Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   565   الحديث
الأهمية: كنا عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- تسعة أو ثمانية أو سبعة، فقال: ألا تُبايعون رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

ہم نو یا آٹھ یا سات لوگ آپ ﷺ کے پاس حاضر تھے چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے۔

عن عوف بن مالك الأشجعي -رضي الله عنه- قال: كنا عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- تسعة أو ثمانية أو سبعة، فقال: «ألا تُبايعون رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟» وكنَّا حَدِيث عهد بِبَيْعة، فقلنا: قد بايَعْنَاك يا رسول الله، ثم قال: «ألا تُبايعون رسول الله» فبَسَطْنَا أيْدِينا، وقلنا: قد بَايَعْناك فَعَلَام نُبايِعُك؟ قال: «على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئًا، والصلوات الخمس وتطيعوا الله» وأَسَر كلمة خفيفة «ولا تسألوا الناس شيئًا» فلقد رأيت بعض أولئك النَّفرَ يسقط سَوطُ أحدهم فما يسأل أحدًا يناولُه إيَّاه.

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نو یا آٹھ یا سات لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے؟ حالاں کہ ہم نے انہیں دنوں آپ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔آپ ﷺ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہا ہم پہلے آپ سے بیعت کر چکے ہیں اب بتائیں آپ سے کس چیز کی بیعت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے اور اللہ کی اطاعت کرو گے اور ایک جملہ آہستہ آواز میں کہا کہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگو گے“۔ (راوی کہتے ہیں) اس کے بعد میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کا چابک (سواری سے) گر جاتا، لیکن وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ چابک اسے تھما دو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عوف بن مالك الأشجعي -رضي الله عنه- قال: (كنا جلوساً عند رسول الله، فقال: ألا تبايعون رسول الله وكنا حديث عهد ببيعة) كانت هذه البيعة ليلة العقبة قبل بيعة الهجرة وبيعة الجهاد والصبر عليه.
فقلنا: (قد بايعناك يا رسول الله)
ثم قال: (ألا تبايعون رسول الله) زاد أبو داود في روايته بعد قولهم: قد بايعناك حتى قالها ثلاثاً.
قوله: (فبسطنا أيدينا) أي نشرناها للمبايعة.
وقلنا: (قد بايعناك يا رسول الله) يعني: أولاً (فعلام نبايعك) أي فعلى أيّ شيىء نبايعك الآن.
قال: (أن تعبدوا) أي أبايعكم على عبادة الله (وحده) أي منفرداً وهو حال من الجلالة (ولا تشركوا به شيئاً) أي من الشرك أو من المعبودات.
و (الصلوات الخمس) أي وتصلوا الصلوات كما صرح به أبو داود.
و (تطيعوا الله) أي في كل ما أمركم به أو اجتناب ما نهاكم عنه.
و (أسر كلمة خفية) إنما أسر هذه الكلمة دون ما قبلها لأن ما قبلها وصية عامة وهذه الجملة مختصة ببعضهم، والمراد بالكلمة المعنى اللغوي وهي الجملة المبيّنة بقوله: (ولا تسألوا الناس شيئاً) قال القرطبي: هذا حمل منه على مكارم الأخلاق والترفع عن تحمل منن الخلق وتعظيم الصبر على مضض الحاجات والاستغناء عن الناس وعزّة النفس.
قال عوف: (فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوط أحدهم فما يسأل أحدًا يناوله إياه) والمراد منه: سؤال الناس أموالهم فحملوه على عمومه، وفيه التنزّه عن جميع ما يسمى سؤالاً وإن كان حقيراً. وهذا بيان لما كان عليه السلف الصالح من إتباع القول العمل، وتطبيق العلم الذي أخذوه من النبي -صلى لله عليه وسلم-، وروى الإمام أحمد عن أبي ذرّ: "لا تسألنّ أحداً شيئاً وإن سقط سوطك ولا تقبض أمانة".
593;وف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے؟ حالاں کہ ہم نے انہیں دنوں آپ ﷺ سے بیعت کی تھی“ یعنی ہم اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کروگے؟ حالاں کہ حال ہی میں ہم نے آپ ﷺ سے بیعت کی تھی۔ یہ بیعت ہجرت، جہاد اور اس کی راہ میں صبر کرنے کی بیعت سے قبل ’لیلۃ العقبہ‘ کی بیعت تھی۔
ہم نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ہم نے آپ سے بیعت کرلی ہے؟ پھر آپ ﷺ فرمایا کہ کیا تم رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کروگے؟
ابوداؤد کی روایت میں ان کے اس قول کے بعد ”قد بايعناك حتى قالها ثلاثاً“ (یعنی ہم نے بیعت کر لی تین دفعہ کہا) کا اضافہ ہے۔
یعنی ہم نے بیعت کے لئے ہاتھ پھیلا دیے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ہم پہلے بیعت کر چکے ہیں اب کسی چیز پر بیعت کریں، حُکم دیں۔
آپﷺ نے فرمایا (اس بات پر) کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، یعنی میں تم سے بیعت لیتا ہوں اللہ کی عبادت پر (وحده) یعنی اکیلے اللہ کی۔ یہ ترکیب میں لفظِ اللہ سے حال واقع ہے۔
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروگے یعنی شرک یا کسی معبودوں کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔
اور تم پنجوقتہ نمازیں پڑھا کرو۔(جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں صراحت ہے)
اللہ تعالی کی اطاعت کرو گے یعنی ہر اس چیز میں اطاعت کرو جس کا وہ تمہیں حکم دیتا ہے اور اس سے بچو جس سے منع کرتا ہے۔
اور ایک کلمہ (جملہ) آہستہ آواز میں کہا یعنی اس جملے کو آپ ﷺ نے آہستہ اس لیے کہا کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کی عام وصیت تھی، جب کہ یہ جملہ بعض لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ کلمہ سے مُراد اس کا لغوی معنی ہے اور وہ ”لوگوں سے کچھ نہیں مانگو گے“ کا جملہ ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ مکارم اخلاق، لوگوں کے احسان سے بچنے، حاجتوں کے آنے پر صبر کی برتری، لوگوں سے استغناء اور عزتِ نفس کو شامل ہے۔
عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کا چابک (سواری سے) گر جاتا، لیکن وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ چابک اسے تھما دو، مانگنے سے مُراد لوگوں سے ان کا مال مانگنا ہے۔ لیکن ان صحابہ نے اس کو عمومی سوال کرنے پر محمول کیا ہے۔ اس میں لوگوں سے ہر طرح کے سوال سے بچنا ہے اگرچہ کوئی حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں اس بات کا بیان ہے کہ سلف صالحین جس پر قائم تھے یعنی قول اور عمل کی اتباع کرنے میں اور اس علم کی عملی تطبیق کرنے میں جسے انھوں نے آپ ﷺ سے حاصل کیا تھا۔
امام احمد رحمہ اللہ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی سے کچھ نہ مانگنا اگرچہ تمہارا چابک بھی گر جائے اور بطورِ امانت بھی کوئی چیز نہ لینا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4176

 
 
Hadith   566   الحديث
الأهمية: مثل الذي يَذْكُر رَبَّهُ والذي لا يَذْكُره مثل الحيِّ والميِّت


Tema:

اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو اسے یاد نہیں کرتا، زندہ اور مردہ شخص کی سی ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مثل الذي يذكر ربه والذي لا يذكره مثل الحي والميت»
وفي رواية: «مثل البيت الذي يُذْكَرُ الله فيه، والبيت الذي لا يُذْكَرُ الله فيه، مثل الحيِّ والميِّت».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو اسے یاد نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی سی ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور جس میں اللہ کو یاد نہیں کیا جاتا ہے زندہ اور مردہ (ویرانہ) کی طرح ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن الذي يَذْكر الله -تعالى- قد أحيا الله قلبه بذكره وشرح له صدره، فكان كالحي بسبب ذكر الله -تعالى- والمداومة عليه، بخلاف من لا يَذْكر الله -تعالى-، فهو كالميت الذي لا وجود له. فهو حيٌّ ببدنه ميتٌ بقلبه.
وهذا مَثَل ينبغي للإنسان أن يعتبر به وأن يَعْلَم أنه كلما غَفَل عن ذكر الله عز وجل، فإنه يقسو قلبه وربما يموت قلبه والعياذ بالله.  
قال -تعالى-: (أومن كان ميتا فأحييناه وجعلنا له نورًا يمشي به في الناس كمن مثله في الظلمات ليس بخارج منها).
581;دیث کا مفہوم: وہ شخص جو اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے، اس کے دل کو اللہ تعالی اپنے ذکر کی بر کت سے جلا بخش دیتا ہے اور اس کے سینے کو اطمینان عطا کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی کے ذکر اور اس کی پابندی کی وجہ سے زندہ شخص کی طرح ہو جاتا ہے، بہ خلاف اس شخص کے جو اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا۔ چنانچہ ایسا شخص مردہ کی طرح ہوتا ہے، جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ وہ جسمانی اعتبار سے تو زندہ ہوتا ہے، تاہم قلبی اعتبار سے مردہ ہوتا ہے۔
اس مثال سے انسان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اسے یہ بات بہ خوبی جان لینی چاہیے کہ وہ جب بھی اللہ عز وجل کے ذکر سے غافل ہو گا، اس کے دل میں سختی پیدا ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اس کا دل مردہ ہی ہو جائے۔ العیاذ باللہ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا﴾ ”ایسا شخص جو پہلے مرده تھا، پھر ہم نے اس کو زنده کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وه اس کو لیے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا؟“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4177

 
 
Hadith   567   الحديث
الأهمية: فوالله للدُّنْيَا أهونُ على الله من هذا عليكم


Tema:

اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے، جتنا یہ تمھارے نزدیک حقیر ہے۔

عن جابر -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مر بالسوق والناس كَنَفَتَيَهِ، فمر بِجَدْيٍ أَسَكَّ ميت، فتناوله فأخذ بأذنه، ثم قال: «أيكم يحب أن يكون هذا له بدرهم؟» فقالوا: ما نحب أنه لنا بشيء وما نصنع به؟ ثم قال: «أتحبون أنه لكم؟» قالوا: والله لو كان حيا ًكان عيباً، إنه أسك فكيف وهو ميت! فقال: «فو الله للدنيا أهون على الله من هذا عليكم».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بازار سے گزرے اور آپ ﷺ کے دائیں بائیں جانب لوگ تھے۔ آپ ﷺ کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے پر سے ہوا، جس کے کان چھوٹے تھے۔ آپ ﷺ اس کا کان پکڑ کر پوچھنے لگے: تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض میں خریدنا پسند کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم کسی بھی شے کے بدلے میں اسے خریدنا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کریں گے بھی کیا؟۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا: کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا، تب بھی عیب دار تھا۔ یہ تو مردہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے، جتنا یہ تمھارے نزدیک حقیر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا جابر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- مرَّ في السوق بجدي أسك، والجدي من صغار الماعز، وهو أسك: أي مقطوع الأذنين، فأخذه النبي -عليه الصلاة والسلام- ورفعه وقال: هل أحد منكم يريده بدرهم؟" قالوا: يا رسول الله، ما نريده بشيء قال: هل أحد منكم يود أن يكون له؟ قالوا: لا. قال: إن الدنيا أهون عند الله -تعالى- من هذا الجدي.
أراد النبي صلى الله عليه وسلم أن يبين لأصحابه ولأمته من بعده أن الدنيا أهون وأحقر عند الله -تعالى- من هذا الجدي الأسك الميت، التي ترغب عنه النفوس السليمة، فهذا حال الدنيا بالنسبة للآخرة، لا قيمة لها عند الله ولا تزن جناح بعوضة، كما في حديث سهل بن سعد -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه  وسلم-: (لو كانت الدنيا تعدل عند الله جناح بعوضة، ما سقى كافرا منها شربة ماء). رواه الترمذي.
وأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يحث أصحابه وأمته من بعده على أن يجعلوا الدنيا وسيلة إلى الوصول إلى مراد الله، لا أن تكون غايتهم ومقصدهم، فإن في ذلك هلاكهم.
580;ابر رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ ایک دفعہ بازار میں ایک چھوٹے کانوں والے بکری کے بچے کے پاس سے گزرے۔ "الجدی" بکری کے چھوٹے بچے کو کہا جاتا ہے۔ یہ "أسك" تھا، یعنی اس کے کان کٹے ہوئے تھے۔ نبیﷺ نے اسے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اسے ایک درہم کے عوض میں لینا چاہتا ہے؟۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم کسی بھی شے کے عوض میں اسے نہیں لیں گے! آپ ﷺ نے پھر پوچھا: کیا تم میں سے کوئی شخص چاہتا ہے کہ یہ اس کا ہو؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک دنیا اس بکری کے بچےسے بھی زیادہ ہیچ ہے! نبی ﷺ چاہتے تھے کہ اپنے صحابہ اور اپنے بعد آنے والی اپنی امت کے لیے واضح کر دیں کہ اللہ کے نزدیک دنیا اس مردہ کٹے ہوئے کانوں والے بکری کے بچے سے بھی زیادہ ہیچ اور حقیر ہے، جس سے پاکیزہ نفوس کو گھن آتی ہے۔ یہ دنیا کا آخرت کے مقابلے میں حال ہے کہ یہ اللہ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی اور مچھر کے پر کے برابر بھی وزن نہیں رکھتی، جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی اہمیت رکھتی ہوتی، تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ پلاتا“۔ (ترمذی)
نبی ﷺ چاہتے تھے کہ اپنے صحابہ کو اور آپ ﷺ کے بعد آنے والی اپنی امت کو اس بات پر ابھاریں کہ وہ دنیا کو اللہ کی رضا پانے کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ اپنی منزل اور مقصد؛ کیوں کہ اس میں ان کی ہلاکت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4178

 
 
Hadith   568   الحديث
الأهمية: مُرُوا أبا بكر فَلْيُصَلِّ بالناس


Tema:

ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: لما اشتد برسول الله -صلى الله عليه وسلم- وجعه، قيل له في الصلاة، فقال: «مروا أبا بكر فليُصَلِّ بالناس» فقالت عائشة -رضي الله عنها-: إن أبا بكر رجل رقيق، إذا قرأ القرآن غلبه البكاء، فقال: «مُرُوه فليُصَلِّ».
وفي رواية عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: قلت: إن أبا بكر إذا قام مقامك لم يُسْمعِ الناس من البكاء.

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تو آپ ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا گیا (کہ اسے کون پڑھائے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابو بکر بہت رقیق القلب آدمی ہیں۔ وہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں رونا آ جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں کہو کہ وہ نماز پڑھائیں“۔
عائشہ سے مروی ایک اورحدیث میں ہے کہ: میں نے کہا: ابو بكر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے ان کی آواز لوگوں کو سنائی نہیں دے گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما اشتد الوجع برسول الله -صلى الله عليه وسلم- لم يتمكن من إمامة الناس أمر من عنده أن يأمر أبا بكر -رضي الله عنه- بالإمامة، وكان كثير البكاء عند قراءة القرآن، فاعتذرت عائشة -رضي الله عنها- بذلك لكن في حديث الباب أنه لم يكن بكاؤه من قراءة القرآن مقصودها الأول، بل كان مرادها الأول خشية أن يتشاءم الناس من أبيها، فأظهرت -رضي الله عنها- خلاف ما تسره في باطنها.
ففي رواية في مسلم: "قالت: والله، ما بي إلا كراهية أن يتشاءم الناس، بأول من يقوم في مقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم-"، قالت: فراجعته مرتين أو ثلاثا، فقال: "ليصل بالناس أبو بكر فإنكن صواحب يوسف" والمراد "بصواحب يوسف" إنهن مثل صواحب يوسف في إظهار خلاف ما في الباطن، وهذا الخطاب وإن كان بلفظ الجمع فالمراد به واحدة هي عائشة فقط كما أن المراد بصواحب يوسف: زليخا  فقط كذا قال الحافظ وهي زوجة عزيز مصر آنذاك.
ووجه المشابهة بينهما في ذلك أن زليخا استدعت النسوة وأظهرت لهن الإكرام بالضيافة ومرادها زيادة على ذلك وهو أن ينظرن إلى حسن يوسف ويعذرنها في محبته، إن عائشة أظهرت أن سبب إرادتها صرف الإمامة عن أبيها كونه لا يسمع المأمومين القراءة لبكائه ومرادها زيادة وهو أن لا يتشاءم الناس به، كما صرحت بذلك في بعض طرق الحديث فقالت: "وما حملني على مراجعته إلا أنه لم يقع في قلبي أن يحب الناس بعده رجلاً قام مقامه".
580;ب رسول اللہ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی اور لوگوں کی امامت کرنا آپ ﷺ کے لیے ممکن نہ رہا تو آپ ﷺ کے پاس جو لوگ موجود تھے انہیں آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں کہ وہ آپ ﷺ کی جگہ پرامامت کریں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو بہت رویا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا تاہم اس باب کی حدیث میں ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قرآن کریم کے پڑھنے پر رونا ان کا اصلی مقصود نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد دراصل یہ تھا کہ کہیں لوگ ان کے والد سے بد شگونی نہ لیں۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہا نے باطن کے علاوہ بات ظاہر کی۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے بس یہ بات ناپسند تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ جو شخص سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی جگہ کھڑا ہو اس سے لوگ بد شگونی لیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دو یا تین بار آپ ﷺ سےاس موضوع پر بات کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم تو ان عورتوں کی طرح ہو جن سے یوسف علیہ السلام کو واسطہ پڑا تھا۔‘‘ مراد یہ ہے کہ تم ان عورتوں کی طرح ہو جن سے یوسف علیہ السلام کو سامنا تھا کہ جو دل میں ہے اس کے برخلاف ظاہر کر رہی ہو۔ یہ بات اگرچہ جمع کے صیغہ سے کی گئی تاہم اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں جیسا کہ یوسف والی عورتوں سے مراد صرف زلیخا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ایسے ہی لکھا ہے۔ زلیخا اس وقت عزیز مصر کی بیوی تھی۔
ان دونوں کے مابین وجہ مشابہت یہ ہے کہ زلیخا نے عورتوں کو بلایا اور مہمان نوازی کی شکل میں ان کی عزت افزائی کی حالانکہ اس سے اس کی مراد کچھ اورتھی اور وہ یہ کہ وہ یوسف علیہ السلام کے حسن کو ملاحظہ کر سکیں اور یوں اسے اس کی محبت میں معذور گردانیں۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے اظہار اسی بات کا کیا کہ اپنے ابا سے امامت دور رکھنے سے ان کا منشا یہ ہے کہ مقتدی ان کے رونے کی وجہ سے ان کی آواز نہیں سن سکیں گے جب کہ ان کی مراد دراصل یہ تھی کہیں لوگ ان سے بد شگونی نہ لیں جیسا کہ انہوں نے حدیث کی بعض دوسری روایات میں اس کی صراحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ”مجھے آپ ﷺ سے بات کرنے پر جس شے نے آمادہ کیا وہ یہ تھی کہ میرا دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا کہ لوگ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کا آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہونا پسند کر لیں گے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4179

 
 
Hadith   569   الحديث
الأهمية: إنَّ مما أخاف عليكم من بَعْدِي ما يُفْتَحُ عليكم من زَهرة الدنيا وزِيَنتها


Tema:

مجھے اپنے بعد تمھارے سلسلے میں جس بات کا اندیشہ ہے، وہ دنیا کی آرائش و زیبائش کے دروازوں کا کھلنا ہے۔

عن أبي سعيد الخُدْرِي -رضي الله عنه- قال: جلس رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على المِنْبَر، وجلسنا حوله، فقال: «إنَّ مما أخاف عليكم من بَعدي ما يُفتح عليكم من زهرة الدنيا وزِيَنتها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم آپ ﷺ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اپنے بعد تمھارے سلسلے میں جس بات کا اندیشہ ہے، وہ دنیا کی آرائش و زیبائش کے دروازوں کا کھلنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- يخاف على أمته بعد موته مما سيفتح عليهم من زخارف الدنيا وزينتها.
وهذا من كمال رحمته وشفقته -صلى الله عليه وسلم- بأمته أن بين لهم ما يخشاه عليهم من زخرفة الدنيا وزينتها، فيضلوا طريق الهدى والفلاح والنجاة إلى أن يفجأهم الموت، فلا اعتذار بعد ذلك.
581;دیث کا مفہوم: نبی ﷺ اپنی امت کے سلسلے میں اس دنیوی چکاچوند اور زیب و زینت سے ڈرتے تھے، جس کے دروازے آپ ﷺ کی وفات کے بعد عن قریب ان کے لیے کھل جانے والے تھے۔
یہ آپ ﷺ کی اپنی امت کے ساتھ انتہائی درجے کہ رحمت و شفقت کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کو ان کے بارے میں جس دنیوی زیب و زینت کا ڈر تھا، آپ ﷺ نے اس کی وضاحت ان کے سامنے فرما دی؛ تاکہ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ ہدایت و فلاح اور نجات کے راستے سے بھٹک جائیں اور اچانک انھیں موت آ لے اور پھر ان کے پاس اس کے بعد کوئی عذر نہ رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4180

 
 
Hadith   570   الحديث
الأهمية: مَنْ احْتَبَسَ فَرَسًا في سَبِيل الله، إيمانًا بالله، وتَصْدِيقًا بِوَعْدِه، فإن شِبَعَهُ وريَّه ورَوْثَهُ وبَوْلَه في مِيْزَانه يوم القيامة


Tema:

جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ کى راه میں گھوڑا پالا، تو يقيناً اس (گھوڑے) کا چارہ، اس کا پانی، اس کی لید اور اس كا پیشاب قیامت والے دن اس کے پلڑے ميں ہوں گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ احْتَبَسَ فَرَسًا في سَبِيل الله، إيمانًا بالله، وتَصْدِيقًا بِوَعْدِه، فإن شِبَعَهُ وريَّه ورَوْثَهُ وبَوْلَه في مِيْزَانه يوم القيامة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کو سچا مانتے ہوئے اللہ کے راستے میں گھوڑا پالتا ہے، اس کا کھانا،اس کا پینا، اس کی لید اور پیشاب قیامت کے دن اس کے پلڑے میں ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن مَن أوقَف فرسًا للجهاد في سبيل الله تعال وابتغاء مرضاته لكي يُحَارب عليه الغزاة، ابتغاء وجه الله تعالى، وتصديقاً بوعده الذي وعَدَ به، حيث قال: (وما تنفقوا من شيء في سبيل الله يوف إليكم) فإن الله يُثِيْبُه عن كل ما يأكله أو يشربه أو يخرجه من بول أو روث، حتى يَضعه له في كِفَّة حسناته يوم القيامة.
وفي حديث أبي هريرة رضي الله عنه الطويل: "الخَيل ثلاثة: هي لرَجُلٍ وِزْرٌ، وهي لرَجُل سِتْر، وهي لِرَجُلٍ أجْرٌ . . ثم قال: وأما التي هي له أَجْرٌ، فرَجُل ربَطَها في سبيل الله لأهل الإسلام في مَرْج، أو رَوْضَةٍ فما أكلت من ذلك المَرْجِ أو الرَّوْضَةِ من شيء إلا كُتِبَ له عَدَدَ ما أكَلَتْ حسنات وكتب له عَدَد أرْوَاثِهَا وَأبْوَالِهَا حسنات، ولا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفاً أو شَرَفَيْنِ إلا كَتَب الله له عَدَد آثَارِهَا، وَأرْوَاثِهَا حسنات، ولا مَرَّ بها صَاحِبُها على نَهْر، فشَربَت منه، ولا يُريد أن يَسْقِيهَا إلا كَتَب الله له عَدَد ما شَرَبت حسنات" متفق عليه.
581;دیث کا معنی: جس نے اللہ کے راستے میں اور اس کی رضا کے حصول کے لیے جہاد کی خاطر گھوڑا وقف کیا، تاکہ اس پر سوار ہو کر مجاہدین جہاد کر سکیں؛ اگر اس کا یہ کام سچ مچ اللہ کی رضا کے حصول اور اس کی طرف سے کیے گئے وعدے کی تصدیق کے طور پر ہے، مثلا قرآنِ کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ﴾ ”تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے، وه تمھیں پورا پورا دیا جائے گا“، تو اللہ تعالیٰ اس گھوڑے کے کھانے، پینے اور بول و براز تک کا اجر اسے عنایت کرے گا کہ ان تمام چیزوں کو قیامت کے دن اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جاۓ گا۔
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے: ”گھوڑے کی تین اقسام ہیں؛ ایک مالک پر وبال ہے، دوسرا مالک کے لیے پردہ ہے، تیسرا مالک کے لیے ثواب کا ذریعہ ہے...پھر فرمایا باعث ثواب وہ گھوڑا ہے، جسے آدمی نے اللہ کے راستے میں، اہل اسلام کے لیے سبزہ زار یا باغ میں وقف کر رکھا ہو۔ تو یہ گھوڑا باغ یا سبزہ زار سے جو کچھ کھاۓ گا، اس کے کھانے کے بقدر اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اگر وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھ جاۓ، تو اس کے قدموں کے نشانات اور لید کے برابر نیکیاں اللہ لکھ دیتا ہے، جب اس کا مالک اسے کسی نہر سے لے کر گزرتا ہے اور پانی پلانے کا ارادہ نہ ہونے کے باوجود وہ پانی پی لیتا ہے، تو اللہ اس کے لیے پیے گئے پانی کے قطروں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے“۔ متفق علیہ   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4181

 
 
Hadith   571   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، مَنْ أحقُّ بِحُسْن الصُّحبة؟ قال: أمك، ثم أمك، ثم أمك، ثم أباك، ثم أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ


Tema:

اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں کون شخص ہے جو بہترین ساتھی ہے؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں اور پھر تمہارا باپ، پھر اس سے قریب پھر اس سے قریب والا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا رسول الله، مَنْ أحقُّ الناس بِحُسن صَحَابَتِي؟ قال: «أمك» قال: ثم مَنْ ؟ قال: «أمك»، قال: ثم مَنْ؟ قال: «أمك»، قال: ثم مَنْ؟ قال: «أبوك». متفق عليه. وفي رواية: يا رسول الله، مَنْ أحقُّ بحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قال: «أمك، ثم أمك، ثم أمك، ثم أباك، ثم أدْنَاك أدْنَاك».

ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔ (متفق علیہ) ایک دیگر روایت میں ہے کہ (ایک آدمی نے عرض کیا) اے اللہ کے رسول ! سب سے زیادہ میرے حُسنِ سلوک کا کون حقدار ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں۔ اِس کے بعد تیرے باپ کا پھر جو تیرے قریب ہو پھر جو تیرے قریب ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يدل على أن لكل من الأبوين حقًا في المصاحبة الحسنة؛ والعناية التامة بشؤونه (وصاحبهما في الدنيا معروفًا )، ولكن حق الأم فوق حق الأب بدرجات، إذ لم يذكر حقه إلا بعد أن أكد حق الأم تمام التأكيد، بذكرها ثلاث مرات، وإنما علت منزلتها منزلته مع أنهما شريكان في تربية الولد هذا بماله ورعايته؛ وهذه بخدمته في طعامه وشرابه، ولباسه وفراشه و ... إلخ.
لأن الأم عانت في سبيله ما لم يعانه الأب، فحملته تسعة أشهر وهنًا على وهنٍ، وضعفًا إلى ضعف؛ ووضعته كرهًا؛ يكاد يخطفها الموت من هول ما تقاسي، وكذلك أرضعته سنتين، ساهرة على راحته، عاملة لمصلحته وإن برحت بها في سبيل ذلك الآلام وبذلك نطق الوحي: (ووصينا الإنسان بوالديه إحسانا حملته أمه كرها ووضعته كرها وحمله وفصاله ثلاثون شهرا)، فتراه وصى الإنسان بالإحسان إلى والديه؛ ولم يذكر من الأسباب إلا ما تعانيه الأم إشارة إلى عظم حقها.
ومن حسن المصاحبة للأبوين الإنفاق عليهما طعامًا وشراباً، ومسكناً ولباسًا؛ وما إلى ذلك من حاجات المعيشة، إن كانا محتاجين، بل إن كانا في عيشة دنيا أو وسطى؛ وكنت في عيشة ناعمة راضية فارفعهما إلى درجتك أو زد، فإن ذلك من الإحسان في الصحبة.
واذكر ما صنع يوسف مع أبويه وقد أوتي الملك إذ رفعهما على العرش بعد أن جاء بهما من البدو. ومن حسن الصحبة بل جماع أمورها ما ذكره الله بقوله: ( وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما وقل لهما قولاً كريمًا. واخفض لهما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا )  فامنع عنهما لسان البذاءة، وجنبهما أنواع الأذى. وأَلن لهما قولك؛ واخفض لهما جناحك؛ وذلل لطاعتهما نفسك، ورطب لسانك بالدعاء لهما من خالص قلبك وقرارة نفسك وقل: (رب ارحمهما كما ربياني صغيرا)، ولا تنس زيادة العناية بالأم، عملا بإشارة الوحي؛ ومسايرة لمنطق الحديث.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ والدین میں سے ہر ایک حُسنِ مصاحبت اور ان کے سارے کاموں کی مکمل دیکھ بھال کے حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ ”دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا“۔
تاہم ماں کا حق باپ پر کئی گناہ زیادہ ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے ماں کے حق کو تین مرتبہ کی تاکید کے ساتھ خوب مؤکد کرنے کے بعد باپ کا حق ذکر کیا ہے۔ ماں کا درجہ باپ سے بڑھ گیا باوجودیکہ بچے کی پرورش میں دونوں والدین شریک ہوتے ہیں۔ والد اپنے مال اور نگرانی کے ساتھ اور والدہ کھانے پینے اور پہننے اور بچھانے میں خدمت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔الخ، اس لیے کہ ماں بچے کے لیے وہ تکلیفیں برداشت کرتی ہیں جو باپ نہیں کرتا، ماں نو ماہ تک اسے پیٹ میں لے کر حمل کی حالت میں تکلیف در تکلیف اور کمزوری در کمزوری برداشت کرتی ہے، پھر اسے جننے کی تکلیف برداشت کرتی ہے، وہ تکلیف جو برداشت کرتی ہے اس سے ایسا لگتا ہے جیسے موت اس کو اچک لے۔ اسی طرح پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی ہے، اس کی راحت کے لیے راتوں کو جاگتی ہے، اس کی بہتری کے کام کرتی ہے اگرچہ خود کئی ساری تکلیفیں سہ لے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾ ”اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے“۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ احسان کرنے کی وصیت کی ہے اور ماں کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف انہی اسباب کی طرف اشارہ فرمایا جو ماں تکلیفیں برداشت کرتی ہیں۔
والدین کے ساتھ حُسنِ مصاحبت کا مظہر یہ بھی ہے کہ ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے، اوڑھنے بچھانے اور دیگر معاشی ضروریات کے لیے ان پر خرچ کرنا۔ اگر وہ محتاج ہیں بلکہ اگر وہ کم یا درمیانے درجے کی زندگی گزار رہے ہوں اور تم خوشحال و خوشگوار زندگی گزار رہے ہو تو انہیں اپنے درجے تک لے آنا یا اس سے بھی اچھا کرنا۔ یہ صحبت میں احسان کا تقاضا ہے۔
یاد کیجیے حکومت ملنے اور تخت نشینی کے بعد یوسف علیہ السلام نے جو کچھ اپنے والدین کے ساتھ کیا کہ انہیں دیہات سے لے آئے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے متعلق بلکہ ان کے تمام امور کو شامل جامع حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں ذکر فرما دیا ہے: ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ ”اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا، اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے“۔
ان سے بے ہودہ زبان کے استعمال سے بچو اور ہر طرح کی تکلیف دینے سے بچو، اپنی گفتگو کو ان کے سامنے نرم کردو، ان کے لیے اپنے بازؤوں کو پست کردو، ان کی اطاعت میں اپنے آپ کوجھکا دو، ان کے لیے دعا مانگتے رہو، اپنے دل کو ان کے ساتھ مخلص کرلو اور کہو اے اللہ ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح سے کہ انہوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی اور وحی الہی میں موجود اشارے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نیز حدیث کی منطقیت کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے ماں کا زیادہ خیال رکھنا نہ بھولو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4182

 
 
Hadith   572   الحديث
الأهمية: من أصابته فَاقَة فأنزلها بالناس لم تُسَدَّ فَاقَتُهُ، ومن أنْزَلها بالله، فَيُوشِكُ الله له بِرزق عاجل أو آجل


Tema:

جس کو فاقے میں مبتلا کیا گیا اور اس نے اپنی حالت لوگوں سے بیان کرنی شروع کردی تو ایسے شخص کا فاقہ دور نہیں کیا جائے گا لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ جلد یا بدیر اسے رزق عطا فرمائے گا۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من أصابته فَاقَة فأنْزَلها بالناس لم تُسَدَّ فَاقَتُهُ، ومن أنْزَلها بالله، فَيُوشِكُ الله له بِرزق عاجل أو آجل».

عبداللہ بن مسعود - رضی اللہ عنہ - سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے فاقے لاحق ہوجائے اور وه لوگوں سے بیان کرے، تو ایسے شخص کا فاقہ دور نہیں کیا جائے گا اور اگر وہ اسے اللہ کے حضور ظاہر کرے تو اللہ تعالیٰ جلد یا بدیر اسے رزق عطا فرمائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر ابن مسعود -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "من أصابته فاقة" أي: حاجة شديدة، وأكثر استعمالها في الفقر وضيق المعيشة.
"فأنزلها بالناس" أي: عرضها عليهم، وأظهرها بطريق الشكاية لهم، وطلب إزالة فاقته منهم.
فالنتيجة: "لم تسد فاقته" أي: لم تقض حاجته، ولم تزل فاقته، وكلما تسد حاجة أصابته أخرى أشد منها
وأما "من أنزلها بالله" بأن اعتمد على مولاه فإنه "يوشك الله" أن يُعجِّل "له برزق عاجل" قريب بأن يعطيه مالا ويجعله غنيا "أو آجل" في الآخرة.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے فاقے لاحق ہوجائے“ فاقہ بمعنی سخت حاجت، اس کا اکثر استعمال فقر اور تنگدستی میں ہوتا ہے۔
” اور وه لوگوں سے بیان کرے“ یعنی اس نے لوگوں کے سامنے اپنے فاقے کو بیان کیا اور ان سے از راہ شکوہ بیان کر کے ان سے اس فاقے کو دور کرنے کی مدد مانگی۔
ایسا کرنے سے ”ایسے شخص کا فاقہ دور نہیں کیا جائے گا“ یعنی اس کی حاجت ختم نہیں ہوگی اور نہ اس کا فاقہ دور ہوگا، جب کبھی اسی کی کوئی حاجت پوری ہوگی تو دوسری حاجت پیش آئے گی جو اس سے بھی سخت ہوگی۔
”جس نے اسے اللہ کے حضور ظاہر کیا“ یعنی اپنے مولیٰ پر اعتماد کیا۔
اللہ تعالی جلد اسے عنقریب مال عطا کرے گا اور اسے بے نیاز کر دے گا۔
”یا بدیر“ یعنی آخرت میں اسے رزق (ثواب کی شکل میں) دیے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4183

 
 
Hadith   573   الحديث
الأهمية: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرا، أو وضَع له، أظَلَّهُ الله يوم القيامة تحت ظِل عَرشه يوم لا ظِلَّ إلا ظِلُّه


Tema:

جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض کو کم کردیا اسے روزِ قیامت اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرا، أو وضع له، أظَلَّهُ الله يوم القيامة تحت ظِل عرشه يوم لا ظِلَّ إلا ظِلُّه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض کو کم کردیا اسے روزِ قیامت اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة أن النبي عليه الصلاة والسلام قال:
(من أنظر معسراً) أي أمهل مديوناً فقيراً، فالإنظار التأخير المرتقب نجازه.
قوله: (أو وضع عنه) أي حط عنه من دينه، وفي رواية أبي نعيم (أو وهب له).   فالجزاء: (أظله الله يوم القيامة تحت ظل عرشه) أظله في ظل عرشه حقيقة أو أدخله الجنة؛ فوقاه الله من حر يوم القيامة.
وهذا الجزاء يحصل: (يوم لا ظل إلا ظله) أي ظل الله، وإنما استحق المُنظِر ذلك لأنه آثر المديون على نفسه وأراحه فأراحه الله والجزاء من جنس العمل.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی“ یعنی کسی غریب مقروض کو مہلت دی۔ ’إنظار‘ کا معنی ہے ایسی مہلت جس میں کسی چیز کے پورے کیے جانے کا انتظار کیا جائے۔
”یا اس کے قرض کو کم کردیا“ یعنی اس کا کچھ قرض معاف کر دیا۔ ابونعیم سے مروی حدیث میں ہے ”أَوْ وَهَبَ لَهُ“ یعنی اس قرض (کی قیمت) کو اُسے ہبہ کے طور پر دے دیا کے الفاظ ہیں۔
اس شخص کی جزاء یہ ہوگی کہ ”اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا“ یعنی اللہ حقیقی طور پر اسے اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا اور سے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ قیامت کے دن کی گرمی کی شدت سے اسے محفوظ رکھے گا۔
یہ بدلہ اس دن ملے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔ مہلت دینے والا اس جزا کا مستحق اس لیے ہوا کیوں کہ اس نے مقروض کو خود اپنے اوپر ترجیح دے کر اسے راحت دی چنانچہ اللہ تعالی بھی اسے راحت دے گا کیوں کہ جزا عمل ہی کی جنس سے ہوا کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4186

 
 
Hadith   574   الحديث
الأهمية: من أنْفَق زوْجَيْن في سَبيل الله نُودِي من أبْوَاب الجنَّة، يا عبد الله هذا خَيْرٌ، فمن كان من أهل الصلاة دُعِي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجِهاد دُعِي من باب الجِهاد


Tema:

جو اللہ کے راستے میں دوہری چیز خرچ کرے گا اسے جنت کے دروازوں پر سے پکار پکار کر کہا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے۔ پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا

عن أبي هريرة - رضي الله عنه- مرفوعاً: «من أنْفَق زوْجَيْن في سَبيل الله نُودِي من أبْوَاب الجنَّة، يا عبد الله هذا خَيْرٌ، فمن كان من أهل الصلاة دُعِي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجِهاد دُعِي من باب الجِهاد، ومن كان من أهل الصيام دُعِي من باب الرَّيَّانِ، ومن كان من أهل الصَّدَقة دُعِي من باب الصَّدَقة» قال أبو بكر -رضي الله عنه-: بأبي أنت وأمي يا رسول الله! ما على من دُعِي من تلك الأبواب من ضَرورة، فهل يُدْعَى أحَدٌ من تلك الأبواب كلِّها؟ فقال: «نعم، وأرْجُو أن تكون منهم».

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو اللہ کے راستے میں دوہری چیز خرچ کرے گا اسے جنت کے دروازوں پر سے پکار پکار کر کہا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے۔ پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزہ دار ہوگا اسے باب ریان سے بلایا جائے گا اور جو صدقہ دینے والا ہوگا اسے صدقے کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے ان کے لیے کوئی خسارہ کی بات تو نہیں ہے (یعنی وہ جنت میں تو داخل ہوجائیں گے)، لیکن آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من تصدق بشيئين من أي شيء مثل المأكولات أو الملبوسات أو المركوبات أو النقود، ابتغاء رضوان الله نادته الملائكة من أبواب الجنَّة مُرَحِّبة بقدومه إليها، وهي تقول: لقد قدمت خيرا ًكثيراً تثاب عليه اليوم ثَوابا ًكبيراً.
فالمكثرون من الصلاة ينادون من باب الصلاة، ويدخلون منه، والمكثرون من الصدقة ينادون من باب الصدقة، ويدخلون منه، والمكثرون من الصوم تستقبلهم الملائكة عند باب الرَّيَّان داعية لهم بالدخول منه، ومعنى الرَّيان: الذي يَروي من العطش؛ لأن الصائمين يمتنعون عن الماء فيصابون بالعطش ولاسيما في أيام الصيف الطويلة الحارة، فيجازون على عطشهم بالري الدائم في الجنة التي يدخلون إليها من ذلك الباب.
فلما سمع أبو بكر -رضي الله عنه- هذا الحديث، قال: يا رسول الله: "بأبي أنت وأمي" من دخل من هذه الأبواب لا نقص عليه ولا خسارة، ثم قال: "فهل يُدْعى أحدٌ من تلك الأبواب كلها"، فقال -صلى الله عليه وسلم-: "نعم وأرجو أن تكون منهم".
580;س نے اللہ کی خوشنودی کے لئے کسی بھی شے کو بطور صدقہ دوہرا خرچ کیا چاہے وہ کھانے کی شے ہو، لباس ہو، یا سواری یا پھر رقوم ہوں تو فرشتے اسے جنت میں خوش آمدید کہتے ہوئے اس کے دروازوں پر سے اسے پکار پکار کر کہیں گے: "تم نے بہت نیکیاں آگے بھیجیں جن پر تمہیں آج بہت زیادہ ثواب ملے گا"۔ چنانچہ جو لوگ کثرت سے نمازیں پڑھتے تھے انہیں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا اور وہ اس سے داخل ہوں گے۔ جو کثرت سے صدقہ دیتے تھے انہیں صدقے کے دروازے سے پکارا جائے گا اور وہ اس سے داخل ہوں گے اور جو کثرت سے روزے رکھتے تھے ان کا فرشتے باب ریان پر استقبال کریں گے اور انہیں اس میں سے داخل ہونے کی دعوت دیں گے۔ الریان کا معنی ہے جو پیاس بجھا کر سیر کر دے۔ چونکہ روزہ دار پانی کے استعمال سے رکے رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں پیاس لگتی ہے خاص طور پر گرمی کے طویل اور گرم دنوں میں چنانچہ اس پیاس کو برداشت کرنے کے بدلے میں جنت میں ان کو ہمیشہ کے لئے سیر کر دیا جائے گا جس میں وہ اس دروازے سے داخل ہوں گے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس حدیث کو سنا تو کہنے لگے: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، جو ان دروازوں میں سے داخل ہوا اسے نہ کوئی نقصان ہوا اور نہ خسارہ۔ پھر انہوں نے پوچھا: کیا کوئی ایسا شخص بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں پر سے بلایا جائے گا؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہی کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو گے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4187

 
 
Hadith   575   الحديث
الأهمية: مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً في سَبِيل الله كُتب له سَبْعُمِائَةِ ضِعْفٍ


Tema:

جو شخص اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے، اس کے لیے سات سو گنا ثواب لکھا جاتا ہے۔

عن أبي يحيى خُرَيْم بن فَاتِك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً في سَبِيل الله كُتب له سَبْعُمِائَةِ ضِعْفٍ».

ابو یحی خریم ابن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کیا اس کے لئے سات سو گنا ثواب لکھا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أنْفَقَ نفقة قليلة أو كثيرة في سبيل الله -تعالى-، سواء كان في الجهاد في سبيل الله -تعالى- أو في غيره من وجوه البِّر والطاعات، ضاعف الله له الأجر يوم القيامة إلى سبعمائة ضِعف.
580;س نے تھوڑا یا زیادہ جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیا، چاہے وہ جہاد میں ہو یا کسی اور کار خیر اور نیکی کے کام میں، اسے اللہ تعالی روز قیامت اس کا اجر سات سو گناہ کر کے دیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4188

 
 
Hadith   576   الحديث
الأهمية: من تَكَفَّلَ لي أن لا يسأل الناس شيئًا، وأَتَكَفَّلُ له بالجنة؟


Tema:

کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟۔

عن ثوبان -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من تَكَفَّلَ لي أن لا يسأل الناس شيئًا، وأَتَكَفَّلُ له بالجنة؟» فقلت: أنا، فكان لا يَسأل أحدًا شيئًا.

