Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   1378   الحديث
الأهمية: أستغفر لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم ولك، ثم تلا هذه الآية: (واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات)


Tema:

کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! اور تمھارے لیے بھی کی ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ ”اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے حق میں بھی“۔

عن عاصم الأحول، عن عبد الله بن سَرْجِسَ -رضي الله عنه- قال: قلت لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-: يا رسول الله، غفر الله لك، قال: «ولك». قال عاصم: فقلت له: أستغفر لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم ولك، ثم تلا هذه الآية: {واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات}.

عاصم بن احول عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے فرمایا: ”اور تمھاری بھی مغفرت فرمائے“۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! اور تمھارے لیے بھی کی ہے۔ پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ ”اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے حق میں بھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر عبد الله بن سرجس -رضي الله عنه- أنه دعا للنبي -صلى الله عليه وسلم- بالمغفرة، فقابله النبي -صلى الله عليه وسلم- بالدعاء أيضا بالمغفرة، فسأل عاصمٌ الأحول عبدَ الله بن سرجس -رضي الله عنه- أستغفر لك رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم، واستغفر لك أيضا، ثم استدل على ذلك بقول الله -تعالى- لنبيه -صلى الله عليه وسلم-: {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلمُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِنَاتِ} .
593;بد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کے حق میں دعائے مغفرت کی، تو بدلے میں نبی ﷺ نے ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کی۔ عاصم احول نے عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! اور تمھارے لیے بھی کی ہے۔ پھر انھوں نے اس کا استدلال نبی ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کیا: ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ ”اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے حق میں بھی“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8262

 
 
Hadith   1379   الحديث
الأهمية: خُلِقَت الملائكة من نور، وخلق الجان من مارج من نار، وخلق آدم مما وصف لكم


Tema:

فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت (اللہ تعالیٰ نے) تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔

عن عائشة -رضي الله عنه- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «خُلقت الملائكة من نور، وخُلق الجَانُّ من مَارِجٍ من نار، وخُلق آدم مما وُصِفَ لكم».

عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت (اللہ تعالیٰ نے) تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر -صلى الله عليه وسلم- عن بدء الخلق، فذكر أن الملائكة خلقوا من النور، ولذلك كانوا كلهم لا يعصون الله ولا يستكبرون عن عبادته، أما الجن فخلقوا من نار، ولهذا يتصف كثير منهم بالطيش والعبث والعدوان، وخلق آدم مما ذكر لكم يعني خلق من طين من تراب من صلصال كالفَخار؛ لأن التراب صار طينًا ثم صار فخارًا فخلق منه آدم -عليه الصلاة والسلام-.
606;بی ﷺ نے ابتدائے آفرینش کے بارے بتاتے ہوئے فرمایا کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے؛ اسی لیے ان میں سے کوئی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا اور نہ اس کی عبادت سے روگردانی کرتا ہے۔ جب کہ جنات کے بارے آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں؛ اسی وجہ سے اکثر جنات میں اوچھا پن، لغویات میں دل چسپی اور سرکشی پائی جاتی ہے۔ آدم علیہ السلام کو اس شے سے پیدا کیا، جس کے بارے میں اللہ نے تمھیں بتایا ہے، یعنی گوندھی ہوئی ٹھیکری کی مانند کھنکھناتی ہوئی مٹی سے؛ کیوںکہ مٹی پہلے گارا تھی، پھر ٹھیکری بنی اور پھر اس سے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا گیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8264

 
 
Hadith   1380   الحديث
الأهمية: كان خلق نبي الله -صلى الله عليه وسلم- القرآن


Tema:

نبی ﷺ کا اخلاق تو قرآن ہی تھا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: كان خُلُقُ نَبي اللِه -صلى الله عليه وسلم- القرآن.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کا اخلاق تو قرآن ہی تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث أنه -صلى الله عليه وسلم- يتخلق بأخلاق القرآن، ما أمر به القرآن قام به وما نهى عنه القرآن اجتنبه، سواء كان ذلك في عبادات الله -تعالى- أو في معاملة عباد الله، فخلق النبي -صلى الله عليه وسلم- امتثال القرآن، وفي هذا إشارة من أم المؤمنين عائشة -رضي الله عنها- أننا إذا أردنا أن نتخلق بأخلاق رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فعلينا أن نتخلق بالقرآن.
581;دیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ اس اخلاق سے آراستہ تھے جس کا حکم قرآنِ کریم نے دیا ہے اور جس سے منع کیا ہے اس سے رکتے تھے، خواہ یہ اللہ تعالی کی عبادات کے متعلق ہو یا مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے کے۔ آپ ﷺ کا اخلاق سراپا قرآن کریم ہے۔ اس حدیث میں امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اشارہ ہے کہ اگر ہم آپ ﷺ کے اخلاق کو اپنانا چاہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کریم کے اخلاق کواپنائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8265

 
 
Hadith   1381   الحديث
الأهمية: من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه


Tema:

جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ أحَبَّ لِقَاءَ اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَاءهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ كَرِهَ اللهُ لِقَاءهُ» فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، أكَراهِيَةُ المَوتِ، فَكُلُّنَا نَكْرَهُ المَوتَ؟ قال: «لَيْسَ كَذَلِكَ، ولكِنَّ المُؤْمِنَ إذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللهِ فَأَحَبَّ اللهُ لِقَاءهُ، وإنَّ الكَافِرَ إذَا بُشِّرَ بِعَذابِ اللهِ وَسَخَطهِ كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ وكَرِهَ اللهُ لِقَاءهُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے“۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ ہھر تو ہم سب ہی موت کوناپسند کرتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مطلب نہیں بلکہ (وقتِ نزع) مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی رضامندی اور اس کی جنت کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے، تو اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جب کافرکو (نزع کے وقت) اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: (من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه) فسألت عائشة -رضي الله عنها-: هل تعني بذلك كراهية الموت يا رسول الله، فكلنا يكره الموت؟ قال: (ليس كذلك) فأخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الإنسان إذا أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، وذلك أن المؤمن يؤمن بما أعد الله للمؤمنين في الجنة من الثواب الجزيل والعطاء العميم الواسع فيحب ذلك وترخص عليه الدنيا ولا يهتم بها؛ لأنه سوف ينتقل إلى خير منها، فحينئذ يحب لقاء الله، ولاسيما عند الموت إذا بُشِّر بالرضوان والرحمة فإنه يحب لقاء الله -عز وجل-، ويشتاق إليه، فيحب الله لقاءه، أما الكافر والعياذ بالله فإنه إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله فكره الله لقاءه، ولهذا جاء في حديث المحتضر أن نفس الكافر إذا بشرت بالغضب والسخط تفرقت في جسده وأبت أن تخرج، ولهذا تنزع روح الكافر من جسده نزعًا؛ ويُكرَه على أن تخرج روحه؛ وذلك لأنه يبشر والعياذ بالله بالشر، ولهذا قال الله -تعالى-: (ولو ترى إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو أيديهم أخرجوا أنفسكم).
606;بی ﷺ نے فرمایا: جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ پھر تو ہم سب ہی موت کوناپسند کرتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ مراد نہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بتایا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اس کا مطلب يہ ہے کہ اللہ تعالی نے مومنوں کے لئے جنت میں جو عظیم اجر اور بے شمار انعامات تیار کر رکھے ہیں ان پر ایک مومن شخص کا ایمان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کو پسند کرتا ہے اور دنیا اس کی نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے، وہ اس کی پروا نہیں کرتا؛ کیونکہ عنقریب وہ اس سے بہتر جہان کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے، بالخصوص موت کے وقت جب اسے اللہ کی رضامندی اور رحمت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالی سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور اس سے ملاقات کا مشتاق ہو جاتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے۔ جب کہ اس کے بر عکس کافر شخص، العیاذ بااللہ، اسے جب اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضى کا مژدہ سنایا جاتا ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے. چنانچہ اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی لیے جاں کنی کے بیان والی حدیث میں آیا ہے کہ کافر کی روح کو جب اللہ کے غضب اور ناراضی کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اس کے جسم میں دوڑنے اور بھاگنے لگتی ہے۔ اسی وجہ سے کافر کی روح اس کے جسم سے کھینچ کر نکالی جاتی ہے جبکہ وہ ناپسند کرتا ہے کہ اس کی روح نکلے کیونکہ اسے برے انجام کی خبر دی جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ﴾ ”اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ﻇالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8266

 
 
Hadith   1382   الحديث
الأهمية: شهدت مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يوم حنين، فلزمت أنا وأبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلم نفارقه، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- على بغلة له بيضاء


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا۔۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی رہے اور آپ ﷺ سے جدا نہ ہوئے، رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفید خچر پر سوار تھے۔

عن أبي الفضل العباس بن عبد المطلب -رضي الله عنه- قال: شهدت مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يوم حُنَيْنٍ، فلَزِمْتُ أنا وأبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلم نفارقه، ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- على بَغْلَةٍ له بيضاء، فلما التقى المسلمون والمشركون وَلَّى المسلمون مدبرين، فطَفِقَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الكفار، وأنا آخِذٌ بلِجامِ بَغْلَةِ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَكُفُّها إِرَادَةَ أن لا تُسرع، وأبو سفيان آخِذٌ برِكاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أي عباس، نادِ أصحاب السَّمُرَةِ». قال العباس - وكان رجلا صَيِّتًا - فقلت بأعلى صوتي: أين أصحاب السَّمُرَةِ، فوالله لكأن عَطْفَتَهُم حين سمعوا صوتي عَطْفَةَ البقر على أولادها، فقالوا: يا لبيك يا لبيك، فاقتتلوا هم والكفار، والدعوةُ في الأنصار يقولون: يا معشر الأنصار، يا معشر الأنصار، ثم قُصِرَتِ الدعوة على بني الحارث بن الخَزْرَجِ، فنظر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم، فقال: «هذا حِينَ حَمِيَ الوَطِيسُ»، ثم أخذ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حَصَيَاتٍ فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال: «انْهَزَمُوا ورَبَّ مُحَمَّدٍ»، فذهبت أنظر فإذا القتال على هيئته فيما أرى، فوالله ما هو إلا أن رماهم بحَصياته، فما زِلْت أرى حَدَّهُم كَلِيلًا وأمرَهم مُدبرًا.

ابو الفضل عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی رہے اور آپ ﷺ سے جدا نہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفید خچر پر سوار تھے۔ جب مسلمانوں اور مشرکین کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمان پیٹھ پھیرکر بھاگ اٹھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خچر کو ایڑ لگایا اور کفار کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی اور اس خیال سے اسے روک رہا تھا کہ کہیں وہ تیز نہ ہو جائے جب کہ ابوسفیان نے رسول اللہ ﷺ کی رکاب تھام رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا: اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو۔عباس رضی اللہ عنہ جو ایک بلند آواز آدمی تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی آواز کو پوری طرح بلند کر کے پکارا: اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟۔ اللہ کی قسم! انہوں نے جب میری آواز سنی تو اس طرح پلٹے جیسے گائے اپنے بچوں پر پلٹ کر آتی ہے اور ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں کہتے ہوئے کفار سے بھڑ گئے۔ انصار میں اے انصاریو! اے انصاریو! کی پکار لگ رہی تھی۔ بعد ازاں یہ پکار صرف بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو گئی۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر تشریف فرما تھے اور وہیں سے آپ ﷺ نے اوپر ہو کر ان کی لڑائی کو دیکھا اور فرمایا: اب میدان جنگ پوری طرح گرم ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے کچھ کنکریاں لیں اور انہیں کفار کےچہروں کی طرف پھینکا اور فرمایا: محمد کے رب کی قسم! یہ کافر شکست کھا چکے ہیں۔ میں برابر لڑائی دیکھ رہا تھا اور مجھے وہ جوں کی توں نظر آ رہی تھی لیکن اللہ کی قسم! جونہی آپ ﷺ نے ان کو اپنی وہ کنکریاں ماریں تب سے ان کی شدت میں مسلسل کمی واقع ہونا شروع ہو گئی اور وہ پسپا ہوتے چلے گئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أبي الفضل العباس بن عبد المطلب -رضي الله عنه- قال: شهدت مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- غزوة حنين، فلما التقى المسلمون والكفار ووقع القتال الشديد فيما بينهم ولى بعض المسلمين من المشركين مدبرين، فشرع رسول الله -صلى الله عليه وسلم-  يحرك بغلته برجله جهة الكفار، وأنا آخذ بلجام بغلة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أمنعها لئلا تسرع إلى جانب العدو، وأبو سفيان ماسك بركاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: يا عباس، ناد أصحاب السمرة وهي الشجرة التي بايعوا تحتها يوم الحديبية، في السنة السادسة، -وكان العباس رجلا قوي الصوت- فناديت بأعلى صوتي: يا أصحاب السمرة؟ -أي: لا تنسوا بيعتكم الواقعة تحت الشجرة وما يترتب عليها من الثمرة- فقال: والله حينما سمعوا صوتي أنادي عليهم أتوا مسرعين كما تُسرع قطيع البقر إذا غابت عنها أولادها، فقالوا بأجمعهم أو واحد بعد واحد: يا لبيك يا لبيك، فاقتتل المسلمون والكفار، والنداء في حق الأنصار: يا معشر الأنصار يا معشر الأنصار.
ثم اقتصرت  الدعوة وانحصرت على بني الحارث بن الخزرج فنودي: يا بني الحارث، وهم قبيلة كبيرة، فنظر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو على بغلته، وكأن عنقه اشرأبت مرتفعة إلى قتال هؤلاء الكافرين، فقال: هذا الزمان زمان اشتداد الحرب، ثم أخذ حصيات فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال -صلى الله عليه وسلم- تفاؤلًا أو إخبارًا: انهزَموا ورب محمد. فذهبت أنظر فإذا القتال على هيئته فيما أرى، فوالله ما هو إلا أن رماهم بحصياته، فما زلت أرى بأسهم ضعيفًا، وحالهم ذليلًا.
575;بو الفضل عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین میں شریک تھا۔ جب مسلمانوں اور کفار کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا تو کچھ مسلمان مشرکین کو پیٹھ دے کر بھاگ اٹھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خچر کو ایڑ لگا کر اسے کفار کی طرف لے جانا شروع کر دیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور اسے دشمن کی جانب بڑھنے سے روک رہا تھا جب کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی رکاب تھام رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو۔ سمرہ (ببول) وہ درخت ہے جس کے نیچے صحابہ کرام نے ہجرت کے چھٹے سال صلح حدیبیہ کے دن بیعت کی تھی۔عباس رضی اللہ عنہ ایک قوی آواز شخص تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آواز کو پوری طرح بلند کر کے پکارا: اے اصحابِ سمرہ؟۔ یعنی درخت تلے ہونے والی اپنی اس بیعت اور اس کے تقاضے کو فراموش مت کرو۔ اللہ کی قسم! جب انہوں نے میری آواز کو سنا کہ میں انہیں پکار رہا ہوں تو وہ اس سرعت سے آئے جیسے گائیوں کے ریوڑ سے جب ان کے بچے اوجھل ہو جائیں تو وہ تیزی سے آتی ہیں۔ وہ بیک زبان یا فردا فردا کہہ رہے تھے: اے قوم! ہم حاضر ہیں، اے قوم! ہم حاضر ہیں۔ مسلمانوں اور کفار کے مابین لڑائی شروع ہو گئی۔انصاریوں کے لیے یہ پکار لگ رہی تھی: اے انصاریو! اے انصاریو!۔
پھر یہ پکار صرف بنو حارث بن خزرج تک محدود ہو کر رہ گئی اور اے بنو حارث! کی پکار لگ رہی تھی۔ بنو حارث ایک بہت بڑا قبیلہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے اور اسی حالت میں آپ ﷺ نے گویا اپنی گردن بلند کرتے ہوئے ان کفار کے ساتھ لڑائی کو دیکھا اور فرمایا: اس وقت لڑائی خوب گرم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے کچھ کنکریاں اٹھا کر انہیں ان کافروں کے چہروں پر مارا اور بطور اچھے شگون یا خبر دینے کی غرض سے فرمایا کہ محمد کے رب کی قسم! یہ کفار شکست کھا چکے ہیں۔ میں دیکھنے گیا تو مجھے لڑائی اپنی حالت پر قائم نظر آئی۔ اللہ کی قسم! جب سے آپ ﷺ نے ان کو اپنی وہ کنکریاں ماریں، تب سے ان کازور ٹوٹنا شروع ہو گیا اور اُن کی حالت مسلسل ابتر ہو نے لگی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8267

 
 
Hadith   1383   الحديث
الأهمية: سيحان وجيحان والفرات والنيل كل من أنهار الجنة


Tema:

سيحان، جيحان، فرات اور نيل سب جنت کی نہریں ہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: « سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ وَالفُرَاتُ والنِّيل كلٌّ من أنهار الجنة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سيحان، جيحان، فرات اور نيل سب جنت کی نہریں ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سيحان وجيحان، والفرات والنيل أربعة أنهار في الدنيا وصفها النبي -صلى الله عليه وسلم- بأنها من أنهار الجنة؛ فقال بعض أهل العلم: إنها من أنهار الجنة حقيقة لكنها لما نزلت إلى الدنيا غلب عليها طابع أنهار الدنيا وصارت من أنهار الدنيا.
575;س دنیا کی چار نہریں سيحان، جيحان، فرات اور نيل کو آپ ﷺ نے جنت کی نہریں قرار دیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت میں جنت کی نہریں تھیں لیکن جب انہیں دنیا میں اتارا گیا تو ان پر دنیا کی نہروں کی فطرت و طبیعت غالب آگئی اور یہ دنیا کی نہروں میں سے ہو گئیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8268

 
 
Hadith   1384   الحديث
الأهمية: أحاديث في فضل مجالس الذكر


Tema:

