Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   791   الحديث
الأهمية: بعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عشرة رهْطٍ عيْنًا سَرِيةً، وأمّر عليها عاصم بن ثابت الأنصاري -رضي الله عنه-


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: بَعَث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهْط عيْنا سرية، وأمّر عليها عاصم بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهَدْأة؛ بين عُسْفان ومكة؛ ذكروا لِحَيٍ من هُذَيْل يقال لهم: بنو لحيَان، فنَفَروا لهم بقريب من مائة رجل رام، فاقتصُّوا آثارهم، فلما أحسَّ بهم عاصم وأصحابه، لَجَأوا إلى موضع، فأحاط بهم القوم، فقالوا: انزلوا فأَعْطُوا بأيديكم ولكم العهد والميثاق أن لا نقتل منكم أحدا. فقال عاصم بن ثابت: أيها القوم، أما أنا، فلا أَنْزل على ذِمَّة كافر: اللهم أخبِرْ عَنَّا نبيك -صلى الله عليه وسلم- فرموهم بالنّبْل فقتلوا عاصما، ونزل إليهم ثلاثة نفر على العهد والميثاق، منهم خُبَيب، وزيد بن الدِّثِنَة ورجل آخر. فلما اسْتَمْكَنوا منهم أطلقوا أوتار قِسِيِّهم، فربطوهم بها. قال الرجل الثالث: هذا أول الغَدْر والله لا أصحبكم إن لي بهؤلاء أُسْوة، يريد القتلى، فجرُّوه وعالَجوه، فأبى أن يصحبهم، فقتلوه، وانطلقوا بخُبيب، وزيد بن الدِّثِنِة، حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر؛ فابتاع بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد مُناف خُبيبا، وكان خُبيب هو قَتَل الحارث يوم بدر. فلبث خُبيب عندهم أسيرا حتى أجْمعوا على قتله، فاستعار من بعض بنات الحارث موسى يستَحِدُّ بها فأعارته، فدَرَج بُنَيٌّ لها وهي غافلة حتى أتاه، فوجدَتْه مُجْلِسه على فخذه والمُوسى بيده، ففزعت فزعة عرفها خُبيب. فقال: أتخشين أن أقتله ما كنت لأفعل ذلك! قالت: والله ما رأيت أسيرا خيرا من خُبيب، فوالله لقد وجدته يوما يأكل قِطْفا من عنب في يده وإنه لموثَق بالحديد وما بمكة من ثمرة، وكانت تقول: إنه لَرِزْق رَزَقه الله خبيبا. فلما خرجوا به من الحرم ليقتلوه في الحِلِّ، قال لهم خُبيب: دعوني أصلِّي ركعتين، فتركوه، فركع ركعتين فقال: والله لولا أن تحسبوا أن ما بي جَزَع لزدتُ: اللهم أحْصِهم عددا، واقتلهم بِدَدَا، ولا تُبْقِ منهم أحدا. وقال:   فلسْتُ أُبالي حين أُقتَل مسلما... على أي جنْب كان لله مصرعي   وذلك في ذات الإله وإن يشأْ... يباركْ على أوصال شِلْوٍ مُمَزَّع.
 وكان خُبيب هو سَنَّ لكل مسلم قُتِل صْبرا الصلاة. وأخبر - يعني: النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه يوم أصيبوا خبرهم، وبعث ناس من قُريش إلى عاصم بن ثابت حين حُدِّثُوا أنه قُتل أن يُؤتوا بشيء منه يُعرف، وكان قتل رجلا من عظمائهم، فبعث الله لعاصم مثل الظُلَّة من الدَّبْرِ فحَمَتْه من رُسُلهم، فلم يقدروا أن يقطعوا منه شيئا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان واقع مقام 'ھدأہ' پر پہنچے، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک شاخ، جسے بنی لحیان کہا جاتا تھا، اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی۔ چنانچہ انھوں نے سو تیر اندازوں کو ان کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ وہ ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوۓ چل پڑے۔ جب عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی آمدکا پتہ چلا، تو انھوں نے ایک (محفوظ)جگہ پناہ لے لی۔ قبیلے والوں نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ ہماری پناہ قبول کر لو۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمھارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو! میں کسی کافر کے امان میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انھوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے ۔آخر قبیلے والوں نے مسلمانوں پر تیر برساۓ اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں، ان کے وعدے پر تین صحابہ اتر آئے۔ جن میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں صحابہ پر قابو پا لیا تو اپنے تیر کی کمان سے تانت نکال کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا: یہ تمھاری پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو وہی نمونہ ہیں۔ ان کا اشارہ مقتول صحابہ کی طرف تھا۔ کفار نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی، لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ انھوں نے ان کو بھی شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں لے جا کرانھیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے۔ بالآخر انھوں نے ان کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔ (انھیں دنوں) حارث کی کسی لڑکی سے انھوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ وہ دیکھتی کیا ہے کہ اس کا بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ حد درجہ گھبرا گئی۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور بولے: کیا تمھیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کے ہاتھ میں موجود انگور کے ایک خوشہ سے انھیں کھاتے دیکھا، حالاں کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ وہ در اصل خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر بنو حارثہ انھیں قتل کرنے کے لیے حدودِ حرم سے باہر ”حِل“ لے جانے لگے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ انھوں نے اس کی اجازت دی، تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید پڑھتا۔ پھر انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ اور یہ اشعار پڑھے:
جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔
اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے ہر اس مسلمان کے لیے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز پڑھنے کی سنت قائم کردی، جسے قید کر کے قتل کیاجائے۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے اسی دن اپنے صحابہ کو ان دس صحابہ کی خبر دے دی، جس دن ان پر یہ مصیبت آن پڑی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے ہیں، تو ان (کی نعش) کے پاس اپنے آدمی بھیجے؛ تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں، جس سے ان کی شناخت ہوجائے؛ کیوں کہ انھوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ عنہ کی نعش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور ان بھڑوں نے آپ کی نعش کو کفار قریش کے ان قاصدین سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في قصة عاصم بن ثابت الأنصاري وصحبه رضي الله عنهم كرامة ظاهرة لجماعة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقد أرسلهم النبي صلى الله عليه وسلم -وهم عشرة- جواسيس على العدو، ليأتوا بأخبارهم وأسرارهم, فلما وصلوا قرب مكة شعر بهم جماعة من هذيل، فخرجوا إليهم في نحو مائة رجل يجيدون الرمي، فاتبعوا آثارهم حتى أحاطوا بهم، ثم طلب هؤلاء الهذليون منهم أن ينزلوا بأمان، وأعطوهم عهدًا أن لا يقتلوهم، فأما عاصم فقال: والله لا أنزل على عهد كافر؛ لأن الكافر قد خان الله عز وجل، ومن خان الله خان عباد الله، فرموهم بالسهام، فقتلوا عاصمًا وقتلوا ستة آخرين، وبقي منهم ثلاثة، وافقوا على النزول، فأخذهم الهذليون وربطوا أيديهم، فقال الثالث: هذا أول الغدر، لا يمكن أن أصحبكم أبدًا، فقتلوه، ثم ذهبوا بخبيب وصاحبه إلى مكة فباعوهما، فاشترى خبيباً رضي الله عنه أناسٌ من أهل مكة قد قتل زعيمًا لهم في بدر، ورأوا أن هذه فرصة للانتقام منه، وأبقوه عندهم أسيرًا، وفي يوم من الأيام اقترب صبي من أهل البيت إلى خبيب رضي الله عنه، فكأنه رق له ورحمه فأخذ الصبي ووضعه على فخذه وكان قد استعار من أهل البيت موسى ليستحد به، وأمّ الصبي غافلة عن ذلك، فلما انتبهت خافت أن يقتله لكنه رضي الله عنه، لما أحس أنها خافت قال: والله ما كنت لأذبحه، وكانت هذه المرأة تقول: والله ما رأيت أسيراً خيراً من خبيب، رأيته ذات يوم وفي يده عنقود عنب يأكله، ومكة ما فيها ثمر، فعلمت أن ذلك من عند الله عز وجل كرامة لخبيب رضي الله عنه، أكرمه الله سبحانه وتعالى، فأنزل عليه عنقودا من العنب يأكلها وهو أسير في مكة، ثم أجمع هؤلاء القوم -الذين قُتل والدهم على يد خبيب- أن يقتلوه، لكن لاحترامهم للحرم قالوا: نقتله خارج الحرم، فلما خرجوا بخبيب خارج الحرم إلى الحل ليقتلوه، طلب منهم أن يصلي ركعتين، فلما انتهى منها قال: لولا أني أخاف أن تقولوا: إنه خاف من القتل أو كلمة نحوها، لزدت، ولكنه رضي الله عنه صلى ركعتين فقط, ثم دعا عليهم رضي الله عنه بهذه الدعوات الثلاث: اللهم أحصهم عددًا، واقتلهم بددا، ولا تبق منهم أحدًا.
فأجاب الله دعوته، وما دار الحول على واحد منهم، كلهم قتلوا وهذا من كرامته.
579;م أنشد هذا الشعر:
ولست أبالي حين أقتل مسلمًا ... على أي جنب كان لله مصرعي
وذلك في ذات الإله فإن يشأ ... يبارك على أوصال شلو ممزع
 وأما عاصم بن ثابت الذي قتل رضي الله عنه، فقد سمع به قوم من قريش، وكان قد قتل رجلاً من عظمائهم فأرسلوا إليه جماعة يأتون بشيء من أعضائه يُعرف به حتى يطمئنوا أنه قُتل، فلما جاء هؤلاء القوم ليأخذوا شيئاً من أعضائه، أرسل الله سبحانه وتعالى عليه شيئاً مثل السحابة من النحل, يحميه به الله تعالى من هؤلاء القوم، فعجزوا أن يقربوه ورجعوا خائبين.
وهذا أيضاً من كرامة الله سبحانه وتعالى لعاصم رضي الله عنه، أن الله سبحانه وتعالى حمى جسده بعد موته من هؤلاء الأعداء الذين يريدون أن يمثلوا به.
عاصم بن ثابت انصاری اور ان کے ساتھی صحابہ رضی اللہ عنھم کے اس قصے میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک واضح کرامت کا ثبوت ہے۔ نبی ﷺ نے ان دس صحابہ رضی اللہ عنھم کو دشمنان اسلام کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا تھا؛ تاکہ ان کی خبریں اور خفیہ اطلاعات بہم پہنچائیں۔ جب صحابہ کی یہ جماعت، مکہ مکرمہ کے قریب پہنچی، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک جماعت کو ان کی آمد کا پتہ چل گیا اور ماہر تیر اندازوں پر مشتمل لگ بھگ سو افراد کی جمعیت ان کی جانب نکل پڑی۔ انھوں نے نقش قدم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کا گھیراؤ کرلیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان کے امان میں نیچے اتر جائیں۔ انھوں نے یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ انھیں قتل نہیں کریں گے۔ لیکن عاصم رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ میں کسی کافر کے عہد وپیمان پر نہیں اتروں گا؛ کیوں کہ کافر نے اللہ سے خیانت کی ہے اور جو اللہ سے خیانت کر سکتا ہے، وہ اس کے بندوں سے بھی کر سکتا ہے۔ انھوں نے صحابہ پر تیر برسانی شروع کردی اور عاصم اور دیگر چھے صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شہید کردیا۔ دس میں سے تین باقی رہ گئے، جو نیچے اترنے پر راضی ہوگئے۔ ہذیلیوں نے انھیں پکڑلیا اور ان کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اس پر تیسرے صحابی نے کہا کہ یہ سب سے پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے انھیں بھی شہید کردیا۔ پھر انھوں نے خبیب اور ان کے ساتھی کو مکہ لے جاکر فروخت کردیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ میں سے ان لوگوں نے خریدلیا، جن کے ایک سردار کو خبیب رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں قتل کیا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ان سے بدلہ لینے کا یہی موقع ہے۔ انھوں نے خبیب کو اپنے ہاں قید رکھا۔ انھیں دنوں بنو حارثہ کے گھر کا ایک چھوٹا سا بچہ خبیب رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچ گیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کے دل میں اس بچے کے لیے شفقت و رحمت کے جذبات امنڈ پڑے۔ انھوں نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا۔ قبل ازیں انھوں نےاپنے زیرناف بال کاٹنے کے لیے گھر والوں سے استرہ مانگ کر لیا تھا اور بچے کی ماں اس سے بالکل ان جان تھی۔ جب اس کو اس امر کا پتہ چلا تو خو ف زدہ ہوگئی کہ کہیں خبیب بچے کو قتل نہ کردیں؛ صحابی رضی اللہ عنہ نے جب محسوس کیا کہ بچے کی ماں خوف زدہ ہوگئی ہے، تو اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کی قسم! میرا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ خاتون کہا کرتی تھیں:اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں انگور کا ایک گچھا ہے، جس میں سے وہ کھا رہے ہیں، جب کہ مکہ مکرمہ میں کوئی پھل نہیں تھا۔ میں جان گئی کہ یہ اللہ عز وجل کی جانب سے خبیب رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کا ایک مظہر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکے میں اسیری کی حالت میں ان کے کھانے کا انتظام کرتے ہوئے (آسمان سے) انگور کے گچھے نازل فرمادیے۔ پھر ان لوگوں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا، جن کے والد کو انھوں نے(غزوۂ بدرمیں)قتل کیا تھا، لیکن حرم مکہ کے احترام میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں حدود حرم کے باہر لے جاکر قتل کریں گے۔ چنانچہ جب وہ خبیب کو قتل کرنے کے لیے حدود حرم کے باہر "حل" کی جانب نکلے،تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے دو رکعت نماز ادا کرنے کی درخواست کی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم یہ کہنے لگو کہ یہ قتل ہونے سے ڈر گیا ہے-یا اس جیسی کوئی اور بات کہی-، تو اور نمازیں پڑھتا۔ انھوں نے دو رکعت ہی پڑھی اور پھر ان کے حق میں تین بد دعائیں کیں: اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ رہنے دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی۔ ان میں سے کوئی بھی اس سال زندہ نہ رہا، بلکہ ان سب کو قتل کردیا گیا۔ یہ بھی اس صحابی جلیل کے شرف و کرامات میں سے ہے۔
پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھائے:
جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔
دوسری جانب، شہید ہونے والے صحابی عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خبر جب قریش کے بعض لوگوں تک پہنچی، جن کے ایک سردار کو عاصم نے قتل کیا تھا، تو انھوں نے کچھ لوگوں کو ان کی شناخت کے لیے ان کے کسی عضو کو کاٹ کر لانے کی خاطر روانہ کیا؛ تاکہ انھیں اطمینان ہوجائے کہ واقعی انھیں کو قتل کیا گیا ہے۔ جب یہ لوگ ان کا کوئی عضو حاصل کرنے کے لیے پہنچے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کا جھنڈ بھیجا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے ان کی حفاظت فرمائی۔ دشمن ان کے پاس پہنچنے سےعاجز رہ گئے اور ناکام و نامراد لوٹ گئے۔
یہ بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عاصم رضی اللہ عنہ کےلیے شرف و کرامت کا اظہار تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے جسم کو دشمنوں سے محفوظ رکھا، جو ان کے جسم کا مثلہ کرنے کے خواہش مند تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5001

 
 
Hadith   792   الحديث
الأهمية: العبادة في الهَرْج كهجرة إليَّ


Tema:

فتنہ اور فساد کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا۔

عن معقل بن يسار -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «العبادة في الهَرْج كهجرة إليَّ».

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فتنہ اور فساد کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث أنَّ من ابتعد عن مواطن الفتن والقتل واختلاط الأمور وفساد الدين، ثم أقبل على عبادة ربه، والتمسك بسنة نبيه كان له من الأجر والمثوبة كمن هاجر إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فتنہ، قتل وغارت گری اورمعاملات میں گڑ بڑ اور فساد دین کی جگہوں سے دور رکھتا ہے، اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتا ہے اور اپنے نبی کی سنت پر کاربند رہتا ہے، اسے اس شخص کی طرح کا اجرو ثواب ملتا ہے، جس نے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5020

 
 
Hadith   793   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لحينا وميتنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، وشاهدنا وغائبنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده


Tema:

اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے چھوٹے اور بڑے کو، ہمارے مردوں اور عورتوں کو، ہمارے حاضر اور غائب سب کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔ اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور ہمیں اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ کر۔

عن أَبي هريرة وأبي قتادة وَأبي إبراهيم الأشهلي عن أبيه -وأبوه صَحَابيٌّ- -رضي الله عنهم- عن النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- أنه صلى على جِنَازَةٍ، فقال: «اللهم اغفر لِحَيِّنَا ومَيِّتِنَا، وصغيرنا وكبيرنا، وذَكرنا وأُنثانا، وشَاهِدِنَا وغَائِبِنَا، اللهم مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ على الإسلامِ، ومَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفِّهِ على الإيمانِ، اللهم لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، ولا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ».

ابوہریرہ، ابو قتادہ اور ابو ابراہیم اشھلی اپنے والد ‘جو کہ صحابی ہیں رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک جنازے کی نماز پڑھائی اور آپ نے یہ دعا پڑھی: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرنَا وَكَبيرنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإسْلاَمِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوفَّهُ عَلَى الإيمَان، اللَّهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلاَ تَفْتِنَّا بَعدَهُ“ اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے چھوٹے اور بڑے کو، ہمارے مردوں اور عورتوں کو، ہمارے حاضر اور غائب سب کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔ اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور ہمیں اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ کر۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى على جنازة قال ما معناه: اللهم اغفر لجميع أحيائنا وأمواتنا معشر المسلمين، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، وحاضرنا وغائبنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على التمسك بشرائع الاسلام ، ومن قبضت روحه فاقبضها على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجر المصيبة فيه، ولا تضلنا بعده.
606;بی ﷺ جب جنازہ پڑھاتے تو اِس مفہوم کی دعا فرماتے: اے اللہ! مسلمان معاشرے میں ہمارے تمام زندوں اور مُردوں، ہمارے چھوٹوں اور بڑوں، ہمارے مردوں اور عورتوں اور حاضرین و غائبین کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے زندہ رکھ اور جسے تو موت دے اسے ایمان کی حالت میں موت دے۔ یا اللہ! ہمیں مصیبت کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5021

 
 
Hadith   794   الحديث
الأهمية: اللهم إن فلان ابن فلان في ذمتك وحبل جوارك، فقه فتنة القبر، وعذاب النار، وأنت أهل الوفاء والحمد؛ اللهم فاغفر له وارحمه، إنك أنت الغفور الرحيم


Tema:

اے اللہ! فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری حفاظت کی پناہ میں ہے، تو اسے قبر کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما، تو وعدے کو پورا کرنے والا اور لائق ستائش ہے۔ اے اللہ! تو اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما، بے شک تو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

عن واثلة بن الأسقع -رضي الله عنه- مرفوعاً: « صلى بنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على رجل من المسلمين، فسمعته يقول: «اللهم إن فلان ابن فلان في ذمتك وحبل جِوَارِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ القبر، وعذاب النار، وأنت أهل الوفاء والحمد؛ اللهم فاغفر له وارحمه، إنك أنت الغفور الرحيم».

