Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
       

 
Hadith   791   الحديث
الأهمية: بعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عشرة رهْطٍ عيْنًا سَرِيةً، وأمّر عليها عاصم بن ثابت الأنصاري -رضي الله عنه-


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: بَعَث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهْط عيْنا سرية، وأمّر عليها عاصم بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهَدْأة؛ بين عُسْفان ومكة؛ ذكروا لِحَيٍ من هُذَيْل يقال لهم: بنو لحيَان، فنَفَروا لهم بقريب من مائة رجل رام، فاقتصُّوا آثارهم، فلما أحسَّ بهم عاصم وأصحابه، لَجَأوا إلى موضع، فأحاط بهم القوم، فقالوا: انزلوا فأَعْطُوا بأيديكم ولكم العهد والميثاق أن لا نقتل منكم أحدا. فقال عاصم بن ثابت: أيها القوم، أما أنا، فلا أَنْزل على ذِمَّة كافر: اللهم أخبِرْ عَنَّا نبيك -صلى الله عليه وسلم- فرموهم بالنّبْل فقتلوا عاصما، ونزل إليهم ثلاثة نفر على العهد والميثاق، منهم خُبَيب، وزيد بن الدِّثِنَة ورجل آخر. فلما اسْتَمْكَنوا منهم أطلقوا أوتار قِسِيِّهم، فربطوهم بها. قال الرجل الثالث: هذا أول الغَدْر والله لا أصحبكم إن لي بهؤلاء أُسْوة، يريد القتلى، فجرُّوه وعالَجوه، فأبى أن يصحبهم، فقتلوه، وانطلقوا بخُبيب، وزيد بن الدِّثِنِة، حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر؛ فابتاع بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد مُناف خُبيبا، وكان خُبيب هو قَتَل الحارث يوم بدر. فلبث خُبيب عندهم أسيرا حتى أجْمعوا على قتله، فاستعار من بعض بنات الحارث موسى يستَحِدُّ بها فأعارته، فدَرَج بُنَيٌّ لها وهي غافلة حتى أتاه، فوجدَتْه مُجْلِسه على فخذه والمُوسى بيده، ففزعت فزعة عرفها خُبيب. فقال: أتخشين أن أقتله ما كنت لأفعل ذلك! قالت: والله ما رأيت أسيرا خيرا من خُبيب، فوالله لقد وجدته يوما يأكل قِطْفا من عنب في يده وإنه لموثَق بالحديد وما بمكة من ثمرة، وكانت تقول: إنه لَرِزْق رَزَقه الله خبيبا. فلما خرجوا به من الحرم ليقتلوه في الحِلِّ، قال لهم خُبيب: دعوني أصلِّي ركعتين، فتركوه، فركع ركعتين فقال: والله لولا أن تحسبوا أن ما بي جَزَع لزدتُ: اللهم أحْصِهم عددا، واقتلهم بِدَدَا، ولا تُبْقِ منهم أحدا. وقال:   فلسْتُ أُبالي حين أُقتَل مسلما... على أي جنْب كان لله مصرعي   وذلك في ذات الإله وإن يشأْ... يباركْ على أوصال شِلْوٍ مُمَزَّع.
 وكان خُبيب هو سَنَّ لكل مسلم قُتِل صْبرا الصلاة. وأخبر - يعني: النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه يوم أصيبوا خبرهم، وبعث ناس من قُريش إلى عاصم بن ثابت حين حُدِّثُوا أنه قُتل أن يُؤتوا بشيء منه يُعرف، وكان قتل رجلا من عظمائهم، فبعث الله لعاصم مثل الظُلَّة من الدَّبْرِ فحَمَتْه من رُسُلهم، فلم يقدروا أن يقطعوا منه شيئا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دس جاسوسوں کی ایک جماعت بھیجی اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان واقع مقام 'ھدأہ' پر پہنچے، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک شاخ، جسے بنی لحیان کہا جاتا تھا، اسے کسی نے ان کے آنے کی خبر کردی۔ چنانچہ انھوں نے سو تیر اندازوں کو ان کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ وہ ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوۓ چل پڑے۔ جب عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی آمدکا پتہ چلا، تو انھوں نے ایک (محفوظ)جگہ پناہ لے لی۔ قبیلے والوں نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ ہماری پناہ قبول کر لو۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمھارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو! میں کسی کافر کے امان میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انھوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے ۔آخر قبیلے والوں نے مسلمانوں پر تیر برساۓ اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں، ان کے وعدے پر تین صحابہ اتر آئے۔ جن میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلے والوں نے جب ان تینوں صحابہ پر قابو پا لیا تو اپنے تیر کی کمان سے تانت نکال کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا: یہ تمھاری پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو وہی نمونہ ہیں۔ ان کا اشارہ مقتول صحابہ کی طرف تھا۔ کفار نے انھیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی، لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ انھوں نے ان کو بھی شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور مکہ میں لے جا کرانھیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے۔ بالآخر انھوں نے ان کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔ (انھیں دنوں) حارث کی کسی لڑکی سے انھوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ وہ دیکھتی کیا ہے کہ اس کا بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ حد درجہ گھبرا گئی۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور بولے: کیا تمھیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کے ہاتھ میں موجود انگور کے ایک خوشہ سے انھیں کھاتے دیکھا، حالاں کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ وہ در اصل خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی روزی تھی۔ پھر بنو حارثہ انھیں قتل کرنے کے لیے حدودِ حرم سے باہر ”حِل“ لے جانے لگے۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ انھوں نے اس کی اجازت دی، تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید پڑھتا۔ پھر انھوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ اور یہ اشعار پڑھے:
جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔
اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے ہر اس مسلمان کے لیے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز پڑھنے کی سنت قائم کردی، جسے قید کر کے قتل کیاجائے۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے اسی دن اپنے صحابہ کو ان دس صحابہ کی خبر دے دی، جس دن ان پر یہ مصیبت آن پڑی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے ہیں، تو ان (کی نعش) کے پاس اپنے آدمی بھیجے؛ تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں، جس سے ان کی شناخت ہوجائے؛ کیوں کہ انھوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عاصم رضی اللہ عنہ کی نعش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور ان بھڑوں نے آپ کی نعش کو کفار قریش کے ان قاصدین سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في قصة عاصم بن ثابت الأنصاري وصحبه رضي الله عنهم كرامة ظاهرة لجماعة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقد أرسلهم النبي صلى الله عليه وسلم -وهم عشرة- جواسيس على العدو، ليأتوا بأخبارهم وأسرارهم, فلما وصلوا قرب مكة شعر بهم جماعة من هذيل، فخرجوا إليهم في نحو مائة رجل يجيدون الرمي، فاتبعوا آثارهم حتى أحاطوا بهم، ثم طلب هؤلاء الهذليون منهم أن ينزلوا بأمان، وأعطوهم عهدًا أن لا يقتلوهم، فأما عاصم فقال: والله لا أنزل على عهد كافر؛ لأن الكافر قد خان الله عز وجل، ومن خان الله خان عباد الله، فرموهم بالسهام، فقتلوا عاصمًا وقتلوا ستة آخرين، وبقي منهم ثلاثة، وافقوا على النزول، فأخذهم الهذليون وربطوا أيديهم، فقال الثالث: هذا أول الغدر، لا يمكن أن أصحبكم أبدًا، فقتلوه، ثم ذهبوا بخبيب وصاحبه إلى مكة فباعوهما، فاشترى خبيباً رضي الله عنه أناسٌ من أهل مكة قد قتل زعيمًا لهم في بدر، ورأوا أن هذه فرصة للانتقام منه، وأبقوه عندهم أسيرًا، وفي يوم من الأيام اقترب صبي من أهل البيت إلى خبيب رضي الله عنه، فكأنه رق له ورحمه فأخذ الصبي ووضعه على فخذه وكان قد استعار من أهل البيت موسى ليستحد به، وأمّ الصبي غافلة عن ذلك، فلما انتبهت خافت أن يقتله لكنه رضي الله عنه، لما أحس أنها خافت قال: والله ما كنت لأذبحه، وكانت هذه المرأة تقول: والله ما رأيت أسيراً خيراً من خبيب، رأيته ذات يوم وفي يده عنقود عنب يأكله، ومكة ما فيها ثمر، فعلمت أن ذلك من عند الله عز وجل كرامة لخبيب رضي الله عنه، أكرمه الله سبحانه وتعالى، فأنزل عليه عنقودا من العنب يأكلها وهو أسير في مكة، ثم أجمع هؤلاء القوم -الذين قُتل والدهم على يد خبيب- أن يقتلوه، لكن لاحترامهم للحرم قالوا: نقتله خارج الحرم، فلما خرجوا بخبيب خارج الحرم إلى الحل ليقتلوه، طلب منهم أن يصلي ركعتين، فلما انتهى منها قال: لولا أني أخاف أن تقولوا: إنه خاف من القتل أو كلمة نحوها، لزدت، ولكنه رضي الله عنه صلى ركعتين فقط, ثم دعا عليهم رضي الله عنه بهذه الدعوات الثلاث: اللهم أحصهم عددًا، واقتلهم بددا، ولا تبق منهم أحدًا.
فأجاب الله دعوته، وما دار الحول على واحد منهم، كلهم قتلوا وهذا من كرامته.
579;م أنشد هذا الشعر:
ولست أبالي حين أقتل مسلمًا ... على أي جنب كان لله مصرعي
وذلك في ذات الإله فإن يشأ ... يبارك على أوصال شلو ممزع
 وأما عاصم بن ثابت الذي قتل رضي الله عنه، فقد سمع به قوم من قريش، وكان قد قتل رجلاً من عظمائهم فأرسلوا إليه جماعة يأتون بشيء من أعضائه يُعرف به حتى يطمئنوا أنه قُتل، فلما جاء هؤلاء القوم ليأخذوا شيئاً من أعضائه، أرسل الله سبحانه وتعالى عليه شيئاً مثل السحابة من النحل, يحميه به الله تعالى من هؤلاء القوم، فعجزوا أن يقربوه ورجعوا خائبين.
وهذا أيضاً من كرامة الله سبحانه وتعالى لعاصم رضي الله عنه، أن الله سبحانه وتعالى حمى جسده بعد موته من هؤلاء الأعداء الذين يريدون أن يمثلوا به.
عاصم بن ثابت انصاری اور ان کے ساتھی صحابہ رضی اللہ عنھم کے اس قصے میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک واضح کرامت کا ثبوت ہے۔ نبی ﷺ نے ان دس صحابہ رضی اللہ عنھم کو دشمنان اسلام کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا تھا؛ تاکہ ان کی خبریں اور خفیہ اطلاعات بہم پہنچائیں۔ جب صحابہ کی یہ جماعت، مکہ مکرمہ کے قریب پہنچی، تو قبیلۂ ہذیل کی ایک جماعت کو ان کی آمد کا پتہ چل گیا اور ماہر تیر اندازوں پر مشتمل لگ بھگ سو افراد کی جمعیت ان کی جانب نکل پڑی۔ انھوں نے نقش قدم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کا گھیراؤ کرلیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان کے امان میں نیچے اتر جائیں۔ انھوں نے یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ انھیں قتل نہیں کریں گے۔ لیکن عاصم رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ میں کسی کافر کے عہد وپیمان پر نہیں اتروں گا؛ کیوں کہ کافر نے اللہ سے خیانت کی ہے اور جو اللہ سے خیانت کر سکتا ہے، وہ اس کے بندوں سے بھی کر سکتا ہے۔ انھوں نے صحابہ پر تیر برسانی شروع کردی اور عاصم اور دیگر چھے صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شہید کردیا۔ دس میں سے تین باقی رہ گئے، جو نیچے اترنے پر راضی ہوگئے۔ ہذیلیوں نے انھیں پکڑلیا اور ان کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اس پر تیسرے صحابی نے کہا کہ یہ سب سے پہلی عہد شکنی ہے۔ میں تمھارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے انھیں بھی شہید کردیا۔ پھر انھوں نے خبیب اور ان کے ساتھی کو مکہ لے جاکر فروخت کردیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ میں سے ان لوگوں نے خریدلیا، جن کے ایک سردار کو خبیب رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں قتل کیا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ان سے بدلہ لینے کا یہی موقع ہے۔ انھوں نے خبیب کو اپنے ہاں قید رکھا۔ انھیں دنوں بنو حارثہ کے گھر کا ایک چھوٹا سا بچہ خبیب رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچ گیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ کے دل میں اس بچے کے لیے شفقت و رحمت کے جذبات امنڈ پڑے۔ انھوں نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا۔ قبل ازیں انھوں نےاپنے زیرناف بال کاٹنے کے لیے گھر والوں سے استرہ مانگ کر لیا تھا اور بچے کی ماں اس سے بالکل ان جان تھی۔ جب اس کو اس امر کا پتہ چلا تو خو ف زدہ ہوگئی کہ کہیں خبیب بچے کو قتل نہ کردیں؛ صحابی رضی اللہ عنہ نے جب محسوس کیا کہ بچے کی ماں خوف زدہ ہوگئی ہے، تو اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کی قسم! میرا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ خاتون کہا کرتی تھیں:اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں انگور کا ایک گچھا ہے، جس میں سے وہ کھا رہے ہیں، جب کہ مکہ مکرمہ میں کوئی پھل نہیں تھا۔ میں جان گئی کہ یہ اللہ عز وجل کی جانب سے خبیب رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کا ایک مظہر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکے میں اسیری کی حالت میں ان کے کھانے کا انتظام کرتے ہوئے (آسمان سے) انگور کے گچھے نازل فرمادیے۔ پھر ان لوگوں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا، جن کے والد کو انھوں نے(غزوۂ بدرمیں)قتل کیا تھا، لیکن حرم مکہ کے احترام میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں حدود حرم کے باہر لے جاکر قتل کریں گے۔ چنانچہ جب وہ خبیب کو قتل کرنے کے لیے حدود حرم کے باہر "حل" کی جانب نکلے،تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے دو رکعت نماز ادا کرنے کی درخواست کی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم یہ کہنے لگو کہ یہ قتل ہونے سے ڈر گیا ہے-یا اس جیسی کوئی اور بات کہی-، تو اور نمازیں پڑھتا۔ انھوں نے دو رکعت ہی پڑھی اور پھر ان کے حق میں تین بد دعائیں کیں: اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو گن لے، ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ رہنے دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی۔ ان میں سے کوئی بھی اس سال زندہ نہ رہا، بلکہ ان سب کو قتل کردیا گیا۔ یہ بھی اس صحابی جلیل کے شرف و کرامات میں سے ہے۔
پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھائے:
جب میں اسلام کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ سب تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے، تو میرےپھٹے ہوۓ جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے۔
دوسری جانب، شہید ہونے والے صحابی عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خبر جب قریش کے بعض لوگوں تک پہنچی، جن کے ایک سردار کو عاصم نے قتل کیا تھا، تو انھوں نے کچھ لوگوں کو ان کی شناخت کے لیے ان کے کسی عضو کو کاٹ کر لانے کی خاطر روانہ کیا؛ تاکہ انھیں اطمینان ہوجائے کہ واقعی انھیں کو قتل کیا گیا ہے۔ جب یہ لوگ ان کا کوئی عضو حاصل کرنے کے لیے پہنچے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کا جھنڈ بھیجا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے ان کی حفاظت فرمائی۔ دشمن ان کے پاس پہنچنے سےعاجز رہ گئے اور ناکام و نامراد لوٹ گئے۔
یہ بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عاصم رضی اللہ عنہ کےلیے شرف و کرامت کا اظہار تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے جسم کو دشمنوں سے محفوظ رکھا، جو ان کے جسم کا مثلہ کرنے کے خواہش مند تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5001

 
 
Hadith   792   الحديث
الأهمية: العبادة في الهَرْج كهجرة إليَّ


Tema:

فتنہ اور فساد کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا۔

عن معقل بن يسار -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «العبادة في الهَرْج كهجرة إليَّ».

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فتنہ اور فساد کے زمانے میں عبادت کرنا ایسے ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث أنَّ من ابتعد عن مواطن الفتن والقتل واختلاط الأمور وفساد الدين، ثم أقبل على عبادة ربه، والتمسك بسنة نبيه كان له من الأجر والمثوبة كمن هاجر إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فتنہ، قتل وغارت گری اورمعاملات میں گڑ بڑ اور فساد دین کی جگہوں سے دور رکھتا ہے، اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتا ہے اور اپنے نبی کی سنت پر کاربند رہتا ہے، اسے اس شخص کی طرح کا اجرو ثواب ملتا ہے، جس نے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5020

 
 
Hadith   793   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لحينا وميتنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، وشاهدنا وغائبنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده


Tema:

اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے چھوٹے اور بڑے کو، ہمارے مردوں اور عورتوں کو، ہمارے حاضر اور غائب سب کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔ اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور ہمیں اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ کر۔

عن أَبي هريرة وأبي قتادة وَأبي إبراهيم الأشهلي عن أبيه -وأبوه صَحَابيٌّ- -رضي الله عنهم- عن النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- أنه صلى على جِنَازَةٍ، فقال: «اللهم اغفر لِحَيِّنَا ومَيِّتِنَا، وصغيرنا وكبيرنا، وذَكرنا وأُنثانا، وشَاهِدِنَا وغَائِبِنَا، اللهم مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ على الإسلامِ، ومَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفِّهِ على الإيمانِ، اللهم لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، ولا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ».

ابوہریرہ، ابو قتادہ اور ابو ابراہیم اشھلی اپنے والد ‘جو کہ صحابی ہیں رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک جنازے کی نماز پڑھائی اور آپ نے یہ دعا پڑھی: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرنَا وَكَبيرنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإسْلاَمِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوفَّهُ عَلَى الإيمَان، اللَّهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلاَ تَفْتِنَّا بَعدَهُ“ اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے چھوٹے اور بڑے کو، ہمارے مردوں اور عورتوں کو، ہمارے حاضر اور غائب سب کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔ اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور ہمیں اس کے بعد کسی فتنے میں مبتلا نہ کر۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى على جنازة قال ما معناه: اللهم اغفر لجميع أحيائنا وأمواتنا معشر المسلمين، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، وحاضرنا وغائبنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على التمسك بشرائع الاسلام ، ومن قبضت روحه فاقبضها على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجر المصيبة فيه، ولا تضلنا بعده.
606;بی ﷺ جب جنازہ پڑھاتے تو اِس مفہوم کی دعا فرماتے: اے اللہ! مسلمان معاشرے میں ہمارے تمام زندوں اور مُردوں، ہمارے چھوٹوں اور بڑوں، ہمارے مردوں اور عورتوں اور حاضرین و غائبین کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے زندہ رکھ اور جسے تو موت دے اسے ایمان کی حالت میں موت دے۔ یا اللہ! ہمیں مصیبت کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5021

 
 
Hadith   794   الحديث
الأهمية: اللهم إن فلان ابن فلان في ذمتك وحبل جوارك، فقه فتنة القبر، وعذاب النار، وأنت أهل الوفاء والحمد؛ اللهم فاغفر له وارحمه، إنك أنت الغفور الرحيم


Tema:

اے اللہ! فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری حفاظت کی پناہ میں ہے، تو اسے قبر کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما، تو وعدے کو پورا کرنے والا اور لائق ستائش ہے۔ اے اللہ! تو اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما، بے شک تو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

عن واثلة بن الأسقع -رضي الله عنه- مرفوعاً: « صلى بنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على رجل من المسلمين، فسمعته يقول: «اللهم إن فلان ابن فلان في ذمتك وحبل جِوَارِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ القبر، وعذاب النار، وأنت أهل الوفاء والحمد؛ اللهم فاغفر له وارحمه، إنك أنت الغفور الرحيم».

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی۔ میں نے آپ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا: ”اللَّهُمَّ إنَّ فُلانَ ابْنَ فُلانٍ في ذِمَتِّكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ القَبْرِ، وَعذَابَ النَّار، وَأَنْتَ أهْلُ الوَفَاءِ وَالحَمْدِ؛ اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحيمُ“ اے اللہ! فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری حفاظت کی پناہ میں ہے، تو اسے قبر کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما، تو وعدے کو پورا کرنے والا اور لائق ستائش ہے۔ اے اللہ! تو اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما، بے شک تو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة الجنازة على رجل من المسلمين، ثم قال ما معناه: اللهم إن فلان بن فلان في أمانك وحفظك وطلب مغفرتك؛ فثبته عند سؤال الامتحان في القبر، ونجِّه من عذاب النار، فإنك لا تخلف الميعاد، وأنت أهل الحق، فاللهم اغفر له وارحمه، إنك كثير المغفرة للسيئات، وكثير الرحمة بقبول الطاعات ومضاعفة الحسنات.
585;سول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں دعا فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے: اے اللہ! فلاں بن فلاں تیرے حفظ و امان میں ہے اور تیری مغفرت کا طلب گار ہے۔ لہٰذا قبر میں بطور امتحان پوچھے جانے والے سوال پر اسے ثابت قدم رکھ اور اسے آگ کے عذاب سے نجات دے، بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا اور تو حق والا ہے۔ اے اللہ! پس تو اسے بخش دے، اور اس پر رحم فرما، یقیناً تو گناہوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والا، اور نیکیوں کو قبول کر کے اور انہیں کئی چند کرکے بہت ہی رحمت کرنے والا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5022

 
 
Hadith   795   الحديث
الأهمية: اللهم أنت عضدي ونصيري، بك أحول، وبك أصول، وبك أقاتل


Tema:

اے اللہ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں جنگ کرتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا غزا، قال: «اللهم أنت عَضُدِي ونَصِيرِي، بِكَ أَحُول، وبِكَ أَصُول، وبك أقاتل».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ کرتے تھے تو فرماتے : ”اللَّهُمَّ أنْتَ عَضْديِ وَنَصِيرِي، بِكَ أَحُولُ، وَبِكَ أَصُولُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ“ اے اللہ! تو ہی میرا بازو اور مددگار ہے، تیری ہی مدد سے میں چلتا پھرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں قتال کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد غزوة أو شرع فيها، قال ما معناه: اللهم أنت ناصري ونَصيري، بك وحدك أنتقل من شأن إلى غيره، وبك وحدك أثب على أعداء الدين، وبك أقاتلهم.
585;سول اللہﷺ جب کسی جنگ کا ارادہ فرماتے یا پھر جنگ شروع کرتے تو ایسی بات کہتے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’اے اللہ ! تو ہی میرا معاون و مددگار ہے۔ تیری ہی بدولت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتا ہوں۔ اور محض تیری مدد سے میں دشمنان دین پر حملہ آور ہوتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں ان سے لڑتا ہوں‘۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5024

 
 
Hadith   796   الحديث
الأهمية: إن العبد إذا نصح لسيده، وأحسن عبادة الله، فله أجره مرتين


Tema:

بے شک اگر کوئی غلام اپنےآقا کا خیر خواہ رہے، اور اللہ کی عبادت بہترین طریقے سے کرے تو اس پر اس (غلام ) کو دہرا اجر ملے گا۔

عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إن العبد إذا نصح لسيده، وأحسن عبادة الله، فله أجره مرتين».   عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «المملوك الذي يحسن عبادة ربه، ويُؤدي إلى سيده الذي عليه من الحق، والنصيحة، والطاعة، له أجران».

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اگر کوئی غلام اپنےآقا کا خیر خواہ رہے اور اللہ کی عبادت بہترین طریقے سے کرے تو اس پر اس (غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا غلام جو اپنے رب کی عبادت بہترین طریقے سے کرے اور اس پر اپنے آقا کا جو حق اس پر واجب ہے اسے ادا کرے ، اس کا خیر خواہ اور فرماں بردار رہے تو اس عمل پر اس(غلام) کو دہرا اجر ملے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل الله على العبد الذي يُؤدي حق ربه بفعل الطاعات، وحق سيده بخدمته ورعاية مصالحه، وأنَّه ينال بذلك الأجر مرتين.
575;س حدیث میں اس غلام پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کا بیان ہے، جو اپنے رب کا حقِ اطاعت ادا کر کے اور اپنے آقا کا حق اس کی خدمت اور اس کے مفادات کی پاسداری کر کے ادا کرتا ہے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس پر وہ دہرا اجر پائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5025

 
 
Hadith   797   الحديث
الأهمية: إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون


Tema:

آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔

عن أنس -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- دخل على ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- وهو يجود بنفسه، فجعلت عينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- تذرفان. فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله؟! فقال: «يا ابن عوف إنها رحمة» ثم أتبعها بأخرى، فقال: «إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جو آخری سانسیں لے رہے تھے۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ اس پر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ بھی رو رہے ہیں؟! آپ ﷺ نے فرمایا: اے عوف کے بیٹے! یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- وهو يقارب الموت، فجعلت عينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يجري دمعهما فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله على معنى التعجب، أي الناس لا يصبرون على المصيبة وأنت تفعل كفعلهم؟ كأنه تعجب لذلك منه مع عهده منه أنه يحث على الصبر وينهى عن الجزع، فأجابه بقوله: "إنها رحمة" أي الحالة التي شاهدتها مني هي رقة القلب على الولد ثم أتبعها بجملة أخرى فقال: "إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا" أي: لا نتسخط ونصبر، "وإنا لفراقك يا إبراهيم لمحزونون"، فالرحمة لا تنافي الصبر والإيمان بالقدر.
585;سول اللہ ﷺ اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس تشریف لائے جو قریب المرگ تھے۔ اس پر آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ یہ دیکھ کر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تعجب بھرے انداز میں کہا کہ: یا رسول اللہ! آپ بھی ایسے کر رہے ہیں؟ یعنی لوگ مصیبت پر صبر نہیں کرتے اور آپ ﷺ بھی انہی کی طرح کر رہے ہیں؟۔ گویا کہ ان کو آپ ﷺ کے اس فعل سے تعجب ہوا کیونکہ انہوں نے تو یہی دیکھا تھا کہ آپ ﷺ انہیں صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور انہیں بے صبری سے منع کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ رحم دلی کی وجہ سے ہے یعنی جو حالت تم نے دیکھی یہ بچے پر شفقت کی بدولت ہے۔ پھر آپ نے مزید فرمایا کہ آنکھ سے آنسو جاری ہیں، دل غمزدہ ہے تاہم ہم کہیں گے وہی بات جو ہمارے رب کو راضی کرے گی یعنی ہم (اللہ کی رضا پر) ناگواری کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ صبر کریں گے۔ اور اے ابراہیم! ہم تیری جدائی کی وجہ سے غمگین ہیں۔ رحم دلی صبر اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5026

 
 
Hadith   798   الحديث
الأهمية: إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله -عز وجل-


Tema:

میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه-: أن رجلا، قال: يا رسول الله، ائذن لي في السياحة. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله -عز وجل-».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کی سیاحت، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان أنَّ العبادات توقيفية، وأنَّه لا يجوز للمسلم القيام بها إلا وفق الكيفية التي يحددها له الشرع الحنيف، لذلك بين النبي -صلى الله عليه وسلم- لهذا الرجل الذي أراد أن يسيح في الأرض لأجل العبادة أنَّ هذا من عمل النصارى وأن السياحة في الأرض هي نشر الإسلام فيها وأن سياحة أهل الاسلام هي الجهاد في سبيل الله لإعلاء دين الله -تعالى-.
575;س حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عبادات توقیفی (اللہ کی طرف سے متعین) ہوتے ہیں، ہر مسلمان کے لیے اسے اسی کیفیت پر ادا کرنا ضروری ہے جس طرح شریعتِ حنیف نے بتایا ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اس شخص سے کہا جو زمین میں اللہ کی عبادت کی غرض سے سفر کا ارادہ کرتا تھا کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے۔ اور زمین میں سفر کرنا اسلام پھیلانے کی غرض سے ہوتا ہے اور اہلِ اسلام کی سیر اللہ تعالی کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کرنے میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5033

 
 
Hadith   799   الحديث
الأهمية: ثلاثة لهم أجران


Tema:

تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، والعبد المملوك إذا أدى حق الله، وحق مواليه، ورجل كانت له أمة فأدبها فأحسن تأديبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها؛ فله أجران».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے افراد کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے، وہ اپنے نبی پر ایمان لایا اور (پھر) محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی۔ (تیسرا) وہ شخص جس کی ایک باندی ہو۔ چنانچہ اس نے اسے ادب سکھایا اور اس کی خوب اچھی تربیت کی، اور اسے علم سکھایا اور اسے خوب اچھی تعلیم سے آراستہ کیا، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلی، اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل من آمن من أهل الكتاب بالإسلام لمزية اتباع دينهم واتباع النبي -صلى الله عليه وسلم-، وفيه فضل العبد الذي يُؤدي حق الله وحق مواليه، وفيه فضل من أدَّب مملوكته وأحسن تربيتها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجرٌ؛ لأنه أحسن إليها وأعتقها، وله أيضاً أجر آخر عندما تزوجها وكَفَّها وأحصن فرجها.
575;س حدیث میں اہل کتاب (یہود ونصارى) میں سے اس شخص کی فضیلت کا بیان ہے جو دين اسلام پر ايمان ركهنے والا ہے اور یہ امتياز اسے اپنے دین کی تابع دارى كرنے كے ساتھ نبی ﷺ کی بھی اتباع کرنے كی وجہ سے حاصل ہے۔ اسی طرح اس میں اس غلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کرتاہے۔ نيز اس حدیث میں اس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اپنى باندی کی اچھی طرح سے تعليم وتربیت کرے، پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلے۔ چنانچہ اس شخص کے لئے ایک اجر اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اسے آزاد کرنے كےعوض ہے اور اس کے لئے دوسرا اجر اس کے ساتھ شادی کر کے اسے روک لینے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت کرنے كے سبب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5034

 
 
Hadith   800   الحديث
الأهمية: ثنتان لا تردان، أو قلما تردان: الدعاء عند النداء وعند البأس حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُ بَعْضًا


Tema:

دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا (فرمایا) کم ہی رد کی جاتی ہیں، اذان کے وقت کی دعا اور لڑائی کے وقت کی دعا جب کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ثنتان لا تُرَدَّانِ، أو قلما تردان: الدعاء عند النداء وعند البأس حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُ بَعْضًا».

سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا (فرمایا) کم ہی رد کی جاتی ہیں، اذان کے وقت کی دعا اور لڑائی کے وقت کی دعا جب کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان فضل الجهاد في سبيل الله حيث يستجيب الله -تعالى- لدعاء المجاهد وهو في المعركة، وفيه أيضاً بيان فضل الأذان حيث يستجيب الله -تعالى- لدعاء المسلم عند الأذان وحتى إقامة الصلاة.
575;س حديث ميں جہاد فى سبيل اللہ کى فضيلت کا بيان ہے کہ اللہ تعالیٰ معرکۂ کار زار ميں مجاہد کى دعا كو شرفِ قبوليت سے نوازتا ہے، اسى طرح اس حديث ميں اذان کى فضيلت کا بھى بيان ہے کہ اللہ تعالیٰ اذان سے لے کر اقامت ہونے تک مسلمان کى دعا قبول فرماتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5035

 
 
Hadith   801   الحديث
الأهمية: لك بها يوم القيامة سبعمائة ناقة كلها مخطومة


Tema:

اس کے بدلے میں تیرے لیے قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ہیں اور سب نکیل ڈلی ہوئی ہوں گی۔

عن أبي مسعود -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٍ، فقال: هذه في سبيل الله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لك بها يوم القيامة سبعمائة ناقة كلها مخطومة».

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نکیل پڑی ہوئی اونٹنی لے کر آیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ (یارسول اللہ!) یہ اونٹنی اللہ کے راستہ میں (دیتا ہوں) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بناقة مَخْطُومَةٌ، أي مَشْدُودةٌ بِحَبل، وهو قريب من الزمام التي تُشَدُّ به الناقة، فقال الرجل: يا رسول الله، هذه في سَبِيلِ الله، أي أوقفها في الجهاد في سبيل الله -تعالى-، للغزو بها. 
فقال له -صلى لله عليه وسلم-: "لك بها سَبْعُمائَةِ نَاقة "؛ وذلك لأن الله -تعالى- يُضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سَبعمائة ضِعف إلى أضْعَاف كثيرة، كما في قوله -تعالى-: (مَثَل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كَمثَلِ حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم).
قوله: "كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ " فائدة الخِطام: زيادة تمكن صاحبها من أن يعمل بها ما أراد، وهذا من حسن الجزاء، فكما أن هذا الرجل جاء بناقته إلى النبي -صلى الله عليه  وسلم- مَشْدُودٌ عليها بالخِطام، جزاه الله بسبعمائة ناقة كلها مَشْدُودٌ عليها بالخِطام؛ وليعلم من ينفق في الدنيا أن كل زيادة يقدمها سيحزى بها، والخطام له قيمة وجمال وزيادة في الناقة.
575;یک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نکیل پڑی اونٹنی لے کر آیا۔ ”مَخْطُومَةٌ“ سے مراد ہے کہ وہ رسی سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ رسی لگام کی طرح کی ہوتی ہے جس سے اونٹنی کو باندھا جاتا ہے۔
اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹنی اللہ کے راستے میں وقف ہے، یعنی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرتا ہوں تاکہ یہ جنگ میں کام آئے۔
آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ”تمہیں اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گے“ کیوں کہ اللہ تعالی نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھا کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے“۔
”كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ“ نکیل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اونٹنی کا مالک اونٹنی کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔ یہ بہترین بدلہ دینا ہے، جیسے یہ شخص نبی ﷺ کے پاس اونٹنی کو اس حال میں لے کر آیا کہ وہ نکیل سے بندھی ہوئی تھی اسی طرح اللہ بھی اسے ایسی سات سو اونٹنیاں بطورِ جزاء عطاء فرمائے گا جو سب کی سب نکیل سے بندھی ہوں گی؛ جو شخص اس دنیا میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ ہر وہ اضافی چیز جسے وہ خرچ کرتا ہے اس کا اسے بدلہ دیا جائے گا، نکیل کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ اونٹنی میں خوبصورتی اور اضافی شے کی حیثیت رکھتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5036

 
 
Hadith   802   الحديث
الأهمية: اسمعوا وأطيعوا، فإنما عليهم ما حملوا، وعليكم ما حملتم


Tema:

سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو ان پر ہے اور تم پر اس بات کی ذمے داری ہے، جو تمھارے اوپر ہے۔

عن أبي هنيدة وائل بن حجر -رضي الله عنه-: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: يا نبي الله، أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم، ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه، ثم سأله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اسمعوا وأطيعوا، فإنما عليهم ما حُمِّلُوا، وعليكم ما حُمِّلْتُم».

ابو هنیدة وائل بن حجر رضى الله عنہ سے روات ہے کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں، جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں، لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں، تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس بات پر رخ انور پھیر لیا۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو۔ ان پراس بات کی ذمے داری ہے، جو ان پر ہے اور تم پراس بات کی ذمے داری ہےجو تمھارے اوپر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل سلمة بن يزيد -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أمراء يطلبون حقهم من السمع والطاعة لهم، ولكنهم يمنعون الحق الذي عليهم؛ لا يؤدون إلى الناس حقهم، ويظلمونهم ويستأثرون عليهم، فأعرض النبي -صلى الله عليه وسلم- عنه، كأنه -عليه الصلاة والسلام- كره هذه المسائل، وكره أن يفتح هذا الباب، ولكن أعاد السائل عليه ذلك، فسأله، فأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نؤدي لهم حقهم، وأن عليهم ما حُملوا وعلينا ما حُملنا، فنحن حُملنا السمع والطاعة، وهم حُمِّلوا أن يحكموا فينا بالعدل وألا يظلموا أحداً، وأن يقيموا حدود الله على عباد الله، وأن يقيموا شريعة الله في أرض الله، وأن يجاهدوا أعداء الله.
587;لمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ان حکمرانوں کے بارے دریافت کیا، جو لوگوں سے تویہ چاہیں گے کہ وہ ان کی بات سن کر اطاعت کریں، لیکن اپنے پر عائد ہونے والی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے۔ یعنی لوگوں کو ان کاحق نہیں دیں گے، لوگوں پر ظلم ڈھائیں گے اور ان پر اپنا تسلط قائم کریں گے۔ آپﷺ نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ گویا آپ ﷺ کو اس طرح کے مسائل پر گفتگو اچھی نہ لگتی ہو اور آپ ﷺ کو اس باب (عنوان) کو کھولنا پسند نہ ہو۔ لیکن پوچھنے والے نے دوبارہ سوال کر دیا۔
پھر اس نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا حق ادا کریں اور فرمایا کہ ان پراس کام کی ذمے داری ہے، جو ان کے ذمے ہے اور ہمارے اوپر اس شے کی ذمے داری ہے، جو ہمارے ذمے ہے۔ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم سمع و طاعت کریں اور ان کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہمارے اوپر عدل کے ساتھ حکمرانی کریں، کسی پر ظلم نہ ڈھائیں، اللہ کے بندوں پر اس کی حدود قائم کریں، اللہ کی زمین پر اس کی شریعت کا نفاذ کریں اور اس کے دشمنوں سے جہاد کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5037

 
 
Hadith   803   الحديث
الأهمية: ما على الأرض مسلم يدعو الله تعالى بدعوة إلا آتاه الله إياها، أو صرف عنه من السوء مثلها، ما لم يدع بإثم، أو قطيعة رحم


Tema:

روئے زمین پر موجود کوئی بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے اس کی مراد عنایت کردیتے ہیں یا پھر اس کے بدلے میں اس طرح کی کوئی مصبیت اس سے ٹال دیتے ہیں بشرطیکہ کہ وہ کسی گناہ یا قطعِ رحمی کی دعا نہ کرے۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- و أبي سعيد الخدري-رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما على الأرض مسلم يدعو الله تعالى بدعوة إلا آتاه الله إياها، أو صرف عنه من السوء مثلها، ما لم يَدْعُ بإثم، أو قطيعة رحم»، فقال رجل من القوم: إذا نُكثِر قال: «اللهُ أكثر». وفي رواية أبي سعيد زيادة: «أو يَدَّخر له من الأجر مثلها».

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر موجود کوئی بھی مسلمان اللہ سے کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے اس کی مراد عنایت کردیتا ہے یا پھر اس کے بدلے میں اس طرح کی کوئی مصبیت اس سے ٹال دیتا ہے بشرطیکہ کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ: پھر تو ہم بہت زیادہ دعا کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور زیادہ دے گا۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: یا پھر وہ اس کے مثل اجر اس کے لیے محفوظ رکھ چھوڑتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يرغب كل مسلم أن يكون على صلة بربه -عز وجل-، قولاً وعملاً، والدعاء الصادر من قلب صادق متعلق بمحبة الله -عز وجل-، تفتح له أبواب السماء، ويستجيب له الله -عز وجل- الذي يجيب المضطر إذا دعاه، ويكشف السوء، فالدعاء لا يضيع، فهو إما أن يستجاب ويحصل المطلوب، أو أن يمنع الله به من السوء بقدره، أو يدخر له من النفع مثله وما عند الله من الخير أكثر مما يطلب الناس ويسألون.
581;دیث ہر مسلمان کو ترغیب دے رہی ہے کہ وہ وہ قول و عمل کے ساتھ اپنے رب سے تعلق جوڑے رکھے اور یہ کہ ایسی دعا جو ایسے دل سے صادر ہو جو سچا ہو اور اللہ کی محبت سے منسلک ہو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ جو مجبور و بے کس کی دعا کو سنتا ہے اسے قبول کرتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے۔ چنانچہ دعا ضائع نہیں ہوتی۔ یا تو اس شخص کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور اسے اس کا مقصود حاصل ہو جاتا ہے یا پھر اس کے بقدر اللہ تعالی اس کی کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے یا پھر اس کے مساوی نفع کو اس کے لیے محفوظ رکھ چھوڑتے ہیں۔ اللہ کے پاس جو خیر ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جسے لوگ مانگتے اور طلب کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5100

 
 
Hadith   804   الحديث
الأهمية: دعاء الكرب: لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السماوات، ورب الأرض، ورب العرش الكريم


Tema:

پریشانی کے وقت کی دعا: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ“۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يقول عند الكرب: «لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله ربُّ السماوات، وربُّ الأرض، ورب العرش الكريم» .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ“ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عظمت والا اور بُردْبار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو آسمانوں، زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دلَّ الحديث على أن الكرب والغم لا يزيله إلا الله، وهذه الكلمات المذكورة إذا قالها عبد مؤمن عند خوفه وكربه؛ آمنه الله -عز وجل-، فذكر الله -تعالى- ودعاؤه يسهل الصعب، وييسر العسير، ويخفف المشاق، فما ذكر الله -عز وجل- على صعب إلا هان، ولا على عسير إلا تيسر، ولا مشقة إلا خفت، ولا شدة إلا زالت، ولا كربة إلا انفرجت.
وحكمة تخصيص الحليم بالذكر، أنّ كرب المؤمن غالبًا إنما هو نوع من التقصير في الطاعات، أو غفلة في الحالات، وهذا يشعر برجاء العفو المقلل للحزن.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پریشانی اور غم صرف اللہ کی ذات دور کرتی ہے۔ خوف اور پریشانی کے عالم میں جب مومن بندہ ان کلمات کا وِرد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مامون کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا مشکل کو آسان کرتا ہے اور تنگی کو دور کرتا ہے اور مشکلات کو ہلکا کرتا ہے۔ کسی بھی مشکل وقت میں اللہ کا ذکر کرنے سے وہ چیز آسان ہوجاتی ہے، ہر تنگی دور ہو جاتی ہے، مشقت کم ہوجاتی ہے، سختی ختم ہوجاتی ہے اور غم دور ہوجاتا ہے۔
اللہ کی صفت حلیم کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ مومن بندے کی پریشانی کا عام سبب نیکیوں میں کوتاہی اور حالات میں اللہ کی ذات سے غفلت ہوتی ہے۔ جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی کی امید کی جائے جو کہ پریشانی میں کمی کا باعث ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5141

 
 
Hadith   805   الحديث
الأهمية: لقد كان فيما قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر


Tema:

تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے، اگر میری امت میں بھی کوئی الہامی یافتہ ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لقد كان فيما قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے، اگر میری امت میں بھی کوئی الہامی یافتہ ہوتا تو وہ عمر ہوتے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحدثنا أبو هريرة -رضي الله عنه- عن كرامة لأمير المؤمنين عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- حيث أخبر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:
"كان فيما كان قبلكم محدثون" أي: ملهمون للصواب، يقولون قولاً فيكون موافقًا للحق، وهذا من كرامة الله للعبد أن الإنسان إذا قال قولاً، أو أفتى بفتوى، أو حكم بحكم تبين له بعد ذلك أنه مطابق للحق، فعمر -رضي الله عنه- من أشد الناس توفيقًا للحق، وقال: "إن يك في أمتي" وهذا ليس ترددًا، فإن أمة الإسلام أفضل الأمم وأكملها، ولكنه للتأكيد، فإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم؛ فإمكان وجوده فيهم أولى.
وكلما كان الإنسان أقوى إيمانًا بالله وأكثر طاعة لله وفقه الله -تعالى- إلى الحق بقدر ما معه من الإيمان والعلم والعمل الصالح، تجده مثلاً يعمل عملاً يظنه صوابًا بدون ما يكون معه دليل من الكتاب والسنة فإذا راجع أو سأل، وجد أن عمله مطابق للكتاب والسنة، وهذه من الكرامات، فعمر -رضي الله عنه- قال فيه الرسول -صلى الله عليه وسلم- إن يكن فيه محدثون فإنه عمر.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان کر رہے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے“ مُحَدَّثُون یعنی درست بات کے الہام یافتہ لوگ، ایسے لوگ کہ جو کچھ وہ کہتے وہ بات حق کے موافق ہوتی، یہ اللہ تعالی کی بندے کے لیے ایک کرامت ہے کہ انسان کوئی بات کہے یا کوئی فتوی دے یا کوئی حکم بیان کرے اور بعد میں اس کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ سچ اور حق کے مطابق بات ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حق کی موافقت کرنے والے تھے۔
”اگر میری امت میں بھی کوئی“ اس بات میں کوئی پس پیش یا تردد نہیں بلکہ یہ تاکید کے طور پر بیان کی گئی ہے، امت مسلمہ سب سے افضل اور باکمال امت ہے، پس جب سابقہ امتوں میں اس طرح کے لوگ پائے گئے تو بدرجہ اولی اس امت میں پائے جائیں گے۔
انسان جتنا ایمان باللہ میں مضبوط رہے گا، طاعت وفرمانبرداری میں جتنا اتم ہوگا، اتنا ہی اسے اللہ تعالی اس کے ایمان، علم اور عمل صالح کے بقدر حق کی توفیق سے نوازے گا۔ تم دیکھو گے کہ وہ کوئی عمل کرتا رہے گا جس کے متعلق اسے یہ گماہ ہوگا کہ وہ صحیح ہے حالانکہ اس کے پاس اس عمل پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں ہوگی، لیکن جب تم (اس عمل کے متعلق کسی سے) رجوع کرو گے یا استفسار کرو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ اس کا وہ عمل قرآن وحدیث کے مطابق ہی ہے، یہ کرامات میں سے ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ہی کی وہ شخصیت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے بارے میں کہا کہ اگر کوئی الہام یافتہ شخصیت ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5142

 
 
Hadith   806   الحديث
الأهمية: كُنّا نتكلم في الصلاة، يُكَلِّمُ الرجل صاحبه، وهو إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت {وقوموا لله قانتين}؛ فَأُمِرْنَا بالسكوت و نُهِينَا عن الكلام


Tema:

ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے۔ آدمی دوران نماز اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“ اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا۔

عن زَيْد بن أَرْقَمَ رضي الله عنه قال: «كُنّا نتكلم في الصلاة، يُكَلِّمُ الرجل صاحبه، وهو إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت ((وقوموا لله قانتين))؛ فَأُمِرْنَا بالسكوت ونُهِينَا عن الكلام».

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوۓ کہتے ہیں: ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے۔ آدمی دوران نماز اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“ اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة صِلة بين العبد وربه؛ فلا ينبغي أن يتشاغل المصلي بغير مناجاة الله ،فيخبر زيد بن أرقم رضي الله عنه أن المسلمين كانوا في بدء أمرهم يتكلمون في الصلاة بقدر حاجتهم إلى الكلام، فقد كان أحدهم يكلم صاحبه بجانبه في حاجته، وكان على مسمع من النبي صلى الله عليه وسلم، ولم ينكر عليهم.
ولما كان في الصلاة شغل بمناجاة الله عن الكلام مع المخلوقين، أمرهم الله تبارك وتعالى بالمحافظة على الصلاة وأمرهم بالسكوت ونهاهم عن الكلام، فأنزل الله تعالى: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصّلاةِ الوُسطى وَقُومُوا لله قَانِتِينَ}. فعرف الصحابة منها نهيهم عن الكلام في الصلاة فانتهوا، رضي الله عنهم.
606;ماز بندے اور رب کے مابین ایک تعلق کا نام ہے۔ چنانچہ یہ مناسب نہیں کہ نمازی اس حال میں اللہ کے ساتھ مناجات کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ ابتداے اسلام میں لوگ نماز میں حسب ضرورت بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ مثلا کوئی شخص اپنی ضرورت کے بارے میں اپنے پہلو میں موجود شخص سے بات کر لیا کرتا تھا اور نبی ﷺ یہ سب سن رہے ہوتے، لیکن اس سے منع نہ فرماتے۔
لیکن چوں کہ نماز حالت میں بندے کی اللہ سے ہم کلامی میں انہماک، اس لیے مخلوق سے ہم کلام ہونے کی گنجائش باقی نہیں رکھتی، اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ مسلمان نماز کو دوسری آلائشوں سے بچائیں، چپ رہیں اور بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ یہ آیت نازل فرمائی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”نمازوں کی حفاﻇت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“۔ چنانچہ صحابۂ کرام کو معلوم ہو گیا کہ انھیں نماز میں کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ اس لیے انھوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ رضی اللہ عنہم۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5204

 
 
Hadith   807   الحديث
الأهمية: جاء رجل والنبي -صلى الله عليه وسلم- يَخْطُبُ الناس يوم الجمعة، فقال: صليت يا فلان؟ قال: لا، قال: قم فاركع ركعتين


Tema:

نبی ﷺ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا:اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا:نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔

عن جابِر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: «جاء رجل والنبي -صلى الله عليه وسلم- يَخْطُبُ الناس يوم الجمعة، فقال: صليت يا فلان؟ قال: لا، قال: قم فاركع ركعتين، -وفي رواية: فصل ركعتين-».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا:نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ المسجد النبوي والنبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب الناس، فجلس ليسمع الخطبة، ولم يصل تحية المسجد؛ إما لجهله بحكمها، أو ظنه أن استماع الخطبة أهم، فما منع النبي -صلى الله عليه وسلم- تذكيره واشتغاله بالخطبة عن تعليمه، بل خاطبه بقوله: أصليت يا فلان في طرف المسجد قبل أن أراك؟ قال: لا، فقال: قم فاركع ركعتين، وفي رواية لمسلم أمره أن يتجوز فيهما أي: يخففهما، قال ذلك بمشهد عظيم؛ ليُعَلِّمَ الرجل في وقت الحاجة، وليكون التعليم عامًّا مشاعاً بين الحاضرين.
ومن دخل المسجد والخطيب يخطب المشروع له الصلاة، ويدل عليه هذا الحديث، وبحديث: "إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب، فليركع ركعتين".
ولذا قال النووي في شرح مسلم عند قوله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا جاء أحدكم والإمام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما" قال: هذا نص لا يتطرق إليه تأويل، ولا أظن عالما يبلغه هذا اللفظ ويعتقده صحيحا فيخالفه.
587;ُلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے جب کہ نبی ﷺ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھ گئے اور تحیۃ المسجد کی نماز نہ پڑھی؛ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس کے حکم سے واقف نہیں تھے یا پھر اس لئے کہ ان کے گمان میں خطبہ سننا زیادہ اہم تھا۔ نبیﷺ اگرچہ وعظ و نصیحت اور خطبہ دینے میں مصروف تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ انہیں تعلیم دینے سے نہ رکے بلکہ آپ ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے فلاں! کیا میرے دیکھنے سے پہلے تم نے مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ لی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ یہ دو رکعتیں ہلکی پڑھیں۔ آپ ﷺ نے ایک بڑے مجمع کے سامنے یہ کہا تھا تاکہ اس آدمی کو ضرورت کے وقت تعلیم دیں، اور تا کہ یہ تعلیم سب حاضرین کے لئے ہو جائے۔
لہذا جو شخص مسجد میں آئے اور خطیب خطبہ دے رہا ہو تو اس کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ تحیۃ المسجد کی نماز پڑھے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ: تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے۔
اسی لئے علامہ نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں آپ ﷺ کے اس فرمان:" تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت مختصرپڑھ لے۔" فرمایا کہ: یہ نص ہے جس میں تاویل کا کوئی راستہ نہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا عالم بھی ہو گا جس کے پاس یہ الفاظ پہنچیں اور وہ ان کوصحیح جانے اور پھر بھی ان کی مخالفت کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5205

 
 
Hadith   808   الحديث
الأهمية: صفة صلاة الخوف في غزوة ذات الرقاع


Tema:

غزوہ ذات الرقاع میں خوف کی نماز پڑھنے کا طریقہ

عن صالح بن خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ -رضي الله عنه- عمّن صلَّى مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صلاة  ذَاتِ الرِّقَاعِ صلاةَ الخوف: أن طائفة صفَّت معه، وطائفة وِجَاهَ  الْعَدُوِّ، فصلَّى بالذين معه ركعة، ثم ثبت قائما، وأتموا لأنفسهم، ثم انصرفوا، فصفُّوا وِجَاهَ  الْعَدُوِّ، وجاءت الطائفة الأخرى، فصلَّى بهم الركعة التي بقيت، ثم ثبت جالسا، وأتموا لأنفسهم، ثم سلَّم بهم.

صالح بن خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ ایک ایسے صحابی سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے غزوۂ ذات الرقاع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی۔ (خوف کی نماز کا طریقہ یوں) نقل کرتے ہیں کہ (اس دن) ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ( نماز کے لیے) صف بندی کی اور دوسری جماعت دشمن کے مقابل صف آرا ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس جماعت کو جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی، ایک رکعت نماز پڑھائی اور پھر آپ ﷺ کھڑے رہے اور اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی (یعنی جماعت میں شامل لوگوں نےدوسری رکعت تنہا پڑھ لی) پھر اس کے بعد یہ جماعت (نماز سے فارغ ہو کر) واپس ہوئی اور دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی اور وہ جماعت جو دشمن کے مقابل صف آرا تھی (نماز کے لیے) آگئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دوسری رکعت، جو باقی رہ گئی تھی، اس جماعت کے ساتھ پڑھی اور (تشہد میں) بیٹھے رہے اور پھر اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی اور پھر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
غزا النبي -صلى الله عليه وسلم- غزوة مع أصحابه وأكثرهم مشاة على أقدامهم فتعبت من الحفاء فلفوا عليها الخرق، ولقي عدوه ولم يكن قتال لكن أخاف المسلمون أعداءهم، وفي هذا الحديث كان العدو في غير جهة القبلة، لأن منازلهم في شرق المدينة، فقسمهم طائفتين ولذا صفت طائفة، ووقفت الأخرى في وجه العدو الذي جعله المصلون خلفهم.
فصلى النبي -صلى الله عليه وسلم- ركعة بالذين معه، ثم قام بهم إلى الثانية فثبت فيهما قائماً، وأتموا لأنفسهم ركعة، ثم سلموا، وانصرفوا وِجَاهَ العدو. وجاءت الطائفة الأخرى فصلى بهم الركعة الباقية، ثم ثبت جالساً وقاموا فأتموا لأنفسهم ركعة، ثم سلم بهم فاختصت الأولى بتحريم الصلاة وهو تكبيرة الاحرام مع الإمام، واختصت الثانية بتحليل الصلاة وهو السلام مع الإمام، وفوت الفرصة على الأعداء، فحصل التعادل بالحصول على الفضل مع الإمام .
606;بی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ایک غزوے میں تشریف لے گئے، جس میں اکثر صحابہ پیدل تھے۔ جب وہ پاؤں ننگے ہونے کی وجہ سے نڈھال ہو گئے، تو اپنے قدموں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لیے۔ نبی ﷺ کا دشمن کے ساتھ آمنا سامنا تو ہوا، لیکن قتال کی نوبت نہ آئی، تاہم مسلمانوں نے اپنے دشمنوں کو خوف زدہ ضرور کر دیا۔ اس حدیث کی رو سے دشمن قبلے کی سمت میں نہیں تھے، کیوںکہ ان کے گھر مدینے کے مشرقی جانب تھے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے۔ ایک گروہ نے نماز کے لیے صف بندی کر لی اور دوسرا گروہ نمازیوں کے پیچھے موجود دشمن کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
نبی ﷺ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ کھڑے رہے، جب کہ لوگوں نے خود ہی اپنی دوسری رکعت پوری کی اور سلام پھیر دیا اور دشمن کی جانب چلے گئے۔ پھر دوسرا گروہ آ گیا۔ آپ ﷺ نے انہیں باقی ماندہ ایک رکعت پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ لوگوں نے کھڑے ہو کر خود ہی ایک اور رکعت پڑھ لی۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ پہلے گروہ کو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہنے کی خصوصیت حاصل ہوئی اور دوسرے کو نماز سے نکلنے یعنی امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی خصوصیت ملی۔ یوں آپ ﷺ نے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع نہ دیا اور اس کے ساتھ ساتھ امام کے ساتھ نماز کی فضیلت پانے میں بھی سب برابر کے شریک رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5206

 
 
Hadith   809   الحديث
الأهمية: صحبت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فكان لا يزيد في السَّفَر على ركعتين، وأبا بكر وعُمر وعُثْمان كذلك


Tema:

میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

عن عبد الله بن عُمر -رضي الله عنهما- قال: «صحبت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فكان لا يزيد في السَّفَر على ركعتين، وأبا بكر وعُمر وعُثْمان كذلك».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أنه صحب النبي -صلى الله عليه وسلم- في أسفاره، وكذلك صحب أبا بكر وعمر وعثمان -رضي الله عنهم- في أسفارهم، فكان كل منهم يقصر الصلاة الرباعية إلى ركعتين، ولا يزيد عليهما، أي لا يتم أحد منهم الفرائض، ولا يصلي الرواتب في السفر، وذكره لأبي بكر وعمر وعثمان للدلالة على أن الحكم غير منسوخ بل ثابت بعد وفاة النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا له معارض راجح.
ويجوز الإتمام في السفر، ولكن القصر أفضل؛ لقوله تعالى: {لَيْسَ عَليكُمْ جُنَاحٌ أن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ} فَنَفْيُ الجناح يفيد أنه رخصة، وليس عزيمة؛ ولأن الأصل الإتمام، والقصر إنما يكون من شيء أطول منه.
والأولى للمسافر أن لايدع القصر؛ اتباعاً للنبي -صلى الله عليه وسلم-، ولأن الله -تعالى- يحب أن تُؤتى رخصه، وخروجًا من خلاف من أوجبه؛ ولأنه الأفضل عند عامة العلماء.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ذکر کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے اسفار میں آپ کے ساتھ تھے، اسی طرح ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بھی ساتھ تھے، ان میں سے ہر ایک چار رکعت والی نماز کو مختصر کرکے دو رکعات پڑھتا تھا، اس سے زیادہ نہیں پڑھتا تھا یعنی ان میں سے کوئی بھی فرض نماز پوری نہیں پڑھتا تھا اور نہ ہی یہ سنن مؤکدہ پڑھتے تھے۔ حدیث میں ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی ثابت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی معارض موجود ہے جس کو ترجیح حاصل ہو۔
سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز ہے، تاہم قصر کرنا افضل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ﴿لَيْسَ عَليكُمْ جُنَاحٌ أن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ﴾ ” تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں“۔ جناح (گناہ) کی نفی کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں رخصت ہے عزیمت نہیں۔ دوسرے اس لیے کہ اصل اتمام ہے۔ اور قصر اس چیز میں ہوتا ہے جو اس سے زیادہ طویل ہو۔
اور مسافر کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے، اور اس لیے کہ اللہ تعالی اس کی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے اور جو قصر کو واجب کہتے ہیں ان کے اختلاف سے بچنے کے لیے قصر نماز نہ چھوڑے۔ تیسرے اس لیے بھی قصر نہ چھوڑے کہ اکثر علماء کے ہاں یہی افضل ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5207

 
 
Hadith   810   الحديث
الأهمية: عَقْرَى، حَلْقَى، أطافت يوم النَّحْرِ؟ قيل: نعم، قال: فَانْفِرِي


Tema:

تیرا ستیا ناس ہو! کیا تو نے یوم نحر کو طواف کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا :ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: پھر چلے چلو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «حَجَجْنَا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فَأَفَضْنَا يوم النَّحْرِ، فحاضت صَفِيَّةُ، فأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- منها ما يريد الرجل من أهله، فقلت: يا رسول الله، إنها حائض، قال: أَحَابِسَتُنَا هي؟ قالوا: يا رسول الله، إنها قد أفاضت يوم النَّحْرِ، قال: اخْرُجُوا». وفي لفظ: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «عَقْرَى، حَلْقَى، أطافت يوم النَّحْرِ؟ قيل: نعم، قال: فَانْفِرِي».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے جب رسول اللہ ﷺکے ساتھ حج کیا، تو یوم نحر کو طواف زیارت کیا، لیکن صفیہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہوگئیں۔ آں حضرت ﷺنے ان سے وہی چاہا جو شوہر اپنی بیوی سے چاہتا ہے، تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ! وہ حائضہ ہیں! آپ ﷺنے اس پر فرمایا کہ کیا یہ ہمیں روک دے گی؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! انھوں نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کر لیا تھا، تو آپ ﷺنے فرمایا: پھر چلے چلو۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس کا ستیاناس ہو!؟ کیا اس نے یوم نحر کو طواف کیا تھا؟ کہا گيا: ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا: چلے چلو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها-: أنهم حجوا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع.
فلما قضوا مناسكهم أفاضوا وطافوا بالبيت العتيق، ومعهم زوجه صَفيَّة -رضي الله عنها-.
فلما كان ليلة النَّفَر، حاضت "صَفيَّة" فجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- يريد منها ما يريد الرجل من أهله، فأخبرته عائشة أنها حاضت، فظن -صلى الله عليه وسلم- أنه أدركها الحيض من قبل فلم تطف طواف الإفاضة؛
لأن هذا الطواف ركن لا يتم الحج بدونه، فستمنعهم من الخروج من مكة حتى تطهر وتطوف، فقال تلك الكلمة المشهورة التي تقال على الألسن بدون إرادة معناها الأصلي: عَقْرَى حَلْقَى، قال -صلى الله عليه وسلم-: أحابستنا هي هنا حتى تنتهي حيضتها وتطوف لحجها؟ فأخبروه أنها قد طافت طواف الإفاضة قبل حيضها، فقال: فلتنفِر، إذ لم يبق عليها إلا طواف الوداع، وهي معذورة في تركه.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ لوگوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا۔
انھوں نے مناسک حج پورے کر لیے اور بیت اللہ کا طواف کر لیا۔ اس وقت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی ساتھ تھیں۔
جب روانگی کا وقت آیا تو صفیہ رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس اس ارادے سے آئے جس ارادے سے آدمی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ انھیں حیض آ گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے سمجھا کہ ان کو طواف افاضہ سے پہلے ہی حیض آگیا تھا۔ چوں کہ طواف افاضہ حج کا ایک رکن ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، اس لیے وہ انھیں پاک ہوکر طواف سے فارغ ہونے تک روانگی سے روک لیں گی۔ اس لیے آپ نے وہ مشہور کلمہ کہا، جو عام طور سے زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے۔ فرمایا: عقری ،حلقی۔ (اس کا ستیاناس ہو)۔ (آگے) فرمایا: کیا وہ ہمیں یہاں اپنے ایام ختم ہونے اور حج کا طواف کرنے کی مدت تک روکنے والی ہے؟ چنانچہ جب آپﷺ کو یہ بتایا گیا کہ انھوں نے طواف افاضہ حیض آنے سے پہلے ہی کر لیا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا:پھر وہ چل پڑے؛ کیوں کہ اب اس پر صرف طواف وداع باقی رہ گیا ہے اور اس کو چھوڑنے پر وہ معذور ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5208

 
 
Hadith   811   الحديث
الأهمية: صَلَّيْت وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- على امرأة ماتت في نِفَاسِهَا فقام في وَسْطِهَا


Tema:

میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس انتقال کر گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔

عن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ -رضي الله عنه- قال: «صَلَّيْت وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- على امرأة ماتت في نِفَاسِهَا فقام في وَسْطِهَا».

سمره بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی، جو بحالت نفاس انتقال کر گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الصلاة على الميت حق واجب لكل من يموت من المسلمين: ذكَرٍ أو أنثى، صغير أو كبير، فيخبر سمرة بن جندب -رضي الله عنه- أنه صلى وراء النبي -صلى الله عليه وسلم- حينما صلى على امرأة ماتت في نفاسها، فقام -صلى الله عليه وسلم- بمحاذاة وسطها.
605;یت پر نماز جنازہ پڑھنا مسلمانوں میں سے ہر مرنے والے کا لازمی حق ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی، جو حالت نفاس میں فوت ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5209

 
 
Hadith   812   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى على قبر بعد ما دُفِنَ, فَكَبَّرَ عليه أَرْبَعاً


Tema:

نبی اکرم ﷺ نے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعد اس میت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس میں چار تکبیریں کہیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما-: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- صلَّى على قبر بعدَ ما دُفِنَ, فَكَبَّرَ عليه أَرْبَعاً».

عبد الله بن عباس رضي الله عنهما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک قبر پر دفن کیے جانے کے بعد اس میت کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس میں چار تکبیریں کہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قد جُبلَ النبي -صلى الله عليه وسلم- على محاسن الأخلاق، ومن ذلك ما اتصف به من الرحمة والرأفة، فما يَفْقِدُ أحداً من أصحابه حتى يسأل عنه، ويتفقد أحواله.
فقد سأل عن صاحب هذا القبر، فأخبروه بوفاته، فأحب أنهم أخبروه ليصلي عليه، فإن صلاته سكنٌ للميت، ونور يزيل الظلمة التي هو فيها، فصلى على قبره كما يصلى على الميت الحاضر.
صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- على القبر لا يفهم منها صعوده على القبر, وإنما المعنى الوقوف بجانبه واستقباله والصلاة عليه صلاة الجنازة.
606;بی ﷺ کی فطرت میں محاسن اخلاق ودیعت کردیے گیے اور انھیں اوصاف میں سے رحمت اور نرم دلی ہے، اگر آپ ﷺ اپنے کسی صحابی کو نہ پاتے تو ان کے بارے میں ضرور دریافت فرماتے اور ان کے احوال کی خیرخبر لیتے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے صاحبِ قبر کے تئیں دریافت کیا تو صحابہ کرام نے آپ کو ان کی وفات کی خبردی اور آپ کی خواہش تھی کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو خبر دی ہوتی تو ان کی نماز جنازہ پڑھاتے کیوں کہ آپ ﷺ کی نماز میت کے لیے سکون کا باعث ہوتی ہے اور اس سے اُس کو ایسی روشنی میسر آتی ہے جو قبر کی تاریکی کا خاتمہ کردیتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائی جس طرح کسی موجود میت کی نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔
نبی ﷺ کی جانب سے قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے سے یہ مفہوم مستنبط نہ کیا جائے کہ آپ نے قبر کے اوپر چڑھ کر نماز ادا فرمائی، بلکہ اس کا یہ معنی ہے کہ آپ نے عام نمازِ جنازہ کی طرح اس قبر کے ایک کنارے کھڑے ہوکر، اس کی طرف رُخ کرکے ان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5210

 
 
Hadith   813   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يكثر أن يقول في ركوعه وسجوده: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي


Tema:

رسول اللہ ﷺ کثرت سے اپنے رکو ع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي.

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: ما صلّى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعد أن نَزَلت عليه: (إذا جاء نصرُ الله والفتح..) إلا يقول فيها: «سُبْحَانَكَ اللهم ربَّنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغفر لي».
وفي لفظ: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يكثر أن يقولَ في ركوعه وسجوده: «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ﴾ کے نازل ہونے کے بعد کوئی ایسی نماز نہیں پڑھی، جس میں آپ یہ نہ پڑھتے ہوں: ”سُبْحَانَكَ اللهم ربَّنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغفر لي“ پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔
ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کثرت سے اپنے رکو ع وسجود میں یہ دعا پڑھتے تھے: ”سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ربنا وبحمدك، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي“ پاک ہے تو اے ہمارے رب! اپنی خوبیوں کے ساتھ اے اللہ! مجھے بخش دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت عائشة -رضي الله عنها- في هذا الحديث أن الله -تعالى- عندما أنزل على النبي -صلى الله عليه وسلم- سورة النصر, ورأى هذه العلامة وهي النصر, وفتح مكة, بادر -صلى الله عليه وسلم- إلى امتثال أمر الله -تعالى- في قوله في سورة النصر: (فسبح بحمد ربك واستغفره)، فكان كثيرًا ما يقول: (سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي), وهذه الكلمات جمعت تنزيه الله -تعالى- عن النقائص، مع ذكر محامده, وختمت بطلب المغفرة منه سبحانه، وما صلى صلاة فريضة كانت أو نافلة إلا قال ذلك في ركوعها وسجودها, وكانت هذه السورة علامة على قرب أجل النبي -صلى الله عليه وسلم-.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث میں بیان فرما رہی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر سورۃ النصر نازل فرمائی اور آپ نے اس علامت یعنی نصرت اور فتح مکہ کو دیکھ لیا، تو فورا اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ﴾ ” آپ اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ جائیے حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگیے“ کی تعمیل میں لگ گئے۔ چنانچہ آپ کثرت سے یہ ذکر ((سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي)) پڑھتے تھے۔ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی تمام نقائص سے پاکی، اس کی حمد وثنا کا تذکرہ اور اخیر میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی طلب جیسی چیزوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ آپ اپنی ہر فرض اور نفل نماز کے رکوع و سجود میں یہ تسبیح پڑھتے تھے۔ یہ سورت رسول اللہ ﷺ کی وفات کے قریب ہونے کی علامت بھی تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5212

 
 
Hadith   814   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث رجلا على سَرِيَّةٍ فكان يقرأ لأصحابه في صلاتهم، فَيَخْتِمُ بـ: (قل هو الله أحد)


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں (قراءت کا) اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پر کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعث رجلا على سَرِيَّةٍ فكان يَقْرَأ لأصحابه في صلاتهم، فَيَخْتِمُ بـ«قل هو الله أحد» فلما رجعوا ذكروا ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: سَلُوهُ لأَيِّ شيء صَنَع ذلك؟ فسألُوه، فقال: لِأنَّها صِفَةُ الرحمن -عز وجل-، فأنا أُحِب أَنْ أَقْرَأ بها، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أَخْبِرُوه: أنَّ الله -تعالى- يُحِبُّه».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں (قراءت کا) اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟“۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ رحمن عزوجل کی صفت ہے، اس لیے میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ اسے بتا دو کہ اللہ عزوجل بھی اسے پسند کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمَّرَ النبي -صلى الله عليه وسلم- بعض أصحابه على سَرِيَّة؛ لتدبيرهم والحكم بينهم، وحتى لا تكون الأمور فوضى، ويختار أقومهم دينًا وعلمًا وتدبيرًا، ولذا كان الأمراء هم الأئمة في الصلاة والمفتون؛ لفضل علمهم ودينهم، فكان يقرأ "قل هو الله أحد" في الركعة الثانية من كل صلاة؛ لمحبته لله وأسمائه وصفاته، ومن أحب شيئاً أكثر من ذكره.
فلمَّا رجعوا من غزوتهم إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، ذكروا له ذلك، فقال: سلُوه لأيِّ شيء يصنع ذلك، أهو لمحض المصادفة أم لشيء من الدواعي؟
فقال الأمير: صنعت ذلك لاشتمالها على صفة الرحمن -عز وجل-، فأنا أحب تكريرها لذلك.
فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أخبروه، أنه كما كرر هذه السورة لمحبته لها؛ وهذا لما تضمنته من صفات الله العظيمة التي دلت عليها أسماؤه المذكورة فيها: فإن الله يحبه.
570;پ ﷺ نے کسی صحابی کو ایک سریہ کا امیر بنایا، تاکہ وہ (سریہ میں شامل) لوگوں کے انتظامی امور سنبھالیں، (اختلاف کی صورت میں) ان کے درمیان فیصلہ کریں اور کسی طرح کی کوئ بد نظمی نہ پیدا ہو۔ آپ ﷺ امیر اسی کو بناتے، جو لوگوں میں دین، علم اور کارکردگی کے اعتبار سے سب سے مناسب ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جنگوں میں امیر ہی نماز کے امام ہوتے تھے اور اپنی علمی اور دینی برتری کی وجہ سے فتوے بھی وہی دیتے۔ چانچہ (مذکورہ) امیر اللہ تعالیٰ اور اس کے اسما و صفات سے محبت کی وجہ سے ہر نماز کی دوسری رکعت میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پڑھتے تھے، اس لیے کہ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے، وہ اس کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔
یہ لوگ جب غزوے سے واپس اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ یہ محض اتفاق تھا یا اس کی کوئ وجہ تھی؟
امیر نے کہا کہ میں اس لیے ایسا کرتا تھا کہ یہ سورت رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے، اس لیے میں اسے بار بار پڑھنا پسند کرتا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اسے بتادو کہ جس طرح وہ اس سورت سے محبت کی وجہ سے اسےبار بار پڑھتا تھا، کیوں کہ یہ سورت اللہ کی عظیم صفات پر مشتمل ہے، جن پراس میں مذکور اسما دلالت کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5213

 
 
Hadith   815   الحديث
الأهمية: أن الشمس خَسَفَتْ على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُناديا ينادي: الصلاة جامعة، فاجتمعوا، وتقدم، فكبر وصلى أربع ركعات في ركعتين، وأربع سجدات


Tema:

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، لوگ جمع ہو گیے اور آپ ﷺ آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ ﷺ نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أن الشمس خَسَفَتْ على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُناديا ينادي: الصلاة جامعة، فاجْتَمَعوا، وتقَدَّم، فكَبَّر وصلَّى أربعَ ركعات في ركعتين، وأربعَ سجَدَات».

