Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   1144   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا استَوَى على بعيره خارجا إلى سفر، كَبَّرَ ثلاثا، ثم قال: «سبحان الذي سخَّر لنا هذا وما كنا له مُقْرِنِينَ وإنا إلى ربنا لـمُنْقَلِبُون...»


Tema:

رسول اللہ ﷺ سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سوار ہو جاتے، تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے: ”سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ...

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا استَوَى على بَعِيره خارجًا إلى سَفَر، كَبَّرَ ثلاثا، ثم قال: «سبحان الذي سخَّر لنا هذا وما كُنَّا له مُقْرِنِينَ وإنَّا إلى ربِّنا لـمُنْقَلِبُون، اللهم إنَّا نَسْأَلُك في سفرنا هذا البِرَّ والتَّقْوَى، ومن العمل ما تَرْضَى، اللهم هَوِّنْ علينا سفرنا هذا واطْوِ عنا بُعْدَه، اللهم أنت الصاحب في السفر، والخليفة في الأهل، اللهم إني أعوذ بك مِن وَعْثَاء السفر، وكآبة الـمَنْظر، وسوء الـمُنْقَلَب في المال والأهل والولد». وإذا رجع قالهن. وزاد فيهن «آيبون تائبون عابدون لِربنا حامدون».
وفي رواية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا قَفَل من الحج أو العمرة، كلما أَوْفَى على ثَنِيَّة أو فَدْفَدٍ كَبَّرَ ثلاثا، ثم قال: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، آيِبون، تائبون، عابدون، ساجدون، لربنا حامدون، صدَق الله وَعْدَه، ونصَر عَبْدَه، وهزَم الأحزابَ وحده». وفي لفظ: إذا قَفَل من الجيوش أو السَّرايا أو الحج أو العمرة.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سوار ہو جاتے، تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے: ”سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ اللّهُـمَّ إِنّا نَسْـأَلُكَ في سَفَـرِنا هذا البِـرَّ وَالتَّـقْوى، وَمِنَ الْعَمَـلِ ما تَـرْضى، اللّهُـمَّ هَوِّنْ عَلَـينا سَفَرَنا هذا وَاطْوِ عَنّا بُعْـدَه، اللّهُـمَّ أَنْـتَ الصّـاحِبُ في السَّـفَر، وَالْخَلـيفَةُ في الأهـلِ، اللّهُـمَّ إِنّـي أَعـوذُبِكَ مِنْ وَعْـثاءِ السَّـفَر، وَكَآبَةِ الْمَنْـظَر، وَسوءِ الْمُنْـقَلَبِ في المـالِ وَالأَهْـل والوَلَد“ (پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا حاﻻنکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی، اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور اہل وعیال میں برے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں) اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے: ”آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ“ (ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں)۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حج یا عمرہ سے واپس ہوتے، تو جب بھی کسی بلند جگہ یا سخت زمیں والی اونچی جگہ کا چڑھاؤ ہوتا، تو تین مرتبہ ”اللہ اكبر“ کہتے اور یہ دعا پڑھتے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ ،سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ“ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق ہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی اور تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور کفار کے لشکروں کو اسی نے تنہا شکست دے دی)۔
بعض جگہوں میں یوں وارد ہے کہ: ”رسول اللہ ﷺ جب بڑے لشکروں یا چھوٹے دستوں ( کی مہموں) سے یا حج یا عمرے سے لوٹتے...“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين ابن عمر -رضي الله عنهما- في هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أراد أن يسافر, وركب بعيره قال: الله أكبر ثلاث مرات, ثم قال هذا الدعاء العظيم, الذي يتضمن الكثير من المعاني الجليلة, ففيه تنزيه الله -عز وجل- عن الحاجة والنقص, واستشعار نعمة الله -تعالى- على العبد, وفيه البراءة من الحول والقوة, والإقرار بالرجوع إلى الله -تعالى-, ثم سؤاله -سبحانه- الخير والفضل والتقوى والتوفيق للعمل الذي يحبه ويتقبله, كما أن فيه التوكل على الله -تعالى- وتفويض الأمور إليه, كما اشتمل على طلب الحفظ في النفس والأهل, وتهوين مشقة السفر, والاستعاذة من شروره ومضاره, كأن يرجع المسافر فيرى ما يسوؤه في أهله أو ماله أو ولده.
وذكر ابن عمر -رضي الله عنهما- في الرواية الأخرى أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا رجع من سفره قال هذا الدعاء, وزاد قوله: (آيبون) أي نحن معشر الرفقاء راجعون (تائبون) أي من المعاصي، (عابدون) من العبادة (لربنا حامدون) شاكرون على السلامة والرجوع, وأنه كان إذا كان بمكان عالٍ, قال: الله أكبر؛ فيتواضع أمام كبرياء الله -عز وجل-, ثم قال: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له..» إقرارًا بأنه -تعالى- المتفرد في إلهيته وربوبيته وأسمائه وصفاته, وأنه -جل وعلا- الناصر لأوليائه وجنده.
593;بد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اس حدیث میں اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب کبھی سفر کا ارادہ فرماتے اور اپنی سواری پر سوار ہو جاتے تو تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہتے اور پھر اس عظیم دعا کو پڑھتے، جس میں متعدد عظیم الشان معانی شامل ہیں۔ چنانچہ اس دعا میں اللہ عز وجل کے محتاجی اور نقائص و عیوب سے پاک و منزہ ہونے کا ذکر کیا گیا، بندے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس و شعور بیدار کیا گیا، اس میں (بندے کی جانب سے اپنے اندر ہر قسم کی) طاقت و قوت کے نہ ہونے کا اعتراف پنہاں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی جانب رجوع کرنے کا اقرار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ سے خیر و بھلائی اور فضل و شرف اورتقویٰ اور اس کے نزدیک محبوب اور مقبول عمل کی توفیق طلب کی جارہی ہے۔ نیز اس میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل و اعتماد کرنےاور تمام امور (کے نتائج) کو اسی کے حوالے و سپرد کر دینے کا معنی پایا جاتا ہے۔ نیز اس میں اپنی جان اور اہل و عیال کے تحفظ، سفر کی محنت و مشقت کو ہلکا کرنے اور اس میں پائے جانے والے برے و بدتر حالات اور نقصانات سے پناہ طلب کرنے کی دعاکے معانی پائے جاتے ہیں کہ(کہیں ایسا نہ ہو کہ) مسافر اپنے سفر سے واپس لوٹے اور اس کو اپنے اہل و عیال یا مال یا اس کی اولاد میں کوئی بدتر منظر و حالت نظر آئے۔
ابن عمر رضی اللہ عنھما نے ایک دوسری روایت میں ذکر کیا کہ نبی ﷺ جب سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ بالا دعا فرماتے اور اس میں یہ دعا اضافہ فرماتے: ”آيِبُونَ“ یعنی ہم رفقا سفر کی جماعت، ”تَائِبُونَ“اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے، ”عَابِدُونَ“ عبادت کرتے ہوئے ”لِرَبِّنَا حَامِدُونَ“ یعنی صحیح سلامت واپس ہونے پر شکرگزار ہیں۔
اور آپ ﷺ جب کبھی کسی اونچے مقام کی جانب چلتے تو ”اللہ اکبر“ کہتے اور اللہ عز وجل کی کبریا کے بالمقابل اپنے تواضع کا اظہار فرماتے اور پھر یہ کلمۂ شہادت پڑھتے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ“ جس میں اس بات کا اقرار پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی الوہیت، اپنی ربوبیت اور اپنے اسما و صفات میں تنہا و یکتا ہے اور وہی صاحب جلال اور اعلی ذات، اپنے اولیا اور اپنے لشکروں کی نصرت و مدد کرنے والی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6003

 
 
Hadith   1145   الحديث
الأهمية: يا معشر المهاجرين والأنصار، إن من إخوانكم قومًا ليس لهم مال، ولا عشيرة، فلْيَضُمَّ أحدكم إليه الرَّجُلَيْنِ أو الثلاثة


Tema:

اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ، تو ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو شریک کر لے۔

عن جابر -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أنه أراد أن يغزو، فقال: «يا معشر المهاجرين والأنصار، إن من إخوانكم قومًا ليس لهم مال، ولا عشيرة، فلْيَضُمَّ أحدكم إليه الرَّجُلَيْنِ أو الثلاثة، فما لأحدنا مِن ظَهْر يَحْمِلُه إلا عُقْبَة كعُقْبَة». يعني: أحدهم، قال: فضَمَمْتُ إليَّ اثنين أو ثلاثة ما لي إلا عُقْبَة كعُقْبَة أحدهم من جَمَلي.

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کا ارادہ کیا تو فرمایا: ”اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ، تو ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو شریک کر لے، تو ہم میں سے بعض کے پاس سواری نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ہم باری باری سوار ہوں“۔ تو میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو لے لیا، میں بھی صرف باری سے اپنے اونٹ پر سوار ہوتا تھا، جیسے وہ ہوتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المعنى: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمر أصحابه -رضي الله عنهم- أن يَتَنَاوَب الرجلان والثلاثة على البعير الواحد حتى يكون الناس كلهم سواء.
605;طلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا کہ دو یا تین لوگ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوں، تاکہ تمام لوگوں کو یکساں سواری کا موقع ملے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6005

 
 
Hadith   1146   الحديث
الأهمية: كانوا يَضْرِبُوننا على الشَّهادة والعَهْد ونحن صغار


Tema:

ہمارے بڑے بزرگ گواہی اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے۔

قال إبراهيم: "كانوا يَضْرِبُونَنا على الشَّهادة والعَهْد ونحن صِغار".

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے بزرگ گواہی اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الأثر على أن بعض السلف يمنعون أولادهم من اعتياد التزام العهد حتى لا يتعرضون لنكثه فيأثموا بذلك، وكذا الأمر بالنسبة للشهادة لئلا يسهل عليهم أمرها.
740;ہ اثر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بعضِ سلف اپنے بچوں کو بکثرت عہد اور وعدہ کرنے سے منع فرماتے تھے تاکہ وہ اس عہد اور وعدے کی خلاف ورزی کے سبب گناہگار نہ ہو جائیں، اسی طرح گواہی کا مسئلہ ہے تاکہ گواہی کے متعلق بچے لاپرواہی نہ برتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6007

 
 
Hadith   1147   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا دخل على من يعوده قال: لا بأس طهور إن شاء الله


Tema:

نبیﷺ جب کسی کی عیادت کے لیے جاتے، تو آپ ﷺ کہتے ”لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“ یعنی فکر کی کوئی بات نہیں، اِن شاء اللہ (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا۔

عن عبدالله بن عباس -رضي الله عنهما- أنّ النبي -صلى الله عليه وسلم- دخلَ على أعرابيٍّ يَعُودُه، وكان إذا دَخَلَ على مَن يَعودُه، قال: «لا بأس؛ طَهُور إن شاء الله».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کی عیادت کرنے کے لیے گئے، اور نبیﷺ جب کسی کی عیادت کے لیے جاتے، تو آپ ﷺ کہتے ”لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“ یعنی فکر کی کوئی بات نہیں، ان شاء اللہ (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل على أعرابي يزوره في مرضه، وكان إذا دخل على مريض يزوره، قال: "لا بأس؛ طهور إن شاء الله"، يعني: لا شدة عليك ولا أذى، وأن يكون مرضك هذا مطهرا ًلذنبك، مكفراً لعيبك، وأيضًا سبباً لرفع الدرجات في العقبى.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے بیمار ہونے پر اس کی عیادت کرنے کے لیے گئے اور نبی ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے، تو کہتے ”لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“ یعنی کوئی سختی اور تکلیف کی بات نہیں اور تمہارا یہ مرض تمہارے گناہوں، عیبوں کو إن شاء اللہ پاک کرنے والا ہو گا، نیز آخرت میں بلندیٔ درجات کا سبب بھی بنے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6009

 
 
Hadith   1148   الحديث
الأهمية: دخلت على النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يوعك فمسسته


Tema:

میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ ﷺ کو سخت بخار تھا۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- قال: دخلتُ على النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- وهو يُوعَكُ، فَمَسَسْتُهُ، فقلتُ: إنّكَ لَتُوعَكُ وَعَكًا شَدِيدًا، فقالَ: «أجَلْ، إنِّي أُوعَكُ كما يُوعَكُ رَجُلانِ منكُم».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ ﷺ کو سخت بخار تھا۔ میں نے آپ ﷺ کو چھو کر دیکھا اور کہا:آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر ابن مسعود -رضي الله عنه- أنه دخل على النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يتألم من شدة المرض، فمد يده فقال له: إنك ليشدد عليك في المرض يا رسول الله، فأخبره أنه يشدد عليه -صلى الله عليه وسلم- في المرض، كما يشدد على الرجلين منا؛ وذلك من أجل أن ينال -صلى الله عليه وسلم- أعلى درجات الصبر.
575;بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب کہ آپ ﷺ شدید بیماری میں مبتلا تھے۔انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر کہا: یا رسول اللہ! بیماری کے دوران آپ پر بہت سخت تکلیف آتی ہے۔ آپ ﷺ نے انھیں بتایا کہ آپ ﷺ کو بیماری کے دوران اتنی سخت تکلیف ہوتی ہے، جتنی ہم میں سے دو آدمیوں کو ہوتی ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے؛ تاکہ آپ ﷺ صبر کے بلند مراتب کو پا سکیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6010

 
 
Hadith   1149   الحديث
الأهمية: دخلنا على خباب بن الأرت رضي الله عنه نعوده وقد اكتوى سبع كيات


Tema:

ہم خبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ کے یہاں ان کی عیادت کے لیے گئے۔انہوں نے (بغرضِ علاج) سات داغ لگوا رکھے تھے۔

عن قيس بن أبي حازم، قال: دخلنا على خباب بن الأرت - رضي الله عنه - نعودُه وقد اكْتَوى سبعَ كَيّات، فقال: إن أصحابنا الذين سَلفوا مضوا، ولم تَنقصهم الدنيا، وإنّا أصبنا ما لا نجد له مَوضعاً إلا التراب ولولا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهانا أن ندعوَ بالموت لدعوتُ به. ثم أتيناه مرة أخرى وهو يبني حائطاً له، فقال: إن المسلم ليُؤجَر في كل شيء يُنفقه إلا في شيء يجعلُه في هذا التراب.

قيس بن حازم رحمہ اللہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہم خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے یہاں ان کی عیادت کے لیے گئے۔ انہوں نے (بغرضِ علاج) سات داغ لگوا رکھے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے ساتھی جو پہلے وفات پا چکے وہ اس حال میں رخصت ہوئے کہ دنیا ان کا اجر و ثواب کچھ نہ گھٹا سکی اور ہم نے (مال و دولت) اتنی پائی کہ جس کے خرچ کرنے کے لیے ہمیں مٹی کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ملتی۔ اگر نبی کریم ﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔ پھر ہم ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو وہ اپنی دیوار بنا رہے تھے۔ انہوں نے کہا: مسلمان کو ہر اس چیز پر ثواب ملتا ہے جسے وہ خرچ کرتا ہے ماسوا اس خرچ کرنے کے جو وہ مٹی پر کرتا ہے (عمارتیں وغیرہ بنواتا ہے۔)

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن خباب بن الأرت -رضي الله عنه- كُوِي سبع كيات ثم جاءه أصحابه يعودونه فأخبرهم أن الصحابة الذين سبقوا ماتوا ولم يتمتعوا بشيء من ملذات الدنيا، فيكون ذلك منقصاً لهم مما أُعدَ لهم في الآخرة. وإنه أصاب مالاً كثيرا ًلا يجد له مكانًا يحفظه فيه إلا أن يبني به، وقال: ولولا أن رسول الله نهانا أن ندعو بالموت لدعوت به، إلا عند الفتن في الدين فيدعو بما ورد. ثم قال: إن الإنسان يؤجر على كل شيء أنفقه إلا في شيء يجعله في التراب يعني: في البناء؛ لأن البناء إذا اقتصر الإنسان على ما يكفيه، فإنه لا يحتاج إلى كبير نفقة، ، فهذا المال الذي يجعل في البناء الزائد عن الحاجة لا يؤجر الإنسان عليه، اللهم إلا بناء يجعله للفقراء يسكنونه أو يجعل غلته في سبيل الله أو ما أشبه ذلك، فهذا يؤجر عليه، لكن بناء يسكنه، هذا ليس فيه أجر.
والنهي الذي جاء عن الكي هو لمن يعتقد أن الشفاء من الكي، أما من اعتقد أن الله عز وجل هو الشافي فلا بأس به، أو ذلك للقادر على مداواة أخرى وقد استعجل ولم يجعله آخر الدواء.
581;دیث میں بیان ہے کہ خباب بن ارت کو سات دفعہ (بطور علاج) داغ لگایا گیا تھا۔ ان کے کچھ دوست احباب ان کی عیادت کو آئے تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ صحابہ جو ان سے پہلے وفات پا چکے ہیں انہوں نے دنیا کی لذات سے کچھ فائدہ اٹھایا ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے ان کے لیے جو آخرت میں اجر و ثواب تیار کر کے رکھا گیا ہے اس میں کچھ کمی ہو۔ جب کہ انہیں بہت زیادہ مال ملا ہے جسے محفوظ کرنے کے لیے انہیں سوائے اس کے کوئی جگہ نہیں ملتی کہ اس سے عمارتیں بنائیں۔ انہوں نے مزید فرمایا: اگر اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا۔ سوائے اس وقت کے جب دین کے سلسلے میں فتنوں میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، اس صورت میں آدمی موت کی دعا کر سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ پھر فرمایا کہ انسان جو کچھ خرچ کرتا ہے اس پر اسے اجر ملتا ہے ماسوا اس خرچ کے جو وہ مٹی پر کرتا ہے یعنی عمارت کی تعمیر پر۔ کیونکہ عمارت کے سلسلے میں اگر انسان صرف بقدر کفایت پر انحصار کر لے تو اسے زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ جب کہ یہ مال جو وہ زائد از ضرورت عمارت پر خرچ کرتا ہے اس پر انسان کو کوئی اجر نہیں ملتا ماسوا اس عمارت کے جسے وہ فقراء کے لئے بناتا ہے تاکہ وہ اس میں سکونت اختیار کریں یا پھر وہ عمارت جس کی آمدن کو وہ اللہ کے راستے میں وقف کر دیتا ہے یا اس طرح کی کوئی عمارت۔ صرف اس صورت میں اسے اجر ملتا ہے۔تاہم ایسی عمارت جسے وہ خود اپنی سکونت کے لیے بنائے اس میں اسے کوئی اجر نہیں ملتا۔
داغ لگوانے کے سلسلے میں جو نہی وارد ہوئی ہے وہ اس شخص کے لئے ہے جو یہ عقیدہ رکھے کہ داغ لگوانے میں شفاء ہے۔ اس کے برعکس جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ شفاء دینے والی ذات اللہ عزوجل کی ہے تو اس کے داغ لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یا پھر یہ ممانعت اس شخص کے لیے ہے جو کسی اور طریقۂ علاج کو اختیار کرنے پر قادر ہو لیکن جلد بازی کرے اور اسے آخری طریقہ علاج کے طور پر استعمال نہ کرے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6011

 
 
Hadith   1150   الحديث
الأهمية: رجلان من أصحاب -محمد صلى الله عليه وسلم- كلاهما لا يألو عن الخير


Tema:

محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے دو آدمی ايسے ہيں جو نيکی ميں پيچھے نہيں رہتے ہیں۔

عن أبي عطية، قال: دخلت أنا ومسروق على عائشة -رضي الله عنها-، فقالَ لها مسروقٌ: رجلانِ من أصحابِ محمدٍ -صلى الله عليه وسلم- كِلاَهُمَا لا يَألُو عَنِ الخَيْرِ؛ أحَدُهُمَا يُعَجِّلُ المَغْرِبَ وَالإفْطَارَ، وَالآخر يؤخِّر المغرب وَالإفْطَارَ؟ فَقَالَتْ: مَنْ يُعَجِّلُ المَغْرِبَ وَالإفْطَار؟ قالَ: عبدُ اللهِ -يعني: ابن مسعود- فقالتْ: هَكذا كانَ رسولُ اللهِ يَصْنَعُ.

ابو عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مسروق نے ان سے عرض کیا: محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے دو آدمی ايسے ہيں جو نيکی ميں پيچھے نہيں رہتے ہیں؛ ان میں سے ایک افطاری میں جلدی کرتا ہے اور نماز مغرب میں بھی جلدی کرتا ہے، اور دوسرا ساتھی افطاری میں تاخیر کرتا ہے اور نماز مغرب میں بھی تاخیر کرتا ہے؟ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ان میں سے وہ کون ہیں جو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اور نماز مغرب بھی جلدی پڑھتے ہیں؟ ابوعطیہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ وہ عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اسی طرح کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو عطية ومسروق أم المؤمنين عائشة -رضي الله عنها- عن رجلين من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أحدهما: يؤخر الفطر ويؤخر صلاة المغرب، والثاني: يعجل الفطر ويعجل صلاة المغرب، أيهما أصوب؟ فقالت عائشة: من هذا؟ أي: الذي يعجل؟ قالوا: ابن مسعود -رضي الله عنه-، فقالت: هكذا كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يفعل، يعني: يعجل الفطر ويعجل صلاة المغرب، فهذه سنة فعلية منه –صلى الله عليه وسلم- تدل على أن الأفضل تقديم الإفطار.
575;بو عطیہ اور مسروق نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے دو آدمی ہیں: ان میں سے ایک ساتھی افطاری میں تاخیر کرتا ہے اور نماز مغرب میں بھی تاخیر کرتا ہے اور دوسرا افطاری میں جلدی کرتا ہے اور نماز مغرب میں بھی جلدی کرتا ہے، ان میں سے کس کا عمل زیادہ درست ہے؟ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت کیا: ان میں سے وہ کون ہیں جو جلدی کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اسی طرح کیا کرتے تھے، يعنی اللہ کے رسول ﷺ افطاری میں جلدی کرتے تھے اور نماز مغرب بھی جلدی پڑھتے تھے۔ يہ اللہ کے رسول ﷺ کی عملی سنت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افطاری ميں جلدی کرنا بہتر وافضل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6013

 
 
Hadith   1151   الحديث
الأهمية: رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي


Tema:

اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: «رَغِمَ أنْفُ رجل ذُكِرْتُ عنْده فلم يُصَلِّ عَلَي».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان أمر مهم وهو وجوب الصلاة على النبي على النبي -صلى الله عليه وسلم-، بحيث دعا -عليه الصلاة والسلام- على من سمع اسمه الكريم ولم يصل عليه أن يلتصق أنفه بالرغام وهو التراب، كناية على هوانه وحقارته لما ترك الصلاة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مع قدرته على ذلك.
575;س حديث ميں ايک بہت ہی اہم بات بیان کی گئي ہے۔ اور وہ نبی ﷺ پر درود بھيجنے کی فرضيت (کا بیان) ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخض کےلیے، جو آپ ﷺ کا با عزت نام سنے اور آپ ﷺ پر درود نہ بھيجے، یہ بد دعا کی ہے کہ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ یہ اس کی حقارت وتوہین سے کنایہ ہے، کیوں کہ اس نے قدرت رکھنے کے باوجود رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے سے گریز کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6014

 
 
Hadith   1152   الحديث
الأهمية: سبوح قدوس رب الملائكة والروح


Tema:

نہايت ہی پاک، بڑا مقدس ہے فرشتوں اور جيريل عليہ السلام کا رب

عن عائشة -رضي الله عنها- أنّ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- كانَ يقول في ركوعه وسجودِه: «سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلاَئِكَةِ وَالرُّوحِ».