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہي کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟“، ثوبان نے کہا کہ میں (ضمانت دیتا ہوں)، چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن من التزم للنبي -صلى الله عليه وسلم- ترك سؤال الناس أموالهم أو الاستعانة بهم في قضاء شؤونه مما قل أو كثر، ضمن له -عليه الصلاة والسلام- الجنة؛ ذلك لأن ترك سؤال المخلوقين فيه توكل على الله ودليل على قوة الرَّجاء والثقة بالله -تعالى-، فكان جزاؤه أن يدخله الله -تعالى- الجنة.
  بعد أن سمع ثوبان -رضي الله عنه- هذا الحديث، التزم للنبي -صلى الله عليه وسلم- أن لا يسأل الناس شيئا، حتى جاء عنه -رضي الله عنه- كما في رواية ابن ماجه: "أنه كان يقع سَوْطُه وهو راكب فلا يقول لأحدٍ ناولنيه حتى ينزل فيأخذه".
وفاء بالعهد الذي قطعه على نفسه مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے نبی ﷺ کے لیے لوگوں سے ان کے اموال مانگنا اور اپنے معاملات کے نپٹانے میں ان سے مدد مانگنا چھوڑ دے خواہ یہ مانگنا تھوڑی چیز کا ہو یا زیادہ کا، تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسے جنت کی ضمانت دی ہے۔ اس لیے کہ مخلوق سے نہ مانگنے میں اللہ کی ذات پر توکل ہوگا اور یہ اللہ کی ذات پر اعتماد اور اللہ سے قوی امید وابستہ رکھنے کی علامت ہے۔ چنانچہ اس کا بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
ثوبان رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو آپ ﷺ سے سننے کے بعد نبی ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ لوگوں سے کچھ بھی نہیں مانگیں گے، چنانچہ ابنِ ماجہ کی روایت میں ان کے بارے میں منقول ہے کہ یہ سوار ہوتے ان کا کوڑا گر جاتا تو کسی سے نہ کہتے کہ مجھے میرا کوڑا دیدو، بلکہ خود اتر کر لے لیتے۔ یہ اس عہد کی پاسداری ہے جو انہوں نے آپ ﷺ سے کر کے اسے اپنے اوپر لازم کیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4189

 
 
Hadith   577   الحديث
الأهمية: من خَرج في طلب العلم فهو في سَبِيلِ الله حتى يرجع


Tema:

جو شخص طلب علم میں (اپنے گھر سے) نکلتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے۔

عن أنس -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من خَرج في طلب العلم فهو في سَبِيلِ الله حتى يرجع».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص طلب علم میں (اپنے گھر سے) نکلتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن مَنْ خَرج من بيته أو بلده؛ بَحثا عن العلم الشرعي، فهو في حكم من خرج للجهاد في سبيل الله -تعالى-، حتى يعود إلى أهله؛ لأنه كالمجاهد في إحياء الدِّين وإذلال الشيطان وإتعاب النَفْس.
581;دیث کا مفہوم: جو شخص اپنےگھر یا اپنے شہر سے شرعی علم کے حصول کے لیے نکلتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹ آئے۔ کیونکہ ایسا شخص دین کے احیاء، شیطان کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرنے میں ایسے ہی ہے جیسے جہاد کرنے والا ہوتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4191

 
 
Hadith   578   الحديث
الأهمية: من رآني في المنام فَسَيَرَانِي في اليقظة -أو كأنما رآني في الْيَقَظَةِ- لا يَتَمَثَّلُ الشيطان بي


Tema:

جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے جاگتے ہوئے بھی عنقریب دیکھے گا، یا یوں کہا کہ گویا اس نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا، اور شیطان میری شکل میں نہیں آ سکتا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من رآني في المنام فَسَيَرَانِي في اليَقظة -أو كأنما رآني في الْيَقَظَةِ- لا يَتَمَثَّلُ الشيطان بي».

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے جاگتے ہوئے بھی عنقریب دیکھے گا، یا یوں کہا کہ گویا اس نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا، اور شیطان میری شکل میں نہیں آ سکتا۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اختلف العلماء في بيان معنى هذا الحديث، على عدة اتجاهات:
الأول: أن المراد به: أهل عصره، ومعناه أن من رآه في النوم ولم يكن هاجر يوفقه الله تعالى للهجرة ورؤيته -صلى الله عليه وسلم- في اليقظة عيانًا.
والثاني: أن الذي يظهر له في المنام هو النبي -صلى الله عليه وسلم- حقيقة، أي في عالم الروح، وأن رؤياه صادقة، بشرط أن يكون بصفته المعروفة -صلى الله عليه وسلم-.
والثالث: أنه يرى تصديق تلك الرؤيا في اليقظة في الدار الآخرة؛ رؤية خاصة في القرب منه وحصول شفاعته ونحو ذلك.
قوله: "أو فكأنما رآني في اليقظة" هذه رواية مسلم فقد رواها على الشك: هل قال -صلى الله عليه وسلم-: "فسيراني في اليقظة" أو قال: "فكأنما رآني في اليقظة".
ومعناه: أن من رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- في المنام على صفته التي هو عليها فكأنما رآه في حال اليقظة، فهو كقوله -صلى الله عليه وسلم-، كما  في الصحيحين: "من رآني في المنام، فقد رآني" وفي رواية في الصحيحين أيضًا: "من رآني في المنام فقد رأى الحق".
قوله: "لا يتمثل الشيطان بي"، وفي لفظ آخر: "من رآني في النوم فقد رآني، إنه لا ينبغي للشيطان أن يتمثل في صورتي".
والمعنى: أن الشيطان لا يمكنه أن يتمثل بالنبي -صلى الله عليه وسلم- على هيئته الحقيقية، وإلا فقد يأتي الشيطان ويقول: إنه رسول الله ويكون على هيئة ليست هي هيئته -صلى الله عليه وسلم-، فهذا ليس رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فإذا رأى الإنسان شخصا ووقع في نفسه أنه النبي -صلى الله عليه وسلم- فليبحث عن أوصاف هذا الذي رآه، هل تطابق أوصاف النبي -عليه الصلاة والسلام- أو لا ؟
فإن طابقت: فقد رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- وإن لم تطابق فليس هو النبي -صلى الله عليه وسلم- وإنما هذه أوهام من الشيطان أوقع في نفس النائم أن هذا هو الرسول -صلى الله عليه وسلم- وليس هو الرسول، وقد روى أحمد والترمذي في الشمائل: عن يزيد الفارسي قال: رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في النوم، فقلت لابن عباس: إني رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في النوم، قال ابن عباس: فإن رسول الله كان يقول: "إن الشيطان لا يسِتطيع أن يتشبَّه بي، فمن رآني في النوم فقد رآني"، فهل تستطيع أن تنعت هذا الرجل الذي رأيتَ؟  قلت: نعم، فلما وصفه، قال: ابن عباس: لو رأيتَه في اليقظة ما استطعتَ أن تنعتَه فوق هذا" والمعنى: أنك لو رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- في حال اليقظة لا يمكن أن تصفه بأكثر مما وصفت،
وهذا معنى أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- حقا.
575;س حدیث کے مفہوم میں مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے علماء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔
پہلا: اس سے مُراد آپ ﷺ کے زمانے کے لوگ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اور اس نے ہجرت نہیں کی، اللہ تعالیٰ اسے ہجرت اور حقیقت میں آپ ﷺ کو دیکھنے کی توفیق دے گا۔
دوسرا: جس نے آپ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس نے حقیقت میں آپ ہی کو عالمِ ارواح میں دیکھا، لہٰذا اس کا خواب سچا ہے بشرطیکہ اُس نے آپﷺ کو اپنی مشہور ومعروف صفات کے ساتھ دیکھا ہو۔
تیسرا: آپ ﷺ کو خواب میں دیکھنا اس بات کی تصدیق ہے کہ یہ آپ کو آخرت میں بیداری کی حالت میں دیکھے گا اور یہ آپ ﷺ سے قُرب اور آپ کی شفاعت کے حصول سے متعلق خاص رؤیت ہوگی۔
حدیث کی عبارت ”أَوْ فَكَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ“ یہ مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں، راوی نے شک کی بنیاد پر اسے نقل کیا ہے یعنی راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے ”فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ “ کے الفاظ ادا کیے یا ”فَكَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ“ فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے آپ ﷺ کو اپنی اصلی حالت میں خواب میں دیکھا تو گویا اس نے آپ کو بیداری میں دیکھ لیا۔ اس کا مفہوم آپ ﷺ کی دوسری حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جو صحیحین میں وارد ہوئی ہے ”مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي“ جس نے خواب میں مجھے دیکھا سو وہ مجھے حقیقت میں دیکھ چکا۔ صحیحین میں دوسری جگہ مروی ہے ”مَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ“ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے یقیناً سچا خواب دیکھا۔
حدیث کے الفاظ ”لا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِي“ یہی مفہوم دوسرے الفاظ کے ساتھ اس طرح آیا ہے ”مَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ فَقَدْ رَآنِي إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِي لِلشَّيْطَانِ أَنْ يَتَمَثَّلَ فِي صُورَتِي“ یعنی جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان آپ ﷺ کی اصلی صورت نہیں اپنا سکتا۔ ورنہ شیطان آتا اور کہتا کہ میں اللہ کا رسول ہوں حالانکہ وہ آپ ﷺ کی صورت نہیں۔ اس لئے وہ اللہ کا رسول نہیں۔ لہٰذا جب انسان کسی شخص کو دیکھے اور اس کے دل میں یہ بات آئے کہ وہ آپ ﷺ ہیں تو اسے چاہیئے اس کے اوصاف دیکھے کہ اس کے اوصاف آپ ﷺ کے اوصاف کے مطابق ہیں یا نہیں؟
اگر مطابق ہوں تو اس نے آپ ﷺ کو دیکھا اور اگر نہ ہوں تو وہ آپ ﷺ نہیں ہے۔ بلکہ یہ شیطان کی طرف سے وہم ہے جو سوئے ہوئے شخص کے دل میں وہ ڈالتا ہے کہ یہ اللہ کے رسول ہے، حالانکہ وہ اللہ کے رسول نہیں۔ شمائل میں امام احمد اور ترمذی کے حوالے سے یزید فارسی سے منقول ہے کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، تو میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے خواب میں آپ ﷺ کو دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا، پس جو مجھے خواب میں دیکھ لے اس نے مجھے دیکھ لیا۔ کیا آپ اس شخص کی صفات بیان کرسکتے ہیں جسے آپ نے خواب میں دیکھا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ جب انہوں نے اوصاف بیان کیں، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم بیداری میں آپ کی زیارت کرتے تو اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے۔ یعنی اگر آپ نبی ﷺ کو بیداری کی حالت میں دیکھ لیتے تو آپ ﷺ کے اوصاف اس سے زیادہ بیان نہ کرسکتے۔ یعنی انھوں نے یقیناً آپ ﷺ کو دیکھا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4192

 
 
Hadith   579   الحديث
الأهمية: مَنْ رَضِيَ بالله رَبَّاً، وبالإسلام دِيْنَا، وبمحمد رسولا، وجَبَتْ له الجنة


Tema:

جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پرراضی ہو گیا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی

عن أبي سعيد الْخُدْرِي -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ رَضِيَ بالله رَبًّا، وبالإسلام دِيْنًا، وبمحمد رسولًا، وجَبَتْ له الجنة»، فَعَجِبَ لها أبو سعيد، فقال: أَعِدْهَا عَلَيَّ يا رسول الله، فَأَعَادَهَا عليه، ثم قال: «وأُخْرَى يَرْفَعُ الله بها العَبْد مائة دَرَجَة في الجنة، ما بين كل دَرَجَتَينِ كما بين السماء والأرض» قال: وما هي يا رسول الله؟ قال: «الجهاد في سَبِيل الله، الجهاد في سَبِيل الله».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پرراضی ہو گیا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ اس پر ابو سعید نے متعجب ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس بات کو دوبارہ کہیئے۔ آپ ﷺ نے اسے ان کے سامنے دوبارہ بیان کیا۔ پھر فرمایا: ایک اور (عمل) ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی بندے کے جنت میں سو درجات بلند کرتا ہے۔ دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین فاصلہ ہے۔ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اوہ عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن مَنْ آمن بالله ربَّا وبالإسلام دِيناً وبمحمد -صلى الله عليه وسلم- رسولاً وجبت له الجنة.
وفي رواية عند أحمد: "يا أبا سعيد ثلاثة من قالهن: دخل الجنة" قلت: ما هن يا رسول الله؟ قال: "من رضي بالله رباًّ، وبالإسلام ديناً، وبمحمد رسولاً".  
فلما سمع أبو سعيد الخدري -رضي الله عنه- هذه المقولة من النبي -صلى الله عليه وسلم- تَعَجَّب لها وطلب من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يعيدها عليه مرة أخرى، فأعَادها عليه، -عليه الصلاة والسلام-، ثم قال له: "وأُخْرَى" أي: من أعمال البِرِّ والطاعات " يَرْفَعُ الله بها العَبْد مائة دَرَجَة في الجنة، ما بَيْن كل دَرَجَتَينِ كما بَيْن السماء والأرض".
فالنبي -صلى الله عليه وسلم- أخبره أن هناك عملاً يرفع الله به صاحبه في الجنة مائة درجة، ولم يخبره بذلك ابتداء؛ ليتشوق لها أبوسعيد -رضي الله عنه- لأجل أن يسأل عنها، فإذا علمها بعد الإبهام كانت أوقع في نفسه، فقال: وما هي يا رسول الله؟  قال -صلى الله عليه وسلم-: " الجهاد في سَبِيل الله، الجهاد في سَبِيل الله".
فالمجاهد مع كونه من أهل الجنة، إلا أن منزلته أرفع من غيره ممن آمن بالله ربَّا وبالإسلام دِيناً وبمحمد -صلى الله عليه وسلم- رسولاً ولم يجاهد في سبيل الله تعالى، وهذا من فضل الله -تعالى- وكرمه للمجاهدين في سبيله، فلما جادوا بأنفسهم في سبيل الله -تعالى- أكرمهم الله تعالى وأنزلهم في الجنة أفضل المنازل وأعلى الدرجات، والجزاء من جنس العمل.
581;دیث کا مفہوم: جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر ایمان لے آیا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ: "اے ابو سعید! تین باتیں ایسی ہیں جو ان کا قائل ہو گیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ تین باتیں کون سی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا"۔ جب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے یہ بات سنی تو انہیں اس پر تعجب ہوا اور انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ وہ ان پر اس بات کا اعادہ کریں۔ آپ ﷺ نے اس بات کا اعادہ کیا، پھر ان سے فرمایا: " ایک اور ہے۔" یعنی نیکی و فرماں برداری کے کاموں میں سے ایک اور ہے۔ "جس کی وجہ سے اللہ تعالی بندے کے جنت میں سو درجات بلند کرتا ہے۔ دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین فاصلہ ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ ایک عمل ایسا ہے جس کے کرنے والے کے اللہ تعالی جنت میں سو درجات بلند کرتا ہے۔ شروع میں آپ ﷺ نے انہیں اس عمل کے بارے میں نہیں بتایا۔ تاکہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کو اس کے جاننے کا اشتیاق ہو اور وہ خود اسے پوچھیں۔ جب ابہام کے بعد انہیں اس کا پتہ چلے گا تو یہ ان کے لئے زیادہ پر اثر ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول! وہ عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ مجاہد اگرچہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے، تاہم اس کا مقام ان دیگر لوگوں سے بلند تر ہوتا ہے جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر ایمان لائے لیکن انہوں نے اللہ تعالی کے راستے میں جہاد نہیں کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں کے لئے فضیلت و اکرام ہے۔ چونکہ انہوں نے اللہ کے راستے میں اپنی جانیں قربان کر دیں، اس لئے اللہ تعالی انہیں جنت میں سب سے افضل اور بلند ترین درجات سے سرفراز فرمایا۔ اور بدلہ ویسے ہی ملتا ہے جیسا عمل ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4193

 
 
Hadith   580   الحديث
الأهمية: من رَمَى بسهم في سَبِيلِ الله فهو له عِدْلُ مُحَرَّرَةٍ


Tema:

جس نے اللہ کے راستے یعنی جہاد میں تیر چلایا تو اس کا یہ تیر چلانا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

عن عمرو بن عَبَسَة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «من رمى بسهم في سبيل الله فهو له عِدْلُ مُحَرَّرَةٍ».

عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں ںے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں تیر چلایا تو (اس کا) یہ تیر چلانا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن مَنْ رَمَى بسهم في وجوه أعداء الله -تعالى-، فإن له أجر مَنْ أعتق رقبة في سبيل الله -تعالى-، سواء أصاب به عدوًا أو لم يُصب، كما هي رواية النسائي: "ومَن رَمَى بسهم في سبيل الله تعالى بَلَغَ العدو أو لم يَبْلُغ".
أما إذا أصاب به عدوا كان له به درجة في الجنة، كما هي رواية أبي داود: "من بلغ بسهم في سبيل الله -عز وجل- فله درجة.
 "وفي رواية أحمد: "في الجنة".
581;دیث کا مفہوم: جس نے اللہ کے دشمنوں کے چہروں میں ایک تیر مارا اسے اس شخص کے مساوی اجر ملتا ہے جس نے اللہ کی راہ میں کوئی غلام آزاد کر دیا ہو چاہے یہ تیر دشمن کو لگے یا نہ لگے جیسا کہ سنن نسائی کی روایت میں وضاحت ہے کہ ”جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر مارا اور وہ دشمن تک پہنچا یا نہ پہنچا“۔ اگر یہ دشمن کو لگ جائے تو اس کے بدلے میں اسے جنت میں ایک درجہ ملتا ہے جیسا کہ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ ”جس کا اللہ کے راستے میں مارا ہوا تیر نشانے پر لگ گیا اس کے لیے ایک درجہ ہے‘‘۔
اور احمد کی روایت میں ہے کہ "جنت میں (ایک درجہ ہے)“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4194

 
 
Hadith   581   الحديث
الأهمية: من سَرَّهُ أَن يُنَجِّيَه الله من كَرْبِ يوم القيامة، فَلْيُنَفِّسْ عن مُعْسِر أو يَضَعْ عنه


Tema:

جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی تنگی سے نجات دلائے، تو اسے چاہیے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا پھر اس کا (کچھ یا سارا) قرض معاف کر دے۔

عن أبي قتادة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «من سَرَّهُ أَن يُنَجِّيَه الله من كَرْبِ يوم القيامة، فَلْيُنَفِّسْ عن مُعْسِر أو يَضَعْ عنه».

ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی تنگی سے نجات دلائے، تو اسے چاہبے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا پھر اس کا (کچھ یا سارا) قرض معاف کر دے۔
معنى الحديث : "من سَرَّهُ"

أي: أفرحه وأعجبه.
"أَن يُنَجِّيَه الله من كَرْبِ يوم القيامة"
أي يخلِّصُه من شَدائد ومِحَن يوم القيامة.
"فَلْيُنَفِّسْ عن مُعْسِر"
أي يؤخر مطالبته بالدَّين عند حلول أجله ويفسح له في الأجل إلى أن يَجد ما يقضي به الدَّيْن.
"أو يَضَعْ عنه"
أي: يسامحه بالدَّين الذي عليه، كله أو بعضه، قال -تعالى-: (وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ).

581;دیث کا مفہوم: ”من سَرَّهُ“ یعنی جسے یہ بات خوش لگے اور جسے یہ پسند ہو۔
”أَن يُنَجِّيَه الله من كَرْبِ يوم القيامة“ یعنی اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کے مصائب اور آزمائشوں سے نجات دے۔
”فَلْيُنَفِّسْ عن مُعْسِر“ یعنی قرض کی ادائیگی کے مقررہ وقت کے آنے پر اس کے مطالبے کو موخّر کر دے اور ادائیگی کی مدت میں کشائش دے دے، یہاں تک کہ قرض کے ادائیگی کے لیے اس کے پاس مال آجائے۔
”أو يَضَعْ عنه“ یعنی اس پر واجب الادا سارا یا کچھ قرض معاف کر دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ”اور اگر وہ تنگ دست ہے تو آسودہ حالی تک مہلت دینی چاہیے اور بخش دو، تو تمھارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4195

 
 
Hadith   582   الحديث
الأهمية: من صَام رمضان إيِمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِر له ما تَقدَّم من ذَنْبِه


Tema:

جو شخص ایمان اور ثواب کی امید سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من صَام رمضان إيِمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِر له ما تَقدَّم من ذَنْبِه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ایمان اور ثواب کی امید سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن من صام شهر رمضان إيمانا بالله مصدقا بوعده محتسبا ثوابه قاصدا به وجه الله -تعالى-، لا رياء ولا سُمعة، غُفِر له ما تقدم من ذنبه.
581;دیث کا مفہوم: جو شخص اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے، اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس سے ثواب کی نیت اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے رمضان کے مہینے کے روزے رکھتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی ریاکاری اور حصول شہرت کا شائبہ نہیں ہوتا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4196

 
 
Hadith   583   الحديث
الأهمية: مَنْ صام يومًا في سَبِيل الله جَعل الله بينه وبَيْن النِّار خَنْدَقًا كما بين السماء والأرض


Tema:

جو شخص اللہ کے راستے ميں ايک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کی آگ کے درميان آسمان اور زمين کے درمیانی فاصلے کے بقدر خندق بنا ديتا ہے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ صام يومًا في سَبِيل الله جَعل الله بينه وبَيْن النِّار خَنْدَقًا كما بين السماء والأرض».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے راستے ميں ايک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالی اس کے اور جہنم کی آگ کے درميان آسمان اور زمين کے درمیانی فاصلے کے بقدر خندق بنا ديتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من صام يومًا في سبيل الله، يُريد بذلك ثواب الله -تعالى- "جَعل الله بينه وبَيْن النِّار خَنْدَقًا" أي حجابًا شديدًا ومانعًا بعيدًا بمسافة مَدِيدَة، قَدْرُها: "كما بَيْنَ السماء والأرض" أي مسافة خمسمائة سنة، كما في حديث العباس بن عبد المطلب -رضي الله عنه-، قال: "كنا عند النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: " أتدرون كم بين السماء والأرض"؟ قلنا: الله أعلم ورسوله، قال: "بينهما مسيرة خمسمائة سنة".
580;س نے اللہ کی راہ میں حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے مابین خندق بنا دیتا ہے۔یعنی سخت قسم کا پردہ کر دیتے ہیں اور بہت لمبی آڑ بنا دیتا ہے جس کی مقدار اتنی ہے جتنا آسمان و زمین کے مابین فاصلہ ہے یعنی پانچ سو سال کی مسافت جیسا کہ عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے مابین کتنی مسافت ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان دونوں کے مابین پانچ سو سال کی مسافت ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4197

 
 
Hadith   584   الحديث
الأهمية: من صلى البَرْدَيْنِ دخل الجنة


Tema:

جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (فجر وعصر) ادا کیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔

عن أبي موسى الأشعري - رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من صلى البَرْدَيْنِ دخل الجنة».

Esin Hadith Text Urdu
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (فجر وعصر) ادا کیں وہ جنت میں داخل ہوگا“۔
معنى هذا الحديث: أن المحافظة على هاتين الصلاتين من أسباب دخول الجنة.
والمراد بهما: صلاة الفجر والعصر، ويدل على ذلك قوله -صلى الله عليه وسلم- في حديث جرير: "صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها" زاد في رواية لمسلم يعني: " العصر والفجر " ثم قرأ جرير: (وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها).