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ کہے نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، لوگ جمع ہو گیے اور آپ ﷺ آگے بڑھے تکبیر ہوئی اور آپ ﷺ نے دو رکعتوں کو چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خسفت الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فبعث مُنادياً في الشوارع والأسواق ينادى الناس (الصلاة جامعة) ليصلوا ويدعو الله -تبارك وتعالى- أن يغفر لهم ويرحمهم وأن يديم عليهم نعمه الظاهرة والباطنة.
واجتمعوا في مسجده -صلى الله عليه وسلم- وتقدم إلى مكانه حيث يصلي بهم، فصلى بهم صلاة لا نظير لها فيما اعتاده الناس من صلاتهم؛ لآية كونية خرجت عن العادة، فهي بلا إقامة، فكبر وصلى ركعتين في سجدتين، وركعتين في سجدتين يعني في كل ركعة ركوعان وسجودان.
585;سول ﷺ کے دور میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے منادی کرنے والے کو بھیجا جو سڑکوں اور بازاروں میں ’الصَّلاةُ جَامِعَةٌ‘ (نماز ہونے جارہی ہے) کی لوگوں میں منادی کرے، تاکہ وہ انھیں نماز پڑھائیں، اور ان کے لیے اللہ تبارک وتعالی سے دعا کریں کہ وہ انھیں بخش دے، ان پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے اور ان پر اپنی ظاہری وباطنی نعمتوں کو سدا بہار کردے۔
وہ سب مسجد نبوی میں جمع ہوئے، اور اپنی جگہ کی طرف بڑھے جہاں سے نماز پڑھایا کرتے تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے انھیں ایک ایسی نماز پڑھائی جو ان کی ان نمازوں سے بالکل مختلف تھی جس کے وہ عادی تھے، جو خارج از معتاد کائنات کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی؛ اس نماز کے لیے اقامت نہیں کہی جائے گی، آپ ﷺ نے تکبیر کہی اور دو سجدوں میں دو رکوع کیا، اور (پھر دوسری رکعت کے لیے بھی) دو سجدوں میں دو رکوع کیا، یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع اور دو دو سجدے کیے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5214

 
 
Hadith   816   الحديث
الأهمية: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينْخَسِفَانِ لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فَادْعُوا اللَّه وكَبِّرُوا وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا


Tema:

سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: « خَسَفَتِ الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فصَلَّى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالناس. فأطال القيام، ثم ركع، فأطال الركوع، ثم قام، فأطال القيام -وهو دون القيام الأول- ثم ركع، فأطال الركوع -وهو دون الركوع الأول- ثم رفع فأطال القيام -وهو دون القيام الأول- ثم سجد، فأطال السجود، ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ما فَعَل في الرَّكعة الأولى، ثم انصرف، وقد  تَجَلَّتْ الشمس، فخَطَب الناس، فحَمِد الله وأَثْنَى عليه، ثُمَّ قال: إِنَّ الشَّمس والقمَر آيَتَان مِن آيات الله، لا  ينْخَسِفَانِ لموت أحد ولا لِحَيَاته، فَإِذا رَأَيتُم ذلك فَادْعُوا اللَّه وكَبِّرُوا , وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا.   ثم قال: يا أُمَّة مُحمَّد، واللهِ ما من أحد أغْيَرُ من الله أن يَزْنِيَ عبده أو تَزْنِيَ أَمَتُهُ. يا أُمَّةَ محمد، والله لو تعلمون ما أعلم لَضَحِكْتُمْ قليلا ولَبَكَيْتم كثيرا». وفي لفظ: «فاسْتَكَمَل أَرْبَع رَكَعَاتٍ وَأَرْبَع سَجَدَاتٍ».

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک قیام فرمایا، پھر رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر قیام فرمایا اور بہت لمبا قیام کیا، البتہ یہ آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا، تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، البتہ یہ پہلے رکوع سے کچھ کم تھا، رکوع سے اٹھے اور قیام فرمایا جو کہ پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلی رکعت میں کیا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے، تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
پھر آپ ﷺنے فرمایا: اے امت محمد(ﷺ)! دیکھو، اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ اے امت محمد(ﷺ)! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تمھیں بھی معلوم ہوجائے، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے (دو رکعات میں) پورے چار رکوع اور چار سجدے کیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خَسَفَتِ الشمس على عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولما كان الخسوف أمرًا غير معهود صلى بهم صلاة غير معهودة في هيئتها ومقدارها، فقام فصلى بالناس فأطال القيام الذي بعد تكبيرة الإحرام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فقرأ قراءة طويلة دون القراءة الأولى، ثم ركع فأطال الركوع، وهو أخف من الركوع الأول ثم رفع من الركوع وسمع وحمد ولم يقرأ، ثم سجد وأطال السجود، ثم فعل في الركعة الثانية مثل الأولى في هيئتها وإن كانت دونها ، فكل ركن أقل من الركن الذي قبله، حتى استكمل أربع ركوعات وأربع سجدات، في ركعتين، ثم انصرف من الصلاة، وقد انْجَلت الشمس، فخطب الناس كعادته في المناسبات، فحمد الله وأثنى عليه ووعظهم، وحدث أن صادف ذلك اليوم الذي حصل فيه الخسوف موت ابنه إبراهيم -رضي الله عنه- فقال بعضهم: كَسَفت لموت إبراهيم، جرياً على عادتهم في الجاهلية من أنها لا تكسف إلا لموت عظيم أو لولادة عظيم، وأراد النبي -صلى الله عليه وسلم- من نصحه وإخلاصه في أداء رسالته، ونفع الخلق أن يزيل ما علق بأذهانهم من هذه الخرافات، التي لا تستند لا إلى نقل صحيح، ولا عقل سليم، ويبين الحكمة من خسوف الشمس والقمر فقال في خطبته: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته، وإنَّما يجريهما الله -تعالى- بقدرته لِيُخَوِّفَ بهما عباده، ويُذَكِّرَهم نِعَمَه.
فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى الله -تعالى- تائبين منيبين، وادْعُواَ وَكَبِّرُوا, وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا؛ لما في ذلك من دفع البلاء المتوقع ورفع العقوبة النازلة.
ثم أخذ -صلى الله عليه وسلم- يُفَصِّل لهم شيئاً من معاصي الله الكبار كالزنا التي تُوجِب فساد المجتمعات والأخلاق، والتي توجب غضبه وعقابه، ويقسم في هذه الموعظة -وهو الصادق المصدوق- قائلا: يا أمة محمد، والله، ما من أحد أغير من الله سبحانه أن يزني عبده، أو تزني أمته، ثم بيَّن أنَّهم لا يعلمون عن عذاب الله إلا قليلاً، ولو علموا ما علمه صلى الله عليه وسلم لأخذهم الخوف ولضَحِكوا سروراً قليلا، ولبكوا واغتموا كثيراً، لكن الله بحكمته حجب عنهم ذلك.
585;سول اللہ ﷺ کے دور میں (ایک بار) سورج گرہن لگا۔ چوں کہ سورج گرہن خلاف معمول واقعہ تھا، اس لیے آپﷺ نے اپنے صحابہ کو ایسی نماز پڑھائی جو اپنی ہیئت اور مقدار کے اعتبار سے عام نمازوں سے جدا تھی۔ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تکبیر تحریمہ کے آپ نے لمبا قیام فرمایا، پھر رکوع کیا، تو رکوع میں بہت دیر تک رہے، پھر رکوع سے اٹھے اور لمبی قراءت کی، لیکن پہلی قراءت سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے، لیکن پہلے رکوع سے کچھ كم، پھر رکوع سے سر اٹھایا سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا، اس کے علاوہ کوئی قراءت نہیں فرمائی، پھر سجدے میں گئے اور دیر تک سجدے کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے پہلی رکعت کی طرح سب کچھ کیا، البتہ یہ اس سے کچھ ہلکی تھی۔ چنانچہ ہر رکن، ماقبل رکن سے ہلکا تھا۔ دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعد آپ نے حسب معمول خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد انھیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ اتفاقا سورج گرہن کے دن ہی آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ چنانچہ زمانۂ جاہلیت کے اس عقیدے کی بنیاد پر کہ سورج کو گرہن کسی عظیم شخصیت کی موت یا پیدائش کی بنا پر ہی لگتا ہے، کسی نے یہ کہہ دیا کہ آج سورج کو گرہن آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ک وجہ سے لگا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حق رسالت کی ادائیگی اور لوگوں کو نفع یاب کرنے کے تئیں اپنے سچے اخلاص کی بنیاد پر یہ مناسب سمجھا کہ ان کے ذہنوں سے ان خرافات کو زائل فرما دیں، جو نہ قرآن و سنت سے ثابت ہیں، نہ عقل سلیم کے معیار پر اترتے ہیں۔ نیز سورج اور چاند گرہن کی حکمت بھی بیان کر دیں۔ چنانچہ خطبے کے دوران آپ نے فرمایا: سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان کوگرہن نہیں لگتا۔ انھیں اس کیفیت سے دوچار اللہ تعالی کرتا ہے؛ تاکہ اپنے بندوں کو تنبیہ کرے اور اپنی نعمت کی یاد دہانی کرائے۔ اس لیے جب تم گرہن لگتے ہوئے دیکھو تو اللہ کے سامنے گڑگڑاؤ، توبہ اور رجوع کرو، اس سے دعا مانگو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو؛ کیوں کہ اس سے آنے والی آزمائشیں ٹل جاتی ہیں اور نازل ہونے والے عذاب تھم جاتے ہیں۔
پھر آپﷺ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی پھر آپﷺ ان کے سامنے اللہ کی کچھ بڑی نافرمانیوں کا ذکر کرنے لگے۔ جیسے زنا، جو معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا باعث ہے۔ پھر صادق مصدوق ﷺنے اس وعظ میں قسم کھاکر فرمایا: اے امت محمد! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔ پھر بتایا کہ ان کے پاس اللہ کے عذاب کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ اگر انھیں وہ سب کچھ معلوم ہو جائے جو آپ ﷺ کو معلوم ہے، تو ان پر خوف طاری ہو جائے۔ وہ ہنسنا کم کر دیں اور زیادہ سے زیادہ رو   ‎‎   ئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے پیش نظر اسے لوگوں سے چھپارکھا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5215

 
 
Hadith   817   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَفْتِحُ الصلاة بالتكبير، والقراءة بـ الحمد لله رب العالمين، وكان إذا ركع لم يُشْخِصْ رأسه ولم يُصَوِّبْهُ ولكن بين ذلك


Tema:

رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کا آغاز ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے قراءت شروع کر تے تھے اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَفْتِحُ الصلاةَ بالتكبير، والقراءةَ بـ«الحمد لله رب العالمين» وكان إذا ركع لم يُشْخِصْ رأسه ولم يُصَوِّبْهُ ولكن بَيْن ذلك، وكان إذا رفَع رأسَه مِن الرُّكوع لم يَسْجُدْ حتى يَسْتَوِيَ قائِما، وكان إذا رفع رأسه من السَّجْدَة لم يَسْجُدْ حتى يَسْتَوِيَ قاعدا، وكان يقول في كلِّ رَكعَتَين التَّحِيَّة، وكان يَفْرِشُ رِجْلَهُ اليُسْرى ويَنْصِبُ رِجْلَهُ اليُمْنى، وكان يَنْهَى عن عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ، ويَنْهَى أن يفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افتِرَاش السَّبُعِ ، وكان يَخْتِمُ الصلاة بالتَّسلِيم».

عائشہ رضي الله عنها کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کا آغاز ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے قراءت شروع کر تے تھے اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد ’’التحيات‘‘ پڑھتے اور جب بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھاتے اور داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے منع کرتے نیز نماز سلام سے ختم کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تصف عائشة -رضي اللَه عنها- بهذا الحديث الجليل صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- نشرا للسنة وتبليغا للعلم، بأنه كان يفتتح الصلاة بتكبيرة الإحرام، فيقول: (الله أكبر).
ويفتتح القراءة بفاتحة الكتاب، التي أولها (الحمد لله رب العالمين).
وكان إذا ركع بعد القيام، لم يرفع رأسه ولم يخفضه، وإنما يجعله مستوياً مستقيماً.
وكان إذا رفع من الركوع انتصب واقفاً قبل أن يسجد.
وكان إذا رفع رأسه من السجدة، لم يسجد حتى يستوي قاعداً.
وكان يقول بعد كل ركعتين إذا جلس: "التحيات لله والصلوات والطيبات.. الخ".
وكان إذا جلس افترش رجله اليسرى وجلس عليها، ونصب رجله اليمنى.
وكان ينهى أن يجلس المصلي في صلاته كجلوس الشيطان، وذلك بأن يفرش قدميه على الأرض، ويجلس على عقبيه، أو ينصب قدميه، ثم يضع أليتيه بينهما على الأرض، كلاهما منهي عنه، كما ينهى أن يفترش المصلي ذراعيه ويبسطهما في السجود كافتراش السبع، وكما افتتح الصلاة بتعظيم الله وتكبيره، ختمها بطلب السلام للحاضرين من الملائكة والمصلين ثم على جميع عباد اللَه الصالحين، والأولين والآخرين، فعلى المصلي استحضار هذا العموم في دعائه.
593;ائشہ رضی الله عنها اس مبارک حدیث کے ذکرسے نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کر رہی ہیں- سنت کی نشروا شاعت اور علم کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے مقصد سے بایں طور کہ آپ ﷺ اپنی نماز کا آغاز تکبیر تحریمہ یعنی ”اللَّهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔
اور قراءت کی ابتداء فاتحۃُ الکتاب کے ذریعہ جس کی پہلی آیت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ہے۔
اور آپ ﷺ جب قیام کے بعد رکوع میں جاتے تو اپنا سر نہ بہت زیادہ اونچا رکھتے اور نہ اُسے جھکائے رکھتے بلکہ اسے درمیان میں رکھتے۔
اورجب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ کرنے سے پہلے سیدھے کھڑے ہوجاتے۔
اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوبارہ سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاتے۔
اور ہر دو رکعت کے بعد جب بیٹھتے ” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ...“ آخر تک پڑھتے۔
اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اس پر بیٹھتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے۔
آپ ﷺ اس بات سے منع کرتے کہ نمازی اپنی نماز میں کُتے کے بیٹھنے کی طرح بیٹھے بایں طورکہ اپنے دونوں قدموں کو زمین پر بچھادے اور ایڑیوں پر بیٹھ جائے یا دونوں قدموں کو گاڑ کر ایڑیوں پر سرین ركھ کر زمین پر بیٹھ جائے یہ دونوں ہی صورتیں ممنوع ہیں، اسی طرح آپ ﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ نمازی نماز میں اپنے دونوں بازوں کو بچھائے اور ان دونوں کو سجدے کی حالت میں پھیلائے درندوں کے ہاتھ بچھانے کی طرح۔
اور آپ ﷺ جس طرح نماز کا آغاز اللہ کی بڑائی اور کبریائی سے شروع کرتے تھے اسی طرح وہاں پر موجود فرشتے مصلیوں اور دیگر بندگانِ رب پر سلام سے اپنی نماز ختم کرتے اس لیے نمازی کے لیے ضروری ہے کہ اپنی دعا میں اس عموم کو حاضر رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5216

 
 
Hadith   818   الحديث
الأهمية: كنت أنام بين يَدَيْ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ورِجْلايَ فِي قِبْلَتِهِ، فإذا سجد غَمَزَنِي، فقبضت رِجْلَيَّ، فإذا قام بَسَطْتُهُمَا، والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے تھے۔ آپ ﷺ جب سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو میں پاؤں پھلا لیتی اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كنت أنام بين يَدَيْ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ورِجْلايَ فِي قِبْلَتِهِ، فإذا سجد غَمَزَنِي، فقَبَضتُ رِجْلَيَّ، فإذا قام بَسَطْتُهُمَا، والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی اور میرے پاؤں آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے۔ آپ ﷺ جب سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دباتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو میں پاؤں پھلا لیتی اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت عائشة -رضي الله عنها- تقول: كنت أنام بين يدي النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو يصلِّي في الليل، ولضيق بيوتنا، تكون رِجْلاي في قِبْلته بينه وبين موضع سجوده، فما دام واقفاً يتهجد بسطتهما، فإذا سجد، غَمَزني فَقبضتهما ليسجد.
ولو كنت أراه إذا سجد لقبضتهما بلا غمز منه، ولكن ليس في بيوتنا مصابيح ترى فيها النبي -صلى الله عليه وسلم-، فتكف رجليها من غير أن تحوجه إلى غمزها.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سو جاتی اور آپ ﷺ تہجد کی نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ہمارے گھروں کے تنگ ہونے کی وجہ سے میرے پاؤں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے سجدے کے جگہ کے مابین آپ ﷺ کے قبلے کی جانب ہوتے تھے۔ جب تک آپ ﷺ نماز تہجد میں کھڑے رہتے میں پاؤں کو پھیلائے رکھتی اور جب آپ ﷺ سجدہ فرماتے تو مجھے دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی تاکہ آپ ﷺ سجدہ کر سکیں۔
اگر میں آپ ﷺ کو دیکھ سکتی کہ آپ ﷺ سجدہ کرنے والے ہیں تو بلا دبائے ہی میں پاؤں کو سمیٹ لیتی لیکن ہمارے گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے کہ جن کی روشنی میں وہ نبی ﷺ کو دیکھ کر اپنے پاؤں کو سمیٹ لیتیں بغیر اس کے کہ آپ ﷺ کو انہیں دبانے کی ضرورت پڑتی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5217

 
 
Hadith   819   الحديث
الأهمية: من كلِّ الليل أَوْتَرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، من أول الليل، وأوسطه، وآخره، وانتهى وِتْرُهُ إلى السَّحَرِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں نمازِ وتر پڑھی ہے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی اور آپ ﷺ کی وتر سحر تک ختم ہوجاتی۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «من كلِّ الليل أَوْتَرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: من أول الليل، وأوسطه، وآخره، وانتهى وِتْرُهُ إلى السَّحَرِ».

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں نمازِ وتر پڑھی ہے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی اور آپ ﷺ کی وتر سحر تک ختم ہوجاتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها- عن الوقت الذي كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلي الوتر فيه من الليل، وأنه لا يتقيد بساعة دون أخرى، ففي كل ساعات الليل كان يوتر، أحيانا من أوله حين يصلي العشاء وما شاء الله بعدها، وأحيانا من أوسطه بعد مُضِي ثلثه الأول، وأحيانا من آخره حين يمضي ثلثاه حتى تكون آخر ساعة من الليل.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا وتر پڑھنے کے حوالے سے رسول اللہﷺ کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ آپ رات کو وتر کس وقت پڑھتے تھے۔ وتر پڑھنے میں آپ ﷺ نے کوئی وقت خاص نہیں مقرر کیا تھا بلکہ رات کے پورے حصہ میں وتر پڑھتے تھے۔ کبھی رات کے شروع میں عشاء کی نماز کے بعد اور کبھی اس وقت کے جب اللہ تعالی چاہتا، اور کبھی رات کے درمیانی حصے میں جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر چکا ہوتا اور کبھی رات کے آخری حصہ میں پڑھتے جب رات دو تہائی گزر چکی ہوتی حتیٰ کہ رات کے بالکل آخری حصے تک چلے جاتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5218

 
 
Hadith   820   الحديث
الأهمية: شكا أهل الكوفة سعدًا يعني: ابن أبي وقاص -رضي الله عنه- إلى عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- فعزله، واستعمل عليهم عمارًا


Tema:

اہل کوفہ نے سعد یعنی ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شکایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا۔

عن جابر بن سمرة -رضي الله عنهما- قال: شكا أهل الكوفة سعدًا يعني: ابن أبي وقاص -رضي الله عنه- إلى عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- فعزله، واستعمل عليهم عمارًا، فشَكَوا حتى ذكروا أنه لا يُحسن يصلي، فأرسل إليه، فقال: يا أبا إسحاق، إن هؤلاء يزعمون أنك لا تُحسن تصلي، فقال: أمَّا أنا والله فإني كنت أصلي بهم صلاة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لا أَخْرِمُ عنها، أصلي صلاتَي العشاء فأَرْكُدُ في الأُولَيَيْنِ، وأُخِفُّ في الأُخْرَيَيْنِ. قال: ذلك الظن بك يا أبا إسحاق، وأرسل معه رجلًا -أو رجالًا- إلى الكوفة يسأل عنه أهل الكوفة، فلم يَدَعْ مسجدًا إلا سأل عنه، ويُثْنُونَ معروفًا، حتى دخل مسجدًا لبني عَبْسٍ، فقام رجل منهم، يقال له أسامة بن قتادة، يكنى أبا سَعْدَةَ، فقال: أما إذ نشدتنا فإن سعدًا كان لا يسير بالسَّرية ولا يَقْسِم بالسَّوية، ولا يَعْدِل في القضية. قال سعد: أما والله لأدعون بثلاث: اللهم إن كان عبدك هذا كاذبًا، قام رِياء، وسُمعة، فأطل عمره، وأطل فقره، وعرضه للفتن. وكان بعد ذلك إذا سئل يقول: شيخ كبير مفتون، أصابتني دعوة سعد. قال عبد الملك بن عمير الراوي عن جابر بن سمرة: فأنا رأيته بعد قد سقط حاجباه على عينيه من الكبر، وإنه ليتعرض للجواري في الطرق فيَغْمِزُهُنَّ.

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اہل کوفہ نے سعد یعنی ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شکایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنادیا؛ کوفہ والوں نے سعد رضی اللہ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں تو اچھی طرح نماز پڑھانا بھی نہیں آتا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا اور ان سے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تمھیں اچھی طرح نماز پڑھانا بھی نہیں آتا۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انھیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھااور اس میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ عشا کی نماز پڑھاتا، تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو آپ سے یہی امید تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کچھ آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی؛ لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے، تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابو سعدہ تھی، کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے، تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مالِ غنیمت کی تقسیم صحیح طریقے سے کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمھاری اس بات پر) تین بد دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے، تو اس کی عمر دراز کر اور اسے بہت زیادہ محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا، تو کہتا کہ آزمائش میں مبتلا ایک بوڑھا ہوں۔ مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے۔ راوی عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ جابر بن سمرہ نے بیان کیا: میں نے اسے دیکھا؛ اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں، لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا اور ان پر دست درازی کرتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمَّر عمرُ بن الخطاب رضي الله عنه سعدَ بن أبي وقاص رضي الله عنه على الكوفة، فشكاه أهل الكوفة إلى أمير المؤمنين عمر، حتى قالوا إنه لا يحسن أن يصلي، وهو صحابي جليل شهد له النبي صلى الله عليه وسلم بالجنة، فأرسل إليه عمر، فحضر وقال له: إن أهل الكوفة شكوك حتى قالوا: إنك لا تحسن تصلي، فأخبره سعد رضي الله عنه أنه كان يصلي بهم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر صلاة العشاء وكأنها - والله أعلم - هي التي وقع تعيينها من هؤلاء الشكاة، فقال: إني لأصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا أنقص منها، فكنت أطول في العشاء بالأوليين وأقصر في الأخريين، فقال له عمر رضي الله عنه: ذلك الظن بك يا أبا إسحاق، فزكاه عمر؛ لأن هذا هو الظن به، أنه يحسن الصلاة وأنه يصلي بقومه الذين أمر عليهم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ولكن مع ذلك تحرى ذلك عمر رضي الله عنه؛ لأنه يتحمل المسئولية ويعرف قدر المسئولية، أرسل رجالًا إلى أهل الكوفة، يسألونهم عن سعد وعن سيرته، فكان هؤلاء الرجال، لا يدخلون مسجدًا ويسألون عن سعد إلا أثنوا عليه معروفًا.
حتى أتى هؤلاء الرجال إلى مسجد بني عبس، فسألوهم، فقام رجل فقال: أما إذ ناشدتمونا، فإن هذا الرجل لا يخرج في الجهاد، ولا يقسم بالسوية إذا غنم، ولا يعدل في القضية إذا حكم بين الناس، فاتهمه هذه التهم، فهي تهم ثلاث، فقال سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه: أمَا إن قلت كذا فلأدعون عليك بثلاث دعوات، دعا عليه أن يطيل الله تعالى عمره وفقره ويعرضه للفتن، نسأل الله العافية، ثلاث دعوات عظيمة، لكنه رضي الله عنه استثنى، قال: إن كان عبدك هذا قام رياء وسمعة يعني لا بحق، فأجاب الله دعاءه، فعمر هذا الرجل طويلًا وشاخ حتى إن حاجبيه سقطت على عينيه من الكبر، وكان فقيرًا وعرض للفتن، حتى وهو في هذه الحال وهو كبير إلى هذا الحد كان يتعرض للجواري، يتعرض لهن في الأسواق ليغمزهن والعياذ بالله، وكان يقول عن نفسه شيخ مفتون كبير أصابتني دعوة سعد.
593;مربن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو اہل کوفہ نے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شکایت کی۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ وہ تو اچھی طرح سے نماز بھی نہیں پڑھاتے۔ سعد رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے، جنھیں نبی ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی؛ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اہلِ کوفہ نے آپ کی شکایت کی ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح سے نماز بھی نہیں پڑھاتے! سعد رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ نبی ﷺ کی نماز کی طرح نماز پڑھایا کرتے تھے اور عشا کی نماز کا ذکر کیا۔ شاید شکایت کرنے والوں کو اسی نماز کے متعلق شکایت تھی۔ انہوں نے کہا: میں تو انھیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ عشا کی نماز پڑھاتا، تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور بعد کی دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:اے ابو اسحاق! مجھ کو آپ سے یہی امید تھی۔ گویا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا تزکیہ کیا؛ کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ نماز اچھی طرح ادا کرتے ہوں گے اور قوم کو اسی طرح نماز پڑھاتے ہوں گے، جس طرح نبی ﷺ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح کی کارروائی کی؛ کیوں کہ وہ ذمے داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے اور ذمے داری کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ آپ نے کچھ آدمیوں کو کوفہ والوں کے پاس بھیجا؛ تاکہ وہ اہل کوفہ سے سعد رضی اللہ عنہ اور ان کی سیرت کے متعلق معلومات حاصل کریں۔ ان لوگوں نے ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے ان کی تعریف کی؛ لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے اور ان سے پوچھا، تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے، تو (سنیے کہ) یہ شخص نہ جہاد میں نکلتا ہے، نہ صحیح طور پر مالِ غنیمت تقسیم کرتا ہے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتا ہے۔ اس نے سعد رضی اللہ عنہ پر تین تہمتیں لگائیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ جب تم نے ایسا کہا ہے، تو اللہ کی قسم! میں (تمھاری اس بات پر) تین بد دعائیں کرتا ہوں۔ چنانچہ انھوں نے بد دعا کی کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے ، بہت زیادہ محتاج بنائے اور فتنوں میں مبتلا کردے! العیاذ باللہ۔ یہ تین بڑی بد دعائیں تھیں۔ لیکن سعد رضی اللہ عنہ نے استثنا کا طریقہ اپنایا اور فرمایا: "اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے"۔ یعنی نا حق تہمت لگائی ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور اس آدمی کو لمبی عمر عطا کی۔ وہ اتنا بوڑھا ہوا کہ اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پرآ گئی تھیں۔ وہ فقیر وقلاش اور فتنوں میں مبتلا تھا۔ حتیٰ کہ اس بڑھاپے میں بھی لڑکیوں کو چھیڑا کرتا تھا۔ وہ انھیں بازاروں میں روکتا تھا؛ تاکہ ان سے شہوت انگیز گفتگو کرے۔ -اللہ کی پناہ!- وہ اپنے بارے میں کہا کرتا تھا: آزمائش میں مبتلا بوڑھا آدمی ہے، جسے سعد کی بد دعا لگی ہوئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5219

 
 
Hadith   821   الحديث
الأهمية: أن علي -رضي الله عنه- أتي بدابة ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال: بسم الله


Tema:

علی رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھاتو ’بِسْمِ اللَّهِ‘ کہا۔

عن علي بن ربيعة، قال: شهدت علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أتي بدابة ليركبها، فلما وضع رجله في الركاب، قال: بسم الله، فلما استوى على ظهرها، قال: الحمد لله الذي سخر لنا هذا وما كنا له مُقْرِنين، وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم قال: الحمد لله، ثلاث مرات، ثم قال: الله أكبر، ثلاث مرات، ثم قال: سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، ثم ضحك، فقيل: يا أمير المؤمنين، من أي شيء ضحكت؟ قال: رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- فعل كما فعلت ثم ضحك، فقلت: يا رسول الله، من أي شيء ضحكت؟ قال: «إن ربك تعالى يَعجب من عبده إذا قال: اغفر لي ذنوبي، يعلم أنه لا يغفر الذنوب غيري»

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو ’بِسْمِ اللَّهِ‘ کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہا، اور ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ﴾ پڑھا ”تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہم تو اسے قابو میں کرنے کی قوت نہیں رکھتے تھے اور ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے“، پھر تین مرتبہ ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہا، پھر تین مرتبہ ’اللہُ اَکْبَر‘ کہا، پھر ’سُبحانَكَ إنِّي ظَلَمتُ نَفسي فاغفِر لي فإنَّهُ لا يغفِرُ الذُّنوبَ إلا أنتَ‘ کہا یعنی ”تیری ذات پاک ہے، میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا پس تو مجھے معاف کر دے، کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا“، پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک بار دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عليّ بن ربيعة وهو من كبار التابعين قال شهدت أي حضرت عليّ بن أبي طالب أتي بدابته، والدابة في أصل اللغة ما يدبّ على وجه الأرض، ثم خصها العرف بذات الأربع، ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال (بسم الله) أي أركب (فلما استوى) أي استقرّ على ظهرها قال (الحمد لله) أي على هذه النعمة العظيمة، وهي تذليل الوحش النافر وإطاعته لنا على ركوبه محفوظين من شره كما صرح به بقوله (الذي سخر) أي ذلل لنا أي لأجلنا هذا المركوب وما كنا له أي لتسخيره مقرنين أي مطيقين (وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم قال) أي بعد حمده المقيد بالثناء بما أنعم عليه (الحمد لله) حمداً غير مقيد بشىء (ثلاث مرات) وفي التكرير إشعار بعظم جلال الله سبحانه وأن العبد لا يقدر الله حق قدره وهو مأمور بالدأب في طاعته حسب استطاعته، (الله أكبر ثلاث مرات) والتكرير للمبالغة في ذلك، (ثم قال سبحانك) أي أقدسك تقديساً مطلقاً، (إني ظلمت نفسي) بعدم القيام بحقك لشهود التقصير في شكر هذه النعمة العظمى ولو بغفلة أو خطرة أو نظرة (فاغفر لي) أي استر ذنوبي بعدم المؤاخذة بالعقاب عليها (إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت) وفيه إشارة بالاعتراف بتقصيره مع إنعام الله وتكثيره (ثم ضحك فقيل) أي: فقال ابن ربيعة، وفي نسخة مصححة من «الشمائل» «فقلت» (يا أمير المؤمنين من أي شيء ضحكت) لما لم يظهر ما يتعجب منه مما ينشأ عنه الضحك استفهمه عن سببه وقدم نداءه على سؤاله كما هو الأدب في الخطاب، (قال: رأيت) أي أبصرت (النبي صنع كما صنعت) من الركوب والذكر في أماكنه (ثم ضحك فقلت: يا رسول الله من أي شيء ضحكت) (قال: إن ربك سبحانه يعجب من عبده) إضافة تشريف (إذا قال رب اغفر لي ذنوبي يعلم): أي قال ذلك عالماً غير غافل (أنه لا يغفر الذنوب غيري).
593;لی بن ربیعہ (جن کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے) بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ آپ کے پاس آپ کی سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہوں۔ لغت کے اعتبار سے ’الدابة‘ کا اطلاق ہر اس جانور پر ہوتا ہے جو زمین پر رینگے۔ بعد ازاں عرف عام میں اسے چوپایوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔ جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو کہا: ’بِسْمِ اللَّهِ‘ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ سوار ہوتا ہوں۔ پھر جب اچھی طرح سے اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا: ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ یعنی اس عظیم نعمت پر ساری تعریفین اللہ ہی کے لیے ہیں اور وہ نعمت یہ ہے کہ اس نے ایک نامانوس اوربدکنے والے جانور کو رام کر دیا اور اس پر سواری کے لیے اسے ہمارا فرماں بردار بنا دیا بایں طور کہ ہم اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ’الَّذِي سَخَّرَ‘ کے الفاظ کے ساتھ اس کی تصریح کی، یعنی اس سواری کو ہمارے قابو میں کر دیا جب کہ ہم میں اسے مسخر کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ ’وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ‘ یعنی اپنے اوپر ہونے والی نعمت پر کی جانے والی مقید حمد کے بعد فرمایا۔ ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ یعنی ایسی حمد جو کسی شے کے ساتھ مقید نہیں۔ ’ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بار بار ایسا کہنے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت وجلال کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ بندہ اللہ کی ویسے قدردانی نہیں کرتا جیسا کہ حق ہے۔ اسے یہ حکم ہے کہ وہ حسبِ استطاعت فرماں برداری کرتا رہے۔ ‏‏‏‏’اللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ‘ یہ تکرار بڑائی کے بیان میں مبالغہ کے لیے ہے۔ پھر ’سُبحانَكَ‘ کہا یعنی میں تیری مطلق پاکی بیان کرتا ہوں۔ ’إنِّي ظَلَمتُ نَفسي‘ یعنی تیرے حق کی ادائیگی نہ کر کے یا اسے اہمیت نہ دے کر اور اس میں غور نہ کر کے (میں نے اپنی جان پر ظلم کیا) کیونکہ انہیں اس نعمت عظمیٰ کی شکر گزاری میں کوتاہی دکھائی دی چاہے وہ غفلت ہی کی وجہ سے ہو۔ ’فاغفِر لي‘ یعنی میرے گناہوں کو پوشیدہ رکھ بایں طور کہ ان پر سزا دے کر مواخذہ نہ کرنا۔ ’فإنَّهُ لا يغفِرُ الذُّنوبَ إلا أنتَ‘ ان الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اور اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ کی کرم نوازیاں بہت زیادہ ہیں۔ ’ثُمَّ ضَحِكَ‘ یعنی ابن ربیعہ نے کہا۔ 'الشمائل' کے ایک تصحیح شدہ نسخے میں ہے کہ میں نے پوچھا ’اے امیر المومنین! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟‘ چونکہ بظاہر کوئی ایسی باعثِ تعجب بات نہیں تھی جس پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا اور سوال پر ندا کو مقدم کیا جیسا کہ مخاطبت میں ادب کا تقاضا ہے۔ ’قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ‘ یعنی میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے بھی سوار ہوتے ہوئے ان جگہوں پر ذکر کیا تھا۔ پھر آپﷺ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے، ’اپنے بندے سے‘ یہ اضافت عزت و تکریم کے لیے ہے۔ ’میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے یعنی بغیرغفلت کے وہ پوری طرح جانتا ہے کہ میرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5271

 
 
Hadith   822   الحديث
الأهمية: مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، واضْرِبُوهُمْ عليها، وهم أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ في المَضَاجِعِ


Tema:

جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں غفلت پر انہیں مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، واضْرِبُوهُمْ عليها، وهم أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ في المَضَاجِعِ».
وعن أبي ثرية سبرة بن معبد الجهني -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ لِسَبْع سِنِينَ، واضْرِبُوهُ عليها ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ».
ولفظ أبي داود: «مُرُوا الصَّبِيَّ بالصلاةِ إذا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ».

عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) اور وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں غفلت پر انہیں مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو۔“
ابو ثریہ سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنا سکھاؤ اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو اسے اس (کے نہ پڑھنے) کی وجہ سے مارو“۔
ابو داود کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
علموا أولادكم ذكورا وإناثا الصلاة وأمروهم إذا أتموا سبع سنين، واضربوهم على أدائها إذا امتنعوا عند عشر سنين، وفرقوا بينهم في الفراش.
575;پنی اولاد کو چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں نماز سکھاؤ اور جب وہ پورے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور دس سال کے ہونے پر اگر وہ نہ پڑھیں تو اس پر انہیں مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5272

 
 
Hadith   823   الحديث
الأهمية: إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك


Tema:

منتر، تعویذ اور ٹوٹکے سب شرک ہیں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك".

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ فرما رہے تھے: ”منتر، تعویذ اور ٹوٹکے سب شرک ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الرسول -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يخبر أن استعمال هذه الأشياء لقصد دفع المضار وجلب المصالح من عند غير الله شركٌ بالله لأنه لا يملك دفع الضر وجلب الخير إلا الله سبحانه، وهذا الخبر معناه النهيُ عن هذا الفعل.
فالرقى -وتسمى العزائم- والتمائم وهي التي تعلق على الأطفال من الخرز ونحوها، والتولة وهي التي تصنع لتحبب أحد الزوجين إلى الآخر بأنها شرك بالله -تعالى-، والجائز من الرقى ما تضمن ثلاثة شروط: الأول: أن لا يعتقد أنها تنفع بذاتها دون الله، فإن اعتقد أنها تنفع بذاتها من دون الله فهو محرم، بل شرك، بل يعتقد أنها سبب لا تنفع إلا بإذن الله، الثاني: أن لا تكون مما يخالف الشرع، كما إذا كانت متضمنة دعاء غير الله، أو استغاثة بالجن، وما أشبه ذلك، فإنها محرمة، بل شرك، الثالث: أن تكون مفهومة معلومة، فإن كانت من جنس الطلاسم والشعوذة، فإنها لا تجوز.
585;سول اللہ ﷺ بتا رہے ہیں کہ نقصان دہ امور کو دور کرنے اور اللہ کے علاوہ کسی اور سے سود مند اشیا کے حصول کی نیت سے اِن چیزوں کو استعمال کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ کیوںکہ نفع و نقصان کا مالک اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ اس خبریہ اسلوب میں اس فعل سے ممانعت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ 'رُقی' (رقیہ، منتر اور جھاڑ پھونک) اسے 'عزائم' بھی کہا جاتا ہے، تمائم سے مراد وہ اشیا ہیں جو بچوں پر لٹکائی جاتی ہیں، جیسے منکے وغیرہ اور 'تولہ' سے مراد وہ اشیا ہیں جو میاں بیوی کے مابین الفت پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ سب اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہیں۔
جائز رقیہ وہ ہے جس میں یہ تین شرطیں پائی جائیں:
پہلی: عقیدہ یہ ہو کہ یہ رقیہ بذات خود بغیر اللہ کی اجازت کے نفع بخش نہیں ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ رقیہ بذات خود بغیر اللہ کی اجازت کے نفع بخش ہے تو یہ عقیدہ حرام ہے بلکہ شرک ہے، ہاں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ رقیہ بس ایک سبب ہے جو صرف اللہ تعالی کی اجازت سے نفع بخش ہوسکتا ہے۔
دوسری شرط: رقیہ ان چیزوں میں سے نہ ہو جو کہ شریعت کی مخالفت کرتی ہوں جیسے کہ وہ رقیہ جس میں غیر اللہ سے دعا کی جاتی ہے، یا کسی جن وغیرہ سے مدد طلب کی جاتی ہے، یہ سب حرام اور شرک ہیں۔
تیسری شرط: رقیہ معلوم الفاظ اور سمجھ میں آنے والا ہو، اگر یہ شیطانی طلسمات اور جادوئی دم پر مشتمل ہو تو پھر یہ ناجائز رقیہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5273

 
 
Hadith   824   الحديث
الأهمية: خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَسْقِي، فتوجه إلى القبلة يدعو، وحَوّل رِدَاءه، ثم صلَّى ركعتين، جَهَرَ فيهما بالقِراءة


Tema:

نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کرنے لگے اور اپنی چادر کو پھیر کر الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپ ﷺ نے جہری طور پر قراءت کی۔

عن عبد الله بن زيد بن عَاصِم المازِنِي -رضي الله عنه- قال: «خرج النبي -صلى الله عليه وسلم- يَسْتَسْقِي، فتَوَجَّه إلى القبلة يدْعو، وحَوَّل رِدَاءه، ثم صلَّى ركعتين، جَهَرَ فيهما بالقِراءة».  وفي لفظ «إلى الْمُصَلَّى».

عبد الله بن زيد بن عاصم مازنی روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کرنے لگے اور اپنی چادر کو پھیر کر الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپ ﷺ نے جہری طور پر قراءت کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ عید گاہ کی طرف گئے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبتلي الله -تعالى- العباد بأنواع من الابتلاء؛ ليقوموا بدعائه وحده وليذكروه، فلما أجدبت الأرض في عهد النبي -صلى الله عليه وسلم-، خرج بالناس إلى مصلى العيد بالصحراء؛ ليطلب السقيا من الله -تعالى-، وليكون أقرب في إظهار الضراعة والافتقار إلى الله -تعالى-، فتوجه إلى القبلة، مظنة قبول الدعاء، وأخذ يدعو الله أن يغيث المسلمين، ويزيل ما بهم من قحط.
وتفاؤلا بتحول حالهم من الجدب إلى الخصب، ومن الضيق إلى السعة، حوَّل رداءه من جانب إلى آخر، ثم صلى بهم صلاة الاستسقاء ركعتين، جهر فيهما بالقراءة؛ لأنها صلاة جامعة.
575;للہ تعالی بہت سی آزمائشوں میں بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اس سے دعا کریں اور اس کو یاد کریں۔ نبی ﷺ کے دور میں جب ایک دفعہ زمین خشک سالی کا شکار ہوگئی تو آپ ﷺ لوگوں کو لے کر صحراء میں عید گاہ کے طرف نکلے تاکہ اللہ تعالی سے پانی کی دعا کریں اور اس طرح سے زیادہ عاجزی اور حاجت مندی کا اظہار کر سکیں۔ آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کیا جہاں سے دعاؤں کی قبولیت کی امید ہوتی ہے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے اور ان پر طاری قحط کو دور کرے۔
اور ان کی حالت کے خشک سالی سے شادابی اور تنگی سے کشادگی میں بدل جانے کے شگون کے طور پر آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کو ایک جانب سے دوسری جانب الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو نمازِ استسقاء کی دو رکعتیں پڑھائیں اور ان میں جہری قرأت فرمائی کیونکہ یہ مجمع کی صورت میں ادا کی جانے والی نماز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5274

 
 
Hadith   825   الحديث
الأهمية: صَلَّيْتُ أنا و عِمْرَانُ بْنُ حصَيْنٍ خلف علي بن أبي طالب، فكان إذا سجد كَبَّرَ، وإذا رفع رأسه كَبَّرَ، وإذا نهض من الركعتين كَبَّرَ


Tema:

میں اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے اور جب دو رکعات سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔

عن مُطَرِّفِ بن عبد الله قال: « صَلَّيْتُ أنا وعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ علِيِّ بنِ أَبِي طالب، فكان إذا سجد كَبَّرَ، وإذا رفع رأسه كَبَّرَ، وإذا نهض من الركعتين كَبَّرَ، فلمَّا قضَى الصلاةَ أَخَذَ بيدَيَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وقال: قد ذكَّرني هذا صلاةَ محمد -صلى الله عليه وسلم- أو قال: صَلَّى بنا صلاة محمد -صلى الله عليه وسلم-».

مطرِّف بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے اور جب دو رکعات سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب نماز پوری کر چکے تو عمران بن حصین نے میرے ہاتھ پکڑے اور فرمایا انہوں نے مجھے آپ ﷺ کی نماز یاد دلائی یا یہ فرمایا کہ انہوں نے ہمیں آپ ﷺ کی نماز پڑھائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان شعار الصلاة، وهو إثبات الكبرياء والعظمة لله -سبحانه وتعالى-، وذلك بالتكبير.
فيحكي مطرف أنه صلى هو وعمران بن حصين خلف علي بن أبي طالب فكان يكبر في هُوِيه إلى السجود، ثم يُكبِّر حِين يرفع رأسه من السجود، وإذا قام من التشهُّد الأوَّل في الصلاة ذات التشهدين، كبَّر في حال قيامه، وقد ترك كثير من الناس الجهر بالتكبير في هذه المواضع، فلمَّا فرغ من صلاته أخذ عمران بيد مُطرِّف، وأخبره بأنَّ عليًّا -رضي الله عنه- ذكَّره بصلاته هذه صلاةَ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم-، حيث كان يُكبِّر في هذه المواضع.
575;س حدیث میں نماز کے شعار کو بیان کیا گیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اثبات ہے، یہ تکبیر سے ثابت ہوتی ہیں۔
مطرِّف نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ سجدے کے لیے جھکتے ہوئے تکبیر (اللہُ اکبر) کہتے، پھر سجدے سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے، جب دو تشہدوں والی نماز میں پہلی تشہّد سے کھڑے ہوتے تو قیام کی حالت میں تکبیر کہتے، بہت سے لوگوں نے ان مواقع میں بلند آواز سے تکبیر کہنی چھوڑ دی ہے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے مطرّف کو ہاتھ سے پکڑا اور فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز سے ہمیں آپ ﷺ کی نماز یاد دلادی، کہ آپ ﷺ ان مواقع میں تکبیر کہا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5275

 
 
Hadith   826   الحديث
الأهمية: إذا تثاءب أحدكم فليمسك بيده على فيه


Tema:

جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منھ پر رکھ کر اُسے روکنے کی کوشش کرے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِذا تَثَاءبَ أحَدُكمْ فَلْيمْسِكْ بيدهِ على فِيهِ؛ فَإنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخل».

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منھ پر رکھ کر اُسے روکے۔ بے شک شیطان منھ میں داخل ہو جاتا ہے۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- عند التثاؤب بوضع اليد على الفم، والأفضل أن ترد التثاؤب ما استطعت، ولو بوضع اليد على الفم؛ "فإن الشيطان يدخل فيه"، أي: في الإنسان عند انفتاح فمه حال التثاؤب؛ فيضحك منه ويدخل في جوفه، فيمنعه من ذلك بوضع اليد على الفم؛ سداً لطريقه، ومبالغة في منعه وتعويقه، وفيه كراهية صورة التثاؤب المحبوبة للشيطان.
581;دیث مبارک میں نبئ کریم ﷺ نے جمائی لیتے وقت منھ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ افضل یہ ہے کہ بقدرِ استطاعت جمائی کو روکا جائے ، اگرچہ منھ پر ہاتھ رکھ کر ہی اسے روکا جائے۔ ”بے شک شیطان منھ میں داخل ہو جاتا ہے“ یعنی جمائی لیتے وقت منھ کھلنے سے (شیطان) انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس پر ہنستا ہے اور انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے، تو منھ پر ہاتھ رکھ کر اس کو داخل ہونے سے روکے تاکہ اس کا راستہ بند ہو جائے اور اس کے داخل ہونے كو شدت سے روکا جائے اور اسے اس سے باز رکھا جائے، اس سے پتا چلا کہ جمائی لینے کی مکروہ شکل شیطان کو محبوب ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5280

 
 
Hadith   827   الحديث
الأهمية: أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كفِّنَ في أثواب بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، ليس فيها قَمِيص وَلا عِمَامَة


Tema:

رسول اللہﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

عن عائشة -رضي الله عنها- «أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كُفِّنَ في أثواب بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، ليس فيها قَمِيص وَلا عِمَامَة».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں (چادروں) میں کفن دیا گیا، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر عائشة -رضي الله عنها- عن كَفَن النبي -صلى الله عليه وسلم- ولونه وعدده، فقد أدرج في ثلاث لفائف بيض مصنوعة في اليمن، ولم يكفن في قميص ولا عمامة، وزيادة الأثواب؛ لأن سترة الميت أعظم من سترة الحيّ وأولى بالعناية.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے کفن، اس کے رنگ اور تعداد کے بارے میں بتا رہی ہیں کہ آپﷺ کو یمن کے بنے ہوئے تین سفید کپڑوں میں لپیٹا گیا اور اس میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ اور زندہ آدمی کی بنسبت میت کی پردہ پوشی اور حفاظت کے پیش نظر زیادہ کپڑے استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5319

 
 
Hadith   828   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في صلاة الفجر يوم الْجمعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وهَلْ أتى على الإنسان


Tema:

نبی ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں الٓم سجدہ اور سورۂ دھر پڑھا کرتے تھے۔

عن أبي هُرَيْرة -رضي الله عنه- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يَقْرأ فِي صلاة الفجر يَومَ الجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وهَلْ أتى على الإنسَان».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں الٓم سجدہ اور سورۂ دھر پڑھا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة سورة السجدة كاملة، وذلك في الركعة الأولى بعد الفاتحة، ويقرأ في الركعة الثانية بعد الفاتحة سورة الإنسان كاملة؛ تذكيرا بما اشتملت عليه السورتان من أحداث عظيمة وقعت وستقع في هذا اليوم, كخلق آدم، وذكر المعاد وحشر العباد، وأحوال القيامة, وغيرها.
606;بی ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ جمعے کے دن نماز فجر میں پہلی رکعت کے اندر سورۂ فاتحہ کے بعد مکمل سورۂ الٓم سجدہ پڑھتے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد مکمل سورۂ انسان (دھر) کی تلاوت فرماتے۔ ایسا آپ ﷺ ان عظیم واقعات کو یاد دلانے کے لیے کرتے، جن کا ذکر ان دونوں سورتوں میں آیا ہے اور جو واقع ہو چکے یا اس دن (یعنی جمعے کے دن) واقع ہوں گے، جیسے تخلیق آدم، قیامت اور انسانوں کے میدان حشر میں جمع ہونے اور قیامت کے احوال وغیرہ کا ذکر۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5320

 
 
Hadith   829   الحديث
الأهمية: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في المغرب بِالطُّور


Tema:

میں نے بنی کریم ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔

عن جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِم -رضي الله عنه- قال: «سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقرأ في المغرب بِالطُّور».

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العادة في صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه كان يُطيل القراءة في صلاة الصبح، ويقصرها في المغرب، ويتوسط في غيرهما من الصلوات الخمس.
ولكنه قد يترك العادة لبيان الجواز، ولأغراض أخرى، كما في هذا الحديث من أنه قرأ في صلاة المغرب بسورة "والطور" وهي من طوال المفصل.
570;پ ﷺ کی عادت تھی کہ آپ پانچوں نمازوں میں سے فجر کی نماز میں لمبی قراءت کرتے تھے اور مغرب میں مختصر کیا کرتے تھے اور دوسری نمازوں میں درمیانے درجے کی قراءت کرتے تھے۔
لیکن کبھی آپ ﷺ بیانِ جواز اور دوسرے مقاصد کی وجہ سے ایسا کرنا چھوڑ دیتے تھے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی نماز میں سورۂ طور پڑھی، یہ طوالِ مفصل سورتوں میں سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5321

 
 
Hadith   830   الحديث
الأهمية: كان النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعمر يصلون العيدين قبل الخطْبة


Tema:

نبی ﷺ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نمازیں خطبے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

عن عبد الله بن عُمر -رضي الله عنهما- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبو بكر وعُمر يصلون العيدين قبل الخُطْبة».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نمازیں خطبے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- وخلفائه الراشدين، أن يصلوا بالناس صلاة العيد، في الفطر والأضحى، ويخطبوا، ويقدموا الصلاة على الخطبة، وقد استمر العمل على ذلك حتى جاء مروان فخرج وخطب قبل الصلاة، وانكر عليه الناس مخالفة السنة، واستمر بنو أمية على ذلك ثم أعاد بنو العباس السنة.
606;بی ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین کا معمول یہ تھا کہ وہ لوگوں کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھاتے اور خطبہ دیتے اور نماز کو خطبہ پر مقدم رکھتے۔ یہ عمل اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ مروان نے اپنے دور حکومت میں آکر نماز سے پہلا خطبہ دیا۔ سنت کی خلاف ورزی پر لوگوں نے ان پر نکیر کی لیکن بنو امیہ اسی طریقہ پر باقی رہے پھر جب بنو عباس حکومت میں آئے تو انہوں نے (نبیﷺ کی) سنت کو دوبارہ شروع کردیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5322

 
 
Hadith   831   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يجمع في السفر بين صلاة الظهر والعصر، إذا كان على ظَهْرِ سَيْرٍ، ويجمع بين المغرب والعشاء


Tema:

رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

عن عَبْد اللَّهِ بْن عَبَّاس -رضي الله عنهما- قال: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَجْمعُ في السَّفَر بين صلاة الظهر والعصر؛ إذا كان على ظَهْرِ سَيْرٍ، ويجمع بين المغرب والعشاء».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تمتاز شريعة نبينا محمد -صلى الله عليه وسلم- من بين سائر الشرائع السماوية بالسماحة واليسر وإزاحة كل حرج ومشقة عن المكلفين أو تخفيفهما، ومن هذه التخفيفات: الجمع في السفر بين الصلاتين المشتركتين في الوقت.
فالأصل وجوب فعل كل صلاة في وقتها، لكن كان من عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا سافر وجدَّ به السير في سفره، الجمع بين الظهر والعصر: إما تقديماً، أو تأخيراً، والجمع بين المغرب والعشاء: إما تقديماً أو تأخيراً، يراعى في ذلك الأرفق به وبمن معه من المسافرين، فيكون سفره سبباً في جمعه الصلاتين، في وقت إحداهما؛ لأن الوقت صار وقتاً للصلاتين كلتيهما؛ ولأن السفر موطن مشقة في النزول والسير، ولأن رخصة الجمع ما جعلت إلا للتسهيل فيه.
729;مارے نبی محمد ﷺ پر نازل ہونےوالی شریعت دوسری آسمانی شریعتوں سے آسانی، ازالہ تکلیف و مشقت اور مکلف افراد پر تخفیف کے اعتبار سے سب سے ممتاز ہے۔ ان آسانیوں میں سے ایک حالت سفر میں ایک وقت کی نمازوں کو اکٹھے ایک ساتھ پڑھنا بھی ہے۔
اصول یہی ہے کہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا واجب ہے لیکن نبی کریم ﷺ کی یہ عادت تھی کہ جب آپﷺ سفر کرتے تو سفر کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے ظہر و عصر کو جمع کرلیتے اور اس میں کبھی جمع تقدیم کرلیتے اور کبھی جمع تاخیر۔ اسی طرح مغرب و عشاء کو جمع تقدیم یا جمع تاخیر کے ذریعے اکٹھا کرلیتے اور ایسا اپنے ساتھ سفر کرنے والوں پر آسانی کی غرض سے کرتے تھے۔ لہذا سفر دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے کا سبب بن جاتا ہے کیوں کہ وہ وقت دونوں نمازوں کی ادائیگی کا وقت بن جاتا ہے اور سفر میں بار بار رکنا اور چلنا مشقت پیدا کرتا ہے اس لیے آسانی کی غرض سے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5323

 
 
Hadith   832   الحديث
الأهمية: أهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مقسط موفق، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربى ومسلم، وعفيف متعفف ذو عيال


Tema:

جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں: ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرنے والا اور صاحب توفیق ہو، دوسرا وہ شخص جو رحیم ہو اور قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے نرم دل ہو اور تیسرا وہ شخص جو مانگنے سے بچے، حرام سے دور رہے اور اہل و عیال والا ہو۔

عن عياض بن حمار -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مُقْسِطٌ مُوَفَّقٌ، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربى ومسلم، وعفيف مُتَعَفِّفٌ ذو عيال».

عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں، ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرنے والا اور صاحبِ توفیق ہو، دوسرے وہ شخص جو رحم کرنے والا ہو، قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے نرم دل ہو، تیسرا وہ شخص جو مانگنے سے بچے، حرام سے دور رہے اور اہل و عیال والا ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث الحث على إقامة العدل بين الناس لمن كان صاحب سلطة، والحض على التخلق بصفات الرحمة والعطف والشفقة لمن كان صاحب رَحِمٍ وقرابة ويكثر مخالطة الناس فيرحمهم، وأيضاً الترغيب في ترك سؤال الناس والمبالغة في ذلك لمن كان صاحب عيال أي أناس يعولهم وينفق عليهم، وأنَّ جزاء من اتصف بذلك من الثلاثة الجنة.
ومفهوم العدد غير معتبر فليس للحصر، وإنما يُذكر من أجل التيسير على السامع ومسارعة فهمه وحفظه للكلام.
575;س حدیث میں صاحبِ اقتدار شخص کو لوگوں کے مابین عدل و انصاف قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس شخص کو رحم دلی، نرمی اور شفقت جیسی صفات اپنانے پر ابھارا گیا ہے جس کے رحمی رشتے دار ہوں اور جس کا لوگوں سے بہت زیادہ میل جول رہتا ہو کہ وہ ان سے نرمی سے پیش آئے۔ اسی طرح اس میں اس شخص کو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنے اور مانگنے میں مبالغہ نہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو اہل و عیال والا ہو یعنی جس کے زیر پرورش کچھ لوگ ہوں اور ان پر وہ خرچ کرتا ہو اور اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کوئی ان تینوں صفات میں سے کسی صفت سے متصف ہوتا ہے اس کی جزا جنت ہے۔ یہاں عدد کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہ عدد حصر کے لیے نہیں ہے، اس کا ذکر صرف سامع کی آسانی کے لیے کیا جاتا ہے تا کہ وہ جلد سمجھ جائے اور بات کو ذہن نشین کر لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5324

 
 
Hadith   833   الحديث
الأهمية: أتدرون ما الغيبة؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: ذكرُك أخاك بما يكره


Tema:

کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح سے کرو جو اسے نا پسند ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أتدرون ما الغِيبَةُ؟»، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: «ذكرُك أخاك بما يكره»، قيل: أرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: «إن كان فيه ما تقول فقد اغْتَبْتَهُ, وإن لم يكن فقد بَهَتَّهُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟، صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس انداز میں کرو جو اسے نا پسند ہو‘‘۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- حقيقة الغيبة، وهي: ذكر المسلم الغائب بما يكره، سواء كان من صفاته الخَلْقية أو الخلُقية ولو كانت فيه تلك الصفة، وأما إذا لم تكن فيه الصفة التي ذكرت فقد جمعت إلى الغيبة المحرمة البهتان والافتراء على الإنسان بما ليس فيه.
606;بی ﷺ غیبت کی حقیقت بیان فرما رہے ہیں۔ غیبت یہ ہے کہ غیر موجود مسلمان بھائی کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اسے ناپسند ہوں چاہے ان کا تعلق اس کی پیدائشی صفات سے ہو یا اخلاقی صفات سے بشرطیکہ اس میں یہ صفت موجود ہو۔ اگر وہ صفت اس میں موجود ہی نہ ہو جس کا آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ نے غیبت جیسے حرام فعل کے ساتھ ساتھ انسان پر ایسی بات کی بہتان تراشی اور افترا پردازی کا بھی ارتکاب کیا جو اس میں موجود نہیں تھی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5326

 
 
Hadith   834   الحديث
الأهمية: إذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه


Tema:

جب تم میں سے کوئی (کسی کو) مارے تو اسے چاہیے کہ چہرے پر مارنے سے بچے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا قاتل أحدكم فَلْيَجْتَنِبِ الوجه».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (کسی کو) مارے تو اسے چاہیے کہ چہرے پر مارنے سے بچے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن الإنسان إذا أراد أن يضرب أحدًا فعليه أن يجتنب الضرب في الوجه، لأنه مجمع المحاسن، وهو لطيف فيظهر فيه أثر الضرب.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو مارنے کا ارادہ کرے تو وہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے کیونکہ چہرہ محاسن کا مرکز ہے اور بہت نازک ہوتا ہے اور مارنے سے اس پر نشان پڑ جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5327

 
 
Hadith   835   الحديث
الأهمية: الظلم ظلمات يوم القيامة


Tema:

ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا۔

عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعا: «الظلم ظلمات يوم القيامة».
عن جابر-رضي الله عنهما- مرفوعا: «اتقوا الظلم, فإن الظلم ظلمات يوم القيامة, واتقوا الشُّحَ؛ فإنه أَهْلَكَ من كان قبلكم».

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ظلم روزِ قيامت اندھیروں کا باعث ہوگا“۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ظلم کرنے سے بچو، کیونکہ ظلم روزِ قيامت تاريکيوں کا باعث ہوگا۔ اور بخل وحرص سے بچو کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک كیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديثان من أدلة تحريم الظلم، وهو يشمل جميع أنواع الظلم، ومنه الشرك بالله تعالى، وقوله في الحديثين: "الظلم ظلمات يوم القيامة" معناه أنه ظلمات متوالية على صاحبه بحيث لا يهتدي يوم القيامة سبيلا.
وقوله في الحديث الثاني: (واتقوا الشح فإنه أهلك من كان قبلكم) فيه التحذير من الشح وبيان أنه إذا فشا في المجتمع فهو علامة الهلاك، لأنه من أسباب الظلم والبغي والعدوان وسفك الدماء.
740;ہ دونوں حديثيں ظلم کی حرمت کے دلائل ميں سے ہیں۔ اور يہ ظلم کی تمام قسموں کو شامل ہے جن میں سے ایک اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ دونوں حديثوں میں آپ ﷺ کے فرمان: ”ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا“ کا مطلب یہ ہے کہ ظالم شخص پے در پے اندھیروں میں ڈوبا ہو گا بایں طور کہ اسے قیامت کے دن راہ ہی سجھائی نہ دے گی۔
دوسری حدیث میں آپ ﷺ کے فرمان: ”اور بخل وحرص سے بچو کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک كیا ہے“ میں بخل سے باز رہنے کی تلقین ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ جب کسی معاشرے میں بخل عام ہو جاتا ہے تو یہ ہلاکت و بربادی کی علامت ہوتی ہے کیونکہ یہ ظلم وناانصافی، جارحیت اور خون ریزی کے اسباب میں سے ہے۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5328

 
 
Hadith   836   الحديث
الأهمية: اللهم جنِّبْني منكرات الأخلاق, والأعمال, والأهواء, والأدواء


Tema:

اے اللہ! مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے بچا۔

عن قطبة بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «اللهم جنِّبْني مُنْكَراتِ الأخلاق, والأعمال, والأهواء, والأَدْوَاء».

قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے: ”اے اللہ! مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے بچا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه دعوات كريمات يقولها المصطفى -صلى الله عليه وسلم-، وهي أن الله تعالى يباعد بينه وبين أربعة أمور:
الأول: الأخلاق الذميمة المستقبحة.
الثاني: المعاصي.
الثالث: الشهوات المهلكات التي تهواها النفوس.
الرابع: الأمراض المزمنة المستعصية.
575;س حدیث میں بہت ہی بہترین دعائیں مذکور ہیں جنہیں نبی ﷺ مانگا کرتے تھے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو چار چیزوں سے دور رکھے:
اول: مذموم اور برے اخلاق
دوم: گناہ
سوم: مہلک خواہشات جن کی طرف نفوس راغب ہوتے ہیں۔
چہارم: دائمی ناقابل علاج بیماریاں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5329

 
 
Hadith   837   الحديث
الأهمية: اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شيئا, فشَقَّ عليهم، فاشْقُقْ عليه


Tema:

اے اللہ! جو شخص بھی میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ انھیں مشقت میں ڈالے تو تو بھی اس پر سختی فرما۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شيئاً, فشَقَّ عليهم؛ فاشْقُقْ عليه».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! جو شخص بھی میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ انھیں مشقت میں ڈالے تو تو بھی اس پر سختی فرما“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث وعيد شديد لمن ولي أمرًا من أمور المسلمين صغيرًا كان أم كبيرًا وأدخل عليهم المشقة، وذلك بدعاء رسول الله -عليه الصلاة والسلام- عليه بأن الله -تعالى- يجازيه من جنس ما عمل.
575;س حدیث میں اس شخص کے لئے سخت وعید ہے جو مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا، چاہے وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اور اس نے انہیں مشقت میں ڈالا۔ وہ وعید یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے یہ بد دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے عمل ہی کے جنس سے بدلہ دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5330

 
 
Hadith   838   الحديث
الأهمية: إن رجالًا يَتَخَوَّضُون في مال الله بغير حق, فلهم النار يوم القيامة


Tema:

کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم ہے۔

عن خولة الأنصارية -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن رجالاً يَتَخَوَّضُون في مال الله بغير حق, فلهم النار يوم القيامة».

خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أناس يتصرفون في أموال المسلمين بالباطل، وأنهم يأخذونها بغير حق، ويدخل في ذلك أكل أموال اليتامى وأموال الوقف من غير مستحقها وجحد الأمانات والأخذ بغير استحقاق ولا إذن من الأموال العامة، وأخبر -صلى الله عليه وسلم- أن جزاءهم النار بذلك يوم القيامة.
606;بی ﷺ نے خبر دی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے اموال میں ناجائز طور پر تصرف کرتے ہیں اور اسے ناحق لیتے ہیں۔ اسی میں کسی غیر حق دار شخص کا یتیموں کے مالوں اور وقف شدہ اموال کو کھانا، امانتوں کا انکار کرنا اور عوامی دولت (پبلک فنڈز) سے بغیر استحقاق یا اجازت کے لینا شامل ہے۔ نیز آپ ﷺ نے باخبر کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی جزا قیامت کے دن جہنم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5331

 
 
Hadith   839   الحديث
الأهمية: إيَّاكم والظنَّ, فإن الظنَّ أكذب الحديث


Tema:

بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-قال: «إيَّاكم والظنَّ, فإن الظنَّ أكذبُ الحديث».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث تحذير من الظن الذي لم يُبن على دليل، بحيث يعتمد الإنسان على هذا الظن المُجرد ويبني عليه الأحكام، وأن هذا من مساوئ الأخلاق، وأنه من أكذب الحديث لأن الظان إذا اعتمد على ما لا يُعتمد عليه وجعله أصلا وجزم به صار كذباً بل أشد الكذب.
581;دیث میں ایسے گمان سے منع کیا ہے جو کسی دلیل پر قائم نہ ہو بایں طور کہ انسان صرف اس گمان پر تکیہ کرتے ہوئے اس پر احکام کی بنیاد رکھے۔ حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ یہ ایک بری اخلاقی صفت ہے اور جھوٹی ترین بات ہے کیونکہ گمان کرنے والا جب کسی ایسی بات پر اعتماد کرتا ہے جس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور اسے بنیاد بنا کر اس پر یقین کرتا ہے تو یہ جھوٹ ہوتا ہے بلکہ بہت ہی شدید قسم کا جھوٹ۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5332

 
 
Hadith   840   الحديث
الأهمية: سِبابُ المسلم فسوق, وقتاله كفر


Tema:

مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «سِبابُ المسلم فسوق, وقتاله كفر».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على عظم حق المسلم حيث حكم على سب المسلم أخاه بالفسوق وهو الخروج عن طاعة الله، وأن من قاتل أخاه المسلم فإنه يكفر كفرًا يخرجه عن الملة إذا كان يعتقد حل قتال المسلم، وأما إذا قاتله لشيء في نفسه أو لدنيا دون أن يعتقد حل دمه فإنه يكون كافرًا كفرًا أصغر لا يخرجه عن الملة، ويكون إطلاق الكفر عليه مبالغة في التحذير.

یہ حدیث مسلمان کے حق کی عظمت کی دلیل ہے بایں طور کہ اس میں مسلمان کے اپنے بھائی کو گالی دینے کو فسق قرار دیا گیا ہے۔ فسق کا معنی ہے: اللہ کی اطاعت گزاری کو چھوڑ دینا اور یہ کہ جو اپنے مسلمان بھائی سے لڑائی کرتا ہے وہ ایسے کفر کا مرتکب ہوتا ہے جو اسے دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے جب کہ وہ مسلمان سے لڑنے کو حلال سمجھے۔ اور جب وہ اپنی کسی ذاتی وجہ سے یا پھر کسی دنیوی غرض سے لڑائی کرے اور اس کے خون بہانے کو حلال خیال نہ کرتا ہو تو پھر وہ کفرِ اصغر کا مرتکب ہو گا جو ملتِ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں ہوتا۔ اور اس صورت میں اس پر کفر کے لفظ کا اطلاق ممانعت میں مبالغہ و شدت پیدا کرنے کے لیے ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5333

 
 
Hadith   841   الحديث
الأهمية: ما من عبد يَسْتَرْعِيْهِ الله رَعِيَّةً, يموت يوم يموت, وهو غاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ؛ إلا حرَّم الله عليه الجنة


Tema:

کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔

عن معقل بن يسار -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما من عبد يَسْتَرْعِيْهِ الله رَعِيَّةً, يموت يوم يموت, وهو غاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ؛ إلا حرَّم الله عليه الجنة».

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث معقل بن يسار هذا التحذير من غش الرعية، وأنه:
(ما من عبد يسترعيه الله رعية): أي يفوض إليه رعاية رعية: وهي بمعنى المرعية، بأن ينصبه إلى القيام بمصالحهم ويعطيه زمام أمورهم، والراعي: الحافظ المؤتمن على ما يليه من الرعاية وهي الحفظ.
 (يموت يوم يموت وهو غاش) أي خائن (لرعيته) المراد يوم يموت وقت إزهاق روحه، وما قبله من حالة لا تقبل فيها التوبة؛ لأن التائب من خيانته أو تقصيره لا يستحق هذا الوعيد.
فمن حصلت منه الخيانة في ولايته، سواء كانت هذه الولاية عامة أو خاصة؛ فإن الصادق المصدوق عليه أفضل الصلاة وأزكى التسليم توَعَّده بقوله: (إلا حرم الله عليه الجنة) أي إن استحل أو المراد يمنعه من دخوله مع السابقين الأولين.
605;عقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رعایا کے ساتھ خیانت سے ڈرایا گیا ہے۔ چنانچہ کہا گيا ہے:
”مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً“ یعنی جسے کسی رعایا کی ذمے داری سونپی جائے۔ ''رعية'' کا لفظ یہاں ''مرعية'' کے معنی میں ہے۔ یعنی جسے اللہ لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کے لیے متعین کرے اور اسے ان کے معاملات کی زمام کار سونپے۔ راعى سے مراد وہ حفاظت کرنے والا ہے، جس کے ذمہ رعایا کی حفاظت کی ذمے داری ہو۔
”يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ“ یعنی اپنی رعیت سے خیانت کرنے والا ہو۔
جس دن اسے موت آئے سے مراد روح نکلنے اور اس سے ذرا پہلے کا وقت ہے، جس میں توبہ قبول نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اپنی خیانت اور کوتاہی سے توبہ کر لینے والا اس وعید کا مستحق نہیں ہے۔
جو شخص اپنی ذمے داری میں خیانت کرے، چاہے یہ ذمے داری عام ہو یا خاص، اسے نبی صادق و مصدق ﷺ نے یہ فرما کر دھمکی دی ہے کہ اس پر اللہ جنت حرام کر دیتا ہے۔ یعنی اگر وہ خیانت کو حلال سمجھ کر کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اسے سابقین اولین کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5335

 
 
Hadith   842   الحديث
الأهمية: إذا طبختَ مَرَقَة, فأكثر ماءها, وتعاهدْ جِيْرانك


Tema:

جب تم کوئی شوربے والی چیز پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے ہمسائے کا بھی خیال رکھا کرو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا طبختَ مَرَقَة, فأكثر ماءها, وتعاهدْ جِيْرانك».

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم کوئی شوربے والی چیز پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے ہمسائے کا بھی خیال رکھا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي ذر هذا يوضح صورة من صور عناية الإسلام بحق الجار، فهو يحث الإنسان إذا وسع الله عليه برزق، أن يصيب منه جاره بعض الشيء بالمعروف، حيث قال صلى الله عليه وسلم: "إذا طبخت مرقة فأكثر ماءها، وتعاهد جيرانك" أي: أكثر ماءها يعني: زدها في الماء؛ لِتَكثُر وتُوزَّع على جيرانك منها، والمرقة عادة تكون من اللحم أو من غيره مِمَّا يُؤْتدَم به، وهكذا أيضاً إذا كان عندك غير المرق، أو شراب كفضل اللبن مثلاً، وما أشبهه ينبغي لك أن تعاهد جيرانك به؛ لأن لهم حقاً عليك.
575;بو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسلام جس انداز میں پڑوسی کا خیال رکھتا ہے اس کی وضاحت کرتی ہے۔ اسلام انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ اگر اللہ نے اسے کشادہ رزق سے نوازا ہو تو وہ اچھے انداز میں اس میں سے کچھ اپنے پڑوسی کو بھی دے۔ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:" جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ کر لو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔" یعنی پانی کچھ زیادہ کر لو تاکہ یہ زیادہ ہو جائے اور اس میں سے تمہارے پڑوسیوں میں بھی کچھ بانٹ دیا جائے۔ شوربہ عموما گوشت یا بطورِ سالن استعمال ہونے والی دیگر اشیاء سے تیار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس شوربے کے علاوہ کوئی اور شے ہو تو تب بھی ایسے ہی کرنا چاہیے جیسے پینے کی اشیاء مثلا بچا ہوا دودھ یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور شے تو مناسب یہی ہے کہ آپ اس کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں کیونکہ ان کا آپ پر حق ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5336

 
 
Hadith   843   الحديث
الأهمية: إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله, وليقل له أخوه يرحمك الله, فإذا قال له: يرحمك الله, فليقل: يهديكم الله, ويصلح بالكم


Tema:

جب تم میں سے کوئی چھینکے تو "الحمد الله" کہے اور اس کے جواب میں اس کا بھائی "يرحمك الله"کہے۔ جب اس کا بھائی "يرحمك الله" کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا "يهديكم الله ويصلح بالكم" کہے ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا عَطِسَ أحدكم فَلْيَقُلْ: الحمد لله، ولْيَقُلْ له أخوه يرحمك الله؛ فإذا قال له: يرحمك الله؛ فَلْيَقُلْ: يهديكم الله، ويُصْلِح بالكم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی چھینکے تو ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے، اور اس کا بھائی یا اس کا ساتھی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ (اللہ تجھ پر رحم کرے) کہے، جب ساتھی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے تو اس کے جواب میں چھینکنے والا ’يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ‘ (اللہ تمھیں سیدھے راستے پر رکھے اور تمہارے حالات درست کرے) کہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
العطاس نعمة، وهو خروج أبخرة من الجسم، انحباسها يسبب خمولًا في الجسم، فلذا يستحب للعاطس أن يحمد الله -تعالى- أن سهّل خروج هذه الأبخرة من جسمه، ولأن العطاس من الله، والتثاؤب من الشيطان، فالعطاس دليلٌ على نشاط جسم الإنسان، ولهذا يجد الإنسان راحة بعد العطاس.
ويقول سامعه: يرحمك الله، وهو دعاء مناسب لمن عوفي في بدنه، ثم يجيب العاطس فيقول: يهديكم الله ويصلح بالكم.
فهذه من الحقوق التي بينها النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا قام بها الناس بعضهم مع بعض، حصل بذلك الألفة والمودة وزال ما في القلوب والنفوس من الضغائن والأحقاد.
670;ھینک ،ایک بڑی نعمت ہے اور اس کی بناء پر جسم کے بخارات باہر نکل آتے ہیں اور اس کو روکنے کی صورت میں جسم میں سستی و کسل مندی پیدا ہوجاتی ہے، اسی بناء پر چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے کہ اس نے ان بخارات کو جسم سے خارج کرنے میں آسانی پیدا فرمائی اور یہ کہ چھینک کا آنا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جمائی کا آنا شیطان کی جانب سےہوتا ہے۔ چنانچہ چھینک، انسانی جسم کی چستی پر دلالت کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چھینکنے کے بعد انسان کو راحت ملتی ہے۔
چھینکنے والے کے ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کو سننے والا ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے گا اور یہ اس شخص کو دی جانے والی موزوں دعاء ہے جس کے جسم کو عافیت سے نوازا گیا، پھر چھینکنے والا جواب میں ’يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ‘ کہے گا۔
خیال رہے کہ یہ نبی ﷺ کی جانب سے بیان کردہ ان حقوق میں سے ہے کہ اگر لوگ باہم دیگر اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس کے سبب ان میں الفت و مودت عام ہوجائے گی اور دلوں اور نفوس میں پائے جانے والے کینوں اور بغض و عداوتوں کے جذبات کا خاتمہ ہوجائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5337

 
 
Hadith   844   الحديث
الأهمية: إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخر، حتى تختلطوا بالناس؛ من أجل أن ذلك يحزنه


Tema:

جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل جاؤ، کیونکہ یہ چیز اسے رنجیدہ کر دے گی

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  "إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخَر، حتى تختلطوا بالناس؛ من أجل أن ذلك يحُزنه".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل جاؤ، کیونکہ یہ چیز اسے رنجیدہ کر دے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإسلام يأمر بجبر القلوب وحسن المجالسة والمحادثة، وينهى عن كل ما يسيء إلى المسلم ويخوفه ويوجب له الظنون، فمن ذلك أنه إذا كانوا ثلاثة فإنه إذا تناجى اثنان وتسارّا دون الثالث الذي معهما فإن ذلك يسيئه ويحزنه ويشعره أنه لا يستحق أن يدخل معهما في حديثهما، كما يشعره بالوحدة والانفراد، فجاء الشرع بالنهي عن هذا النوع من التناجي.
605;ذہب اسلام اپنے ماننے والوں کے لئے اس بات کو لازمی قرار دیتا ہےکہ مجلس کے آداب کا خیال رکھا جائے اچھی گفتگو ہو تاکہ مجلس میں کوئی شکستہ خاطرنہ ہو، اور ان تمام چیزوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے جو کسی مسلمان کے ساتھ بد سلوکی، اس کے لیے خوف اور بد گمانی کا سبب بنیں، اور انہیں میں سےایک یہ بھی ہے کہ جب تین آدمی ایک ساتھ ہوں اور ان میں سے دو آپس میں تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی کریں تو یہ چیز تیسرے کے ساتھ بد سلوکی ہےاور یہ اسے رنجیدہ کر دے گی اور اسے اس بات کا احساس دلائے گی کہ وہ ان دونوں کے ساتھ گفتگو کے قابل نہیں۔ ساتھ ہی اسے اکیلاپن اور تنہائی کا احساس دلائے گی۔ اسی لیے شریعت اسلا میہ نے اس قسم کی سرگوشی سے روکا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5338

 
 
Hadith   845   الحديث
الأهمية: إن الله يحب العبد التقي, الغني, الخفي


Tema:

الله تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار، بے نیاز اور پوشیدہ ہو۔

عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الله يحب العبد التَّقِيَّ, الغَنِيَّ, الخَفِيَّ».

سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”الله تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار، (مخلوق سے) بے نیاز اور پوشیدہ ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أسباب محبة الله للعبد أن يتصف بهذه الصفات الثلاث:
الأولى: أن يكون متقيا لله تعالى، قائما بأوامره مجتنبا نواهيه.
الثانية: أن يكون مستغنيا عما في أيدي الناس، راضيا بما قسم الله له.
الثالثة: أن يكون خفيا، لا يتعرض للشهرة، ولا يرغب فيها.
580;ن اسباب کی وجہ سے اللہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ان تین صفات سے آراستہ ہو:
اول: وہ اللہ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرتے ہوئے، اس کا تقویٰ اختیار کرے۔
دوم: لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز رہے اور اللہ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس پر راضی رہے۔
سوم: پوشیدہ (گمنام) رہے، شہرت (نمود ونمائش) سے گریز کرے اور اس کی چاہت (بھی) نہ رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5340

 
 
Hadith   846   الحديث
الأهمية: انظروا إلى من هو أسفل منكم, ولا تنظروا إلى من هو فوقكم, فهو أجدر أن لا تزدروا نعمة الله عليكم


Tema:

اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو ، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح زیادہ مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «انظروا إلى من هو أسفل منكم، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم، فهو أجدر أن لا  تَزْدَرُوا نعمة الله عليكم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح زیادہ مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشتمل هذا الحديث على وصية نافعة، وكلمة جامعة لأنواع الخير، وبيان المنهج السليم الذي يسير عليه المسلم في هذه الحياة، ولو أن الناس أخذوا بهذه الوصية لعاشوا صابرين شاكرين راضين، وفي الحديث وصيتان:
الأولى: أن ينظر الإنسان إلى من هو دونه وأقل منه في أمور الدنيا.
الثانية: ألا ينظر إلى من هو فوقه في أمور الدنيا.
فمن فعل ذلك حصلت له راحة القلب، وطيب النفس، وهناءة العيش، وظهر له نعمة الله عليه فشكرها وتواضع،
وهذا الحديث خاص في أمور الدنيا، أما أمور الآخرة فالذي ينبغي هو النظر إلى من هو فوقه ليقتدي به،  وسيظهر له تقصيره فيما أتى به فيحمله ذلك على الازدياد من الطاعات.
740;ہ حدیث فائدہ بخش وصیت اور مختلف بھلائیوں کی جامع گفتگو پر مشتمل ہے اور اس میں اس منہجِ سلیم کا بیان ہے، جسے ایک مسلمان اس زندگی میں اختیار کرتا ہے۔ اگر لوگ اس وصیت کو اپنا لیں، تو صابر وشاکر اور خوش و خرم زندگی گزاریں گے۔ حدیث میں دو وصیتوں کا بیان ہے:
پہلی وصیت: یہ کہ انسان دنیوی امور میں اپنے سے کم تر اور کم پونجی والے پر نگاہ ڈالے۔
دوسری وصیت: دنیوی امور میں اپنے سے بر تر کی طرف نہ دیکھے۔
جس نے ایسا کیا، اسے دلی راحت وخوشی اورخوش گوار زندگی حاصل ہوگی۔ اللہ کی نعمت کا احساس ہو گا، جس پر وہ شکر گذاری کرے گا اور عاجزی وانکساری کو اپنائے گا۔
یہ حدیث دنیوی امور کے لیے خاص ہے۔ رہا آخرت کا معاملہ تو اس سلسلے میں آدمی کو اپنے سے برتر کی طرف دیکھنا چاہیے؛ تاکہ وہ اس کی اقتدا و پیروی کرسکے، اس کی اپنی کمیاں واضح ہوں اور مزید اطاعت و عبادت کی ترغیب ملے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5341

 
 
Hadith   847   الحديث
الأهمية: حق المسلم على المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه, وإذا دعاك فأجبه, وإذا استنصحك فانصحه, وإذا عطس فحمد الله فسَمِّته، وإذا مرض فعُده, وإذا مات فاتْبَعه


Tema:

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تو اس سے ملے، تو تو اسے سلام کرے، جب وہ تجھے دعوت دے، تو تو اس کی دعوت قبول کرے، جب وہ تجھ سے مشورہ مانگے تو تو اسے اچھا مشورہ دے، جب وہ چھینکے اور ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے تو تو اس کا جواب دے (یعنی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے)، جب وہ بیمار ہو تو تو اس کی عیادت کرے اور جب وہ مر جائے تو تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «حقُّ المسلم على المسلم ست: إذا لَقِيتَهُ فسَلِّمْ عليه, وإذا دعاك فَأَجِبْهُ، وإذا اسْتَنْصَحَكَ فانْصَحْهُ, وإذا عَطَسَ فَحَمِدَ الله فسَمِّتْهُ، وإذا مرض فعُدْهُ, وإذا مات فاتَّبِعْهُ»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تو اس سے ملے، تو تو اسے سلام کرے، جب وہ تجھے دعوت دے، تو تو اس کی دعوت قبول کرے، جب وہ تجھ سے مشورہ مانگے تو تو اسے اچھا مشورہ دے، جب وہ چھینکے اور ’الْحَمْدُ لِلَّهِ‘ کہے تو تو اس کا جواب دے (یعنی ’يَرْحَمُكَ اللَّهُ‘ کہے)، جب وہ بیمار ہو تو تو اس کی عیادت کرے اور جب وہ مر جائے تو تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإسلام دين المحبة والمودة والإخاء، يحث عليها ويرغب فيها، ولذا شرع الأسباب التي تحقق هذه الغايات الشريفة.
ومن أهم تلك الغايات القيام بالواجبات الاجتماعية بين أفراد المسلمين، من إفشاء السلام، وإجابة الدعوة، والنصح في المشورة، وتشميت العاطس، وعيادة المريض، واتباع الجنائز.
575;سلام محبت و مودت اور بھائی چارے کا دین ہے۔ اسلام ان باتوں پر ابھارتا اور ان کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی لیے ایسے اسباب مشروع کیے گئے ہیں، جو ان عظیم الشان مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مقاصد میں سے اہم ترین مقاصد افراد امت کے درمیان باہمی معاشرتی ذمہ داریوں کی انجام دہی ہے۔ جیسے سلام عام کرنا، دعوت قبول کرنا، مشورہ دیتے وقت اچھا مشورہ دینا، چھینکنے والے کے جواب میں "یرحمک اللہ" کہنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جانا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5343

 
 
Hadith   848   الحديث
الأهمية: كل بني آدم خطاء, وخير الخطائين التوابون


Tema:

تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ, وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يخلو الإنسان من الخطيئة، لما فُطر عليه من الضعف، وعدم الانقياد لمولاه في فعل ما دعاه إليه، وترك ما نهاه عنه، لكنه تعالى فتح باب التوبة لعباده، وأخبر أن خير الخطائين هم المكثرون من التوبة.
575;نسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا؛ کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مولا کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اس نے یہ بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5344

 
 
Hadith   849   الحديث
الأهمية: من بايع إماما فأعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر


Tema:

جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- في سفر، فَنَزَلنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يُصلِح خِبَاءَه، ومِنَّا من يَنتَضِل، ومِنَّا مَن هو في جَشَرِهِ، إِذْ نادى مُنادي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: الصَّلاةُ جَامِعَةٌ. فاجْتَمَعنَا إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «إِنَّه لَمْ يَكُن نبي قبْلِي إِلاَّ كَان حَقًّا عليه أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَه عَلَى خَيرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُم، ويُنذِرَهُم شّرَّ ما يعلمه لهم، وإِنَّ أُمَّتُكُم هذه جَعَل عَافِيَتَهَا في أوَّلِها، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلاَءٌ وأُمُورٌ تُنكِرُونَهَا، وتَجِيءُ فِتنَةٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعضًا، وتَجِيءُ الفتنة فيقول المؤمن: هذه مُهلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هَذِه هذِه. فمَنْ أَحَبَّ أنْ يُزَحْزَحَ عن النار، ويدخل الجنة، فَلْتَأْتِه مَنِيَتُهُ وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وَلْيَأتِ إِلى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إليه، ومَنْ بَايَع إِمَامًا فَأَعْطَاه صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمْرَةَ قلْبِهِ، فَلْيُطِعُه إِن اسْتَطَاع، فَإِن جَاء آخَرُ يُنَازِعُه فَاضْرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ايک سفر ميں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک منزل پر قيام کيا، ہم ميں سے بعض اپنے خيمے درست کر رہے تھے، بعض تيراندازی ميں مقابلہ کررہے تھے اور بعض اپنے مويشيوں ميں لگے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ کے منادی نے آواز لگائی: ’’نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔‘‘ ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے جو بھی نبی ہوا اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ايسے کاموں کی طرف کرے جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتا ہے۔ اور ان کو ان کاموں سے ڈرائے جن کو وہ ان کے لیے برا جانتا ہے۔ اور تمہاری اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھ دی گئی ہے اور اس کے آخری حصے ميں آزمائش اور ايسے معاملات پيش آئیں گے جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسے فتنے ظہور پذير ہوں گے جو ایک دوسرے کو معمولی بنا دیں گے۔ ايک فتنہ سامنے آئے گا تو مومن کہے گا: یہی ميری ہلاکت کا باعث ہو گا۔ پھر وہ دور ہو جائے گا۔ پھر (کوئی اور) فتنہ ظہور پذير ہو گا تو مومن کہے گا: یہی سب سے بڑا فتنہ ہے۔ پس جس شخص کو يہ پسند ہو کہ وہ جہنم کی آگ سے دور کرديا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، تواس کو موت اس حالت ميں آنی چاہیے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ کئے جانے کو پسند کرے، اور جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو۔”

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث أنه يجب على الدعاة ما يجب على الأنبياء من بيان الخير والحث عليه ودلالة الناس إليه وبيان الشر والتحذير منه، وفيه أن صدر هذه الأمة حصل لها الخير والسلامة من الابتلاء، وأنه سيصيب آخر هذه الأمة من الشر والبلاء ما تجعل الفتن القادمة تهون الفتن السابقة، وأن النجاة منها يكون بالتوحيد والاعتصام بالسنة، وحسن معاملة الناس، والالتزام ببيعة الحاكم، وعدم الخروج عليه، وقتال من يريد تفريق جماعة المسلمين.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں پر بھی وہی لازم ہے جو انبیاء پر لازم تھا یعنی اچھائی کو بیان کرنا، اس کی ترغیب دینا، اس کی طرف لوگوں کى راہنمائی كرنا، اور برائی کی وضاحت کرنا اور اس سے ڈرانا۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ اس امت کا ابتدائی حصہ تو خیر میں رہا اور آزمائش سے محفوظ رہا ليکن اس امت کے آخری حصے کو اس طرح شر اور آزمائش پیش آئے گی کہ آنے والے فتنے پہلے کے فتنوں کو معولی اور ہلکا بناديں گے اور ان سے نجات توحید کے اقرار، سنت کی پیروی، لوگوں سے حسن سلوک اور حاکم کی بیعت کی پابندی, اس کے خلاف عدم بغاوت اور ہر اس شخص سے قتال کے ذريعہ ہی ممکن ہوگی جو مسلمانوں کی جماعت کا شیراہ بکھیرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5345

 
 
Hadith   850   الحديث
الأهمية: كل معروف صدقة


Tema:

ہر نیک کام صدقہ ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «كل معروف صدقة».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نیک کام صدقہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كل معروف يفعله الإنسان صدقة، والصدقة هي ما يعطيه المتصدّق من ماله، وهذا يشمل الصدقة الواجبة والمندوبة، فبيّن النبي -صلى الله عليه وسلم- أن فعل المعروف له حكم الصدقة في الأجر والثواب.
575;نسان جو بھی اچھا کام کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔ صدقہ اس چیز کو کہتے ہیں جو صدقہ کرنے والا اپنے مال سے دیتا ہے۔ اس میں واجب اور مستحب دونوں ہی قسم کا صدقہ شامل ہوتا ہے۔ لھٰذا نبی ﷺ نے واضح فرمایا کہ اچھا کام اجر و ثواب کے اعتبار سے صدقے کے حکم میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5346

 
 
Hadith   851   الحديث
الأهمية: لا تبدؤوا اليهود والنصارى بالسلام, وإذا لقيتموهم في طريق, فاضطروهم إلى أضيقه


Tema:

یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کسی سے تمھارا آمنا سامنا ہو جائے، تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا تَبْدَؤوا اليهود والنصارى بالسَّلام، وإذا لَقِيتُمُوهُمْ في طريق، فاضْطَّرُّوهُمْ إلى أَضْيَقِهِ».

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کسی سے تمھارا آمنا سامنا ہو جائے، تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن بدء أهل الكتاب بالسلام؛ وذلك لأن تسليمنا عليهم فيه نوع من الإكرام لهم؛ -والكافر ليس أهلاً للإكرام، ولا بأس أن يقول للكافر ابتداءً كيف حالك، كيف أصبحت، كيف أمسيت؟ ونحو ذلك إذا دعت الحاجة إلى ذلك؛ لأن النهي عن السلام، وكذلك أمرنا أن لا نوسع لهم الطريق، فإذا قابل المسلم الكتابي في الطريق، فإن المسلم يُلجئه إلى أضيق الطريق، ويكون وسط الطريق وسعته للمسلم، وهذا عند ضيق الطريق، وحيث لا يتسبب في إلحاق الضرر بالكتابي، وجملة القول في ذلك: أن ما كان من باب البر والمعروف ومقابلة الإحسان بالإحسان قمنا به نحوهم لتأليف قلوبهم، ولتكن يد المسلمين هي العليا، وما كان من باب إشعار النفس بالعزة والكرامة ورفعة الشأن فلا نعاملهم به؛ كبدئهم بالسلام تحية لهم، وتمكينهم من صدر الطريق تكريمًا لهم.
606;بی ﷺ نے اہل کتاب کو سلام میں پہل کرنے سے منع فرمایا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں سلام کرنا در اصل ان کی عزت افزائی کا اظہار ہے اور کافر عزت و اکرام کا مستحق نہیں ہے۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ضرورت پڑنے پر، پہل کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ آپ نے کیسے صبح کی؟ آپ کیسے شام کی؟ وغیرہ۔ کیوں کہ ممانعت، سلام کرنے ہی کی ہے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کا حکم فرمایا کہ ان کے لیے راستے میں کشادگی پیدا نہ کریں اور جب راستے میں مسلمان کا کسی یہودی یا نصرانی سے آمنا سامنا ہوجائے، تو مسلمان اس کو راستے تنگ ترین حصہ اپنانے پر مجبور کردے گا اور درمیانی اور کشادہ حصے پر مسلمان کا حق ہوگا۔ یہ راستہ تنگ ہونے کی صورت میں ہے۔ یہ عمل اس انداز میں ہو کہ اہل کتاب کو کسی قسم کا ضرر لاحق نہ ہو۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جن امور کا تعلق نیکی، بھلائی اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینے سے ہو، ان امور میں ہم ان کے ساتھ تالیف قلب اور مسلمانوں کی برتری کے اظہار کے لیے بہتر معاملہ کریں گے۔ لیکن جب معاملہ عزت و اکرام نفس اور شان امتیاز کے اظہار سے تعلق رکھتا ہو، تو ہم ان کے ساتھ تعظیم و تکریم کا برتاؤ نہیں کريں گے۔ مثلا انھیں سلام کرنے میں پہل کرنا اور راستے کا نمایاں حصہ ان کے حوالے کرنا وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5347

 
 
Hadith   852   الحديث
الأهمية: لا تَحْقِرَنَّ من المعروف شيئا, ولو أن تلقى أخاك بوجه طَلْق


Tema:

کسی نیکی کو ہر گز حقیر مت جانو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خوش باش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو۔

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تَحْقِرَنَّ من المعروف شيئا, ولو أن تَلْقَى أخاك بوجه طَلْق».

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی بھی نیکی کو ہر گزحقیر مت جانو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خوش باش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء، وأن هذا من المعروف الذي ينبغي للمسلم أن يحرص عليه ولا يحتقره لما فيه من إيناس الأخ المسلم وإدخال السرور عليه.
740;ہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ باہم ملنے کے وقت چہرے پر بشاشت ہونی چاہیے اور یہ کہ یہ ایسی نیکی ہے جسے کرنے کی مومن کو چاہت رکھنی چاہیے اور اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے مسلمان بھائی کے ساتھ انسیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5348

 
 
Hadith   853   الحديث
الأهمية: لا يشربَنَّ أحد منكم قائمًا


Tema:

تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہر گز نہ پیے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يشربَنَّ أحدٌ منكم قائما».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہر گز نہ پیے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث تضمن النهي عن أن يشرب الإنسان وهو قائم، وهذا النهي إذا لم تكن هناك حاجة للشرب قائما، وهو للكراهة.
581;دیث میں انسان کے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا ذکر ہے۔ یہ ممانعت اس وقت ہے جب کھڑے ہو کر پینے کی کوئی ضرورت نہ ہو اور یہ ممانعت بھی بطور کراہت ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5349

 
 
Hadith   854   الحديث
الأهمية: لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه, ثم يجلس فيه, ولكن تفسحوا, وتوسعوا


Tema:

كوئی آدمی کسی آدمی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يُقِيمُ الرجلُ الرجلَ من مَجْلِسِهِ, ثم يجلس فيه, ولكن تَفَسَّحُوا, وتَوَسَّعُوا».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”كوئی آدمی کسی آدمی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه أدبان من آداب المجالس:
الأول: أنه لا يحل للرجل أن يقيم الرجل الآخر من مجلسه الذي سبقه إليه قبله ثم يجلس فيه.
الثاني: أن الواجب على الحضور أن يتفسحوا للقادم حتى يوجدوا له مكانا بينهم، قال -تعالى-: (يأيها الذين آمنوا إذا قيل لكم تفسحوا في المجالس فافسحوا يفسح الله لكم).
575;س حدیث میں آدابِ مجالس میں سے دو آداب کا ذکر ہے:
اول: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا دے جو اس سے پہلے وہاں بیٹھا ہو اور پھر اس کی جگہ بیٹھ جائے۔
دوم: حاضرین کے لیے واجب ہے کہ وہ نو وارد کے لیے کچھ کشادگی پیدا کردیا کریں تا کہ اپنے مابین اس کے لیے جگہ بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ﴾ ”اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5350

 
 
Hadith   855   الحديث
الأهمية: ليس الشديد بالصُّرَعة, إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب


Tema:

طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ليس الشديد بالصُّرَعة, إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
القوة الحقيقية ليست هي قوة العضلات والجسد، وليس الشديد القوي هو الذي يصرع غيره من الأقوياء دائمًا، وإنما القوي الشديد بحق هو الذي جاهد نفسه وقهرها حينما يشتد به الغضب؛ لأن هذا يدل على قوة تمكنه من نفسه وتغلبه على الشيطان.
581;قیقی قوت عضلات اور جسم کی قوت نہیں ہے اور نہ ہی وہ شخص طاقتور ہوتا ہے جو لوگوں کو ہمیشہ پچھاڑ دے۔ بلکہ حقیقی طاقت ور تو وہ ہے جو غصے کی شدت میں اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرکے اسے قابو کرلے۔ کیونکہ یہ اس کے اپنے نفس پر کنڑول اور شیطان پر غلبے کی دلیل ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5351

 
 
Hadith   856   الحديث
الأهمية: ليسلم الصغير على الكبير، والمار على القاعد، والقليل على الكثير


Tema:

چھوٹا بڑے کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے کو اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لِيُسَلِّمِ الصغيرُ على الكبيرِ، والمارُّ على القاعدِ، والقليلُ على الكثيرِ" وفي رواية: "والراكبُ على الماشي".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”چھوٹا بڑے کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے کو اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يفيد الترتيب المندوب في حق البَداءة بالسلام، فذكر أربعة أنواع فيها:
الأول: أن الصغير يسلم على الكبير؛ احتراما له.
الثاني: أن الماشي ينبغي له البدء بالسلام على القاعد؛ لأنه بمنزلة القادم عليه.
الثالث: أن العدد الكثير هو صاحب الحق على القليل، فالأفضل أن يسلم القليل على الكثير.
الرابع: أن الراكب له مزية بفضل الركوب، فكان البَدْءُ بالسلام من أداء شكر الله على نعمته عليه.
581;دیث سے سلام کی ابتدا کرنے کے بارے میں مستحب ترتیب کا پتہ چلتا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں مندرجہ ذیل چار انواع کا ذکر فرمایا:
اول:چھوٹا بڑے کے احترام میں اُسے سلام کرے۔
دوم: پیدل چلنے والے کو چاہیے کہ وہ بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرنے میں پہل کرے کیونکہ وہ اس کے پاس آنے والے کی طرح ہے۔سوم: جو لوگ زیادہ تعداد میں ہوں ان کا کم تعداد والوں پرحق ہے۔چنانچہ افضل یہ ہے کہ کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔
چہارم: سوار کو سوار ہونے کی وجہ سے خصوصیت حاصل ہے۔ سوار کا سلام میں پہل کرنا اللہ کی اس پر نعمت کا شکر ادا کرنے کے مترادف ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5352

 
 
Hadith   857   الحديث
الأهمية: من تَشبَّه بقوم, فهو منهم


Tema:

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-قال: «من تَشبَّه بقوم, فهو منهم».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يفيد العموم، فمن تشبه بالصالحين كان صالحا وحشر معهم، ومن تشبه بالكفار أو الفساق فهو على طريقتهم ومسلكهم.
581;دیث میں عموم ہے۔ جس نے نیک لوگوں کی مشابہت اختیار کی وہ نیک ہو گا اور میدانِ محشر میں وہ انہی کے ساتھ ہو گا اور جس نے کافروں یا فاسق لوگوں کی مشابہت اختیار کی وہ انہی کے طریقے اور راستے پر ہو گا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5353

 
 
Hadith   858   الحديث
الأهمية: من دلَّ على خير, فله مثل أجر فاعله


Tema:

جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیکی کا کام کرنے والے کے مثل اجر ملے گا۔

عن أبي مسعود البدري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «من دلَّ على خير, فله مثلُ أجرِ فاعلِه».

ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیکی کا کام کرنے والے کے مثل اجر ملے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا حديث عظيم، يدل على أن من أرشد غيره إلى خير كان له من الأجر مثل ما للفاعل، وهذا يشمل الدلالة بالقول كالتعليم، والدلالة بالفعل وهو القدوة الحسنة.
740;ہ ایک بہت عظیم حدیث ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کسی کی نیکی کی راہ دکھاتا ہے اسے نیکی کرنے والے کے مثل اجر ملتا ہے۔ اس میں بول کر رہنمائی کرنا بھی شامل ہے جیسے علم سکھانا اور عمل کے ذریعے رہنمائی کرنا بھی شامل ہے جس سے مراد ہے اچھا نمونہ بننا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5354

 
 
Hadith   859   الحديث
الأهمية: يُجْزِئُ عن الجماعة إذا مَرُّوا أن يُسَلِّم أحدهم, ويُجْزِئُ عن الجماعة أن يَرُدَّ أحدهم


Tema:

جب ایک جماعت کسی کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے۔ اور جماعت میں سے ایک آدمی کا جواب دینا کافی ہے

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يُجْزِئُ عن الجماعة إذا مَرُّوا أن يُسَلِّم أحدهم, ويُجْزِئُ عن الجماعة أن يَرُدَّ أحدهم».

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب ایک جماعت کسی کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے۔ اور جماعت میں سے ایک آدمی کا جواب دینا کافی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يكفي الواحد في السلام عن الجماعة، كما أنه يكفي الواحد في رد السلام عن الجماعة.
575;گر جماعت میں سے ایک آدمی سلام کر لیتا ہے، یا جواب دے دیتا ہے تو تمام کی طرف سے کافی ہوگا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5355

 
 
Hadith   860   الحديث
الأهمية: إذا أكل أحدكم فليأكل بيمينه، وإذا شرب فليشرب بيمينه، فإن الشيطان يأكل بشماله، ويشرب بشماله


Tema:

جب تم میں سے کوئی کھائے تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پئے تو اپنے دائیں ہاتھ سے پئے۔ کيونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إذا أكل أحدكم فليأكل بيمينه، وإذا شرب فليشرب بيمينه، فإن الشيطان يأكل بشماله، ويشرب بشماله».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھائے تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پئے تو اپنے دائیں ہاتھ سے پئے۔ کيونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه الأمر بالأكل باليمين، والشرب باليمين، وفيه أن الأكل بالشمال والشرب بها هو عمل الشيطان.
575;س حدیث میں دائیں ہاتھ سے کھانے اور دائیں ہاتھ سے پینے کا حکم ہے اور اس بات کا بیان ہے کہ بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطان کا طرزِ عمل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5356

 
 
Hadith   861   الحديث
الأهمية: إذا انْتَعَل أحدكم فليبدأ باليمين, وإذا نزع فليبدأ بالشمال, ولْتَكُن اليُمنى أولَهُما تُنْعَل, وآخرَهُما تُنْزَع


Tema:

جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں طرف سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے اتارے۔ دایاں پاؤں پہننے میں اول ہو اور اتارنے میں آخری ہو۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا انْتَعَل أحدكم فليبدأ باليمين, وإذا نَزَعَ فليبدأ بالشمال, ولْتَكُن اليُمنى أولَهُما تُنْعَل, وآخِرَهُما تُنْزَع».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں طرف سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے اتارے۔ دایاں پاؤں پہننے میں اول ہو اور اتارنے میں آخری ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المستحب في لبس النعل البدء في اللبس أن يكون للرِّجل اليمنى، والمستحب في الخلع العكس وهو البدء باليسرى، لما في ذلك من تكريم الرجل اليمنى.
580;وتا پہننے میں مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہنتے وقت دائیں پاؤں سے ابتدا کی جائے اور اتارتے وقت اس کا الٹا کیا جائے یعنی بائیں پاؤں سے اتارنے کی ابتدا کی جائے کیونکہ اس میں دائیں پاؤں کی تکریم ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5357

 
 
Hadith   862   الحديث
الأهمية: سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أي الذنب أعظم؟ قال: أن تجعل لله ندًّا، وهو خلقك


Tema:

میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو اللہ کا شریک بنائے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أيُّ الذنب أعظم؟ قال: «أن تجعل لله نِدًّا، وهو خَلَقَكَ» قلت: ثم أَيُّ؟ قال: «ثم أن تقتل ولدك خَشْيَةَ أن يأكل معك» قلت: ثم أَيُّ؟ قال: «ثم أن تُزَانِي حَلِيْلَةَ جَارِكَ».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو اللہ کا شریک بنائے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے مار دے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل الصحابة -رضي الله عنهم- عن أعظم الذنوب فأخبرهم عن أعظمها، وهو الشرك الأكبر، وهو الذي لا يغفره الله تعالى إلا بالتوبة، وإن مات صاحبه فهو مخلد في النار.
ثم قتل المرء ولده خشية أن يأكل معه، فقتل النفس التي حرم الله تعالى هي المرتبة الثانية من الذنوب العظيمة، ويزيد الإثم وتتضاعف العقوبة إذا كان المقتول ذا رحم من القاتل، ويتضاعف مرة أخرى حين يكون المقصود هو قطع المقتول من رزق الله الذي أجراه على يد القاتل.
ثم أن يزني الرجل بزوجة جاره، فالزنا هو الرتبة الثالثة من الكبائر، ويعظم إثمه إذا كانت المزني بها زوجة الجار الذي أوصى الشرع بالإحسان إليه وبره وحسن صحبته.
589;حابہ رضی اللہ عنہم نے بڑے گناہوں سے متعلق دریافت کیا تو آپﷺ نے انہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں بتایا کہ وہ شرک اکبر ہے جسے اللہ تعالیٰ صرف توبہ ہی سے بخشتا ہے۔ اگر شرک اکبر کا مرتکب (بغیر توبہ کے) مر گیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
دوسرا بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بچے کو اس خوف سے مار دے کہ وہ اس کے ساتھ اس کے کھانے میں شریک ہو گا۔ چنانچہ کسی ایسی جان کو مار دینا جسے اللہ نے حرام کیا ہو، اس کا مرتبہ بڑے گناہوں میں دوسرا ہے۔ گناہ اور اس کی سزا اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب کہ مقتول، قاتل کا رحمی رشتہ دار ہو اور یہ اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب کہ قتل کا مقصد مقتول کو اللہ کے اس رزق سے محروم کرنا ہو جسے اللہ نے قاتل کے ہاتھ پر جاری فرمایا ہے۔
پھر یہ کہ آدمی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔ کبیرہ گناہوں میں تیسرا درجہ زنا کا ہے۔ اس کا گناہ اور بھی زیادہ بڑا ہو جاتا ہے جب کہ جس عورت سے زنا کیا جائے وہ ہمسائے کی بیوی ہو جس کے ساتھ شریعت نے حسن سلوک، نیکی اور اچھی صحبت کی نصیحت کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5359

 
 
Hadith   863   الحديث
الأهمية: رضا الله في رضا الوالدين، وسَخَطُ الله في سَخَطِ الوالدين


Tema:

اللہ کی خوشنودی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:  «رضا الله في رضا الوالدين، وسَخَطُ الله في سَخَطِ الوالدين».

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی خوشنودی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی خفگی والدین کی ناراضگی میں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث جعل الله تعالى رضاه من رضا الوالدين، وسخطه من سخطهما، فمن أرضاهما فقد أرضى الله تعالى، ومن أسخطهما فقد أسخط الله تعالى.
575;س حدیث میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی اور خفگی کو والدین کی رضا مندی اور ناراضگی کے تابع قراردیا ہے۔ سو جس شخص نے اپنے والدین کو خوش کیا اس نے اپنے اللہ کو خوش کر لیا اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا اس نے اپنے اللہ کو ناراض کر دیا۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5361

 
 
Hadith   864   الحديث
الأهمية: كُلْ، واشربْ، والبسْ، وتصدقْ في غير سَرَفٍ، ولا مَخِيْلَة


Tema:

کھاؤ، صدقہ کرو اور پہنو، لیکن اسراف اور تکبر سے بچو۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَة، وَلَا سَرَف".
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”کھاؤ، صدقہ کرو اور پہنو، لیکن اسراف اور تکبر سے بچو“۔

دل هذا الحديث على تحريم الإسراف في المأكل والمشرب والملبس والأمر بالتصدق من غير رياء ولا سمعة، وحقيقة الإسراف مجاوزة الحد في كل فعل أو قول وهو في الإنفاق أشهر.
والحديث مأخوذ من قوله تعالى: {وكلوا واشربوا ولا تسرفوا}  وفيه تحريم الخيلاء والكبر.

608;هذا الحديث جامع لفضائل تدبير الإنسان نفسه، وفيه مصالح النفس والجسد في الدنيا والآخرة، فإن السرف في كل شيء مضر بالجسد ومضر بالمعيشة، ويؤدي إلى الإتلاف فيضر بالنفس إذا كانت تابعة للجسد في أكثر الأحوال، والمخيلة تضر بالنفس حيث تكسبها العجب، وتضر بالآخرة حيث تكسب الإثم، وبالدنيا حيث تكسب المقت من الناس، وقد علق البخاري عن ابن عباس «كل ما شئت واشرب ما شئت ما أخطأتك اثنتان سرف ومخيلة».
740;ہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔
یہ حدیث اللہ تعالی کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا﴾ ”کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو“۔ اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔
نیز اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور معیشت دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے؛ کیوں کہ یہ عموما جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت کے لیے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ کیوںکہ یہ گناہ کا سبب ہے اور دنیاوی اعتبار سے بھی یہ ضرر رساں ہے، بایں طور کہ اس کی وجہ سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تعلیقا روایت کی ہے کہ : ”جو چاہو، کھاؤ اور جو چاہو، پیو، جب تک کہ دو باتیں تم میں نہ آئیں: اسراف اور تکبر“۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - امام بخاری نے اسے صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5363

 
 
Hadith   865   الحديث
الأهمية: لا تسبوا الأموات; فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا


Tema:

مرنے والوں کو برا مت کہو؛ کیوں کہ جو اعمال انھوں نے آگے بھیجے، وہ ان تک پہنچ چکے ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «لا تسبوا الأموات; فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مرنے والوں کو برا مت کہو؛ کیوں کہ جو اعمال انھوں نے آگے بھیجے، وہ ان تک پہنچ چکے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على تحريم سب الأموات والوقوع في أعراضهم، وأن هذا من مساوئ الأخلاق، وحكمة النهي جاءت من قوله في بقية الحديث: "فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا" أي وصلوا إلى ما قدموه من أعمالهم صالحة أو طالحة، وهذا السب لا يبلغهم وإنما يؤذي الأحياء.
581;دیث میں مر جانے والوں کو برا بھلا کہنے اور ان کی عزت پر انگلی اٹھانے کی حرمت اور اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک بہت بری اخلاقی صفت ہے۔ ممانعت کی حکمت حدیث کے دوسرے حصے میں ہے کہ: ”فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا“ یعنی جو اچھے یا برے اعمال انھوں نے کیے، ان تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ یہ گالم گلوج ان تک نہیں پہنچتی، بلکہ اس سے تو زندہ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5364

 
 
Hadith   866   الحديث
الأهمية: لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان: فيعرض هذا، ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام


Tema:

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین راتوں سےزیادہ اپنے بھائی سے قطعِ تعلقی رکھے بایں طور کہ ان کا آمنا سامنا ہو تو وہ ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کر لے۔

عن أبي أيوب الأنصاري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان: فيُعرض هذا، ويُعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام».

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین راتوں سےزیادہ اپنے بھائی سے قطعِ تعلقی رکھے بایں طور کہ ان کا آمنا سامنا ہو تو وہ ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کر لے“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث نهي عن هجر المسلم أخاه المسلم أكثر من ثلاث ليال، يلتقي كل منهما بالآخر فيعرض عنه ولا يسلم عليه ولا يكلمه، ويُفهم منه إباحة الهجر في الثلاث فما دونها، مراعاة للطباع البشرية؛ لأن الإنسان مجبول على الغضب، وسوء الخلق، فعُفي عن الهجر في الثلاث ليذهب ذلك العارض، والمراد بالهجر في الحديث الهجر لحظ النفس، أما الهجر لحق الله تعالى كهجر العصاة، والمبتدعة، وقرناء السوء، فهذا لا يؤقت بوقت، وإنما هو معلق بسبب يزول بزواله، وأفضل هذين المتخاصمين من يحاول إزالة الهجر، ويبدأ بالسلام.
581;دیث میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے بایں طور کہ ان دونوں کی آپس میں ملاقات ہو تو ہر کوئی دوسرے سے منہ موڑ لے، نہ تو اس سے سلام کرے اور نہ ہی اس سے بات کرے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے تین دن یا اس سے کم مدت کے لیے قطع تعلقی کرنا جائز ہے کیوں کہ انسان میں فطری طور پر غضب اور بدخلقی کا مادہ پایا جاتا ہے، چنانچہ تین دن تک کی قطع تعلقی کرنا معاف ہے تا کہ یہ کیفیت زائل ہو جائے۔ اس حدیث میں جس قطع تعلقی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ قطع تعلقی ہے جو ذاتی مقاصد کے لیے ہو۔ اللہ کی خاطر کی جانے والی قطع تعلقی کا کوئی وقت محدود نہیں ہے جیسے نافرمان و بدعتی لوگوں اور برے ہم نشینوں سے قطع تعلقی کرنا۔ اس طرح کی قطع تعلقی اپنے سبب کے ساتھ معلق ہوتی ہے اور سبب کے زائل ہونے پر ہی ختم ہو تی ہے۔ باہم جھگڑا کرنے والے ان دونوں فریقین میں سے افضل وہ ہے جو قطع تعلقی کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور سلام میں پہل کر لے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5365

 
 
Hadith   867   الحديث
الأهمية: لا يدخل الجنة قاطع


Tema:

قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

عن جبير بن مطعم -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا يدخل الجنة قاطع».

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على تحريم قطيعة الرحم، وأن ذلك من كبائر الذنوب، ومعنى الحديث: نفي الدخول الذي لا يسبقه عذاب، وليس نفيا لأصل الدخول؛ لأن قاطع الرحم ليس كافرا تحرم عليه الجنة، بل مآله إلى الجنة قطعاً ما دام موحدا، لكنه دخول يسبقه عذاب بقدر ذنبه.
740;ہ حدیث قطع رحمی کے حرام ہونے اور اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ حدیث میں جس دخول کی نفی کی گئی ہے وہ ایسا دخول ہے جس سے پہلے عذاب نہ ہو۔ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ جنت میں داخلہ بالکل ہی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ قطع رحمی کرنے والا کافر نہیں ہوتا کہ اس پر جنت حرام ہو جائے، بلکہ اگر وہ موحد ہے تو اس کا مآل کار جنت ہوگا۔ تاہم جانے سے پہلے اسے اپنے گناہ کے بقدر عذاب بھگتنا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5367

 
 
Hadith   868   الحديث
الأهمية: لا يدخل الجنة قَتَّات


Tema:

جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔

عن حذيفة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا يدخل الجنة قَتَّات».

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں چغل خور نہیں جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- بوعيد شديد على فاعل  النميمة -نقل الكلام بين الناس بقصد الإفساد-، وهو أنه لا يدخل الجنة أي  ابتداءً، بل يسبقه عذاب بقدر ذنبه، والقتات هو النمام، وفعله من الكبائر؛ لهذا الحديث.
575;س حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺ، چغل خوری یعنی لوگوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرنے کے مقصد سے باتیں پھیلانا والے کو سخت ترین سزا کی وعید سنا رہے ہیں کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ یعنی ابتدائی طور پر ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا، بلکہ اس سے قبل بقدر گناہ اس کو عذاب کا مزہ چکھایا جائےگا۔ ”قَتَّات“ ہی کو ”نَمَّام“ (چغل خور) کہتے ہیں۔ اس حدیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل کرنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5368

 
 
Hadith   869   الحديث
الأهمية: لا يمش أحدكم في نعل واحدة، وليُنْعِلهما جميعًا، أو ليخلعهما جميعًا


Tema:

تم میں سے کوئی شخص ایک ہی جوتا پہن کر نہ چلے؛ یا تو دونوں جوتے پہن لے یا دونوں ہی اتار دے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يمش أحدكم في نعل واحدة، لِيُنْعِلهما جميعًا، أو لِيَخْلَعْهُمَا جميعًا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے کوئی شخص ایک ہی جوتا پہن کر نہ چلے؛ یا تو دونوں جوتے پہن کر چلے یا دونوں ہی اتار دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن المشي في نعل واحدة، فإما أن يلبس النعلين جميعا، أو يخلعهما جميعا ويكون حافيا، وهذا الأدب دليل من الأدلة على دقة الشريعة الإسلامية وشمولها لجميع مناحي الحياة.
606;بی کریم ﷺ نے ایک جوتے میں چلنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے آدمی یا تو دونوں جوتےپہن کر چلے یا دونوں ہی اتاردے اور ننگے پیر چلے۔ یہ ادب اسلامی شریعت کی گہرائی و گیرائی اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا کمال درجہ احاطہ کرنے کے بارے میں پائے جانے والے دیگر دلائل میں سے ایک بڑی دلیل ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5369

 
 
Hadith   870   الحديث
الأهمية: لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء


Tema:

اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا، جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا ينظر الله إلى من جَرَّ ثوبه خُيَلَاءَ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا، جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث فيه وعيد شديد لمن جر ثوبه على الأرض تكبرا ًوترفعاً على الخلق، بأن الله تعالى يُعرض عنه، ولا ينظر إليه نظرة رحمة، ولاينفي هذا إثبات نظر الله العام لجميع الخلائق، ومن المعلوم تحريم إسبال الثياب مطلقاً، ويشتد التحريم حين يكون ذلك تكبراً.

اس حدیث میں ان افراد کو سخت ترین وعید سنائی گئی ہے، جو دنیا میں اپنی بڑائی اور دیگر مخلوق پر اپنی برتری ظاہر کرتے ہوئے اپنے کپڑے زمین پر لٹکائے پھرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اعراض کرلے گا اور ان پر اپنی نظر رحمت و کرم نہیں ڈالے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی اپنی تمام مخلوقات پر عمومی نظر ڈالنے کے اثبات کی نفی نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ مطلقاً کپڑوں کو لٹکانا حرام ہے اور یہ حرمت اس وقت اور بھی شدید ہوجاتی ہے جب اس عمل کو تکبر کے ساتھ کیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5370

 
 
Hadith   871   الحديث
الأهمية: ليس المؤمن بالطَّعَّان ولا اللعَّان ولا الفاحش ولا البذيء


Tema:

مومن طعنہ مارنے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور فحش گو نہیں ہوتا ہے۔

الحديث الأول: عن ابن مسعود مرفوعًا: «ما من شيء في الميزان أثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ. وإن الله يُبْغِض الفاحش البَذِيء».
الحديث الثاني: عن أبي الدرداء مرفوعًا: «ليس المؤمن بِالطَّعَّان، ولا اللَّعَّان، ولا الفاحش، ولا البَذِيء».

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(قیامت کے دن ) میزان میں خوش خلقی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہو گی اور یقیناً اللہ تعالیٰ بےحیا اور فحش گو سے سخت نفرت کرتا ہے“۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن طعنہ مارنے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور فحش گو نہیں ہوتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث الأول: في الحديث فضيلة حسن الخلق، وهو كف الأذى، وبذل الندى، وطلاقة الوجه، وأنه ليس هناك في  الأعمال أعظم ثقلًا في ميزان العبد يوم القيامة.
وأن الله -تعالى- يبغض من كان بهذا الوصف السيء، وهو أن يكون فاحش القول بذيء الكلام .
الحديث الثاني: فيه أنه ليس من صفات المؤمن الكامل الإيمان أن يكون كثير القدح والعيب والوقوع في أعراض الناس، وليس من صفاته أن يكون كثير الشتم واللعن، فلا يكون طعاناً يطعن في الناس بأنسابهم أو بأعراضهم أو بشكلهم وهيئاتهم أو بآمالهم؛ بل إن قوة إيمانه تحمله على التحلي بمكارم الأخلاق، والبعد عن سيئها.
662;ہلی حدیث میں خوش خلقی کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنے، بہت زیادہ فیاضی اورخندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے کا نام خوش خلقی ہے اور قیامت کے دن بندہ کے میزان میں ان اعمال سے بھاری کوئی اور عمل نہ ہوگا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ (بےحیائی اور فحش گوئی کی) اس بری صفت سے سخت نفرت کرتا ہےکہ وہ بدکلام اور فحش گو ہو۔
دوسری حدیث میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ کمال درجے کا ایمان رکھنے والے کی یہ صفات نہیں ہوتیں کہ وہ بہت زیادہ طعن و تشنیع کرنے والا، عیب جو اور لوگوں کی عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہو اور نہ ہی یہ صفات ہوتی ہیں کہ وہ بہت زیادہ گالی گلوچ اور لعنت وملامت کرنے والا ہو۔ چنانچہ وہ لوگوں کے حسب و نسب یا ان کی عزت و آبرو پر طعنہ زنی کرنے والا یا ان کی صورتوں اور ہیئتوں میں عیوب نکالنے والا یا ان کی امیدوں و تمناؤں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ایمان کی مضبوطی، اس کو اعلی اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے اور برے اخلاق سے دور رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5371

 
 
Hadith   872   الحديث
الأهمية: من أحبَّ أن يُبْسَطَ عليه في رزقه، وأن يُنْسَأَ له في أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رحمه


Tema:

جو شخص اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «من أحبّ أن يُبْسَطَ عليه في رزقه، وأن يُنْسَأَ له في أَثَرِهِ؛ فَلْيَصِلْ رحمه».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کیا کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث حث على صلة الرحم، وبيان بعض فوائدها بالإضافة لتحقيق رضا الله -تعالى-، فإنها سبب أيضًا للثواب العاجل بحصول أحب الأمور إلى العبد، وأنها سبب لبسط رزقه وتوسيعه، وسبب لطول العمر.
وظاهر الحديث قد يتعارض عند بعض الناس مع قوله -تعالى-: (ولن يؤخر الله نفسا إذا جاء أجلها)، فالجواب: أنَّ الأجل محدد بالنسبة إلى كل سبب من أسبابه، فإذا فرضنا أن الشخص حدد له ستون عامًا إن وصل رحمه وأربعون إن قطعها؛ فإذا وصلها زاد الله في عمره الذي حدد له إذا لم يصل.
575;س حدیث میں صلہ رحمی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے ساتھ ساتھ اس کے بعض دیگر فوائد کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ کیوں کہ یہ عمل دنیوی منفعتوں کے حصول کا بھی سبب ہے، اس سے بندے کو اس کے پسندیدہ امور حاصل ہوتے ہیں؛ اس کی روزی میں فراخی وکشائش پیدا ہوتی ہے اور اس کی عمر دراز کر دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک بظاہر یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے متعارض ہے :﴿وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا﴾ ”اور جب کسی کا مقرره وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا“ اس کا جواب یہ ہے کہ موت کا وقت، اس کے تمام اسباب کے ساتھ متعین ومقرر ہے، اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ اگر فلاں شخص صلہ رحمی کرے، تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی اور اگر قطع رحمی کرے، تو چالیس سال۔ اب اگر وہ صلہ رحمی کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی اس عمر میں اضافہ فرمائے گا، جو اس کے لیے صلہ رحمی نہ کرنے کی صورت میں مقرر کی گئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5372

 
 
Hadith   873   الحديث
الأهمية: «من الكبائر شَتْمُ الرجل والديه» قيل: وهل يسبُّ الرجل والديه؟ قال: «نعم، يسبُّ أبا الرجل فيسبُّ أباه، ويسبُّ أمَّه، فيسبُّ أمّه»


Tema:

اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ دریافت کیا گیا کہ بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! آدمی کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «من الكبائر شَتْمُ الرجل والديه» قيل: وهل يسبّ الرجل والديه؟ قال: «نعم، يسبّ أبا الرجل فيسبّ أباه، ويسبّ أمّه، فيسبّ أمّه».

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے“۔ دریافت کیا گیا کہ بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! آدمی کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على عظم حق الأبوين، وأن التسبب إلى أذيتهما وشتمهما من كبائر الذنوب، وإذا كان هذا في التسبب إلى شتمهما ولعنهما فإن لعنهما مباشرة أقبح.
فبعد أن أخبر أن شتمهما من الكبائر تعجب الحاضرون من ذلك، لأنه بعيدٌ عن أذهانهم أن يسب الرجل والديه مباشرة، فأخبرهم أن ذلك قد يقع عن طريق التسبب في شتمهما، حين يشتم أبا الرجل وأمه فيسب الرجل أباه وأمه.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ماں باپ کا حق بڑا عظیم ہے اور ان کی اذیت و سب و شتم کا باعث بننا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ پھر جب ان کے سب و شتم کے سبب بننے کا یہ حال ہے، تو بلا واسطہ ان کی دشنام طرازی اور لعنت و ملامت کتنا بڑا گناہ ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
جب اس بات کی خبر دی گئی کہ والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، تو وہاں موجود لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا؛ کیوں کہ آدمی کا اپنے والدین کو بالواسطہ گالی دینا عقل سے بعد تر بات ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے بتایا کہ یہ کبھی کبھی ان کی دشنام طرازی کا سبب بننے کی وجہ سے واقع ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے، تو بدلے میں وہ بھی اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5373

 
 
Hadith   874   الحديث
الأهمية: من تَسَمَّع حديث قوم, وهم له كارهون, صُبَّ في أذنيه الآنُكُ يوم القيامة


Tema:

جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے، جو اسے پسند نہیں کرتے، تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «من تَسَمَّع حديث قوم وهم له كارهون؛ صُبَّ في أذنيه الآنُكُ يوم القيامة».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے، جو اسے پسند نہیں کرتے، تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث الوعيد الشديد لمن يستمع حديث قوم وهم لا يحبون أن يسمع حديثهم، وهو من الأخلاق السيئة التي هي من كبائر الذنوب، والجزاء من جنس العمل؛ لأنه لما تَسَمَّعَ بأذنه عُوِقَب فيها، وهو أنه يُلقى في أذنه الرصاص المذاب، وسواء كانوا يكرهون أن يسمع لغرض صحيح أو لغير غرض؛ لأن بعض الناس يكره أن يسمعه غيره؛ ولو كان الكلام ليس فيه عيب أو محظور ولا فيه سب، ولكن لا يريد أن يسمعه أحدٌ.
575;س حدیث میں ان لوگوں کے خلاف سخت وعید وارد ہوئی ہے، جو ایسے لوگوں کی گفتگو کان لگا کر سنتے ہیں، جو اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی گفتگو سنیں۔ دراصل یہ عمل ان بدترین اخلاق میں سے ہے جن کا شمار، کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ چوں کہ اصول یہ ہے کہ عمل کا بدلہ اسی کی جنس سے دی جائے؛ اس لیے اس نے جن کانوں کے ذریعے بہ تکلف لوگوں کی گفتگو سنی، انھیں کانوں میں اس کو عذاب دیا جائے گا اور ان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ نیز اس سے کو‏ئی فرق نہیں پڑتا کہ گفتگو کرنے والے کسی صحیح غرض کی بنا پر بات سننے دینے کو ناپسند کرتے ہوں یا بلا کسی سبب؛ کیوں کہ بعض لوگوں کو یہ بات گراں گزرتی ہے کہ کوئی ان کی بات سنے؛ چاہے گفتگو میں کسی قسم کا عیب یا حرام بات اور کوئی سبب نہ بھی ہو، لیکن پھر بھی ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کی بات نہ سنے۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5374

 
 
Hadith   875   الحديث
الأهمية: من ضارَّ مسلما ضارَّه الله, ومن شاقَّ مسلما شقَّ الله عليه


Tema:

جس شخص نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا، اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان کو مشقت میں ڈالا، اللہ اسے مشقت میں مبتلا کرے گا۔

عن أبي صرمة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من ضارَّ مسلما ضارَّه الله, ومن شاقَّ مسلما شقَّ الله عليه».

ابو صرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا، اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان کو مشقت میں ڈالا، اللہ اسے مشقت میں مبتلا کرے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث دليل على تحريم الإيذاء وإدخال الضرر والمشقة على المسلم، سواء كان ذلك في بدنه أو أهله أو ماله أو ولده، وأن من أدخل الضرر والمشقة على المسلم فإن الله يجازيه من جنس عمله، سواء كان هذا الضرر بتفويت مصلحة أو بحصول مضرة بوجه من الوجوه، ومن ذلك التدليس والغش في المعاملات، وكتم العيوب، والخطبة على خطبة أخيه.
581;دیث میں مسلمان کو اذیت دینے، اسے نقصان پہنچانے اور اسے مشقت میں مبتلا کرنے کی حرمت کی دلیل ہے، چاہے یہ اذیت و نقصان اس کے بدن یا اہل خانہ سے متعلق ہو یا اس کے مال یا اولاد سے متعلق ہو۔ اور یہ کہ جس شخص نے مسلمان کو ضرر اور مشقت پہنچایا، اسے اللہ اس کے عمل ہی کے جنس سے بدلہ دے گا، چاہے یہ ضرر اسے کسی سود مند شے سے محروم کر کے دیا جائے یا پھر کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچا کر ہو۔ معاملات میں تدلیس اور دھوکہ دہی سے کام لینا، عیوب کو چھپانا اور اپنے بھائی کی منگنی کے اوپر منگنی کرنا اسی ضرر رسانی کی صورتوں میں سے ہیں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5375

 
 
Hadith   876   الحديث
الأهمية: قد علّمنا الله كيف نُسَلِّمُ عليك؛ فكيف نُصَلِّي عليك؟ فقال: قولوا: اللَّهُمَّ صَلِّ على محمد وعلى آل محمد؛ كما صَلَّيْتَ على إبراهيم، إنك حميد مجيد، و بَارِكْ على محمد وعلى آل محمد؛ كما باركت على إبراهيم، إنك حميد مجيد


Tema:

ہمیں اللہ نے آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ سکھایا ہے، لیکن آپ پر درود ہم کس طرح بھیجیں؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو: اے اللہ ! محمد (ﷺ) پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد (ﷺ)پر، جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام ) پر رحمت نازل کی ہے، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔ اے اللہ ! محمد (ﷺ) پر اور آل محمد (ﷺ) پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام ) پر برکت نازل کی ہے، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔

عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: «لقيني كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فقال: ألا أُهْدِي لك هدية؟ إن النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج علينا، فقلنا: يا رسول الله، قد عَلِمْنا الله كيف نُسَلِّمُ عليك؛ فكَيف نُصَلِّي عليك؟ فقال: قولوا: اللَّهُمَّ صَلِّ على محمد وعلى آل محمد؛ كما صَلَّيْتَ على إبراهيم، إنَّك حميد مجيد، وبَارِكْ على محمد وعلى آل محمد؛ كما باركت على إبراهيم، إنَّك حميد مجيد».
عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں تمھیں ایک تحفہ نہ دوں؟ نبی کریم ﷺ ہم لو گوں کے درمیان تشریف لائے، تو ہم نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ تو ہمیں معلوم ہو گیاہے کہ ہم آپ ﷺپر سلام کیسے بھیجیں، لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہو: ”اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ“ اے اللہ ! محمد (ﷺ) پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد (ﷺ)پر، جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام ) پر رحمت نازل کی ہے، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔ اے اللہ ! محمد (ﷺ) پر اور آل محمد (ﷺ) پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر برکت نازل کی ہے، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔

يأتي هذا الحديث مؤكدا على شأن النبي الكريم وعلو منزلته عند ربِّه، حيث تقابل عبد الرحمن بن أبي لَيْلَى، أحد أفاضل التابعين وعلمائهم بكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أحد الصحابة -رضي الله عنه-، فقال كَعْبُ: ألا أُهْدِي إليك هدية؟ وكان أفضل ما يتهادونه الحكمة ومسائل العلم الشرعي، ففرح عبد الرحمن بهذه الهدية الثمينة. وقال: بلى، أهدها لي.
فقال كَعْبُ: خرج علينا النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقلنا: يا رسول الله علمتنا كيف نُسَلِّمُ عليك؟ ولكن كيف نُصَلِّي عليك؟ فقال: قولوا، وذكر لهم صفة الصلاة المطلوبة والتي معناها الطلب من الله -تعالى- أن يصلي على نبيه محمد وعلى آله، وهم أقاربه المؤمنون أو أتباعه على دينه، وأن تكون هذه الصلاة في بركتها وكثرتها، كالصلاة على أبي الأنبياء إبراهيم وآل إبراهيم، الذين هم الأنبياء والصالحون من بعده، وأن يزيد في الخير لمحمد وآله. كالبركة التي حصلت لآل إبراهيم.
فإن الله كثير المحامد، صاحب المجد، ومَن هذه صفاته فهو قريب العطاء واسع النوال.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من المتفق عليه أن النبي محمداً -صلى الله عليه وسلم- أفضل الخلق. وعند علماء البيان أن المشبَّه أقل رتبةً من المشبَّه به؛ لأن الغرض من التشبيه إلحاقه به في الصفة عند النبيين، فكيف يطلب من الله -تعالى- أن يصلي على محمد وآله، صلاة كصلاته على إبراهيم وآله؟.
وأحسن ما يقال أن آل إبراهيم عليه السلام، هم جميع الأنبياء من بعده، ومنهم نبينا -صلى الله عليه وسلم وعليهم أجمعين-، فالمعنى أنه يطلب للنبي وآله صلاة كالصلاة التي لجميع الأنبياء من لدن إبراهيم -عليهم الصلاة والسلام-. ومن المعلوم أنها كلها تكون أفضل من الصلاة للنبي -صلى الله عليه وسلم- وحده، والله أعلم.
740;ہ حدیث نبی کریم ﷺکی، اللہ تعالیٰ کے یہاں بلند شان اور عالی مرتبے کی بہتر نشان دہی کرتی ہے۔ چنانچہ بڑے عالم فاضل اور ذی وقار تابعی عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی ملاقات صحابی رسول کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمھیں کوئی تحفہ نہ دوں؟ اس دور کے لوگ ایک دوسرے کو جو افضل ترین ہدیہ پیش کرتے، وہ حکمت و دانائی اور شرعی مسائل ہوتے۔ عبدالرحمٰن اس قیمتی تحفے کے ملنے پر بڑے خوش ہوئے اور کہا: کیوں نہیں؟ ضرور عنایت فرمائیں!
کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک دن نبی کریمﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپﷺ پر سلام کیسے بھیجیں، لیکن یہ نہیں پتہ کہ ہم آپﷺ پر درود کیسے بھجیں؟ تو آپﷺ نےفرمایا: یہ کہا کرو! پھر ان کے سامنے مطلوبہ درود کی کیفیت بیان کی، جس میں اللہ سے دعا کی گئی ہے کہ وہ نبی کریمﷺ اور آپ کی آل، جس میں آپ کے ایمان والے رشتے دار یا آپ کے دین کی پیروی کرنے والے شامل ہیں، پر اسی طرح رحمتوں کی بارش کرے، جس طرح ابو الانبیا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل، جس میں انبیا اور صالحین شامل ہیں، پر رحمت کی بارش ہوئی۔ نیز محمد ﷺ اور آپ کی آل کو ہر طرح کے خیر سے سرفراز کرے، جیسے آل ابراہیم سرفراز ہوئی۔ کیوں کہ اللہ تعالی بے پایاں تعریف اور کبریائی کا مالک ہے اور جو ان صفات کا حامل ہو، اس کی نوازش اور داد و دہش کے کیا کہنے!
یہ متفق علیہ بات ہے کہ نبی کریم ﷺ مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔جب کہ علمائے بیان کے مطابق مشبہ، مشبہ بہ سے کم تر رتبے کا ہوتا ہے۔ کیوں کہ تشبیہ کا مقصد مشبہ کو کسی خاص وصف میں مشبہ بہ سے ملحق کرنا ہوتا ہے۔ تو پھر اللہ سے کیسے یہ دعا کی جا رہی ہے کہ محمد ﷺ اور آپ کی آل پر اسی طرح رحمتوں کی بارش کرے، جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتوں کی بارش کی ہے؟
اس سلسلے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ آل ابراہیم سے مراد ان کے بعد آنے والے تمام انبیا ہیں اور ان میں ہمارے نبی محمد ﷺ بھی شامل ہیں۔ اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کی آل کے لیے ویسی رحمتیں طلب کی جا رہی ہیں، جیسی رحمتیں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی تک تمام انبیا اور ان کی آل پر اتریں۔ بدیہی بات ہے کہ یہ ساری رحمتیں اکیلے رسول اکرم ﷺ پر اترنے والی رحمتوں سے افضل ہوں گی۔ واللہ آعلم۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5377

 
 
Hadith   877   الحديث
الأهمية: لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب


Tema:

اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔

عن عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِت -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا صلاة لمن لم يَقْرَأْ بفاتحة الكتاب».

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سورة الفاتحة، هي أم القرآن وروحه، لأنها جمعت أنواع المحامد والصفات العلى لله تعالى، وإثبات الملك والقهر، والمعاد والجزاء، والعبادة والقصد، وهذه أنواع التوحيد والتكاليف.
لذا فرضت قراءتها في كل ركعة، وتوقفت صحة الصلاة على قراءتها، ونُفِيَتْ حقيقة الصلاة الشرعية بدون قراءتها، ويؤكد نفي حقيقتها الشرعية ما أخرجه ابن خزيمة عن أبي هريرة مرفوعاً وهو "لاتجزئ صلاة لايقرأ فيها بأم القرآن".
ويستثنى من ذلك المأموم إذا أدرك الإمام راكعا فيكبر للإحرام ثم يركع وتسقط عنه الفاتحة في هذه الركعة لحديث آخر، ولأنه لم يدرك محل القراءة وهو القيام .
587;ورۂ فاتحہ قرآن کی ماں (اصل) اور اس کی روح ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کےجملہ اقسام اور صفاتِ عالیہ پر مشتمل ہے، اور اس میں بادشاہت، غلبہ، بعث بعد الموت (آخرت)، جزا وسزا اور عبادت و قصد کے اثبات کا بیان ہے اور یہی توحید اور تکالیفِ شرعیہ کی قسمیں ہیں۔ اسی لئے ہر رکعت میں اس کا پڑھنا فرض ہے اور نماز کی صحت اس کے پڑھنے پر موقوف ہے، اور اس کےنہ پڑھنے پر شرعی نماز کی حقیقت کی نفی کی گئی ہے اور شرعی نماز کی حقیقت کی نفی کی تاکید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج ابن خزیمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مرفوعاً کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ”وہ نماز کافی نہیں جس میں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ کو نہ پڑھا جائے“، اور اس سے اس مقتدی کو مستثنی قرار دیا جائے گا جس نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا ہو ایسی صورت میں مقتدی تکبیر تحریمہ کہے گا پھر رکوع میں چلا جائے گا، اور اس رکعت میں اس سے فاتحہ ساقط ہو جائے گا۔ اس کی دلیل ایک دوسری حدیث ہے، اور اس لئے بھی کہ اسے قراءت کی جگہ یعنی قیام نہیں ملا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5378

 
 
Hadith   878   الحديث
الأهمية: لعن الله اليهود والنصارى؛ اتَّخَذُوا قبورَ أنبيائهم مساجد


Tema:

يہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في مرضه الذي لم يقم منه: «لعن الله اليهود والنصارى؛ اتَّخَذُوا قُبُورَ أنبيائهم مساجد».
قالت: ولولا ذلك لأُبْرِزَ قبره؛ غير أنه خُشِيَ أن يتخذ مسجدًا.

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: ”يہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا“۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی، تو آپ ﷺ کی قبر مبارک ظاہر کر کے بنائی جاتی؛ لیکن آپ ﷺ کو خدشہ تھا کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بعث الله الرسل لتحقيق التوحيد، وكان أفضلهم وهو النبي -صلى الله عليه وسلم- حريصًا على ذلك، وعلى سد كل وسائل الشرك، وكانت عائشة -رضي الله عنها- هي التي اعتنت بالنبي -صلى الله عليه وسلم- في مرضه الذي توفي فيه، وهى الحاضرة وقت قبض روحه الكريم.
فذكرت أنه في هذا المرض الذي لم يقم منه، خشي أن يتخذ قبره مسجداً، يصلى عنده، فتجر الحال إلى عبادته من دون الله -تعالى-، فقال: "لعن الله اليهود والنصارى؛ اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد"، يدعو عليهم، أو يخبر أن الله لعنهم، وهذا يبين أن هذا في آخر حياته، وأنه لم ينسخ، يحذر من عملهم، ولذا علم الصحابة -رضي الله عنهم- مراده؛ فجعلوه في داخل حجرة عائشة، ولم ينقل عنهم، ولا عن من بعدهم من السلف، أنهم قصدوا قبره الشريف ليدخلوا إليه؛ فيصلوا ويدعوا عنده.
حتى إذا تبدلت السنة بالبدعة، وصارت الرحلة إلى القبور، حفظ الله نبيه مما يكره أن يفعل عند قبره؛ فصانه بثلاثة حجب متينة، لا يتسنى لأي مبتدع أن ينفذ خلالها.
575;للہ تعالی نے رسولوں کو توحید کے پرچار کے لیے بھیجا۔ رسولوں میں سے سب سے افضل رسول نبی کریم ﷺ ہیں، جو توحید کے پرچار اورشرک کے تمام وسائل کا سد باب کرنے کے بہت حریص تھے۔ آپ ﷺ کے مرض وفات میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی آپ ﷺ کی دیکھ بھال کرتیں اور جب آپ ﷺ کی روح مبارک قبض ہوئی، تو اس وقت بھی وہ وہاں موجود تھیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر کرتی ہیں کہ اس مرض میں، جس سے آپ ﷺ جاں بر نہ ہو سکے، آپ ﷺ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ کہیں آپ ﷺ کی قبر مبارک کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے اور پھر حالت یہ ہو کہ اللہ کی عبادت کی بجائے آپ ﷺ ہی کی عبادت شروع ہوجائے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاری پر، جنھوں ںے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا“، آپ ﷺ ان کے لیے یا تو بد دعا فرما رہے ہیں یا یہ بتا رہے ہیں کہ ان پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ آپ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے اور آپ ﷺ کا یہ فرمان منسوخ نہیں ہوا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ یہود و نصاری کے عمل سے ڈرا رہے ہیں۔ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی مراد سمجھ گئے اور انھوں نے قبرمبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں بنائی۔ نیز نہ تو صحابۂ کرام سے اور نہ ان کے بعد آنے والے سلف صالحین سے منقول ہے کہ کبھی وہ آپ ﷺ کی قبر مبارک کی طرف، وہاں نماز پڑھنے اور دعا کرنے کے ارادے سے گئے ہوں۔
جب سنت کی جگہ بدعت نے لے لی اور قبروں کی طرف سفر کرنے کا رواج ہو گیا، تب بھی اللہ تعالی نے اپنی نبی ﷺ کی قبر مبارک کو ان باتوں سے محفوظ رکھا، جو آپ ﷺ کو ناپسند تھیں۔ اللہ تعالی نے قبر مبارک کی تین مضبوط رکاوٹوں کے ذریعے سے حفاظت کی، جن سے گزرنے کا کسی بدعتی کو موقع نہیں ملتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5379

 
 
Hadith   879   الحديث
الأهمية: ليس مِنَّا من ضرب الْخدُودَ، و شَقَّ الْجيوبَ، ودعا بِدَعْوَى الجاهلية


Tema:

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور دور جاہلیت کی سی باتیں کرے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعًا: «ليس مِنَّا من ضرب الْخُدُودَ، وشَقَّ الْجُيُوبَ، ودعا بِدَعْوَى الجاهلية».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور دور جاہلیت کی سی باتیں کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لله ما أخذ، وله ما أعطى وفي ذلك الحكمة التامة، والتصرف الرشيد، ومن عارض في هذا ومانعه، فكأنما يعترض على قضاء الله وقدره الذي هو عين المصلحة والحكمة، وأساس العدل والصلاح.
ولذا فإن النبي -صلى الله عليه وسلم- ذكر أنه من تسخطَ وجزع من قضاء الله فهو على غير طريقته المحمودة، وسنته المنشودة، إذ قد انحرفت به الطريق إلى ناحية الذين إذا مسهم الشر جزعوا وهلعوا؛ لأنهم متعلقون بهذه الحياة الدنيا فلا يرجون بصبرهم على مصيبتهم ثواب الله ورضوانه.
فهو بريء ممن ضعف إيمانهم فلم يتحمَّلوا وَقْعَ المصيبة حتَّى أَخْرَجَهُم ذلك إلى التسخُّط القلبي والقولي بالنياحة والندب، أو الفعلي كشق الجيوب، ولطم الخدود؛ إحياءً لعادة الجاهلية.
وإنما أولياؤه الذين إذا أصابتهم مصيبة سلَّموا بقضاء الله -تعالى-، وقالوا: {إِنَّا لله و إِنا إليه رَاجعُونَ أولئِكَ عَلَيهِم صَلَوات مِنْ رَبِّهِم وَرَحمَة وَأولئِكَ هُمُ المُهتدُونَ}.
 ومذهب أهل السنة والجماعة، أن المسلم لا يخرج من دائرة الإسلام بمجرد فعل المعاصي وإن كبرت، كقتل النفس بغير حق. ويوجد كثير من النصوص الصحيحة تفيد بظاهرها خروج المسلم من الإسلام؛ لفعله بعض الكبائر، وذلك كهذا الحديث "ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب" الخ، وأحسن تأويلاتهم ما قاله شيخ الإسلام "ابن تيمية" من أن الإيمان نوعان:
أ- نوع يمنع من دخول النار.
ب- ونوع لا يمنع من الدخول، ولكن يمنع من الخلود فيها.
فمن كَمُل إيمانه وسار على طريق النبي -صلى الله عليه وسلم- وهديه الكامل، فهو الذي يمنعه إيمانه من دخول النار.
 وقال -رحمه الله-: إنّ الأشياء لها شروط وموانع، فلا يتم الشيء إلا باجتماع شروطه وانتفاء موانعه، مثال ذلك إذا رتب العذاب على عمل، كان ذلك العمل موجباً لحصول العذاب ما لم يوجد مانع يمنع من حصوله، وأكبر الموانع، وجود الإيمان، الذي يمنع من الخلود في النار.
575;للہ جو لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو دے وہ بھی اسی کا ہے۔ اسی میں کامل حکمت مضمر ہے اور یہی راست پر مبنی تصرف ہے۔ جو اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس میں جھگڑا کرتا ہے وہ گویا اللہ کی قضاء و قدر پر نکتہ چینی کرتا ہے حالانکہ وہ عین مصلحت اور حکمت ہے اور عدل و صلاح کی بنیاد ہے۔
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ کی قضاء پر جزع فزع اور اظہار ناراضگی کرتا ہے وہ ناپسندیدہ اور آپ ﷺ کی سنت کے برخلاف فعل کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ ایسے شخص کا میلان ان لوگوں کی طرف ہو جاتا ہے جنہیں جب کوئی برائی لاحق ہوتی ہے تو وہ خوب جزع فزع کرتے ہیں اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دل اس زندگی سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے اوپر آنے والی مصیبت پر صبر کرنے پر اللہ سے ثواب اور اس کی رضا کے امیدوار نہیں ہوتے۔
پس وہ ان لوگوں سے بری ہیں جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور جو مصیبت کو برداشت نہیں کر پاتے بلکہ اس کی وجہ سے بین کر کے اور نوحہ کر کے دلی اور قولی طور پر یا پھر گریبانوں کو پھاڑ کر اور جاہلیت کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے اپنے رخسار پیٹ کر فعلی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
اللہ کے اولیاء وہ لوگ ہیں جن پر جب کوئی مصبیت آتی ہے تو وہ اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں:﴿إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، أولئِكَ عَلَيهِم صَلَوات مِنْ رَبِّهِم وَ رَحمَة وَأولئِكَ هُمُ المُهتدُونَ﴾ ”ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“۔
اہلِ سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان صرف گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا چاہے یہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہوں جیسے ناحق کسی جان کا قتل۔ بہت سی ایسی صحیح نصوص موجود ہیں جن کا ظاہری معنی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمان کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے جیسے یہ حدیث کہ "جس نے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔" ان احادیث کی سب سے بہتر تاویل وہ ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایمان کی دو اقسام ہیں:
ا۔ وہ ایمان جو جہنم میں داخل ہونے سے بچاتا ہے۔
ب۔ وہ ایمان جو جہنم میں جانے سے نہیں بچاتا تاہم ہمیشہ جہنم میں رہنے سے روکتا ہے۔
جس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے اور وہ نبی ﷺ کے طریقے پر گامزن ہو جاتا ہے اور آپ ﷺ کی کامل سیرت کو اختیار کر لیتا ہے وہ ایسا شخص ہوتا ہے جس کا ایمان اسے جہنم میں داخل ہونے سے بچا لیتا ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: تمام اشیاء کی کچھ شرائط اور کچھ موانع ہوتے ہیں اور کوئی شے صرف اسی وقت پوری ہوتی ہے جب اس کی تمام شرائط پوری ہوں اور تمام موانع غیر موجود ہوں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب عذاب کو کسی عمل پر مرتب کیا جائے تو وہ عمل عذاب ہونے کا موجب ہو گا جب تک کہ اس کے نہ ہونے کا کوئی موجب نہ پایا جائے۔ عذاب ہونے میں سب سے بڑا مانع ایمان کا موجود ہونا ہے جو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے سے بچاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5380

 
 
Hadith   880   الحديث
الأهمية: ما صَلَّيْتُ خلف إمام قَطُّ أَخَفَّ صلاة، ولا أَتَمَّ صلاة من النبي -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

میں نے نبی ﷺ کی نماز سے زیادہ ہلکی اور زیادہ کامل نماز کبھی کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی۔

عن أَنَس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما صَلَّيْتُ خلف إمام قَطُّ أَخَفَّ صلاة، ولا أَتَمَّ صلاة من النبي -صلى الله عليه وسلم-».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: ” میں نے نبی ﷺ کی نماز سے زیادہ ہلکی اور زیادہ کامل نماز کبھی کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يأمر بالتيسير ويدعو إليه بالقول والفعل، ومن التيسير التخفيف في الصلاة مع إعطاء العبادة حقها من الكمال والتمام، فينفي أنس بن مالك أن يكون صلى خلف أي إمام من الأئمة إلا وكانت صلاته خلف الإمام الأعظم -صلى الله عليه وسلم- أخف، بحيث لا يشق على المأمومين، فيخرجون منها وهم فيها راغبون.
ولا أتَمَّ من صلاته، فقد كان يأتي بها -صلى الله عليه وسلم- كاملة، فلا يخل بها، بل يكملها بالمحافظة على واجباتها ومستحباتها، وهذا من آثار بركته -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی ﷺ آسانی پیدا کرنے کا حکم دیتے اور قول وفعل کے ذریعے اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ اورعبادت کے تمام حقوق کا خیال رکھتے ہوئے یعنی اسے مکمل اور پورے طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نماز میں تخفیف کرنا بھی آسانی پیدا کرنے ہی میں آتا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس بات کی نفی کر رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی امام کے پیچھے امام اعظم ﷺ سے زیادہ ہلکی نماز پڑھی ہو بایں طور کہ آپﷺ مقتدیوں کو مشقت میں نہیں ڈالتے تھے۔ وہ نماز سے فارغ ہو جاتے حالانکہ ابھی مزید پڑھنے کی ان میں چاہت باقی ہوتی۔ اسی طرح نبی ﷺ کی نماز سے زیادہ کامل بھی کوئی نماز نہیں۔ نبی ﷺ اسے پورے طریقے سے پڑھتے۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہ کرتے بلکہ اس کے واجبات ومستحبات کو ادا کرتے ہوئے اس کو مکمل انداز میں پڑھتے۔ یہ نبی ﷺ کی برکت کے آثار میں سے ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5381

 
 
Hadith   881   الحديث
الأهمية: أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد، فأكثروا الدعاء


Tema:

بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت ميں ہوتا ہے لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أقْرَبُ ما يَكون العبد مِنْ رَبِّهِ وهو ساجد، فَأَكْثروا الدُّعاء».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت ميں ہوتا ہے لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد"، وذلك لأن الإنسان إذا سجد، فإنه يضع أشرف ما به من الأعضاء في أماكن وضع الأقدام التي توطأ بالأقدام، وكذلك أيضاً يضع أعلى ما في جسده حذاء أدنى ما في جسده -يعني: أن وجهه أعلى ما في جسده وقدميه أدنى ما في جسده-، فيضعهما في مستوى واحد خضوعاً وتذللاً وتواضعاً لله -عز وجل-، ولهذا كان أقرب ما يكون من ربه وهو ساجد، وقد أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بالإكثار من الدعاء في حال السجود، فيجتمع في ذلك الهيئة والمقال تواضعاً لله -عز وجل-، ولهذا يقول الإنسان في سجوده: سبحان ربي الأعلى، إشارة إلى أنه -جل وعلا- وهو العلي الأعلى في ذاته وفي صفاته، وأن الإنسان هو السافل النازل بالنسبة لجلال الله -تعالى-
 وعظمته.
575;بوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت ميں ہوتا ہے“ اور اس کی وجہ يہ ہے کہ انسان جب سجدہ کرتا ہے تو اپنے جسم کے سب سے افضل حصے کو اس جگہ پر رکھتا ہے جسے لوگ اپنے قدموں سے روندتے رہتے ہيں اور اسی طرح اپنے جسم کے سب سے بلند حصے کو جسم کے سب سے نچلے حصے کے مقابل ميں رکھتا ہے يعنی اس کا چہرہ جسم کا سب سے بلند حصہ ہے اور اس کے دونوں قدم جسم کے سب سے نچلے حصے ہيں تو وہ اللہ رب العالمين کے سامنے خشوع وخضوع اور عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے چہرے اور اپنے قدموں کو ايک برابری ميں رکھتا ہے، اسی لیے وہ حالت سجدہ ميں اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور نبی صلی اللہ عليہ وسلم نے سجدے کی حالت ميں کثرت دعا کا حکم اس لئے ديا ہے کہ اس حالت ميں بندے کی ظاہری ہيئت اور اس کی دعا دونوں اللہ رب العالمين کے ليے عاجزی اور انکساری کا مظہر ہوا کرتے ہيں، اسي لیے بندہ سجدے ميں ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى“ کہتا ہے جس ميں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ عز وجل اپنی ذات وصفات ميں بلند وبرتر ہے جبکہ انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے مقابل ميں انتہائی نيچا اور کمتر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5382

 
 
Hadith   882   الحديث
الأهمية: اقرؤوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه


Tema:

قرآن پڑھا کرو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔

عن أبي أمامة -رضي الله عنه- قال: سمعتُ رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- يقولُ: «اقْرَؤُوا القرْآنَ؛ فَإنَّهُ يَأتِي يَوْمَ القِيَامَةِ شَفِيعًا لأَصْحَابِهِ».