مجالسِ ذکر کی فضیلت سے متعلق احادیث

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنَّ لِلَّه تعالى ملائكة يَطُوفُون في الطُّرُق يلْتَمِسُون أهل الذِّكْر، فإذا  وَجَدُوا قوماً يذكرون الله عز وجل تَنَادَوا: هَلُمُّوا إلى حاجَتِكُم، فَيَحُفُّونَهُم بِأَجْنِحَتِهِم إلى السَّماء الدُّنيا، فيَسألُهُم رَبُّهُم -وهو أعلم-: ما يقول عِبَادي؟ قال: يقولون: يُسَبِّحُونَك، ويُكَبِّرُونك، وَيَحْمَدُونَك، ويُمَجِّدُونَكَ، فيقول: هل رَأَوني؟ فيقولون: لا والله ما رَأَوك. فيقول: كيف لو رَأَوني؟! قال: يقولون: لو رأَوك كَانُوا أشَدَّ لك عبادة، وأشَدَّ لك تمْجِيداً، وأكْثر لك تسبيحاً. فيقول: فماذا يسألون؟ قال: يقولون: يَسْألُونك الجنَّة. قال: يقول: وهل رَأَوهَا؟ قال: يقولون: لا والله يا رب ما رأَوْهَا. قال: يقول: فَكَيف لو رَأَوْهَا؟ قال: يقولون: لو أنَّهُم رَأَوهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيها حِرصاً، وأشَدَّ لهَا طلباً، وأَعْظَم فِيهَا رغبةً. قال: فَمِمَّ يَتَعَوَذُون؟ قال: يقولون: يَتَعَوذُون من النَّار؛ قال: فيقول: وهل رأوها؟ قال: يقولون: لا والله ما رأوها. فيقول: كيف لو رأوها؟! قال: يقولون: لو رأوها كانوا أشدَّ مِنها فِراراً، وأشدَّ لها مَخَافَة. قال: فيقول: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، قال: يقول ملَك مِن الملائكة: فيهم فلان ليس منهم، إنما جاء لحاجة، قال: هُمُ الجُلَسَاء لا يَشْقَى بهم جَلِيسُهُم».
وفي رواية: عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن لله ملائكة سَيَّارة فُضُلاً يَتَتَبَّعُون مجالِسَ الذكر، فإذا وجدوا مَجْلِساً فيه ذِكْرٌ، قَعَدُوا معهم، وحَفَّ بعضُهم بعضاً بأجنحتهم حتى يمْلَؤُوا ما بينهم وبين السماء الدنيا، فإذا تَفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء، فيسألهم الله -عز وجل- وهو أعلم -: من أين جئتم؟ فيقولون: جئنا من عند عباد لك في الأرض: يسبحونك، ويكبرونك، ويهللونك، ويحمدونك، ويسألونك. قال: وماذا يسألوني؟ قالوا: يسألونك جنتك. قال: وهل رأوا جنتي؟ قالوا: لا، أي رب. قال: فكيف لو رأوا جنتي؟! قالوا: ويستجِيرُونَك. قال: ومم يَسْتجيروني؟ قالوا: من نارك يا ربّ. قال: وهل رأوا ناري؟ قالوا: لا، قال: فكيف لو رأوا ناري؟! قالوا: ويستغفرونك؟ فيقول: قد غفرت لهم، وأعطيتهم ما سألوا، وأجرتهم مما استجاروا. قال: فيقولون: رب فيهم فلان عبد خَطَّاء إنما مرَّ، فجلس معهم. فيقول: وله غفرت، هم القوم لا يشقى بهم جليسُهُم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اوراللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہوگیا۔ پھر وہ نچلے آسمان تک اپنے پروں سے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ (پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں ) پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے.حالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟وہ جواب دیتے ہیں کہ: وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی بیان کر رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ کہا :کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ! انھوں نے تجھے نہیں دیکھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدارکرلیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی اورزیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے۔ پھراللہ تعالیٰ دریافت کرتاہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟کہا ،فرشتے جواب دیتے ہیں کہ واللہ ! انھوں نے تیری جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالَمْ ہوتا اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ حریص اور اس کے خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتاہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انھوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ ، انھوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انھوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ: ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ: یہ ( ذاکرین ) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو (اللہ کی زمین میں) چکر لگاتے رہتے ہیں، وہ اللہ کے ذکر کی مجلسیں تلاش کرتے ہیں، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں (اللہ کا) ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور نچلے آسمان کے درمیان (کی وسعت) کو بھر دیتے ہیں۔ جب (مجلس میں شریک ہونے والے) لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو یہ (فرشتے) بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں اور آسمان پر چلے جاتے ہیں، راوی نے کہا: تو اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے. حالاں کہ وہ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہے. تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں (رہنے والے) تیرے بندوں کی طرف سے (ہو کر) آئے ہیں جو تیری پاکیزگی بیان کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد و ثنا کر رہے تھے اور تجھ ہی سے مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ انھوں نے کہا:وہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے۔ فرمایا: کیا انھوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ انھوں نے کہا: پروردگار! نہیں، فرمایا: اگر انھوں نے میری جنت دیکھی ہوتی کیا ہوتا؟ وہ کہتے ہیں: اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے، فرمایا: وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے؟ انھوں نے کہا: تیری آگ (جہنم) سے، اے رب! فرمایا: کیا انھوں نے میری آگ (جہنم) دیکھی ہے؟ انھوں نے کہا: اے رب! نہیں ، فرمایا: اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو (ان کا کیا حال ہوتا!) وہ کہتے ہیں: وہ تجھ سے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے، تو وہ فرماتا ہے: میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور انھوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور انھوں نے جس سے پناہ مانگی میں نے انہیں پناہ دے دی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: وہ (فرشتے) کہتے ہیں: پروردگار! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا، سخت گناہ گار بندہ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ فرمایا: تو اللہ ارشاد فرماتا ہے:’’میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقصُّ هذا الحديث مظهرا من مظاهر تعظيم مجالس الذكر، حيث يقول النبي صلى الله عليه وسلم:
"إن لله ملائكة يطوفون في الطُرُق يلتمسون أهل الذكر" أي أن الله كلَّف طائفة مخصوصة من الملائكة غير الحفظة للسياحة في الأرض، يدورون في طرق المسلمين ومساجدهم، ودورهم، يطلبون مجالس الذكر، يزورونها ويشهدونها ويستمعون إلى أهلها. قال الحافظ: والأشبه اختصاص ذلك بمجالس التسبيح ونحوها.
فإذا "وجدوا قوماً يذكرون الله عز وجل " وفي رواية مسلم " فإذا وجدوا مجلساً فيه ذكر تنادوا " أي نادى بعضهم بعضاً " أن هلموا إلى حاجتكم " وفي رواية إلى بغيتكم، أي تعالوا إلى ما تبحثون عنه من مجالس الذكر، والوصول إلى أهلها، لتزوروهم، وتستمعوا إلى ذكرهم.
قال عليه الصلاة والسلام في وصف الملائكة، وهم في مجالس الذكر: " فيحفونهم" أي يحيطون بهم إحاطة السوار بالمعصم.
"فيحفونهم بأجنحتهم " أي يطوفون حولهم بأجنحتهم " إلى السماء " أي حتى يصلوا إلى السماء.
ثم يقص عليه الصلاة والسلام المحاورة التي جرت بين رب العزة والجلال، وبين ملائكته الكرام:
فيقول الله جل في علاه: "فيسألهم ربُّهم وهو أعلم بهم" أي وهو أكثر علماً بأحوالهم، تنويهاً بشأنهم في الملأ الأعلى؛ ليباهى بهم الملائكة: "ما يقول عبادي؟ فتجيب الملائكة: يسبحونك، ويكبرونك، ويحمدونك ويمجدونك "، أي فتقول الملائكة: إن هؤلاء الذاكرين يقولون: سبحان الله والحمد لله، ولا إله إلاّ الله، والله أكبر، فالتمجيد هو قول لا إله إلاّ الله؛ لما فيه من تعظيم الله تعالى، بتوحيد الألوهية.
فيقول الله جل في علاه: "هَلْ رَأوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُون: لا وَاللهِ مَا رَأوْكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: فكَيْفَ لَوْ رَأوْنِي؟ "
فتجيب الملائكة الكرام: " لو رأوك كانوا أشد لك عبادة، وأشد تمجيداً وأكثر لك تسبيحاً " لأنّ الاجتهاد في العبادة على قدر المعرفة.
ثم يقول الله تبارك وتعالى: " قال: فما يسألونني؟ " أي فماذا يطلبون مني.
فتقول الملائكة:" قالوا: يسألونك الجنة " أي يذكرونك، ويعبدونك طمعاً في جنتك.
فتجيب الملائكة: "لو رأوها كانوا أشد عليها حرصاً " أي لكانوا أكثر سعياً إليها؛ لأنه ليس الخير كالمعاينة.
فيقول الله جل جلاله" قال: فمِمَّ يتعوذون " أي فأي شيء يخافون منه، ويسألون ربهم أن يجيرهم منه.
فتجيب الملائكة: " من النار " أي يذكرون ويعبدون ربهم خوفاً ًمن النار، ويسألونه عز وجل أن يجيرهم منها.
فيقول الله جل جلاله: " فَكَيْفَ لَوْ رَأوْهَا؟"
فتجيب الملائكة:" لو رأوها كانوا أشد منها فراراً " أي لكانوا أكثر اجتهاداً في الأعمال الصالحة التي هي سبب في النجاة من النار.
فيقول الله جل جلاله: " قال: فيقول: فأشهدكم أني قد غفرت لهم " أي قد غفرت لهم ذنوبهم.
فيقول ملك من الملائكة: "فيهم فلان ليس منهم، إنَّما جاء لحاجة " أي إنه يوجد من بين هؤلاء الذاكرين" فلان": وهو ليس منهم، ولكنه جاء لحاجة يقضيها فجلس معهم، فهل يغفر له؟ فيقول الله جل في علاه ما معناه: هم الجلساء لا يشقى جليسهم ولا يخيَّب.
740;ہ حدیث مجالسِ ذکر کی تعظیم کے مظاہر میں سے ایک مظہر بیان کر رہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کا ذکر اذکار کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا ایک خاص گروہ مقرر کیا ہے جو زمین میں حفاظت کے لیے مامور نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے راستوں اور مساجد کے اردگرد چکر لگاتے ہیں۔ان چکروں کے ساتھ وہ ذکر کی مجالس تلاش کرتے، اس میں حاضر ہوتے اور اہل مجلس کے ذکر کو سنتے ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ : یہ غالب حد تک تسبیح وغیرہ کی مجالس کے ساتھ خاص ہے۔
”پس جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں“ اور مسلم کی روایت میں ہے: ”جب وہ کسی ایسی مجلس کو پا تے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو آواز لگاتے ہیں“یعنی ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کہ اپنی طلب کی طرف آؤ اور ایک روایت میں ہے ”اپنی تلاش کی طرف“ یعنی ذکر کی جس مجلس کو تلاش کر رہے ہو اس کی طرف آؤ۔ اس مجلس میں بیٹھے لوگوں کی طرف پہنچو تاکہ ان کی زیارت کرسکو اور ان کے ذکر کو سُنْ سکو۔
جب وہ فرشتے ذکر کی مجلسوں میں ہوتے ہیں تو ان کی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ”فَيَحُفُّونَهُمْ“ یعنی وہ اپنے پروں سے ان کو گھیر لیتے ہیں، جس طرح کنگن کلائی کو گھیر لیتا ہے۔
”انھیں اپنے پروں سے گھیر لیتے ہیں“ یعنی مجلس کے ارد گرد اپنے پروں سے گھومتے ہیں۔آسمان تک یعنی ایسا کرتے ہوئے وہ آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اللہ رب العزت اور فرشتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو بیان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہےحالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے، یعنی وہ ان کے حالات سے بخوبی واقف ہے، ایسا وہ صرف ملاء اعلیٰ میں ان کی بلندیٔ شان کے بیان اور فرشتوں کے سامنے فخرکرتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندے کیا کہتے تھے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں وہ تیری تسبیح ،تکبیر، حمد اور بزرگی بیان کرتے ہیں، یعنی فرشتے کہتے ہیں کہ یہ ذکر کرنے والے سبحان الله والحمد لله، ولا إله إلاّ الله، والله أكبر (اللہ پاک ہے،تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی اور حقیقی معبود نہیں ہے اور اللہ بہت بڑا ہے) کہتے ہیں۔ ’تمجید‘ سے مراد ان کا یہ قول ہے ’’لا إله إلاّ الله‘‘ (اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں) کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید الوہیت کے ساتھ اس کی تعظیم بیان کی جار ہی ہے۔ اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے: کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ واللہ! انھوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔تو اللہ فرماتا ہے کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہوگا؟، فرشتے جواب دیتے ہیں: اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی اورزیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے، اس لیے معرفت کے مطابق عبادت و ریاضت میں زیادتی و اضافہ ہوتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے : وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ یعنی مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں : تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے، یعنی جنت کی خواہش کے ساتھ تیرا ذکر اور تیری عبادت کرتے ہیں۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے تیری جنت کو دیکھا ہوتا تو اس کے اور بھی زیادہ خواہش مند ہوتے، یعنی اس کے لیے اور زیادہ کوشش کرتے کیوں کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ (خبر آنکھوں دیکھی بات کی طرح نہیں ہوتی)؟!۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے تھے؟ یعنی کس چیز سے وہ ڈرتے تھے اور اپنے رب سے اس سے بچائے رکھنے کا سوال کرتے تھے؟ تو فرشتے جواب دیتے ہیں: آگ سے، یعنی وہ جہنم سے ڈرتے ہوئے اپنے رب کا ذکر اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اس سے بچائے رکھنے کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اگر وہ اس کو دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو ؟، فرشتے جواب دیتے ہیں: اگر وہ اس کو دیکھ لیں تو اس سے اور زیادہ دور بھاگیں، یعنی وہ نیک اعمال کو اختیار کرنے کی اور زیادہ کوشش کریں جوکہ جہنم سے بچاؤ کا سبب ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے، یعنی میں نے ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا۔
ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے: فلاں شخص ان میں سے نہیں تھا وہ کسی کام سے آیا تھا، یعنی ان ذکر کرنے والوں کے ساتھ ایک شخص ایسا بھی تھا جو ان میں سے نہیں تھا بلکہ وہ اپنے کسی کام سے آیا تھا اور جس سے کام تھا وہ اس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، کیا اسے بھی بخش دیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بدبخت اور محروم نہیں رہ سکتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8272

 
 
Hadith   1385   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أسرفت، وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت


Tema:

اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گنا ہوں کی مغفرت فرما اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے درگزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جا ننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قامَ إلى الصلاة، قال: «وَجَّهتُ وجهي للذي فطر السماوات والأرض حنيفًا، وما أنا من المشركين، إنَّ صلاتي، ونُسُكي، ومَحياي، ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك أُمِرتُ وأنا من المسلمين، اللهمَّ أنت المَلِك لا إله إلَّا أنت، أنت ربي، وأنا عبدك، ظلمتُ نفسي، واعترفتُ بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعًا، إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيئَها لا يصرف عني سيئها إلا أنت، لبَّيْك وسَعْدَيْك، والخيرُ كله في يديك، والشر ليس إليك، أنا بك وإليك، تباركتَ وتعاليتَ، أستغفرك وأتوب إليك»، وإذا ركع، قال: «اللهمَّ لك ركعتُ، وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، خشع لك سمعي، وبصري، ومُخِّي، وعظمي، وعَصَبي»، وإذا رفع، قال: «اللهم ربنا لك الحمد مِلءَ السماوات، ومِلءَ الأرض، ومِلءَ ما بينهما، ومِلءَ ما شئتَ من شيء بعد»، وإذا سجد، قال: «اللهم لك سجدتُ، وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، سجد وجهي للذي خلقه، وصوَّره، وشقَّ سمعَه وبصرَه، تبارك الله أحسنُ الخالقين»، ثم يكون من آخر ما يقول بين التشهُّد والتسليم: «اللهم اغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وما أسررتُ وما أعلنتُ، وما أسرفتُ، وما أنت أعلم به مني، أنت المُقَدِّم وأنت المؤَخِّر، لا إله إلا أنت».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو (’’اللہ اکبر‘‘ کہتے پھر) یہ دعا پڑھتے: ”وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا [مُسْلِمًا] وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ؛ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لا إِلَهَ [لِي] إِلا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، [إِنَّهُ] لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لأَحْسَنِ الأَخْلاقِ لا يَهْدِي لأَحْسَنِهَا إِلا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ [ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ] أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ“ میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابع دار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے سا تھ دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ میری صلاۃ، میری قربانی ، میرا جینا ا ور مر نا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تا بع دار ہوں۔ اے اللہ! تو باد شاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود برحق نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف ہے، تو میرے تمام گناہوں کی مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں، مجھے حسن اخلا ق کی ہدایت فرما، ان اخلاق حسنہ کی جانب صرف تو ہی رہنمائی کرنے والا ہے، بری عا دتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور کر دے، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے۔ میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جاسکتی، میں تیر ا ہوں اور میرا ٹھکانا تیری ہی طرف ہے، تو بڑی بر کت والا اور بہت بلند وبالا ہے، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا اور تیرے حضو ر توبہ کرتا ہوں۔ اور جب آپ ﷺ رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑ ھتے: ”اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي“ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا تابع دار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے لیے جھک گئے، اور جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَ[مِلْئَ] مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ“ اللہ نے اس شخص کی سن لی (قبول کرلیا) جس نے اس کی تعر یف کی، اے ہمارے رب !تیرے لیے حمد و ثنا ہے آسمانوں اور زمین کے برابر اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کے برابر اور اس کے بعد جو کچھ تو چا ہے اس کے برابر۔
اور جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو کہتے : ”اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، وَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ“ اے اللہ!میں نے تیرے لیے سجدہ کیا ، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا فرماں بر دار و تابع دار ہوا، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کا جس نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی صورت بنائی تو اچھی صورت بنائی ، اس کے کان اور آنکھ بنائے۔ اللہ کی ذات بڑی با بر کت ہے وہ بہترین تخلیق فرما نے والا ہے۔
اور جب آپ ﷺ سلام پھیرتے تو کہتے: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ“ اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گناہوں کی مغفرت فرما اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے در گزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة قال: «وَجَّهتُ وجهي للذي فطر السماوات والأرض» أي: توجَّهت بالعبادة، بمعنى: أخلصتُ عبادتي لله الذي خلق السماوات والأرض من غير مثال سبق، وأعرضتُ عما سواه، فإنَّ من أوجد مثل هذه المخلوقات التي هي على غاية من الإبداع والإتقان حقيق بأن تتوجَّه الوجوه إليه، وأن تعتمد القلوب في سائر أحوالها عليه، ولا تلتفت لغيره، ولا ترجو إلا دوام رضاه وخيره، «حنيفًا وما أنا من المشركين» أي: مائلًا عن كل دين باطل إلى الدين الحق دين الإسلام ثابتا عليه، وهو عند العرب غلب على من كان على ملة إبراهيم عليه السلام.
ثم قال: «إنَّ صلاتي، ونُسُكي، ومَحياي، ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك أُمِرتُ وأنا من المسلمين» أي: صلاتي وعبادتي وتقرُّبي كل ذلك خالص لوجه الله, لا أشرك فيه غيره، وكذلك حياتي وموتي لله هو خالقهما ومقدِّرهما، لا تصرُّف لغيره فيهما، لا شريك له سبحانه في ذاته وصفاته وأفعاله، وقد أمرني ربي بهذا التوحيد والإخلاص، وأنا من المسلمين المنقادين والمطيعين له سبحانه.
ثم قال: «اللهمَّ أنت المَلِك لا إله إلَّا أنت، أنت ربي، وأنا عبدك، ظلمتُ نفسي، واعترفتُ بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعًا، إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» أي: يا الله، أنت الملك فلا مَلِك غيرك، ولا مُلْك في الحقيقة لغيرك، وأنت المنفرد بالألوهية فلا معبود بحق إلا أنت، وأنت ربي وأنا عبدك، وقد ظلمتُ نفسي بالغفلة عن ذكرك وبعمل المعاصي والذنوب، وقد اعترفتُ بذنوبي، فاغفر لي ذنوبي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت؛ فإنك أنت الغفار الغفور.
ثم قال: «واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيئَها لا يصرف عني سيئها إلا أنت» أي: دلَّني ووفِّقني وثبِّتني وأوصلني لأحسن الأخلاق في عبادتك وغيرها من الأخلاق الحسنة الطيبة الظاهرة والباطنة، فإنك أنت الهادي إليها، لا هادي غيرك، وأبعدني واحفظني من سيئ الأخلاق، فإنه لا يبعدني ويحفظني منها إلا أنت.
ثم قال: «لبَّيْك وسَعْدَيْك» أي: أدوم على طاعتك دوامًا بعد دوام، وأسعد بإقامتي على طاعتك وإجابتي لدعوتك سعادة بعد سعادة.
ثم قال: «والخيرُ كله في يديك» أي: والخير كله في تصرفك، أنت المالك له المتصرِّف فيه كيف تشاء. «والشر ليس إليك» أي: إنما يقع الشر في مفعولاتك ومخلوقاتك لا في فعلك سبحانه، فالشر لا يُضاف إليه سبحانه بوجه، لا في ذاته ولا في صفاته ولا في أفعاله ولا في أسمائه، فإن ذاته لها الكمال المطلق من جميع الوجوه، وصفاته كلها صفات كمال، ويُحمد عليها ويُثنى عليه بها، وأفعاله كلها خير ورحمة وعدل وحكمة، لا شر فيها بوجه ما، وأسماؤه كلها حسنى، فكيف يُضاف الشر إليه؟ بل الشر في مفعولاته ومخلوقاته وهو منفصل عنه؛ إذ فعله غير مفعوله، ففعله خير كله، وأما المخلوق المفعول ففيه الخير والشر، وإذا كان الشر مخلوقًا منفصلًا غير قائم بالرب سبحانه فهو لا يُضاف إليه، وليس في هذا حجة للمعتزلة الذين يزعمون أن الله لم يخلق الشر، فالله خالق الخير والشر وخالق كل شيء سبحانه.
«أنا بك وإليك» أي: أعوذ وأعتمد وألوذ وأقوم بك، وأتوجَّه وألتجئ وأرجع إليك، أو بك وحَّدت وإليك انتهى أمري، فأنت المبدأ والمنتهى، وقيل: أستعين بك وأتوجه إليك.
«تباركتَ وتعاليتَ» أي: تعظَّمت وتمجَّدت وتكاثر خيرك، وتعاليت عما توهمته الأوهام وتصورته العقول، وتنزَّهت عن كل نقص وعيب.
«أستغفرك وأتوب إليك» أي: أطلب المغفرة لما مضى، وأرجع عن فعل الذنب فيما بقي، متوجِّهًا إليك بالتوفيق والثبات إلى الممات.
وإذا ركع، قال: «اللهمَّ لك ركعتُ، وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، خشع لك سمعي، وبصري، ومُخِّي، وعظمي، وعَصَبي» أي ركوعي لك وحدك مخلصًا لك، وقد آمنت بك، وانقدتُ لك، وجوارحي كلها -مِن سمع وبصر ومخ وعظم وعصب- ذليلة منقادة لأمرك.
 وإذا رفع رأسه من الركوع قال: «اللهم ربنا لك الحمد مِلءَ السماوات، ومِلءَ الأرض، ومِلءَ ما بينهما، ومِلءَ ما شئتَ من شيء بعد» أي: أحمدك حمدًا لو كان أجسامًا لملأ السماوات والأرض، وملأ ما يشاء من خلقك بعد السماوات والأرض.
وإذا سجد، قال: «اللهم لك سجدتُ، وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، سجد وجهي للذي خلقه، وصوَّره، وشقَّ سمعَه وبصرَه، تبارك الله أحسنُ الخالقين» أي: سجودي لك وحدك مخلصًا لك، وقد آمنت بك، وانقدتُ لك، وجوارحي كلها التي خلقتها وصوَّرتها ذليلة منقادة لأمرك، تبارك الله أحسنُ الخالقين.
ثم يكون من آخر ما يقول بين التشهُّد والتسليم: «اللهم اغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وما أسررتُ وما أعلنتُ، وما أسرفتُ، وما أنت أعلم به مني، أنت المُقَدِّم وأنت المؤَخِّر، لا إله إلا أنت» أي: اللهم اغفر لي ما قدَّمتُ من الذنوب وما أخَّرتُ منها، كأنه قال: اغفر لي القديم والحديث «وما أسررتُ وما أعلنتُ» أي: اغفر لي ما أخفيت وما أظهرت، أو ما حدَّثتُ به نفسي وما تحرَّك به لساني «وما أسرفت»  أي: اغفر لي ما جاوزت فيه الحد من الذنوب والمعاصي «وما أنت أعلم به مني» أي: واغفر لي ذنوبي التي لا أعلمها «أنت المقدِّم وأنت المؤخِّر» معناه: تقدِّم من شئت بطاعتك وغيرها وتؤخِّر من شئت عن ذلك، كما تقتضيه حكمتك، وتعز من تشاء وتذل من تشاء «لا إله إلا أنت» أي: لا معبود بحق إلا أنت.
606;بی ﷺ جب صلاۃ (نماز) کے لیے کھڑے ہوتے تو پڑھتے: ”وَجَّهتُ وجهي للذي فطر السماوات والأرض“ یعنی اپنی عبادت کے ساتھ میں متوجہ ہوتا ہوں۔ معنیٰ یہ ہے کہ میں اپنی عبادت کو خالصتاً اللہ کے لیے کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کیا اور اس کے علاوہ تمام اشیاء سے میں منہ موڑتا ہوں۔جس نے اس طرح کی مخلوقات پیدا کی ہیں جو انوکھے پن اور اتقان میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں وہ اس لائق ہے کہ چہروں کا رخ اسی کی طرف ہو اور تمام احوال میں دل اسی پر تکیہ کریں اور اس کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس کی رضا و خیر کے دوام کے سوا ان کی کوئی اور آرزو نہ ہو۔ ”حنيفًا وما أنا من المشركين“ یعنی میں ہر باطل دین سے ہٹ کر دین حق کی طرف آنے والا اور اس پر ثابت قدم رہنے والا رہوں۔ عربوں کے ہاں اس لفظ کا استعمال اس شخص کے لیے عام ہو گیا تھا جو ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم ہوتا۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”إنَّ صلاتي، ونُسُكي، ومَحياي، ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك أُمِرتُ وأنا من المسلمين“ یعنی میری نماز، میری عبادت اور میری نیکی سب کچھ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ اس میں میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ اسی طرح میری زندگی اور موت اللہ کے لیے ہے۔ وہی ان کا خالق اور ان کا مقدر کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کسی کو ان میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں پاک ہے۔ میرے رب نے مجھے اس توحید و اخلاص کا حکم دیا ہے اور میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے والے فرماں بردار اور اطاعت گزار بندوں میں سے ہوں۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”اللهمَّ أنت المَلِك لا إله إلَّا أنت، أنت ربي، وأنا عبدك، ظلمتُ نفسي، واعترفتُ بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعًا، إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت“ یعنی اے اللہ! تو بادشاہ ہے۔ تیرے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔ بادشاہت درحقیقت تیرے سوا کسی کی نہیں۔ الوہیت میں تو یکتا ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ تیرے ذکر سے غافل ہو کر اور معاصی و گناہوں کا ارتکاب کر کے میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔ تو ہی غفار و غٖفور ہے۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيئَها لا يصرف عني سيئها إلا أنت“ کہ بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرما، مجھے انہیں اپنانے اور ان پر ثابت قدم رہنے کی توفیق مرحمت فرما۔ اپنی عبادت اور دیگر معاملات میں مجھے ظاہری و باطنی بہترین اور پاکیزہ اخلاق تک رسائی عطا فرما۔ان کی طرف رہنمائی کرنے والا تو ہی تو ہے۔ تیرے سوا کوئی راہنما نہیں۔ برے اخلاق سے مجھے دور رکھ اور ان سے میری حفاظت فرما۔ان سے دور رکھنے والا اور ان سے حفاظت کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر آپ ﷺ فرماتے: ”لبَّيْك وسَعْدَيْك“ یعنی تیری اطاعت پر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوں اور اس اطاعت پر قائم رہنے اور تیری پکار کا جواب دینے کی مجھے خوشی در خوشی ہے۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”والخيرُ كله في يديك“ خیر سب کی سب تیرے تصرف میں ہے۔ تو ہی اس کا مالک ہے اور اس میں تیری منشا کے مطابق بس تیرا ہی اختیار چلتا ہے۔
”والشر ليس إليك“ یعنی شر تیرے مفعولات اور مخلوقات میں ہوتا ہے نہ کہ فعل میں۔ شر کی نسبت کسی بھی صورت میں اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف نہیں کی جاسکتی، نہ اس کی ذات کی طرف اور نہ ہی صفات کی طرف اور نہ ہی اس کے افعال و اسماء کی طرف۔ اللہ کی ذات کو ہر طرح سے کمال مطلق حاصل ہے اور اس کی تمام صفات کامل صفات ہیں جن پر اس کی حمد و ثنا کی جاتی ہے۔ اللہ کے تمام افعال خیر و رحمت اور عدل و حکمت سے مرکب ہیں۔ ان میں کسی بھی طور پر شر نہیں ہوتا۔ اس کے تمام اسماء حُسن وخوبی سے متصف ہیں۔ چنانچہ اس کی طرف شر کی نسبت کیسے کی جا سکتی ہے؟ بلکہ شر اس کے مفعولات و مخلوقات میں ہوتا ہے جو اس کی ذات سے الگ ہے۔ کیونکہ اس کا فعل، مفعول نہیں ہے۔ اس کا فعل تو سب کا سب خیر ہے۔ جب کہ مخلوق جو فعل کا نتیجہ ہوتی ہے اس میں خیر بھی ہوتی ہے اور شر بھی۔ جب شر ایک ایسی شے ہے جو الگ سے ایک مخلوق ہے اور رب تعالی شانہ کے ساتھ اس کا وجود قائم نہیں تو اس کی نسبت بھی اس کی طرف نہیں کی جائے گی۔ اس میں معتزلہ کی حجت نہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شر کو پیدا نہیں کیا۔ اللہ خیر و شر اور ہر شے کا خالق ہے۔
”أنا بك وإليك“ یعنی میں تجھ ہی سے پناہ مانگتا ہوں، تجھ ہی پر تکیہ کرتا ہوں، تیری حفاظت میں آتا ہوں اور تیرے سہارے ہی قائم ہوں۔ میرا رخ تیری طرف ہے اور میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔یا پھر یہ معنی ہے کہ میں تجھ ہی سے مربوط ہوں اور میرے معاملے کی انتہا تو ہی ہے۔ تو ہی مبدأ ہے اور تو ہی منتہا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے: میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔
”تباركتَ وتعاليتَ“ یعنی تو عظیم و بزرگ ذات ہے اور تیری بھلائیاں بہت زیادہ ہیں۔ تو ان تمام باتوں سے بالا تر ہے جنہیں اوہام اور عقلیں تصور کرتی ہیں اور تو ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ ”أستغفرك وأتوب إليك“ میں تجھ سے گزشتہ گناہوں پر مغفرت طلب کرتا ہوں اور باقی زندگی میں، مَیْں گناہ سے منہ موڑتا ہوں اور تاوقتِ مرگ توفیق و ثابت قدمی سے تیری طرف متوجہ رہنے کا عزم کرتا ہوں۔
جب آپ ﷺ رکوع فرماتے تو کہتے: ”اللهمَّ لك ركعتُ، وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، خشع لك سمعي، وبصري، ومُخِّي، وعظمي، وعَصَبي“ یعنی میرا رکوع خالصتاً صرف تیرے لیے ہے، میں تجھ پر ایمان لایا اور تیرا مطیع ہوا۔ میرے تمام اعضاء یعنی کان، آنکھ، مغز، ہڈی اور اعصاب سب کے سب تیرے حکم کے سامنے ہیچ اور اس کے پابند ہیں۔
جب آپ ﷺ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو کہتے: ”اللهم ربنا لك الحمد مِلءَ السماوات، ومِلءَ الأرض، ومِلءَ ما بينهما، ومِلءَ ما شئتَ من شيء بعد“ یعنی میں تیری ایسی حمد کرتا ہوں کہ اگر اس کا جسم ہوتا تو یہ آسمانوں اور زمین اور آسمانوں اور زمین کے بعد ہر اس شے کو بھر دیتی جسے تو چاہتا۔
جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو کہتے: ”اللهم لك سجدتُ،وبك آمنتُ، ولك أسلمتُ، سجد وجهي للذي خلقه، وصوَّره، وشقَّ سمعَه وبصرَه، تبارك الله أحسنُ الخالقين“ یعنی میرا سجدہ خالصتاً صرف تیرے لیے ہے۔میں تجھ پر ایمان لایا اور تیرا مطیع ہوا۔ میرے تمام اعضاء جنہیں تو نے پیدا کیا ہے اور انہیں شکل دی ہے وہ سب تیرے حکم کے پابند ہیں۔
”تبارک اللہ احسن الخالقین“بابرکت ہے وہ ذات باری تعالیٰ جو سب سے بہتر پیدا کرنے والی ہے۔
تشہد اور سلام کے مابین آخر میں آپ ﷺ یہ کہتے: ”اللهم اغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وما أسررتُ وما أعلنتُ، وما أسرفتُ، وما أنت أعلم به مني، أنت المُقَدِّم وأنت المؤَخِّر، لا إله إلا أنت“ یعنی اے اللہ! میرے گزشتہ اور آئندہ گناہ معاف فرما۔ گویا کہ آپ ﷺ یہ کہتے کہ میرے پرانے اور نئے سب گناہ معاف فرما۔ ”وما أسررتُ وما أعلنتُ“ یعنی میرے پوشیدہ اور ظاہری گناہ معاف فرما یا وہ گناہ معاف فرما جن کا خیال میرے دل میں آیا اور وہ بھی جو میری زبان تک آ گئے۔ ”وما أسرفت“ یعنی میرے اُن گناہوں اور معصیتوں کو معاف فرما جن میں میں نے حد سے تجاوز کیا۔ ”وما أنت أعلم به مني“ یعنی میرے وہ گناہ بھی معاف فرما جن کو میں نہیں جانتا۔ ”أنت المقدِّم وأنت المؤخِّر“ معنی یہ کہ اپنی حکمت کے تقاضے کے تحت اپنی طاعت وغیرہ کی بدولت تو جسے چاہتا ہے آگے کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے پیچھے کر دیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے۔ ”لا إله إلا أنت“ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8280