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وسميتا: "بردين"؛ لأنهما تصليان في بردي النهار وهما طرفاه حين يطيب الهواء وتذهب شدة الحر.
وقد جاءت أحاديث كثيرة تدل على فضل هاتين الصلاتين، من ذلك ما رواه عمارة بن رُؤيبة عن أبيه عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: (لا يلج النار رجلٌ صلى قبل طلوع الشمس وقبل أن تغرب) رواه مسلم (634).
ووجه تخصيصها بالذكر أن وقت الصبح يكون عند النوم ولذته، ووقت العصر يكون عند الاشتغال بتتمات أعمال النهار وتجارته، ففي صلاته لهما مع ذلك دليل على خلوص النفس من الكسل ومحبتها للعبادة، ويلزم من ذلك إتيانه بجميع الصلوات الأخر، وأنه إذا حافظ عليهما كان أشد محافظة على غيرهما، فالاقتصار عليهما لما ذكر لا لإفادة أن من اقتصر عليهما؛ بأن أتى بهما دون باقي الخمس يحصل له ذلك؛ لأنه خلاف النصوص.
وقوله -عليه الصلاة والسلام-: (من صلى البردين) المراد صلاهما على الوجه الذي أمر به، ذلك بأن يأتي بهما في الوقت، وإذا كان من أصحاب الجماعة كالرجال فليأت بهما مع الجماعة؛ لأن الجماعة واجبة، ولا يحل لرجل أن يدع صلاة الجماعة في المسجد وهو قادر عليها.
575;س حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کی پابندی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
مذکورہ نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں۔ اس پر جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کے الفاظ ہیں ”صَلاَۃٌ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا“ یعنی طلوعِ شمس اور غروبِ شمس سے پہلے والی نمازیں۔ مسلم کی روایت میں یعنی ”العصر والفجر“ کے الفاظ کا اضافہ ہے۔ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ نے ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا﴾ ” اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا ره، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے“ تلاوت فرمائی۔
ان دونوں نمازوں کو ”بَرْدَين“ کہا گیا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں نمازیں دن کے ٹھنڈے وقت میں پڑھی جاتی ہیں یعنی دن کے اطراف میں جب خوشگوار ہوا چلتی ہے اور گرمی کی شدت ختم ہو جاتی ہے۔
ان دونوں نمازوں کی فضیلت پر بہت ساری احادیث آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت عمارة بن رُؤيبہ کی ہے وہ اپنے والد سے اور ان کے والد نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے نمازیں پڑھتا ہے وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا“۔ (مسلم: 634)
ان دونوں نمازوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صبح کا وقت میٹھی نیند کا وقت ہوتا ہے اور عصر کا وقت دن بھر کے کاموں اور اپنی تجارت کو نمٹانے کا وقت ہوتا ہے۔ تو ان اوقات میں نمازیں پڑھنا اس بات کی علامت ہے کہ نمازی کا نفس سستی سے پاک ہے اور اسے عبادت وبندگی سے محبت ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ دوسری تمام نمازیں بھی پڑھتا ہے۔ یعنی جب وہ شخص ان دونوں نمازوں کا پابند پابند ہوگا تو دوسری نمازوں کا بدرجۂ اولی پابند ہوگا۔ لہٰذا صرف ان دو نمازوں کو ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص صرف یہ دو نمازیں پڑھتا ہے اور باقی نہیں پڑھتا۔ اس لیے کہ یہ نصوص کے خلاف ہے۔
آپ ﷺ کا یہ کہنا ”مَنْ صَلّى البَرْدَيْنِ“ سے مراد یہ ہے کہ جس نے یہ نمازیں اسی صفت پر پڑھی جس کا حکم دیا گیا ہے بایں طور کہ انہیں اپنے وقت میں پڑھے۔ اور اگر اس پر باجماعت نماز پڑھنا فرض ہے یعنی وہ مرد حضرات ہیں، تو وہ جماعت سے پڑھیں۔ اس لیے کہ جماعت واجب ہے۔ کسی شخص کے لیے کہ یہ جائز نہیں کہ وہ مسجد میں جماعت کی نماز پر قادر ہوتے ہوئے اسے چھوڑے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4198

 
 
Hadith   585   الحديث
الأهمية: مَنْ عُلِّمَ الرَّمْيَ، ثم تَرَكَه، فليس مِنَّا، أو فقد عَصَى


Tema:

جسے نشانہ بازی سکھائی گئی اور بعدازاں اس نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں، یا اس نے نافرمانی کی۔

عن عقبة بن عامر-رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ عُلِّمَ الرَّمْيَ، ثم تَرَكَه، فليس مِنَّا، أو فقد عَصَى».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے نشانہ بازی سکھائی گئی اور بعدازاں اس نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں، یا اس نے نافرمانی کی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أن من تَعَلَّم الرَّمي بالسهام ومثله الرمي بآلات الجهاد الحديثة، ثم تركه وأهمله، "فليس منِّا"، أي ليس من أهل هديْنَا وسُنتنا.
"أو قد عصى" وهذا شك من الراوي، هل قال -صلى الله عليه وسلم-: "فليس منِّا أو فقد عصى".
581;دیث کا مفہوم: جس نے تیراندازی یا پھر جدید آلات جنگ کے ذریعے سے نشانہ بازی سیکھی اور پھر اس نے اسے چھوڑ دیا اور اس سلسلے میں لاپرواہی برتی تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یعنی وہ ہمارے طرزِعمل اور ہمارے طریقے پر قائم نہیں ہے۔”یا اس نے نافرمانی کی“۔ راوی کو اس میں شک ہے کہ آپ ﷺ نے ”وہ ہم میں سے نہیں ہے“ کہا تھا یا پھر ”اس نے نافرمانی کی“ کہا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4199

 
 
Hadith   586   الحديث
الأهمية: مَنْ قاتل في سَبِيل الله من رَجُل مُسْلم فُوَاقَ نَاقَة، وجَبَتْ له الجنة، ومن جُرح جُرْحًا في سَبِيل الله أو نُكِبَ نَكْبَةً فإنها تَجِيء يوم القيامة كَأَغزَرِ ما كانت: لونُها الزَّعْفَرَانُ، وريُحها كالمِسك


Tema:

جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی۔

عن معاذ -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ قاتل في سَبِيل الله من رَجُل مُسْلم فُوَاقَ نَاقَة، وجَبَتْ له الجنة، ومن جُرح جُرْحًا في سَبِيل الله أو نُكِبَ نَكْبَةً فإنها تَجِيء يوم القيامة كَأَغزَرِ ما كانت: لونُها الزَّعْفَرَانُ، وريُحها كالمِسك».

معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ما من مسلم يقاتل في سبيل الله ولو بمقدار يسير، كمقدار ما بَيْن الحلْبَتَين، والمقصود بذلك أن تُحلب الناقة ثم تُترك ليَرضع الفَصِيل، ثم يرجع إلى الضَرع فيحلبه مرة ثانية؛ إلا وجبت له الجنة، ومن أُصيب في سبيل الله تعالى، كما لو سقط من على فرسه فجُرح أو ضربة سيف أو غير ذلك ولو كانت إصابته يسيرة، جاء يوم القيامة وجرحه يتصبب منه الدم بَغَزارة، إلا أن لونه لون الزَعْفَران وتفوح منه أطيب الروائح التي هي رائحة المسك.
580;و کوئی مسلمان اللہ کے راستہ میں تھوڑی دیر کے لیے بھی جہاد کرے گا، مثلاً اتنی دیر جہاد کیا جتنا کسی اونٹنی کو دوبارہ دوہنے کا وقفہ ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اونٹنی کو دوہا جاتا ہے پھر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچے کو دددھ پلائے، پھر دودھ چھاتی میں لوٹ آئے اس کے بعد دوبارہ اسے دوہا جائے، تو اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ اور جس کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگ جائے، مثلاً وہ گھوڑے کے اوپر سے گر کر زخمی ہو جائے یا تلوار وغیرہ کی ضرب لگ جائے، اگرچہ زخم ہلکا ہی کیوں نہ ہو، تو وہ قیامت کے صن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے کثرت کے ساتھ خون نکلے گا، مگر اس کا رنگ زعفرانی ہوگا اور اس کی خوشبو سب سے بہتر خوشبو یعنی مشک کی خوشبو کی مانند ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4200

 
 
Hadith   587   الحديث
الأهمية: من قال: سُبحان الله وبِحَمْدِه، غُرِسَتْ له نَخْلة في الجنة


Tema:

جو شخص ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ“ کہے گا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگایا جائے گا۔

عن جابر -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «من قال: سُبحان الله وبِحَمْدِه، غُرِسَتْ له نَخْلة في الجنة».

جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کہے گا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگایا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم-: أن من سَبَّحَ الله فقال: سبحان الله وبحمده. غُرست له نخلة في الجنة عن كل تسبيحة قالها.
606;بی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہوئے ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ“ کہتا ہے اس کے لیے ہر دفعہ کہی گئی تسبیح کے بدلے میں جنت میں کھجور کا ایک پودا لگا دیا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4201

 
 
Hadith   588   الحديث
الأهمية: من قام ليلة القَدْر إيِمَانا واحْتِسَابًا غُفِر له ما تَقدم من ذَنْبِه


Tema:

جس نے شبِ قدر میں حالتِ ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من قام ليلة القَدْر إيمَانا واحْتِسَابًا غُفِر له ما تَقدم من ذَنْبِه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے شبِ قدر میں حالتِ ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث وارد في فضل قيام ليلة القدر والحث على ذلك ،فمن وافق قيامه ليلة القدر، مؤمنا بها وبما جاء في فضلها راجيًا بعمله ثواب الله  تعالى، لا يقصد من ذلك رياء ولا سُمعة، ولا غير ذلك مما يخالف الإخلاص والاحتساب، فإنه يُغفر له جميع صغائر ذُنوبه، أما الكبائر فلا بد من إحداث توبة صادقة، إن كانت في حق الله تعالى، أما إن كانت متعلقة بحق آدمي، فالواجب أن يتوب إلى الله تعالى وأن يَبْرأ من حق صاحبها.
740;ہ حدیث شبِ قدر میں قیام کی فضیلت سے متعلق ہے اور اس میں قیام اللیل کی ترغیب دی گئی ہے۔ جو شخص شبِ قدر میں قیام کرتا ہے بایں حال کہ وہ اس رات پر اور اس کی فضلیت کے بارے میں جو کچھ آیا ہے اس پر ایمان رکھتا ہو اور اپنے عمل پر اللہ سے ثواب کا امید وار ہو اور اس سے اس کا مقصود نہ تو ریاکاری ہو اور نہ نیک نامی کا حصول اور نہ ہی کوئی اور ایسی بات جو اخلاص و نیت ثواب کے منافی ہوتی ہے تو اس کے تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے سچی توبہ ضروری ہے جب کہ ان کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو اور اگر وہ حقوق العباد سے متعلق ہوں تو اس صورت میں واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے توبہ بھی کرے اور حق دار کے حق سے بھی سبکدوش ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4202

 
 
Hadith   589   الحديث
الأهمية: من يُرِدِ الله به خيرا يُصِبْ مِنه


Tema:

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو مصيبت سے دوچار کر دیتا ہے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من يُرِدِ الله به خيرا يُصِبْ مِنه».

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو مصيبت سے دوچار کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا أراد الله بعباده خيرًا ابتلاهم في أنفسهم وأموالهم وأولادهم؛ ليكون ذلك سببًا في تكفير ذنوبهم ورفعة في درجاتهم، وإذا تأمل العاقل عواقب البلاء وجد أن ذلك خيرٌ في الدنيا وفي الآخرة، وإنما الخيرية في الدنيا؛ لما فيه من اللجوء إلى الله تعالى بالدعاء والتضرع وإظهار الحاجة، وأما مآلًا فلما فيه من تكفير السيئات ورفع الدرجات. 
قال تعالى: (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ)، ولكن هذا الحديث المطلق مقيد بالأحاديث الأخرى التي تدل على أن المراد: من يرد الله به خيراً فيصبر ويحتسب، فيصيب الله منه حتى يبلوه، أما إذا لم يصبر فإنه قد يصاب الإنسان ببلايا كثيرة وليس فيه خير، ولم يرد الله به خيراً، فالكفار يصابون بمصائب كثيرة، ومع هذا يبقون على كفرهم حتى يموتوا عليه، وهؤلاء بلا شك لم يرد بهم خيرًا.
580;ب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو انہیں ان کی جان، مال اور اولاد کے تئیں آزمائش سے دوچار کرتا ہے۔ تاکہ یہ ان کے گناہوں کا کفارہ اور ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ جب ايک عقلمند شخص آزمائش اور مصيبت کے انجام پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ يہ اس کے لیے دنيا وآخرت ميں خير وبھلائی کا باعث ہے۔ دنیا میں بہتری کا پہلو اس طرح ہے كہ وه اس حالت میں دعا، عاجزی اور اپنی حاجت کے اظہار کے ذريعہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور آخرت میں خیر کا پہلو اس طرح ہے کہ یہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾ ”اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے“۔
يہ مطلق حديث ان دوسری احادیث سے مقید ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس حديث کا مطلب يہ ہے کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے‘ پس وہ صبر کرتا ہے اور اللہ سے ثواب کی اميد رکھتا ہے، تو اللہ اسے مصيبت سے دوچار کر دیتا ہے تاکہ اسے آزمائے۔ ليكن اگر وہ صبر نہ کرے، تو انسان کبھی کبھار بہت ساری مصیبتوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور ان میں خیر نہیں ہوتا ہے اور اللہ اس کے ساتھ بھلائی کا اراده نہیں فرماتا ہے۔ چنانچہ کفار ڈھیروں مصائب میں مبتلا کئے جاتے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں اور اسی پر مرتے ہیں، بلا شبہ ان لوگوں کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا اراده نہیں کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4204

 
 
Hadith   590   الحديث
الأهمية: مرَّ علينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن نُعالج خُصًّا لنا


Tema:

اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس سے گزرے جبکہ ہم اپنی جھونپڑی کی مرمت کر رہے تھے

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- قال: مرَّ علينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن نُعالج خُصًّا لنا، فقال: «ما هذا؟» فقلنا: قد وَهَى، فنحن نُصلحه، فقال: «ما أرى الأمر إلا أَعْجَل من ذلك».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس سے گزرے جبکہ ہم اپنی جھونپڑی کی مرمت کررہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 'یہ کیا ہے؟' ہم نے کہا کہ یہ (گھر) کمزور ہو گیا تھا، ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو معاملے (موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہا ہوں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث : أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بعمرو بن العاص وهو يصلح ما قد فسد من بيته أو يعمل فيه لتقويته.
وفي رواية لأبي داود : "وأنا أطين حائطاً لي" فقال: "ما أرى الأمر إلا أَعجل من ذلك" يعني: أن الأجل أقرب من أن تصلح بيتك خشية أن ينهدم قبل أن تموت وربما تموت قبل أن ينهدم، فإصلاح عملك أولى من إصلاح بيتك.
والظاهر أن عمارته لم تكن ضرورية، بل كانت ناشئة عن أمل في تقويمه، أو صادرة عن ميل إلى زينته، فبين له أن الاشتغال بأمر الآخرة أولى من الاشتغال بما لا ينفع في الآخرة.
581;دیث کا مطلب یہ ہے کہ: پیغمبر ﷺ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرےجبکہ وہ اپنے گھر کا وہ حصہ ٹھیک کررہے تھے جو خراب ہوگیا تھا یا وہ اسے مضبوط کررہےتھے۔
ابو داؤد کی ایک روایت میں ”وأنا أطين حائطا لي“ کے الفاظ ہیں یعنی میں گھر کی ایک دیوار لیپ رہا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں معاملہ اس سے بھی جلدی دیکھ رہا ہوں۔
یعنی تم اپنی موت کے آنے سےپہلے گھر کے گرنے کے خوف سے اس کے مرمت میں مصروف ہو۔لیکن موت اس سے بھی زیادہ قریب ہے، ہوسکتا ہے گھر کے گرنے سے پہلے ہی تمہاری موت آجائے۔ اس لئے تمہارا اپنے عمل کی اصلاح کرنا اپنے گھر کو درست کرنےسے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گھر کی تعمیر کا کام ضروری نہیں تھا، بلکہ وہ گھر کو اور مضبوط کرنے کی امید یا اس کی زینت کی خاطر تھا۔ اس لئے آپ ﷺ نے بیان فرمایا کہ اُخروی امور میں مصروف ہونا ایسے کام میں مصروف ہونے سے بہتر ہے جو آخرت میں نفع بخش نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4205

 
 
Hadith   591   الحديث
الأهمية: المسلمُ إذا سُئِلَ في القَبْرِ يَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إلا اللهُ، وأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، فذلك قولُهُ تعالى: يُثَبِّتُ اللهُ الذِينَ آمَنُوا بالقَوْلِ الثَّابِتِ في الحَيَاةِ الدُّنْيَا وفي الآخِرَةِ


Tema:

مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو گا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: يُثَبِّتُ اللهُ الذِينَ آمَنُوا بالقَوْلِ الثَّابِتِ في الحَيَاةِ الدُّنْيَا وفي الآخِرَةِ کا یہی مطلب ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن البراء بن عازب -رضي الله عنه- مرفوعاً: «المسلمُ إذا سُئِلَ في القَبْرِ يَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إلا اللهُ، وأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، فذلك قولُهُ تعالى: (يُثَبِّتُ اللهُ الذِينَ آمَنُوا بالقَوْلِ الثَّابِتِ في الحَيَاةِ الدُّنْيَا وفي الآخِرَةِ) [إبراهيم: 27]».

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو گا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الذِينَ آمَنُوا بالقَوْلِ الثَّابِتِ في الحَيَاةِ الدُّنْيَا وفي الآخِرَةِ﴾ (ابراھیم: 27) یعنی ”اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی) “ کا یہی مطلب ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُسأل المؤمن في القبر، يسأله الملكان الموكلان بذلك وهما منكر ونكير، كما جاء تسميتهما في سنن الترمذي، فيشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله. قال النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا هو القول الثابت الذي قال الله فيه: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ} [إبراهيم: 27].
605;ومن بندے سے قبر میں سوال کیا جائے گا۔ دو فرشتے جو اس پر وکیل ہوں گے، انہیں منکر نکیر کہا جاتا ہے جیسا کہ ترمذی میں ان کے نام مذکور ہیں۔ تو مومن شخص گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا یہی وہ ’قولِ ثابت‘ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الذِينَ آمَنُوا بالقَوْلِ الثَّابِتِ في الحَيَاةِ الدُّنْيَا وفي الآخِرَةِ﴾ [إبراهيم: 27] ”اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی)‘‘۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4206

 
 
Hadith   592   الحديث
الأهمية: أَمَا إِنَّهُ لَوْ سَمَّى لَكَفَاكُمْ


Tema:

اگر اس نے بسم اللہ پڑھی ہوتی تو وہ تمہارے لیے کافی ہو جاتا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- كان رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- يَأْكُلُ طَعَامًا في سِتَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَأَكَلَهُ بِلُقْمَتَيْنِ، فقال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «أَمَا إِنَّهُ لَوْ سَمَّى لَكَفَاكُمْ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ایسے میں ایک اعرابی آیا جس نے دو ہی لقموں میں سارا کھانا کھا لیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس نے بسم اللہ پڑھی ہوتی تو وہ تمہارے لیے کافی ہو جاتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأكل مع ستة من أصحابه، فجاء أعرابي فدخل معهم فأكل الباقي بلقمتين، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: أما إنه لو سمى لكفاكم، لكنه لم يُسَمِّ فأكل الباقي كله بلقمتين، ولم يكفه، وهذا يدل على أن الإنسان إذا لم يُسَمِّ نُزِعَت البركة من طعامه.
606;بی ﷺ اپنے چھے صحابہ کرام کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ اس دوران میں ایک دیہاتی آ کر ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور اس نے دو ہی لقموں میں کھانا ختم کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ بسم اللہ پڑھ لیتا تو یہ تمہارے لیے کافی ہو جاتا لیکن اس نے بسم اللہ نہیں پڑھی اور باقی کھانا سارے کا سارا دو لقموں میں کھا گیا اور وہ اس کے لیے کافی نہ ہوا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان جب بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کے کھانے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4209

 
 
Hadith   593   الحديث
الأهمية: أُمِرْتُ أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله، ويُقيموا الصلاة، ويُؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءَهم وأموالَهم إلا بحق الإسلام وحسابُهم على الله -تعالى-


Tema:

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں (یعنی اسلام لے آئیں) اور یہاں تک کہ وہ نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ دینا شروع کردیں۔ جو لوگ یہ کرلیں گے وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیں گے سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہو گا، باقی رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔

عن عمر بن الخطاب وابنه عبد الله وأبي هريرة -رضي الله عنهم- مرفوعاً: «أُمِرْتُ أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله، ويُقيموا الصلاة، ويُؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءَهم وأموالَهم إلا بحق الإسلام وحسابُهم على الله -تعالى-».

عمر بن خطاب اور ان کے بیٹے عبد اللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں (یعنی اسلام لے آئیں) اور یہاں تک کہ وہ نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ دینا شروع کردیں۔ جو لوگ یہ کرلیں گے وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیں گے سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہوگا، باقی رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله -تعالى- أمر بمقاتلة المشركين حتى يشهدوا بأن لا معبود بحق إلا الله وحده لا شريك له، ويشهدوا لمحمد -صلى الله عليه وسلم- بالرسالة، والعمل بمقتضى هذه الشهادة من المحافظة على الصلوات الخمس، والزكاة عند وجوبها، فإذا قاموا بهذه الأركان مع ما أوجب الله عليهم، فقد منعوا وحفظوا دماءهم من القتل، وأموالهم لعصمتها بالإسلام، إلا بحق الإسلام بأن يصدر من أحد ما تحكم شريعة الإسلام بمؤاخذته من قصاص أو حدٍّ أو غير ذلك، ومن فعل ما أُمر به فهو المؤمن، ومن فعله تقية وخوفا على ماله ودمه فهو المنافق، والله يعلم ما يسره فيحاسبه عليه.
575;للہ تعالی نے مشرکین سے لڑنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور اس بات کی بھی گواہی دے دیں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اس گواہی کی بدولت جو عمل واجب ہوتا ہے اسے بجا لائیں یعنی پانچ نمازوں کی پابندی کریں اور زکوۃ واجب ہونے پر اسے ادا کریں۔ جب وہ ان فرائض کو ان دیگر اشیاء کے ساتھ انجام دینے لگیں گے جو اللہ تعالی نے ان پر واجب کی ہیں تو اس صورت میں وہ اپنی جانوں کو قتل ہونے سے اور اپنے اموال کو (ضائع ہونے سے) بچا لیں گے کیونکہ اسلام لانے کی وجہ سے یہ معصوم ہو جائیں گے۔ ماسوا اس صورت میں جب کوئی اسلام کا حق پیدا ہو جائے بایں طور کہ کسی شخص سے ایسا عمل سرزد ہو جائے جس پر ازروئے شریعت اس کا مواخذہ ضروری ہو یعنی اس پر قصاص یا حد وغیرہ آئے۔ جس نے اس حکم کو پورا کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تو وہ مومن ہے اور جس نے محض تقیہ کرتے ہوئے اوراپنے مال و جان کے ڈر سے ایسا کیا (یہ گواہی دی) تو وہ منافق ہے۔ اللہ تعالی اس کے باطن کے حال کو جانتا ہے اور وہی اس پر ان سے حساب لے گا۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی تمام روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4211

 
 
Hadith   594   الحديث
الأهمية: فَاجْتَمِعُوا على طَعَامِكُمْ، واذْكُرُوا اسمَ اللهِ، يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ


Tema:

اپنا کھانا اکٹھے ہو کر کھایا کرو اور اللہ کا نام لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت ڈال دی جائے گی۔

عن وَحْشِيِّ بنِ حَرْبٍ -رضي الله عنه-: أَنَّ أصحابَ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- قالوا: يا رسولَ اللهِ، إِنَّا نَأْكُلُ ولا نَشْبَعُ؟ قال: «فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ» قالوا: نعم، قال:«فَاجْتَمِعُوا على طَعَامِكُمْ،واذْكُرُوا اسمَ اللهِ، يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ».

وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تم الگ الگ کھاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”اپنا کھانا اکٹھے ہو کر کھایا کرو اوراللہ کا نام لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت ڈال دی جائے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال الصحابة للنبي -صلى الله عليه وسلم-: إنهم يأكلون ولا يشبعون، فأخبرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن لذلك أسبابا منها: التفرق على الطعام؛ فإن ذلك من أسباب نزع البركة؛ لأن التفرق يستلزم أن كل واحد يجعل له إناء خاص فيتفرق الطعام وتنزع بركته، ومنها أيضا: عدم التسمية على الطعام؛ فإن الإنسان إذا لم يسم الله على الطعام أكل الشيطان معه ونزعت البركة من طعامه.
589;حابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ وہ کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس کے کچھ اسباب یہ ہیں: الگ الگ ہو کر کھانا کھانا۔ کیونکہ یہ برکت اٹھ جانے کا ایک سبب ہے اس لیے کہ الگ الگ کھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر کسی کا خاص برتن ہو۔ اس سے کھانا بٹ جائے گا اور برکت اٹھ جائے گی۔ اس کی ایک اور وجہ کھانے پر بسم اللہ نہ پڑھنا بھی ہے۔ انسان جب کھانے پر اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان اس کے ساتھ کھاتا ہے اور اس کے کھانے سے برکت کھینچ لی جاتی ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4212

 
 
Hadith   595   الحديث
الأهمية: إن الله تَجَاوزَ لِي عن أمتي الخطأَ والنِّسْيانَ وما اسْتُكْرِهُوا عليه


Tema:

بے شک اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت سےغلطی، بھول چوک اور جس پر انہیں مجبور کیا گیا ہو، معاف کر دیا ہے۔

عن عبد الله ابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إن الله تَجَاوزَ لِي عن أمتي الخطأَ والنِّسْيانَ وما اسْتُكْرِهُوا عليه».

عبد الله ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی نے میرے لیے میری امت سے غلطی، بھول چوک اور جس کام کے کرنے پرانھیں مجبور کردیا جائے، اسے معاف کردیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من رحمة الله -تعالى- بهذه الأمة أن عفا عن إثم الخطأ -وهو ما لم يتعمدوه من المعاصي- والنسيان للواجبات أو فعل المحرمات، لكن إذا تذكر الواجب لاحقًا أتى به، وكذلك ما استكرهوا عليه وأرغموا على فعله من المعاصي والجنايات، فقال -تعالى-: {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ}.
575;س امت پر اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے اسے غلطی کے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔ اس سے مراد وہ گناہ ہیں جو انہوں نے جان بوجھ کر نہ کیے ہوں۔ اسی طرح بھول چوک سے چھوٹ جانے والے واجبات یا حرام کاموں کے ارتکاب کو بھی معاف کر دیاہے۔ تاہم جب بعد میں واجب یاد آ جائے تو وہ اسے ادا کر لے گا۔ اسی طرح جن گناہوں اور جرائم کے ارتکاب پر انہیں مجبور کر دیا جائے وہ بھی انہیں معاف ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج: 78) ”اور ہم نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی“۔   --  [یہ حدیث اپنی دیگر اسانید اور شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4216

 
 
Hadith   596   الحديث
الأهمية: إن الله -عز وجل- تَابَعَ الوَحْيَ عَلَى رَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ وَفَاتِهِ حَتَّى تُوُفِّيَ أَكْثَرَ مَا كَانَ الوَحْيَ


Tema:

اللہ عزّ و جلّ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ پر پہ در پہ وحی نازل فرماتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وفات اس وقت ہوئی جب کثرت کے ساتھ وحی نازل ہو رہی تھی۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: إن الله -عز وجل- تابع الوحي على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبل وفاته حتَّى تُوُفِّيَ أكثر ما كان الوحي.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ عز و جل رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ پر پہ در پہ وحی نازل فرماتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وفات اس وقت ہوئی جب کثرت کے ساتھ وحی نازل ہو رہی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكثر الله -عز وجل- من إنزال الوحي على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبل وفاته؛ حتى تكمل الشريعة؛ حتى توفي الرسول -صلى الله عليه وسلم- في وقت كثرة نزوله.
575;للہ عز و جل نے رسول اللہ ﷺ پر آپ ﷺ کی وفات سے پہلے کثرت کے ساتھ وحی نازل کی تاکہ شریعت مکمل ہوجائے یہاں تک کہ جب کثرت کے ساتھ وحی کا نزول ہو رہا تھا تو اس وقت آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4217

 
 
Hadith   597   الحديث
الأهمية: لا تُقَارِنُوا، فإنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نهى عن القِرَانِ، ثم يقولُ: إلا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرجلُ أَخَاهُ


Tema:

دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔ پھر فرمایا : سوائے اس صورت کے، جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے (جو کھانے میں شریک ہے) اس کی اجازت لے لے۔

عن جَبَلَةَ بنِ سُحَيْمٍ، قال: أَصَابَنَا عَامُ سَنَةٍ مع ابنِ الزبيرِ؛ فَرُزِقْنَا تمرًا، وكان عبدُ اللهِ بنُ عمرَ -رضي الله عنهما- يَمُرُّ بنا ونحن نَأْكُلُ، فيقول: لا تُقَارِنُوا، فإنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نهى عن القِرَانِ، ثم يقولُ: إلا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرجلُ أَخَاهُ.

جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ: دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔ پھر فرمایا :سوائے اس صورت کے، کہ جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے (جو کھانے میں شریک ہے) اس کی اجازت لے لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن جبلة بن سحيم قال: أصابنا عام قحط مع ابن الزبير -رضي الله عنهما-، فأعطانا تمرا، فكان ابن عمر -رضي الله عنهما- يمر بنا ونحن نأكل، فيخبرنا أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى أن يقرن الرجل بين التمرتين ونحوهما مما يؤكل أفرادا، إذا كان مع جماعة إلا بإذن أصحابه.
فالشيء الذي جرت العادة أن يؤكل واحدة واحدة، كالتمر إذا كان معك جماعة فلا تأكل تمرتين في لقمة واحدة؛ لأن هذا يضر بإخوانك الذين معك، فلا تأكل أكثر منهم إلا إذا استأذنت، وقلت: تأذنون لي أن آكل تمرتين في آن واحد، فإن أذنوا لك فلا بأس.
ملحوظة: في صحيح البخاري: فرزقنا بأربع فتحات، والفاعل ابن الزبير، والمعنى أعطانا، وفي رواية البيهقي: فرزقنا بضم الراء بالبناء للمجهول، ويحتمل الرازق الله -تعالى-.
580;بلہ بن سحیم نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ نبی ﷺ دو کھجوروں اور ان کے مثل جن چیزوں کو ایک ایک کرکے کھایا جاتا ہے ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے ساتھ کھانے سے منع فرمایا ہے، اِلاّ یہ کہ اس کے ساتھی اس کی اجازت دیں تو کھایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو عادتاً ایک ایک کھائی جاتی ہو جیسے کھجور، تو زیادہ لوگوں میں ایک لقمے میں دو دو کھجوریں نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ یہ دوسرے بھائیوں کو تکلیف دینے کا باعث ہوگا۔ لہذا ان سے زیادہ نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ ان سے اجازت لے لو۔ ان سے کہو کہ کیا تم مجھے ایک ساتھ دو کھجوریں کھانے کی اجازت دیتے ہو؟ اگر وہ اس کی اجازت دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔
نوٹ: صحیح بخاری میں ہے: ”فَرَزَقَنَا“ چاروں پر فتحہ کے ساتھ ہے اور فاعل ابن زبیر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں دیں۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے: ”فَرُزْقْنا“ راء کے پیش کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے، اس میں احتمال یہ ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4219

 
 
Hadith   598   الحديث
الأهمية: إِنَّ أَهْوَن أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ القِيَامَةِ لَرَجُلٌ يُوضَعُ في أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغه، ما يَرَى أَنَ أَحَدًا أَشَدَّ مِنْهُ عَذَابًا، وَإنَّهُ لَأَهْوَنهُم عَذَابًا


Tema:

قیامت کے دن جہنمیوں میں سے سب سے کم عذاب اس شخص کو ہو رہا ہو گا جس کے قدموں کے نیچے دو انگارے رکھے ہوں، جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا۔ وہ سمجھے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں ہو رہا ہے حالانکہ اسے ان سب سے ہلکا عذاب ہو رہا ہو گا۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنهما- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إن أَهْوَنَ أهل النار عذابا يوم القيامة لرجل يوضع في أَخْمَصِ  قدميه جمرتان يغلي منهما دماغه ما يرى أن أحدا أشد منه عذابا وإنه لَأَهْوَنُهُم عذابا».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن جہنمیوں میں سے سب سے کم عذاب اس شخص کو ہو رہا ہو گا جس کے قدموں کے نیچے دو انگارے رکھے ہوں، جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا۔ وہ سمجھے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں ہو رہا ہے حالانکہ اسے ان سب سے ہلکا عذاب ہو رہا ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن أهون أهل النار عذابًا يوم القيامة، مَن يوضع في قدميه جمرتان من نار يغلي منهما دماغه، وهو يرى أنه أشد الناس عذابًا، وهو أخفهم؛ لأنه لو رأى غيره؛ لهان عليه الأمر، وتسلى به، ولكنه يرى أنه أشد الناس عذابًا، فحينئذ يتضجر ويزداد بلاء.
606;بی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ روزِ قیامت سب سے ہلکا عذاب اس شخص کو ہو رہا ہو گا جس کے قدموں تلے دو آگ کے انگارے رکھے ہوں گے جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا اور وہ یہ سمجھے گا کہ سب سے سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ اس کا عذاب سب سے ہلکا ہو گا۔ کیونکہ اگر وہ دوسروں کو دیکھتا تو اپنے عذاب کو کم سمجھتا اور اس سے اسے کچھ تسلی ہوتی تاہم اسے یہی دکھائی دے گا کہ لوگوں میں سب سے سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے۔ اس پر وہ آہ و زاری کرے گا اور اس کی تکلیف میں اور اضافہ ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4220

 
 
Hadith   599   الحديث
الأهمية: أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بِلَبَنٍ قد شِيبَ بماءٍ، وعن يمينهِ أَعْرَابِيٌّ، وعن يَسَارِه أبو بكرٍ -رضي الله عنه- فَشَرِبَ، ثم أَعْطَى الأَعْرَابِيَّ، وقال: الأَيْمَنَ فَالأَيْمَنَ


Tema:

رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی ملا ہوا دودھ لایا گیا۔ آپ ﷺ کی دائیں طرف ایک اعرابی تھا اور بائیں طرف ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ ﷺ نے پی کر اسے اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: دائیں طرف والا زیادہ حق دار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بِلَبَنٍ قد شِيبَ بماءٍ، وعن يمينهِ أَعْرَابِيٌّ، وعن يَسَارِه أبو بكرٍ -رضي الله عنه- فَشَرِبَ، ثم أَعْطَى الأَعْرَابِيَّ، وقال: «الأَيْمَنَ فَالأَيْمَنَ».

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پانی ملا ہوا دودھ لایا گیا۔ آپ ﷺ کی دائیں طرف ایک اعرابی تھا اور بائیں طرف ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ ﷺ نے پی کر اسے اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والا زیادہ حق دار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أُتِي النبي -صلى الله عليه وسلم- بلبن قد خُلِطَ بالماء، وعلى يمينه رجل من الأعراب وعلى يساره أبو بكر، فشرب النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم أعطى الأعرابي، فأخذ الإناء وشرب، وأبو بكر أفضل من الأعرابي؛ لكن فضَّله النبي -صلى الله عليه وسلم- عليه لأنه عن يمينه، وقال: الأيمن فالأيمن، أي: قدموا وأعطوا الأيمن فالأيمن.
606;بی ﷺ کے پاس پانی ملا ہوا دودھ لایا گیا۔ آپ ﷺ کی دائیں جانب ایک اعرابی آدمی تھا اور بائیں طرف ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ نبی ﷺ نے دودھ خود نوش کرنے کے بعد اعرابی کو دے دیا۔ اس نے برتن اٹھایا اور اسے پی لیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اعرابی سے افضل تھے، لیکن نبی ﷺ نے اعرابی کو ترجیح دی کیوںکہ وہ آپ ﷺ کی دائیں جانب تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”االْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ“ یعنی دائیں طرف والے کو مقدم رکھو اور اسے دو اور پھر اس کے بعد جو اس کے دائیں جانب ہو، اسے دو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4221

 
 
Hadith   600   الحديث
الأهمية: أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- دَخَلَ يومَ فَتْحِ مَكَّةَ وعليه عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ


Tema:

رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئےتو آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔

عن جابرٍ -رضي الله عنه-: أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- دَخَلَ يومَ فَتْحِ مَكَّةَ وعليه عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ.
عن أبي سعيدٍ عمرو بنِ حُرَيْثٍ -رضي الله عنه- قال: كَأَنِّي أَنْظُرُ إلى رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وعليه عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ، قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ.
في رواية: أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- خَطَبَ النَّاسَ، وعليه عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ.

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئےتو آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ پہن رکھا تھا۔
ابو سعید عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا ہے جس کے دونوں کنارے آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے مابین لٹک رہے ہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے اور آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث جابر أخبر -رضي الله عنه- أن النبي -عليه الصلاة والسلام- دخل عام الفتح وعليه: (عمامة سوداء) ففيه جواز لباس الثياب السود، وفي الرواية الأخرى: خطب الناس وعليه عمامة سوداء فيه جواز لباس الأسود، وإن كان الأبيض أفضل منه كما ثبت في الحديث الصحيح: "خير ثيابكم البياض"، وإنما لبس العمامة السوداء في هذا الحديث بيانا للجواز.   وأما قول عمرو بن حريث في الحديث الآخر: (كأني أنظر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفيها بين كتفيه)، فهو يدل على جواز كون العمامة سوداء ومدلاة بين الكتفين.
580;ابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ باندھا ہوا تھا۔ اس میں سیاہ رنگ کے لباس کے پہننے کا جواز ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ لوگوں سے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔ اس میں اس بات کا جواز ہے کہ سیاہ لباس پہنا جا سکتا ہے اگرچہ سفید لباس افضل ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ: ”تمہارا سب سے بہتر لباس سفید ہے“۔ آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ جس کا بیان اس حدیث میں ہے اس لئے پہنا تاکہ اس سے جواز کا علم ہو سکے۔
جب کہ عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ میں گویا رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ نے سیاہ عمامہ پہن رکھا ہے جس کے دونوں کنارے آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے مابین لٹک رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمامہ کا سیاہ ہونا اور اس کا شانوں کے مابین لٹکانا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4222

 
 
Hadith   601   الحديث
الأهمية: نِعْمَ الرَّجُلُ عبد الله، لو كان يُصلِّي من الليل


Tema:

عبد الله بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ کاش وہ رات میں نماز بھی پڑھا کرتا۔

وعن سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب -رضي الله عنهم- عن أبيه: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « نِعْمَ الرَّجُلُ عبد الله، لو كان يُصلِّي من الليل» قال سالم: فكان عبد الله بعد ذلك لا يَنامُ من الليل إلا قليلًا.

سالم بن عبد اللہ بن عمربن خطاب رضی اللہ عنہم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد الله بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ کاش وہ رات میں نماز بھی پڑھا کرتا“۔ سالم کہتے ہیں کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن عبد الله بن عمر رجل صالح وحضه على القيام بالليل، فكان -رضي الله عنه- لا ينام في الليل إلا قليلا.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ عبد اللہ بن عمر ایک نیک آدمی ہیں اور آپ ﷺ نے انہیں تہجد کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ (اس کے بعد سے) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4223

 
 
Hadith   602   الحديث
الأهمية: هذا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عليك السَّلام


Tema:

(اے عائشہ!) یہ جبریل ہیں، تمھیں سلام کہہ رہے ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «هذا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عليك السَّلام» قالت: قلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته. 
وهكذا وقع في بعض روايات الصحيحين: «وبركاته» وفي بعضها بحذفها، وزيادة الثقة مقبولة.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سےفرمایا : ”(اے عائشہ!) یہ جبریل ہیں، تمھیں سلام کہہ رہے ہیں“۔ میں نے کہا: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته۔
بخاری ومسلم کی بعض روایات میں اسی طرح ”و بركاته“ کے الفاظ کے ساتھ روایت آئی ہے، جب کہ بعض روایات میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ (اور قاعدہ یہ ہے کہ) ثقہ راوی کی زیادتی قابل قبول ہوتی ہے۔

تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال لها: "يا عائشة هذا جبريل يقرأ عليك السلام" وفي رواية "يقرئك السلام" أي: يهديك السلام، ويحييك بتحية الإسلام.
فقالت: "وعليه السلام ورحمة الله وبركاته".
ثم إنه من السنة: إذا نُقل السلام من شخص إلى شخص أن يَرُّد عليه بقوله: "وعليه السلام ورحمة الله وبركاته"؛ لظاهر حديث عائشة -رضي الله عنها-.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وإن قال: "عليك وعليه السلام أو عليه وعليك السلام ورحمة الله وبركاته" فحسن؛ لأن هذا الذي نقل السلام محسن فتكافئه بالدعاء له.
ولكن هل يجب عليك أن تنقل الوصية إذا قال: سلِّم لي على فلان أو لا يجب؟
فصَّل العلماء ذلك فقالوا: إن التزمت له بذلك وجب عليك؛ لأن الله -تعالى- يقول: (إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها)،[ النساء : 58] وأنت الآن تحملت هذا أما إذا قال: سلم لي على فلان وسكت أو قلت له مثلاً إذا تذكرت أو ما أشبه ذلك فهذا لا يلزم إلا إذا ذكرت، وقد التزمت له أن تسلم عليه إذ ذكرت، لكن الأحسن ألا يكلف الإنسان أحدًا بهذا؛ لأنه ربما يشق عليه ولكن يقول: سلم لي على من سأل عني، هذا طيب، أما أن يحمله فإن هذا لا ينفع؛ لأنه قد يستحي منك فيقول نعم أنقل سلامك ثم ينسى أو تطول المدة أو ما أشبه ذلك.
575;م المومنين عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ نے (ایک دفعہ) ان سے فرمایا: ”اے عائشہ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں، جو تمھیں سلام کہہ رہے ہیں“۔
ایک اور روایت میں”يُقرِئُكَ السَّلامَ“ کے الفاظ ہیں۔ یعنی تجھے ہدیہ سلام پیش کر رہے اور تمہیں اسلامی سلام کر رہے ہیں۔
ام المومنين عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "وعليه السلام ورحمة الله وبركاته“ (ان پر بھی سلام)۔
پھر یہ سنت ہے کہ جب کسی شخص کی طرف سے کسی اور شخص کو سلام پہنچایا جائے، تو اسے چاہیے کہ یوں جواب دے: ”وعليه السلام ورحمة الله وبركاته“ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث اسی پر دلالت کر رہی ہے۔
اگر اس نے یہ کہا کہ: ”عليك وعليه السلام“ (تم پڑ اور اس پر بھی سلامتی ہو) یا کہا کہ ”عليه وعليك السلام ورحمة الله وبركاته“ (اس پر بھی اور تم پر بھی سلامتی ہو، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں) تو یہ بہت اچھا ہے۔ کیوںکہ جس نے سلام پہنچایا، وہ احسان کرنے والا ہے۔ چنانچہ آپ اسے دعا دے کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔
اگر کوئی شخص آپ کو کہے کہ میرا سلام فلاں شخص کو پہنچادینا، تو آیا اس کا پہچانا واجب ہے یا نہیں؟
اس معاملے میں علماء کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اسے پہنچانے کی ذمہ داری لی، تو پھر اس کا پہنچانا واجب ہے۔ کیوںکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58) ”اللہ تعالیٰ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ“ اس صورت میں اسے پہنچانے کی آپ نے ذمہ داری اٹھائی ہے (اس لیے اس کا پہچانا ضروری ہے)۔ تاہم اگر اس شخص کے اس طرح کہنے پر کہ ”میرا سلام فلاں کو دینا“، آپ خاموش رہے یا پھر آپ نے اس سے کہا کہ اگر مجھے یاد رہا تو میں پہچا دوں گا یا اسی طرح کی کوئی بات کہہ دی، تو اس سلام کو پہنچانا واجب نہیں ہے، سوائے اس صورت کہ آپ کو یاد آ جائے، اور آپ نے اس سے یہ کہہ رکھا تھا کہ اگر آپ یاد آ گیا، تو آپ اس کو سلام پہنچا دیں گے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ انسان کسی کو اس کا پابند نہ کرے؛ کیوںکہ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کے لیے دشواری کا باعث ہو۔ اس کی بجائے اسے یوں کہنا چاہیے کہ: جو میرے بارے پوچھے اسے میرا سلام کہنا۔ ایسا کہنا اچھا ہے۔ تاہم کسی پر اس کی ذمہ داری ڈال دینا بہترنہیں ہے۔ کیوںکہ ہو سکتا ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے یہ کہہ دے کہ ٹھیک ہے، میں تمہارا سلام پہنچا دوں گا۔ پھر وہ بھول جائے یا لمبا عرصہ گزر جائے یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ ہو جائے (اور یوں وہ سلام نہ پہنچا سکے)۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4224

 
 
Hadith   603   الحديث
الأهمية: أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- كان يَتَنَفَّسُ في الشَّرَابِ ثَلَاثًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ تین سانس میں پانی پیتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- كان يَتَنَفَّسُ في الشَّرَابِ ثَلَاثًا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین سانس میں پانی پیتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا شرب تنفس في الشراب ثلاثاً، يشرب ثم يفصل الإناء عن فمه، ثم يشرب الثانية ثم يفصل الإناء عن فمه، ثم يشرب الثالثة، ولا يتنفس في الإناء.
606;بی ﷺ جب پانی پیتے تو اس دوران تین دفعہ سانس لیا کرتے تھے بایں طور کہ پی کر برتن اپنے منہ سے الگ کرتے پھر دوبارہ پیتے، پھر برتن کو اپنے منہ سے الگ کرتے اور پھر تیسری دفعہ پیتے۔ آپ ﷺ برتن میں سانس نہیں لیتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4225

 
 
Hadith   604   الحديث
الأهمية: صَليت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ليلة، فَأَطَالَ القيام حتى هَمَمْتُ بأمر سُوء! قيل: وما هَمَمْتَ به؟ قال: هَمَمْتُ أن أجْلِس وأَدَعَهُ


Tema:

میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ غلط خیال کیا تھا؟۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اورآپ ﷺ کا ساتھ چھوڑدوں۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: صليت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ليلة، فأطال القيام حتى هَمَمْتُ بأمْرِ سُوءٍ! قيل: وما هَمَمْتَ به؟ قال: هَمَمْتُ أن أجلس وأَدَعَه.

ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ غلط خیال کیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اورآپ ﷺ کا ساتھ چھوڑدوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى ابن مسعود -رضي الله عنه- مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة، فقام النبي -صلى الله عليه وسلم-، قياما طويلا، وهذا هو دأبه -صلى الله عليه سلم- فشق عليه -رضي الله عنه- طول القيام، حتى هَمَّ بأمر ليس يسر المرء فعله، فسئل -رضي الله عنه-: ما هَمَمْت به؟ قال: هَمَمْتُ أن أجلس وأدعه قائما؛ مما لحقه من المشقة.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے ساتھ ایک رات تہجد کی نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے بڑا لمبا قیام کیا۔ در اصل آپ ﷺ کی عادت مبارکہ یہی تھی۔ البتہ آپ ﷺ کا لمبا قیام ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر گراں گزرا، یہاں تک کہ انہوں نے ایک ایسا کام کرنے کا ارادہ کر لیا، جو ناگوار تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپ ﷺ کو قیام کی حالت میں چھوڑ دوں۔ انہیں لاحق ہونے والی مشقت کی وجہ سے انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4226

 
 
Hadith   605   الحديث
الأهمية: أَرَأَيتَ إنْ قُتِلْتُ في سَبِيلِ اللهِ، أَتُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟


Tema:

مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے؟

عن أبي قتادة الحارث بن رِبْعِيِّ -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أَنَّهُ قامَ فيهم، فذكرَ لهم أَنَّ الجهادَ في سبيلِ اللهِ، والإيمانَ باللهِ أفضلُ الأعمالِ، فقامَ رَجُلٌ، فقال: يا رسولَ اللهِ، أرأيتَ إن قُتِلْتُ في سبيلِ اللهِ، تُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فقالَ له رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «نعم، إنْ قُتِلْتَ في سبيلِ اللهِ، وأنتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ، مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ». ثم قال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «كَيْفَ قُلْتَ؟» قال: أَرَأَيتَ إنْ قُتِلْتُ في سَبِيلِ اللهِ، أَتُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فقالَ له رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «نعم، وأنتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ، مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إلا الدَّيْنَ؛ فَإنَّ جِبْرِيلَ -عليه السلام- قالَ لِي ذَلِكَ».

ابو قتادہ حارث بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے بہتر اعمال ہیں۔ (یہ سن کر ) ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ:’’ہاں، بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے جاؤ کہ تم (سختیوں پر ) صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو، پیش قدمی کرنے والے ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو‘‘۔ کچھ دیر بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کیا کہا تھا؟، اس نے عرض کیا کہ مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہاں ! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو ، ثواب کے طالب ہو، پیش قدمی کرنے والے ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے (کہ یہ معاف نہیں ہو گا)۔مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایسے ہی بتایا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قام النبي -صلى الله عليه وسلم- في الصحابة خطيبًا، فذكر لهم أن الجهاد لإعلاء كلمة الله والإيمانَ بالله أفضل الأعمال، فقام رجل فسأل النبي -صلى الله عليه وسلم-: أرأيت إن قتلتُ لإعلاء كلمة الله أتغفر لي ذنوبي، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: نعم، ولكن بشرط أن تكون قُتِلتَ صابرا مُتحملاً ما أصابك، مخلصا لله -تعالى-، غير فارٍّ من ساحة الجهاد، ثم استدرك النبي -صلى الله عليه وسلم- شيئاً وهو الدَّين، منبها على أن الجهاد والشهادة لا تكفر حقوق الآدميين.
606;بی ﷺ صحابہ کرام میں خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا افضل ترین اعمال ہیں۔ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرتا ہوا ماراجاؤں تو کیا اس وجہ سے میرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس حال میں مارے جاؤ کہ تم پرجو مصائب آئیں اس پر تم صبر کرنے والے ہو، تمہارا یہ عمل خالصتا اللہ کے لیے ہو، تم میدانِ جہاد سے راہ فراراختیار نہ کرو۔ پھر نبی ﷺ نے ازراہ استدارک قرض کا ذکرکیا اورتنبیہ فرمائی کہ جہاد اور شہادت سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4227

 
 
Hadith   606   الحديث
الأهمية: إِنْ كَانَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- لَيَدَعُ العَمَلَ، وهو يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ؛ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ


Tema:

رسول اللہ ﷺ کبھی کسی عمل کو چاہتے ہوئے بھی محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔

عن أم المؤمنين عائشة -رضي الله عنها- قالت: إِنْ كَانَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- لَيَدَعُ العَمَلَ، وهو يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ؛ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ.

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يترك العمل وهو يحب أن يفعله، لئلا يعمل به الناس، فيكون سببًا في فرضه عليهم، فتلحقهم بذلك مشقة عظيمة وهو -عليه الصلاة والسلام- يكره إلحاق المشقة بهم.
606;بی ﷺ کسی عمل کو چاہتے ہوئے بھی کبھی چھوڑ دیتے، اس اندیشے کے تحت کہ مبادا لوگوں کی طرف سے اس عمل کو کرنے کی وجہ سے وہ فرض نہ ہو جائے اور اس کی وجہ سے انھیں کسی بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ آپ ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو مشقت میں ڈالیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4228

 
 
Hadith   607   الحديث
الأهمية: لما عُرِجَ  بي مَرَرْتُ بقوم لهم أظْفَارٌ من نُحَاسٍ يَخْمِشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُم فقلت: مَنْ هؤُلاءِ يا جِبْرِيل؟ قال: هؤلاء الذين يَأكُلُونَ لحُوم الناس، ويَقَعُون في أعْرَاضِهم


Tema:

جب مجھے معراج کرائی گئی، تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لما عُرِجَ  بي مَرَرْتُ بقوم لهم أظْفَارٌ من نُحَاسٍ يَخْمِشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُم فقلت: مَنْ هؤُلاءِ يا جِبْرِيل؟ قال: هؤلاء الذين يَأكُلُونَ لحُوم الناس، ويَقَعُون في أعْرَاضِهم!».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مجھے معراج کرائی گئی، تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى هذا الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لما صُعِد به إلى السماء في ليلة المعراج مَرَّ بقوم يَخْدِشُون أجسامهم بأظفارهم النحاسية، فتعجب من حالهم -صلى الله عليه وسلم- فسأل جبريل من هؤلاء ولماذا يفعلون بأنفسهم هذا الفعل، فأخبره جبريل؛ بأن هؤلاء من يغتابون الناس، ويقعون في أعراضهم، أي يسبونهم.
581;دیث کا مفہوم: معراج کی رات جب نبی ﷺ کو آسمان پر لے جایا گیا تو آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اپنے تانبے سے بنے ناخنوں کے ذریعہ اپنے جسموں کو نوچ رہے تھے۔ آپ ﷺ کو ان کی اس حالت پر تعجب ہوا تو آپ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کون ہیں اور وہ اپنے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ وہ ہیں جو لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے اور ان کی عزتوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4229

 
 
Hadith   608   الحديث
الأهمية: إِنْ كان عِنْدَكَ مَاءٌ بَاتَ هذه الليلةَ في شَنَّةٍ وإِلَّا كَرَعْنَا


Tema:

اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا پانی ہے تو لاؤ ورنہ پھر ہم منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے ہیں۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- أَنَّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- دَخَلَ على رجلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، ومعه صاحبٌ له، فقال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: «إِنْ كان عِنْدَكَ مَاءٌ بَاتَ هذه الليلةَ في شَنَّةٍ وإِلَّا كَرَعْنَا».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے پاس اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا پانی ہے تو لاؤ ورنہ پھر ہم منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال جابر -رضي الله عنهما-: دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على رجل من الأنصار، يقال: إنه أبو الهيثم بن التيهان الأنصاري -رضي الله عنه-، ومعه صاحب له وهو أبو بكر -رضي الله عنه-، فسأله النبي -صلى الله عليه وسلم- إن كان عنده ماء بائت في قربة، وكان الوقت صائفا، والحكمة من ذلك أن الماء البائت يكون باردا، وإلا تناولنا الماء بالفم من غير إناء ولا كف.
580;ابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری شخص کے ہاں تشریف لائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انصاری ابو الہیثم ابن التھیان انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ ﷺ کے ہمراہ آپ کے ساتھی ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی ﷺ نے اس انصاری صحابی سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کوئی مشکیزے میں رات سے باسى پانی ہے؟ یہ دراصل گرمی کا وقت تھا۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ رات سے پڑا ہوا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر نہیں ہے تو پھر ہم بنا برتن اور چُلّو کے، منہ لگا کر ہی پانی پی لیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4230

 
 
Hadith   609   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشْتَرَى منه بَعِيرا، فَوَزَنَ له فَأرْجَح


Tema:

نبی ﷺ نے ان سے ایک اونٹ خریدا اور ان کے لیے (بطورِ قیمت) جب (چاندی کو) وزن کیا تو کچھ بڑھا کر وزن کیا۔

عن جابر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشْتَرَى منه بَعِيراً، فَوَزَنَ له فَأرْجَح.

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایک اونٹ خریدا اور ان کے لیے (بطور قیمت) جب (چاندی کو) وزن کیا تو کچھ بڑھا کر وزن کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا  الحديث له قصة، وهي هنا مختصرة، "أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشْتَرَى منه بَعِيراً" أي: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشترى من جابر -رضي الله عنه- بعيراً.
"فَوَزَنَ له" أي: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وَزَن له ثَمن البعير، وهذا من باب التجوز، وإلا فإن حقيقة الوزَّان في هذا الحديث: بلال -رضي الله عنه- بأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- كما هو في أصل الحديث: "فأمر بلالا أن يَزِن لي أوقية، فوزن لي بلال، فأرجح في الميزان" أي: زاد في الوَزْن أكثر مما يستحقه جابر -رضي الله عنه- من ثَمن البعير، وكانوا فيما سبق يتعاملون بالنقود وزناً لا عدداً وإن كانوا يتعاملون أيضا بها عدداً لكن الكثير وزناً.
575;س حدیث کے پس منظر میں ایک پورا قصہ ہے جو یہاں مختصرا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ نبی ﷺ نے ایک اونٹ خریدا یعنی نبی ﷺ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اونٹ خریدا۔
”فَوَزَنَ لَه“ یعنی نبی ﷺ نے انہیں اونٹ کی قیمت وزن کر کے دی۔ ایسا مجازاً کہا گیا ہے کیونکہ اس حدیث میں درحقیقت وزن کرنے والے (خود رسول اللہ ﷺ نہیں تھے بلکہ) نبی ﷺ کے حکم سے بلال رضی اللہ عنہ تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مجھے ایک اوقیہ چاندی تول کر دیں۔ حضرت بلال نے میرے لیے اسے تولا اور پلڑے کو کچھ بھاری رکھا یعنی وزن اس مقدار سے زیادہ رکھا جس کے جابر رضی اللہ عنہ اونٹ کی قیمت کے طور پر مستحق تھے۔پچھلے زمانے میں لوگ تول کر رقم دیا کرتے تھے نہ کہ گن کر۔ اگرچہ بعض اوقات گن کر بھی لین دین ہوتا تاہم اکثر تول کر ہی ہوتا تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4231

 
 
Hadith   610   الحديث
الأهمية: أنا أحَقُّ بِذَا مِنك تَجَاوزُوا عن عَبْدِي


Tema:

میں اس (درگزر کرنے) کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں۔ (فرشتو!) میرے بندے سے درگزر کرو۔

عن حذيفة -رضي الله عنه - قال: أُتَي الله تعالى بِعبْد من عِباده آتاه الله مالاً، فقال له: ماذا عَمِلْت في الدنيا؟ -قال: «ولَا يَكْتُمُونَ اللهَ حَدِيثًا»- قال: يا رَبِّ آتَيْتَنِي مَالَك، فكُنت أُبَايعُ الناس، وكان من خُلُقِي الجَوَاز، فكُنت أَتَيَسَّرُ على المُوسِرِ، وأنْظِر المُعْسِر. فقال الله -تعالى-: «أنا أحَقُّ بِذَا مِنك تَجَاوزُوا عن عَبْدِي» فقال عُقْبَة بن عَامر، وأبو مسعود الأنصاري -رضي الله عنهما-: هكذا سَمِعْنَاه من فِيِّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبى كريم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ، جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا، اللہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اللہ تعالی نے اس سے پوچھا: تو نے دنیا میں کیا کیا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا﴾ ”اور وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے“۔ اس نے جواب دیاـ: اے میرے رب! تو نے اپنے پاس سے مجھے مال دیا تھا۔ چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا اور (اس میں)۔ میری عادت درگزر کرنے کی تھی۔ میں کشادہ حال پر آسانی کرتا اور تنگ دست کو مہلت دے دیتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اس (درگزر کرنے) کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں۔ (فرشتو!) میرے بندے سے درگزر کرو۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اسی طرح سنی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر حذيفة -رضي الله عنه- أنه يُؤتى برجل من عباد الله تعالى يوم القيامة آتاه الله مالًا، فيسأله ربه عن ماله: ماذا عمل به ؟ قال: أي حذيفة -رضي الله عنه-: "ولَا يَكْتُمُونَ اللهَ حَدِيثًا" أي: لا يستطيعون إخفاء شيء عن الله تعالى يوم القيامة، كما قال تعالى: (يوم تشهد عليهم ألسنتهم وأيديهم وأرجلهم بما كانوا يعملون). "قال: يا رَبِّ آتَيْتَنِي مَالَك، فكنت أُبَايعُ الناس" أي: أعَامل الناس بالبيوع والمداينة  وكان مما اتصفت به من أخلاق: الجواز، ثم فسره بقوله: "فكنت أَتَيَسَّرُ على المُوسِرِ" أي: أُسَهِّل عليه وأقبل منه ما جاء مع نقص يسير. "وأنْظِر المُعْسِر" أي: أصبر على المُعْسِر، فلا أطالبه وأفسح له في الأجل. فقال الله تعالى: "أنا أحَقُّ بِذَا مِنك" أي: فما دمت قد تجاوزت عن عبادي وتخلقت بخلقي، فنحن أحق بالتجاوز والعفو عنك. "تَجَاوزُوا عن عَبْدِي"
أي: عفا الله عنه، وغَفَر له ما كان من سيئاته، بسبب عفوه وسماحته وحسن معاملته لعباد الله تعالى، وهل جزاء الإحسان إلا الإحسان. "فقال عُقْبَة بن عَامر، وأبو مسعود الأنصاري -رضي الله عنهما-: هكذا سَمِعْنَاه من فِيِّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-." والمعنى: أنهما سمعا ما حدث به حذيفة -رضي الله عنه- من النبي -صلى الله عليه وسلم- كما حدث به حذيفة -رضي الله عنه- من غير زيادة ولا نقص.
581;ذیفہ رضی اللہ عنہ بيان کر رہے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو لایا جائے گا جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہوگا۔ اللہ تعالی اس سے اس کے مال کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے اس کا کیا کیا؟
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا﴾ یعنی لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کسی بات کو چھپا نہیں سکیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ”جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے“
”اس شخص نے کہا: اے میرے رب! تو نے اپنے پاس سے مجھے مال دیا تھا۔ چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا“ یعنی میں لوگوں سے خرید وفروخت اور قرض کے لین دین کا معاملہ کیا کرتا تھا۔ وہ شخص جن اخلاق سے متصف تھا ان ميں سے ايک درگزر کرنا تھا۔ پھر اس نے اپنی بات کی وضاحت ان لفظوں میں کی:
”میں کشادہ حال پر آسانی کرتا تھا“ یعنی میں اس پر آسانی کرتا اور وہ جو کچھ دے دیتا میں اسے کچھ کم ہونے کے باوجود بھی قبول کر لیتا۔
”اور تنگ دست کو مہلت دے دیتا تھا“ یعنی تنگ دست پر صبر کرتا بایں طور کہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس کی مدت میں مزید اضافہ کر دیتا تھا۔
اس پر اللہ تعالی فرمائے گا: ”میں اس (درگزر کرنے) کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں“ یعنی چونکہ تو میرے بندوں سے درگزر کرتا رہا اور تو نے میری اخلاقی صفت اپنائی چنانچہ ہم تجھ سےعفو و درگزر کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔
”میرے بندے سے درگزر کردو“ یعنی اس کے اللہ تعالیٰ کے بندوں سے درگزر کرنے، ان کے ساتھ آسانی کرنے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور نیکی کا بدلہ تو نیکی ہی ہوتا ہے۔
”عقبہ بن عامر اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کے منہ سے اسی طرح سنی ہے“ یعنی جو بات حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی بعینہ وہی بات بنا کسی کمی بیشی کے انہوں نے بھی نبی ﷺ سے سنی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4232

 
 
Hadith   611   الحديث
الأهمية: إنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ مِنَ الهُدَى والعِلْمَ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ أَرْضًا فكانتْ مِنها طَائِفَةٌ طَيِّبَةٌ، قَبِلَتْ الماءَ فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ والعُشْبَ الكَثِيرَ، وكَان مِنها أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الماءَ فَنَفَعَ اللهُ بها النَّاسَ، فَشَرِبوا مِنْهَا وسَقوا وزرعوا


Tema:

اللہ عزوجل نے جس علم و ہدایت کے ساتھ مجھ کو مبعوث کیا ہے اس کی مثال اس بادل کی طرح ہے جو زمین پر برسا ، زمین کا کچھ حصہ اچھا تھا اُس نے اس پانی کو جذب کر لیا اور اس نے چارہ اور بہت سا سبزہ اُگایا اور زمین کا بعض حصہ سخت تھا ، اس نے پانی کو روک لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نفع دیا ، انہوں نے وہ پانی خود پیا ، جانوروں کو پلایا اور کھیتیاں بھی کیں۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ مِنَ الهُدَى والعِلْمَ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ أَرْضًا فكانتْ مِنها طَائِفَةٌ طَيِّبَةٌ، قَبِلَتْ الماءَ فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ والعُشْبَ الكَثِيرَ، وكَان مِنها أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الماءَ فَنَفَعَ اللهُ بها النَّاسَ، فَشَرِبُوا مِنْهَا وسَقَوا وَزَرَعُوا، وأَصَابَ طَائِفَةً مِنها أُخْرَى إنَّما هِي قِيعَانٌ لا تُمْسِكُ مَاءً ولا تُنْبِتُ كَلَأً، فذلك مَثَلُ مَنْ فَقُهَ في دِينِ اللهِ وَنَفَعَهُ بِما بَعَثَنِي اللهُ بِهِ فَعَلِمَ وعَلَّمَ، ومَثَلُ مَنْ لم يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا ولم يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الذي أُرْسِلْتُ بِهِ».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے جس علم و ہدایت کے ساتھ مجھ کو مبعوث کیا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی، زمین کا کچھ حصہ اچھا تھا جس نے اس پانی کو جذب کر لیا اور اس نے چارہ اور بہت سا سبزہ اگایا اور زمین کا بعض حصہ سخت تھا ، اس نے پانی کو روک لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نفع دیا ، انہوں نے وہ پانی خود پیا ، جانوروں کو پلایا اور کھیتیاں کیں۔ جب کہ زمین کا بعض حصہ چٹیل میدان تھا ، جس پر بارش ہوئی تو اس نے نہ پانی کو روکا اور نہ کسی قسم کی گھاس اگائی۔ پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اس کا فیض پہنچایا اور اللہ تعالیٰ نے جس ہدایت کے ساتھ مجھے مبعوث کیا ہے اس کا علم حاصل کیا اور وہ علم آگے پہنچایا (آنے والی نسلوں تک منتقل کیا) اور دوسری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس کی طرف سر اٹھاکر نہیں دیکھا اور جس ہدایت کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے اس کو قبول نہیں کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل مطر أصاب أرضًا" فشبه -عليه الصلاة والسلام- من ينتفع بهذا العلم والهدى المشبه بالمطر بمثابة الأرض، فكانت هذه الأرض ثلاثة أقسام: أرض طيبة قبلت الماء، وأنبتت العشب الكثير والزرع، فانتفع الناس بها، وأرض لا تنبت ولكنها أمسكت الماء فانتفع الناس به فشربوا منه ورووا وزرعوا، وأرض لا تمسك الماء ولا تنبت شيئًا.
فهكذا الناس بالنسبة لما بعث الله به النبي -صلى الله عليه وسلم- من العلم والهدى، منهم من فقه في دين الله، فعَلِمَ وعَلَّمَ، وانتفع الناس بعلمه وانتفع هو بعلمه.
والقسم الثاني: قوم حملوا الهدى، ولكن لم يفقهوا في هذا الهدى شيئًا، بمعنى أنهم كانوا رواة للعلم والحديث، لكن ليس عندهم فقه.
والقسم الثالث: من لم يرفع بما جاء به النبي -صلى الله عليه وسلم- من العلم والهدى رأسًا، وأعرض عنه، ولم يبال به، فهذا لم ينتفع في نفسه بما جاء به النبي -صلى الله عليه وسلم- ولم ينفع غيره.
570;پ ﷺ نے فرمایا ” اللہ عزوجل نے جس علم و ہدایت کے ساتھ مجھ کو مبعوث کیا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی“ آپ ﷺ نے علم و ہدایت کے ذریعے دوسروں کو نفع پہنچانے والوں کو زمین کی پیداوار پر ہونے والی بارش سے تشبیہ دی ہے۔
زمین کی تین قسمیں ہیں: پاک زمین جس نے پانی کو قبول کر لیا اور بہت ساری گھاس اور کھیتی اُگائی، لوگ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں۔
دوسری وہ زمین جو کچھ اُگاتی تو نہیں تاہم پانی جمع کر لیتی ہے، لوگ اس پانی سے نفع حاصل کرتے ہیں، اس سے پانی پیتے ہیں، آسودہ ہوتے ہیں، اور اس سے اپنے کھیت سیراب کرتے ہیں۔
تیسری وہ زمین جو نہ ہی پانی کو روکتی ہے اور نہ ہی کچھ اُگاتی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اپنے نبی کو دیے ہوئے علم وہدایت کے اعتبار سے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں۔
بعض لوگ اللہ کے دین کی سمجھ رکھتے ہیں، علم حاصل کرکے دوسروں کو سکھاتے ہیں اور لوگ بھی اس کے علم سے مستفید ہوتے ہیں اور وہ خود بھی مستفید ہوتا ہے۔
دوسری قسم میں وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں، لیکن انہیں دین میں تفقّہ حاصل نہیں، بایں طور کہ وہ علم اور حدیث کو روایت کرتے ہیں، لیکن علمِ فقہ ان کے پاس نہیں۔
تیسری قسم میں وہ لوگ جو علم و ہدایت بالکل بھی حاصل نہ کریں، اس سے اعراض کر کے لاپرواہی کا مظاہرہ کریں۔ یہ لوگ نہ خود علم سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4233

 
 
Hadith   612   الحديث
الأهمية: إِنَّ نَاسًا كانوا يُؤْخَذُونَ بالوَحْيِ في عَهْدِ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وإِنَّ الوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ، وإِنَّمَا نَأْخُذُكُمْ الآنَ بما ظَهَرَ لنا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وقَرَّبْنَاهُ، ولَيْسَ لَنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَيْءٌ، اللهُ يُحَاسِبُهُ في سَرِيرَتِهِ، ومَنْ أَظْهَرَ لنا سُوءًا لم نَأْمَنْهُ ولم نُصَدِّقْهُ


Tema:

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب چونکہ وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اس لیے ہم اب تمہارے ظاہری اعمال کے مطابق تمہارا مواخذہ کریں گے۔ جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور اُسے اپنے قریب کریں گے اور اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کے باطن کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے۔

عن عبد الله بن عتبة بن مسعود، قال: سمعت عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- يقول: إن ناسا كانوا يُؤْخَذُونَ بالوحي في عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرًا أَمَّنَّاهُ وقَرَّبْنَاهُ، وليس لنا من سريرته شيء، الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءًا لم نأمنه ولم نصدقه وإن قال: إن سريرته حسنة.

عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اس لیے ہم اب تمہارےظاہری اعمال کے مطابق تمہارا مواخذہ کریں گے۔ جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور سے اپنے قریب کریں گے اور اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کے باطن کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا باطن تو اچھا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تحدث عمر بن الخطاب رضي الله عنه عمن أسر سريرة باطلة في وقت الوحي لا يخفى أمره على النبي صلى الله عليه وسلم بما ينزل من الوحي؛ لأن أناسًا في عهد الرسول عليه الصلاة والسلام كانوا منافقين يظهرون الخير ويبطنون الشر، ولكن الله تعالى كان يفضحهم بما ينزل من الوحي على رسوله صلى الله عليه وسلم، لكن لما انقطع الوحي صار الناس لا يعلمون من المنافق؛ لأن النفاق في القلب، فيقول رضي الله عنه: وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا فمن أظهر لنا خيرًا؛ عاملناه بخيره الذي أبداه لنا وإن أسر سريرة سيئة، ومن أبدى شرًّا؛ عاملناه بشره الذي أبداه لنا، وليس لنا من نيته مسؤولية، النية موكولة إلى رب العالمين عز وجل، الذي يعلم ما توسوس به نفس الإنسان.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب وحی کے نزول کا وقت تھا اس وقت اگر کوئی اپنی بد باطنی کو مخفی رکھتا تو اس کا معاملہ وحی نازل ہونے کی وجہ سے نبی ﷺ سے پوشیدہ نہیں رہتا تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منافق لوگ موجود تھے جو اظہار تو اچھائی کا کرتے لیکن ان کے باطن میں شر ہوتا تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ پر نازل کی جانے والی وحی کے ذریعے سے ان کو رسوا کر دیتا لیکن اب چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے چنانچہ اب لوگوں کو منافق کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ نفاق دل میں ہوتا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب ہم تمہارے اعمال کے ظاہر پر تمہارا مواخذہ کریں گے۔ چنانچہ ظاہری طور پر جس کا عمل اچھا ہو گا اس سے ہم اچھا معاملہ روا رکھیں گے اس لیے ہمارے سامنے اس نے اچھے پہلو کو ظاہر کیا ہے اگرچہ باطنی طور پر وہ برائی کو مخفی رکھے اور جس نے برائی کو ظاہر کیا اس سے ہم اس برائی کےمطابق معاملہ کریں جو اس نے ظاہر کی ہے اور اس کی نیت جاننے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ نیت کا معاملہ رب العالمین عز و جل کے سپرد ہے جو انسانی نفس کے وسوسوں سے خوب واقف ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4234

 
 
Hadith   613   الحديث
الأهمية: إنَّ هذه النارَ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُم، فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ


Tema:

یہ آگ تو تہماری دشمن ہے۔ چنانچہ جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: احْتَرَقَ بَيْتٌ بالمَدِينَةِ عَلَى أهْلِهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَّا حُدِّثَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- بِشَأنِهِم، قالَ: «إنَّ هذه النارَ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُم، فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدينہ میں رات کے وقت ایک گھر جل گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ آگ تو تہماری دشمن ہے۔ چنانچہ جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
احترق بيت بالمدينة في الليل، فبلغ ذلك النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- فأخبرهم بأن هذه النار عدو لأهلها إذا لم يتحرزوا من شر لهيبها وإحراقها، ثم أمرهم -عليه الصلاة والسلام- بإطفائها قبل النوم دفعاً لشرها من الاشتعال والحريق ونحو ذلك.
605;دینہ میں رات کے وقت ایک گھر آگ لگنے کی وجہ سے جل گیا۔ نبی ﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ یہ آگ تو ان لوگوں کی دشمن ہے جنہوں نے اس کو جلا رکھا ہو جب کہ وہ اس کے شعلوں کی لپٹ اور اس کی تپش سے احتیاط نہ کریں۔ پھر نبی ﷺ نے لوگوں کو سونے سے پہلے آگ کو بجھا دینے کا حکم فرمایا تاکہ اس کے بھڑک اٹھنے اور جلا دینے جیسی مضرتوں کو دور کیا جا سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4235

 
 
Hadith   614   الحديث
الأهمية: انْصُرْ أخاكَ ظالمًا أو مَظْلُومًا


Tema:

اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔

عن أنس بن مالك رضي الله عنه-مرفوعاً: «انْصُرْ أخاك ظالمًا أو مظلومًا» فقال رجل: يا رسول الله، أَنْصُرُهُ إذا كان مظلومًا، أرأيت إِنْ كان ظالمًا كيف أَنْصُرُهُ؟ قال: «تَحْجِزُهُ -أو تمْنَعُهُ- من الظلم فإنَّ ذلك نَصْرُهُ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو گا، تب تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو گا، تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اسے ظلم کرنے سے روکو گے -یا فرمایا کہ تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے-، یہی اس کی مدد کرنا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال النبي صلى الله عليه وسلم: انصر أخاك ولا تخذله ظالما أو مظلوما. فقال رجل: أنصره إن كان مظلوما بدفع الظلم عنه؛ فكيف أنصره إن كان ظالما بالتعدي على غيره. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: تمنعه من ظلمه لغيره؛ فإن ذلك نصره.
606;بی ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو اور اسے بےیار و مددگار نہ چھوڑو؛ چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ جب وہ مظلوم ہو گا، تب تو میں اس سے ظلم کو دور کرکے اس کی مدد کروں گا، لیکن جب وہ دوسروں پر زیادتی کرتے ہوئے خود ظالم ہو گا، تو پھر میں اس کی مدد کیسے کروں گا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: تم اسے دوسروں پر ظلم کرنے سے روکو گے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4236

 
 
Hadith   615   الحديث
الأهمية: إِنَّمَا يَلْبَسُ الحَرِيرَ مَنْ لا خَلَاقَ له


Tema:

(دنیا میں) ریشم تو صرف وہی مرد پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:"لا تلبسوا الحرير فإن من لبسه في الدنيا لم يلبسه في الآخرة".
وفي رواية: «إِنَّمَا يَلْبَسُ الحَرِيرَ مَنْ لا خَلَاقَ له».
وفي رواية للبخاري: «مَنْ لا خَلَاقَ له في الآخرةِ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ریشم کا لباس مت پہنو، جو دنیا میں ریشم پہنے گا وہ آخرت میں اسے نہیں پہنے گا۔“
ایک روایت مین ہے: (دنیا میں) ریشم تو صرف وہی مرد پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ”جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الحرير لا يلبسه من الرجال إلا من لا حظ له ولا نصيب له في الآخرة، وهذا فيه وعيد شديد، لأن الحرير من لباس النساء ومن لباس أهل الجنة، ولا يلبسه في الدنيا إلا أهل الكبر والعجب والخيلاء ولهذا نهى عن لبسه عليه الصلاة والسلام، والنهي مختص بالحرير الطبيعي، لكن ينبغي للإنسان ألا يلبس حتى الحرير الصناعي لما فيه من الميوعة، وليس محرمًا، كما أفتت بإباحته اللجنة الدائمة.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ مردوں میں سے ریشم صرف وہی پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس میں سخت وعید ہے کیونکہ ریشم عورتوں اور جنتیوں کا لباس ہے اور دنیا میں اسے صرف وہی لوگ پہنتے ہیں جن میں تکبر، خود پسندی اور غرور ہو۔ اسی وجہ سے اس کے پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت قدرتی ریشم سے متعلق ہے تاہم انسان (مرد) کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ مصنوعی ریشم بھی نہ پہنے کیونکہ اس میں نسوانیت کی جھلکہوتی ہے، البتہ یہ حرام نہیں ہے، جیسا کا دائمی کمیٹی برائے فتوی (سعودی عرب) نے مصنوعی رشیم کے مباح ہونے کا فتوی دیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4237

 
 
Hadith   616   الحديث
الأهمية: كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ


Tema:

ہر گز نہیں، میں نے تو اسے مال غنیمت میں سے ایک چادر یا چوغہ چرانے کی وجہ سے آگ میں دیکھا ہے۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- مرفوعاً: لما كان يوم خيبر أقبل نَفَرٌ من أصحاب النبي -صلى الله عليه و سلم- فقالوا: فلان شهيد وفلان شهيد. حتى مَرُّوا على رجل فقالوا: فلان شهيد. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "كلا إني رَأَيْتُهُ في النار في بُرْدَةٍ غَلَّهَا أو عباءة".

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے: فلاں شہید ہے اور فلاں شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا تو (اسے دیکھ کر) کہنے لگے کہ فلاں (بھی) شہید ہے۔ اس پر نبی ﷺ فرمایا: ”ہر گز نہیں، میں نے تو اسے مال غنیمت میں سے ایک چادر یا چوغہ چرانے کی وجہ سے آگ میں دیکھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال عمر بن الخطاب -رضي الله عنه-: لما كان يوم غزوة خيبر أقبل أناس من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- على النبي -صلى الله عليه وسلم- وهم يقولون: فلان شهيد، فلان شهيد حتى مروا على رجل فقالوا: فلان شهيد، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: كلا إني رأيته في النار بسبب عباءة قد كتمها يريد أن يختص بها لنفسه، فعُذب بها في نار جهنم، وانتفت عنه هذه الصفة العظيمة وهي الشهادة في سبيل الله -عز وجل-.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ جنگ خیبر کے دن نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے۔ وہ کہہ رہے تھے: فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی کی لاش پر سے ان کا گزر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ فلاں شہید ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں نے تو اسے (مال غنیمت میں سے) ایک چوغہ اپنے لئے چھپا لینے کی وجہ سے آگ میں دیکھا ہے، جس کی وجہ سے اسے جہنم کی آگ میں عذاب دیا گیا۔ چنانچہ اس سے اللہ عز و جل کی راہ میں شہادت کی عظیم صفت ختم ہو گئی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4238

 
 
Hadith   617   الحديث
الأهمية: توفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وما في بَيْتِي من شيء يأكُلُه ذُو كَبدٍ إلا شَطْرُ شعير في رَفٍّ لي، فأكَلتُ منه حتى طال عليَّ، فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ


Tema:

جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو میرے گھر میں تھوڑے سے جَو کے سوا جو ایک طاق میں رکھا ہوا تھا اور کوئی چیز ایسی نہیں تھی، جو کسی جگر والے (جاندار) کی خوراک بن سکتی۔ میں اسی میں سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ کافی عرصہ گزر گیا۔ پھر میں نےاسے ناپا تو وہ ختم ہو گیا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: تُوُفِّيَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وما في بيتي من شيء يَأكُلُهُ ذُو كَبدٍ إلا شَطْرُ شَعير في رَفٍّ لي، فأكَلتُ منه حتى طال عليَّ، فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو میرے گھر میں تھوڑے سےجَو کے سوا جو ایک طاق میں رکھا ہوا تھا اور کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو کسی جگر والے (جاندار) کی خوراک بن سکتی۔ میں اسی میں سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ کافی عرصہ گزر گیا۔ پھر میں نے اسے ناپا تو وہ ختم ہو گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- توفي وما في بيتها إلا شطر شعير، ومعناه: شيء من شعير، كما فسره الترمذي، فظلت تأكل من الشعير الذي تركه -صلى الله عليه وسلم- زمنًا، فلما وزنته نفد، وهذا دليل على استمرار بركته -صلى الله عليه وسلم- في ذلك الطعام القليل، مع عدم الكيل الدال على التوكل، فالكيل عند المبايعة مطلوب من أجل تعلق حق المتابعين، أما الكيل عند الإنفاق فغير مستحب.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ کی جب وفات ہوئی، تو ان کے گھر میں تھوڑے سے جَو کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ”شَطْرُ شَعيرٍ“ کے معنی تھوڑے سے جَو کے ہیں، جیسا کہ امام ترمذی نے بیان کیا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مدت تک اسی جو کو کھاتی رہیں جو نبی ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔ جب انہوں نے اسے وزن کر لیا تو وہ ختم ہو گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس تھوڑے سے اناج میں آپﷺ کی برکت شامل رہی، لیکن اسے وزن کیے بغیر، جو کہ توکل پر دلالت کرتا ہے۔ خرید وفروخت کے وقت وزن کرنا مطلوب ہے اس لے کہ بیچنے اور خریدنے والے کے حقوق اس سے وابستہ ہیں، البتہ خرچ کرتے وقت وزن (حساب) کرنا مستحب نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4239

 
 
Hadith   618   الحديث
الأهمية: يتبع الميت ثلاثة: أهلُه ومالُه وعملُه، فيرجع اثنان ويَبقى واحد: يرجع أهلُه ومالُه، ويَبقى عمله


Tema:

میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں: اس کے گھروالے، اس کا مال اور اس کا عمل۔ دو تو لوٹ آتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہ جاتی ہے؛ اس کے گھروالے اور اس کی دولت لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے۔

عن أنس -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يَتْبَعُ الميتَ ثلاثةٌ: أهْلُه ومَالُه وعَمَلُه، فيرجع اثنان ويَبْقى واحد: يرجع أهْلُه ومَالُه، ويبقى عَمَلُه».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں: اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کا عمل۔ دو تو لوٹ آتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہ جاتی ہے؛اس کے گھر والے، اور اس کی دولت لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: إذا مات الإنسان تبعه المشيعون له؛ فيتبعه أهله يشيعونه إلى قبره، ويتبعه ماله: أي عبيده وخدمه المماليك له، ويتبعه عمله معه، فيرجع اثنان، ويبقى معه عمله، فإن كان خيرًا فخير وإن كان شرًّا فشر.
581;دیث کا مفہوم: جب انسان مر جاتا ہے تو اسے رخصت کرنے والے اس کے ساتھ ساتھ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے گھر والے اس کی قبر تک اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کا مال یعنی اس کے غلام، خادم اور مملوکہ لوگ بھی اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کا عمل بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ دو تو لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل اس کے ساتھ ہی رہ جاتا ہے۔ اگر نیک عمل ہوا تو نیک عمل ساتھ رہتا ہے اور اگر برا عمل ہوا تو برا عمل ساتھ رہے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4240

 
 
Hadith   619   الحديث
الأهمية: يُدْنَى المؤمنُ يومَ القيامة من ربه حتى يضع كَنَفَهُ عليه، فيُقرِّرُه بذنوبِه


Tema:

میں نے دنیا میں اس گناہ کے معاملے میں تیری ستر پوشی کی اور آج میں اسے تیرے لیے معاف کرتا ہوں۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يُدْنَى المؤمنُ يومَ القيامة من ربه حتى يضع كَنَفَهُ عليه، فيُقرِّرُه بذنوبِه، فيقول: أَتَعْرِفُ ذنبَ كذا؟ أَتَعْرِفُ ذنبَ كذا؟ فيقول: ربِّ أعرف، قال: فإني قد سَترتُها عليك في الدنيا، وأنا أغْفِرُها لك اليوم، فيعطى صحيفة حسناته».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کو قیامت کے دن اس کے رب کے قریب لایا جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی اسے اپنے پہلو میں لے لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کراتے ہوئے پوچھے گا: کیا تمہیں یہ گناہ یاد ہے؟ کیا تمہیں یہ گناہ یاد ہے؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے یاد ہے۔ اس پر اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں اس گناہ کے معاملے میں تیری ستر پوشی کی اور آج میں اسے تیرے لیے معاف کرتا ہوں۔ پھر اسے اس کی نیکیوں کا دفتر دے دیا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقرب الله -عز وجل- عبده المؤمن يوم القيامة، ويستره عن أهل الموقف ويقرره بذنوبه ومعاصيه سرًّا، أَتعرفُ ذنبَ كذا؟ أَتعرف ذنبَ كذا؟ فيقر بها، فيقول: فإني قد سترتها عليك في الدنيا ولم أفضحك بها بين الخلائق، وأنا كذلك أسترها عنهم اليوم، وأغفرها لك.
575;للہ عز وجل قیامت کے دن مومن بندے کو قریب کرے گا، اُسے میدانِ حشر میں موجود لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھتے ہوئے اس سے اس کے گناہوں اور معاصی کا پوشیدہ طور پر اقرار کرائے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا تو اِس گناہ کو جانتا ہے؟ کیا تو اُس گناہ کو جانتا ہے؟ وہ ان کا اقرار کر لے گا تو اس پر اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں ںے دنیا میں تمہاری ستر پوشی کی اور انسانوں کے سامنے تمہیں رسوا نہیں کیا۔ میں آج بھی ان سے تمہاری ستر پوشی کروں گا اور تمہارے ان گناہوں کو معاف کر دوں گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4242

 
 
Hadith   620   الحديث
الأهمية: يُسَلِّمُ الراكِبُ على الماشي، والماشي على القاعد، والقليلُ على الكثير


Tema:

سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کريں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « يُسَلِّمُ الراكِبُ على الماشي، والماشي على القاعد، والقليلُ على الكثير».

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کريں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث: بيان من هو الأولى بالتسليم.
الأول: يسلِّم الراكب على الماشي؛ لأن الراكب يكون مُتَعَلِّيَا، فالبدء من جهته دليل على تواضعه لأخيه المسلم في حال رفعته، فكان ذلك أجلب لمحبته ومودته.

ثانيًا: يسلم الماشي على القاعد لتشبيهه بالداخل على أهل المنزل، وحكمة أخرى: أن القاعد قد يشق عليه مراعاة المارين مع كثرتهم: فسقطت البداءة عنه دفعا للمشقة.
ثالثًا: تسليم القليل على الكثير تعبيرا عن الاحترام والإكرام لهذه الجماعة.

رابعًا: الصغير يسلم على الكبير؛ لأن الكبير له حق على الصغير.
ولكن لو قُدِّر أن القليلين في غفلة ولم يسلموا، فليسلم الكثيرون ولو قُدِّر أن الصغير في غفلة، فليسلم الكبير ولا تترك السنة.
وهذا الذي ذكره النبي -صلى الله عليه وسلم- ليس معناه: أنه لو سلم الكبير على الصغير كان حرامًا ولكن المعنى الأولى: أن الصغير يسلم على الكبير، فإنه لولم يسلم فليسلم الكبير، حتى إذا بادرت بالسلام لما تقدم في حديث أبي أمامة: "إن أولى الناس بالله من بدأهم بالسلام". 
وهكذا لو حصل التلاقي، فإن أولاهم بالله من بدأ بالسلام، وفي الحديث الآخر: "وخيرهما الذي يبدأ بالسلام".