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع وسجود میں ”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ“ (نہايت ہی پاک، بڑا مقدس ہے فرشتوں اور جيريل عليہ السلام کا رب) پڑھا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عائشة -رضي الله عنها- قالت كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول في ركوعه وسجوده: "سبوح قدوس رب الملائكة والروح"، يعني: أنت سبوح قدوس، وهذه مبالغة في التنزيه، وأنه جل وعلا سبوح قدوس، "رب الملائكة"، وهم جند الله -عز وجل- عالم لا نشاهدهم، "والروح"، هو جبريل وهو أفضل الملائكة، فينبغي للإنسان أن يكثر في ركوعه وسجوده، من قوله: "سبوح قدوس رب الملائكة والروح".
القدوس من أسماء الله الحسنى، وهو مأخوذ من قدّس، بمعنى: نزّهه وأبعده عن السوء مع الإجلال والتعظيم.
والسبوح من أسماء الله الحسنى، أي المسبَّح.
593;ائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے روايت ہے کہ بے شک اللہ کے رسول ﷺ اپنے رکوع اورسجدوں ميں ”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ“ پڑھا کرتے تھے يعني اے اللہ تو نہايت ہی پاک، بڑا مقدس ہے۔ یہ پاکی بیان کرنے میں مبالغہ ہے، اور یہ کہ اللہ جل وعلا بہت ہی پاکیزہ اور انتہائی مقدس ہے۔ ”فرشتوں کا رب ہے“ فرشتے اللہ کی ايسی فوج ہیں جن کا ہم مشاہدہ نہيں کرتے اور ”روح“ سے مراد جيريل عليہ السلام ہیں جو کہ فرشتوں ميں سب سے افضل ہيں۔ لھٰذا انسان کو چاہيے کہ اپنے رکوع اور سجود ميں کثرت سے ”سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوحِ“ پڑھے۔
”قُدُّوسٌ“ اللہ رب العزت کے اچھے ناموں ميں سے ايک ہے جو کہ قدَّسَ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: اس نے اللہ رب العالمين کی تعظيم اور بڑائی کے ساتھ اسے ہر طرح کی برائی سے پاک قرار ديا
اسی طرح ”سُبُّوحٌ“ بھی اللہ کے اچھے ناموں ميں سے ہے اور اس کا معنی ہے جس کی پاکی بيان کی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6015

 
 
Hadith   1153   الحديث
الأهمية: صوم ثلاثة أيام من كل شهر صوم الدهر كله


Tema:

ہر مہینے کے تین دن کا روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «صَوْمُ ثلاثةِ أيامٍ من كُلِّ شهرٍ صَومُ الدَّهرِ كُلِّه».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین دن کا روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابي الجليل عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قد أخذ بالعزيمة في الصوم وأراد أن يستمر عليها، فأرشده النبي -عليه الصلاة والسلام- أن يصوم من كل شهر ثلاثة أيام؛ لأنه يعدل صيام سنة كاملة في الأجر، وذلك لأن الحسنة بعشرة أمثالها، فتكون ثلاثين يوماً، فإذا صام من كل شهر ثلاثة أيام فكأنه صام الدهر كله.
580;لیل القدر صحابئ رسول عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے مسلسل روزے رکھنے کا پختہ عزم کر لیا اور اس بات کا ارادہ کیا کہ ہمیشہ اس عزم پر قائم رہیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ ہر ماہ کے تین دن روزے رکھیں؛ کیوں کہ یہ تین روزے، اجر و ثواب کے اعتبار سے سال بھر روزے رکھنے کے برابر ہیں۔ یہ اس طرح کہ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیا جاتا ہے اور اس طرح تین دن، تیس کے برابر ہوئے، چنانچہ اگر ہر ماہ کے تین دن روزہ رکھ لے تو گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھ لیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6017

 
 
Hadith   1154   الحديث
الأهمية: ضع يدك على الذي يألم من جسدك


Tema:

تمہارے بدن کے جس حصہ میں درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر۔

عن أبي عبد الله عثمان بن أبي العاص -رضي الله عنه-: أنه شكا إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وَجَعاً، يجده في جسده، فقال له رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ضعْ يدك على الذي يَألم مِن جَسَدِك وقُل: بسم الله ثلاثا، وقُل سبعَ مرات: أعوذُ بعزة الله وقُدرتِه من شَرِّ ما أجد وأُحاذر».

ابو عبد اللہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درد کی شکایت کی جو وہ اپنے جسم میں محسوس کررہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے بدن کے جس حصہ میں درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر (پہلے) تین مرتبہ ”بِسْمِ اللَّهِ“ پڑھو اور (پھر) سات مرتبہ یہ پڑھو ”أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ“ (اللہ کے نام سے میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو میں محسوس کرتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عثمان بن أبي العاص أن النبي -صلى الله عليه وسلم- سأله عثمان أنه يشكو من مرض في جسده، فأمره النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يقول هذا الدعاء: "بسم الله ثلاثاً، ويضع يده على موضع الألم، ثم يقول: أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد وأحاذر"، يقولها سبع مرات، فهذا من أسباب الشفاء أيضاً، فينبغي للإنسان إذا أحس بألم أن يضع يده على موضع هذا الألم، ويقول: بسم الله ثلاثاً أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد وأحاذر، يقولها سبع مرات، إذا قالها موقناً بذلك مؤمناً به، وأنه سوف يستفيد من هذا، فإنه يسكن الألم بإذن الله عز وجل، وهذا أبلغ من الدواء الحسي كالأقراص والشراب والحقن؛ لأنك تستعيذ بمن بيده ملكوت السماوات والأرض الذي أنزل هذا المرض هو الذي يجيرك منه.
وأمره بوضع اليد على موضع الألم إنما هو أمر على جهة التعليم والإرشاد إلى ما ينفع من وضع يد الراقي على المريض ومسحه بها، ولا ينبغي للراقي العدول عنه للمسح بحديد وملح ولا بغيره، فإنه لم يفعله النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا أصحابه.
593;ثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے مرض کی شکایت کی جو ان کے جسم میں موجود تھا نبی ﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا کہ تین دفعہ ”بِسْمِ اللَّهِ“ کہو اپنا ہاتھ درد والی جگہ پر رکھو اور سات مرتبہ”أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ“ پڑھو۔ یہ ان اسباب میں سے ہے جن سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ پس جب انسان درد محسوس کرے تو اسے چاہیے اپنا ہاتھ درد والی جگہ پر رکھے اور تین دفعہ بِسْمِ اللہِ پڑھ کر سات مرتبہ ’’أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ‘‘ پڑھے۔ اگر انسان یقین اور ایمان کے ساتھ اسے پڑھ لے تو عنقریب اس سے مستفید ہوگا اور اللہ کے حکم سے درد ختم ہوجائے گا۔ یہ ظاہری دوا جیسے گولیاں، سیرپ اور حجامہ سے زیادہ پُر اثر ہے۔ اس لیے کہ اس میں آپ اس ذات کی پناہ مانگتے ہیں جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، جس نے یہ بیماری نازل کی ہے اور وہی اس سے بچانے والا ہے۔
آپ ﷺ نے درد کی جگہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا، یہ تعلیم اور ارشاد کے طور پر فرمایا کہ دم پڑھنے والے کا ہاتھ مریض کو چھوئے گا اور اس پر پھیرے گا تو اسے نفع ہوگا۔ دم کرنے والے کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس سے ہٹ کر لوہے، نمک وغیرہ کو مریض کے جسم پر مَلے اس لیے کہ ایسا آپ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6018

 
 
Hadith   1155   الحديث
الأهمية: ليس لك عليه نفقة


Tema:

اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں۔

عن فاطمة بنت قيس- رضي الله عنها- «أن أبا عمرو بن حفص طلقها البَتَّةَ، وهو غائب (وفي رواية: "طلقها ثلاثا")، فأرسل إليها وكيله بشعير، فسخطته. فقال: والله ما لك علينا من شيء. فجاءت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكرت ذلك له، فقال: ليس لك عليه نفقة (وفي لفظ: "ولا سكنى") فأمرها أن تَعْتَدَّ في بيت أم شريك؛ ثم قال: تلك امرأة يَغْشَاهَا أصحابي؛ اعتدي عند ابن أم مكتوم. فإنه رجل أعمى تضعين ثيابك، فإذا حَلَلْتِ فآذِنِيني.
قالت: فلما حللت ذكرت له: أن معاوية بن أبي سفيان وأبا جهم خطباني. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أما أبو جهم: فلا يَضَعُ عصاه عن عاتقه. وأما معاوية: فصعلوك لا مال له. انكحي أسامة بن زيد. فكرهته ثم قال: انكحي أسامة بن زيد. فنكحته، فجعل الله فيه خيرا، واغْتَبَطْتُ به».

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتّہ ( تیسری طلاق) دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھے، (اور ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے تین طلاقیں دے دیں) ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کچھ جَو بھیجے، تو وہ اس پر ناراض ہوئیں، اس (وکیل) نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور یہ بات آپ کو بتائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں“۔ اور آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت گزاریں، پھر فرمایا: ”اس عورت کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے ہیں، تم ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزار لو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم اپنے کپڑے بھی اتار سکتی ہو۔ تم جب عدت گزار لو تو مجھے بتانا۔“ جب میں (عدت سے) فارغ ہوئی، تو میں نے آپ ﷺ سے بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہم دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتے، اور رہے معاویہ تو وہ بہت فقیر ہیں، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو“۔ میں نے اسے ناپسند کیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ”اسامہ سے نکاح کرلو“۔ تو میں نے ان سے نکاح کرلیا، اللہ نے اس میں خیر ڈال دی اور اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کیا جانے لگا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بَتَّ أبو عمرو بن حفص طلاق زوجته فاطمة بنت قيس. وهي آخر طلقة لها منه، والمبتوتة ليس لها نفقة على زوجها، ولكنه أرسل إليها بشعير، فظنت أن نفقتها واجبة عليه ما دامت في العدة، فاستقلت الشعير وكرهته، فأقسم أنه ليس لها عليه شيء.
فشكته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبرها أنه ليس لها نفقة عليه ولا سكنى، وأمرها أن تعتد في بيت أم شريك.
ولما ذكر صلى الله عليه وسلم أن أم شريك يكثر على بيتها تردد الصحابة، أمرها أن تعتد عند ابن أم مكتوم لكونه رجلا أعمى، فلا يبصرها إذا وضعت ثيابها، وأمرها أن تخبره بانتهاء عدتها.
فلما اعتدت خطبها (معاوية) و (أبو جهم) فاستشارت النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك.
بما أن النصح واجب -لا سيما للمستشير- فإنه لم يُشرْ عليها بواحد منهما؛ لأن أبا جهم شديد على النساء ومعاوية فقير ليس عنده مال، وأمرها بنكاح أسامة، فكرهته لكونه مَوْلَى.
و لكنها امتثلت أمر النبي صلى الله عليه وسلم، فقبلته، فاغتبطت به، وجعل الله فيه خيراً كثيراً.
575;بو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمۃ بنت قیسرضی اللہ عنہا کو طلاقِ بتّہ دی، یہ ان کی طرف سے اپنی بیوی کو آخری طلاق تھی۔ اور مبتوتہ (جس عورت کو شوہر نے طلاقِ بتّۃ دی ہو) کے لیے شوہر پر نفقہ واجب نہیں ہوتا، پھر بھی ابوعمرو رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے جَو بھیجا، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ عدت کے دوران ابو عمرو پر ان کا نفقہ واجب ہے، اس لیے انہوں نے اس جَو کو کم سمجھا اور ناپسند کیا۔ وکیل نے قسم کھائی ہم پر آپ کا کوئی حق لازم نہیں ہے۔
چنانچہ انھوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ ابو عمرو پر تمہارا نہ تو نفقہ (خرچ) ہے اور نہ ہی رہائش کی ذمہ داری ہے، اور انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر میں عدت گزاریں۔
جب نبی ﷺ کو یہ بات یاد آئی کہ ام شریک کے یہاں تو صحابہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے تو انہیں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں عدت گزارنے کو کہا کیوں کہ وہ نابینا ہیں، ان کا اپنے کپڑے نکال رکھنے کو نہیں دیکھیں گے، اور انہیں یہ حکم دیا کہ عدت کے ختم ہوجانے پر آپ ﷺ کو خبر دیں۔
جب انھوں نے اپنی عدت گزار لی تو معاویہ اور اور ابو جہم رضی اللہ عنہما نے انھیں نکاح کا پیغام بھیجا چنانچہ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ چوں کہ جس سے مشورہ لیا جائے اُسے مشورہ لینے کے حق میں خیر خواہ ہونا چاہیے اس لیے آپ ﷺ نے دونوں میں کسی سے بھی شادی کرنے کا مشورہ نہیں دیا اس لیے ابوجہم عورتوں پر بہت سخت گیر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ فقیر تھے اُن کے پاس مال نہیں تھا، اس لیے آپ ﷺ نے انھیں اسامہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا جسے پہلی دفعہ انھوں نے ناپسند کیا، اس لیے کہ اسامہ ایک آزاد کردہ غلام تھے، تاہم انھوں نے نبی ﷺ کا حکم مانتے ہوئے اس رشتے کو بالآخر منظور کر لیا، جس کی برکت کے نتیجہ میں (لوگ) ان پر رشک کرنے لگے، اور اللہ تعالی نے ان (کے نکاح) میں خیرِ کثیر رکھ دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6020

 
 
Hadith   1156   الحديث
الأهمية: إن أحق الشروط أن توفوا به: ما استحللتم به الفروج


Tema:

وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

عن عقبة بن عامر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن أحَقَّ الشُّروط أن تُوفُوا به: ما استحللتم به الفروج».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لكل واحد من الزوجين مقاصد وأغراض في إقدامه على عقد النكاح، فيشترط على صاحبه شروطًا ليتمسك بها ويطلب تنفيذها، وتسمى الشروط في النكاح، وهي زائدة على شروط النكاح التي لا يصح بدونها.
وجاء التأكيد على الوفاء بها؛ لأن الشروط في النكاح عظيمة الحرمة قوية اللزوم؛ لكونها استحق بها استحلال الاستمتاع بالفروج.
606;کاح کی طرف اقدام کرنے میں میاں بیوی کے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شرائط طے کرتا ہے، تاکہ وہ اس کو پورا کرے اور ان پر عمل کرے۔ ان شروط کے علاوہ جو عقدِ نکاح کے مقتضیات میں سے ہوتی ہیں۔
اس لیے کہ نکاح کی شرائط بہت ہی محترم ہوتی ہیں اور ان کا پورا کرنا لازمی ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے ذریعے انسان شرمگاہ سے فائدہ اٹھانے کو حلال کرتا ہے۔ صاحبِ شریعت، حکمت والی دانا اور عادل ذات نے اسے پورا کرنے پر زور دیا۔ اس لیے کہ جو شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے قابل ہیں وہ ایسی شرطیں ہے جن کے ذریعے انسان شرمگاہ کو حلال کیا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6021

 
 
Hadith   1157   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أعتق صفية، وجعل عتقها صداقها


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے صفیّہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرکے ان کی آزادی کو ان کا مہر بنا دیا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أعتق صفية، وجعل عِتْقَهَا صَدَاقَهَا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیّہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرکے ان کی آزادی کو ان کا مہر بنا دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت صفية بنت حُيي -وهو أحد زعماء بنى النضير- زوجة كنانة بن أبي الحقيق، فقتل يوم خيبر، وفتح النبي -صلى الله عليه وسلم- خيبر، وصار النساء والصبيان أرقاء للمسلمين، ومنهم صفية، ووقعت في نصيب دِحْيةَ بن خليفة الكلبي -رضي الله عنه-، فعوضه عنها غيرها واصطفاها لنفسه، جبراً لخاطرها، ورحمة بها لعزها الذاهب.
ومن كرمه إنه لم يكتف بالتمتع بها أمة ذليلة، بل رفع شأنها، بإنقاذها من ذُل الرقِّ، وجعلها إحدى أمهات المؤمنين،
لأنه أعتقها، وتزوجها، وجعل عتقها صداقها.
589;فیہ بنت حُيی کے والد بنو نضیر کے سردار تھے۔ ان کی بیٹی صفیّۃ كنانة بن ابی حقيق کی بیوی تھیں۔ ان کا شوہر خیبر کی لڑائی میں مارا گیا اور آپ ﷺ نے خیبر کو فتح کر لیا۔ عورتیں اور بچے مسلمانوں کے غلام بن گئے۔ ان میں صفیۃ بھی تھیں۔ وہ دِحیہ بن خلیفہ الكلبي رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں۔ آپ ﷺ نے انھیں صفیہ کے بدلے میں دوسری باندی دے دی اور ان (صفیہ) کی دل دہی نیز شوہر کے انتقال پر شفقت کا برتاؤ کرتے ہوئے انھیں اپنے لیے چن لیا۔
آپ ﷺ کی شرافت و احسان مندی تھی کہ آپ نے انھیں ایک حقیر باندی کی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھایا؛ بلکہ غلامی کی ذلت سے بچایا۔ عزت افزائی کی اور امہات المؤمنین میں شامل کر لیا۔ اس لیے کہ آپ نے انہیں آزاد کرکے ان سے شادی کی اور آزادی ہی کو ان کا مہر بنایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6022

 
 
Hadith   1158   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من تمر أو زرع


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں سے کھجور اور غلہ کی نصف پیداوار کے بدلے (بٹائی کا) معاملہ کیا۔

عن عبدالله بن عمر -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عامل أهل خيبر بِشَطْرِ ما يخرج منها من ثَمَرٍ أو زرع.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں سے کھجور اور غلہ کی نصف پیداوار کے بدلے (بٹائی کا) معاملہ کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بلدة خيبر بلدة زراعية، كان يسكنها طائفة من اليهود.
فلما فتحها النبي -صلى الله عليه وسلم- في السنة السابعة من الهجرة، وقسم أراضيها ومزارعها بين الغانمين، وكانوا مشتغلين عن الحراثة والزراعة بالجهاد في سبيل الله والدعوة إلى الله -تعالى-، وكان يهود "خيبر" أبصر منهم بأمور الفلاحة أيضاً، لطول معاناتهم وخبرتهم فيها، لهذا أقر النبي -صلى الله عليه وسلم- أهلها السابقين على زراعة الأرض وسقْي الشجر، ويكون لهم النصف، مما يخرج من ثمرها وزرعها، مقابل عملهم، وللمسلمين النصف الآخر، لكونهم أصحاب الأصل.
582;یبر کا شہر کاشتکاری کا شہر تھا، کچھ یہودی اس میں آباد تھے۔
جب آپ ﷺ نے سن سات (7) ہجری میں خیبر کو فتح کیا اور اس کی زمینیں اور کھیتیاں غنیمت حاصل کرنے والوں کے درمیان تقسیم کردیں، مسلمان کھیتی باڑی اور زراعت کے بجائے اللہ کے راستے میں جہاد اور دعوت وتبلیغ میں مصروف تھے اور خیبر کے یہودی ایک طویل عرصے سے مشقت اٹھانے اور تجربے کی وجہ سے زراعت کے کاموں کو زیادہ بہتر جانتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے خیبر کے گزشتہ مالکوں کو اسی زراعت اور درختوں کی دیکھ بال پر قائم رکھا، اس شرط پر کہ وہ اپنے کام کے عوض آدھے پھل اور کھیتی کی پیداوار میں سے آدھی پیداوار لیں گے اور دوسرا نصف حصہ اصل مالک ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو دیں گے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6023

 
 
Hadith   1159   الحديث
الأهمية: أن رجلا رمى امرأته، وانتفى من ولدها في زمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأمرهما رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فتلاعنا، كما قال الله تعالى، ثم قضى بالولد للمرأة، وفرق بين المتلاعنين


Tema:

ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور اس کے بچہ کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دیا تو نبی کریم ﷺ نے دونوں کو حکم دیا تو ان دونوں نے لعان کیا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے بیٹے کا فیصلہ عورت کے حق میں کیا اور دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کرا دی۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنها-: أن رجلا اتهم امرأته بالزنا، ونفى كون ولدها منه في زمن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأمرهما رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فتلاعنا، كما قال الله تعالى، ثم قضى بالولد للمرأة، وفرق بين المتلاعنين

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور اس کے بچہ کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دیا تو نبی کریم ﷺ نے دونوں کو حکم دیا تو ان دونوں نے لعان کیا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے بیٹے کا فیصلہ عورت کے حق میں کیا اور دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کرا دی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يروي عبد الله بن عمر -رَضيَ الله عنهما-: أن رجلًا قذف زوجته بالزنا، وانتفى من ولدها، وبرئ منه فكذبته في دعواه ولم تُقِرَّ على نفسها.
فتلاعنا، بأن شهد الزوج بالله -تعالى- أربع مرات أنه صادق في قذفها، ولعن نفسه في الخامسة.
ثم شهدت الزوجة بالله أربع مرات أنه كاذب، ودعت على نفسها بالغضب في الخامسة.
فلما تمَّ اللعان بينهما، فرق بينهما النبي -صلى الله عليه وسلم- فرقة دائمة، وجعل الولد تابعا للمرأة، منتسبا إليها، منقطعا عن الرجل، غير منسوب إليه.
575;س حدیث میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی اور اس کے بچے کے نسب کا انکار کیا اور اس سے براءت ظاہر کی، عورت نے اس کے دعوے میں اس کی تکذیب کی اور زنا کا اقرار نہیں کیا۔
دونوں نے لعان کیا یعنی شوہر نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر چار مرتبہ یہ کہا کہ وہ اس تہمت لگانے میں سچا ہے اور پانچویں دفعہ اپنے اوپر لعنت کی۔ پھر بیوی نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر چار مرتبہ کہا کہ شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے غصے کا دعویٰ کیا۔
جب ان کے درمیان لعان پوری ہوگئی، تو اللہ کے نبی ﷺ نے ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی کرا دی اور بچے کا نسب عورت سے ثابت کرتے ہوئے اس کے تابع بنایا اور مرد سے نسب ختم کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6024

 
 
Hadith   1160   الحديث
الأهمية: لا سبيل لك عليها، قال: يا رسول الله، مالي؟ قال: لا مال لك: إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت فهو أبعد لك منها


Tema:

تمہارا اب اس عورت پر کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو وه تمہارے اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے بدلے ميں ہے اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو وہ (مال) تمہارے ليے اس عورت سے اور بھی زيادہ دور ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «أن فلان بن فلان قال: يا رسول الله، أرأيت أن لو وجد أحدنا امرأته على فاحشة، كيف يصنع؟ إن تكلم تكلم بأمر عظيم، وإن سَكَتَ سَكَتَ على مثل ذلك.
قال: فسكت النبي -صلى الله عليه وسلم- فلم يُجبه.
فلما كان بعد ذلك أتاه فقال: إن الذي سألتك عنه قد ابتليت به. فأنزل الله -عز وجل- هؤلاء الآيات في سورة النور ?والذين يرمون أزواجهم...? فتلاهن عليه ووعظه وذكره. وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة. فقال: لا، والذي بعثك بالحق، ما كذبتُ عليها. ثم دعاها، فوعظها، وأخبرها: أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة. فقالت: لا، والذي بعثك بالحق، إنه لكاذب. فبدأ بالرجل؛ فشهد أربع شهادات بالله: إنه لمن الصادقين، والخامسة: أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين. ثم ثَنَّى بالمرأة. فشهدت أربع شهادات بالله: إنه لمن الكاذبين، والخامسة: أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين. ثم فرق بينهما.
ثم قال: إن الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب؟ -ثلاثا-»، وفي لفظ «لا سبيل لك عليها. قال: يا رسول الله، مالي؟ قال: لا مال لك: إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت فهو أبعد لك منها».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: فلان بن فلان نے كہا: اے اللہ کے رسول! یہ بتائیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کرتا ہوا پا لےتو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اگر وہ کچھ بولے گا تو اس کا بولنا بہت بڑی بات ہو گی اور اگر چپ رہے گا تو اتنی ہی بری بات پر خاموش رہے گا؟
راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا۔
بعد ازاں وہ شخص دوبارہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے جو بات آپ سے پوچھی تھی میں خود اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ اس پر اللہ عز و جل نے سورۂ نور کی یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُم...الخ﴾ ”جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں...مکمل آیت“ آپ ﷺ نے یہ آیات اس کے سامنے تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کیا اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ (اس لیے اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو تسلیم کرلو اور تہمت کی سزا برداشت کر لو)۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں نے اس پر بہتان نہیں لگایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس عورت کو بلایا اور اسے نصیحت کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ وہ کہنے لگی: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! یہ شخص جھوٹا ہے۔ آپ ﷺ نے مرد سے شروع کیا اور اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر چار دفعہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں دفعہ اس نے کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی چار دفعہ اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے گواہی دی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ اس نے کہا کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان دونوں کے مابین جدائی کرا دی۔
پھرفرمایا: اللہ تعالی جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنا چاہتا ہے؟ آپ ﷺ نے ایسا تین دفعہ فرمایا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: تمہارا اب اس عورت پر کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو وه تمہارے اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے بدلے ميں ہے اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو وہ (مال) تمہارے ليے اس عورت سے اور بھی زيادہ دور ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء الإسلام باللعان ليكون حلًّا لمشكلة اجتماعية، وهي إذا رأى الزوج من يفعل الفاحشة بزوجته وليس له شهود، فإنه يلجأ إلى اللعان، ولكن ليس في حال الشك والوساوس، بل إذا رأى بعينه، فإن الوعيد في اللعان عظيم، وصاحب هذه القصة كأنه أحسَّ من زوجه ريبةً، وخاف أن يقع منها على فاحشة، فحار في أمره، لأنه إن قذفها ولم يأت ببينة، فعليه الحد، وإن سكت فهي الدياثة والعار، وأبدى هذه الخواطر للنبي -صلى الله عليه وسلم-، فلم يجبه كراهة لسؤال قبل أوانه، ولأنه من تعجل الشر والاستفتاح به، بالإضافة إلى أن الرسول -صلى الله عليه وسلم- لم ينزل عليه في ذلك شيء.
بعد هذا رأى هذا السائل الفاحشة التي خافها فأنزل الله في حكمه وحكم زوجه، هذه الآيات من سورة النور {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أزواجهم} (النور: 60) الآيات.
فَتلاهن عليه النبي -صلى الله عليه وسلم-، وذكَّره ووعظه إن كان كاذبا في قذفه لامرأته بأن عذاب الدنيا -وهو حَد القذف- أهون من عذاب الآخرة.
فأقسم أنه لم يكذب بِرَمْيهِ امرأته بالزنا.
ثم وعظ الزوجة كذلك وأخبرها أن عذاب الدنيا -وهو حدُّ الزنا بالرَّجم- أهون من عذاب الآخرة.
فأقسمت أيضا: إنه لمن الكاذبين.
حينئذ بدأ النبي -صلى الله عليه وسلم- بما بدأ الله به، وهو الزوج، فشهد أربع شهادات بالله: إنه لمن الصادقين فيما رماها به، وفي الخامسة أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين.
ثم ثنى بالمرأة، فشهدت أربع شهادات بالله، إنه لمن الكاذبين، والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين في دعواه. ثم فرق بينهما فرقة مؤبدة.
وبما أن أحدهما كاذب، فقد عرض عليهما النبي -صلى الله عليه وسلم- التوبة.
فطلب الزوج صداقه، فقال: ليس لك صداق، فإن كنت صادقًا في دعواك زناها، فالصداق بما استحللت من فرجها، فإن الوطء يقرر الصداق.
وإن كنت كاذبا عليها، فهو أبعد لك منها، إذ رميتها بهذا البهتان العظيم.
575;سلام نے لعان کو ایک معاشرتی مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے مشروع کیا ہے، اور وه مسئلہ یہ ہے کہ اگر شوہر كسی کو دیکھےكہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر رہا ہے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو وہ لعان کا سہارا لے گا۔ لیکن محض شک اور وسوسے کی صورت میں وہ ایسا نہیں کرے گا، بلکہ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ اس لیے کہ لعان کے بارے میں بڑی وعید آئی ہے۔ جس شخص کا یہ قصہ ہے اسے گویا اپنی بیوی کی حالت مشکوک ومشتبہ محسوس ہوئی اور اسے اندیشہ لاحق ہوا کہ اس سے بدکاری کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے معاملے میں تذبذب کا شکار ہوگیا۔ کیونکہ اس پر تہمت لگانے کی صورت میں اگر وہ گواہ نہ لا سکا تو اس پر حد لاگو ہوتی اور اگر چپ رہتا تو یہ دیوثیت اور باعث عار بات تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے ان خیالات کا اظہار نبی ﷺ کے سامنے کیا۔ آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ آپ ﷺ کو یہ ناپسند تھا کہ کسی شے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کے بارے میں پوچھا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہ برائی میں جلدی کرنے اور اس کی ابتداء کرنے کی قبیل سے تھا اور مزید یہ کہ نبی ﷺ پر اس معاملے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔
بعدازاں اس سائل کو اپنی بیوی سے جس زنا کا اندیشہ تھا اسے اس نے دیکھ لیا تو اس کے حکم اور اس کی بیوی کے حکم کے بارے میں اللہ تعالی نے سورۂ نور کی یہ آیات نازل فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُم﴾ ”جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں“ (النور: 60)۔ نبی ﷺ نے ان آیات کو اس شخص پر تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کی کہ اگر وہ اپنی بیوی پر تہمت لگانے میں جھوٹا ہے تو جان لے کہ دنیا کا عذاب - جو کہ حدِ قذف ہے -، آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔
اس شخص نے قسم اٹھائی کہ اس نے اپنی بیوی پر زنا کا جھوٹا الزام نہیں لگایا۔
پھر آپ ﷺ نے اس کی بیوی کو بھی نصیحت فرمائی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب - جو کہ حدِ زنا یعنی رجم ہے - وہ آخرت کےعذاب سے ہلکا ہے۔
اس نے بھی قسم اٹھائی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے۔
اس پر نبی ﷺ نے دونوں میں سے اس سے ابتدا کی جس سے اللہ نے ابتدا کی ہے یعنی شوہر سے۔ چنانچہ اس نے چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ اس نے اس عورت پر جو الزام لگایا ہے اس میں وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں اس نے کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
پھر آپ ﷺ عورت کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے بھی چار دفعہ اللہ کی قسم اٹھا کر گواہی دی کہ وہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں اس نے کہا کہ اگروہ اپنے دعوے میں سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان دونوں کے مابین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدائی کرا دی۔
چوں کہ ان میں سے ایک جھوٹا تھا اس لیے نبی ﷺ نے انہیں توبہ کرنے کی پیش کش کی۔
شوہر نے اپنا حق مہر طلب کیا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تمہیں حق مہر واپس نہیں ملے گا۔ اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو کہ اس عورت نے زنا کیا ہے تو یہ حق مہر تمہارا اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے عوض ہو جائے گا کیونکہ وطی سے حق مہر ثابت ہو جاتا ہے۔
اور اگر تم نے اس پر جھوٹا الزام دھرا ہے تو پھر حق مہر تمہاری دسترس سے اس عورت سے اور بھی زیادہ دور ہے کیونکہ تم نے اس پر یہ بہتان عظیم لگایا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6025

 
 
Hadith   1161   الحديث
الأهمية: دخل علي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعندي رجل، فقال: يا عائشة، من هذا؟ قلت: أخي من الرضاعة، فقال: يا عائشة: انظرن من إخوانكن؟ فإنما الرضاعة من المجاعة


Tema:

رسول الله ﷺ میرے پاس تشریف لائے، جب کہ میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اے عائشہ! یہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بات کو دیکھ بھال لیا کرو کہ تمھارا رضاعی بھائی کون ہو سکتا ہے؟ رضاعت کا تعلق بھوک کے ساتھ ہے۔

عن عائشة- رضي الله عنها- قالت: «دخل علي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وعندي رجل، فقال: يا عائشة، من هذا؟ قلت: أخي من الرضاعة، فقال: يا عائشة: انظرن من إخوانكن؟ فإنما الرضاعة من المجاعة».

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ میرے پاس تشریف لائے، جب کہ میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اے عائشہ! یہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بات کو دیکھ بھال لیا کرو کہ تمھارا بھائی کون ہو سکتا ہے؟۔ رضاعت کا تعلق بھوک کے ساتھ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل النبي -صلى الله عليه وسلم- على عائشة، فوجد عندها أخاها من الرضاعة -وهو لا يعلم عنه- فتغير وجهه -صلى الله عليه وسلم-، كراهةً لتلك الحال، وغَيْرَةً على محارمه.
فعلمت السببَ الذي غيَّر وجهه، فأخبرته: أنه أخوها من الرضاعة.
فقال: يا عائشة انظرْن وتثبتنَ في الرضاعة، فإن منها ما لا يسبب المحرمية، فلا بد من رضاعة ينبت عليها اللحم وتشتد بها العظام، وذلك أن تكون من المجاعة، حين يكون الطفل محتاجا إلى اللبن، فلا يتقوت بغيره، فيكون حينئذ كالجزء من المرضعة، فيصير كأحد أولادها، فّتثبت المحرمية، والمحرمية أن يكون محرمًا للمرضعة وعائلتها، فلا تحتجب عنه، ويخلو بها، ويكون محرمها في السفر، وهذا يشمل المرضعة وزوجها صاحب اللبن، وأولادهما وإخوانهما وآباءهما وأمهاتهما.
606;بی ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، تو دیکھا کہ ان کے پاس ان کا رضاعی بھائی بیٹھا ہوا ہے، -جسے آپ ﷺ نہیں جانتے تھے-۔ اس صورت حال کی ناپسندیدگی اور اپنی محرم عورتوں پر غیرت کی وجہ سے آپ ﷺ کا چہرۂ انور متغیر ہو گیا۔
عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کے متغیر ہونے کا سبب جان کر آپ ﷺ کو بتایا کہ وہ ان کا رضاعی بھائی ہے۔
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: رضاعت کے معاملے میں خوب غور اور تحقیق کر لیا کرو۔ رضاعت بسا اوقات ایسی ہوتی ہے، جس سے عورت مرد کی محرم نہیں بنتی۔ رضاعت ایسی ہونی چاہیے کہ اس کی وجہ سے گوشت پیدا ہو اور ہڈیوں کو مضبوطی ملے اور ایسا تب ہی ہوتا ہے، جب رضاعت بھوک مٹانے کا کام کرتی ہو، جب بچے کو دودھ کی ضرورت ہو اور وہ کسی اور شے کو بطور غذا استعمال نہ کرتا ہو۔ ایسے میں بچہ دودھ پلانے والی عورت کے جز کی اور اس کے کسی اولاد کی طرح ہوجاتا ہے اور اس سے محرمیت پیدا ہوجاتی ہے۔ محرمیت سے مراد یہ ہے کہ بچہ دودھ پلانے والی عورت اور اس کے اہل خانہ کے لیے محرم بن جاتا ہے۔ چنانچہ دودھ پلانے والی عورت اس سے پردہ نہیں کرتی۔ دودھ پینے والا اس کے ساتھ تنہائی میں بھی بیٹھ سکتا ہے اور سفر میں بطور محرم اس کے ساتھ جا سکتا ہے۔ اس میں دودھ پلانے والی عورت، اس کا وہ شوہر جس کی وجہ سے اس کا دودھ اترا ہو، ان کی اولاد، ان کے بھائی اور ان کے باپ اور مائیں سب شامل ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6027

 
 
Hadith   1162   الحديث
الأهمية: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فلا تختلفوا عليه، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون


Tema:

امام اس لیے بنایاجاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے اس کی مخالفت نہ کرو۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو، جب رکوع کرے تو رکوع کرو، جب ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے تو کہو: ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنما جُعِلَ الإمام ليِؤُتَمَّ به، فلا تختلفوا عليه، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد. وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے چنانچہ اس کی مخالفت نہ کرو۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو، جب رکوع کرے تو رکوع کرو، جب ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہتے تو کہو: ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- المأمومين إلى الحكمة من جعل الإمام وهي أن يقتدي به المصلون في صلاتهم، ولا يختلفون عليه بعمل من أعمال الصلاة، وإنما تراعى تَنَقلاته بنظام فإذا كبر للإحرام، فكبروا أنتم كذلك، وإذا رَكع فاركعوا بعده، وإذا ذكركم أن الله مجيب لمن حمده بقوله: "سمع الله لمن حمده" فاحمدوه -تعالى- بقولكم:
"ربنا لك الحمد"، وكذلك ما ورد من صيغ أخرى مثل: "ربنا ولك الحمد" "اللهم ربنا ولك الحمد" "اللهم ربنا لك الحمد"، وإذا سجد فتابعوه واسجدوا، وإذا صلى جالساً لعجزه عن القيام -فتحقيقاً للمتابعة- صلوا جلوساً، ولو كنتم قادرين على القيام.
606;بی ﷺ مقتدیوں کو امام متعین کرنے کی حکمت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ حکمت یہ ہے کہ نمازی اپنی نماز میں امام کی پیروی کریں اور نماز کے کسی بھی عمل میں اس کی مخالفت نہ کریں۔ منظم انداز میں امام کی حرکات کا خیال رکھے۔ بایں طور کہ جب وہ تکبیر تحریمہ کہے تو تم بھی اسی طرح تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو اس کے پیچھے تم بھی رکوع کرو، جب وہ ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہہ کر تمہیں یاد دلائے کہ اللہ کی ذات اس شخص کی بات سنتی ہے، جو اس کی حمد کرتا ہے، تو اس پر تم ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہتے ہوئے اس کی حمد بیان کرو۔ یا اس کی جگہ پر حدیثوں میں وارد ہونے والے دیگر الفاظ کہو۔ جیسے: ”رَبَّنَا ولَكَ الْحَمْدُ“، ”اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ اور ”اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ“۔ جب وہ سجدہ کرے، تو اس کی اتباع میں تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ کسی وجہ سے کھڑا ہونے سے عاجز ہو اور بیٹھ کر نماز پڑھے، تو تم بھی اس کی پیروی میں بیٹھ کر ہی نماز پڑھو، اگرچہ تم کھڑے ہونے کی قدرت بھی رکھتے ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6029

 
 
Hadith   1163   الحديث
الأهمية: كانت المرأة إذا توفي عنها زوجها: دخلت حفشا، ولبست شر ثيابها، ولم تمس طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة -حمار أو طير أو شاة- فتفتض به!


Tema:

(زمانہ جاہلیت میں) جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں چلی جاتی،اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنتی، وہ نہ خوشبو لگاتی اورنہ ہی زیب وزینت کی کوئی اور چیز استعمال کرتی یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ایک سال گزر جاتا۔ پھر کسی جانور - گدھے، یا پرندے یا بکری - کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ اس کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی

عن أم سلمة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «جاءت امرأة إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقالت: يا رسول الله، إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها أفَنَكْحُلُها؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: لا -مرتين، أو ثلاثا-، ثم قال: إنما هي أربعة أشهر وعشر، وقد كانت إحداكن في الجاهلية ترمي بالبَعْرَةِ على رأس الحول».
فقالت زينب: كانت المرأة إذا توفي عنها زوجها: دخلت حفشا، ولبست شر ثيابها، ولم تَمَسَّ طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة -حمار أو طير أو شاة- فتَفْتَضُّ به! فقلما تفتض بشيء إلا مات! ثم تخرج فتُعطى بعرة؛ فترمي بها، ثم تراجع بعد ما شاءت من طيب أو غيره».

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میری بیٹی کا خاوند وفات پا گیا ہے اور اس کی آنکھ دکھتی ہے، کیا ہم اس کی آنکھ میں سر مہ لگا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، آپ ﷺ نے ایسا دو یا تین دفعہ کہا، اور پھر فرمایا: ”یہ صرف چار ماہ اور دس دن ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں تو تم عورتيں سال کے اختتام پر مینگنی پھینکا کرتی تھيں“۔ زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: (زمانہ جاہلیت میں) جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں چلی جاتی،اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنتی، وہ نہ خوشبو لگاتی اورنہ ہی زیب وزینت کی کوئی اور چیز استعمال کرتی یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ایک سال گزر جاتا۔ پھر کسی جانور - گدھے، یا پرندے یا بکری - کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ (عدت سے باہر آنے کے لیے) اس کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ جس سے اپنا جسم رگڑتی تھی وہ مر نہ جائے! پھر وہ باہر آتی اور اسے ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اس کے بعد وہ خوشبو یا جو بھی شے چاہتی استعمال کرتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء الإسلام وأزال عن الناس أعباء الجاهلية، وخاصة المرأة، فقد كانوا يسيئون معاملتها ويظلمونها، فحفظ الإسلام حقها.
ففي هذا الحديث جاءت امرأة تستفتي النبي صلى الله عليه وسلم، فتخبره أن زوج ابنتها توفي، فهي حاد عليه، والحادُّ تجتنب الزينة، ولكنها اشتكت وجعا في عينيها فهل من رخصة لها في استعمال الكحل؟
فقال صلى الله عليه وسلم: لا- مكرراً ذلك، مؤكدا.
ثم قلَّل صلى الله عليه وسلم المدة، التي تجلسها حادًّا لحرمة الزوج وهي أربعة أشهر وعشرة أيام، أفلا تصبر هذه المدة القليلة التي فيها شيء من السعة.
وكانت النساء في الجاهلية، تدخل الحاد منكن بيتًا صغيراٍ كأنه جحر وحش، فتتجنب الزينة، والطيب، والماء، ومخالطة الناس، فتراكم عليها أوساخها وأقذارها، معتزلة الناس، سنة كاملة.
فإذا انتهت منها أعطيت بعرة، فرمت بها، إشارة إلى أن ما مضى عليها من ضيق وشدة وحرج لا يساوي -بجانب القيام بحق زوجها- هذه البعرة.
فجاء الإسلام فأبدلهن بتلك الشدة نعمة، وذلك الضيق سعة، ثم لا تصبر عن كحل عينها، فليس لها رخصة، لئلا تكون سُلَّماً إلى فتح باب الزينة للحادِّ.
575;سلام نے آ کر لوگوں کو بارِ جاہلیت سے چھٹکارا دلایا، خاص طور پر عورت کو۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ عورت کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے اور اس پر ظلم ڈھاتے تھے۔چنانچہ اسلام نے عورت کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا۔
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ سے ایک مسئلہ میں شرعی حکم دریافت کرنے کے لئے آئی۔ اس نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اس کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا اور وہ اس کی وفات پر سوگ میں بیٹھی ہے۔ سوگ میں بیٹھی عورت زیب و زنیت سے گریز کرتی ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں درد ہے۔ تو کیا اس کے لیے سرمہ استعمال کرنے کی رخصت ہے؟
آپ ﷺنے فرمایا: نہیں۔ آپ ﷺ نے بطور تاکید بار بار ایسا فرمایا۔
پھر آپ ﷺ نے اس مدت میں کمی فرما دی جس میں عورت کا اپنے خاوند کی حرمت کے پیش نظر سوگ میں بیٹھنا ضروری ہے، اور وہ چار ماہ اور دس دن ہیں۔ تو کیا وہ اس تھوڑی سی مدت بھی صبر نہیں کر سکتی جس میں کچھ آسانی ہے۔
حالانکہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا یہ حال تھا کہ تم میں سے جو عورت سوگ میں ہوتی وہ جنگلی جانور کی بل کی طرح کے ایک چھوٹے سے گھر میں گھس جاتی اور زیب و زینت، خوشبو، پانی کے استعمال اور لوگوں کے ساتھ میل جول سے گریز کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے اس پر تہ در تہ میل کچیل اور گندگیاں جم جاتیں۔ وہ پورے ایک سال لوگوں سے الگ تھلگ رہتی۔
جب اس سے وہ فارغ ہوتی تو اسے ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینک دیتی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ اس پر جو تنگی و سختی اور پریشانی آئی ہے وہ خاوند کے حق کے مقابلے میں اس مینگنی کے بھی برابر نہیں۔
اسلام نے آکر اس سختی کو ان کے لیے نعمت اور تنگی کو کشادگی میں بدل دیا۔ کیا اب وہ اپنی آنکھ میں سرمہ لگانے سے صبر نہیں کر سکتی۔ چنانچہاس کے لیے کوئی رخصت نہیں تاکہ کہیں سوگ پر بیٹھی عورت کے لیے اس کی وجہ سے زیب و زینت کا دروازہ نہ کھل جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6030

 
 
Hadith   1164   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، إني أصبت أرضا بخيبر، لم أصب مالا قط هو أنفس عندي منه، فما تأمرني به؟ فقال: إن شئت حبست أصلها، وتصدقت بها


Tema:

اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے خیبر میں ایسی زمین ملی ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا اور میرے نزدیک وہ سب سے محبوب چیز ہے۔ آپ مجھے اس بارے میں کیا حکم دیتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنے پاس روک رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کردو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «قد أصاب عمر أرضًا بخيبر. فأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- يستأمره فيها. فقال: يا رسول الله، إني أصبت أرضًا بخيبر، لم أُصِبْ مالًا قَطُّ هو أنفس عندي منه، فما تأمرني به؟ فقال: إن شِئْتَ حَبَّسْتَ أصلها، وتصدقت بها.
قال: فتصدق بها، غير أنه لا يُباع أصلها، ولا يوهب، ولا يورث.
قال: فتصدق عمر في الفقراء، وفي القربى، وفي الرقاب، وفي سبيل الله، وابن السبيل، والضيف. لا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف، أو يطعم صديقًا، غير مُتَمَوِّلٍ فيه»، وفي لفظ: «غير مُتَأثِّلٍ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر میں زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کے پاس اس کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوئے اورعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے خیبر میں ایسی زمین ملی ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا اور میرے نزدیک وہ سب سے محبوب چیز ہے۔آپ ﷺ مجھے اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنے پاس روک رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کردو‘‘ ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اس شرط پر وقف کیا کہ اس کی ملکیت نہ فروخت کی جائے نہ خریدی جائے اور نہ میراث بنے اور نہ ہبہ کی جائے۔ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فقرا اور رشتہ داروں اور غلام آزاد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں میں، مہمانوں میں صدقہ کردیا اور جو اس کا منتظم ہو وہ اس میں سے نیکی کے ساتھ (جائز بھر) کھائے یا اپنے دوستوں کو کھلائے تو کوئی حرج نہیں ، لیکن اس سے مال جمع نہ کرے۔ اور ایک دوسرے لفظ میں (غیر متاثل) ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أصاب عمر بن الخطاب رضى الله عنه أرضا بخيبر، قدرها مائة سهم، هي أغلى أمواله عنده، لطيبها وجودتها: وقد كانوا- رضى الله عنهم- يتسابقون إلى الباقيات الصالحات، فجاء رضي اللَه عنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم طمعا في البر المذكور في قوله تعالى: {لَنْ تَنَالوا البِرً حَتًى تُنْفِقُوا مِمًا تُحِبونَ} يستشيره في صفة الصدقة بها لوجه الله تعالى.
فأشار عليه بأحسن طرق الصدقات، وذلك بأن يحبس أصلها ويقفه، ففعل عمر ذلك وصارت وقفا فلا يتصرف به ببيع، أو إهداء، أو إرث أو غير ذلك من أنواع التصرفات، التي من شأنها أن تنقل الملك ، أو تكون سببا في نقله، ويصدق بها في الفقراء والمساكين، وفي الأقارب والأرحام، وأن يَفُك منها الرقاب بالعتق من الرق، أو بتسليم الديات عن المستوجبين، وأن يساعد بها المجاهدين في سبيل الله لإعلاء كلمته ونصر دينه، وأن يطعم المسافر الذي انقطعت به نفقته في غير بلده، ويطعم منها الضيف أيضا، فإكرام الضيف من الإيمان بالله تعالى.
بما أنها في حاجة إلى من يقوم عليها ويتعاهدها بالري والإصلاح، مع رفع الحرج والإثم عمن وليها أن يأكل منها بالمعروف، فيأكل ما يحتاجه، ويطعم منها صديقا غير متخذ منها مالا زائدا عن حاجته، فهي لم تجعل إلا للإنفاق في طرق الخير والإحسان، لا للتمول والثراء.
تنبيه:
الوقف أن يتصدق المسلم بمال له عائد على جهة من جهات الخير، فيُصرف العائد على تلك الجهة ويبقى أصل المال، مثاله أن يقف مزرعة على الفقراء، فالثمار والزروع التي تنتجها هذه المزرعة تعطى للفقراء وتبقى المزرعة محبوسة.
593;مر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین ملی، اس کی مقدار سو سہم (حصے) تھی۔ یہ آپ کے مال میں سے سب سے مہنگا مال تھا، اس لیے کہ یہ بہت عمدہ زمین تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نیکیوں میں آگے بڑھتے تھے۔ قرآن کریم کی آیت {لَنْ تَنَالوا البِرً حَتًى تُنْفِقُوا مِمًا تُحِبونَ } کے پیشِ نظر نیکی کی لالچ کرتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آئے تاکہ اس کو اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرنے کے بارے میں مشورہ کریں۔
آپ ﷺ نے صدقہ کرنے کا سب سے اچھا مشورہ دیا یعنی اصل زمین کو پاس رکھ کر اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، وہ زمین وقف ہوگئی، اس کو نہ بیچا جا سکتا تھا، نہ ہدیہ کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس میں وراثت یا کوئی اور ایسا تصرف ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے اس کی ملکیت کسی اور کی طرف منتقل ہو یا انتقالِ ملکیت کا سبب بنے۔ اس کو فقیروں و مسکینوں، عزیز و اقارب، غلام کو چھڑانے، جن پر دیت واجب ہو ان کی طرف سے دیت کی ادائیگی کے لیے، اللہ کے دین کی مدد اور دین کی سربلندی کے لیے لڑنے والے مجاہدین کے تعاون کے لیے، وہ مسافر جو اپنے شہر سے دور ہو اور اس کا زادِ راہ ختم ہو گیا ہو نیز مہمانوں کو کھلانے کے لیے وقف کردیا۔ مہمان کا اکرام کرنا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا حصہ ہے۔
یہ ضروت مند کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے اور نیکی اور بھلائی کے کام کی نگرانی بھی ہے اور ساتھ ساتھ مالکِ زمین سے حرج اور گناہ کو دور کرنا ہے کہ وہ اچھے طریقے سے خود بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے کھا سکتا ہے اور اس دوست کو بھی کھلا سکتا ہے جس کے پاس ضرورت سے زیادہ مال نہ ہو۔ یہ خیر اور احسان کے راستے میں مال کا خرچ کرنا ہے۔ نہ کہ مال جمع کرکے مالدار ہونا مقصود ہو۔
تنبیہ:
وقف یہ ہے کہ مسلمان اپنے مال کو صدقہ کر کے اس کی پیداوار کو بھلائی کے جس کام میں چاہے استعمال کرسکتا ہے، پیداوار کو اسی مصرف میں خرچ کرکے اصل مال کو باقی رکھا جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کھیتی فقراء پر وقف کردے، تو پھل اور پیدا ہونے والی فصل فقراء کو دے دی جائے گی اور کھیتی ان کے پاس باقی رہے گی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6031

 
 
Hadith   1165   الحديث
الأهمية: يا رسول الله تزوجت امرأة، فقال: «ما أصدقتها؟» قال: وزن نواة من ذهب قال: «بارك الله لك، أولم ولو بشاة»


Tema:

یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تو نے اسے بطور مہر کیا دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی سے کیوں نہ ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رأى عبد الرحمن بن عوف، وعليه ردَعْ ُزَعفَرَان. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «مَهْيَمْ؟ فقال: يا رسول الله تزوجت امرأة، فقال: ما أصدقتها؟ قال: وَزْنُ نواة من ذهب قال: بارك الله لك، أَوْلِمْ ولو بشاة».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ کو دیکھا کہ ان پر زعفرانی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تو نے اسے بطور مہر کیا دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی سے کیوں نہ ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- على عبد الرحمن بن عوف -رضي الله عنه- شيئًا من أثر الزعفران، وكان الأولى بالرجال أن يتطيبوا بما يظهر ريحه، ويخفي أثره، فسأله- بإنكار- عن هذا الذي عليه، فأخبره أنه حديث عهد بزواج، فقد يكون أصابه من زوجه، فرخص له في ذلك.
ولما كان صلى الله عليه وسلم حَفِيا بهم، عطوفاً عليهم، يتفقد أحوالهم ليقرهم على الحسن منها، وينهاهم عن القبيح، سأله عن صداقه لها.
فقال: ما يعادل وزن نواة من ذهب.
فدعا له صلى الله عليه وسلم بالبركة، وأمره أن يولم من أجل زواجه ولو بشاة.
606;بی ﷺ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر کچھ زعفران کا نشان لگا دیکھا۔ جب کہ مردوں کے لیے وہ خوشبو اچھی ہوتی ہے جس کی مہک تو خوب پھیلے لیکن اس کا نشان مخفی رہے، (جب کہ زعفران میں یہ خوبی نہیں ہوتی اور وہ عورتوں کی خوشبو مانی جاتی ہے)۔آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کے انداز میں ان پر لگے اس زعفرانی رنگ کے نشان کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور ان پر یہ رنگ ان کی بیوی سے لگ گیا ہے۔چنانچہ اس پر آپ ﷺ انہیں رخصت دے دی۔ چونکہ آپ ﷺ صحابہ پر بہت شفقت اور مہربانی فرمایا کرتے تھے اس لیے آپﷺ ان کے احوال پر نظر رکھا کرتے تھے تاکہ انہیں اچھی حالت پر باقی رہنے دیں اور بری حالت سے انہیں منع کریں۔ آپ ﷺ نے ان سے اپنی بیوی کو دیے گئے مہر کے بارے میں پوچھا۔
انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے کھجور کی ایک گٹھلی برابر سونا بطور مہر دیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور انہیں اپنی شادی کی وجہ سے ولیمہ کرنے کا حکم دیا اگرچہ ایک بکری ہى سے ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6032

 
 
Hadith   1166   الحديث
الأهمية: أوه، أوه، عين الربا، عين الربا، لا تفعل، ولكن إذا أردت أن تشتري فبع التمر ببيع آخر، ثم اشتر به


Tema:

توبہ توبہ یہ تو عین سود ہے، یہ تو بعینہ سود ہے۔ ایسا نہ کیا کرو البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (ردی) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خرید لیا کرو۔

عن أبي سعيد الخدري- رضي الله عنه-: جاء بلال إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بتمر بَرْنِيٍّ، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: «من أين لك هذا؟» قال بلال: كان عندنا تمر رديء، فبعتُ منه صاعين بصاع ليطعم النبي -صلى الله عليه وسلم-. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- عند ذلك: «أَوَّهْ، أَوَّهْ، عَيْنُ الربا، عين الربا، لا تفعل، ولكن إذا أردت أن تشتري فَبِعِ التمرَ ببيع آخر، ثم اشتر به».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس برنی کھجوریں لے کر آئے۔ تو نبی ﷺ نے اُن سے کہا تمہیں یہ کہاں سے ملیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ردی کھجوریں تھیں، اس کے دو صاع کو برنی (اچھی کھجوروں) کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر میں اسے لایا ہوں۔ تاکہ میں یہ آپ کو کھلاؤں آپ ﷺ نے فرمایا: توبہ توبہ یہ تو عین سود ہے، یہ تو بعینہ سود ہے۔ ایسا نہ کیا کرو البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (ردی) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خرید لیا کرو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء بلال -رضي الله عنه- إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بتمر برني جيد، فتعجب النبي -صلى الله عليه وسلم- من جودته وقال: من أين هذا؟
قال بلال: كان عندنا تمر، فبعت الصاعين من الردي بصاع من هذا الجيد، ليكون مطعم النبي -صلى الله عليه وسلم- منه.
فعظم ذلك على النبي -صلى الله عليه وسلم- وتأوه، لأن المعصية عنده هي أعظم المصائب.
وقال: عملك هذا، هو عين الربا المحرم، فلا تفعل، ولكن إذا أردت استبدال رديء، فبع الرديء بدراهم، ثم اِشتر بالدراهم تمرًا جيدًا. فهذه طريقة مباحة تعملها، لاجتناب الوقوع في المحرم.
576;لال رضی اللہ عنہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاں برنی اچھی کھجوریں لے کر آئے، آپ ﷺ نے اس کی عمدگی پر حیرانگی فرمائی اور کہا کہاں سے لائے ہو؟ بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے پاس ردی کھجوریں تھی، میں نے دو صاع ردی کھجوروں کے بدلے ایک صاع اچھی کھجوریں لے لیں، تاکہ آپ ﷺ اس کو تناول فرمالیں۔ یہ آپ ﷺ پر ناگوار گزرا اور’’توبہ توبہ‘‘ فرمایا، اس لیے کہ یہ گناہ آپ ﷺ کے ہاں عظیم گناہوں میں سے ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا یہ کام بعینہٖ سود ہے جو کہ حرام ہے، ایسا نہ کرو۔ ہاں جب تم ردی کھجوروں کو تبدیل کرنا چاہو، تو ردی کھجوروں کو درھم کے بدلے بیچ دو، پھر درھم کے عوض اچھی کھجوریں خریدو۔ یہ جائز طریقہ ہے، حرام سے بچنے کے لیے اس طرح تم کر سکتے ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6033

 
 
Hadith   1167   الحديث
الأهمية: إذا أوى أحدكم إلى فراشه فَليَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إزَارِهِ فإنَّهُ لا يدري ما خلفه عليه


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر ليٹنے كا اراده كرے تو پہلے اپنا بستر اپنی ازار کے اندرونی کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے (اس کی بے خبری میں) کیا چیز اس پر آ گئی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا أوى أحدكم إلى فراشه فَليَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إزَارِهِ فإنَّهُ لا يدري ما خلفه عليه، ثم يقول: باسمك ربي وضعت جنبي، وبك أرفعه، إن أمسكت نفسي فارحمها، وإن أرسلتها، فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر ليٹنے كا اراده كرے تو پہلے اپنا بستر اپنی ازار کے اندورنی کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے (اس کی بے خبري میں) کیا چیز اس پر آ گئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے: ”بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ“ اے میرے پالنے والے! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو صالحین کی حفاظت کرتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يدور معنى هذا الحديث حول بيان أذكار النوم، وهي اللحظة التي يسلم الإنسان فيها روحه لربه في لحظة لا يملك فيها حولا ولا قوة، فيتركها في يد خالقها يحفظها ، ويردها مع تمام التفويض لله تعالى.
قال أهل العلم: وحكمة الذكر والدعاء عند النوم واليقظة أن تكون خاتمة أعماله على الطاعة، وأول أفعاله على الطاعة.
وفي هذا الحديث المبارك يبين لنا النبي صلى الله عليه وسلم ما يسن على العبد فعله وقوله عند النوم، فأرشدنا النبي صلى لله عليه سلم إلى الجانب الفعلي، فقال: «إذا أوى أحدكم إلى فراشه فَليَنْفُضْ" وهذا لأن العرب كانوا يتركون الفراش بحاله، فلربما دخل الفراش بعد مغادرة العبد له بعض الحشرات المؤذية، أو تلوث بالغبار ونحوه، فأمر النبي صلى الله عليه سلم بنفض الفراش قبل النوم، ثم بين النبي صلى الله عليه وسلم آلة النفض والتنظيف فقال: "فلينفض فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إزَارِهِ" والإزار: هو ما يلبس على أسفل البدن، والمقصود أي: بطرف الثياب الداخلي، لأنه أسهل للنفض، وحتى لا يصيب ظاهر الإزار شيء من القذر ونحوه، كما انه أستر للعورة، والغالب على العرب أنه لم يكن لهم ثوب غير ما هو عليهم من إزار ورداء، فالمهم هو نفض الفراش سواء كان النفض بملابس متصلة (يرتديها الشخص) أم منفصلة (لا يرتديها)، أو بما ينفض به الفراش غير ذلك.
ثم يبين النبي صلى الله عليه وسلم العلة من هذا النفض والتنظيف: "فإنَّهُ لا يدري ما خلفه عليه" وهذا يدل على حرص الشريعة على سلامة الأبدان، لأن بالأبدان قوام الأديان، وهكذا انتهت هنا السنة الفعلية مع بيان علتها.
ثانيا: السنة القولية.
ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ثم يقول: باسمك ربي" أي: باسم الله العلي العظيم أضع هذا الجسد الهامد على الفراش، وهذا يدل على استحباب مداومة الإنسان لذكر ربه في كل وقت، ثم يقول: "وضعت جنبي وبك أرفعه" أي: أني لا أضع هذا الجسد ولا أرفعه إلا مستصحبا فيها ذكرك.
ثم قال صلى الله عليه وسلم : "إن أمسكت نفسي فارحمها" كناية عن الموت.   قوله صلى الله عليه وسلم: "وإن أرسلتها" كناية عن الحياة.
وقوله صلى الله عليه وسلم: "فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين" أي أن تحفظ نفسي وروحي بما تحفظ به عبادك، وهو حفظ عام من سائر الآثام والموبقات والشرور ، كقوله صلى الله عليه وسلم: "احفظ الله يحفظك" فهذا حفظ عام  ولذا خصه بالصالحين فإن حفظ الرب تعالى لا ينال إلا بالصلاح، فليس للمفرط والمضيع حظ من حفظ الله الحفظ الخاص الذي يوليه الله تعالى لأوليائه، ولكن قد يناله شيء من الحفظ العام.
575;س حدیث میں سوتے وقت کے اذکار کا بیان ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی روح کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے جب کہ اس کے بس میں اس سلسلے میں کوئی طاقت و قوت نہیں رہتی۔ پس وہ اسے اس کے خالق کے سپرد کر دیتا ہے کہ وہی اس کی حفاظت کرے۔چنانچہ وہ پورے طور پر اسے اللہ کے حوالے کر دیتا ہے۔
علماء کہتے ہیں کہ سونے اور جاگنے کے اوقات میں ذکر اور دعا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا خاتمہ بھی اطاعت کے ساتھ ہو اور ان کا آغاز بھی اطاعت ہی کے ساتھ ہو۔
اس حدیث شریف میں نبی ﷺ اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں جس کا کرنا اور کہنا سوتے وقت بندے کے لیے مسنون ہے۔ نبی ﷺ نے عملی پہلو کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ ”تم میں سے جب کوئی شخص سونے کے ارادے سے اپنے بستر پر جائے تو اسے جھاڑ لے“۔ آپ ﷺ نے ایسا اس لیے فرمایا کیوں کہ عرب لوگ بستر کو اسی حالت میں بچھا ہوا چھوڑ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ احتمال ہے کہ آدمی کے بستر کو چھوڑ جانے کے بعد اس میں موذی حشرات الارض گھس جائیں یا پھر وہ گرد و غبار وغیرہ سے آلودہ ہو جائے۔ اس لیے نبی ﷺ نے سونے سے قبل بستر کو جھاڑ لینے کا حکم دیا۔
پھر آپ ﷺ نے اس شے کی وضاحت فرمائی جس کے ساتھ جھاڑا اور صاف کیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اپنی ازار کے اندرونی حصے سے اپنے بستر کو جھاڑ لے“۔ ازار سے مراد وہ کپڑا ہے جو بدن کے نچلے حصے میں پہنا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ کپڑے کی اندرونی کنارے کی جانب سے وہ صاف کر لے کیونکہ اس سے جھاڑنا آسان ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ ازار کے بیرونی حصے پر گندگی وغیرہ نہ لگے اور یہ کہ ایسا کرنے میں زیادہ ستر پوشی ہے۔ عام طور پر عرب کے پاس ان کے اپنے جسم پر موجود ازار اور چادر کے علاوہ کوئی اور کپڑا نہیں ہوا کرتا تھا، بہر حال اہم یہ ہے کہ بستر کو جھاڑ لیا جائے پھر چاہے یہ اپنے جسم پر موجود کپڑے کے ذریعہ ہو یہ پھر کسی اور کپڑے یا کسی اور چیز کے ذریعہ جس کو بستر جھاڑنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پھر آپ ﷺ بستر کو جھاڑنے اور اُس کی صفائی کی علت بیان کر رہے ہیں کہ ”اسے نہیں معلوم کہ اس کے بعد اس بستر پر کون آیا رہا“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت جسمانی حفاظت پر بھی زور دیتی ہے کیونکہ جسمانی سلامتی ہی سے دینی امور کی تکمیل ہوتی ہے۔
یہاں تک تو عملی سنت اور اس کی علت کا بیان تھا۔
ثانیا: قولی سنت:
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ سونے والا کہے ”بِاسْمِكَ رَبِّي“ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ جو بلند و برتر اور عظیم ہے، میں یہ ناتواں جسم بستر پر رکھتا ہوں۔ اس میں اس بات کے استحباب کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو ہر وقت ہمیشہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہئے۔پھر کہے:" وضعت جنبي وبك أرفعه"۔ یعنی میں تیرے ذکر کے ساتھ اس جسم کو رکھتا اور اٹھاتا ہوں۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (یوں کہے) ”إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا“ اس سے یہاں کنایۃً موت مراد ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان کہ ”وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا“ سے کنایۃً زندگی مراد ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا ”فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ“ یعنی میری جان و روح کی ویسے ہی حفاظت کرنا جیسے تو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس سے تمام گناہوں، ہلاکت میں ڈالنے والی اور تمام بری اشیاء سے عمومی طور پر حفاظت مراد ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اللہ (کے اوامر و نواہی) کی حفاظت کرتے رہو وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔
یہ عمومی حفاظت ہے۔ اسی لیے اسے نیکو کار لوگوں کے ساتھ خاص کیا۔ اللہ تعالی کی حفاظت نیکی ہی کے ساتھ حاصل ہوا کرتی ہے۔ اس شخص کو اللہ تعالی کی اپنے اولیاء کو دی جانے والی خصوصی حفاظت میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا جو اللہ تعالی کے حقوق میں تفریط سے کام لیتا ہے اور انہیں ضائع کرتا ہے۔ تاہم عمومی حفاظت اسے بھی حاصل رہتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6034

 
 
Hadith   1168   الحديث
الأهمية: فلا تُشْهدني إذًا؛ فإني لا أشهد على جور


Tema:

پھر مجھے گواہ نہ بناؤ، میں ظلم کے کام پر گواہ نہیں بنتا۔

عن النعمان بن بشير-رضي الله عنهما- قال: تصدق علي أبي ببعض ماله، فقالت أمي عَمْرَة بنت رَوَاحَة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فانطلق أبي إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ليُشْهِد على صدقتي فقال له رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أفعلت هذا بولدك كلهم؟ قال: لا، قال: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم، فرجع أبي، فرد تلك الصدقة».
وفي لفظ: «فلا تُشْهدني إذًا؛ فإني لا أشهد على جَوْرٍ».
وفي لفظ: «فأشهد على هذا غيري».

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کیا۔ میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے کہا: میں تب تک راضی نہیں ہوں گی جب تک کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کو گواہ نہ بناؤ۔ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ آپ ﷺ کو مجھے کیے گئے ہبہ پرگواہ بنائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: "کیا تم نے ایسا اپنے سب بچوں کے ساتھ کیا ہے؟" انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے مابین عدل کیا کرو“، چنانچہ میرے والد واپس آئے اور وہ ہبہ واپس لے لیا۔
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: پھر مجھے گواہ نہ بناؤ، میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: پھر اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر النعمان بن بشير الأنصاري: أن أباه خصه بصدقة من بعض ماله فأرادت أُمه أن توثقها بشهادة النبي -صلى الله عليه وسلم- إذ طلبت من أبيه أن يُشهد النبي -صلى الله عليه وسلم- عليها.
فلما أتى به أبوه إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- ليتحمل الشهادة، قال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: أتصدقت مثل هذه الصدقة على ولدك كلهم؟ قال: لا.
وتخصيص بعض الأولاد دون بعض، أو تفضيل بعضهم على بعض عمل مناف للتقوى وأنه من الجور والظلم، لما فيه من المفاسد، إذ يسبب قطيعة المفضَّل عليهم لأبيهم وابتعادهم عنه، ويسبب عداوتهم وبغضهم لإخوانهم المفضلين.
لما كانت هذه بعض مفاسده قال النبي -صلى الله عليه وسلم- له: "اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم ولا تشهدني على جور وظلم" ووبخه ونفَّره عن هذا الفعل بقوله: أشهد على هذا غيري.
فما كان من بشير -رضى اللَه عنه- إلا أن أرجع تلك الصدقة كعادتهم في الوقوف عند حدود الله -تعالى-.
606;عمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے بطورِ خاص انہیں اپنا کچھ مال دیا۔ ان کی والدہ یہ چاہتی تھیں کہ نبی ﷺ کی گواہی کے ذریعے اس کی تاکید کرالیں چنانچہ ان کی والدہ نے ان کے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ہبہ شدہ مال پر نبی ﷺ کو گواہ بنائیں۔
چنانچہ جب ان کے والد انہیں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ ﷺ اس کے گواہ بن جائیں تو آپﷺ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اس طرح کا ہبہ اپنی ساری اولاد کو کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔
اولاد میں سے کچھ کو خاص کر لینا اور باقی کو چھوڑ دینا یا پھر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دینا تقوی کے منافی رویہ ہے اور زیادتی اور ظلم ہے کیونکہ اس میں بہت سے مفاسد مضمر ہیں۔ اس کی وجہ سے جس اولاد پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہوتی ان کی اپنے باپ سے قطع تعلقی ہو جاتی ہے اور وہ اس سے دور ہو جاتے ہیں اور ان کے جن بھائیوں کو ان پر ترجیح دی گئی ہوتی ہے ان سے ان کی دشمنی اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ کچھ ایسے مفاسد ہیں (جو اس طرح کی بے انصافی سے جنم لیتے ہیں)۔ اس وجہ سے نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے مابین عدل کرو اور مجھے ظلم و جور کے کام پر گواہ نہ بناؤ۔آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے اس عمل پر ان کی توبیخ کی اور انہیں اس سے نفرت دلائی کہ اس کام پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔بشیر رضی اللہ عنہ نے لوٹتے ہی وہ ہبہ شدہ مال واپس لے لیا جیسا کہ صحابہ کرام کا طرز عمل ہوا کرتا تھا کہ وہ اللہ کی قائم کردہ حدود کی پاسداری کیا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متعدد روایات کے ساتھ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6035

 
 
Hadith   1169   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن


Tema:

رسو ل اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

عن أبي مسعود -رضي الله عنه- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن ثمن الكلب، ومَهْرِ البغي، وحُلْوَانِ الكَاهِنِ».

ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لطلب الرزق طرق كريمة شريفة طيبة، جعلها الله عوضا عن الطرق الخبيثة الدنيئة.
فلما كان في الطرق الأولى كفاية عن الثانية، ولما كانت مفاسد الثانية عظيمة لا يقابلها ما فيها من منفعة، حَرَّم الشرع الطرق الخبيثة التي من جملتها، هذه المعاملات الثلاث.
1- بيع الكلب: فإنه خبيث رجس.
2- وكذلك ما تأخذه الزانية مقابل فجورها، الذي به فساد الدين والدنيا.
3- ومثله ما يأخذه أهل الدجل والتضليل، ممن يدعون معرفة الغيب والتصرف في الكائنات، ويخيلون على الناس-بباطلهم- ليسلبوا أموالهم، فيأكلوها بالباطل.
كل هذه طرق خبيثة محرمة، لا يجوز فعلها، ولا تسليم العوض فيها، وقد أبدلها اللَه بطرق مباحة شريفة.
585;وزی تلاش کرنے کے بہت سے عمدہ، معزز اور پاکیزہ راستے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے خبیث اور رذیل کے مقابلہ بنایا ہے۔
چونکہ پہلے(پاکیزہ) راستے دوسرے راستوں کے بنسبت کفایت گزار ہیں، نیز ان غلط راستوں کے نقصانات اول الذکر راستوں کے بالمقابل زیادہ ہیں، چنانچہ شریعت نے ان ناپاک راستوں کوحرام قرار دیا۔ ذیل کے تینوں اقسام کے معاملات انہی ناپاک راستوں میں سے ہیں۔
1- کتے کا بیچنا۔ اس لیے کہ یہ ناپاک اور خبیث ہے۔
2- بعینہ فاحشہ عورت کا اپنے گناہ کے بدلے اجرت لینا، جس سے دین و دنیا دونوں برباد ہوتے ہیں۔
3- اسی میں جھوٹ اور گمراہ کرنے والے لوگ کی (ٹھگی کرکے) کمائی کرنا بھی شامل ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ غیب جانتے ہیں، کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں غلط خیالات ڈال کر ان کے اموال حاصل کرکے انہیں باطل طریقے سے کھاتے ہیں۔
یہ تمام خبیث راستے ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا اختیار کرنا اور ان کی کمائی لینا بھی حرام ہے۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جائز اور اچھے راستے فراہم کيے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6036

 
 
Hadith   1170   الحديث
الأهمية: ثمن الكلب خبيث، ومهر البغي خبيث، وكسب الحجام خبيث


Tema:

کتے کی قمیت خبیث ہے، فاحشہ کی مہر (خرچی) خبیث ہے اور پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے۔

عن رافع بن خديج -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ثمن الكلب خبيث، ومهر البغي خبيث، وكسب الحجام خبيث».

