يبين ابن عمر -رضي الله عنهما- في هذا
الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أراد أن يسافر, وركب بعيره
قال: الله أكبر ثلاث مرات, ثم قال هذا الدعاء العظيم, الذي يتضمن الكثير من
المعاني الجليلة, ففيه تنزيه الله -عز وجل- عن الحاجة والنقص, واستشعار
نعمة الله -تعالى- على العبد, وفيه البراءة من الحول والقوة, والإقرار
بالرجوع إلى الله -تعالى-, ثم سؤاله -سبحانه- الخير والفضل والتقوى
والتوفيق للعمل الذي يحبه ويتقبله, كما أن فيه التوكل على الله -تعالى-
وتفويض الأمور إليه, كما اشتمل على طلب الحفظ في النفس والأهل, وتهوين مشقة
السفر, والاستعاذة من شروره ومضاره, كأن يرجع المسافر فيرى ما يسوؤه في
أهله أو ماله أو ولده.
وذكر ابن
عمر -رضي الله عنهما- في الرواية الأخرى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان
إذا رجع من سفره قال هذا الدعاء, وزاد قوله: (آيبون) أي نحن معشر الرفقاء
راجعون (تائبون) أي من المعاصي، (عابدون) من العبادة (لربنا حامدون) شاكرون
على السلامة والرجوع, وأنه كان إذا كان بمكان عالٍ, قال: الله أكبر؛
فيتواضع أمام كبرياء الله -عز وجل-, ثم قال: «لا إله إلا الله وحده لا شريك
له..» إقرارًا بأنه -تعالى- المتفرد في إلهيته وربوبيته وأسمائه وصفاته,
وأنه -جل وعلا- الناصر لأوليائه وجنده.
593;بد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اس حدیث
میں اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب کبھی سفر کا ارادہ فرماتے
اور اپنی سواری پر سوار ہو جاتے تو تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہتے اور پھر اس
عظیم دعا کو پڑھتے، جس میں متعدد عظیم الشان معانی شامل ہیں۔ چنانچہ اس دعا
میں اللہ عز وجل کے محتاجی اور نقائص و عیوب سے پاک و منزہ ہونے کا ذکر کیا
گیا، بندے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس و شعور بیدار کیا گیا، اس
میں (بندے کی جانب سے اپنے اندر ہر قسم کی) طاقت و قوت کے نہ ہونے کا
اعتراف پنہاں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی جانب رجوع کرنے کا اقرار ہے۔ پھر
اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ سے خیر و بھلائی اور فضل و شرف اورتقویٰ اور اس
کے نزدیک محبوب اور مقبول عمل کی توفیق طلب کی جارہی ہے۔ نیز اس میں اللہ
تعالیٰ ہی پر توکل و اعتماد کرنےاور تمام امور (کے نتائج) کو اسی کے حوالے
و سپرد کر دینے کا معنی پایا جاتا ہے۔ نیز اس میں اپنی جان اور اہل و عیال
کے تحفظ، سفر کی محنت و مشقت کو ہلکا کرنے اور اس میں پائے جانے والے برے و
بدتر حالات اور نقصانات سے پناہ طلب کرنے کی دعاکے معانی پائے جاتے ہیں
کہ(کہیں ایسا نہ ہو کہ) مسافر اپنے سفر سے واپس لوٹے اور اس کو اپنے اہل و
عیال یا مال یا اس کی اولاد میں کوئی بدتر منظر و حالت نظر آئے۔
ابن عمر
رضی اللہ عنھما نے ایک دوسری روایت میں ذکر کیا کہ نبی ﷺ جب سفر سے واپس
لوٹتے تو مذکورہ بالا دعا فرماتے اور اس میں یہ دعا اضافہ فرماتے:
”آيِبُونَ“ یعنی ہم رفقا سفر کی جماعت، ”تَائِبُونَ“اپنے گناہوں سے توبہ
کرتے ہوئے، ”عَابِدُونَ“ عبادت کرتے ہوئے ”لِرَبِّنَا حَامِدُونَ“ یعنی
صحیح سلامت واپس ہونے پر شکرگزار ہیں۔
اور آپ ﷺ
جب کبھی کسی اونچے مقام کی جانب چلتے تو ”اللہ اکبر“ کہتے اور اللہ عز وجل
کی کبریا کے بالمقابل اپنے تواضع کا اظہار فرماتے اور پھر یہ کلمۂ شہادت
پڑھتے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ“ جس میں اس
بات کا اقرار پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی الوہیت، اپنی ربوبیت اور
اپنے اسما و صفات میں تنہا و یکتا ہے اور وہی صاحب جلال اور اعلی ذات، اپنے
اولیا اور اپنے لشکروں کی نصرت و مدد کرنے والی ہے۔ -- [صحیح]+ +[اسے امام
مسلم نے روایت کیا ہے۔]
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6003