم يُعذَّبون عذابًا تَسْمَعُه البهائم كلُّها» فما رأيتُه بعْدُ في صلاة إلا تعوَّذ من عذاب القبر.

عائشہرضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ مدینے کی یہودی بوڑھی عورتوں میں سے دو بوڑھیاں میرے گھر آئیں اور انھوں نے کہا: قبروالوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ میں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور ان کی تصدیق کے لیے ہاں تک کہنا گوارانہ کیا، وہ چلی گئیں اور رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس مدینے کی یہودی عورتوں میں سے دو بوڑھیاں آئی تھیں، ان کا خیال تھا کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ”ان دونوں نے سچ کہا تھا۔ ان کو ایسا عذاب ہوتا ہے کہ اسےسب مویشی سنتے ہیں“۔ اس کے بعد میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل على عائشة امرأتان عجوزان من يهود المدينة، فقالتا لها: إن الأموات يعذَّبون في قبورهم، فكذبتهما ولم ترضَ أن تصدقهما؛ لأنها لم تطب نفسها بذلك؛ لظهور كذب اليهود، وافترائهم في الدين، وتحريفهم الكتاب، فخرجتا من عند عائشة، ودخل عليها النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبرته بما قالته المرأتان اليهوديتان، فقال -صلى الله عليه وسلم-: صدقتا إن الأموات يعذبون عذابًا تسمعه البهائم كلها، فتخبر عائشة أنها لم تر النبي -عليه الصلاة والسلام- صلى صلاة بعد ذلك إلا تعوذ من عذاب القبر.
605;دینے کی دو یہودی بوڑھی عورتیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان دونوں کو جھٹلادیا اور ان کی تصدیق کرنا گوارانہ کیا؛ کیوں کہ یہودیوں کےجھوٹ، دین میں افتراپردازی اورکتاب میں تحریف کی وجہ سے ان کا دل مطمئن نہ ہو سکا۔ وہ ان کے پاس سے چلی گئیں۔ جب رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے، تو ان یہودی عورتوں کی بات بتائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں نے سچ کہا! بے شک مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے، جسے تمام جانور سنتے ہیں! عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایسی نماز نہیں دیکھی، جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11206

 
 
Hadith   1847   الحديث
الأهمية: قد أوحي إلي أنكم تفتنون في القبور قريبًا من فتنة الدجال


Tema:

مجھے وحی آئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائش میں ڈالے جاؤگے، مسیح دجال کی آزمائش کی مانند۔

عن أسماء بنت أبي بكر-رضي الله عنها- قالت: قام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ الفتنةَ التي يُفتن بها المرء في قبره، فلما ذكر ذلك ضَجَّ المسلمون ضَجَّةً حالت بيني وبين أن أفهم كلامَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فلما سَكَنَت ضَجَّتُهم قلتُ لرجل قريب مني: أيْ -بارك الله لك- ماذا قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في آخر قوله؟ قال: «قد أُوحِيَ إليَّ أنكم تُفتَنون في القبور قريبًا من فتنة الدَّجَّال».

اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور اس فتنے کا ذکر فرمایا: جس کے ذریعے آدمی کی اس کی قبر میں آزمائش ہو گی۔ نبی ﷺ نے جب اس کا ذکر کیا، تو مسلمانوں نے اونچی آواز سے گریہ شروع کر دیا، جس کی وجہ سے میں رسول اللہ ﷺ کی بات نہ سن سکی۔ جب ان کے رونے کی آواز تھمی، تو میں نے اپنے قریب موجود ایک شخص سے پوچھا کہ اے فلاں! اللہ تجھے برکت دے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے وحی آئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائش میں ڈالے جاؤگے، مسیح دجال کی آزمائش کی مانند“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر أسماء بنت أبي بكر الصديق أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقف يوماً يخطب في الناس ويعظهم ويذكرهم الدّار الآخرة، حتى تطرّق إلى القبر وأحواله، وذكر فتنة القبر، والمراد بفتنة القبر: سؤال الملكين منكر ونكير للعبد عن ربه ونبيّه ودينه، وسمي بذلك؛ لأنه فتنة عظيمة يختبر بها إيمان العبد ويقينه، فمن وُفِّق في هذا الاختبار فاز، ومن فشل هلك. فلما ذكر ذلك صاح المسلمون صيحة عظيمة؛ خوفاً من فتنة القبر، فمنعت هذه الصيحة أسماء من أن تسمع كلام رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فلما هدأ الصوت، قالت أسماء لرجل قريب منها: -بارك الله لك- ماذا قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في آخر قوله؟ فأخبرها أنه -صلى الله عليه وسلم- قال: إن الله -تعالى- أوحى إليه أن الناس يُفتنون ويُمتحنون في القبور قريبًا من فتنة المسيح الدَّجَّال؛ فإن فتنة الدجال شديدة صعبة وكذلك فتنة القبر.
575;سما بنت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ انھیں نصیحت فرما رہے تھے اور آخرت کے دن کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے قبر اور اس کے احوال کا ذکر شروع فرما دیا۔ آپ ﷺ نے قبر کے امتحان کے فتنہ کا بھی ذکر کیا۔ قبرکے فتنے سے مراد دو فرشتوں یعنی منکر اور نکیر کا بندے سے اس کے رب، اس کے نبی اور اس کے دین کے بارے پوچھنا ہے۔ اس سوال و جواب کو فتنے کا نام اس لیےدیا گیا، کیونکہ یہ ایک بڑا آزمائش ہوگی، جس سے بندے کے ایمان اور یقین کا امتحان لیا جائے گا۔ جسے اس امتحان میں صحیح جواب دینے کی توفیق مل گئی، وہ کامیاب ہو گیا اور جو ناکام رہا وہ ہلاک ہوگیا۔ جب آپ ﷺ نے اس بات کا ذکر فرمایا، تو مسلمان قبر کے اس فتنے کے خوف سے چیخ اٹھے۔ اس شور کی وجہ سے اسما رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جب آواز تھمی، تو اسما رضی اللہ عنہا نے اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے دریافت کیا کہ اے فلاں! بارک اللہ لک، رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس شخص نے آپ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے کہ عنقریب لوگوں کی قبروں کے اندر آزمائش ہو گی، دجال کی آزمائش کی طرح۔ یعنی جس طرح دجال کا فتنہ بڑا سخت اور مشکل ہو گا، اسی طرح قبر کا فتنہ بھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11207

 
 
Hadith   1848   الحديث
الأهمية: إن هذه الأمة تُبتلى في قبورها، فلولا أن لا تدافنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر الذي أسمع منه


Tema:

اس امت کے افراد کی ان کی قبروں میں آزمائش ہوتی ہے۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کو دفن کرنا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنوائے جو میں سنتا ہوں۔

عن أبي سعيد -رضي الله عنه- قال: ولم أشهده من النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولكن حدَّثنيه زيد بن ثابت، قال: بينما النبي -صلى الله عليه وسلم- في حائط لبني النَّجَّار، على بَغْلة له ونحن معه، إذ حادَت به فكادت تُلْقيه، وإذا أقبُر ستة أو خمسة أو أربعة -قال: كذا كان يقول الجريري- فقال: «مَن يعرف أصحاب هذه الأقبُر؟» فقال رجل: أنا، قال: فمتى مات هؤلاء؟ قال: ماتوا في الإشراك، فقال: «إن هذه الأمة تُبْتَلى في قبورها، فلولا أن لا تَدَافنوا لدعوتُ اللهَ أنْ يُسْمِعَكم من عذاب القبر الذي أسمع منه» ثم أقبل علينا بوجهه، فقال: «تعوَّذوا بالله من عذاب النار» قالوا: نعوذ بالله من عذاب النار، فقال: «تعوَّذوا بالله من عذاب القبر» قالوا: نعوذ بالله من عذاب القبر، قال: «تعوَّذوا بالله من الفتن، ما ظهر منها وما بَطَن» قالوا: نعوذ بالله من الفتن ما ظهر منها وما بَطَن، قال: «تعوَّذوا بالله من فتنة الدَّجَّال» قالوا: نعوذ بالله من فتنة الدَّجَّال.

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں خود تو اس موقع پر موجود نہیں تھا، تاہم مجھے زید بن ثابت نے بتایا کہ نبی ﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے ایک خچر پر جا رہے تھے اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں وہ خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرا ہی دیتا۔ ناگاہ وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں نظر آئیں-راوی کہتے ہیں کہ جریری اسی طرح کہا کرتے تھے- آپ ﷺ نے پوچھا کہ کوئی جانتا ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں؟
ایک شخص بولا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ لوگ کب مرے؟ وہ شخص بولا کہ شرک کے زمانہ میں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس امت کے افراد کی ان کی قبروں میں آزمائش ہوتی ہے۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کو دفن کرنا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنوائے جو میں سنتا ہوں“۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ انور کا رخ ہماری طرف کر کے فرمایا: آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا: ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ظاہر و پوشیدہ فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اس پر لوگوں نے کہا: ہم ظاہر و پوشیدہ فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دجال کے فنتے سے اللہ کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي زيد بن ثابت أنهم بينما هم مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بستان لقبيلة من الأنصار، تُسمى بني النجار، وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يركب على بغلة له، وفجأة مالت بغلته عن الطريق ونفرت به، فكادت أن تسقطه وترميه عن ظهرها، وفي هذا المكان أربعة قبور أو خمسة أو ستة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: من يعرف أصحاب هذه القبور؟ فقال رجل: أنا أعرفهم، فقال -صلى الله عليه وسلم-: إذا كنت تعرفهم فمتى ماتوا؟ قال: ماتوا في زمن الشرك، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إن هذه الأمة تُمتحن في قبورها، ثم تُنعَّم أو تُعذَّب، فلولا مخافة أن لا تدفنوا أمواتكم؛ لدعوت الله أن يُسمعكم من عذاب القبر الذي أسمعه، فإنكم لو سمعتم ذلك تركتم التدافن من خوف قلع صياح الموتى أفئدتكم، أو خوف الفضيحة في القرائب؛ لئلا يُطَّلع على أحوالهم، ثم أقبل على أصحابه بوجهه فقال -صلى الله عليه وسلم-: اطلبوا من الله -تعالى- أن يدفع عنكم عذاب النار، فقالوا: نعتصم بالله من عذاب النار، قال -صلى الله عليه وسلم-: اطلبوا من الله -تعالى- أن يدفع عنكم عذاب القبر، قالوا: نعتصم بالله ونلتجئ إليه من أن يصيبنا عذاب القبر، ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: اطلبوا من الله -تعالى- أن يدفع عنكم الفتن ما ظهر وبان واتضح منها وما خفي، قالوا: نعتصم بالله من الفتن ما ظهر منها وما خفي، فقال: اطلبوا من الله -تعالى- أن يدفع عنكم فتنة المسيح الدجال؛ فإنه أكبر الفتن حيث يؤدي إلى الكفر المفضي إلى العذاب المخلد في النار، فقالوا: نعتصم بالله من فتنة الدجال.
586;ید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ ساتھ انصار کے ایک قبیلے بنی نجار کے باغ سے گزر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک خچر پر سوار تھے۔ اچانک خچر راستے سے ہٹا اور بدک گیا۔ قریب ہی تھا کہ وہ نبی ﷺ کو اپنی پیٹھ سے گرا دیتا۔ اس جگہ چار یا پانچ یا چھے قبریں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ان قبروں میں مدفون لوگوں سے کون واقف ہے؟۔ ایک شخص نے کہا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہیں معلوم ہے تو یہ بتاؤ کہ ان کی موت کب واقع ہوئی تھی؟۔ اس نے جواب دیا کہ یہ سب زمانہ جاہلیت میں مرے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس امت کی ان کی قبروں میں آزمائش ہوتی ہے اور پھر یا تو ان پر نعمتوں کا نزول ہوتا ہے یا عذاب کا۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنائے جو میں سنتا ہوں۔ اگر تم یہ سن لو تو تم اس خوف کی وجہ سے کہ مردوں کی چیخ و پکار تمہارے دل پھاڑ دے گی یا پھر قریبی رشتہ داروں میں فضیحت کے خوف سے کہ وہ میتوں کے احوال پر مطلع نہ ہوجائیں، تم ایک دوسرے کو دفنانا ہی چھوڑ دو۔ پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ کر طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ سے دعا کرو کہ وہ جہنم کے عذاب کو تم سے دور رکھے۔ انہوں نے کہا: ہم جہنم کے عذاب سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرو کہ وہ تم سے عذاب قبر کو دور رکھے۔ انہوں نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور اس کی حفاظت کے طلب گار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا؛ اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ ظاہر و مخفی فتنوں سے تمہیں محفوظ رکھے۔ انہوں نے کہا: ہم ظاہر و مخفی فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرو کہ وہ تم سے مسیح دجال کے فتنے کو دور رکھے۔ یہ سب سے بڑا فتنہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب تک پہنچا دینے والے کفر کا سبب ہو گا۔ انہوں ںے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11208

 
 
Hadith   1849   الحديث
الأهمية: خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد وجبت الشمس، فسمع صوتا فقال: يهود تعذب في قبورها


Tema:

ایک (دفعہ) رسول اللہ ﷺ غروبِ آفتاب کے وقت باہر نکلے تو ایک آواز سنی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہود کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

عن أبي أيوب رضي الله عنه، قال: خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد وَجَبَت الشمس، فسمع صوتا فقال: «يهودُ تُعذَّب في قبورها».

ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ غروبِ آفتاب کے وقت باہر نکلے تو ایک آواز سنی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہود کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد غربت الشمس، فسمع صوتا لليهود وهم يُعذَّبون، فقال: اليهود يُعذبون في قبورهم.
575;یک (دفعہ) رسول اللہ ﷺ غروبِ آفتاب کے وقت باہر نکلے تو یہودیوں کی ایک آواز سنی کہ انھیں قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہود کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11209

 
 
Hadith   1850   الحديث
الأهمية: إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور اگر دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنَّ أحدَكم إذا مات عُرِض عليه مقعدُه بالغَدَاة والعَشِي، إن كان من أهل الجنة فمِن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمِن أهل النار، فيُقال: هذا مقعدُك حتى يبعثك الله يوم القيامة».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور اگر دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو (دوبارہ)اٹھائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا مات الإنسان عُرض عليه مكانه ومقعده من الجنة أو النار كل صباح ومساء، فإن كان الميت من أهل الجنة فمقعده من مقاعد أهل الجنة يُعرض عليه، وإن كان الميت من أهل النار فمقعده من مقاعد أهل النار يُعرض عليه، وفي هذا العرض تبشير للمؤمن وتخويف للكافر حيث يقال له: هذا مقعدك لا تصل إليه حتى يبعثك الله.
580;ب انسان مر جاتا ہے تو روزانہ صبح و شام اس کو جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے۔ اگر مرنے والا اہل جنت میں سے ہے تو اس کو جنت میں جو اس کا ٹھکانہ ہے وہ دکھایا جاتا ہے اور اگر وہ جہنمی ہے تو اس کو جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ ٹھکانہ دکھانا دراصل مومن کے لیے خوش خبری اور کافر کے لیے خوف بن جاتا ہے اور اسے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے اور جب تک اللہ دوبارہ اٹھا نہیں لیتا تم اُس تک نہیں پہنچ سکتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11210

 
 
Hadith   1851   الحديث
الأهمية: وصف بعض نعيم القبر وعذابه


Tema:

قبر کی بعض نعمتوں اور اس کے عذاب کا بیان

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إذا قُبِر الميت -أو قال: أحدكم- أتاه ملكان أسودان أزرقان، يقال لأحدهما: المُنكَر، وللآخر: النَّكِير، فيقولان: ما كنتَ تقول في هذا الرجل؟ فيقول: ما كان يقول: هو عبد الله ورسوله، أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا عبده ورسوله، فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول هذا، ثم يُفْسَح له في قبره سبعون ذِراعا في سبعين، ثم يُنَوَّر له فيه، ثم يقال له: نم، فيقول: أرجع إلى أهلي فأخبرهم، فيقولان: نم كنومة العروس الذي لا يوقِظه إلا أحب أهله إليه، حتى يبعثه الله من مَضْجعه ذلك، وإن كان منافقا قال: سمعتُ الناس يقولون، فقلت مثله، لا أدري، فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول ذلك، فيقال للأرض: التَئِمي عليه، فتَلْتَئِم عليه، فتختلف فيها أضلاعه، فلا يزال فيها مُعذَّبا حتى يبعثه الله من مَضْجعه ذلك.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنایا جاتا ہے، تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی محمد ﷺ) کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟۔
پس (مومن) وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا۔ یعنی یہ کہ وہ ﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: ہمیں علم تھا کہ تو یہی کہے گا۔ پھر اس کے لیے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔ پھر اس کو اس کے لیے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے :سو جا۔ وہ کہتا ہے :میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا چاہتا ہوں؛ تاکہ انہیں اپنے حالات سے آگاہ کر دوں۔ وہ دونوں اس سے کہتے ہیں : تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جسے اس کے گھر والوں میں سے صرف اس کا محبوب ترین شخص ہی جگاتا ہے۔ (وہ اسی حال میں رہے گا) یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔
اور اگر وہ منافق ہو تو کہتا ہے : میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا۔ دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں : ہم جانتے تھے کہ تو یہی کہے گا۔ پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سکڑ جا۔ پس زمین اس کے لیے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔ پس وہ اسی عذاب میں مبتلا رہے گا، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھاے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا دُفن الميت أتاه ملكان أسودان أزرقان، اسم أحدهما: المنكر، والآخر: النكير، فيقولان له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ يريدان النبي -عليه الصلاة والسلام-، فيقول: هو عبد الله ورسوله، أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا عبده ورسوله، فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول هذا؟ ثم يوسع له في قبره سبعون ذراعا في سبعين ذراعا، ثم ينوَّر له في قبره، ثم يقال له: نم. فيقول: أريد الرجوع إلى أهلي، فأخبرهم بأن حالي طيب؛ فيفرحوا بذلك ولا يحزنوا عليَّ. فيقولان له: نم كنومة العروس الذي لا يوقظه من نومه إلا أحب أهله إليه، فينام نومًا طيبا حتى يبعثه الله يوم القيامة، وإن كان منافقا قال: سمعتُ الناس يقولون قولا، وهو أن محمدا رسول الله، فقلت مثل قولهم، ولا أدري أنه نبي في الحقيقة أم لا، فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول ذلك، فيقال للأرض: انضمي واجتمعي عليه وضيقي عليه، فتجتمع أجزاؤها عليه، حتى تزول أضلاعه عن الهيئة المستوية التي كانت عليها، من شدة انضمامها عليه، وشدة الضغطة وانعصار أعضائه، وتجاوز جنبيه من كل جنب إلى جنب آخر، فلا يزال في تلك الحالة معذبا حتى يبعثه الله -عز وجل- يوم القيامة.
580;ب میت کو دفنایا جاتا ہے تو دو سیاہ رنگ کے نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ اسے کہتے ہیں: اس شخص کے بارے تو کیا کہا کرتا تھا؟ در اصل ان کی مراد نبی ﷺ ہوتے ہیں۔ وہ شخص کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں علم تھا کہ تو ایسا ہی کہے گا۔ پھر اس کی قبر ہر طرف سے ستر سترگز کشادہ کر دی جاتی ہے اور اسے منور کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ سوجا۔ وہ کہتا ہے: میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس جا کر انہیں اپنی اس خوش حالی کی خبر دے دوں؛ تاکہ وہ اس سے خوش ہوجائیں اور میرے سلسلے میں کوئ غم نہ کریں۔ اس پر وہ کہیں گے: ایسے سو جا جیسے دلہن سوتی ہے اور اس کے گھر والوں میں سے اس کا محبوب ترین شخص ہی اسے جگاتا ہے۔ اس پر وہ میٹھی نیند سو جاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اسے اٹھائیں گے۔ اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (دونوں فرشتوں کے سوال کے جواب میں) کہتا ہے: میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا یعنی یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ تو میں نے بھی انہیں کی جیسی بات کہہ دی، میں نہیں جانتا کہ آیا یہ واقعی نبی ہیں یا نہیں۔ اس پر وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ تھا کہ تو ایسا ہی کہے گا۔ پھر زمین کو حکم ہو تا ہے کہ آپس میں مل کر اس پر اکٹھی ہو جا اور اس پر تنگ ہو جا۔ اس کے اعضا اکھٹے ہو کراس کے اندر گھس جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سختی کے ساتھ بھینچے جانے اور زور سے دباے جانے اور اس کے اعضا کے نچڑ جانے اور ایک پہلو کے دوسرے پہلو تک پہنچ جانے کی وجہ سے اس کی پسلیوں کی ہیئت ہی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ اسی طرح عذاب میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ روز قیامت اللہ تعالی اسے اس کی قبر سے اٹھائیں گے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11211

 
 
Hadith   1852   الحديث
الأهمية: ذكر نعيم القبر وعذابه في حديث البراء بن عازب -رضي الله عنهما-


Tema:

براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قبر کی نعمتوں اور عذاب کا ذکر

عن البراء بن عازب -رضي الله عنه-، قال: خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في جنازة رجل من الأنصار، فانتهينا إلى القبر ولمَّا يُلْحَد، فجلس رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وجلسنا حوله كأنما على رءوسنا الطير، وفي يده عود يَنكتُ به في الأرض، فرفع رأسه، فقال: «استعيذوا بالله من عذاب القبر» مرتين، أو ثلاثا، زاد في رواية: "وإنه ليسمع خَفْقَ نعالهم إذا وَلَّوا مُدْبِرين حين يقال له: يا هذا، من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟" قال هناد: قال: "ويأتيه ملكان فيُجلِسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام، فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بُعث فيكم؟" قال: "فيقول: هو رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فيقولان: وما يُدريك؟ فيقول: قرأتُ كتاب الله فآمنت به وصدقت، «زاد في حديث جرير» فذلك قول الله -عز وجل- {يُثَبِّتُ اللهُ الذين آمنوا} [إبراهيم: 27]" الآية -ثم اتفقا- قال: "فينادي مُناد من السماء: أن قد صدق عبدي، فأفرشوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، وألبسوه من الجنة" قال: «فيأتيه من رَوْحها وطِيبها» قال: «ويُفتَح له فيها مدَّ بصره» قال: «وإن الكافر» فذكر موته قال: "وتُعاد روحه في جسده، ويأتيه ملكان فيُجلسانه فيقولان: له من ربُّك؟ فيقول: هَاهْ هَاهْ هَاهْ، لا أدري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: هَاهْ هَاهْ، لا أدري، فيقولان: ما هذا الرجل الذي بُعث فيكم؟ فيقول: هَاهْ هَاهْ، لا أدري، فينادي مناد من السماء: أن كذب، فأفرشوه من النار، وألبسوه من النار، وافتحوا له بابا إلى النار" قال: «فيأتيه من حَرِّها وسَمُومها» قال: «ويُضيَّق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه» زاد في حديث جرير قال: «ثم يُقَيَّض له أعمى أَبْكَم معه مِرْزَبّة من حديد، لو ضُرب بها جبل لصار ترابا» قال: «فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثَّقَلين، فيصير ترابا» قال: «ثم تُعاد فيه الروح».

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو“ اسے دو بار یا تین بار فرمایا، ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے: ”اور وہ (میت) ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اس وقت اس سے پوچھا جاتا ہے: اے فلاں! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟“ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا“ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ”اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے“ (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو“ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے“۔ اور رہا کافر تو آپ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں“ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے“ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي البراء بن عازب أنهم خرجوا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في جنازة رجل من الأنصار، فوصلوا إلى القبر قبل أن يُدفن، فجلس رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وجلسوا حوله صامتين، لا يتكلمون من هيبته -صلى الله عليه وسلم-، وفي يده -صلى الله عليه وسلم- عود يضرب به في الأرض كما يفعل المتفكر المهموم، فرفع رأسه فقال: اطلبوا من الله أن يجنِّبكم ويخلصكم من عذاب القبر، قال ذلك مرتين أو ثلاث مرات، ثم أخبرهم أن الميت يسمع صوت نعال مشيعيه إذا انصرفوا عنه، وأنه في هذا الوقت يأتيه ملكان فيجلسانه، فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله. فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام. فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بُعث فيكم؟ فيقول: هو رسول الله -صلى الله عليه وسلم-. فيقولان له: وما يدريك بذلك؟ فيقول: قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت به. وجريان لسانه بالجواب المذكور هو التثبيت الذي تضمنه قوله -تعالى-: {يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت} [إبراهيم: 27] الآية. ثم قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: فينادي مناد من السماء: أن صدق عبدي فيما يقول، فإنه كان في الدنيا على هذا الاعتقاد؛ فهو مستحق للإكرام، فاجعلوا له فرشا من فرش الجنة، وألبسوه من ثياب أهل الجنة، وافتحوا له بابا إلى الجنة، فيُفتح له فيأتيه من نسيمها ورائحتها الطيبة، ويوسع له في قبره مسافة ما يمتد إليه بصره.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وأما الكافر فذكر -صلى الله عليه وسلم- حال موته وشدته، وأنه تعاد روحه بعد الدفن في جسده، ويأتيه ملكان، فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول متحيرا: هاه هاه لا أدري، فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: هاه هاه لا أدري، فيقولان له: ما تقول في حق هذا الرجل الذي بُعث فيكم أنبي أم لا؟ فيقول: هاه هاه لا أدري، فينادي مناد من السماء: أن كذب هذا الكافر؛ لعدم إيمانه وجحوده الذي كان سببًا في قوله هذا؛ ولأن دين الله -تعالى- ونبوة محمد -صلى الله عليه وسلم- كان ظاهرا في مشارق الأرض ومغاربها، فاجعلوا له فرشا من فرش النار، وألبسوه من ثياب أهل النار، وافتحوا له بابا إلى النار، فيأتيه من حر النار، ويضيق عليه قبره حتى تتداخل أضلاعه، وتزول عن هيئتها المستوية التي كانت عليها، ثم يُسلَّط عليه ملك أعمى أخرس لا يتكلم، معه مطرقة كبيرة من حديد، لو ضُرب بها جبل لصار ترابا، فيضربه بها ضربة يسمعها كل ما بين المشرق والمغرب إلا الجن والإنس، فيصير ترابا، ثم يعاد فيه الروح؛ ليذوق العذاب، ويستمر العذاب عليه في قبره.
576;راء بن عازب رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازے میں نکلے، دفن سے پہلے وہ قبر پر پہنچے۔ آپ ﷺ بیٹھ گئے اور صحابہ بھی آپﷺ کے ارد کے گرد خاموش بیٹھ گئے، آپ ﷺ کی ہیبت کی وجہ سے وہ باتیں نہیں کرتے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس کے ذریعے آپ زمین کُرید رہے تھے جیسے ایک مہموم اور فکر مند آدمی کرتا ہے۔ آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا تم اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا مانگو، آپ نے یہ دو یا تین مرتبہ فرمایا، پھر آپ ﷺ نے بتایا کہ مُردہ جنازا خوان کی قدموں کی آہٹ سنتا ہے جب وہ واپس لوٹتے ہیں۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔ فرشتے کہتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جسے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں، فرشتے کہتے ہیں تم اس کے بارے میں کیسے جانتے ہو؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، تو میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ مُردے کی زبان پر اس جواب کا جاری ہونا وہ ثابت قدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ﴿يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ ”ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی“۔ (سورہ ابراهيم: 27) پھر آپ ﷺ نے فرمایا: آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ میرے بندے نے جو کہا سچ کہا۔ یہ دنیا میں اسی عقیدے پر قائم تھا، چنانچہ وہ اکرام کا مستحق ہے۔ اس کے لئے جنت کا فرش بنا لو، جنتیوں کا لباس پہنا دو اور جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دو، سو جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جائے گا جس سے ہوا اور پاکیزہ خوشبو آئے گی۔ اس کے لئے قبر تاحدِ نگاہ وسیع کردی جائے گی۔
جہاں تک کافر کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے اس کی موت کی حالت، اس کی سختی اور دفن کے بعد جسم میں اس کی روح کا لوٹنا بیان کیا ہے، دو فرشتے آ کر اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں تمہارا رب کون ہے؟ وہ حیران ہو کر کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے کہتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جس کو تمہاری طرف بھیجا گیا آیا وہ نبی ہے یا نہیں؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ کافر نے جھوٹ بولا، یہ اس کے ایمان نہ لانے اور اس سے انکار کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا دین اور محمد ﷺ کی نبوت زمین کے مشرق و مغرب میں ظاہر اور غالب تھی۔ اس کے لئے جہنم کا فرش بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہننا دو، اس کے لئے جہنم کا دروازہ کھول دو، جہاں سے اسے آگ کی گرمی پہنچے گی اور اس کی قبر اس پر اتنی تنگ ہوجائے گی کہ اس کی پسلیاں آپس میں گھس جائیں گی اوروہ اپنی اصل ہیئت جس پر وہ تھی ختم ہوجائے گی، پھر اس پر ایک اندھا اور گونگا فرشتہ مسلط کیا جائے گا، اس کے پاس لوہے کا ایک بڑا ہتھوڑا ہوگا، اگر اس کو پہاڑ پر مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے، اس کے ساتھ ایک ضرب مارے گا جسے مشرق و مغرب کے درمیان جنات و انسانوں کے سوا ہر چیز سنے گی، وہ مٹی مٹی ہو جائے گا، پھر اس میں روح دوبارہ لوٹائے جائے گی تاکہ وہ عذاب چھکے گا اور قبر میں اسے مسلسل عذاب ہوتے رہے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11212