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کتے کی قمیت خبیث ہے، فاحشہ کی مہر (خرچی) خبیث ہے اور پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين لنا النبي -صلى الله عليه وسلم- المكاسب الخبيثة والدنيئة لنتجنبها، إلى المكاسب الطيبة الشريفة، ومنها ثمن الكلب، وأجرة الزانية على زناها، وكسب الحجام.
606;بی کریم ﷺ نے ہمیں ناپاک اور نجس کمائی کے متعلق آگاہ فرمایا تاکہ ہم انہیں چھوڑ کر پاکیزہ ذرائع اختیار کریں۔ خبیث ذرائع آمدنی میں سے کتے کی قیمت، فاحشہ کے زنا کی کمائی اور پچھنے لگانے والے کی کمائی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6037

 
 
Hadith   1171   الحديث
الأهمية: أتراني ماكستك لآخذ جملك؟ خذ جملك ودراهمك، فهو لك


Tema:

کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ میں نے تم سے تمھارا اونٹ لینے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تھا؟ اپنا اونٹ بھی لے لو اور درہم بھی۔ یہ سب تیرا ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-: «أنه كان يسير على جمل فأعيا، فأراد أن يُسَيِّبَهُ. فلحقني النبي -صلى الله عليه وسلم- فدعا لي، وضربه، فسار سيرا لم يَسِرْ مثله. ثم قال: بِعْنِيهِ بأُوقية. قلتُ: لا. ثم قال: بِعْنِيه. فَبِعْتُهُ بأوقية، واستثنيت حُمْلَانَهُ إلى أهلي. فلما بلغت: أتيته بالجمل. فنقدني ثمنه. ثم رجعت. فأرسل في إثري. فقال: أتَرَانِي مَاكستُكَ لآخذ جملك؟ خذ جملك ودراهمك، فهو لك».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر جا رہے تھے، جو بہت تھک چکا تھا۔ انھوں نے ارادہ کیا کہ اسے چھوڑ دیں۔ نبی ﷺ پیچھے سے میرے ساتھ آن ملے۔ آپ ﷺ نے میرے لیے دعا کی اور اونٹ کو مارا، تو وہ ایسے چلنے لگا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے مجھے ایک اوقیہ میں بیچ دو۔ میں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اس کو مجھے فروخت کر دو! تو میں نے اسے آپ ﷺ کو ایک اوقیہ کے عوض فروخت کردیا اور اس پر سوار ہو کر اپنے اہل وعیال تک جانے کا استثنا کرلیا۔ جب میں پہنچا تو آپ ﷺ کے پاس وہ اونٹ لے کر حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی۔ پھر میں واپس آگیا۔ آپ ﷺ نے میرے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: ”کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ میں نے تم سے تمھارا اونٹ لینے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تھا؟ اپنا اونٹ بھی لے لو اور درہم بھی۔ یہ سب تیرا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان جابر بن عبد اللّه -رضي الله عنهما- مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في إحدى غزواته، وكان راكباً على جمل قد هزل فتعب عن السير ومسايرة الجيش حتى إنه أراد أن يطلقه فيذهب لوجهه، لعدم نفعه. وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- من رأفته بأصحابه وبأمته يمشي في مؤخرة الجيوش، رِفْقاً بالضعيف، والعاجز، والمنقطع، فلحق جابراً وهو على بعيره الهزيل، فدعا له وضرب جمله، فصار ضربه الكريم الرحيم قوةً وعوناً للجمل العاجز، فسار سيراً لم يسر مثله. فأراد -صلى الله عليه وسلم- من كرم خلقه ولطفه تطييب نفس جابر ومجاذبته الحديث المعين على قطع السفر، فقال: بعنيه بأوقية. فطمع جابر -رضي الله عنه - بفضل الله وعَلِمَ أن لا نقص على دينه من الامتناع من بيعه للنبي -صلى الله عليه وسلم- لأن هذا لم يدخل في الطاعة الواجبة، إذ لم يكن الأمر على وجه الإلزام، ومع هذا فإن النبي -صلى الله عليه وسلم- أعاد عليه الطلب فباعه إياه بالأوقية واشترط أن يركبه إلى أهله في المدينة، فقبل -صلى الله عليه وسلم- شرطه، فلما وصلوا أتاه بالجمل، وأعطاه النبي -صلى الله عليه وسلم- الثمن، فلما رجع أرسل في أثره فرجع إليه وقال له: أتظنني بايعتك طمعا في جملك لآخذه منك؟ خذ جملك ودراهمك فهما لك. وليس هذا بغريب على كرمه وخلقه ولطفه، فله المواقف العظيمة -صلى الله عليه وسلم-.
580;ابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ایک غزوے میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ وہ ایک اونٹ پر سوار تھے، جو لاغر و کمزور ہونے کی وجہ سے چلنے اور لشکر والوں کی ہمراہی سے قاصر تھا۔ یہاں تک کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے؛ کیوںکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں رہ گیا تھا۔ یہ نبی ﷺ کی اپنے صحابہ اور امت کے ساتھ شفقت کا ایک مظہر تھا کہ آپ ﷺ کمزور و ناتواں اور الگ ہو جانے والے افراد کا خیال کرتے ہوئے لشکر کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے۔ آپ ﷺ پیچھے سے جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آن ملے جو کہ اپنے لاغر اونٹ پر سوار تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے اونٹ کو مارا۔ آپ ﷺ کی اس پرشفقت مار نے لاغر و کمزور اونٹ میں طاقت بھر دی، اسے اس سے مدد ملی اور وہ ایسے چلنے لگا، جیسے وہ کبھی چلا ہی نہیں تھا۔ آپ ﷺ چوں کہ گرم گستر اور لطف و مہربانی کے پیکر تھے، اس لیے جابر رضی اللہ کا دل بہلانے اور انہیں باتوں میں لگانے کا فیصلہ کیا، تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ اونٹ ایک اوقیہ کے عوض بیچ دو۔ جابر رضی اللہ عنہ اللہ کے فضل کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اورانھیں یہ علم تھا کہ اس اونٹ کو نبی ﷺ کے ہاتھوں نہ بیچنے سے ان کے دین میں کوئی کمی نہیں آنی ہے۔ کیوںکہ یہ نبی کی واجب اطاعت میں داخل نہیں۔ دراصل یہ حکم ایسا نہیں تھا کہ اس کی پابندی ضروری ہو۔ اس کے باوجود نبی ﷺ نے ان سے دوبارہ بیچنے کو کہا، تو انہوں نے اسے ایک اوقیہ کے بدلے آپ ﷺ کو بیچ دیا اور شرط لگائی کہ وہ مدینے میں موجود اپنے اہل خانہ تک اس پر سوار ہو کر جائیں گے۔ نبی ﷺ نے ان کی شرط قبول کر لی۔ جب وہ پہنچ گئے تو وہ آپ ﷺ کے پاس اونٹ لے کر آئے اور نبی ﷺ نے انھیں قیمت ادا کر دی۔ جب وہ واپس پلٹے تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا۔ وہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں نے تمھارے اس اونٹ کو لینے کی لالچ میں تم سے خرید و فروخت کا معاملہ کیا تھا؟۔ اپنا اونٹ لے لو اور دراہم بھی۔ دونوں تمھارے ہیں۔ آپ ﷺ کے فضل و کرم اور آپ ﷺ کے اخلاق اور لطف و مہربانی کو دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھی بات محسوس نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں تو آپ ﷺ سے بہت سے بڑے بڑے واقعات منقول ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6038

 
 
Hadith   1172   الحديث
الأهمية: سألت رافع بن خديج عن كراء الأرض بالذهب والورق؟ فقال: لا بأس به


Tema:

میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے زمین کو سونے اور چاندی کے عوض کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

عن حنظلة بن قيس قال: سألت رافع بن خديج عن كراء الأرض بالذهب والورق؟ فقال: لا بأس به، إنما كان الناس يؤاجرون على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بما على المَاذَيَاناتِ، وأَقْبَالِ الجَدَاوِلِ، وأشياء من الزرع؛ فيهلك هذا، ويسلم هذا، ولم يكن للناس كراء إلا هذا؛ ولذلك زجر عنه، فأما شيء معلوم مضمون؛ فلا بأس.

حنظلہ بن قیس انصاری سے روایت ہے کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے زمین کو سونے اور چاندی کے عوض کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر زمین کرایہ پر دیتے تھے تو بعض اوقات اس زمین کی تباہی ہوتی اور دوسری سلامت رہتی اور بعض دفعہ یہ سلامت رہتی اور وہ برباد ہوجاتی اور لوگوں میں سے بعض کو بچے ہوئے کے علاوہ کچھ کرایہ وصول نہ ہوتا اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا، ہاں! اگر کرایہ کے بدلے کوئی معین اور ضمانت شدہ چیز ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر رافع بن خديج أن أهله كانوا أكثر أهل المدينة مزارع وبساتين.
فكانوا يؤاجرون الأرض بطريقة جاهلية، فيعطون الأرض لتزرع، على أن لهم جانباً من الزرع، وللمزارع، الجانب الآخر، فربما أثمر هذا، وتلف ذاك.
وقد يجعلون لصاحب الأرض، أطايب الزرع، كالذي ينبت على الأنهار والجداول، فيهلك هذا، ويسلم ذاك، أو بالعكس.
فنهاهم النبي -صلى الله عليه وسلم- عن هذه المعاملة، لما فيها من الغرر والجهالة والظلم، فلابد من العلم بالعوض، كما لابد من التساوي في المغنم والمغرم.
فإن كانت جزء منها، فهي شركة مبناها العدل والتساوي في غنْمِهَا وغُرْمِهَا، وبالنسبة المعلومة كالربع والنصف.
وإن كانت بعوض، فهي إجارة لابد فيها من العلم بالعوض، وهي جائزة سواء أكانت بالذهب والفضة، أم بالطعام مما يخرج من الأرض أو من جنسه أو من جنس آخر؛ لأنها إجارة للأرض أو مساقاة أو مزارعة، ولعموم الحديث [ فأما شيء معلوم مضمون، فلا بأس به].
585;افع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ ان کے خاندان والے مدینے والوں میں سب سے زیادہ کھیتی باڑی اور باغبانی کرتے تھے۔ یہ جاہلیت کے طریقے کے مطابق زمین کو اجارہ پر دیتے تھے، زمین کھیتی باڑی کرنے کے لیے اس شرط پر دیتے تھے کہ ایک طرف کی پیداوار ان کی ہوتی تھی اور دوسری طرف کی کسان کی ہوتی، کبھی ایک کے حصے میں پیداوار ہوتی اور دوسرے کا حصہ ضائع ہو جاتا تھا۔
کبھی زمین کے مالک کو اچھی پیداوار مل جاتی جیسے نہروں اور نالوں والی جگہوں کی زمینوں کی پیداوار، تو کبھی یہ پیداوار خراب ہوجاتی اور دوسری محفوظ رہتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا۔چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اس میں غرر، جہالت اور ظلم کی وجہ سے ایسی بٹائی سے منع فرما دیا۔ اس لیے کہ عوض کا معلوم ہونا ضروری ہے بعینہ نفع اور نقصان میں بھی برابری ضروری ہے۔
اگر اس کے ایک حصے کو اجرت پر دیا جارہا ہے تو یہ شراکت داری ہوئی جس کی بنیاد نفع اور نقصان میں انصاف اور برابری کا تقاضہ کرتی ہے یا یہ کہ متعین تناسب کا معاملہ طے پائے جیسے چوتھائی یا آدھے حصے پر نفع تقسیم ہو۔ اور اگر زمین عوض کے بدلے ہو تو یہ اجارہ ہے۔ اس میں عوض کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ یہ جائز ہے خواہ سونے کے بدلے ہو یا چاندی کے یا زمین سے ہونے والی پیداوار میں سے کھانے کے بدلے ہو خواہ کھانا اسی فصل کی جنس سے ہو یا دوسری جنس سے۔ اس لیے کہ یہ زمین کو اجارہ پر دینا ہے یا یہ درختوں میں مساقاۃ ہے یا پیداوار کے بدلے زمین دے کر مزارعت ہے۔ اور (اس کے جائز ہونے کی ایک وجہ) یہ ہے کہ اُس حدیث میں عموم ہے جس میں مذکور ہے کہ متعین اور قابلِ ضمانت چیز کے بدلے زمین دینے میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6039

 
 
Hadith   1173   الحديث
الأهمية: تعوذوا بالله من جهد البلاء، وَدَرَكِ الشقاء، وسوء القضاء، وشماتة الأعداء


Tema:

اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت، بدبختی کی پستی، برے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے سے۔

عن أبي هريرة-رضي الله عنه- مرفوعاً: «تعوذوا بالله من جَهْدِ البلاء، وَدَرَكِ الشقاء، وسوء القضاء، وشماتة الأعداء». وفي رواية قال سفيان: أشك أني زدت واحدة منها.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت، بدبختی کی پستی، برے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے سے“۔
ایک روایت میں ہے، سفیان رحمہ اللہ نے کہا: مجھے شک ہے کہ میں نے ان میں سے ایک بات زیادہ بیان کی ہے۔ (معلوم نہیں وہ کون سی ہے)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث من جوامع الكلم؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم استعاذ من أربعة أمور، إذا سلم منها العبد سلمت له دنياه وأخراه، وهذا هو الفوز المبين، والفلاح العظيم؛ وجوامع الكلم اختصار المعاني الكثير في كلمات يسيرة.
فقد استعاذ النبي صلى الله عليه وسلم من أربعة امور، وهي:
"من جهد البلاء": أي شدة البلاء والجهد فيه- والعياذ بالله- لأن البلاء إذا اشتد فالإنسان لا يأمن نفسه من التبرم والضجر من أقدار الله تعالى، فيخسر بذلك العبد الدنيا والآخرة.
"ودرك الشقاء": أي اللحاق بالشقاء، وهو عام ويدخل فيه شقاء الآخرة دخولا أوليا ، لأنه الشقاء الذي لا يعقبه هناء، بخلاف شقاء الدنيا فالأيام دول، يوم لك تسر به، ويوم عليك تشقي به.
"وسوء القضاء": أي يقدر ويقع على العبد فيما لا يسره، وهو عام في كل شؤون الدنيا من: مال وولد وصحة وزوجة وغيرها، وشؤون الآخرة والمعاد.
والمراد بالقضاء هنا: المقضي، لأن قضاء الله وحكمه كله خير .
"وشماتة الأعداء": فهذا مما يتأثر به الإنسان أن يجد عدوه فرحا بمصابه، فدخول عدو الدين هو دخولا أصليا، وعدو الدنيا  دخولاً ثانوياً.
740;ہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے چار چیزوں سے پناہ مانگی، اگر انسان ان چار چیزوں سے محفوظ رہا تو وہ دنیا و آخرت میں محفوظ رہے گا اور یہی حقیقی کامیابی ہے اور بڑی نجات ہے۔ جوامع الکلم ایسی باتوں کو کہتے ہیں جو کم لفظوں میں زیادہ معانی سمائے ہوں۔
آپ ﷺ نے چار چیزوں سے پناہ مانگی، وہ چار چیزیں درج ذیل ہیں:
”مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ“ یعنی مصیبتوں کی سختی اور مشقت سے (اللہ کی پناہ) اس لیے کہ جب مصیبت سخت ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ کی مضبوط اور محکم تقدیر پر وہ اپنے آپ کو زد کوب سے نہیں بچا سکتا جس کی وجہ سے وہ دنیا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھاتا ہے۔
”وَدَرَكِ الشَّقَاءِ“ یعنی بدبختی کا لاحق ہونا۔ یہ عام ہے اس میں آخرت کی بدبختی ترجیحی بنیاد پر شامل ہے جس کے بعد سُکھ نہیں بخلافِ دنیا کی بدبختی کے کہ دن تو ادلتے بدلتے رہتے ہیں کہ کبھی کوئی دن آپ کی خوشی کا ہوگا اور دوسرا دن بدبختی کا۔
”وَسُوءِ الْقَضَاءِ“ یعنی جو مقدر میں ہو وہ ہوگا، جو انسان کو ناخوش حالات میں ڈال دے۔ یہ دنیا کے تمام امور کو عام ہے جیسے مال، اولاد، صحت اور بیوی وغیرہ۔ اسی طرح اُخروی امور کو بھی شامل ہے۔
یہاں پر قضاء سے مُراد حاصل شدہ امر ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور حکم سب کے سب خیر ہیں۔
”وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ“ دُشمنوں کی ہنسی سے یعنی جس سے انسان متاثر ہوتا ہے جیسے دشمن کا تمہیں مصیبت میں دیکھ کر خوش ہونا، دینی دشمنوں کا اس حدیث میں داخل ہونا حقیقی ہے اور دنیا کے دشمنوں کا داخل ہونا ثانوی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6040

 
 
Hadith   1174   الحديث
الأهمية: ذكر العزل لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: ولم يفعل ذلك أحدكم؟ فإنه ليست نفس مخلوقة إلا الله خالقها


Tema:

آپ ﷺ کے سامنے عزل کا ذکر کیا گیا، تو فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ جس بھی جان کو اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه-: «ذُكِرَ َالعزل لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: ولم يفعل ذلك أحدكم؟ -ولم يقل: فلا يفعل ذلك أحدكم؟-؛ فإنه ليست نفس مخلوقة إلا الله خالقها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے عزل کا ذکر کیا گیا، تو فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے۔ اس لیے کہ جس بھی جان کو اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر العزل عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنه يفعله بعض الرجال في نسائهم وإمائهم. فاستفهم منهم النبي -صلى الله عليه وسلم- عن السبب الباعث على ذلك بصيغة الإنكار.
ثم أخبرهم -صلى الله عليه وسلم- عن قصدهم من هذا العمل بالجواب المقنع المانع عن فعلهم. وذلك بأن الله -تعالى- قد قدر المقادير، فليس عملكم هذا براد لنسمة قد كتب الله خلقها وقدر وجودها، لأنه مقدر الأسباب والمسببات، فإذا أراد خلق النطفة من ماء الرجل، سرى من حيث لا يشعر، إلى قراره المكين.
570;پ ﷺ کے سامنے عزل کا ذکر ہوا کہ بعض لوگ اپنی بیویوں اور باندیوں کے ساتھ عزل کرتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے استفہامِ انکاری کے طور پر ان سے اس کے کرنے کا سبب دریافت کیا۔
پھر آپ ﷺ نے انہیں اس کام کے کرنے کی وجہ سے باخبر کیا ایک اطمئنان بخش جواب کی شکل میں جس میں انہیں اس سے روکا گیا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کو اندازے سے مقرر کر دیا ہے۔ اس لیے تمہارے اس طرح کرنے سے وہ انسان رُک نہیں سکتا جس کی تخلیق اور وجود بخشنا اللہ نے لکھ رکھا ہے، وہ اسباب اور مسببات کو پیدا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی آدمی کی منی سے نطفے کو پیدا کرنا چاہے تو لاشعوری طور پر اس کو اپنی مقرر جگہ لے جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6041

 
 
Hadith   1175   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رخص في بيع العرايا، في خمسة أوسق أو دون خمسة أوسق


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے بیعِ عرایا میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی، (بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے) جب کہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رخص في بيع العرايا، في خمسة أوَسْقُ ٍأو دون خمسة أوسق».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’بیع عرایا‘ میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی، (بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے) جب کہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العرايا جمع عرية، ومعناها أن يرغب إنسان في أكل الرطب في وقت ظهوره، ولكنه لا يقدر على ذلك لفقره، وعنده تمر يابس، فيشتري الرطب على رؤوس النخل بالتمر اليابس، على أن يُقدَّر وزن الرطب بخمسة أوسق؛ لأنه لما كانت مسألة "العرايا" مباحة للحاجة من أصل محرم، اقتصر على القدر المحتاج إليه غالباً، فرخص فيما قدره خمسة أوسق فقط أو ما دون ذلك؛ لأنه في هذا القدر تحصل الكفاية للتفكه بالرطب، والأصل المحرم هو ربا الفضل، قال -صلى الله عليه وسلم- لما سئل عن بيع الرطب بالتمر: (أينقص الرطب إذا جف) قالوا: نعم، قال: (فلا إذًا) حديث صحيح رواه الخمسة.

Esin Hadith Caption Urdu


’عرايا‘ جمع ہے ’عرية‘ کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کھجوریں پکنے کے وقت اس کے کھانے میں رغبت رکھے، لیکن اپنے فقر کی وجہ سے کھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تاہم اس کے پاس خشک کھجوریں ہیں، چنانچہ وہ پانچ وسق خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی کھجوروں کا اندازہ کرکے خرید لے۔ چونکہ ’عرایا‘ جو کہ اصل میں حرام تھا لیکن ضرورت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا گیا، اس لیے ضرورت کی مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے، اس لیے کہ صرف پانچ وسق یا اس سے کم میں جائز ہے۔ اس لیے کہ تر کھجوریں لذّت کے طور پر کھانا اس مقدار میں کافی ہو جاتا ہے۔ اصل حرمت ’ربا الفضل‘ کی ہے۔ آپ ﷺ سے جب تر کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:کیا تر کھجور سوکھ جانے کے بعد (وزن میں) کم ہو جاتی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6042

 
 
Hadith   1176   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رخص لصاحب العرية: أن يبيعها بخرصها


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے صاحبِ عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے سے برابر میوے کے بدلے میں بیچ ڈالے۔

عن زيد بن ثابت -رضي الله عنه-: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رخص لصاحب العَرِيَّةِ: أن يبيعها بِخَرْصِهَا».   ولمسلم: «بخرصها تمرا، يأكلونها رُطَبَاً».

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحبِ عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے سے برابر میوے کے بدلے میں بیچ ڈالے۔
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں ”بِخَرْصِهَا تَمْرًا يَأْكُلُونَهَا رُطَبًا“ یعنی اندازے سے خشک کھجور دے کر کھانے کے لیے تازہ کھجوریں حاصل کرلیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيع الرطب على رؤوس النخيل بتمر محرم، ويسمى المزابنة، لما فيه من الجهل بتساوي النوعين الربويين، ولكن استثني منه العرايا، وهي مبادلة بيع الرطب على رؤوس النخيل بتمر بشروط معينة، منها أن يكون في أقل من خمسة أوسق، فقد كانت النقود كالدنانير والدراهم قليلة في الزمن الأول، فيأتي زمن الرطب والتفكه به، في المدينة والناس محتاجون إليه، وليس عند بعضهم ما يشترى به من النقود، فرخص لهم أن يشتروا ما يتفكهون به من الرطب بالتمر الجاف ليأكلوها رطبة مراعين في ذلك تساويهما لو آلت ثمار النخل إلى الجفاف، وهو الخرص، فالعرايا استثناء من تحريم المزابنة.
583;رخت پر لگے تازہ کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع حرام ہے، اسے ’مزابنہ‘ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں طرفَین سے سودی اشیاء (وہ اشیاء جن میں سود کا حکم ہوتا ہے، جیسے سونا، چاندی وغیرہ) کی (مقدار میں) برابر ہونے میں جہالت پائی جاتی ہے۔ لیکن بیع عرایا کو شریعت نے اس (حکم) سے مستثنی قرار دیا ہے، بیع عرایا یہ ہے کہ درخت پر موجود تازہ کھجوروں کے عوض خشک کھجور دیے جائیں، اس کی کچھ شرطیں ہیں جیسے اس کی مقدار پانچ وسق سے کم ہو وغیرہ۔
پہلے زمانے میں درہم و دینار کی طرح رقم کم ہوتی تھی۔ کھجور پکنے کا زمانہ آتا، مدینہ کے لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن ان کے پاس یہ خریدنے کے لیے نقد رقم نہیں ہوتی تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے تر کھجوریں کھانے کی اجازت دی، جب کہ وہ طرفَین سے برابری کو ملحوظ رکھے یعنی اگر درخت کے کھجور سوکھ جائیں تو کتنے ہوں گے۔ اس کو خرص یعنی اندازہ کہتے ہیں۔ ’بیع عرايا‘، ’بیع مزابنہ‘ کی حرمت سے مستثنیٰ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6043

 
 
Hadith   1177   الحديث
الأهمية: رد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بغیر شادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔

عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- قال: رد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على عثمان بن مظعون التَّبَتُّلَ، ولو أذن له لاختَصَيْنَا.

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بغیر شادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
روى سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه-: أن عثمان بن مظعون من شدة رغبته في الإقبال على العبادة، أراد أن يتفرغ لها ويهجر ملاذَ الحياة.
فاستأذن النبي -صلى الله عليه وسلم- في أن ينقطع عن النساء ويقبل على طاعة الله -تعالى- فلم يأذن له، لأن ترك ملاذّ الحياة والانقطاع للعبادة، من الغُلو في الدين والرهبانية المذمومة.
وإنما الدين الصحيح هو القيام بما لله من العبادة مع إعطاء النفس حظها من الطيبات، ولذا فإن النبي -صلى الله عليه وسلم- لو أذن لعثمان، لاتبعه كثير من المُجدّين في العبادة.
587;عد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے عبادت میں زیادہ رغبت رکھنے کی وجہ یہ عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرنا چاہا اور دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو چھڑانا چاہا۔ تو آپ ﷺ سے بیویوں سے الگ رہنے کی اجازت مانگی، تاکہ اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ ہو، آپ ﷺ نے اجازت نہ دی۔ اس لیے کہ دنیا کی خواہشات کو چھوڑ کر عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرنا دین میں غلو ہے اور رہبانیت ہے جس کی شریعت نے مذمت کی ہے۔
صحیح دین یہ ہے کہ نفس کو پاک اشیاء کی شکل میں اس کا حق دیتے ہوئے اللہ تعالی کا حق عبادت ادا کرنا ہے۔
اسی وجہ سے اگر آپ ﷺ عثمان رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دیتے، تو بہت سارے لوگ جو اللہ کی عبادت کرکے مشقت برداشت کرتے ہیں وہ بھی ان کی اتباع کرتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6044

 
 
Hadith   1178   الحديث
الأهمية: زوجتكها بما معك من القرآن


Tema:

میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کر دی جو تمہیں یاد ہے

عن سهل بن سعد الساعدي -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- جاءته امرأة فقالت: إني وَهَبْتُ نفسي لك: فقامت طويلا، فقال رجل: يا رسول الله، زَوِّجْنِيهَا، إن لم يكن لك بها حاجة. فقال: هل عندك من شيء تُصْدِقُهَا؟ فقال: ما عندي إلا إِزَارِي هذا. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إِزَارُكَ إن أَعْطَيْتَهَا جلست ولا إِزَارَ لك، فالْتَمِسْ شيئا قال: ما أجد. قال: الْتَمِسْ ولو خَاتَمًا من حَدِيدٍ. فالْتَمَسَ فلم يجد شيئا. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- هل معك شيء من القرآن؟ قال: نعم. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: زَوَّجْتُكَهَا بما معك من القرآن».

سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا۔ پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تو اس سے میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے؟، اس نے عرض کیا: میرے پاس میرے اس تہبند کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تم بغیر تہبند کے رہ جاؤ گے، لہذا تم کوئی اور چیز تلاش کرو، اس نے عرض کیا: میں کوئی چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا: تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ چناں چہ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟، اس نے کہا: جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کر دی جو تمہیں یاد ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خُص النبي -صلى الله عليه وسلم- بأحكام ليست لغيره.
منها: تزوجه من تهب نفسها له بغير صداق، فجاءت امرأة واهبة له نفسها، لعلها تكون إحدى نسائه.
فنظر إليها فلم تقع في نفسه، ولكنه لمْ يردها، لئلا يخجلها، فأعرض عنها، فجلست، فقال رجل: يا رسول الله، زَوجْنيهَا إن لم يكن لك بها حاجة.
وبما أن الصداق لازم في النكاح، قال له: هل عندك من شيء تصدقها؟.
فقال: ما عندي إلا إزاري.
وإذا أصدقها إزاره يبقى عريانا لا إزار له، فلذلك قال له: "التمس، ولو خاتَماً من حديد".
فلما لم يكن عنده شيء قال: "هل معك شيء من القرآن؟" قال: نعم.
قال -صلى الله عليه وسلم-: زوجتكها بما معك من القرآن، تعلمها إياه، فيكون صداقها.
705;چھ احکام نبی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہیں جو دوسروں کے لئے جائز نہیں:
انہیں میں سے آپ ﷺ کا نکاح کرنا بغیر کسی مہر کے اس عورت سے جو خود سے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کر دیے، چناں چہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کر دیا اس امید میں کہ شاید وہ آپ کی ایک بیوی بن سکے۔
آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ آپ کے دل میں جگہ نہ بنا سکی، لیکن آپ ﷺ نے اسے واپس نہیں کیا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو، لھذا آپ ﷺ نے اس سے اعراض کیا، تو وہ بیٹھ گئی تو ایک شخص کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ کو حاجت نہیں تو اس سے میرا نکاح کرا دیجئے۔
چوں کہ نکاح میں مہر ضروری ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا: کیا تمہارے پاس اسے مہر میں ادا کرنے کے لئے کچھ ہے؟
وہ بولا: میرے اس تہبند کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔
اور اگر وہ اپنا ازار اسے مہر میں دے دیتا تو ننگا بچتا، اس کے پاس کوئی ازار نہیں رہتا، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تلاش کرو چاہے لو ہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو“۔
جب اس کے پاس(تلاش کرنے کے باوجود) کچھ نہ ملا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تجھے کچھ قرآن یا د ہے؟“ کہنے لگا: ہاں۔
آپ ﷺ نے اس سے کہا: جو کچھ تجھے قرآن یاد ہے اسی کے یا د کرانے کے بدلے میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کر دیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6045

 
 
Hadith   1179   الحديث
الأهمية: حديث سُبيعة الأسلمية في العِدَّة


Tema:

عدت کے بارے میں سُبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث۔

عن سبيعة الأسلمية -رضي الله عنها- أنها كانت تحت سعد بن خولة -وهو من بني عامر بن لؤي، وكان ممن شهد بدرا- فتوفي عنها في حجة الوداع، وهي حامل. فلم تنشب أن وضعت حملها بعد وفاته.
فلما تعلت من نفاسها؛ تجملت للخطاب، فدخل عليها أبو السنابل بن بعكك -رجل من بني عبد الدار- فقال لها: ما لي أراك متجملة؟ لعلك ترجين النكاح؟ والله ما أنت بناكح حتى يمر عليك أربعة أشهر وعشر.
قالت سبيعة: فلما قال لي ذلك: جمعت علي ثيابي حين أمسيت، فأتيت رسول -صلى الله عليه وسلم- فسألته عن ذلك؟ فأفتاني بأني قد حللت حين وضعت حملي، وأمرني بالتزويج إن بدا لي».
وقال ابن شهاب: ولا أرى بأسا أن تتزوج حين وضعت -وإن كانت في دمها-، غير أنه لايقربها زوجها حتى تطهر.

سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، جو کہ قبیلۂ بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔ حجۃ الوداع کے سال ان کا انتقال ہو گیا جب کہ وہ حاملہ تھیں۔ ان کی وفات کے کچھ بعد ہی انہوں نے اپنا بچہ جن دیا۔
جب وہ اپنی مدتِ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب وزینت کے ساتھ رہنے لگیں)۔ ان کے پاس قبیلۂ بنی عبد الدار کے ایک آدمی ابو سنابل بن بعکک (رضی الله عنہ) آئے اور کہنے لگے: کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھ رہاں ہوں؟ لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو؟ اللہ کی قسم! تم اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتى جب تک کہ چار مہینہ دس دن (كى عدت) مکمل نہ ہو جائے۔
سبیعہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں اپنے کپڑے اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے مجھے فتوی دیا کہ: جس وقت میں نے بچہ جنا تھا اسی وقت سے میں حلال ہو چکی ہوں اور آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اگر چاہوں تو شادی کرلوں۔‘‘
ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ بچہ جننے کے (فوراً) بعد شادی کر لے، اگرچہ اس کا خون ابھی جاری ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن نفاس سے پاک ہونے سے پہلے اس کا شوہر اس کے قریب نہیں جائے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
توفي سعد بن خولة عن زوجته سبيعة الأسلمية وهي حامل، فلم تمكث طويلا حتى وضعت حملها.
فلما طَهُرَت من نِفَاسها تجملَّت، وكانت عالمة أنها بوضع حملها قد خرجت من عدتها وحلَّت للأزواج.
فدخل عليها أبو السنابل، وهي متجملة، فعرف أنها متهيئة للخُطَّاب، فأنكر عليها بناء على اعتقاده أنه لم تنته عدتها، وأقسم أنه لا يحل لها النكاح حتى يمر عليها أربعة أشهر وعشر، أخذا من قوله -تعالى-: (والذِين يُتَوَفوْن منكم ويذرون أزْواجاً يتَرَبصْنَ بِأنفُسِهن أربعة أشهُر وعشراً) وكانت غير متيقنة من صحة ما عندها من العلم، والداخل أكَّدَ الحكم بالقسم.
فأتت النبي -صلى الله عليه وسلم-، فسألته عن ذلك، فأفتاها بحلها للأزواج حين وضعت الحمل، فإن أحبت الزواج، فلها ذلك، عملا بقوله -تعالى-: (وَأولاتُ الأحمال أجلُهُن أن يضَعْنَ حَمْلَهُن).
فالمتوفى عنها زوجها وهي حامل تنتهي عدتها بالولادة، فإلم تكن حاملًا فعدتها أربعة أشهر وعشرة أيام.
587;عد بن خولہ رضی اللہ عنہ وفات پاگئے جب کہ ان کی بیوی سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ انہوں نے اپنے بچے کو جن دیا۔
جب وہ اپنے نفاس سے پاک ہو گئیں تو انہوں نے بناؤ سنگھار کیا۔ انہیں علم تھا کہ وضع حمل کے ساتھ ہی وہ اپنی عدت سے نکل چکی ہیں اور ان کے لیے دوسرے مردوں سے شادی کرنا جائز ہو گیا ہے۔
ایسے میں ابو السنابل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے۔ انہیں بنی سنوری دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ وہ شادی کا پیغام بھیجنے والوں کے لئے تیاری كی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر ان کے اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ان کی عدت ابھی ختم نہیں ہوئی اور انھوں نے قسم کھا کر کہا کہ ان کے لیے چار ماہ دس دن گزرنے سے پہلے نکاح کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ”تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وه عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس (دن) عدت میں رکھیں“۔ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے علم کی صحت پر یقین نہیں تھا، جب کہ اس آنے والے شخص نے اپنی بات کی تاکید قسم اٹھا کر کی تھی۔
چنانچہ وہ نبی صلی اللہ عليہ وسلم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے انہیں فتوی دیا کہ وہ وضع حمل کے ساتھ ہی شادی کے لیے حلال ہو گئی تھیں۔ لھٰذا اگر وہ شادی کرنا چاہیں تو ان کو اجازت ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَأولاتُ الأحمال أجلُهُن أن يضَعْنَ حَمْلَهُن﴾ ”اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے“۔
چنانچہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو اس کی عدت بچہ جننے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور اگر وہ حاملہ نہ ہو تو پھر اس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6046

 
 
Hadith   1180   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: اللهم إني أعوذ بك مِنَ البَرَصِ، والجُنُونِ، والجُذَامِ، وَسَيِّيءِ الأسْقَامِ


Tema:

نبی ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں برص، پاگل پن، کوڑھ کی بیماری اور تمام بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كَانَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقُولُ: «اللهم إني أعوذ بك من  البَرَصِ، والجُنُونِ، والجُذَامِ، وَسَيِّئِ الأسْقَامِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں برص، پاگل پن، کوڑھ کی بیماری اور تمام بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يستعيذ من أمراض معينة، وهذا يدل على خطرها، وعظيم أثرها، ثم سأل السلامة والعافية من قبيح الأمراض عموما، فقد تضمن هذا الدعاء: التخصيص والإجمال، فقال:" اللهم إني أعوذ بك من البرص"، وهو بياض يظهر في الجسم، يُوَلِّدُ نُفرة الخلق عن الإنسان، فيورث الإنسان العزلة التي قد تودي به إلى التسخط والعياذ بالله.
"والجنون": وهو ذهاب العقل، فالعقل هو مناط التكليف وبه يعبد الإنسان ربه، وبه يتدبر ويتفكر في خلائق الله -تعالى-، وفي كلامه العظيم، فذهاب العقل ذهاب بالإنسان.
و"الجذام": وهو مرض تتآكل منه الأعضاء حتى تتساقط -والعياذ بالله– .
"وسيء الأسقام": أي قبيح الأمراض: وهي العاهات التي يصير المرء بها مُهاناً بين الناس، تنفرُ عنه الطباع، كالشلل والعمى والسرطان، ونحو ذلك؛ لأنها أمراض شديدة تحتاج إلى كلفة مالية، وصبر قوي لا يتحمله إلا من صبره الله -تعالى- وربط على قلبه.
وهنا تظهر عظمة هذا الدين الذي يحافظ ويرعى بدن المسلم ودينه.
575;س حدیث میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ نبی ﷺ کچھ مخصوص امراض سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امراض بہت ہی خطرناک ہیں اور ان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ پھر نبیﷺ نے عمومی طور پر کئی برے امراض سے سلامتی اور عافیت طلب کی۔ اس حدیث میں تخصیص بھی ہے اور اجمال بھی۔
نبی ﷺ نے پناہ مانگتے ہوئے کہتے: ”اللَّهمَّ إِنِّي أَعُوُذُ بِكَ مِنَ الْبرَصِ“ ’برص‘ سے مراد وہ سفیدی ہے جو بدن میں ظاہر ہوتی ہے اور اس سے لوگ انسان سے گھن کھانا لگتے ہیں جس کی وجہ سے انسان بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ جاتا ہے جو بسا اوقات ڈیپریشن (ذہنی دباؤ) کا سبب بن جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔
”وَالجُنُونِ“ اس کا معنی ہے عقل کا زائل ہو جانا۔ عقل ہی کی وجہ سے انسان مکلف ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ اشیاء اور اس کے کلام عظیم میں غور و فکر کرتا ہے۔ عقل کا ختم ہو جانا گویا انسان ہی کا ختم ہوجانا ہے۔
”والجُذَامِ“ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اعضاء جسم بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور کٹ کر گرنے لگتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔
”وسّيءِ الأَسْقامِ“ یعنی بُرے امراض سے۔ اس سے مراد وہ جسمانی آفات ہیں جن کی وجہ سے انسان لوگوں کے مابین حقیر ہو کر رہ جاتا ہے اور لوگ طبعی طور پر اس سے دور رہنا شروع کر دیتے ہیں جیسے فالج، اندھا پن اور سرطان وغیرہ کیونکہ یہ بہت سخت قسم کے امراض ہیں جن کے علاج میں کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں نیز اُن کا سامنا کرنے کے لیے قوی ترین صبر ہونا چاہیے۔ انہیں صرف وہی برداشت کر پاتا ہے جسے اللہ تعالی صبر دے دے اور اس کا دل باندھ دے۔
اس دعا سے اُس دین کی عظمت عیاں ہوتی ہے جو مسلمان کے جسم اور دین دونوں ہی کا لحاظ رکھتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6047

 
 
Hadith   1181   الحديث
الأهمية: سئل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن لقطة الذهب، أو الورق؟ فقال: اعرف وكاءها وعفاصها، ثم عرفها سنة، فإن لم تُعرَف فاستنفقها، ولتكن وديعة عندك فإن جاء طالبها يوما من الدهر؛ فأدها إليه


Tema:

اللہ کے رسول سے سونے اور چاندی کی شکل میں ملنے والی گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اس کی ڈوری اور کپڑے کی تشہیر کرو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، پھر اگر تم نے اسے خرچ کر لیا، تو وہ تمہارے پاس ودیعت ہوگی۔ جب کبھی بھی اس کا مالک آئے، تمہیں ادا کرنا پڑے گا۔

عن زيد بن خالد الجهني -رضي الله عنه-: «سئل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن لُقَطَة الذهب، أو الوَرِق؟ فقال: اعرف وكِاَءَهَا وعِفَاصَهَا، ثم عَرِّفْهَا سَنَةً، فإن لم تُعرَف فاستنفقها، ولتكن وديعة عندك فإن جاء طالبها يوما من الدهر؛ فأدها إليه.
وسأله عن ضالة الإبل؟ فقال: ما لك ولها؟ دَعْهَا فإن معها حِذَاَءَهَا وسِقَاءَهَا، تَرِدُ الماء وتأكل الشجر، حتى يجدها رَبُّهَا.
وسأله عن الشاة؟ فقال: خذها؛ فإنما هي لك، أو لأخيك، أو للذئب».

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی کے گرے یا بھولے ہوئے سونے اور چاندی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس کے بٹوے اور (باندھنے کی) رسی کی شناخت کرلو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو، اگر (کچھ بھی) نہ جان پاؤ تو اسے خرچ کرلو اور وہ تمہارے پاس امانت ہوگی، اگر کسی بھی دن اس کا طلب کرنے والا آ جائے تو اسے اس کی ادائیگی کر دو“۔
اس شخص نے آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”تمہارا اس سے کیا واسطہ ؟ اس کا جوتا اور مشکیزہ اس کے ساتھ ہے، وہ مالک کے پالینے تک (خود ہی) پانی پر آتا اور درخت کھاتا ہے“۔
اس نے آپ ﷺ سے بکری کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اسے پکڑ لو، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن حكم المال الضال عن ربه، من الذهب، و الفضة، والإبل، والغنم.
فبين له صلى الله عليه وسلم حكم هذه الأشياء لتكون مثالا لأشباهها، من الأموال الضائعة، فتأخذ حكمها.
فقال عن الذهب والفضة: اعرف الرباط الذي شدت به، والوعاء الذي جعلت فيه، لتميزها من بين مالك، ولتخبر بعلمك بها من ادعاها.
فإن طابق وصفه صفاتها، أعطيه إياها، وإلا تبين لك عدم صحة دعواه .
وأمره أن يعرفها سنة كاملة بعد التقاطه إياها.
ويكون التعريف في مجامع الناس كالأسواق ، وأبواب المساجد. والمجمعات العامة، وفي مكان التقاطها.
ثم أباح له- بعد تعريفها سنة، وعدم العثور على صاحبها أن يستنفقها، فإذا جاء صاحبها في أي يوم من أيام الدهر، أداها إليه.
وأما ضالة الإبل ونحوها، مما يمتنع بنفسه، فنهاه عن التقاطها؛ لأنها ليست بحاجة إلى الحفظ، فلها من طبيعتها حافظ، لأن فيها القوة على صيانة نفسها من صغار السباع، ولها من أخفافها ما تقطع به المفاوز، ومن عنقها ما تتناول به الشجر والماء، ومن جوفها ما تحمل به الغذاء، فهي حافظة نفسها حتى يجدها ربها الذي سيبحث عنها في مكان ضياعها.
وأما ضالة الغنم ونحوها من صغار الحيوان، فأمره أن يأخذها حفظا لها من الهلاك وافتراس السباع، وبعد أخذها يأتي صاحبها فيأخذها، أو يمضي عليها حول التعريف فتكون لواجدها .
575;یک شخص نے آپ ﷺ سے کسی کے گم شدہ مال جیسے سونا، چاندی، اونٹ اور بکریوں کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے ان تمام چیزوں کا حکم بیان فرمایا تاکہ یہ ان جیسی گم شدہ چیزوں کے لیے مثال بنے اور اُن کا حکم معلوم ہو۔
سونے اور چاندی کے بارے میں کہا: اس ڈوری کی پہچان کرو جس سے وہ باندھی ہوئی ہے اور اس بٹوے کو بھی جس میں وہ چیز رکھی ہوئی ہے تاکہ مالکوں کے درمیان تمییز کر سکو ہو اور اپنے علم کے مطابق اس کے مدعی کو بتا سکو جو اس کا دعوے دار ہے۔
اگر مدعی کی بیان کردہ صفت اس کی صفات کے موافق ہوں تو اسے دے دو ورنہ اس کے دعوے کا جھوٹا ہونا تم پر ظاہر ہو جائے گا۔
آپ ﷺ نے چیز ملنے کے بعد مکمل ایک سال تک اس کی پہچان کروانے (تشہیر) کا حکم دیا۔
تشہیر لوگوں کے عمومی مجموعے میں ہوگی جیسے بازار، مسجد کے دروازے، عام اجتماعات اور ملنے کی جگہ میں۔
ایک سال تشہیر اور مالک کے نہ ملنے کے بعد اس کے استعمال کو حلال قرار دے دیا اور اگر زندگی میں کسی بھی وقت اس کا مالک آ گیا تو اسے وہ لوٹا دیا جائے۔
جہاں تک گم شدہ اونٹ وغیرہ کا تعلق ہے یعنی جو اپنے آپ کو سنبھال سکے، اس کے لینے سے منع فرمایا، اس لیے کہ اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں، وہ خود اپنا محافظ ہے۔ اس لیے کہ اس میں اپنے آپ کو چھوٹے درندوں سے بچانے کی طاقت موجود ہے، اس کے پاؤں ہے جس کے ذریعے وہ صحراؤں کو عبور کرسکتا ہے اور وہ اپنی گردن سے درخت چرسکتا ہے اور پانی پی سکتی ہے، اور اس کا پیٹ بہت ساری غذا جمع کر سکتا ہے۔ مالک کے ملنے تک وہ اپنی حفاظت خود کرے گا کہ وہ گم شدگی کی جگہ میں اسے ڈھونڈے گا۔
جہاں تک گم شدہ بکری اور چھوٹے جانوروں کا تعلق ہے۔ تو اسے ہلاکت اور درندوں کی چیر پھاڑ سے بچانے کے لیے اسے حفاظت کی خاطر پکڑنے کا حکم دیا، پکڑنے کے بعد اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو یا اس کی پہچان کروانے کا سال مکمل ہو جائے تو وہ ملنے والے کا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6048

 
 
Hadith   1182   الحديث
الأهمية: أكبر الكبائر: الإشراك بالله، والأمن من مكر الله، والقنوط من رحمة الله، واليأس من روح الله


Tema:

سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اللہ کی رحمت ونعمت سے مایوس ہوجانا، اس کی پوشیدہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "أكبر الكبائر: الإشراك بالله، والأمن من مَكْرِ الله، والقُنُوطُ من رحمة الله، واليَأْسُ من رَوْحِ الله".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اللہ کی رحمت ونعمت سے مایوس ہوجانا، اس کی پوشیدہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر رسول الله -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في هذا الحديث ذنوبًا تعتبر من كبائر الذنوب، وهي: أن يُجعل لله -سبحانه- شريكٌ في ربوبيته أوعبوديته وبدأ به؛ لأنه أعظم الذنوب، وقطع الرجاء والأمل من الله؛ لأن ذلك إساءة ظنٍّ بالله وجهل بسعة رحمته، والأمن من استدراجه للعبد بالنعم حتى يأخذه على غفلة، وليس المراد بهذا الحديث حصر الكبائر فيما ذكر؛ لأن الكبائر كثيرة، لكن المراد بيان أكبرها.
575;س حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان گناہوں کا ذکر کیا جو کبیرہ گناہ شمار ہوتے ہیں اوروہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یا عبودیت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کو پہلے ذکر کیا اس لئے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا،اس لئے کہ یہ اللہ کے بارے میں بدگمانی ہے اور اس کی وسیع رحمت سے نا واقفیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندے کو نعمتوں کے ذریعہ ڈھیل دینے اور حالت غفلت میں اچانک پکڑلینے سے بے خوف رہنا۔ اس حدیث سے مُراد یہ نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں۔ اس لئے کہ کبیرہ گناہ بہت ہیں۔ تاہم یہاں ان میں سے سب سے بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے۔   --  [اس حدیث کی سند صحیح ہے۔]+ +[اسے امام عبد الرزّاق نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6049

 
 
Hadith   1183   الحديث
الأهمية: صفة صلاة الخوف كما رواها جابر


Tema:

خوف كى نماز کا طریقہ جیسا كہ جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔

عن جابر بن عبد الله الأنصاري -رضي الله عنهما- قال: «شَهِدْتُ مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلاة الخوف فَصَفَفْنَا صَفَّيْنِ خلف رسول الله -صلى الله عليه وسلم- والعدو بيننا وبين القبلة، وكَبَّرَ النبي -صلى الله عليه وسلم- وكَبَّرنا جميعا، ثم ركع ورَكَعْنا جميعا، ثم رفع رأسه من الركوع ورفعنا جميعا، ثم انحدر بالسجود والصف الذي يليه، وقام الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ في نَحْرِ الْعَدُوِّ، فلما قضى النبي -صلى الله عليه وسلم- السجود، وقام الصفّ الذي يليه انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بالسجود، وقاموا، تَقَدَّمَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ, وَتَأَخَّرَ الصَّفُّ الْمُقَدَّمُ، ثم ركع النبي -صلى الله عليه وسلم- وركعنا جميعا، ثم رفع رأسه من الركوع ورفعنا جميعا، ثم انحدر بالسجود، والصفّ الذي يليه -الذي كان مُؤَخَّرا في الركعة الأولى- فقام الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ، فلما قضى النبي -صلى الله عليه وسلم- السجود والصف الذي يليه: انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بالسجود، فسجدوا ثم سلَّم -صلى الله عليه وسلم- وسَلَّمْنا جميعا، قال جابر: كما يصنع حَرَسُكُمْ هؤلاء بأُمرائهم».
وذكر البخاري طرفا منه: «وأنه صلى صلاة الخوف مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الغزوة السابعة، غزوة ذات الرِّقَاعِ».

جابر بن عبد الله انصارى - رضی اللہ عنہما- فرماتے ہیں کہ میں خوف کی نماز پڑھتے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھا، دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان حائل تھا ہم لوگوں نے نبی ﷺ کے پیچھے دو صفیں بنائیں نبی ﷺ نے تکبیر کہی ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ تکبیر کہی پھر آپ ﷺ نےرکوع کیا اور ہم سب نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ رکوع کیا پھر جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے بھی سر اٹھایا پھر آپ ﷺ سجدہ میں چلے گیے تو آپ ﷺ کے ساتھ صرف پہلی صف والوں نے سجدہ کیا جب کہ دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی جب نبی ﷺ اور پہلی صف کے لوگ کھڑے ہوئے تو پچھلی صف والوں نے سجدہ کیا اور پھر کھڑے ہو گیے اس کے بعد پچھلی صف کے لوگ آگے آگیے اور اگلی صف کے لوگ پیچھےچلے گیے، پھر نبی ﷺ نے رکوع کیا اور ہم سب نے اکٹھے ہی رکوع کیا پھر آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھایا اور ہم سب بھی اکٹھے رکوع سے سر اٹھایا اور پھر آپ ﷺ سجدہ میں چلے گئے تو آپ ﷺ کے ساتھ صرف پہلی صف والوں نے سجدہ کیا- جو كہ پہلےپچھلی صف میں تھے- جب کہ دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی جب نبی ﷺ اور پہلی صف کے لوگ کھڑے ہوئے تو پچھلی صف والوں نے سجدہ کیا اور تو اب پہلی صف والوں نے بھی سجدہ کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو ہم سب نے اکٹھے سلام پھیرا جابر رضی اللہ عنہ کہتےہیں: جیسے آج کل تمہارے حفاظتی دستے اپنے امراء کے ساتھ کرتے ہیں۔
(امام مسلم نے یہ روایت مکمل ذکر کی ہے)، امام بخاری نے اس کا کچھ حصہ ہی ذکر کیا ہے کہ انھوں (جابر رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتویں غزوے ’ذات الرقاع‘ میں نمازِ خوف پڑھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث صفةٌ من صفات صلاة الخوف وهذه الصفة فيما إذا كان العدو في جهة القبلة حيث قسم النبي -صلى الله عليه وسلم- الجيش فرقتين، فرقة تكون صفاً مقدماً وفرقة تكون صفاً ثانيًا، ثم يصلى بهم فيكبر بهم جميعاً ويقرأون جميعًا ويركعون جميعًا ويرفعون من الركوع جميعًا ثم يسجد ويسجد معه الصف الذي يليه ثم إذا قام للركعة الثانية سجد الصف المؤخر الذي كان يحرس العدو فإذا قاموا تقدم المؤخر وتأخر المقدم مراعاة للعدل حتى لا يكون الصف الأول في مكانه في كل الصلاة، وفعل في الركعة الثانية كما فعل في الأولى وتشهد بهم جميعًا وسلم بهم جميعًا.
وهذه الكيفية المفصلة في هذا الحديث عن صلاة الخوف، مناسبة للحال التي كان عليها النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه حين ذاك، من كون العدو في جهة القبلة، ويرونه في حال القيام والركوع، وقد أمنوا من كمين يأتي من خلفهم.
575;س حدیث میں خوف کی نماز کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ذکر کیا گیا ہے۔ خوف کی نماز کے اس طریقے میں دشمن قبلے کی جانب ہے، آپ ﷺ نے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ پہلی صف میں اور دوسرا دوسری صف میں ہے، پھر آپ نے انہیں نماز پڑھائی، جس میں تمام لوگ ایک ساتھ تکبیر ، ایک ساتھ قرأت ، ایک ساتھ رکوع اور ایک ساتھ رکوع سے اٹھتے ہیں، پھر سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ ساتھ والی صف بھی سجدہ کرتی، پھر جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو پچھلی صف جو کہ دشمن کے سامنے پہرا دے رہی تھی سجدہ کرتی، جب کھڑے ہوئے تو برابری کی رعایت کرتے ہوئے پچھلی صف آگے اور اگلی صف پیچھے ہوجاتی کہ پوری نماز میں پہلی صف اپنی جگہ پر نہیں رہتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا جیسا پہلی صف میں کیا، پھر تمام کو تشہّد کروائی اور سب کے لیے سلام پھیرا۔
اس حدیث میں نمازِ خوف کی یہ کیفیت تفصیل سے ذکر ہوئی، یہ اس واقع حال کے مناسبت سے تھی جو آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درپیش تھی کہ دشمن قبلے کی جانب ہے، وہ دشمن کو قیام اور رکوع کی حالت میں دیکھ رہے ہیں اور پچھلی جانب سے دشمن کے حملے سے محفوظ ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6050