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا: ”اللَّهُمَّ إنَّ فُلانَ ابْنَ فُلانٍ في ذِمَتِّكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ القَبْرِ، وَعذَابَ النَّار، وَأَنْتَ أهْلُ الوَفَاءِ وَالحَمْدِ؛ اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحيمُ“ اے اللہ! فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری حفاظت کی پناہ میں ہے، تو اسے قبر کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما، تو وعدے کو پورا کرنے والا اور لائق ستائش ہے۔ اے اللہ! تو اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما، بے شک تو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة الجنازة على رجل من المسلمين، ثم قال ما معناه: اللهم إن فلان بن فلان في أمانك وحفظك وطلب مغفرتك؛ فثبته عند سؤال الامتحان في القبر، ونجِّه من عذاب النار، فإنك لا تخلف الميعاد، وأنت أهل الحق، فاللهم اغفر له وارحمه، إنك كثير المغفرة للسيئات، وكثير الرحمة بقبول الطاعات ومضاعفة الحسنات.
585;سول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں دعا فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے: اے اللہ! فلاں بن فلاں تیرے حفظ و امان میں ہے اور تیری مغفرت کا طلب گار ہے۔ لہٰذا قبر میں بطور امتحان پوچھے جانے والے سوال پر اسے ثابت قدم رکھ اور اسے آگ کے عذاب سے نجات دے، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا اور تو حق والا ہے۔ اے اللہ! پس تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم فرما، یقیناً تو گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والا، اور نیکیوں کو قبول کر کے اور انہیں کئی چند کرکے بہت ہی رحمت کرنے والا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5022

 
 
Hadith   795   الحديث
الأهمية: اللهم أنت عضدي ونصيري، بك أحول، وبك أصول، وبك أقاتل


Tema:

اے اللہ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں جنگ کرتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا غزا، قال: «اللهم أنت عَضُدِي ونَصِيرِي، بِكَ أَحُول، وبِكَ أَصُول، وبك أقاتل».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ کرتے تھے تو فرماتے : ”اللَّهُمَّ أنْتَ عَضْديِ وَنَصِيرِي، بِكَ أَحُولُ، وَبِكَ أَصُولُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ“ اے اللہ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں قتال کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد غزوة أو شرع فيها، قال ما معناه: اللهم أنت ناصري ونَصيري، بك وحدك أنتقل من شأن إلى غيره، وبك وحدك أثب على أعداء الدين، وبك أقاتلهم.
585;سول اللہﷺ جب کسی جنگ کا ارادہ فرماتے یا پھر جنگ شروع کرتے تو ایسی بات کہتے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’اے اللہ ! تو ہی میرا معاون و مددگار ہے۔ تیری ہی بدولت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتا ہوں۔ اور محض تیری مدد سے میں دشمنان دین پر حملہ آور ہوتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں ان سے لڑتا ہوں‘۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5024

 
 
Hadith   796   الحديث
الأهمية: إن العبد إذا نصح لسيده، وأحسن عبادة الله، فله أجره مرتين


Tema:

بے شک اگر کوئی غلام اپنےآقا کا خیر خواہ رہے، اور اللہ کی عبادت بہترین طریقے سے کرے تو اس پر اس (غلام ) کو دہرا اجر ملے گا۔

عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إن العبد إذا نصح لسيده، وأحسن عبادة الله، فله أجره مرتين».   عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «المملوك الذي يحسن عبادة ربه، ويُؤدي إلى سيده الذي عليه من الحق، والنصيحة، والطاعة، له أجران».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اگر کوئی غلام اپنےآقا کا خیر خواہ رہے اور اللہ کی عبادت بہترین طریقے سے کرے تو اس پر اس (غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا غلام جو اپنے رب کی عبادت بہترین طریقے سے کرے اور اس پر اپنے آقا کا جو حق اس پر واجب ہے اسے ادا کرے ، اس کا خیر خواہ اور فرماں بردار رہے تو اس عمل پر اس(غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل الله على العبد الذي يُؤدي حق ربه بفعل الطاعات، وحق سيده بخدمته ورعاية مصالحه، وأنَّه ينال بذلك الأجر مرتين.
575;س حدیث میں اس غلام پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کا بیان ہے، جو اپنے رب کا حقِ اطاعت ادا کر کے اور اپنے آقا کا حق اس کی خدمت اور اس کے مفادات کی پاسداری کر کے ادا کرتا ہے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس پر وہ دہرا اجر پائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5025

 
 
Hadith   797   الحديث
الأهمية: إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون


Tema:

آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- دخل على ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- وهو يجود بنفسه، فجعلت عينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- تذرفان. فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله؟! فقال: «يا ابن عوف إنها رحمة» ثم أتبعها بأخرى، فقال: «إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ اس پر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ بھی رو رہے ہیں؟! آپ ﷺ نے فرمایا: اے عوف کے بیٹے! یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- وهو يقارب الموت، فجعلت عينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يجري دمعهما فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله على معنى التعجب، أي الناس لا يصبرون على المصيبة وأنت تفعل كفعلهم؟ كأنه تعجب لذلك منه مع عهده منه أنه يحث على الصبر وينهى عن الجزع، فأجابه بقوله: "إنها رحمة" أي الحالة التي شاهدتها مني هي رقة القلب على الولد ثم أتبعها بجملة أخرى فقال: "إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا" أي: لا نتسخط ونصبر، "وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون"، فالرحمة لا تنافي الصبر والإيمان بالقدر.
585;سول اللہ ﷺ اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس تشریف لائے جو قریب المرگ تھے۔ اس پر آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ یہ دیکھ کر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تعجب بھرے انداز میں کہا کہ: یا رسول اللہ! آپ بھی ایسے کر رہے ہیں؟ یعنی لوگ مصیبت پر صبر نہیں کرتے اور آپ ﷺ بھی انہی کی طرح کر رہے ہیں؟۔ گویا کہ ان کو آپ ﷺ کے اس فعل سے تعجب ہوا کیونکہ انہوں نے تو یہی دیکھا تھا کہ آپ ﷺ انہیں صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور انہیں بے صبری سے منع کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ رحم دلی کی وجہ سے ہے یعنی جو حالت تم نے دیکھی یہ بچے پر شفقت کی بدولت ہے۔ پھر آپ نے مزید فرمایا کہ آنکھ سے آنسو جاری ہیں، دل غمزدہ ہے تاہم ہم کہیں گے وہی بات جو ہمارے رب کو راضی کرے گی یعنی ہم (اللہ کی رضا پر) ناگواری کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ صبر کریں گے۔ اور اے ابراہیم! ہم تیری جدائی کی وجہ سے غمگین ہیں۔ رحم دلی صبر اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5026

 
 
Hadith   798   الحديث
الأهمية: إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله -عز وجل-


Tema:

میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه-: أن رجلا، قال: يا رسول الله، ائذن لي في السياحة. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله -عز وجل-».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کی سیاحت، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان أنَّ العبادات توقيفية، وأنَّه لا يجوز للمسلم القيام بها إلا وفق الكيفية التي يحددها له الشرع الحنيف، لذلك بين النبي -صلى الله عليه وسلم- لهذا الرجل الذي أراد أن يسيح في الأرض لأجل العبادة أنَّ هذا من عمل النصارى وأن السياحة في الأرض هي نشر الإسلام فيها وأن سياحة أهل الاسلام هي الجهاد في سبيل الله لإعلاء دين الله -تعالى-.
575;س حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عبادات توقیفی (اللہ کی طرف سے متعین) ہوتے ہیں، ہر مسلمان کے لیے اسے اسی کیفیت پر ادا کرنا ضروری ہے جس طرح شریعتِ حنیف نے بتایا ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اس شخص سے کہا جو زمین میں اللہ کی عبادت کی غرض سے سفر کا ارادہ کرتا تھا کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے۔ اور زمین میں سفر کرنا اسلام پھیلانے کی غرض سے ہوتا ہے اور اہلِ اسلام کی سیر اللہ تعالی کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کرنے میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5033

 
 
Hadith   799   الحديث
الأهمية: ثلاثة لهم أجران


Tema:

تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، والعبد المملوك إذا أدى حق الله، وحق مواليه، ورجل كانت له أمة فأدبها فأحسن تأديبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها؛ فله أجران».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے، وہ اپنے نبی پر ایمان لایا اور (پھر) محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی۔ (تیسرا) وہ شخص جس کی ایک باندی ہو۔ چنانچہ اس نے اسے ادب سکھایا اور اس کی خوب اچھی تربیت کی، اور اسے علم سکھایا اور اسے خوب اچھی تعلیم سے آراستہ کیا، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی، اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل من آمن من أهل الكتاب بالإسلام لمزية اتباع دينهم واتباع النبي -صلى الله عليه وسلم-، وفيه فضل العبد الذي يُؤدي حق الله وحق مواليه، وفيه فضل من أدَّب مملوكته وأحسن تربيتها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجرٌ؛ لأنه أحسن إليها وأعتقها، وله أيضاً أجر آخر عندما تزوجها وكَفَّها وأحصن فرجها.
575;س حدیث میں اہل کتاب (یہود ونصارى) میں سے اس شخص کی فضیلت کا بیان ہے جو دين اسلام پر ايمان ركهنے والا ہے اور یہ امتياز اسے اپنے دین کی تابع دارى كرنے كے ساتھ نبی ﷺ کی بھی اتباع کرنے كی وجہ سے حاصل ہے۔ اسی طرح اس میں اس غلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کرتاہے۔ نيز اس حدیث میں اس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اپنى باندی کی اچھی طرح سے تعليم وتربیت کرے، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلے۔ چنانچہ اس شخص کے لئے ایک اجر اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اسے آزاد کرنے كےعوض ہے اور اس کے لئے دوسرا اجر اس کے ساتھ شادی کر کے اسے روک لینے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت کرنے كے سبب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5034

 
 
Hadith   800   الحديث
الأهمية: ثنتان لا تردان، أو قلما تردان: الدعاء عند النداء وعند البأس حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُ بَعْضًا


Tema:

دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا (فرمایا) کم ہی رد کی جاتی ہیں، اذان کے وقت کی دعا اور لڑائی کے وقت کی دعا جب کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ثنتان لا تُرَدَّانِ، أو قلما تردان: الدعاء عند النداء وعند البأس حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُ بَعْضًا».

سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا (فرمایا) کم ہی رد کی جاتی ہیں، اذان کے وقت کی دعا اور لڑائی کے وقت کی دعا جب کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل الجهاد في سبيل الله حيث يستجيب الله -تعالى- لدعاء المجاهد وهو في المعركة، وفيه أيضاً بيان فضل الأذان حيث يستجيب الله -تعالى- لدعاء المسلم عند الأذان وحتى إقامة الصلاة.
575;س حديث ميں جہاد فى سبيل اللہ کى فضيلت کا بيان ہے کہ اللہ تعالیٰ معرکۂ کار زار ميں مجاہد کى دعا كو شرفِ قبوليت سے نوازتا ہے، اسى طرح اس حديث ميں اذان کى فضيلت کا بھى بيان ہے کہ اللہ تعالیٰ اذان سے لے کر اقامت ہونے تک مسلمان کى دعا قبول فرماتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5035

 
 
Hadith   801   الحديث
الأهمية: لك بها يوم القيامة سبعمائة ناقة كلها مخطومة


Tema:

اس کے بدلے میں تیرے لیے قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ہیں اور سب نکیل ڈلی ہوئی ہوں گی۔

عن أبي مسعود -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٍ، فقال: هذه في سبيل الله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لك بها يوم القيامة سبعمائة ناقة كلها مخطومة».

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نکیل پڑی ہوئی اونٹنی لے کر آیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ (یارسول اللہ!) یہ اونٹنی اللہ کے راستہ میں (دیتا ہوں) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٌ، أي مَشْدُودةٌ بِحَبل، وهو قريب من الزمام التي تُشَدُّ به الناقة، فقال الرجل: يا رسول الله، هذه في سَبِيلِ الله، أي أوقفها في الجهاد في سبيل الله -تعالى-، للغزو بها. 
فقال له -صلى لله عليه وسلم-: "لك بها سَبْعُمائَةِ نَاقة "؛ وذلك لأن الله -تعالى- يُضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سَبعمائة ضِعف إلى أضْعَاف كثيرة، كما في قوله -تعالى-: (مَثَل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كَمثَلِ حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم).
قوله: "كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ " فائدة الخِطام: زيادة تمكن صاحبها من أن يعمل بها ما أراد، وهذا من حسن الجزاء، فكما أن هذا الرجل جاء بناقته إلى النبي -صلى الله عليه  وسلم- مَشْدُودٌ عليها بالخِطام، جزاه الله بسبعمائة ناقة كلها مَشْدُودٌ عليها بالخِطام؛ وليعلم من ينفق في الدنيا أن كل زيادة يقدمها سيحزى بها، والخطام له قيمة وجمال وزيادة في الناقة.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نکیل پڑی اونٹنی لے کر آیا۔ ”مَخْطُومَةٌ“ سے مراد ہے کہ وہ رسی سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ رسی لگام کی طرح کی ہوتی ہے جس سے اونٹنی کو باندھا جاتا ہے۔
اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹنی اللہ کے راستے میں وقف ہے، یعنی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرتا ہوں تاکہ یہ جنگ میں کام آئے۔
آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ”تمہیں اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گے“ کیوں کہ اللہ تعالی نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھا کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے“۔
”كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ“ نکیل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اونٹنی کا مالک اونٹنی کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔ یہ بہترین بدلہ دینا ہے، جیسے یہ شخص نبی ﷺ کے پاس اونٹنی کو اس حال میں لے کر آیا کہ وہ نکیل سے بندھی ہوئی تھی اسی طرح اللہ بھی اسے ایسی سات سو اونٹنیاں بطورِ جزاء عطاء فرمائے گا جو سب کی سب نکیل سے بندھی ہوں گی؛ جو شخص اس دنیا میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ ہر وہ اضافی چیز جسے وہ خرچ کرتا ہے اس کا اسے بدلہ دیا جائے گا، نکیل کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ اونٹنی میں خوبصورتی اور اضافی شے کی حیثیت رکھتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5036

 
 
Hadith   802   الحديث
الأهمية: اسمعوا وأطيعوا، فإنما عليهم ما حملوا، وعليكم ما حملتم


Tema:

سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو ان پر ہے اور تم پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو تمھارے اوپر ہے۔

عن أبي هنيدة وائل بن حجر -رضي الله عنه-: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا نبي الله، أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم، ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه، ثم سأله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اسمعوا وأطيعوا، فإنما عليهم ما حُمِّلُوا، وعليكم ما حُمِّلْتُم».

ابو هنیدة وائل بن حجر رضى الله عنہ سے روات ہے کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں، جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں، لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں، تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس بات پر رخ انور پھیر لیا۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو۔ ان پراس بات کی ذمے داری ہے، جو ان پر ہے اور تم پراس بات کی ذمے داری ہےجو تمھارے اوپر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل سلمة بن يزيد -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أمراء يطلبون حقهم من السمع والطاعة لهم، ولكنهم يمنعون الحق الذي عليهم؛ لا يؤدون إلى الناس حقهم، ويظلمونهم ويستأثرون عليهم، فأعرض النبي -صلى الله عليه وسلم- عنه، كأنه -عليه الصلاة والسلام- كره هذه المسائل، وكره أن يفتح هذا الباب، ولكن أعاد السائل عليه ذلك، فسأله، فأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نؤدي لهم حقهم، وأن عليهم ما حُملوا وعلينا ما حُملنا، فنحن حُملنا السمع والطاعة، وهم حُمِّلوا أن يحكموا فينا بالعدل وألا يظلموا أحداً، وأن يقيموا حدود الله على عباد الله، وأن يقيموا شريعة الله في أرض الله، وأن يجاهدوا أعداء الله.
587;لمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ان حکمرانوں کے بارے دریافت کیا، جو لوگوں سے تویہ چاہیں گے کہ وہ ان کی بات سن کر اطاعت کریں، لیکن اپنے پر عائد ہونے والی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے۔ یعنی لوگوں کو ان کاحق نہیں دیں گے، لوگوں پر ظلم ڈھائیں گے اور ان پر اپنا تسلط قائم کریں گے۔ آپﷺ نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ گویا آپ ﷺ کو اس طرح کے مسائل پر گفتگو اچھی نہ لگتی ہو اور آپ ﷺ کو اس باب (عنوان) کو کھولنا پسند نہ ہو۔ لیکن پوچھنے والے نے دوبارہ سوال کر دیا۔
پھر اس نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا حق ادا کریں اور فرمایا کہ ان پراس کام کی ذمے داری ہے، جو ان کے ذمے ہے اور ہمارے اوپر اس شے کی ذمے داری ہے، جو ہمارے ذمے ہے۔ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم سمع و طاعت کریں اور ان کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہمارے اوپر عدل کے ساتھ حکمرانی کریں، کسی پر ظلم نہ ڈھائیں، اللہ کے بندوں پر اس کی حدود قائم کریں، اللہ کی زمین پر اس کی شریعت کا نفاذ کریں اور اس کے دشمنوں سے جہاد کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5037

 
 
Hadith   803   الحديث
الأهمية: ما على الأرض مسلم يدعو الله تعالى بدعوة إلا آتاه الله إياها، أو صرف عنه من السوء مثلها، ما لم يدع بإثم، أو قطيعة رحم


Tema:

روئے زمین پر موجود کوئی بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے اس کی مراد عنایت کردیتے ہیں یا پھر اس کے بدلے میں اس طرح کی کوئی مصبیت اس سے ٹال دیتے ہیں بشرطیکہ کہ وہ کسی گناہ یا قطعِ رحمی کی دعا نہ کرے۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- و أبي سعيد الخدري-رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما على الأرض مسلم يدعو الله تعالى بدعوة إلا آتاه الله إياها، أو صرف عنه من السوء مثلها، ما لم يَدْعُ بإثم، أو قطيعة رحم»، فقال رجل من القوم: إذا نُكثِر قال: «اللهُ أكثر». وفي رواية أبي سعيد زيادة: «أو يَدَّخر له من الأجر مثلها».

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر موجود کوئی بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے اس کی مراد عنایت کردیتا ہے یا پھر اس کے بدلے میں اس طرح کی کوئی مصبیت اس سے ٹال دیتا ہے بشرطیکہ کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ: پھر تو ہم بہت زیادہ دعا کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور زیادہ دے گا۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: یا پھر وہ اس کے مثل اجر اس کے لیے محفوظ رکھ چھوڑتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يرغب كل مسلم أن يكون على صلة بربه -عز وجل-، قولاً وعملاً، والدعاء الصادر من قلب صادق متعلق بمحبة الله -عز وجل-، تفتح له أبواب السماء، ويستجيب له الله -عز وجل- الذي يجيب المضطر إذا دعاه، ويكشف السوء، فالدعاء لا يضيع، فهو إما أن يستجاب ويحصل المطلوب، أو أن يمنع الله به من السوء بقدره، أو يدخر له من النفع مثله وما عند الله من الخير أكثر مما يطلب الناس ويسألون.
581;دیث ہر مسلمان کو ترغیب دے رہی ہے کہ وہ وہ قول و عمل کے ساتھ اپنے رب سے تعلق جوڑے رکھے اور یہ کہ ایسی دعا جو ایسے دل سے صادر ہو جو سچا ہو اور اللہ کی محبت سے منسلک ہو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ جو مجبور و بے کس کی دعا کو سنتا ہے اسے قبول کرتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے۔ چنانچہ دعا ضائع نہیں ہوتی۔ یا تو اس شخص کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور اسے اس کا مقصود حاصل ہو جاتا ہے یا پھر اس کے بقدر اللہ تعالی اس کی کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے یا پھر اس کے مساوی نفع کو اس کے لیے محفوظ رکھ چھوڑتے ہیں۔ اللہ کے پاس جو خیر ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جسے لوگ مانگتے اور طلب کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5100

 
 
Hadith   804   الحديث
الأهمية: دعاء الكرب: لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السماوات، ورب الأرض، ورب العرش الكريم


Tema:

پریشانی کے وقت کی دعا: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ“۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يقول عند الكرب: «لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله ربُّ السماوات، وربُّ الأرض، ورب العرش الكريم» .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ“ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عظمت والا اور بُردْبار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو آسمانوں، زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دلَّ الحديث على أن الكرب والغم لا يزيله إلا الله، وهذه الكلمات المذكورة إذا قالها عبد مؤمن عند خوفه وكربه؛ آمنه الله -عز وجل-، فذكر الله -تعالى- ودعاؤه يسهل الصعب، وييسر العسير، ويخفف المشاق، فما ذكر الله -عز وجل- على صعب إلا هان، ولا على عسير إلا تيسر، ولا مشقة إلا خفت، ولا شدة إلا زالت، ولا كربة إلا انفرجت.
وحكمة تخصيص الحليم بالذكر، أنّ كرب المؤمن غالبًا إنما هو نوع من التقصير في الطاعات، أو غفلة في الحالات، وهذا يشعر برجاء العفو المقلل للحزن.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پریشانی اور غم صرف اللہ کی ذات دور کرتی ہے۔ خوف اور پریشانی کے عالم میں جب مومن بندہ ان کلمات کا وِرد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مامون کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا مشکل کو آسان کرتا ہے اور تنگی کو دور کرتا ہے اور مشکلات کو ہلکا کرتا ہے۔ کسی بھی مشکل وقت میں اللہ کا ذکر کرنے سے وہ چیز آسان ہوجاتی ہے، ہر تنگی دور ہو جاتی ہے، مشقت کم ہوجاتی ہے، سختی ختم ہوجاتی ہے اور غم دور ہوجاتا ہے۔
اللہ کی صفت حلیم کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ مومن بندے کی پریشانی کا عام سبب نیکیوں میں کوتاہی اور حالات میں اللہ کی ذات سے غفلت ہوتی ہے۔ جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی کی امید کی جائے جو کہ پریشانی میں کمی کا باعث ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5141

 
 
Hadith   805   الحديث
الأهمية: لقد كان فيما قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر


Tema:

تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے، اگر میری امت میں بھی کوئی الہامی یافتہ ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لقد كان فيما قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے، اگر میری امت میں بھی کوئی الہامی یافتہ ہوتا تو وہ عمر ہوتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحدثنا أبو هريرة -رضي الله عنه- عن كرامة لأمير المؤمنين عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- حيث أخبر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:
"كان فيما كان قبلكم محدثون" أي: ملهمون للصواب، يقولون قولاً فيكون موافقًا للحق، وهذا من كرامة الله للعبد أن الإنسان إذا قال قولاً، أو أفتى بفتوى، أو حكم بحكم تبين له بعد ذلك أنه مطابق للحق، فعمر -رضي الله عنه- من أشد الناس توفيقًا للحق، وقال: "إن يك في أمتي" وهذا ليس ترددًا، فإن أمة الإسلام أفضل الأمم وأكملها، ولكنه للتأكيد، فإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم؛ فإمكان وجوده فيهم أولى.
وكلما كان الإنسان أقوى إيمانًا بالله وأكثر طاعة لله وفقه الله -تعالى- إلى الحق بقدر ما معه من الإيمان والعلم والعمل الصالح، تجده مثلاً يعمل عملاً يظنه صوابًا بدون ما يكون معه دليل من الكتاب والسنة فإذا راجع أو سأل، وجد أن عمله مطابق للكتاب والسنة، وهذه من الكرامات، فعمر -رضي الله عنه- قال فيه الرسول -صلى الله عليه وسلم- إن يكن فيه محدثون فإنه عمر.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان کر رہے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے“ مُحَدَّثُون یعنی درست بات کے الہام یافتہ لوگ، ایسے لوگ کہ جو کچھ وہ کہتے وہ بات حق کے موافق ہوتی، یہ اللہ تعالی کی بندے کے لیے ایک کرامت ہے کہ انسان کوئی بات کہے یا کوئی فتوی دے یا کوئی حکم بیان کرے اور بعد میں اس کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ سچ اور حق کے مطابق بات ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حق کی موافقت کرنے والے تھے۔
”اگر میری امت میں بھی کوئی“ اس بات میں کوئی پس پیش یا تردد نہیں بلکہ یہ تاکید کے طور پر بیان کی گئی ہے، امت مسلمہ سب سے افضل اور باکمال امت ہے، پس جب سابقہ امتوں میں اس طرح کے لوگ پائے گئے تو بدرجہ اولی اس امت میں پائے جائیں گے۔
انسان جتنا ایمان باللہ میں مضبوط رہے گا، طاعت وفرمانبرداری میں جتنا اتم ہوگا، اتنا ہی اسے اللہ تعالی اس کے ایمان، علم اور عمل صالح کے بقدر حق کی توفیق سے نوازے گا۔ تم دیکھو گے کہ وہ کوئی عمل کرتا رہے گا جس کے متعلق اسے یہ گماہ ہوگا کہ وہ صحیح ہے حالانکہ اس کے پاس اس عمل پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں ہوگی، لیکن جب تم (اس عمل کے متعلق کسی سے) رجوع کرو گے یا استفسار کرو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ اس کا وہ عمل قرآن وحدیث کے مطابق ہی ہے، یہ کرامات میں سے ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ہی کی وہ شخصیت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے بارے میں کہا کہ اگر کوئی الہام یافتہ شخصیت ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5142

 
 
Hadith   806   الحديث
الأهمية: كُنّا نتكلم في الصلاة، يُكَلِّمُ الرجل صاحبه، وهو إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت {وقوموا لله قانتين}؛ فَأُمِرْنَا بالسكوت و نُهِينَا عن الكلام


Tema:

ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے۔ آدمی دوران نماز اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“ اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا۔

عن زَيْد بن أَرْقَمَ رضي الله عنه قال: «كُنّا نتكلم في الصلاة، يُكَلِّمُ الرجل صاحبه، وهو إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت ((وقوموا لله قانتين))؛ فَأُمِرْنَا بالسكوت ونُهِينَا عن الكلام».

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوۓ کہتے ہیں: ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے۔ آدمی دوران نماز اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“ اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة صِلة بين العبد وربه؛ فلا ينبغي أن يتشاغل المصلي بغير مناجاة الله ،فيخبر زيد بن أرقم رضي الله عنه أن المسلمين كانوا في بدء أمرهم يتكلمون في الصلاة بقدر حاجتهم إلى الكلام، فقد كان أحدهم يكلم صاحبه بجانبه في حاجته، وكان على مسمع من النبي صلى الله عليه وسلم، ولم ينكر عليهم.
ولما كان في الصلاة شغل بمناجاة الله عن الكلام مع المخلوقين، أمرهم الله تبارك وتعالى بالمحافظة على الصلاة وأمرهم بالسكوت ونهاهم عن الكلام، فأنزل الله تعالى: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصّلاةِ الوُسطى وَقُومُوا لله قَانِتِينَ}. فعرف الصحابة منها نهيهم عن الكلام في الصلاة فانتهوا، رضي الله عنهم.
606;ماز بندے اور رب کے مابین ایک تعلق کا نام ہے۔ چنانچہ یہ مناسب نہیں کہ نمازی اس حال میں اللہ کے ساتھ مناجات کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ ابتداے اسلام میں لوگ نماز میں حسب ضرورت بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ مثلا کوئی شخص اپنی ضرورت کے بارے میں اپنے پہلو میں موجود شخص سے بات کر لیا کرتا تھا اور نبی ﷺ یہ سب سن رہے ہوتے، لیکن اس سے منع نہ فرماتے۔
لیکن چوں کہ نماز حالت میں بندے کی اللہ سے ہم کلامی میں انہماک، اس لیے مخلوق سے ہم کلام ہونے کی گنجائش باقی نہیں رکھتی، اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ مسلمان نماز کو دوسری آلائشوں سے بچائیں، چپ رہیں اور بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ یہ آیت نازل فرمائی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”نمازوں کی حفاﻇت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“۔ چنانچہ صحابۂ کرام کو معلوم ہو گیا کہ انھیں نماز میں کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ اس لیے انھوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ رضی اللہ عنہم۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5204

 
 
Hadith   807   الحديث
الأهمية: جاء رجل والنبي -صلى الله عليه وسلم- يَخْطُبُ الناس يوم الجمعة، فقال: صليت يا فلان؟ قال: لا، قال: قم فاركع ركعتين


Tema:

نبی ﷺ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا:اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا:نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔

عن جابِر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: «جاء رجل والنبي -صلى الله عليه وسلم- يَخْطُبُ الناس يوم الجمعة، فقال: صليت يا فلان؟ قال: لا، قال: قم فاركع ركعتين، -وفي رواية: فصل ركعتين-».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا:نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ المسجد النبوي والنبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب الناس، فجلس ليسمع الخطبة، ولم يصل تحية المسجد؛ إما لجهله بحكمها، أو ظنه أن استماع الخطبة أهم، فما منع النبي -صلى الله عليه وسلم- تذكيره واشتغاله بالخطبة عن تعليمه، بل خاطبه بقوله: أصليت يا فلان في طرف المسجد قبل أن أراك؟ قال: لا، فقال: قم فاركع ركعتين، وفي رواية لمسلم أمره أن يتجوز فيهما أي: يخففهما، قال ذلك بمشهد عظيم؛ ليُعَلِّمَ الرجل في وقت الحاجة، وليكون التعليم عامًّا مشاعاً بين الحاضرين.
ومن دخل المسجد والخطيب يخطب المشروع له الصلاة، ويدل عليه هذا الحديث، وبحديث: "إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب، فليركع ركعتين".
ولذا قال النووي في شرح مسلم عند قوله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا جاء أحدكم والإمام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما" قال: هذا نص لا يتطرق إليه تأويل، ولا أظن عالما يبلغه هذا اللفظ ويعتقده صحيحا فيخالفه.
587;ُلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے جب کہ نبی ﷺ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھ گئے اور تحیۃ المسجد کی نماز نہ پڑھی؛ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس کے حکم سے واقف نہیں تھے یا پھر اس لئے کہ ان کے گمان میں خطبہ سننا زیادہ اہم تھا۔ نبیﷺ اگرچہ وعظ و نصیحت اور خطبہ دینے میں مصروف تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ انہیں تعلیم دینے سے نہ رکے بلکہ آپ ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے فلاں! کیا میرے دیکھنے سے پہلے تم نے مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ لی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ یہ دو رکعتیں ہلکی پڑھیں۔ آپ ﷺ نے ایک بڑے مجمع کے سامنے یہ کہا تھا تاکہ اس آدمی کو ضرورت کے وقت تعلیم دیں، اور تا کہ یہ تعلیم سب حاضرین کے لئے ہو جائے۔
لہذا جو شخص مسجد میں آئے اور خطیب خطبہ دے رہا ہو تو اس کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ تحیۃ المسجد کی نماز پڑھے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ: تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے۔
اسی لئے علامہ نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں آپ ﷺ کے اس فرمان:" تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت مختصرپڑھ لے۔" فرمایا کہ: یہ نص ہے جس میں تاویل کا کوئی راستہ نہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا عالم بھی ہو گا جس کے پاس یہ الفاظ پہنچیں اور وہ ان کوصحیح جانے اور پھر بھی ان کی مخالفت کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5205

 
 
Hadith   808   الحديث
الأهمية: صفة صلاة الخوف في غزوة ذات الرقاع


Tema:

غزوہ ذات الرقاع میں خوف کی نماز پڑھنے کا طریقہ

عن صالح بن خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ -رضي الله عنه- عمّن صلَّى مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلاة  ذَاتِ الرِّقَاعِ صلاةَ الخوف: أن طائفة صفَّت معه، وطائفة وِجَاهَ  الْعَدُوِّ، فصلَّى بالذين معه ركعة، ثم ثبت قائما، وأتموا لأنفسهم، ثم انصرفوا، فصفُّوا وِجَاهَ  الْعَدُوِّ، وجاءت الطائفة الأخرى، فصلَّى بهم الركعة التي بقيت، ثم ثبت جالسا، وأتموا لأنفسهم، ثم سلَّم بهم.

صالح بن خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ ایک ایسے صحابی سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے غزوۂ ذات الرقاع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی۔ (خوف کی نماز کا طریقہ یوں) نقل کرتے ہیں کہ (اس دن) ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ( نماز کے لیے) صف بندی کی اور دوسری جماعت دشمن کے مقابل صف آرا ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس جماعت کو جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی، ایک رکعت نماز پڑھائی اور پھر آپ ﷺ کھڑے رہے اور اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی (یعنی جماعت میں شامل لوگوں نےدوسری رکعت تنہا پڑھ لی) پھر اس کے بعد یہ جماعت (نماز سے فارغ ہو کر) واپس ہوئی اور دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی اور وہ جماعت جو دشمن کے مقابل صف آرا تھی (نماز کے لیے) آگئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دوسری رکعت، جو باقی رہ گئی تھی، اس جماعت کے ساتھ پڑھی اور (تشہد میں) بیٹھے رہے اور پھر اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی اور پھر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
غزا النبي -صلى الله عليه وسلم- غزوة مع أصحابه وأكثرهم مشاة على أقدامهم فتعبت من الحفاء فلفوا عليها الخرق، ولقي عدوه ولم يكن قتال لكن أخاف المسلمون أعداءهم، وفي هذا الحديث كان العدو في غير جهة القبلة، لأن منازلهم في شرق المدينة، فقسمهم طائفتين ولذا صفت طائفة، ووقفت الأخرى في وجه العدو الذي جعله المصلون خلفهم.
فصلى النبي -صلى الله عليه وسلم- ركعة بالذين معه، ثم قام بهم إلى الثانية فثبت فيهما قائماً، وأتموا لأنفسهم ركعة، ثم سلموا، وانصرفوا وِجَاهَ العدو. وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة الباقية، ثم ثبت جالساً وقاموا فأتموا لأنفسهم ركعة، ثم سلم بهم فاختصت الأولى بتحريم الصلاة وهو تكبيرة الاحرام مع الإمام، واختصت الثانية بتحليل الصلاة وهو السلام مع الإمام، وفوت الفرصة على الأعداء، فحصل التعادل بالحصول على الفضل مع الإمام .
606;بی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ایک غزوے میں تشریف لے گئے، جس میں اکثر صحابہ پیدل تھے۔ جب وہ پاؤں ننگے ہونے کی وجہ سے نڈھال ہو گئے، تو اپنے قدموں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لیے۔ نبی ﷺ کا دشمن کے ساتھ آمنا سامنا تو ہوا، لیکن قتال کی نوبت نہ آئی، تاہم مسلمانوں نے اپنے دشمنوں کو خوف زدہ ضرور کر دیا۔ اس حدیث کی رو سے دشمن قبلے کی سمت میں نہیں تھے، کیوںکہ ان کے گھر مدینے کے مشرقی جانب تھے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے۔ ایک گروہ نے نماز کے لیے صف بندی کر لی اور دوسرا گروہ نمازیوں کے پیچھے موجود دشمن کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
نبی ﷺ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ کھڑے رہے، جب کہ لوگوں نے خود ہی اپنی دوسری رکعت پوری کی اور سلام پھیر دیا اور دشمن کی جانب چلے گئے۔ پھر دوسرا گروہ آ گیا۔ آپ ﷺ نے انہیں باقی ماندہ ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ لوگوں نے کھڑے ہو کر خود ہی ایک اور رکعت پڑھ لی۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ پہلے گروہ کو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہنے کی خصوصیت حاصل ہوئی اور دوسرے کو نماز سے نکلنے یعنی امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی خصوصیت ملی۔ یوں آپ ﷺ نے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع نہ دیا اور اس کے ساتھ ساتھ امام کے ساتھ نماز کی فضیلت پانے میں بھی سب برابر کے شریک رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5206

 
 
Hadith   809   الحديث
الأهمية: صحبت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فكان لا يزيد في السَّفَر على ركعتين، وأبا بكر وعُمر وعُثْمان كذلك


Tema:

میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

عن عبد الله بن عُمر -رضي الله عنهما- قال: «صحبت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فكان لا يزيد في السَّفَر على ركعتين، وأبا بكر وعُمر وعُثْمان كذلك».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أنه صحب النبي -صلى الله عليه وسلم- في أسفاره، وكذلك صحب أبا بكر وعمر وعثمان -رضي الله عنهم- في أسفارهم، فكان كل منهم يقصر الصلاة الرباعية إلى ركعتين، ولا يزيد عليهما، أي لا يتم أحد منهم الفرائض، ولا يصلي الرواتب في السفر، وذكره لأبي بكر وعمر وعثمان للدلالة على أن الحكم غير منسوخ بل ثابت بعد وفاة النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا له معارض راجح.
ويجوز الإتمام في السفر، ولكن القصر أفضل؛ لقوله تعالى: {لَيْسَ عَليكُمْ جُنَاحٌ أن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ} فَنَفْيُ الجناح يفيد أنه رخصة، وليس عزيمة؛ ولأن الأصل الإتمام، والقصر إنما يكون من شيء أطول منه.
والأولى للمسافر أن لايدع القصر؛ اتباعاً للنبي -صلى الله عليه وسلم-، ولأن الله -تعالى- يحب أن تُؤتى رخصه، وخروجًا من خلاف من أوجبه؛ ولأنه الأفضل عند عامة العلماء.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ذکر کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے اسفار میں آپ کے ساتھ تھے، اسی طرح ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بھی ساتھ تھے، ان میں سے ہر ایک چار رکعت والی نماز کو مختصر کرکے دو رکعات پڑھتا تھا، اس سے زیادہ نہیں پڑھتا تھا یعنی ان میں سے کوئی بھی فرض نماز پوری نہیں پڑھتا تھا اور نہ ہی یہ سنن مؤکدہ پڑھتے تھے۔ حدیث میں ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی ثابت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی معارض موجود ہے جس کو ترجیح حاصل ہو۔
سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز ہے، تاہم قصر کرنا افضل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ﴿لَيْسَ عَليكُمْ جُنَاحٌ أن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ﴾ ” تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں“۔ جناح (گناہ) کی نفی کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں رخصت ہے عزیمت نہیں۔ دوسرے اس لیے کہ اصل اتمام ہے۔ اور قصر اس چیز میں ہوتا ہے جو اس سے زیادہ طویل ہو۔
اور مسافر کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے، اور اس لیے کہ اللہ تعالی اس کی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے اور جو قصر کو واجب کہتے ہیں ان کے اختلاف سے بچنے کے لیے قصر نماز نہ چھوڑے۔ تیسرے اس لیے بھی قصر نہ چھوڑے کہ اکثر علماء کے ہاں یہی افضل ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5207

 
 
Hadith   810   الحديث
الأهمية: عَقْرَى، حَلْقَى، أطافت يوم النَّحْرِ؟ قيل: نعم، قال: فَانْفِرِي


Tema:

تیرا ستیا ناس ہو! کیا تو نے یوم نحر کو طواف کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا :ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: پھر چلے چلو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «حَجَجْنَا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فَأَفَضْنَا يوم النَّحْرِ، فحاضت صَفِيَّةُ، فأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- منها ما يريد الرجل من أهله، فقلت: يا رسول الله، إنها حائض، قال: أَحَابِسَتُنَا هي؟ قالوا: يا رسول الله، إنها قد أفاضت يوم النَّحْرِ، قال: اخْرُجُوا». وفي لفظ: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «عَقْرَى، حَلْقَى، أطافت يوم النَّحْرِ؟ قيل: نعم، قال: فَانْفِرِي».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے جب رسول اللہ ﷺکے ساتھ حج کیا، تو یوم نحر کو طواف زیارت کیا، لیکن صفیہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہوگئیں۔ آں حضرت ﷺنے ان سے وہی چاہا جو شوہر اپنی بیوی سے چاہتا ہے، تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ! وہ حائضہ ہیں! آپ ﷺنے اس پر فرمایا کہ کیا یہ ہمیں روک دے گی؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! انھوں نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کر لیا تھا، تو آپ ﷺنے فرمایا: پھر چلے چلو۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس کا ستیاناس ہو!؟ کیا اس نے یوم نحر کو طواف کیا تھا؟ کہا گيا: ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا: چلے چلو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها-: أنهم حجوا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع.
فلما قضوا مناسكهم أفاضوا وطافوا بالبيت العتيق، ومعهم زوجه صَفيَّة -رضي الله عنها-.
فلما كان ليلة النَّفَر، حاضت "صَفيَّة" فجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- يريد منها ما يريد الرجل من أهله، فأخبرته عائشة أنها حاضت، فظن -صلى الله عليه وسلم- أنه أدركها الحيض من قبل فلم تطف طواف الإفاضة؛
لأن هذا الطواف ركن لا يتم الحج بدونه، فستمنعهم من الخروج من مكة حتى تطهر وتطوف، فقال تلك الكلمة المشهورة التي تقال على الألسن بدون إرادة معناها الأصلي: عَقْرَى حَلْقَى، قال -صلى الله عليه وسلم-: أحابستنا هي هنا حتى تنتهي حيضتها وتطوف لحجها؟ فأخبروه أنها قد طافت طواف الإفاضة قبل حيضها، فقال: فلتنفِر، إذ لم يبق عليها إلا طواف الوداع، وهي معذورة في تركه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ لوگوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا۔
انھوں نے مناسک حج پورے کر لیے اور بیت اللہ کا طواف کر لیا۔ اس وقت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی ساتھ تھیں۔
جب روانگی کا وقت آیا تو صفیہ رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس اس ارادے سے آئے جس ارادے سے آدمی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ انھیں حیض آ گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے سمجھا کہ ان کو طواف افاضہ سے پہلے ہی حیض آگیا تھا۔ چوں کہ طواف افاضہ حج کا ایک رکن ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، اس لیے وہ انھیں پاک ہوکر طواف سے فارغ ہونے تک روانگی سے روک لیں گی۔ اس لیے آپ نے وہ مشہور کلمہ کہا، جو عام طور سے زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے۔ فرمایا: عقری ،حلقی۔ (اس کا ستیاناس ہو)۔ (آگے) فرمایا: کیا وہ ہمیں یہاں اپنے ایام ختم ہونے اور حج کا طواف کرنے کی مدت تک روکنے والی ہے؟ چنانچہ جب آپﷺ کو یہ بتایا گیا کہ انھوں نے طواف افاضہ حیض آنے سے پہلے ہی کر لیا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا:پھر وہ چل پڑے؛ کیوں کہ اب اس پر صرف طواف وداع باقی رہ گیا ہے اور اس کو چھوڑنے پر وہ معذور ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5208

 
 
Hadith   811   الحديث
الأهمية: صَلَّيْت وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- على امرأة ماتت في نِفَاسِهَا فقام في وَسْطِهَا


Tema:

میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس انتقال کر گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔

عن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ -رضي الله عنه- قال: «صَلَّيْت وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- على امرأة ماتت في نِفَاسِهَا فقام في وَسْطِهَا».

سمره بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی، جو بحالت نفاس انتقال کر گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة على الميت حق واجب لكل من يموت من المسلمين: ذكَرٍ أو أنثى، صغير أو كبير، فيخبر سمرة بن جندب -رضي الله عنه- أنه صلى وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- حينما صلى على امرأة ماتت في نفاسها، فقام -صلى الله عليه وسلم- بمحاذاة وسطها.
605;یت پر نماز جنازہ پڑھنا مسلمانوں میں سے ہر مرنے والے کا لازمی حق ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی، جو حالت نفاس میں فوت ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5209

 
 
Hadith   812   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى على قبر بعد ما دُفِنَ, فَكَبَّرَ عليه أَرْبَعاً


Tema:

نبی اکرم ﷺ نے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعد اس میت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس میں چار تکبیریں کہیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما-: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى على قبر بعدَ ما دُفِنَ, فَكَبَّرَ عليه أَرْبَعاً».

