عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: بَعَث
رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهْط عيْنا سرية، وأمّر عليها عاصم بن
ثابت الأنصاري رضي الله عنه فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهَدْأة؛ بين عُسْفان
ومكة؛ ذكروا لِحَيٍ من هُذَيْل يقال لهم: بنو لحيَان، فنَفَروا لهم بقريب
من مائة رجل رام، فاقتصُّوا آثارهم، فلما أحسَّ بهم عاصم وأصحابه، لَجَأوا
إلى موضع، فأحاط بهم القوم، فقالوا: انزلوا فأَعْطُوا بأيديكم ولكم العهد
والميثاق أن لا نقتل منكم أحدا. فقال عاصم بن ثابت: أيها القوم، أما أنا،
فلا أَنْزل على ذِمَّة كافر: اللهم أخبِرْ عَنَّا نبيك -صلى الله عليه
وسلم- فرموهم بالنّبْل فقتلوا عاصما، ونزل إليهم ثلاثة نفر على العهد
والميثاق، منهم خُبَيب، وزيد بن الدِّثِنَة ورجل آخر. فلما اسْتَمْكَنوا
منهم أطلقوا أوتار قِسِيِّهم، فربطوهم بها. قال الرجل الثالث: هذا أول
الغَدْر والله لا أصحبكم إن لي بهؤلاء أُسْوة، يريد القتلى، فجرُّوه
وعالَجوه، فأبى أن يصحبهم، فقتلوه، وانطلقوا بخُبيب، وزيد بن الدِّثِنِة،
حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر؛ فابتاع بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد
مُناف خُبيبا، وكان خُبيب هو قَتَل الحارث يوم بدر. فلبث خُبيب عندهم أسيرا
حتى أجْمعوا على قتله، فاستعار من بعض بنات الحارث موسى يستَحِدُّ بها
فأعارته، فدَرَج بُنَيٌّ لها وهي غافلة حتى أتاه، فوجدَتْه مُجْلِسه على
فخذه والمُوسى بيده، ففزعت فزعة عرفها خُبيب. فقال: أتخشين أن أقتله ما كنت
لأفعل ذلك! قالت: والله ما رأيت أسيرا خيرا من خُبيب، فوالله لقد وجدته
يوما يأكل قِطْفا من عنب في يده وإنه لموثَق بالحديد وما بمكة من ثمرة،
وكانت تقول: إنه لَرِزْق رَزَقه الله خبيبا. فلما خرجوا به من الحرم
ليقتلوه في الحِلِّ، قال لهم خُبيب: دعوني أصلِّي ركعتين، فتركوه، فركع
ركعتين فقال: والله لولا أن تحسبوا أن ما بي جَزَع لزدتُ: اللهم أحْصِهم
عددا، واقتلهم بِدَدَا، ولا تُبْقِ منهم أحدا. وقال: فلسْتُ
أُبالي حين أُقتَل مسلما... على أي جنْب كان لله مصرعي وذلك
في ذات الإله وإن يشأْ... يباركْ على أوصال شِلْوٍ مُمَزَّع.
وكان
خُبيب هو سَنَّ لكل مسلم قُتِل صْبرا الصلاة. وأخبر - يعني: النبي صلى الله
عليه وسلم أصحابه يوم أصيبوا خبرهم، وبعث ناس من قُريش إلى عاصم بن ثابت
حين حُدِّثُوا أنه قُتل أن يُؤتوا بشيء منه يُعرف، وكان قتل رجلا من
عظمائهم، فبعث الله لعاصم مثل الظُلَّة من الدَّبْرِ فحَمَتْه من رُسُلهم،
فلم يقدروا أن يقطعوا منه شيئا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور ان کا امیر عاصم بن ثابت
انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان واقع
مقام 'ھدأہ' پر پہنچے، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک شاخ، جسے بنی لحیان کہا جاتا
تھا، اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی۔ چنانچہ انھوں نے سو تیر اندازوں کو
ان کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ وہ ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوۓ چل پڑے۔ جب
عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی آمدکا پتہ چلا، تو انھوں نے
ایک (محفوظ)جگہ پناہ لے لی۔ قبیلے والوں نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا
اور کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ ہماری پناہ قبول کر لو۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ
تمھارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا:
مسلمانو! میں کسی کافر کے امان میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انھوں نے دعا کی، اے
اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے ۔آخر قبیلے والوں نے مسلمانوں
پر تیر برساۓ اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں، ان کے وعدے
پر تین صحابہ اتر آئے۔ جن میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔
قبیلے والوں نے جب ان تینوں صحابہ پر قابو پا لیا تو اپنے تیر کی کمان سے
تانت نکال کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا: یہ تمھاری پہلی عہد
شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو وہی نمونہ ہیں۔
ان کا اشارہ مقتول صحابہ کی طرف تھا۔ کفار نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور
زبردستی کی، لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ انھوں نے ان
کو بھی شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو
ساتھ لے گئے اور مکہ میں لے جا کرانھیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا
واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو
خرید لیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل
کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے۔ بالآخر انھوں نے ان کے قتل
کا فیصلہ کرلیا۔ (انھیں دنوں) حارث کی کسی لڑکی سے انھوں نے زیر ناف بال
صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ
ان کے پاس اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ وہ دیکھتی کیا ہے کہ اس کا بچہ
ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ
حد درجہ گھبرا گئی۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور
بولے: کیا تمھیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو
کہ میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں
نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں
نے ایک دن ان کے ہاتھ میں موجود انگور کے ایک خوشہ سے انھیں کھاتے دیکھا،
حالاں کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی
پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ وہ در اصل خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے
اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر بنو حارثہ انھیں قتل کرنے
کے لیے حدودِ حرم سے باہر ”حِل“ لے جانے لگے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے
کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ انھوں نے اس کی اجازت دی،
تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ خیال نہ
کرنے لگتے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید پڑھتا۔ پھر انھوں نے
دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ
الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ اور یہ اشعار پڑھے:
جب میں
اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی
راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔
اور یہ سب
تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے
ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔
خبیب رضی
اللہ عنہ نے اپنے عمل سے ہر اس مسلمان کے لیے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز
پڑھنے کی سنت قائم کردی، جسے قید کر کے قتل کیاجائے۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے
اسی دن اپنے صحابہ کو ان دس صحابہ کی خبر دے دی، جس دن ان پر یہ مصیبت آن
پڑی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید
کر دیے گئے ہیں، تو ان (کی نعش) کے پاس اپنے آدمی بھیجے؛ تاکہ ان کے جسم کا
کوئی ایسا حصہ لائیں، جس سے ان کی شناخت ہوجائے؛ کیوں کہ انھوں نے بھی (بدر
میں) ان کے ایک سردار کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ
عنہ کی نعش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور ان بھڑوں نے آپ کی
نعش کو کفار قریش کے ان قاصدین سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ
بھی نہ کاٹ سکے۔