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن پڑھا کرو اس لیے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حث النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته على قراءة القرآن؛ فإنه إذا كان يوم القيامة جعل الله -عز وجل- ثواب هذا القرآن شيئًا قائمًا بنفسه يأتي يوم القيامة يشفع لقارئيه والمشتغلين به المتمسكين بأمره ونهيه.
606;بی ﷺ نےاپنی امت کو قرآن پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ روزِ قیامت اللہ تعالی اس قرآن کے ثواب کو ایک بذاتِ خود موجود شے کی شکل دے دے گا، جو اپنے پڑھنے والوں، اس میں مشغول رہنے والوں اور اس کے احکام و نواہی کی پابندی کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5383

 
 
Hadith   883   الحديث
الأهمية: أكانت المصافحة في أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: نعم


Tema:

کیا آپ ﷺ کے صحابہ میں مصافحہ کا معمول تھا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔

عن أبي الخطاب قتادة، قال: قُلْتُ لأَنَسٍ: أكَانَتِ المصَافَحَةُ في أصْحَابِ رسولِ الله -صلى الله عليه وسلم-؟، قَالَ: نَعَم.

ابوالخطاب قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ کے صحابہ میں مصافحے کا معمول تھا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله: أكانت المصافحة في أصحاب رسول الله، أي: ثابتة وموجودة فيهم حال ملاقاتهم بعد السلام زيادة للمودة والإكرام، والمصافحة تكون باليد اليمنى، وإذا حصل ذلك فإنه يغفر لهما قبل أن يفترقا، وهذا يدل على فضيلة المصافحة إذا لاقاه، وهذا إذا كان لاقاه ليتحدث معه أو ما أشبه ذلك، أما مجرد الملاقاة في السوق فما كان هذا من هدي الصحابة، يعني إذا مررت بالناس في السوق يكفي أن تسلم عليهم.

Esin Hadith Caption Urdu


”کیا آپ ﷺ کے صحابہ میں مصافحے کا معمول تھا“ یعنی کیا صحابہ کرام میں ملاقات کے وقت سلام کے بعد محبت اور اکرام کی زیادتی کے لیے مصافحہ کرنے کا معمول تھا؟ مصافحہ داہنے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ مصافحہ کرنے کے بعد جُدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ دونوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یہ حدیث ملاقات کے وقت مصافحہ کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہے کہ جب ملاقات کے وقت بات چیت وغیرہ کرنے کا ارادہ ہو۔ جہاں تک بازار وغیرہ میں صرف ملاقات کا تعلق ہے، تو یہ صحابہ کی سنت نہیں۔ یعنی جب تم بازار میں لوگوں کے پاس سے گزرو، تو تمھارے لیے ان کو سلام کرنا ہی کافی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5384

 
 
Hadith   884   الحديث
الأهمية: إني لَأُصَلِّي بكم، وما أُرِيدُ الصلاة، أُصَلِّي كيف رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصَلِّي


Tema:

میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، اور میرا ارادہ نماز کا نہیں بلکہ (میں صرف یہ بتانے کے لئے) نماز پڑھوں گا کہ میں ںے رسول اللہ ﷺ کو کیسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔

عن أبي قِلابَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْجَرْمِيِّ الْبَصْرِيِّ قال: «جاءنا مالك بن الْحُوَيْرِث في مسجدنا هذا، فقال: إني لَأُصَلِّي بكم، وما أُرِيدُ الصلاة، أُصَلِّي كيف رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي، فقلت لأبي قِلَابَةَ كيف كان يُصَلِّي؟ فقال: مثل صلاة شيخنا هذا، وكان يَجْلِسُ إذا رفع رأسه من السجود قبل أن يَنْهَضَ».
أراد بشيخهم: أبا بُرَيد، عمرو بن سلمة الجرمي.

ابو قلابہ عبد اللہ بن زید الجرمی بصری بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مالک بن حویرث ہماری اس مسجد میں آئے اور کہنے لگے: میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا۔ میرا ارادہ نماز کا نہیں بلکہ (میں صرف تمہیں یہ بتانے کے لئے) نماز پڑھاؤں گا کہ میں ںے رسول اللہ ﷺ کو کیسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ وہ کیسے نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جیسے ہمارے یہ شیخ نماز پڑھتے ہیں۔ وہ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔
ان کے شیخ سے ان کی مراد ابو برید عمرو بن سلمہ جرمی تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول أبو قلابة: جاءنا مالك بن الحويرث -رضي الله عنه- أحد الصحابة في مسجدنا، فقال: إني جئت إليكم لأصلي بكم صلاةً قصدت بها تعليمكم صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- بطريقة عملية؛ ليكون التعليم بصورة الفعل أقرب وأبقى في أذهانكم،
فقال الراوي عن أبي قلابة: كيف كان مالك بن الحويرث الذي علمكم صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- يصلى؟
فقال: مثل صلاة شيخنا أبي يزيد عمرو بن سلمة الجرمي، وكان يجلس جلسة خفيفة إذا رفع رأسه من السجود للقيام، قبل أن ينهض قائماً.
575;بو قلابہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے اور کہنے لگے: میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں ایک نماز پڑھاؤں جس سے میرا مقصد تمہیں عملی طریقے سے نبی ﷺ کی نماز سکھانا ہے تاکہ عملی شکل میں دی گئی تعلیم تمہیں زیادہ سمجھ آئے اور بہتر طور پر ذہن نشین ہو جائے۔
راوی حدیث نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ: مالک بن حویرث جنہوں نے آپ کو نبی ﷺ کی نماز سکھائی وہ کیسے نماز پڑھتے تھے؟
انہوں نے جواب دیا: وہ ایسے نماز پڑھتے تھے جیسے ہمارے یہ شیخ ابو یزید عمرو بن سلمہ جرمی نماز پڑھتے ہیں۔ وہ جب کھڑے ہونے کے لئے سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5391

 
 
Hadith   885   الحديث
الأهمية: فلولا صَلَّيْتَ بِسَبِّحِ اسم ربك الأعلى، والشمس وَضحَاهَا، والليل إذا يغشى؟ فإنه يصَلِّي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة


Tema:

تم نے ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ ( جیسی سورتیں ) پڑھ کر نماز کیوں نہیں پڑھائی، کیوں کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھتے ہیں۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- «أن مُعَاذَ بْنَ جَبَل: كان يُصَلِّي مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- العِشاء الآخرة، ثم يرجع إلى قومه، فيُصَلِّي بهم تلك الصلاة ...».
وفي رواية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال لِمُعَاذٍ: «فلولا صَلَّيْتَ بِسَبِّحِ اسم ربك الأعلى، والشمس وَضُحَاهَا، والليل إذا يغشى، فإنه يُصَلِّي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة».

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ (فرض) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو (وہی) نماز پڑھایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم نے ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ (جیسی سورتیں ) پڑھ کر نماز کیوں نہیں پڑھائی، کیوں کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھتے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت منازل بني سَلِمة، جماعة مُعَاذ بْن جَبَل الأنصاري في طرف المدينة، وكان مُعَاذ -رضي الله عنه- شديد الرغبة في الخير، فكان يحرص على شهود الصلاة مع النبي -صلى الله عليه وسلم-، لمحبته له ورغبته في التعلم، ثم بعد أن يؤدي الفريضة خلف النبي -صلى الله عليه وسلم-، يَخرج إلى قومه فيصلي بهم تلك الصلاة، فتكون نافلة بحقه، فريضة بحق قومه، وكان ذلك بعلم النبي -صلى الله عليه وسلم-، فيقره عليه، لكنه أطال القراءة مرة، والشرع الإسلامي يتصف بالسماحة واليسر وعدم التشديد؛ لأن التشديد والتعسير من مساوئهما التنفير.
ولما بلغ النبي -صلى الله عليه وسلم- أن مُعاذاً يطيل القراءة أرشده إلى التخفيف مادام إماماً، وضرب له مثلا بقراءة متوسط المُفَصّل "سبح اسم ربك الأعلى"، "والشمس وضحاها"، "والليل إذا يغشى"؛ لأنه يأتم به الكبار المسنون، والضعفاء، وأصحاب الحاجات ممن يشق عليهم التطويل، فيحسن الرفق بهم ومراعاتهم بالتخفيف، أما إذا كان المسلم يصلي وحده، فله أن يطول ما شاء.
605;عاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ کے ایک گوشے میں بنی سلمہ کے گھروں کی جماعت کراتے تھے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ خیر کے کاموں میں بہت رغبت رکھتے تھے اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ سے دین سیکھنے کے شوق کی وجہ سے نبی ﷺ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا بڑا حرص رکھتے۔ فرض نماز نبی کریم ﷺ کے پیچھے ادا کرنے کے بعد وہاں سے نکلتے اور اپنی قوم کے پاس آ کر وہی نماز انہیں پڑھاتے۔ جو ان کے لیے نفل ہو جاتی اور لوگوں کی فرض ہوجاتی۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ ﷺ نے اس کو برقرار رکھا، لیکن ایک دفعہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے لمبی قرأت کردی، جب کہ شریعت اسلامیہ سہولت، آسانی اور عدمِ شدت جیسے اوصاف سے متصف ہے کیوں کہ سختی اور تنگی (لوگوں کو) متنفر کردیتی ہے۔ جب نبی ﷺ کو یہ بات پہنچی کہ معاذ رضی اللہ عنہ لمبی قرأت کرتے ہیں تو انھیں بطور امام قراءت میں تخفیف کی ہدایت دی اور متوسط قراءت کے لیے ان کے سامنے مفصلات ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ جیسی سورتیں بطور مثال بیان کیں۔ کیوں کہ ان کی اقتدا میں سن رشیدہ بوڑھے، کمزور اور ضرورت مند لوگ ہوتے ہیں جن پر لمبی قرأت گراں گزرتی ہے لہذا ان کے ساتھ نرمی اور تخفیف والا معاملہ کرنا بہتر ہے۔ ہاں جب کوئی مسلمان اکیلے نماز ادا کرے تو پھر اپنی مرضی کے مطابق لمبی قراءت کرسکتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5392

 
 
Hadith   886   الحديث
الأهمية: من اغتسل يوم الْجمعَةِ غسل الجنابة، ثم راح في الساعة الأولى فكأنما قرّب بَدَنَة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرَّب بقرة


Tema:

جو شخص جمعہ کے دن اس طرح غسل کرتا ہے جیسے غسل جنابت کیا جاتا ہے اور پھر پہلی گھڑی میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹ قربان کیا۔ جو دوسری گھڑی میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔

عن أبي هُرَيْرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «من اغتسل يوم  الْجُمُعَةِ غسل الجنابة، ثم راح في الساعة الأولى فكأنما قرّب بَدَنَة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرَّب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرَّب كَبْشا، ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرَّب دَجَاجَةً، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرَّب بَيْضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذِّكْرَ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن اس طرح غسل کرتا ہے جیسے غسل جنابت کیا جاتا ہے اور پھر پہلی گھڑی میں مسجد کو جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹ قربان کیا۔ جو دوسری گھڑی میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری گھڑی میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے سینگوں والا مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں گھڑی میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- فضل الاغتسال والتبكير إلى الجمعة، ودرجات الفضل في ذلك، فذكر أن من اغتسل يوم الجمعة قبل الذهاب إلى الصلاة، ثم ذهب إليها في الساعة الأولى، فله أجر من قرب بعيرًا ذبحه وتصدق به تقربًا إلى الله ومن راح بعده في الساعة الثانية فكأنما قرب -أي أهدى- بقرة.
ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشاً ذا قرنين، وغالباً يكون أفضل الأكباش وأحسنها.
ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة.
ومن راح في الساعة الخامسة، فكأنما قرب بيضة.
فإذا خرج الإمام للخطبة والصلاة؛ انصرفت الملائكة الموكلون بكتابة القادمين إلى سماع الذكر، فمن أتى بعد انصرافهم، لم يكتب من المقَرِّبين.
606;بی ﷺ غسل کی اور جمعہ کے لیے جلدی جانے کی فضیلت بیان فرما رہے ہیں اور اس فضیلت کے فرقِ مراتب کی وضاحت فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز کے لیے جانے سے پہلے غسل کرتا ہے اور پھر اولین گھڑی میں جمعہ کی نماز کے لیے جاتا ہے تو اس کو اس شخص کے مساوی اجر ملتا ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے ایک اونٹ ذبح کر کے اسے صدقہ کر دے۔
اورجو اس کے بعد دوسری گھڑی میں آتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے گائے کی قربانی کی ہو۔
جو تیسری گھڑی میں آتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے دو سینگوں والا مینڈھا بطور قربانی دیا ہو جو کہ عموما بہترین اورخوبصورت ترین مینڈھا ہوتا ہے۔
جو چوتھی گھڑی میں جاتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے مرغی کی قربانی دی ہو۔
اور جو پانچویں گھڑی میں آتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے انڈے کی قربانی دی ہو۔
جب امام خطبہ دینے او نماز پڑھانے کے لیے نکل آتا ہے تو وہ فرشتے واپس ہو جاتے ہیں جنہیں نماز کے لیے آنے والوں کے نام لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔ جو شخص ان کے پلٹ جانے کے بعد آتا ہے اس کا نام مقربین میں نہیں لکھا جاتا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5393

 
 
Hadith   887   الحديث
الأهمية: من جاء منكم الجمعة فلْيَغْتَسِل


Tema:

تم میں سے جو شخص نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آئے، اسے چاہیے کہ غسل کرے۔

عن عبد الله بن عُمر رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من جاء منكم الجمعة فلْيَغْتَسِل».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آئے، اسے چاہیے کہ غسل کرلے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الاجتماع لصلاة الجمعة مشهد عظيم، ومجمع كبير من مجامع المسلمين، حيث يأتون لأدائها من أنحاء البلد، التي يسكنونها.
ومثل هذا المحفل، الذي يظهر فيه شعار الإسلام، وأَبَّهة المسلمين، يكون الآتي إليه على أحسن هيئة، وأطيب رائحة، وأنظف جسم.
وكان الصحابة رضوان الله عليهم في أول الإسلام يعانون من الفقر والحاجة، يلبسون الصوف، ويخدمون أنفسهم، فيأتون إلى الجمعة عليهم الغبار، وفيهم العرق، وكان المسجد ضيقاً، فيزيد عليهم العرق في المسجد، ويؤذي بعضهم بعضاً بالروائح الكريهة؛ لذا أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يغتسلوا عند الإتيان لها، ولئلا يكون فيهم أوساخ وروائح يؤذون بها المصلين والملائكة الحاضرين لسماع الخطبة والذكر.
606;ماز جمعہ دراصل مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع ہے۔ کیوں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں سکونت پذیر لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔
اس طرح کی محفل، جس سے شعائر اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہو، میں شرکت کرنے والوں کو چاہیے کہ بہتر ہیئت میں آئیں، خوش بو لگائیں اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔
شروع اسلام میں صحابہ غریبی اور ضروریات زندگی میں تنگی کا شکار تھے۔ وہ اون کا لباس پہنتے اور محنت مزدوری کرتے تھے۔ تو جب جمعہ کے لیے آتے، غبار آلود اور پسینے سے شرابور ہوتے تھے۔ مسجدتنگ ہونے کی وجہ سے ان کو مسجد میں مزید پسینہ آتا، جس کی ناگوار بو سے ایک کودوسرے سے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ اس بنا پر رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ جمعے کے لیے آنے سے پہلے غسل کرلیں؛ تاکہ ان پر کوئی ایسا میل کچیل اور بو باقی نہ رہے جس سے نمازیوں اور خطبہ سننے کے لیے حاضر ہونے والے فرشتوں کو کوئی تکلیف محسوس ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5394

 
 
Hadith   888   الحديث
الأهمية: نَعَى النبي -صلى الله عليه وسلم- النَّجَاشِيَّ في اليوم الذي مات فيه، خرج بهم إلى المصلَّى، فصفَّ بهم، وكَبَّرَ أَرْبَعاً


Tema:

نجاشی (بادشاہ) کے فوت ہونے کے دن نبیﷺ نے اس کے وفات کی خبر دی۔ آپ ﷺ باہر جناہ گاہ کی طرف گئے، لوگوں کے ساتھ صف بندی کی اور چار تکبیرات (نماز جنازہ میں) کہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: «نَعَى النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- النَّجَاشِيَّ في اليوم الذي مات فيه، خرج بهم إلى المصلَّى، فصفَّ بهم، وكَبَّرَ أَرْبَعاً».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نجاشی (بادشاہ) کے فوت ہونے کے دن نبی ﷺ نے اُن کی موت کی خبر دی۔ آپ ﷺ باہر جناہ گاہ کی طرف گئے، لوگوں کے ساتھ صف بندی کی اور چار تکبیرات (نماز جنازہ میں) کہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
النجاشي ملك الحبشة له يد كريمة على المهاجرين إليه من الصحابة، حين ضيَّقت عليهم قريش في مكة، وقبل إسلام أهل المدينة فأكرمهم، ثم قاده حسن نيته، واتباعه الحق، وطرحه الكبر إلى أن أسلم، فمات بأرضه، ولم ير النبي -صلى الله عليه وسلم-.
فلإحسانه إلى المسلمين، وكبر مقامه، وكونه بأرض لم يصَلَّ عليه فيها أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه بموته في ذلك اليوم الذي مات فيه، وخرج بهم إلى المصلَّى؛ تفخيمًا لشأن النجاشي، وإشهارًا لإسلامه، وإعلانًا لفضله، ومكافأةً له لما صنع بالمهاجرين، وطلبًا لكثرة الجمع في الصلاة عليه، فصف بهم، وصلى عليه وكبر في تلك الصلاة أربع تكبيرات، شفاعة له عند الله -تعالى-.
606;جاشی حبشہ کا بادشاہ تھا جس نے مہاجرین صحابہ کے ساتھ اس وقت بہت نیک سلوک کیا تھا جب انہیں مکہ میں قریش نے بہت تنگ کیا اور بالآخر انہوں نے اہل مدینہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کر لی۔ پھر اپنی حسنِ نیت، حق کی پیروی اور تکبر سے پرہیز کی وجہ سے اُس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کی موت اپنی سرزمین پر ہی واقع ہوئی اور اس نے نبی ﷺ کو نہیں دیکھا تھا۔
مسلمانوں کے ساتھ اس کے نیک سلوک اور اس کے مرتبے کی بلندی کی وجہ سے اور ایسی جگہ ہونے کی وجہ سے جہاں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی تھی آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو اس کی وفات کے دن اس کی موت کی خبر دی۔ آپ ﷺ صحابہ کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف آئے۔ ایسا نجاشی کی عظمتِ شان کے بیان، اس کے اسلام لانے کے اعلان، اس کی فضیلت کے اظہار، مہاجرین کے ساتھ اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بدلے میں اور اس کی نماز جنازہ کے مجمع کو بڑھانے کے لیے کیا گیا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کے ساتھ صف بندی کی اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔ آپ ﷺ نے اس نماز میں چار تکبیرات کہیں۔ یہ آپ ﷺ کی طرف سے نجاشی کے لیے اللہ کے حضور شفاعت تھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5396

 
 
Hadith   889   الحديث
الأهمية: مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حتى يصلَّى عليها فله قِيرَاطٌ، ومن شَهِدَها حتى تدفن فله قِيرَاطان، قيل: وما القِيرَاطَانِ؟ قال: مثل الجبلين العظيمين


Tema:

جو جنازہ میں موجود ہو اور نماز جنازہ ادا کرے تو اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور نماز جنازہ میں حاضری کے ساتھ تدفین کے وقت بھی موجود ہو تو اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: دو بہت بڑے پہاڑوں کے برابر (اجر)۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ شهدَ الْجَنَازَةَ حتى يصلَّى عليها فله قِيرَاطٌ، ومن شهدها حتى تُدفن فله قِيرَاطان، قيل: وما القِيرَاطَانِ؟ قال: مثل الجبلين العظيمين».
ولمسلم: «أصغرهما مثل أُحُدٍ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو جنازہ میں موجود ہو اور نماز جنازہ ادا کرے تو اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور نماز جنازہ میں حاضری کے ساتھ تدفین کے وقت بھی موجود رہے تو اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: دو بہت بڑے پہاڑوں کے برابر (اجر)“۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ: ”ان میں سے سب سے چھوٹا احد پہاڑ کی طرح ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الله -تبارك وتعالى- لطيف بعباده، ويريد أن يهيئ لهم أسباب الغفران، ولذا ورد الحضَّ على الصلاة على الجنازة وشهودها، لأن ذلك شفاعة تكون سبباً للرحمة.
فجعل لمن صلَّى عليها قيراطا من الثواب، ولمن شهدها حتى تدفن قيراطاً آخر، وهذا مقدار من الثواب عظيم ومعلوم قدره عند الله تعالى.
فلما خَفِي على الصحابة- رَضي الله عنهم- مقداره، قرَّبه النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى أفهامهم، بأن كل قيراط مثل الجبل العظيم، لما فيه من القيام بحق أخيه المسلم والدعاء له والتذكير بالمآل وجبر قلوب أهل البيت وغيرها من المصالح.
575;للہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ ان کی بخشش کے لیے اسباب مہیا کرے۔ اسی لیے نمازہ جنازہ میں حاضری اور ادائیگی پر رغبت دلائی ہے کیوں کہ یہ سفارش ہے اور یہ رحمت کا سبب بنتی ہے۔
اس لیے جو شخص نمازہ جنازہ پڑھتا ہے اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے اور جو تدفین میں بھی شریک ہوتا ہے اس کے لیے ایک مزید قیراط کا ثواب ہے۔ ثواب کی یہ مقدار بہت بڑی ہے اور اس کی مقدار کا اصل علم اللہ تعالیٰ کے ہی پاس ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی مقدار کو صحابہ سے مخفی رکھا لیکن ان کو سمجھانے کی غرض سے بتایا کہ ایک قیراط ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے اندر اپنے مسلمان بھائی کے حق کی ادائیگی، اس کے لیے دعاء کرنا، اسے انجام کار کے بارے میں یاد دہانی کرانا، اور میت کے گھر والوں کے دلوں کو تسلی دینا اور اس کے علاوہ دیگر مصالح پائے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5397

 
 
Hadith   890   الحديث
الأهمية: كنا نصَلِّي مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الْجمعةَ، ثم نَنْصَرِفُ، وليس للحيطان ظِلٌّ نستظِلّ به


Tema:

ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا نہیں ہوتا تھا کہ ہم اس سایے میں چل سکتے۔

عن سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ -رضي الله عنه- وكان من أصحاب الشجرة قال: «كنا نُصَلِّي مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الْجُمُعَةَ، ثم نَنْصَرِفُ، وليس للحيطان ظِلٌّ نستظِلّ به».
وفي لفظ: «كنا نُجَمِّعُ مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا زالت الشمس، ثم نرجع فَنَتَتَبَّعُ الْفَيْءَ».

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ (جو بیعت رضوان میں شریک تھے) سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے ، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا نہیں ہوتا تھا کہ ہم اس سایے میں چل سکتے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ پھر ہم سایہ تلاش کرتے ہوئے واپس آتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر سلمة بن الأكوع -رضي الله عنه- أنهم كانوا يشهدون مع النبي -صلى الله عليه وسلم- الجمعة، فكانوا يصلون مبكرين، بحيث إنهم يفرغون من الخطبتين والصلاة، ثم ينصرفون إلى منازلهم، وليس للحيطان ظل يكفي لأن يستظلوا به.
والرواية الثانية: أنهم كانوا يصلون الجمعة مع النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا زالت الشمس، ثم يرجعون.
اتفق العلماء على أن آخر وقت صلاة الجمعة هو آخر وقت صلاة الظهر، والأولى والأفضل الصلاة بعد الزوال؛ لأنه الغالب من فعل النبي -صلى الله عليه وسلم-؛ ولأنه الوقت المجمع عليه بين العلماء إلا أن يكون ثَمَّ حاجة؛ من حر شديد، وليس عندهم ما يستظلون به، أو يريدون الخروج لجهاد قبل الزوال، فلا بأس من صلاتها قبل الزوال قريبًا منه.
587;لمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ اول وقت (زوال سے کچھ قبل) میں جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، اس طرح کہ دونوں خطبوں اور نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹتے تو دیواروں کا اتنا سایہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ چلتے وقت سایہ حاصل کر پاتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سورج زائل ہونے کے بعد آپ ﷺ کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھ کر واپس لوٹتے تھے۔
علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعے کی نماز ظہر کی نماز کے آخری وقت تک پڑھی جاسکتی ہے۔ تاہم افضل اور بہتر یہ ہے کہ زوال کے بعد پڑھی جائے، اس لیے کہ آپ ﷺ کا اکثر یہی معمول تھا، ساتھ ہی اس لیے بھی کہ اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ البتہ اگر کوئی ضرورت ہو، جیسے سخت گرمی ہو اور سایہ دار جگہ نہ ہو یا زوال سے پہلے جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ ہو، تو زوال سے تھوڑا پہلے جمعے کی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5398

 
 
Hadith   891   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَخْطبُ خطْبَتَيْنِ وهو قائم، يفصل بينهما بجلوس


Tema:

آپ ﷺ کھڑے ہوکر دو خطبے دیتے اور دونوں کے درمیان بیٹھ کر وقفہ کرتے۔

عن عبد الله بن عُمر بن الخطاب -رضي الله عنهما- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب خطبتين يقعد بينهما» وفي رواية لجابر - رضي الله عنه-: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ وهو قائم، يفصل بينهما بجلوس».

عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ دو خطبے دیتے اور دونوں کے درمیان بیٹھا کرتے تھے۔
اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کھڑے ہوکر دو خطبے دیتے اور دونوں کے درمیان بیٹھ کر وقفہ کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوم الجمعة مجمع كبير شامل لأهل البلد كلهم، ولذا كان النبي -صلى الله عليه وسلم- من حكمته يخطب الناس يوم الجمعة خطبتين، يوجههم فيهما إلى الخير، ويزجرهم عن الشر وكان يأتي بالخطبتين وهو قائم على المنبر؛ ليكون أبلغ في تعليمهم ووعظهم، ولما في القيام من إظهار قوة الإسلام وأبهته.
فإذا فرغ من الخطبة الأولى، جلس جلسة خفيفة؛ ليستريح، فيفصل الأولى عن الثانية، ثم يقوم فيخطب الثانية؛ لئلا يتعب الخطيب، ويمل السامع.
580;معہ کے دن پورے شہر کے لوگوں کا بڑا مجمع ہوتا ہے اس لیے کہ آپ ﷺ اپنی حکمت سے لوگوں کو اس دن دو خطبے دیتے اور ان کو بھلائی کی طرف متوجہ کرتے اور بُرائی سے ڈراتے۔ آپ منبر پر کھڑے ہوکر دو خطبے دیتے، اس لیے کہ کھڑا ہونا تعلیم و وعظ کرنے میں زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ کیونکہ کھڑے ہونے میں اسلام کی قوت اور رونق کا اظہار ہوتا ہے۔
آپ ﷺ جب پہلے خطبے سے فارغ ہوتے تو آرام کی غرض سے تھوڑا سا بیٹھ جاتے، یوں پہلے خطبے کو دوسرے خطبے سےالگ کردیتے، پھر کھڑے ہوکر دوسرا خطبہ دیتے، تاکہ خطیب تھکے نہیں اور سننے والا اکتائے نہیں۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5399

 
 
Hadith   892   الحديث
الأهمية: صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم النَّحر، ثم خطب، ثم ذبح، وقال: من ذبح قبل أن يصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخرى مكانها، ومن لم يذبح فَلْيَذْبَحْ باسم الله


Tema:

نبی ﷺ نے قربانی کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا، پھر قربانی کی اور فرمایا: جس نے نماز سے پہلے ذبح کردیا، وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔

عن جُنْدُب بن عَبْدِ الله البجَليِّ -رضي الله عنه- قال: «صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم النَّحر، ثم خطب، ثم ذبح، وقال: من ذبح قبل أن يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخرى مكانها، ومن لم يذبح فَلْيَذْبَحْ باسم الله».

جندب بن عبدالله بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا، پھر قربانی کی اور فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے ذبح کردیا، وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابتدأ النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم النحر بالصلاة، ثم ثنى بالخطبة، ثم ثلَّث بالذبح، وكان يخرج بأضحيته للمصلى؛ إظهارًا لشعائر الإسلام وتعميمًا للنفع وتعليمًا للأمة، وقال مبينًا لهم حكمًا وشرطًا من شروط الأضحية: من ذبح قبل أن يصلي صلاة العيد فإن ذبيحته لم تجزئ، فليذبح مكانها أخرى، ومن لم يذبح فليذبح بسم الله؛ ليكون الذبح صحيحًا والذبيحة حلالًا، مما دل على مشروعية هذا الترتيب الذي لا يجزئ غيرُه.
وهذا الحديث يدل على دخول وقت الذبح بانتهاء صلاة العيد، لا بوقت الصلاة ولا بنحر الإمام إلا من لا تجب عليه صلاة العيد كمن كان مسافرًا.
606;بی کریمﷺ نے قربانی کے دن کی ابتدا نماز سے کی، پھر دوسرے نمبر پر خطبہ دیا اور تیسرے نمبر پر ذبح کیا۔ آپ جب نماز کے لیے نکلتے تو شعائر اسلام کے اظہار، نفع کوعام کرنے اور امت کی تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنی قربانی کو بھی ساتھ لے کر جاتے۔ آپ نے قربانی کے احکام و شروط سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کی، اس کی قربانی نہیں ہوگی، اسے اس کی جگہ پر دوسرا جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ جس نےذبح نہیں کیا ہے، وہ اللہ کے نام سے ذبح کرے، تاکہ وہ ذبح درست ہو اور ذبیحہ حلال ہو۔ مشروع ترتیب یہی ہے، جو اس کے خلاف کرے گا، اس کا عمل درست نہیں ہوگا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ذبح کا وقت نماز عید کے اختتام سے شروع ہو گا، نماز کا وقت شروع ہونے اور امام کے قربانی کرنے سے نہیں، سوائے اس شخص کے جس پر نماز عید واجب نہیں جیسے کہ مسافر وغیرہ   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5400

 
 
Hadith   893   الحديث
الأهمية: خطبنا النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم الأضحى بعد الصلاة، فقال: من صلى صلاتنا وَنَسَكَ نسكَنَا فقد أصاب النّسكَ، ومن نسك قبل الصلاة فلا نسك له


Tema:

نبی کریم ﷺ نے عید الاضحی کی نماز کے بعد ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، اس کی قربانی صحیح ہوئی؛ لیکن جس نے نماز سے پہلے قربانی کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی۔

عن البَرَاء بن عَازب -رضي الله عنهما- قال: «خطبنا النبي -صلى الله عليه وسلم- يوم الأضحى بعد الصلاة، فقال: من صلى صلاتنا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فقد أصاب النُّسُكَ، ومن نسك قبل الصلاة فلا نُسُك له. فقال أبو بُرْدَةَ بن نِيَار -خال البَرَاء بن عَازبٍ-: يا رسول الله، إني نسكت شاتي قبل الصلاة، وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب، وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتي، فذبحت شاتي، وتغديت قبل أن آتي الصلاة. فقال: شاتك شاة لحم. قال: يا رسول الله، فإن عندنا عَنَاقًا لنا هي أحب إلي من شاتين؛ أَفَتَجْزِي عني؟ قال: نعم، ولن تَجْزِيَ عن أحد بعدك».

براء بن عازب رضی اللہ عنھما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عید الاضحی کی نماز کے بعد ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، اس کی قربانی صحیح ہوئی؛ لیکن جس نے نماز سے پہلے قربانی کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی“۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ابو بردہ بن نیار نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی، میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے، میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو زیادہ اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز میں آنے سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمھاری بکری محض گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کا بکری کا بچہ ہے اور وہ مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! لیکن تمھارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خطب النبي -صلى الله عليه وسلم- في يوم عيد الأضحى بعد صلاتها، فأخذ يبين لهم أحكام الذبح ووقته في ذلك اليوم، فذكر لهم أنه من صلى مثل هذه الصلاة، ونسك مثل هذا النسك اللذين هما هديه -صلى الله عليه وسلم-، فقد أصاب النسك المشروع.
أما من ذبح قبل صلاة العيد فقد ذبح قبل دخول وقت الذبح فتكون ذبيحته لحمًا لا نُسُكًا مشروعًا مقبولًا، فلما سمع أبو بردة خطبة النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: يا رسول الله، إني ذبحت شاتي قبل الصلاة، وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب، وأحببت أن تكون شاتي أول ما يُذبح في بيتي، فذبحت شاتي، وتغديت قبل أن آتي إلى الصلاة.
فقال -صلى الله عليه وسلم-: ليست نسيكتك أضحية مشروعة، وإنما هي شاة لحم. قال يا رسول الله: إن عندي عَنَاقا مُرَبّاة في البيت، وغالية في نفسي، وهي أحب إلينا من شاتين، أَفَتُجْزِي عنّي إذا أرخصتها في طاعة الله ونسكتها؟ قال -صلى الله عليه وسلم-: نعم، ولكن هذا الحكم لك وحدك من سائر الأمة خصيصة لك، فلا تُجْزِي عنهم عناق من المعزى ما لم تُتم سنة.
606;بی کریم ﷺ نے عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد خطبہ دیا اور صحابۂ کرام کے روبرو قربانی اور اس کے وقت سے متعلق احکام واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے اس نماز کی طرح نماز ادا کی اور اس قربانی کی طرح اپنی قربانی کی، جس کے بارے میں نبی ﷺ کی ہدایت و رہ نمائی موجود ہے، اس نے شرعی اعتبار سے اپنی قربانی کی۔
البتہ جس نے عید کی نماز سے قبل قربانی کی، اس نے قربانی کا وقت شروع ہونے سے قبل ہی اپنی قربانی ذبح کر دی۔ چنانچہ اس کی حیثیت محض کھائے جانے والے گوشت کی ہوگی اور اس کا شمار مشروع اور مقبول قربانی میں نہ ہوگا۔ جب ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کا خطبہ سنا، تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے تو نماز سے قبل ہی اپنی بکری کی قربانی کردی اور مجھے یہ بات سجھائی دی کہ چوں کہ آج کھانے پینے کا دن ہے اور میرے نزدیک یہ امر بھی بہت عزیز تھا کہ میرے گھر میں سب سے پہلے میری بکری قربان کی جائے،اس لیے میں نے اپنی بکری کی قربانی کردی اور نماز عید کے لیے آنے سے قبل ہی میں نےاپنا ناشتہ بھی کرلیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ شرعی اعتبار سے تمھاری قربانی، قربانی نہیں ہوئی، بلکہ اس کی حیثیت محض بکری کے گوشت کی ہے۔انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے یہاں گھر کی پالی ہوئی ایک بکری ہے، جو میرے نزدیک بڑی قیمتی اور دو بکریوں کی سے زیادہ عزیز ہے، اگر میں اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں قربان کردوں اور اسے ذبح کردوں، تو میرے لیے کافی ہوگی یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں! البتہ یہ حکم ساری امت کے لیے نہیں ہے، بلکہ خاص تمھارے لیے ہے؛ اس لیے امت مسلمہ کے لیے اس بکری کے بچے کی قربانی جائز نہیں، جس کا ایک سال پورا نہ ہوا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5401

 
 
Hadith   894   الحديث
الأهمية: ألا أخبرك بأحب الكلام إلى الله؟ إن أحب الكلام إلى الله سبحان اللهِ وبحمدِهِ


Tema:

کيا ميں تمہيں اللہ کے نزديک سب سے پسنديدہ کلام سے با خبر نہ کردوں؟

عن أبي ذر الغفاري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألاَ أُخْبِرُكَ بِأَحَبِّ الكَلاَمِ إِلَى اللهِ؟ إنَّ أَحَبَّ الكلام إِلى الله: سبحان اللهِ وبحمدِهِ».

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کيا ميں تمہيں اللہ کے نزديک سب سے پسنديدہ کلام سے با خبر نہ کردوں؟ بے شک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کلام : سُبْحَانَ اللَّهِ وبِحَمْدِهِ (اللہ پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ) ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أنَّ التسبيح أحب الكلام إلى الله -عز وجل-؛ لأن معنى التسبيح التنزيه له  سبحانه عن كل ما لا يجوز عليه من المثل والشبه والنقص، وكل ما ألحد فيه الملحدون من أسمائه، وقول القائل (بحمده) اعتراف بأن ذلك التسبيح إنما كان بحمده سبحانه فله المنة فيه، ويجوز أن  يكون المعنى: أسبحه متلبسًا بحمدي له من أجل توفيقه لي، فكانت سبحان الله وبحمده أحب الكلام إلى الله، لاشتمالها على التقديس والتنزيه، والثناء بأنواع الجميل.
581;ديث اس بات پر دلادلت کر رہی ہے کہ اللہ رب العالمين کو سب سے پسنديدہ کلام اس کی تسبيح بيان کرنا (سُبْحَانَ اللَّهِ کہنا) ہے، اس ليے کہ تسبيح کا معنی اللہ رب العالمين كو ہر اس چيز سے منزه و پاک قرار دينا ہے جو اس کے ليے نا مناسب ہے، چاہے وہ اللہ کی شان ميں کوئی نقص ہو يا اللہ کو کسی مخلوق سے مشابہ اور مانند قراردينا ہو، يا اللہ کے ناموں ميں کج روی اختيار کرنا ہو۔ اور ’بِحَمْدِهِ‘ کہنے والے کا قول اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ تسبیح اللہ سبحانہ کی حمد کے ساتھ تھی،پس اس میں اسی کا احسان ہے۔ نیز اس کا يہ بھی مفہوم ہو سکتا ہے کہ: ميں اللہ کی توفيق دہی سے اس کی حمد وثنا کرتے ہوئے اس کی پاکی بيان کر رہا ہوں۔ اسی ليے ’سُبْحَانَ اللَّهِ ، وبِحَمْدِهِ‘ اللہ، رب العالمين کو بہت زيادہ محبوب ہے کیوں کہ اس ميں اللہ رب العالمين کی پاکی و تقدیس اور ہر طرح کے احسان کے ساتھ تعريف شامل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5402

 
 
Hadith   895   الحديث
الأهمية: البخيل من ذكرت عنده، فلم يصل علي


Tema:

بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «البَخِيلُ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ، فَلَمْ يصَلِّ عَلَيَّ».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:”بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
"البخيل" أي: الكامل في البخل، "من ذُكرت عنده" أي: ذُكر اسمي بمسمع منه، "فلم يصل علي"؛ لأنه بامتناعه من الصلاة عليه قد شح وامتنع من أداء حق يتعين عليه أداؤه، ولأنه بخل على نفسه حين حرمها صلاة الله عليه عشراً إذا هو صلى واحدة، فهو كمن أبغض الجود حتى لا يحب أن يجاد عليه، شبه تركه الصلاة عليه ببخله بإنفاق المال في وجوه البر.

576;خیل یعنی بخیلی میں کامل اور پکا، ”جس کے پاس میرا ذکر ہو“ یعنی وہ شخص جو میرا نام سنے، ”پھر بھی وہ مجھ پر درود نہ پڑھے“ کیوں کہ ایسا کرکے اس نے بخیلی کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک ایسے حق کی ادائیگی سے گریز کیا ہے جس کو ادا کرنا اس پر ضروری تھا۔ نیز اس نے اپنے حق میں بھی بخیلی سے کام لیا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کی دس رحمتوں سے محروم کرلیا جو اسے ایک بار درود بھیجنے سے حاصل ہوتی۔ چناں چہ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو سخاوت سے بغض رکھتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی ناپسند ہوتا ہے کہ اس پر سخاوت کیا جائے۔ اس کے درود نہ بھیجنے کو نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنے میں بخیلی کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5403

 
 
Hadith   896   الحديث
الأهمية: السفر قطعة من العذاب


Tema:

سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «السفر قطعة من العذاب، يمنع أحدكم طعامه وشرابه ونومه، فإذا قضى أحدكم نَهْمَتَهُ من سفره، فليُعَجِّلْ إلى أهله».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے، اس لیے جب کوئی سفر سے اپنی غرض پوری کرچکے تو فوراً اپنے گھر والوں کے پاس واپس آجائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث أنّ (السفر قطعة من العذاب) أي: جزء منه، والمراد بالعذاب: الألم الناشئ عن المشقة؛ لما يحصل في الركوب والمشي من ترك المألوف.
وأنّ: (يمنع أحدكم نومه وطعامه وشرابه) أي: يمنعه كمالها ولذيذها؛ لما فيه من المشقة والتعب ومقاساة الحر والبرد والخوف ومفارقة الأهل والأصحاب وخشونة العيش، لأن المسافر مشغول البال، ولا يأكل ويشرب كطعامه وشربه العادي في أيامه العادية، وكذلك في النوم، فإذا كان كذلك، فليرجع الإنسان إلى الراحة إلى أهله وبلده؛ ليقوم على أهله بالرعاية والتأديب وغير ذلك.
606;بیﷺ اس حدیث میں بتا رہے ہیں کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، یعنی یہ عذاب کا ایک حصہ ہے۔ عذاب سے مراد یہاں وہ تکلیف ہے جو مشقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیوں کہ سواری اور چلنے پھرنے میں بندہ اپنی عمومی روٹین کو چھوڑ دیتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ:”آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے“ یعنی یہ اشیاء اسے بطریق احسن اور اس طرح اسے نہیں ملتی جس میں اسے لذت حاصل ہو کیوں کہ سفر میں دشواری و تکان لاحق ہوتی ہے اور گرمی و سردی، خوف اور گھر والوں اور ساتھیوں کی جدائی جھیلنی پڑتی ہے اور دشواری کی حالت میں زندگی گزارنا پڑتی ہے کیوں کہ مسافر کا دل اپنے سفر میں مشغول ہوتا ہے۔ چنانچہ عام دنوں میں جس طرح سے وہ کھاتا پیتا ہے دوران سفر وہ ویسے نہیں کھاتا پیتا۔ یہی حال اس کی نیند کا ہوتا ہے۔ جب سفر میں ان سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر بار اور اپنے علاقے کی طرف لوٹ آئے تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال اور تادیب کر سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5404

 
 
Hadith   897   الحديث
الأهمية: مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ على عَمَلٍ، فَكَتَمَنَا مَخِيطًا فَمَا فَوْقَهُ، كانَ غُلُولًا يَأْتِي به يَوْمَ القِيَامَةِ


Tema:

تم میں سے جسے ہم کسی کام کی ذمے داری سونپیں اور وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی کم تر چیز چھپائے، تو وہ خیانت ہو گی، جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا۔

عن عدي بن عميرة الكندي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من اسْتَعْمَلْنَاهُ منكم على عمل، فكَتَمَنَا مِخْيَطًا فما فوقه، كان غُلُولا يأتي به يوم القيامة». فقام إليه رجلٌ أسودُ من الأنصار، كأني أنظر إليه، فقال: يا رسول الله، اقبل عني عَمَلَكَ، قال: «وما لك؟» قال: سمعتك تقول كذا وكذا، قال: «وأنا أقوله الآن: من اسْتَعْمَلْنَاهُ على عمل فلْيَجِيْء بقليله وكثيره، فما أُوتِيَ منه أَخَذَ، وما نهي عنه انْتَهَى».

عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جسے ہم کسی کام کی ذمہ داری سونپیں، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی کم تر چیز چھپائے، تو وہ خیانت ہو گی، جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا“۔ یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری، جنھیں گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں، کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ نے مجھے جو کام سونپا تھا، اس سے مجھے مستعفی ہونے کی اجازت دیجیے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو ایسے فرماتے ہوئے جو سن لیا ہے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! میں اب اسے پھر کہتا ہوں کہ جسے ہم کسی کام کی ذمے داری سونپیں، وہ کم یا زیادہ سب کچھ لے کر آئے۔ جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے منع کر دیا جائے اس سے رک جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من استعملناه منكم على عمل من جمع مال الزكاة أو الغنائم أو غير ذلك، فأخفى منه إبرة فما أصغر منها كان غلولا يأتي به يوم القيامة، فقام إليه رجل من الأنصار يستأذنه في أن يترك العمل الذي كلفه صلى الله عليه وسلم به، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: وما لك. قال: سمعتك تقول: كذا وكذا. فقال: وأنا أقوله الآن، من استعملناه منكم على عمل فليأت بقليله وكثيره، فما أعطي من أجره أخذه، وما نهي عنه ولم يكن من حقه امتنع عن أخذه.
578;م میں سے جس کسی کو ہم نے کسی کام پر لگایا، مثلا زکاۃ یا غنیمت وغیرہ جمع کرنے میں پر مامور کیا اور اس نے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی چھوٹی شے چھپا لی، تو یہ خیانت ہو گی اور وہ قیامت کے دن اسے لے کر آئے گا۔ اس پر آپ ﷺ کے سامنے ایک انصاری شخص کھڑا ہوا اور اجازت چاہی کہ وہ اس کام سے دست بردار ہو جائے، جس کی ذمے دای آپ ﷺ نے اسے سونپی تھی، تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ سب کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے (اس لیے ڈر لگ رہا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں پھر وہی بات کہتا ہوں کہ ہم تم میں سے جس کو عامل بنائیں، اسے چاہیے کہ وہ کم یا زیادہ سب کچھ لے کر آ جائے۔ پھر اسے جو کچھ بطور اجرت دیا جائے، وہ لے لے اور جو نہ دیا جائے اور وہ اس کا حق بھی نہ ہو، اس کے لینے سے باز رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5412

 
 
Hadith   898   الحديث
الأهمية: «مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الجَنَّةَ


Tema:

جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارا، اس کے لیے اللہ نے جہنم کو واجب اور جنت کو حرام کردیا۔

عن أبي أمامة إياس بن ثعلبة الحارثي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من اقْتَطَعَ حَقَّ امرئٍ مسلم بيمينه، فقد أَوْجَبَ اللهُ له النارَ، وحَرَّمَ عليه الجنةَ» فقال رجل: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ فقال: «وإنْ قَضِيبًا من أَرَاكٍ».

ابو امامہ اياس بن ثعلبہ حارثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارا، اس کے لیے اللہ نے جہنم کو واجب اور جنت کو حرام کردیا“۔ ایک شخص نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول! چاہے وہ چیز تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چہ پیلو کے درخت کی ایک چھوٹی سی ٹہنی ہی ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه من أخذ حق مسلم بحلف على وجه الكذب بغير حق؛ فقد أوجب الله له النار، وحرم عليه الجنة، فقال رجل: وإن كان هذا الشيء يسيرًا يا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وإن كان هذا الشي عودا من سواك.
585;سول اللہ ﷺ بیان فرما رہے ہیں کہ جس نے جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا حق مار لیا، اس کے لیے اللہ تعالی نے جہنم واجب کر دی اور جنت حرام کر دی۔ اس پر ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگرچہ یہ چیز بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو؟ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: اگرچہ یہ چیز پیلو کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5430

 
 
Hadith   899   الحديث
الأهمية: مَنْ أَكَلَ طَعَامًا، فقال: الحمدُ للهِ الذي أَطْعَمَنِي هَذَا، وَرَزَقْنِيهِ مِنْ غَيرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ


Tema:

جس نے کھانا کھایا اورپھر اس نے کہا: ’الحمدُ للهِ الذي أَطْعَمَنِي هَذَا، وَرَزَقْنِيهِ مِنْ غَيرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ‘ تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

عن معاذ بن أنس -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَنْ أَكَلَ طَعَامًا، فقال: الحمدُ للهِ الذي أَطْعَمَنِي هَذَا، وَرَزَقْنِيهِ مِنْ غَيرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ».

معاذبن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کھانا کھایا اور پھر اس نے کہا: ’الحمدُ للهِ الذي أَطْعَمَنِي هَذَا، وَرَزَقْنِيهِ مِنْ غَيرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ‘تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھلایا اور بغیر کسی کد و کاوش کے مجھے یہ عنایت کیا، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينبغي للإنسان إذا أكل أكلا أن يحمد الله سبحانه وتعالى، وأن يقول: "الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة".
أشار به إلى طريقتي التحصيل للطعام، فإن القوي يأخذ ظاهرًا بقوته، والضعيف يحتال على تحصيل قُوته، فأشار بالذكر المذكور أن حصول ذلك بمحض الفضل من الله تعالى لا دخل في ذلك لغيره سبحانه.
575;نسان کو چاہیے کہ جب وہ کھانا کھا چکے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد بیان کرے اور کہے: ’الحمدُ للهِ الذي أَطْعَمَنِي هَذَا، وَرَزَقْنِيهِ مِنْ غَيرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ‘ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھلایا اور بغیر کسی کد و کاوش کے مجھے یہ عنایت کیا۔ ان الفاظ کے ذریعے آپ ﷺ نے کھانے کے حصول کے دو طریقوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ طاقت ور بظاہر اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسے حاصل کرتا ہے اور ضعیف اس کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی حیلہ اختیار کرتا ہے۔ ان الفاظ کے ذکر کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سب محض اللہ کے فضل کی بدولت ہے اس میں اللہ سبحانہ کے علاوہ کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5431

 
 
Hadith   900   الحديث
الأهمية: مَنْ ترك اللباسَ تَوَاضُعًا لله، وهو يقدر عليه، دعاه اللهُ يومَ القيامةِ على رُؤُوسِ الخَلَائِقِ حتى يُخَيِّرُهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا


Tema:

جو شخص الله كے حضور تواضع اختیار کرتے ہوئے قیمتی لباس چھوڑ دیتا ہے، حالاں کہ وہ اسے پہن سکتا ہو، تو روز قیامت اللہ اسے یہ اختیار دینے کے لیے سب کے سامنے بلائے گا کہ وہ جنتی لوگوں کے لباس میں سے جس لباس کو چاہے، پہن لے۔

عن معاذ بن انس -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ ترك اللباسَ تَوَاضُعًا لله، وهو يقدر عليه، دعاه اللهُ يومَ القيامةِ على رُؤُوسِ الخَلَائِقِ حتى يُخَيِّرُهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا».

معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص الله كے حضور تواضع اختیار کرتے ہوئے قیمتی لباس چھوڑ دے، حالاں کہ وہ اسے پہن سکتا ہو، تو روز قیامت اللہ اسے یہ اختیار دینے کے لیے سب کے سامنے بلائے گا کہ وہ جنتی لوگوں کے لباس میں سے جس لباس کو چاہے، پہن لے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من ترك لبس الرفيع من الثياب تواضعاً لله وتركاً لزينة الحياة الدنيا، ولم يمنعه من ذلك عجزه عنه دعاه الله يوم القيامة على رؤوس الخلائق تشريفاً له، حتى يخيره من أي زينة أهل الجنة يريد أن يلبسها.
580;س نے اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتے ہوئے اور دنیا کی زینت کو ترک کرتے ہوئے قیمتی لباس پہننے سے گریز کیا، حالاں کہ یہ بات نہیں تھی کہ وہ ایسا کرنہیں سکتا تھا، تو اللہ تعالی اسے روز قیامت بطور اعزاز سب کے سامنے بلائیں گے، تاکہ اسے یہ اختیار دیں کہ وہ اہل جنت کے پر زینت لباسوں میں سے جسے چاہے پہن لے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5432

 
 
Hadith   901   الحديث
الأهمية: من تَوَضَّأَ فَأَحَسَنَ الوُضوءَ، ثم أتى الجُمُعَةَ فاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لهُ ما بَيْنَهُ وبَيْنَ الجُمُعَة وَزِيَادَةُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، ومَنْ مَسَّ الحَصَا فَقَدْ لَغَا


Tema:

جس نے خو ب اچھی طرح وضو کیا اور پھر جمعہ پڑ ھنے آیا اور خاموش ہو کر خطبہ سنا تو اس کے جمعہ سے جمعہ تک کے اور تین دن زیادہ کے گناہ معا ف کر دیے جاتے ہیں اور جس نے ( جمعہ کے دوران) کنکری کو چھوا اس نے لغو کام کیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَن توضأ فأحسنَ الوُضوء، ثم أتى الجمعةَ فاسْتمعَ وأَنْصَتَ غُفِرَ له ما بينه وبين الجمعة وزيادةُ ثلاثة أيام، ومَن مَسَّ الحَصا فقد لَغا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے خو ب اچھی طرح وضو کیا اور پھر جمعہ پڑ ھنے آیا اور خاموش ہو کر خطبہ سنا تو اس کے جمعہ سے جمعہ تک کے اور تین دن زیادہ کے گناہ معا ف کر دیے جا تے ہیں اور جس نے ( جمعہ کے دوران) کنکری کو چھوا اس نے لغو کام کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من توضأ فأحسن وضوءه بإتمام أركانه والإتيان بسننه وآدابه، ثم أتى المسجد ليصلي الجمعة فاستمع الخطبة وسكت عن الكلام المباح، غفر له صغائر الذنوب من حين صلاة الجمعة وخطبتها إلى مثل الوقت في الجمعة الماضية، وزيادة عليها ذنوب ثلاثة أيام، ومن مس الحصا وفي معناه سائر العبث في حال الخطبة فقد أسقط ثواب الجمعة.
580;س نے وضو کو اس کے تمام ارکان و سنن اور آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوب اچھی طرح کیا اور پھر مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے آ گیا اور اس نے جائز گفتگو سے بھی خاموشی اختیار کرتے ہوئے خطبۂ جمعہ سُنا تو اس کے پچھلے جمعہ سے لے کر اس نماز جمعہ اور اس کے خطبہ تک کیے گئے تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس پر مستزاد تین اور دنوں کے گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص دوران خطبہ کنکریوں سے کھیلتا ہے یا اس طرح کا کوئی اور فضول کام کرتا ہے تو وہ جمعے کے ثواب کو ضائع کر بیٹھتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5433

 
 
Hadith   902   الحديث
الأهمية: مَن خَافَ أَدْلَجَ، ومَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ المنْزِلَ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ الجَنَّةُ


Tema:

جسے خوف ہوتا ہے وہ اولین شب ہی میں سفر پر نکل پڑتا ہے اور جو رات کے ابتدائی حصے ہی میں سفر کا آغاز کر دیتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ اللہ کا سودا گراں قیمت ہے، جان لو کہ اللہ کا سودا جنت ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ خَافَ أَدْلَجَ، ومَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ المنْزِلَ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ الجَنَّةُ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے خوف ہوتا ہے وہ اولین شب ہی میں سفر پر نکل پڑتا ہے اور جو رات کے ابتدائی حصے ہی میں سفر کا آغاز کر دیتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ اللہ کا سودا گراں قیمت ہے، جان لو کہ اللہ کا سودا جنت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من خاف الله تعالى فليبتعد من المعاصي وليجتهد في طاعته سبحانه؛ فالمتاع التي عند الله غالية، وهي الجنة التي لا يليق بثمنها إلا بذل النفس والمال.
580;و اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ گناہوں سے دور رہے اور خوب اچھی طرح اللہ کی اطاعت گزاری میں لگ جائے۔ اللہ کے پاس جو سامان ہے وہ بہت قیمتی ہے اور وہ جنت ہے اور اس کی قیمت سوائے جان و مال خرچ کرنے کے کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5434

 
 
Hadith   903   الحديث
الأهمية: مَنْ صَلَّى صلاةَ الصُّبْحِ فهو في ذِمَّةِ اللهِ فلا يَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ


Tema:

جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں آگیا چنانچہ یہ موقع نہ آنے پائے کہ اللہ کی ذمہ داری میں کسی طور خلل انداز ہونے کی وجہ سے وہ تمہارے درپے ہو جائے۔

عن جندب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ صَلَّى صلاةَ الصُّبْحِ فهو في ذِمَّةِ اللهِ فلا يَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ، فَإِنَّهُ مَنْ يَطْلُبْهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ يُدْرِكْهُ، ثُمَّ يَكُبُّهُ على وَجْهِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ».

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں آگیا۔ لہذا یہ موقع نہ آنے پائے کہ اللہ کی ذمہ داری میں کسی طور خلل انداز ہونے کی وجہ سے وہ تمہارے درپے ہو جائے۔ اگر اللہ اپنی ذمہ داری میں خلل انداز ہونے پر کسی کے درپے ہو جائے تو اسے وہ بالآخر جا ہی لیتا ہے اور اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من صلى صلاة الصبح فقد دخل في عهد الله فكأنه معاهد لله عزّ وجلّ أن لا يصيبه أحد بسوء، فلا تحل أذيته من أحد؛ لأن أذيته تعتبر في الحقيقة اعتداء على الله ونقضًا لأمانه الذي وهبه لهذا المصلي، ومن نقض عهد الله واعتدى عليه فقد عرض نفسه لمحاربة الله، والله ينتقم لمن أوذي وهو في جواره وأمانه.
580;س نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کی ضمان میں آ گیا گویا کہ اس کا اللہ سے اس بات کا معاہدہ ہے کہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ چنانچہ اسے تکلیف دینا کسی کے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اسے تکلیف دینا حقیقت میں اللہ پر زیادتی سمجھا جائے گا اور ایسا کرنا اس امان کے منافی متصور ہو گا جو اللہ نے اس نمازی کو دے رکھی ہے اور جو اللہ کا عہد توڑتا ہے اور اللہ کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے پیش کردیتا ہے اور اللہ اس شخص کے لیے انتقام لیتا ہے جو اس کی پناہ اور امان میں ہو اور اسے تکلیف پہنچائی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5435

 
 
Hadith   904   الحديث
الأهمية: مَنْ غَدَا إلى المسجدِ أو رَاحَ، أَعَدَّ اللهُ له في الجنةِ نُزُلًا كُلَّمَا غَدَا أو رَاحَ


Tema:

جوشخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ضیافت تیارکرتا ہے جب بھی وہ صبح یا شام کے وقت مسجد جاتاہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ غَدَا إلى المسجدِ أو رَاحَ، أَعَدَّ اللهُ له في الجنةِ نُزُلًا كُلَّمَا غَدَا أو رَاحَ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ضیافت تیار کرتا ہے جب بھی وہ صبح یا شام کے وقت (مسجد) جاتاہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من ذهب إلى المسجد أول النهار أو بعد زوال الشمس، سواء للصلاة، أو لطلب العلم، أو لغير ذلك من مصادر الخير هيأ الله له جزاءَ عمله نُزلا في الجنة  كلما ذهب إلى المسجد.
580;و دن کی ابتدا میں یا پھر سورج ڈھل جانے کے بعد مسجد میں جاتا ہے چاہے یہ جانا نماز کے لیے ہو یا حصول علم کے لیے ہو یا پھر نیکی کے کسی اور کام کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس کے اس عمل کے بدلے میں جب بھی وہ مسجد میں جاتا ہے اس کے لیے جنت میں ضیافت تیار کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5436

 
 
Hadith   905   الحديث
الأهمية: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصْمُت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليُكْرِم جارَه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضَيْفَه


Tema:

جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصْمُت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليُكْرِم جارَه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضَيْفَه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حدث أبو هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -عليه الصلاة والسلام- بأصول اجتماعية جامعة، فقال:
"مَنْ كَانَ يُؤمِنُ" هذه جملة شرطية، جوابها: "فَليَقُلْ خَيْرَاً أَو لِيَصْمُتْ"، والمقصود بهذه الصيغة الحث والإغراء على قول الخير أو السكوت كأنه قال: إن كنت تؤمن بالله واليوم الآخر فقل الخير أو اسكت.
"فَلَيَقُلْ خَيرَاً"  كأن يقول قولاً ليس خيراً في نفسه ولكن من أجل إدخال السرور على جلسائه، فإن هذا خير لما يترتب عليه من الأنس وإزالة الوحشة وحصول الألفة.
"أو لِيَصْمُتْ" أي يسكت.
"وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ باللهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ" أي جاره في البيت، والظاهر أنه يشمل حتى جاره في المتجر كجارك في الدكان مثلاً، لكن هو في الأول أظهر أي الجار في البيت، وكلما قرب الجار منك كان حقه أعظم.
وأطلق النبي -صلى الله عليه وسلم- الإكرام فقال: "فليُكْرِم جَارَهُ" ولم يقل مثلاً بإعطاء الدراهم أو الصدقة أو اللباس أو ما أشبه هذا، وكل شيء يأتي مطلقاً في الشريعة فإنه يرجع فيه إلى العرف.
فالإكرام إذاً ليس معيناً بل ما عدّه الناس إكراماً، ويختلف من جار إلى آخر، فجارك الفقير ربما يكون إكرامه برغيف خبز، وجارك الغني لا يكفي هذا في إكرامه، وجارك الوضيع ربما يكتفي بأدنى شيء في إكرامه، وجارك الشريف يحتاج إلى أكثر.
والجار: هل هو الملاصق، أو المشارك في السوق، أو المقابل أو ماذا؟
هذا أيضاً يرجع فيه إلى العرف.
وأما في قوله -عليه الصلاة والسلام-: "وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ باللهِ واليَومِ الآخِرِ فَليُكرِمْ ضَيْفَهُ" الضيف هو النازل بك، كرجل مسافر نزل بك، فهذا ضيف يجب إكرامه بما يعد إكراماً.
قال بعض أهل العلم -رحمهم الله-: إنما تجب الضيافة إذا كان في القرى أي المدن الصغيرة، وأما في الأمصار والمدن الكبيرة فلا يجب؛ لأن هذه فيها مطاعم وفنادق يذهب إليها، ولكن القرى الصغيرة يحتاج الإنسان إلى مكان يؤويه. ولكن ظاهر الحديث أنه عام: "فَليُكْرِمْ ضَيْفَهُ".
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے کچھ جامع معاشرتی اصول روایت کر رہے ہیں:
”جو کوئی ایمان رکھا ہو“ یہ شرطیہ جملہ ہے، جس کا جواب ”اسے چاہیے کہ وہ بھلی بات کرے یا خاموش رہے“ ہے۔ اس پیرایۂ بیان سے مقصود اچھی بات کہنے کی ترغیب دینا یا پھر چپ رہنے پر ابھارنا ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اچھی بات کہو یا پھر چپ رہو۔
”چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے“ یعنی ایسی بات کہے، جس میں بذات خود چاہے کوئی اچھائی نہ ہو، تاہم اپنے ہم نشینوں کو خوش کرنے کے لیے کی جائے۔ یہ اس لیے اچھی بات شمار ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے انسیت پیدا ہوتی ہے، وحشت دور ہوتی ہے اور الفت جنم لیتی ہے۔
”یا خاموش رہے“ یعنی چپ رہے۔
”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے“ یعنی گھرکے پڑوس میں رہنے والے کا اکرام کرے۔ ظاہری مفہوم کے اعتبار سے تو یہ لفظ بازار کےپڑوسی کو بھی شامل ہے، جیسے دکان کا ہمسایہ۔ تاہم پہلا معنی یعنی گھرکے پڑوس میں رہنے والا زیادہ راجح ہے۔ پڑوسی آپ کے جتنا قریب ہو گا، اتنا ہی اس کا حق زیادہ ہو گا۔
نبی ﷺنے اِکرام کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا: ”اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے“ آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ اسے پیسے، صدقہ، لباس یا اس طرح کی اشیا دے۔ شریعت میں جس شے کا مطلق ذکر آئے اس کا معنی جاننے کے لیے عرف عام کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اِکرام کوئی معین رویہ نہیں ہوگا، بلکہ اس سے مراد وہ طرزِ سلوک لیا جائے گا، جسے لوگ اکرام سمجھتے ہوں اور یہ مختلف ہم سایوں کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔ آپ کے غریب ہم سائے کا اکرام ہو سکتا ہے کہ ایک روٹی کے دینے سے ہو جائے، جب کہ مالدار ہم سائے کے اکرام میں ایسا کرنا کافی نہیں ہوگا۔ بے حیثیت ہم سائے کے اکرام میں ادنی شے بھی کافی ہو سکتی ہے، جب کہ آپ کے معزز ہم سائے کے اکرام کے لیےزیادہ کی ضرورت ہو گی۔
”جار“ یعنی پڑوسی سے مراد کون ہے؟ آیا وہ شخص جو بالکل متصل ہو یا پھر بازار میں آپ کا شریک ہو یا پھر بالمقابل ہو یا کوئی اور؟ اس کے تعین میں بھی عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے“ اس میں ”ضیف“ سے مراد آپ کے پاس قیام کرنے والا شخص ہے، جیسے کوئی مسافر آدمی جو آپ کےہاں ٹھہرے۔ ایسا شخص مہمان ہوتا ہے، جس کا حسب دستور اکرام کرنا واجب ہے۔
بعض علما فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی اس وقت واجب ہوتی ہے، جب کوئی شخص بستیوں یا چھوٹے شہروں میں ہو۔ بڑے شہروں میں مہمان نوازی واجب نہیں ہے؛ کیوں کہ ان میں ہوٹل ہوتے ہیں، جن میں جایا جاسکتا ہے، جب کہ چھوٹی بستیوں میں انسان کو کسی ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں وہ ٹھہر سکے۔ لیکن ظاہرکے اعتبار سے حدیث عام ہے کہ ”اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5437

 
 
Hadith   906   الحديث
الأهمية: مَنْ كَانَتْ عِندَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ، مِنْ عِرْضِهِ أو مِنْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليومَ قَبْلَ أَن لا يَكُونَ دِينَارٌ ولا دِرْهَمٌ


Tema:

جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کی ہو، اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہو ں گے اور نہ درہم۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ كَانَتْ عِندَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ، مِنْ عِرْضِهِ أو مِنْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليومَ قَبْلَ أَن لا يَكُونَ دِينَارٌ ولا دِرْهَمٌ؛ إِنْ كَانَ له عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِن لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أَخَذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کر رکھی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہوں اور نہ درہم۔ اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو جتنی اس نے حق تلفی کی ہو گی، اس قدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی، تو اس کے بھائی کی برائیوں کو لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائےگا“۔

هذا الحديث يصوِّر مظهرا من مظاهر العدالة الاجتماعية التي يحرص الإسلام على بثِّها بين صفوف أبنائه، فقد أخبر أبو هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:
(من كانت له مظلمة) أي: ما أخذه الظالم أو تعرض له.
قوله: (لأخيه) أي: في الدين.
وهذه الجناية شاملة لأمور متعددة من:
(عِرضه) : بيان للمظلمة وهو جانبه الذي يصونه من نفسه ونسبه وحسبه ويرفض أن ينتقص.
أو(شيء) أي: أمر آخر كأخذ ماله أو المنع من الانتفاع به، أو هو تعميم بعد تخصيص.
فما عليه إلا أن (يتحلله) أي: فليطب الظالم حل ما ذكر (منه) أي: من المظلوم
ومما يؤكد التعجيل قوله: (اليوم) أي: في أيام الدنيا لمقابلته بقوله: (قبل أن لا يكون) أي: لا يوجد (دينار ولا درهم) : وهو تعبير عن يوم القيامة وفي التعبير به تنبيه على أنه يجب عليه أن يتحلل منه، ولو بذل الدينار والدرهم في بذل مظلمته، لأن أخذ الدينار والدرهم اليوم على التحلل أهون من أخذ الحسنات أو وضع السيئات على تقدير عدم التحلل كما أشار إليه بقوله:
(إن كان له عمل صالح) أي: بأن يكون مؤمنا ظالما غير معفو من مظلومه، فالنتيجة:
(أُخِذ):  أي: عمله الصالح (منه) أي: من صاحبه الظالم على غيره، ويحصل هذا الأخذ والاقتصاص:
(بقدر مظلمته) : ومعرفة مقدار الطاعة والمعصية كمية وكيفية مفوض علمها إلى الله سبحانه، هذا ،
وأما إن كان الجاني من المفلسين يوم الحساب، فقد قال فيه عليه الصلاة والسلام:
(وإن لم تكن) أي: لم توجد (له حسنات) أي: باقية أو مطلقا، فإنه سيحاسب حسابا يثقل كاهله ويزيد في عذابه:
(أخذ من سيئات صاحبه) أي: المظلوم (فحُمِل عليه) : أي: فوضع على الظالم.