عبد الله بن عباس رضي الله عنهما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعد اس میت کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس میں چار تکبیریں کہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قد جُبلَ النبي -صلى الله عليه وسلم- على محاسن الأخلاق، ومن ذلك ما اتصف به من الرحمة والرأفة، فما يَفْقِدُ أحداً من أصحابه حتى يسأل عنه، ويتفقد أحواله.
فقد سأل عن صاحب هذا القبر، فأخبروه بوفاته، فأحب أنهم أخبروه ليصلي عليه، فإن صلاته سكنٌ للميت، ونور يزيل الظلمة التي هو فيها، فصلى على قبره كما يصلى على الميت الحاضر.
صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- على القبر لا يفهم منها صعوده على القبر, وإنما المعنى الوقوف بجانبه واستقباله والصلاة عليه صلاة الجنازة.
606;بی ﷺ کی فطرت میں محاسن اخلاق ودیعت کردیے گیے اور انھیں اوصاف میں سے رحمت اور نرم دلی ہے، اگر آپ ﷺ اپنے کسی صحابی کو نہ پاتے تو ان کے بارے میں ضرور دریافت فرماتے اور ان کے احوال کی خیرخبر لیتے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے صاحبِ قبر کے تئیں دریافت کیا تو صحابہ کرام نے آپ کو ان کی وفات کی خبردی اور آپ کی خواہش تھی کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو خبر دی ہوتی تو ان کی نماز جنازہ پڑھاتے کیوں کہ آپ ﷺ کی نماز میت کے لیے سکون کا باعث ہوتی ہے اور اس سے اُس کو ایسی روشنی میسر آتی ہے جو قبر کی تاریکی کا خاتمہ کردیتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی جس طرح کسی موجود میت کی نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔
نبی ﷺ کی جانب سے قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے سے یہ مفہوم مستنبط نہ کیا جائے کہ آپ نے قبر کے اوپر چڑھ کر نماز ادا فرمائی، بلکہ اس کا یہ معنی ہے کہ آپ نے عام نمازِ جنازہ کی طرح اس قبر کے ایک کنارے کھڑے ہوکر، اس کی طرف رُخ کرکے ان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5210

 
 
Hadith   813   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يكثر أن يقول في ركوعه وسجوده: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي


Tema:

رسول اللہ ﷺ کثرت سے اپنے رکو ع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي.

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ما صلّى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعد أن نَزَلت عليه: (إذا جاء نصرُ الله والفتح..) إلا يقول فيها: «سُبْحَانَكَ اللهم ربَّنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغفر لي».
وفي لفظ: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يكثر أن يقولَ في ركوعه وسجوده: «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ﴾ کے نازل ہونے کے بعد کوئی ایسی نماز نہیں پڑھی، جس میں آپ یہ نہ پڑھتے ہوں: ”سُبْحَانَكَ اللهم ربَّنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغفر لي“ پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔
ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کثرت سے اپنے رکو ع وسجود میں یہ دعا پڑھتے تھے: ”سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي“ پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها- في هذا الحديث أن الله -تعالى- عندما أنزل على النبي -صلى الله عليه وسلم- سورة النصر, ورأى هذه العلامة وهي النصر, وفتح مكة, بادر -صلى الله عليه وسلم- إلى امتثال أمر الله -تعالى- في قوله في سورة النصر: (فسبح بحمد ربك واستغفره)، فكان كثيرًا ما يقول: (سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي), وهذه الكلمات جمعت تنزيه الله -تعالى- عن النقائص، مع ذكر محامده, وختمت بطلب المغفرة منه سبحانه، وما صلى صلاة فريضة كانت أو نافلة إلا قال ذلك في ركوعها وسجودها, وكانت هذه السورة علامة على قرب أجل النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث میں بیان فرما رہی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر سورۃ النصر نازل فرمائی اور آپ نے اس علامت یعنی نصرت اور فتح مکہ کو دیکھ لیا، تو فورا اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ﴾ ” آپ اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ جائیے حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگیے“ کی تعمیل میں لگ گئے۔ چنانچہ آپ کثرت سے یہ ذکر ((سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي)) پڑھتے تھے۔ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی تمام نقائص سے پاکی، اس کی حمد وثنا کا تذکرہ اور اخیر میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی طلب جیسی چیزوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ آپ اپنی ہر فرض اور نفل نماز کے رکوع و سجود میں یہ تسبیح پڑھتے تھے۔ یہ سورت رسول اللہ ﷺ کی وفات کے قریب ہونے کی علامت بھی تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5212

 
 
Hadith   814   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث رجلا على سَرِيَّةٍ فكان يقرأ لأصحابه في صلاتهم، فَيَخْتِمُ بـ: (قل هو الله أحد)


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں (قراءت کا) اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پر کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث رجلا على سَرِيَّةٍ فكان يَقْرَأ لأصحابه في صلاتهم، فَيَخْتِمُ بـ«قل هو الله أحد» فلما رجعوا ذكروا ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: سَلُوهُ لأَيِّ شيء صَنَع ذلك؟ فسألُوه، فقال: لِأنَّها صِفَةُ الرحمن -عز وجل-، فأنا أُحِب أَنْ أَقْرَأ بها، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أَخْبِرُوه: أنَّ الله -تعالى- يُحِبُّه».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں (قراءت کا) اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟“۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ رحمن عزوجل کی صفت ہے، اس لیے میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ اسے بتا دو کہ اللہ عزوجل بھی اسے پسند کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمَّرَ النبي -صلى الله عليه وسلم- بعض أصحابه على سَرِيَّة؛ لتدبيرهم والحكم بينهم، وحتى لا تكون الأمور فوضى، ويختار أقومهم دينًا وعلمًا وتدبيرًا، ولذا كان الأمراء هم الأئمة في الصلاة والمفتون؛ لفضل علمهم ودينهم، فكان يقرأ "قل هو الله أحد" في الركعة الثانية من كل صلاة؛ لمحبته لله وأسمائه وصفاته، ومن أحب شيئاً أكثر من ذكره.
فلمَّا رجعوا من غزوتهم إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، ذكروا له ذلك، فقال: سلُوه لأيِّ شيء يصنع ذلك، أهو لمحض المصادفة أم لشيء من الدواعي؟
فقال الأمير: صنعت ذلك لاشتمالها على صفة الرحمن -عز وجل-، فأنا أحب تكريرها لذلك.
فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أخبروه، أنه كما كرر هذه السورة لمحبته لها؛ وهذا لما تضمنته من صفات الله العظيمة التي دلت عليها أسماؤه المذكورة فيها: فإن الله يحبه.
570;پ ﷺ نے کسی صحابی کو ایک سریہ کا امیر بنایا، تاکہ وہ (سریہ میں شامل) لوگوں کے انتظامی امور سنبھالیں، (اختلاف کی صورت میں) ان کے درمیان فیصلہ کریں اور کسی طرح کی کوئ بد نظمی نہ پیدا ہو۔ آپ ﷺ امیر اسی کو بناتے، جو لوگوں میں دین، علم اور کارکردگی کے اعتبار سے سب سے مناسب ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جنگوں میں امیر ہی نماز کے امام ہوتے تھے اور اپنی علمی اور دینی برتری کی وجہ سے فتوے بھی وہی دیتے۔ چانچہ (مذکورہ) امیر اللہ تعالیٰ اور اس کے اسما و صفات سے محبت کی وجہ سے ہر نماز کی دوسری رکعت میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پڑھتے تھے، اس لیے کہ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے، وہ اس کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔
یہ لوگ جب غزوے سے واپس اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ یہ محض اتفاق تھا یا اس کی کوئ وجہ تھی؟
امیر نے کہا کہ میں اس لیے ایسا کرتا تھا کہ یہ سورت رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے، اس لیے میں اسے بار بار پڑھنا پسند کرتا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اسے بتادو کہ جس طرح وہ اس سورت سے محبت کی وجہ سے اسےبار بار پڑھتا تھا، کیوں کہ یہ سورت اللہ کی عظیم صفات پر مشتمل ہے، جن پراس میں مذکور اسما دلالت کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5213

 
 
Hadith   815   الحديث
الأهمية: أن الشمس خَسَفَتْ على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُناديا ينادي: الصلاة جامعة، فاجتمعوا، وتقدم، فكبر وصلى أربع ركعات في ركعتين، وأربع سجدات


Tema:

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، لوگ جمع ہو گیے اور آپ ﷺ آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ ﷺ نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أن الشمس خَسَفَتْ على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُناديا ينادي: الصلاة جامعة، فاجْتَمَعوا، وتقَدَّم، فكَبَّر وصلَّى أربعَ ركعات في ركعتين، وأربعَ سجَدَات».

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، لوگ جمع ہو گیے اور آپ ﷺ آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ ﷺ نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خسفت الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُنادياً في الشوارع والأسواق ينادى الناس (الصلاة جامعة) ليصلوا ويدعو الله -تبارك وتعالى- أن يغفر لهم ويرحمهم وأن يديم عليهم نعمه الظاهرة والباطنة.
واجتمعوا في مسجده -صلى الله عليه وسلم- وتقدم إلى مكانه حيث يصلي بهم، فصلى بهم صلاة لا نظير لها فيما اعتاده الناس من صلاتهم؛ لآية كونية خرجت عن العادة، فهي بلا إقامة، فكبر وصلى ركعتين في سجدتين، وركعتين في سجدتين يعني في كل ركعة ركوعان وسجودان.
585;سول ﷺ کے دور میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا جو سڑکوں اور بازاروں میں ’الصَّلاةُ جَامِعَةٌ‘ (نماز ہونے جارہی ہے) کی لوگوں میں منادی کرے، تاکہ وہ انھیں نماز پڑھائیں، اور ان کے لیے اللہ تبارک وتعالی سے دعا کریں کہ وہ انھیں بخش دے، ان پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے اور ان پر اپنی ظاہری وباطنی نعمتوں کو سدا بہار کردے۔
وہ سب مسجد نبوی میں جمع ہوئے، اور اپنی جگہ کی طرف بڑھے جہاں سے نماز پڑھایا کرتے تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے انھیں ایک ایسی نماز پڑھائی جو ان کی ان نمازوں سے بالکل مختلف تھی جس کے وہ عادی تھے، جو خارج از معتاد کائنات کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی؛ اس نماز کے لیے اقامت نہیں کہی جائے گی، آپ ﷺ نے تکبیر کہی اور دو سجدوں میں دو رکوع کیا، اور (پھر دوسری رکعت کے لیے بھی) دو سجدوں میں دو رکوع کیا، یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع اور دو دو سجدے کیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5214

 
 
Hadith   816   الحديث
الأهمية: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينْخَسِفَانِ لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فَادْعُوا اللَّه وكَبِّرُوا وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا


Tema:

سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: « خَسَفَتِ الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فصَلَّى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالناس. فأطال القيام، ثم ركع، فأطال الركوع، ثم قام، فأطال القيام -وهو دون القيام الأول- ثم ركع، فأطال الركوع -وهو دون الركوع الأول- ثم رفع فأطال القيام -وهو دون القيام الأول- ثم سجد، فأطال السجود، ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ما فَعَل في الرَّكعة الأولى، ثم انصرف، وقد  تَجَلَّتْ الشمس، فخَطَب الناس، فحَمِد الله وأَثْنَى عليه، ثُمَّ قال: إِنَّ الشَّمس والقمَر آيَتَان مِن آيات الله، لا  ينْخَسِفَانِ لموت أحد ولا لِحَيَاته، فَإِذا رَأَيتُم ذلك فَادْعُوا اللَّه وكَبِّرُوا , وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا.   ثم قال: يا أُمَّة مُحمَّد، واللهِ ما من أحد أغْيَرُ من الله أن يَزْنِيَ عبده أو تَزْنِيَ أَمَتُهُ. يا أُمَّةَ محمد، والله لو تعلمون ما أعلم لَضَحِكْتُمْ قليلا ولَبَكَيْتم كثيرا». وفي لفظ: «فاسْتَكَمَل أَرْبَع رَكَعَاتٍ وَأَرْبَع سَجَدَاتٍ».

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک قیام فرمایا، پھر رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر قیام فرمایا اور بہت لمبا قیام کیا، البتہ یہ آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا، تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، البتہ یہ پہلے رکوع سے کچھ کم تھا، رکوع سے اٹھے اور قیام فرمایا جو کہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلی رکعت میں کیا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے، تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
پھر آپ ﷺنے فرمایا: اے امت محمد(ﷺ)! دیکھو، اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ اے امت محمد(ﷺ)! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تمھیں بھی معلوم ہوجائے، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے (دو رکعات میں) پورے چار رکوع اور چار سجدے کیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خَسَفَتِ الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولما كان الخسوف أمرًا غير معهود صلى بهم صلاة غير معهودة في هيئتها ومقدارها، فقام فصلى بالناس فأطال القيام الذي بعد تكبيرة الإحرام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فقرأ قراءة طويلة دون القراءة الأولى، ثم ركع فأطال الركوع، وهو أخف من الركوع الأول ثم رفع من الركوع وسمع وحمد ولم يقرأ، ثم سجد وأطال السجود، ثم فعل في الركعة الثانية مثل الأولى في هيئتها وإن كانت دونها ، فكل ركن أقل من الركن الذي قبله، حتى استكمل أربع ركوعات وأربع سجدات، في ركعتين، ثم انصرف من الصلاة، وقد انْجَلت الشمس، فخطب الناس كعادته في المناسبات، فحمد الله وأثنى عليه ووعظهم، وحدث أن صادف ذلك اليوم الذي حصل فيه الخسوف موت ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- فقال بعضهم: كَسَفت لموت إبراهيم، جرياً على عادتهم في الجاهلية من أنها لا تكسف إلا لموت عظيم أو لولادة عظيم، وأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- من نصحه وإخلاصه في أداء رسالته، ونفع الخلق أن يزيل ما علق بأذهانهم من هذه الخرافات، التي لا تستند لا إلى نقل صحيح، ولا عقل سليم، ويبين الحكمة من خسوف الشمس والقمر فقال في خطبته: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته، وإنَّما يجريهما الله -تعالى- بقدرته لِيُخَوِّفَ بهما عباده، ويُذَكِّرَهم نِعَمَه.
فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى الله -تعالى- تائبين منيبين، وادْعُواَ وَكَبِّرُوا, وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا؛ لما في ذلك من دفع البلاء المتوقع ورفع العقوبة النازلة.
ثم أخذ -صلى الله عليه وسلم- يُفَصِّل لهم شيئاً من معاصي الله الكبار كالزنا التي تُوجِب فساد المجتمعات والأخلاق، والتي توجب غضبه وعقابه، ويقسم في هذه الموعظة -وهو الصادق المصدوق- قائلا: يا أمة محمد، والله، ما من أحد أغير من الله سبحانه أن يزني عبده، أو تزني أمته، ثم بيَّن أنَّهم لا يعلمون عن عذاب الله إلا قليلاً، ولو علموا ما علمه صلى الله عليه وسلم لأخذهم الخوف ولضَحِكوا سروراً قليلا، ولبكوا واغتموا كثيراً، لكن الله بحكمته حجب عنهم ذلك.
585;سول اللہ ﷺ کے دور میں (ایک بار) سورج گرہن لگا۔ چوں کہ سورج گرہن خلاف معمول واقعہ تھا، اس لیے آپﷺ نے اپنے صحابہ کو ایسی نماز پڑھائی جو اپنی ہیئت اور مقدار کے اعتبار سے عام نمازوں سے جدا تھی۔ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تکبیر تحریمہ کے آپ نے لمبا قیام فرمایا، پھر رکوع کیا، تو رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر رکوع سے اٹھے اور لمبی قراءت کی، لیکن پہلی قراءت سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، لیکن پہلے رکوع سے کچھ كم، پھر رکوع سے سر اٹھایا سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا، اس کے علاوہ کوئی قراءت نہیں فرمائی، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے پہلی رکعت کی طرح سب کچھ کیا، البتہ یہ اس سے کچھ ہلکی تھی۔ چنانچہ ہر رکن، ماقبل رکن سے ہلکا تھا۔ دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعد آپ نے حسب معمول خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد انھیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ اتفاقا سورج گرہن کے دن ہی آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ چنانچہ زمانۂ جاہلیت کے اس عقیدے کی بنیاد پر کہ سورج کو گرہن کسی عظیم شخصیت کی موت یا پیدائش کی بنا پر ہی لگتا ہے، کسی نے یہ کہہ دیا کہ آج سورج کو گرہن آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ک وجہ سے لگا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حق رسالت کی ادائیگی اور لوگوں کو نفع یاب کرنے کے تئیں اپنے سچے اخلاص کی بنیاد پر یہ مناسب سمجھا کہ ان کے ذہنوں سے ان خرافات کو زائل فرما دیں، جو نہ قرآن و سنت سے ثابت ہیں، نہ عقل سلیم کے معیار پر اترتے ہیں۔ نیز سورج اور چاند گرہن کی حکمت بھی بیان کر دیں۔ چنانچہ خطبے کے دوران آپ نے فرمایا: سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان کوگرہن نہیں لگتا۔ انھیں اس کیفیت سے دوچار اللہ تعالی کرتا ہے؛ تاکہ اپنے بندوں کو تنبیہ کرے اور اپنی نعمت کی یاد دہانی کرائے۔ اس لیے جب تم گرہن لگتے ہوئے دیکھو تو اللہ کے سامنے گڑگڑاؤ، توبہ اور رجوع کرو، اس سے دعا مانگو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو؛ کیوں کہ اس سے آنے والی آزمائشیں ٹل جاتی ہیں اور نازل ہونے والے عذاب تھم جاتے ہیں۔
پھر آپﷺ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی پھر آپﷺ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی نافرمانیوں کا ذکر کرنے لگے۔ جیسے زنا، جو معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا باعث ہے۔ پھر صادق مصدوق ﷺنے اس وعظ میں قسم کھاکر فرمایا: اے امت محمد! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ پھر بتایا کہ ان کے پاس اللہ کے عذاب کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ اگر انھیں وہ سب کچھ معلوم ہو جائے جو آپ ﷺ کو معلوم ہے، تو ان پر خوف طاری ہو جائے۔ وہ ہنسنا کم کر دیں اور زیادہ سے زیادہ رو   ‎‎   ئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے پیش نظر اسے لوگوں سے چھپارکھا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5215

 
 
Hadith   817   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَفْتِحُ الصلاة بالتكبير، والقراءة بـ الحمد لله رب العالمين، وكان إذا ركع لم يُشْخِصْ رأسه ولم يُصَوِّبْهُ ولكن بين ذلك


Tema:

رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کا آغاز ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے قراءت شروع کر تے تھے اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَفْتِحُ الصلاةَ بالتكبير، والقراءةَ بـ«الحمد لله رب العالمين» وكان إذا ركع لم يُشْخِصْ رأسه ولم يُصَوِّبْهُ ولكن بَيْن ذلك، وكان إذا رفَع رأسَه مِن الرُّكوع لم يَسْجُدْ حتى يَسْتَوِيَ قائِما، وكان إذا رفع رأسه من السَّجْدَة لم يَسْجُدْ حتى يَسْتَوِيَ قاعدا، وكان يقول في كلِّ رَكعَتَين التَّحِيَّة، وكان يَفْرِشُ رِجْلَهُ اليُسْرى ويَنْصِبُ رِجْلَهُ اليُمْنى، وكان يَنْهَى عن عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ، ويَنْهَى أن يفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افتِرَاش السَّبُعِ ، وكان يَخْتِمُ الصلاة بالتَّسلِيم».