 
 
Hadith   1386   الحديث
الأهمية: قمت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فقام فقرأ سورة البقرة، لا يمر بآية رحمة إلا وقف فسأل، ولا يمر بآية عذاب إلا وقف فتعوذ


Tema:

میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہوا۔ چنانچہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور سورۃ البقرۃ پڑھی۔ آپ ﷺ جب کسی رحمت والی آیت سے گزرتے تو ٹھہر کر رحمت طلب کرتے اور جب کسی عذاب والی آیت سے گزرتے تو ٹھہر کر پناہ مانگتے۔

عن عوف بن مالك الأشجعي -رضي الله عنه- قال: قمتُ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلةً، فقام فقرأ سورةَ البقرة، لا يَمُرُّ بآية رحمةٍ إلا وقفَ فسأل، ولا يَمُرُّ بآية عذابٍ إلَّا وقف فتعوَّذ، قال: ثم ركع بقَدْر قيامِه، يقول في ركوعه: «سُبحانَ ذي الجَبَروتِ والملَكوتِ والكِبرياءِ والعَظَمةِ»، ثم سجد بقَدْر قيامه، ثم قال في سجوده مثلَ ذلك، ثم قام فقرأ بآل عمران، ثم قرأ سورةً سورةً.

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہوا۔ چنانچہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور سورۃ البقرۃ پڑھی۔ آپ ﷺ جب کسی رحمت والی آیت سے گزرتے تو ٹھہر کر رحمت طلب کرتے اور جب کسی عذاب والی آیت سے گزرتے تو ٹھہر کر پناہ مانگتے۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ نے بقدر قیام رکوع کیا اور آپ ﷺ اپنے رکوع میں فرما رہے تھے: ’’سُبحانَ ذي الجَبَروتِ والملَكوتِ والكِبرياءِ والعَظَمة‘‘ (پاک ہے وہ ذات جو بڑے قہر وغلبے، بڑی بادشاہت، نہایت بڑائی اور بے حد عظمت والی ہے)۔ پھر قیام ہی کے بقدر آپ ﷺ نے سجدہ کیا اور اپنے سجدے میں بھی آپ ﷺ نے یہی دعا پڑھی۔ پھر آپ ﷺ ( دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوگئے اور سورۂ آل عمران کی تلاوت فرمائی۔ پھر آپ ﷺ نے (بقیہ رکعتوں میں) ایک ایک سورت پڑھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر عوف بن مالك الأشجعي رضي الله عنه أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلةً قيام الليل، فقام صلى الله عليه وسلم فقرأ سورة البقرة، فكان لا يمر بآية يُذكر فيها الرحمة والجنة إلا سأل الله رحمته وجنته، ولا يمر بآية يُذكر فيها العذاب إلا استعاذ بالله من عذابه، ثم ركع طويلًا بقدر قيامه، وقال في ركوعه: «سُبحانَ ذي الجَبَروتِ والملَكوتِ والكِبرياءِ والعَظَمةِ» أي: أُنَزِّه اللهَ صاحب القهر والغلبة، وصاحب الملك ظاهرًا وباطنًا، وصاحب الكبرياء، وصاحب العظمة، ثم سجد بقَدْر قيامه، ثم قال في سجوده مثلَ ما قال في ركوعه، ثم قام فقرأ بآل عمران، ثم قرأ سورةً سورةً.
593;وف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ایک رات رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز تہجد ادا کی۔آپ ﷺ نماز میں کھڑے ہوئے اور سورۂ بقرہ کی تلاوت فرمائی۔ آپ ﷺ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں رحمت اور جنت کا ذکر ہوتا تو اللہ سے اس کی رحمت اور جنت کا سوال کرتے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کا ذکر ہوتا ہے تو اللہ کے عذاب سے اس کی پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے قیام ہی کے بقدر لمبا رکوع کیا اور اپنے رکوع میں آپ ﷺ یہ کہہ رہے تھے: " سُبحانَ ذي الجَبَروتِ والملَكوتِ والكِبرياءِ والعَظَمةِ "۔ یعنی میں پاکیزگی بیان کرتا ہوں اس ذات کی جو زبردست اور غالب ہے، جو ظاہری وباطنی بادشاہت کا مالک ہے اور بڑائی وعظمت والا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے قیام ہی کے بقدر سجدہ فرمایا اور اپنے سجدے میں وہی دعا پڑھی جو آپ ﷺ نے اپنے رکوع میں پرھی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر سورۂ آل عمران کی تلاوت فرمائی اور پھرایک ایک سورت کی تلاوت فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8281

 
 
Hadith   1387   الحديث
الأهمية: وعدني ربي أن يدخل الجنة من أمتي سبعين ألفا بغير حساب، ولا عذاب مع كل ألف سبعون ألفا وثلاث حثيات من حثيات ربي


Tema:

میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستّر ہزار لوگوں کو حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کرے گا اور ( ان ستر ہزار میں سے) ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار لوگ ہوں گے اور میرے رب کے لپوں میں سے تین لپ بھر کر لوگ جنت میں جائیں گے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «وَعَدَني ربِّي أنْ يُدْخِلَ الجنةَ من أُمَّتي سبعين ألفًا بغير حسابٍ ولا عذابٍ، مع كلِّ ألفٍ سبعون ألفًا، وثلاثُ حَثَيَاتٍ مِن حَثَيَاتِ ربِّي».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کرے گا اور (ان ستر ہزار میں سے) ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار لوگ ہوں گے اور میرے رب کے لپوں میں سے تین لپ بھر کر لوگ جنت میں جائیں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن الله -تعالى- وعده أنه سيُدخِل الجنةَ سبعين الفًا من هذه الأمة من غير حساب ولا عذاب، وسيُدخِل مع كل ألف سبعين ألفًا آخرين، وسيقبض الله بيده الكريمة ثلاث قبضات ويدخلهم الجنة.
606;بی ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس امت کے ستر ہزار افراد کو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل کرے گا اور ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار دیگر لوگوں کو بھی جنت میں داخل کر دے گا اور اللہ اپنے بزرگی والے ہاتھ سے مزید تین لپ بھر کر لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8282

 
 
Hadith   1388   الحديث
الأهمية: إن الرحم شجنة آخذة بحجزة الرحمن، يصل من وصلها، ويقطع من قطعها


Tema:

”رحم“ ایک شاخ ہے، جس نے حجزۃ الرحمن تھام رکھی ہے، جو اسے جوڑےگا، اللہ اسے جوڑے گا اور جو اسے توڑے گا، اللہ اسے توڑے دے گا۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إنَّ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ آخذةٌ بحُجْزَةِ الرَّحمنِ، يَصِلُ مَن وَصَلَها، ويقطعُ مَن قَطَعَها».

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”رحم ایک شاخ ہے، جس نے حجزۃ الرحمن (حجزۃ: یہ مخلوق کے ازار باندھنے کی جگہ ہے، رہا اس کا معنی اللہ تعالی کے حق میں، تو وہ اس کی عظمت وجلالت کے شایان شان ہے) تھامے رکھا ہے، جو اسے جوڑے گا، اللہ اسے جوڑے گا اور جو اسے توڑے گا، اللہ اسے توڑے دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الرَّحِم لها تعلُّق بالله -عز وجل-، فقد اشتُقَّ اسمها من اسم الرحمن، وهذا الحديث في الجملة من أحاديث الصفات، التي نص الأئمة على أنه يُمر كما جاء، وردوا على من نفى موجبه، والحُجزة على ذلك من الصفات التي يجب الإيمان بها من غير تحريف ولا تعطيل ومن غير تكييف ولا تمثيل، فنؤمن بأن الرحم وهي القرابة تعتصم بها، وأن الله عز وجل يصل من وصلها، ومن قطع رحمه ولم يصل قرابته، قطعه الله، ومن قطعه الله فهو المقطوع مع عدو الله الشيطان الطريد الرجيم، ولو أراد الخلق كلهم صلته ونفعه، لم يفده ذلك.

Esin Hadith Caption Urdu


”رحم“ یعنی صلہ رحمی کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ یہ نام لفظِ رحمٰن سے لیا گیا ہے۔ یہ حدیث ان احادیثِ صفات میں سے ہے، جن کے بارے میں ائمہ نے یہ واضح کیا ہےکہ یہ جیسے وارد ہوئی ہیں، ویسے ہی نقل کی جائیں اور ان کے مفہوم کی نفی نہ کی جاۓ۔ الحُجزة یہ ان صفات میں سے ہے، جن پر بغیر تحریف، تعطیل اور بغیر کیفیت اور تمثیل کے ایمان لانا ضروری ہے۔ ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ رحم وہ رشتے داری ہے، جس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور قطع رحمی کرنے والے اور ناطہ توڑنے والے کے ساتھ قطع رحمی کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ قطع رحمی کرے، وہ کٹا ہوا ہے، اللہ کے دشمن شیطان مردود کے ساتھ ۔ہے، اگر تمام مخلوق اس کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور فائدہ پہنچانا چاہیں، تو بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8283

 
 
Hadith   1389   الحديث
الأهمية: ألا ترضين أن أصل من وصلك، وأقطع من قطعك؟


Tema:

کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «خَلَقَ اللهُ الخلقَ، فلمَّا فرغَ منه، قامت الرَّحِمُ فأخذت بحَقْو الرَّحمن، فقال له: مَه، قالت: هذا مقامُ العائذِ بك من القَطِيعة، قال: ألَا تَرْضَيْنَ أنْ أصِلَ مَن وصلكِ، وأقطعُ مَن قطعكِ، قالت: بلى يا ربِّ، قال: فذاك». قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اقرءوا إن شئتم: {فهل عسيتُم إنْ تولَّيتُم أن تُفْسِدوا في الأرض وتُقَطِّعوا أرحامَكم}، وفي رواية للبخاري: فقال الله: (من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته).

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحمٰن کے دامن میں پناہ لے لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہو گا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو: ”فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ“ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘۔ (سورہ محمد:22)۔اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (ہاں کیا تم اس پر راضی نہیں کہ) میں اس سے جوڑوں گا جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑ لوں گا جو تم سے اپنے آپ کو توڑ لے؟۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله: «خَلَقَ اللهُ الخلقَ، فلمَّا فرغَ منه» أي: انتهى من خلق المخلوقات، وهو يدل على أن ذلك وقع في وقت محدد، وإن كان الله تعالى لا حدَّ لقدرته، ولا يشغله شأن عن شأن، ولكن اقتضت حكمته أن يجعل لفعله ذلك وقتًا معينًا، وهذا من الأدلة على أن أفعاله تتعلق بمشيئته، فمتى أراد أن يفعل شيئا فعله.
وليس معنى قوله: «لما فرغ» أنه تعالى انتهى من خلق كل شيء، بل مخلوقاته تعالى لا تزال توجد شيئا بعد شيء، ولكن سبق علمه بها، وتقديره لها وكتابته إياها، ثم هي تقع بمشيئته، فلا يكون إلا ما سبق به علمه، وتقديره وكتابته، وشاءه فوجد.
قوله: «قامت الرَّحِمُ فأخذت بحَقْو الرَّحمن، فقال له: مَه» هذه الأفعال المسنَدة إلى الرحم، من القيام والقول، ظاهر الحديث أنها على ظاهرها حقيقة، وإن كانت الرحم معنى يقوم بالناس، ولكن قدرة الله تعالى لا تُقاس بما يعرفه عقل الإنسان، وهذا الحديث في الجملة من أحاديث الصفات، التي نص الأئمة على أنها تُمَرُّ كما جاء، وردُّوا على من نفى موجبه. وليس ظاهر هذا الحديث أن لله إزاراً ورداءً من جنس الملابس التي يلبسها الناس، مما يصنع من الجلود والكتان والقطن وغيره، قال تعالى: (ليس كمثله شيء وهو السميع البصير).
قوله: «قالت: هذا مقامُ العائذِ بك من القَطِيعة» هذا أعظم مقام، والعائذ به استعاذ بأعظم معاذ، وهو دليل على تعظيم صلة الرحم، وعظم قطيعتها، والقطيعة: عدم الوصل، والوصل: هو الإحسان إلى ذوي القرابة، والتودُّد لهم والقرب منهم، ومساعدتهم، ودفع ما يؤذيهم، والحرص على جلب ما ينفعهم في الدنيا والآخرة.
قوله: «قال: ألَا تَرْضَيْنَ أنْ أصِلَ مَن وصلكِ، وأقطعَ مَن قطعكِ، قالت: بلى يا ربِّ، قال: فذاك» فمن وصل قرابته وصله الله، ومن وصله الله، وصل إلى كل خير وسعادة في الدنيا والآخرة، ولا بد أن تكون نهايته مجاورة ربه في الفردوس؛ لأن الوصل لا ينتهي إلا إلى هناك فينظر إلى وجه ربه الكريم. ومن قطع قرابته قطعه الله، ومن قطعه الله فهو المقطوع مع عدو الله الشيطان الطريد الرجيم.

Esin Hadith Caption Urdu


«خَلَقَ اللهُ الخلقَ، فلمَّا فرغَ منه» یعنی اللہ تعالی مخلوقات کو پیدا کرکے فارغ ہوا، یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ متعین وقت میں ہوا۔ اگرچہ اللہ کی قدرت کے سامنے کوئی حدبندی نہیں اور نہ ہی اس کو ایک حالت دوسری حالت سے غافل کرسکتی ہے۔ تاہم اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کسی کام کے لیے وقت متعین کرے۔یہ ان دلائل میں سے ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال اس کی مشیّت کے ساتھ معلق ہیں۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز کرتا ہے۔
«لما فرغ» کا مطلب یہ نہیں کہ تمام چیزوں کی تخلیق مکمل ہوچکی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا علم ان کے بارے میں پہلے سے ہے اور اس کی تقدیر پہلے سے لکھی جاچکی ہے۔ بعد میں ہر چیز اس کی مشیّت سے ہوتی ہے اور ہوتا وہی ہے جو پہلے اس کے علم میں تھا، اس کی تقدیر میں لکھا گیا تھا، صرف اسی کی چاہت سے وہ چیز ہو جاتی ہے۔
«قامت الرَّحِمُ فأخذت بحَقْو الرَّحمن، فقال له: مَه» رحم کی طرف منسوب افعال جیسے کھڑا ہونا اور بات کرنا۔ ظاہری حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے، گر چہ رحمت ایک معنوی چیز ہے جو لوگوں کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کو انسانی عقل کے ترازو میں تولا نہیں جا سکتا۔ یہ حدیث فی الجملہ ان احادیثِ صفات میں سے ہے جن کے بارے میں علماء نے صراحت کی ہے کہ یہ جیسے وارد ہوئی ویسے ہی چلی آ رہی ہے اور اس کے موجب (لازمہ) کے خلاف جو چیز ہوتی ہے اس کی علماء نفی کرتے ہیں۔ ظاہری حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی چمڑے، کاٹن اور روئی کا بنا ہوا کوئی ازار اور چادر ہوتی ہے جیسے لوگ پہنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔ (ترجمہ: اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے واﻻ ہے)۔
«قالت: هذا مقامُ العائذِ بك من القَطِيعة» یہ بہت عظیم جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ سب سے بڑی پناہ ہے۔ یہ صلہ رحمی کی عظمت اور قطعی رحمی کے بڑے گناہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ القطيعة: صلہ رحمی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ صلہ رحمی: رشتہ داروں کے ساتھ احسان، محبت، ان سے قریب ہونے، ان کی مدد کرنے، ان سے تکلیف دور کرنے اور ان کو دنیا و آخرت کے فائدے پہنچانے کو کہتے ہیں۔
«قال: ألَا تَرْضَيْنَ أنْ أصِلَ مَن وصلكِ، وأقطعَ مَن قطعكِ، قالت: بلى يا ربِّ، قال: فذاك» جس نے صلہ رحمی کی اللہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا اور جس سے اللہ صلہ رحمی کرے، وہ دنیا و آخرت کی سعادت اور بھلائی کو پہنچ چکا۔ یقیناً اس کا اختتام جنت الفردوس میں اپنے رب کے جوار میں جگہ ملنا ہے۔ اس لیے کہ (جنت میں) پہنچنے کا آخری مرحلہ اپنے رب کے چہرے کی طرف دیکھنا ہے۔ اور جو شخص قطع تعلقی کرتا ہے اللہ اس سے قطع تعلقی کرے گا، اور جس سے اللہ تعالیٰ قطع تعلقی کرے وہ اللہ کے دشمن شیطان مردود کے ساتھ راندۂ درگاہ ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8284

 
 
Hadith   1390   الحديث
الأهمية: اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك خاصمت، وبك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وأسررت وأعلنت، وما أنت أعلم به مني، لا إله إلا أنت


Tema:

اے اللہ! میں تیرے ہی لیے تابع ہوا اور تجھی پر میں ایمان لایا، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تیری مدد کے ساتھ ہی میں نے (دشمن سے) جھگڑا کیا اور تیری ہی طرف میں فیصلہ لے کر آیا۔ پس تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ سرِ عام کیا اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- كان النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- إذا تَهَجَّد من الليل قال: «اللهم ربَّنا لك الحمدُ، أنت قَيِّمُ السموات والأرض، ولك الحمدُ أنت ربُّ السموات والأرض ومَن فيهنَّ، ولك الحمدُ أنت نورُ السموات والأرض ومن فيهنَّ، أنت الحقُّ، وقولُك الحقُّ، ووعدُك الحقُّ، ولقاؤك الحقُّ، والجنةُ حقٌّ، والنارُ حقٌّ، والساعةُ حقٌّ، اللهم لك أسلمتُ، وبك آمنتُ، وعليك توكَّلتُ، وإليك خاصمتُ، وبك حاكمتُ، فاغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وأسررتُ وأعلنتُ، وما أنت أعلم به مني، لا إلهَ إلا أنت».