 
 
Hadith   1853   الحديث
الأهمية: أشرف النبي -صلى الله عليه وسلم- على أطم من آطام المدينة، فقال: هل ترون ما أرى، قالوا: لا، قال: فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر


Tema:

نبی کریم ﷺ مدینے کے ایک بلند مقام پر چڑھے۔ پھر فرمایا: کیا تم لو گ بھی دیکھ رہے ہو، جو میں دیکھ رہا ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں! آپ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ (عن قریب) تمھارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے، جیسے بارش برستی ہے۔

عن أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- قال: أشرفَ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- على أُطُم من آطام المدينة، فقال: «هل ترون ما أرى؟» قالوا: لا، قال: «فإنِّي لأرى الفتنَ تقع خِلال بيوتكم كوَقْع القَطْر».

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینے کے ایک بلند مقام پر چڑھے۔ پھر فرمایا: کیا تم لو گ بھی دیکھ رہے ہو، جو میں دیکھ رہا ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں! آپ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ (عن قریب ) تمھارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے، جیسے بارش برستی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نظر النبي -صلى الله عليه وسلم- من مكانٍ عالٍ فوق حصن من حصون المدينة فقال لأصحابه: هل ترون ما أرى؟ إني أرى الفتن تقع وسط بيوتكم كما يقع المطر بكثرة وغزارة. وهو إشارة إلى الحروب والفتن الواقعة في المدينة، كمقتل عثمان، ووقعة الحرة وغيرها.
585;سول اللہ ﷺ نے مدینے کے بلند قلعوں میں ایک اونچی جگہ سے دیکھا اور صحابہ سے فرمایا کہ کیا جو میں دیکھ رہا ہوں تمھیں نظر آ رہا ہے؟ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمھارے گھروں کے درمیان اس طرح اتر رہے ہیں جیسے موسلادھار بارش ہورہی ہو! یہ در اصل مدینے میں ہونے والی جنگوں اور فتنوں کی طرف اشارہ تھا، جیسے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور واقعۂ حرہ وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11213

 
 
Hadith   1854   الحديث
الأهمية: اعدد ستًّا بين يدي الساعة


Tema:

قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو

عن عوف بن مالك -رضي الله عنه-، قال: أتيتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- في غزوة تبوك وهو في قُبَّة من أَدَم، فقال: «اعدُد ستًّا بين يدي الساعة: موتي، ثم فتح بيت المقدس، ثم مُوتانٌ يأخذ فيكم كقُعَاص الغنم، ثم استفاضة المال حتى يُعطى الرجل مائة دينار فيظل ساخطا، ثم فتنة لا يبقى بيتٌ من العرب إلا دخلته، ثم هُدْنة تكون بينكم وبين بني الأصفر، فيغدرون فيأتونكم تحت ثمانين غاية، تحت كل غاية اثنا عشر ألفا».

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو؛ میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک موت کی لہر جو تم میں ایسے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس قدر ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہی رہے گا۔ پھر ایک فتنہ ظاہر ہو گا جو عرب کے ہر گھر تک جا پہنچے گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (رومی عیسائیوں) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ غداری کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کر دیں گے جس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء عوف بن مالك إلى النبي -صلى الله تعالى عليه وسلم- في غزوة تبوك، وهو في خيمة من جلد مدبوغ، فقال له النبي -صلى الله تعالى عليه وسلم-: احسب ست علامات من العلامات الواقعة قبل قيام الساعة: موتي، ثم فتح بيت المقدس، وهذا وقع في عهد عمر -رضي الله عنه-، ثم وباء ينتشر فيكم؛ فيموت كثير منكم بسرعة، كما ينتشر الوباء في الغنم فتموت، ثم كثرة المال حتى إنه إذا أُعطي الرجل مائة دينار يغضب؛ لأنه مبلغ قليل في نظره، وقيل: إن هذه الكثرة ظهرت في خلافة عثمان -رضي الله تعالى عنه- عند الفتوح، ثم تقع فتنة عظيمة لا يبقى بيت من بيوت العرب إلا دخلته، قيل: هي مقتل عثمان وما بعده من الفتن المترتبة عليها، ثم صلح يكون بين المسلمين وبين الروم، فينقضون الصلح ويغدرون بالمسلمين، فيأتون لقتال المسلمين في ثمانين راية وهي العَلَم، تحت كل راية اثنا عشر ألف مقاتل، جملتهم تسعمائة ألف وستون ألفًا.
594;زوہ تبوک میں عوف بن مالک نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ دباغت شدہ چمڑے سے بنے ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ: چھ ایسی علامات کو شمار کر لو جو قیامت سے پہلے واقع ہوں گی: میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح۔ اس علامت کا وقوع عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ پھر ایک جان لیوا وبا آئے گی جو تم میں پھیل جائے گی اور تم اس تیزی کے ساتھ مرو گے جیسے مویشیوں میں وباء پھیلنے سے وہ مرتے ہیں۔پھر مال کی کثرت ہو جائے گی یہاں تک کہ اگر کسی شخص کو سو دینار دیے جائیں گے تو وہ ناراضگی کا اظہار کرے گا کیوں کہ اس کی نظر میں یہ بہت تھوڑی رقم ہو گی۔ کہتے ہیں کہ یہ کثرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ظاہر ہوئی جب فتوحات کی کثرت ہو گئی تھی۔ پھر اس کے بعد ایک بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گا اور عرب کا کوئی گھر ایسا نہیں بچے گا جس میں یہ داخل نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ اس سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل اور اس کی وجہ سے اس کے بعد ظہور پذیر ہونے والے فتنے ہیں۔ پھر مسلمانوں اور رومیوں کے مابین صلح ہو گی تاہم وہ مسلمانوں کے ساتھ غداری کریں گے اور اسی جھنڈوں کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے چڑھ آئیں گے جن میں سے ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار جنگ جو ہوں گے اور ان کی کل تعدا نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11214

 
 
Hadith   1855   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: بعثت أنا والساعة هكذا، ويشير بإصبعيه فيمد بهما


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گیے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے (اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «بُعِثْتُ أنا والساعةَ هكذا»، ويُشير بإصبعيه فيَمُدُّ بهما.

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گیے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے (اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن قرب مجيء يوم القيامة، فإن بعثته -صلى الله عليه وسلم- ويوم القيامة متقاربان كتقارب ما بين إصبعيه -صلى الله عليه وسلم-، ومد -صلى الله عليه وسلم- إصبعيه ليميزهما عن سائر الأصابع.
وقد ورد في بعض الأحاديث الأخرى أن الإصبعين هما: السبابة والوسطى، السبابة: هي التي بين الوسطى والإبهام، وأنت إذا قرنت بينهما وجدتهما متجاورين، ووجدت أنه ليس بينهما إلا فرق يسير، ليس بين الوسطى والسبابة إلا فرق يسير مقدار الظفر أو نصف الظفر، وتسمى السبابة؛ لأن الإنسان إذا أراد أن يسب أحد أشار إليه بها، وتسمى السباحة أيضاً؛ لأن الإنسان عند الإشارة إلى تعظيم الله -عز وجل- يرفعها، ويشير بها إلى السماء، والمعنى أن أجل الدنيا قريب وأنه ليس ببعيد.
606;بی ﷺ قیامت کے قریب آنے کی خبر دے رہے ہیں، کہ آپ ﷺ کی بعثت اور یومِ قیامت اتنے قریب قریب ہیں کہ جتنے اللہ کے نبی ﷺ کی دو انگلیاں قریب ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو لمبا کیا تاکہ دوسری تمام انگلیوں سے وہ ممتاز ہو جائیں۔
دوسری بعض احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ دو انگلیاں درمیانی اور شہادت والی انگلیاں تھیں۔ ’’سبّابہ‘‘ جو درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہے۔ ان دونوں کو ملانے سے یہ مل جاتے ہیں اور ان میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے، جو ایک ناخن یا اس کے نصف کے برابر ہوتا ہے، اسے ’سبّابہ‘ کہتے ہیں اس لیے کہ انسان جب کسی کو گالی دینا چاہتا ہے تو اس انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس کو ’سباحہ‘ بھی کہتے ہیں اس لیے کہ انسان اللہ کی تعظیم کے وقت اسے اٹھاتا ہے اور اس سے آسمان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا اختتام قریب ہی ہے، دور نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11215

 
 
Hadith   1856   الحديث
الأهمية: لا تقوم الساعة حتى تخرج نار من أرض الحجاز تضيء أعناق الإبل ببصرى


Tema:

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ سرزمینِ حجاز سے ایک بہت بڑی آگ نہ نکل آئے جو بُصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں روشن کر دے گی۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «لا تقومُ الساعةُ حتى تخرجَ نارٌ من أرض الحِجاز تُضيءُ أعناقَ الإبل ببُصْرى».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ سرزمینِ حجاز سے ایک بہت بڑی آگ نہ نکل آئے جو بُصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں روشن کر دے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا تقوم الساعة حتى تخرج نار من مكة والمدينة وما حولهما تنور أعناق الإبل بمدينة بصرى بالشام، وقد خرجت نار بالمدينة سنة أربع وخمسين وستمائة من الهجرة (654 ه)، وكانت نارًا عظيمةً خرجت من جنب المدينة الشرقي وراء الحرة، وتواتر العلم بها عند جميع أهل الشام، وسائر البلدان، وذكرها العلماء المعاصرون لها في كتبهم كالنووي والقرطبي وأبي شامة.
602;یامت تب تک نہ آئے گی جب تک کہ مکہ و مدینہ اور اس کے گرد و نواح سے ایسی آگ نمودار نہ ہو جائے جو شام میں واقع بُصریٰ شہر میں موجود اونٹوں کی گردنیں روشن کر دے گی۔ مدینہ میں سن چھ سو چَوّن (654) ہجری میں ایک آگ ظاہر ہوئی تھی جو بہت بڑی تھی۔ یہ مدینہ کے مشرقی جانب مقامِ حرہ کے پیچھے سے نمودار ہوئی تھی۔ شام اور باقی تمام علاقوں کے رہنے والے لوگ اس آگ کے بارے میں تواتر کے ساتھ جانتے ہیں اور اس وقت کے علماء نے بھی اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے جیسے امام نووی، امام قرطبی اور امام ابو شامہ رحمہم اللہ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11216

 
 
Hadith   1857   الحديث
الأهمية: منعت العراق درهمها وقفيزها، ومنعت الشأم مديها ودينارها، ومنعت مصر إردبها ودينارها، وعدتم من حيث بدأتم، وعدتم من حيث بدأتم، وعدتم من حيث بدأتم


Tema:

عراق اپنے درہم اور قفیز کو روک لے گا اور شام اپنے مد اور دینار روک لے گا اور مصر اپنے اردب اور دینار روک لے گا تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے، اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے، اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنعت العراق دِرْهَمِها وقِفِّيزها، ومنعت الشام مُدْيها ودينارها، ومنعت مصر إردَبَّها ودينارها، وعُدتم مِن حيث بَدَأتُم، وعُدتم من حيث بدأتم، وعُدتم من حيث بدأتم» شَهِد على ذلك لحم أبي هريرة ودمه.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عراق اپنے درہم اور قفیز کو روک لے گا اور شام اپنے مُد اور دینار روک لے گا اور مصر اپنے اِردَب اور دینار روک لے گا تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے، اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے، اور تم جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آؤ گے“۔ اور اس بات پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا گوشت اور خون گواہ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن المسلمين سوف يفتحون العراق والشام ومصر، وسيوضع عليها شيء مقدر بالمكاييل والأوزان يؤدونه للمسلمين، وسيُمنع ذلك في آخر الزمان: إما لأن الكفار الذين في هذه البلاد سينقضون العهد ولا يدفعون الأموال المقررة عليهم، وإما لاستيلاء كفار العجم على هذه البلاد، فيمنعون وصول هذه الأموال إلى المسلمين، ويصبح المسلمون حينئذ ضعفاء فقراء غرباء، كما كانوا في بداية الإسلام.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ عنقریب مسلمان عراق، شام اور مصر کو فتح کر لیں گے اور ان علاقوں کے باسیوں پرناپ اور تول کے لحاظ سے مال کی ایک مخصوص مقدار بطور جزیہ لاگو کر دی جائے گی جسے وہ مسلمانوں کو ادا کیا کریں گے۔ لیکن آخری زمانے میں اس کی ادائیگی روک دی جائے گی، یا تو اس لیے کہ ان علاقوں کے کفارعہد شکنی کرتے ہوئے اپنے اوپر واجب الاداء اموال کو ادا نہیں کریں گے یا پھر عجمی کفار ان علاقوں پر اپنا تسلط جما لیں گے اور وہ مسلمانوں تک ان اموال کی رسائی کو روک دیں گے اوراس وقت پھر مسلمان ویسے ہی کمزور، فقیر اور غریب ہو جائیں گے جیسے وہ ابتدائے اسلام میں تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11217

 
 
Hadith   1858   الحديث
الأهمية: يكون في آخر أمتي خليفة يحثي المال حثيًا، لا يعده عددًا


Tema:

میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ آئے گا جو مال کو لپ بھر بھر کر خرچ کرے گا اور اس کا کوئی حساب نہیں رکھے گا۔

عن أبي نَضْرَة، قال: كنا عند جابر بن عبد الله فقال: يُوشِك أهلُ العراق أن لا يُجبى إليهم قَفِيز ولا درهم، قلنا: من أين ذاك؟ قال: من قِبل العَجَم يمنعون ذاك، ثم قال: يُوشك أهل الشام أن لا يُجبى إليهم دينار ولا مُدْي، قلنا: من أين ذاك؟ قال: من قِبل الروم، ثم سكت هُنيَّة، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يكون في آخر أمتي خليفة يَحثي المال حَثْيا، لا يَعُدُّه عددا» قال قلتُ لأبي نَضرَة وأبي العلاء: أتَرَيان أنه عمر بن عبد العزيز، فقالا: لا.

ابو نضرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ وہ فرمانے لگے: عنقریب اہل عراق سے نہ کوئی قفیر ان (مسلمانوں) کے پاس جمع ہو کر آئے گا اور نہ کوئی درہم ۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا: عجمی لوگ اسے روک لیں گے۔ پھر انہوں نے مزید کہا: عنقریب اہل شام سے نہ کوئی دینار ان کے پاس جمع ہو کرآئے گا اور نہ ہی کوئی مدی۔ ہم نے پوچھا: یہ کس وجہ سے ہوگا؟ ایسا رومی لوگ کریں گے۔ پھر کچھ دیر چپ رہے اورپھر کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ آئے گا، جو مال کو لپ بھر بھر کر خرچ کرے گا اور اس کا کوئی حساب نہیں رکھے گا“۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابو نضرہ اور ابو العلاء سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں وہ عمر بن عبد العزیز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن المسلمين سوف يفتحون العراق، وسيوضع عليها شيء مقدر بالمكاييل والأوزان يؤدونه للمسلمين، وسيُمنع ذلك في آخر الزمان؛ وذلك لاستيلاء كفار العجم على هذه البلاد فيمنعون وصول هذه الأموال إلى المسلمين، ويخبر كذلك أن المسلمين سوف يفتحون الشام، وسيوضع عليها شيء مقدر بالمكاييل والأوزان يؤدونه للمسلمين، وسيُمنع ذلك في آخر الزمان؛ وذلك لاستيلاء الروم على هذه البلاد فيمنعون وصول هذه الأموال إلى المسلمين، وأخبر صلى الله عليه وسلم أنه سيكون في آخر هذه الأمة خليفة يحثي المال ولا يعده، أى: لكثرته واتساع الفتوحات عليه، فهو يلقي المال للناس بيده كما يفعل بالتراب إذا رمى به بيديه.
ويخبر الراوي أنه سأل بعض أهل العلم من التابعين: هل هذا الخليفة هو عمر بن عبد العزيز؟ فقالوا: لا.
606;بی ﷺ بتا رہے ہیں کہ مسلمان عنقریب عراق کو فتح کر لیں گے اور اہل عراق پر ناپ تول کی ایک معین مقدار بطور جزیہ لاگو کر دی جائے گی، جسے وہ مسلمانوں کو ادا کریں گے۔ لیکن قرب قیامت میں یہ مال کی ادائیگی بند کر دی جائے گی۔ کیوں کہ عجمی کفار ان علاقوں پر اپنا تسلط جما لیں گے اور ان اموال کی مسلمانوں تک رسائی روک دیں گے۔ اسی طرح آپ ﷺ یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ مسلمان عنقریب شام کو فتح کر لیں گے اور ان پر بھی ناپ تول کی ایک معین مقدار بطور جزیہ لاگو کر دی جائے گی، جسے وہ مسلمانوں کو ادا کریں گے۔ اسی طرح آپ ﷺ یہ بتا رہے ہیں کہ اس امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ ہو گا، جو مال کو لپ بھر بھر کر خرچ کرے گا اور اسے شمار نہیں کرے گا؛ کیوںکہ فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے مال کی کثرت ہو گی۔ چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں سے لوگوں کے سامنے مال ایسے پھینکے گا جیسے مٹی کو ہاتھوں سے پھینکا جاتا ہے۔ راوی حدیث بتا رہے ہیں کہ انہوں نے تابعین میں سے بعض اہل علم سے پوچھا کہ کیا یہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ: نہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11218

 
 
Hadith   1859   الحديث
الأهمية: تغزون جزيرة العرب فيفتحها الله، ثم فارس فيفتحها الله، ثم تغزون الروم فيفتحها الله، ثم تغزون الدجال فيفتحه الله


Tema:

تم پہلے تو عرب کے جزیرہ میں (کافروں سے) جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو فتح کر دے گا۔ پھر فارس (ایران) سے جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر بھی فتح کر دے گا ،پھر روم والوں سے، اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر دجال سے لڑو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا۔

عن نافع بن عتبة -رضي الله عنه-، قال: كنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في غزوة، قال: فأَتَى النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- قومٌ من قِبَل المغرب، عليهم ثياب الصوف، فوافقوه عند أَكَمة، فإنهم لَقيامٌ ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قاعد، قال: فقالت لي نفسي: ائتِهم فقُم بينهم وبينه لا يَغتالونه، قال: ثم قلتُ: لعله نَجِيّ معهم، فأَتَيتُهم فقمتُ بينهم وبينه، قال: فحفِظتُ منه أربع كلمات أَعُدُّهن في يدي، قال: «تَغزون جزيرة العرب فيَفتحها الله، ثم فارس فيفتحها الله، ثم تغزون الروم فيفتحها الله، ثم تغزون الدَّجَّال فيفتحه الله» قال: فقال نافع: يا جابر، لا نرى الدجال يخرج، حتى تُفتح الروم.

نافع بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو اون کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ٹیلے کے پاس آ کر ملے۔ وہ لوگ کھڑے تھے اور آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دل نے کہا کہ تو چل اور ان لوگوں اور آپ ﷺ کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فریب سے آپ ﷺ کو مار ڈالیں۔ پھر میرے دل نے کہا کہ شاید آپ ﷺ وسلم ان سے چپکے چپکے باتیں کر رہے ہوں (اور میرا جانا آپ ﷺ کو ناگوار گزرے)۔ پھر بھی میں وہاں چلا گیا اور ان لوگوں کے اور آپ ﷺ کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ پس میں نے اس وقت آپ ﷺ سے چار باتیں یاد کیں، جن کو میں اپنے ہاتھ پر گنتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم عرب کے جزیرہ میں(کافروں سے) جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو فتح کر دے گا۔ پھر ملکِ فارس (ایران) سے جنگ کروگے، اللہ تعالیٰ اس پر بھی تمہیں فتح دے گا، پھر روم والوں سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ روم کو بھی زیر کر دے گا، پھر دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی فتح دے گا۔ نافع نے کہا کہ اے جابر بن سمرہ! ہم سمجھتے ہیں کہ دجال روم فتح ہونے کے بعد ہی نکلے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي الصحابي نافع بن عتبة -رضي الله عنه- أنه كان مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في غزوة، فجاء ناس من ناحية المغرب إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يلبسون ثيابًا من الصوف، وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- جالسا على مكان مرتفع، فوقفوا ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- قاعد، فقال نافع لنفسه: لا تترك رسول الله بمفرده مع هؤلاء الغرباء، اذهب فكن معهم حتى لا يقتلوه ولا يراهم أحد. ثم قال لنفسه: لعله يكون يتكلم معهم كلام سر لا يريد أن يطلع عليه أحد. فما كان منه إلا أن ذهب فوقف بينهم وبينه -صلى الله عليه وسلم-، قال نافع: فحفِظتُ من رسول الله أربع جمل أُعدها على يدي، حيث أخبر -صلى الله عليه وسلم- أن المسلمين من بعده يقاتلون كفار العرب، فيدخل العرب كلهم في الإسلام، وتصير الجزيرة العربية كلها تحت حكم المسلمين، ثم أخبرهم أنهم يقاتلون الفرس فينتصرون عليهم، ويفتحون بلاد فارس كلها، ثم يقاتلون الروم فينتصرون عليهم، ويفتحون بلادهم، ثم يقاتلون الدَّجَّال فيجعله الله -تعالى- مقهورا مغلوبا. ثم قال نافع لجابر بن سمرة: يا جابر، لا أظن الدجال يخرج حتى تُفتح بلاد الروم.
وكلها قد وقعت وبقي قتال الدجال، وهذا يكون بين يدي الساعة، قريبا منها.
606;افع بن عتبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو اونی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ایک ٹیلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ لوگ کھڑے تھے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دل نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو اکیلے ان اجنبیوں کے ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے ۔تو بھی وہاں چل کہیں وہ آپ کو قتل نہ کر دیں اور ان کو کوئی دیکھ بھی نہ سکے۔ پھر میرے دل نے کہا کہ شاید آپ ﷺ چپکے سے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہوں جو وہ کسی کو بتانا نہ چاہتے ہوں۔ پھر بھی میں وہاں چلا گیا اور ان لوگوں کے اور آپ ﷺ کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت آپ ﷺ سے چار باتیں یاد کیں، جن کو میں اپنے ہاتھ پر گنتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان پہلے تو عرب کے جزیرہ میں (کافروں سے) جہاد کریں گے، اور سارا عرب اسلام میں داخل ہو جائے گا اور سارے کا سارا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہو گا۔ پھر انہیں بتایا کہ وہ پھر ملکِ فارس (ایران) سے جہاد کریں گے، ان کی مدد ہو گی اور پورے فارس پر فتحیاب ہو جائیں گے، پھر روم والوں سے جہاد کریں گے، پھر وہ ان پر غالب ہوں گے، اور ان کے شہروں کو فتح کر لیں گے ۔ پھر دجال سے لڑیں گے اللہ تعالیٰ اس کو بھی مقہور و مغلوب کر دے گا۔ پھرنافع نے جابر بن سمرہ سے کہا کہ :اے جابر! ہم سمجھتے ہیں کہ دجال روم فتح ہونے سے پہلے نہیں نکلے گا۔ اور (یہ) سب کچھ وقوع پذیر ہو گیا،صرف دجال کا قتل باقی ہے اور یہ قربِ قیامت کے وقت ہی ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11219

 
 
Hadith   1860   الحديث
الأهمية: ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين، بعز عزيز أو بذل ذليل، عزا يعز الله به الإسلام، وذلا يذل الله به الكفر


Tema:

یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے (دنیا و آخرت کی) ذلت قبول کرلی جائے، عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کر دے گا۔

عن تَميم الداري -رضي الله عنه-، قال: سمعتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «ليَبْلغنَّ هذا الأمرُ ما بلغ الليلُ والنهارُ، ولا يترك اللهُ بيت مَدَر ولا وَبَر إلا أدخله الله هذا الدين، بعِزِّ عزيز أو بذُلِّ ذليل، عزا يُعِزُّ الله به الإسلام، وذُلا يُذل الله به الكفر» وكان تميم الداري، يقول: قد عرفتُ ذلك في أهل بيتي، لقد أصاب مَن أسلم منهم الخير والشرف والعز، ولقد أصاب من كان منهم كافرا الذل والصَّغَار والجِزية.

تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے (دنیا و آخرت کی) ذلت قبول کر لی جائے؛ عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کر دے گا۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اس فرمان رسول ﷺ کی صداقت میں نے اپنے خاندان میں دیکھی ہے کہ ان میں سے جو مسلمان ہوگیا، اسے خیر، شرافت اور عزت نصیب ہوئی اور جو کافر رہا، اسے ذلت، رسوائی اور جزیہ کا سامنا کرنا پڑا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن هذا الدين سوف يعم جميع أجزاء الأرض، فأي مكان وصله الليل والنهار سيصله هذا الدين، ولن يترك الله -تعالى- بيتًا في المدن والقرى ولا في البوادي والصحراء إلا أدخل عليه هذا الدين، فمن قبل هذا الدين وآمن به فإنه يكون عزيزًا بعزة الإسلام، ومن رفضه وكفر به فإنه يكون ذليلا مهانا. ويخبر الصحابي الجليل تميم الداري راوي هذا الحديث أنه عرف ذلك الذي أخبر به رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في أهل بيته خاصة، فإن من أسلم منهم ناله الخير والشرف والعز، ومن كفر منهم ناله الذل والهوان هذا مع ما يدفعه للمسلمين من أموال.
585;سول اللہ ﷺ خبر دے رہے ہیں کہ یہ دین زمین کے سارے حصوں میں پھیل جائے گا، جہاں کہیں بھی رات اور دن کا وجود ہو گا وہاں اللہ تعالٰی ضرور باضرور اس دین کو پہنچا کر رہے گا، اور کوئی گھر شہر میں یا قریہ ودیہات میں اور صحرا اور وادیوں میں ایسا نہ ہوگا لیکن اس میں اسلام کو داخل کر دے گا، تو جس نے بھی اس دین کو قبول کیا اور اس پر ایمان لایا، وہ اسلام کی عزت کی وجہ سے عزیز ہوگا اور وہ شخص جس نے اسلام کے اپنانے سے انکار اور کفر کیا، تو وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔
تمیم داری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ باتیں جن کی خبر اللہ کے رسول ﷺ نے دی ہے خود اپنے خاندان میں ان کو جانا اور پہچانا ہے، یقیناً وہ لوگ جو ان میں سے مسلمان ہوئے انہیں بہت ساری بھلائی، عزت و مرتبہ ملا لیکن اُن میں سے جو لوگ کفر پر قائم رہے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو مال کی صورت میں خراج بھی دینا پڑتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11220

 
 
Hadith   1861   الحديث
الأهمية: عصابتان من أمتي أحرزهما الله من النار: عصابة تغزو الهند، وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم -عليهما السلام-


Tema:

میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے جہنم سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک گروہ وہ جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا۔

عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم مرفوعًا: «عِصابتان من أُمَّتي أحرزهما اللهُ من النار: عصابةٌ تغزو الهندَ، وعصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام».

رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنھیں اللہ نے جہنم سے محفوظ کردیا ہے؛ ایک گروہ وہ جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جماعتان من أمة محمد -صلى الله عليه وسلم- حفظهما الله من النار، جماعة تغزو بلاد الهند فتقاتل الكفار في سبيل الله، وجماعة تكون مع عيسى ابن مريم -عليه السلام- حينما ينزل آخر الزمان، بعد خروج الدجال، فيقتله عيسى -عليه السلام-.
605;حمد ﷺ کی امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنھیں اللہ نے جہنم سے محفوظ کر رکھا ہے؛ ایک گروہ وہ جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور اللہ کی راہ میں کفار سے جہاد کرے گا اور دوسرا گروہ وہ جو عیسی علیہ السلام کا ساتھ دے گا جب کہ وہ آخری زمانے میں دجال کے خروج کے بعد (آسمان سے) نازل ہوں گے اور اسے قتل کریں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11221

 
 
Hadith   1862   الحديث
الأهمية: لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا الترك: صغار الأعين، حمر الوجوه، ذلف الأنوف، كأن وجوههم المجان المطرقة، ولا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما نعالهم الشعر


Tema:

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک چھوٹی اور چپٹی ہو گی اوران کے چہرے ایسے ہوں گے کہ گویا چمڑا لگی ڈھال ہو، اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو، جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تقومُ الساعةُ حتى تُقاتلوا التُّرْكَ: صِغارَ الأَعين، حُمْرَ الوجوه، ذُلْفَ الأنوف، كأنَّ وجوهَهم المِجانُّ المُطْرَقة، ولا تقومُ الساعةُ حتى تقاتلوا قومًا نِعالُهم الشَّعر».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک چھوٹی اور چپٹی ہو گی اوران کے چہرے ایسے ہوں گے کہ گویا چمڑا لگی ڈھال ہو، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو، جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا تقوم الساعة حتى يقاتل المسلمون الترك، ومن صفتهم: أن أعينهم صغيرة، ووجوههم بيضاء مشربة بحمرة لغلبة البرد على أجسامهم، وأنوفهم قصيرة منبطحة، ووجوههم تشبه الترس في انبساطها وتدويرها، وتشبه المطرقة؛ لغلظها وكثرة لحمها، ولا تقوم الساعة حتى يقاتل المسلمون قوما يمشون في نعال من الشعر، وهم الترك أنفسهم، ولكنه ذكرهم بصفة أخرى.
602;یامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک مسلمان ترکوں سے جنگ نہ کرلیں، جن کا حلیہ یہ ہوگا کہ ان کی آنکھیں چھوٹی اور چہرے سرخی مائل سفید ہوں گے، کیوںکہ ان کے جسموں پر سردی کے اثرات کا غلبہ ہو گا اور ان کی ناک چھوٹی اور پھیلی ہوئی ہو گی اور ان کے چہرے پھیلاؤ اور گولائی میں ڈھال سے مشابہہ ہوں گے اور موٹاپے اور گوشت کی زیادتی کی وجہ سے چمڑے سے لپٹی ہوئی ڈھال کے طرح معلوم ہوں گے۔ اسی طرح قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک مسلمان ایک ایسی قوم سے نہ لڑ لیں جو بالوں کے جوتے پہنے گی۔ یہ بھی ترک ہی ہیں لیکن آپ ﷺ نے ان کا ذکر ایک اور صفت کے ساتھ کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11222

 
 
Hadith   1863   الحديث
الأهمية: لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا خوزا، وكرمان من الأعاجم: حمر الوجوه، فطس الأنوف، صغار الأعين، وجوههم المجان المطرقة، نعالهم الشعر


Tema:

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایرانیوں کے شہر خوز اور کرمان والوں سے جنگ نہ کر لو گے۔ چہرے ان کے سرخ ہوں گے۔ ناک چپٹی ہو گی۔ آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے اور ان کے جوتے بالوں والے ہوں گے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا: «لا تقوم الساعة حتى تُقاتِلوا خُوزًا وكِرْمان من الأعاجم، حُمْر الوجوه، فُطْس الأُنوف، صِغار الأعين، وجوههم المِجَانُّ المُطْرَقة، نعالهم الشعر».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایرانیوں کے شہر خوز اور کرمان والوں سے جنگ نہ کر لو گے۔ چہرے ان کے سرخ ہوں گے۔ ناک چپٹی ہو گی۔ آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے اور ان کے جوتے بالوں والے ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا تقوم الساعة حتى يقاتل المسلمون أهل خوز وكرمان من بلاد العجم، ومن صفتهم أن وجوههم بيضاء مشربة بحمرة؛ لغلبة البرد على أجسامهم، وأنوفهم منبطحة، وأعينهم صغيرة، ووجوههم تشبه الترس في انبساطها وتدويرها، وتشبه المطرقة لغلظها وكثرة لحمها، يمشون في نعال من الشعر.
602;یامت اس وقت تک نہ آئےگی جب تک کہ مسلمان بلادِ عجم (ایران) کے خوز اور کرمان کے لوگوں سے جنگ نہ کر لیں۔ ان کا حلیہ یہ ہوگا کہ ان کے چہرے، ان کےجسموں پر سردی کے غلبے کی وجہ سے، سفید سُرخی مائل ہوں گے، ان کی ناک چپٹی (بیٹھی ہوئی) اور آںکھیں چھوٹی ہوں گی، ان کے چہرے گولائی اور کشادگی میں ڈھال کی مانند ہوں گے۔ نیز موٹے اور زیادہ گوشت والے ہونے کی وجہ سے تہ بہ تہ چمڑے کی ڈھال کے مشابہ ہوں گے۔۔ وہ بالوں کی جوتیاں پہن کر چلیں گے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11223

 
 
Hadith   1864   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده ليأتين على الناس زمان لا يدري القاتل في أي شيء قتل، ولا يدري المقتول على أي شيء قتل


Tema:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے کس بنا پر قتل کیا اور مقتول کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس کا کس بنا پر قتل ہوا

عن أبي هريرة، قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «والذي نفسي بيده ليأتينَّ على الناس زمانٌ لا يدري القاتلُ في أيِّ شيء قَتَل، ولا يدري المقتولُ على أيِّ شيء قُتِل».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے کس بنا پر قتل کیا اور مقتول کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس کا کس بنا پر قتل ہوا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحلف النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله الذي يملك نفسه -صلى الله عليه وسلم- أنه سيأتي على الناس زمانٌ لا يدري القاتلُ لماذا قَتَل، ولا يدري المقتولُ لماذا قُتِل، وذلك لكثرة القتل.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی، جو آپ کی جان کا مالک ہے، قسم کھاکر بتایا ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قتل کی واردات بہت زیادہ بڑھ جائے گی، یہاں تک کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گيا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11227

 
 
Hadith   1865   الحديث
الأهمية: صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- إحدى صلاتي العشي -قال محمد: وأكثر ظني العصر- ركعتين، ثم سلم، ثم قام إلى خشبة في مقدم المسجد، فوضع يده عليها


Tema:

نبی ﷺ نے شام کی دو نمازوں میں سے ایک نماز – محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میرا غالب گمان ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی- دو رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرديا، پھر آپ ﷺ مسجد کے اگلے حصے میں نصب شدہ لکڑی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور اپنا ہاتھ اس پر رکھ لیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: صَلَّى النبي -صلى الله عليه وسلم- إِحْدَى صَلاَتَيِ العَشِيّ -قال محمد: وَأَكْثَرُ ظَنِّي العصر- رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثم قام إلى خَشَبَةٍ فِي مُقَدَّمِ المَسْجِدِ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا، وفيهم أبو بكر، وعمر -رضي الله عنهما-، فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ، وخرج سَرَعَانُ النَّاسِ فَقَالُوا: أَقَصُرَتِ الصلاة؟ وَرَجُلٌ يَدْعُوهُ النبي -صلى الله عليه وسلم- ذُو اليَدَيْنِ، فَقَالَ: أَنَسِيتَ أَمْ قَصُرَتْ؟ فَقَالَ: لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ، قَالَ: «بَلَى قَدْ نَسِيتَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، فكبر، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ».

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے شام کی دو نمازوں میں سے ایک نماز (محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میرا غالب گمان ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی) دو رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرديا، پھر آپ ﷺ مسجد کے اگلے حصے میں نصب شدہ لکڑی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور اپنا ہاتھ اس پر رکھ لیا۔ لوگوں میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے، لیکن وہ دونوں آپ ﷺ سے بات کرنے سے ڈرے، اور جلدباز لوگ (مسجد سے) باہر نکلے اور کہنے لگے: کیا نماز کم کردی گئی ھے؟ ان ميں ایک شخص جسے نبی ﷺ ذوالیدین کہتے تھے، اس نے کہا: (اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم) کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ھے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز ميں کمى كى گئی ہے۔ ذوالیدین نے کہا: كيوں نہیں، يقيناً آپ بھول گئے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر تکبیر کہہ كر اپنے معمول کے سجدوں کی طرح یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر كہی، پھر اپنا سر زمين پر ركها اور تکبیر كہی اور اپنے معمول کے سجدوں کی طرح یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر كہی۔'

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث الشريف ما على المصلي فعله إذا نسي وأنقص في صلاته؛ بأنه يكمل ما تبقى عليه ثم يسلم ثم يسجد سجدتين للسهو تجبر ما حصل، ويروي أبو هريرة، -رضى الله عنه-، أن النبي -صلى الله عليه وسلم-، صلى بأصحابه إما صلاة الظهر أو العصر، فلما صلى الركعتين الأوليين سلّم.
ولما كان -صلى الله عليه وسلم- كاملا، لا تطمئن نفسه إلا بالعمل التام، شعر بنقص وخلل، لا يدرى ما سببه.
فقام إلى خشبة في المسجد واتكأ عليها كأنه غضبان، وَشبَّك بين أصابعه، لأن نفسه الكبيرة تحس بأن هناك شيئا لم تستكمله.
وخرج المسرعون من المصلين من أبواب المسجد، وهم يتناجون بينهم، بأن أمراً حدث، وهو قصر الصلاة، وكأنهم أكبروا مقام النبوة أن يطرأ عليه النسيان.
ولهيبته -صلى الله عليه وسلم- في صدورهم لم يَجْرُؤ واحد منهم أن يفاتحه في هذا الموضوع، بما في ذلك أبو بكر، وعمر -رضي الله عنهما-.
إلا أن رجلا من الصحابة يقال له "ذو اليدين" قطع هذا الصمت بأن سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- بقوله: يا رسول الله، أنسيت أم قصرت الصلاة؟
فقال صلى الله عليه وسلم -بناء على ظنه-: لم أنس ولم تقصر.
حينئذ لما علم ذو اليدين -رضي الله عنه-  أن الصلاة لم تقصر، وكان متيقنا أنه لم يصلها إلا ركعتين، فعلم أنه -صلى الله عليه وسلم- قد نَسِيَ، فقال: بل نسيت.
فأراد -صلى الله عليه وسلم- أن يتأكد من صحة خبر ذي اليدين، فقال لمن حوله من أصحابه: أكما يقول ذو اليدين من أني لم أصل إلا ركعتين؟ فقالوا: نعم، حينئذ تقدم -صلى الله عليه وسلم-، فصلى ما ترك من الصلاة.
وبعد التشهد سلم ثم كبر وهو جالس، و سجد مثل سجود صُلْب الصلاة أو أطول، ثم رفع رأسه من السجود فكَبَّرَ، ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر، ثم سلم ولم يتشهد.
575;س حديث میں يہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر نمازی بھول کر اپنی نماز ميں کوئی کمی کر دے تو وہ کيا کرے؛ اسے چاہيے کہ وہ اپنی بقیہ نماز پوری کرے، پھر سلام پھیر دے، اس کے بعد سہو کے دو سجدے کرے، جو نماز ميں واقع ہونے والی کمی کو پورا کر دیں گے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ساتھيوں کو ظہر يا عصر کي نماز پڑهائی۔ جب آپ ﷺ نے پہلی دو رکعتیں پڑھ لیں تو سلام پھیر دیا۔ لیکن چونکہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم انسان کامل تھے، آپ کے دل کو صرف مکمل عمل ہی سے اطمئنان حاصل ہوتا تھا، آپ کو نماز ميں کچھ کمی وخلل کا احساس ہوا، ليکن آپ کو اس کا سبب معلوم نہ تھا۔ چنانچہ آپ بے قرار دل کے ساتھ مسجد میں نصب ایک لکڑی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور اس سے ٹيک لگا لیا، اور اپنے ایک ہاتھ کی انگليوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں ميں داخل کیا۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چيز رہ گئی ہے جس کو آپ نے مکمل نہيں کيا ہے۔ جلدباز نمازی مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور وہ آپس ميں سرگوشی کر رہے تھے کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے اور وہ یہ کہ نماز کم کردی گئی ہے، گويا کہ وہ يہ سمجھ رہے تھے کہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم پر نسیان نہيں طاری ہو سکتی۔ اور ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ عليہ وسم کی ہیبت کیوجہ سے کسی کی ہمت نہيں ہوئی کہ اس معاملہ میں آپ سے زبان کھولے، حالانکہ ان میں ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھيوں ميں ایک شخص، جسے لوگ ذوالیدین کہتے تھے، اس چپی کو توڑتے ہوئے عرض کيا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی؟ تو آپ ﷺ نے - اپنے گمان کے مطابق - فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔ اس وقت جب ذواليدين کو معلوم ہوگیا کہ نماز کم نہيں کی گئی ہے اور ان کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے صرف دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں، تو وہ سمجھ گئے کہ آپ ﷺ بھول گئے ہیں، لہٰذا انہوں نے کہا :بلکہ آپ بھول گئے ہيں۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ذو الیدین کی خبر کی صحت کی تاکید کے لیے اپنے ارد گرد موجود صحابہ سے پوچھا: کيا ذو اليدين جو کہہ رہے ہيں وہ سچ ہے کہ ميں نے صرف دو ہی رکعت نماز پڑھی ہے؟ صحابہ کرام نے جواب ديا: ہاں۔ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم آگے بڑھے اور جو نماز چھوٹ گئی تھی اسے پڑھی، اور تشہد کے بعد سلام پھیرا، پھر بيٹھے ہوئے تکبیر کہی اور اصل نماز کے سجدے کے مثل یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، پھر تکبیر کہی اور دوسرے سجدے کے مثل یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، پھر سلام پھیرا اور تشہد ميں نہيں بيٹھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11229