 
 
Hadith   1184   الحديث
الأهمية: طعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الأربعة


Tema:

دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "طعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الأربعة".
وفي رواية لمسلم عن جابر -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "طعام الواحد يكفي الاثنين، وطعام الاثنين يكفي الأربعة، وطعام الأربعة يكفي الثمانية".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے“۔
صحیح مسلم کی حدیث میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے، دو کا کھانا چار کے لیے اور چار کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث الحث على المواساة في الطعام، وأنه وإن كان قليلاً حصلت منه الكفاية المقصودة، ووقعت فيه بركة تعم الحاضرين عليه، وهو حث منه عليه الصلاة والسلام على الإيثار يعني أنك لو أتيت بطعامك الذي قدرت أنه يكفيك، وجاء رجل آخر فلا تبخل عليه، وتقول هذا طعامي وحدي؛ بل أعطه منه حتى يكون كافياً للاثنين.
581;دیث میں کھانے کے معاملے میں ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ کھانا اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو یہ پورا آجاتا ہے اور اس میں ایسی برکت پیدا ہوجاتی ہے جس سے سب حاضرین بہرہ مند ہوتے ہیں۔ یہ نبی ﷺ کی طرف سے ایثار کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر آپ اپنا کھانا لائیں جس کے بارے میں آپ کا خیال ہو کہ وہ آپ کے لیے کافی ہے اور اسی اثناء میں کوئی اور آدمی آجائے تو بخل سے کام نہ لیں کہ یوں سوچنے لگ جائیں کہ یہ صرف میرا کھانا ہے بلکہ اسے بھی اس کھانے میں شریک کرلیں جو دونوں کے لیے کافی ہوجائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6057

 
 
Hadith   1185   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، ومن شر الغنى والفقر


Tema:

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے فتنے سے، آگ کے عذاب سے نیز مال داری اور محتاجی کے شر سے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يدعو بهذه الكلمات: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، ومن شر الغنى والفقر».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ الْغِنَى، وَالْفَقْرِ“ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے فتنے سے، آگ کے عذاب سے نیز مال داری اور محتاجی کے شر سے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي المختار -عليه الصلاة والسلام- يستعيذ من أمور أربعة:
فقوله: (اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار) أي فتنة تؤدي إلى النار، ويحتمل أن يراد بفتنة النار سؤال الخَزَنَة على سبيل التوبيخ، وإليه الإشارة بقوله تعالى: (كلما ألقي فيها فوج سألهم خزنتها ألم يأتكم نذير).
وقوله: (وعذاب النار) أي أعوذ بك من أن أكون من أهل النار، وهم الكفار فإنهم هم المعذبون، وأما الموحدون فإنهم مؤدبون ومهذبون بالنار لا معذبون بها.
(ومن شر الغنى): وهو البطر والطغيان وتحصيل المال من الحرام وصرفه في العصيان، والتفاخر بالمال والجاه والحرص على جمع المال وأن يكسبه من غير حله ويمنعه من إنفاقه في حقوقه.
و(الفقر) أي وشر الفقر، وهو الفقر الذي لا يصحبه صبر ولا ورع؛ حتى يتورط صاحبه بسببه فيما لا يليق بأهل الدين والمروءة، ويصحبه الحسد على الأغنياء والطمع في أموالهم والتذلل بما يدنس العِرْض والدين وعدم الرضا بما قسم الله له وغير ذلك مما لا تحمد عاقبته.
606;بیٔ مختار ﷺ چار امور سے پناہ مانگا کرتے تھے:
”اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے فتنے سے“ یعنی وہ فتنہ جو آگ کی طرف لے جانے والا ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ آگ کے فتنے سے مُراد زجر اور توبیخ کے لیے جہنم کے داروغے کا وہ سوال کرنا ہو جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اشارہ کیا گیا ہے: ﴿كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ﴾ ”کہ جب کبھی اس میں کوئی گروه ڈاﻻ جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟“۔
”آگ کے عذاب سے“ یعنی میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ میں جہنمیوں میں سے ہو جاؤں۔ جہنمی لوگ کافر ہیں جنہیں عذاب دیا جائے گا۔ جہاں تک موحد لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں آگ سے عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ ان کی تادیب و تہذیب کی جائے گی۔
”مالداری کے شر سے“ یعنی اکڑ، سرکشی، حرام طریقے سے مال کا حصول، نافرمانی میں اس کا خرچ کرنا، مال و منصب پر فخر و نمود، مال کو جمع کرنے کی حرص، اسے حلال طریقہ سے حاصل نہیں کرنا اور جہاں خرچ کرنا ہے وہاں مال خرچ کرنے سے روکے رکھنا ہے۔
”فقیری اور محتاجی کے شر سے“ یعنی وہ محتاجی ہے جس کے ساتھ صبر اور تقویٰ نہ ہو اور اپنے فقر کی وجہ سے وہ ایسی چیزوں میں پھنس جائے جو دیندار اور صاحبِ مروّت لوگوں کے شایانِ شان نہیں۔ ساتھ ہی مال داروں سے حسد کرنا، ان کے مال کی لالچ رکھنا، اس طرح اپنے آپ کو گرا دینا جو عزت و دین کے منافی ہے، اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونا اور اس کے علاوہ وہ ساری چیزیں جن کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6072

 
 
Hadith   1186   الحديث
الأهمية: لا تَشْتَرِهِ، ولا تعد في صدقتك؛ فإن أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ؛ فإن العَائِدَ في هِبَتِهِ كالعَائِدِ في قَيْئِهِ


Tema:

اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ شخص تمھیں وہ گھوڑا ایک درہم میں ہی کیوں نہ دے۔ کیوںکہ کسی کا بطور ہبہ دی گئی شے کو واپس لینا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی قے کر کے اسے چاٹ لے۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: «حَمَلْتُ على فرس في سبيل الله، فأضاعه الذي كان عنده، فأردت أن أشتريه، وظننت أنه يبيعه بِرُخْصٍ، فسألت النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ فقال: لا تَشْتَرِهِ، ولا تعد في صدقتك؛ فإن أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ؛ فإن العَائِدَ في هِبَتِهِ كالعَائِدِ في قَيْئِهِ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے راستے میں (جہاد کےلیے) ایک گھوڑا کسی کو سواری کے لیے دیا اور جسے دیا تھا، اس نے اس کی حالت بالکل ہی بگاڑ دی ۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ میں اسے واپس خرید لوں۔ میرا خیال تھا کہ وہ شخص اسے سستے داموں میں بیچ دے گا۔ اس کے متعلق میں نے نبی ﷺ سے جب پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ شخص تمھیں وہ گھوڑا ایک درہم میں ہی کیوں نہ دے۔ کیوںکہ کسی کا بطور ہبہ دی گئی شے کو واپس لینا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی قے کر کے اسے چاٹ لے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أعان عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- رجلا على الجهاد في سبيل الله، فأعطاه فرسا يغزو عليه، فقصر الرجل في نفقة ذلك الفرس، ولم يحسن القيام عليه، وأتعبه حتى هزل وضعف، فأراد عمر أن يشتريه منه وعلم أنه سيكون رخيصًا لهزاله وضعفه، فلم يقدم على شرائه حتى استشار النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك، ففي نفسه من ذلك شيء، فنهاه النبي -صلى الله عليه وسلم- عن شرائه ولو بأقل ثمن، لأن هذا شيء خرج لله -تعالى- فلا تتبعه نفسك ولا تعلق به، ولئلا يحابيك الموهوب له في ثمنه، فتكون راجعاً ببعض صدقتك، ولأن هذا خرج منك، وكفر ذنوبك، وأخرج منك الخبائث والفضلات، فلا ينبغي أن يعود إليك، ولهذا سمى شراءه عوداً في الصدقة مع أنه يشتريه بالثمن، وشبهه بالعود في القيء، وهو ما يخرج من البطن عن طريق الفم، والعود فيه أن يأكله بعد خروجه، وهذا للتقبيح والتنفير عن هذا الفعل.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جہاد فی سبیل اللہ میں کسی شخص کی معاونت کرتے ہوئے اسے ایک گھوڑا دیا؛ تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر لڑسکے۔ اس شخص نے اس گھوڑے پر خرچ کرنے میں کوتاہی برتی اور اچھے انداز میں اس کی دیکھ بھال نہیں کی اور اس سے اتنا کام لیا کہ وہ نحیف اور کمزور ہو گیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ا س سے وہ گھوڑا خرید لیں۔ انھوں نے کہ گھوڑا نحیف اور لاغر ہونے کی وجہ سے سستا میں مل جاۓ گا۔ تاہم نبی ﷺ سے مشورہ لینے سے پہلے انھوں نے اسے خریدنے کی بات نہیں چلائی؛ کیونکہ ان کے دل میں اس سلسلے میں کچھ کھٹکا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے انھیں اسے خریدنے سے منع فرما دیا، اگرچہ وہ کم قیمت پر ہی مل رہا ہو؛ کیوںکہ یہ اللہ کی راہ میں دی گئی شے تھی۔ (اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ) اس کے پیچھے نہ لگو اور نہ ہی اس سے کوئی واسطہ رکھو، تاکہ کہیں یہ نہ ہو کہ جسے وہ گھوڑا بطور ہبہ دیا گیا تھا، وہ اس کی قیمت میں تمھارے لیے کچھ کمی کر دے اور اس طرح تم اپنے دیے گئے صدقے کے کچھ حصے کو واپس لینے والے بن جاؤ۔ چوںکہ یہ شے تمھاری ملکیت سے نکل چکی ہے اور اس کی وجہ سے تمھارے گناہ معاف ہوئے اور اس نے تمھیں بہت سی برائیوں اور گندگیوں سے چھٹکارا دیا، اس لیے مناسب نہیں کہ وہ لوٹ کر دوبارہ تمھارے پاس آئے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے اسے خریدنے کو صدقہ دے کر واپس لینے کا نام دیا، حالاںکہ وہ اسے قیمت کے ساتھ خرید رہے تھے۔ اور اسے قے کر کے چاٹنے سے تشبیہ دی ہے، قے یعنی پیٹ میں موجود چیز منہ کے راستہ سے باہر آئے، قے کو دوبارہ لوٹانے سے مراد اسے چاٹنا ہے، اس قسم کی تشبیہ دینے کا مقصد اس فعل سے نفرت پیدا کرنا اور اس کی قباحت کو بیان کرنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6073

 
 
Hadith   1187   الحديث
الأهمية: العائد في هبته، كالعائد في قيئه


Tema:

اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی کی ہوئی قے کو چاٹنے والا ہو۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "العائد في هِبَتِهِ، كالعائد في قَيْئِهِ". br>وفي لفظ: "فإن الذى يعود في صدقته: كالكلب يَقِئ ُثم يعود في قيئه".

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی کی ہوئی قے کو چاٹنے والا ہو“۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”جو شخص صدقہ کرکے واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر چاٹ جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ضرب النبي -صلى الله عليه وسلم- مثلًا للتنفير من العود في الهدية بأبشع صورة وهى أن العائد فيها، كالكلب الذي يقىء ثم يعود إلى قيئه فيأكله مما يدل على بشاعة هذه الحال وخستها، ودناءة مرتكبها.
570;پ ﷺ نے ہدیہ واپس لینے سے نفرت دلانے کے لیے بہت بُری مثال بیان فرمائی ہے کہ ہدیہ دے کر واپس لینے والا اس کُتے کی طرح ہے جو قے کرے اور اس کی طرف لوٹ کر اسے چاٹتا ہے۔ یہ مثال اس کی بُرائی، شناعت اور اوچھے پن پر دلالت کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6074

 
 
Hadith   1188   الحديث
الأهمية: صلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بيته وهو شَاكٍ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں اپنے گھر میں نماز پڑھی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: صلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بيته وهو شَاكٍ، صلى جالسا، وصلى وراءه قوم قِيَامًا، فأشار إليهم: أنِ اجْلِسُوا، لما انْصَرَفَ قال: إنما جُعِلَ الإمامُ لِيُؤْتَمَّ به: فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: ربنا لك الحمد، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون».

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی، کچھ لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے انھیں اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائیں۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایاجاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے، تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے، تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے، تو تم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے، تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- جالسًا لمرضه، وفيه بيان صفة اقتداء المأموم بالإمام، ومتابعته له.
فقد أرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- المأمومين إلى الحكمة من جعل الإمام وهي أن يقتدي به ويتابع، فلا يختلف عليه بعمل من أعمال الصلاة، وإنما تراعى تَنَقلاته بنظام فإذا كبر للإحرام، فكبروا أنتم كذلك، وإذا رَكع فاركعوا بعده، وإذا ذكركم أن الله مجيب لمن حمده بقوله: "سمع الله لمن حمده" فاحمدوه تعالى بقولكم:
"ربنا لك الحمد"، وإذا سجد فتابعوه واسجدوا، وإذا صلى جالساً لعجزه عن القيام؛ -فتحقيقاً للمتابعة- صلوا جلوساً، ولو كنتم على القيام قادرين.

فقد ذكرت عائشة أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشتكى من المرض فصلى جالساً، وكان الصحابة يظنون أن عليهم القيام لقدرتهم عليه؛ فصلوا وراءه قياما فأشار إليهم: أن اجلسوا.
فلما انصرف من الصلاة أرشدهم إلى أن الإمام لا يخالف، وإنما يوافق؛ لتحقق المتابعة التامة والاقتداء الكامل، بحيث يصلى المأموم جالساً مع قدرته على القيام لجلوس إمامه العاجز، وهذا إن ابتدأ بهم الصلاة جالساً صلوا خلفه جلوسًا، وإن ابتدأ بهم الإمام الراتب الصلاة قائماً، ثم اعتل في أثنائها فجلس أتموا خلفه قياماً وجوباً؛ عملا بحديث صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- بأبي بكر والناس حين مرِض مرَض الموت.

575;س حدیث میں بیماری کی وجہ سے آپ ﷺ کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ مقتدی کیسے امام کی اقتدا اور اتباع کرے۔
نبی ﷺ نے مقتدیوں کو امام متعین کرنے کی حکمت کی طرف توجہ دلائی کہ امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اقتدا اور اتباع کی جائےاور نماز کے اعمال میں سے کسی بھی عمل میں اس کی مخالفت نہ کی جائے، بلکہ ایک منظم انداز میں اس کی حرکات و سکنات کا خیال رکھا جائے۔ چنانچہ جب وہ تکبیر تحریمہ کہے، تو تم بھی ایسے ہی کہو، جب وہ رکوع کرے، تو اس کے بعد تم بھی رکوع کرو، جب وہ ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“ کہہ کر تمھیں یاد دہانی کرائے کہ اللہ تعالی اس شخص کی سنتا ہے، جو اس کی حمد بیان کرتا ہے، تو تم ”رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ“ کہہ کر اللہ کی حمد بیان کرو، جب وہ سجدے میں جائے، تو اس کی اتباع میں تم بھی سجدے میں چلے جاو اور جب امام کھڑا ہونے سے قاصر ہو اور بیٹھ کر نماز پڑھے، تو اس کی اتباع میں تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اگرچہ تم میں کھڑے ہونے کی قدرت موجود ہو۔
اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ صحابۂ کرام نے یہ سوچا کہ چوںکہ انھیں قیام پر قدرت حاصل ہے، اس لیے ان پر قیام کرنا واجب ہے۔ چنانچہ انھوں نے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ اس پر نبی ﷺ نے انھیں اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائیں۔
جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو کر واپس مڑے، تو ان کی راہ نمائی فرمائی کہ امام کی مخالفت نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ اس کی موافقت ہونی چاہیے؛ تاکہ اس کی پوری طرح سے اتباع اور کامل طور پر اقتدا ہو سکے، بایں طور کہ مقتدی قیام کی قدرت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھے؛ کیونکہ اس کا امام بیٹھا ہوا ہے اور قیام نہیں کر سکتا۔ یہ اس وقت ہو گا، جب کہ امام انھیں نماز پڑھانے کا آغاز ہی بیٹھ کر کرے، اس صورت میں وہ اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ وه امام جو مسجد میں ہمیشہ نماز پڑھاتا ہے، وہ اگر کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کرے، لیکن دوران نماز کسی علت کے لاحق ہونے پر بیٹھ جائے، تو اس صورت میں مقتدیوں کا اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پوری کرنا واجب ہے۔ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے، جس میں مرض الموت میں نبی ﷺ کے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور لوگوں کو نماز پڑھانے کا ذکر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6075

 
 
Hadith   1189   الحديث
الأهمية: إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا -أَوْ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا- فَكَبِّرا ثَلاَثًا وَثَلاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، واحْمِدا ثَلاثًا وَثَلاثِينَ


Tema:

جب تم دونوں اپنے بستر پر جاؤ، یا فرمایا: جب تم سونے کے لیے جاؤ تو تینتیس (33) مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس (33) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس (33) مرتبہ الحمد للہ پڑھ لینا۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال له ولفاطمة: «إذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا -أَوْ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا- فَكَبِّرا ثَلاَثًا وَثَلاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، واحْمِدا ثَلاثًا وَثَلاثِينَ» وفي روايةٍ: التَّسْبيحُ أرْبعًا وثلاثينَ، وفي روايةٍ: التَّكْبِيرُ أرْبعًا وَثَلاَثينَ.

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”جب تم دونوں اپنے بستر پر جاؤ، یا فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے جاؤ تو تینتیس (33) مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ (33) سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ (33) الحمد للہ پڑھ لینا“۔
ایک دوسری روایت میں ہے تسبیح (سبحان اللہ) چونتیس (34) مرتبہ پڑھنے کا ذکر ہے جب کہ ایک روایت میں تکبیر (اللہ اکبر) چونتیس (34) مرتبہ پڑھنے کا ذکر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشتكت فاطمة إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- ما تجده من الرحى (أداة لطحن الحب) وطلبت من أبيها خادما فقال صلى الله عليه وسلم: "ألا أدلكما على ما هو خير من الخادم؟" ثم أرشدهما إلى هذا الذكر: أنهما إذا أويا إلى فراشهما وأخذا مضجعيهما: يسبحان ثلاثة وثلاثين، ويحمدان ثلاثة وثلاثين، ويكبران أربعة وثلاثين. ثم قال -عليه الصلاة والسلام-: فهذا خير لكما من الخادم؛ وعلى هذا: فيسن للإنسان إذا أخذ مضجعه لينام أن يسبح ثلاثة وثلاثين، ويحمد ثلاثة وثلاثين، ويكبر أربعة وثلاثين فهذه مائة مرة، فإن هذا مما يعين الإنسان في قضاء حاجاته كما أنه أيضا إذا نام فإنه ينام على ذكر الله -عز وجل-.
601;اطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے چکّیْ پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی اور اپنے والد سے ایک خادم مانگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز نہ بتاؤں جو خادم سے بہتر ہے؟ پھر اس ذکر کی طرف دونوں کی رہنمائی فرمائی۔ بایں طور کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ اور سونے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ سبحانَ اللہ، تینتیس (33) مرتبہ الحمدُ للہ اور چونتیس (34) مرتبہ اللہُ اَکبر کہہ لیا کرو۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔ اسی لیے انسان جب سونے کے لیے بستر پر جائے تو اس کے لیے تینتیس (33) بار سبحانَ اللہ، تینتیس (33) بار الحمدللہ اور چونتیس (34) بار اللہُ اکبر -یہ کُل 100 بار - کہنا مسنون ہے۔ یہ انسان کی ضروریات پوری کرنے میں ممد ومعاون ہیں ساتھ ہی یہ سوتے وقت بھی مفید ہیں کہ انسان اللہ کا ذکر کرکے سوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6076

 
 
Hadith   1190   الحديث
الأهمية: إنها لو لم تكن ربيبتي في حجري، ما حلت لي؛ إنها لابنة أخي من الرضاعة، أرضعتني وأبا سلمة ثويبةُ؛ فلا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن


Tema:

اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی۔ وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔ مجھ کو اور ابوسلمہ دونوں کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ چنانچہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے سامنے نکاح کے لیے پیش نہ کرو۔

عن أم حبيبة بنت أبي سفيان -رضي الله عنهما- قالت: قلت يا رسول الله، انكح أختي ابنة أبي سفيان. قال: أو تحبين ذلك؟ فقلت: نعم؛ لست لك بمُخْلِيَةٍ، وأحَبُّ من شاركني في خير أختي. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: إن ذلك لا يحل لي. قالت: إنا نُحَدَّثُ أنك تريد أن تنكح بنت أبي سلمة. قال: بنت أم سلمة؟! قالت: قلت: نعم، قال: إنها لو لم تكن ربيبتي في حَجْرِي، ما حلت لي؛ إنها لابنة أخي من الرضاعة، أرضعتني وأبا سلمة ثويبةُ؛ فلا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن.
قال عروة: وثويبة مولاة لأبي لهب أعتقها، فأرضعت النبي -صلى الله عليه وسلم-، فلما مات أبو لهب رآه بعض أهله بشرِّ حِيبة، فقال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم خيرًا، غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.

ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میری بہن یعنی ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، مجھے پسند ہے۔ اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پسند نہ کرتی۔ مجھے یہ زیادہ اچھا لگتا ہے کہ بھلائی میں (کسی اور کی بجائے) میرے ساتھ میری بہن شریک ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ام سلمہ کی بیٹی سے؟! ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی۔ وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔ مجھ کو اور ابوسلمہ، دونوں کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ چنانچہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے سامنے نکاح کے لیے پیش نہ کرو۔ راوی حدیث عروہ کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ پھر اس نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا، تو اس سے پوچھا کہ تم پر کیا گزری؟ وہ کہنے لگا: جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں، کبھی کوئی اچھائی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ مجھے اس میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے بدلے میں کچھ پانی پلا دیا جاتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أم حبيبة بنت أبي سفيان هي إحدى أمهات المؤمنات -رضي الله عنهن- وكانت حظية وسعيدة بزواجها من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وحُقَّ لها ذلك، فالتمست من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يتزوج أختها.
فعجب -صلى الله عليه وسلم-، كيف سمحت أن ينكح ضرة لها، لما عند النساء من الغيرة الشديدة في ذلك، ولذا قال -مستفهمًا متعجبًا-: أو تحبين ذلك؟ فقالت: نعم أحب ذلك.
ثم شرحت له السبب الذي من أجله طابت نفسها بزواجه من أختها، وهو أنه لابد لها من مشارك فيه من النساء، ولن تنفرد به وحدها، فليكن المشارك لها في هذا الخير العظيم هو أختها.
وكأنها غير عالمة بتحريم الجمع بين الأختين، ولذا فإنه أخبرها -صلى الله عليه وسلم- أن أختها لا تحل له.
فأخبرته أنها حدثت أنه سيتزوج بنت أبي سلمة.
فاستفهم منها متثبتاً: تريدين بنت أم سلمة؟ قالت: نعم.
فقال مبينا كذب هذه الشائعة: إن بنت أم سلمة لا تحل لي لسببين.
أحدهما: أنها ربيبتي التي قمت على مصالحها في حجري، فهي بنت زوجتي.
والثاني: أنها بنت أخي من الرضاعة، فقد أرضعتني، وأباها أبا سلمة، ثويبة -وهي مولاة لأبي لهب- فأنا عمها أيضاً، فلا تعرضْنَ علي بناتِكن وأخواتكن، فأنا أدرى وأولى منكن بتدبير شأني في مثل هذا.
575;م حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا امہات المومنین رضی اللہ عنہن میں سے ہیں۔ وہ اس حوالے سے خوش قسمت اور نیک بخت تھیں کہ ان کی شادی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوئی تھی اور وہ اس سعادت کی سزاوار بھی تھیں۔ انہوں نے نبی ﷺ سے التماس کیا کہ آپ ﷺ ان کی بہن سے شادی کر لیں۔
نبی ﷺ کو اس پرحیرت ہوئی کہ انہوں نے کیسے اس بات کی اجازت دے دی کہ آپ ﷺ ان پر ایک سوکن کو بیاہ کر لے آئیں۔ کیوںکہ عورتیں تو اس معاملے میں بہت غیرت والی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے تعجب بھرے انداز میں ان سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں یہ پسند ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں مجھے پسند ہے۔
پھر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے وہ سبب بیان کیا، جس کی وجہ سے انہیں یہ پسند تھا کہ آپ ﷺ کی شادی ان کی بہن سے ہو جائے۔ در اصل وہ جانتی تھی کہ آپ ﷺ کی ذات میں ان کے ساتھ عورتوں کا شریک رہنا ناگزیر ہے۔ وہ تنہا آپ ﷺ کی بیوی ہو نہیں سکتیں۔ تو پھر کیوں نہ اس خیر عظیم میں ان کی بہن ان کی شریک بن جائے؟
گویا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ دو بہنوں کا ایک شخص کے نکاح میں ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ ان کی بہن آپ ﷺ کے لیے حلال نہیں ہے۔
پھر انہوں نے نبی ﷺ کو بتایا کہ انہیں خبر پہنچی ہے کہ آپ ﷺ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے شادی کر رہے ہیں!
آپ ﷺ نے اس افواہ کے جھوٹے پن کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی سے نکاح دو وجوہات کی بنا پر ان کے لیے جائز نہیں ہے:
پہلی وجہ: یہ کہ وہ میری ربیبہ ہے۔ وہ میری پرورش میں ہے اور میں اس کے مصالح کا خیال رکھتا ہوں۔ وہ میری بیوی کی بیٹی ہے۔
دوسری وجہ: وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور اس کے والد یعنی ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا، جو ابو لہب کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ چنانچہ میں اس کا چچا بھی ہوتا ہوں۔ اس لیے تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں نکاح کے لیے پیش نہ کیا کرو۔ اس طرح کے امور میں مجھے کیا کرنا ہے، اسے میں تم سے زیادہ بہتر جانتا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6077

 
 
Hadith   1191   الحديث
الأهمية: ما بال أقوام قالوا كذا؟ لكني أصلي وأنام وأصوم وأفطر، وأتزوج النساء؛ فمن رغب عن سنتي فليس مني


Tema:

لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایسے کہنے لگے ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے گریز کیا اس کا مجھ سےکوئی تعلق نہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن نفرًا من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- سألوا أزواج النبي -صلى الله عليه وسلم- عن عمله في السر؟ فقال بعضهم: لا أتزوج النساء. وقال بعضهم: لا آكل اللحم. وقال بعضهم: لا أنام على فراش. فبلغ ذلك النبي -صلى الله عليه وسلم- فحمد الله وأثنى عليه، وقال: «ما بال أقوام قالوا كذا؟ لكني أصلي وأنام وأصوم وأفطر، وأتزوج النساء؛ فمن رغب عن سنتي فليس مني».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ نے نبی ﷺ کی ازواجِ مطہرات سے نبی ﷺ کی تنہائی میں معمول کے بارے میں پوچھا۔ (آپ ﷺ کی عبادت کا معمول سن کر) ان میں سے کسی نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور کسی نے کہا کہ میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبی ﷺ تک جب یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالی کے حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایسے کہنے لگے ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے گریز کیا اس کا مجھ سےکوئی تعلق نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بنيت هذه الشريعة السامية على السماح واليسر، وإرضاء النفوس بطيبات الحياة وملاذِّها المباحة، وعلى كراهية العنت والشدة والمشقة على النفس، وحرمانها من خيرات هذه الدنيا.
ولذا فإن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حملهم حب الخير والرغبة فيه إلى أن يذهبوا فيسألوا عن عمل النبي -صلى الله عليه وسلم- في السر الذي لا يطلع عليه غير أزواجه فلما علموه استقلوه، وذلك من نشاطهم على الخير وَجَدهم فيه.
فقالوا : وأين نحن من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ؟! فهو- في ظنهم- غير محتاج إلى الاجتهاد في العبادة.
فَهَمَّ بعضهم في ترك النساء، ليفرغ للعبادة، ومال بعضهم إلى ترك أكل اللحم، زهادةً في ملاذ الحياة، وصمم بعضهم على أنه سيقوم الليل كله، تَهَجُّدا أو عبادة.
فبلغت مقالتهم من هو أعظمهم تقوى، وأشدهم خشية، وأعرف منهم بالأحوال والشرائع -صلى الله عليه وسلم-.
فخطب الناس، وحمد الله، وجعل الوعظ والإرشاد عاما، جريًا على عادته الكريمة.
فأخبرهم أنه يعطى كل ذي حق حقه، فيعبد الله -تعالى-، ويتناول ملاذ الحياة المباحة، فهو ينام ويصلى، ويصوم ويفطر، ويتزوج النساء، فمن رغب عن سنته السامية، فليس من أتباعه، وإنما سلك سبيل المبتدعين.
575;س بلند پایہ شریعت کی بنیاد کشادگی وآسانی اور اس بات پر ہے کہ نفوس کو زندگی کی پاکیزہ اشیاء اور جائز لذات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے کر خوش رکھا جائے۔ اس بات کو ناپسند کیا گیا ہے کہ نفس کو خواہ مخواہ کی تنگی و سختی اور مشقت میں مبتلا کیا جائے اور اسے اس دنیا کی بھلائیوں سے محروم رکھا جائے۔
نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں کو نیکی کی محبت اور اس کی رغبت نے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ نبی ﷺ کی ازواج کے پاس جا کر آپ ﷺ کی تنہائی کے عمل کے بارے میں دریافت کریں جنہیں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں جان سکتا تھا۔ جب انہیں آپ ﷺ کے عمل کا علم ہوا تو انہوں نے اسے تھوڑا سمجھا کیونکہ نیکی کے معاملے میں ان میں بہت چستی اور محنت کا جذبہ پایا جاتا تھا۔
وہ کہنے لگے کہ ہماری رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا حیثیت۔ ان کی تو اللہ تعالی نے اگلی پچھلی سب خطائیں معاف کر رکھی ہیں۔ ان کے خیال میں آپ ﷺ کو بہت زیادہ عبادت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
ان میں سے کسی نے یہ ارادہ کیا کہ وہ عورتوں کو چھوڑ دے گا تاکہ ہر طرف سے یکسو ہو کر عبادت کر سکے۔
کسی نے دنیاوی لذات سے کنارہ کش ہوتے ہوئے گوشت کھانے کو چھوڑ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
کسی نے یہ عزم کیا کہ وہ ساری ساری رات تہجد اور عبادت میں گزار دیا کرے گا۔
ان کی یہ باتیں نبی ﷺ تک پہنچی جو تقوی میں ان سے بڑھ کر تھے اور خشیت بھی ان سے زیادہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ کو حالات و شرعی امور کا بھی ان سے زیادہ علم تھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ تعالی کی حمد بیان کی اور عمومی انداز میں وعظ و ارشاد فرمایا جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔
آپ ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ آپ ﷺ ہر حق دار کو اس کا حق دیتے ہیں۔آپ ﷺ اللہ کی بھی عبادت کرتے ہیں اور زندگی کی جائز لذات سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ سوتے بھی ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔روزہ بھی رکھ لیتے ہیں اور نہیں بھی رکھتے۔ آپ ﷺ عورتوں سے نکاح کرتے ہیں۔ جس نے آپ ﷺ کی عظیم الشان سنت سے اعراض کیا وہ آپ ﷺ کے پیروکاروں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ بدعتی لوگوں کے راستے پر گامزن ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6078

 
 
Hadith   1192   الحديث
الأهمية: من أسلف في شيء فليسلف في كيل معلوم، ووزن معلوم، إلى أجل معلوم


Tema:

جسے کسی چیز کی بیعِ سلم کرنی ہو وه اسے مقررہ پیمانے اور مقرره وزن اور متعينہ مدت تک کے لیے روک کر رکھے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- المدينة، وهم يُسلفون في الثمار: السنة والسنتين والثلاث، فقال: «من أسلَفَ في شيء فليُسلف في كيل معلوم، ووزن معلوم، إلى أجل معلوم».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ اہلِ مدینہ پھلوں میں ایک، دو اور تین سالوں کے لیے بیعِ سلف (بیع سلم) کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہو وه اسے مقررہ پیمانے اور مقرره وزن اور متعينہ مدت تک کے لیے روک کر رکھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قدم النبي -صلى الله عليه وسلم- للمدينة مهاجرًا من مكة كما هو معلوم، فوجد أهل المدينة -لأنهم أهل زروع وثمار- يسلفون، وذلك بأن يقدموا الثمن ويؤجلوا المثمن -المسلم فيه- من الثمار، مدة سنة، أو سنتين، أو ثلاث سنين، أو أقل أو أكثر لأن هذه المدد للتمثيل، فأقرهم -صلى الله عليه وسلم- على هذه المعاملة ولم يجعلها من باب بيع ما ليس عند البائع المفضي إلى الغرر؛ لأن السلف متعلق بالذمم لا الأعيان، ولكن بين -صلى الله عليه وسلم- لهم في المعاملة أحكاما تبعدهم عن المنازعات والمخاصمات التي ربما يجرها طول المدة في الأجل فقال: من أسلف في شيء فليضبط قدره بمكياله أو ميزانه المعلومين، وليربطه بأجل معلوم، حتى إذا عرف قدره وأجله انقطعت الخصومة والمشاجرة، واستوفى كل منهما حقه بسلام.
606;بی ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ مدینہ کے باشندے جو کھیتیوں اور باغات کے مالک تھے بیع سلم کیا کرتے تھے بایں طور کہ وہ قیمت کو پہلے ہی ادا کر دیا کرتے تھے اور پھلوں کی ادائگی کو ایک سال یا دو سال یا تین سال تک موخر رکھتے۔ نبی ﷺ نے انہیں اس معاملے کی اجازت دی اور اسے بیع کی اس قسم میں سے نہیں گردانا جس میں بائع ایسی شے فروخت کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی اور جو غرر تک لے جاتی ہے۔ کیونکی بیع سلم کا تعلق ذمہ کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ اشیاء کے ساتھ۔ تاہم نبی ﷺ نے اس معاملے کے کچھ احکامات کی وضاحت فرما دی جو لوگوں کو ان لڑائی جھگڑوں سے بچاتے ہیں جو بعض اوقات مدت کے لمبا ہونے کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی شے میں بیع سلم کرے اسے چاہئے کہ وہ شرعی طور پر معروف کیل اور وزن کے آلات کے ذریعے اس کی مقدار کا پوری طرح تعین کرے اور اسے ایک مقررہ مدت تک رکھے تاکہ اس کی مقدار اور مدت معلوم ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا کا احتمال نہ رہے اور خریدار اپنا حق پوری طرح سے وصول کر لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6079

 
 
Hadith   1193   الحديث
الأهمية: قضى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالعمرى لمن وهبت له


Tema:

نبی کریم ﷺ نے عمر بھر کے لیے ہبہ کئے گئے مکان کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ اسی کا ہے جس کے لئے وہ ہبہ کیا گیا ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: «قضى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالعُمْرَى لمن وهبت له».
وفي لفظ: «من أُعمِر عمرى له ولعقبه؛ فإنها للذي أعطيها، لا ترجع إلى الذي أعطاها؛ لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث».
وقال جابر: «إنما العمرى التي أجازها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، أن يقول: "هي لك ولعقبك"، فأما إذا قال: "هي لك ما عشت"؛ فإنها ترجع إلى صاحبها».
وفي لفظ لمسلم: «أمسكوا عليكم أموالكم ولا تفسدوها، فإنه من أُعمِر عمرى فهي للذي أُعمِرها حيًّا وميتًا ولعقبه».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عمر بھر کے لیے ہبہ کیے گئے مکان کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ وہ اسی کا ہے جس کے لیے وہ ہبہ کیا گیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جس کو کوئی مکان عمر بھر کے لیے دیا گیا وہ اس کا ہے اور اس کی اولاد کا۔ بے شک وہ اسی کا ہے جس کے لیے وہ ہبہ کیا گیا وہ اس شخص کی طرف نہیں لوٹایا جائے گا جس نے وہ دیا ہے کیونکہ یہ ایسا عطیہ ہے جس میں موہوب لہ کا ورثہ جاری ہو چکا ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بھر کے لیے دیا گیا مکان جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی کہ ہبہ کرنے والا انسان کسی سے کہہ دے کہ یہ چیز آپ کی اور آپ کی اگلی نسل کی ہوگئی ہے اور اگر یہ شخص یہ کہتا ہے یہ صرف آپ کی زندگی تک کے لیے ہے آپ کی ہوگئی تو وہ چیز مالک کے پاس لوٹ جائے گی۔
مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ (نبی ﷺ نے فرمایا) اپنے مال اپنے قبضے میں رکھو اسے ضائع نہ کرو، جس نے عمر بھر کے لیے مکان دے دیا وہ زندگی میں اسی کا ہے جسے وہ دیا گیا اور مرنے کے بعد اس کی اولاد کا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العُمْرى ومثلها الرُّقْبى: نوعان من الهبة، كانوا يتعاطونهما في الجاهلية، فكان الرجل يعطى الرجل الدار أو غيرها بقوله: أعمرتك إياها أو أعطيتكها عمرك أو عمري.
فكانوا يرقبون موت الموهوب له، ليرجعوا في هبتهم.
فأقر الشرع الهبة، وأبطل الشرط المعتاد لها، وهو الرجوع، لأن العائد في هبته، كالكلب، يقيئ ثم يعود في قيئه، ولذا قضى النبي -صلى الله عليه وسلم- بالعمرى لمن وهبت له ولعقبه من بعده.
ونبههم -صلى الله عليه وسلم- إلى حفظ أموالهم بظنهم عدم لزوم هذا الشرط وإباحة الرجوع فيها فقال: "أمسكوا عليكم أموالكم ولا تفسدوها، فإنه من أعمر عمرى فهي للذي اعمِرَها، حياً وميتا، ولعقبها".

Esin Hadith Caption Urdu


”عُمرى“ اور اسی کی طرح ”رُقبى“ ہبہ کی دو قسمیں ہیں، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس طرح كا ہبہ کیا کرتے تھے، ایک شخص دوسرے کو گھر وغیرہ ان الفاظ میں دیتا جیسے ”میں نے وہ گھر تجھے عمر بھر کے لیے ہبہ کیا“ یا ”میں نے تمہاری عمر بھر یا اپنی عمر بھر میں وہ گھر آپ کو دے دیا“۔
لوگ موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔) کے مرنے کا انتظار کرتے، تاکہ وہ اپنا ہبہ واپس کردے۔
شریعت نے ہبہ کو برقرار رکھا اور اس کی مروّجہ شرط یعنی لوٹانے کو باطل قرار دیا۔ اس لیے کہ ہبہ کو واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے واپس نگلتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے عمر بھر کے ہبہ کا فیصلہ موہوب لہ اور اس کے بعد اس کے پسماندگان کے لیے کیا۔
آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنے اموال کی حفاظت کرنے کی تنبیہ فرمائی تاکہ لوگ اپنے گمان میں اس شرط کو لازم قرار نہ دیں اور اس چیز کو واپس لینے کو جائز جانیں۔ چنانچہ فرمایا ”اپنے مال اپنے قبضے میں رکھو اسے ضائع نہ کرو، جس نے عمر بھر کے لیے مکان دے دیا وہ زندگی میں اسی کا رہے گا جسے وہ دیا گیا ہو اور مرنے کے بعد اس کی اولاد کا ہوجائے گا“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6080

 
 
Hadith   1194   الحديث
الأهمية: قضى النبي -صلى الله عليه وسلم- بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود، وصرفت الطرق، فلا شفعة


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ہر اس چیز میں شُفعہ کا فیصلہ فرمایا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیے گئے تو پھر حقِ شفعہ باقی نہیں رہتا۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: (جعل وفي لفظ: قضى) النبي -صلى الله عليه وسلم- بالشُّفْعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود، وصُرِّفَتِ الطرق؛ فلا شفعة).

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا (ایک روایت کے میں فیصلہ فرمایا تھا) جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذه الشريعة الحكيمة جاءت لإحقاق الحق والعدل ودفع الشر والضر، ولهذا فإنه لما كانت الشركة في العقارات يكثر ضررها ويمتد شررها وتشق القسمة فيها، أثبت الشارع الحكيم الشفعة للشريك.
بمعنى أنه إذا باع أحد الشريكين نصيبه من العقار المشترك بينهما، فللشريك الذي لم يبع أخذ النصيب من المشترى بمثل ثمنه، دفعاً لضرره بالشراكة.
هذا الحق، ثابت للشريك ما لم يكن العقار المشترك قد قسم وعرفت حدوده وصرفت طرقه.
أما بعد معرفة الحدود وتميزها بين النصيبين، وبعد تصريف شوارعها فلا شفعة، لزوال ضرر الشراكة والاختلاط الذي ثبت من أجله استحقاق انتزاع المبيع من المشتري.
740;ہ حکیمانہ شریعت حق و عدالت کو ثابت کرنے اور شر اور نقصان کو دور کرنے کے لیے آئی ہے۔ اسی وجہ سے جب زمینوں میں شراکت ضرر کا باعث بنے اور شراکت کا نقصان طول پکڑے اور تقسیم گراں گزرے، تو صاحبِ شریعت حکمت والی ذات (اللہ) نے حصے دار کو شفعہ کرنے کا حکم دیا۔ یعنی جب ایک شریک مشترک زمین میں سے اپنا حصہ بیچے، تو شریعت شراکت کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو دور کرنے کے لیے دوسرے شریک کو خریدار سے قیمت کے بدلے اس کا حصہ لینے کا حق دیتی ہے۔
یہ حق شریک کو اس وقت تک رہتا ہے جب تک زمین تقسیم نہ ہو، اس کی حدبندی نہ ہو اور اس کے راستے نہ بنے۔
حدبندی اور دوسروں کے حصوں میں تمییز اور راستے بننے کے بعد کوئی شفعہ نہیں۔ کیونکہ اب شراکت کی وجہ سے وہ نقصان ختم ہو گیا جس کی وجہ دوسرے شریک کو خریدار سے مبیع (بیچی جانے والی شے) لینے کا حق تھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6081

 
 
Hadith   1195   الحديث
الأهمية: اقرأ: قل هو الله أحد، والمُعَوِّذَتَيْنِ حين تمسي وحين تصبح، ثلاث مرات تكفيك من كل شيء


Tema:

صبح و شام تین تین بار قل هو الله أحد اور معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھا کرو۔ ایسا کرنا تمہارے لیے ہر چیز سے کافی ہو جائے گا۔

عن عبد الله بن خُبَيْب -رضي الله عنه- قال: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اقرأ: قل هو الله أحد، والمُعَوِّذَتَيْنِ حين تمسي وحين تصبح، ثلاث مرات تكفيك من كل شيء».

عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”صبح و شام تین تین بار قل هو الله أحد اور معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھا کرو۔ ایسا کرنا تمہارے لیے ہر چیز سے کافی ہو جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء هذا الحديث بهذا التوجيه النبوي الفريد، والذي يحث المسلم على الاعتصام بذكر الله -تعالى-، فمن حفظ الله -تعالى- حفظه الله ، فهنا يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- عبد الله بن خبيب -رضي الله عنه- وأمته كلها من خلفه أن من حافظ على قراءة سورة الإخلاص والمعوذتين ثلاث مرات حين يصبح وحين يمسي فإن الله -تعالى- يكفيه كل شيء، وفي هذا الحديث فضيلة عظيمة، ومنقبة جليلة لكل مؤمن يسعى لتحصين نفسه من سائر الشرور والمؤذيات، وقد تضمن هذا الحديث الكلام على ثلاث سور عظيمة، وهي:
أ‌- سورة الإخلاص {قل هو الله أحد} التي أخلصها الله -تعالى- لنفسه فلم يذكر فيها شيئا إلا يتعلق بنفسه -جل وعلا- كلها مخلصة لله -عز وجل- ثم الذي يقرأها يكمل إخلاصه لله -تعالى- فهي مُخْلَصة ومُخَلِّصة، تخلص قارئها من الشرك، وقد بين النبي -صلى الله عليه وسلم- أنها تعدل ثلث القرآن ولكنها لا تجزئ عنه.
ب- سورة الفلق، وقد تضمنت الاستعاذة من شر ما خلق الله -تعالى-، والاستعاذة من شر الليل وما حوى من المؤذيات، ومن شر السحرة والحسد، فجمعت أغلب ما يستعيذ منه المسلم ويحذره.
ج- سورة الناس، وقد استوعبت أقسام التوحيد {رب الناس} توحيد الربوبية {ملك الناس} الأسماء والصفات؛ لأن الملك لا يستحق أن يكون ملكا إلا بتمام أسمائه وصفاته {إله الناس} الألوهية {من شر الوسواس الخناس الذي يوسوس في صدور الناس من الجنة والناس} فختمت بالاستعاذة من شر وساوس الشيطان.
575;س حدیث میں یہ منفرد نبوی رہنمائی ہے جو مسلمان کو اللہ تعالی کے ذکر میں لگے رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جو شخص اللہ (کے اوامر و نواہی) کی حفاظت کرتا ہے تو اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی ﷺ اس حدیث میں عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ اور آپ ﷺ کے بعد آنے والی پوری امت کی اس جانب رہنمائی فرما رہے ہیں کہ جو شخص پابندی کے ساتھ صبح شام تین تین بار سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھتا ہے تو ہر چیز میں اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اس حدیث میں ہر اس مومن کے لیے ایک بہت بڑی فضیلت و منقبت کا بیان ہے جو اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں اور اذیت دہ امور سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حدیث میں تین عظیم سورتوں کا بیان ہے جو کہ یہ ہیں:
ا۔ سورہ اخلاص (قل هو الله أحد): یعنی وہ سورت جسے اللہ تعالی نے خالصتا اپنے لیے خاص کیا ہے اور اس میں صرف وہی اشیاء ذکر کی ہیں جن کا تعلق اس کی ذات پاک کے ساتھ ہے۔ یہ سب خالصتاً اللہ عز وجل کے لیے ہیں۔ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے وہ اللہ کے لیے اپنے اخلاص کو کامل کر دیتا ہے۔ یہ سورت خالص بھی ہے اور مخلص (نجات دینے والی اور خالص بنانے والی) بھی بایں طور کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو شرک سے نجات دیتی ہے۔ نبی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے تاہم یہ بات نہیں کہ اس کی وجہ سے بقیہ قرآن کی ضرورت نہیں رہتی۔
ب۔ سورۃ الفلق: اس میں ہر اس چیز سے پناہ طلب کی گئی ہے جسے اللہ تعالی نے پیدا فرمایا ہے اور اسی طرح رات اور اس میں موجود تکلیف دہ چیزوں اور جادو گروں اور حسد کے شر سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ چنانچہ اس میں وہ اکثر امور موجود ہیں جن سے مسلمان پناہ مانگتا ہے اور ان سے بچتا ہے۔
ج۔ سورۃ الناس: اس میں توحید کی جملہ اقسام موجود ہیں۔ رب الناس میں توحید ربوبیت ہے، ملک الناس میں توحید اسماء و صفات ہے کیونکہ مالک اپنے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ہی مالک ہوا کرتا ہے۔ إلٰہِ الناس میں توحید الوہیت کا ذکر ہے۔ {من شر الوسواس الخناس الذي يوسوس في صدور الناس من الجنة والناس}۔ سورت کا اختتام شیطان کے وسوسوں کی بُرائی سے پناہ مانگنے کے ساتھ ہوا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 6082

 
 
Hadith   1196   الحديث
الأهمية: كنا أكثر الأنصار حقلا، وكنا نكري الأرض، على أن لنا هذه، ولهم هذه، فربما أخرجت هذه، ولم تخرج هذه فنهانا عن ذلك، فأما بالورق: فلم ينهنا


Tema:

انصار میں سب سے زیادہ کھیت ہمارے تھے۔ ہم اس شرط پر زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ اِن کھیتوں کی پیداوار ہماری اور اُن کھیتوں کی پیداوار اُن کی (بٹائی پر لینے والوں کی)۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ یہ زمین تو پیداوار دے دیتی، لیکن اس زمین سے کچھ بھی پیداوار نہ ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ تاہم آپ ﷺ نے چاندی (دراہم) کے عوض میں (زمین بٹائی پر دینے سے) منع نہیں فرمایا۔

عن رافع بن خديج -رضي الله عنه- قال: «كنا أكثر الأنصار حقلًا، وكنا نكري الأرض، على أن لنا هذه، ولهم هذه، فربما أخرجت هذه، ولم تخرج هذه فنهانا عن ذلك، فأما بالورق: فلم ينهنا».

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سب سے زیادہ کھیت ہمارے تھے۔ ہم اس شرط پر زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ ان کھیتوں کی پیداوار ہماری اور اُن کھیتوں کی پیداوار اُن کی (بٹائی پر لینے والوں کی)۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ یہ زمین تو پیداوار دے دیتی، لیکن اس زمین سے کچھ بھی پیداوار نہ ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ تاہم آپ ﷺ نے چاندی (دراہم) کے عوض میں (زمین بٹائی پر دینے سے) منع نہیں فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان وتفصيل للمزارعة الصحيحة والفاسدة، فقد ذكر رافع بن خديج أن أهله كانوا أكثر أهل المدينة مزارع وبساتين.
فكانوا يزارعون بطريقة جاهليةً، فيعطون الأرض لتزرع، على أن لهم من الزرع ما يخرج في جانب من الأرض، وللمزارع الجانب الآخر، فربما جاء هذا وتلف ذاك.
فنهاهم النبي -صلى الله عليه وسلم- عن هذه ا