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ فِيهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ الْحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏وَقَوْلُكَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلِقَاؤُكَ الحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّارُ حَقٌّ،‏‏‏‏ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ خَاصَمْتُ وَبِكَ حَاكَمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ“ اے اللہ، اے ہمارے رب! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا سنبھالنے والا ہے۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔تو آسمانوں اور زمین اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔ تمام تعریفیں تجھے ہی زبیا ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود چیزوں کا نور ہے۔ تو حق ہے، تیرا فرمان حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے اور قیامت حق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے ہی لیے تابع ہوا اور تجھی پر میں ایمان لایا، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تیری مدد کے ساتھ ہی میں نے (دشمن سے) جھگڑا کیا اور تیری ہی طرف میں فیصلہ لے کر آیا۔ پس تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ سرِ عام کیا اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم إذا قام لصلاة الليل قال بعد أن يكبِّر تكبيرة الإحرام: «اللهم ربَّنا لك الحمدُ» أي: جميع الحمد واجب ومستحق لله تعالى، فهو المحمود على صفاته، وأسمائه، وعلى نعمه، وأياديه، وعلى خلقه وأفعاله، وعلى أمره وحُكمه، وهو المحمود أولًا وآخرًا، وظاهرًا وباطنًا.
ثم قال: «أنت قَيِّمُ السموات والأرض» أي: أنت الذي أقمتهما من العدم، والقائم عليهما بما يصلحهما ويقيمهما، فأنت الخالق الرازق، المالك المدبر، المحيي المميت.
ثم قال: «ولك الحمدُ أنت رب السموات والأرض ومن فيهنَّ» أي: أنت مالكهما ومن فيهما، والمتصرف بهما بمشيئتك، وأنت موجِدهما من العدم، فالملك لك، وليس لأحد معك اشتراك أو تدبير، تباركت وتعاليت.
ثم قال: «ولك الحمدُ أنت نورُ السماوات والأرض ومن فيهنَّ» فمن صفاته سبحانه أنه نور، واحتجب عن خلقه بالنور، وهو سبحانه منوِّر السماوات والأرض، وهادي أهل السماوات والأرض، ولا ينبغي نفي صفة النور عن الله تعالى أو تأويلها.
579;م قال: «أنت الحقُّ» فالحق اسم من أسمائه وصفة من صفاته، فهو الحق في ذاته وصفاته، فهو واجب الوجود كامل الصفات والنعوت، وجوده من لوازم ذاته، ولا وجود لشيء من الأشياء إلا به.   ثم قال: «وقولُك الحقُّ» ما قلتَه فهو صدق وحق وعدل، لا يأتيه الباطل من بين يديه، ولا من خلفه، لا في خبره، ولا في حُكمه وتشريعه، ولا في وعده ووعيده.
ثم قال: «ووعدُك الحقُّ» يعنى: لا تخلف الميعاد، فما وعدت به فلا بد من وقوعه، على ما وعدت، فلا خُلف فيه ولا تبديل.
ثم قال: «ولقاؤك حقُّ» أي: لا بد للعباد من ملاقاتك، فتجازيهم على أعمالهم، واللقاء يتضمن رؤية الله سبحانه.
ثم قال: «والجنةُ حقٌّ، والنارُ حقٌّ» أي: ثابتتان، موجودتان، كما أخبرتَ بذلك أنهما معدتان لأهلهما، فهما دار البقاء، وإليهما مصير العباد.
ثم قال: «والساعةُ حقٌّ» أي: مجيء يوم القيامة حق لا مرية فيه، فهو ثابت لا بد منه، وهي نهاية الدنيا، ومبدأ الآخرة.
وقوله: «اللهم لك أسلمتُ» معناه: انقدت لحكمك وسلمت ورضيت. وقوله: «وبك آمنت» يعنى: صدَّقت بك وبما أنزلت، وعملت بمقتضى ذلك.
«وعليك توكلت» أي: اعتمدت عليك، ووكَّلت أموري إليك، «وإليك خاصمت» أي: بما آتيتنى من البراهين احتججت على المعاند وغلبته «وبك حاكمت» أي: كل من أبى قبول الحق، أو جحده، حاكمته إليك وجعلتك الحكم بيني وبينه مجانبًا بذلك حكم كل طاغوت، من قانون وضعي، أو كاهن أو غيره، مما يتحاكم إليه البشر، من الأوضاع الباطلة شرعاً.
وقوله: «فاغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وأسررتُ وأعلنتُ، وما أنت أعلم به مني» أي: اغفر لي ما عملتُ من الذنوب، وما سأعمله، وما ظهر منها لأحد من خلقك، وما خفي عنهم، ولم يعلمه غيرك.
ثم ختم دعاءه بقوله: «لا إلهَ إلا أنت» فلا أتوجَّه إلى سواك؛ إذ كل مألوه غيرك باطل ودعوته ضلال ووبال، وهذا هو التوحيد الذي جاءت به رسل الله، وفرضه تعالى على عباده.
606;بی ﷺ جب رات کی نماز (تہجد) کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کے بعد فرماتے: ”اے اللہ، اے ہمارے رب! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے“ یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے واجب ہیں اور وہی ان کا حق دار ہے۔ چنانچہ وہ اپنی صفات اور اپنے اسماء پر، اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات پر، اپنی تخلیق اور اپنے افعال پر اور اپنے امر اور حکم پر لائقِ تعریف ہے، نیز وہی اول و آخر میں اور ظاہر و باطن میں لائقِ ستائش ذات ہے۔
پھر آپ فرماتے: ”تو آسمانوں اور زمین کا سنبھالنے والا ہے“ یعنی تو ہی وہ ذات ہے جس نے ان آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دے کر قائم کیا اور تو ہی ہے جو ان کی اس طرح سے دیکھ بھال کرتا ہے کہ یہ درست اور اپنی حالت پر قائم رہتے ہیں۔ پس تو ہی خالق و رازق، مالک و مدبر اور زندگی و موت دینے والا ہے۔
پھر فرماتے: ”تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کا پروردگار ہے“ یعنی تو ان دونوں کا اور ان میں جو کچھ ہے سب کا مالک ہے، تو جیسے چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے اور تو ہی ان کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ پس بادشاہت صرف تیرے لیے ہےاور تیرے ساتھ اس میں کوئی شریک نہیں اور نہ ہی کوئی اور مدبر ہے۔ تو با برکت اور بلند ہے۔
پھر فرماتے: ”تمام تعریفیں تجھے ہی زبیا ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود تمام مخلوقات کا نور ہے“ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ نور ہے اور اپنے اس نور کے ذريعہ وہ اپنے مخلوق سے مستور ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو منور کرنے والا ہےاور ان میں بسنے والوں کو راہ سجھاتا ہے۔ اللہ تعالی سے صفتِ نور کی نفی کرنا یا اس کی تاویل کرنا کسی بھی طورپر درست نہیں ہے۔
پھر فرماتے: ”تو حق ہے“ حق اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم اور اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ پس اللہ اپنی ذات اور صفات میں حق ہے۔ وہ واجب الوجود ہے (ایسا موجود کہ جس کا وجود ضروری اور کسی پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہے) اور اس کی صفات کامل ہیں، اس کا وجود اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور ہر شے کا وجود اللہ ہی کے ذريعہ ہے۔
پھر فرماتے: ”تیرا فرمان حق ہے“ یعنی تو نے جو کچھ کہا وہ سچ، حق اور عدل ہے۔ اس میں آگے پیچھے کسی بھی طرف سے باطل کے در آنے کی گنجائش نہیں، نہ اس کی خبر میں، نہ اس کے حکم اور اس کی تشریع میں اور نہ ہی اس کے وعدے اور وعید میں۔
پھر فرماتے: ”تیرا وعدہ حق ہے“ یعنی تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ تو نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ویسے ہی ہو کر رہے گا جیسے تو نے وعدہ کیا ہے۔ اس ميں نہ ہی وعدہ خلافی کی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔
پھر فرماتے: ”تیری ملاقات حق ہے“ یعنی بندے ضرور تجھ سے ملاقات کریں گے اور تو ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ ملاقات میں اللہ سبحانہ تعالی کی رؤیت بھی شامل ہے۔
پھر فرماتے: ”جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے“ یعنی دونوں ثابت و موجود ہیں جیسا کہ تو نے بتایا ہے کہ یہ دونوں ان کے اندر جانے والوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں دار البقاء (ہمیشہ رہنے والے) ہیں اور یہی دونوں تمام بندوں کا آخری ٹھکانہ ہیں۔
پھر فرماتے: ”قیامت حق ہے“ یعنی روز قیامت کا آنا حق ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ضرور آ کر رہے گی۔ یہ دنیا کا اختتام اور آخرت کی ابتدا ہے۔
”اے اللہ میں تیرا تابع فرمان ہوا“ یعنی میں تسلیم و رضا کے ساتھ تیرے حکم کا مطیع و فرماں بردار ہوں۔
”میں تجھ پر ایمان لایا“ یعنی میں نے تیری اور تو نے جو کچھ نازل کیا اس کی تصدیق کی اور اس کے تقاضے پر عمل کیا۔
”میں نے تجھی پر توکل کیا“ یعنی میرا بھروسہ تجھی پر ہے اور میرے تمام معاملات تیرے سپرد ہیں۔
”تیری مدد کے ساتھ ہی میں نے جھگڑا کیا“ یعنی تو نے مجھے جو دلائل دیے ہیں ان کے ساتھ میں نے مخالفِ حق سے بحث کیا اور اس پر غلبہ پالیا۔
”تیری ہی طرف میں فیصلہ لے کر آیا“ یعنی جس نے بھی حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے تسلیم نہیں کیا، اس کا معاملہ میں تیری بارگاہ میں لے کر آیا اور اپنے اور اس کے مابین تجھی کو فیصل بنایا اور کسی بھی طاغوت جیسے خود ساختہ قانون، یا کاہن یا ایسے ہی دیگر شرعاً باطل ذرائع سے فیصلہ کرانے سے گریز کیا جن سے لوگ اپنے فیصلے کراتے ہیں۔
”پس تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ سرِ عام کیا اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے“ یعنی میرے وہ تمام گناہ معاف فرما جن کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جن کا میں آگے بعد میں مرتکب ہوں گا، اور اس میں سے جو کچھ تیرے کسی مخلوق کے سامنے ظاہر ہیں اور جو ان سے چھپے ہوئے ہیں اور تیرے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا۔
پھر آپ ﷺ اپنی دعا کا اختتام اپنے ان الفاظ کے ساتھ کیا: ”تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں“چنانچہ میں تیرے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ تیرے سوا جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور اس سے دعا کرنا گمراہی اور وبال ہے۔ یہی وہ توحید ہے جسے اللہ کے تمام رسول لے کر آئے اور اللہ تعالی نے اسے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8285

 
 
Hadith   1391   الحديث
الأهمية: سبق الكتاب أجله، اخطبها إلى نفسها


Tema:

کتاب کی میعاد گزر گئی (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو۔

عن الزُّبير بن العوام -رضي الله عنه- أنَّه كانت عنده أمُّ كُلثوم بنتُ عقبة، فقالت له وهي حاملٌ: طَيِّب نفسي بتطليقة، فطلَّقها تطليقةً، ثم خرجَ إلى الصلاة، فرجع وقد وضعت، فقال: ما لها؟ خَدَعتني، خَدَعها اللهُ، ثم أتى النبيَّ -صلى الله عليه وسلم-، فقال: «سَبَقَ الكتابُ أَجَلَه، اخطِبها إلى نفسِها».

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا اسے کیا ہو گیا؟ اس نے مجھ سے دھوکا دیا، اللہ اس سے دھوکا دے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ”کتاب کی میعاد گزر گئی (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الزبير بن العوام متزوِّجًا بأم كلثوم بنت عقبة فقالت له وهي حامل: «طيِّب نفسي بتطليقة» أي: أدخل علي السرور بتطليقة واحدة، والظاهر أنها كانت لا تحبه وتريد أن تخرج من تحته خروجًا لا يتمكَّن من مراجعتها، فطلبت منه أن يطلقها طلقة واحدة لما أحسَّت بقرب ولادتها، وعلمت أن عدة الحامل أن تضع حملها، فطلَّقها تطليقةً، ثم خرجَ إلى الصلاة، فرجع وقد ولدت، فقال: «ما لها؟ خَدَعتني، خَدَعها اللهُ» والخداع من صفات الله تعالى الفعلية الخبرية، ولكنه لا يوصف بها على سبيل الإطلاق، إنما يوصف بها على سبيل المقابلة، فيقال يخدع الله من يخدعه، مثل خداعه للمنافقين، وخداعه لمن يمكر بالمؤمنين وما شابه ذلك، ولا يجوز تأويلها بقولهم إن الزبير أراد بقوله هذا: جزاها الله تعالى بخداعها. بل يجب إثبات هذه الصفة كغيرها من صفات الله تعالى من غير تحريف ولا تعطيل ومن غير تكييف ولا تمثيل.
 ثم أتى الزبير إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بما حدث بينه وبين زوجته، فقال صلى الله عليه وسلم: «سَبَقَ الكتابُ أَجَلَه»، أي: مضت العدة المكتوبة قبل ما يتوقع من تمامها، ووقع الطلاق، ثم قال صلى الله عليه وسلم: «اخطِبها إلى نفسِها» أي: كن واحدًا من الخُطاب لا حقَّ لك في نفسها؛ لخروجها عن العدة.
586;بیر بن عوام نے امّ کلثوم بنت عقبہ کے ساتھ شادی کی تھی، بیوی نے حاملہ ہونے کی حالت میں ان سے کہا ”طيِّب نفسي بتطليقة“ یعنی مجھے ایک طلاق دے کر خوش کردو۔ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ شوہر کو پسند نہیں کرتی تھیں اور ان کے نکاح سے ایسے نکلنا چاہ رہی تھی کہ وہ دوبارہ ان سے رجوع نہ کرسکے، لیکن اس نے بچے کی ولادت قریب ہونے کی وجہ سے شوہر سے ایک طلاق کا مطالبہ کیا، وہ جانتی تھی کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک طلاق دی اور نماز کے لئے نکل گیے، واپس لوٹے تو بیوی بچہ جن چکی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا ”ما لها؟ خَدَعتني، خَدَعها اللهُ“ خداع (دھوکا دینا) اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ خبریہ میں سے ہے۔ لیکن علی الاطلاق اس سے اللہ تعالیٰ کو متصف نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ مقابلۃً اللہ کی صفت بنتی ہے، چنانچہ اس طرح کہا جائے جو اللہ کو دھوکا دیتا ہے اللہ اسے دھوکا دیتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا منافقین کو دھوکا دینا اور مؤمنین کو دھوکا دینے والوں کو دھوکا دینا وغیرہ۔
اس کی تاویل یوں کرنا درست نہیں کہ حضرت زبیر کی مُراد یہ تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بدلہ ہے دھوکے کی شکل میں۔ بلکہ دوسری صفات کی طرح اس صفت کو بھی بغیر رد و بدل، تعطیل اور بغیر تکییف و تمثیل کے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا واجب ہے۔
پھر زبیر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور وہ سارا واقعہ بتایا جو ان کے ان کی بیوی کے درمیان گزرا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا ”سَبَقَ الكتابُ أَجَلَه“ یعنی مقررہ عدت امید سے پہلے پوری ہو چکی اور طلاق واقع ہو گئی۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ”اخطِبها إلى نفسِها“ یعنی تم بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان کی طرف نکاح کا پیغام بھیجو، عدت گزرنے کی وجہ سے تمہیں ان کی ذات پر کوئی حق نہیں رہا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8286

 
 
Hadith   1392   الحديث
الأهمية: يوضع الصراط بين ظهري جهنم، عليه حسك كحسك السعدان، ثم يستجيز الناس، فناج مسلم، ومجدوح به، ثم ناج ومحتبس به فمنكوس فيها


Tema:

پل صراط کو جہنم کے اوپر رکھا جائےگا۔ جس پر سعدان کے خاردار پودے کی طرح کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس کے اوپر سے گزارا جائے گا تو کچھ لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، کچھ زخمی ہو کر بچ نکلیں گے، کچھ ان سے الجھ کر جہنم میں گرپڑیں گے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يُوضَعُ الصِّراط بين ظَهْرَي جهنم، عليه حَسَكٌ كحَسَك السَّعْدان، ثم يستجيز الناس، فناجٍ مُسَلَّم، ومَجْدوح به ثم ناجٍ، ومحتبَس به فمنكوسٌ فيها، فإذا فرغ اللهُ عز وجل من القضاءِ بين العباد، يفقد المؤمنون رجالًا كانوا معهم في الدنيا يُصلُّون بصلاتهم، ويُزَكُّون بزكاتهم، ويصومون صيامهم، ويحجُّون حجَّهم ويغزون غزوَهم فيقولون: أي ربنا عبادٌ من عبادك كانوا معنا في الدنيا يُصلُّون صلاتنا، ويُزَكُّون زكاتنا، ويصومون صيامنا، ويحجُّون حجَّنا، ويغزون غزوَنا لا نراهم، فيقول: اذهبوا إلى النار فمن وجدتم فيها منهم فأخرجوه، قال: فيجدونهم قد أخذتهم النارُ على قَدْر أعمالهم، فمنهم مَن أخذته إلى قدميه، ومنهم مَن أخذته إلى نصف ساقيه، ومنهم مَن أخذته إلى رُكبتيه، ومنهم من أخذته إلى ثَدْيَيْه، ومنهم من أزرته، ومنهم من أخذته إلى عنقه، ولم تَغْشَ الوجوهَ، فيستخرجونهم منها فيُطرحون في ماء الحياة»، قيل: يا رسول الله وما الحياة؟ قال: «غسل أهل الجنة فينبتون نباتَ الزرعة» وقال مرة: «فيه كما تنبت الزرعة في غُثاء السَّيل، ثم يشفع الأنبياء في كلِّ من كان يشهد أن لا إله إلا الله مخلِصًا فيخرجونهم منها» قال: «ثم يتحنَّنُ اللهُ برحمته على من فيها، فما يترك فيها عبدًا في قلبه مثقالُ حبَّة من إيمان إلا أخرجه منها».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پل صراط کو جہنم کے اوپر رکھا جائےگا۔ جس پر سعدان کے خاردار پودے کی طرح کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس کے اوپر سے گزارا جائے گا تو کچھ لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، کچھ زخمی ہو کر بچ نکلیں گے، کچھ ان سے الجھ کر جہنم میں گرپڑیں گے۔ جب اللہ تعالی اپنے بندوں کے مابین فیصلے سے فارغ ہو جائے گا تو مسلمانوں کو بہت سے ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے تھے اور وہ انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ تو وہ کہيں گے: اے ہمارے رب! تیرے کچھ بندے جو دنیا میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے اور جو ہماری طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتےاور جہاد کرتے تھے، وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور ان میں سے جتنے لوگ جہنم میں ملیں، انہیں اس میں سے نکال لو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ انہیں اس حالت ميں پائيں گے کہ جہنم کی آگ نے انہيں ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کسی کو قدموں تک، کسی کو نصف پنڈلی تک، کسی کو گھٹنوں تک، کسی کو چھاتیوں تک، کسی کو تہبند تک اور کسی کو گردنوں تک، لیکن چہروں پر اس کی لپٹ نہیں پہنچی ہوگی۔ وہ انہیں دوزخ میں سے نکال لیں گے اور پھر انہیں آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آب حیات کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جنتیوں کا غسل ہے۔ پھر وہ ایسے نکلیں گے جیسے کھیتی نکلتی ہے۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے ساتھ آئے کوڑے پر خود رو گھاس اگ آتی ہے۔ پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کی شفاعت کریں گے جو اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہيں جہنم سے نکلوا لیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ اہل جہنم پر اپنی خصوصی رحمت فرمائے گا اور اس ميں کوئی ايک بندہ بھی ایسا نہيں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا مگر اسے اس سے باہر نکال لے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا كان يوم القيامة وضع الله عز وجل الصراط على وسط جهنم، وعلى الصراط شوك صلب، ثم يؤمر الناس بالمرور عليه، فمنهم من ينجو ويسلم ولا تناله النار، ومنهم من يُخدش ثم يسلم ويُخلَّص، ومنهم من يسقط في جهنم.
فإذا فرغ اللهُ عز وجل من محاسبة عباده وأُدخل أهلُ الجنة الجنةَ وأهلُ النار النارَ، لا يجد المؤمنون من أهل الجنة ناساً كانوا معهم في الدنيا يصلون ويزكون ويصومون ويحجون ويجاهدون معهم، فيقولون لله عز وجل: إننا لا نرى هؤلاء الناس معنا في الجنة مع أنهم كانوا يصلون ويزكون ويصومون ويحجون ويجاهدون معنا في الدنيا. فيقول الله لهم : اذهبوا إلى النار فإذا وجدتم فيها أحدًا منهم فأخرجوه منها.
فيجدونهم قد أصابتم النارُ على قَدْر أعمالهم، فمنهم مَن أصابته إلى قدميه، ومنهم مَن أصابته إلى نصف ساقيه، ومنهم مَن أصابته إلى رُكبتيه، ومنهم من أصابته إلى وسطه ومنهم من أصابته إلى ثَدْيَيْه، ومنهم من أصابته إلى رقبته، ولكنَّ النار لم تصل إلى وجوههم، فيشفعون فيهم، فيخرجون من النار ويُلقون في ماء الحياة، وهو ماء يُحيى من انغمس فيه، فينبتون كما ينبت الزرع في مجرى السَّيل.
ثم يشفع الأنبياء في كلِّ من كان يشهد أن لا إله إلا الله مخلِصًا من قلبه فيخرجونهم من النار، ثم يعطف اللهُ برحمته على من في النار، فما يترك فيها أحدًا في قلبه مقدار حبَّة من إيمان إلا أخرجه منها.
602;یامت کےدن اللہ عزوجل پل صراط کو جہنم کے وسطی حصہ پر رکھ دے گا۔ پل پر سخت کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس پر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ تو نجات پا جائیں گے اور صحیح سلامت گزر جائیں گے، آگ ان کو نہیں چھوئے گی۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو زخمی تو ہوں گے تاہم بحفاظت چھٹکارا پا جائیں گے۔ اور بعض جہنم کے اندر جا گریں گے۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا اور جنتیوں کو جنت اور دوزخیوں کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو جنتی مومنوں کو کچھ ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ تھے اور انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ تووہ لوگ اللہ عزوجل سے کہیں گے: ہمیں یہ لوگ اپنے ساتھ جنت میں دکھائی نہیں دے رہےحالانکہ وہ دنیا میں ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے ، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور اگر ان میں سے کوئی تمھیںجہنم میں ملے، تو اسے اس میں سے نکال لو۔
چنانچہ (جب وہ وہاں جائیں گے تو) انہیں اس حال میں پائیں گے کہ انہیں جہنم کی آگ نے ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کچھ کے قدموں تک آگ آ رہی ہو گی، کچھ کی پنڈلیوں کے نصف تک، کچھ کے گھٹنوں تک، کچھ کے درمیان تک، کچھ کے پستانوں تک اور کچھ کی گردن تک آگ پہنچی ہو گی۔ تاہم آگ ان کے چہروں تک نہ آئی ہو گی۔ وہ ان کے بارے میں شفاعت کریں گے تو ان کو جہنم سے نکال کر آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ ایسا پانی ہے جو اپنے اندر غوطہ لگانے والے کو زندہ کردیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے بہاو کی جگہ پر بیج اگ آتا ہے ہے۔
پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کے بارے میں شفاعت کر یں گے جو اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہیں جہنم سے نکلوا لیں گے۔ پھر اللہ جہنم والوں پر رحمت وشفقت کرے گا اور اس میں سے کسی بھی ایسے شخص کو نکالے بغیر نہیں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8287

 
 
Hadith   1393   الحديث
الأهمية: ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدًا من النار من يوم عرفة


Tema:

کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «ما مِن يومٍ أكثر مِن أنْ يُعْتِقَ اللهُ فيه عبدًا مِن النارِ، مِن يومِ عرفة، وإنَّه ليدنو، ثم يُباهي بهم الملائكةَ، فيقول: ما أراد هؤلاء؟».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایسا دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو، وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ليس يوم من الأيام أكثر من يوم عرفة في أن يُخَلِّص وينجِّي الله من يشاء من النار، وإنه -سبحانه- يقرب من عباده الحجيج قُربًا حقيقيًّا، ويباهي بهم الملائكة، ويُظهر على الملائكة فضل الحُجَّاج وشرفهم، وأهل السنة والجماعة يعتقدون أن الله عز وجل قريب من عباده حقيقة كما يليق بجلاله وعظمته، وهو مستوٍ على عرشه، بائن من خلقه، وأنه يتقرب إليهم حقيقة، ويدنو منهم حقيقة.، فيقول: ما أراد هؤلاء؟ أي: أي شيء أراد هؤلاء؟ حيث تركوا أهلهم وأوطانهم، وصرفوا أموالهم، وأتعبوا أبدانهم، أي: ما أرادوا إلا المغفرة، والرضا، والقرب، واللقاء، وما أرادوه فهو حاصل لهم، ودرجاتهم على قدر نياتهم.
593;رفہ کے دن کے علاوہ کسی دن اتنے لوگوں کو اللہ تعالی جہنم سے خلاصی نہیں دیتا ہے جتنا عرفہ کے دن دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حاجی بندوں سے حقیقتاً قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے رشک کرتا ہے اور ان کے سامنے حاجیوں کی فضیلت اور ان کا شرف بتاتا ہے۔ اہل السنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جلالت و عظمتِ شان کے مطابق سچ مُچ اپنے بندوں سے قریب ہے، وہ عرش پر مستوی ہے، مخلوق سے الگ ہے اور حقیقت میں ان سے قریب اور پاس ہوتا ہے۔ اور پوچھتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یعنی یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ کہ انہوں نے اپنے گھر بار کو اور وطنوں کو چھوڑا، اپنا مال خرچ کرکے، جسموں کو تھکا کر آئے، یعنی یہ اپنے گناہوں کی مغفرت، اللہ کی رضا، اس کے قرب اور ملاقات کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ جو وہ چاہیں گے وہ انہیں ملے گا، ان کے درجات ان کی نیتوں کے بقدر ہوں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8288

 
 
Hadith   1394   الحديث
الأهمية: الراحمون يرحمهم الرحمن ارحموا أهل الأرض يرحمكم من في السماء


Tema:

رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- يبلغ به النبي -صلى الله عليه وسلم-: «الرَّاحمون يرحَمُهمُ الرحمنُ، ارحموا أهلَ الأرضِ، يرحمْكم مَن في السماءِ».

عبد اللہ بن عمرو - رضی اللہ عنہما- سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
«الراحمون» الذين يرحمون من في الأرض من آدمي وحيوان محترم بشفقة وإحسان ومواساة «يرحمهم الرحمن» من الرحمة وهي مفهومة، ومن ذلك أن يحسن إليهم ويتفضل عليهم والجزاء من جنس العمل «ارحموا من في الأرض» أتى بصيغة العموم ليشمل جميع أصناف الخلق فيرحم البر والفاجر والوحوش والطير «يرحمكم من في السماء» أي: يرحمكم الله تعالى الذي في السماء، ولا يجوز تأويله بأن المراد من في السماء ملكه وغير ذلك؛ فإن علو الله على خلقه ثابت في الكتاب والسنة وإجماع الأمة، وليس المراد بقولنا: «الله في السماء» أن السماء تحويه وأنه داخل فيها، تعالى الله عن ذلك، بل «في» بمعنى «على» أي: فوق السماء عالٍ على جميع خلقه.

Esin Hadith Caption Urdu


”الراحمون“ جو شخص اہلِ زمین یعنی انسان اور جانوروں پر شفقت، احسان اور مواسات کے ذریعے رحم کرتا ہے، ”الرحمن“ یہ رحمت سے مشتق ہے اوریہ معروف ہے۔ اسی لیے اہلِ زمین کے ساتھ احسان اور مہربانی کا معاملہ کرتا ہے اور بدلہ عمل ہی کے جنس سے ہے۔ ”تم زمین والوں پر رحم کرو“ یہاں عموم کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے تاکہ تمام مخلوقات جیسے نیک، فاجر، درندوں اور پرندوں کو شامل ہو جائے۔ ”تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“ یعنی اللہ تعالیٰ جو کہ آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ من في السماء کی تاویل فرشتوں وغیرہ سے کرنا درست نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر بلند ہونا قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ ”الله في السماء“ سے مُراد یہ نہیں کہ آسمان اللہ کو محیط ہے اور اللہ کی ذات اس میں داخل ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے۔ بلکہ یہاں لفظِ «في» «على» کے معنیٰ میں ہے یعنی آسمان کے اوپر تمام مخلوقات پر بلند ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8289

 
 
Hadith   1395   الحديث
الأهمية: إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال


Tema:

نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: قال الناسُ: يا رسولَ الله، غَلَا السِّعْرُ فسَعِّرْ لنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنَّ اللهَ هو المُسَعِّر القابضُ الباسطُ الرازقُ، وإني لأرجو أن ألقى اللهَ وليس أحدٌ منكم يُطالِبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ».