عائشہ رضي الله عنها کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کا آغاز ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے قراءت شروع کر تے تھے اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد ’’التحيات‘‘ پڑھتے اور جب بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھاتے اور داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے منع کرتے نیز نماز سلام سے ختم کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تصف عائشة -رضي اللَه عنها- بهذا الحديث الجليل صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- نشرا للسنة وتبليغا للعلم، بأنه كان يفتتح الصلاة بتكبيرة الإحرام، فيقول: (الله أكبر).
ويفتتح القراءة بفاتحة الكتاب، التي أولها (الحمد لله رب العالمين).
وكان إذا ركع بعد القيام، لم يرفع رأسه ولم يخفضه، وإنما يجعله مستوياً مستقيماً.
وكان إذا رفع من الركوع انتصب واقفاً قبل أن يسجد.
وكان إذا رفع رأسه من السجدة، لم يسجد حتى يستوي قاعداً.
وكان يقول بعد كل ركعتين إذا جلس: "التحيات لله والصلوات والطيبات.. الخ".
وكان إذا جلس افترش رجله اليسرى وجلس عليها، ونصب رجله اليمنى.
وكان ينهى أن يجلس المصلي في صلاته كجلوس الشيطان، وذلك بأن يفرش قدميه على الأرض، ويجلس على عقبيه، أو ينصب قدميه، ثم يضع أليتيه بينهما على الأرض، كلاهما منهي عنه، كما ينهى أن يفترش المصلي ذراعيه ويبسطهما في السجود كافتراش السبع، وكما افتتح الصلاة بتعظيم الله وتكبيره، ختمها بطلب السلام للحاضرين من الملائكة والمصلين ثم على جميع عباد اللَه الصالحين، والأولين والآخرين، فعلى المصلي استحضار هذا العموم في دعائه.
593;ائشہ رضی الله عنها اس مبارک حدیث کے ذکرسے نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کر رہی ہیں- سنت کی نشروا شاعت اور علم کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے مقصد سے بایں طور کہ آپ ﷺ اپنی نماز کا آغاز تکبیر تحریمہ یعنی ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔
اور قراءت کی ابتداء فاتحۃُ الکتاب کے ذریعہ جس کی پہلی آیت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ہے۔
اور آپ ﷺ جب قیام کے بعد رکوع میں جاتے تو اپنا سر نہ بہت زیادہ اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ اسے درمیان میں رکھتے۔
اورجب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ کرنے سے پہلے سیدھے کھڑے ہوجاتے۔
اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوبارہ سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاتے۔
اور ہر دو رکعت کے بعد جب بیٹھتے ” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ...“ آخر تک پڑھتے۔
اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اس پر بیٹھتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے۔
آپ ﷺ اس بات سے منع کرتے کہ نمازی اپنی نماز میں کُتے کے بیٹھنے کی طرح بیٹھے بایں طورکہ اپنے دونوں قدموں کو زمین پر بچھادے اور ایڑیوں پر بیٹھ جائے یا دونوں قدموں کو گاڑ کر ایڑیوں پر سرین ركھ کر زمین پر بیٹھ جائے یہ دونوں ہی صورتیں ممنوع ہیں، اسی طرح آپ ﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ نمازی نماز میں اپنے دونوں بازوں کو بچھائے اور ان دونوں کو سجدے کی حالت میں پھیلائے درندوں کے ہاتھ بچھانے کی طرح۔
اور آپ ﷺ جس طرح نماز کا آغاز اللہ کی بڑائی اور کبریائی سے شروع کرتے تھے اسی طرح وہاں پر موجود فرشتے مصلیوں اور دیگر بندگانِ رب پر سلام سے اپنی نماز ختم کرتے اس لیے نمازی کے لیے ضروری ہے کہ اپنی دعا میں اس عموم کو حاضر رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5216

 
 
Hadith   818   الحديث
الأهمية: كنت أنام بين يَدَيْ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ورِجْلايَ فِي قِبْلَتِهِ، فإذا سجد غَمَزَنِي، فقبضت رِجْلَيَّ، فإذا قام بَسَطْتُهُمَا، والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے تھے۔ آپ ﷺ جب سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو میں پاؤں پھلا لیتی اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كنت أنام بين يَدَيْ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ورِجْلايَ فِي قِبْلَتِهِ، فإذا سجد غَمَزَنِي، فقَبَضتُ رِجْلَيَّ، فإذا قام بَسَطْتُهُمَا، والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے۔ آپ ﷺ جب سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دباتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو میں پاؤں پھلا لیتی اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت عائشة -رضي الله عنها- تقول: كنت أنام بين يدي النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يصلِّي في الليل، ولضيق بيوتنا، تكون رِجْلاي في قِبْلته بينه وبين موضع سجوده، فما دام واقفاً يتهجد بسطتهما، فإذا سجد، غَمَزني فَقبضتهما ليسجد.
ولو كنت أراه إذا سجد لقبضتهما بلا غمز منه، ولكن ليس في بيوتنا مصابيح ترى فيها النبي -صلى الله عليه وسلم-، فتكف رجليها من غير أن تحوجه إلى غمزها.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سو جاتی اور آپ ﷺ تہجد کی نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ہمارے گھروں کے تنگ ہونے کی وجہ سے میرے پاؤں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے سجدے کے جگہ کے مابین آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے تھے۔ جب تک آپ ﷺ نماز تہجد میں کھڑے رہتے میں پاؤں کو پھیلائے رکھتی اور جب آپ ﷺ سجدہ فرماتے تو مجھے دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی تاکہ آپ ﷺ سجدہ کر سکیں۔
اگر میں آپ ﷺ کو دیکھ سکتی کہ آپ ﷺ سجدہ کرنے والے ہیں تو بلا دبائے ہی میں پاؤں کو سمیٹ لیتی لیکن ہمارے گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے کہ جن کی روشنی میں وہ نبی ﷺ کو دیکھ کر اپنے پاؤں کو سمیٹ لیتیں بغیر اس کے کہ آپ ﷺ کو انہیں دبانے کی ضرورت پڑتی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5217

 
 
Hadith   819   الحديث
الأهمية: من كلِّ الليل أَوْتَرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، من أول الليل، وأوسطه، وآخره، وانتهى وِتْرُهُ إلى السَّحَرِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں نمازِ وتر پڑھی ہے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی اور آپ ﷺ کی وتر سحر تک ختم ہوجاتی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «من كلِّ الليل أَوْتَرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: من أول الليل، وأوسطه، وآخره، وانتهى وِتْرُهُ إلى السَّحَرِ».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں نمازِ وتر پڑھی ہے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی اور آپ ﷺ کی وتر سحر تک ختم ہوجاتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها- عن الوقت الذي كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلي الوتر فيه من الليل، وأنه لا يتقيد بساعة دون أخرى، ففي كل ساعات الليل كان يوتر، أحيانا من أوله حين يصلي العشاء وما شاء الله بعدها، وأحيانا من أوسطه بعد مُضِي ثلثه الأول، وأحيانا من آخره حين يمضي ثلثاه حتى تكون آخر ساعة من الليل.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا وتر پڑھنے کے حوالے سے رسول اللہﷺ کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ آپ رات کو وتر کس وقت پڑھتے تھے۔ وتر پڑھنے میں آپ ﷺ نے کوئی وقت خاص نہیں مقرر کیا تھا بلکہ رات کے پورے حصہ میں وتر پڑھتے تھے۔ کبھی رات کے شروع میں عشاء کی نماز کے بعد اور کبھی اس وقت کے جب اللہ تعالی چاہتا، اور کبھی رات کے درمیانی حصے میں جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر چکا ہوتا اور کبھی رات کے آخری حصہ میں پڑھتے جب رات دو تہائی گزر چکی ہوتی حتیٰ کہ رات کے بالکل آخری حصے تک چلے جاتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5218

 
 
Hadith   820   الحديث
الأهمية: شكا أهل الكوفة سعدًا يعني: ابن أبي وقاص -رضي الله عنه- إلى عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- فعزله، واستعمل عليهم عمارًا


Tema:

اہل کوفہ نے سعد یعنی ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شکایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا۔

عن جابر بن سمرة -رضي الله عنهما- قال: شكا أهل الكوفة سعدًا يعني: ابن أبي وقاص -رضي الله عنه- إلى عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- فعزله، واستعمل عليهم عمارًا، فشَكَوا حتى ذكروا أنه لا يُحسن يصلي، فأرسل إليه، فقال: يا أبا إسحاق، إن هؤلاء يزعمون أنك لا تُحسن تصلي، فقال: أمَّا أنا والله فإني كنت أصلي بهم صلاة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لا أَخْرِمُ عنها، أصلي صلاتَي العشاء فأَرْكُدُ في الأُولَيَيْنِ، وأُخِفُّ في الأُخْرَيَيْنِ. قال: ذلك الظن بك يا أبا إسحاق، وأرسل معه رجلًا -أو رجالًا- إلى الكوفة يسأل عنه أهل الكوفة، فلم يَدَعْ مسجدًا إلا سأل عنه، ويُثْنُونَ معروفًا، حتى دخل مسجدًا لبني عَبْسٍ، فقام رجل منهم، يقال له أسامة بن قتادة، يكنى أبا سَعْدَةَ، فقال: أما إذ نشدتنا فإن سعدًا كان لا يسير بالسَّرية ولا يَقْسِم بالسَّوية، ولا يَعْدِل في القضية. قال سعد: أما والله لأدعون بثلاث: اللهم إن كان عبدك هذا كاذبًا، قام رِياء، وسُمعة، فأطل عمره، وأطل فقره، وعرضه للفتن. وكان بعد ذلك إذا سئل يقول: شيخ كبير مفتون، أصابتني دعوة سعد. قال عبد الملك بن عمير الراوي عن جابر بن سمرة: فأنا رأيته بعد قد سقط حاجباه على عينيه من الكبر، وإنه ليتعرض للجواري في الطرق فيَغْمِزُهُنَّ.

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اہل کوفہ نے سعد یعنی ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شکایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنادیا؛ کوفہ والوں نے سعد رضی اللہ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں تو اچھی طرح نماز پڑھانا بھی نہیں آتا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا اور ان سے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تمھیں اچھی طرح نماز پڑھانا بھی نہیں آتا۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انھیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھااور اس میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ عشا کی نماز پڑھاتا، تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو آپ سے یہی امید تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کچھ آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی؛ لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے، تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابو سعدہ تھی، کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے، تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مالِ غنیمت کی تقسیم صحیح طریقے سے کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمھاری اس بات پر) تین بد دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے، تو اس کی عمر دراز کر اور اسے بہت زیادہ محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا، تو کہتا کہ آزمائش میں مبتلا ایک بوڑھا ہوں۔ مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے۔ راوی عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ جابر بن سمرہ نے بیان کیا: میں نے اسے دیکھا؛ اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں، لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمَّر عمرُ بن الخطاب رضي الله عنه سعدَ بن أبي وقاص رضي الله عنه على الكوفة، فشكاه أهل الكوفة إلى أمير المؤمنين عمر، حتى قالوا إنه لا يحسن أن يصلي، وهو صحابي جليل شهد له النبي صلى الله عليه وسلم بالجنة، فأرسل إليه عمر، فحضر وقال له: إن أهل الكوفة شكوك حتى قالوا: إنك لا تحسن تصلي، فأخبره سعد رضي الله عنه أنه كان يصلي بهم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر صلاة العشاء وكأنها - والله أعلم - هي التي وقع تعيينها من هؤلاء الشكاة، فقال: إني لأصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا أنقص منها، فكنت أطول في العشاء بالأوليين وأقصر في الأخريين، فقال له عمر رضي الله عنه: ذلك الظن بك يا أبا إسحاق، فزكاه عمر؛ لأن هذا هو الظن به، أنه يحسن الصلاة وأنه يصلي بقومه الذين أمر عليهم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ولكن مع ذلك تحرى ذلك عمر رضي الله عنه؛ لأنه يتحمل المسئولية ويعرف قدر المسئولية، أرسل رجالًا إلى أهل الكوفة، يسألونهم عن سعد وعن سيرته، فكان هؤلاء الرجال، لا يدخلون مسجدًا ويسألون عن سعد إلا أثنوا عليه معروفًا.
حتى أتى هؤلاء الرجال إلى مسجد بني عبس، فسألوهم، فقام رجل فقال: أما إذ ناشدتمونا، فإن هذا الرجل لا يخرج في الجهاد، ولا يقسم بالسوية إذا غنم، ولا يعدل في القضية إذا حكم بين الناس، فاتهمه هذه التهم، فهي تهم ثلاث، فقال سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه: أمَا إن قلت كذا فلأدعون عليك بثلاث دعوات، دعا عليه أن يطيل الله تعالى عمره وفقره ويعرضه للفتن، نسأل الله العافية، ثلاث دعوات عظيمة، لكنه رضي الله عنه استثنى، قال: إن كان عبدك هذا قام رياء وسمعة يعني لا بحق، فأجاب الله دعاءه، فعمر هذا الرجل طويلًا وشاخ حتى إن حاجبيه سقطت على عينيه من الكبر، وكان فقيرًا وعرض للفتن، حتى وهو في هذه الحال وهو كبير إلى هذا الحد كان يتعرض للجواري، يتعرض لهن في الأسواق ليغمزهن والعياذ بالله، وكان يقول عن نفسه شيخ مفتون كبير أصابتني دعوة سعد.
593;مربن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو اہل کوفہ نے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شکایت کی۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ وہ تو اچھی طرح سے نماز بھی نہیں پڑھاتے۔ سعد رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے، جنھیں نبی ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی؛ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اہلِ کوفہ نے آپ کی شکایت کی ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح سے نماز بھی نہیں پڑھاتے! سعد رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ نبی ﷺ کی نماز کی طرح نماز پڑھایا کرتے تھے اور عشا کی نماز کا ذکر کیا۔ شاید شکایت کرنے والوں کو اسی نماز کے متعلق شکایت تھی۔ انہوں نے کہا: میں تو انھیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ عشا کی نماز پڑھاتا، تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور بعد کی دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:اے ابو اسحاق! مجھ کو آپ سے یہی امید تھی۔ گویا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا تزکیہ کیا؛ کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ نماز اچھی طرح ادا کرتے ہوں گے اور قوم کو اسی طرح نماز پڑھاتے ہوں گے، جس طرح نبی ﷺ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح کی کارروائی کی؛ کیوں کہ وہ ذمے داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے اور ذمے داری کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ آپ نے کچھ آدمیوں کو کوفہ والوں کے پاس بھیجا؛ تاکہ وہ اہل کوفہ سے سعد رضی اللہ عنہ اور ان کی سیرت کے متعلق معلومات حاصل کریں۔ ان لوگوں نے ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے ان کی تعریف کی؛ لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے اور ان سے پوچھا، تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے، تو (سنیے کہ) یہ شخص نہ جہاد میں نکلتا ہے، نہ صحیح طور پر مالِ غنیمت تقسیم کرتا ہے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتا ہے۔ اس نے سعد رضی اللہ عنہ پر تین تہمتیں لگائیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ جب تم نے ایسا کہا ہے، تو اللہ کی قسم! میں (تمھاری اس بات پر) تین بد دعائیں کرتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے بد دعا کی کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے ، بہت زیادہ محتاج بنائے اور فتنوں میں مبتلا کردے! العیاذ باللہ۔ یہ تین بڑی بد دعائیں تھیں۔ لیکن سعد رضی اللہ عنہ نے استثنا کا طریقہ اپنایا اور فرمایا: "اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے"۔ یعنی نا حق تہمت لگائی ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور اس آدمی کو لمبی عمر عطا کی۔ وہ اتنا بوڑھا ہوا کہ اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پرآ گئی تھیں۔ وہ فقیر وقلاش اور فتنوں میں مبتلا تھا۔ حتیٰ کہ اس بڑھاپے میں بھی لڑکیوں کو چھیڑا کرتا تھا۔ وہ انھیں بازاروں میں روکتا تھا؛ تاکہ ان سے شہوت انگیز گفتگو کرے۔ -اللہ کی پناہ!- وہ اپنے بارے میں کہا کرتا تھا: آزمائش میں مبتلا بوڑھا آدمی ہے، جسے سعد کی بد دعا لگی ہوئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5219

 
 
Hadith   821   الحديث
الأهمية: أن علي -رضي الله عنه- أتي بدابة ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال: بسم الله


Tema:

علی رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھاتو ’بِسْمِ اللَّهِ‘ کہا۔

عن علي بن ربيعة، قال: شهدت علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أتي بدابة ليركبها، فلما وضع رجله في الركاب، قال: بسم الله، فلما استوى على ظهرها، قال: الحمد لله الذي سخر لنا هذا وما كنا له مُقْرِنين، وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم قال: الحمد لله، ثلاث مرات، ثم قال: الله أكبر، ثلاث مرات، ثم قال: سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، ثم ضحك، فقيل: يا أمير المؤمنين، من أي شيء ضحكت؟ قال: رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- فعل كما فعلت ثم ضحك، فقلت: يا رسول الله، من أي شيء ضحكت؟ قال: «إن ربك تعالى يَعجب من عبده إذا قال: اغفر لي ذنوبي، يعلم أنه لا يغفر الذنوب غيري»

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو ’بِسْمِ اللَّهِ‘ کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہا، اور ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ﴾ پڑھا ”تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہم تو اسے قابو میں کرنے کی قوت نہیں رکھتے تھے اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے“، پھر تین مرتبہ ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہا، پھر تین مرتبہ ’اللہُ اَکْبَر‘ کہا، پھر ’سُبحانَكَ إنِّي ظَلَمتُ نَفسي فاغفِر لي فإنَّهُ لا يغفِرُ الذُّنوبَ إلا أنتَ‘ کہا یعنی ”تیری ذات پاک ہے، میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا پس تو مجھے معاف کر دے، کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا“، پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک بار دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عليّ بن ربيعة وهو من كبار التابعين قال شهدت أي حضرت عليّ بن أبي طالب أتي بدابته، والدابة في أصل اللغة ما يدبّ على وجه الأرض، ثم خصها العرف بذات الأربع، ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال (بسم الله) أي أركب (فلما استوى) أي استقرّ على ظهرها قال (الحمد لله) أي على هذه النعمة العظيمة، وهي تذليل الوحش النافر وإطاعته لنا على ركوبه محفوظين من شره كما صرح به بقوله (الذي سخر) أي ذلل لنا أي لأجلنا هذا المركوب وما كنا له أي لتسخيره مقرنين أي مطيقين (وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم قال) أي بعد حمده المقيد بالثناء بما أنعم عليه (الحمد لله) حمداً غير مقيد بشىء (ثلاث مرات) وفي التكرير إشعار بعظم جلال الله سبحانه وأن العبد لا يقدر الله حق قدره وهو مأمور بالدأب في طاعته حسب استطاعته، (الله أكبر ثلاث مرات) والتكرير للمبالغة في ذلك، (ثم قال سبحانك) أي أقدسك تقديساً مطلقاً، (إني ظلمت نفسي) بعدم القيام بحقك لشهود التقصير في شكر هذه النعمة العظمى ولو بغفلة أو خطرة أو نظرة (فاغفر لي) أي استر ذنوبي بعدم المؤاخذة بالعقاب عليها (إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت) وفيه إشارة بالاعتراف بتقصيره مع إنعام الله وتكثيره (ثم ضحك فقيل) أي: فقال ابن ربيعة، وفي نسخة مصححة من «الشمائل» «فقلت» (يا أمير المؤمنين من أي شيء ضحكت) لما لم يظهر ما يتعجب منه مما ينشأ عنه الضحك استفهمه عن سببه وقدم نداءه على سؤاله كما هو الأدب في الخطاب، (قال: رأيت) أي أبصرت (النبي صنع كما صنعت) من الركوب والذكر في أماكنه (ثم ضحك فقلت: يا رسول الله من أي شيء ضحكت) (قال: إن ربك سبحانه يعجب من عبده) إضافة تشريف (إذا قال رب اغفر لي ذنوبي يعلم): أي قال ذلك عالماً غير غافل (أنه لا يغفر الذنوب غيري).
593;لی بن ربیعہ (جن کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے) بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ آپ کے پاس آپ کی سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہوں۔ لغت کے اعتبار سے ’الدابة‘ کا اطلاق ہر اس جانور پر ہوتا ہے جو زمین پر رینگے۔ بعد ازاں عرف عام میں اسے چوپایوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔ جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو کہا: ’بِسْمِ اللَّهِ‘ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ سوار ہوتا ہوں۔ پھر جب اچھی طرح سے اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا: ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ یعنی اس عظیم نعمت پر ساری تعریفین اللہ ہی کے لیے ہیں اور وہ نعمت یہ ہے کہ اس نے ایک نامانوس اوربدکنے والے جانور کو رام کر دیا اور اس پر سواری کے لیے اسے ہمارا فرماں بردار بنا دیا بایں طور کہ ہم اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ’الَّذِي سَخَّرَ‘ کے الفاظ کے ساتھ اس کی تصریح کی، یعنی اس سواری کو ہمارے قابو میں کر دیا جب کہ ہم میں اسے مسخر کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ ’وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ‘ یعنی اپنے اوپر ہونے والی نعمت پر کی جانے والی مقید حمد کے بعد فرمایا۔ ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ یعنی ایسی حمد جو کسی شے کے ساتھ مقید نہیں۔ ’ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بار بار ایسا کہنے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت وجلال کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ بندہ اللہ کی ویسے قدردانی نہیں کرتا جیسا کہ حق ہے۔ اسے یہ حکم ہے کہ وہ حسبِ استطاعت فرماں برداری کرتا رہے۔ ‏‏‏‏’اللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ‘ یہ تکرار بڑائی کے بیان میں مبالغہ کے لیے ہے۔ پھر ’سُبحانَكَ‘ کہا یعنی میں تیری مطلق پاکی بیان کرتا ہوں۔ ’إنِّي ظَلَمتُ نَفسي‘ یعنی تیرے حق کی ادائیگی نہ کر کے یا اسے اہمیت نہ دے کر اور اس میں غور نہ کر کے (میں نے اپنی جان پر ظلم کیا) کیونکہ انہیں اس نعمت عظمیٰ کی شکر گزاری میں کوتاہی دکھائی دی چاہے وہ غفلت ہی کی وجہ سے ہو۔ ’فاغفِر لي‘ یعنی میرے گناہوں کو پوشیدہ رکھ بایں طور کہ ان پر سزا دے کر مواخذہ نہ کرنا۔ ’فإنَّهُ لا يغفِرُ الذُّنوبَ إلا أنتَ‘ ان الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اور اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ کی کرم نوازیاں بہت زیادہ ہیں۔ ’ثُمَّ ضَحِكَ‘ یعنی ابن ربیعہ نے کہا۔ 'الشمائل' کے ایک تصحیح شدہ نسخے میں ہے کہ میں نے پوچھا ’اے امیر المومنین! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟‘ چونکہ بظاہر کوئی ایسی باعثِ تعجب بات نہیں تھی جس پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا اور سوال پر ندا کو مقدم کیا جیسا کہ مخاطبت میں ادب کا تقاضا ہے۔ ’قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ‘ یعنی میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے بھی سوار ہوتے ہوئے ان جگہوں پر ذکر کیا تھا۔ پھر آپﷺ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے، ’اپنے بندے سے‘ یہ اضافت عزت و تکریم کے لیے ہے۔ ’میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے یعنی بغیرغفلت کے وہ پوری طرح جانتا ہے کہ میرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5271

 
 
Hadith   822   الحديث
الأهمية: مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، واضْرِبُوهُمْ عليها، وهم أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ في المَضَاجِعِ


Tema:

جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں غفلت پر انہیں مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، واضْرِبُوهُمْ عليها، وهم أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ في المَضَاجِعِ».
وعن أبي ثرية سبرة بن معبد الجهني -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ لِسَبْع سِنِينَ، واضْرِبُوهُ عليها ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ».
ولفظ أبي داود: «مُرُوا الصَّبِيَّ بالصلاةِ إذا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ».

عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) اور وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں غفلت پر انہیں مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔“
ابو ثریہ سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنا سکھاؤ اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو اسے اس (کے نہ پڑھنے) کی وجہ سے مارو“۔
ابو داود کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
علموا أولادكم ذكورا وإناثا الصلاة وأمروهم إذا أتموا سبع سنين، واضربوهم على أدائها إذا امتنعوا عند عشر سنين، وفرقوا بينهم في الفراش.
575;پنی اولاد کو چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں نماز سکھاؤ اور جب وہ پورے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور دس سال کے ہونے پر اگر وہ نہ پڑھیں تو اس پر انہیں مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5272

 
 
Hadith   823   الحديث
الأهمية: إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك


Tema:

منتر، تعویذ اور ٹوٹکے سب شرک ہیں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ فرما رہے تھے: ”منتر، تعویذ اور ٹوٹکے سب شرک ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يخبر أن استعمال هذه الأشياء لقصد دفع المضار وجلب المصالح من عند غير الله شركٌ بالله لأنه لا يملك دفع الضر وجلب الخير إلا الله سبحانه، وهذا الخبر معناه النهيُ عن هذا الفعل.
فالرقى -وتسمى العزائم- والتمائم وهي التي تعلق على الأطفال من الخرز ونحوها، والتولة وهي التي تصنع لتحبب أحد الزوجين إلى الآخر بأنها شرك بالله -تعالى-، والجائز من الرقى ما تضمن ثلاثة شروط: الأول: أن لا يعتقد أنها تنفع بذاتها دون الله، فإن اعتقد أنها تنفع بذاتها من دون الله فهو محرم، بل شرك، بل يعتقد أنها سبب لا تنفع إلا بإذن الله، الثاني: أن لا تكون مما يخالف الشرع، كما إذا كانت متضمنة دعاء غير الله، أو استغاثة بالجن، وما أشبه ذلك، فإنها محرمة، بل شرك، الثالث: أن تكون مفهومة معلومة، فإن كانت من جنس الطلاسم والشعوذة، فإنها لا تجوز.
585;سول اللہ ﷺ بتا رہے ہیں کہ نقصان دہ امور کو دور کرنے اور اللہ کے علاوہ کسی اور سے سود مند اشیا کے حصول کی نیت سے اِن چیزوں کو استعمال کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ کیوںکہ نفع و نقصان کا مالک اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ اس خبریہ اسلوب میں اس فعل سے ممانعت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ 'رُقی' (رقیہ، منتر اور جھاڑ پھونک) اسے 'عزائم' بھی کہا جاتا ہے، تمائم سے مراد وہ اشیا ہیں جو بچوں پر لٹکائی جاتی ہیں، جیسے منکے وغیرہ اور 'تولہ' سے مراد وہ اشیا ہیں جو میاں بیوی کے مابین الفت پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ سب اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہیں۔
جائز رقیہ وہ ہے جس میں یہ تین شرطیں پائی جائیں:
پہلی: عقیدہ یہ ہو کہ یہ رقیہ بذات خود بغیر اللہ کی اجازت کے نفع بخش نہیں ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ رقیہ بذات خود بغیر اللہ کی اجازت کے نفع بخش ہے تو یہ عقیدہ حرام ہے بلکہ شرک ہے، ہاں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ رقیہ بس ایک سبب ہے جو صرف اللہ تعالی کی اجازت سے نفع بخش ہوسکتا ہے۔
دوسری شرط: رقیہ ان چیزوں میں سے نہ ہو جو کہ شریعت کی مخالفت کرتی ہوں جیسے کہ وہ رقیہ جس میں غیر اللہ سے دعا کی جاتی ہے، یا کسی جن وغیرہ سے مدد طلب کی جاتی ہے، یہ سب حرام اور شرک ہیں۔
تیسری شرط: رقیہ معلوم الفاظ اور سمجھ میں آنے والا ہو، اگر یہ شیطانی طلسمات اور جادوئی دم پر مشتمل ہو تو پھر یہ ناجائز رقیہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5273

 
 
Hadith   824   الحديث
الأهمية: خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَسْقِي، فتوجه إلى القبلة يدعو، وحَوّل رِدَاءه، ثم صلَّى ركعتين، جَهَرَ فيهما بالقِراءة


Tema:

نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کرنے لگے اور اپنی چادر کو پھیر کر الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپ ﷺ نے جہری طور پر قراءت کی۔

عن عبد الله بن زيد بن عَاصِم المازِنِي -رضي الله عنه- قال: «خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَسْقِي، فتَوَجَّه إلى القبلة يدْعو، وحَوَّل رِدَاءه، ثم صلَّى ركعتين، جَهَرَ فيهما بالقِراءة».  وفي لفظ «إلى الْمُصَلَّى».

عبد الله بن زيد بن عاصم مازنی روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کرنے لگے اور اپنی چادر کو پھیر کر الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپ ﷺ نے جہری طور پر قراءت کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ عید گاہ کی طرف گئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبتلي الله -تعالى- العباد بأنواع من الابتلاء؛ ليقوموا بدعائه وحده وليذكروه، فلما أجدبت الأرض في عهد النبي -صلى الله عليه وسلم-، خرج بالناس إلى مصلى العيد بالصحراء؛ ليطلب السقيا من الله -تعالى-، وليكون أقرب في إظهار الضراعة والافتقار إلى الله -تعالى-، فتوجه إلى القبلة، مظنة قبول الدعاء، وأخذ يدعو الله أن يغيث المسلمين، ويزيل ما بهم من قحط.
وتفاؤلا بتحول حالهم من الجدب إلى الخصب، ومن الضيق إلى السعة، حوَّل رداءه من جانب إلى آخر، ثم صلى بهم صلاة الاستسقاء ركعتين، جهر فيهما بالقراءة؛ لأنها صلاة جامعة.
575;للہ تعالی بہت سی آزمائشوں میں بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اس سے دعا کریں اور اس کو یاد کریں۔ نبی ﷺ کے دور میں جب ایک دفعہ زمین خشک سالی کا شکار ہوگئی تو آپ ﷺ لوگوں کو لے کر صحراء میں عید گاہ کے طرف نکلے تاکہ اللہ تعالی سے پانی کی دعا کریں اور اس طرح سے زیادہ عاجزی اور حاجت مندی کا اظہار کر سکیں۔ آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کیا جہاں سے دعاؤں کی قبولیت کی امید ہوتی ہے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے اور ان پر طاری قحط کو دور کرے۔
اور ان کی حالت کے خشک سالی سے شادابی اور تنگی سے کشادگی میں بدل جانے کے شگون کے طور پر آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کو ایک جانب سے دوسری جانب الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو نمازِ استسقاء کی دو رکعتیں پڑھائیں اور ان میں جہری قرأت فرمائی کیونکہ یہ مجمع کی صورت میں ادا کی جانے والی نماز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5274

 
 
Hadith   825   الحديث
الأهمية: صَلَّيْتُ أنا و عِمْرَانُ بْنُ حصَيْنٍ خلف علي بن أبي طالب، فكان إذا سجد كَبَّرَ، وإذا رفع رأسه كَبَّرَ، وإذا نهض من الركعتين كَبَّرَ


Tema:

میں اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے اور جب دو رکعات سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔

عن مُطَرِّفِ بن عبد الله قال: « صَلَّيْتُ أنا وعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ علِيِّ بنِ أَبِي طالب، فكان إذا سجد كَبَّرَ، وإذا رفع رأسه كَبَّرَ، وإذا نهض من الركعتين كَبَّرَ، فلمَّا قضَى الصلاةَ أَخَذَ بيدَيَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وقال: قد ذكَّرني هذا صلاةَ محمد -صلى الله عليه وسلم- أو قال: صَلَّى بنا صلاة محمد -صلى الله عليه وسلم-».

مطرِّف بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے اور جب دو رکعات سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب نماز پوری کر چکے تو عمران بن حصین نے میرے ہاتھ پکڑے اور فرمایا انہوں نے مجھے آپ ﷺ کی نماز یاد دلائی یا یہ فرمایا کہ انہوں نے ہمیں آپ ﷺ کی نماز پڑھائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان شعار الصلاة، وهو إثبات الكبرياء والعظمة لله -سبحانه وتعالى-، وذلك بالتكبير.
فيحكي مطرف أنه صلى هو وعمران بن حصين خلف علي بن أبي طالب فكان يكبر في هُوِيه إلى السجود، ثم يُكبِّر حِين يرفع رأسه من السجود، وإذا قام من التشهُّد الأوَّل في الصلاة ذات التشهدين، كبَّر في حال قيامه، وقد ترك كثير من الناس الجهر بالتكبير في هذه المواضع، فلمَّا فرغ من صلاته أخذ عمران بيد مُطرِّف، وأخبره بأنَّ عليًّا -رضي الله عنه- ذكَّره بصلاته هذه صلاةَ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم-، حيث كان يُكبِّر في هذه المواضع.
575;س حدیث میں نماز کے شعار کو بیان کیا گیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اثبات ہے، یہ تکبیر سے ثابت ہوتی ہیں۔
مطرِّف نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ سجدے کے لیے جھکتے ہوئے تکبیر (اللہُ اکبر) کہتے، پھر سجدے سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے، جب دو تشہدوں والی نماز میں پہلی تشہّد سے کھڑے ہوتے تو قیام کی حالت میں تکبیر کہتے، بہت سے لوگوں نے ان مواقع میں بلند آواز سے تکبیر کہنی چھوڑ دی ہے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے مطرّف کو ہاتھ سے پکڑا اور فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز سے ہمیں آپ ﷺ کی نماز یاد دلادی، کہ آپ ﷺ ان مواقع میں تکبیر کہا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5275

 
 
Hadith   826   الحديث
الأهمية: إذا تثاءب أحدكم فليمسك بيده على فيه


Tema:

جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منھ پر رکھ کر اُسے روکنے کی کوشش کرے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِذا تَثَاءبَ أحَدُكمْ فَلْيمْسِكْ بيدهِ على فِيهِ؛ فَإنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخل».

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منھ پر رکھ کر اُسے روکے۔ بے شک شیطان منھ میں داخل ہو جاتا ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- عند التثاؤب بوضع اليد على الفم، والأفضل أن ترد التثاؤب ما استطعت، ولو بوضع اليد على الفم؛ "فإن الشيطان يدخل فيه"، أي: في الإنسان عند انفتاح فمه حال التثاؤب؛ فيضحك منه ويدخل في جوفه، فيمنعه من ذلك بوضع اليد على الفم؛ سداً لطريقه، ومبالغة في منعه وتعويقه، وفيه كراهية صورة التثاؤب المحبوبة للشيطان.
581;دیث مبارک میں نبئ کریم ﷺ نے جمائی لیتے وقت منھ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ افضل یہ ہے کہ بقدرِ استطاعت جمائی کو روکا جائے ، اگرچہ منھ پر ہاتھ رکھ کر ہی اسے روکا جائے۔ ”بے شک شیطان منھ میں داخل ہو جاتا ہے“ یعنی جمائی لیتے وقت منھ کھلنے سے (شیطان) انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس پر ہنستا ہے اور انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے، تو منھ پر ہاتھ رکھ کر اس کو داخل ہونے سے روکے تاکہ اس کا راستہ بند ہو جائے اور اس کے داخل ہونے كو شدت سے روکا جائے اور اسے اس سے باز رکھا جائے، اس سے پتا چلا کہ جمائی لینے کی مکروہ شکل شیطان کو محبوب ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5280

 
 
Hadith   827   الحديث
الأهمية: أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كفِّنَ في أثواب بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، ليس فيها قَمِيص وَلا عِمَامَة


Tema:

رسول اللہﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كُفِّنَ في أثواب بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، ليس فيها قَمِيص وَلا عِمَامَة».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں (چادروں) میں کفن دیا گیا، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- عن كَفَن النبي -صلى الله عليه وسلم- ولونه وعدده، فقد أدرج في ثلاث لفائف بيض مصنوعة في اليمن، ولم يكفن في قميص ولا عمامة، وزيادة الأثواب؛ لأن سترة الميت أعظم من سترة الحيّ وأولى بالعناية.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے کفن، اس کے رنگ اور تعداد کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ آپﷺ کو یمن کے بنے ہوئے تین سفید کپڑوں میں لپیٹا گیا اور اس میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ اور زندہ آدمی کی بنسبت میت کی پردہ پوشی اور حفاظت کے پیش نظر زیادہ کپڑے استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5319

 
 
Hadith   828   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في صلاة الفجر يوم الْجمعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وهَلْ أتى على الإنسان


Tema:

نبی ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں الٓم سجدہ اور سورۂ دھر پڑھا کرتے تھے۔

عن أبي هُرَيْرة -رضي الله عنه- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يَقْرأ فِي صلاة الفجر يَومَ الجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وهَلْ أتى على الإنسَان».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں الٓم سجدہ اور سورۂ دھر پڑھا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة سورة السجدة كاملة، وذلك في الركعة الأولى بعد الفاتحة، ويقرأ في الركعة الثانية بعد الفاتحة سورة الإنسان كاملة؛ تذكيرا بما اشتملت عليه السورتان من أحداث عظيمة وقعت وستقع في هذا اليوم, كخلق آدم، وذكر المعاد وحشر العباد، وأحوال القيامة, وغيرها.
606;بی ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ جمعے کے دن نماز فجر میں پہلی رکعت کے اندر سورۂ فاتحہ کے بعد مکمل سورۂ الٓم سجدہ پڑھتے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد مکمل سورۂ انسان (دھر) کی تلاوت فرماتے۔ ایسا آپ ﷺ ان عظیم واقعات کو یاد دلانے کے لیے کرتے، جن کا ذکر ان دونوں سورتوں میں آیا ہے اور جو واقع ہو چکے یا اس دن (یعنی جمعے کے دن) واقع ہوں گے، جیسے تخلیق آدم، قیامت اور انسانوں کے میدان حشر میں جمع ہونے اور قیامت کے احوال وغیرہ کا ذکر۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5320

 
 
Hadith   829   الحديث
الأهمية: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في المغرب بِالطُّور


Tema:

میں نے بنی کریم ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔

عن جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِم -رضي الله عنه- قال: «سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في المغرب بِالطُّور».

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العادة في صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه كان يُطيل القراءة في صلاة الصبح، ويقصرها في المغرب، ويتوسط في غيرهما من الصلوات الخمس.
ولكنه قد يترك العادة لبيان الجواز، ولأغراض أخرى، كما في هذا الحديث من أنه قرأ في صلاة المغرب بسورة "والطور" وهي من طوال المفصل.
570;پ ﷺ کی عادت تھی کہ آپ پانچوں نمازوں میں سے فجر کی نماز میں لمبی قراءت کرتے تھے اور مغرب میں مختصر کیا کرتے تھے اور دوسری نمازوں میں درمیانے درجے کی قراءت کرتے تھے۔
لیکن کبھی آپ ﷺ بیانِ جواز اور دوسرے مقاصد کی وجہ سے ایسا کرنا چھوڑ دیتے تھے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھی، یہ طوالِ مفصل سورتوں میں سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5321

 
 
Hadith   830   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعمر يصلون العيدين قبل الخطْبة


Tema:

نبی ﷺ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نمازیں خطبے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عُمر -رضي الله عنهما- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعُمر يصلون العيدين قبل الخُطْبة».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نمازیں خطبے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- وخلفائه الراشدين، أن يصلوا بالناس صلاة العيد، في الفطر والأضحى، ويخطبوا، ويقدموا الصلاة على الخطبة، وقد استمر العمل على ذلك حتى جاء مروان فخرج وخطب قبل الصلاة، وانكر عليه الناس مخالفة السنة، واستمر بنو أمية على ذلك ثم أعاد بنو العباس السنة.
606;بی ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین کا معمول یہ تھا کہ وہ لوگوں کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھاتے اور خطبہ دیتے اور نماز کو خطبہ پر مقدم رکھتے۔ یہ عمل اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ مروان نے اپنے دور حکومت میں آکر نماز سے پہلا خطبہ دیا۔ سنت کی خلاف ورزی پر لوگوں نے ان پر نکیر کی لیکن بنو امیہ اسی طریقہ پر باقی رہے پھر جب بنو عباس حکومت میں آئے تو انہوں نے (نبیﷺ کی) سنت کو دوبارہ شروع کردیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5322

 
 
Hadith   831   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يجمع في السفر بين صلاة الظهر والعصر، إذا كان على ظَهْرِ سَيْرٍ، ويجمع بين المغرب والعشاء


Tema:

رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

عن عَبْد اللَّهِ بْن عَبَّاس -رضي الله عنهما- قال: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَجْمعُ في السَّفَر بين صلاة الظهر والعصر؛ إذا كان على ظَهْرِ سَيْرٍ، ويجمع بين المغرب والعشاء».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تمتاز شريعة نبينا محمد -صلى الله عليه وسلم- من بين سائر الشرائع السماوية بالسماحة واليسر وإزاحة كل حرج ومشقة عن المكلفين أو تخفيفهما، ومن هذه التخفيفات: الجمع في السفر بين الصلاتين المشتركتين في الوقت.
فالأصل وجوب فعل كل صلاة في وقتها، لكن كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا سافر وجدَّ به السير في سفره، الجمع بين الظهر والعصر: إما تقديماً، أو تأخيراً، والجمع بين المغرب والعشاء: إما تقديماً أو تأخيراً، يراعى في ذلك الأرفق به وبمن معه من المسافرين، فيكون سفره سبباً في جمعه الصلاتين، في وقت إحداهما؛ لأن الوقت صار وقتاً للصلاتين كلتيهما؛ ولأن السفر موطن مشقة في النزول والسير، ولأن رخصة الجمع ما جعلت إلا للتسهيل فيه.
729;مارے نبی محمد ﷺ پر نازل ہونےوالی شریعت دوسری آسمانی شریعتوں سے آسانی، ازالہ تکلیف و مشقت اور مکلف افراد پر تخفیف کے اعتبار سے سب سے ممتاز ہے۔ ان آسانیوں میں سے ایک حالت سفر میں ایک وقت کی نمازوں کو اکٹھے ایک ساتھ پڑھنا بھی ہے۔
اصول یہی ہے کہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا واجب ہے لیکن نبی کریم ﷺ کی یہ عادت تھی کہ جب آپﷺ سفر کرتے تو سفر کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے ظہر و عصر کو جمع کرلیتے اور اس میں کبھی جمع تقدیم کرلیتے اور کبھی جمع تاخیر۔ اسی طرح مغرب و عشاء کو جمع تقدیم یا جمع تاخیر کے ذریعے اکٹھا کرلیتے اور ایسا اپنے ساتھ سفر کرنے والوں پر آسانی کی غرض سے کرتے تھے۔ لہذا سفر دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے کا سبب بن جاتا ہے کیوں کہ وہ وقت دونوں نمازوں کی ادائیگی کا وقت بن جاتا ہے اور سفر میں بار بار رکنا اور چلنا مشقت پیدا کرتا ہے اس لیے آسانی کی غرض سے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5323

 
 
Hadith   832   الحديث
الأهمية: أهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مقسط موفق، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربى ومسلم، وعفيف متعفف ذو عيال


Tema:

جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں: ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرنے والا اور صاحب توفیق ہو، دوسرا وہ شخص جو رحیم ہو اور قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے نرم دل ہو اور تیسرا وہ شخص جو مانگنے سے بچے، حرام سے دور رہے اور اہل و عیال والا ہو۔

عن عياض بن حمار -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مُقْسِطٌ مُوَفَّقٌ، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربى ومسلم، وعفيف مُتَعَفِّفٌ ذو عيال».

عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں، ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرنے والا اور صاحبِ توفیق ہو، دوسرے وہ شخص جو رحم کرنے والا ہو، قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے نرم دل ہو، تیسرا وہ شخص جو مانگنے سے بچے، حرام سے دور رہے اور اہل و عیال والا ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث الحث على إقامة العدل بين الناس لمن كان صاحب سلطة، والحض على التخلق بصفات الرحمة والعطف والشفقة لمن كان صاحب رَحِمٍ وقرابة ويكثر مخالطة الناس فيرحمهم، وأيضاً الترغيب في ترك سؤال الناس والمبالغة في ذلك لمن كان صاحب عيال أي أناس يعولهم وينفق عليهم، وأنَّ جزاء من اتصف بذلك من الثلاثة الجنة.
ومفهوم العدد غير معتبر فليس للحصر، وإنما يُذكر من أجل التيسير على السامع ومسارعة فهمه وحفظه للكلام.
575;س حدیث میں صاحبِ اقتدار شخص کو لوگوں کے مابین عدل و انصاف قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس شخص کو رحم دلی، نرمی اور شفقت جیسی صفات اپنانے پر ابھارا گیا ہے جس کے رحمی رشتے دار ہوں اور جس کا لوگوں سے بہت زیادہ میل جول رہتا ہو کہ وہ ان سے نرمی سے پیش آئے۔ اسی طرح اس میں اس شخص کو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنے اور مانگنے میں مبالغہ نہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو اہل و عیال والا ہو یعنی جس کے زیر پرورش کچھ لوگ ہوں اور ان پر وہ خرچ کرتا ہو اور اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کوئی ان تینوں صفات میں سے کسی صفت سے متصف ہوتا ہے اس کی جزا جنت ہے۔ یہاں عدد کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہ عدد حصر کے لیے نہیں ہے، اس کا ذکر صرف سامع کی آسانی کے لیے کیا جاتا ہے تا کہ وہ جلد سمجھ جائے اور بات کو ذہن نشین کر لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5324

 
 
Hadith   833   الحديث
الأهمية: أتدرون ما الغيبة؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: ذكرُك أخاك بما يكره


Tema:

کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح سے کرو جو اسے نا پسند ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أتدرون ما الغِيبَةُ؟»، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: «ذكرُك أخاك بما يكره»، قيل: أرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: «إن كان فيه ما تقول فقد اغْتَبْتَهُ, وإن لم يكن فقد بَهَتَّهُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟، صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس انداز میں کرو جو اسے نا پسند ہو‘‘۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- حقيقة الغيبة، وهي: ذكر المسلم الغائب بما يكره، سواء كان من صفاته الخَلْقية أو الخلُقية ولو كانت فيه تلك الصفة، وأما إذا لم تكن فيه الصفة التي ذكرت فقد جمعت إلى الغيبة المحرمة البهتان والافتراء على الإنسان بما ليس فيه.
606;بی ﷺ غیبت کی حقیقت بیان فرما رہے ہیں۔ غیبت یہ ہے کہ غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اسے ناپسند ہوں چاہے ان کا تعلق اس کی پیدائشی صفات سے ہو یا اخلاقی صفات سے بشرطیکہ اس میں یہ صفت موجود ہو۔ اگر وہ صفت اس میں موجود ہی نہ ہو جس کا آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ نے غیبت جیسے حرام فعل کے ساتھ ساتھ انسان پر ایسی بات کی بہتان تراشی اور افترا پردازی کا بھی ارتکاب کیا جو اس میں موجود نہیں تھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5326

 
 
Hadith   834   الحديث
الأهمية: إذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه


Tema:

جب تم میں سے کوئی (کسی کو) مارے تو اسے چاہیے کہ چہرے پر مارنے سے بچے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا قاتل أحدكم فَلْيَجْتَنِبِ الوجه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (کسی کو) مارے تو اسے چاہیے کہ چہرے پر مارنے سے بچے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن الإنسان إذا أراد أن يضرب أحدًا فعليه أن يجتنب الضرب في الوجه، لأنه مجمع المحاسن، وهو لطيف فيظهر فيه أثر الضرب.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو مارنے کا ارادہ کرے تو وہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے کیونکہ چہرہ محاسن کا مرکز ہے اور بہت نازک ہوتا ہے اور مارنے سے اس پر نشان پڑ جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5327

 
 
Hadith   835   الحديث
الأهمية: الظلم ظلمات يوم القيامة


Tema:

ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا۔

عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعا: «الظلم ظلمات يوم القيامة».
عن جابر-رضي الله عنهما- مرفوعا: «اتقوا الظلم, فإن الظلم ظلمات يوم القيامة, واتقوا الشُّحَ؛ فإنه أَهْلَكَ من كان قبلكم».

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ظلم روزِ قيامت اندھیروں کا باعث ہوگا“۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ظلم کرنے سے بچو، کیونکہ ظلم روزِ قيامت تاريکيوں کا باعث ہوگا۔ اور بخل وحرص سے بچو کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک كیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديثان من أدلة تحريم الظلم، وهو يشمل جميع أنواع الظلم، ومنه الشرك بالله تعالى، وقوله في الحديثين: "الظلم ظلمات يوم القيامة" معناه أنه ظلمات متوالية على صاحبه بحيث لا يهتدي يوم القيامة سبيلا.
وقوله في الحديث الثاني: (واتقوا الشح فإنه أهلك من كان قبلكم) فيه التحذير من الشح وبيان أنه إذا فشا في المجتمع فهو علامة الهلاك، لأنه من أسباب الظلم والبغي والعدوان وسفك الدماء.
740;ہ دونوں حديثيں ظلم کی حرمت کے دلائل ميں سے ہیں۔ اور يہ ظلم کی تمام قسموں کو شامل ہے جن میں سے ایک اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ دونوں حديثوں میں آپ ﷺ کے فرمان: ”ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا“ کا مطلب یہ ہے کہ ظالم شخص پے در پے اندھیروں میں ڈوبا ہو گا بایں طور کہ اسے قیامت کے دن راہ ہی سجھائی نہ دے گی۔
دوسری حدیث میں آپ ﷺ کے فرمان: ”اور بخل وحرص سے بچو کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک كیا ہے“ میں بخل سے باز رہنے کی تلقین ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ جب کسی معاشرے میں بخل عام ہو جاتا ہے تو یہ ہلاکت و بربادی کی علامت ہوتی ہے کیونکہ یہ ظلم وناانصافی، جارحیت اور خون ریزی کے اسباب میں سے ہے۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5328

 
 
Hadith   836   الحديث
الأهمية: اللهم جنِّبْني منكرات الأخلاق, والأعمال, والأهواء, والأدواء


Tema:

اے اللہ! مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے بچا۔

عن قطبة بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «اللهم جنِّبْني مُنْكَراتِ الأخلاق, والأعمال, والأهواء, والأَدْوَاء».

قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے: ”اے اللہ! مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے بچا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه دعوات كريمات يقولها المصطفى -صلى الله عليه وسلم-، وهي أن الله تعالى يباعد بينه وبين أربعة أمور:
الأول: الأخلاق الذميمة المستقبحة.
الثاني: المعاصي.
الثالث: الشهوات المهلكات التي تهواها النفوس.
الرابع: الأمراض المزمنة المستعصية.
575;س حدیث میں بہت ہی بہترین دعائیں مذکور ہیں جنہیں نبی ﷺ مانگا کرتے تھے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو چار چیزوں سے دور رکھے:
اول: مذموم اور برے اخلاق
دوم: گناہ
سوم: مہلک خواہشات جن کی طرف نفوس راغب ہوتے ہیں۔
چہارم: دائمی ناقابل علاج بیماریاں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5329

 
 
Hadith   837   الحديث
الأهمية: اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شيئا, فشَقَّ عليهم، فاشْقُقْ عليه


Tema:

اے اللہ! جو شخص بھی میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ انھیں مشقت میں ڈالے تو تو بھی اس پر سختی فرما۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شيئاً, فشَقَّ عليهم؛ فاشْقُقْ عليه».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! جو شخص بھی میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ انھیں مشقت میں ڈالے تو تو بھی اس پر سختی فرما“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث وعيد شديد لمن ولي أمرًا من أمور المسلمين صغيرًا كان أم كبيرًا وأدخل عليهم المشقة، وذلك بدعاء رسول الله -عليه الصلاة والسلام- عليه بأن الله -تعالى- يجازيه من جنس ما عمل.
575;س حدیث میں اس شخص کے لئے سخت وعید ہے جو مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا، چاہے وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اور اس نے انہیں مشقت میں ڈالا۔ وہ وعید یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے یہ بد دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے عمل ہی کے جنس سے بدلہ دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5330

 
 
Hadith   838   الحديث
الأهمية: إن رجالًا يَتَخَوَّضُون في مال الله بغير حق, فلهم النار يوم القيامة


Tema:

کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم ہے۔

عن خولة الأنصارية -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن رجالاً يَتَخَوَّضُون في مال الله بغير حق, فلهم النار يوم القيامة».

خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أناس يتصرفون في أموال المسلمين بالباطل، وأنهم يأخذونها بغير حق، ويدخل في ذلك أكل أموال اليتامى وأموال الوقف من غير مستحقها وجحد الأمانات والأخذ بغير استحقاق ولا إذن من الأموال العامة، وأخبر -صلى الله عليه وسلم- أن جزاءهم النار بذلك يوم القيامة.
606;بی ﷺ نے خبر دی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے اموال میں ناجائز طور پر تصرف کرتے ہیں اور اسے ناحق لیتے ہیں۔ اسی میں کسی غیر حق دار شخص کا یتیموں کے مالوں اور وقف شدہ اموال کو کھانا، امانتوں کا انکار کرنا اور عوامی دولت (پبلک فنڈز) سے بغیر استحقاق یا اجازت کے لینا شامل ہے۔ نیز آپ ﷺ نے باخبر کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی جزا قیامت کے دن جہنم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5331

 
 
Hadith   839   الحديث
الأهمية: إيَّاكم والظنَّ, فإن الظنَّ أكذب الحديث


Tema:

بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-قال: «إيَّاكم والظنَّ, فإن الظنَّ أكذبُ الحديث».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث تحذير من الظن الذي لم يُبن على دليل، بحيث يعتمد الإنسان على هذا الظن المُجرد ويبني عليه الأحكام، وأن هذا من مساوئ الأخلاق، وأنه من أكذب الحديث لأن الظان إذا اعتمد على ما لا يُعتمد عليه وجعله أصلا وجزم به صار كذباً بل أشد الكذب.
581;دیث میں ایسے گمان سے منع کیا ہے جو کسی دلیل پر قائم نہ ہو بایں طور کہ انسان صرف اس گمان پر تکیہ کرتے ہوئے اس پر احکام کی بنیاد رکھے۔ حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ یہ ایک بری اخلاقی صفت ہے اور جھوٹی ترین بات ہے کیونکہ گمان کرنے والا جب کسی ایسی بات پر اعتماد کرتا ہے جس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور اسے بنیاد بنا کر اس پر یقین کرتا ہے تو یہ جھوٹ ہوتا ہے بلکہ بہت ہی شدید قسم کا جھوٹ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5332

 
 
Hadith   840   الحديث
الأهمية: سِبابُ المسلم فسوق, وقتاله كفر


Tema:

مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «سِبابُ المسلم فسوق, وقتاله كفر».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على عظم حق المسلم حيث حكم على سب المسلم أخاه بالفسوق وهو الخروج عن طاعة الله، وأن من قاتل أخاه المسلم فإنه يكفر كفرًا يخرجه عن الملة إذا كان يعتقد حل قتال المسلم، وأما إذا قاتله لشيء في نفسه أو لدنيا دون أن يعتقد حل دمه فإنه يكون كافرًا كفرًا أصغر لا يخرجه عن الملة، ويكون إطلاق الكفر عليه مبالغة في التحذير.

یہ حدیث مسلمان کے حق کی عظمت کی دلیل ہے بایں طور کہ اس میں مسلمان کے اپنے بھائی کو گالی دینے کو فسق قرار دیا گیا ہے۔ فسق کا معنی ہے: اللہ کی اطاعت گزاری کو چھوڑ دینا اور یہ کہ جو اپنے مسلمان بھائی سے لڑائی کرتا ہے وہ ایسے کفر کا مرتکب ہوتا ہے جو اسے دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے جب کہ وہ مسلمان سے لڑنے کو حلال سمجھے۔ اور جب وہ اپنی کسی ذاتی وجہ سے یا پھر کسی دنیوی غرض سے لڑائی کرے اور اس کے خون بہانے کو حلال خیال نہ کرتا ہو تو پھر وہ کفرِ اصغر کا مرتکب ہو گا جو ملتِ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں ہوتا۔ اور اس صورت میں اس پر کفر کے لفظ کا اطلاق ممانعت میں مبالغہ و شدت پیدا کرنے کے لیے ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5333

 
 
Hadith   841   الحديث
الأهمية: ما من عبد يَسْتَرْعِيْهِ الله رَعِيَّةً, يموت يوم يموت, وهو غاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ؛ إلا حرَّم الله عليه الجنة


Tema:

کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔

عن معقل بن يسار -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما من عبد يَسْتَرْعِيْهِ الله رَعِيَّةً, يموت يوم يموت, وهو غاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ؛ إلا حرَّم الله عليه الجنة».

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث معقل بن يسار هذا التحذير من غش الرعية، وأنه:
(ما من عبد يسترعيه الله رعية): أي يفوض إليه رعاية رعية: وهي بمعنى المرعية، بأن ينصبه إلى القيام بمصالحهم ويعطيه زمام أمورهم، والراعي: الحافظ المؤتمن على ما يليه من الرعاية وهي الحفظ.
 (يموت يوم يموت وهو غاش) أي خائن (لرعيته) المراد يوم يموت وقت إزهاق روحه، وما قبله من حالة لا تقبل فيها التوبة؛ لأن التائب من خيانته أو تقصيره لا يستحق هذا الوعيد.
فمن حصلت منه الخيانة في ولايته، سواء كانت هذه الولاية عامة أو خاصة؛ فإن الصادق المصدوق عليه أفضل الصلاة وأزكى التسليم توَعَّده بقوله: (إلا حرم الله عليه الجنة) أي إن استحل أو المراد يمنعه من دخوله مع السابقين الأولين.
605;عقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رعایا کے ساتھ خیانت سے ڈرایا گیا ہے۔ چنانچہ کہا گيا ہے:
”مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً“ یعنی جسے کسی رعایا کی ذمے داری سونپی جائے۔ ''رعية'' کا لفظ یہاں ''مرعية'' کے معنی میں ہے۔ یعنی جسے اللہ لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کے لیے متعین کرے اور اسے ان کے معاملات کی زمام کار سونپے۔ راعى سے مراد وہ حفاظت کرنے والا ہے، جس کے ذمہ رعایا کی حفاظت کی ذمے داری ہو۔
”يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ“ یعنی اپنی رعیت سے خیانت کرنے والا ہو۔
جس دن اسے موت آئے سے مراد روح نکلنے اور اس سے ذرا پہلے کا وقت ہے، جس میں توبہ قبول نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اپنی خیانت اور کوتاہی سے توبہ کر لینے والا اس وعید کا مستحق نہیں ہے۔
جو شخص اپنی ذمے داری میں خیانت کرے، چاہے یہ ذمے داری عام ہو یا خاص، اسے نبی صادق و مصدق ﷺ نے یہ فرما کر دھمکی دی ہے کہ اس پر اللہ جنت حرام کر دیتا ہے۔ یعنی اگر وہ خیانت کو حلال سمجھ کر کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اسے سابقین اولین کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5335

 
 
Hadith   842   الحديث
الأهمية: إذا طبختَ مَرَقَة, فأكثر ماءها, وتعاهدْ جِيْرانك


Tema:

جب تم کوئی شوربے والی چیز پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے ہمسائے کا بھی خیال رکھا کرو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا طبختَ مَرَقَة, فأكثر ماءها, وتعاهدْ جِيْرانك».

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم کوئی شوربے والی چیز پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے ہمسائے کا بھی خیال رکھا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي ذر هذا يوضح صورة من صور عناية الإسلام بحق الجار، فهو يحث الإنسان إذا وسع الله عليه برزق، أن يصيب منه جاره بعض الشيء بالمعروف، حيث قال صلى الله عليه وسلم: "إذا طبخت مرقة فأكثر ماءها، وتعاهد جيرانك" أي: أكثر ماءها يعني: زدها في الماء؛ لِتَكثُر وتُوزَّع على جيرانك منها، والمرقة عادة تكون من اللحم أو من غيره مِمَّا يُؤْتدَم به، وهكذا أيضاً إذا كان عندك غير المرق، أو شراب كفضل اللبن مثلاً، وما أشبهه ينبغي لك أن تعاهد جيرانك به؛ لأن لهم حقاً عليك.
575;بو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسلام جس انداز میں پڑوسی کا خیال رکھتا ہے اس کی وضاحت کرتی ہے۔ اسلام انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ اگر اللہ نے اسے کشادہ رزق سے نوازا ہو تو وہ اچھے انداز میں اس میں سے کچھ اپنے پڑوسی کو بھی دے۔ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:" جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔" یعنی پانی کچھ زیادہ کر لو تاکہ یہ زیادہ ہو جائے اور اس میں سے تمہارے پڑوسیوں میں بھی کچھ بانٹ دیا جائے۔ شوربہ عموما گوشت یا بطورِ سالن استعمال ہونے والی دیگر اشیاء سے تیار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس شوربے کے علاوہ کوئی اور شے ہو تو تب بھی ایسے ہی کرنا چاہیے جیسے پینے کی اشیاء مثلا بچا ہوا دودھ یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور شے تو مناسب یہی ہے کہ آپ اس کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں کیونکہ ان کا آپ پر حق ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5336

 
 
Hadith   843   الحديث
الأهمية: إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله, وليقل له أخوه يرحمك الله, فإذا قال له: يرحمك الله, فليقل: يهديكم الله, ويصلح بالكم


Tema:

جب تم میں سے کوئی چھینکے تو "الحمد الله" کہے اور اس کے جواب میں اس کا بھائی "يرحمك الله"کہے۔ جب اس کا بھائی "يرحمك الله" کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا "يهديكم الله ويصلح بالكم" کہے ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا عَطِسَ أحدكم فَلْيَقُلْ: الحمد لله، ولْيَقُلْ له أخوه يرحمك الله؛ فإذا قال له: يرحمك الله؛ فَلْيَقُلْ: يهديكم الله، ويُصْلِح بالكم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے، اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ (اللہ تجھ پر رحم کرے) کہے، جب ساتھی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ’يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ‘ (اللہ تمھیں سیدھے راستے پر رکھے اور تمہارے حالات درست کرے) کہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العطاس نعمة، وهو خروج أبخرة من الجسم، انحباسها يسبب خمولًا في الجسم، فلذا يستحب للعاطس أن يحمد الله -تعالى- أن سهّل خروج هذه الأبخرة من جسمه، ولأن العطاس من الله، والتثاؤب من الشيطان، فالعطاس دليلٌ على نشاط جسم الإنسان، ولهذا يجد الإنسان راحة بعد العطاس.
ويقول سامعه: يرحمك الله، وهو دعاء مناسب لمن عوفي في بدنه، ثم يجيب العاطس فيقول: يهديكم الله ويصلح بالكم.
فهذه من الحقوق التي بينها النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا قام بها الناس بعضهم مع بعض، حصل بذلك الألفة والمودة وزال ما في القلوب والنفوس من الضغائن والأحقاد.
670;ھینک ،ایک بڑی نعمت ہے اور اس کی بناء پر جسم کے بخارات باہر نکل آتے ہیں اور اس کو روکنے کی صورت میں جسم میں سستی و کسل مندی پیدا ہوجاتی ہے، اسی بناء پر چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے کہ اس نے ان بخارات کو جسم سے خارج کرنے میں آسانی پیدا فرمائی اور یہ کہ چھینک کا آنا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جمائی کا آنا شیطان کی جانب سےہوتا ہے۔ چنانچہ چھینک، انسانی جسم کی چستی پر دلالت کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چھینکنے کے بعد انسان کو راحت ملتی ہے۔
چھینکنے والے کے ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کو سننے والا ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے گا اور یہ اس شخص کو دی جانے والی موزوں دعاء ہے جس کے جسم کو عافیت سے نوازا گیا، پھر چھینکنے والا جواب میں ’يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ‘ کہے گا۔
خیال رہے کہ یہ نبی ﷺ کی جانب سے بیان کردہ ان حقوق میں سے ہے کہ اگر لوگ باہم دیگر اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس کے سبب ان میں الفت و مودت عام ہوجائے گی اور دلوں اور نفوس میں پائے جانے والے کینوں اور بغض و عداوتوں کے جذبات کا خاتمہ ہوجائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5337

 
 
Hadith   844   الحديث
الأهمية: إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخر، حتى تختلطوا بالناس؛ من أجل أن ذلك يحزنه


Tema:

جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل جاؤ، کیونکہ یہ چیز اسے رنجیدہ کر دے گی

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  "إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخَر، حتى تختلطوا بالناس؛ من أجل أن ذلك يحُزنه".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل جاؤ، کیونکہ یہ چیز اسے رنجیدہ کر دے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإسلام يأمر بجبر القلوب وحسن المجالسة والمحادثة، وينهى عن كل ما يسيء إلى المسلم ويخوفه ويوجب له الظنون، فمن ذلك أنه إذا كانوا ثلاثة فإنه إذا تناجى اثنان وتسارّا دون الثالث الذي معهما فإن ذلك يسيئه ويحزنه ويشعره أنه لا يستحق أن يدخل معهما في حديثهما، كما يشعره بالوحدة والانفراد، فجاء الشرع بالنهي عن هذا النوع من التناجي.
605;ذہب اسلام اپنے ماننے والوں کے لئے اس بات کو لازمی قرار دیتا ہےکہ مجلس کے آداب کا خیال رکھا جائے اچھی گفتگو ہو تاکہ مجلس میں کوئی شکستہ خاطرنہ ہو، اور ان تمام چیزوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے جو کسی مسلمان کے ساتھ بد سلوکی، اس کے لیے خوف اور بد گمانی کا سبب بنیں، اور انہیں میں سےایک یہ بھی ہے کہ جب تین آدمی ایک ساتھ ہوں اور ان میں سے دو آپس میں تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی کریں تو یہ چیز تیسرے کے ساتھ بد سلوکی ہےاور یہ اسے رنجیدہ کر دے گی اور اسے اس بات کا احساس دلائے گی کہ وہ ان دونوں کے ساتھ گفتگو کے قابل نہیں۔ ساتھ ہی اسے اکیلاپن اور تنہائی کا احساس دلائے گی۔ اسی لیے شریعت اسلا میہ نے اس قسم کی سرگوشی سے روکا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5338

 
 
Hadith   845   الحديث
الأهمية: إن الله يحب العبد التقي, الغني, الخفي


Tema:

الله تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار، بے نیاز اور پوشیدہ ہو۔

عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الله يحب العبد التَّقِيَّ, الغَنِيَّ, الخَفِيَّ».

سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”الله تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار، (مخلوق سے) بے نیاز اور پوشیدہ ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أسباب محبة الله للعبد أن يتصف بهذه الصفات الثلاث:
الأولى: أن يكون متقيا لله تعالى، قائما بأوامره مجتنبا نواهيه.
الثانية: أن يكون مستغنيا عما في أيدي الناس، راضيا بما قسم الله له.
الثالثة: أن يكون خفيا، لا يتعرض للشهرة، ولا يرغب فيها.
580;ن اسباب کی وجہ سے اللہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ان تین صفات سے آراستہ ہو:
اول: وہ اللہ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرتے ہوئے، اس کا تقویٰ اختیار کرے۔
دوم: لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز رہے اور اللہ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس پر راضی رہے۔
سوم: پوشیدہ (گمنام) رہے، شہرت (نمود ونمائش) سے گریز کرے اور اس کی چاہت (بھی) نہ رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5340

 
 
Hadith   846   الحديث
الأهمية: انظروا إلى من هو أسفل منكم, ولا تنظروا إلى من هو فوقكم, فهو أجدر أن لا تزدروا نعمة الله عليكم


Tema:

اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو ، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح زیادہ مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «انظروا إلى من هو أسفل منكم، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم، فهو أجدر أن لا  تَزْدَرُوا نعمة الله عليكم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح زیادہ مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشتمل هذا الحديث على وصية نافعة، وكلمة جامعة لأنواع الخير، وبيان المنهج السليم الذي يسير عليه المسلم في هذه الحياة، ولو أن الناس أخذوا بهذه الوصية لعاشوا صابرين شاكرين راضين، وفي الحديث وصيتان:
الأولى: أن ينظر الإنسان إلى من هو دونه وأقل منه في أمور الدنيا.
الثانية: ألا ينظر إلى من هو فوقه في أمور الدنيا.
فمن فعل ذلك حصلت له راحة القلب، وطيب النفس، وهناءة العيش، وظهر له نعمة الله عليه فشكرها وتواضع،
وهذا الحديث خاص في أمور الدنيا، أما أمور الآخرة فالذي ينبغي هو النظر إلى من هو فوقه ليقتدي به،  وسيظهر له تقصيره فيما أتى به فيحمله ذلك على الازدياد من الطاعات.
740;ہ حدیث فائدہ بخش وصیت اور مختلف بھلائیوں کی جامع گفتگو پر مشتمل ہے اور اس میں اس منہجِ سلیم کا بیان ہے، جسے ایک مسلمان اس زندگی میں اختیار کرتا ہے۔ اگر لوگ اس وصیت کو اپنا لیں، تو صابر وشاکر اور خوش و خرم زندگی گزاریں گے۔ حدیث میں دو وصیتوں کا بیان ہے:
پہلی وصیت: یہ کہ انسان دنیوی امور میں اپنے سے کم تر اور کم پونجی والے پر نگاہ ڈالے۔
دوسری وصیت: دنیوی امور میں اپنے سے بر تر کی طرف نہ دیکھے۔
جس نے ایسا کیا، اسے دلی راحت وخوشی اورخوش گوار زندگی حاصل ہوگی۔ اللہ کی نعمت کا احساس ہو گا، جس پر وہ شکر گذاری کرے گا اور عاجزی وانکساری کو اپنائے گا۔
یہ حدیث دنیوی امور کے لیے خاص ہے۔ رہا آخرت کا معاملہ تو اس سلسلے میں آدمی کو اپنے سے برتر کی طرف دیکھنا چاہیے؛ تاکہ وہ اس کی اقتدا و پیروی کرسکے، اس کی اپنی کمیاں واضح ہوں اور مزید اطاعت و عبادت کی ترغیب ملے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5341

 
 
Hadith   847   الحديث
الأهمية: حق المسلم على المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه, وإذا دعاك فأجبه, وإذا استنصحك فانصحه, وإذا عطس فحمد الله فسَمِّته، وإذا مرض فعُده, وإذا مات فاتْبَعه


Tema:

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تو اس سے ملے، تو تو اسے سلام کرے، جب وہ تجھے دعوت دے، تو تو اس کی دعوت قبول کرے، جب وہ تجھ سے مشورہ مانگے تو تو اسے اچھا مشورہ دے، جب وہ چھینکے اور ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے تو تو اس کا جواب دے (یعنی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے)، جب وہ بیمار ہو تو تو اس کی عیادت کرے اور جب وہ مر جائے تو تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «حقُّ المسلم على المسلم ست: إذا لَقِيتَهُ فسَلِّمْ عليه, وإذا دعاك فَأَجِبْهُ، وإذا اسْتَنْصَحَكَ فانْصَحْهُ, وإذا عَطَسَ فَحَمِدَ الله فسَمِّتْهُ، وإذا مرض فعُدْهُ, وإذا مات فاتَّبِعْهُ»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تو اس سے ملے، تو تو اسے سلام کرے، جب وہ تجھے دعوت دے، تو تو اس کی دعوت قبول کرے، جب وہ تجھ سے مشورہ مانگے تو تو اسے اچھا مشورہ دے، جب وہ چھینکے اور ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے تو تو اس کا جواب دے (یعنی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے)، جب وہ بیمار ہو تو تو اس کی عیادت کرے اور جب وہ مر جائے تو تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإسلام دين المحبة والمودة والإخاء، يحث عليها ويرغب فيها، ولذا شرع الأسباب التي تحقق هذه الغايات الشريفة.
ومن أهم تلك الغايات القيام بالواجبات الاجتماعية بين أفراد المسلمين، من إفشاء السلام، وإجابة الدعوة، والنصح في المشورة، وتشميت العاطس، وعيادة المريض، واتباع الجنائز.
575;سلام محبت و مودت اور بھائی چارے کا دین ہے۔ اسلام ان باتوں پر ابھارتا اور ان کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی لیے ایسے اسباب مشروع کیے گئے ہیں، جو ان عظیم الشان مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مقاصد میں سے اہم ترین مقاصد افراد امت کے درمیان باہمی معاشرتی ذمہ داریوں کی انجام دہی ہے۔ جیسے سلام عام کرنا، دعوت قبول کرنا، مشورہ دیتے وقت اچھا مشورہ دینا، چھینکنے والے کے جواب میں "یرحمک اللہ" کہنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جانا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5343

 
 
Hadith   848   الحديث
الأهمية: كل بني آدم خطاء, وخير الخطائين التوابون


Tema:

تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ, وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يخلو الإنسان من الخطيئة، لما فُطر عليه من الضعف، وعدم الانقياد لمولاه في فعل ما دعاه إليه، وترك ما نهاه عنه، لكنه تعالى فتح باب التوبة لعباده، وأخبر أن خير الخطائين هم المكثرون من التوبة.
575;نسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا؛ کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مولا کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اس نے یہ بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5344

 
 
Hadith   849   الحديث
الأهمية: من بايع إماما فأعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر


Tema:

جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- في سفر، فَنَزَلنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يُصلِح خِبَاءَه، ومِنَّا من يَنتَضِل، ومِنَّا مَن هو في جَشَرِهِ، إِذْ نادى مُنادي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: الصَّلاةُ جَامِعَةٌ. فاجْتَمَعنَا إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «إِنَّه لَمْ يَكُن نبي قبْلِي إِلاَّ كَان حَقًّا عليه أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَه عَلَى خَيرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُم، ويُنذِرَهُم شّرَّ ما يعلمه لهم، وإِنَّ أُمَّتُكُم هذه جَعَل عَافِيَتَهَا في أوَّلِها، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلاَءٌ وأُمُورٌ تُنكِرُونَهَا، وتَجِيءُ فِتنَةٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعضًا، وتَجِيءُ الفتنة فيقول المؤمن: هذه مُهلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هَذِه هذِه. فمَنْ أَحَبَّ أنْ يُزَحْزَحَ عن النار، ويدخل الجنة، فَلْتَأْتِه مَنِيَتُهُ وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وَلْيَأتِ إِلى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إليه، ومَنْ بَايَع إِمَامًا فَأَعْطَاه صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمْرَةَ قلْبِهِ، فَلْيُطِعُه إِن اسْتَطَاع، فَإِن جَاء آخَرُ يُنَازِعُه فَاضْرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ايک سفر ميں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک منزل پر قيام کيا، ہم ميں سے بعض اپنے خيمے درست کر رہے تھے، بعض تيراندازی ميں مقابلہ کررہے تھے اور بعض اپنے مويشيوں ميں لگے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز لگائی: ’’نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔‘‘ ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے جو بھی نبی ہوا اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ايسے کاموں کی طرف کرے جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے۔ اور ان کو ان کاموں سے ڈرائے جن کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے۔ اور تمہاری اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھ دی گئی ہے اور اس کے آخری حصے ميں آزمائش اور ايسے معاملات پيش آئیں گے جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسے فتنے ظہور پذير ہوں گے جو ایک دوسرے کو معمولی بنا دیں گے۔ ايک فتنہ سامنے آئے گا تو مومن کہے گا: یہی ميری ہلاکت کا باعث ہو گا۔ پھر وہ دور ہو جائے گا۔ پھر (کوئی اور) فتنہ ظہور پذير ہو گا تو مومن کہے گا: یہی سب سے بڑا فتنہ ہے۔ پس جس شخص کو يہ پسند ہو کہ وہ جہنم کی آگ سے دور کرديا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، تواس کو موت اس حالت ميں آنی چاہیے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ کئے جانے کو پسند کرے، اور جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو۔”

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث أنه يجب على الدعاة ما يجب على الأنبياء من بيان الخير والحث عليه ودلالة الناس إليه وبيان الشر والتحذير منه، وفيه أن صدر هذه الأمة حصل لها الخير والسلامة من الابتلاء، وأنه سيصيب آخر هذه الأمة من الشر والبلاء ما تجعل الفتن القادمة تهون الفتن السابقة، وأن النجاة منها يكون بالتوحيد والاعتصام بالسنة، وحسن معاملة الناس، والالتزام ببيعة الحاكم، وعدم الخروج عليه، وقتال من يريد تفريق جماعة المسلمين.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں پر بھی وہی لازم ہے جو انبیاء پر لازم تھا یعنی اچھائی کو بیان کرنا، اس کی ترغیب دینا، اس کی طرف لوگوں کى راہنمائی كرنا، اور برائی کی وضاحت کرنا اور اس سے ڈرانا۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ اس امت کا ابتدائی حصہ تو خیر میں رہا اور آزمائش سے محفوظ رہا ليکن اس امت کے آخری حصے کو اس طرح شر اور آزمائش پیش آئے گی کہ آنے والے فتنے پہلے کے فتنوں کو معولی اور ہلکا بناديں گے اور ان سے نجات توحید کے اقرار، سنت کی پیروی، لوگوں سے حسن سلوک اور حاکم کی بیعت کی پابندی, اس کے خلاف عدم بغاوت اور ہر اس شخص سے قتال کے ذريعہ ہی ممکن ہوگی جو مسلمانوں کی جماعت کا شیراہ بکھیرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5345

 
 
Hadith   850   الحديث
الأهمية: كل معروف صدقة


Tema:

ہر نیک کام صدقہ ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كل معروف صدقة».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نیک کام صدقہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كل معروف يفعله الإنسان صدقة، والصدقة هي ما يعطيه المتصدّق من ماله، وهذا يشمل الصدقة الواجبة والمندوبة، فبيّن النبي -صلى الله عليه وسلم- أن فعل المعروف له حكم الصدقة في الأجر والثواب.
575;نسان جو بھی اچھا کام کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔ صدقہ اس چیز کو کہتے ہیں جو صدقہ کرنے والا اپنے مال سے دیتا ہے۔ اس میں واجب اور مستحب دونوں ہی قسم کا صدقہ شامل ہوتا ہے۔ لھٰذا نبی ﷺ نے واضح فرمایا کہ اچھا کام اجر و ثواب کے اعتبار سے صدقے کے حکم میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5346

 
 
Hadith   851   الحديث
الأهمية: لا تبدؤوا اليهود والنصارى بالسلام, وإذا لقيتموهم في طريق, فاضطروهم إلى أضيقه


Tema:

یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کسی سے تمھارا آمنا سامنا ہو جائے، تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا تَبْدَؤوا اليهود والنصارى بالسَّلام، وإذا لَقِيتُمُوهُمْ في طريق، فاضْطَّرُّوهُمْ إلى أَضْيَقِهِ».

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کسی سے تمھارا آمنا سامنا ہو جائے، تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن بدء أهل الكتاب بالسلام؛ وذلك لأن تسليمنا عليهم فيه نوع من الإكرام لهم؛ -والكافر ليس أهلاً للإكرام، ولا بأس أن يقول للكافر ابتداءً كيف حالك، كيف أصبحت، كيف أمسيت؟ ونحو ذلك إذا دعت الحاجة إلى ذلك؛ لأن النهي عن السلام، وكذلك أمرنا أن لا نوسع لهم الطريق، فإذا قابل المسلم الكتابي في الطريق، فإن المسلم يُلجئه إلى أضيق الطريق، ويكون وسط الطريق وسعته للمسلم، وهذا عند ضيق الطريق، وحيث لا يتسبب في إلحاق الضرر بالكتابي، وجملة القول في ذلك: أن ما كان من باب البر والمعروف ومقابلة الإحسان بالإحسان قمنا به نحوهم لتأليف قلوبهم، ولتكن يد المسلمين هي العليا، وما كان من باب إشعار النفس بالعزة والكرامة ورفعة الشأن فلا نعاملهم به؛ كبدئهم بالسلام تحية لهم، وتمكينهم من صدر الطريق تكريمًا لهم.
606;بی ﷺ نے اہل کتاب کو سلام میں پہل کرنے سے منع فرمایا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں سلام کرنا در اصل ان کی عزت افزائی کا اظہار ہے اور کافر عزت و اکرام کا مستحق نہیں ہے۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ضرورت پڑنے پر، پہل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ آپ نے کیسے صبح کی؟ آپ کیسے شام کی؟ وغیرہ۔ کیوں کہ ممانعت، سلام کرنے ہی کی ہے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کا حکم فرمایا کہ ان کے لیے راستے میں کشادگی پیدا نہ کریں اور جب راستے میں مسلمان کا کسی یہودی یا نصرانی سے آمنا سامنا ہوجائے، تو مسلمان اس کو راستے تنگ ترین حصہ اپنانے پر مجبور کردے گا اور درمیانی اور کشادہ حصے پر مسلمان کا حق ہوگا۔ یہ راستہ تنگ ہونے کی صورت میں ہے۔ یہ عمل اس انداز میں ہو کہ اہل کتاب کو کسی قسم کا ضرر لاحق نہ ہو۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جن امور کا تعلق نیکی، بھلائی اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینے سے ہو، ان امور میں ہم ان کے ساتھ تالیف قلب اور مسلمانوں کی برتری کے اظہار کے لیے بہتر معاملہ کریں گے۔ لیکن جب معاملہ عزت و اکرام نفس اور شان امتیاز کے اظہار سے تعلق رکھتا ہو، تو ہم ان کے ساتھ تعظیم و تکریم کا برتاؤ نہیں کريں گے۔ مثلا انھیں سلام کرنے میں پہل کرنا اور راستے کا نمایاں حصہ ان کے حوالے کرنا وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5347

 
 
Hadith   852   الحديث
الأهمية: لا تَحْقِرَنَّ من المعروف شيئا, ولو أن تلقى أخاك بوجه طَلْق


Tema:

کسی نیکی کو ہر گز حقیر مت جانو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خوش باش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تَحْقِرَنَّ من المعروف شيئا, ولو أن تَلْقَى أخاك بوجه طَلْق».

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی بھی نیکی کو ہر گزحقیر مت جانو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خوش باش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء، وأن هذا من المعروف الذي ينبغي للمسلم أن يحرص عليه ولا يحتقره لما فيه من إيناس الأخ المسلم وإدخال السرور عليه.
740;ہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ باہم ملنے کے وقت چہرے پر بشاشت ہونی چاہیے اور یہ کہ یہ ایسی نیکی ہے جسے کرنے کی مومن کو چاہت رکھنی چاہیے اور اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے مسلمان بھائی کے ساتھ انسیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5348

 
 
Hadith   853   الحديث
الأهمية: لا يشربَنَّ أحد منكم قائمًا


Tema:

تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہر گز نہ پیے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يشربَنَّ أحدٌ منكم قائما».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہر گز نہ پیے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث تضمن النهي عن أن يشرب الإنسان وهو قائم، وهذا النهي إذا لم تكن هناك حاجة للشرب قائما، وهو للكراهة.
581;دیث میں انسان کے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا ذکر ہے۔ یہ ممانعت اس وقت ہے جب کھڑے ہو کر پینے کی کوئی ضرورت نہ ہو اور یہ ممانعت بھی بطور کراہت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5349

 
 
Hadith   854   الحديث
الأهمية: لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه, ثم يجلس فيه, ولكن تفسحوا, وتوسعوا


Tema:

كوئی آدمی کسی آدمی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يُقِيمُ الرجلُ الرجلَ من مَجْلِسِهِ, ثم يجلس فيه, ولكن تَفَسَّحُوا, وتَوَسَّعُوا».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”كوئی آدمی کسی آدمی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه أدبان من آداب المجالس:
الأول: أنه لا يحل للرجل أن يقيم الرجل الآخر من مجلسه الذي سبقه إليه قبله ثم يجلس فيه.
الثاني: أن الواجب على الحضور أن يتفسحوا للقادم حتى يوجدوا له مكانا بينهم، قال -تعالى-: (يأيها الذين آمنوا إذا قيل لكم تفسحوا في المجالس فافسحوا يفسح الله لكم).
575;س حدیث میں آدابِ مجالس میں سے دو آداب کا ذکر ہے:
اول: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا دے جو اس سے پہلے وہاں بیٹھا ہو اور پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے۔
دوم: حاضرین کے لیے واجب ہے کہ وہ نو وارد کے لیے کچھ کشادگی پیدا کردیا کریں تا کہ اپنے مابین اس کے لیے جگہ بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ﴾ ”اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5350

 
 
Hadith   855   الحديث
الأهمية: ليس الشديد بالصُّرَعة, إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب


Tema:

طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ليس الشديد بالصُّرَعة, إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب».

ابو