 
 
Hadith   1866   الحديث
الأهمية: إذا شك أحدكم في صلاته، فلم يدر كم صلى ثلاثا أم أربعا؟ فليطرح الشك وليبن على ما استيقن، ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم، فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته، وإن كان صلى إتماما لأربع؛ كانتا ترغيما للشيطان.


Tema:

جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار ؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر اعتماد کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت (چھ رکعتیں) کردیں گے اور اگر پوری چار رکعات پڑھی ہوں تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إذا شك أحَدُكم في صلاته، فلم يَدْرِ كم صلى ثلاثا أم أربعا؟ فَلْيَطْرَحِ الشك وَلْيَبْنِ على ما اسْتَيْقَنَ، ثم يسجد سجدتين قبل أن يُسَلِّمَ، فإن كان صلى خمسا شَفَعْنَ له صَلَاته، وإن كان صلى إِتْمَاماً لِأْرْبَعٍ؛ كانتا تَرْغِيمًا للشيطان».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار ؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت (چھ رکعتیں) کردیں گے اور اگر پوری چار رکعات پڑھی ہوں تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث الشريف كيفية التعامل مع الشكوك التي ترد للمسلم حال الصلاة، وذلك أن يبني على اليقين، فإن كان الشك في عدد الركعات فاليقين العدد الأقل، ثم يسجد سجدتين للسهو قبل السلام.
ففي الحديث عن أبي سعيد قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا شك أحدكم في صلاته" أي: تردد بلا رجحان فإنه مع الظن يبني عليه، "فلم يدر كم صلى ثلاثا أو أربعا؟" أي: مثلا "فليطرح الشك"، أي: ما يشك فيه وهو الركعة الرابعة "ولْيَبْنِ على ما استيقن" أي: علمه يقينا، وهو ثلاث ركعات.
قوله: "ثم يسجد سجدتين  قبل أن يسلم"، هذا الأفضل أن يكون السجود قبل السلام.
قوله: "فان كان صلى خمسا" تعليل للأمر بالسجود، أي: فإن كان ما صلاه في الواقع أربعا فصار خمسا بإضافته إليه ركعة أخرى، "شَفَعْنَ له صلاته"، أي: السجدتان تشفعان له الصلاة؛ لأنها بمقام ركعة، والصلاة التي يصليها في أصلها شفع وليست وتر؛ لأنها أربع ركعات على المثال المضروب في الحديث، وقوله: "وإن كان صلى إتماما لأربع"، إن كان صلى أربعا في الواقع فيكون قد أدى ما عليه من غير زيادة ولا نقصان.
قوله: "كانتا ترغيما للشيطان"، أي: وإن صارت صلاته بتلك الركعة أربعا كانتا، أي: السجدتان ترغيما، أي: إذلالا للشيطان، والله أعلم.
581;دیث شریف مسلمان کی اس حالت کو بیان کر رہی ہے جو دورانِ نماز شک ہوجانے پر وہ کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ یقین پر اپنے نماز کی بِنا کرے، اگر رکعات کی تعداد میں شک ہو تو کم عدد پر یقین کرکے سلام سے پہلے سہو کے دوسجدے کر لے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے“ یعنی بغیر کسی ترجیح کے جب تردد میں پڑ جائے تو وہ غالب گمان کے مطابق بِنا کرے گا، مثال کے طور پر اسے رکعات کی تعداد معلوم نہ ہو کہ تین رکعتیں ہوئی ہیں یا چار، ”شک کو چھوڑ دو“ یعنی چوتھی رکعت کے ہونے اور نہ ہونے میں شک ہے، ”اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے“ یعنی تین رکعات جن کا اسے یقینی علم ہے اس پر باقی نماز پڑھے۔”پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے“ یہ افضل ہے کہ سجدے سلام سے پہلے ہوں۔
”اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں“ اس میں دو سجدوں کی علت بیان کی گئی ہے یعنی اگر اس نے حقیقت میں چار رکعات پڑھی ہیں تو ایک رکعت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے وہ پانچ رکعات ہوگئی اوردو سجدے چونکہ ایک رکعت کے قائم مقام ہیں اس لیے اس کی نماز کے رکعات کی تعداد جفت ہوگئی اور اس کی نماز اصل میں جفت ہے طاق نہیں۔اس لیے کہ حدیث میں مذکور مثال میں چار رکعات بیان کی گئی ہیں۔"وإن كان صلى إتماما لأربع" یعنی درحقیقت اگر نماز اس نے چار رکعات پڑھی ہوں تو بغیر کسی زیادتی اور نقصان کے اس نے اپنی نماز ادا کرلی۔
”تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے“ یعنی اگر اس کی نماز اصل میں چار رکعات ہے تو دو سجدے شیطان کی ذلّت کا باعث بنیں گے۔ والله أعلم۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11231

 
 
Hadith   1867   الحديث
الأهمية: إنه لو حدث في الصلاة شيء لنبأتكم به، ولكن إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وإذا شك أحدكم في صلاته، فليتحر الصواب فليتم عليه، ثم ليسلم، ثم يسجد سجدتين


Tema:

اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دِلا دیا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائےتو سوچ کر درست کیا ہے، اُسے معلوم کرے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر (سہو کے ) دو سجدے کر لے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- -قال إبراهيم: لا أدري زاد أو نقص- فلما سلم قيل له: يا رسول الله، أحَدَثَ في الصلاة شيء؟ قال: «وما ذاك»، قالوا: صليتَ كذا وكذا، فَثَنَّى رِجليْهِ، واستقبل القبلة، وسَجَدَ سجدتين، ثم سلم، فلما أقبل علينا بوجهه، قال: «إنه لو حَدَثَ في الصلاة شيءٌ لنَبَّأَتُكُم به، ولكن إنما أنا بَشَرٌ مثلكم، أنسى كما تَنْسَوْن، فإذا نسَيِتُ فذَكِّرُوني، وإذا شَكَّ أحدكم في صلاته، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فليُتِمَّ عليه، ثم ليسلم، ثم يسجد سجدتين».

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ:نبی ﷺ نے نماز پڑھائی، -ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی- پھر جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ ﷺ نے کہا:آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں۔اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دِلا دیا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائےتو سوچ کر درست کیا ہے، اسے معلوم کرے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر (سہو کے) دو سجدے کر لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث الشريف  أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلى بهم صلاة زاد فيها أو نقص، فسأله الصحابة هل حدث في الصلاة تغيير؟ فأخبرهم بأنه لو حدث فيها شيء لأخبرهم، ثم ذكر أنه بشر مثلنا ينسى لزيادته في الصلاة أو نقصانه، ثم ذكر الحكم فيمن زاد أو نقص في الصلاة ناسياً ثم ذكر أن يتحقق من عدد الركعات ثم يتم إن كان فيها نقص أو يسجد سجدتين للسهو ثم يسلم منهما.
575;س حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو نماز پڑھائی اس میں کمی بیشی ہو گئی۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا نماز میں کسی تبدیلی کا حکم آ گیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا پھر انھیں بتایا کہ وہ بھی ان جیسے انسان ہیں اور نماز میں کمی بیشی کے اعتبار سے بھول سکتے ہیں۔ پھر یہ حکم بیان کیا کہ جو شخص بھول کر نماز میں کمی بیشی کر بیٹھے تو پھر ادا شدہ عدد رکعات کو یقینی کر لے اور اگر اس میں نقص آ گیا ہے تو اس کے مطابق نماز پوری کرے اور سہو کے دو سجدے کرکے سلام پھیر دے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11232

 
 
Hadith   1868   الحديث
الأهمية: صلى بنا المغيرة بن شعبة فنهض في الركعتين، قلنا: سبحان الله، قال: سبحان الله ومضى، فلما أتم صلاته وسلم، سجد سجدتي السهو، فلما انصرف، قال: رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصنع كما صنعت


Tema:

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، تو وہ دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے۔ ہم نے ”سبحان اللہ“ کہا، تو انھوں نے بھی ”سبحان اللہ“ کہا اور کھڑے رہے۔ جب نماز پوری کر لی اور سلام پھیر لیا، تو سہو کے دو سجدے کیے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ویسا ہی کیا تھا جیسا میں نے کیا ہے۔

عن زياد بن علاقة قال: صَلَّى بِنَا المغيرة بنُ شُعْبَةَ فَنَهَضَ في الركعتين، قلنا: سبحان الله، قال: سبحان الله وَمَضَى، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ، سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: «رَأَيْتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَصْنَعُ كَمَا صَنَعْتُ».

زیاد بن علاقہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، تو وہ دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے۔ ہم نے ”سبحان اللہ“ کہا، تو انھوں نے بھی ”سبحان اللہ“ کہا اور کھڑے رہے۔ جب نماز پوری کر لی اور سلام پھیر لیا، تو سہو کے دو سجدے کیے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے، تو کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ویسا ہی کیا تھا، جیسا میں نے کیا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث من فعل المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- أنه سها في صلاته، فلم يتشهد وسبح خلفه الناس ففطن، ولكنه أكمل صلاته، وبعد السلام سجد سجدتين للسهو؛ وعزا فعله ذاك لفعل الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
الأصح أن سجود السهو يكون قبل السلام؛ لحديث عبد الله بن مالك ابن بحينة، متفق عليه.
575;س حدیث میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ (ایک مرتبہ) نماز میں (کچھ) بھول گئے، ان کے پیچھے موجود مقتدیوں نے ”سبحان اللہ“ کہا، وہ سمجھ تو گئے، لیکن نماز مکمل کر لی اور سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے۔ اور اپنے اس فعل کی نسبت رسول اللہ ﷺ کے فعل کی طرف کی۔
لیکن صحیح یہ ہے کہ سجدۂ سہو سلام سے پہلے ہے، جیسا کہ عبداللہ بن مالک بن بحینہ کی روایت میں ہے۔ (متفق علیہ)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11234

 
 
Hadith   1869   الحديث
الأهمية: لكل سهو سجدتان بعدما يسلم


Tema:

(نماز میں) ہر سہو (بھول چوک) پر سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں۔

عن ثوبان -رضي الله عنه-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لكل سهو سجدتان بعدما يُسَلِّمُ».

ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”(نماز میں) ہر سہو (بھول چوک) پر سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المراد بذلك: أن أي سهو يقع في الصلاة بزيادة، أو نقص، أو شك؛ فإنه يوجب سجود السهو، والحديث من أدلة من يرى أن سجود السهو بعد السلام؛ والجمع بين الأدلة في هذا الباب يقتضي أن السجود الذي بعد السلام في حالتين: إذا سلم عن نقص، وإذا شك وبنى على غالب ظنه، وما عاداهما يكون قبل السلام.
575;س سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی سہو نماز میں ہو جائے زیادتی، کمی یا شک کی صورت میں تو اس پر سجدۂ سہو کرنا واجب ہے، یہ حدیث ان لوگوں کے دلائل میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد ہے۔ اس مسئلہ میں تمام دلیلوں کے درمیان جمع کی صورت یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو دو صورتوں میں ہے: پہلی صورت جب اس نے سلام پھیرا دیا جب کہ اس نماز میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ دوسری صورت جب اسے شک ہوا اور غالب گمان کا خیال کرتے ہوئے مکمل کیا ان دو صورتوں کے علاوہ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہو گا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11236

 
 
Hadith   1870   الحديث
الأهمية: أن أبا هريرة قرأ لهم: إذا السماء انشقت فسجد فيها، فلما انصرف أخبرهم أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سجد فيها


Tema:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے سورہ ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا، پھر جب سلام پھیرا تو انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سورت میں سجدہ کیا تھا۔

عن أبي رافع أن أبا هريرة -رضي الله عنه- قرأ لهم: «إذا السماء انْشَقَّتْ» فسجد فيها، فلما انصَرَفَ أخبرهم أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سجد فيها.

ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے سورہ ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا، پھر جب سلام پھیرا تو انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سورت میں سجدہ کیا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر  أبو هريرة -رضي الله عنه- أنه  قرأ سورة الانشقاق، فسجد فيها عند قوله تعالى: (وإذا قُرِىءَ عليهم القرآن لا يسجدون).
"فقيل له في ذلك" أي: فأنْكَر عليه أبو رافع -رضي الله عنه- السجود فيها، كما في رواية أخرى عن أبي رافع -رضي الله عنه-، قال: "فقلت ما هذه السجدة؟" وإنما أنكر عليه لما روي عنه -صلى الله عليه وسلم- أنّه لم يسجد في المفصل منذ تحوله إلى المدينة.
فقال أبو هريرة -رضي الله عنه-: "لو لم أر النبي -صلى الله عليه وسلم- يسجد لم أسجد" أي وإنما سجدت اقتداءً به -صلى الله عليه وسلم-.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سورہ انشقاق پڑھی اور جب اس آیت پر پہنچے ﴿وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩﴾ تو سجدہ کیا ۔تو اس پر ان پر اعتراض کیا گیا۔ یعنی ابو رافع رضی اللہ عنہ نے اس سورہ میں سجدہ (تلاوت) سے اختلاف کیا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابو رافع نے کہا ”میں نے سوال کیا کہ یہ کس بات کا سجدہ ہے؟“ اورانھوں نے ان کا اس لیے انکار کیا کیونکہ رسول ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے مدینہ آنے کے بعد مفصلات میں سجدہ نہیں کیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو سجدہ کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی نہ کرتا۔ یعنی میں نے صرف رسول اللہﷺ کی پیروی کرتے ہوئے سجدہ کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11237

 
 
Hadith   1871   الحديث
الأهمية: ص ليس من عزائم السجود، وقد رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يسجد فيها


Tema:

سورۃ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے حالانکہ میں نے یہاں نبی ﷺ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: «ص ليس من عَزَائِمِ السُّجود، وقد رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يَسجد فيها».

ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں: سورۃ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے حالانکہ میں نے یہاں نبی ﷺ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى حديث: "ص ليس من عَزَائِمِ السُّجود" أن سجدة التلاوة التي في سورة ص سنة غير واجبة؛ لأنه لم يرد فيها أَمر على تأكيد فعلها، بل الوارد بصيغة الإخبار؛ بأنَّ داود -عليه الصلاة والسلام- فعلها توبة لله -تعالى-، وسَجَدَها نبيُّنَا -صلى الله عليه وسلم- شكرا؛ لمَّا أنْعَم اللَّهُ على داودَ -عليه الصلاة والسلام- بالغُفْرَان، ويدل له ما رواه النسائي، أنَّه -صلى الله عليه وسلم- قال: (سجدها داود توبة، ونسْجُدها شكرًا).

Esin Hadith Caption Urdu


”سورہ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ سورہ ص میں جو سجدۂ تلاوت ہے وہ واجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے کرنے پر کوئی تاکیدی حکم وارد نہیں ہوا، بلکہ خبر دینے کے الفاظ میں اس کا کرنا وارد ہوا ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہوئے یہ سجدہ فرمایا تھا، جب اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول کرکے ان کی مغفرت کے ذریعے ان پر انعام فرمایا تو آپ ﷺ نے شکریہ کے طور پر یہ سجدہ ادا فرمایا۔ سنن نسائی کی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”سَجَدَهَا دَاوُدُ تَوْبَةً وَنَسْجُدُهَا شُكْرًا“ یعنی ”داود علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11238

 
 
Hadith   1872   الحديث
الأهمية: قرأت على النبي -صلى الله عليه وسلم- والنجم فلم يسجد فيها


Tema:

میں نے آپ ﷺ کے سامنے سورۃ النجم پڑھی، آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

عن زيد بن ثابت -رضي الله عنه- قال: «قَرأت على النبي -صلى الله عليه وسلم- والنَّجم فلم يسجد فيها».

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے سامنے سورۃ النجم پڑھی، آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن زيد بن ثابت -رضي الله عنه- قرأ على النبي -صلى الله عليه وسلم- سورة النَّجم، فلما مَرَّ بآية السجود لم يسجد فيها.
وترك السجود فيها في هذه الحالة لا يدل على تركه مطلقا؛ لاحتمال أن يكون السبب في الترك إذ ذاك لبيان الجواز، وهذا أرجح الاحتمالات وبه جزم الشافعي؛ لأنه لو كان واجبا لأمره بالسجود ولو بعد ذلك.
586;ید بن ثابت رضی اللہ نے آپ ﷺ کے سامنے سورۃ النجم پڑھی، جب سجدے کی آیت پر گزرے تو آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا۔
یہاں پر سجدہ نہ کرنا اس بات پر دلیل نہیں کہ آپ نے مطلقاً سجدہ نہیں کیا، اس لیے کہ ممکن ہے یہ بیانِ جواز کے لیے ہو۔ یہ سب سے راجح احتمال ہے۔ اسی کو امام شافعی رحمہ اللہ نے یقین سےفرمایا ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ واجب ہوتا تو آپ اسے کرنے کا حکم دیتے، اگرچہ بعد میں دیتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11240

 
 
Hadith   1873   الحديث
الأهمية: قلت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أفي سورة الحج سجدتان؟ قال: نعم، ومن لم يسجدهما، فلا يقرأهما


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ: کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: ہاں، اور جو ان دو سجدوں کو نہیں کرنا چاہتا اسے چاہیے کہ وہ ان دو آیات کو نہ پڑھے (جن میں یہ دونوں سجدے آئے ہیں)۔

عن عُقْبَة بن عامر -رضي الله عنه- قال: قلت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أفِي سورة الحج سَجدَتَان؟ قال: «نعم، ومن لم يَسْجُدْهما؛ فلا يَقْرَأْهما».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ: کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: ہاں، اور جو ان دو سجدوں کو نہیں کرنا چاہتا اسے چاہیے کہ وہ ان دو آیات کو نہ پڑھے (جن میں یہ دونوں سجدے آئے ہیں)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث: يسأل عُقبة بن عامر -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- ويَستفهم منه عن سورة الحج، أفيها سجدتان؟ فأجابه النبي -صلى الله عليه وسلم- بنعم، فيهما سجدتان.
ثم زاده حكما آخر، وهو: "ومن لم يَسجدهما فلا يَقرأهما" أي: من أتى على هاتين الآيتين، ولم يُرد السُّجود فيهما فلا يقرأهما، وهذا النهي ليس للتحريم ولكنه للكراهة، وسجود التلاوة سُنة.
575;س حدیث میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے سوال کررہے ہیں اور آپ ﷺ سے سورة الحج کے بارے دریافت کر رہے ہیں کہ کیا اس میں دو سجدے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: ہاں، اس میں دو سجدے ہیں۔
پھر آپ ﷺ نے انہیں ایک اور حکم بیان فرمایا کہ جو شخص ان دونوں سجدوں کو نہیں کرنا چاہتا تو وہ ان دونوں آیات کو نہ پڑھے۔ یعنی جو شخص ان دونوں آیات تک پہنچے اور وہ ان میں سجدے نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ انہیں نہ پڑھے۔ یہ ممانعت تحریم کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ کراہت و ناپسندیدگی کے لیے ہے۔ اور سجدہ تلاوت کرنا سنت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11241

 
 
Hadith   1874   الحديث
الأهمية: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قرأ يوم الجمعة على المنبر بسورة النحل حتى إذا جاء السجدة نزل، فسجد وسجد الناس


Tema:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی جب سجدہ کی آیت آئى تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔

عن رَبيعة بن عبد الله بن الهُدَيْر التَّيْمِيِّ: أن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-، قرأ يوم الجمعة على المِنْبَر بسورة النَّحل حتى إذا جاء السَّجدة نَزل، فسجد وسجد الناس حتى إذا كانت الجمعة القَابِلة قَرأ بها، حتى إذا جاء السَّجدة، قال: «يا أيُّها الناس إنا نَمُرُّ بالسُّجود، فمن سجد، فقد أصاب ومن لم يسجد، فلا إثم عليه ولم يَسجد عمر -رضي الله عنه-» وفي رواية: «إن الله لم يَفرض السُّجود إلا أن نشاء».

ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی، جب سجدہ کی آیت آئی تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت آئى تو کہنے لگے: ”اے لوگو ! یقیناً ہم آیاتِ سجود سے گزرتے ہیں تو جس نے سجدہٌ تلاوت کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں“، عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا۔ اورایک روایت میں ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ نے سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا، البتہ اگر قاری چاہے (تو کر لے)۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: "أن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-، قرأ يوم الجمعة على المِنْبَر بسورة النَّحل حتى إذا جاء السَّجدة "
عند قوله تعالى: {وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ * يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} [النحل: 49، 50]
"نَزل، فسجد وسجد الناس" نزل من على المِنْبَر وسجد على الأرض وسجد الناس معه.
"حتى إذا كانت الجمعة القَابِلة قَرأ بها" أي: بسورة النَّحل، "حتى إذا جاء السَّجدة" أي: حتى إذا قرأ الآية التي فيها سجدة، وتأهب الناس للسجود لم يُسجد -رضي الله عنه-، ومنعهم من السُّجود كما في رواية الموطأ : "فتَهيَّأ الناس للسجود فقال على رِسْلِكم إن الله لم يكتبها علينا إلا أن نَشاء فلم يسجد ومنعهم أن يسجدوا"
ثم قال -رضي الله عنه-: "يا أيُّها الناس إنا نَمُرُّ بالسُّجود، فمن سَجد، فقد أصاب ومن لم يسجد، فلا إثم عليه" يعني: نَمُرُّ بالآيات التي فيها سَجدة، فمن سَجد فيها فقد أصاب السُّنة ومن لم يسجد فلا إثم عليه.


 "ولم يسجد عمر -رضي الله عنه-" لبيان أن سجود التِّلاوة ليس واجبا.
وفي رواية: «إن الله لم يَفرض السُّجود إلا أن نشاء» أي : لم يوجبه علينا إلا إن شِئنا السُّجود سجدنا وإن لم نشأ لم نَسجد. وفي رواية: "يا أيُّها الناس، إنا لم نُؤمر بالسُّجود" فالحاصل: أن هذا الأثر من أمير المؤمنين قاله في خطبة الجمعة، أمام الصحابة كلهم، فلم يُنكر عليه أحد منهم؛ فدلَّ على عدم المعارضة، فحينئذٍ يكون قول الصحابي حجة، لاسيما الخليفة الرَّاشد، الذي هو أولى باتباع السُّنة، وبحضور جميع الصحابة، فيكون إجماعًا.
581;دیث کا مفہوم یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی۔ جب سجدہ کی اس آیت: ﴿وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَايَسْتَكْبِرُونَ، يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾} ”یقینا آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں“۔ (سورہ نحل: 49-50) پر پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا، اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا، یعنی منبر پر سے اترے اورزمین پر سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ زمین پرسجدہ کیا۔
پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو اس کی تلاوت کی، یعنی سورۃ النحل کی تلاوت کی اور جب سجدہ پر پہنچے، یعنی جب سجدہ کی آیت پڑھی اور لوگ سجدے کے لئے تیار ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیا جیسا کہ مؤطا کی روایت میں ہے کہ: لوگ سجدے کے لئے تیار ہو گئے عمر رضی اللہ عنہ نےکہا تم اپنی اپنی حالت پر برقرار رہو، اللہ تعالیٰ نے اسے ہم پر فرض نہیں کیا ہے مگر یہ کہ ہم (از خود سجدہ کرنا) چاہیں اور انہوں نے سجدہ نہیں کیا اور لوگوں کو بھی سجدہ کرنے سے روک دیا
پھر عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: اے لوگو ! جب ہمارا گزر سجدہ کی آیت پر سے ہو تو پھر جس نے سجدہ کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
یعنی ہم سجدہ کی آیات کو پڑھتے ہیں تو جو کوئی سجدہ کرے اس نے سنت کو پا لیا اور جو سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا، اس چیز کو بیان کرنے کے لئے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے سجدہ فرض نہیں کیا مگر جب ہم چاہیں، یعنی اس کو ہمارےاوپر واجب نہیں کیا مگر یہ کہ ہم سجدہ کرنا چاہیں تو کریں اور اگر ہم نہ کرنا چاہیں تو سجدہ نہ کریں۔
اورایک روایت میں ہے: اے لوگو! ہمیں سجدہ کا حکم نہیں دیا گیا ہے
تو خلاصہ یہ ہے کہ یہ اثر امیرالمؤمنین سے منقول ہے جسے انہوں نے دورانِ خطبہ تمام صحابہ کی موجودگی میں کہا تھا اور ان میں سے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ چناں چہ یہ عدم مخالفت پر دلالت کرتا ہے اور ایسی صورت میں صحابی کا قول حجت ہوگا، بالخصوص جب وہ صحابی خلیفہ راشد ہوں جو کہ سنت کی اتباع کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، اور چوں کہ یہ صحابہ کی موجودگی میں ہوا اس لیے یہ اجماع قرار پائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11242

 
 
Hadith   1875   الحديث
الأهمية: إذا جاءه أمرُ سرورٍ أو بُشِّر به خَرَّ ساجدًا شاكرًا لله


Tema:

آپ ﷺ کو جب کوئی خوش کن بات پیش آتی ہے یا پھر کوئی خوش خبری سنائی جاتی تو آپ ﷺ اللہ کے شکر میں سجدہ ریز ہو جاتے۔

عن أبي بكرة، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه كان «إذا جاءه أمرُ سرورٍ، أو بُشِّرَ به خَرَّ ساجدًا شاكرًا لله».