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ارتفعت أسعار السلع في زمان النبي صلى الله عليه وسلم، فطلب الناس منه أن يحدِّد لهم أسعار السلع، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنَّ اللهَ هو المُسَعِّر القابضُ الباسطُ الرازقُ» أي: إن الله تعالى هو الذي يُرَخِّص الأشياء ويغلِّيها، وهو الذي يضيق الرزق على من يشاء ويوسعه على من يشاء، أي: فمن حاول التسعير فقد عارض الله ونازعه فيما يريده، ويمنع العباد حقوقهم مما أولاهم الله تعالى في الغلاء والرخص.
ثم قال صلى الله عليه وسلم: «وإني لأرجو أن ألقى اللهَ وليس أحدٌ منكم يُطالِبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ» وهذا إشارة إلى أن المانع له من التسعير مخافة أن يظلمهم في أموالهم؛ فإن تسعير السلع تصرف فيها بغير إذن أهلها فيكون ظلما، لكن إذا تواطأ الباعة مثلا من تجار ونحوهم على رفع أسعار ما لديهم أثرة منهم، فلولي الأمر تحديد سعر عادل للمبيعات مثلا؛ إقامة للعدل بين البائعين والمشترين، وبناء على القاعدة العامة، قاعدة جلب المصالح ودرء المفاسد، وإن لم يحصل تواطؤ منهم وإنما ارتفع السعر بسبب كثرة الطلب وقلة العرض، دون احتيال، فليس لولي الأمر أن يحد السعر، بل يترك الرعية يرزق الله بعضهم من بعض، وعلى هذا فلا يجوز للتجار أن يرفعوا السعر زيادة عن المعتاد ولا التسعير، وعليه يحمل هذا الحديث.
570;پ ﷺ کے زمانے میں اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوگئیں، لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے قیمتیں متعین کر دیں، تو آپ نے فرمایا ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی چیزوں کو سستی اور مہنگی کرتا ہے، وہ جس پر چاہے رزق تنگ کرتا ہے اور جس پر چاہے فراخی کرتا ہے، یعنی جو قیمتیں مقرر کرتا ہے وہ اللہ سے اس چیز میں جھگڑا کرتا ہے جو اللہ چاہتا ہے اور گرانی و ارزانی سے متعلق لوگوں کے حقوق جو اللہ کے عطاء کردہ ہیں روکتا ہے۔
پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو“ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیمتیں مقرر کرنے سے یہ بات مانع ہے کہ کہیں میں لوگوں کے اموال میں ان پر ظلم نہ کر جاؤں، اس لیے سامان میں مالک کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا ظلم ہے۔ تاہم اگر تاجر وغیرہ چیز قصداً مہنگی کریں، تو انتظامیہ اور حاکم وقت کو عمومی قائدے ”جلبِ منفعت اور دفعِ ضرر“ کے پیشِ نظر بیچنے اور خریدنے والوں کے درمیان اشیاء کی منصفانہ قیمت متعین کرنے کا اختیار ہے۔ اور اگر گراں فروشی میں تاجروں کے اختیار اور حیلے سے نہ ہو، بلکہ طلب بڑھنے اور رسد گھٹنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو، تو حاکمِ وقت کو قیمت متعین کرنے کا اختیار نہیں۔ بلکہ لوگوں کو کُھلی طور پر معاملات کرنے چھوڑ دے، تاکہ اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے رزق کا ذریعہ بنائے۔ لہٰذا اس کے پیش نظر تاجروں کے لیے مروجہ قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں۔ یہی اس حدیث سے مقصود ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8290

 
 
Hadith   1396   الحديث
الأهمية: يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة، فيبقى كل من كان يسجد في الدنيا رياء وسمعة، فيذهب ليسجد، فيعود ظهره طبقا واحدا


Tema:

ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدے کے لیے نہ مڑ سکے گی۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يكشِف ربُّنا عن ساقِه، فيسجدُ له كلُّ مؤمنٍ ومؤمنةٍ، فيبقى كلُّ مَن كان يسجدُ في الدنيا رياءً وسُمْعةً، فيذهبُ ليسجدَ، فيعودَ ظهرُه طبقًا واحدًا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدے کے لیے نہ مڑ سکے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يكشف الرب -سبحانه وتعالى- عن ساقه الكريمة، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة، وأما المنافقون الذين كانوا يسجدون في الدنيا ليراهم الناس، فمُنعوا من السجود، وجُعلت ظهورهم فقارًا واحدًا، لا يستطيعون الانحناء ولا السجود؛ لأنهم ما كانوا في الحقيقة يسجدون لله في الدنيا، وإنما كانوا يسجدون لأغراضهم الدنيوية، ولا يجوز تأويل الساق بالشدة أو الكرب أو غيرها، بل يجب إثباتها صفة لله -تعالى- من غير تكييف ولا تمثيل، ومن غير تحريف ولا تعطيل.
575;للہ تعالیٰ اپنی پنڈلی مبارک کھولے گا، تو ہر مومن مرد و عورت سجدے میں گر جائیں گے۔ تاہم منافقین جو دنیا میں ریاکاری کے لیے سجدہ کرتے تھے، سجدہ کرنے سے روک دیے جائیں گے اور ان کی کمریں ایک تختے کی طرح ہو جائیں گی اور وہ جھک نہ سکیں گے اور نہ سجدہ کر سکیں گے۔ اس لیے کہ وہ دنیا میں حقیقتاً اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنی دنیوی مقاصد کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ حدیث میں وارد پنڈلی (ساق) کی تاویل سختی، کرب وغیرہ سے کرنا جائز نہیں بلکہ اس کو بغیر تکییف و تمثیل اور بغیر تحریف و تعطیل کے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8291

 
 
Hadith   1397   الحديث
الأهمية: إن الله عز وجل حيي ستير يحب الحياء والستر فإذا اغتسل أحدكم فليستتر


Tema:

اللہ تعالی حیادار ہے، پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔

عن يعلى بن أمية -رضي الله عنه- أنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلًا يغتسل ُبالبَراز بلا إزار، فصعِد المِنْبر، فحَمِد اللهَ وأثنى عليه، ثم قال صلى الله عليه وسلم: «إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حَيِيٌّ سَتِيرٌ، يحب الحياءَ والسَّتر؛ فإذا اغتسل أحدُكم فليستتر».

یعلی ابن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کھلی فضاء میں بغیر ازار کے غسل کر رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺ منبر پر تشریف لے گیے اور اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ”اللہ تعالی حیادار ہے، پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلًا يغتسل في الفضاء الواسع عريانًا، فصعِد النبي صلى الله عليه وسلم المِنْبر، فحَمِد اللهَ وأثنى عليه، ثم قال: «إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حَيِيٌّ سَتِيرٌ، يحب الحياءَ والسَّتر؛ فإذا اغتسل أحدُكم فليستتر» أي: إن من أسماء الله تعالى الحيي الستير، فهو سبحانه يحب الحياء والستر، فلا ينبغي لمسلم أن يكشف عورته أمام الناس إذا اغتسل، بل يجب عليه أن يستتر، وحياؤه تعالى وصف يليق به، ليس كحياء المخلوقين، الذي هو تغير وانكسار يعتري الشخص عند خوف ما يعاب أو يُذم، بل هو ترك ما ليس يتناسب مع سعة رحمته وكمال جوده وكرمه وعظيم عفوه وحلمه.
606;بی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو کھلی فضاء میں برہنہ ہو کر نہا رہا تھا۔ اس پر آپ ﷺ منبر پر تشریف لے گیے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اللہ عز وجل انتہائی حیا والا اور انتہائی پردہ پوشی کرنے والا ہے اور وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ جب تم میں سے کوئی غسل کرے ستر کو چھپا لے۔
یعنی 'الحیی' اور 'الستیر' اللہ کے اسماء میں سے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی حیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے۔ چنانچہ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جب غسل کرے تو لوگوں کے سامنے اپنی شرم گاہ کھول دے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپائے۔ ’حیا‘ اللہ کے شایان شان اس کی ایک صفت ہے جو کہ انسانوں کی ’حیا‘ کی مانند ہر گز نہیں ہے جس میں تغیر اور انکساری ہوتا ہے اور یہ حیا کسی شخص میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسے کسی معیوب یا مذموم شے کا اندیشہ ہو۔ اللہ کی حیا سے مراد ہر ایسی شے کو ترک کر دینا ہے جو اللہ کی رحمت کی وسعت، اس کے کمالِ جود و کرم اور اس کے درگزر اور حلم کی عظمت سے مناسبت نہیں رکھتی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8292

 
 
Hadith   1398   الحديث
الأهمية: إن الله قال: إذا تلقاني عبدي بشبر، تلقيته بذراع، وإذا تلقاني بذراع، تلقيته بباع، وإذا تلقاني بباع أتيته بأسرع


Tema:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں چار ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف چار ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ اللهَ قال: إذا تَلَقَّاني عبدي بشِبر، تَلَقَّيْتُه بذِراع، وإذا تَلَقَّاني بذراع، تَلَقَّيْتُه ببَاع، وإذا تَلَقَّاني بباع أتيتُه بأسرع».

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں چار ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف چار ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا تقرب العبد إلى الرب بمقدار شبر، تقرب الرب إليه بمقدار ذراع، وإذا تقرب العبد إلى الرب بأكثر من ذلك، تقرب الله إليه بأكثر مما تقرب به إليه، وإذا أتى العبد إلى ربه أتاه الله أسرع منه، والقرب والإتيان صفتان ثابتتان لله -عز وجل- نؤمن بهما من غير تكييف ولا تمثيل ومن غير تحريف ولا تأويل.
580;ب بندہ ایک بالشت اپنے رب سے قریب ہوتا ہے تو اللہ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، اور جب بندہ اور زیادہ اپنے رب کے قریب ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اس سے قریب ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنے رب کے پاس آتا ہے تو اللہ دوڑ کر اس کے پاس آتا ہے۔ قریب ہونا اور آنا دونوں صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں۔ ہم بغیر تکییف و تمثییل کے اور بغیر تحریف و تاویل کے ان پر ایمان لاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8293

 
 
Hadith   1399   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا دخل المسجد قال: أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم، من الشيطان الرجيم


Tema:

نبی ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے ”أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ میں اللہ عظیم کی، اس کی ذاتِ کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی، مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا دخل المسجد قال: «أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم، من الشيطان الرَّجِيم»، قال: أَقَطُّ؟ قلت: نعم، قال: فإذا قال ذلك قال الشيطان: حُفِظَ منِّي سائر اليوم.

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے ”أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ“ میں اللہ عظیم کی، اس کی ذاتِ کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی، مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں۔ تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے (حدیث مکمل کرتے ہوئے) کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا دخل المسجد قال: «أعوذ بالله العظيم» أي: أعتصم وألتجئ وأحتمي بالله العظيم الذات والشأن والصفات. «وبوجهه الكريم» ومعنى الكريم: الجواد المعطي الذي لا ينفذ عطاؤه؛ وهو الكريم المطلق، والكريم الجامع لأنواع الخير والشرف والفضائل، ويجب إثبات الوجه صفة لله -تعالى- من غير تحريف ولا تعطيل ومن غير تكييف ولا تمثيل. «وسلطانه القديم» أي: حجته القديمة، وبرهانه القديم، أو قهره القديم. «من الشيطان الرجيم» أي: من الشيطان المطرود من باب الله والمرجوم بشُهُب السماء. «قال: أَقَطُّ؟ قلتُ: نعم» أي: يقول أحد الرواة لشيخه:  الذي ترويه هذا المقدار أو أكثر من ذلك؟ أو قد يكون معناه: أهذا يكفيه عن غيره من الأذكار؟ أو هذا يكفيه من شر الشيطان؟ فلهذا قال: قلت: نعم. «قال: فإذا قال ذلك قال الشيطانُ: حُفِظَ منِّي سائرَ اليوم» أي: فإذا قال الداخل للمسجد هذا الدعاء المذكور، قال الشيطان: لقد حفظ هذا الداخل نفسَه منى جميع اليوم.
570;پ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے: ”میں اللہ عظیم کی پناہ چاہتا ہوں“ یعنی آپ نے اللہ تعالیٰ جس کی ذات اور صفات عظیم ہیں کے ذریعہ اپنے آپ کو بچایا اور حفاظت کی۔ ”اس کی ذاتِ کریم کی“ الكريم کا معنی ہے سخی، ایسا دینے والا جس کی عطا ختم نہ ہوتی ہو، وہ سخی مطلق ذات ہے اور اس کی سخاوت تمام قسم کی بھلائیوں، شرف اور فضائل کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے چہرے کی صفت کو بغیر کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے ثابت کرنا ضروری ہے۔
”اس کی قدیم بادشاہت کی“ اللہ کی دلیل اور بُرھان یا اس کا غلبہ قدیم ہے۔
”مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں“ یعنی شیطان سے جو کہ اللہ کے در سے دھتکارا ہوا ہے اور جو آسمان کے دھکتے ہوئے شعلوں سے مارا ہوا ہي ۔ ”تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں“ یعنی حدیث کا کوئی راوی اپنے شیخ سے کہتا ہے کہ آپ نے اتنا ہی نقل کیا ہے یا اس سے زیادہ؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا اتنا ذکر کافی ہے؟ یا اتنا ذکر شیطان کے شر سے بچنے کے لیے کافی ہے؟ اسی وجہ سے کہا، قلتُ: نعم۔
”تو شیطان کہتا ہے کہ اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا“ یعنی مسجد میں داخل ہونے والا جب یہ دعا کہتا ہے، تو شیطان کہتا ہے۔ اس آنے والے نے اپنے آپ کو پورا دن مجھ سے محفوظ کر لیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8294

 
 
Hadith   1400   الحديث
الأهمية: لقد جاءت خولة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو زوجها، فكان يخفى علي كلامها


Tema:

خولہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں، ان کی گفتگو مجھے سنائی نہیں دے رہی تھی۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، أنَّها قالت: «الحمد لله الذي وَسِعَ سمعه الأصوات، لقد جاءت خَوْلةُ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو زوجَها، فكان يخفى عليَّ كلامها، فأنزل الله عز وجلَّ: {قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله والله يسمع تَحَاوُرَكُما} [المجادلة: 1]» الآية

اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں، ان کی گفتگو مجھے سنائی نہیں دے رہی تھی، چنانچہ اللہ عزوجل نے ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا﴾ ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا“ نازل فرمائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت خولة بنت ثعلبة متزوجة من أوس بن الصامت فقال لها: أنتِ عليَّ كظهر أمي. أي: أنتِ حرام عليَّ، فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكرت له قصتها، فقال لها صلى الله عليه وسلم: «قد حرمت عليه»، فجعلت تقول بصوت منخفض يخفى على عائشة مع قربها منها: بعدما كبرت سني ظاهرَ مني؟ إلى الله أشكو حال صبية إن ضممتُهم إليَّ جاعوا، وإن تركتُهم عنده ضاعوا. فهذه مجادلتها لرسول الله صلى الله عليه وسلم التي ذكرها الله تعالى بقوله: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ واللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُما}.
فقالت عائشة: «الحمدُ للهِ الذي وَسِعَ سَمْعُه الأصواتَ» أي: استوعبها وأدركها فلا يفوته منها شيء وإن خفي «لقد جاءت خَوْلةُ إلى رسولِ الله صلى الله عليه وسلم تَشْكو زَوْجَها، فكان يخفى عليَّ كلامُها، فأنزل اللهُ عزَّ وجلَّ: {قد سَمِعَ اللهُ قولَ التي تُجَادِلُك في زَوْجِها وتشتكي إلى اللهِ واللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُما} [المجادلة: 1]» الآية» أي: فحينما جاءت خولة تشكو زوجها لرسول الله صلى الله عليه وسلم كانت تكلمه بصوت منخفض لا تسمعه عائشة مع قربها منها، ومع ذلك سمعه الله تعالى من فوق سبع سماوات، وأنزل الآية المذكورة، وهذا من أبلغ الأدلة على اتصاف الله تعالى بالسمع، وهو أمر معلوم بالضرورة من الدين، لا ينكره إلا من ضل عن الهدى.
وقول عائشة هذا يدل على أن الصحابة رضي الله عنهم، آمنوا بالنصوص على ظاهرها الذي يتبادر إلى الفهم، وأن هذا هو الذي أراده الله منهم ومن غيرهم من المكلفين ورسوله؛ إذ لو كان هذا الذي آمنوا به واعتقدوه خطأ لم يُقَرُّوا عليه ولبُيِّن لهم الصواب، ولم يأت عن أحد منهم تأويل هذه النصوص عن ظواهرها، لا من طريق صحيح ولا ضعيف، مع توافر الدواعي على نقل ذلك.
582;ولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی شادی اوس بن صامت سے ہوئی تھی۔ اوس رضی اللہ عنہ نے خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے یعنی تو مجھ پر حرام ہے۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس چلی گئیں اور آپ ﷺ کو اپنا قصہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس پر حرام ہو چکی ہے۔ وہ آہستہ آواز میں یہ بات کہہ رہی تھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے قریب ہونے کے باوجود (ان کی گفتگو) مخفی رہی، (خولہ کہہ رہی تھیں) کہ اب جب کہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں، اس نے میرے ساتھ ظہار کر لیا؟ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی بچوں کے حال کی شکایت کرتی ہوں، اگر میں اسے اپنے ساتھ رکھوں تو وہ بھوکے رہیں اور اگر میں انہیں اُن کے پاس چھوڑ دوں تو وہ انہیں ضائع کردیں گے۔ یہ خولہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ کے سامنے مجادلہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا﴾ ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا“ (سورہ مجادلہ:1)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی ہیں: الحمدُ للهِ الذي وَسِعَ سَمْعُه الأصواتَ“ یعنی تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہ کی ہوئی ہے، اس سے کوئی چیز فوت نہیں ہو سکتی اگر چہ پوشیدہ ہو۔ جب خولہ رضی اللہ عنہا آ کر آپ ﷺ سے اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، تو دھیمی آواز میں بول رہی تھیں تاکہ قریب میں اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نہ سن لیں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر اس کی بات سنی اور مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (یہ آیت) اللہ تعالیٰ کے سننے کی صفت سے متصف ہونے کی سب سے مضبوط دلیل ہے۔ یہ دین میں ایک بدیہی سا طے شدہ امر ہے، اس کا انکار صرف وہی شخص کرتا ہے جو راہِ ہدایت سے بھٹک چکا ہو۔
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام ظاہرِ نصوص یعنی جس کی طرف پہلی دفعہ سمجھ میں آتی ہے، پر ایمان لائے تھے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کو ان سے اور دوسرے مکلف لوگوں اور اپنے رسول سے مطلوب تھا۔ اس لیے کہ یہ جس پر وہ ایمان لائے تھے اور جس کا انہیں اعتقاد تھا اگر یہ غلط ہوتا تو (اللہ) ان کو اس پر قائم نہ رکھتا اور ان کے سامنے درست بات بیان کردی جاتی۔ جب کہ کسی سے بھی ان نصوص کے ظاہری مفہوم میں تاویل منقول نہیں، نہ ہی صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے، حالانکہ اس کے اسباب بکثرت موجود تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8295

 
 
Hadith   1401   الحديث
الأهمية: أتعجبون من غيرة سعد، فوالله لأنا أغير منه، والله أغير مني، من أجل غيرة الله حرم الفواحش، ما ظهر منها، وما بطن، ولا شخص أغير من الله


Tema:

تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ باغیرت ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں۔

عن المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- مرفوعاً: قال سعدُ بنُ عُبَادة -رضي الله عنه- : لو رأيتُ رجلًا مع امرأتي لَضربتُه بالسيف غير مُصْفِح عنه، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أتعجبون من غَيْرة سعد، فوالله لأنا أغير منه، واللهُ أغير مني، من أجل غَيْرة الله حَرَّم الفواحش، ما ظهر منها، وما بطن، ولا شخص أغير من الله، ولا شخص أحبّ إليه العُذر من الله، من أجل ذلك بعث الله المرسلين، مُبشِّرين ومنذِرين، ولا شخص أحبّ إليه المِدحةَ من الله، من أجل ذلك وعد الله الجنة».

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کئے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا۔ رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ” تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے بھی زیادہ باغیرت ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں نیز اللہ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال سعدُ بنُ عُبَادة: لو رأيتُ رجلًا مع امرأتي لَضربتُه بحد السيف لا بعرضه، يعني: لقتلته بدون توقف، وقد أقره رسول الله صلى الله عليه وسلم على ذلك، وأخبر أنه أغير من سعد، وأن الله أغير منه، وغيرة الله تعالى من جنس صفاته التي يختص بها، فهي ليست مماثلة لغيرة المخلوق، بل هي صفة تليق بعظمته، مثل الغضب، والرضا، ونحو ذلك من خصائصه التي لا يشاركه الخلق فيها، ومعنى الشخص في اللغة: ما شخص، وارتفع، وظهر، والله تعالى أظهر من كل شيء، وأعظم، وأكبر، وليس في إطلاقه على الله تعالى محذور، على أصل أهل السنة الذين يتقيدون بما قاله الله ورسوله.
ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ومن أجل غيرة الله حرم الفواحش، ما ظهر منها، وما بطن» أي: من أثر غيرة الله أنه منع عباده من قربان الفواحش، وهي: ما عظم وفحش في النفوس الزاكية والعقول السليمة مثل الزنا. والظاهر: يشمل ما فعل علناً، وما باشرته الجوارح وإن كان سراً، والباطن: يشمل ما في السر، وما انطوت عليه القلوب.
وقوله: «ولا أحد أحب إليه العذر من الله، ومن أجل ذلك بعث المرسلين مبشرين ومنذرين» المعنى: بعث المرسلين للإعذار والإنذار لخلقه، قبل أخذهم بالعقوبة، وهو كقوله تعالى: {رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ}.
وقوله: «ولا أحد أحب إليه المِدحة من الله، ومن أجل ذلك وعد الله الجنة» هذا لكماله المطلق، فهو تعالى يحب من عباده أن يثنوا عليه ويمدحوه على فضله وجوده، ومن أجل ذلك جاد عليهم بكل نعمة يتمتعون بها، ويرضى عنهم إذا حمدوه عليها، ومهما أثنوا عليه ومدحوه لا يمكن أن يصلوا إلى ما يستحقه من المدح والثناء، ولهذا مدح نفسه، فوعد الجنة ليكثر سؤاله، والثناء عليه من عباده ومدحه، ويجتهدوا في ذلك غاية ما يستطيعون؛ لأن الجنة هي منتهى الإنعام.
587;عد بن عُبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں کسی شخص کو اپنی عورت کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تلوار کی سیدھی دھار کے ساتھ اس کی گردن اڑا دوں، یعنی اسے قتل کرنے میں توقّف نہ کروں۔ آپ ﷺ نے انہیں اس بات پر قائم رکھتے ہوئے فرمایا کہ میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ غیرت، اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور اللہ کی غیرت مخلوق کی غیرت کی طرح نہیں، بلکہ اللہ کی عظمت کے مطابق ہے جیسے غصہ اور رضامندی اور دیگر اللہ کی خصوصیات جن میں لوگ اللہ کے ساتھ شریک نہیں۔ لغت میں شخص کا معنی خاص، بلند اور ظاہر ہونے کے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے ظاہر، عظمت والے اور بڑا ہے۔ اہل سنت و جماعت جو قرآن و سنت کو لازم پکڑتے ہیں ان کے اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے غیرت کا لفظ بولنا ممنوع نہیں۔
پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے“ یعنی یہ اللہ کی غیرت ہی کا اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فُحش کاموں کے قریب جانے سے اپنے بندوں کو روک دیا ہے۔’فُحش‘ سے مُراد کام جن کی شناعت اور بُرا ہونا پاکیزہ لوگوں اور عقل سلیم والوں کے ہاں مسلم ہو جیسے زنا۔ ظاہر سے مُراد اعلانیہ کیے جانے والے تمام گناہ اور وہ گناہ ہیں جن میں اعضاء کا براہِ راست دخل ہوتا ہے اگرچہ وہ پوشیدہ ہی ہوں۔ اور باطن سے مُراد جو پوشیدہ ہوں اور دلوں میں ہوں۔
”اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں نیز اللہ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں“ یعنی اللہ نے پیغمبروں کو لوگوں کی طرف عذاب سے پہلے ڈرانے اور خوشخبری دینے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ ”ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے“۔
” اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے“ یہ اللہ تعالیٰ کے کاملِ مطلق ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے فضل اور سخا کی ثنا و تعریف سے خوش ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہر طرح کی نعمت دے کر سخاوت کا مظاہرہ کیا جس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، اور نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے وہ خوش ہوتا ہے۔ لوگ جب بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں تو وہ اس میں اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر سکتے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کی اور جنت کا وعدہ کیا تاکہ لوگ اللہ سے زیادہ مانگیں اور اس زیادہ سے زیادہ حمد و ثنا بیان کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی کوشش کریں۔ اس لیے کہ جنت تمام انعامات کی انتہا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8296

 
 
Hadith   1402   الحديث
الأهمية: اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف


Tema:

اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، یا اللہ! بے بس و ناتواں مسلمانوں کو نجات بخش، اے اللہ! قبیلہ مضر کی سخت پکڑ فرما، اے اللہ! ان پر يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسی قحط سالی مسلط فرما۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان إذا رفع رأسه من الركعة الآخِرة، يقول: «اللهمَّ أَنْجِ عَيَّاش بن أبي ربيعة، اللهمَّ أَنْجِ سَلَمَة بنَ هشام، اللهم أَنْجِ الوليد بن الوليد، اللهم أَنْجِ المستضعفين من المؤمنين، اللهمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَك على مُضَر، اللهمَّ اجعلها سنين كسِنِي يوسف». وأنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم قال: «غِفَارُ غفر الله لها، وأَسْلَمُ سالمها الله» قال ابن أبي الزناد عن أبيه: هذا كلُّه في الصبح.

ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب اپنے سر کو آخری رکعت ( کے رکوع ) سے اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، یا اللہ! بے بس و ناتواں مسلمانوں کو نجات بخش، اے اللہ! قبیلہ مضر کی سخت پکڑ فرما، اے اللہ! ان پر يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسی قحط سالی مسلط فرما“۔ اور نبی ﷺ فرماتے: ”قبیلہ غفار کی اللہ مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے“۔ ابن ابی الزناد اپنے والد سے روايت کرتے ہيں کہ يہ سب صبح (فجر) کی نماز ميں کہتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم إذا رفعَ رأسَه من الركعة الآخيرة من صلاة الصبح، يقول: «اللهمَّ أَنْجِ عَيَّاش بنَ أبي رَبِيعة، اللهمَّ أَنْجِ سَلَمَة بنَ هشام، اللهم أَنْجِ الوليد بن الوليد، اللهم أَنْجِ المستضعفين من المؤمنين» وهؤلاء صحابة دعا لهم النبيُّ صلى الله عليه وسلم بالإنجاء والخلاص من العذاب، وقد كانوا أسرى في أيدي الكفار بمكة، وعياش بن أبي ربيعة هو أخو أبي جهل لأمة حبسه أبو جهل بمكة، وسلمة بن هشام هو أخو أبي جهل قديم الإسلام عُذِّب في سبيل الله ومنعوه أن يهاجر، والوليد بن الوليد هو أخو خالد بن الوليد وحُبِس بمكة ثم أفلت منهم.
ثم يقول صلى الله عليه وسلم: «اللهمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَك على مُضَر، اللهمَّ اجعلها سنين كسِنِي يوسُفَ» أي: اللهم اشدد عذابك وعقوبتك على كفار قريش وهم من قبيلة مضر، واجعل عذابك عليهم بأن تسلِّط عليهم قحطًا عظيمًا سبع سنين أو أكثر، كالقحط الذي حدث أيام يوسف عليه السلام.
هذا وقد تكون الوطأة –وهي الدوس بالقدم- صفة من صفات الله بمقتضى هذا الحديث، ولكننا لم نجد أحدًا من السلف الصالح أو علماء المسلمين عدها من صفات الله عز وجل، فيحمل الوطء على الشدة والعذاب، ونسبته إلى الله تعالى لأنه فعله وتقديره، والله أعلم.
ثم قال صلى الله عليه وسلم: «غِفَارُ غَفَر اللهُ لها» يحتمل أن يكون دعاء لها بالمغفرة، أو إخبارا بأن الله تعالى قد غفر لها، وكذلك قوله: «وأَسْلَمُ سالمها اللهُ» يحتمل أن يكون دعاء لها أن يسالمها الله تعالى، ولا يأمر بحربها، أو يكون إخبارا بأن الله قد سالمها ومنع من حربها، وإنما خُصَّت هاتان القبيلتان بالدعاء لأن غفارا أسلموا قديما، وأسلم سالموا النبي صلى الله عليه وسلم.
«قال ابن أبي الزناد عن أبيه: هذا كلُّه في الصبح» يعني: أنه روى عن أبيه هذا الحديث بهذا الإسناد، فبين أن الدعاء المذكور كان في صلاة الصبح.
606;بی ﷺ جب صبح کی نماز کی آخری رکعت میں اپنے سر كو اوپر اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، یا اللہ! بے بس و ناتواں مسلمانوں کو نجات بخش“ یہ سب صحابہ ہیں جن کے لیے نبی ﷺ نے عذاب سے نجات اور چھٹکارے کی دعا فرمائی۔ یہ لوگ مکہ ميں کفار کی قید میں تھے۔ عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ ابو جہل کے اخیافی بھائی تھے جنہیں ابو جہل نے مکہ میں قید کر رکھا تھا۔ سلمہ بن ہشام رضی اللہ عنہ ابو جہل کے حقیقی بھائی تھے جو بہت پہلے اسلام لانے والوں ميں سے تھے۔ انہیں اللہ کے راستے میں سخت تکلیف دی گئی اور ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔ ولید بن ولید رضی اللہ عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے جو مکہ میں قید تھے اور بعد ميں ان سے چھوٹ کر بھاگ آئے۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”اے اللہ! قبیلہ مضر کی سخت پکڑ فرما۔ اے اللہ! ان پر يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسی قحط سالی مسلط فرما“ یعنی اے اللہ! قریش کے کفار پر جو قبیلہ مضر سے ہیں، اپنا عذاب اور عقاب سخت کر دے اور ان پر اپنے عذاب کی یہ صورت بنا کہ ان پر سات سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسا بڑا قحط مسلط کر دے۔
ہو سکتا ہے کہ ”الوطأة“ - جس کا معنی ”پاوں سے روندنا“ ہے- اس حدیث کی رو سے اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہو، لیکن ہم نے سلف صالحین اور علمائے مسلمین میں سے کسی کو نہیں پايا جس نے اسے اللہ عز و جل کی صفات میں سے شمار کیا ہو۔ لھٰذا اسے سختی اور عذاب پر محمول کیا جائے گا۔ اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی کیونکہ یہ اسی کا فعل اور اسی کا مقدر کردہ ہے۔ واللہ اعلم۔
پھر آپ ﷺ فرماتے: ”غِفَارُ غَفَر اللهُ لها“ ہو سکتا ہے کہ یہ اس كے ليے مغفرت کی دعا ہو (یعنی اللہ غفار قبیلے کی مغفرت کرے) اور یہ بھی احتمال ہے کہ (آپ ﷺ کی طرف سے) خبر ہو کہ اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ اسی طرح ”وأَسْلَمُ سالمها الله“ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے یہ قبیلہ اسلم کے لئے دعا ہو کہ اللہ تعالی ان کو سلامت رکھے اور ان کے ساتھ جنگ کا حکم نہ دے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ اللہ نے انہیں سلامت رکھا اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ بطور خاص ان دو قبیلوں کی لئے دعا کی گئی کیونکہ غفار قبیلہ بہت پہلے اسلام لے آیا تھا اور قبیلہ اسلم نے نبی ﷺ سے صلح کر لی تھی۔
”ابن ابی زناد اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: یہ سب صبح کی نماز میں ہوتا تھا“ یعنی ابن ابی زناد نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ اپنے والد سے روایت کیا اور وضاحت کی کہ مذکورہ دعا صبح کی نماز میں ہوتی تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8297

 
 
Hadith   1403   الحديث
الأهمية: انشق القمر على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فلقتين، فستر الجبل فلقة، وكانت فلقة فوق الجبل، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: اللهم اشهد


Tema:

رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مسعود میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا پس ایک ٹکڑے کو پہاڑ نے چھپالیا اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ گواہ رہ“۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: انشقَّ القمر على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فِلْقَتين، فستر الجبل فِلْقَة، وكانت فِلْقَة فوق الجبل، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اللهمَّ اشهَدْ».

ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا پس ایک ٹکڑے کو پہاڑ نے چھپالیا اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ گواہ رہ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
انشق القمر في زمان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قطعتين متفارقتين كل قطعة في مكان، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اللهم اشهد» أي: اللهم اشهد عليهم أنني قد أريتهم الدليلَ على صدق نبوتي.
585;سول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند کے دو الگ الگ ٹکڑے ہوئے، ہر ٹکڑا اپنی الگ جگہ پر ہوگیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ! گواہ رہ، یعنی اس بات پر کہ میں نے ان کو اپنی نوبت کے سچے ہونے پر دلیل دکھائی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8298

 
 
Hadith   1404   الحديث
الأهمية: ليس أحد، أو: ليس شيء أصبر على أذى سمعه من الله، إنهم ليدعون له ولدا، وإنه ليعافيهم ويرزقهم


Tema:

کوئی شخص یا کوئی چیز، ناگوار باتوں کو سن کر، اللہ سے زیادہ صبر کرنے والی نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انھیں تندرستی دیتا ہے، بلکہ انھیں روزی بھی دیتا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ليس أحد، أو: ليس شيء أصبر على أذًى سمعَه مِن الله، إنَّهم لَيَدْعُون له ولدًا، وإنَّه ليُعافِيهم ويرزُقُهم».

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص یا کوئی چیز، ناگوار باتوں کو سن کر، اللہ سے زیادہ صبر کرنے والی نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انھیں تندرستی دیتا ہے، بلکہ انھیں روزی بھی دیتا ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله: «ليس أحدٌ، أو: ليس شيءٌ أصبرَ» أي: الله تعالى أشد صبرًا من أي أحد، ومن أسمائه الحسنى «الصبور»، ومعناه: الذي لا يعاجل العصاة بالعقوبة، وهو قريب من معنى الحليم، والحليم أبلغ في السلامة من العقوبة.
قوله: «على أذى سمعه من الله» لفظ الأذى في اللغة هو لما خف أمره، وضعف أثره من الشر والمكروه، وقد أخبر سبحانه أن العباد لا يضرونه، كما قال تعالى: {وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللهَ شَيْئاً}، وقال في الحديث القدسي: (يا عبادي إنكم لن تبلغوا ضري فتضروني ولن تبلغوا نفعي فتنفعوني) فبين أن الخلق لا يضرونه، لكن يؤذونه.
قوله: «إنَّهم لَيَدْعُون له ولدًا» أي: أن ابن آدم يؤذي الله تعالى ويسبه، بإضافة ما يتعالى ويتقدس عنه، مثل نسبة الولد إليه تعالى والند والشريك في العبادة، التي يجب أن تكون خالصة له وحده.
وقوله: «وإنَّه ليُعافِيهم ويرزُقُهم» أي: أنه تعالى يقابل إساءتهم بالإحسان، فهم يسيئون إليه تعالى بالعيب والسب، ودعوى ما يتعالى عنه ويتقدس، وتكذيب رسله ومخالفة أمره، وفعل ما نهاهم عن فعله، وهو يحسن إليهم بصحة أبدانهم، وشفائهم من أسقامهم، وحفظهم بالليل والنهار مما يعرض لهم، ويرزقهم بتسخير ما في السماوات والأرض لهم، وهذا غاية الصبر والحلم والإحسان، والله أعلم.

Esin Hadith Caption Urdu


”ليس أحدٌ، أو: ليس شيءٌ أصبرَ“ یعنی اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ صبر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام الصبور ہے۔ اس کے معنی ہیں جو نافرمانوں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ یہ حلیم کے معنی کے قریب ہے۔ الحلیم کا نام سزا سے محفوظ رکھنے میں زیادہ بلیغ ہے۔
”على أذى سمعه من الله“ لفظِ أذى لغت میں اس شر اور برائی کو کہتے ہیں جس کا معاملہ ہلکا اور جسکا اثر بہت کم ہو۔ در اصل اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ بندے اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، چنانچہ فرمایا ہے: ﴿وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللهَ شَيْئاً﴾ ”کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ آپ کو غم ناک نہ کریں، یقین مانو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے“۔ حدیثِ قدسی میں بھی آیا ہے: ”اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو“۔ اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ مخلوق اسے نقصان تو نہیں پہنچا سکتی؛ البتہ اذیّت دے سکتی ہے۔
”إنَّهم لَيَدْعُون له ولدًا“ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیز کی نسبت کرکے، جس سے وہ بلند اور پاک ہے، اسے تکلیف دیتا ہے اور اس کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ جیسے اس کی طرف بیٹے، شریک اور عبادت میں ساجھی کی نسبت کرنا، جب کہ عبادت خالص اسی یکتا ذات کے لیے ہونی چاہیے۔
”وإنَّه ليُعافِيهم ويرزُقُهم“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بُرائی کا مقابلے بھلائی عطا کرتا ہے۔ وہ عیب، گالی، ایسے دعووں، جن سے اللہ کی ذات بَری اور پاک ہے، اس کے رسولوں کی تکذیب اور اس کی نافرمانی کرکے اللہ کے ساتھ بُرا کرتے ہیں، لیکن پھر بھی اللہ انھیں صحت یابی، بیماریوں سے شفا، دن رات پیش آنے والی چیزوں سے حفاظت اور زمین و آسمانوں کو مسخر کرکے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ یہ حد درجے کا صبر، حلم اور احسان ہے۔ والله أعلم   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8299

 
 
Hadith   1405   الحديث
الأهمية: صدق الله، وكذب بطن أخيك، اسقه عسلا


Tema:

اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اس کو شہد پلاؤ۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أنَّ رجلًا أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم فقال: أخي يَشْتكي بطنَه، فقال: «اسْقِه عَسَلًا» ثم أتى الثانيةَ، فقال: «اسْقِه عَسَلًا» ثم أتاه الثالثةَ فقال: «اسْقِه عَسَلًا» ثم أتاه فقال: قد فعلتُ؟ فقال: «صدق اللهُ، وكذب بطنُ أخيك، اسْقِه عَسَلًا» فسقاه فبرأ.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بھائی کو پیٹ کی بیماری لاحق ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ۔ پھر دوسری بار آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ۔ پھر (تیسری بار) آیا اور عرض کیا کہ میں نے پلایا (لیکن فائدہ نہیں ہوا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سچا ہے، اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اس کو شہد پلاؤ۔ چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا، تو وہ تندرست ہوگیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بأن أخاه يتألم من مرض في بطنه، وهذا المرض هو الإسهال، كما اتضح من روايات أخرى للحديث، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يسقي أخاه عسلا، فسقاه فلم يُشف، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فأمره أن يسقيه عسلا مرة أخرى، فسقاه فلم يُشف، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فأمره أن يسقيه عسلا مرة ثالثة، فسقاه فلم يُشف، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فقال صلى الله عليه وسلم: «صدق الله وكذب بطن أخيك اسقه عسلا» وهذا فيه احتمالان: أحدهما: أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم أخبر عن غيب أطلعه الله عليه، وأعلمه بالوحي أن شفاء ذلك من العسل، فكرر عليه الأمر بسقي العسل ليظهر ما وعد به. والثاني: أن تكون الإشارة إلى قوله تعالى: {فيه شفاء للناس} ويكون قد علم أن ذلك النوع من المرض يشفيه العسل.
فلما أمره في المرة الرابعة أن يسقيه عسلا، ذهب الرجل فسقى أخاه عسلا فشُفي بإذن الله تعالى.
ولا يلزم حصول الشفاء به لكل مرض في كل زمن وبأي نوع من أنواع العسل، لكن (لكل داء دواء إذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله) كما قال -صلى الله عليه وسلم-، رواه مسلم (4/ 1729، ح2204).
575;یک آدمی نبیﷺکے پاس آیا اور اس نے آپﷺ کو بتایا کہ اس کا بھائی پیٹ کے مرض کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ یہ اسہال کا مرض تھا جیسا کہ اسی حدیث کی دیگر روایات سے واضح ہوتا ہے۔ نبیﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی کو شہد پلائے۔ اس نے اسے شہد پلایا، لیکن وہ صحت یاب نہ ہوا۔ وہ پھر آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ آپﷺ نے دوبارہ اسے حکم دیا کہ وہ اسے شہد پلائے۔ اس نے پھر پلایا لیکن اسے کچھ افاقہ نہ ہوا۔ وہ پھر آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو صورت حال بتائی۔ آپﷺ نے تیسری مرتبہ پھر اسے حکم دیا کہ اسے شہد پلائے۔ اس نے پھر شہد پلایا، لیکن وہ شفایاب نہ ہوا۔ وہ پھر آپﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپﷺنے فرمایا: ”اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ اسے شہد پلاؤ“۔ اس میں دو احتمالات کا امکان ہے:
پہلا احتمال: یہ کہ نبیﷺ نے یہ بات غیبی طور پر بتائی ہو، جس سے آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے مطلع کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس کی شفا شہد میں ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے بار بار اسے شہد پلانے کا حکم دیا؛ تا کہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ظاہر ہو جائے۔
دوسرا احتمال: ہو سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالی کے اس قول کی طرف اشارہ ہو کہ: ﴿فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ﴾ ”اس (شہد) میں لوگوں کے لیے شفا ہے“، اور آپ ﷺ کو اس بات کا علم ہو کہ اس قسم کے مرض کی شفا شہد ہی میں ہے۔
جب آپ ﷺنے چوتھی دفعہ شہد پلانے کا حکم دیا، تو اس آدمی نے جا کر اپنے بھائی کو شہد پلایا، جس سے وہ اللہ کے حکم سے شفایاب ہو گیا۔
اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ تمام حالات اور ہر بیماری سے شہد کی ہر قسم کے ذریعہ شفا ملے گی البتہ ہر بیماری کی ایک دوا ہے، لہٰذا جب وہ بیماری کے موافق ہوجاتی ہے تو بیمار اللہ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم: 2204)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8300

 
 
Hadith   1406   الحديث
الأهمية: يا رسولَ الله، هل نرى ربَّنا يوم القيامة؟ قال: هل تُضَارُّون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صَحْوًا؟


Tema:

اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان صاف ہو؟

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قلنا يا رسولَ الله، هل نرى ربَّنا يوم القيامة؟ قال: «هل تُضَارُّون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت صَحْوًا؟»، قلنا: لا، قال: «فإنكم لا تُضَارُّون في رؤية ربِّكم يومئذ، إلا كما تُضَارُّون في رؤيتهما» ثم قال: «ينادي منادٍ: ليذهب كلُّ قوم إلى ما كانوا يعبدون، فيذهب أصحابُ الصليب مع صليبهم، وأصحابُ الأوثان مع أوثانهم، وأصحابُ كلِّ آلهةٍ مع آلهتهم، حتى يبقى من كان يعبد اللهَ، مِن بَرٍّ أو فاجر، وغُبَّرات من أهل الكتاب، ثم يؤتى بجهنم تعرضُ كأنها سَرابٌ، فيقال لليهود: ما كنتم تعبدون؟ قالوا: كنا نعبد عُزَير ابنَ الله، فيقال: كذبتم، لم يكن لله صاحبة ولا ولد، فما تريدون؟ قالوا: نريد أن تسقيَنا، فيقال: اشربوا، فيتساقطون في جهنم، ثم يقال للنصارى: ما كنتم تعبدون؟ فيقولون: كنا نعبد المسيحَ ابن الله، فيقال: كذبتم، لم يكن لله صاحبة، ولا ولد، فما تريدون؟ فيقولون: نريد أن تسقيَنا، فيقال: اشربوا فيتساقطون في جهنم، حتى يبقى من كان يعبد الله من بَرٍّ أو فاجر، فيقال لهم: ما يحبسكم وقد ذهب الناس؟ فيقولون: فارقناهم، ونحن أحوجُ منا إليه اليوم، وإنَّا سمعنا مناديًا ينادي: ليَلْحقْ كلُّ قوم بما كانوا يعبدون، وإنما ننتظر ربَّنا، قال: فيأتيهم الجَبَّار في صورة غير صورتِه التي رأوه فيها أولَ مرة، فيقول: أنا ربُّكم، فيقولون: أنت ربُّنا، فلا يُكَلِّمُه إلا الأنبياء، فيقول: هل بينكم وبينه آيةٌ تعرفونه؟ فيقولون: الساق، فيَكشِفُ عن ساقه، فيسجد له كلُّ مؤمن، ويبقى من كان يسجد لله رِياءً وسُمْعَة، فيذهب كيما يسجد، فيعود ظهرُه طَبَقًا واحدًا، ثم يؤتى بالجسر فيُجْعَل بين ظَهْرَي جهنم»، قلنا: يا رسول الله، وما الجسر؟ قال: «مَدْحَضةٌ مَزَلَّةٌ، عليه خطاطيفُ وكَلاليبُ، وحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ لها شوكةٌ عُقَيْفاء تكون بنَجْد، يقال لها: السَّعْدان، المؤمن عليها كالطَّرْف وكالبَرْق وكالرِّيح، وكأَجاويد الخيل والرِّكاب، فناجٍ مُسَلَّمٌ، وناجٍ مَخْدوشٌ، ومَكْدُوسٌ في نار جهنم، حتى يمرَّ آخرُهم يسحب سحبًا، فما أنتم بأشد لي مُناشدةً في الحق قد تبيَّن لكم من المؤمن يومئذ للجَبَّار، وإذا رأَوْا أنهم قد نَجَوْا، في إخوانهم، يقولون: ربنا إخواننا، كانوا يصلون معنا، ويصومون معنا، ويعملون معنا، فيقول الله -تعالى-: اذهبوا، فمن وجدتُم في قلبه مِثْقالُ دِينار من إيمان فأخرجوه، ويُحَرِّمُ اللهُ صُوَرَهم على النار، فيأتونهم وبعضُهم قد غاب في النار إلى قدمِه، وإلى أنصاف ساقَيْه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمَن وجدتُم في قلبه مِثْقال نصف دينار فأخرجوه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مِثْقال ذرة من إيمان فأخرجوه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا» قال أبو سعيد: فإنْ لم تُصَدِّقوني فاقرءوا: {إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا} «فيشفعُ النبيُّون والملائكة والمؤمنون، فيقول الجَبَّار: بَقِيَتْ شفاعتي، فيَقْبِض قَبْضَةً من النار، فيُخْرِجُ أقوامًا قدِ امْتَحَشُوا، فيُلْقَوْن في نهرٍ بأفواه الجنة، يقال له: ماء الحياة، فيَنْبُتون في حافَّتَيْه كما تَنْبُتُ الحِبَّة في حَمِيل السَّيْل، قد رأيتُموها إلى جانب الصَّخْرة، وإلى جانب الشجرة، فما كان إلى الشمس منها كان أخضر، وما كان منها إلى الظِّلِّ كان أبيض، فيخرجون كأنَّهم اللؤلؤ، فيُجعل في رقابهم الخَوَاتيم، فيَدخلون الجنة، فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتَقاءُ الرحمن، أدخلهم الجنةَ بغير عَمَلٍ عملوه، ولا خيرٍ قَدَّموه، فيقال لهم: لكم ما رأيتم ومثلُه معه».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان صاف ہو؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایاـ ’’اس دن تمہیں اپنے پروردگار کو دیکھنے میں اتنی ہی تکلیف ہوگی جتنی کہ ان دونوں (سورج اور چاند) کے دیکھنے میں ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس چیز کی طرف چلی جائے جس کی وہ پوجا کیا کرتی تھی۔ چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ، بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اورجھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہاں تک کہ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں يا بد اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ پھر دوزخ سامنے لائی جائے گی وہ ایسی (چمکدار ہو گی )جیسے سراب ہوتا ہے۔ پھر یہودیوں سے کہا جائے گا کہ تم کس کے پوجا کرتے تھے؟۔ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر (علیہ السلام) کی پوجا کرتے تھے جو اللہ کے بیٹے ہیں۔ انہیں جواب ملے گا: تم جھوٹے ہو۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیو۔ (وہ اس چمکتی ریت کی مانند جہنم کی طرف اسے پانی جان کر چل پڑیں گے) اور جہنم کے اندر جا گریں گے۔ پھر نصاریٰ سے کہا جائے گا: تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، بتاؤ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پانی پلائیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پی لو۔ چنانچہ یہ بھی جہنم میں جا گریں گے۔ یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے خواہ نیک ہوں یا بد۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم ان سے اس وقت جدا ہو گئے تھے جب کہ ہمیں ان کی زیادہ ضر ورت تھی۔ ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی۔ چنانچہ ہم تو بس اپنے رب کے منتظر ہیں (کیونکہ ہم اسی کی عبادت کرتے تھے)۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ پھر اللہ (جبار) ان کے سامنے اس صورت کی بجائے کسی دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور اللہ تعالی کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ انبیاء کے سوا اور کوئی بھی اللہ سے بات نہیں کرے گا۔ الله تعالی فرمائے گا: کیا تمہیں کسی ایسی نشانی کا علم ہے جس سے تم اپنے رب کو پہچان لو؟ وہ کہیں گے کہ ”ساق“ (پنڈلی)۔ اس پر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دے گا تو ہر مومن اس کے سامنے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے اسے سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح (سخت) ہوکر رہ جائے گی۔ پھر پل صراط لایا جائے گا اور جہنم کی پشت پر لا کر رکھا جائے گا۔ ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! پل کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک پھسلنے اور گرنے کی جگہ ہے، اس پر درانتیاں،آنکڑے اور چوڑے چوڑے کانٹے ہوں گے جن کے سر اس سعدان جھاڑی کے کانٹوں کی طرح خم دار ہوں گے جو نجد کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ مومن اس پر سے پلک جھپکنےمیں، بجلی کی سی تیزی سے، ہوا کی مانند اور تیز رفتار عمدہ گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح گزر جائیں گے۔ ان میں سے بعض تو صحیح سلامت نجات پا جائیں گے، بعض زخمی تو ہوں گے لیکن بچ جائیں گے اور بعض اوندھے منہ جہنم میں جا گریں گے۔ یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا۔ تم لوگ آج کسی حق كے لیے جس طرح مجھ سے مطالبہ اور درخواست کرتے ہو اس دن اللہ سے مومنين اس سے بھی زیادہ شد ومد كے ساتھ مطالبہ اور درخواست کريں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات عطا فرما)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو۔ اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض لوگ تو جہنم میں اپنے پاؤں اور آدھی پنڈلیوں تک غرق ہیں۔ جنہیں وہ پہچان لیں گے انہیں دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر واپس آئیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ وہ جسے پہچان پائیں گے اسے نکال لائیں گے۔” ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو: ﴿إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا﴾ ”اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، اگر نیکی ہے تو اسے بڑھا کر کئی گنا کر دیتا ہے“۔ اس کے بعد انبیاء، فرشتے اور مومنین شفاعت کریں گےاور اللہ تعالی کا ارشاد ہو گا کہ اب میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر کر لے کر ایسے لوگوں کو نکالے گا جو جھلس کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ انہیں جنت کے کناروں پر موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جسے آب حیات کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس کے کنارے اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا کہ اس کے جس حصے پر دھوپ پڑتی رہتی ہے اس پر سبزا ابھرتا ہے اور جس حصے پر سایہ ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے۔ جب وہ نکلیں گے تو یوں لگیں گے جیسے موتی ہوں۔ ان کی گردنوں پر مہریں لگا دی جائیں گے (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں)۔ پھر انہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اہل جنت کہیں گے: یہ ”عتقاء الرحمن“ (اللہ کے آزاد کردہ لوگ) ہیں۔ انہوں نے نہ تو کوئی عمل کیا تھا اور نہ ہی کوئی نیکی آگے بھیجی تھی لیکن اللہ نے پھر بھی انہیں جنت میں داخل کر دیا۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ سب تمہارا ہے اور اتنا ہی اس کے ساتھ مزید بھی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل بعضُ الصحابة النبيَّ صلى الله عليه وسلم: هل نرى ربَّنا يوم القيامة؟ فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: نعم ترون ربكم يوم القيامة كما ترون الشمس في منتصف النهار والقمر ليلة البدر من غير ازدحام ولا منازعة، والتشبيه إنما وقع في الوضوح وزوال الشك والمشقة والاختلاف، فهو تشبية للرؤية بالرؤية لا للمرئي بالمرئي. وهذه الرؤية غير الرؤية التي هي ثواب للأولياء وكرامة لهم في الجنة؛ إذ هذه للتمييز بين مَن عبد الله وبين من عبد غيره.
ثم أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه ينادي مناد يوم القيامة: من كان يعبد شيئا من دون الله فليتبعه، وفي رواية صحيحة: أن الله هو الذي ينادي سبحانه، فيُجمع من كان يعبد الأصنام من دون الله ويُقذفون في نار جهنم. فلا يبقى إلا من كان يعبد الله سواء كان مطيعًا أو عاصيًا وبعض بقايا قليلة من يهود ونصارى، وأما معظمهم وجُلُّهم فقد ذُهب بهم مع أوثانهم إلى جهنم، ويؤتى بجهنم تُعرض على الناس في ذلك الموقف كأنها سراب، فيجاء باليهود، فيقال لهم: مَن كنتم تعبدون؟ قالوا: كنَّا نعبدُ عُزَيرَ ابنَ الله. فيقال لهم: كذبتم في قولكم: عُزَيرُ ابنُ الله؛ فإن الله لم يتخذ زوجة ولا ولدًا، ثم يقال لهم: فماذا تريدون؟ فيقولون: نريد أن نشرب. وقد صار أول مطلبهم الماء؛ لأنه في ذلك الموقف يشتد الظمأ لتوالي الكربات، وترادف الشدائد المهولات، وقد مُثِّلت لهم جهنم كأنها ماء، فيقال لهم: اذهبوا إلى ما ترون وتظنونه ماء، فاشربوا. فيذهبون فيجدون جهنم يكسر بعضها بعضاً؛ لشدة اتقادها وتلاطم أمواج لهبها فيتساقطون فيها، ومثل ذلك يقال للنصارى بعدهم.
حتى إذا لم يَبْق إلا مَن كان يعبد اللهَ من مطيع وعاص، فيقال لهم ما يوقفكم هذا الموقف وقد ذهب الناس؟ فيقولون: فارقنا الناس في الدنيا ونحن اليوم أحوج إلى مفارقتهم؛ وذلك لأنهم عصوا الله وخالفوا أمره، فعاديناهم لذلك، بغضاً لهم في الله، وإيثاراً لطاعة ربنا، ونحن ننتظر ربنا الذي كنا نعبده في الدنيا، فيأتيهم الله تعالى في صورة غير الصورة التي رأو فيها أول مرة،  وفي هذا بيان صريح أنهم قد رأوه في صورة عرفوه فيها، قبل أن يأتيهم هذه المرة، ولا يصح تأويل الصورة، بل يجب الإيمان بها من غير تكييف ولا تمثيل ومن غير تحريف ولا تعطيل. فإذا أتاهم الله تعالى قال لهم: أنا ربكم. فيقولون: أنت ربنا، فرحًا بذلك واستبشارًا، وعند ذلك لا يكلمه سبحانه إلا الأنبياء، فيقول الله لهم: هل بينكم وبينه آيةٌ تعرفونه بها؟   فيقولون: الساق. فيكشف سبحانه عن ساقه فيعرفه المؤمنون بذلك فيسجدون له، وأما المنافقون الذين يراءون الناس بعبادتهم، فمُنعوا من السجود، وجُعلت ظهورهم طبقاً واحداً، لا يستطيعون الانحناء، ولا السجود؛ لأنهم ما كانوا في الحقيقة يسجدون لله في الدنيا، وإنما كانوا يسجدون لأغراضهم الدنيوية.
ففي ذلك إثبات الساق صفة لله تعالى، ويكون هذا الحديث ونحوه تفسيراً لقوله تعالى: {يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ} وتفسير الساق في هذا الموضع بالشدة أو الكرب مرجوح، ويجب مع ذلك إثبات صفة الساق لله تعالى من السنة، ودلالة الآية على الصفة هو الراجح والأصح، وذلك من غير تكييف ولا تمثيل ومن غير تحريف ولا تعطيل.
ثم يؤتى بالصراط، فيُجعل في وسط جهنم، وهذا الصراط لا تستمسك فيه الأقدام، ولا تثبت، وعلى هذا الصراط خطاطيف، وهو الحديدة المعقوفة المحددة؛ لأجل أن تمسك من أريد خطفه بها، فهي قريبة من الكلوب، وعلى الصراط أيضًا أشواك غليظة عريضة، يمر الناس على هذا الصراط على قدر إيمانهم وأعمالهم، فمن كان إيمانه كاملاً، وعمله صالحاً خالصاً لله، فإنه يمر من فوق جهنم كلمح البصر، ومن كان دون ذلك يكون مروره بحسب إيمانه وعمله، كما فُصِّل ذلك في الحديث، ومُثِّل بالبرق، والريح، إلى آخره. والمارون على الصراط أربعة أصناف:
الأول: الناجي المسلَّم من الأذى، وهؤلاء يتفاوتون في سرعة المرور عليه كما سبق.
والثاني: الناجي المخدوش، والخدش هو الجرح الخفيف، يعني: أنه أصابه من لفح جهنم، أو أصابته الكلاليب والخطاطيف التي على الصراط بخدوش.
والثالث: المكدوس في النار، الملقى فيها بقوة.
والرابع: الذي يُسحب على الصراط سحباً قد عجزت أعماله عن حمله.
ثم قال صلى الله عليه وسلم: «فما أنتم بأشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم، من المؤمن يومئذ  للجبار» هذا من كرم الله، ورحمته، حيث أذن لعباده المؤمنين في مناشدته وطلب عفوه عن إخوانهم الذين أُلقوا في النار، بسبب جرائمهم التي كانوا يبارزون بها ربهم، ومع ذلك أَلْهم المؤمنين الذين نجوا من عذاب النار وهول الصراط، ألهمهم مناشدته، والشفاعة فيهم، وأذن لهم في ذلك؛ رحمة منه لهم تبارك وتعالى.
«يقولون: ربنا إخواننا الذين كانوا يصلون معنا، ويصومون معنا، ويعملون معنا» مفهوم هذا أن الذين لا يصلون مع المسلمين، ولا يصومون معهم، لا يشفعون فيهم، ولا يناشدون ربهم فيهم. وهو يدل على أن هؤلاء الذين وقعت مناشدة المؤمنين لربهم فيهم كانوا مؤمنين، موحدين؛ لقولهم: «إخواننا كانوا يصلون معنا، ويصومون معنا»، ولكن ارتكبوا بعض المآثم، التي أوجبت لهم دخول النار.
وفي هذا رد على طائفتين ضالتين: الخوارج، والمعتزلة، في قولهم: إن من دخل النار لا يخرج منها، وإن صاحب الكبيرة في النار.
فيقول الله تعالى لهم: اذهبوا، فمن وجدتُم في قلبه مقدار دِينار من إيمان فأخرجوه من النار، ويُحَرِّمُ اللهُ على النار أن تأكل وجوههم، فيأتونهم فيجدون بعضهم قد أخذته النار إلى قدمِه، وبعضهم إلى أنصاف ساقَيْه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا منهم، ثم يعودون، فيقول الله لهم: اذهبوا فمَن وجدتُم في قلبه مقدار نصف دينار من إيمان فأخرجوه من النار، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا منهم، ثم يعودون، فيقول: اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مقدار ذرة من إيمان فأخرجوه، فيُخْرِجون مَن عَرَفوا منهم،  وعند ذلك قال أبو سعيد الخدري: فإنْ لم تُصَدِّقوني فاقرءوا: {إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا} واستشهاد أبي سعيد بالآية ظاهر في أن العبد إذا كان معه مثقال ذرة من إيمان، فإن الله يضاعفه له، فينجيه بسببه.
ثم قال: «فيشفع النبيون، والملائكة، والمؤمنون» وهذا صريح في أن هؤلاء الأقسام الثلاثة يشفعون، ولكن يجب أن يُعلم أن شفاعة أي شافع، لا تقع إلا بعد أن يأذن الله فيها، كما تقدم في مناشدتهم ربهم وسؤالهم إياه، ثم يأذن لهم فيقول: اذهبوا فمن وجدتم، إلى آخره.
قوله: «فيقول الجبار: بقيت شفاعتي، فيقبض قبضة من النار، فيخرج أقواماً قد امتحشوا» والمراد بشفاعته تعالى رحمته لهؤلاء المعذبين، فيخرجهم من النار. قوله: «فيقبض قبضة» فيه إثبات القبض لله تعالى، وكم في كتاب الله تعالى وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم من نص يثبت اليد والقبضة، ولكن أهل التأويل الفاسد المحرِّفين يأبون قبول ذلك، والإيمان به، وسوف يعلمون أن الحق ما قاله الله وقاله رسوله، وأنهم قد ضلوا السبيل في هذا الباب.
فيقبض سبحانه قبضة من النار، فيخرج أقواماً قد احترقوا وصاروا فحما، قوله: «فيُلْقَوْن في نهرٍ بأفواه الجنة، يقال له: ماء الحياة، فينبتون في حافتيه» أي: فيُطرحون في نهر بأطراف الجنة يُعرف بماء الحياة، أي الماء الذي يحيي من انغمس فيه، وعند ذلك تنبت لحومهم وأبصارهم وعظامهم التي احترقت في النار بجانب هذا النهر، قوله: «كما تنبت الحبة في حميل السيل، قد رأيتموها إلى جانب الصخرة، وإلى جانب الشجرة، فما كان إلى الشمس منها كان أخضر، وما كان إلى الظل كان أبيض» يعني بذلك: سرعة خروج لحومهم؛ لأن النبت في حميل السيل - كما ذكر - يخرج بسرعة، ولهذا يكون من جانب الظل أبيض، ومن جانب الشمس أخضر، وذلك لضعفه ورقته، ولا يلزم أن يكون نبتهم كذلك - كما قاله بعضهم: بأن الذي من جانب الجنة يكون أبيض، والذي من جانب النار يكون أخضر - بل المراد تشبيههم بالنبت المذكور في سرعة خروجه، ورقته، ولذلك قال: «فيخرجون كأنهم اللؤلؤ» يعني: في صفاء بشرتهم، وحسنها.
قوله: «فيجعل في رقابهم الخواتيم» وهذه الخواتيم يكتب فيها: «عتقاء الرحمن من النار» كما ذكر في الرواية الأخرى.
قوله: «فيدخلون الجنة، فيقول أهل الجنة: هؤلاء عتقاء الرحمن، أدخلهم الجنة، بغير عمل عملوه، ولا خير قدموه» يعني: أنهم لم يعملوا صالحاً في الدنيا، وإنما معهم أصل الإيمان، الذي هو شهادة أن لا إله إلا الله والإيمان برسولهم.
قوله: فيقال لهم: «لكم ما رأيتم، ومثله معه» يظهر أنهم يدخلون أماكن من الجنة خالية، ولهذا قيل لهم ذلك.
576;عض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ: “کیا ہم روز قیامت اللہ تعالی کو دیکھیں گے؟۔” آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہاں۔ تم اپنے رب کو بالکل ایسے ہی دیکھو گے جیسے عین دوپہر کے وقت سورج کو اور چودھویں کی رات مکمل چاند کو بغیر کسی بھیڑ اور دھکم پیل کے دیکھ لیتے ہو۔ تشبیہ وضاحت اور اس میں کسی قسم کے شک، مشقت اوراختلاف نہ ہونے ميں ہے۔ یہ دیکھنے کی تشبیہ دیکھنے کے ساتھ ہے، دیکھی جانے والی شے کی تشبیہ دیکھی جانے والی شے کے ساتھ نھیں ہے۔ یہ رویت اس رویت کے علاوہ ہے جو اللہ کے اولیاء کو جنت میں بطور ثواب اور اعزاز کے عطا ہوگی۔ کیونکہ یہ رویت ان لوگوں کے درميان فرق کرنے کے لیے ہے جنہوں نے اللہ کی عبادت کی اور جنہوں نے اس کے علاوہ کی عبادت کی۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہے گا کہ جو اللہ کے سوا کسی اور شے کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہو لے۔ ایک صحیح روایت میں ہے کہ: خود اللہ تعالی ہی یہ ندا دے گا۔ چنانچہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے تھے انہیں اکٹھا کر کےجہنم میں پھینک دیا جائے گا اور صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے، چاہے وہ فرمانبردار ہوں یا نافرمان، اور یہود و نصاری میں سے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے۔ البتہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ان کے معبودوں کے ساتھ جہنم کے پاس لے جایا جائے گا۔ پھر اس جگہ جہنم کو لا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے گا اور وہ یوں لگے گی جیسے سراب ہوتا ہے۔ پھر یہودیوں کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اللہ کے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے۔ ان کو جواب ملے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی اولاد۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟وہ کہیں گے کہ ہم پینا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے پہلا مطالبہ پانی کا ہوگا۔ کیونکہ اس جگہ پے در پے آنی والی پریشانیوں اور کٹھن مراحل اور ہولناکیوں کی وجہ سے سخت پیاس لگے گی۔ جہنم ان کو ایسے دکھائی دے گی جیسے پانی ہو۔ ان سے کہا جائے گا: جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے اور جسے تم پانی سمجھ رہے ہو اس کی طرف جاؤ اور پی لو۔ وہ وہاں جائیں گے تو جہنم کو پائیں گے جو اپنی حرارت کی شدت اور شعلہ زنی کی وجہ سے خود اپنے آپ ہی کو کھائے جا رہی ہو گی۔ پس وہ لوگ اس میں گر جائیں گے۔ ان کے بعد اسی طرح نصاری کو بھی کہا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب صرف اللہ کی عبادت کرنے والے مطیع اور گناہ گار باقی رہ جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم کو کس چيز نے اس جگہ روک رکھا ہے، جب کہ لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے: ہم نے دنیا میں اس وقت ان لوگوں سے کنارہ کشی کی جب کہ ہمیں ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کی نافرمانی اور اس کے احکامات کی مخالفت کی۔ چنانچہ ہم نے اللہ کی خاطر ان سے نفرت كركے ان كی دشمنی مول لی اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کو مقدم رکھا (پھر آج بھلا ہم ان سے الگ کیوں نہ رہیں؟!)۔ اب ہم اپنے اس رب کے انتظار میں ہیں جس کی ہم دنیا میں عبادت کیا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت کے بجائے کسی اور صورت میں آئے گا جس ميں انہوں نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ اس میں اس بات کی صاف وضاحت ہے کہ اس دفعہ آنے سے پہلے ہی وہ اللہ کو ایسی صورت میں دیکھ چکے تھے جس میں انہوں نے اسے پہچان لیا تھا۔ صورت کی تاویل کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ بغیر کسی تکییف و تمثیل اور بنا کسی تحریف و تعطیل کے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جب اللہ تعالی ان کے پاس آئے گا تو کہے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ اس پر خوش اور مسرور ہوتے ہوئے کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس وقت اللہ تعالی سے صرف انبیاء ہی کلام کر سکیں گے۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: کیا تمہارے اور تمہارے رب کے مابین کوئی ایسی علامت ہے جس سے تم اسے پہچان سکو؟
وہ کہیں گے کہ یہ علامت پنڈلی ہے۔ اس پر اللہ تعالی اپنے پنڈلی کھول دے گا اور اس سے مومنين اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پہچان کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ جب کہ منافقین جو لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت کیا کرتے تھے، انہیں سجدہ کرنے سے روک دیا جائے گا اور ان کی پیٹھ کو ایک طشت بنادیا جائے گا، (جس کی وجہ سے) وہ نہ جھک سکیں گے اور نہ ہی سجدہ کر سکیں گے۔ کیونکہ دنیا میں وہ لوگ درحقیقت اللہ تعالی کے لیے سجدے نہیں کرتے تھے بلکہ محض اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے سجدے کیا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "ساق" (پنڈلی) اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ یہ حدیث اور اس طرح کی دیگر احادیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہیں کہ: ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ﴾ ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو کہا جائے گا تو وہ نہ کر سکیں گے“۔ اس مقام پر "ساق" کی تفسیر سختی اور پریشانی کے ساتھ کرنا مرجوح ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کی بنا پر"ساق" کی صفت کو اللہ کے لیے ثابت کرنا واجب ہے۔ صفت پر ہی آيت کی دلالت راجح اور صحيح ترین ہے،اوراسے بغیر تکییف و تمثیل اور بغير کسی تحریف و تعطیل کے ماننا ہے۔
پھر ان کو پل صراط پر لایا جائے گا جسے جہنم کے درمیان میں رکھ دیا جائے گا۔ اس پل پر پاؤں ٹھہر نہیں پائیں گے اور نہ جم سکیں گے۔ اس پر آنکڑے لگے ہوں گے یعنی خم دار اور تیز لوہے کے کانٹے تاکہ جنہیں اچک لینا ہو انہیں ان کے ذریعہ اچک لیا جاسکے۔ یہ خمیدہ کھونٹیوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ پل پر موٹے اور چوڑے چپٹے کانٹے بھی ہوں گے۔ لوگ اس پل پر سے اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے گزریں گے۔ جس کا ایمان کامل ہوگا اور عمل صالح خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو گا وہ جہنم کے اوپر سے پلک جھپکنے میں گزر جائے گا۔ جو اس سے کمتر ہوگا اس کا گزرنا اس کے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ہوگا جیسا کہ اس کی تفصیل حدیث میں بیان کی گئی ہے اور ان کے گزرنے کی کیفیات کو بجلی اور ہوا وغیرہ کےساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ پل پر سے گزرنے والے چار قسم کے لوگ ہوں گے:
اول: بغیر کسی تکلیف کے نجات پا جانے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گزرنے کی رفتار ایک دوسرے سے مختلف ہو گی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
دوم: زخمی ہو کر نجات پانے والے۔ “الخدش” ہلکے زخم کو کہتے ہیں۔ یعنی جہنم کی تپش انہیں پہنچے گی یا پھر وہ پل پر نصب کھونٹیوں اور آنکڑوں کی زد میں آ جائیں گے۔
سوم: جہنم میں پٹخ دیے جانے والے جو زور سے اس میں جا گریں گے۔
چہارم: جو گھسٹ گھسٹ کر پل پر سے گزریں گے اور ان کے اعمال (اتنے کمزور ہوں گے کہ)ان کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوں گے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ آج کسی حق کے لیے جس طرح مجھ سے مطالبہ اور درخواست کرتے ہو اس دن مومنین اللہ سے اس سے بھی زیادہ شد و مد کے ساتھ مطالبہ اور درخواست کریں گے۔” یہ اللہ کا خصوصی کرم اور رحمت ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کی بابت اللہ تعالیٰ سے فرمائش کریں اور انہیں معاف کرنے کی درخواست کریں، جنہیں ان کے ان جرائم کے سبب جہنم میں ڈال دیا گیا ہوگا جن کا ارتکاب وہ اپنے رب کی مخالفت میں کرتے رہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں جو دوزخ کے عذاب اور پل صراط کی ہولناکی سے نجات پاگئے ہوں گے یہ بات ڈال دے گا کہ وہ ان کے حق میں اس سے درخواست کریں اور ان کے لیے شفاعت کریں۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کی بدولت انہیں اس کی اجازت دے گا۔ ’’اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات عطا فرما)۔” اس کا مفہوم مخالف یہ نکلتا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے اور ان کے ساتھ روزے نہیں رکھتے وہ ان کے حق میں شفاعت نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے لیے اپنے رب کے حضور درخواست گزاریں گے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جن کے حق میں مومن لوگ اپنے رب سے درخواست کریں گے وہ بھی مومن اور موحد ہوں گے۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے: “ہمارے بھائی بھی جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے۔” تاہم انہوں نے بعض گناہوں کا ارتکاب کیا جن کی وجہ سے وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے۔
اس میں خوارج اور معتزلہ کے دو گمراہ گروہوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ جو جہنم میں چلا جائے گا وہ اس میں سے نہیں نکلے گا اور یہ کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ضرور دوزخ میں جائے گا۔
اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جو شخص بھی تمہیں ایسا ملے جس کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔ اللہ تعالی ان کے چہروں کو آگ پر حرام کر دے گا تا کہ وہ ان کے چہروں کو نہ جلائے۔ چنانچہ وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ ان میں سے بعض کے پاؤں تک اور بعض کی پنڈلیوں کے نصف تک آگ پہنچ رہی ہے۔ وہ ان میں سے جن کو پہچان پائیں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر جب واپس آئیں گے تو اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں تم نصف دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی جہنم سے نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچان سکيں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر جب لوٹ کر آئیں گے تو اللہ تعالی ان سے فرمائے گا: جاؤ اور جس کے دل میں تمہیں ذرہ برابر بھی ایمان ملے اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جسے وہ پہچان پائیں گے نکال لائیں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم میری بات کی تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھ لو: [إنَّ اللهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا]۔ (ترجمہ: اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر ایک نیکی ہو تو اس کا ثواب کئی گناہ بڑھا کر دیتا ہے۔) ابو سعید رضی اللہ عنہ کا اس آیت کو استشہاد کے طور پر پیش کرنے کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ بندے کے پاس ذرہ برابر بھی اگر ایمان ہو تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے اور اسے اس کی وجہ سے نجات دے دیتا ہے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد انبیاء، فرشتے اور مومنین شفاعت کریں گے۔‘‘ اس میں اس بات کا صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ یہ تینوں شفاعت کریں گے۔ تاہم یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ کسی بھی سفارشی کی شفاعت اللہ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ مومنین نے اس وقت اپنے رب سے درخواست کی اور اس سے سوال کیا، تب انہیں اس کی اجازت دی گئی۔ پھر اللہ نے ان کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’جاؤ اور جوتمہیں ملے اسے نکال لاؤ۔الخ۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالی کا ارشاد ہو گا کہ اب میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو نکال کر باہر لے آئے گا جو جھلس کرکوئلہ ہو چکے ہوں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی شفاعت سے مراد اس کا ان عذاب میں مبتلا لوگوں پر رحم کرنا ہے۔ چنانچہ اللہ انہیں جہنم سے نکال لے گا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: “اللہ ایک مٹھی بھرے گا۔” اس میں اللہ تعالی کے لیے صفتِ قبض (مٹھی بھرنا) کا بیان ہے۔ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی احادیث میں کتنے ہی ایسے نصوص ہیں جن سے ہاتھ اور مٹھی کا اثبات ہوتا ہے۔ لیکن تاویل و تحریف کرنے والے بدعقیدہ لوگ اسے قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے سے انکاری ہیں۔ عنقریب وہ جان لیں گے کہ حق وہی تھا جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا تھا اور وہی تھے جو راہ راست سے بھٹک گئے تھے۔ بہرحال اللہ تعالی جہنم میں سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو باہر نکالے گا جو جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔
آپ ﷺ نےفرمایا: ’’انہیں جنت کے کناروں پر موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جس کا نام آب حیات ہے۔ وہ اس کے کناروں پر اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے۔‘‘ یعنی جنت کے ارد گرد موجود ایک نہر میں ڈال دیا جائے گا جسے آب حیات کہا جاتا ہے۔ ایسا پانی جو اپنے اندر غوطہ لگانے والے کو جلا بخش دیتا ہے۔ اس نہر کے کناروں پر ان کا جل جانے والا گوشت، آنکھیں اور ہڈیاں دوبارہ سے نکل آئیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس طرح سیلاب کے پس ماندہ کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا کہ اس کے جس حصے پر دھوپ پڑتی رہتی ہے اس پر سبزا اگ آتا ہے اور جس حصے پر سایہ ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے۔” آپ ﷺ کا اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ ان کا گوشت بہت تیزی سے نکل آئے گا۔ کیونکہ جیسا کہ ذکر ہوا، سیلاب کے لائے ہوئے کوڑے کرکٹ پر روئیدگی بہت تیزی سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے جو حصہ سائے میں ہوتا ہے وہ روکھا رہ جاتا ہے اور جو دھوپ میں ہوتا ہے وہ سرسبز ہوتا ہے۔ ایسا ان کی پتیوں کے نازک ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعتاً وہ بھی ایسے ہی نکلیں گے کہ جو لوگ جنت کی طرف ہوں گے وہ روکھے رہ جائیں گے اور جو جہنم کی طرف ہوں گے وہ سرسبز ہوں گے۔ بعض لوگوں سے یہ قول منقول ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں ان کو اس سبزے کے ساتھ تشبیہ اس کے تیزی سے نکلنے اور نزاکت میں دی گئی ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ایسے نکلیں گے جیسے موتی ہوں۔‘‘ یعنی اپنی ظاہری جلد کی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے وہ موتیوں کی مانند نظر آئیں گے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: “پھر ان کی گردنوں پر مہریں لگا دی جائیں گی۔” ان مہروں پر لکھا ہوگا: ’’رحمن کی طرف سے جہنم سے آزاد کر دہ۔‘‘ جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا: ’’پھر وہ جنت میں چلے جائیں گے۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے: یہ رحمن کے آزاد کردہ لوگ ہیں۔انہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی بھلائی کو آگے بھیجا تھا لیکن پھر بھی اللہ نے ان کو جنت میں داخل کر دیا۔” یعنی دنیا میں انہوں نے کوئی نیک کام نہیں کیا لیکن جوہرِ ایمان ان کے پاس تھا جو کہ صرف اور صرف اللہ کے معبود برحق ہونے کی گواہی اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان سے کہا جائے گا: ’’تم جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ سب تمہارا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی ہے۔‘‘ یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ جنت کے كچھ خالی مقامات پر آئیں گے اسی لیے ان سے ایسا کہا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8301

 
 
Hadith   1407   الحديث
الأهمية: إن الله يصنع كل صانع وصنعته


Tema:

ہر کاریگر اور اس کی کاریگری کو اللہ تعالی ہی پیدا کرنے والا ہے۔

عن حذيفة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ اللهَ يصنعُ كلَّ صانعٍ وصنعَتَه».