740;ہ حدیث عدلِ اجتماعی کے ان مظاہر میں سے ایک مظہر کی تصویر کشی کرتی ہے، جنھیں اسلام اپنے ماننے والوں کے مابین عام کرنا چاہتا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ كَانَتْ عِندَهُ مَظْلَمَةٌ“: یعنی وہ شے جسے ظالم نے (ناحق) چھین لیا ہو یا پھر وہ اس کے درپے ہو۔
آپ ﷺ کا فرمان: ”اپنے بھائی کی“ یعنی اپنے دینی بھائی کی۔
اس جرم میں متعدد امور شامل ہیں:
”اس کی عزت“ یہ حق تلفی کی وضاحت ہے۔ اس سے مراد انسانی شخصیت کے وہ پہلو ہیں، جن کی حفاظت وہ کرتا ہے اوران کی ہتک کو برداشت نہیں کرتا، جیسےاس کی جان اور حسب و نسب۔
”یا کوئی اور شے“ یعنی کوئی اور چیز ہو، جیسے اس کا مال چھیننا یا پھر اسے اس سے نفع اٹھانے سے روکنا یا پھر یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ (یعنی پہلے خاص عزت کا ذکر کیا اور پھر 'یا کسی اور شے میں حق تلفی' کہہ کراس کے متعلق ہر شے کو شمار کر دیا)۔
تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ”وہ اس سے بری الذمہ ہو جائے“ یعنی ظالم مظلوم سے درخواست کرے کہ وہ اسے بری الذمہ کر دے۔”منه“ یعنی مظلوم سے۔
”آج ہی“ کے الفاظ میں جلدی کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے مراد دنیوی زندگی کے ایام ہیں؛ کیوںکہ اس کے مقابلے میں فرمایا: ”اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ دینار ہوں گےاور نہ درہم“ اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور اس پیرائے میں تنبیہ ہے کہ اس شخص پر اس سے بری الذمہ ہونا واجب ہے، اگرچہ اس حق تلفی کو زائل کرنے میں اسے درہم و دینارہی خرچ کرنے پڑیں؛ کیوں کہ بری الذمہ ہونے کے کے لیے اگر آج (دنیا میں) درہم و دینار کا لیا جانا اس سے آسان ہے کہ بری الذمہ نہ ہونے کی صورت میں نیکیاں لے لی جائیں یا پھر برائیاں (اس پر) ڈال دی جائیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے یہ فرما کر اشارہ کیا کہ: ”اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی“ بایں طور کہ وہ ایسا ظالم مومن ہو، جسے مظلوم کی طرف سے معاف نہ کیا گیا ہو، تو اس کے نتیجے میں اس کے نیک اعمال لے لیے جائیں گے۔
”اس سے“ یعنی اس شخص کی نیکیاں جس نے دوسرے پر ظلم کیا (لے کر مظلوم کو دے دی جائیں گی) اور اس طرح سے انھیں لے کر بدلہ چکایا دیاجائے گا۔
”اس کی حق تلفی کے بقدر“ طاعت و معصیت کی مقدار اور کیفیت کو کیسے جانا جائے گا؟، اس کا علم اللہ سبحانہ و تعالی کے پاس ہے۔
اگر زیادتی کا مرتکب ہونے والا شخص قیامت کے دن نیکیوں سے تہی دامن ہوا، تو اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں“ یعنی اس کی نیکیاں باقی نہ بچیں یا پھر کوئی نیکی ہوئی ہی نہ، تو اللہ اسے ایسے طریقے سے عذاب دے گا جس سے اس کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اس کا عذاب بڑھ جائے گا۔ مظلوم سے اس کی برائیاں لے کر ظالم کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5438

 
 
Hadith   907   الحديث
الأهمية: مَنْ لا يَرْحَمُ النَّاسَ لا يَرْحَمُهُ اللهُ


Tema:

جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا۔

عن جرير بن عبد الله -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ لا يَرْحَمِ النَّاسَ لا يَرْحَمْهُ اللهُ».

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الذي لا يرحم الناس لا يرحمه الله عز وجل، والمراد بالناس: الناس الذين هم أهل للرحمة كالمؤمنين وأهل الذمة ومن شابههم، وأما الكفار الحربيون فإنهم لا يرحمون، بل يقتلون لأن الله تعالى قال في وصف النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه (أشداء على الكفار رحماء بينهم) [سورة الفتح:29].
580;و شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ عزّ و جلّ بھی رحم نہیں کرتا یہاں لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو رحم کیے جانے کے اہل ہیں جیسے مومن اور ذمی وغیرہ۔ جب کہ کافر حربی تو وہ رحم کے مستحق نہیں ہیں بلکہ انہیں تو قتل کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے بارے میں فرمایا: ﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ ”وہ کفار کے لیے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں“۔ (سورۂ فتح: 29)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5439

 
 
Hadith   908   الحديث
الأهمية: مَنْ لَا يَرْحَم لَا يُرْحَمُ!


Tema:

جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا!

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قَبَّلَ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- الحسنَ بنَ عليٍّ -رضي الله عنهما-، وعنده الأَقْرَعُ بنُ حَابِسٍ، فقال الأَقْرَعُ: إنَّ لي عَشَرَةً من الوَلَدِ ما قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إليهِ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- فقال: «مَنْ لَا يَرْحَم لَا يُرْحَمُ!».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا۔ آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ آپ ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا: ”جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا!“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبَّل الحسن بن علي وعنده الأقرع بن حابس التميمي جالساً، فقال الأقرع: إنَّ لي عشرة من الولد ما قبَّلتُ منهم أحداً، فنظر إليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ثم قال: "من لا يرحم لا يُرحَم"، وفي رواية: "أوَ أملك أن نزع الله من قلبك الرحمة" أي ماذا أصنع إذا كان الله قد نزع من قلبك عاطفة الرحمة؟ فهل أملك أن أعيدها إليك؟.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا۔ اس وقت آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرے دس بچے ہیں اور میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا: ”جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا“۔ ایک دوسری روایت میں ہے: ”أَوَ أَمْلِكُ أنْ نزعَ اللهُ من قلبِكَ الرَّحْمَةَ“ یعنی اگر اللہ نے تمھارے دل سے رحیمانہ جذبات کو سلب کر لیا ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں! کیا میں انھیں تمھیں دوبارہ لوٹا سکتا ہوں؟   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5440

 
 
Hadith   909   الحديث
الأهمية: مَنْ مَرَّ في شَيْءٍ مِنْ مَسَاجِدِنَا، أَوْ أَسْوَاقِنَا، وَمَعَهُ نَبْلٌ فَلْيُمْسِكْ، أَوْ لِيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِّهِ؛ أَنْ يُصِيبَ أَحَدًا مِنَ المُسْلِمِينَ منها بِشَيْءٍ


Tema:

جو شخص ہماری مسجدوں یا ہمارے بازاروں میں سے کہیں سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو اسے چاہیے کہ انہیں تھامے رکھے یا پھر اپنی ہتھیلی سے ان کے پھلوں (پیکان) کو پکڑے رکھے تا کہ مسلمانوں میں سے کسی کو ان سے کچھ گزند نہ پہنچے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: قال رسول اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «من مرَّ في شيء من مساجدنا، أو أسواقنا، ومعه نَبْلٌ فَلْيُمْسِكْ، أو لِيَقْبِضْ على نِصَالِهَا بكفِّه؛ أنْ يصيب أحدا من المسلمين منها بشيء».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ہماری مسجدوں یا ہمارے بازاروں میں کہیں سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو اسے چاہیے کہ انہیں پکڑے رکھے یا پھر اپنی ہتھیلی سے ان کے پھلوں(پیکان) کو پکڑے رکھے تا کہ مسلمانوں میں سے کسی کو ان سے کچھ گزند نہ پہنچے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من مر في المساجد والأسواق وأماكن اجتماع المسلمين ومعه سلاح من نبل وغيره، فإنه يمسك به ويحكم قبضته عليه جيدا؛ لئلا يصيب به أحدا من المسلمين.
580;و شخص مساجد، بازاروں یا ایسی جگہوں سے گزرے جہاں مسلمان اکٹھے ہوتے ہوں اور اس کے پاس تیر وغیرہ کے ہتھیار ہوں، تو وہ انہیں پکڑے رکھے اور اچھی طرح سے مضبوطی کے ساتھ ان پر گرفت رکھے تاکہ یہ کسی مسلمان کو نہ لگ جائیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5442

 
 
Hadith   910   الحديث
الأهمية: مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ مِنَ الليلِ، أو عَنْ شَيْءٍ مِنه، فَقَرَأَهُ ما بَيْنَ صَلَاةِ الفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ الليلِ


Tema:

جو شخص اپنا پورا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر اسے صبح اٹھ کر فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے، تو اسے اسی طرح لکھا جائے گا، گویا اس نے رات ہی کو پڑھا ہے۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- مرفوعًا: «مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ مِنَ الليلِ، أو عَنْ شَيْءٍ مِنه، فَقَرَأَهُ ما بَيْنَ صَلَاةِ الفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ الليلِ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنا پورا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر اسے صبح اٹھ کر فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے، تو اسے اسی طرح لکھا جائے گا، گویا اس نے رات ہی کو پڑھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحزب معناه الجزء من الشيء، ومنه أحزاب القرآن، فإذا كان للإنسان صلاة يصليها في الليل؛ ولكنه نام عنها، أو عن شيء منها فقضاها فيما بين صلاة الفجر وصلاة الظهر؛ فكأنما صلاه في ليلته، ولكن إذا كان يوتر في الليل؛ فإنه إذا قضاه في النهار لا يوتر، ولكنه يشفع الوتر، أي يزيده ركعة، فإذا كان من عادته أن يوتر بثلاث ركعات فليقض أربعة، وإذا كان من عادته أن يوتر بخمس فليقض ستاً، وإذا كان من عادته أن يوتر بسبع فليقض ثماني وهكذا.
ودليل ذلك حديث عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا غلبه نوم أو وجع من الليل؛ صلى من النهار تنتي عشرة ركعة.
وينبه على أن القضاء إنما يكون بعد شروق الشمس وارتفاعها قدر رمح لئلا يصلي في وقت النهي.
581;زب کے معنی ہیں کسی چیز کا حصہ۔ اسی سے 'احزاب القرآن' ہے۔ جب انسان رات کی نماز پڑھنے کا معمول رکھتا ہو؛ لیکن رات کی پوری نماز یا اس کا کچھ حصہ پڑھنے سے پہلے سو جائے اور اسے فجر و ظہر کے درمیان پورا کرلے، تو گویا اس نے رات ہی میں پڑھا ہے۔ البتہ اگر رات میں وتر پڑھنے کا معمول رکھتا ہو، تو دن میں وتر نہیں پڑھے گا، بلکہ اسے جفت کی شکل میں ادا کرے گا۔ یعنی ایک رکعت مزید ملا لے گا۔ چنانچہ اس کی عادت تین رکعت پڑھنے کی ہے، تو چار پڑھے گا، پانچ پڑھنے کی ہے، تو چھ پڑھے گا اور اگر سات پڑھنے کی ہے، تو آٹھ پڑھے گا۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سےنبی ﷺ کا قیام اللیل رہ جاتا، تو دن میں بارہ رکعت پڑھتےتھے۔
یاد رہے کی قضا سورج نکلنے اور اس کے ایک نیزے کے بقدر بلند ہونے کے بعد دے؛ تاکہ ممنوع وقت میں نماز ادا کرنے سے بچ جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5443

 
 
Hadith   911   الحديث
الأهمية: منهم مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إلى كَعْبَيْهِ، ومنهم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى رُكْبَتَيْهِ، ومِنْهُم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى حُجْزَتِهِ، ومنهم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى تَرْقُوَتِهِ


Tema:

دوزخیوں میں سے کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کے دونوں ٹخنوں تک آگ ہوگی، کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کے دونوں گھٹنوں تک آگ ہوگی، کچھ وہ ہوں گے جن کی کمر تک آگ ہوگی اور کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کی ہنسلی کی ہڈی تک آگ آ رہی ہو گی۔

عن سمرة بن جندب -رضي الله عنه-: أن نبي الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «منهم مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إلى كَعْبَيْهِ، ومنهم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى رُكْبَتَيْهِ، ومِنْهُم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى حُجْزَتِهِ، ومنهم مَنْ تَأْخُذُهُ إلى تَرْقُوَتِهِ».

سمرہ بن جنب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دوزخیوں میں سے کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کے دونوں ٹخنوں تک آگ ہوگی، کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کے دونوں گھٹنوں تک آگ ہوگی، کچھ وہ ہوں گے جن کی کمر تک آگ ہوگی اور کچھ لوگ وہ ہوں گے جن کی ہنسلی کی ہڈی تک آگ آ رہی ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يفيد الخوف من يوم القيامة ومن عذاب النار، حيث بيَّن النبي -صلى الله عليه وسلم- أن من الناس يوم القيامة من تبلغ النار منهم إلى كعبيه وإلى ركبتيه وإلى حجزته، ومنهم من تبلغه إلى عنقه، فالناس متفاوتون في العذاب بحسب أعمالهم في الدنيا نسأل الله العافية.
575;س حدیث میں قیامت کے دن سے اور دوزخ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے کیونکہ نبی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے ٹخنوں، گھٹنوں اور کمر تک آگ پہنچ رہی ہو گی اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی گردن تک آگ پہنچ رہی ہو گی۔ چنانچہ عذاب کے لحاظ سے لوگ ایک دوسرے سے متفاوت ہوں گے اور ان کے مابین یہ تفاوت دنیا میں ان کے اعمال کے لحاظ سے ہو گا۔ ہم اللہ سے عافیت کے طلب گار ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5445

 
 
Hadith   912   الحديث
الأهمية: أَنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- دعا بإناءٍ من مَاءٍ، فأُتِيَ بقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فيهِ شَيْءٌ من ماءٍ، فوضعَ أَصَابِعَهُ فيهِ


Tema:

نبی ﷺ نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا تو آپ ﷺ کے لیے ایک چوڑے منہ کا پیالہ لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا، آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: حَضَرَتِ الصلاةُ فقامَ مَنْ كان قريبَ الدارِ إلى أَهْلِهِ، وبَقِيَ قَوْمٌ، فأُتِيَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ، فَصَغُرَ المِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فيهِ كَفَّهُ، فتَوَضَّأَ القومُ كلهم. قالوا: كم كنتم؟ قال: ثمانينَ وزيادةً.
وفي رواية: أَنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- دعا بإناءٍ من مَاءٍ، فأُتِيَ بقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فيهِ شَيْءٌ من ماءٍ، فوضعَ أَصَابِعَهُ فيهِ، قال أنس: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إلى الماءِ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّأَ ما بَيْنَ السبعينَ إلى الثمانينَ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نماز کا وقت ہو گیا، تو جس شخص کا مکان قریب ہی تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور کچھ لوگ رہ گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا ایک لگن لایا گیا جس میں کچھ پانی تھا اور وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ ﷺ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلا سکتے تھے۔ (مگر) سب لوگوں نے اس برتن کے پانی سے وضو کر لیا۔ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے افراد تھے؟ انہوں نے بتایا کہ اسّی (80) افراد سے کچھ زیادہ ہی تھے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا تو آپ ﷺ کے لیے ایک چوڑے منہ کا پیالہ لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا، آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں پانی کی طرف دیکھنے لگا۔ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اندازے کے مطابق (اس ایک پیالہ پانی سے) جن لوگوں نے وضو کیا، وہ ستّر سے اسّی افراد تک تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول أنس -رضي الله عنه-:


"حضرت الصلاة" أي بينما كان الصحابة مع النبي -صلى الله عليه وسلم- بالمدينة حضرت صلاة العصر.
"فقام من كان قريباً من المسجد" أي: فذهب الذين دارهم قريبة من ذلك المكان إلى الدار ليتوضؤوا منها.
"وبقي قوم" أي: وبقي الذين دارهم بعيدة مع النبي -صلى الله عليه وسلم-.
"فأتي النبي -صلى الله عليه وسلم- بمخضب من حجارة فيه ماء" أي: فأحضر إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- إناء صغير من حجر فيه قليل من الماء، وجاء في بعض الروايات وصفه بالرحراح.
"فصغر المخضب أن يبسط كفه فيه" أي فضاق ذلك الإِناء الصغير على كف رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين أراد أن يمدها في وسطه.
قال أنس: "فتوضأ القوم كلهم، قلنا كم كنتم؟ قال: ثمانين وزيادة" أي: ثمانين فأكثر.
575;نس رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ: نماز کا وقت ہوگیا یعنی مدینہ میں صحابہ نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نمازِ عصر کا وقت ہو گیا۔ جس کا گھر مسجد سے قریب تھا وہ چلا گیا یعنی جن کے گھر وہاں سے قریب ہی تھے وہ وضو کرنے کے لیے گھر چلے گئے۔ ”کچھ لوگ باقی رہے“ یعنی وہ لوگ نبی ﷺ کے پاس رہ گیے جن کے گھر دور تھے۔
نبی ﷺ کے پاس پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ بعض روایات میں اس برتن کو '”رَحرَاح“' کی صفت سے موصوف کیا گیا ہے۔ (یعنی چوڑے منہ والا ایسا برتن جس کا پیندا زیادہ گہرا نہ ہو)۔ اس چھوٹے سے برتن میں جب آپ ﷺ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلانا چاہا تو یہ تنگ پڑ رہا تھا۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے سب لوگوں نے وضو کر لیا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کتنے افراد تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسّی سے کچھ اوپر۔   --  [صحیح]+ +[متعدد روایات کے ساتھ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5446

 
 
Hadith   913   الحديث
الأهمية: نِعْمَ الأُدُمُ الخَلَّ، نِعْمَ الأُدُمُ الخَلَّ


Tema:

سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے، سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے

عن جابر -رضي الله عنه-: أَنَّ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- سَأَلَ أَهْلَهُ الأُدُمَ، فقالوا: مَا عِنْدَنَا إِلَّا خَلٌّ، فَدَعَا بِهِ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ، وَيَقُولُ: «نِعْمَ الأُدُمُ الخَلَّ، نِعْمَ الأُدُمُ الخَلَّ».

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے گھر والوں سے سالن مانگا تو انہوں نے کہا: ہمارے پاس سرکے کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے وہی منگوایا اور کھانا شروع کردیا اور فرمانے لگے: ”سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے، سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- أهله طعاما يأكله بالخبز، فقالوا: ما عندنا شيء إلا الخل، فأمر بإحضاره فجيء به فجعل يأكل ويقول: نعم الأُدُمُ الخل، نعم الأُدُمُ الخل.
وهذا ثناء على الخل، وإن كان الخل شرابا يشرب لكن الشراب يسمى طعاما؛ قال الله -تعالى-: {فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي}، وإنما سُمِيَ طعاما لأن له طعما يطعم.
606;بی ﷺ نے اپنے گھر والوں سے روٹی کے ساتھ تناول فرمانے کے لئے کوئی سالن مانگا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس سرکے کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے اسے لانے کے لئے کہا۔ جب سرکہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے اسے کھانا شروع کر دیا اور فرمانے لگے: سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے، سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے
یہ سرکہ کی تعریف ہے اگرچہ سرکہ ایک مشروب ہے جسے پیا جاتا ہے، لیکن پینے کی شی پر بھی کھانے کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي﴾ ”جس نے اس میں سے پی لیا وہ میرے ساتھیوں میں سے نہیں، اور جس نے اسے نہ چکھا (کھایا) وہ میرے ساتھیوں میں سے ہے“۔ اس کے لیے کھانے کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اس کا ایک ذائقہ ہوتا ہے جسے چکھا جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5447

 
 
Hadith   914   الحديث
الأهمية: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فيهما كثيرٌ من الناس: الصحةُ، والفراغُ


Tema:

دونعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں ہیں: صحت اور فراغت.

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فيهما كثيرٌ من الناس: الصحةُ، والفراغُ».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” دونعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں ہیں: صحت اور فراغت“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نعمتان من نعم الله على الإنسان لا يعرف قيمتهما، ويخسر فيهما أشد الخسارة، وهما صحة البدن وفراغ الوقت؛ فإن الإنسان لا يتفرغ للطاعة إلا إذا كان مكفيا صحيح البدن، فقد يكون مستغنيا، ولا يكون صحيحا، وقد يكون صحيحا ولا يكون مستغنيا، فلا يكون متفرغا للعلم والعمل؛ لشغله بالكسب، فمن حصل له الأمران وكسل عن الطاعة فهو المغبون، أي: الخاسر في التجارة.
575;نسان پراللہ کی دو عظيم نعمتيں ایسی ہیں جن کی قدر وقيمت کو وہ نہيں پہچانتا، اور ان ميں عظيم خسارے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ نعمتيں تندرستی اور فارغ البالی ہیں اس ليے کہ انسان اللہ کی عبادت اچھے ڈھنگ سے اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ صحت مند اور فارغ البال ہو۔ کبھی ايسا بھي ہوتا ہے کہ انسان فارغ ہوتا ہے ليکن اس کی تندرستی ٹھيک نہيں ہوتی، اور کبھی تندرستی ٹھيک ہوتی ہے ليکن فارغ البال نہیں ہوتا۔ پس وہ کسبِ معاش ميں مشغوليت کی وجہ سے علم حاصل کرنے اور نيک اعمال کے ليے فارغ وقت نہيں پاتا۔ لهٰذا جسے يہ دونوں نعمتيں (تندرستی اور فارغ البالی) مليں ليکن اس ميں نيک اعمال سے کاہلی کرے تو وہ عظيم خسارے سے دوچار ہوا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5449

 
 
Hadith   915   الحديث
الأهمية: لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ منكم قَائِمًا، فمن نَسِيَ فَلْيَسْتَقِئْ


Tema:

تم میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر نہ پیے اور اگر بھول کر پی بیٹھے، تو قے کر دے

عن أنسٍ -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صلى الله عليه وسلم-: أَنَّهُ نَهَى أَنْ يَشْرَبَ الرجلُ قَائِمًا.
قال قَتَادَةُ: فقلنا لأنسٍ: فالأَكْلُ؟ قال: ذلك أَشَرُّ - أو أَخْبَثُ.
وفي رواية: أَنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- زَجَرَ عن الشُّرْبِ قائمًا.


عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ منكم قَائِمًا، فمن نَسِيَ فَلْيَسْتَقِئْ».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کھڑے ہو کر کچھ پیے۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کھڑے ہو کر کھانے کا کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ تو اس سے بھی برا ہے یا کہا اس سے بھی گندا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر نہ پیے اور اگر بھول کر پی بیٹھے، تو قے کر دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال أنس -رضي الله عنه-: نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الشرب قائما، فقال قتادة بن دعامة السدوسي-رحمه الله-: فقلنا لأنس -رضي الله عنه- فما حكم الأكل قائما؟ أمنهي عنه كالشراب، فقال أنس: هو أولى بذلك، فهو أشر وأخبث.
منع النبي -صلى الله عليه وسلم- من الشرب قائما.
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يشرب أحد قائما، فمن نسي وفعل ذلك فليخرج ما في جوفه استحبابا، وإلا فلا إثم عليه؛ لأن الشرب قائما مكروه وليس بمحرم.
575;نس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔ قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کھڑے ہوکرکھانے کا کیا حکم ہے؟ کیا کھڑے ہو کر کھانا بھی پینے کی طرح ممنوع ہے؟ اس پر انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ تو بطریق اولی ممنوع ہو گا؛ کیوں کہ کھڑے ہو کر کھانا تو زیادہ برا اور گندا ہے۔
”نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا“۔
نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی کھڑے ہوکر پیے۔ جو شخص بھول کر ایسا کر لے، تو مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ میں جو کچھ ہو، اسے نکال دے۔ تاہم ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے کوئی گناہ نہیں ہو گا؛ کیوں کہ کھڑے ہو کر پینا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5450

 
 
Hadith   916   الحديث
الأهمية: نَهَى رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنْ يُشْرَبَ مِنْ فِي السِّقاءِ أو القِرْبَةِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مشکیزے اور گھڑے کو منہ لگا کر اُن سے پانی پینے سے منع فرمایا۔

عن أبي هريرة وعبد الله بن عباس -رضي الله عنهم- قالا: نَهَى رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنْ يُشْرَبَ مِنْ فِي السِّقاءِ أو القِرْبَةِ.

ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشکیزے اور گھڑے کو منہ لگا کر اُن سے پانی پینے سے منع فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الشرب من فم السقاء من أجل ما يخُاف من أذًى، عسى أن يكون فيه ما لا يراه الشارب حتى يدخل في جوفه.
606;بی ﷺ نے مشکیزے کے دہانے سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا اس اندیشے کے تحت کہ اس میں کوئی ایسی موذی شے ہو جو پینے والے کو نظر نہ آئے اور وہ اس کے پیٹ میں چلی جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5451

 
 
Hadith   917   الحديث
الأهمية: نهى رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- عن اخْتِنَاثِ الأَسْقِيَةِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مشکوں کا منہ موڑ کر ان سے پانے پینے سے منع فرمایا۔

عن أبي سعيدٍ الخُدْرِيِّ -رضي الله عنه- قال: نهى رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- عن اخْتِنَاثِ الأَسْقِيَةِ.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مشکوں کا منہ موڑ کر ان سے پانے پینے سے منع فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تكسر أفواه الأسقية وتُثنى، ثم يشرب منها؛ لأنه قد يكون فيها أشياء مؤذية, فتدخل إلى بطنه فيتضرر بها.
606;بی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مشکیزوں کے منہ کو توڑ کر اور انھیں موڑ کر ان سے پانی پیا جائے؛ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی موذی شے ہو، جو پینے والے کے پیٹ میں چلی جائے اور اس کی وجہ سے اسے ضرر لاحق ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5452

 
 
Hadith   918   الحديث
الأهمية: أَنَّ النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عنِ النَّفْخِ في الشَّرَابِ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے پانی میں پھونک مارنے سے منع فرمایا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عنِ النَّفْخ في الشّراب، فقال رجل: القَذَاة أَرَاهَا في الإناء؟ فقال: «أَهْرِقْهَا». قال: إِنِّي لا أَرْوى من نَفَس واحد؟ قال: «فَأَبِنِ القدح إذًا عن فِيك».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی میں پھونک مارنے سے منع فرمایا، اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر مجھے پانی میں کوئی تنکا نظر آ جاتا ہے تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے انڈیل دو۔ اس نے مزید پوچھا کہ میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہو پاتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سانس لو، تو پیالہ اپنے منہ سے ہٹا دو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن النفخ في الشراب، فسأله رجل، فقال: يا رسول الله القذاة تكون في الشراب فينفخها الإنسان من أجل أن تخرج، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: صب الماء الذي فيه القذاة ولا تنفخ فيه ثم سأله: أنه لا يروى بنفس واحد، فأمره النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يبعد الإناء عن فمه ثم يتنفس ثم يعود فيشرب.
606;بی ﷺ نے پانی میں پھونک مارنے سے منع فرمایا۔ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات پانی میں کوئی تنکا ہوتا ہے اور اسے نکالنےکے لیے انسان پھونک مارتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس پانی میں تنکا وغیرہ ہو، اس میں پھونک نہ مارو؛ بلکہ اسے انڈیل دو۔ اس شخص نے مزید پوچھا کہ وہ اگر ایک سانس میں سیراب نہیں ہوتا، تو پھر کیا کرے؟ اس پر نبی ﷺ نے اس سے فرمایا کہ وہ برتن کو اپنے منہ سے ہٹا کر سانس لے اور پھر دوبارہ پی لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5453

 
 
Hadith   919   الحديث
الأهمية: والذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لو لم تُذْنِبُوا، لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ تَعَالَى، فَيَغْفِرُ لَهُمْ


Tema:

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو ختم کردے گا اور تمہاری جگہ ایسے لوگ لائے گا جو گناہ کر کے اللہ سے مغفرت طلب کریں گے اور اللہ ان کو بخش دے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «والذي نفسي بيده، لو لم تذنبوا، لذهب الله بكم، وجاء بقوم يُذْنِبُونَ، فيستغفرون اللهَ تعالى، فيغفر لهم».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو ختم کردے گا اور تمہاری جگہ ایسے لوگ لائے گا جو گناہ کر کے اللہ سے مغفرت طلب کریں گے اور اللہ ان کو بخش دے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقسم النبي -صلى الله عليه وسلم- بربه ثم يقول: لو لم تذنبوا لذهب الله بكم وجاء بقوم يستغفرون عقب الذنب بنية صادقة وقلب موقن؛ لكي يغفر لهم.
606;بی ﷺ اپنے رب کی قسم کھا کر فرما رہے ہیں کہ اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں ختم کر کے ایسے لوگ لے آئے گا جو گناہ کرنے کے بعد سچی نیت اور یقین دل سے توبہ کریں گے تا کہ وہ انہیں بخش دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5454

 
 
Hadith   920   الحديث
الأهمية: قال الله تعالى يا بن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان منك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عَنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك


Tema:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھے گا تب تک تجھ سے جو بھی گناہ سرزد ہوں گے میں ان پر تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ بھی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «قال الله تعالى يا بن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان منك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عَنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك، يا ابن آدم لو أتيتني بقُراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئاً لأتيتك بقُرابها مغفرة» .

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابن آدم! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا تب تک تجھ سے جو بھی گناہ سرزد ہوں گے میں ان پر تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کچھ بھی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں اور پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر گناہ کر کے مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کے برابر مغفرت عطا کروں گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يدل على سعة رحمة الله سبحانه وتعالى وكرمه وجوده، وقد بين فيه الأسباب التي تحصل بها المغفرة للمرء، وهي الدعاء والاستغفار، وعلَّق هذين السببين على التوحيد، فمن لقي الله عز وجل موحدا؛ نفعه الدعاء والاستغفار، ولا ينفع مع الشرك شيء لا دعاء ولا غيره.
740;ہ حدیث اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور اس کے جود و کرم کی دلیل ہے۔ اس میں ان اسباب کا بیان ہے جن سے آدمی کو مغفرت حاصل ہوتی ہے یعنی دعا اور استغفار کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اسباب کو توحید کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ چنانچہ جو شخص اللہ عز و جل سے اس حال میں ملتا ہے کہ وہ توحید کا اقرار کرنے والا ہوتا ہے، اسے دعا اور استغفار فائدہ دیتے ہیں۔ اورشرک کے ہوتے ہوئے نہ تو دعا نفع بخش ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری چیز۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5456

 
 
Hadith   921   الحديث
الأهمية: يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ


Tema:

اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کریں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما-  أَنَّ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- تَلَا قَوْلَ اللهِ -عز وجل- فِي إِبْرَاهِيمَ -صلى الله عليه وسلم-: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي} [إبراهيم: 36] الآية، وقَوْلَ عِيسَى -صلى الله عليه وسلم-: {إِنْ تُعَذِّبْهُم فَإِنَّهُم عِبَادَكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُم فَإِنَّكَ أَنْتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ} [المائدة: 118] فَرَفَعَ يَدَيْهِ وقَالَ: «اللهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي» وبَكَى، فقالَ اللهُ -عز وجل-: «يا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ -ورَبُّكَ أَعْلَمُ- فَسَلْهُ مَا يُبْكِيهِ؟» فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَأَخْبَرْهُ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- بما قَالَ -وهو أعلم- فقالَ اللهُ -تعالى-: «يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ عزو جل کے اس قول کی تلاوت فرمائی: ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي﴾ ”اے رب! یہ بت بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہیں، پس ان لوگوں میں سے جنہوں نے میری اطاعت قبول کی ہے وہ میرے ہیں“۔ (سورہ ابراھیم: 36)۔ اور عیسی علیہ السلام کے قول کا تلاوت فرمایا کہ: ﴿إِنْ تُعَذِّبْهُم فَإِنَّهُم عِبَادَكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُم فَإِنَّكَ أَنْتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ﴾ ”اگر تو ان کوعذاب میں مبتلا کرے تو بہرحال وہ تیرے ہی بندے ہیں۔ اور اگر تو ان کو بخش دے تو بے شک تو غالب حکمت والا ہے“۔ (سورہ مائدہ: 118)
اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: اے اللہ! میری امت کو بخش دے، میری امت کو بخش دے۔ اوررو دیے۔ اس پر اللہ عز و جل نے فرمایا: اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کس بات کی وجہ سے وہ روئے ہیں؟، اگرچہ تیرا رب اس سے بہتر طور پر باعلم ہے۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے الفاظ میں، جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، انہیں وجہ بتا دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کریں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قرأ النبي -صلى الله عليه وسلم- قول إبراهيم -عليه الصلاة والسلام- في الأصنام: (رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) [إبراهيم: 36] ، وقول عيسى: (إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) [المائدة: 118]؛ فرفع -صلى الله عليه وسلم- يديه وبكى، وقال: "يا رب؛ أمتي أمتي"، أي: ارحمهم واعف عنهم، فقال الله -سبحانه وتعالى- لجبريل: "اذهب إلى محمد، فسله ما يبكيك؟" وهو أعلم سبحانه بما يبكيه، فأخبره رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالذي قاله من قوله: "أمتي أمتي" والله أعلم بالذي قاله نبيه -صلى الله عليه وسلم-، فقال الله -عز وجل- لجبريل: "اذهب إلى محمد فقل له: إنا سنرضيك في أمتك، ولا نحزنك". وقد أرضاه الله -عز وجل- في أمته ولله الحمد من عدة وجوه: منها: كثرة الأجر، وأنهم الآخرون السابقون يوم القيامة، وأنها فضلت بفضائل كثيرة على سائر الأمم.
606;بی ﷺ نے ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی جو بتوں کے بارے میں ہے کہ ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي﴾ ”اے رب! یہ بت بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہیں، پس ان لوگوں میں سے جنہوں نے میری اطاعت قبول کی ہے وہ میرے ہیں“۔ (سورہ ابراھیم: 36)۔ اور اسی طرح عیسی علیہ السلام کے قول کی بھی تلاوت فرمائی کہ ﴿إِنْ تُعَذِّبْهُم فَإِنَّهُم عِبَادَكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُم فَإِنَّكَ أَنْتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ﴾ ”اگر تو ان کوعذاب میں مبتلا کرے تو بہرحال وہ تیرے ہی بندے ہیں۔ اور اگر تو ان کو بخش دے تو بے شک تو غالب حکمت والا ہے“۔ (سورہ مائدہ: 118)، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اوررو پڑے۔ آپ ﷺ دعا مانگ رہے تھے کہ: "يا رب؛ أمتي أمتي" یعنی ان پررحم کر اور انہیں معاف کردے۔ اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ ’’ محمد کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روئے ہیں؟ حالانکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو ان کے رونے کا سبب خوب معلوم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے الفاظ میں اپنے اس قول یعنی امتی امتی کے بارے میں بتا دیا اور اللہ ہی کو بہتر علم ہے کہ اس کے نبی نے کیا الفاظ کہے۔ اس پر اللہ عز و جل نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم آپ کی امت کے معاملے میں آپ کو خوش کریں گے اورآپ کو رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ اللہ عزّ وجلّ نے آپﷺ کو اپنی امت کے سلسلے میں کئی وجوہ کی بنا پر راضی وخوش کر دیا، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ان وجوہات میں سے کچھ یہ ہیں: بہت زیادہ اجرکا ملنا، نبی ﷺ کی امت کے افراد (دنیا میں) آخر میں آنے والے اور روزِقیامت سب سے پہلے ہوں گے اور اس امت کو کئی اعتبار سے دوسری امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5457

 
 
Hadith   922   الحديث
الأهمية: مَرَرْتُ على رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وفي إِزَارِي اسْتِرْخَاءٌ، فقال: يا عبدَ اللهِ، ارْفَعْ إِزَارَكَ، فَرَفَعْتُهُ ثم قال: زِدْ، فَزِدْتُ، فما زِلْتُ أَتَحَرَّاهَا بَعْدُ، فقال بعضُ القَوْمِ: إلى أين؟ فقال: إلى أَنْصَافِ السَّاقَيْنِ


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ میری ازار لٹک رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ! اپنی ازار اونچی کرو“ میں نے اسے اوپر اٹھا لیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور اٹھاؤ“ میں نے اور اٹھائی، میں اپنی ازار اٹھاتا اور اس کا خیال کرتا رہا یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے کہا کہاں تک اٹھائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدھی پنڈلیوں تک“۔

عن ابنِ عمرَ -رضي الله عنهما-، قال: مَرَرْتُ على رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وفي إِزَارِي اسْتِرْخَاءٌ، فقال: «يا عبدَ اللهِ، ارْفَعْ إِزَارَكَ» فَرَفَعْتُهُ ثم قال: «زِدْ» فَزِدْتُ، فما زِلْتُ أَتَحَرَّاهَا بَعْدُ، فقال بعضُ القَوْمِ: إلى أين؟ فقال: إلى أَنْصَافِ السَّاقَيْنِ.

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ میری ازار لٹک رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ! اپنی ازار اونچی کرو“ میں نے اسے اوپر اٹھا لیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور اٹھاؤ“ میں نے اور اٹھائی، میں اپنی ازار اٹھاتا اور اس کا خیال کرتا رہا یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے کہا کہاں تک اٹھائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آدھی پنڈلیوں تک“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن ابن عمر -رضي الله عنه- قال: مررت على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وفي إزاري إسبال، فقال: يا عبد الله ارفع إزارك، فرفعته إلى الكعبين أو قريب منهما، ثم قال: زِد في الرفع؛ لكونه أطيب وأطهر، فزدت حتى بلغت به أنصاف الساقين، وما زلت أقصدها بعد ذلك؛ اعتناء بالسنة وملازمة للاتباع، فقال بعض القوم: إلى أين كان انتهاء الرفع المأمور به، قال: إلى أنصاف الساقين.
575;بنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے پاس سے گزرا، میرا ازار لٹک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عبد اللہ! اپنی ازار اونچی کرو، تو میں نے ٹخنوں تک یا اس کے قریب قریب اپنی ازار اونچی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اور اونچی کرو، اس لیے کہ یہ زیادہ پاکیزگی اور طہارت کا باعث ہے۔ میں نے اور اونچی کرلی، یہاں تک کہ آدھی پنڈلیوں تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد میں ہمیشہ آپ ﷺ کی سنت اور آپ کی اتباع میں اس کا اہتمام کرتا تھا۔ لوگوں میں سے کسی نے پوچھا کہ کہاں تک اٹھانے کا حکم ہے؟ فرمایا آدھی پنڈلیوں تک۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5458

 
 
Hadith   923   الحديث
الأهمية: يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلَى مَا مَاتَ عَلَيْهِ


Tema:

ہر بندہ (روزِ قیامت) اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «يُبْعَثُ كلُّ عبدٍ على ما مات عليه».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر بندہ (روزِ قیامت) اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُبعث كل عبد يوم القيامة على الحالة التي مات عليها.
602;یامت کے دن ہر بندے کو اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5459

 
 
Hadith   924   الحديث
الأهمية: يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القيامةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا


Tema:

قیامت کے دن لوگوں کو ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھا کر میدان حشر کی طرف لایا جائے گا۔

عن عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها- قالت: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يُحْشَرُ الناس يوم القيامة حفاة عراة غُرْلًا، قلت: يا رسول الله الرجال والنساء جميعا ينظر بعضهم إلى بعض؟ قال: يا عائشة الأمر أشد من أن يهمهم ذلك».
  وفي رواية : «الأمر أَهَمُّ من أن ينظر بعضهم إلى بعض».

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگوں کو قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھا کر میدان حشر کی طرف لایا جائے گا“۔ میں نے دریافت کیا کہ یار سول اللہ! مرد اور عورتیں سب اکٹھے، وہ تو ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! معاملہ ہی اتنا سخت ہو گا کہ انھیں اس کی سوجھے گی بھی نہیں“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”معاملہ اس سے کہیں اہم ہو گا کہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کا خیال آئے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قالت عائشة -رضي الله عنها-: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: يجمع الله الناسَ يوم القيامة ليس لهم نعال، وليس عليهم ثياب، وغير مختونين، يخرجون من قبورهم كيوم ولدتهم أمهاتهم.
فقالت عائشة -رضي الله عنها-: يا رسول الله، الرجال والنساء، عراة ينظر بعضهم إلى بعض.
قال: الأمر أعظم وأشد من أن يهمهم ذلك، أو من أن ينظر بعضهم إلى بعض.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اس حال میں جمع کرے گا کہ نہ ان کے پاؤں میں جوتے ہوں گے اور نہ ان پر کپڑے ہوں گے۔ وہ غیر مختون ہوں گے۔ وہ اپنی قبروں سے اس حال میں نکلیں گے، جیسے اس دن تھے، جب ان کی ماؤں نے انھیں جنا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ننگے مرد اور ننگی عورتیں، وہ تو ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:معاملہ ہی اتنا بڑا اور سخت ہو گا کہ انھیں یہ سوجھے گا بھی نہیں یا یہ کہ اس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5460

 
 
Hadith   925   الحديث
الأهمية: يضحكُ اللهُ سبحانه وتعالى إلى رجلين يقتلُ أحدُهما الآخرَ يدخلانِ الجنةَ، يقاتلُ هذا في سبيل الله فيُقْتَلُ، ثم يتوبُ اللهُ على القاتلِ فيُسْلِمُ فَيُسْتَشْهَدُ


Tema:

اللہ سبحانہ و تعالی ایسے دو آدمیوں کو دیکھ کر مسکراتا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہو گا (پھر بھی) وہ دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے ایک تو اللہ کی راہ میں لڑکر شہید ہوا تھا پھر اللہ نے قاتل کو توبہ کی توفیق بخشی اور وہ مسلمان ہوگیا اور شہید ہو گیا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «يضحكُ اللهُ سبحانه وتعالى إلى رجلين يقتلُ أحدُهما الآخرَ يدخلانِ الجنةَ، يقاتلُ هذا في سبيل الله فيُقْتَلُ، ثم يتوبُ اللهُ على القاتلِ فيُسْلِمُ فَيُسْتَشْهَدُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ و تعالی ایسے دو آدمیوں کو دیکھ کر مسکراتا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہو گا (پھر بھی) وہ دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے ایک تو اللہ کی راہ میں لڑکر شہید ہوا تھا پھر اللہ نے قاتل کو توبہ کی توفیق بخشی اور وہ مسلمان ہوگیا اور پھر شہید ہو گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر يدخلان الجنة، يقاتل المسلم في سبيل الله لإعلاء كلمة الله فيقتله كافر فيدخل الجنة، ثم يتوب الله على القاتل فيُسلم فيقاتل في سبيل الله فيستشهد.
575;للہ تعالی دو ایسے آدمیوں کو دیکھ کر مسکراتا ہے جو دونوں ہی جنت میں جائیں گے۔ بایں طور کہ مسلمان اللہ کے دین کی سربلندی میں لڑ رہا ہو گا کہ ایک کافر اسے قتل کر دے گا اور وہ جنت میں چلا جائے گا۔ پھر اللہ قاتل کو توبہ کی توفیق دے گا اور وہ مسلمان ہو جائے گا اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہوا وہ بھی شہید ہو جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5461

 
 
Hadith   926   الحديث
الأهمية: يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ العَالَمِينَ حَتَّى يَغِيبَ أَحَدُهُمْ في رَشْحِهِ إلى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ


Tema:

(روزِ قیامت) تمام لوگ ربُّ العالمین کے روبرو کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ اپنے آدھے کانوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «يقوم الناس لرب العالمين حتى يَغِيبَ أحدهم في رَشْحِهِ إلى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ».

Esin Hadith Test Urdu


عبد الله بن عمر رضي الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(روز قیامت) تمام لوگ رب العالمین کے روبرو کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ اپنے آدھے کانوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقوم الناس من قبورهم لرب العالمين ليجازيهم حتى يبلغ العرق لبعضهم إلى أنصاف أذنيه.
604;وگ اپنی قبروں سے اٹھ کر رب العالمین کے روبرو کھڑے ہوں گے تاکہ وہ ان کو (ان کے اعمال کا) بدلہ دے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ کے کانوں کے نصف تک پسینہ پہنچ رہا ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5462

 
 
Hadith   927   الحديث
الأهمية: يؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لها سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ، مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا


Tema:

اس دن (قیامت کے دن) جہنم کو اس حالت میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يُؤْتَى بجهنم يومئذ لها سبعون ألف زِمَامٍ مع كل زمام سبعون ألف ملك يَجُرُّونَهَا».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس دن (قیامت کے دن) جہنم کو اس حالت میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يؤتى بالنار يوم القيامة لها سبعون ألف حبل تقاد به، وفي كل حبل سبعون ألف ملك يجرونها به.
602;یامت کے دن جہنم کو اس حالت میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر ہزار رسیاں ہوں گی جن سے اسے کھینچا جارہا ہوگا، اور ہر رسی پر ستر ہزار فرشتے مقرر ہوں گے جو اس کے ذریعے اسے کھینچ رہے ہوں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5463

 
 
Hadith   928   الحديث
الأهمية: اللهم اشف سعدًا اللهم اشف سعدًا


Tema:

اے اللہ ! تو سعد کو شفا دے، اے اللہ ! تو سعد کو شفا دے۔

عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- قَال: عَادَنِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْداً، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْداً، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْداً».

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ! سعد کو شفا دے، اے اللہ ! سعد کو شفا دے ۔ اے اللہ ! سعد کو شفا دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث سعد بن أبي وقاص أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عاده في مرضه فقال: "اللهم اشف سعداً، اللهم اشف سعداً، اللهم اشف سعداً" ثلاث مرات، ففي هذا الحديث دليل على أن من السنة أن يعود الإنسان المريض المسلم، وفيه أيضاً حسن خلق النبي -صلى الله عليه وسلم- ومعاملته لأصحابه، فإنه كان -صلى الله عليه وسلم- يعود مرضاهم ويدعو لهم، وفيه أنه يستحب أن يدعى بهذا الدعاء: اللهم اشف فلاناً، وتسميه ثلاث مرات، فإن هذا مما يكون سبباً في شفاء المريض،
587;عد بن ابی وقاص کی حدیث یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سعد رضی اللہ عنہ جب بیمار تھے تو ان کی عیادت کی اور دعا فرمائی کہ ”اے اللہ ! تو سعد کو شفا دے، اے اللہ ! تو سعد کو شفا دے، اے اللہ ! تو سعد کو شفا دے“ ایسا آپ ﷺ نے تین دفعہ کہا۔ اس حدیث میں دلیل ہے کہ آدمی کا کسی مسلمان مریض کی عیادت کے لیے جانا سنت ہے۔اس حدیث میں آپ ﷺ کے اپنے صحابہ کے ساتھ حسنِ سلوک اور انداز معاملت کی بھی وضاحت ہے۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ میں سے جو مریض ہوتے ان کی عیادت کے لیے جاتے اور ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے ۔ اس حدیث میں اس طرح کی دعا مانگنے کے استحباب کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ”اے اللہ ! فلاں شخص کو شفا عطا فرما “، تین دفعہ نام لے کر ایسا کہیں گے ۔ مریض کے شفایاب ہونے کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5469

 
 
Hadith   929   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه وجله وأوله وآخره


Tema:

اے اللہ! تو میرے تمام چھوٹے بڑے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كانَ يقولُ في سجودِهِ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي ذَنْبِي كُلَّهُ: دِقَّهُ وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، وَعَلاَنِيَتَهُ وَسِرَّهُ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجدوں میں ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي ذَنْبِي كُلَّهُ: دِقَّهُ وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، وَعَلاَنِيَتَهُ وَسِرَّهُ“ (اے اللہ! تو میرے تمام چھوٹے بڑے، اگلے پچھلے اورعلانیہ وپوشیدہ گناہ بخش دے) پڑھتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول في سجوده: "اللهم اغفر لي ذنبي كله: دقه وجله، وأوله وآخره، علانيته وسره"، وهذا من باب التبسط في الدعاء والتوسع فيه؛ لأن الدعاء عبادة فكل ما كرره الإنسان ازداد عبادة لله -عز وجل-، ثم إنه في تكراره هذا يستحضر الذنوب كلها السر والعلانية، وكذلك ما أخفاه، وكذلك دقه أي: صغيره، وجله أي: كبيره، وهذا هو الحكمة في أن النبي -صلى الله عليه وسلم- فصل بعد الإجمال، فينبغي للإنسان أن يحرص على الأدعية الواردة عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؛ لأنها أجمع الدعاء وأنفع الدعاء.
575;بو ہريرہ رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہين کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے سجدوں ميں يہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ! تو میرے تمام چھوٹے بڑے، اگلے پچھلے اورعلانیہ وپوشیدہ گناہ بخش دے“ یہ دعا میں بسط و توسع اختیار کرنے کی قبیل سے ہے، اس ليے کہ دعا عبادت ہے اور بندہ جس قدر دعا کرے گا اتنا ہی زياده عبادت کرنے والا ہوگا، اور پھر بار بار دعا کرنے سے بندہ اپنے تمام ظاہر و باطن، چھوٹے اوربڑے گناہ کو یاد کرکے (اس سے توبہ کرے گا) اور اسی حکمت کے پیش نظر نبی ﷺ نے اجمال کے بعد تفصیل سے دعا کی ہے۔ لہذا انسان كو اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت شدہ دعاؤں کا زيادہ سے زيادہ اہتمام کرنا چاہيے کیوں کہ وہ جامع ترين اور سب سے زياده نفع بخش دعائيں ہيں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5470

 
 
Hadith   930   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت


Tema:

اے اللہ! میرے وہ گناہ معاف فرما دے جو میں نے پہلے کیے اور وہ بھی جو بعد میں کیے، جو چھپ کر کیے اور جو علانیہ کیے۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يكون من آخر ما يقول بين التشهد والتسليم: «اللهم اغفر لي ما قَدَّمتُ وما أخَّرْتُ، وما أسررتُ وما أعلنتُ، وما أسْرَفتُ، وما أنت أعلم به مني، أنت المُقَدِّم، وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے ليے کھڑے ہوتے تو تشہد اور سلام کے مابین آخر میں یہ کلمات پڑھتے تھے: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَ أَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ“ اے اللہ! میرے وہ گناہ معاف فرما دے جو میں نے پہلے کیے اور وہ بھی جو بعد میں کیے، جو چھپ کر کیے اور جو علانیہ کیے اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی (برحق) معبود نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام إلى الصلاة يكون من آخر ما يقول بين التشهد والتسليم: "اللهم اغفر لي ما قدمت"، من سيئة، "وما أخرت"، من عمل، أي: جميع ما فرط مني، "وما أسررت" أي: أخفيت، "وما أعلنت، وما أسرفت"، أي: جاوزت الحد، مبالغة في طلب الغفران بذكر أنواع العصيان، "وما أنت أعلم به مني"، أي: من ذنوبي التي لا أعلمها عدداً وحكماً، "أنت المقدم"، أي: بعض العباد إليك بتوفيق الطاعات، "وأنت المؤخر"، أي: لبعضهم بالخذلان عن النصرة أو أنت المقدم لمن شئت في مراتب الكمال، وأنت المؤخر لمن شئت عن معالي الأمور إلى سفسافها، "لا إله إلا أنت" فلا معبود بحق غيرك.
575;للہ کے رسول ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تشہد وسلام کے درمیان سب سے آخر میں یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ“ اے اللہ! میرے وہ گناہ معاف فرما دے جو میں نے پہلے کیے۔ ”وَمَا أَخَّرْتُ“ اور وہ بھی جو مجھ سے عمل میں کوتاہی ہوئی ہے۔ یعنی جو بھی مجھ سے گناہ کرکے زیادتی اور عمل سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے ان سب کو معاف فرما۔ ”وَمَا أَسْرَرْتُ“ اور جو گناہ جو چھپ کر کیے ”وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ“ اور جو علانیہ کیے اور جو میں نے حد سے تجاوز کیا۔ يہاں مختلف انواع کے گناہوں اورنا فرمانيوں کو ذکر کرکے بخشش طلب کرنے ميں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ ”وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي“ اور ان گناہوں کو بھی معاف فرما جن کو تو مجھ سےزيادہ جانتا ہے اورمیں ان کی تعداد اورحکم کو نہیں جانتا۔ ”أَنْتَ الْمُقَدِّمُ“ تو ہی آگے کرنے والا ہے يعنی بعض بندوں کو اطاعت کی توفيق دے کر۔ ”وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ“ اور تو ہی پيچھے کرنے والا ہے یعنی بعض بندوں کو ان کی مدد نہ کرکے۔ يا جسے تو چاہے اس کے درجات بلند کرکے اسے آگے کرنے والا ہے اور جسے تو چاہےاسے بلند امور سے پستی کی طرف گراکر پيچھے کرنے والا ہے،”لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ“ تيرے سوا کوئی معبود برحق نہيں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5471

 
 
Hadith   931   الحديث
الأهمية: اللهم اغفر لي وارحمني، وألحقني بالرفيق الأعلى


Tema:

اے اللہ ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیقِ اعلی میں شامل کردے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إلَيَّ، يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وارْحَمْنِي، وأَلْحِقْنِي بالرَّفِيقِ الأَعْلَى».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو جب کہ وہ میرے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے یہ دعا مانگتے ہوئے سنا: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وارْحَمْنِي، وأَلْحِقْنِي بالرَّفِيقِ الأَعْلَى“ اے اللہ ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیقِ اعلی میں شامل کردے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما اقترب أجل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- استند إلى أم المؤمنين عائشة -رضي الله عنها- وهو يسأل ربه أن يلحقه بالرفيق  وهم النبيون والصديقون والشهداء والصالحون.
580;ب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیے اور آپ ﷺ اپنے رب سے دعا کر رہے تھے کہ وہ آپ ﷺ کو رفیق اعلی کے ساتھ ملا دے۔ رفیق اعلی سے مراد انیباء، صدیقین ، شہداء اور نیک لوگ ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5472

 
 
Hadith   932   الحديث
الأهمية: اللهم إنا نجعلك في نحورهم ونعوذ بك من شرورهم


Tema:

اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- كَانَ إذا خَافَ قوماً، قالَ: «اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ“ اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله: "اللهم إنا نجعلك في نحورهم"، أي: أمامهم تدفعهم عنا وتمنعنا منهم، وخص النحر لأنه أسرع وأقوى في الدفع والتمكن من المدفوع، والعدو إنما يستقبل بنحره عن المناهضة للقتال أو للتفاؤل بنحرهم أو قتلهم، "ونعوذ بك من شرورهم"، ففي هذه الحال يكفيك الله شرهم، والمراد نسألك أن تصد صدورهم، وتدفع شرورهم، وتكفينا أمورهم، وتحول بيننا وبينهم.
كلمتان يسيرتان إذا قالهما الإنسان بصدق وإخلاص، فإن الله تعالى يدافع عنه، والله الموفق.

Esin Hadith Caption Urdu


”اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ“ یعنی ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں تاکہ تو انہیں ہم سے دور کرے اور ہمیں ان سے بچائے۔ یہاں ”نَحر“ (سینہ) کا ذکر بطور خاص کیا گیا کیونکہ یہ دفاع کرنے میں اور جس سے دفاع کیا جا رہا ہے اس پر قابو پانے میں سب سے تیز اور سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اور دشمن لڑائی کےلیے اٹھ کھڑے ہونے کے وقت اپنے سینے ہی سے سامنا کرتا ہے۔ یا پھر اس میں دشمنوں کو ذبح کرنے یا انہیں قتل کرنے کی نیک شگونی ہے۔ ”وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ“اور ہم تیرے ذریعے ان کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں، چنانچہ اس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کے شر سے کافی ہوجائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تو انہیں ہم سے روک دے، ان کے شر کو ہم سے ہٹا دے اور ان کے سلسلے میں ہمیں کافی ہو جا اور ہمارے اور ان کے مابین حائل ہوجا۔ یہ دو آسان لفظ ہیں جنہیں اگر کوئی شخص ایمانداری اور خلوص دل سے پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔   --  [اس حدیث کی سند صحیح ہے۔]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5473

 
 
Hadith   933   الحديث
الأهمية: أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلى اللهِ الأَلَدُّ  الخَصِمُ


Tema:

اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسنديده وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

عن عائشة -رضي الله عنها-  قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلى اللهِ الأَلَدُّ  الخَصِمُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسنديده وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله -تبارك وتعالى- يبغض شديد الخصومة ودائم الخصومة الذي لا يقبل الانقياد للحق.
575;للہ تبارک و تعالیٰ کو وہ شخص ناپسند ہے جو سخت جھگڑالو ہو اور ہمیشہ لڑتا ہی رہے اور حق کو قبول نہ کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5474

 
 
Hadith   934   الحديث
الأهمية: أَحَبُّ الْكَلَامِ إلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ، لَا يَضُرُّك بِأَيِّهِنَّ بَدَأْت: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ


Tema:

اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ یہ کلمات چار ہیں، تم ان میں سے جسے چاہو پہلے کہو، اس میں کوئی حرج نہیں ”سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ“۔

عن سَمُرة بن جُنْدَب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أحب الكلام إلى الله أربع لا يَضُرُّك بِأَيِّهِنَّ بدأت: سُبْحَانَ الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر».

سمرة بن جندب رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ یہ کلمات چارہیں، تم ان میں سے جسے چاہو پہلے کہو، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ”سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على فضل هذه الجمل الأربع، وأنها من أحب كلام البشر إلى الله تعالى، لاشتمالها على أمور عظيمة، وهي تنزيه الله تعالى، ووصفه بكل ما يجب له من صفات الكمال، وإفراده بالوحدانية والأكبرية، وأن فضلها وحصول ثوابها لا يقتضي ترتيبها كما جاءت في الحديث.
581;دیث میں ان چار جملوں کی فضیلت کا بیان ہے اور اس بات کی وضاحت ہے کہ یہ کلمات اللہ کے ہاں بشری کلام میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں کیونکہ یہ انتہائی عظیم امور پر مشتمل ہیں ۔ ان میں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہے اور اللہ کو اس کی سزاوار صفاتِ کمال سے متصف کیا گیا ہے اور اس کی یکتائیت و کبیریائی کا اظہار ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس حدیث میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ ان کی فضیلت اور ان سے ملنے والا ثواب اس بات کا متقاضی نہیں کہ انہیں اسی ترتیب سے پڑھا جائے جس ترتیب سے یہ حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5475

 
 
Hadith   935   الحديث
الأهمية: أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ


Tema:

جو شے سب سے زیادہ جنت میں داخلے کا سبب بنے گی وہ اللہ کا تقوی اور اچھے اخلاق ہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شے سب سے زیادہ جنت میں داخلے کا باعث بنے گی وہ اللہ کا تقوی اور اچھے اخلاق ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث دليل على فضل التقوى، وأنها سبب لدخول الجنة، وكذلك فضل حسن الخلق وأن هذين الأمرين "التقوى وحسن الخلق" من أعظم وأكثر الأسباب التي تدخل العبد الجنة.
740;ہ حدیث تقوی کی فضیلت کی دلیل ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تقوی جنت میں داخلے کا ایک سبب ہے۔ اسی طرح اس میں حُسنِ خلق کی فضیلت کا بھی بیان ہے اور یہ کہ یہ دونوں امور یعنی تقوی اور حُسنِ خلق ان بڑے اسباب میں سے ہیں جو سب سے زیادہ بندے کے جنت میں داخلے کا باعث بنیں گے۔   --  [حَسَن صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5476

 
 
Hadith   936   الحديث
الأهمية: الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ


Tema:

یہ کلمے باقیات صالحات (یعنی باقی رہنے والی نیکیاں) ہیں : ”لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ“۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کلمے باقیات صالحات (یعنی باقی رہنے والی نیکیاں) ہیں : ”لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث دليل على فضل هذا الذكر بهذه الصيغة، لما فيه من معاني التسبيح والتقديس والتعظيم لله جل وعلا و لما فيه من حمد الله على أفعاله فلا حيلة للعبد ولا حركة ولا استطاعة إلا بمشيئة الله تعالى، فلا حول في دفع الشر، ولا قوة في تحصيل خير، إلا بالله جل وعلا.   فهذه الكلمات بهذه المعاني العظيمة هي مما يبقى أثره ونفعه للمؤمن بعد موته.
575;س حديث ميں ان الفاظ كے ساتھ ذكر كرنے کی فضیلت کا بیان ہے کیونکہ ان میں اللہ تعالی کی تسبیح، تقدیس اور تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں اور اس لئے بھی کہ ان میں اللہ کے افعال پر اس کی حمد بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ کی مشیئت کے بغیر بندہ کوئی تدبیر، یا کوئی حرکت نہیں کرسکتا اور نہ اس کی کوئی قوت واستطاعت ہے۔ پس اللہ جل وعلا کی توفیق کے بغیر نہ شر کو دور کرنے کی طاقت ہے اور نہ ہی بھلائی حاصل کرنے کی قوت۔ ان عظیم الشان معانی پر مشتمل یہ کلمات ایسے ہیں جن کا اثر اور فائدہ مومن کے لیے اس کی موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔   --  [یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔]+ +[اسے ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5477

 
 
Hadith   937   الحديث
الأهمية: الْحَيَاءُ مِنْ الْإِيمَانِ


Tema:

حیا ایمان کا حصہ ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «الْحَيَاء مِنْ الْإِيمَانِ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”حیا ایمان کا حصہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحياء من الإيمان لأن المستحيي يُقْلِع بحيائه عن المعاصي، ويقوم بالواجبات، وهذا من تأثير الإيمان بالله -تعالى- إذا امتلاْ  به القلب، فإنه يمنع صاحبه من المعاصي ويحثه على الواجبات،
فصار الحياء بمنزلة الإيمان، من حيث أثر فائدته على العبد.

Esin Hadith Caption Urdu


’حیا‘ ایمان کا ایک جز ہے کیوں کہ حیادار شخص گناہوں سے باز رہتا ہے اور فرائض کو انجام دیتاہے۔ یہ سب ایمان باللہ ہی کی تاثیر ہوتی ہے ۔ جب دل اس ایمان سے بھرا ہو تو وہ آدمی کو گناہوں سے روکتاہے اور فرائض کی انجام دہی پر ابھارتاہے۔
چنانچہ بندے پر اپنی تاثیر کی بدولت ’حیا‘ ایمان کی طرح ہوگئی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5478

 
 
Hadith   938   الحديث
الأهمية: الدعاء بين الأذان والإقامة لا يرد


Tema:

اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-قال: «الدعاء بين الأذان والإقامة لا يرد».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يدل هذا الحديث على فضل الدعاء بين الأذان والإقامة، فمن أُلهِم الدعاء ووفق له فقد أُريد به الخير وأُرِيدتْ له الإجابة.
ويستحب الدعاء في هذا الوقت؛ لأن الإنسان ما دام ينتظر الصلاة فهو في صلاة، والصلاة موطن لاستجابة الدعاء؛ لأن العبد يناجي ربه فيها، فهذا الوقت على المسلم أن يجتهد فيه بالدعاء.
740;ہ حدیث اذان اور اقامت کے درمیان دعا کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ پس جس شخص کو (اس وقت) دعا کرنے کی توفیق نصیب ہوگئی تو درحقیقت اس کے ساتھ خیركا اور قبولیت کا ارادہ کیا گیا ہے۔
آذان اور اقامت کے درمیان دعا كرنا اس ليے مستحب ہے كيونکہ انسان جب تک نماز کا انتظار كرتا رہتا ہے، تو وہ نماز ہى میں رہتا ہے اور نماز دعا کی قبولیت کی جگہ ہے كيونکہ اس میں بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ اس وقت خوب دعا كرے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5479

 
 
Hadith   939   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي إلَيْهَا مَعَادِي، وَاجْعَلْ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلْ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ


Tema:

اے اللہ! میرے دین کو درست کر دے، جو میرے ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور میری دنیا کو درست کر دے جس میں میری گزران ہے اور میری آخرت کو درست کر دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم أصلح لي ديني الذي هو عِصْمَةُ أمري و اصلح لي دنياي التي فيها معاشي ، و أصلح لي آخرتي التي إليها مَعَادِي و اجعل الحياة زيادة لي من كل خير و اجعل الموت راحة لي من كل شر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:”اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاجْعَلْ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي کُلِّ خَيْرٍ وَاجْعَلْ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ کُلِّ شَرٍّ“ اے اللہ! میرے دین کو درست کر دے، جو میرے ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور میری دنیا کو درست کر دے جس میں میری گزران ہے اور میری آخرت کو درست کر دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من الأدعية التي كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يدعو بها هذا الدعاء الذي تضمن طلب وسؤال خيري الدنيا والآخرة، وأن يجعل الموت في قضائه عليه ونزوله به راحة من شرور الدنيا، ومن شرور القبر لعموم كل شر قبله وبعده، وأن يجعل عمره مصروفاً فيما يحب وأن يجنبه ما يكره وما لا يحب.
740;ہ ان دعاؤں میں سے ہے جو آپ ﷺ مانگا کرتے تھے، جو دنیا و آخرت کی بھلائیوں پر مشتمل ہے، جس میں موت کو اپنے اوپر آنے اور نازل ہونے کو اس دنیا کے تمام شر سے راحت کا باعث بنانے، اسی طرح قبر کے شر سے راحت کا ذریعہ بنا دینے کیوں کہ (زندگی) اس سے پہلے اور بعد کے عمومی شر میں یہ شامل ہے اور اس کی عمر کو ایسے کاموں میں مصروف رکھنے جو اللہ کو پسند ہو اور ان کاموں سے بچانے پر مشتمل ہے جو اللہ کو ناپسند ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5482

 
 
Hadith   940   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مني


Tema:

اے اللہ میری خطاؤں، میری نادانی اور میرے معاملے میں میری زیادتی کو اور ہر اس بات کو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے معاف فرما۔

عن أبي موسى الأشعري –رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يدعو بهذا الدعاء: «اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي، وإسرافي في أمري، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي جِدِّي وَهَزْلِي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي ،وكل ذلك عندي، اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أنت أعلم به مني، أنت الْمُقَدِّمُ وأنت الْمُؤَخِّرُ، وأنت على كل شيء قدير».

ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ یہ دعا کرتے: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّي وَهَزْلِي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أخَّرْتُ، وَمَا أسْرَرْتُ وَمَا أعْلَنْتُ، وَمَا أنتَ أعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أنْتَ المُقَدِّمُ، وأنْتَ المُؤَخِّرُ، وأنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ“ اے اللہ میری خطاؤں، میری نادانی اور میرے معاملہ میں میری زیادتی کو اور ہر اس بات کو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے معاف فرما۔ اے اللہ! جو کام میں نے سنجیدگی سے کیے اور جو مذاق میں ہوگیا، جو بھول کر اور جو جان بوجھ کر گرزا، اُن سب کو معاف فرما۔ اور يہ سب کچھ مجھ سے سرزد ہوا ہے۔ اے اللہ میرے اگلے اور پچھلے گناہ، جو میں نے چھپ کر کیا اور جو علانیہ کیا نیز جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ان سب گناہوں کو معاف فرما۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو بهؤلاء الكلمات العظيمة المشتملة على طلب المغفرة من الله تعالى عن كل ذنب وخطيئة مهما كان شكلها وصورتها، مع مافي هذا الطلب من التواضع والانكسار بين يدي الله سبحانه وتعالى، فخليق بالمسلم أن يدعو الله تعالى بهذا الدعاء تأسياً بالنبي صلى الله عليه وسلم.
585;سول اللہ ﷺ ان عظیم الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے جن میں ہر قسم کے گناہ اور غلطی سے مغفرت طلب کی گئی چاہے اس کی کوئی بھی شکل وصورت ہو اور اس مانگنے (دعا) میں اللہ سبحانہ و تعالی کے سامنے عاجزی و انکساری کا بھی اظہارہے ۔ چنانچہ نبی ﷺ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے یہ دعا مانگے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5483

 
 
Hadith   941   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ إنِّي أسْأَلُكَ العافيَةَ في ديني ودُنْيَايَ وأَهْلي ومَالي، اللَّهُمَّ اسْتُر عَوْراتي وآمِنْ رَوْعاتي، واحفَظْني مِنْ بين يديَّ ومِن خَلْفِي وعن يميني وعن شِمَالي ومِنْ فَوْقِي، وأَعُوذُ بِعَظمَتِك أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری شرم گاہ کی ستر پوشی فرما، مجھے خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، میری حفاظت فرما آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے۔ اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: لم يكنْ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَدَعُ هؤلاء الكلماتِ حين يُمْسي وحين يُصْبحُ: «اللَّهُمَّ إنِّي أسْأَلُكَ العافيَةَ في ديني ودُنْيَايَ وأَهْلي ومَالي، اللَّهُمَّ اسْتُر عَوْراتي وآمِنْ رَوْعاتي، واحفَظْني مِنْ بين يديَّ ومِن خَلْفِي وعن يميني وعن شِمَالي ومِنْ فَوْقِي، وأَعُوذُ بِعَظمَتِك أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح اور شام کرتے، تو ان دعاؤں کو پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے: ”اللَّهُمَّ إنِّي أسْأَلُكَ العافيَةَ في ديني، ودُنْيَايَ، وأَهْلي، ومَالي، اللَّهُمَّ اسْتُر عَوْراتي، وآمِنْ رَوْعاتي، واحفَظْني مِنْ بين يديَّ، ومِن خَلْفِي، وعن يميني، وعن شِمَالي، ومِنْ فَوْقِي، وأَعُوذُ بِعَظمَتِك أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي“ اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری شرم گاہ کی ستر پوشی فرما، مجھے خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، میری حفاظت فرما آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے۔ اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في كل صباح ومساء يحرص على هذا الدعاء ولا يتركه أبداً، لما فيه من معاني عظيمة.
ففيه سؤال الله (العافية في ديني) والمقصود بالعافية أي السلامة في ديني من المعاصي والمخالفات والبدع، وفي (دنياي، وأهلي، ومالي) أي أسألك العافية في دنياي من المصائب والشرور، وأسألك العافية لأهلي من سوء العِشْرَة والأمراض والأسقام وشغلهم بطلب التوسع في الحطام، ولمالي من الآفات والشبهات والمحرمات.
(واستر عوراتي وآمن روعاتي) أي استر كل ما يستحيي منه إذا ظهر من الذنوب والعيوب، وآمني وسلمني من الفزع الذي يخيفني.
(واحفظني من بين يدي, ومن خلفي, وعن يميني, وعن شمالي, ومن فوقي) أي وادفع عني البلاء من الجهات الست فلا يصيبني شر من أي مكان.
(وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي) معناه أستجير وأتحصن بعظمتك من أن أغتال من تحتي خُفْية.
570;پ ﷺ صبح و شام اس دعا کے کہنے کا شوق بے پایاں رکھتے تھے اور اسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ کیوں کہ یہ دعا عظیم معانی پر مشتمل ہے۔
اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگی گئی ہے۔
”العافيَةَ في ديني“ عافیت سے مُراد دینی معاملات میں نافرمانیوں، شرعی خلاف ورزیوں اور بدعات سے سلامتی اور حفاظت ہے۔
”ودُنْيَايَ، وأَهْلي، ومَالي“ دنیاوی عافیت سے مراد مصائب اور شرور سے حفاظت ہے۔ اہلِ خانہ کی عافیت سے مراد بُرى معاشرت، امراض وبىمارىوں اور دنیا طلبی میں انہماک سے حفاظت۔ اور مالی عافیت سے مراد اپنے مال کا آفتوں، شبہات اور حرام امور سے حفاظت ہے۔
”اللَّهُمَّ اسْتُر عَوْراتي، وآمِنْ رَوْعاتي“ یعنی میرے گناہوں اور عیوب میں سے ہر وہ چیز، جس کے ظاہر ہونے پر مجھے شرم آئے، اس پر پردہ ڈال دے۔ اور مجھے اس خوف سے امن و سلامتی میں رکھ، جو مجھے خوف زدہ کرے۔
”واحفَظْني مِنْ بين يديَّ، ومِن خَلْفِي، وعن يميني، وعن شِمَالي، ومِنْ فَوْقِي“ یعنی چھ اطراف سے آنے والی بلاؤوں اور مصیبتوں سے میری حفاظت فرما اور ہر جگہ کے شر کے سے مجھے بچا۔
”وَأَعُوذُ بِعَظمَتِك أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي“ یعنی میں تیری عظمت کے طفیل اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ نیچے سے خفیہ طور پر مجھے اچک لیا جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5485

 
 
Hadith   942   الحديث
الأهمية: لقد سأل الله باسمه الذي إذا سُئِلَ به أعطى، وإذا دُعِيَ به أجاب


Tema:

اس نے اللہ سے، اس کا وہ نام لے کر مانگا ہے کہ جب اس سے کوئی یہ نام لے کر مانگتا ہے ،تو عطا کرتا ہے اور جب کوئی دعا کرتا ہے تو قبول فرماتا ہے۔

عن بريدة -رضي الله عنه- قال: سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلاً يقول: اللهم إني أسألك بأني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت، الأحد الصمد، الذي لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوًا أحد.   فقال: «لقد سأل الله باسمه الذي إذا سُئِلَ به أعطى، وإذا دُعِيَ به أجاب»

بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو یہ کلمات کہتے سنا:”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ“ اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تو تنہا اور ایسا بے نیاز ہے، جس نے نہ جنا ہے، نہ جنا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:”اس نے اللہ سے اس کا وہ نام لے کر مانگا ہے کہ جب اس سے کوئی یہ نام لے کر مانگتا ہے، تو عطا کرتا ہے اور جب کوئی دعا کرتا ہے، تو قبول فرماتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الدعاء العظيم الذي سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا الأعرابي يدعو به ويتوسل إلى الله تضمن اسم الله تعالى الأعظم، واشتمل على توحيد الله وأنه أحد صمد يسأله الناس حوائجهم، وهو لم يلد لأنه لامثيل له ولأنه مستغن عن كل أحد، ولم يولد، ولم يكن له كفواً أحد، فليس له أحد يماثله لا في ذاته ولا في صفاته ولا في أفعاله.
فهذه المعاني العظيمة التي هي أصل ومدار التوحيد جعلت هذا الدعاء أعظم أنواع الأدعية، وما من عبدٍ دعا الله به إلا أعطي ما سأل.
740;ہ عظیم دعا مانگتے ہوئے آپ ﷺ نے ایک اعرابی کو سنا، وہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ اختیار کررہا تھا، جو کہ اسمِ اعظم اور اللہ کی توحید پر مشتمل ہے کہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے، لوگ اس سے اپنی ضرورتیں مانگتے ہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں، اس لیے کہ اس کا کوئی مثل نہیں، وہ ہر ایک سے مستغنی ہے، نہ وہ جنا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔ کوئی اس کی ذات، صفات اور افعال میں اس کے مشابہ نہیں۔
یہ وہ عظیم معانی ہیں جو توحید کی اصل اور بنیاد کہلاتی ہیں اور جنھوں نے اس دعا کو عظیم دعاؤوں میں سے بنا دیا۔ جو بھی بندہ اس کے ذریعے اللہ سے دعا مانگتا ہے اللہ اسے جو مانگے عطا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5486

 
 
Hadith   943   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك مِنْ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِك مِنْ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْت مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتا ہوں، جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے، جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- علمها هذا الدعاء: اللَّهُمَّ إني أسألك من الخير كله عَاجِلِهِ وآجِلِهِ، ما علمتُ منه وما لم أعلم، وأعوذ بك من الشر كله عَاجِلِهِ وآجِلِهِ، ما علمتُ منه وما لم أعلم، اللَّهُمَّ إني أسألك من خير ما سألك عبدُك ونبيُّك، وأعوذ بك من شر ما عَاذَ منه عبدُك ونبيُّك اللَّهُمَّ إني أسألك الجنة، وما قرب إليها من قول أو عمل، وأعوذ بك من النار، وما قرَّبَ إليها من قول أو عمل، وأسألك أن تجعل كل قضاء قَضَيْتَه لي خيرًا.