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کو جب کوئی باعثِ مسرت چیز پیش آتی ہے یا پھر کوئی خوش خبری سنائی جاتی تو آپ ﷺ اللہ کے شکر میں سجدہ ریز ہو جاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث الشريف فعل النبي -صلى الله عليه وسلم- كلما جاءه أمر يسره أو بشارة بشيء حسن؛ أنه كان يخر ساجداً سجود شكر لله -تعالى-.
سجود الشكر شرع عند النعم المتجددة، أما النعم المستمرة كنعمة الإسلام ونعمة العافية والغنى عن الناس ونحو ذلك فهذه لا يشرع السجود لها؛ لأن نعم الله دائمة لا تنقطع، فلو شرع السجود لذلك لاستغرق الإنسان عمره في السجود، وإنما يكون شكر هذه النعم وغيرهما بالعبادة والطاعة لله -تعالى-.
740;ہ حدیث شریف نبی ﷺ کے فعل کو بیان کر رہی ہے کہ جب بھی آپ ﷺ کو کوئی باعثِ مسرت امر پیش آتا یا پھر کسی اچھی بات کی بشارت دی جاتی تو آپ ﷺ اللہ کے شکر میں سجدہ ریز ہو جاتے۔سجدۂ شکر ایسی نعمتوں کے لیے مشروع ہے جو نئی نئی حاصل ہوئی ہوں۔ ایسی نعمتیں جو ہمہ وقت جاری رہتی ہیں جیسے اسلام، عافیت اور لوگوں سے بے نیازی کی نعمتیں تو ان میں سجدہ شکر کرنا مشروع نہیں کیونکہ اللہ کی نعمتیں تو ہمیشہ جاری رہتی ہیں اور ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ اگر ان کے لیے سجدہ بجا لانا مشروع کر دیا جاتا تو پھر تو انسان اپنی ساری عمر سجدے میں ہی لگا دیتا۔ ان (ہمہ وقت جاری رہنے والی) نعمتوں پر اور ان کے علاوہ دیگر نعمتوں پر شکر بجا لانے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرماں برداری کی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11244

 
 
Hadith   1876   الحديث
الأهمية: إن جبريل -عليه السلام-، أتاني فَبَشَّرَنِي ، فقال: إن الله -عز وجل- يقول: من صلى عليك صليت عليه، ومن سلم عليك سلمت عليه، فسجدت لله -عز وجل- شكرًا


Tema:

جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے یہ خوشخبری دی کہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا ۔تو میں نے اللہ عزوجل کے لیے شکرانے کا سجدہ کیا۔

عن عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- قال: خرج رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فتوجه نحو صدقته فدخل، فاستقبل القبلة فَخَرَّ ساجداً، فأطال السجود حتى ظننت أن الله -عز وجل- قبض نفسه فيها، فَدَنَوْتُ منه، ثم جلستُ فرفع رأسه، فقال: من هذا؟ قلت عبد الرحمن، قال: ما شأنك؟ قلت: يا رسول الله سجدت سجدة خشيت أن يكون الله عز وجل قد قَبَضَ نَفْسَكَ فيها، فقال: إن جبريل -عليه السلام-، أتاني فَبَشَّرَنِي ، فقال: إن الله -عز وجل- يقول: من صلى عليك صَلَّيْتُ عليه، ومن سلم عليك سَلَّمْتُ عليه، فسجدت لله -عز وجل- شكراً.

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ گھر سے نکلے،اور صدقہ کے لیے متوجہ ہوئے،پھر (مسجد میں) داخل ہوئے، اور قبلہ رو ہو ئے اور سجدہ میں چلے گئے۔ آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے گمان ہوا کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح ہی قبض نہ کر لی ہو۔ میں آپ کے قریب ہو کر بیٹھ گیا تو آپ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا عبدالرحمٰن! آپ نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ کے رسول (ﷺ) آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے ڈر پیدا ہو گیا کہ کہیں اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے یہ خوشخبری دی کہ: اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جو بھی آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔ تو میں نے اللہ کے لیے شکرانے کا سجدہ کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث الشريف مشروعية سجود الشكر عند تجدد النعم وسماع الأخبار السارة والمبشرات كما حصل مع النبي -صلى الله عليه وسلم- حيث كان في صلاة وجاءه جبريل -عليه السلام- فبشره بأن من صلى عليه من أمته صلى الله عليه وكذلك حال من سلم عليه، كما أنه من السنة الإطالة في سجود الشكر لفعله -صلى الله عليه وسلم- حيث إن الصحابة -رضوان الله عليهم- شكوا في أن يكون قد مات.
575;س حدیث شریف میں نعمت کے حصول پر یا کوئی خوش کن یا اچھی خبر ملنے پر سجدۂ شکر کی مشروعیت کو بیان کیا جا رہا ہے جیسا کہ رسو ل اللہﷺ نماز میں تھے اور جبریل علیہ السلام ان کے پاس تشریف لائے اور یہ خوشخبری دی کہ آپ کی امت میں سے جو بھی آپ پر درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت بھیجے گا اور یہی حال اس شخص کے لیے ہے جو آپ پر سلام بھیجے گا۔ اور یہ بھی سنت ہے کہ سجدۂ شکر لمبا کیا جائے جیسا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ صحابہ کو یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں آپ فوت ہی نہ ہو گیے ہوں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11245

 
 
Hadith   1877   الحديث
الأهمية: بعث النبي -صلى الله عليه وسلم- خالد بن الوليد إلى أهل اليمن يدعوهم إلى الإسلام فلم يجيبوه، ثم إن النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث علي بن أبي طالب


Tema:

نبی ﷺ نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے یمن بھیجا، مگر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا، پھر نبی ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو وہاں بھیجا۔

عن البراء  -رضي الله عنه- قال: بعث النبي -صلى الله عليه وسلم- خالد بن الوليد إلى أهل اليمن يَدْعُوهُمْ إلى الإسلام فَلَمْ يُجِيبُوهُ، ثم إنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث علي بن أبي طالب، وأمره أن يَقْفُلَ خالد ومن كان معه إلا رجل ممن كان مع خالد أحب أن يُعَقِّبَ مع علي -رضي الله عنه- فَلْيُعَقِّبْ معه قال البراء فَكُنْتُ مِمَّنْ عَقَّبَ مَعَهُ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ القوم خرجوا إلينا فصلى بنا عليٌّ -رضي الله عنه- وَصَفَّنَا صَفًّا واحدا، ثم تقدَّم بين أيدينا، فقرأ عليهم كتاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فَأَسْلَمَتْ هَمْدَانُ جَمِيعًا، فكتب علي -رضي الله عنه- إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بإسلامهم، فلمَّا قرأ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الكتاب خَرَّ ساجدا، ثم رفع رأسه، فقال: السَّلَامُ عَلَى هَمْدَانَ، السلامُ على هَمْدَانَ.

براء رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے یمن بھیجا، مگر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا، پھر نبی ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو وہاں بھیجا، اور اس بات كا حکم دیا کہ خالد بن ولید رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی واپس لوٹ آئیں الا یہ کہ کوئی ان میں سے علی رضی الله عنہ کے ساتھ وہاں رکنا چاہے تو وہ رک سکتا ہے۔چناں چہ براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علی رضی الله عنہ کے ساتھ ٹھہر گئے. جب ہم اہل یمن کے بالکل نزدیک پہنچے تو وہ بھی نکل کر ہمارے سامنے آگئے، علی رضی الله عنہ نے آگے بڑھ کر ہمیں نماز پڑھائی پھر انہوں نے ہماری ایک صف بنائی اور ہم سے آگے کھڑے ہوکر ان کو نبی ﷺ کا خط پڑھ کر سنایا، چناں چہ قبیلہ ھمدان کےسارے ہی لوگ مسلمان ہوگیے، علی رضی الله عنہ نے نبی ﷺ کی خدمت میں قبیلہ ھمدان کے مسلمان ہونے (کی خوش خبری) کا خط بھیجا۔ جب نبی ﷺ نے وہ خط پڑھا تو (اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہوئے) فوراً سجدہ میں گر گئے. پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھا کر قبیلہ ھمدان کو دعا دی کہ ھمدان پر سلامتی ہو، ھمدان پر سلامتی ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يخر ساجداً شكراً لله كلما جاءه أمر يسره، ومن ذلك ما حدث مع علي -رضي الله عنه- حينما أرسله النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى اليمن ليدعوهم بعد أن أبوا أن يسلموا على يد خالد بن الوليد -رضي الله عنه-، فلما دعاهم علي أسلمت همدان كلها فكتب بذلك إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فخر ساجداً؛ شكراً لله -تعالى-.
581;دیث مذکور میں اس بات کا بیان ہےکہ نبی ﷺ کو جب کبھی کوئی خوشی حاصل ہوتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فوراً سجدہ ریز ہو جاتے، اسی سلسلے کا ایک واقعہ وہ بھی ہے جو علی رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آیا، جب اہل یمن نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لانے سے انکار کردیا تو نبی ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دینے کے لیے یمن بھیجا اور علی رضی الله عنہ نے جب انہیں اسلام کی دعوت دی تو قبیلہ ھمدان کے سارے ہی لوگ مسلمان ہو گیے، پھر انہوں نے نبی صلی الله علیہ والہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ ھمدان کے مسلمان ہونے کی خوش خبری کا خط بھیجا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فورا ًسجدہ میں گر گئے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11246

 
 
Hadith   1878   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يصلي ركعتين خفيفتين بعد ما يطلع الفجر


Tema:

نبی کریم ﷺ فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے۔

عن حفصة -رضي الله عنها- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يُصلي ركعتين خَفيفتين بعد ما يَطلع الفجر»، وفي رواية: قبل أن تُقام الصلاة.

اُمّ المؤمنىن حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں (سنتِ فجر) پڑھتے.
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ”قَبْلَ أنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ“ یعنی نماز کا اقامت ہونے سے پہلے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر حفصة -رضي الله عنها- في هذا الحديث عن حاله -صلى الله عليه وسلم- وأنه كان يُصلي ركعتين، وهي راتبة الفجر، ولا يَزيد عليهما؛ لما رواه مسلم من حديث حفصة -رضي الله عنها- أنها قالت: (إذا طلع الفجر، لا يصلي إلا ركعتين خَفيفتين).
وقولها في هذا الحديث "خَفيفتين" تعني: يخفف في القيام والرُّكوع والسُّجود، ومن شِدَّةِ تخفيفه -صلى الله عليه وسلم- تقول عائشة -رضي الله عنها- كما في البخاري: "هل قرأ بأم الكتاب؟" وفي رواية في الموطأ: "إن كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ليُخفف ركعتي الفجر، حتى إني لأقول: أقرأ بأم القرآن أم لا؟" وليس معنى هذا أنه كان -صلى الله عليه وسلم- يُسرع فيهما بحيث يخل بأركانها، من القيام والرُّكوع والسُّجود، والمعنى الصحيح: أنه -صلى الله عليه وسلم- كان يخففهما مقارنة ببقية التطوعات، التي عُهد عنه الإطالة فيها.
"بعد ما يَطلع الفجر" تعني: إذا طلع الفجر بَادر بهاتين الركعتين"قبل أن تُقام الصلاة" وهذا يعني أن وقت ركعتي الفَجر من وقت طلوع الفجر إلى صلاة الصُّبح.
575;س حدیث میں اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی کیفیت بتا رہی ہیں کہ آپ دو رکعات پڑھتے تھے، یہ فجر کی دو رکعت سنتِ مؤکدہ ہیں، اس سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ صحیح مسلم میں حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فجر طلوع ہوتی تو آپ ﷺ مختصر سی دو رکعات پڑھتے تھے۔
حدیث میں جو ”خَفيفتين“ فرمایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ قیام، رکوع اور سجود میں اختصار فرماتے، بہت زیادہ مختصر ہونے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا بخاری کی روایت میں فرماتی ہے ”هل قرأ بأمُّ الكتاب؟“ کہ آپ نے فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں؟ مؤطّا کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ فجر کی دو رکعتیں ہلکی پڑھتے تھے، یہاں تک کہ میں کہتی آپ فاتحہ پڑھتے ہیں بھی یا نہیں؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس میں اتنی جلدی کرتے تھے کہ نماز کے ارکان قیام، رکوع اور سجود میں خلل پڑتا۔ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ باقی نفلی عبادات جن کو طویل کرنے کی آپ کو عادت تھی ان کی بنسبت اسے مختصر پڑھتے تھے۔
”بَعْدَ ما يَطْلُعُ الفَجْرُ“ یعنی طلوعِ فجر کے بعد ان دو رکعات کے پڑھنے میں جلدی کرتے تھے۔ ”قَبْلَ أنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ“ یعنی فجر کی دو رکعت سنت پڑھنے کا وقت طلوع فجر سے لے کر فجر کی فرض نماز تک ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 11248

 
 
Hadith   1879   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان لا يدع أربعًا قبل الظهر وركعتين قبل الغداة


Tema:

نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات نہیں چھوڑتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان لا يَدع أربعا قَبل الظهر وركعتين قبل الغَدَاة.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات نہیں چھوڑتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يُداوم ويحافظ على صلاة أربع ركعات قبل صلاة الظهر، وهذا لا ينافي حديث ابن عمر -رضي الله عنه- وفيه: "ركعتين قبل الظهر"، ووجه الجمع بينهما أنه تارةً يصلي ركعتين، وتارةً أربعًا، فأخبر كل منهما عن أحد الأمرين، وهذا موجود في كثير من نوافل العبادات.
ويصلي أربعًا قبل الظهر بتسليمتين، وإن صلاها أربعًا بتسليمة واحدة جاز.
كما كان يُداوم ويحافظ على صلاة ركعتين قبل صلاة الفجر، وهي الغداة.
570;پ ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعات پڑھنے کا اہتمام اور پابندی کیا کرتے تھے،