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر کاریگر اور اس کی کاریگری کو اللہ تعالی ہی پیدا کرنے والا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله خلق كل صانع وما يصنعه من الصناعات، وفي هذا دليل على أن أفعال العباد مخلوقة، فالله خلق العباد وخلق أعمالهم، قال ابن تيمية -رحمه الله-: (فما من مخلوق في الأرض ولا في السماء إلا الله خالقه سبحانه، لا خالق غيره ولا رب سواه، ومع ذلك فقد أمر العباد بطاعته وطاعة رسله ونهاهم عن معصيته، وهو سبحانه يحب المتقين والمحسنين والمقسطين ويرضى عن الذين آمنوا وعملوا الصالحات ولا يحب الكافرين ولا يرضى عن القوم الفاسقين ولا يأمر بالفحشاء ولا يرضى لعباده الكفر ولا يحب الفساد، والعباد فاعلون حقيقة والله خالق أفعالهم، والعبد هو المؤمن والكافر والبر والفاجر والمصلي والصائم، وللعباد قدرة على أعمالهم ولهم إرادة، والله خالقهم وخالق قدرتهم وإرادتهم كما قال تعالى: {لمن شاء منكم أن يستقيم} {وما تشاءون إلا أن يشاء الله رب العالمين}).

Esin Hadith Caption Urdu


”ہر کاریگر اور اس کی کاریگری کو اللہ تعالی ہی پیدا کرنے والا ہے“ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کے افعال بھی مخلوق ہیں، اللہ تعالی ہی بندوں کو پیدا فرمایا ہے اور وہی ان کے افعال کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: زمین وآسمان کی ہر مخلوق کا خالق اللہ سبحانہ وتعالی ہے، اس کے سوا کوئی خالق نہیں، اس کے سوا کوئی رب نہیں، اور اللہ تعالی نے بندوں کو اس کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اس کی معصیت سے روکا ہے، وہ متقی، احسان کرنے والے اور انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے راضی ہوتا ہے، وہ کافروں سے محبت نہیں کرتا، نہ ہی فاسق لوگوں سے راضی ہوتا ہے، اس نے فحش اور بے حیائی کا حکم نہیں دیا، نہ ہی وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور فساد کو پسند فرماتا ہے۔ بندے حقیقی معنوں میں فاعل (کرنے والے) ہیں اور اللہ تعالی ان کے افعال (حرکات وسکنات) کا خالق ہے، بندے ہی مومن، کافر، نیک اور صالح، فاجر وفاسق، نمازی اور روزہ دار ہیں، بندوں کے پاس کام کرنے کی قدرت ہے اور وہ صاحب ارادہ بھی ہیں جبکہ اللہ تعالی ان کا خالق ہے، ان کی قوتوں اور ان کے ارادوں کا پیدا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ، وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ” تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے جو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو، اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ - اسے ابنِ مندہ نے ”کتاب التوحید“ میں روایت کیا ہے۔ - امام بخاری نے اسے اپنی کتاب ”خلقُ أفعالِ العبادِ“ میں روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8302

 
 
Hadith   1408   الحديث
الأهمية: الله الطبيب، بل أنت رجل رفيق، طبيبها الذي خلقها


Tema:

طبیب صرف اللہ ہے جب کہ تم تو بس نرمی و مہربانی کرنے والے شخص ہو۔ اس کا طبیب تو وہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔

عن أبي رَمْثة -رضي الله عنه- أنَّه قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: أَرِني هذا الذي بظهرك، فإنِّي رجلٌ طبيبٌ، قال: «اللهُ الطبيبُ، بل أنت رجلٌ رَفِيقٌ، طبيبُها الذي خلقَها».

ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ مجھے اپنی پشت پر جو یہ چیز ہے دکھائیں کیونکہ میں طبیب آدمی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”طبیب صرف اللہ ہے اور تم تو بس نرمی و مہربانی کرنے والے شخص ہو۔ اس کا طبیب تو وہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أبو رمثة طبيبًا، فرأى خاتم النبوة ظاهرًا ناتئًا بين كتفي النبي -صلى الله عليه وسلم-، فظنه سلعة تولدت من الفضلات أو مرضًا جلديًّا، فطلب من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يعالجه، فرد المصطفى -صلى الله عليه وسلم- كلامه بأن «الله الطبيب» أي: هو المداوي الحقيقي بالدواء الشافي من الداء «بل أنت رجل رفيق» ترفق بالمريض وتتلطف به، وذلك لأن الطبيب هو العالم بحقيقة الدواء والداء، والقادر على الصحة والشفاء، وليس ذلك إلا الله.
575;بو رمثہ ایک طبیب تھے۔ انہوں نے نبی ﷺ کے دونوں شانوں کے مابین مہر نبوت کو ابھرے ہوئے دیکھا تو انہیں گمان گزرا کہ یہ زائد مادوں سے پیدا شدہ گلٹی ہے یا پھر کوئی جلدی بیماری ہے۔ چنانچہ انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا علاج کرنے کی اجازت چاہی۔ نبی ﷺ نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش کو رد فرما دیا کہ:”طبیب تو اللہ ہے“ یعنی دوائے شافی کے ساتھ بیماری کا حقیقی علاج کرنے والا تو وہی ہے۔ ”بل أنت رجل رفيق“ تم تو بس مریض کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنے والے ہو کیونکہ طبیب دواء اور بیماری کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے جبکہ صحت اور شفاء دینے پر قادر تو صرف اللہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 8303

 
 
Hadith   1409   الحديث
الأهمية: قصة موسى -عليه السلام- مع الخضر


Tema:

موسی علیہ السلام کا خضر کے ساتھ قصہ

عن سعيد بن جُبير، قال: قلتُ لابن عباس: إنَّ نَوْفًا البَكالي يزعم أنَّ موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسَى آخر؟ فقال: كذبَ عدوُّ الله، حدثنا أُبَي بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم: «قام موسى النبيُّ خطيبًا في بني إسرائيل، فسُئل أيُّ الناس أعلم؟ فقال: أنا أعلم، فعتب الله عليه، إذ لم يَرُدَّ العلم إليه، فأوحى الله إليه: أنَّ عبدًا من عبادي بمَجْمَع البحرين، هو أعلم منك. قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتًا في مِكْتَل، فإذا فقدتَه فهو ثَمَّ، فانطلق وانطلق بفتاه يُوشِع بن نُون، وحملا حوتًا في مِكْتَل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما، فانسلَّ الحوتُ من المِكْتَل فاتخذ سبيله في البحر سَرَبًا، وكان لموسى وفتاه عَجَبًا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما، فلما أصبح قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا، لقد لَقِينا من سفرنا هذا نَصَبًا، ولم يجد موسى مسًّا من النَّصَب حتى جاوز المكان الذي أُمِر به، فقال له فتاه: أرأيتَ إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيتُ الحوتَ، وما أنسانيهُ إلا الشيطانُ. قال موسى: ذلك ما كنا نَبْغي فارتدَّا على آثارِهما قصصًا. فلما انتهيا إلى الصخرة، إذا رجل مُسَجًّى بثوب، أو قال تَسَجَّى بثوبه، فسلَّم موسى، فقال الخَضِر: وأنَّى بأرضك السلام؟ فقال: أنا موسى، فقال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: هل أتَّبِعُك على أن تُعَلِّمَني مما عُلِّمْتَ رُشْدًا قال: إنَّك لن تستطيع معيَ صبرا، يا موسى إني على علم من علم الله علَّمَنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علَّمَكَه لا أعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، ليس لهما سفينة، فمرَّت بهما سفينة، فكلَّموهم أن يحملوهما، فعرف الخَضِر فحملوهما بغير نَوْل، فجاء عصفور، فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعَمَد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة، فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نَوْل عَمَدتَ إلى سفينتهم فخرقتها لتُغْرِق أهلها؟ قال: ألم أقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيتُ ولا تُرْهِقْني من أمري عُسْرًا -فكانت الأولى من موسى نسياناً-، فانطلقا، فإذا غُلام يلعب مع الغِلمان، فأخذ الخَضِر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلتَ نفسا زكِيَّة بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا؟ -قال ابن عيينة: وهذا أوكد- فانطلقا، حتى إذا أتيا أهل قرية استَطْعما أهلَها، فأَبَوْا أن يُضَيِّفوهما، فوجدا فيها جدارًا يريد أن يَنْقَضَّ فأقامه، قال الخضر: بيده فأقامه، فقال له موسى: لو شئتَ لاتخذتَ عليه أجرا، قال: هذا فِراق بيني وبينك». قال النبي صلى الله عليه وسلم: «يرحمُ اللهُ موسى، لوَدِدْنا لو صبر حتى يُقَصَّ علينا من أمرهما».

سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بَکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) (جو خضر کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ (ایک روز) موسیٰ (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا، (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) بولے کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہاں سے اُلٹے پاؤں واپس ہوئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا لپیٹے ہوئے یا کپڑے میں لپٹا ہوا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام کیا، خضر نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ اے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہوگا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے، پھر خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی کی لکڑی اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟ (اس پر) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے اور مجھے اپنے کام میں تنگی میں نہ ڈالیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔
پھر دونوں چلے ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا؟ خضر (علیہ السلام) بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (اس میں ’لک‘ زائد ہے جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کردیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان ہوتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول سعيد بن جُبير إنه أخبر ابن عباس أن رجلًا يُسمى نَوْفًا البَكالي زعم أنَّ موسى الذي كان مع الخضر ليس بموسى المرسَل لبني إسرائيل، إنما هو موسى آخر؟ فقال ابن عباس: (كذب عدوّ الله) وهذا خرج منه مخرج الزجر والتحذير لا القدح في نوف، لأن ابن عباس قال ذلك في حال غضبه وألفاظ الغضب تقع على غير الحقيقة غالبًا وتكذيبه له لكونه قال غير الواقع ولا يلزم منه تعمده.
ثم استدل على كذب نوف بأن أبي بن كعب حدثه عن النبي صلى الله عليه وسلم أن موسى قام خطيبًا في بني إسرائيل فسأله رجل: من أعلم الناس؟ فقال: أنا أعلم الناس. وهذا قاله موسى عليه السلام بحسب اعتقاده، فعاتبه الله عز وجل حيث لم يرد العلم إليه، ولم يقل: الله أعلم. فأوحى الله تعالى إليه أنه يوجد عبد من عبادي يسمى الخضر عند ملتقى البحرين هو أعلم منك فقال: يا رب، كيف الطريق إلى لقائه؟ فقال له: احمل حوتًا في وعاء من خوص فإذا فقدت الحوت، فستجد الخضر هناك فانطلق موسى بخادم له يُسمَّى يوشع بن نون، وحملا حوتًا في وعاء من خوص كما أمره الله به، حتى إذا كانا عند صخرة عند ساحل البحر وضعا رؤوسهما على الأرض وناما، فخرج الحوت من الوعاء، واتخذ طريقا إلى البحر وأمسك الله عن الحوت جرية الماء فصار عليه مثل الطاق، وكان إحياء الحوت وإمساك جرية الماء حتى صار مسلكًا بعد ذلك عجبًا لموسى وخادمه، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما فلما أصبح قال موسى لخادمه: آتنا غداءنا لقد تعبنا من سفرنا هذا، ولم يجد موسى عليه السلام تعبًا حتى جاوز المكان الذي أُمر به فأُلقي عليه الجوع والتعب، فقال له خادمه: إننا عندما كنا عند الصخرة فإني فقدت الحوت. فقال موسى: هذا الذي كنا نطلب لأنه علامة وجدان الخضر، فرجعا في الطريق الذي جاءا فيه يتبعان آثارهما اتباعًا، فلما أتيا إلى الصخرة إذا رجل مغطًّى كله بثوب، فسلم موسى عليه، فقال الخضر: (وأنَّى بأرضك السلام) أي: وهل بأرضي من سلام؟ وهو استفهام استبعاد، يدل على أن أهل تلك الأرض لم يكونوا إذ ذاك مسلمين.
فقال موسى للخضر: أنا موسى. فقال له الخضر: أنت موسى الذي أُرسل إلى بني اسرائيل؟ فقال موسى: نعم. وهذا يدل على أن الأنبياء ومن دونهم لا يعلمون من الغيب إلا ما علمهم الله تعالى، لأن الخضر لو كان يعلم كل غيب لعرف موسى قبل أن يسأله، وهذا محل الشاهد الذي لأجله ذكر ابن عباس الحديث، ثم قال له موسى: هل أتبعك على أن تعلمني من الذي علمك الله علمًا، ولا ينافي نبوّته وكونه صاحب شريعة أن يتعلم من غيره ما لم يكن شرطًا في أبواب الدين، فإن الرسول ينبغي أن يكون أعلم ممن أُرسل إليه فيما بُعث به من أصول الدين وفروعه لا مطلقًا. فأجابه الخضر بقوله: إنك لن تستطيع معي صبرًا؛ فإني أفعل أمورًا ظاهرها مناكير وباطنها لم تُحط به. ثم قال له: يا موسى إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علمكه الله إياه لا أعلمه. فقال له موسى: ستجدني إن شاء الله صابرًا معك غير منكر عليك، ولن أعصي لك أمرًا. فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة فكلموا أصحاب السفينة أن يحملوهما فعرف أصحابُ السفينة الخضر فحملوهما بغير أُجرة، فجاء عصفور فوقف على حرف السفينة فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر. فقصد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه بفأس فانخرقت السفينة ودخل الماء، فقال له موسى عليه السلام: هؤلاء قوم حملونا بغير أجر قصدت إلى سفينتهم فخرقتها لتُغرق أهلها. قال الخضر مذكِّرًا له بما قال له من قبل: ألم أقل إنك لن تستطيع معي صبرًا. قال موسى: لا تؤاخذني بنسياني ولا تضيق عليَّ، فإن ذلك يُعَسِّر علي متابعتك. فكانت المسألة الأولى من موسى عليه السلام نسيانًا.
فانطلقا بعد خروجهما من السفينة، فإذا هم بغلام يلعب مع الغلمان فأخذ الخضر برأس الغلام فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى للخضر عليه السلام: أقتلت نفسًا طاهرة من الذنوب، لم نرها أذنبت ذنبًا يقتضي قتلها، أو قتلت نفسًا فتُقتل به. فقال الخضر لموسى عليهما السلام: ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرًا. بزيادة «لك» في هذه المرة زيادة في العتاب، ولذلك قال سفيان بن عيينة أحد رواة الحديث: وهذا أوكد. واستدل عليه بزيادة «لك» في هذه المرة. فانطلقا حتى مرَّا بأهل قرية فطلبا منهم الطعام فامتنعوا أن يضيفوهما، ولم يجدوا في تلك القرية ضيافة ولا مأوى، فوجدا فيها جدارًا قد أوشك على السقوط والانهيار فأشار الخضر بيده فأقامه، فقال موسى للخضر: لو شئت لأخذت عليه أجرًا فيكون لنا عونا على سفرنا. فقال الخضر لموسى عليه السلام: هذا الاعتراض الثالث سبب للفراق بيني وبينك. قال النبي صلى الله عليه وسلم: يرحم الله موسى لقد أحببنا وتمنينا أن لو صبر حتى نستزيد مما دار بينهما من العلم والحكمة.
587;عید بن جبیرکہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ وہ موسی (جو خضر کے ساتھ گئے تھے) بنی اسرائیل کے موسی نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسی ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے، یہ جملہ ان سے ڈانٹ اور انتباہ کے طور پر نکلا تھا نوف پر طعنہ زنی کے طورپر نہیں، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حالت غضب میں کہا تھا اور حالت غضب میں نکلے ہوئے الفاظ غالباً حقیقت کے خلاف واقع ہوا کرتے ہیں، چونکہ اس نے خلافِ واقع بات کہی تھی اس لیے ان کو جھٹلایا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نوف نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا۔
پھر آپ نے نوف بکالی کے جھوٹ کے خلاف دلیل دی کہ ان سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحبِ علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا اور اللہ أعلم نہیں کہا۔ چنانچہ اللہ نے ان کے اوپر وحی نازل فرمائی کہ میرا ایک بندہ دو دریا کے ملنے کی جگہ پر ہے جس کا نام خضر ہے وہ تم سے زیادہ علم والا ہے، موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب! ان سے ملاقات کی کیا صورت ہے؟ اللہ نے حکم دیا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو جس جگہ یہ مچھلی گم ہو جائے وہ وہیں پر ملے گے، پھر موسی علیہ السلام ایک مچھلی کو زنبیل میں رکھ کر جیسا کہ اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا تھا چلے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے جن کا نام یوشع بن نون تھا۔ یہاں تک کہ جب دونوں ایک چٹان کے پاس سمندر کے ساحل پر پہنچے تو وہ دونوں اپنے سر کو زمین پر رکھ کر سو گئے، چنانچہ مچھلی زنبیل سے نکل بھاگی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا اللہ تعالٰی نے مچھلی کے کودنے سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا موسی علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، چنانچہ وہ دونوں ایک رات اور ایک دن میں جتنا باقی رہ گیا تھا وہ چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسی علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ ہم تو اس سفر سے تھک گئے، موسی علیہ السلام کو اس وقت تک تھکان نے چھوا بھی نہیں مگر جب وہ اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک انہیں جانے کا حکم ہوا تھا، اس وقت ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس پہنچے تھے تو مچھلی نکل بھاگی تھی، موسی علیہ السلام نے کہا ہم تو اسی کے تلاش میں تھے کیونکہ یہ نشانی ہے خضر سے ملنے کی، آخر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے جب اس چٹان کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑے میں لپٹے ہوئے یا کپڑا لپیٹتے ہوئے موجود ہے، موسی علیہ السلام نے ان سے سلام کیا تو خضر نے کہا ’’وأنَّى بأرضك السلام‘‘ یعنی تمہارے ملک میں سلامتی کہاں ہے؟ یہ استفہام استبعاد ہے یعنی یہ تو خارج از امکان ہے، اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس ملک والے اس وقت مسلمان نہیں تھے۔
موسی علیہ السلام نے خضر سے کہا میں موسی ہوں خضر نے پوچھا بنی اسرائیل کی طرف مبعوث موسی؟ موسی علیہ السلام نے کہا ہاں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور ان کے علاوہ (کوئی بھی) غیب نہیں جانتے، ہاں مگر جن چیزوں کے بارے میں اللہ نے انبیاء کو خبر کیا ہو کیونکہ اگر خضر تمام غیب کی چیزوں کو جانتے تو ان سے سوال کرنے سے پہلے پہچان لیتے، یہی بات محل شاہد ہے جس کی وجہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث کو ذکر کیا۔
پھر ان سے موسی علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم سکھلائیں جو علم کی باتیں آپ کو سکھائی گئی ہیں؟ یہ کہنا نبی ہونے کے منافی نہیں ہے اور کسی صاحب شریعت کا اپنے علاوہ سے تعلیم سیکھنا دین کے معاملے کے علاوہ شرط نہیں ہے کیونکہ رسول کا ان سے زیادہ جاننا جن کی طرف وہ بھیجے گئے دین کے اصول اور فروع میں ہے نہ کہ ہرعلم میں، خضر نے کہا تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ہو کیونکہ میں بظاہر ایسے کام کرتا ہوں جو کہ منکر ہیں اور ان کي باطن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر ان سے کہا اے موسی! اللہ نے ہمیں وہ علم دیا ہے جو تمہیں نہیں دیا ہے اور اللہ نے جو تمہیں علم دیا ہے وہ علم مجھے نہیں دیا ہے۔ موسی علیہ السلام نےکہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے یعنی اس پر میں کوئی نکیر نہ کروں گا اور نہ تو میں آپ کی کوئی نافرمانی کروں گا۔ چنانچہ وہ دونوں دریا کے کنارے چلنے لگے ان دونوں کے پاس کشتی نہیں تھی، اتنے میں ادھر سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں سوار کر لو چنانچہ انہوں نے خضر کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر اجرت لیے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی پھر اس نے ایک یا دو چونچیں سمندر میں ماریں۔ خضر نے کہا اے موسی! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اتنا ہی علم لیا ہے جتنا کہ اس چڑیا کی چونچ میں پانی آیا ہے۔ اس کے بعد خضر نے کشتی کی تختیوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے کلہاڑی سے اکھاڑ ڈالا کشتی میں سوراخ ہو گیا اور پانی داخل ہو گیا موسی علیہ السلام نے کہا ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر اجرت لیے سوار کر لیا اور آپ نے ان کی کشتی میں سوراخ کر دیا اور کشتی والوں کو ڈبانا چاہا، خضر انہیں یاد دِلاتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، موسی علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کریں اور مجھے مشکل میں نہ ڈالیں اس لیے کہ ایسا کرنے سے آپ کی پیروی نہیں کر پاؤں گا یہ پہلا اعتراض موسی کا بھولے سے ہی تھا۔
پھر دونوں کشتی سے اترنے کے بعد چلے ایک لڑکا کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر نے اس کے سر کو اوپر سے پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے الگ کردیا۔ موسی علیہ السلام نے کہا تم نے ایک معصوم جان کا نا حق خون کیا، خضر نے کہا میں نے تم سے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ سفیان بن عیینہ حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں انہوں نے کہا یہ بات پہلے سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ اس بار ’’ لک ‘‘یعنی خطاب کے صیغے کا استعمال کیا۔ پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا چنانچہ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا اس گاؤں میں کوئی مہمان نواز اور