575;س حدیث میں اس بات كا بيان ہے کہ سلام کرنے میں پہل کس کو کرنا چاہیے۔
پہلا: سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، اس لیے کہ سوار اوپر اور بلند ہوتا ہے۔ لہٰذا بلندى كى حالت میں اس کی طرف سے سلام کرنے ميں پہل کرنا اپنے مسلمان بھائی کے لیے تواضع و خاکساری اختیار کرنے کی دلیل ہے۔ اور یہ دوسروں کے دلوں میں اس کی مودت ومحبت پیدا كرنے کا زیادہ باعث ہے۔
دوسرا: پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، اس لیے کہ وہ گھر کے اندر موجود لوگوں کے پاس آنے والے شخص کی طرح ہے۔ اس ميں دوسری حکمت یہ ہے کہ بیٹھے ہوئے شخص کے لیے راہ گیروں کی رعایت کرنا ان کی کثرت کی وجہ سے دشوار ہو سکتا ہے۔ لہذا اس دشواری کو ختم کرنے کے لیے اس کی جانب سے سلام کرنے کی شروعات کو ساقط کرديا گیا۔
تیسرا: کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ یہ اس جماعت (کثیر تعداد) کے لیے احترام اور اکرام کے اظہار کے طور پر ہے۔
چوتھا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ کیوں کہ بڑے کا چھوٹے پر حق ہوتا ہے۔
لیکن اگر بالفرض کم تعداد والے غفلت ميں ہوں اورسلام نہ کريں تو زیادہ تعداد والوں کو سلام کرنا چاہیے، اسی طرح اگر بالفرض چھوٹا غافل ہو تو بڑے کو سلام کرنا چاہیے، سنت کو ترک نہیں کيا جانا چاہیے۔
نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم نے اس حديث میں جو ذکر کیا ہے اس کا مطلب يہ نہیں ہے کہ: اگر بڑے نے چھوٹے کو سلام کرلیا تو یہ حرام ہو گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ: بہتریہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، اور اگر چھوٹا سلام نہیں کرتا ہے تو بڑے کو چاہیے کہ وہ سلام کرلے، کيونکہ اگر وہ سلام میں پہل کرے گا تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ”سلام میں پہل کرنے والے لوگ اللہ سے سب سے زيادہ قريب ہوتے ہیں“ کی وجہ سے فضیلت کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح اگر ملاقات ہو جائے تو اللہ کے نزديک بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: ”ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4243

 
 
Hadith   621   الحديث
الأهمية: لقد رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَظَلُّ اليومَ يَلْتَوِي ما يجدُ من الدَّقَلِ ما يَمْلأُ به بَطنه


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا كہ آپ ﷺ سارا دن بھوک سے بے قرار رہتے اور آپ ﷺ کو ردی کھجور بھی نہ ملتی کہ جس سے اپنا پیٹ بھرلیں۔

عن النعمان بن بشير -رضي الله عنهما- قال: ذكر عمرُ بن الخطاب -رضي الله عنه- ما أصَاب الناس من الدنيا، فقال: لقد رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَظَلُّ اليومَ يَلْتَوِي ما يَجدُ من الدَّقَلِ ما يَمْلأُ به بَطنه.

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ملنے والی دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کا ذکر کیا اور پھر کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا كہ آپ ﷺ سارا دن بھوک سے بے قرار رہتے اور آپ ﷺ کو ردی کھجور بھی نہ ملتی کہ جس سے اپنا پیٹ بھرلیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر عمر -رضي الله عنه- ما أصاب الناس من الدنيا لما فتح الله عليهم من الأمصار، وما جمعوا من الغنائم، فقال: لقد رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يلتوي من الجوع، وما يجد ما يملأ به بطنه حتى رديء التمر، لا يجد منه ما يسد به جوعه.
580;ب اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے شہروں کو فتح کردیا، لوگوں کو خوب دنیا ہاتھ آئی اور انہوں نے مالِ غنیمت جمع کیا اُسے ذکر کرتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ بھوک کی وجہ سے بے قرار رہتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو ردی کھجور جیسی کوئی ایسی شے بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ ﷺ اپنا پیٹ بھر سکتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4244

 
 
Hadith   622   الحديث
الأهمية: لما نزلت آية الصدقة كنَّا نُحَامل على ظُهورنا، فجاء رَجُل فَتَصَدَّقَ بشيء كثير، فقالوا: مُراءٍ، وجاء رَجُل آخر فَتَصَدَّقَ بصاع، فقالوا: إن الله لَغَنيٌّ عن صاع هذا! فنزلت: {الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات}


Tema:

جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے تھے، چنانچہ ایک شخص آیا اور بہت ساری چیز کا صدقہ کیا۔ تو (منافق) لوگوں نے کہا: یہ ریاکار ہے۔ ایک اور شخص آیا اور اس نے ایک صاع صدقہ کیا۔ تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس کے ایک صاع سے بے نیاز ہے! چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ...﴾

عن أبي مسعود عقبة بن عمرو الأنصاري البدري -رضي الله عنه- قال: لما نزلت آية الصدقة كنَّا نُحَامِلُ على ظُهُورِنَا، فجاء رجل فتصدق بشيء كثير، فقالوا: مُراءٍ، وجاء رجل آخر فتصدق بصاع، فقالوا: إن الله لَغَنيٌّ عن صاع هذا!؛ فنزلت: (الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم).

ابو مسعود عُقبہ بن عَمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہی، وہ بیان کرتے ہیں: جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے تھے، چنانچہ ایک شخص آیا اور بہت ساری چیز کا صدقہ کیا۔ تو (منافق) لوگوں نے کہا: یہ ریاکار ہے۔ ایک اور شخص آیا اور اس نے ایک صاع صدقہ کیا۔ تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس کے ایک صاع سے بے نیاز ہے! چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ...﴾ ”جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں...“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال أبو مسعود -رضي الله عنه- لما نزلت آية الصدقة: يعني الآية التي فيها الحث على الصدقة قال الحافظ: كأنه يشير إلى قوله -تعالى-: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) جعل الصحابة -رضي الله عنهم- يبادرون ويسارعون في بذل الصدقات إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، كل واحد يحمل بقدرته من الصدقة إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فجاء رجل بصدقة كثيرة، وجاء رجل بصدقة قليلة، فكان المنافقون إذا جاء الرجل بالصدقة الكثيرة؛ قالوا: هذا مُراءٍ، ما قصد به وجه الله، وإذا جاء الرجل بالصدقة القليلة؛ قالوا: إن الله غني عنه، وجاء رجل بصاع، قالوا: إن الله غني عن صاعك هذا.
فأنزل الله -عز وجل-: (الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم) أي: يعيبون المتطوعين المتصدقين، والذين لا يجدون إلا جهدهم، فهم يلمزون هؤلاء وهؤلاء، (فيسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب أليم)، فهم سخروا بالمؤمنين؛ فسخر الله منهم، والعياذ بالله.
575;بو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صدقہ کی آیت نازل ہوئی یعنی وہ آیت نازل ہوئی جس میں صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گویا ان کا اشارہ اللہ کے اس فرمان کی طرف ہے کہ: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ ”آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں“۔ اس پر صحابہ کرام بڑھ چڑھ کر رسول اللہ ﷺ کو صدقات دینے لگے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صدقہ لےکر آتا۔ چنانچہ کوئی آدمی زیادہ صدقہ لے کر آیا، تو کوئی آدمی تھوڑا صدقہ لے کر آیا۔ جب کوئی شخص زیادہ صدقہ لے کر آتا تو منافقین کہتے: یہ ریا کار ہے، اس سے اس کا مقصود اللہ کی رضا نہیں ہے۔ اور جب کوئی شخص تھوڑا صدقہ لے کر آتا تو کہتے: اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ ایک آدمی ایک صاع اناج بطور صدقہ لے کر آیا تو منافقین کہنے لگے: اللہ کو تیرے اس صاع کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ...﴾ ”جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں“ یعنی جو برضا ورغبت صدقہ دینے والوں کی برائیاں کرتے ہیں اور ان لوگوں کی جن کے پاس اپنی محنت مزدوری کے سوا کچھ نہیں ہوتا، پس وہ ان دونوں قسم کے لوگوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ ﴿سَخِرَ اللَّـهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ”پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے“۔ انھوں نے مومنوں کا مذاق اڑایا؛ تو اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے، العیاذ باللہ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4245

 
 
Hadith   623   الحديث
الأهمية: قد كان من قَبْلَكم يُؤخذ الرَّجُل فَيُحْفَرُ له في الأرض، فيُجعل فيها، ثمَّ يُؤتى بالمنشار فيوضع على رأسه فيُجعل نِصْفَين، ويُمْشَطُ بأمْشَاطِ الحديد ما دون لحْمِه وعظمه، ما يَصُدُّه ذلك عن دِينِه


Tema:

تم سے پہلی امتوں کے لوگ (جو ایمان لائے) ان کا تو یہ حال ہوا کہ ان میں سے کسی کو پکڑ لیا جاتا اور اس کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اس میں اسے ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جاتے اور لوہے کے کنگھے اس کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دیے جاتے؛ لیکن یہ آزمائشیں بھی اسے اپنے دین سے ہٹا نہیں سکتی تھیں۔

عن أبي عبد الله خباب بن الأرت -رضي الله عنه- قال: شكونا إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً له في ظِلِّ الكعبة، فقلنا أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لنا، ألا تدعو الله لنا؟ فقال: «قد كان من قبلكم يُؤخذ الرجل فيُحفر له في الأرض، فيُجعل فيها، ثمَّ يُؤتى بالمِنْشَارِ فيوضع على رأسه فيُجعل نصفين، ويُمشط بأمشاطِ الحديد ما دون لحمه وعظمه، ما يَصُدُّهُ ذلك عن دينه، والله لَيُتِمَّنَّ الله هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله والذئب على غَنَمِه، ولكنكم تستعجلون». وفي رواية: «هو مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً، وقد لقينا من المشركين شدة».

ابو عبد الله خباب بن ارت رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کعبے کے سایے میں اپنی چادر پر ٹیک لگائے تشریف فرما تھے کہ ہم نے آپ ﷺ سے اپنی حالت زار بیان کی اور عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: "تم سے پہلی امتوں کے لوگ (جو ایمان لائے) ان کا تو یہ حال ہوا کہ ان میں سے کسی کو پکڑ لیا جاتا اور اس کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اسے اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کراس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کے کنگھے اس کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دیے جاتے؛ لیکن یہ آزمائشیں بھی اسے اپنے دین سے ہٹا نہیں سکتی تھیں۔ اللہ کی قسم! اللہ اسلام کو مکمل کرے گا اور یہ صورت حال ہو گی کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہو گا اور بکریوں پر سواے بھیڑیے کے خوف کے (اور کسی لوٹ وغیرہ کا کوئی ڈر نہ ہو گا)۔ لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”آپ ﷺ ایک چادر پرٹیک لگاے تشریف فرما تھے اور ہمیں مشرکین کی طرف سے بہت تکلیف کا سامنا تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يحكي خباب -رضي الله عنه- ما وجده المسلمون من الأذية من كفار قريش في مكة، فجاؤوا يشكون إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو متوسد بردة له في ظل الكعبة، فبين النبي -عليه الصلاة والسلام- أن من كان قبلنا ابتلي في دينه أعظم مما ابتلي به هؤلاء، يُحفر له حفرة، ثم يُلقى فيها، ثم يؤتى بالمنشار على مفرق رأسه ويشق نصفين، ويمشط بأمشاط الحديد ما بين جلده وعظمه، وهذه أذية عظيمة.
ثم أقسم -صلوات الله وسلامه عليه- أن الله -سبحانه- سيتم هذا الأمر، يعني: سيتم ما جاء به الرسول -عليه الصلاة والسلام- من دعوة الإسلام، حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخشى إلا الله والذئب على غنمه،
ثم أرشد -عليه الصلاة والسلام- صحبه الكرام إلى ترك العجلة؛ فقال: "ولكنكم تستعجلون" أي: فاصبروا وانتظروا الفرج من الله، فإن الله سيتم هذا الأمر، وقد صار الأمر كما أقسم النبي -عليه الصلاة والسلام-.
575;س حدیث میں خباب رضی اللہ عنہ اس اذیت کا حال بیان کر رہے ہیں، جس کاسامنا مسلمان مکہ میں کفار قریش کی طرف سے کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ نبی ﷺ کے پاس شکایت کے لیے آئے۔ آپ ﷺ اس وقت کعبہ کے سائے تلے ایک چادر پر ٹیک لگاےتشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ہم سے پہلی امتوں کے لوگوں کی دین کے سلسلے میں جو آزمائش ہوئی وہ اس سے بڑی تھی، جو ان لوگوں پر آئی ہوئی ہے۔ (پہلے تو) ایسا ہوتا کہ کسی فرد کے لیے گڑھا کھود کر اسے اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر آری لا کر اس کے سر کی مانگ پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئےجاتے۔ اس کی کھال اور ہڈیوں کے مابین لوہے کی کنگھیاں پھیری جاتیں۔ یہ بہت ہی بڑی اذیت تھی۔
پھر نبی ﷺ نے قسم اٹھائی کہ اللہ سبحانہ و تعالی ضرور اس دین کے معاملے کو پورا کریں گے، یعنی رسول اللہ ﷺ جو اسلام کی دعوت لائے ہیں وہ مکمل ہو کر رہے گی۔ یہاں تک کہ (اس قدر امن و شانتی کا ماحول ہوگا) کہ سوار صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اس دوران اسے اللہ کے سوا اور اپنے جانوروں پر بھیڑیے کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو جلد بازی کو چھوڑ دینے کی تلقین فرمائی اور فرمایا: ”لیکن تم جلد بازی کر رہے ہو“ یعنی صبر کرو اور اللہ کی طرف سے کشادگی آنے کا انتظار کرو۔ اللہ تعالی عنقریب اس کام کو مکمل کردیں گے۔ پھر ویسا ہی ہوا، جیسا آپ ﷺ نے قسم کھا کر کہا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4246

 
 
Hadith   624   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يَنَام أول اللَّيل، ويقوم آخره فَيُصلِّي


Tema:

رسول اللہ ﷺ رات کے شروع حصے میں سو جاتے اور رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوکرنماز پڑھتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يَنَام أول اللَّيل، ويقوم آخره فَيُصلِّي.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے شروع حصے میں سو جاتے اور رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوکرنماز پڑھتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تُخبر عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان ينام أول الليل، وذلك بعد صلاة العشاء، ويقوم آخره، وهو: الثلث الثاني من الليل، فإذا فَرَغ من صلاته، رجع إلى فراشه ليَنَام، وذلك في السُدس الأخير من الليل؛ ليستريح بَدَنه من عَنَاء قيام الليل، وفيه من المصلحة أيضاً استقبال صلاة الصبح، وأذكار النهار بنشاط وإقبال، ولأنه أقرب إلى عدم الرياء؛ لأن من نام السدس الأخير أصبح ظاهر اللون سليم القوى، فهو أقرب إلى أن يخفي عمله الماضي عمن يراه.
ولهذا جاء أن الأذان الأول؛ ليوقظ النائم ويرجع القائم، فالقائم يرجع إلى النوم؛ ليَكتَسِب بدنه قوة ونشاطاً، وأما النائم، فيستيقظ حتى يَستعد للصلاة، وحتى يصلي وتره إذا لم يوتر أول الليل.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشا کی نماز کے بعد رات کے ابتدائی حصے میں سوتے اور آخری حصے یعنی دوسری تہائی میں قیام کرتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوتے، تو اپنے بستر پر سونے کے لیے آجاتے؛ تاکہ قیام اللیل کی وجہ سے جسم کی تھکاوٹ سے بدن کو آرام مل جائے۔ یہ رات کا آخری چھٹا حصہ ہوتا۔ اس میں کار فرما مصالح میں سے ایک مصلحت یہ ہوتی کہ نماز فجر اور صبح کے اذکار کا استقبال پوری چستی اور توجہ کے ساتھ کیا جائے۔ یہ ریا و نمود کی آلائشوں سے دور رہنے کا بھی ذریعہ ہے؛ کیوں کہ جو رات کے آخری چھٹے حصے میں سو جائے گا، وہ پوری تازگی اور توانائی کے ساتھ صبح کرے گا۔ ایسے میں اس کی رات کی عبادت مخفی رہے، اس کے امکانات زیادہ رہتے ہیں۔
اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ پہلی اذان کا مقصد سونے والے کو جگانا اور قیام کرنے والے کو لوٹانا ہے۔ یعنی قیام کرنے والا نیند کی طرف لوٹ جائے؛ تاکہ اس کا جسم قوت و نشاط حاصل کرلے۔ نیز سونے والا بیدار ہو کر نماز کی تیاری کر لے۔ نیز وتر پڑھ لے، اگر شروع رات میں نہیں پڑھا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4247

 
 
Hadith   625   الحديث
الأهمية: الترغيب في نعيم الجنة الدائم والترهيب من عذاب النار الأليم


Tema:

جنت کی دائمی نعمتوں کی ترغیب اور جہنم کے دردناک عذاب سے ڈراوا

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يُؤتى بأنعم أهل الدنيا من أهل النار يوم القيامة، فَيُصْبَغُ في النار صَبْغَةً، ثم يقال: يا ابن آدم، هل رأيت خيرًا قطُّ؟ هل مَرَّ بك نَعِيمٌ قطُّ؟ فيقول: لا والله يا رب، وَيُؤْتَى بأشدِّ الناس بُؤسًا في الدنيا من أهل الجَنَّة، فَيُصْبَغُ صَبْغَةً في الجنَّة، فيقال له: يا ابن آدم، هل رأيت بُؤسًا قط؟ هل مَرَّ بك شِدَّةٌ قط؟ فيقول: لا والله، ما مَرَّ بي بُؤْسٌ قطٌّ، ولا رأيت شِدةً قَطُّ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن سب سے زیادہ عیش وعشرت میں رہنے والے دنیا دار دوزخی کو لایا جائےگا۔ اسے آگ میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا اور پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم! تو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی؟ کیا تجھے کبھی کوئی نعمت ملی؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! واللہ کبھی نہیں۔ پھر دنیا میں جس نے سب سے زیادہ مصبیت زدگی میں زندگی گزاری ہو گی، اس جنتی کو لایا جائے گا اور اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اورپھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم! تو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ تجھ پر کبھی کوئی سختی آئی؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! واللہ کبھی نہیں، نہ مجھ پر کبھی کوئی تکلیف آئی اور نہ میں نے کبھی کوئی سختی دیکھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يؤتى يوم القيامة بأنعم أهل الدنيا وهو من أهل النار، فيغمس في جهنم، فيأتيه من حرها ولهيبها وسمومها ما ينسيه ما كان فيه من نعيم في الدنيا، عند ذلك يسأل ربه وهو أعلم بحاله، هل رأيت خيرًا قط؟ هل مر بك نعيم قط؟ فيقول: لا والله يا رب.
وفي المقابل يؤتى بأشقى أهل الدنيا وأشدهم بؤسًا وفقرًا وحاجة وهو من أهل الجنة، فيغمس في الجنة غمسة، فينسى ما كان عليه من حال في الدنيا من النكد والشقاء والبؤس والفقر والشدة؛ لما يجد من لذة ومتعة لا توصف، عند ذلك يسأل ربه وهو أعلم بحاله، فيقال له: يا ابن آدم، هل رأيت بُؤسًا قط؟ هل مَرَّ بك شدة قط؟ فيقول: لا والله، ما مرَّ بي بؤس قطُّ، ولا رأيت شِدة قَطُّ.
602;یامت کے دن اہل دنیا میں سے اس شخص کو لایا جائے گا، جس نے سب سے پر تعیش زندگی گزاری ہو گی اور وہ دوزخیوں میں سے ہو گا۔ اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا۔ جب اسے جہنم کی گرمی، تپش اور زہرناکی کا سامنا ہوگا، تو دنیا کی سب عیاشیاں بھول جائے گا۔ اس پر اس کا رب اس سے پوچھے گا، حالاں کہ اسے اس کی حالت کا خوب علم ہو گا کہ کیا تم نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی؟ کیا کبھی کوئی نعمت تم پر آئی؟ وہ کہے گا کہ اے رب! واللہ کبھی نہیں! اس کے مقابلے میں ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ زبوں حال اور مصیبت زدہ، غربت کا مارا اور کسمپرس تھا۔ یہ شخص جنتی ہو گا اور اسے جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا، تو دنیا میں اس نے جس پریشانی، شقاوت، تنگی اور فقر و مصیبت کا سامنا کیا ہو گا، وہ سب بھول جائے گا؛ کیوں کہ اسے اتنا مزہ اور لطف آئے گا جو بیان سے باہر ہے۔ اس پر اس کا رب اس سے پوچھے گا، حالاں کہ اسے اس کے حال کا بخوبی علم ہو گا کہ اے ابن آدم! کیا تم نے کبھی کوئی تنگی دیکھی؟ کیا کبھی تم پر کوئی مصیبت آئی؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! کبھی نہیں! مجھ پر کبھی کوئی تنگی نہیں آئی اور نہ میں نے کبھی کوئی مصیبت دیکھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4248

 
 
Hadith   626   الحديث
الأهمية: إِنِّي لَأَقُومُ إلى الصلاةِ، وأُرِيُد أَن أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّه


Tema:

میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ اسے لمبا کرنے کا ہوتا ہے کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو میں اپنی نماز میں اختصار سے کام لیتا ہوں، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں ڈالوں

عن أبي قتادة وأنس بن مالك -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إني لأقوم إلى الصلاة، وأريد أن أُطَوِّلَ فيها، فأسمع بكاء الصبي فأَتَجَوَّزُ في صلاتي كراهيةَ أن أَشُقَّ على أمه».

ابو قتادہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ اسے لمبا کرنے کا ہوتا ہے کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو میں اپنی نماز میں اختصار سے کام لیتا ہوں، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں ڈالوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- يدخل في صلاة الجماعة إمامًا وهو يريد أن يطيل فيها، فإذا سمع بكاء الطفل خفف مخافة أن يشق التطويل على أمه؛ لانشغال قلبها بطفلها.
606;بی ﷺ نے نماز باجماعت کی امامت کراتے ہوئے نماز شروع فرماتے اور آپ ﷺ چاہتے کہ اسے لمبا کریں لیکن جب آپ ﷺ بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس اندیشے کی وجہ سے اسے مختصر کر دیتے کہ لمبا کرنے کی وجہ سے اس کی ماں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ اس کا دل اپنے بچے کے ساتھ لگا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4249

 
 
Hadith   627   الحديث
الأهمية: يا رسولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ، فإلى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قال: إلى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا


Tema:

یا رسول اللہ! میرے دو ہمسائے ہیں۔ میں تحفہ کسے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: يا رسولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ، فإلى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قال: «إلى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا».

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! میرے دو ہمسائے ہیں۔ میں تحفہ کسے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سألت عائشة -رضي الله عنها- النبي -صلى الله عليه وسلم-: إن لي جارين وقد أمرت بإكرام الجار مطلقًا؛ ولا أقدر على الإهداء إليهما معًا، فإلى أيهما أهدي ليحصل لي الدخول في جملة القائمين بإكرام الجار؟ فقال -صلى الله عليه وسلم-: "إلى أقربهما منك بابًا".
593;ائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ میرے دو پڑوسی ہیں اور مجھے حکم ہے کہ پڑوسی کا اکرام کیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو تاہم میں ان دونوں کو ایک ساتھ ہدیہ نہیں دے سکتی۔ اب میں ان دونوں میں سے کسے ہدیہ بھیجوں تاکہ میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوجائے جو پڑوسی کا اکرام کرتے ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان میں سے جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے اسے ہدیہ بھیجو“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 4250

 
 
Hadith   628   الحديث