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں یہ دعا سکھلائی: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا“ اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتا ہوں، جو مجھ کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے، جو مجھ کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس بھلائی کا طالب ہوں، جو تیرے بندے اور تیرے نبی نے طلب کی ہے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس برائی سے جس سے تیرے بندے اور تیرے نبی نے پناہ چاہی ہے، اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور اس قول و عمل کا بھی، جو جنت سے قریب کر دے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور اس قول و عمل سے، جو جہنم سے قریب کر دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ہر وہ حکم جس کا تو نے میرے لیے فیصلہ کیا ہے، بہتر کر دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
علم النبي -صلى الله عليه وسلم- عائشة -رضي الله عنها- هذا الدعاء الذي جمع الكلمات النافعة الجامعة لخيري الدنيا والآخرة، والاستعاذة من شرهما، وسؤال الجنة وأعمالها، والاستعاذة من النار وأعمالها، وسؤال الله أن يجعل كل قضاء خيرًا، وسؤال الله -تعالى- من خير ما سأله الرسول -صلى الله عليه وسلم-، ويستعيذ مما استعاذه منه الرسول -صلى الله عليه وسلم-.
570;پ ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا سکھائی۔ یہ ایسی مفید دعا ہے جو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کی جامع اور ان کے تمام شرور سے پناہ پر مشتمل ہے۔ جنت اور اس تک پہنچانے والے تمام اعمال کا سوال کرنے اور جہنم اور اس تک پہنچانے والے اعمال سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ہر فیصلے کی بھلائی اور ان تمام اچھائیوں پر مشتمل ہے، جو آپ ﷺ نے مانگی اور ان تمام شرور سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے جن سے اللہ کے رسول ﷺ نے پناہ طلب کی۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5487

 
 
Hadith   944   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ إنِّي أَعوذُ بك مِنْ زوالِ نعمتِكَ, وتحوُّلِ عافيتِكَ, وفُجَاءةِ نقْمتِكَ, وجَميعِ سَخَطِكَ


Tema:

اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیرى ناگہانی گرفت سے، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تيری پناہ مانگتا ہوں۔

عن عبد الله بن عمر- رضي الله عنهما- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللَّهُمَّ إنِّي أَعوذُ بك مِنْ زوالِ نعمتِكَ, وتحوُّلِ عافيتِكَ, وفُجاءةِ نقْمتِكَ, وجَميعِ سَخَطِكَ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اللَّهُمَّ إنِّي أَعوذُ بك مِنْ زوالِ نعمتِكَ، وتحوُّلِ عافيتِكَ، وفُجَأةِ نقْمتِكَ، وجَميعِ سَخَطِكَ“ اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیرى ناگہانی گرفت سے، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تيری پناہ مانگتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا دعاء عظيم يقول فيه النبي -صلى الله عليه وسلم- (اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك) أي ألتجئ وأعتصم بك من ذهاب النعم من غير بدل (وتحول عافيتك) انتقال عافيتك بمرض أو فقر أو غيرهما، فهو يسأل الله السلامة من جميع مكاره الدارين.
(وفجاءة نقمتك وجميع سخطك) وكذلك نعتصم بك من المكافأة بالعقوبة والأخذ بغتة، وختم الدعاء بالتعوذ من جميع ما يغضب الله ويسخطه جل وعلا.
740;ہ ایک عظيم دعا ہے جس میں نبى كريم ﷺ فرما رہے ہیں کہ: ”اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں“ یعنی میں بغير كسى عوض کے نعمتوں کے چھن جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ”تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے“ یعنی کسی بیماری یا غربت یا کسی اور سبب سے تیری عنایت کردہ عافیت ختم نہ ہوجائے۔ چناں چہ آپ ﷺ دونوں جہانوں کی تمام ناگوار امور سے اللہ تعالیٰ سے سلامتی كا سوال کررہے ہیں۔ ”اور تیرے ناگہانی انتقام اور ہر قسم کی ناراضی سے پناہ چاہتا ہوں“ اسی طرح ہم ناگہانی عذاب اور اچانک گرفت سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے دعا کا اختتام ہر اس شے سے پناہ مانگتے ہوئے کیا جو اللہ کو غضبناک اور ناراض کرتی ہيں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5488

 
 
Hadith   945   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ, وغَلَبَةِ العَدُوِّ, وشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ


Tema:

اے اللہ! میں قرض کے غلبے، دشمن کے غلبے اور مصیبت میں دشمنوں کی خوشی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من غَلَبَةِ الدَّيْنِ, وغَلَبَةِ العدو, وشَمَاتَةِ الأعداء».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے: ”اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من غَلَبَةِ الدَّيْنِ, وغَلَبَةِ العدو, وشَمَاتَةِ الأعداء“ اے اللہ! میں قرض کے غلبے، دشمن کے غلبے اور مصیبت میں دشمنوں کی خوشی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يستعيذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بالله ويعتصم به من ثِقل الدَّين وشدته بحيث يعجز عن قضائه، ومن انتصار العدو عليه ومن قهره وتحكمه فيه، ومن فرح الأعداء وسرورهم بما يصيبه من نكبات في بدنه أو أهله أو ماله.
606;بی ﷺ قرض کے بوجھ اور اس کی ادائیگی کی بے بسی سے اللہ کی پناہ مانگ رہے ہیں اور اس کو سہارا بنا رہے ہیں۔ اسی طرح اس بات سے اللہ کی پناہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ پر دشمن فتح و غلبہ حاصل کر لے، اس کا حکم چلنے لگے اور آپ کے بدن، اہل خانہ یا مال میں لاحق ہونے والے مصائب کی وجہ سے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع ملے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5489

 
 
Hadith   946   الحديث
الأهمية: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إذَا أَصْبَحَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ بِك أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِك نَحْيَا، وَبِك نَمُوتُ، وَإِلَيْك النُّشُورُ، وَإِذَا أَمْسَى قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، أَلَا أَنَّهُ قَالَ: وَإِلَيْك الْمَصِيرُ


Tema:

جب صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺ فرماتے: اے اللہ! تیری حفاظت میں ہم نے صبح کی اور تیری حفاظت میں ہی شام کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ جب شام ہوتی تو تب بھی آپ ﷺ اسی طرح فرماتے تاہم اس میں ”إِلَيْك النُّشُورُ“ کے بجائے ”إِلَيْك الْمَصِيرُ“ فرماتے یعنی تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أصبح يقول: «اللهم بك أصبحنا، وبك أمسينا، وبك نحيا، وبك نموت، وإليك النُّشُورُ» وإذا أمسى قال: «اللهم بك أمسينا، وبك نحيا، وبك نموت. وإليك المصير».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ بِك أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِك نَحْيَا، وَبِك نَمُوتُ، وَإِلَيْك النُّشُورُ“ اے اللہ ! تیری حفاظت میں ہم نے صبح کی اور تیری حفاظت میں ہی شام کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ اورجب شام ہوتی تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے: ”اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَـينا، وَبِكَ أَصْـبَحْنا، وَبِكَ نَحْيَا، وَبِكَ نَمُوتُ، وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ“ اے اللہ ! تیری حفاظت میں ہم نے شام کی اور تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہوتے اور تیرے ہی نام پر ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن العبد يستعين بالله -تعالى- وبقدرته وقوته في بداية يومه ونهايته، ويعترف بأنه سبحانه بقدرته أوجدنا وأوجد الصباح والمساء، والحياة والموت، وإليه المرجع والمآل بعد البعث.
576;ندہ اپنے دن کے آغاز اور انتہا پر اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت سے مدد مانگتا ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے ہم کو، صبح و شام کو اور زندگی و موت کو وجود بخشا اور موت کے بعد دوبارہ اٹھ کر اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5490

 
 
Hadith   947   الحديث
الأهمية: اللَّهُمَّ كَمَا حَسَّنْت خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي


Tema:

اے اللہ! جیسے تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے ویسے ہی میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :«اللهم كما حَسَّنْت خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي».

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: ”اللَّهُمَّ كَمَا أَحْسَنْتَ خَلْقِي، فَحَسِّنْ خُلُقِي“ اے اللہ! جیسے تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے ویسے ہی میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
على الإنسان أن يسأل الله -عز وجل- كما أحسن صورته الظاهرة وجملها وكملها أن يحسن صورته الباطنة فيهبه أخلاقًا كريمة تكمُل بها إنسانيته ويطهر بها باطنه.
575;نسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ جیسے اس نے اس کی ظاہری صورت اچھی بنائی ہے اور اسے خوبصورت اور مکمل انداز میں تخلیق کیا ہے، ویسے ہی وہ اس کی باطنی صورت کو بھی اچھا بنا دے اور اسے ایسے عمدہ اخلاق عنایت کرے جن سے اس کی انسانیت کی تکمیل ہو جائے اور ان کی وجہ سے اس کا باطن پاک صاف ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5491

 
 
Hadith   948   الحديث
الأهمية: الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنْ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ


Tema:

وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے، اس مومن سے بہتر ہے، جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر نہیں کرتا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «المؤمن الذي يخالط الناس, ويصبر على أذاهم خير من الذي لا يخالط الناس ولا يصبر على أذاهم».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ مؤمن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے، اس مؤمن سے بہتر ہے، جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث دليل على فضل مخالطة الناس والاجتماع بهم، وأن المؤمن الذي يداخل الناس ويجتمع بهم، ويصبر على ما يصيبه من الأذى بسبب نصحهم وتوجيههم، أفضل من المؤمن الذي لا يخالط الناس، بل ينفرد عن مجالسهم وينزوي عنهم أو يعيش بمفرده، لأنه لا يصبر على أذاهم.
575;س حدیث میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ان سے میل جول بڑھانے کی فضیلت کی دلیل ہے۔ بلاشبہ وہ مومن جو لوگوں کےمسائل کے تئیں انہماک کے ساتھ سرگرم عمل رہتا ہے، ان کے ساتھ میل جول اختیار رکھتا ہے اور اور انھیں نصیحت کرنے اور درست راہ دکھانے میں لاحق مصائب پر صبر و تحمل کا مظاہر کرتا ہے، اس مؤمن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ میل ملاپ نہیں رکھتا، بلکہ ان کے اٹھنے بیٹھنے سے الگ رہتا ہے اور ان سے گوشۂ تنہائی کو ترجیح دیتا ہے یا انفرادی حیثیت سے اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر نہیں کرتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5492

 
 
Hadith   949   الحديث
الأهمية: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُك وَاسْتَعِنْ بِاَللَّهِ وَلَا تَعْجِزْ


Tema:

طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ تاہم خیر تو دونوں ہی میں ہے۔ جو چیز تمہارے لئے فائدہ مند ہو اس کی حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: "المؤمن القوي، خيرٌ وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وفي كلٍّ خيرٌ، احْرِصْ على ما ينفعك، واسْتَعِنْ بالله ولا تَعْجِزْ، وإن أصابك شيء، فلا تقل لو أني فعلت كان كذا وكذا، ولكن قل قَدَرُ الله وما شاء فعل، فإن لو تفتح عمل الشيطان".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ تاہم خیر تو دونوں ہی میں ہے۔ جو چیز تمہارے لیے فائدے مند ہو، اس کی حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آ جائے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا، تو ایسا ہوجاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوںکہ ”اگر“ شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المؤمن القوي في إيمانه، وليس المراد القوي في بدنه، خير من المؤمن الضعيف، وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وأن المؤمن القوي والضعيف إن استويا بالإيمان، فإن القوي نفعه متعدٍ إلى غيره، أما الضعيف فنفعه قاصر على نفسه، بهذا كان القوي أفضل من الضعيف، وفي كلٍّ خيرٌ؛ لئلا يتوهم أحد من الناس أن المؤمن الضعيف لا خير فيه، بل المؤمن الضعيف فيه خير، فهو خير من الكافر بلا شك.
ثم وصَّى النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته وصية جامعة مانعة، فأمرهم بالاجتهاد في تحصيل وفعل ما ينفعهم، سواء في الدين أو في الدنيا، فإذا تعارضت منفعة الدين ومنفعة الدنيا فتقدم منفعة الدين؛ لأن الدين إذا صلح صلحت الدنيا، أما الدنيا إذا صلحت مع فساد الدين فإنها تفسد.
وأن يستعينوا بالله ولو على الشيء اليسير، وأن لا يركنوا إلى الكسل والعجز.
ثم أمرهم بعدما حرصوا وبذلوا الجهد واستعانوا بالله واستمروا على الفعل إذا خرج الأمر على خلاف ما يريدون أن لا يقولوا: لو أنا فعلنا لكان كذا؛ لأن هذا الأمر فوق إرادتهم، فالمرء يفعل ما يؤمر به، والله غالب على أمره، وأما كلمة لو فتفتح الوساوس والأحزان والندم والهموم.
ولكن على المرء أن يقول ما ورد، ومعناه: هذا تقدير الله وقضاؤه، وما شاء الله -عز وجل- فعله.
662;نے ایمان کے اعتبار سے طاقت ور مومن، کمزور ایمان والے مومن سے زیادہ بہتر اور اللہ کا زیادہ پسندیدہ ہے۔ یہاں بدنی اعتبار سے طاقت ور مراد نہیں ہے۔ اور یہ کہ طاقتور اور کمزور مومن ایمان کے اعتبار سے برابر بھی ہوں، تب بھی طاقت ور مومن کا نفع دوسروں تک پہنچتا ہے، جب کہ کمزور کا نفع اس کی ذات تک محدود رہتا ہے۔ اسی وجہ سے طاقت ور مومن کمزور سے افضل ہے۔ تاہم دونوں ہی میں خیر ہے۔ آپ ﷺ نے ایسا اس لیے فرمایا، تاکہ کہیں لوگ یہ گمان نہ کر لیں کہ کمزور مومن میں کوئی بھلائی ہی نہیں ہوتی۔ جب کہ کمزور مومن میں بھی بھلائی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کافر سے بہر طور بہتر ہی ہوتا ہے۔
پھر نبی ﷺ نے اپنی امت کو ایک جامع و مانع نصیحت فرمائی اور انہیں ایسی اشیا کے حصول کے لیے محنت کرنے اور ایسے کام کرنے کا حکم دیا، جو ان کے لیے نفع بخش ہوں، چاہے ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے۔ اگر کبھی دینی و دنیاوی منفعت کا باہم تعارض ہو جائے، تو اس صورت میں دینی منفعت مقدم ہوتی ہے؛ کیوںکہ جب دین درست ہوتا ہے تو دنیا بھی درست ہو جاتی ہے، جب کہ اگر دنیا کی درستگی دین کے بگاڑ کے ساتھ ہو تو۔ دنیا بھی بگڑ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے نصیحت کی کہ لوگ اللہ سے مدد مانگیں، اگرچہ وہ بہت ہی معمولی چیز کے لیے ہی کیوں نہ ہو اور یہ کہ وہ سستی اور عاجزی کی طرف مائل نہ ہوں۔
پھر چاہت رکھنے، محنت کرنے، اللہ سے مدد مانگنے اور کام کو جاری رکھنے کے بعد بھی اگر نتائج من پسند نہ نکلیں، تو آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ پھر یوں نہ کہیں کہ:اگر ہم ایسا کر لیتے تو ایسا ہوجاتا۔ کیوںکہ یہ چیز ان کے ارادے کے دائرے سے بالا تر ہے۔ بندے کو جس شے کے کرنے کا حکم ہے وہ اسے کرتا ہے، جب کہ بات اللہ ہی کی غالب رہتی ہے۔ ایسے میں لفظ "اگر" وسوسوں، دکھوں، ندامتوں اور غموں کا سبب ہوا کرتا ہے۔ اس کی بجائے بندے کو وہ کہنا چاہئے جو وارد ہوا ہے اور جس کا معنی یہ ہےکہ: یہ اللہ کا ارادہ اور اس کا فیصلہ ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5493

 
 
Hadith   950   الحديث
الأهمية: الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ


Tema:

مومن اپنے مومن بھائی کا آئینہ ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن اپنے مومن بھائی کا آئینہ ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث وصف نبوي بديع، وتشبيه بليغ، يبين موقف الأخ المسلم من أخيه، ويحدد مسؤوليته تُجَاهَهُ، فيرشده إلى محاسن الأخلاق فيفعلها، وإلى مساوئ الأخلاق فيجتنبها، فهو له كالمرآة الصقيلة التي تريه نفسه على الحقيقة، وهذا يفيد وجوب النصح للمؤمن، فإذا اطلع على شيء من عيوب أخيه وأخطائه نبهه عليها وأرشده إلى إصلاحها، لكن بينه وبينه، لأن النصح في الملأ فضيحة.
575;س حدیث میں ایک بے مثل پیغمبرانہ بیان اور بلیغ (جامع ومعنى خيز) تشبیہ ہے، جو ايک مسلمان بھائی کے اپنے بھائی كے متعلق رویے کی وضاحت کرتی ہے اور اس کے تئیں اس کی ذمہ داری كا تعین کرتی ہے۔ چنانچہ مسلمان اپنے بھائی کی اچھے اخلاق کی طرف راہنمائی کرتا ہے تو وہ انہیں اپناتا ہے، اور برے اخلاق سے خبردار كرتا ہے تو وه ان سے گریز کرتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے ليے صیقل شدہ آئينے کے مانند ہے جو اسے اس کا سراپا حقيقى شكل میں دکھاتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مومن کو نصیحت کرنا واجب ہے۔ لہٰذا جب وه اپنے بھائی کى خامیوں اور غلطیوں میں سے کسی خامی اور غلطی پر مطلع ہو تو اسے اس پر متنبہ کرے اور ان کی اصلاح کى طرف اس کی راہنمائى كرے۔ البتہ یہ نصیحت صرف اس کے اور اس کے بھائی کے مابین ہونی چاہیے، کیونکہ برسرِعام نصیحت کرنا رسوائی ہے۔   --  [اس حديث کی سند حَسَنْ ہے۔]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5494

 
 
Hadith   951   الحديث
الأهمية: إِنَّ اللَّعَّانِين لا يَكُونُونَ شُفَعَاءَ, وَلا شُهَداءَ يَوْمَ القِيَامةِ


Tema:

بہت زیادہ لعنت کرنے والے روزقیامت نہ سفارش کرنے والے ہوں گے اور نہ گواہی دینے والے ہوں گے۔

عن أبي الدرداء -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إِنَّ اللَّعَّانِين لا يَكُونُونَ شُفَعَاءَ, وَلا شُهَداءَ يَوْمَ القِيَامةِ».

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بہت زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہی دینے والے نہیں ہوں گے اور نہ ہی شفاعت کرنے والے ہوں گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث التحذير من كثرة اللَّعن، وأنَّ من يكثر اللَّعن ليس له منزلة عند الله -تعالى-، ولا تقبل شفاعتهم في الدنيا؛ لأنهم غير عدول، والشهادة لا تقبل إلا من العدل، ولا تقبل شفاعتهم في إخوانهم لدخول الجنة ولا شهادتهم في الآخرة، وأيضاً لا تقبل شفاعتهم على الأمم السابقة في أن رسلهم بلغوا الرسالة.
581;دیث میں کثرت کے ساتھ لعن طعن کرنے سے ڈرایا گیا ہے اور یہ کہ ایسے شخص کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دنیا میں ان کی شفاعت قبول نہیں کی جاتی، کیونکہ یہ لوگ غیر عادل ہیں اور گواہی صرف عادل شخص کی قبول کی جاتی ہے، اسی طرح ان کی شفاعت ان کے بھائیوں کے حق میں دخول جنت کے لئے بھی قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی آخرت میں ان کی گواہی قبول ہوگی۔ نیز سابقہ امتوں پر ان کی گواہی بھی تسلیم نہیں کی جائے گی کہ ان کے رسولوں نے اللہ کے احکام کو کما حقہ پہنچا دیا تھا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5495

 
 
Hadith   952   الحديث
الأهمية: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْحَى إلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا، حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ


Tema:

الله تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور نہ ہی کوئی کسی پر فخر کرے۔

عن عياض بن حمار -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْحَى إلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا، حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ».

عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”الله تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور نہ ہی کوئی کسی پر فخر کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
التواضع مأمور به، وهو خلق كريم من أخلاق المؤمنين، أوحاه الله تعالى إلى نبيه محمد -صلى الله عليه وسلم-، وهذا دليل على أهميته والعناية به؛ لأن من تواضع فإنه يتذلل ويستسلم عند أوامر الله تعالى فيمتثلها، وعند نواهيه فيجتنبها، و يتواضع فيما بينه وبين الناس.
وفي الحديث النهي عن الافتخار والمباهاة بالمكارم والمناقب على سبيل الافتخار والعلو على الناس.
578;واضع اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ مومنوں کی اخلاقی صفات میں سے ایک بہت ہی بلند پایہ اخلاقی صفت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کی طرف اسے اختیار کرنے کی بابت وحی کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے کتنی اہمیت دی گئی ہے اور اس کا کتنا خیال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے وہ اللہ کے احکام کے سامنے اظہارِ فروتنی کرتے ہوئے سرِتسلیم خم کر دیتا ہے اور انہیں بجا لاتا ہے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ انکساری کے ساتھ پیش آتا ہے۔
حدیث میں اظہارِ فخر، لوگوں پر اظہارِ برتری اور مکارم و مناقب کا ذکر کرتے ہوئے باہمی طور پر تفاخر و مباہات سے منع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5497

 
 
Hadith   953   الحديث
الأهمية: إنَّ رَبَّكُمْ حَييٌّ كَرِيمٌ, يَسْتَحِي مِنْ عَبْدِهِ إذا رَفَعَ إِلَيْهِ يَديْهِ أنْ يَرُدَّهُمَا صِفْراً


Tema:

بے شک تمھارا رب با حیا، اور سخی ہے، وہ اپنے بندے کے اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے حیا کرتا ہے۔

عن سلمان -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن ربكم حَييٌّ  كريم، يستحيي من عبده إذا رفع يديه إليه، أن يَرُدَّهُمَا صِفْراً».

سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بے شک تمھارا رب با حیا، اور سخی ہے، وہ اپنے بندے کے اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے حیا کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل هذا الحديث على مشروعية رفع اليدين في الدعاء، وأن هذا الفعل سبب من أسباب الإجابة، لما في هذه الهيئة من إظهار الحاجة والذل من العبد أمام الغني الكريم، وتفاؤلاً في أن يضع فيهما حاجته التي سأل ربه، لأنه سبحانه من جوده وكرمه يستحي من عبده إذا رفع إليه يديه يسأله أن يردهما صِفْراً خاليتين من العطاء، لأنه هو الجواد الكريم.
740;ہ حدیث دعا میں ہاتھ اٹھانے کی مشروعیت کی دلیل ہے اور اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہاتھ اٹھانا دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے؛ کیونکہ اس ہیئت میں اس غنی اور کریم ذات کے سامنے بندے کی ضرورت مندی اور مسکنت کا اظہار ہوتاہے اور اس میں نیک شگونی کا اظہار بھی ہے کہ اللہ تعالی ان ہاتھوں میں اس کی مانگی گئی شے ڈال دے گا؛ کیوں کہ اللہ تعالی اپنے جود و کرم کی بدولت اس بات سے حیا کرتا ہے کہ جب بندہ سائل بن کر اس کے سامنے ہاتھ اٹھائے، تووہ اسے دیے بغیر خالی ہاتھ ہی لوٹا دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت سخی اور کریم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5499

 
 
Hadith   954   الحديث
الأهمية: إنَّكُمْ لَا تَسَعُونَ النَّاسَ بِأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ لِيَسَعْهُمْ مِنْكُمْ بَسْطُ الْوَجْهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ


Tema:

یقیناً تم اپنے مال ودولت کے ذریعے لوگوں کا دل نہیں جیت سکتے تاہم تمہارا اچھا اخلاق اور ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے ملنا ان کے دل جیت سکتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إنكم لا تسعون الناس بأموالكم وَلْيَسَعُهُمْ منكم بَسْطُ الوجه وحسن الخلق».

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یقینا تم اپنے مال ودولت کے ذریعے لوگوں کا دل نہیں جیت سکتے تاہم تمہارا اچھا اخلاق اور ملاقات کے وقت خندہ پیشانی سے ملنا ان کے دل جیت سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على فضل بسط الوجه وطلاقته وبشاشته عند اللقاء، وفضل حسن الخلق وحسن المعاشرة، ومعاملة الناس بالكلام الطيب والفعل الحسن، وهذا بمقدور كل إنسان، وهذه الأخلاق هي التي تجلب المحبة وتديم الألفة بين أفراد المجتمع.

یہ حدیث ملاقات کے وقت خندہ روئی اور چہرے کی بشاشت کے ساتھ پیش آنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور حسن خلق ، حسن معاشرت اور اسی طرح لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو اور اچھا معاملہ کرنے کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ ایسا کرنا ہر انسان کے بس میں ہوتاہے ۔ یہی وہ اخلاق ہیں جو محبت کو فروغ دیتے ہیں اورافراد معاشرہ کے مابین دائمی الفت پیدا کرتے ہیں۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5500

 
 
Hadith   955   الحديث
الأهمية: فَأَمَّا إذَا أَبَيْتُمْ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا: وَمَا حَقُّهُ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ


Tema:

اگر تم بیٹھنے پر مصر ہی ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی بات کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعًا: "إياكم والجلوسَ على الطُّرُقَاتِ". قالوا: يا رسول الله، ما لنا بُدٌّ من مجالسنا، نتحدث فيها. قال: "فأما إذا أَبَيْتُمْ فأعطوا الطريق حَقَّهُ". قالوا: وما حَقُّهُ؟ قال: "غَضُّ البصر، وكَفُّ الأذى، ورد السلام، والأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: راستوں ميں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسولﷺ! ان مجلسوں کے بغیر تو چارہ نہیں کیوں کہ ہم انہی میں ہی ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم بیٹھنے پر مصر ہی ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی بات کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حذر النبي -صلى الله عليه وسلم- أصحابه من الجلوس في الطرقات، فقالوا: ما لنا غِنًى عنه، فقال: إذا امتنعتم ولا بد أن تجلسوا فيجب عليكم أن تعطوا الطريق حقه، فسألوه عن حق الطريق، فأخبرهم به: أن يغضوا البصر عن النساء اللاتي يمررن أمامهم، وأن يمتنعوا عن أذية المارة سواء بالقول أو بالفعل، وأن يردوا السلام على من ألقاه عليهم، وأن يأمروا بالمعروف وإذا رأوا منكرا أمامهم وجب عليهم إنكاره.
606;بی ﷺ نے اپنے صحابہ کو راستوں میں بیٹھنے سے ڈرایا۔ وہ کہنے لگے کہ اس کے بغیر تو چارہ ہی نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر تم نہیں رکتے اور تمہارے بیٹھے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم راستے کو اس کا حق دو۔ انہوں نے دریافت کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ راستے کا حق یہ ہے کہ وہ ان عورتوں سے اپنی نگاہیں پست رکھیں جو ان کے سامنے سے گزرتی ہیں، راہ گیروں کو قول و فعل کے ذریعے سے ایذاء نہ دیں، جو انہیں سلام کرے اس کے سلام کا جواب دیں، اچھی بات کی تلقین کریں اور اپنے سامنے جب کوئی برا کام ہوتے دیکھیں تو اس صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5501

 
 
Hadith   956   الحديث
الأهمية: كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ


Tema:

آپ ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ”رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ“ (اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا )۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: كان أكثر دعاء النبي -صلى الله عليه وسلم-: «اللهم آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ”رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ“ (اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يدعو بهذا الدعاء، ويكثر من الدعاء به لجمعه معاني الدعاء كله من أمر الدنيا وأمر الآخرة، فالحسنة هنا هي النعمة، فسأل نعيم الدنيا والآخرة، والوقاية من النار، فمن حسنة الدنيا سؤال كل مطلوب ومرغوب، ومن حسنة الآخرة النعمة الكبرى وهي رضا الله ودخول جنته، وأما الوقاية من النار فإنها كمال النعيم وذهاب الخوف والكرب.
606;بی ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے، اور بکثرت دعا کرتے تھے اس لیے کہ اس کے معانی دنیا اور آخرت کے تمام امور کو جامع ہیں۔ اس دعا میں ’’حسنۃ‘‘ سے مراد نعمت ہے، آپ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں اور جہنم سے نجات کی دعا مانگا کرتے تھے، دنیا کی بھلائی ہر مطلوب و مرغوب چیز کو مانگنا ہے اور آخرت کی بھلائی نعمتِ کبریٰ یعنی اللہ کی رضامندی اور جنت میں دخول، جہنم سے نجات یعنی کامل نعمتیں، خوف اور پریشانی کا ختم ہونا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5502

 
 
Hadith   957   الحديث
الأهمية: صيغة سيد الاستغفار


Tema:

سید الاستغفار

عن شداد بن أوس -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: "سيد الاستغفار أن يقول العبد: اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ ما اسْتَطَعْتُ أعوذ بك من شر ما صنعتُ أَبُوءُ لك بنعمتك عليَّ وأَبُوءُ لك بذنبي فَاغْفرْ لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت".

شدادبن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: سىد الاستغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: ”اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لاَ إِلَه إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتَني وأَنَا عَبْدُكَ، وأَنَا عَلَى عهْدِكَ ووعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صنَعْتُ، أَبوءُ لَكَ بِنِعْمتِكَ علَيَ، وأَبُوءُ بذَنْبي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يغْفِرُ الذُّنُوبِ إِلاَّ أَنْتَ“ اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا خالق ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت واستطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئےعہد ووعدے پر قائم ہوں۔ میں اپنےگناہوں کے شر سےتیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے ہرقسم کے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے آپ پر تیری نوازشات کا اقرار کرتاہوں۔ لہذا مجھے معاف فرما، بیشک تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن ألفاظ هذا الدعاء كأنها رئيسة ألفاظ الاستغفار، وهي أن يقول العبد: "اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ ما اسْتَطَعْتُ أعوذ بك من شر ما صنعتُ أَبُوءُ لك بنعمتك عليَّ وأَبُوءُ لك بذنبي فَاغْفرْ لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت"
فيقر العبد لله بالتوحيد أولا، وأنه على ما عاهد الله -سبحانه- عليه من الإيمان به والطاعة له، بحسب استطاعته، لا بحسب ما ينبغي لله -تعالى- ويستحقه عليه، لأن العبد مهما قام به من العبادة لا يقدر أن يأتي بجميع ما أمره الله به ولا القيام بما يجب من شكر النعم، ثم يلتجئ إليه، ويعتصم به، فإنه المستعاذ به من الشر الذي صنعه العبد، ثم يقر العبد ويعترف له طوعا بنعمته عليه، ويرجع على نفسه بالإقرار والاعتراف بإثمه ومعصيته، ثم يدعو الله أن يغفر له بأن يستره من الذنوب ويقيه آثامها بعفوه وفضله ورحمته، فإنه لا يغفر الذنوب إلا هو -عز وجل-.
606;بی کریم ﷺ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ اس دعا کے الفاظ استغفار کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ کے سردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دعا کے الفاظ یہ ہیں کہ بندہ کہے: ”اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي وَأَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ“ (اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا خالق ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت واستطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئےعہد ووعدے پر قائم ہوں۔ میں اپنےگناہوں کے شر سےتیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے ہرقسم کے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے آپ پر تیری نوازشات کا اقرار کرتاہوں۔ لہذا مجھے معاف فرما، بیشک تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔)
بندہ پہلے اللہ کی توحید کا اقرار کرتا ہے، پھر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس نے جس ایمان اور اطاعت کا وعدہ کیا تھا، اس پر کما حقہ نہ سہی، اپنی استطاعت کے مطابق قائم ہے؛کیوں کہ بندہ جتنی بھی عبادت کر لے، اللہ تعالی کے حکم کی کما حقہ بجا آوری اور اس کی نعمتوں کے شکر سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا۔ پھر بندہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑتا ہے، کیوں کہ بندے کے کیے ہوئے شرور سے وہی پناہ دینے والا ہے۔ پھر بندہ اللہ تعالیٰ کے بے بہا انعامات کا اقرار کرتا ہے، جو اس نے اس پر کیے ہیں۔ پھر اس کی نافرمانیوں اور معصیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ اس کے گناہوں کو بخش دے؛ محض اپنے فضل و کرم سے اسے گناہوں سے بچائے۔ کیوں کہ اس کی ذات کے علاوہ کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5503

 
 
Hadith   958   الحديث
الأهمية: عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إلَى الْجَنَّةِ


Tema:

تم سچ بولنے کو لازم پکرو، بلاشبہ سچ نیکو کاری کا راستہ بتلاتا ہے اور نیکو کاری یقینًا جنت میں پہنچا دیتی ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «عليكم بالصدق، فإن الصدق يهدي إلى البِرِّ، وإن البر يهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يصدق ويَتَحَرَّى الصدق حتى يكتب عند الله صِدِّيقًا، وإياكم والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال الرجل يكذب ويَتَحَرَّى  الكذب حتى يكتب عند الله كَذَّابا»

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم سچ بولنے کو لازم پکرو، بلاشبہ سچ نیکو کاری کا راستہ بتلاتا ہے اور نیکو کاری یقینًا جنت میں پہنچا دیتی ہے۔ انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں صدیق ( بہت سچا) لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے نہایت ( مکمل ) پرپیز کرو، کیوںکہ جھوٹ گناہ کا راستہ بتلاتا ہے اور گناہ یقینًا جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔ انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں کذاب ( بہت جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حث النبي -صلى الله عليه وسلم- على الصدق وملازمته وتحريه وبيان ثمرته وعاقبته الحميدة في الدنيا والآخرة، فالصدق أصل البر الذي هو الطريق إلى الجنة، والرجل إذا لزم الصدق كتب مع الصديقين عند الله -تعالى-، وفي ذلك إشعار بحسن الخاتمة وإشارة إلى أنه يكون مأمون العاقبة.
وحذر النبي -صلى الله عليه وسلم- من الكذب و بين مضرته وشؤم عاقبته، فهو أصل الفجور الذي هو طريق إلى النار.
575;س حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے سچ کو اختیارکرنے، اسے لازم پکرنے اور اس سلسلے میں کوشش کرنے کی ترغیب دی ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے اچھے ثمرات کا ذکر فرمایا ہے۔ سچ نیکی کی اصل ہے، جو جنت میں جانے کا راستہ ہے۔ اور جو آدمی سچ کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے، وہ اللہ کے یہاں صدیقین (یعنی بہت سچوں) میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اور اس میں حسن خاتمہ اور عاقبت کے بہتر ہونے کا اشارہ ہے۔
اور آپ ﷺ نے جھوٹ، اس کے نقصانات اور اسکے برے انجام سے بھی خبردار کیا ہے۔ پس جھوٹ بدی کی جڑ ہے جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5504

 
 
Hadith   959   الحديث
الأهمية: كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ


Tema:

دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے ہلکے ہیں، میزان میں بڑے وزنی ہیں، رحمٰن کو بڑے محبوب ہیں وہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ“ ہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: "كَلِمَتَانِ خفيفتان على اللسان، ثقيلتان في الميزان، حبيبتان إلى الرحمن: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے ہلکے ہیں، میزان میں بڑے وزنی ہیں، رحمٰن کو بڑے محبوب ہیں وہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ“ ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن ربنا الرحمن -تبارك وتعالى- يحب هاتين الكلمتين القليلات الحروف مع ثقلهما في الميزان: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم؛ لما تضمنتاه من تسبيح الله تعالى وتنزيهه عن النقائص وعما لا يليق بجلاله -تبارك وتعالى-، والتأكيد على هذا التنزيه بالوصف بالعظمة.
585;سول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اس بات کی خبر دی ہے کہ ہمارے رب رحمٰن تبارک و تعالیٰ کو دو کلمے بڑے پسند ہیں کہ جن کے حروف بہت کم ہیں لیکن میزان میں بڑے وزنی ہیں اور وہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ“ ہیں۔ کیوں کہ یہ کلمات اللہ تعالیٰ کی تسبیح، اور نقائص سے اس کی پاکی اور ایسی چیز سے مُنزّہ اور مبرّا ہونے کو متضمن ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جلالتِ شان کے شایانِ شان نہیں۔ اور اس پاکیزگی کی تاکید عظمت کے وصف کے ذریعہ کی گئی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5507

 
 
Hadith   960   الحديث
الأهمية: لَقَدْ قُلْت بَعْدَك أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْت مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ


Tema:

میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار ایسے کلمات تین بار کہے ہیں کہ جو کچھ تم نے صبح سے اب تک پڑھا ہے اگر اس کا ان کلمات کے ساتھ وزن کرو تو ان کلمات کا وزن زیادہ ہو گا اور وہ کلمات یہ ہیں: ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَاءَ نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ“ اللہ کی حمد و تسبیح بیان کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد اور اس کی رضا کے بقدر نیز اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔

عن جويرية بنت الحارث -رضي الله عنها- قالت: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لقد قلت بعدك أربع كلمات، لو وُزِنَتْ بما قلت منذ اليوم لَوَزَنَتْهُنَّ: سبحان الله وبحمده، عدد خلقه ورضا نفسه وَزِنَةَ عرشه و مِدَادَ كلماته».

جويریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار ایسے کلمات تین بار کہے ہیں کہ جو کچھ تم نے صبح سے اب تک پڑھا ہے اگر اس کا ان کلمات کے ساتھ وزن کرو تو ان کلمات کا وزن زیادہ ہو گا اور وہ کلمات یہ ہیں: ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَاءَ نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ“ اللہ کی حمد و تسبیح بیان کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد اور اس کی رضا کے بقدر نیز اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبر جويرية -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج من عندها حين صلى الصبح ثم رجع ضحى، فوجدها تذكر الله -تعالى-، فأخبرها أنه قال بعدها أربع كلمات لو قوبلت بما قالته لساوتهن في الأجر، أو لرجحت عليهن في الوزن، ثم بينها -صلى الله عليه وسلم- بقوله: "سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته" أي تسبيحًا كثيرًا يبلغ عدد خلقه، ولا يعلم عددهم إلا الله، وتسبيحًا عظيمًا يرضيه سبحانه، وتسبيحًا ثقيلًا بزنة العرش لو كان محسوسًا، وتسبيحًا مستمرًا دائمًا لا ينفد.
575;م المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ نبی ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے لیے ان کے پاس سے باہر نکلے اور چاشت کے وقت واپس آئے تو دیکھا کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر ہی کر رہی ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ آپ ﷺ نے ان کے پاس سے چلے جانےکے بعد چار کلمات پڑھے ہیں اور اگر ان کا مقابلہ ان سب کلمات سے کیا جائے جو انہوں نے صبح سے پڑھی ہے تو وہ اجر کے اعتبار سے ان کے برابر ہو جائیں یا ان سے بھی زیادہ وزنی ہو جائیں۔ پھر نبی ﷺ نے ان کلمات کی وضاحت فرمائی کہ وہ یہ ہیں: ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَاءَ نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ“۔
یعنی اتنی زیادہ تسبیح جو اس کی مخلوق کے بقدر ہو جس کی تعداد کو صرف اللہ ہی جانتا ہے اور اتنی عظیم تسبیح جو اللہ کو راضی کردے اور اتنی بھاری تسبیح جو عرش کے وزن کے برابر ہو اگر عرش کوئی محسوس ہونے والی شے ہوتا اور ایسی تسبیح جو ہمیشہ جاری رہے اور جس میں کبھی انتقطاع نہ آئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5508

 
 
Hadith   961   الحديث
الأهمية: لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنَ الدُّعَاءِ


Tema:

اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ليس شيءٌ أكرمَ على الله من الدعاء».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
(ليس شيء أكرم على الله من الدعاء) لأنه عبادة، والعبادة هي التي خلق الله -تعالى- الخلق من أجلها، فالدعاء يدل على قدرة الله وعلى سعة علمه، وعلى عجز الداعي واحتياجه، لأجل هذا كان الدعاء من أكرم الأشياء على الله -جل وعلا

Esin Hadith Caption Urdu


”اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں“ کیوں کہ دعا ےایک عبادت ہے اور عبادت ہی کے لئے اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے۔ دعا اللہ تعالی کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت کی نشاندہی کرتی ہے اور دعا مانگنے والے کی عاجزی اور اس کی حاجت مندی کی دلیل ہے۔ اسی لئے دعا اللہ عز وجل کے نزدیک سب سے معزز و مکرم چیزوں میں سے ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5509

 
 
Hadith   962   الحديث
الأهمية: مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ عَمَلًا أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ


Tema:

ابن آدم کا کوئی ایسا عمل نہیں جو اسے اللہ کے ذکر سے زیادہ اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا ہو۔

عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ عَمَلًا أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ».

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن آدم کا کوئی عمل ایسا نہیں جو اسے اللہ کے ذکر سے زیادہ اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قد هيأ الله تعالى لعباده المؤمنين الأسباب التي تنال بها الجنة ويتوقى بها من النار، ومن هذه الأسباب ذكره سبحانه وتعالى.
فالحديث دَلَّ على فضل الذكر، وأنه من أعظم أسباب النجاة من مخاوف الدنيا والآخرة، فهو سبب من أسباب النجاة من النار، وهذه الفضيلة تعتبر من أعظم فضائل الذكر.
575;للہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کے لیے ایسے اسباب پیدا کیے ہیں جن کے ذریعے جنت حاصل کی جاتی ہے اور جہنم سے بچا جاتا ہے۔ انہی اسباب میں سے ایک سبب اللہ سبحانہ و تعالی کا ذکر ہے۔
یہ حدیث ذکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ دنیا و آخرت کی خوفناکیوں سے نجات دینے کے بڑے اسباب میں سے ہے۔ یہ جہنم سے نجات کا ایک ذریعہ ہے اوریہ ایک ایسی فضیلت ہے جو ذکر کے فضائل میں سے سب بڑی فضیلت سمجھی جاتی ہے۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5510

 
 
Hadith   963   الحديث
الأهمية: مَا قَعَدَ قَوْمٌ مَقْعَدًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ


Tema:

جس محفل میں لوگ نہ اللہ کا ذکر کریں اور نہ نبی ﷺ پر درود بھیجیں، وہ مجلس قیامت کے دن اِن لوگوں کے لیے باعثِ حسرت ہو گی۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما قعد قوم مقعداً لم يذكروا الله, ولم يصلوا على النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا كان عليهم حسرة يوم القيامة».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس محفل میں لوگ نہ اللہ کا ذکر کریں اور نہ نبی ﷺ پر درود بھیجیں، وہ مجلس قیامت کے دن اِن لوگوں کے لیے باعثِ حسرت ہو گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يدل على ندامة وخسارة القوم الذين يقعدون مقعداً ثم يقومون منه، ولم يجرِ على قلوبهم ولا على ألسنتهم ذكر الله تعالى ولا ذكر رسوله ولا الصلاة عليه -صلى الله عليه وسلم-، فهذه المجالس ستكون حسرة عليهم يوم القامة؛ لأنهم لم يستفيدوا منها.
وهذا إذا كانت هذه المجالس مباحة فما بالك بالمجالس المحرمة التي فيها الغيبة وغيرها.
فينبغي أن تعمر المجالس بذكر الله تعالى والصلاة على رسوله -صلى الله عليه وسلم-.

یہ حدیث ان لوگوں کی ندامت اور خسارے پر دلالت کرتی ہے، جو کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں کہ ان کے دلوں اور زبانوں پر نہ تو اللہ کا ذکر آیا ہوتا ہے، نہ اس کے رسول کا اور نہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ پر درود ہی بھیجا ہوتا ہے۔ اس قسم کی مجلسیں قیامت کے دن اہل مجلس کے لیے حسرت کا باعث ہوں گی؛ کیوں کہ انھوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
یہ اس وقت ہے، جب یہ مجلسیں بذات خود جائز ہوں۔ اگر مجلسیں ہوں ہی سرے سے حرام، بایں طور کہ ان میں غیبت وغیرہ ہورہی ہو، تو ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
چنانچہ مناسب یہ ہے کہ مجلسوں کو اللہ تعالی کے ذکر سے اوراس کے رسول ﷺ پر درود بھیج کر آباد رکھا جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5511

 
 
Hadith   964   الحديث
الأهمية: مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى


Tema:

صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله -عز وجل-»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
(ما نقصت صدقة من مال) المعنى أن الصدقة إذا أخرجت فإنها لا تنقص المال بل تزيده، وتبارك فيه، وتدفع عنه الآفات، الزيادة للمال إما كمية: بأن يفتح الله للعبد أبواباً من الرزق، أو كيفية: بأن ينزل الله تعالى البركة التي تزيد على مقدار ما أخرجه من الصدقة.
وما زاد الله عبداً بعفو إلا عزاً، أي أن من عرف بالعفو وترك المؤاخذة والمعاتبة، فإنه يسود ويعظم في القلوب، ويزداد عزة وكرامة، ورفعة في الدنيا والآخرة.
وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله، المعنى أن من تذلل لله، وانكسر بين يديه سبحانه وتعالى، وكان لين الجانب للخلق، وأظهر الخمول للمسلمين، فإن هذه الصفات لا تزيد المتحلي بها إلا رفعة في الدنيا ومحبة في القلوب، ومنزلة علية في الجنة

Esin Hadith Caption Urdu


”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب صدقہ نکالا جائے تو اس سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے، اس میں برکت ہوتی ہے، مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ مال کی زیادتی یا تو عدد کے لحاظ سے ہوگی، بایں طور کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے رزق کے دروازے کھولے گا یا کیفیت کے اعتبار سے زیادتی ہوگی، بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا اور وہ برکت صدقہ کیے گیے مال سے زیادہ ہوگی۔
”اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص معاف کرنے اور انتقام نہ لینے میں مشہور ہو، لوگوں کے دلوں میں اس کی بڑائی بیٹھے گی اور دنیا و آخرت میں اس کی عزت، احترام اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔
”اور جو آدمی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے“ اس کا مطلب ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کے روبرو فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اور لوگوں کے حق میں نرم پہلو اختیار کرے اور مسلمانوں کے لیے نرمی کا اظہار کرے، تو بے شک ان صفات کے حامل شخص کو دنیا میں سربلندی، لوگوں کے دلوں میں محبت اور جنت میں بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5512

 
 
Hadith   965   الحديث
الأهمية: مَنْ تَعَاظَمَ في نَفْسِهِ, واخْتَال في مِشْيَتِهِ, لَقيَ اللهَ وهُوَ عليهِ غَضْبَانُ


Tema:

جس نے اپنے دل میں خود کو بڑا جانا اور اِترا اِترا کر چلا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر بہت غضبناک ہوگا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «مَنْ تَعَاظَمَ في نَفْسِهِ, واخْتَال في مِشْيَتِهِ, لَقيَ اللهَ وهُوَ عليهِ غَضْبَانُ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے دل میں خود کو بڑا جانا اور اِترا اِترا کر چلا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر بہت غضبناک ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يدل على ذم الكبر والتعاظم، ويَظهرُ هذا التكبر وهذا التعاظم في مشيته فيختال فيها، وفي لباسه، وفي كلامه، وفي كل أموره، ومن كانت هذه حاله من الكِبْر اعتقد في نفسه أنه عظيم يستحق التعظيم فوق ما يستحق غيره فإنه يلقى الله يوم القيامة وهو عليه وغضبان.
740;ہ حدیث تکبر اور بڑائی کی مذمت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ تکبر و بڑائی انسان کی چال میں ظاہر ہوتی ہے چنانچہ وہ اتراہٹ کے ساتھ چلتا ہے۔ اسی طرح اس کا اظہار اس کے لباس، گفتگو اور تمام امور میں ہوتا ہے۔ جس شخص کے تکبر کی یہ حالت ہو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک بڑا آدمی ہے جو دوسروں سے زیادہ تعظیم کا مستحق ہے۔ایسا شخص روز قیامت اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ وہ اس پر سخت غضبناک ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5513

 
 
Hadith   966   الحديث
الأهمية: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


Tema:

جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا (اس کی غیر موجودگی میں) دفاع کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے دور کردے گا۔

عن أبي الدرداء -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ».

ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا (اس کی غیر موجودگی میں) دفاع کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے دور کردے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث فضيلة من دافع عن عرض أخيه المسلم، فإذا أغتابه أحد الحاضرين في مجلس، فإنه يجب عليك الدفاع عن أخيك المسلم، وإسكات المغتاب، وإنكار المنكر، أما إذا تركته فإن هذا  يعتبر من الخذلان لأخيك المسلم, ومما يدل على أن المراد بذلك في غيبته حديث أسماء بنت يزيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من ذب عن لحم أخيه بالغيبة كان حقا على الله أن يعتقه من النار". رواه أحمد وصححه الألباني.
575;س حدیث میں اس شخص کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی عزت وآبرو کا دفاع کرتا ہے۔ یعنی جب کسی مجلس میں کوئی شخص اس کی غیبت کرتا ہے، تو تم پر لازم ہے کہ تم اس کا دفاع کرو اور غیبت کرنے والے کو خاموش اور بُرائی کا انکار کرو۔لیکن اگر آپ اس کا دفاع کرنا چھوڑ دیں تو اسے اپنے مسلمان بھائی کو رسوا کرنا شمار ہوگا۔ یہ دفاع اس کی غیر موجودگی میں ہونے پر اسماء بنت يزيد رضی الله عنہا کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کو انھوں نے نبئ اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے اس کا گوشت کھانے سے باز رکھے، تو اس کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد کردے“۔ (مسند احمد، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5514

 
 
Hadith   967   الحديث
الأهمية: مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ في يوم مِائَةَ مَرَّةٍ حُطَّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ


Tema:

جس نے ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ“ سو مرتبہ کہا، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ في يومٍ مِائَةَ مَرَّةٍ حُطَّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ».

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ“ سو مرتبہ پڑھا، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث دليل على فضل هذا الذكر المشتمل على التسبيح بهذه الصيغة، وأن من أتى بذلك فإن الله يمحو خطاياه مهما بلغت من الكثرة ولو كانت مثل رغوة البحر في الكثرة، فضل من الله لعباده الذاكرين.
وهو من أذكار الصبح لما في هذا الحديث: "في يوم"، ومن أذكار المساء أيضًا، لحديث أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "من قال: حين يصبح وحين يمسي: سبحان الله وبحمده، مائة مرة، لم يأت أحد يوم القيامة، بأفضل مما جاء به، إلا أحد قال مثل ما قال أو زاد عليه" رواه مسلم.
740;ہ حدیث اس ذکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے جو تسبیح کے اس صیغہ پر مشتمل ہے، جو یہ ذکر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اگرچہ اس کے گناہ کثرت میں سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا ذکر کرنے والے بندوں کے لیے اس کا فضل ہے۔
یہ صبح کے اذکار میں سے ہے اس لیے کہ حدیث میں ’فی یوم‘ (دن میں) کا لفظ ہے، اسی طرح یہ شام کے اذکار میں بھی شامل ہے جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ہے: ”جو شخص صبح یا شام ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ“ سو بار کہے گا، اُس سے افضل عمل قیامت کے دن کوئی اور لے کر نہیں آئے گا، مگر وہ شخص جس نے اس کے مثل یا اس سے زیادہ یہ کلمات کہے“۔ (مسلم)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5516

 
 
Hadith   968   الحديث
الأهمية: مَنْ قَالَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ أَرْبَعَةَ أَنْفُسٍ مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِيلَ


Tema:

جس شخص نے دس مرتبہ یہ کلمات کہے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ“ تو اس کا یہ عمل اس شخص کی طرح ہے جس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے۔

عن أبي أيوب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ قَالَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ أَرْبَعَةَ أَنْفُسٍ مِنْ وَلَدِ إسْمَاعِيلَ».

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے دس مرتبہ یہ کلمات کہے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ“ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، تو اس کا یہ عمل اس شخص کی طرح ہے جس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث دليل على فضل هذا الذكر لما فيه من الإقرار بالتوحيد، وأن من قاله عشر مرات عارفاً عاملاً بمقتضاه صار له من الأجر مثل أجر من أعتق أربعة من المماليك من ذرية إسماعيل بن إبراهيم -عليهما الصلاة والسلام-.
740;ہ حدیث اس ذکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ اس میں توحیدِ باری تعالیٰ کا اقرار پایا جاتا ہے، اور یہ کہ جس شخص نے اس ذکر کو اس کے معانی کو سمجھتے ہوئے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے دس مرتبہ کہا تو اس کے لیے اسماعیل بن ابراھیم علیہما السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کرنے والے شخص کی طرح اجر و ثواب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5517

 
 
Hadith   969   الحديث
الأهمية: مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ


Tema:

جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔

عن معاوية بن أبي سفيان -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «من يُرِدِ  الله به خيرا يُفَقِّهْهُ  في الدين».

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أراد الله به نفعاً وخيرًا يجعله عالمًا بالأحكام الشرعية ذا بصيرة فيها.
580;سے اللہ تعالیٰ نفع اور بھلائی سے نوازنا چاہتا ہے اسے شرعی احکام کا عالم اور اس میں بصیرت والا بنا دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5518

 
 
Hadith   970   الحديث
الأهمية: ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم، ويل له، ثم ويل له


Tema:

ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہنسائے۔ اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔

عن معاوية بن حيدة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ويل للذي يحدث فيكذب؛ ليضحك به القوم، ويل له، ثم ويل له».

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہنسائے۔ اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث تحذير شديد من الكذب ووعيد بالهلاك لمن يتعاطى الكذب من أجل المزاح وإضحاك الناس، فكان من أقبح القبائح، وتغليظ تحريمه، فهذا من الأخلاق السيئة التي يجب على المؤمن أن يتنزه عنها، وأن يبتعد عنها، ويطهر لسانه من الكذب في كل حال من الأحوال، إلا ما أذن الشارع فيه.
وكما يحرم التكلم بالكذب لأجل المزاح فكذلك يحرم على السامعين سماعه إذا علموه كذباً، بل يجب عليهم إنكاره.
575;س حدیث میں جھوٹ سے سختی سے ڈرایا گیا ہے اور اس شخص کے لئے ہلاکت کی وعید بیان کی گئی ہے جو از راہِ مزاح اور محض لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ یہ بہت ہی بری بات ہے اور سختی کے ساتھ حرام ہے۔ یہ برے اخلاق میں سے ہے جس سے مومن کو اپنا دامن بچا کر رکھنا چاہیے اور اس سے دور رہنا چاہیے اور اپنی زبان کو ہر حال میں جھوٹ سے پاک رکھنا چاہیے، ماسوا ان صورتوں کے جن میں شارع کی طرف سے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
جس طرح از راہِ مذاق جھوٹ بولنا حرام ہے، اسی طرح سننے والوں کے لیے اس کا سننا بھی حرام ہے اگر انھیں اس کے جھوٹ ہونے کا علم ہوجائے، بلکہ ان پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ اس کا انکار کریں۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5519

 
 
Hadith   971   الحديث
الأهمية: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ


Tema:

اے لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوتے ہوں اُس وقت نماز پڑھو، تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔

عن عبد الله بن سلام -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ».

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوتے ہوں اُس وقت نماز پڑھو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث الحث والتنبيه على أربع خلال حميدة وصفات جميلة من اتصف بها دخل الجنة بسلام.
وهذه الصفات هي: إفشاء السلام، وصلة الأرحام، وإطعام الطعام، و الصلاة بالليل والناس نيام.
أفشوا السلام يعني: أظهروا وأعلنوا وأكثروا من السلام، وأطعموا الطعام لمن يحتاج إليه، كأهلك من الزوجات والأولاد بنين أو بنات ومن في بيتك، وإذا قام الإنسان في الليل لله عز وجل يتهجد، يتقرب إليه بكلامه وبدعاء خاشع بين يديه، والناس نائمون فهذا من أفضل الأعمال التي تدخل الجنة بسلام بلا عقاب ولا عذاب.
581;دیث میں چار بہت اچھی خصلتوں اور صفات کو اپنانے کی ترغیب اور توجہ دلائی گئی ہے اور جو شخص ان کے ساتھ متصف ہوجاتا ہے وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔
یہ چار صفات یہ ہیں: سلام کو عام کرنا، صلہ رحمی کرنا، کھانا کھلانا، اور رات کو نماز پڑھنا جب کہ لوگ سو رہے ہوں۔
”سلام کو پھیلاؤ“ یعنی سلام کو علانیہ عام کرو اور کثرت کے ساتھ کرو اور جو ضرورت مند ہو اسے کھانا کھلاؤ جیسے آپ کے اہل و عیال میں سے آپ کی بیویاں اور آپ کے گھر میں آپ کی بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ جب بندہ رات کو اللہ عز وجل کے لئے تہجد پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے، اس کے کلام کے ساتھ اور اس سے دعا کی صورت میں اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے پورے خشوع کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور لوگ اس وقت سو رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک بہت ہی افضل عمل شمار ہوتا ہے جو بلا عقاب و عذاب جنت میں داخلے کا سبب بنتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5520

 
 
Hadith   972   الحديث
الأهمية: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا مَعَ عَبْدِي مَا ذَكَرَنِي وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ


Tema:

اللہ تعالی فرماتا ہے جب تک بندہ میرا ذکر کرتا رہتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں متحرک رہتے ہیں، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «يقول الله تعالى: أَنَا مَعَ عَبْدِي مَا ذَكَرَنِي وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب تک بندہ میرا ذکر کرتا رہتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں متحرک رہتے ہیں، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث يدل على أن من ذكر الله كان الله قريباً منه، وكان معه في كل أموره، فيوفقه ويهديه ويعينه ويجيب دعوته.
ومعنى هذا الحديث جاء في حديث آخر في صحيح البخاري قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملأ ذكرته في ملأ خير منهم).
581;دیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اللہ اس کے قریب ہوتا ہے اور تمام امور میں اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ان میں اسے توفیق و ہدایت دیتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔
مذکورہ حدیث کا مفہوم صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اللہ تعالی فرماتا ہے): ”میں اپنے بندے کے اس گمان کے مطابق ہوتا ہوں جیسا وہ میرے متعلق گمان رکھتا ہے۔ اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہے“۔   --  [صحیح لغیرہ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - امام بخاری نے اسے صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5522

 
 
Hadith   973   الحديث
الأهمية: اللهم رب الناس مذهب البأس اشْفِ أنْتَ الشَّافِي، لاَ شَافِيَ إِلاَّ أنْتَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً


Tema:

اے اللہ، اے لوگوں کے پروردگار، اے پریشانی کو دورکرنے والے! تو شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔

عن أنس -رضي الله عنه- أنه قَالَ لِثابِتٍ رحمه اللهُ: ألاَ أرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: بلى، قال: «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ البَأسِ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي، لاَ شَافِيَ إِلاَّ أنْتَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ثابت رحمہ اللہ سے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا دم نہ کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے یہ دعا پڑھی: ”اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ البَأسِ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي، لاَ شَافِيَ إِلاَّ أنْتَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً“ اے اللہ، اے لوگوں کے پروردگار، اے پریشانی کو دورکرنے والے! تو شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن أنس بن مالك -رضي الله عنه- دعا ثابتاً البناني وقال له ألا أرقيك برقية النبي -صلى الله عليه وسلم-، فكان يدعو ربه للمريض أن  يذهب عنه المرض وشدته وألمه وأن يجعل شفاء لا يأتي بعده مرضٌ، وقد أجمع العلماء على جواز الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط: 1-أن يكون بكلام اللّه -تعالى- أو بأسمائه أو بصفاته. 2-وأن يكون باللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره، ويستحب أن تكون بالألفاظ الواردة في الأحاديث. 3-أن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بتقدير اللّه -تعالى-.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ثابت البنانی رحمہ اللہ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں وہ دم نہ کروں جو نبی ﷺ کیا کرتے تھے؟۔ آپ ﷺاپنے رب سے مریض کے لیے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ اس سے مرض کی شدت، اس کی سختی اور تکلیف کو دور کردے اور ایسی شفا دے دے جس کے بعد پھر سے مرض لوٹ کر نہ آئے۔
علماء کا دَم (رقیہ) کے جائز ہونے پر اتفاق ہے بشرطیکہ تین شرائط پائی جائیں:
1۔ یہ کلام اللہ یا اس کے اسماء و صفات کے ساتھ ہونا چاہئے۔
2۔ یہ عربی زبان میں ہو اور اس کا معنی سمجھ میں آنے والا ہو۔مستحب یہ ہے کہ یہ ان الفاظ کے ساتھ ہو جو احادیث میں آئے ہیں۔
3۔ اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ دَم (رقیہ) میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں بلکہ اس میں تاثیر اللہ کی طرف سے آتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5541

 
 
Hadith   974   الحديث
الأهمية: اللهم رب الناس، أذهب البأس اشف أنت الشافي


Tema:

اے اللہ لوگوں کے پروردگار! تکلیف دور کر دے، شفایابی سے نواز کہ تو ہی شفا دینے والا ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يَعُودُ بَعْضَ أهْلِهِ يَمْسَحُ بِيدِهِ اليُمْنَى، ويقول: «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِب البَأسَ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفاؤكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً».

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بعض ازواج مطہرات کی عیادت کرتے، اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر یوں دعا کیا کرتے تھے: ”اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِب البَأسَ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفاؤكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً“ اے اللہ انسانوں کے پروردگار! تکلیف کو دور کر دے۔ شفایابی سے نواز کہ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا جو کسی قسم کی بیماری نہیں چھوڑتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان عليه السلام إذا عاد بعض أزواجه ممن مرض منهن فيدعو لهن بهذا الدعاء ، ويمسح بيده اليمنى أي يمسح المريض، ويقرأ عليه هذا الدعاء اللهم رب الناس، فيتوسل إلى الله عز وجل بربوبيته العامة، فهو الرب سبحانه وتعالى الخالق المالك المدبر لجميع الأمور، أذهب البأس وهو المرض الذي حل بهذا المريض.،والشفاء إزالة المرض وبرء المريض، الشافي من أسماء الله عز وجل؛ لأنه الذي يشفي المرض، لا شفاء إلا شفاؤك" أي لا شفاء إلا شفاء الله، فشفاء الله لا شفاء غيره، وشفاء المخلوقين ليس إلا سبباً، والشافي هو الله،وسأل الله أن يكون شفاء كاملاً لا يبقي سقماً أي لا يبقي مرضاً،
606;بی کریم ﷺ جب اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی بیمار بیوی کی عیادت کرتے تو ان کے لیے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اور ان پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر مریض پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ جو تمام لوگوں کا پروردگار ہے“ یہاں وہ اللہ عزوجل سے اس کی ربوبیت عامہ کے وسیلہ سے دعا کر رہے ہیں۔ پس وہ رب ہے سبحانہ وتعالی، خالق ہے، مالک ہے اور تمام کاموں کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ”تکلیف دور کردے“ یعنی اس مرض کو جو مریض کو لاحق ہے۔ ”شفا“ در اصل مرض کا ازالہ اور مریض کی خلاصی ہے۔ شافی اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ کیوں کہ وہی ہے جو مرض سے شفا دیتا ہے۔ ”اور تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں“ یعنی اللہ کی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ پس اس کی شفا کسی اور کی نہیں۔ جب کہ مخلوق کی شفا محض ایک سبب ہے۔ شافی صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے شفاۓ کاملہ کا سوال کیا یعنی ایسی شفا جس کے بعد کوئی بیماری باقی نہ رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5542

 
 
Hadith   975   الحديث
الأهمية: إن الأشعريين إذا أرملوا في الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة


Tema:

اشعری قبیلے کے لوگ جب کسی جنگ میں مفلس ہوجائیں یا پھر مدینہ میں ان کے پاس اپنے اہل و عیال کے لیے توشہ کم ہوجائے!

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إنَّ الأشعريين إذا أرمَلُوا في الغَزْوِ، أو قَلَّ طعامُ عِيالِهم بالمدينةِ، جَمَعُوا ما كان عندهم في ثوبٍ واحدٍ، ثم اقتَسَمُوه بينهم في إناءٍ واحدٍ بالسَّوِيَّةِ، فَهُم مِنِّي وأنا مِنهُم".

ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اشعری قبیلے کے لوگ جب کسی جنگ میں مفلس ہوجائیں یا پھر مدینہ میں ان کے پاس اپنے اہل و عیال کے لیے توشہ کم ہوجائے تو ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں اور پھر اسے ایک برتن میں ڈال کر اپنے مابین برابر تقسیم کرلیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الأشعريين وهم قوم أبي موسى رضي الله عنه إذا قل طعامهم أو كانوا في الغزو للجهاد في سبيل الله جمعوا طعامهم واقتسموه بينهم بالمساواة، فلذلك استحقوا أن ينسبوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم نسبة شرف ومحبة، وهو كذلك منهم عليه السلام على طريقتهم في هذا الخلق العظيم من الإيثار ولزوم الطاعة.
575;شعری لوگ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگ ہیں۔ جب ان کے پاس کھانے کی کمی ہوتی یا پھر وہ اللہ کے راستے میں جہاد پر ہوتے تو اپنے کھانے کو اکٹھا کر کے برابر برابر باہم تقسیم کرلیتے ۔ اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ اس بات کے سزاوار ٹھہرے کہ ان کی رسول اللہ ﷺ کی طرف شرف و محبت کی نسبت ہو اور آپ ﷺ بھی انہی میں سے ہیں یعنی ایثار و فرمانبرداری کے عظیم اخلاقی صفت کی راہ پر گامزن ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5543

 
 
Hadith   976   الحديث
الأهمية: إن الله -عز وجل- يقول يوم القيامة يا ابن آدم مرضت فلم تعدني


Tema:

بے شک قیامت والے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا اور تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔

عن أبي هريرة-رضي الله عنه-قَال: قَالَ رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: "إنَّ اللهَ -عز وجل- يَقُولُ يَومَ القِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدنِي! قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أعُودُكَ وَأنْتَ رَبُّ العَالَمِينَ؟!، قَالَ: أمَا عَلِمْتَ أنَّ عَبْدِي فُلاَناً مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ! أمَا عَلِمْتَ أنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَني عِنْدَهُ! يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمنِي! قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أطْعِمُكَ وَأنْتَ رَبُّ العَالَمِينَ؟! قَالَ: أمَا عَلِمْتَ أنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ! أمَا عَلِمْتَ أنَّكَ لَوْ أطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي! يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي! قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أسْقِيكَ وَأنْتَ رَبُّ العَالَمينَ؟! قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلاَنٌ فَلَمْ تَسْقِهِ! أمَا عَلِمْتَ أنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پُرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے مجھے نہیں کھلایا! وہ کہے گا: اے میرے رب، میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا تو نے مجھے نہیں پلایا! وہ کہے گا : اے میرے رب میں کیسے آپ کو پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے پینے کو کچھ مانگا اور تُو نے اسے نہیں پلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے پلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا!۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "يقول الله تعالى يوم القيامة: يا ابن آدم مرضت فلم تعدني، قال: كيف أعودك، وأنت رب العالمين"، يعني: وأنت لست بحاجة إلي حتى أعودك، قال: أما علمت أن عبدي فلاناً مرض فلم تعده، أما إنك لو عدته لوجدتني عنده. هذا الحديث ليس فيه إشكال في قوله تعالى: مرضت فلم تعدني؛ لأن الله تعالى يستحيل عليه المرض؛ لأن المرض صفة نقص والله سبحانه وتعالى منزه عن كل نقص، لكن المراد بالمرض مرض عبد من عباده الصالحين وأولياء الله سبحانه وتعالى هم خاصته، ولهذا قال: أما إنك لو عدته لوجدتني عنده، ولم يقل لوجدت ذلك عندي كما قال في الطعام والشراب، بل قال: لوجدتني عنده، وهذا يدل على قرب المريض من الله عز وجل، ولهذا قال العلماء: إن المريض حري بإجابة الدعاء إذا دعا لشخص أو دعا على شخص.
قوله: "يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني"، يعني طلبت منك طعاماً فلم تطعمني، ومعلوم أن الله تعالى لا يطلب الطعام لنفسه لقول الله تبارك وتعالى: "وهو يُطعِم ولا يُطعَم" الأنعام: 14، فهو غني عن كل شيء لا يحتاج لطعام ولا شراب، لكن جاع عبد من عباد الله فعلم به شخص فلم يطعمه، قال الله تعالى: "أما إنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي"، يعني: لوجدت ثوابه عندي مدخراً لك الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة.
قوله: "يا ابن آدم استسقيتك"، أي: طلبت منك أن تسقيني فلم تسقيني، قال: "كيف أسقيك وأنت رب العالمين؟"، يعني: لست في حاجة إلى طعام ولا شراب، قال: "أما علمت أن عبدي فلاناً ظمئ أو استسقاك فلم تسقه، أما علمت أنك لو سقيته لوجدت ذلك عندي"، إسقاءُ من طلب منك السقيا فأسقيته يجعلك تجد ذلك عند الله مدخراً الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة.
575;بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟!، یعنی آپ کو تو ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کی بیمار پرسی کرتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اس حدیث میں کوئی اشکال نہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں بیمار ہوا تو تُو نے میری بیمار پرسی نہیں کی؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی بیماری کا لاحق ہونا ناممکن ہے؛ کیوں کہ بیمار ہونا صفتِ نقص ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے، لیکن یہاں بیماری سے مراد اس کے نیک اور صالح بندوں میں سے کسی بندے کا بیمار ہونا ہے جو کہ اس کے خاص لوگ ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اور یہ نہیں فرمایا کہ تُو اس کا اجر میرے پاس پاتا جیسا کہ آگے چل کر کھانے اور پینے کے بارے میں فرمایا، بلکہ یہاں تو یہ فرمایا کہ تُو مجھے اس کے پاس پاتا، اور یہ بات مریض کی اللہ تعالیٰ سے قربت پر دلالت کرتی ہے، اسی لیے علماء کا کہنا ہے کہ مریض کا کسی شخص کے لیے دعاء یا بد دعاء کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں سنا جاتا ہے۔
اللہ کا یہ فرمان : اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تُو نے مجھے نہیں کھلایا!، یعنی میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تُو نے مجھے نہیں کھلایا، یہ تو بات تو طَے شدہ ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے لیے تو کھانا طلب نہیں کرتا اس کا فرمان ہے: ﴿وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ﴾ ”وہی ہے جو کھانے کو دیتا ہے، اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا“ (الأنعام: 14) وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اسے نہ کھانے کی ضرورت ہے نہ تو پینے کی حاجت ہے، لیکن دنیا میں اس کے بندوں میں سے کسی بندے کو بھوک لگی تو ایک شخص نے باوجود جاننے کے اسے کھانا نہ کھلایا تو ارشاد فرمایا: اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا“ یعنی اس کھلانے کا ثواب میرے پاس میرے خزانون سے پاتا میرے پاس ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اللہ کا یہ فرمان: اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا تو تُو نے مجھے نہیں پلایا، یعنی میں نے تجھ سے پینے کی کوئی چیز مانگی تو تُو نے مجھے نہیں دی تو بندہ کہے گا :میں کیسےآپ کو پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟، یعنی آپ کو تو کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے کو پیاس لگی یا اس نے تجھ سے پانی مانگا، اور تو نے اسے نہیں پلایا، کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے پانی پلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی پیاسا آپ سے پانی مانگے تو اسے پانی پلانے پر آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پلانے کا ثواب (خزانوں میں) جمع ہو گا، ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5544

 
 
Hadith   977   الحديث
الأهمية: إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي


Tema:

اللہ تعالی اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو پرہیزگار، مخلوق سے بے نیاز اور پوشیدہ حال ہو۔

عن سعد بن أبي وقاص –رضي الله عنه- مرفوعاً: "إنَّ اللهَ يُحبُّ العَبدَ التقيَّ الغنيَّ الخفيَّ".

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالی اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی (پرہیزگار)، مخلوق سے بے نیاز اور پوشیدہ حال ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بين النبي عليه الصلاة والسلام صفة الرجل الذي يحبه الله عز وجل فقال: "إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي"، التقي: الذي يتقي الله عز وجل فيقوم بأوامره ويجتنب نواهيه، فيقوم بالفرائض ويجتنب المحرمات، وهو مع ذلك وصف بأنه غني استغنى بنفسه عن الناس غنى بالله عز وجل عمن سواه لا يسأل الناس شيئاً ولا يتعرض للناس بتذلل بل هو غني عن الناس مستغن بربه، لا يلتفت إلى غيره.، وهو خفي لا يظهر نفسه ولا يهتم أن يظهر عند الناس أو يشار إليه بالبنان أو يتحدث الناس عنه .
606;بى كريم ﷺ نے اس آدمی کی صفت بیان کی ہے جسے اللہ تعالی محبوب رکھتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ متقی، بے نیاز اور پوشیدہ حال بندے سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ متقی: وہ شخص ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے چنانچہ اس کے احکامات کو بجا لاتا ہے اور اس کی ممانعتوں سے پرہیز کرتاہے، فرائض کی ادائيگی کرتا ہے اور حرام امور سے گریز کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ غنی و بے نیاز ہے۔ وہ اپنے دل کے ساتھ لوگوں سے بے نیاز ہوتا ہے، اور اللہ عزوجل کی ذات کے ساتھ اس کے ماسوا سے بے نیاز ہوتا ہے۔ نہ تو وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے اور نہ لوگوں کے سامنے لجاجت کرتا ہے۔ بلکہ وہ لوگوں سے بے نیاز ہوتا ہے، اس کا رب اس کے لئے کافی ہوتا ہے, وه اس کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ نہيں ہوتا ہے۔ نیز وہ پوشیدہ و گمنام ہوتا ہے، اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اسے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ لوگوں کے سامنے وہ ظاہر ہو یا پھر انگليوں سے اس کی طرف اشارہ کیا جائے یا لوگ اس کے بارے باتیں کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5545

 
 
Hadith   978   الحديث
الأهمية: إن المسلم إذا عاد أخاه المسلم لم يزل في خرفة الجنة حتى يرجع


Tema:

مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے۔

عن ثوبان -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: "إنَّ المسلِمَ إذا عادَ أخاه المسلِمَ، لم يَزَلْ في خُرْفَةِ الجَنَّةِ حتى يرجعَ"، قيل: يا رسولَ اللهِ ما خُرْفَةُ الجنَّةِ؟، قال: "جَنَاها".

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے“۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! ”خُرْفَةُ الجنَّةِ“ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے تازہ پھل“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث ثوبان أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا عاد المسلم أخاه المسلم -يعني: في مرضه- فإنه لا يزال في خرفة الجنة" قيل: وما خرفة الجنة؟، قال: "جناها"، يعني أنه يجني من ثمار الجنة مدة دوامه جالساً عند هذا المريض، فشبه ما يحوزه عائد المريض من الثواب بما يحوزه الذي يجتني الثمر، وقيل: المراد بها هنا الطريق، والمعنى أن العائد يمشي في طريق تؤديه إلى الجنة، والتفسير الأول أولى.
والجلوس عند المريض يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص، فقد يكون الجلوس عند المريض مطلوباً، وقد يكون غير مطلوب، فإذا عُلم أن المريض يأنس بهذا الرجل، وأنه يحب أن يتأخر عنده، فالأفضل أن يتأخر، وإذا عُلم أن المريض يحب أن يخفف العائد، فإنه لا يُتأخر، فلكل مقام مقال.
579;وبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی، اس کی بیماری میں عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے تازہ پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ: ”خُرْفَةُ الجنَّةِ“ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد جنت کے تازہ پھل چننا ہے۔ یعنی جب تک وہ اس مریض کے پاس بیٹھا رہتا ہے تب تک وہ جنت کے پھل توڑ رہا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بیمار پرسی کرنے والے شخص کو حاصل ہونے والے اجر و ثواب کو اس چیز سے تشبیہ دی جو پھل توڑنے والے شخص کو حاصل ہوتی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے یہاں راستہ مراد ہے، یعنی عیادت کرنے والا شخص ایسے راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو اسے جنت تک لے جاتا ہے۔ جب کہ پہلی تفسیر بہتر ہے۔
مریض کے پاس بیٹھنا مختلف حالات اور افراد کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو مریض کے پاس بیٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کبھی تو اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر یہ معلوم ہو جائے کہ مریض اس شخص سے سکون محسوس کرتا ہے اور اسے پسند ہے کہ وہ اس کے پاس دیر تک رہے تو افضل یہ ہے کہ وہ اس کے پاس دیر تک ٹھہرے۔ لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ مریض چاہتا ہے کہ بیمار پرسی کرنے والا اس کے پاس کم وقت بتائے تو اسے وہاں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ ہر صورت حال کے لیے الگ حکم ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5647

 
 
Hadith   979   الحديث
الأهمية: أن امرأة جاءت إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ببردة منسوجة


Tema:

ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بنی ہوئی چادر لے کر آئی۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنه-: أن امرأةَ جاءت إلى رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- بِبُرْدَةٍ مَنسُوجَةٍ، فقالت: نَسَجتُها بيديَّ لأَكْسُوَكَها، فأخذها النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- محتاجاً إليها، فخرجَ إلينا وإنها إزارُهُ، فقال فلانٌ: اكسُنِيها ما أحسَنَها! فقال: "نعم"، فجلسَ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- في المجلسِ، ثم رجع فطَوَاها، ثم أرسلَ بها إليه، فقال له القومُ: ما أحسَنتَ! لبسها النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- محتاجاً إليها، ثم سألته وعَلِمتَ أنه لا يَرُدَ سائلاً، فقال: إني واللهِ ما سألتُهُ لألبِسَها، إنما سألتُهُ لتكُونَ كَفَنِي. قال سهلٌ: فكانت كَفَنَهُ.

سهل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بنی ہوئی چادرلے کر آئی اور کہنے لگی: میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں اسے آپ کو پہناؤں۔ نبی ﷺ نے اسے اپنی ضرورت کی چيز سمجھتے ہوئے لے لیا۔ پھر آپ ﷺ اسے تہ بند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشريف لائے۔ تو ايک صاحب نے کہا: يہ تو آپ مجھے پہناديں, کس قدر خوبصورت ہے يہ چادر! آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا۔ پھر آپ ﷺ مجلس میں بيٹھ گئے۔ پھر واپس گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر اس شخص کی طرف بھیج دیا۔ پس لوگوں نے اس سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا۔ نبی ﷺ نے يہ چادر اپنی ضرورت سمجھ کر پہنی تھی، ليکن تو نے آپ ﷺ سے يہ مانگ لی اور تجھے يہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کو واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا : اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لئے نہیں مانگی ہے بلکہ میں نے تو اسے اس لئے مانگی ہے تاکہ یہ میرا کفن بنے۔ سھل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پس يہ چادر اس کے کفن ہی کے کام آئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث إيثار النبي -صلى الله عليه وسلم- على نفسه؛ لأنه آثر هذا الرجل بهذه البردة التي كان محتاجاً إليها؛ لأنه لبسها بالفعل مما يدل على شدة احتياجه إليها، فإن امرأة جاءت وأهدت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بردة، فتقدم رجل إليه فقال: ما أحسن هذه؟، وطلبها من النبي -صلى الله عليه وسلم-، ففعل الرسول عليه الصلاة والسلام خلعها وطواها وأعطاه إياها.
ذكر بعض الشرّاح أن من فوائد هذا الحديث التبرك بآثار الصالحين، وليس كذلك إنما هو التبرك بذاته –صلى الله عليه وسلم- ولا يقاس غيره به في الفضل والصلاح، وأيضاً الصحابة لم يكونوا يفعلون ذلك مع غيره لا في حياته ولا بعد موته، ولو كان خيراً لسبقونا إليه.
575;س حدیث میں نبی ﷺ کے ایثار (اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینے) کا تذکرہ ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ نے اس چادر کے معاملے میں اپنی ذات پر اس شخص کو ترجیح دی، جب کہ آپ ﷺ کو اس كى ضرورت تھی۔ آپ ﷺ اس چادر کو پہن كر نکلے، يہ اس بات کی دليل ہے کہ آپ ﷺ کو اس کی سخت ضرورت تھی۔ ایک عورت نے آکر نبی ﷺ کو ایک چادر ہدیہ كيا۔ تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا کہ یہ کتنی خوبصورت ہے!۔ اور اس نے نبی ﷺ سے اسے مانگ لی۔ رسول الله ﷺ نے چادر کو اتار کر لپیٹا اور اسے دے ديا۔
بعض شارحین کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے ماخوذ فوائد ميں سے يہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے آثار سے تبرک جائز ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ یہ تبرک تو آپ ﷺ کی ذات سے تھا ، فضیلت اور نیکی میں کسی اور کو آپ ﷺ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازيں صحابۂ کرام آپ ﷺ کی حیات میں یا آپ کی وفات کے بعد کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں کرتے تھے۔ اگر یہ اچھی بات ہوتی تو وہ ضرور اسے ہم سے پہلے کر چکے ہوتے۔   --  [صحیح]+ +[امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5648

 
 
Hadith   980   الحديث
الأهمية: أن امرأة من جهينة أتت النبي وهي حبلى من الزنا


Tema:

جُہینہ قبیلے کی ایک عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، نبی ﷺ کے پاس آئی۔

عن عمران بن الحصين -رضي الله عنهما-: أنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أتَت النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- وَهِيَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا رسول الله، أصَبْتُ حَدّاً فَأقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وَلِيَّها، فقالَ: «أحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإذَا وَضَعَتْ فَأتِنِي بِهَا» فَفَعَلَ، فَأمَرَ بها النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- فَشُدَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أمَرَ بِهَا فَرُجِمَت، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا.

عمران بن حصين رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ: جُہینہ قبیلے کی ایک عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں (جرم کا ارتکاب کرکے)حد کو پہنچ گئی ہوں، لہٰذا آپ وہ (حد) مجھ پر نافذ فرمائیں۔آپ ﷺ نے اس کے ولی (سرپرست) کو بلایا اور اس سے فرمایا: ”اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، پھر جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لانا“۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ نبیﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے کپڑے اس پر مضبوطی سے باندھ دیے گئے، پھر آپ ﷺ کے حکم سے اسے رجم (سنگسار) کردیا گیا۔ پھر آپ ﷺنے اس کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في حديث عمران بن الحصين -رضي الله عنهما- أن امرأة جاءت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وهي حبلى من الزنا حامل، فقالت: يا رسول الله؛ إني أصبت حداً، فأقمه عليَّ، تريد من الرسول -صلى الله عليه وسلم- أن يقيم عليها الحد وهو: الرجم؛ لأنها محصنة، فدعا النبي -صلى الله عليه وسلم- وليها، وقال له: "أحسن إليها، فإذا وضعت فأتني بها"، فقوله: "أحسن إليها"، أمره بذلك للخوف عليها منه لما لحقهم من العار والغيرة على الأعراض ،ولحوق العار بهم ما يحملهم على أذاها، فأوصى بها تحذيراً من ذلك، ولمزيد الرحمة بها؛ لأنها تابت، وحرض على الإحسان إليها لما في قلوب الناس من النفرة من مثلها، وإسماعها الكلام المؤذي.
فجيء بها إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بعد أن وضعت الحمل، ثم أمرها أن تنتظر حتى تفطم الصبي، فلما فطمته جاءت، فأقام عليها الحد، وأمر أن تشد عليها ثيابها أي تحزم وتربط؛ لئلا تضطرب عند رجمها، فتبدو سوءتها أي: عورتها، ثم أمر بها فرجمت، وصلى عليها.
593;مران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ یہ عورت زنا کی وجہ سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا: مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا ہے جس سے حد واجب ہوجاتی ہے، لہٰذا آپ وہ (حد) مجھ پر نافذ فرمائیں۔ یعنی وہ خود نبی ﷺ سے یہ چاہ رہی تھی کہ آپ ﷺ اس پر حد نافذ کریں، اور وہ رجم کی حد تھی; کیوں کہ یہ عورت شادی شدہ تھی۔ نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا اور اس سے فرمایا: ”اس عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب یہ بچہ جن لےتو اسے میرے پاس لانا“۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ: ”اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو“ اس لیے تھا کیونکہ آپ ﷺ کو اس عورت پر ان کی طرف سے خوف محسوس ہوا اس لیے کہ انھیں عار اور عزت و آبرو پر غیرت لاحق ہوئی تھی، اورانھیں عار کا لاحق ہونا انہیں اس عورت کو تکلیف دینے پر ابھار سکتا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے متنبہ کرتے ہوئے انہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔ نیز اس پر مزید مہربانی کرتے ہوئے ایسا کیا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھی۔ اور آپ ﷺ نے انہیں اس کے ساتھ حسن سلوک پر ابھارا کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ایسی عورت کے بارے میں نفرت ہوتی ہے اور وہ اسے تکلیف دہ باتوں اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔
چناچہ وضع حمل کے بعد اسے نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اپنے بچے کا دودھ چھڑانے تک انتظار کرے۔ جب اس نے بچے کا دودھ چھڑا دیا تو وہ آپ ﷺ کے پاس آئی۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اس پر حد نافذ کیا۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کے کپڑوں کو اس پر مضبوطی سے باندھ دیا جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ سنگسار کے وقت تڑپنے کی وجہ سے اس کا ستر ظاہر ہوجائے۔ پھر آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اسے رجم کردیا گیا اور آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5649

 
 
Hadith   981   الحديث
الأهمية: بِسْمِ الله أرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِد، اللهُ يَشْفِيك، بِسمِ اللهِ أُرقِيك


Tema:

اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت پہنچائے، ہر جاندار اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے حفاظت کے لئے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے ، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں۔

عن أَبي سعيد الخدري - رضي الله عنه: أن جِبريلَ أتَى النَّبيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اشْتَكَيْتَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: بِسْمِ الله أرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ، اللهُ يَشْفِيكَ، بِسمِ اللهِ أُرقِيكَ.

ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ: اے محمدﷺ! کیا آپ کو مرض کی شکایت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ”بِسْمِ الله أرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ، اللهُ يَشْفِيكَ، بِسمِ اللهِ أُرقِيكَ“ اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت پہنچائے، ہر جاندار اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے (حفاظت کے لئے)۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أن جبريل أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- يسأله اشتكيتَ – يعني: هل أنت مريض؟- قال: نعم، فقال: بسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك، من شر كل نفس أو عين حاسد، الله يشفيك، بسم الله أرقيك. هذا دعاء من جبريل أشرف الملائكة للنبي -صلى الله عليه وسلم- أشرف الرسل.
وقوله: اشتكيت قال: نعم، وفي هذا دليل على أنه لا بأس أن يقول المريض للناس إني مريض إذا سألوه، وأن هذا ليس من باب الشكوى، الشكوى أن تشتكي الخالق للمخلوق تقول: أنا أمرضني الله بكذا وكذا، تشكو الرب للخلق هذا لا يجوز، ولهذا قال يعقوب: "إنما أشكو بثي وحزني إلى الله"  يوسف: 86،
قوله: "من شر كل نفس أو عين حاسد، الله يشفيك"، من شر كل نفس من النفوس البشرية أو نفوس الجن أو غير ذلك أو عين حاسد أي ما يسمونه الناس بالعين، وذلك أن الحاسد -والعياذ بالله- الذي يكره أن ينعم الله على عباده بنعمه، نفسه خبيثة شريرة، وهذه النفس الخبيثة الشريرة قد ينطلق منها ما يصيب المحسود، ولهذا قال: "أو عين حاسد، الله يشفيك"، أي: يبرئه ويزيل سقمه.
قوله: "بسم الله أرقيك"، فبدأ بالبسملة في أول الدعاء وفي آخره.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگےکہ کیا آپ کو شکایت ہے یعنی کیا آپ مریض ہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ: ہاں میں مریض ہوں۔ اس پر انھوں نےکہا: اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت پہنچائے، ہر جاندار اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے حفاظت کے لئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں۔
یہ اشرف الملائکہ جبرائیل علیہ السلام کی طرف سے نبی ﷺ کے لئے دعا ہے جو اشرف الرسل ہیں۔
جبرائیل علیہ السلام کے اس قول میں کہ: ”کیا آپ کو مرض کی شکایت ہے؟“ اور آپ ﷺ کے جواب میں کہ: ”ہاں میں مریض ہوں“ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ جب مریض سے پوچھیں تو اس کے اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں مریض ہوں۔ اور یہ کہ ایسا کہنا شکوہ شکایت میں نہیں آتا۔ شکوہ تو یہ ہوتا ہے کہ آپ انسانوں کے سامنے اللہ تعالی کی اس انداز میں شکایت کریں کہ مجھے اللہ نے فلاں فلاں بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ آپ کا مخلوق کے سامنے رب کی شکایت کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی لئے یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا: ﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ﴾ ”کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں“۔ (یوسف : 86)
”ہر جاندار اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے (حفاظت کے لئے)۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے“ یعنی تمام بشری و جناتی اور دیگر نفوس کے شر سے اورحسد بھری نظر کے شر سے جسے بعض لوگ صرف نظر کا نام دیتے ہیں کیوں کہ حاسد شخص (العیاذ باللہ) یعنی وہ آدمی جو اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے نوازے اس کا نفس خبیث اور شرانگیز ہوتا ہے اور اس خبیث و شر انگیز نفس سے بعض اوقات ایسی شے کا خروج ہوتا ہے جس کا اثر اس شخص تک پہنچتا ہے جس سے حسد کیا جائے۔ اسی لئے کہا کہ: ”اور ہر حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے (حفاظت کے لئے)۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے“ یعنی اللہ اسے ٹھیک کرے اور اس کی وجہ سے پیدا شدہ بیماری کو دور کرے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ: "بسم الله أرقيك"۔ (اس سے پتہ چلتا ہے کہ) انھوں نے دعاء کا آغاز اور اختتام بسم اللہ سے کیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5650

 
 
Hadith   982   الحديث
الأهمية: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي بشراب فشرب منه وعن يمينه غلام


Tema:

رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔ آپ ﷺ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا۔

عن سهل بن سعد -رضي الله عنه-: أن رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- أُتِيَ بشرابٍ، فَشَرِبَ منهُ وعن يميِنِه غُلامٌ، وعن يسارِه الأشياخُ، فقالَ للغُلامِ: "أَتَأذَنُ لِي أنْ أُعْطِيَ هؤلاء؟"، فقالَ الغلامُ: لا واللهِ يا رسولَ اللهِ، لا أُوثِرُ بنَصِيبي منك أحداً. فَتَلَّهُ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- في يدِه.

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔ آپ ﷺ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب بڑی عمر کے لوگ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے لڑکے سے پوچھا کہ ”کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ ان کو دے دو؟“۔ لڑکے نے کہا کہ اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ!۔میں آپ سے ملنے والے اپنے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس مشروب (کے برتن کو) اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث استأذن النبي –صلى الله عليه وسلم- الغلام في إعطاء الشراب الأشياخ قبله، وإنما فعل ذلك تألفاً لقلوب الأشياخ، وإعلاماً بودهم، وإيثار كرامتهم، إذا لم تمنع منها سنة، وتضمن ذلك بيان هذه السنة وهي أن الأيمن أحق، ولا يدفع إلى غيره إلا بإذنه، وأنه لا بأس باستئذانه، وأنه لا يلزمه الإذن، وينبغي له أيضاً أن لا يأذن إن كان فيه تفويت فضيلة أخروية ومصلحة دينية، وهذا الغلام هو ابن عباس -رضي الله عنهما-.
581;دیث میں نبی ﷺ نے لڑکے سے اس بات کی اجازت لینا چاہی کہ وہ مشروب کو اس سے پہلے بڑے لوگوں کو دے دیں۔ آپ ﷺ ایسا بڑی عمر کے لوگوں کا دل رکھنے، ان سے اظہارِ محبت اور ان کی بزرگی کے ایثار میں کیا کیونکہ از روئے سنت یہ ممنوع نہیں تھا۔ اس میں اس سنت کا بیان ہے کہ دائیں طرف والا زیادہ حق دارہوتا ہے اور کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر نہیں دیا جا سکتا تاہم اس سے اجازت مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے لیے بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ اجازت دے ہی دے، بلکہ اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ اگر اجازت دینے سے کوئی فضیلت یا دینی مصلحت ہاتھ سے نکل رہی ہو تو وہ اجازت نہ دے۔ یہ لڑکے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5651

 
 
Hadith   983   الحديث
الأهمية: لا يتمن أحدكم الموت، إما محسنا فلعله يزداد، وإما مُسِيئاً فلعلَّه يَسْتَعْتِبُ


Tema:

کوئی شخص تم میں سے موت کی آرزو نہ کرے، اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے کہ وہ نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے تو ممکن ہے اس سے توبہ کر لے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أن رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- قالَ: "لا يَتَمَنَّ أحَدُكَم الموتَ، إما مُحسِناً فلعلَّه يَزْدَادُ، وإما مُسِيئاً فلعلَّه يَسْتَعْتِبُ".

وفي رواية قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "لا يَتَمَنَّ أحَدُكُم الموتَ، ولا يَدْعُ به من قبلِ أنَ يَأتيَه؛ إنه إذا ماتَ انقطعَ عملُهُ، وإنه لا يَزيدُ المؤمنَ عُمُرُهُ إلا خيراً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے، اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے کہ وہ نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے تو ممکن ہے اس سے توبہ کر لے“۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی موت کی خواہش نہ کرے اور اس کے خود آنے سے پہلے اس کے آنے کی دعا نہ کرے۔ کیوں کہ جب وہ مر جائے گا تو اس کا عمل منقطع ہوجائے گا جب کہ مومن کی عمر اس کی نیکیوں میں اضافہ ہی کرتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله عليه الصلاة والسلام: "لا يتمن أحدكم الموت"، والنهي هنا للتحريم؛ لأن تمني الموت فيه شيء من عدم الرضا بقضاء الله، والمؤمن يجب عليه الصبر إذا أصابته الضراء، فإذا صبر على الضراء نال شيئين مهمين: الأول: تكفير الخطايا فإن الإنسان لا يصيبه هم ولا غم ولا أذى ولا شيء إلا كفر الله به عنه حتى الشوكة يشاكها فإنه يكفر بها عنه. الثاني: إذا وفق لاحتساب الأجر من الله وصبر يبتغي بذلك وجه الله فإنه يثاب، أما كونه يتمنى الموت فهذا يدل على أنه غير صابر على ما قضى الله عز وجل ولا راض به، وبين الرسول عليه الصلاة والسلام أنه إما أن يكون من المحسنين فيزداد في بقاء حياته عملاً صالحاً، فالمؤمن إذا بقي ولو على أذى ولو على ضرر فإنه ربما تزداد حسناته.
وإما مسيئاً قد عمل سيئاً فلعله يستعتب أي يطلب من الله العتبى أي الرضا والعذر، فيموت وقد تاب من سيئاته فلا تتمن الموت؛ لأن الأمر كله مقضي، فيصبر ويحتسب، فإن دوام الحال من المحال.
وفيه إشارة إلى أن المعنى في النهي عن تمني الموت والدعاء به هو انقطاع العمل بالموت، فإن الحياة يتسبب منها العمل، والعمل يحصل زيادة الثواب ولو لم يكن إلا استمرار التوحيد فهو أفضل الأعمال، ولا يرد على هذا أنه يجوز أن يقع الارتداد والعياذ بالله تعالى عن الإيمان؛ لأن ذلك نادر، والإيمان بعد أن تخالط بشاشته القلوب لا يسخطه أحد، وعلى تقدير وقوع ذلك وقد وقع لكن نادراً، فمن سبق له في علم الله خاتمة السوء، فلا بد من وقوعها طال عمره أو قصر، فتعجيله بطلب الموت لا خير له فيه.
وفي الحديث إشارة إلى تغبيط المحسن بإحسانه، وتحذير المسيء من إساءته، فكأنه يقول من كان محسناً فليترك تمني الموت وليستمر على إحسانه، والازدياد منه، ومن كان مسيئاً فليترك تمني الموت وليقلع عن الإساءة لئلا يموت على إساءته، فيكون على خطر.
570;پ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے“ یہاں ممانعت حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ کیوں کہ موت کی آرزو کرنے میں اللہ کی قضاء پر عدمِ رضا کا پہلو ہوتا ہے جب کہ مومن پر فرض ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرے۔جب وہ کسی مصیبت پر صبر کرتا ہے تو اسے دو اہم باتیں حاصل ہوتی ہیں:
اول: گناہ معاف ہوتے ہیں۔ انسان کو جب بھی کوئی دکھ، غم، تکلیف اور کوئی بھی ایسی شے پہنچتی ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کےگناہ معاف کر دیتا ہے حتی کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ بھی گناہ کا کفارہ بنتا ہے۔
دوم: اگر اسے اس بات کی توفیق حاصل ہو جائے کہ وہ اس پر اللہ سے اجر کا امید وار ہو اور اللہ کی خوشنودی کے لیے صبر کرے تو اسے ثواب ملتا ہے۔ جب کہ موت کی تمنا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر صابر اور اس پر خوش نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ اگر آدمی نیک لوگوں میں سے ہو گا تو زندگی کے باقی رہنے کی وجہ سے اس کے نیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔ مومن جب بقید حیات رہتا ہے، چاہے تکلیف اور مصیبت میں ہی مبتلا ہو، اس کی نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں۔
اگر وہ برا آدمی ہے اور اس نے کوئی برا عمل کیا ہوا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے یعنی اللہ سے اس کی خوشنودی مانگ لے اور اس سے معذرت کر لے اور پھر اس کی موت آئے تو وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر چکا ہو۔ چنانچہ موت کی آرزو نہ کرو کیوں کہ کوئی بھی حالت ہمیشہ باقی نہیں رہتی۔ پس چاہیے کہ انسان صبر کرے اور اس پر اجر کا طلب گار ہو۔ یہ محال ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت رہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ موت کی تمنا اور دعا کرنے کی ممانعت میں یہ مفہوم ہے کہ موت کی وجہ سے عمل منقطع ہو جاتا ہے۔ زندگی کی وجہ سے عمل ہوتا ہے اور عمل ہی سے ثواب میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ اگر کوئی عمل نہ بھی ہو تو تب بھی وحدانیت کے اقرار کا جاری رہنا سب سے افضل عمل ہے۔ یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ شخص زندہ رہے تو العیاذ باللہ ایمان ہی سے پھر جائے کیوں کہ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ جب ایمان کی تازگی دلوں کے ساتھ مل جاتی ہے تو پھر کوئی اسے ناپسند نہیں کرتا۔ اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو شاذ و نادر ہو گا۔ اللہ کے ازلی علم میں جس کا خاتمہ برا لکھا گیا ہے اس کا برا خاتمہ ہو کر ہی رہے گا چاہے اس کی عمر لمبی ہو یا مختصر۔ چنانچہ اس کے لیے موت کو جلدی طلب کرنے میں کوئی اچھائی نہ رہے۔
اس حدیث میں اشارۃً مومن كے لیے اس کے نیک کاموں پر اس کے لیے خوشخبری ہے جب کہ بدکار کو اس کے برے عمل سے ڈرایا گیا ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ نیک شخص کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے اپنے نیک اعمال میں جُٹا رہنا چاہیے اور ان میں اور اضافہ کرنا چاہیے اور جو برا شخص ہو اسے بھی موت کی آرزو نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ برائی سے باز آجائے تاکہ کہیں برائی کرتے کرتے ہی اس کی موت نہ آ جائے۔چنانچہ ایسا شخص خطرے میں ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5652

 
 
Hadith   984   الحديث
الأهمية: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أكل طعاما لعق أصابعه الثلاث


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب کھانا کھالیتے تو آپ ﷺ (آخر میں) اپنی تین انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه كان إذا أكل طعاما، لعق أصابعه الثلاث. قال: وقال: «إذا سقطت لُقمة أحدكم فليُمِطْ عنها الأذى، وليأكلها ولا يَدَعْهَا للشيطان» وأمر أن تُسْلَتَ القَصْعَةُ، قال: «فإنكم لا تدرون في أيِّ طعامكم البركة»
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه أن رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- قالَ: "إنّ الشيطانَ يَحضُرُ أحدَكُم عندَ كلِ شيءٍ من شَأنِه، حتى يَحضُرَهُ عندَ طعامِهِ، فإذا سَقطتْ لقمةُ أحدِكُم فليَأخُذْها فَلْيُمِطْ ما كانِ بها من أذى، ثم ليَأكُلْها ولا يَدَعْها للشيطانِ، فإذا فَرَغَ فليَلْعَقْ أصابعَهُ، فإنه لا يَدري في أيِّ طَعامه البركة"

انس ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانا کھا لیتے تو آپ ﷺ (آخر میں) اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس سے گندگی کو جھاڑ کر اسے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے“۔ اور آپ ﷺ نے حکم دیا کہ (کھانے کے) برتن کو اچھی طرح صاف کر دیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے“۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے ہر ایک کے ہر کام کے وقت موجود ہوتا ہے حتی کہ کھانے کے وقت بھی، لہذا اگر تم میں سے کسی سے اُس (کے کھانے ) کا لقمہ گر جائے تو (وہ اُس لقمے کو اٹھا لے اور) اس لقمے پرجو گندگی لگ گئی ہو اُسے صاف کر لے اور پھر اُسے کھا لے اور اُس لقمے کو شیطان کےلیے نہ چھوڑے اور جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے کے کس سے حصے میں برکت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث التحذير من الشيطان، والتنبيه على ملازمته للإنسان في تصرفاته، فينبغي أن يتأهب ويحترز منه ولا يغتر بما يزينه له، والطعام الذي يحضره الإنسان فيه بركة، ولا يدرى أن تلك البركة فيما أكله أو فيما بقي على أصابعه أو في ما بقي في أسفل الصحن أو في اللقمة الساقطة، فينبغي أن يحافظ على هذا كله لتحصل البركة، وأصل البركة الزيادة وثبوت الخير والانتفاع به، والمراد هنا: ما يحصل به التغذية وتسلم عاقبته من أذى ويقوى على طاعة الله تعالى. و هنا فائدة ذكرها بعض الأطباء أن الأنامل تفرز عند الأكل شيئاً يعين على هضم الطعام.
581;دیث میں شیطان سے ڈرایا گیا ہے اور اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے تمام افعال میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ چنانچہ مناسب یہ ہے کہ انسان (اس سے مقابلے کے لیے) تیار اور اس سے چوکنا رہے اور اس کی مزین کردہ باتوں سے دھوکا نہ کھائے۔ انسان کے سامنے جو کھانا آتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ برکت کھانے کے اس حصے میں ہے جسے اس نے کھا لیا ہے یا پھر اس حصے میں جو اس کی انگلیوں پر لگا ہے یا جو پلیٹ کے پیندی میں لگا رہ گیا ہے یا پھر اس لقمے میں جو نیچے گر گیا ہے۔چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سب کو ضائع ہونے سے بچائے تاکہ اسے برکت حاصل ہو سکے۔ برکت کا حقیقی معنی ہے بھلائی کا زیادہ ہونا، اس کا باقی رہنا اور اس سے نفع اٹھانا۔ یہاں مراد وہ کھانا ہے جس سے غذائیت حاصل ہو، جس میں کوئی گندگی نہ ہو اور جو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کی قوت پیدا کرے۔ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ انگلیوں سے کھانا کھاتے ہوئے ایسی شے نکلتی ہے جو کھانے کو ہضم کرنے میں مدد کرتی ہے۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5653

 
 
Hadith   985   الحديث
الأهمية: أن عمر بن الخطاب كان فرض للمهاجرين الأولين أربعة الآف


Tema:

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اولین کے لئے چار ہزار وظیفہ مقرر کیا۔

عن نافع: أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ -رضي الله عنه- كانَ فرضَ للمهاجرينَ الأولينَ أربعةَ الآفٍ، وفَرَضَ لابنِه ثلاثةَ آلافٍ وخمسمئةٍ، فقيل له: هو من المهاجرينَ فَلِمَ نَقَصْتَهُ؟ فقالَ: إنما هَاجَرَ به أبوه. يقولُ: ليسَ هو كمن هَاجَرَ بنفسِهِ.

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اولین کے لئے چار ہزار وظیفہ مقرر کیا اور اپنے بیٹے کے لئے ساڑھے تین ہزار مقرر کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ وہ بھی تو مہاجرین میں سے ہیں، ان کا وظیفہ آپ نے کم کیوں کردیا؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ: اس کے ساتھ اس کے باپ نے ہجرت کی تھی۔ وہ اس شخص کی طرح نہیں ہو سکتا جس نے بذات خود ہجرت کی ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أعطى عمر للمهاجرين 4000، وابنه من المهاجرين لكنه أعطاه 3500، لأنه هاجر به أبوه وهو غير محتلم فلم ير إلحاقه بالبالغين، فلذا أنقص من عطائه عمن هاجر بنفسه من المهاجرين، فإن الدنيا لم تعرف بعد النبي –صلى الله عليه وسلم- وأبي بكر الصديق حاكماً زاهداً ورعاً في مال الأمة مثله –رضي الله عنه-، وهكذا يجب على من تولى شيئا من أمور المسلمين ألا يحابي قريبا لقرابته، ولا غنيا لغناه ولا فقيرا لفقره بل ينزل كل أحد منزلته، فهذا من الورع والعدل.
593;مر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کو 4000 وظیفہ دیا۔ آپ کے بیٹے (عبداللہ) بھی مہاجرین ہی میں سے تھے لیکن آپ نے انہیں 3500 وظیفہ دیا کیوں کہ ان کے بیٹے نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی جب کہ وہ نابالغ تھے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اپنے بیٹے کو بالغ مہاجرین کے ساتھ ملائیں۔ چنانچہ آپ نے ان کا وظیفہ ان مہاجرین سے کم رکھا جنہوں نے بذات خود ہجرت کی تھی۔امت کے مال کے معاملے میں اس دنیا نے نبی ﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی طرح کا کوئی زاہد و متقی حکمران نہیں دیکھا۔ ہر اس شخص پر ایسا ہی طرز عمل واجب ہے جس کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے کی ذمہ داری آئے کہ نہ تو وہ کسی رشتہ دارکی اس سے تعلقِ قرابت کی بنا پر طرف داری کرے اور نہ کسی امیر کی اس کی امارت کی وجہ سے اور نہ کسی غریب کی اس کی غربت کی وجہ سے طرفداری کرے بلکہ اسے چاہیے کہ ہر ایک کو اس کے مقام پر رکھے۔ ایسا کرنا عین تقوی و عدل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5654

 
 
Hadith   986   الحديث
الأهمية: إن كانت الأمة من إماء المدينة لتأخذ بيد النبي-صلى الله عليه وسلم- فَتَنْطَلِقُ بِهِ حيثُ شَاءتْ


Tema:

(آپ ﷺ کے تواضع کا یہ حال تھا کہ) مدینے کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر (آپﷺ کو اپنے کسی کام کے لیے) جہاں چاہتی، لے جاتی۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: إنْ كانَتْ الأَمَةُ من إمَاءِ المدينةِ لتَأخُذُ بيدِ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- فَتَنْطَلِقُ بِهِ حيثُ شَاءتْ.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ (آپ ﷺ کے تواضع کا یہ حال تھا کہ) مدینے کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر (آپﷺ کو اپنے کسی کام کے لیے) جہاں چاہتی، لے جاتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث تواضع الرسول -عليه الصلاة والسلام- وهو أشرف الخلق، حيث كانت الأمة المملوكة من إماء المدينة تأتي إليه، وتأخذ بيده، وتذهب به حيث شاءت ليعينها في حاجتها، هذا وهو أشرف الخلق، ولا يقول أين تذهبين بي، أو يقول: اذهبي إلى غيري، بل كان يذهب معها ويقضي حاجتها، لكن مع هذا ما زاده الله -عز وجل- بذلك إلا عزاً ورفعة -صلوات الله وسلامه عليه-.
تنبيه:
ليس المقصود بأخذ اليد أن تكون مست يده –صلى الله عليه وسلم- يد الأمة، قال الحافظ: والمقصود من الأخذ باليد لازمه وهو الرفق والانقياد، وقد اشتمل على أنواع من المبالغة في التواضع لذكره المرأة دون الرجل، والأمة دون الحرة، وحيث عمم بلفظ الإماء أي أمة كانت.
581;دیث میں رسول اللہ ﷺ کے تواضع کا بیان ہے، حالاںکہ آپ ﷺ تمام انسانوں سے اشرف ہیں، بایں طور کہ مدینے کی باندیوں میں سے کوئی باندی آپ ﷺ کے پاس آتی، آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑتی اور جہاں چاہتی لے جاتی؛ تاکہ آپ ﷺ اس کے کسی کام میں اس کی مدد کردیں۔ آپ ﷺ جو اشرف الخلق ہیں، یہ تک بھی نہ پوچھتے کہ تم مجھے کہاں لے جارہی ہو؟ میری بجائے کسی اور کو لے جاؤ! بلکہ آپ ﷺ اس کے ساتھ جا کر اس کی ضرورت پوری کردیتے۔ ان سب کے باوجود اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی عزت و مرتبے میں اضافہ ہی فرمایا۔ صلوات الله وسلامه عليه۔
تنبیہ: ہاتھ پکڑنے سے مراد یہ نہیں کہ آپ ﷺ کا ہاتھ باندی کے ہاتھ سے مس ہوتا ہو۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہاں ہاتھ پکڑنے سے مراد اس کا لازمی معنی ہے۔ یعنی آپ ﷺ اس کے ساتھ بہت نرم رویہ رکھتے اور اس کی بات مانتے۔ اس حدیث میں تواضع کے بیان میں کئی اعتبار سے مبالغہ ہے۔ ایک تو یہ کہ مرد کی بجائے عورت کا ذکر کیا گیا، پھر آزاد عورت کی بجائے باندی کا ذکر کیا گیا اور پھر ”باندیوں“ کے لفظ کے ساتھ تعمیم کا معنی پیدا کیا گیا (یعنی ایسا کسی خاص باندی کے ساتھ نہیں کرتے تھے بلکہ) کوئی بھی باندی ہوتی، (آپ ﷺ کا رویہ یہی ہوا کرتا تھا)۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5655

 
 
Hadith   987   الحديث
الأهمية: انتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب


Tema:

میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، درآں حالے کہ آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔

عن أبي رِفَاعَةَ تَمِيم بن أُسَيدٍ -رضي الله عنه- قَالَ: انتهيتُ إلى رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وهو يَخطبُ، فَقُلتُ: يَا رسولَ اللهِ، رَجُلٌ غَريبٌ جاءَ يَسألُ عن دِينِهِ لا يَدرِي مَا دِينُهُ؟ فَأَقْبلَ عليَّ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وتَرَكَ خُطبتَهُ حتى انتَهى إليَّ، فأُتِيَ بكُرسِيٍّ، فَقَعَدَ عليه، وجَعَلَ يُعَلِّمُنِي ممّا عَلَّمَهُ اللهُ، ثم أتى خُطبتَهُ فَأَتَمَّ آخِرَهَا.

ابو رفاعہ تمیم بن اسید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، درآں حالے کہ آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک مسافر دین کے بارے میں سوال کرنے آیا ہے، اُسے نہیں معلوم کہ دین کیا ہے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوئے، یہاں تک کہ میرے پاس آ گئے۔ پھر ایک کرسی لائی گئی آپ ﷺ اُس پر تشریف فرما ہوئے اور جو کچھ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم دیا تھا، اُس کی مجھے تعلیم دی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا خطبہ پورا کیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من تواضع الرسول -عليه الصلاة والسلام- أنه جاءه رجل وهو يخطب الناس، فقال: رجل غريب جاء يسأل عن دينه فأقبل إليه النبي –صلى الله عليه وسلم- وقطع خطبته حتى انتهى إليه، ثم جيء إليه بكرسي، فجعل يعلم هذا الرجل، لأن هذا الرجل جاء مشفقاً محباً للعلم، يريد أن يعلم دينه حتى يعمل به فأقبل إليه النبي -عليه الصلاة والسلام- وقطع الخطبة وعلمه، ثم بعد ذلك أكمل خطبته.
740;ہ آپ ﷺ کا کمال تواضع تھا کہ ایک شخص اس وقت آپ کی خدمت میں آیا، جب آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں ایک مسافر آدمی ہوں، جو اپنے دین کے بارے پوچھنا چاہتا ہے۔ نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنا خطبہ چھوڑ کر اس کے پاس آ گئے۔ آپ ﷺ کے لیے ایک کرسی لائی گئی اور آپ ﷺ (اس پر تشریف فرما ہوکر) اس شخص کو تعلیم دینے لگے؛ کیوںکہ وہ شخص علم کی چاہت و محبت لے کر آیا تھا اور خواہش رکھتا تھا کہ دین کو سیکھے، تاکہ اس پرعمل کر سکے۔ چنانچہ نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور خطبہ چھوڑ کر اسے تعلیم دی اور پھر بعد میں اپنا خطبہ مکمل کیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5656

 
 
Hadith   988   الحديث
الأهمية: إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر، لا تضامون في رؤيته


Tema:

یقینا تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمھیں اس کے دیدار میں مطلق تکلیف نہ ہوگی۔

عن جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- قال: كنا عندَ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- فنظرَ إلى القمرِ ليلةَ البدرِ، فقالَ: «إنَّكم سترون ربَّكُمْ كما تروْن هذا القمر، لاَ تُضَامُونَ في رُؤْيَته، فَإن استطعتم أنْ لاَ تُغْلَبُوا على صلاة قبل طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، فَافْعَلُوا». وفي رواية: «فنظر إلى القمر ليلة أربع عشرة».

جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی، جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا: ”یقینا تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمھیں اس کے دیدار میں مطلق تکلیف نہ ہوگی۔ لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو“۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:”پس آپ ﷺ نے چاند کی طرف نگاہ اٹھائی، جو چودہویں رات کا تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- أنهم كانوا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- فنظر إلى القمر ليلة البدر -ليلة الرابع عشر-، فقال -صلى الله عليه وسلم-: "إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر"، -يعني: يوم القيامة وفي الجنة يراه المؤمنون كما يرون القمر ليلة البدر، ليس المعنى أن الله مثل القمر؛ لأن الله ليس كمثله شيء، بل هو أعظم وأجل -عز وجل-، لكن المراد من المعنى تشبيه الرؤية بالرؤية، لا المرئي بالمرئي فكما أننا نرى القمر ليلة البدر رؤية حقيقية ليس فيها اشتباه، فإننا سنرى ربنا -عز وجل- كما نرى هذا القمر رؤية حقيقية بالعين دون اشتباه، وألذ نعيم وأطيب نعيم عند أهل الجنة هو النظر إلى وجه الله فلا شيء يعدله، فيقول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لما ذكر أننا نرى ربنا كما نرى القمر ليلة البدر: "فإن استطعتم ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروبها، فافعلوا"، والمراد من قوله: "استطعتم ألا تغلبوا على صلاة"، أي: على أن تأتوا بهما كاملتين، ومنها: أن تصلى في جماعة، إن استطعتم ألا تغلبوا على هذا، "فافعلوا"، وفي هذا دليل على أن المحافظة على صلاة الفجر وصلاة العصر من أسباب النظر إلى وجه الله -عز وجل-.
580;ریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ اس حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبی ﷺ کے ہم راہ تھے کہ آپ ﷺ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم عن قریب اپنے پروردگار کا دیدار اسی طرح کروگے، جس طرح اس چاند کا مشاہدہ کر رہے ہو“ یعنی قیامت کے روز مؤمنین، جنت میں اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھیں گے، جس طرح دنیا میں چودہویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، چاند کی طرح ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں، وہ سب سے زیادہ عظیم اور صاحب جلال ہے۔ یہاں فقط ایک رؤیت کو دوسری رؤیت سے تشبیہ دینے کا معنی مقصود ہےکہ جس طرح ہم چودہویں رات کے چاند کا اپنی حقیقی آنکھوں سے اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی رؤیت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا، اسی طرح ہم اپنے عزیز و صاحب جلال پروردگار کا دیدار بلا کسی شک و شبہ کے اس چاند کو اپنی حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کی طرح کریں گے۔ یہ بات بھی جان لو کہ اہل جنت کے نزدیک سب سے زیادہ لذیذ و نفیس اور عمدہ ترین نعمت، اللہ تعالیٰ کا دیدار ہی ہوگا اور کوئی دوسری شے اس کے برابر نہیں ہوسکتی،اور رسول اللہ ﷺ نے اس عظیم نعمت کہ ”جس طرح ہم اس چودہویں رات کے چاند کا نظارہ کررہے ہیں، اسی طرح اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے“ کا ذکر کرنے کے بعدفرمایا: ”لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے، تو ایسا ضرور کرو“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کو بلا کم و کاست وکامل طریقے سے ادا کرو۔ ان کو کامل طریقے سے ادا کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ انھیں جماعت سے ادا کیا جائے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر کی محافظت اور ان کی ادائیگی میں استقامت کے سبب، اللہ عز وجل کا دیدار نصیب ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5657

 
 
Hadith   989   الحديث
الأهمية: إنما مثل صاحب القرآن كمثل الإبل المُعَقَّلَة


Tema:

حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ جیسی ہے۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنّما مَثَلُ صَاحبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الإِبِلِ المُعَقَّلَةِ، إنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أمْسَكَهَا، وَإنْ أطْلَقَهَا ذَهَبَتْ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ جیسی ہے، اگر اس نے ان کی نگہداشت کی، تو وہ انھیں قابو میں رکھے گا اور اگر انھیں چھوڑ دے گا، تو وہ چلے جائیں گے“۔

Esin Hadith Caption Urdu


"إنما مثل صاحب القرآن" أي: الحافظ له عن ظهر قلب، "كمثل صاحب الإبل المعقلة" أي المربوطة بالعقال، وبيّن وجه شبهه، بقوله: "إن عاهد عليها" بالربط دائما وتابعها وانتبه لها "أمسكها، وإن أطلقها" بفك العقال عنها، "ذهبت"، وكذا صاحب القرآن إن داوم على تعاهده بالتلاوة والمراجعة ثبت القرآن في صدره، وإن ترك ذلك ذهب ونُسي، ولا يقدر على عوده إلا بعد مشقة وتعب، فما دام تعهده موجوداً فحفظه موجود؛ كما أن الإبل ما دامت مشدودة بالعقال فهي محفوظة، وخص الإبل بالذكر لأنها أشد حيوان إنسي نفوراً، وفي تحصيل الإبل بعد نفورها صعوبة

Esin Hadith Caption Urdu


”صاحب قرآن کی مثال“ یعنی قرآن مجید کو یاد کرتے ہوئے دل و دماغ میں راسخ کرنے والا۔ ”رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے“ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس تشبیہ کی وجہ شبہ واضح فرمائی کہ ”اگر وہ اس کو اپنی نگہداشت میں رکھے گا“ یعنی ہمیشہ اس کو باندھ کر رکھے گا، اس کو بار بار دیکھتا رہے گا اور اس کے حال سے باخبر و چوکنا رہے گا ”تو اسے اپنی ملکیت و قبضہ میں رکھ سکے گا“ اور اگر اس کو شتر بے مہار چھوڑ دے کا، تو وہ بھاگ جائے گا۔ یہی حال حافظ قرآن کا ہے کہ اگر وہ مداومت کے ساتھ روزانہ اس کی تلاوت کرے اور اس کو بار بار دہراتا رہے، تو یہ اس کے دل و دماغ میں راسخ و جاگزیں ہوجائے گا اور اگر اس کو طاق نسیان کی نذر کردے، تو دل و دماغ سے رخصت ہوجائے گا اور بھلا دیا جائے گا اور بعد ازاں اس کو دوبارہ حفظ کرنے کے لیے کافی مشقت اور تکان جھیلنی پڑے گی۔ چنانچہ جس قدر قرآن مجید کی حفاظت کا خیال رکھا جائے، اسی لحاظ سے وہ باقی رہے گا، جیسے اونٹ کو جب تک پابہ زنجیر رکھاجائے، محفوظ ہے۔ یہاں اونٹ کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ گھریلو جانوروں میں سب سے زیادہ تیزی سے بدکنے والا جانور ہے اور اس کے بھاگ جانے کے بعد اس کو پانا بہت ہی مشکل امر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5658

 
 
Hadith   990   الحديث
الأهمية: أنه مر على صبيان فسلم عليهم قال كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يفعله


Tema:

ان کا گزر چند بچوں کے پاس سے ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام کیا اور فرمایا: نبی ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

عن أنسٍ -رضي الله عنه-: أنّهُ مَرَّ على صِبْيَانِ، فَسَلَّمَ عليهم، وقالَ: كانَ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- يَفعلُهُ.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر چند بچوں کے پاس سے ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام کیا اور فرمایا: نبی ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث الندب إلى التواضع وبذل السلام للناس كلهم، وبيان تواضعه -صلى الله عليه وسلم-، ومنه أنه كان يسلم على الصبيان إذا مر عليهم، واقتدى به أصحابه -رضي الله عنهم- فعن أنس -رضي الله عنه- أنه كان يمر بالصبيان فيسلم عليهم، يمر بهم في السوق يلعبون فيسلم عليهم ويقول: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يفعله، أي يسلم على الصبيان إذا مر عليهم، وهذا من التواضع وحسن الخلق ومن التربية وحسن التعليم والإرشاد والتوجيه، لأن الصبيان إذا سلم الإنسان عليهم، فإنهم يعتادون ذلك ويكون ذلك كالغريزة في نفوسهم.
581;دیث میں تواضع اختیار کرنے اورتمام لوگوں کو سلام کرنے کی ترغیب ہے اور آپ ﷺ کی تواضع کا بیان ہے۔ اسی تواضع کا ایک مظاہرہ یہ کہ آپ ﷺ کا گزر جب بچوں کے پاس سے ہوتا تو آپ ﷺ انہیں سلام کیا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کے صحابہ بھی آپ کی اقتدا میں ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کیا کرتے تھے۔ بچے بازار میں کھیل رہے ہوتے اور آپ وہاں سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے اور فرماتے کہ: نبی ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے یعنی جب آپ ﷺ کا بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کیا کرتے تھے۔ یہ تواضع اور حسنِ خلق کا مظاہرہ ہے اور اس میں تربیت، اچھی تعلیم اور راہنمائی کا پہلو بھی ہے کیونکہ بچوں کو جب کوئی شخص سلام کرتا ہے تو انہیں اس کی عادت پڑجاتی ہے اور یہ ان کے دلوں میں سرشت کی مانند رچ بس جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5659

 
 
Hadith   991   الحديث
الأهمية: أما هذا فقد عصى أبا القاسم -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

اس شخص نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

عن أبي الشعثاء، قال: كنا قُعُودًا مع أبي هريرة -رضي الله عنه- في المسجد، فأذن المؤذن، فقام رجل من المسجد يمشي، فأَتْبَعَهُ أبو هريرة بَصَرَهُ حتى خرج من المسجد، فقال أبو هريرة: أما هذا فقد عصى أبا القاسم -صلى الله عليه وسلم-.

ابو شعثاء رحمہ اللہ بيان کرتے ہيں کہ ہم مسجد میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان دی، تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور مسجد سے جانے لگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بغور اسے دیکھتے رہے حتی کہ وہ مسجد سے نکل گیا، تب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس آدمی نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أبو الشعثاء أنهم كانوا قعودا مع أبي هريرة في المسجد، فأذن المؤذن، فإذا برجل بعد الأذان يمشي، فظل أبو هريرة -رضي الله عنه- ينظر إليه هل سيخرج من المسجد أم ماذا يريد؟ فلما تبين له أنه خرج، أخبر أنه بفعله هذا قد عصى النبي -صلى الله عليه وسلم-.
575;بو شعثاء رحمہ اللہ بيان کرتے ہيں کہ ہم لوگ مسجد میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان دی، تو اذان کے بعد ایک آدمی کھڑا ہوکر چلنے لگا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف ديکھنے لگے کہ کيا وہ مسجد سے باہر جانے والا ہے يا وہ کيا چاہتا ہے؟ جب انہيں پتہ چل گیا کہ وہ مسجد سے باہر نکل گیا، تو انھوں نے بتلایا کہ اس آدمی نے اپنے اس فعل کے ذریعہ نبی ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5731

 
 
Hadith   992   الحديث
الأهمية: من عرض عليه ريحان، فلا يرده، فإنه خفيف المحمل، طيب الريح


Tema:

جسے کوئی خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے، اس لیے کہ وہ ہلکی پھلکی چیز ہے اور اس کی مہک خوشگوار ہوتی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من عُرِضَ عليه رَيْحَانٌ فلا يرده، فإنه خفيف الْمَحْمِلِ، طيب الريح».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسے کوئی خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے، اس لیے کہ وہ ہلکی پھلکی چیز ہے اور اس کی مہک خوشگوار ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أُهدي إليه طيب أو عُرِض عليه التطيب به فينبغي قبوله، فإنه لا مشقة في حمله وكذلك ريحه طيب.
580;سے خوشبو پیش کی جائے یا بطور تحفہ دی جائے اسے چاہیے کہ وہ اسے قبول کر لے کیونکہ اس کے اٹھانے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کی مہک خوشگوار بھی ہوتی ہے ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5732

 
 
Hadith   993   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان لا يرد الطيب


Tema:

نبی اکرم ﷺ خوش بو نہیں لوٹاتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان لا يَرُدُّ الطيب.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ خوش بو نہیں لوٹاتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هدي النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه لا يرد الطيب ولا يرفضه؛ لأنه خفيف المحمل وطيب الرائحة، كما جاء في الرواية الأخرى.
606;بی اکرم ﷺ کی یہ سنت تھی کہ آپ خوش بو نہیں لوٹاتے تھے اور نہ ہی اسے لینے سے انکار کرتے تھے اس لیے کہ وہ غیر وزنی ہلکی پھلکی ہوتی ہے اور اس کی مہک بہت ہی خوشگوار ہوتی ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کا بیان آیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5733

 
 
Hadith   994   الحديث
الأهمية: سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلًا يثني على رجل ويطريه في المدحة، فقال: أهلكتم -أو قطعتم- ظَهْر الرَّجل


Tema:

نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو کسی کی تعریف کرتے سنا، وہ اس کی تعریف میں مبالغہ کر رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا تم نے ہلاک کردیا یا فرمایا تم نے اس آدمی کی کمر توڑدی ہے۔

عن أبي موسى الأشعري - رضي الله عنه- قال: سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلا يُثْنِي على رجل ويُطْرِيهِ في المِدْحَةِ، فقال: «أَهْلَكْتُمْ -أو قَطَعْتُمْ- ظَهْرَ الرجل».

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو کسی کی تعریف کرتے سنا، وہ اس کی تعریف میں مبالغہ کر رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے تو اُسے ہلاک کردیا“ یا فرمایا: ”تم نے اس آدمی کی کمر توڑدی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلًا يصف رجلًا بالخير، ويبالغ جدًّا في وصفه بما ليس فيه من الصفات الحميدة، فنهاه النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأخبر أن هذا قد يكون سببا في هلكته؛ لأن ذلك يوجب أن هذا الممدوح يترفع ويتعالى.
606;بی کریم ﷺ نے ایک شخص کو سنا جو کسی کی تعریف کررہا تھا اور اس کی تعریف میں بہت زیادہ مبالغہ کررہا تھا جو اس کی صفات کا حصہ نہیں تھی، آپ ﷺ نے اسے منع کیا اور فرمایا یہ اس کی ہلاکت کا باعث ہے، اس لیے کہ اس تعریف کی وجہ سے اس میں تکبّر اور بڑکپن پیدا ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5734

 
 
Hadith   995   الحديث
الأهمية: ويحك! قطعت عنق صاحبك


Tema:

افسوس! تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی!

عن أبي بكرة -رضي الله عنه-: أن رجلًا ذكر عند النبي -صلى الله عليه وسلم- فأثنى عليه رجلٌ خيرًا، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «ويحك! قطعت عنق صاحبك» يقوله مرارًا: «إن كان أحدكم مادحا لا محالة فليقل: أحسب كذا وكذا إن كان يرى أنه كذلك وحسيبه الله، ولا يُزكَّى على الله أحد».

ابو بكره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک شخص کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی تعریف کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”افسوس! تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی!“ آپ ﷺ نے ایسا کئی مرتبہ کہا۔ (پھر فرمایا): ”اگر تم میں سے کسی کو کسی کی تعریف کرنا ہی ہو تو وہ کہے کہ میرے خیال میں وہ ایسے اور ایسے ہے، اگر وہ اسے ایسا سمجھتا ہو، باقی اس کا حساب لینے والا تو اللہ ہے۔ کسی کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ نہ کہے کہ وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث توجيهات السنة المباركة؛ فالمسلم يبعد عن المبالغة في الثناء، فالغرور والعجب أحد مداخل الشيطان، والمبالغة في الثناء والمدح تغمر الممدوح بالغرور والتكبر فيهلك، فيعتدل المسلم في ثنائه ومدحه ويكل أمر الناس لله -سبحانه- العالم بخفايا النفوس.
581;دیث شریف میں نبوی رہنمائی ہے؛ مسلمان تعریف کرنے میں مبالغہ آرائی سے دور رہتا ہے۔ غرور اور خود پسندی شیطان کے در آنے کے راستے ہیں اور ثنا خوانی اور تعریف میں مبالغہ ممدوح کو غرور اور تکبر میں مبتلا کردیتا ہے جس سے وہ ہلاکت کا شکار ہو جاتا ہے۔چنانچہ مسلمان اپنے ممدوح کی ثنا اور تعریف میں اعتدال سے کام لیتا ہے اور لوگوں کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے جو دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5735

 
 
Hadith   996   الحديث
الأهمية: إذا رأيتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب


Tema:

جب تم (روبرو) تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈالو۔

عن المقداد -رضي الله عنه-:أن رجلا جعل يمدح عثمان -رضي الله عنه- فعَمِدَ المقداد، فجَثَا على ركبتيه، فجعل يَحْثُو في وجهه الحَصْبَاءَ. فقال له عثمان: ما شأنك؟ فقال: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا رأيتم المَدَّاحِينَ، فاحْثُوا في وجوههم التراب».

مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک آدمی عثمان رضی اللہ عنہ (کے منہ پر ان) کی تعریف کرنے لگا ، تو مقداد رضی اللہ عنہ قصداً اپنے گھنٹوں کے بل بیٹھ گئے اور اس تعریف کرنے والے آدمی کے چہرے پر کنکریاں پھینکنے لگے، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم (روبرو) تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈالو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن المقداد -رضي الله عنه- أن رجلا امتدح عثمان -رضي الله عنه- فجلس المقداد على ركبتيه وأخذ صغير الحصى ورماها في وجه هذا المادح، فسأله عثمان لماذا فعل ذلك، فأخبر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أمرنا إذا رأينا المداحين أن نرمي في وجوههم التراب.
605;قداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عثمان رضی اللہ عنہ کی (منہ پر) تعریف کی تو مقداد اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں لیں اور اس تعریف کرنے والے آدمی کے چہرےپر پھینکا ، تو عثمان رضى الله عنہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نےبتایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب ہم (منہ پر) تعریف کرنے والوں کو دیکهیں تو ان کے چہروں پر مٹی ڈالیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5736

 
 
Hadith   997   الحديث
الأهمية: إذا سمعتم الطاعون بأرض، فلا تدخلوها، وإذا وقع بأرض، وأنتم فيها، فلا تخرجوا منها


Tema:

جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل چکی ہے تو اس جگہ مت جاؤ اور اگر کسی جگہ طاعون پھیل جائے اور تم اس جگہ ہو تو پھراس جگہ سے باہر مت نکلو۔

عن أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إذا سمعتم الطاعونَ بأرض فلا تدخلوها وإذا وقع بأرض وأنتم فيها فلا تخرجوا منها».

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم سنو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل چکی ہے تو اس جگہ مت جاؤ اور اگر کسی جگہ طاعون پھیل جائے اور تم اس جگہ ہو تو پھر اس جگہ سے باہر مت نکلو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا نزل وباء بأرض لم يدخلها الإنسان فلا يجوز له دخولها حفاظاً على صحته وصحة غيره، وإذا دخل المرض في أرض هو فيها لم يجز له الخروج وعليه أن يصبر على قدر الله ليكتب له الأجر.
575;گر کسی جگہ کوئی وبا پھیل چکی ہو اور آدمی اس جگہ نہ ہو تو خود اپنی اور دوسروں کی صحت کی حفاظت کے پیش نظر اس کے لیے اس جگہ جانا جائز نہیں ہے اور اگر مرض کسی ایسی جگہ پھیل جائے جہاں وہ پہلے سے موجود ہو تو اس صورت میں اس کا وہاں سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی تقدیر پر صبر کرے تاکہ اجر کا سزاوار ہو سکے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5737

 
 
Hadith   998   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يسافر بالقرآن إلى أرض العدو


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے دشمن کے علاقے میں قرآن کریم لے جانے سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعاً: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يُسَافَرَ بالقرآن إلى أرض العدو.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے دشمن کے علاقے میں قرآن کریم لے جانے سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أخذ القرآن والسفر به إلى بلاد الكفر الذين لا يدينون بالاسلام فيكون عرضة للامتهان هناك، وإذا غلب على الظن السلامة من ذلك جاز.
606;بی ﷺ نے قرآن کریم لے کر کفار کے علاقوں کی طرف جانے سے منع فرمایا، جو اسلام کو نہیں مانتے؛ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں اس کی بے حرمتی ہوجاۓ۔ البتہ جب غالب گمان یہ ہو کہ بے حرمتی نہیں ہو گی، تو پھر اس کا لے جانا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5738

 
 
Hadith   999   الحديث
الأهمية: إني أراك تحب الغنم والبادية فإذا كنت في غنمك


Tema:

میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحرا کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں رہو

عن عبد الله بن عبد الرحمان بن أبي صعصعة: أن أبا سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال له: «إنِّي أرَاكَ تُحبُّ الغنم والبادية فإذا كُنْتَ في غنمك -أو بَادِيتِك- فَأذَّنْتَ للصلاةِ، فَارْفَعْ صوتك بِالنِّدَاءِ، فَإنَّهُ لا يَسمَعُ مدى صَوْتِ المُؤذِّنِ جِنٌّ، وَلاَ إنْسٌ، وَلاَ شَيْءٌ، إِلاَّ شَهِدَ لَهُ يَومَ القِيَامَةِ» قال أبو سعيد: سمعتُه من رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-.

عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ”میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحرا کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا صحرا اور جنگل میں رہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو، تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیوں کہ مؤذن کی آوازِ اذان کو جہاں تک کوئی انسان، جِن یا کوئی چیز سنے گی، قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی“۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عبد اللّه بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة أن أبا سعيد الخدري -رضي اللّه عنه- قال له: "إني أراك تحب الغنم والبادية"، وهي خلاف الحاضرة،  وجمعها بَوَادٍ، "فإذا كنت في غنمك أو باديتك فأذنت للصلاة"، أي: أردت الأذان لها، "فارفع صوتك بالنداء"، : بالأذان، "فإنه "لا يسمع غاية، "صوت المؤذن" ونهايته وأقصاه "جن ولا إنس" ولا شيء" قيل: المراد  كل شيء يصح منه الشهادة كذلك، وقيل: عام في كل ما يسمع ولو غير عاقل من سائر الحيوانات دون الجماد،  "إلا شهد له يوم القيامة"، أي: يشهد له يوم القيامة بأنه من المؤذنين تنويهاً لفضله، وبياناً لثوابه.
593;بد اللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ روایت كرتے ہیں کہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ک: ”میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحرا کو محبوب رکھتے ہو“ 'بادیۃ' 'حاضرۃ' (شہر) کی ضد ہے، اس کی جمع 'بواد' ہے۔ لہٰذا جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے صحرا میں رہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو یعنی نماز کے لیے اذان دینے کا ارادہ کرو، تو بلند آواز سے اذان دو، کیوں کہ مؤذن کی آواز کے پہنچنے کی آخری حد تک جو بھی جن، انسان یا کوئی اور چیز اس آواز کو سنے گی۔ اس کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس جملے سے (کائنات کی) ہر چیز مراد ہے، جس کی گواہی دینا ممکن ہو۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ جمادات کو چھوڑ کر ہر سننے کی طاقت رکھنے والے حیوانات کے لیے عام ہے، خواہ وہ غیر عاقل ہی کیوں نہ ہو۔ ”تو وہ قیامت کے روز اس کی گواہی دے گی“ کہ وہ مؤذنین میں سے تھا؛ تاکہ اس کے فضل و مرتبے کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور اس کے اجر و ثواب کے بیان کا اظہار ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5771

 
 
Hadith   1000   الحديث
الأهمية: أهديت رسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا


Tema:

میں نے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک جنگلی گدھا بطورِ تحفہ پیش کیا۔

عن الصعب بن جَثَّامَةَ -رضي الله عنه-، قال: أهديتُ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - حماراً وحشياً، فَرَدَّهُ عَلَيَّ، فلما رأى ما في وجهي، قال: «إنا لم نَرُدَّهُ عليك إلا لأنَّا حُرُمٌ».

صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک جنگلی گدھا تحفے کے طور پر پیش کیا تو آپ ﷺ نے وہ مجھے واپس کردیا۔ جب آپ ﷺ نے میرے چہرے پر ملال کے آثار دیکھے تو فرمایا: ”ہم تمہیں یہ واپس نہ کرتے لیکن بات یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من حسن خلقه -صلى الله عليه وسلم- أنه كان لا يداهن الناس في دين الله، ولا يفوته أن يطيب قلوبهم، فالصعب بن جثامة -رضي الله عنه- مر به النبي -صلى الله عليه وسلم-، والنبي -صلى الله عليه وسلم- محرم وكان الصعب بن جثامة عداء راميًا، فلما مر به النبي -صلى الله عليه وسلم- صاد له حمارًا وحشيًّا، وجاء به إليه فرده النبي -صلى الله عليه وسلم- فثقل ذلك على الصعب، كيف يرد النبي -صلى الله عليه وسلم- هديته؟، فتغير وجهه فلما رأى ما في وجهه طيب قلبه، وأخبره أنه لم يرده عليه إلا لأنه محرم، والمحرم لا يأكل من الصيد الذي صِيد من أجله.
606;بی ﷺ کے اخلاق حسنہ میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ اللہ کے دین کے بارے میں لوگوں سے مداہنت نہیں برتتے اور ان کی دلجوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ چنانچہ نبی ﷺ کا گزر صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں تھے۔ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ بہت تیز بھاگنے والے اور ماہر تیر انداز تھے۔ جب نبی ﷺ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو انہوں نے ایک جنگلی گدھے کو آپ ﷺ کے لیے شکار کیا اور اسے لے کر آپ ﷺ کے پاس آئے لیکن نبی ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ صعب رضی اللہ عنہ پر یہ بات گراں گزری کہ نبی ﷺ نے ان کا ہدیہ کیوںکر واپس کر دیا؟ ان کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کا چہرہ دیکھا تو ان کی دل جوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپﷺ نے ان کا تحفہ صرف اس لیے واپس کر دیا ہے کیونکہ وہ حالت احرام میں ہیں اور محرم شخص اس شکار کو نہیں کھا سکتا جو اس کے لیے شکار کیا گیا ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5772

 
 
Hadith   1001   الحديث
الأهمية: أي الناس أفضل يا رسول الله


Tema:

اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا شخص سب سے افضل ہے؟

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: قال رجلٌ: أي الناسِ أفضل يا رسول الله؟ قال: «مؤمنٌ مجاهدٌ بنفسِه ومالِه في سبيل الله» قال: ثم مَن؟ قال: «ثم رجلٌ معتزلٌ في شِعب من الشِّعَاب يعبدُ ربَّه، ويدعُ الناسَ من شره».
وفي رواية: «يتقِي اللهَ، ويدعُ الناسَ مِن شَره».

ابو سعیدی الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا شخص سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ مومن جو اپنے جان و مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے“۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون سا شخص زیادہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”وہ مومن جو گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں عزلت نشین ہو کر اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے“۔
ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں ”جو اللہ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سئل النبي -صلى الله عليه وسلم- أي الرجال خير؟ فبين أنه الرجل الذي يجاهد في سبيل الله بماله ونفسه، قيل: ثم أي؟ قال: ورجل مؤمن في شعب من الشعاب يعبد الله ويدع الناس من شره. يعني: أنه قائم بعبادة الله كاف عن الناس ولا يريد أن ينال الناس منه شر.
606;بی ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا شخص سب سے بہتر ہے؟۔ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ وہ شخص جو اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ آپ ﷺ سے مزید دریافت کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا شخص سب سے بہتر ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں عزلت نشین ہوکر اللہ کی عبادت کرنے والا اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کردینے والا شخص۔ یعنی جو اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے، لوگوں سے تعرض کرنے سے باز رہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ ان کے ساتھ کچھ بُرا کرے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5773

 
 
Hadith   1002   الحديث
الأهمية: بينا أيوب -عليه السلام- يغتسل عريانًا، فخر عليه جَرَادٌ من ذهب


Tema:

ایوب علیہ السلام کپڑے اتار کر غسل فرما رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: "بينا أيوبُ -عليه السلام- يَغتَسلُ عُرياناً، فَخَرَّ عليه جَرَادٌ من ذَهَبٍ، فجعلَ أيوبُ يَحْثِي في ثوبِهِ، فنَاداه ربُّه -عز وجل-: يا أيوبُ، ألَمْ أكنْ أغْنَيتك عما تَرى؟!، قال: بلى وعزتِك، ولكن لا غِنى بي عن بركتِكَ".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس دوران کہ ایوب علیہ السلام کپڑے اتار کر غسل فرما رہے تھے ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں۔ ایوب (علیہ السلام) اسے اپنے کپڑے میں لپ بھر بھر کے سمیٹنے لگے، اتنے میں ان کے رب عز وجل نے انہیں پکارا کہ اے ایوب! کیا میں نے تمھیں اس چیز سے بے نیاز نہیں کر دیا تھا؟ ایوب (علیہ السلام) نے جواب دیا: کیوں نہیں، تیری عزت کی قسم! لیکن تیری برکت سے میرے لیے بےنیازی کیوں کر ممکن ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان أيوب -عليه السلام- يغتسل عريانًا، فسقط عليه ذهب كثير على هيئة الجراد، فجعل أيوب -عليه السلام- يأخذه ويرميه في ثوبه، فناداه ربه -عز وجل-: ألم أكن أغنيتك عن هذا؟ فقال: بلى وعزتك، ولكني لم آخذه شرهًا وحرصًا على الدنيا، إنما لكونه بركةً منك.

Esin Hadith Caption Urdu


(ایک مرتبہ) ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے کہ اچانک ان کے اوپر بہت سارا سونا بشکل ٹڈی گرا تو ایوب علیہ السلام اسے پکڑنے اور اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے تو اللہ عزوجل نے انہیں آواز دی: اے ایوب! کیا میں نے تمھیں اس سے بے نیاز نہیں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں، تیری عزت کی قسم! لیکن میں تو اسے دنیا کی ہوس اور لالچ کے طور پر نھیں لے رہا ہوں، بس یہ تو تیری برکتوں میں سے ہے اسی ناطے لے رہا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5774

 
 
Hadith   1003   الحديث
الأهمية: بينما جبريل -عليه السلام- قاعد عند النبي -صلى الله عليه وسلم- سمع نقيضًا من فوقه


Tema:

جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایک آواز سنی۔

عن عبدالله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: (بينما جبريل -عليه السلام- قاعد عند النبي -صلى الله عليه وسلم- سمع نَقِيضَا من فوقه، فرفع رأسه، فقال: هذا باب من السماء فُتِحَ اليوم ولم يفتح قط إلا اليوم. فنزل منه مَلَكٌ، فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم. فسلم وقال: أبشر بنُورين أُوتِيْتَهُما لم يُؤتهما نَبِيٌّ قبلك: فاتحة الكتاب، وخَوَاتِيمُ سورة البقرة، لن تقرأ بحرف منها إلا أُعْطِيتَهُ).

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایک آواز سنی۔ انھوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور بتایا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے، جو آج ہی کھولا گیا ہے۔ یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا۔ پھر اس سے ایک فرشتہ اترا، تو جبریل نے بتایا کہ یہ ایک فرشتہ ہے، جو آسمان سے اترا ہے، یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا۔ اس نے سلام عرض کیا اور کہا: مبارک ہو! آپ کو دوایسے نور عطا کیے گئے ہیں، جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے؛ ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسری سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں۔ ان دونوں میں سے ایک حرف بھی تم پڑھو گے، تو (اس کا ثواب) تمھیں ضرور دیا جائے گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال ابن عباس -رضي الله عنهما-: "بينما جبريل قاعد عند النبي سمع نقيضاً"، أي: صوتاً شديداً؛ كصوت نقض خشب البناء عند كسره، "من فوقه" أي: من جهة السماء أو من قبل رأسه، وقيل: صوتاً مثل صوت الباب، "فرفع رأسه، فقال جبريل: هذا باب من السماء"، أي: الدنيا، "فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم، فنزل منه"، أي: من الباب، "ملك، قال:" أي: جبريل، "هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم فسلم"، أي: ذلك الملك، "وقال: أبشر بنورين"، سماهما نورين؛ لأن كل واحدة منهما نور يسعى بين يدي صاحبهما، أو لأنهما يرشدان إلى الصراط المستقيم بالتأمل فيه والتفكر في معانيه، واختصاص هذين النورين بهذين الأمرين اللذين لم يقعا في غيرهما للدلالة على أفضليتهما واختصاصهما بما لم يوجد في غيرهما، النور الأول سورة الفاتحة والثاني الآيتان من آخر سورة البقرة، فإنهما ما قرأهما واحد من هذه الأمة مؤمناً إلا آتاه الله تعالى ما فيهما من الطلب، "أوتيتهما"، أي: أعطيتهما، "لم يؤتهما نبيّ قبلك".
575;بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایک آواز سنی، ”نقیض“ یعنی ایسی اونچی آواز، جو لکڑی کو کوئی سامان تیار کرنے کے لیے پھاڑتے وقت پیدا ہو۔ ”من فوقہ“ یعنی آسمان یا آپ کے سر کی جانب سے۔ ایک قول یہ ہے کہ دروازے کے کھلنے کی آواز کی طرح آواز آئی تھی۔ تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی، چنانچہ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے یعنی آسمانی دنیا کا دروازہ۔ آج ہی کھولا گیا ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا۔ پھر اس سے یعنی دروازے سے ایک فرشتہ اترا، تو جبریل نے کہا: یہ ایک فرشتہ ہے، جو آسمان سے اترا ہے۔ یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا۔ اس نے یعنی فرشتے نے سلام عرض کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دو نور کی خوش خبری مبارک ہو، ان دونوں سورتوں کو نور سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ایسا نور ہے، جو ان پر عمل پیرا لوگوں کی گزرگاہوں کو روشن کرتا ہے یا ان پر تدبر اور ان کے معانی پر غور وخوض کرنے والوں کو صراط مستقیم پر گام زن کر دیتا ہے۔ دونوں انوار کو ان دو واقعات کے ساتھ، جو پہلے کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے، مربوط کرنے کا مقصد ان کی افضلیت اور ان کی خصوصیات کو اجاگر کرنا ہے۔ پہلا نور سورۂ فاتحہ اور دوسرا سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں۔ لہٰذا اس امت کا جو شخص ان پر ایمان رکھتے ہوئے ان کی تلاوت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ان دونوں آیتوں میں مانگی گئی ساری چیزیں عطا کرے گا۔
”اوتیتھما“ یعنی ”اعطیتھما“ یعنی یہ دو انوار آپ سے پہلے کسی اورنبی کو عطا نہیں کی گئیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5775

 
 
Hadith   1004   الحديث
الأهمية: بينما رجل يمشي بفلاة من الأرض فسمع صوتًا في سحابة


Tema:

ایک مرتبہ ایک آدمی ایک لق و دق صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے بادل سے ایک آواز سنی

عن أبي هريرة عن النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- قال: "بينما رجلٌ يمشي بفلاةٍ من الأرضِ، فسمع صوتًا في سحابةٍ: اسقِ حديقةَ فلانٍ. فتنحَّى ذلك السحابُ، فأفرغ ماءَه في حرةٍ، فإذا شَرْجَةٌ من تلك الشِّرَاجِ قد استوعبتْ ذلك الماءَ كلَّه، فتتَّبع الماءَ، فإذا رجلٌ قائمٌ في حديقته يُحوِّلُ الماءَ بمسحاته، فقال له: يا عبدَ اللهِ؛ ما اسمُك؟، قال: فلانٌ للاسم الذي سمعَ في السحابة، فقال له: يا عبدَ اللهِ؛ لم تسألني عن اسمي؟، فقال: إني سمعت صوتًا في السحابِ الذي هذا ماؤه، يقول: اسق حديقةَ فلانٍ لاسمِك، فما تصنعُ فيها؟، قال: أما إذ قُلتَ هذا فإني أنظرُ إلى ما يخرُجُ منها، فأتصدَّقُ بثُلثِه، وآكُلُ أنا وعيالي ثُلثًا، وأرُدُّ فيها ثُلثه".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ایک مرتبہ ایک آدمی ایک لق و دق صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے بادل سے ایک آواز سنی: فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر دو۔ پس بادل کا ایک ٹکڑا وہاں سے الگ ہوا اور ایک پتھریلی زمین پر پانی برسایا۔ پھر ایک نالی میں ساری نالیوں کا پانی جمع ہوکر آگے بڑھنے لگا۔ وہ صحرا نَورد اس پانی کے ساتھ چلتا رہا، تا آں کہ اس نے ایک آدمی کو دیکھا، جو اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی ادھر اُدھر پھیر رہا تھا۔ اس نے اس باغبان سے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام بتلایا، تو وہ وہی نام تھا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ باغبان نے اس نووارد سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: بات یہ ہے کہ میں نے اس بدلی میں، جس کا پانی برس کر تیرے باغ میں آیا ہے، تیرا نام سنا تھا؛ کوئی کہہ رہا تھا: فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ اور وہ تیرا یہی نام تھا، جو تونے مجھے بتلایا ہے۔ ذرا مجھے بتلا کہ تو کیا عمل کرتا ہے؟ اس نے کہا: تو مجھ سے پوچھ ہی ڈالا، تو سن! میرے اس باغ سے جتنی پیداوار ہوتی ہے، میں اس کے تین حصے کرلیتا ہوں؛ ایک حصہ صدقہ کردیتا ہوں، ایک حصہ میں اور میرے بچے کھا لیتے ہیں اور تیسرا حصہ میں پھر (اگلی فصل تیار کرنے کے لیے) باغ میں لگا دیتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بينا رجل بصحراء واسعة من الأرض، فسمع صوتًا في سحابة يقول: اسق بستان فلان، فابتعد ذلك السحاب عن مقصده، فأفرغ ماءه في أرض ذات حجارة سود، فإذا مسيل من تلك المسايل قد استوعب الماء كله، فتتبع الرجل الماء، فوجد رجلا قائما في حديقته يحول الماء من مكان إلى مكان من حديقته بمسحاته، فقال له: يا عبد الله ما اسمك؟ قال: فلان - للاسم الذي سمع في السحابة - فقال له: يا عبد الله لم تسألني عن اسمي؟ فقال: إني سمعت صوتا في السحاب الذي هذا ماؤه يقول: اسق حديقة فلان، لاسمك، فما تصنع في حديقتك من الخير حتى تستحق هذه الكرامة-، قال: أما إذ قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها من زرع الحديقة وثمرها، فأتصدق بثلثه، وآكل أنا وعيالي ثلثًا، وأصرف في الحديقة للزراعة والعمارة ثلثه.
575;یک مرتبہ ایک آدمی ایک وسیع صحرا میں تھا کہ اس نے ایک بادل سے ایک آواز سنی: فلاں کے باغ کو سیراب کردو۔ پس بادل کا ایک ٹکڑا وہاں سے اپنے مقصد کے لیے الگ ہوا اور ایک کالے پتھروں والی زمین پر پانی برسایا۔ پھر ایک نالی میں ساری نالیوں کا پانی جمع ہوکرآگے بڑھنے لگا۔ وہ صحرا نَورد پانی کے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے ایک آدمی دیکھا جو اپنے باغ میں کھڑا اپنی کدال سے پانی ادھر اُدھر پھیر رہا تھا۔ اس نے اس باغبان سے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام بتلایا، تو وہ وہی نام تھا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ باغبان نے اس نووارد سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے اس بدلی میں، جس کا پانی برس کر تیرے باغ میں آیا ہے،تیرا نام سنا تھا؛ کوئی کہہ رہا تھا: فلاں کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ در اصل تیرا یہی نام تھا۔ اب ذرا مجھے بتلا کہ تو کون سا خیر و بھلائی والا عمل کرتا ہے، جس کی بنا پر اس فضل و کرامت کے مستحق قرار پائے؟ اس نے کہا: تو مجھ سے پوچھ ہی ڈالا تو سن! میرے اس باغ سے جتنی پیداواراور پھل ہوتا ہے، میں اس کے تین حصے کرلیتا ہوں؛ ایک حصہ صدقہ کردیتا ہوں، ایک حصہ میں اور میرے بچے کھا لیتے ہیں، اور ایک حصہ باغ کی زراعت و آبادکاری میں لگا دیتا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5776

 
 
Hadith   1005   الحديث
الأهمية: اتقوا الظلم؛ فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، واتقوا الشح؛ فإن الشح أهلك من كان قبلكم، حملهم على أن سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم


Tema:

ظلم سے بچو، کیوں کہ ظلم روزِ قیامت تاریکیوں کا باعث ہوگا۔ بخل سے بچو، اس لیے کہ بخل ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے اسی بخل نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں خون خرابہ کریں اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیں۔

عن جابر بن عبدالله -رضي الله عنهما- قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اتقوا الظلم؛ فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، واتقوا الشُّحَّ؛ فإن الشُّحَّ أَهْلَك من كان قبلكم، حملهم على أن سفكوا دماءهم، وَاسْتَحَلُّوا محارمهم».

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:”ظلم سے بچو، کیوں کہ ظلم روزِ قیامت تاریکیوں کا باعث ہوگا۔ بخل سے بچو، اس لیے کہ بخل ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے اسی بخل نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں خون خرابہ کریں اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اجتنبوا ظلم الناس وظلم النفس والظلم في حق الله؛ لأن عاقبته أشد يوم القيامة، واجتنبوا أيضًا البخل مع الحرص، وهو نوع من الظلم، وهذا الداء قديم بين الأمم؛ فكان سببًا لقتل بعضهم، وإباحة ما حرم الله من المحرمات.
740;عنی لوگوں پر ظلم، اپنی جان پر ظلم نیز اللہ کے حق میں ظلم کرنے سے بچو کیوں کہ قیامت کے دن اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ اسی طرح بخل اور حرص سے بچو اور یہ بھی ظلم کی ہی ایک قسم ہے۔ لوگوں میں یہ بڑا پرانا مرض چلا آ رہا ہے اور بعض اوقات یہ لوگوں کے قتل کا بھی سبب بن جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ محرمات کو بھی جائز قرار دینے کا بھی کا باعث بن جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5787

 
 
Hadith   1006   الحديث
الأهمية: إذا دعا الرجل زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور


Tema:

جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو اسے فوراً آنا چاہیے اگرچہ وہ تنور پر ہو۔

عن أبي علي طلق بن علي -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا دعا الرجل زوجته لحاجته فَلْتَأتِهِ وإن كانت على التَّنُور».

ابو علی طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو اسے فوراً آنا چاہیے اگرچہ وہ تنّور (روٹی وغیرہ پکانے کی بھٹی) پر ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا طلب الرجل امرأته للجماع فيجب عليها أن تجيبه ولو كانت مشغولة شغلًا لا يقوم به غيرها، كأن تكون تخبز أو تطبخ.
580;ب شوہر اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلائے تو اس پر یہ واجب ہے کہ اس کی بات کو قبول کرے اگرچہ وہ ایسے کام میں مشغول ہو کہ اس کے علاوہ وہ کام کوئی نہ کر سکے، جیسے کہ وہ روٹی، یا کھانا پکا رہی ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5788

 
 
Hadith   1007   الحديث
الأهمية: إذا نعس أحدكم وهو يصلي فليرقد حتى يذهب عنه النوم


Tema:

جب تم میں سے کسی شخص کو نماز پڑھتے ہوئے اونگھ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ سو جائے، یہاں تک کہ اس کی نیند دور ہوجائے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «إذا نَعَسَ أحدكم وهو يصلي فَلْيَرْقُدْ حتى يذهب عنه النوم، فإن أحدكم إذا صلى وهو نَاعِسٌ لا يدري لعله يذهب يستغفر فَيَسُبُّ نَفْسَهُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو نماز پڑھتے ہوئے اونگھ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ سو جائے، یہاں تک کہ اس کی نیند دور ہوجائے۔ کیوں کہ جب تم میں سے کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا، تو ہوسکتا ہے کہ وہ استغفار کرنے کی بجائے اپنے آپ ہی کو برا کہنے لگ جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
موضوع الحديث كراهة إجهاد النفس بالعبادة فإذا أحس المصلي بمقدمة غلبة النوم عليه وهو يصلي فليقطع صلاته أو يتمها ثم يرقد ويريح نفسه حتى لا يحصل منه دعاء على نفسه حال تعبه.
581;دیث کا موضوع یہ ہے کہ عبادت سے نفس کو تھکانا ناپسندیدہ ہے۔ لہٰذا جب نمازی دورانِ نماز نیند کا غلبہ محسوس کرے تو اسے چاہيے کہ نماز توڑ کر یا پوری کر کے سوجائے اور اپنے نفس کو راحت و آرام پہنچائے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ تکان کی حالت میں وہ اپنے آپ پر بد دعا کر بیٹھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5789

 
 
Hadith   1008   الحديث
الأهمية: أعطوني ردائي، فلو كان لي عدد هذه العضاه نعمًا، لقسمته بينكم، ثم لا تجدوني بخيلًا ولا كذابًا ولا جبانًا


Tema:

میری چادر مجھے دے دو، اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں ان سب کو تم میں تقسیم کردیتا، مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ ہی جھوٹا اور بزدل پاؤگے۔

عن جبير بن مطعم -رضي الله عنه- قال: بينما هو يسير مع النبي -صلى الله عليه وسلم- مَقْفَلَه من حُنَيْن، فَعَلِقَهُ الأعراب يسألونه، حتى اضطروه إلى سَمُرَة، فَخَطِفَت رداءه، فوقف النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أعطوني ردائي، فلو كان لي عدد هذه العِضَاهِ نَعَمًا، لقسمته بينكم، ثم لا تجدوني بخيلًا ولا كذابًا ولا جبانًا».

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے، آپ کے ساتھ اور بہت سے صحابہ بھی تھے۔ وادیٔ حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ کچھ ( بدو ) لوگ آپ ﷺ سے لپٹ گیے اور مانگنا شروع کردیا۔ بالآخر آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک ببول کے کانٹوں میں الجھ گئی، فرمایا: ”میری چادر مجھے دے دو، اگر میرے پاس اِس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں اُن سب کو تم میں تقسیم کردیتا، مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ جھوٹا اور بزدل پاؤگے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما رجع النبي -صلى الله عليه وسلم- من غزوة حنين، وهو وادٍ بين مكة والطائف، وكان معه جبير بن مطعم -رضي الله عنه-، فتعلق الناس به يسألوه من الغنائم حتى ألجؤوه إلى شجرة سمرة -وهي من شجر البادية ذات شوك- فعلق رداءه بشوكها، فجبذه الأعراب، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: أعطوني ردائي لو كان لي عدد العضاه -وهي شجرة كثيرة الشوك- نعماً من الإبل والبقر والغنم لقسمته بينكم، ثم قال: وإذا جربتموني لا تجدوني بخيلًا ولا كذابًا ولا جبانًا.
585;سول اللہ ﷺ جب غزوۂ حنین سے واپس آ رہے تھے اور یہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ کچھ لوگ رسو ل اللہﷺ سے لپٹ گیے اور آپ سے مال غنیمت میں سے مال مانگنے لگے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو ایک ببول کے درخت کے پاس پناہ لینے پر مجبور کردیا (ببول دیہاتوں میں ایک خاردار درخت ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ کی چادر اس کے کانٹوں سے الجھ گئی، اور بدوؤں نے وہ چادر کھینچ لی۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: میری چادر مجھے دے دو، اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی (یہ بہت زیادہ خار دار درخت ہوتا ہے) اونٹ ،گائے اور بکریاں ہوتیں تو میں اُن سب کو تم میں تقسیم کردیتا۔ پھرفرمایا کہ: اگر اس وقت مجھے آزماؤ گے تو مجھے تم بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5790

 
 
Hadith   1009   الحديث
الأهمية: استعمل النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلا من الأزد يقال له: ابن اللتبية على الصدقة، فلما قدم، قال: هذا لكم، وهذا أهدي إلي، فقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على المنبر فحمد الله وأثنى عليه


Tema:

نبی ﷺ نے قبیلۂ ازد کے ایک شخص کو، جنھیں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب وہ (وصول کر کے) آئے، تو کہنے لگے: یہ مال تمھارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی

عن أبي حميد الساعدي -رضي الله عنه- قال: استعمل النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلا من الأزد يقال له: ابن اللُّتْبِيَّةِ على الصدقة، فلما قدم، قال: هذا لكم، وهذا أُهْدِيَ إِلَيَّ، فقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على المنبر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: «أما بعد، فإني أستعمل الرجل منكم على العمل مما وَلاَّنِي الله، فيأتي فيقول: هذا لكم وهذا هدية أهديت إلي، أفلا جلس في بيت أبيه أو أمه حتى تأتيه هديته إن كان صادقًا، والله لا يأخذ أحد منكم شيئًا بغير حقه إلا لقي الله تعالى، يحمله يوم القيامة، فلا أعرفن أحدًا منكم لقي الله يحمل بعيرًا له رُغَاءٌ، أو بقرةً لها خُوَارٌ، أو شاة تَيْعَرُ» ثم رفع يديه حتى رُؤِي بياض إِبْطَيْهِ، فقال: «اللهم هل بَلَّغْتُ».

ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قبیلۂ ازد کے ایک شخص کو، جنھيں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب وہ (وصول کر کے) آئے، تو کہنے لگے: یہ مال تمھارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیے میں ملا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں، جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے۔ پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمھارا مال ہے اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے! اگر وہ سچا ہے، تو کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں! اللہ کی قسم ! تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی چیز لے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہوگا؛ بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا، جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھائے ہوگا، جو بلبلا رہا ہوگا، گائے اٹھائے ہوگا، جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھائے ہوگا، جو ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كلف النبي -صلى الله عليه وسلم- رجلًا من الأزد يقال له ابن اللتبية بجمع الصدقة، فلما قدم المدينة بعد رجوعه من العمل، أشار إلى بعض ما معه من المال، وقال هذا لكم معشر المسلمين، وهذا أهدي إليّ، فقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على المنبر ليعلم الناس ويحذرهم من هذا الفعل، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما بعد فإني أجعل الرجل منكم عاملا على العمل من العمل الذي جعل الله لي التصرف فيه من الزكوات والغنائم، فيأتي أحدهم من عمله، فيقول: هذا لكم وهذه هدية أهديت لي! أفلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه حتى تأتيه هديته إن كان صادقًا في قوله، والله لا يأخذ أحد منكم معاشر العمال على الأعمال شيئا مما يعطاه وهو عامل بغير حق إلا لقي الله يحمله يوم القيامة على رقبته، وإن كان بعيرا أو بقرة أو شاة. ثم رفع يديه وبالغ في الرفع حتى رأى الصحابة رضي الله عنهم بياض إبطية، ثم قال اللهم قد بلغت ثلاث مرات.
606;بی ﷺ نےقبیلۂ ازد کے ایک آدمی کو جنھیں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا صدقہ اکٹھا کرنے کا مکلف بنایا۔ جب وہ اپنے کام سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے، تو اپنے پاس موجود کچھ مال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مال آپ مسلمانوں کی جماعت کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیۃً دیا گیا ہے! تو نبی ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے؛ تاکہ لوگوں کو بتائیں اور اس کام سے انھیں ڈرائیں۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: بے شک میں کسی کو زکاۃ اور مال غنیمت وغیرہ کی وصولی کا عامل بناتا ہوں، جس کا مجھے اختیار عطا کیا ہے۔ پھر وہ اپنے کام سے واپس آکر کہتا ہے: یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ ہدیہ ہے، جو مجھے دیا گیا ہے! اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو کیوں نہیں اپنے باپ کے گھر میں یا ماں کے گھر میں بیٹھا رہا کہ اس کے پاس ہدیہ آجاتا؟ اللہ کی قسم! جو شخص عامل رہتے ہوئے کوئی عطا کی ہوئی چیز لےگا، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس چیز کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا۔ اگرچہ وہ اونٹ ہو، گائے ہو یا بکری ہی کیوں نہ ہو! پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائےکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے بغل کی سفیدی دیکھی، پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ ! میں نے پہنچا دیا!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5791

 
 
Hadith   1010   الحديث
الأهمية: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقًا، وخياركم خياركم لنسائهم


Tema:

ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا، وخياركم خياركم لنسائهم».

ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہترہ و اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أعلى درجات المؤمنين هو من حسن خُلقه، ومن أحق الناس بحسن الخلق هي الزوجة؛ بل أحسن الناس خلقًا من حسن خلقه مع زوجه.
605;ومنوں میں سب سے اعلی درجہ اس مومن کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور لوگوں میں سے حسن اخلاق کی سب سے زیادہ مستحق بیوی ہوتی ہے بلکہ سب سے اچھے اخلاق کا حامل وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی بیوی سے اچھا اخلاقی برتاؤ کرتا ہو۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5792

 
 
Hadith   1011   الحديث
الأهمية: ألا تسمعون؟ ألا تسمعون؟ إن البذاذة من الإيمان، إن البذاذة من الإيمان


Tema:

کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ سادہ لباسی ایمان کی علامت ہے، سادہ لباسی ایمان کی علامت ہے۔

عن أبي أمامة إياس بن ثعلبة الأنصاري الحارثي -رضي الله عنه- قال: ذكر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوماً عنده الدنيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تسمعون؟ ألا تسمعون؟ إن البَذَاذَةَ من الإيمان، إن البَذَاذَةَ من الإيمان» قال الراوي: يعني التَّقحُّل.

ابو امامہ ایاس ابن ثعلبہ انصاری حارثی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے ایک دن آپ ﷺ کے پاس دنیا کا ذکر کیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ سادہ لباسی ایمان کا حصہ ہے، سادہ لباسی ایمان کا حصہ ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس سے آپﷺ کی مراد تکلفات اور زیب وزینت کی چیزوں کو ترک کرنا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تكلم نفر من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- في الدنيا فقال لهم النبي -صلى الله عليه وسلم-: (ألا تسمعون) أي: اسمعوا وكرر للتأكيد، إن التواضع في اللباس والزينة من أخلاق أهل الإيمان، والإيمان هو الباعث عليه.
606;بی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے دنیا کے بارے میں گفتگو کی۔ نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”کیا تم سن نہیں رہے ہو؟“ یعنی سنو، تاکید پیدا کرنے کی غرض سے آپ ﷺ نے اسے دہرایا۔ لباس اور زیب وزینت میں تواضع اختیار کرنا اہلِ ایمان کے اخلاق کا ایک جزء ہے جس کا سبب ایمان ہی ہوا کرتا ہے۔   --  [حَسَن لغيره]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5793

 
 
Hadith   1012   الحديث
الأهمية: الدنيا متاع، وخير متاعها المرأة الصالحة


Tema:

دنیا ایک متاع (پونجی) ہے اور اس کی بہترین پونجی نیک عورت ہے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «الدنيا متاع، وخير متاعها المرأة الصالحة».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دنیا ایک پونجی ہے اور اس کی بہترین پونجی نیک عورت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الدنيا بما فيها شيء يتمتع به حيناً من الوقت ثم يزول، ولكن أفضل متاع هذه الدنيا الزائلة المرأة الصالحة، التي تعين على الآخرة، وقد فسرها النبي صلى الله عليه وسلم بقوله: ((إذا نظر إليها سرته وإذا أمرها أطاعته وإذا غاب عنها حفظته في نفسها وماله)).
583;نیا میں جو کچھ بھی ہے اس سے ایک خاص وقت تک لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے پھر وہ فنا (ختم) ہو جاتا ہے، لیکن اس فانی دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے، جو آخرت کی تیاری میں معاونت کرتی ہے، نیک بیوی کی وضاحت نبئ کریم ﷺ نے یوں بیان فرمائی ہے: ”(خاوند) جب اسے دیکھے تو اسے خوش کر دے اور جب اسے حکم دے تو اطاعت کرے اور اگر وہ گھر پر نہ ہو تو اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5794

 
 
Hadith   1013   الحديث
الأهمية: إن الدين يسر، ولن يشاد الدين إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وأبشروا، واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة


Tema:

بے شک دین آسان ہے اور جب بھی دین پر سختی تھوپنے کی کوشش کی جائے گی، تو دین ایسا کرنے والے پر غالب آ جائے گا۔ لہذا، عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو، اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں، اپنے رب کے پاس ملنے والے ثواب کی خوش خبری قبول کرو اور صبح و شام اور کسی قدر رات (کی عبادت) کے ذریعے مدد حاصل کرو

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن الدين يسر، ولن يشاد الدين إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وأبشروا، واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة».
وفي رواية: «سددوا وقاربوا، واغدوا وروحوا، وشيء من الدلجة، القصد القصد تبلغوا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "بے شک دین آسان ہے اور جب بھی دین پر سختی تھوپنے کی کوشش کی جائے گی، تو دین ایسا کرنے والے پر غالب آ جائے گا۔ لہذا، عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو، اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں، اپنے رب کے پاس ملنے والے ثواب کی خوش خبری قبول کرو، اور صبح و شام اور کسی قدر رات (کی عبادت) کے ذریعے مدد حاصل کرو"۔ ایک اور روایت میں ہے: ”عمل کے معاملے میں اعتدال سے کام لو اور اگر کامل ترین صورت اپنا نہیں سکتے تو ایسے اعمال کرو جو اس سے قریب تر ہوں۔ صبح کو چلو، شام کو چلو، اور رات کے کچھ حصے میں، میانہ روی سے کام لو اور اعتدال کا دامن نہ چھوڑو، منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لا يتعمق أحد في الأعمال الدينية ويترك الرفق إلا عجز وانقطع عن عمله كله أو بعضه، فتوسطوا من غير مبالغة وقاربوا، وإن لم تستطيعوا العمل بالأكمل فاعملوا ما يقرب منه، وأبشروا بالثواب على العمل الدائم وإن قل، واستعينوا على تحصيل العبادات بفراغكم ونشاطكم.
قال النووي: قوله: "الدين" هو مرفوع على ما لم يسم فاعله، وروي منصوبًا، وروي: "لن يشاد الدين أحد" وقوله -صلى الله عليه وسلم-: "إلا غلبه": أي: غلبه الدين وعجز ذلك المشاد عن مقاومة الدين لكثرة طرقه.
والأمر بالغدو، وهو السير أول النهار، والرواح، وهو السير آخر النهار، والدلجة، وهي السير في الليل من باب التشبيه، شبه المسلم في سيره على الصراط المستقيم بالإنسان في عمله الدنيوي، ففي حال الإقامة يعمل طرفي النهار، ويرتاح قليلًا، وفي حال السفر يسير بالليل وإذا تعب نزل وارتاح، وكذلك السير إلى الله -تعالى-.
580;و بھی شخص دین کی فراہم کی ہوئی آسانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے دینی اعمال میں مشکل پسندی کی روش اپنائے گا، وہ ایک نہ ایک دن عاجز و بے بس ہوکر اپنے عمل سے کلی یا جزوی طور پر دامن کش ہو جائے گا۔ اس لیے غلو اور مبالغہ کو درکنار کرتے ہوئے اعتدال سے کام لو اور قریب ترین طریقہ اختیار کرو, چنانچہ اگر کامل ترین صورت پر عمل نہیں کر سکتے تو اس سے قریب ترین صورت پر عمل کرو۔ مسلسل کیے گئے عمل پر، اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، ثواب کی خوش خبری قبول کرو۔ اور فراغت و نشاط کے وقت کو غنیمت جان کر اللہ کی عبادت کیا کرو۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں وارد لفظ "الدین" نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ ویسے اسے منصوب بھی روایت کیا گیا ہے, نیز ایک روایت میں "لن يشاد الدين أحد" بھی آیا ہے۔ جب کہ آپ کے الفاظ "إلا غلبه" کے معنی یہ ہیں کہ دین سختی کی روش اپنانے والے پر غالب آ جائے گا جبکہ ایسا شخص دین کے احکام کے بکثرت ہونے کى وجہ سے دین کے مقابلے کی تاب نہ لا سکے گا۔ یاد رہے کہ دن کے پہلے حصے، آخری حصے اور رات میں چلنے کا حکم بطور تشبیہ ہے، جس میں ایک مسلمان کے صراط مستقیم پر چلنے کی تشبیہ ایک انسان کے دنیوی عمل میں مشغول رہنے سے دی گئي ہے، جو اقامت کی حالت میں دن کے دونوں کناروں میں یعنی صبح و شام کام کرتا ہے اور کچھ دیر آرام کرتا ہے، جب کہ سفر کی حالت میں رات میں چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے، تو اتر کر آرام کرتا ہے۔ کچھ یہی حالت اللہ کی جانب چلنے کی بھی ہونی چاہیے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5795

 
 
Hadith   1014   الحديث
الأهمية: إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانه، ولا ينزع من شيء إلا شانه


Tema:

نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، اسے مزیّن کردیتی ہے اور جس چیز سے بھی کھینچ لی جاتی ہے، اسے بدنما اور عیب دار کردیتی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانه، ولا ينزع من شيء إلا شانه».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، اسے مزیّن کردیتی ہے اور جس چیز سے بھی کھینچ لی جاتی ہے، اسے بدنما اور عیب دار کردیتی ہے“۔

صاحب الرفق يدرك حاجته أو بعضها أما صاحب العنف لا يدركها وإن أدركها فبمشقة.

606;رمی کرنے والا اپنی حاجت یا اس کا کچھ حصہ پالیتا ہے۔ لیکن سختی کرنے والا اپنی حاجت کو نہیں پاتا، اگر پاتا بھی ہے، تو مشقت کے ساتھ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5796

 
 
Hadith   1015   الحديث
الأهمية: إن الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله


Tema:

یقیناً اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر چیز میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله».
وعنها أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن الله رفيق يحب الرفق، ويعطي على الرفق، ما لا يعطي على العنف، وما لا يعطي على ما سواه».

اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر چیز میں نرمی کو پسند کرتا ہے“۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی کرنے پر وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جو سختی کرنے پر عطا نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن الله رفيق يحب أن تكون كل الأمور برفق ويحب من عباده من كان رفيقاً بخلقه لين الجانب حسن التعامل ويثيب على ذلك ما لا يثيب على العنف والشدة، وهو رفيق في جميع الأمور، فهذا خلق عظيم ومحبوب لله -سبحانه وتعالى-، فالمسلم ينبغي له أن يتصف به دائمًا.
575;للہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور تمام کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے اور اپنے بندوں کے لیے یہ پسند کرتا ہے کہ وہ مخلوق پر نرم دل ہو، متانت کرنے والا اور بہتر معاملہ کرنے والا ہو اور اس پر اللہ وہ اجر دے گا جو سختی اور شدت پر نہیں دیتا۔ اللہ تمام امور میں نرمی کرنے والا ہے۔ یہ ایک عظیم اخلاقی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5797

 
 
Hadith   1016   الحديث
الأهمية: إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة، فيحمده عليها، أو يشرب الشَّربة، فيحمده عليها


Tema:

اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ لقمہ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے یا پانی کا گھونٹ پئے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة، فيحمده عليها، أو يشرب الشَّربة، فيحمده عليها».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ لقمہ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے یا پانی کا گھونٹ پئے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إن من أسباب مرضاة الله سبحانه شكره على الأكل والشرب فهو سبحانه وحده المتفضل بهذا الرزق.
575;للہ تعالی کو راضی کرنے کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ کھانے پینے پر اس کا شکر بجا لایا جائے۔ اللہ ہی تو ہے جو اپنے فضل سے یہ رزق دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5798

 
 
Hadith   1017   الحديث
الأهمية: إن المؤمن ليدرك بحسن خلقه درجة الصائم القائم


Tema:

مومن اپنے حُسنِ اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور شب بیدار عبادت گزار کا درجہ پا لیتا ہے ۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعاً: «إن المؤمن ليدرك بحسن خلقه درجة الصائم القائم»

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن اپنے حُسنِ اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور شب بیدار عبادت گزار کا درجہ پا لیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
فضيلة حسن الخلق وأنه يبلغ بصاحبه في المنزلة عند الله وفي الجنة منزلة المداوم على الصيام وقيام الليل، وهما عملان عظيمان وفيهما مشقة على النفوس، وحسن الخلق أمر يسير.
575;س حدیث میں حُسنِ اخلاق کی فضیلت کا بیان ہے اور اس بات کی وضاحت ہے کہ حُسنِ اخلاق کی وجہ سے بندہ اللہ کے ہاں ایسے مرتبہ اور جنت میں ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے جو ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے کو ملتا ہے۔ یہ دونوں بہت عظیم اعمال ہیں جن کے کرنے میں نفس مشقت میں مبتلا ہوتے ہیں جب کہ حُسنِ خلق بہت آسان کام ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5799

 
 
Hadith   1018   الحديث
الأهمية: إن فيك خصلتين يحبهما الله: الحلم والأناة


Tema:

تمہارے اندر دو خصلتیں (خوبیاں) ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: بردباری اور وقار (یعنی جلد بازی نہ کرنا)۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأشج عبد القيس: «إن فيك خصلتين يحبهما الله: الحلم والأناة»

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اشج عبد القيس سے کہا کہ ”تمہارے اندر دو خصلتیں (خوبیاں) ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: بردباری اور وقار (یعنی جلد بازی نہ کرنا)‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال النبي -صلى الله عليه وسلم- للأشج من بني عبد قيس: إن فيك لخصلتين أي صفتين يحبهما الله ورسوله، وهما الحلم وعدم التسرع، والسبب أن الأشج تأنى حتى نظر في مصالحه ولم يعجل في القدوم مع قومه (والحلم) وذلك في مخاطبته للنبي -صلى الله عليه وسلم- فكلامه كان دالاً على صحة عقله وجودة نظره للعواقب.
606;بی ﷺ نے قبیلہ بنی عبد قیس کے اشج نامی شخص سے کہا کہ تمہارے اندر دو خصلتیں یعنی عادتیں ایسی ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں۔ وہ دو عادتیں بُردباری اور عدم عجلت ہیں۔اس لیے کہ اشج نے متانت اور وقار اختیار کرکے اپنے قرین مصلحت امور میں غور وفکر کیا اور اپنی قوم کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس آنے میں جلدبازی سے کام نہیں لیا۔ ان کی بُردباری آپ ﷺ کے ساتھ گفتگو سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی گفتگو ان کی سلامتِ عقل اورانجام کار پر گہری نظر کے حامل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5800

 
 
Hadith   1019   الحديث
الأهمية: إن لربك عليك حقا، وإن لنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ذي حق حقه


Tema:

تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حقدار کو اس کا حق دو۔

عن أبي جحيفة وهب بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: آخى النبي -صلى الله عليه وسلم- بين سلمان وأبي الدرداء، فزار سلمان أبا الدرداء فرأى أم الدرداء مُتَبَذِّلَةً، فقال: ما شأنُكِ؟ قالت: أخوك أبو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء أبو الدرداء فصنع له طعاما، فقال له: كل فإني صائم، قال: ما أنا بآكل حتى تأكل فأكل، فلما كان الليل ذهب أبو الدرداء يقوم فقال له: نم، فنام، ثم ذهب يقوم فقال له: نم. فلما كان من آخر الليل قال سلمان: قم الآن، فصليا جميعا فقال له سلمان: إن لربك عليك حقا، وإن لنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعطِ كل ذي حق حقه، فأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- فذكر ذلك له فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «صدق سلمان».

ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمان رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ قائم کیا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرادء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو (ان کی بیوی) ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پراگندہ حال دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے۔ پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں۔ اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ پھر جب رات ہوئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔ اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ پھر جب ابو الدرداء نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جعل النبي -صلى الله عليه وسلم- بين سلمان وأبي الدرداء عقد أخوة، فزار سلمان أبا الدرداء فوجد امرأته ليس عليها ثياب المرأة المتزوجة أي: ثياب ليست جميلة فسألها عن ذلك فأجابته أن أخاه أبا الدرداء معرض عن الدنيا وعن الأهل وعن الأكل وعن كل شيء.
فلما جاء أبو الدرداء صنع لسلمان طعاماً وقدمه إليه وكان أبو الدرداء صائماً فأمره سلمان أن يفطر وذلك لعلمه أنه يصوم دائماً فأكل أبو الدرداء ثم لما أراد أبو الدرداء قيام الليل أمره سلمان أن ينام إلى أن كان آخر الليل قاما وصليا جميعاً وأراد سلمان أن يبين لأبي الدرداء أن الإنسان لا ينبغي له أن يكلف نفسه بالصيام والقيام وإنما يصلي ويقوم على وجه يحصل به الخير ويزول به التعب والمشقة والعناء.
585;سول اللہ ﷺ نے سلمان رضی اللہ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مابین (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ قائم کیا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو (ان کی بیوی) ام درداء رضی اللہ عنہا کو ایک شادی شدہ عورت کے لباس میں نہ دیکھا (بہت پراگندہ حال دیکھا)۔ یعنی ان کا لباس خوبصورت نہ تھا تو ان سے اس بات کا سبب پوچھا؟ ام درداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابودرداء نے دنیا، اہل عیال، کھانے پینے الغرض ہر چیز سے منہ موڑ رکھا ہے۔
پھر ابو درداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا حاضر کیا جب کہ وہ خود روزے سے تھے۔ اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کو روزہ توڑنے کا کہا اور ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ ہمیشہ روزے سے رہتے ہیں۔پس وہ روزہ توڑ کر کھانے میں شریک ہو گیے۔ پھر جب رات ہوئی تو ابو درداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے تو سلمان رضی اللہ عنہ نے انہیں منع فرمایا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوا تو دونوں نے مل کر نماز پڑھی۔ سلمان نے یہ چاہا کہ وہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کو سمجھائیں کہ انسان کے لیے روزے اور قیام کی خاطر اپنی جان کو مشقت میں ڈالنا روا نہیں ہے۔ بلکہ اس کو اس طرح نماز اور قیام کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ثواب بھی حاصل ہو اور اس کے ذریعے تھکن اور مشقت کا ازالہ بھی ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5801

 
 
Hadith   1020   الحديث
الأهمية: إن من أحبكم إلي وأقربكم مني مجلساً يوم القيامة أحاسنكم أخلاقاً، وإن أبغضكم إلي وأبعدكم مني يوم القيامة الثرثارون والمتشدقون والمتفيهقون


Tema:

میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبر کرنے والے ہیں۔

عن جابر بن عبدالله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إن من أحبكم إلي وأقربكم مني مجلساً يوم القيامة أحاسنكم أخلاقاً، وإن أبغضكم إلي وأبعدكم مني يوم القيامة الثرثارون والمتشدقون والمتفيهقون» قالوا: يا رسول الله قد علمنا «الثرثارون والمتشدقون»، فما المتفيهقون؟ قال: «المتكبرون».

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلا احتیاط بولنے والے، زبان دراز اور”متفيهقون“ ہیں“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے ”ثرثارون“ (باتونی) اور ”متشدقون“ (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن یہ ”متفیھقون“ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”تکبر کرنے والے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قوله -صلى الله عليه وسلم-: (إن من) للتبعيض, أحبكم وأقربكم مجلساً يوم القيامة أحسنكم خلقاً مع الخالق والمخلوق, و(إن من) للتبعيض أيضاً, أبغضكم أي: أكرهكم وأبعدكم مني منزلاً يوم القيامة كثير الكلام تكلفاً, والمتشدق المتطاول على الناس بكلامه تفاصحاً وتعظيماً, والمتكبر بكلامه ومظهراً للفضيلة على غيره.
570;پ ﷺ کے فرمان ”إن مِن“ میں ”مِنْ“ تبعیض کے لیے ہے، تم میں سب سے محبوب اور قیامت کے دن مجلس کے اعتبار سے قریب تر وہ شخص ہوگا جو خالق اور مخلوق دونوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ آگے (إن من) میں بھی ”مِنْ“ تبعیض کے لیے ہے۔ چنانچہ ”أبغضكم“ کا معنی ہوا تم میں سے سب سے ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مرتبے کے لحاظ سے مجھ سے بعید تر وہ شخص ہوگا جو زیادہ تکلّف سے باتیں کرتا ہے، ”المتشدق“ وہ شخص جو لوگوں میں بڑائی اور عظمت کے لیے لمبی لمبی باتیں کرتا (ہانکتا) ہو اور جو اپنی گفتگو میں تکبّر کرے اور دوسروں پر اپنی فوقیت ظاہر کرے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5802

 
 
Hadith   1021   الحديث
الأهمية: إن من خياركم أحسنكم أخلاقا


Tema:

تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً:  قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشاً ولا متفحشاً، وكان يقول: «إن من خياركم أحسنكم أخلاقًا».

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو فحش گو تھے اور نہ بہ تکلف بد زبانی کرنے والے تھے۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ : ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- صاحب قول فاحش ولا فعل سيء ولا متعمداً لذلك متكلفاً له بل كان ذا خلق عظيم, وأخبر أن أفضل المؤمنين أحسنهم خلقاً لأن حسن الخلق يدعو إلى المحاسن وترك المساوئ.
606;بی ﷺ نہ تو فحش گو تھے نہ برا کام کرنے والے تھے اور نہ تو آپ ﷺ عمدا اور تکلف کے طور پر ہی ایسا کرنے والے تھے۔ بلکہ آپ بلند پایہ اخلاق کے حامل تھے۔ نیز آپﷺ نے بتلایا ہے کہ مومنوں میں سب سے بہتروہ شخصہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں، کیونکہ حسن خلق اچھائیوں کو اختیار کرنے اوربرائیوں کو ترک کرنے کی ترغیب دیتاہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5803

 
 
Hadith   1022   الحديث
الأهمية: أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقاً


Tema:

میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔

عن أبي أمامة الباهلي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أنا زعيم ببيت في رَبَضِ الجنة لمن ترك المِرَاءَ وإن كان مُحِقًّا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحاً، وببيت في أعلى الجنة لمن حَسَّنَ خلقه»

ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں گھر کا ضامن ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جنت کے بالائی حصے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو اچھےاخلاق کا مالک بن جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه ضامن لبيت حول الجنة خارجاً عنها أو في أطرافها لمن ترك المجادلة وإن كان محقاً فيه لأنه مضيعة للوقت وسبب للبغضاء, وكذلك ضامن لبيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب والإخبار بخلاف الواقع ولو كان مزاحاً, وببيت في أعلى الجنة لمن حسن خلقه ولو بمزاولة للنفس ورياضة لها.
606;بی ﷺ نے خبر دی کہ وہ جنت کے باہر اس کے گرد و نواح میں اس شخص کے لیے گھر کی ضمانت دیتے ہیں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑدے کیونکہ اس میں وقت کا ضیاع ہے اور اس سے دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ اس شخص کے لیے جنت کے بیچوں بیچ گھر کے ضامن ہیں جو ازراہ مزاح بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور خلافِ واقع کوئی بات نہ کہتا ہو اور اسی طرح اس شخص کے لیے آپ ﷺ نے جنت کے بالائی حصے میں گھر کی ضمانت دی جو اچھے اخلاق کو اپنا لیتا ہے چاہے ایسا وہ اپنے نفس کو ان کا عادی بنا کر اور ان کی مشق کرا کر ہی کیوں نہ کرے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5804

 
 
Hadith   1023   الحديث
الأهمية: قال الله تعالى: أنفق يا ابن آدم ينفق عليك


Tema:

اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابن آدم ! خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔

عن أبي هريرة عبدالرحمن بن صخر الدوسي -رضي الله عنه- مرفوعاً: .«قال الله تعالى: أنفق يا ابن آدم ينفق عليك».

ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر الدوسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے فرمایا: ”اے ابن آدم ! خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أنفق ينفق عليك، أي لا تخش الفقر ببذل المال وإخراجه ولا تكن شحيحًا، فإنك إذا أنفقت على غيرك سوف ينفق الله تعالى عليك، فما عندكم ينفد وما عند الله باق، وهذا الحديث بمعنى قوله تعالى: (وما أنفقتم من شيء فهو يخلفه) فتضمن الحث على الإنفاق في وجوه الخير والتبشير بالخلف من فضل الله تعالى.
582;رچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ یعنی مال خرچ کرنے اور اسے صرف کرنے کی وجہ سے غربت کا اندیشہ نہ کرو اور تنگ دلی نہ دکھاؤ۔ اگر تم کسی پر خرچ کرو گے، تو اللہ تم پر خرچ کرے گا۔ جو تمھارے پاس ہے، وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ باقی رہنےوالا ہے۔ اس حدیث کا مفہوم وہی ہے، جو اللہ تعالی کے اس قول کا ہے:﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ﴾ ”تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں خرچ کرو گے، اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا“۔ اس حدیث میں بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کی ترغیب اور اس کے بدلے میں ملنے والے اللہ کے فضل کی خوش خبری پنہاں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5805

 
 
Hadith   1024   الحديث
الأهمية: دعوه وأريقوا على بوله سَجْلًا من ماء، أو ذَنوبًا من ماء، فإنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين


Tema:

اسے چھوڑ دو اور پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا بڑا ڈول بہا دو۔ کیوںکہ تم لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے واسطے بھیجے گئے ہو اور تمھیں تنگی پیدا کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: بال أعرابي في المسجد، فقام الناس إليه لِيَقَعُوا فيه، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «دعوه وأريقوا على بوله سَجْلاً من ماء، أو ذَنُوبًا من ماء، فإنما بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، ولم تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس کی طرف بڑھے، تاکہ اسے ڈانٹیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا بڑا ڈول بہا دو۔ کیوںکہ تم لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے واسطے بھیجے گئے ہو اور تمھیں تنگی پیدا کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قام أعرابي وشرع في البول في المسجد النبوي، فتناوله الناس بألسنتهم لا بأيديهم, أي: صاحوا به, فقال لهم النبي -صلى الله عليه وسلم-: دعوه  فلما انتهى من بوله أمرهم أن يصبوا على المكان الذي بال فيه دلواً من ماء، وبين لهم أنهم دعاة للتيسير وليس للتنفير وإبعاد الناس عن الهدى.
575;یک اعرابی نے کھڑے ہو کر مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کردیا۔ لوگ اسے آواز دینے لگے، تاہم کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اس پر نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا ،تو آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جس جگہ اس نے پیشاب کیا ہے، وہاں ایک ڈول پانی بہا دیں۔ آپ ﷺ نے ان پر واضح کیا کہ وہ آسانی کے داعی ہیں، نہ کہ لوگوں کو متنفر اور ہدایت سے دور کرنے والے ۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5806

 
 
Hadith   1025   الحديث
الأهمية: إنهم خيروني أن يسألوني بالفحش، أو يبخلوني ولست بباخل


Tema:

انہوں نے مجھے ایک چیز اختیار کرنے پر مجبور کردیا کہ یا تو یہ مذموم طریقے (بےجا اصرار) سے سوال کریں یا مجھے بخیل بنادیں تو میں بخیل بننے والا نہیں ہوں۔

عن عمر -رضي الله عنه- قال: قَسَمَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَسْمًا، فقلت: يا رسول الله لَغَيْرُ هؤلاء كانوا أحق به منهم؟ فقال: «إنهم خَيَّرُونِي أن يسألوني بالْفُحْشِ، أو يُبَخِّلُونِي ولست بِبَاخِلٍ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے مال تقسیم کیا، تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ان کے علاوہ (جنہیں آپ نے عطا فرمایا) دوسرے لوگ اس کے زیادہ حقدار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”انھوں نے مجھے ایک چیز اختیار کرنے پر مجبور کردیا کہ یا تو یہ مذموم طریقے (بےجا اصرار) سے سوال کریں یا مجھے بخیل بنادیں تو میں بخیل بننے والا نہیں ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قسم النبي -صلى الله عليه وسلم- ما جاءه من مال على ناس وترك آخرين, فقال له عمر رضي الله عنه: ألا أعطيت هؤلاء الذين لم تعطهم لأنهم أحق من الذين أعطوا؟ فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم-: إنهم ألحوا علي في السؤال لضعف إيمانهم, وألجؤوني بمقتضى حالهم إلى السؤال بالفحش أو نسبتي إلى البخل.
فاختار -صلى الله عليه وسلم- أن يعطي إذ ليس البخل من خلقه ومداراةً وتأليفاً.
570;پ ﷺ نے آئے ہوئے مال کو کچھ لوگوں میں تقسیم کیا اور دوسروں کو چھوڑ دیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کاش کہ آپ ان کو دیتے جنہیں آپ نے نہیں دیا ہے اس لیے کہ وہ زیادہ حقدار تھے؟ آپ ﷺ نے ان سے کہا انہوں نے اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے مجھ سے مانگنے میں اصرار کیا اور اپنی خستہ حالی کی وجہ سے مجھ سے بے جا چیز کا سوال کیا یا پھر یہ کہ وہ بُخل کی طرف میری نسبت کریں۔
چانچہ آپ ﷺ نے عطا کرنے کو اختیار کیا، اس لیے کہ آپ کے اخلاق میں بُخل نہیں، بلکہ خاطر مدارات اور تالیفِ قلوب کے واسطے آپ نے انہیں دے دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5807

 
 
Hadith   1026   الحديث
الأهمية: أن رجلاً سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الإسلام خير؟ قال: تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف


Tema:

ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم کھانا کھلاؤ اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی سلام کرو“۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- مرفوعاً: أن رجلاً سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الإسلام خير؟ قال: «تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم کھانا کھلاؤ اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی سلام کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل الصحابة أي الإسلام خير؟ أي: أي آداب الإسلام أو أي خصال أهله أفضل ثواباً أو أكثر نفعاً؟ فأجاب النبي -صلى الله عليه وسلم- إطعام الطعام للناس والسلام على الناس من تعرفه ومن لا تعرفه.
589;حابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ یعنی اسلامی آداب یا اہل اسلام کی وہ کون سی خصلتیں ہیں، جو ثواب اور نفع کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں؟ نبی ﷺ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا؛ چاہے وہ آپ کا شناسا ہو یا اجنبی ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5808

 
 
Hadith   1027   الحديث
الأهمية: ما بقي منها؟-أي الشاة- قالت: ما بقي منها إلا كتفها. قال: بقي كلها غير كتفها


Tema:

اس میں سے یعنی بکری سے کیا باقی بچا ہے؟ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے عرض کیا کہ بجز شانہ کے اور کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: أنهم ذبحوا شاة فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «ما بقي منها؟» قالت: ما بقي منها إلا كتفها. قال: «بقي كلها غير كتفها».

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ صحابہ نے بکری ذبح کی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس میں سے یعنی بکری سے کیا باقی بچا ہے؟ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے عرض کیا کہ بجز شانہ کے اور کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذبح النبي -صلى الله عليه وسلم- شاة ثم تصدقوا بها إلا كتفها, فقال لها النبي -صلى الله عليه وسلم-: بقيت الشاة عند الله -تعالى- ثوابًا وأجرًا نجده في الآخرة؛ لأنه تصدق بها، أما ما لم يتصدق به فليس باقيًا على الحقيقة.
606;بی ﷺ نے بکری ذبح کی پھر انہوں نے اس کو صدقہ میں دے دیا سوائے اس کے شانے کے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بکری کا ثواب اور اجر اللہ کے پاس ہے جسے ہم آخرت میں پائیں گے کیونکہ آپ ﷺ نے اسے صدقہ کر دیا تھا اور بکری کا وہ حصہ جسے صدقہ میں نہیں دیا گیا وہ درحقیقت باقی ہی نہیں بچا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5810

 
 
Hadith   1028   الحديث
الأهمية: إن الله ليملي للظالم، فإذا أخذه لم يفلته


Tema:

اللہ تعالٰی ظالم کو مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إن الله ليُمْلِي للظالم، فإذا أخذه لم يُفْلِتْهُ»، ثم قرأ: (وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة إن أخذه أليم شديد).

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾ تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے، جب کہ وه بستیوں کے رہنے والے ﻇالموں کو پکڑتا ہے، بےشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- أن الله -عز وجل- يمهل الظالم ويدعه يظلم نفسه؛ حتى إذا أخذه لم يتركه حتى يستوفي عقابه، ثم تلا -صلى الله عليه وسلم- قوله -تعالى-: (وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة إن أخذه أليم شديد).
570;پ ﷺ بتا رہے ہیں کہ اللہ عزوجل ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے اور اسے اپنے نفس پر ظلم کرنے کے لیے کھلا چھوڑے رکھتا ہے، یہاں تکہ کہ پھر جب اسے گرفت میں لیتا ہے، تو عذاب مکمل طور پر بھگتے بغیر اسے نہیں چھوڑتا۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا: ﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾ تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے، جب کہ وه بستیوں کے رہنے والے ﻇالموں کو پکڑتا ہے، بےشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5811

 
 
Hadith   1029   الحديث
الأهمية: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكثر ما يدخل الناس الجنة؟ قال: تقوى الله وحسن الخلق، وسئل عن أكثر ما يدخل الناس النار، فقال: الفم والفرج


Tema:

رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق۔ پھر آپ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں داخل کرے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : منہ اور شرم گاہ۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكثر ما يُدْخِلُ الناسَ الجنة؟ قال: «تقوى الله وحسن الخلق»، وسئل عن أكثر ما يُدْخِلُ الناسَ النار، فقال: «الفم والفرج».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا، جو سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:”اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق“۔ پھر آپ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا، جو لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں داخل کرے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”منہ اور شرم گاہ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أكثر الأسباب التي تدخل الجنة هي تقوى الله وحسن الخلق وتقوى الله تكون بالابتعاد عن المحرمات بجميع أنواعها, وحسن الخلق يكون مع الخلق وأقله ترك أذاهم وأعلاه بالإحسان إلى مَن أساء إليه.
وأكثر الأسباب التي تدخل النار هي الفم والفرج لأن الإنسان غالبًا ما يقع بسببهما في مخالفة الله سبحانه ومع الناس.
580;ن اسباب کی بنیاد پر لوگ سب سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے وہ اللہ کا تقویٰ اوراچھے اخلاق ہیں۔ اللہ کا تقویٰ ہر قسم کی حرام اشیا سے اجتناب کر کے ظہور میں آتا ہے اورحسن خلق مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرکے عمل میں آتا ہے۔ کم ترین حسن خلق یہ ہے کہ مخلوق کو تکلیف نہ دی جائے اور اعلی ترین یہ ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ جن اسباب کی بنیاد پر سب سے زیادہ لوگ جہنم میں جائیں گے، وہ منہ اور شرم گاہ ہیں؛ کیوں کہ انسان عموما انہی کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور لوگوں کی مخالفت کرتا ہے۔   --  [اس حديث کی سند حَسَنْ ہے۔]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5812

 
 
Hadith   1030   الحديث
الأهمية: دينار أنفقته في سبيل الله، ودينار أنفقته في رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار أنفقته على أهلك، أعظمها أجرا الذي أنفقته على أهلك


Tema:

وہ دینار جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اور وہ دینار جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو اور وہ دینار جسے تم نے مسکین پر خیرات کردیا اور وہ دینار جسے تم نے اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا ہے ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جسے تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے ہو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «دينار أنفقته في سبيل الله، ودينار أنفقته في رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار أنفقته على أهلك، أعظمها أجرًا الذي أنفقته على أهلك».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”وہ دینار جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اور وہ دینار جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو اور وہ دینار جسے تم نے مسکین پر خیرات کردیا اور وہ دینار جسے تم نے اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا ہے ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جسے تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بين النبي صلى الله عليه وسلم أن أوجه الإنفاق والبر كثيرة، منها ما يُنفق في الجهاد في سبيل الله، وما يُنفق في عتق الرقاب، وما يُنفق في على المساكين، وما ينفق على الأهل والعيال، ولكن أفضلها الإنفاق على الأهل،وذلك لأنّ النفقة على الأهل والأولاد واجبة، فالنفقة الواجبة أعظم أجراً من المندوبة.
570;پ ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ خرچ کرنے اور نیکی کی بہت ساری شکلیں ہیں۔ انہی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، غلام کو آزاد کرنے کے لیے خرچ کرنا، مسکینوں پر خرچ کرنا اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا ہے۔ تاہم ان میں سب سے افضل اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا ہے۔ اس لیے کہ بیوی بچوں پر خرچ کرنا واجب ہے اور واجب نفقہ میں مستحب نفقہ سے زیادہ ثواب ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5813

 
 
Hadith   1031   الحديث
الأهمية: قد أفلح من أسلم وكان رزقه كفافاً وقنعه الله بما آتاه


Tema:

وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے بقدرِ کفایت رزق مل گیا اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر اسے قناعت دے دی۔

عن عبدالله بن عمرو بن العاص- رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:  «قد أفلح من أسلم وكان رزقُهُ كَفَافًا وقَنَّعَهُ الله بما آتاه».
وعن أبي محمد فضالة بن عبيد الأنصاري -رضي الله عنه-: أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «طُوبَى لمن هُدِيَ للإسلام، وكان عَيْشُهُ كَفَافًا وقَنِعَ».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے بقدر کفایت رزق مل گیا اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر اسے قناعت دے دی“۔
ابو محمد فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جسے اسلام کی طرف ہدایت دی گئی اور جس کی روزی بقدر کفایت تھی اور وہ اس پر قانع ہو گیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طوبى -وهي شجرة في الجنة, وهي بشرى- لمن وفق للإسلام, وكان عيشه بقدر كفايته لا يشغله ولا يطغيه, فمن تمام النعمة أن يرزقك الله ما يكفيك ويمنعك ما يطغيك.
580;سے اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی، اور اس کا رزق بقدر کفایت ہوا بایں طور کہ اس نے نہ تو اسے (اللہ سے) بے گانہ کیا اور نہ ہی اسے سرکش بنایا اس کے لیے طوبی ہے۔ طوبی جنت میں موجود ایک درخت ہے۔ اس سے مراد خوش خبری ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے کامل احسان ہے کہ وہ آپ کو اتنا دے جو آپ کے لیے کافی ہو جائے اور جو رزق آپ کی سرکشی کا باعث ہو سکتا تھا اسے آپ کو نہ دے۔   --  [یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5814

 
 
Hadith   1032   الحديث
الأهمية: على كل مسلم صدقة


Tema:

ہر مسلمان کے لیے صدقہ کرنا ضروری ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «على كل مسلم صدقة» قال: أرأيت إن لم يجد؟ قال: «يعمل بيديه فينفع نفسه ويتصدق» قال: أرأيت إن لم يستطع؟ قال: «يُعِينُ ذا الحاجة المَلْهُوفَ» قال: أرأيت إن لم يستطع، قال: «يأمر بالمعروف أو الخير». قال: أرأيت إن لم يفعل؟ قال: «يُمسك عن الشر، فإنها صدقة».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے صدقہ کرنا ضروری ہے، انہوں نے عرض کیا: اگر وہ صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ پائے؟ (تو وہ کیا کرے) آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اورصدقہ بھی کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر اسے اس کی بھی طاقت نہ ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ نیکی یا بھلائی کا حکم کرے۔ انہوں نے پوچھا: اگر وہ یہ بھی نہ کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز رہے، یقیناً یہ بھی صدقہ ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر -صلى الله عليه وسلم- أن لله -عز وجل- علينا صدقة كل يوم، فإذا لم يجد مالاً يعمل بيديه ليحصل على المال فينفع نفسه ويتصدق منه، فإن لم يستطع فيعين صاحب حاجة مظلومًا كان أو عاجزًا، فإن لم يستطع فيأمر بمعروف أو ينكر منكرًا، فإن لم يستطع فيكف نفسه عن الشر.
570;پ ﷺ بتا رہے ہیں کہ اللہ کے لیے ہمارے اوپر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ مال حاصل کرنے کے لیے کام (محنت مزدوری) کرے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بھی نفع پہنچائےاور اس مال سے صدقہ بھی کرے۔ اگر اسے اس کی طاقت نہ ہو تو کسی ضرورت مند کی مدد کرے چاہے وہ مظلوم ہو یا بے بس ومجبور ہو۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو پھر نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر اپنے آپ کو دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز رکھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5815

 
 
Hadith   1033   الحديث
الأهمية: كنت أصلي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- الصلوات، فكانت صلاته قصدًا وخطبته قصدًا


Tema:

میں نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا تھا۔

عن أبي عبد الله جابر بن سمرة -رضي الله عنهما- قال: كنت أصلي مع النبي -صلى الله عليه وسلم- الصلوات، فكانت صلاته قَصْدًا وخطبته قَصْدًا.

ابو عبد اللہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- وخطبته بين الطول الظاهر والتخفيف المبالغ فيه، موصوفة بالتوسط والاعتدال، وهو الأسوة والقدوة للمسلمين عامة، وللأئمة والخطباء خاصة، فلا يصح الاستناد على هذا الحديث في نقر الصلاة والسرعة المفرطة في الخطبة، فإن الهدي النبوي دلَّ على التوسط، والإطالة أحيانًا مع عدم الإضجار.
606;بی ﷺ کی نماز اور خطبہ بہت زیادہ لمبا ہونے اور انتہائی مختصر ہونے کے بیچ بیچ ہوتا تھا۔ یعنی اس میں توسط اور اعتدال پایا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر اور ائمہ و خطیب حضرات کے لیے خاص طور پر یہی اسوہ اور قابل اقتدا نمونہ ہے۔ اس حدیث کو دلیل بنا کر نماز میں کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا اور خطبے دینے میں بہت زیادہ تیزی اپنانا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نبیﷺ کی سنت تو اعتدال اور کبھی کبھار تھوڑی طوالت پر دلالت کرتی ہے جس سے پریشانی نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5817

 
 
Hadith   1034   الحديث
الأهمية: إنا كنا يوم الخندق نحفر فعرضت كدية شديدة، فجاؤوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: هذه كدية عرضت في الخندق. فقال: «أنا نازل»


Tema:

ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی، صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا: کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہوگئی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”میں اندر اترتا ہوں“۔

عن جابر -رضي الله عنه- قال: إنا كنا يوم الخندق نحفر فعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شديدة، فجاؤوا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقالوا: هذه كُدْيَةٌ عَرَضَتْ في الخندق. فقال: «أنا نازل» ثم قام، وبطنه مَعْصوبٌ بحَجَرٍ، ولبثنا ثلاثة أيام لا نذوق ذواقًا، فأخذ النبي -صلى الله عليه وسلم- المِعْوَلَ، فضرب فعاد كَثِيبًا أَهْيَلَ أو أَهْيَمَ، فقلت: يا رسول الله ائْذَنْ لي إلى البيت، فقلت لامرأتي: رأيتُ بالنبي -صلى الله عليه وسلم- شيئًا ما في ذلك صبرٌ فعندك شيء؟ فقالت: عندي شَعِيرٌ وعَنَاقٌ، فذبحتِ العَنَاقَ وطَحَنَتِ الشعيرُ حتى جعلنا اللحمَ في البُرْمَةِ، ثم جِئْتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- والعَجِينُ قد انْكَسَرَ، والبُرْمَةُ بين الأَثَافِي قد كادت تَنْضِجُ، فقلت: طُعَيْمٌ لي فقم أنت يا رسول الله ورجل أو رجلان، قال: «كم هو»؟ فذكرت له، فقال: «كثيرٌ طيبٌ قل لها لا تَنْزِعِ البُرْمَةَ، ولا الخبز من التَّنُّورِ حتى آتي» فقال: «قوموا»، فقام المهاجرون والأنصار، فدخلت عليها فقلت: وَيْحَك قد جاء النبي -صلى الله عليه وسلم- والمهاجرون والأنصار ومن معهم! قالت: هل سألك؟ قلت: نعم، قال: «ادخلوا ولا تَضَاغَطُوا» فجعل يكسر الخبز، ويجعل عليه اللحم، ويُخَمِّرُ البُرْمَةَ والتَّنُّورَ إذا أخذ منه، ويقرب إلى أصحابه ثم يَنْزِعُ، فلم يزل يكسر ويَغْرِفُ حتى شَبِعُوا، وبقي منه، فقال: «كُلِي هذا وأَهْدِي، فإن الناس أصابتهم مَجَاعَةٌ».
وفي رواية قال جابر: لما حفر الخَنْدَقَ رأيت بالنبي -صلى الله عليه وسلم- خَمَصًا، فانْكَفَأْتُ إلى امرأتي، فقلت: هل عندك شيء؟ فإني رأيت برسول الله -صلى الله عليه وسلم- خَمَصًا شديدًا، فأخرجت إلي جِرَابًا فيه صاع من شعير، ولنا بهيمة دَاجِنٌ فذبحتها، وطحنت الشعير، ففرغت إلى فراغي، وقَطَّعْتُهَا في بُرْمَتِهَا، ثم وَلَّيْتُ إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقالت: لا تفضحني برسول الله -صلى الله عليه وسلم- ومن معه، فجئته فسَارَرْتُه، فقلت: يا رسول الله، ذبحنا بهيمة لنا، وطحنت صاعًا من شعير، فتعال أنت ونفر معك، فصاح رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «يا أهل الخندق: إن جابرًا قد صنع سُؤْرًا فَحَيَّهَلا بكم» فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «لا تنزلن بُرْمَتِكُم ولا تَخْبِزَنَّ عَجِينَكُم حتى أَجِيء» فجئت وجاء النبي -صلى الله عليه وسلم- يقدم الناس، حتى جئت امرأتي، فقالت: بك وبك! فقلت: قد فعلت الذي قلت. فأخرجت عجينًا، فبَسَقَ فيه وبَارَكَ، ثم عمد إلى بُرْمَتِنَا فبَصَقَ وبَارَكَ، ثم قال: «ادعي خَابِزَةً فلتَخْبِزْ معك، واقْدَحِي من بُرْمَتِكُم، ولا تنزلوها» وهم ألف، فأقسم بالله لأكلوا حتى تركوه وانحرفوا، وإن بُرْمَتَنَا لتَغِطُّ كما هي، وإن عَجِينَنَا ليُخْبَزُ كما هو.

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ہم غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کر رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہو گئی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”میں اندر اترتا ہوں“۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے جب کہ اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا اور ہم لوگوں نے بھی تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آپ ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر مارا۔ چٹان بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی۔ (یہ سارا ماجرا دیکھ کر) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجیے۔ (گھا جاکر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم ﷺ کو اس حالت میں دیکھاہے کہ مجھ سے صبر نہ ہو سکا۔ کیا تمھارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ بیوی نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر ہم نے گوشت کو چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا۔ نبی کریم ﷺ سے میں نے عرض کیاکہ تھوڑا سا کھانا تیار کیا ہے۔ آپ ﷺ تشریف لے چلیں اور دو ایک دیگر افرادکو ساتھ لے لیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے؟ جب میں نے سب کچھ بتا دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ ہے۔ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔ میں ابھی آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہو گئے۔ جب جابر رضی اللہ عنہ گھر پہنچے، تو اپنی بیوی سے کہا اب کیا ہو گا؟ رسول اللہ ﷺ تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ بیوی نے پوچھا: نبی کریم ﷺ نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا؟ میں نے کہا: ہاں۔ ادھر آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہو جاؤ، لیکن دیکھو، ازدحام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ ﷺ روٹی کا چورا کرکے اس پرگوشت ڈالنے لگے۔ جب بھی روٹی اور گوشت نکالتے، ہانڈی اور تنور دونوں کو ڈھانک دیا کرتے۔ ہانڑی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قریب فرماتے اورنکال کر دیتے۔ اس طرح اس طرح روٹی کو توڑنے اور گوشت ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپ ﷺ نے (جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی سے) فرمایا: اب یہ کھانا خود تم کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو؛ کیونکہ لوگ آج کل فاقے میں مبتلا ہیں۔
ایک اور روایت میں جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی، تو میں نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ سخت بھوکے ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا: کیا تمھارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میں نے نبی کریم ﷺ کو انتہائی بھوک کی حالت میں دیکھا ہے! میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائی، جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا، تو وہ بھی جَو پیس چکی تھی۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں رکھ دیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا (کہ بہت سے آدمی آجائیں اور کھانا کم پڑ جائے)۔ چنانچہ میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو پیسے ہیں، جو ہمارے پاس تھے۔ پس آپ اپنے ساتھ چند آدمیوں کے ساتھ تشریف لے چلیں۔ (لیکن ہوا کچھ اور ہی) آپ ﷺ نے نہایت بلند آواز سے فرمایا کہ اے اہل خندق! جابر نے تمھارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں آ نہ آجاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں پکانا شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ ﷺ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا، تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا، میں نے نبی ﷺ کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ ﷺ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کر دی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب دہن کی آمیزش کی اور برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب ایک روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ تمھارے ہم راہ روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالتی جائے، لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے اس قدر کھایا کہ بچا بھی رہ گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے، تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی، جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حكى جابر -رضي الله عنه- أنهم كانوا يوم الخندق يحفرون حول المدينة خندقا يحول بينهم وبين الأعداء، فظهرت قطعة شديدة صلبة في عرض الأرض، لا يعمل فيها الفأس، فشكوا لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- صعوبتها، فنزل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الخندق وبطنه مربوط بحجر من شدة الجوع، فأخذ المعول وهو قطعة من حديد ينقر بها الجبال فضربه بها فانقلب الحجر وصار رملًا ناعمًا.
قال جابر: فذهبت إلى بيتي فقلت لزوجي هل عندنا شيء من الطعام؟ وأخبرها بحال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- التي كان عليها من أثر الجوع، فأخرجت زوجه وعاء من جلد فيه شعير، وكانت لهم عناق -وهي ولد المعز أول ما تضعه أمه- قد ألفت البيت، فذبحتها وطحنت الشعير وجعلت اللحم في القدر الذي من الحجر، وذهب جابر إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فأخبره سراً بأنه قد صنع له طعاماً يسيرًا لا يكفي كل من معه، وطلب منه أن يأتيه هو وبعض أصحابه، فنادى رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: يا أهل الخندق إن جابراً صنع طعاماً فأسرعوا إليه. ثم ذهب رسول الله إلى بيت جابر وطلب العجين فبصق فيه، وكذلك بصق في القدر، ودعا بالبركة فيهما، وهذا من خصائصه وبركته -صلى الله عليه وسلم-، وطلب منهم أن يدعو من يساعد زوج جابر في صنع الطعام، وجاء القوم فأكلوا ثم انصرفوا والطعام باق على ما هو عليه، القدر يغلي والعجين يخبز كأنه لم ينقص منه شيء.
580;ابر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے تفصیلی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین غزوۂ خندق کے موقع پر مدینے کے اطراف میں خندق کی کھدائی میں مصروف تھے، جو ان کے اور دشمنان اسلام کے درمیان رکاوٹ بن سکے۔ کھدائی کے دوران زمین کے ایک حصے میں سخت قسم کی چٹان کا ایک بڑا سا ٹکڑا نمودار ہوا، جس پر کلہاڑی اپنا کوئی اثر نہیں دکھا پا رہی تھی۔ صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے اس مشکل کا شکوہ کیا، تو آپﷺ خود خندق میں اترے، جب کہ بھوک کی شدت سے آپ نے اپنے پیٹ کو پتھر سے باندھ رکھا تھا، آپ نے کدال لی، جو کہ لوہے کا ایک اوزار ہے، جس سے پہاڑ کھودا جاتا ہے، اور اس سے چٹان پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ نرم و نازک ریت میں تبدیل ہوگئی۔
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھر گیا اور بیوی سے دریافت کیا کہ آیا گھر میں کھانے کی کوئی چیز موجود ہے یا نہیں؟ بیوی کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی شدید بھوک کا حال بھی بیان کیا۔ چنانچہ ان کی بیوی نے ایک چمڑے کا برتن نکالا، جس میں کچھ جَوتھی اور ان کے ہاں بکری کا ایک مادہ بچہ تھا، (بکری کے پہلے مادہ بچے کو عناق کہتے ہیں) جو گھر سے مانوس ہوچکا تھا، انھوں نے اسے ذبح کیا۔ اس دوران بیوی نے جو پیس لی اور پتھر کی ہانڈی میں گوشت ڈال دیا۔ ادھر جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور چپکے سے بتایا کہ انھوں نے آپﷺ کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا ہے،جو آپ کے تمام ساتھیوں کے لیے کافی نہیں ہے۔ انھوں نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنے چند اصحاب کے ہم راہ ان کے گھر کھانے پر تشریف لائیں۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو دعوت عام دیتے ہوئے ندا لگائی کہ اے خندق کھودنے والے ساتھیو!جابر نے کچھ کھانا تیار کیا ہے، جلدی سے ان کے گھر چلو!! پھر آپ ﷺ جابر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور گوندھا ہوا آٹا منگا کر اس میں اپنا لعاب دہن شامل فرمایا۔ اسی طرح ہانڈی میں بھی لعاب دہن کی آمیزش کی اور ان میں خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ خیال رہے کہ یہ امر آپ ﷺ کی خصوصیات اور برکات سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے کھانا تیار کرنے میں جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے بعض عورتوں کو طلب فرمایا۔ بالآخر سارے لوگ اس دعوت طعام میں شریک ہوئے اور سب کے سب شکم سیر ہوکر واپس لوٹ گئے اور کھانا اپنی اصل مقدار ہی میں باقی رہ گیا۔ ہانڈی میں اسی طرح ابال تھا اور گوندھے ہوئے آٹے سے اس طرح روٹیاں پک رہی تھیں۔ گویا کسی طرح کی کمی واقع ہوئی ہی نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5818

 
 
Hadith   1035   الحديث
الأهمية: كلكم راع, وكلكم مسؤول عن رعيته: والأمير راع, والرجل راع على أهل بيته, والمرأة راعية على بيت زوجها وولده, فكلكم راع, وكلكم مسؤول عن رعيته


Tema:

تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے؛ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما-، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «كلكم رَاعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ: والأمير رَاعٍ, والرجل رَاعٍ على أهل بيته, والمرأة رَاعِيَةٌ على بيت زوجها وولده, فكلكم راَعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ».


 وفي لفظ: «كلكم رَاعٍ، وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ: الإمام رَاعٍ ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، والرجل رَاعٍ في أهله ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، والمرأة رَاعِيَةٌ في بيت زوجها ومسؤولة عن رَعِيَّتِهَا، والخادم رَاعٍ في مال سيده ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، فكلكم رَاعٍ ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے؛ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا“۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: ”تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كلكم حافظ وأمين على رعيته ومحاسب عليها، فالحاكم مسؤول عن رعيته يوم القيامة, وكذلك الرجل مسؤول على أهله يأمرهم بطاعة الله وينهاهم عن معصية الله ويقوم عليهم بما لهم من الحق، ومسؤول على ذلك يوم القيامة, والمرأة راعية على بيت زوجها بما يحفظه وكذلك على الأولاد، وهي مسؤولة عن ذلك يوم القيامة, والعبد حافظ وأمين على مال سيده ومسؤول يوم القيامة عن ذلك، فالجميع مؤتمن وحافظ لما هو قائم عليه ومسؤول يوم القيامة عن ذلك.
729;ر شخص اپنی رعیت کا محافظ وامین اور جواب دہ ہے۔ چنانچہ حاکم قیامت کے دن اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ اسی طرح آدمی اپنے گھر والوں کا مسؤول ہے؛ اسے چاہیے کہ انھیں اللہ کی اطاعت کا حکم دے، اس کی معصیت و نافرمانی سے روکے اور ان کا حق ادا کرے۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگراں ہے؛ اس کی حفاظت کرے اور اسی طرح اپنے اولاد کی نگراں ہے۔ قیامت کے دن اس سے اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا۔ غلام اپنے مالک کے مال کا محافظ و امین ہے؛ اس سے قیامت کےدن اس سے متعلق باز پرس ہوگی۔ اس طرح ہر شخص اپنے زیر نگیں لوگوں کا نگراں و محافظ ہے اور قیامت کے دن اس سے اس سے متعلق سوال کیا جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5819

 
 
Hadith   1036   الحديث
الأهمية: لقد أطاف بآل بيت محمد نساء كثير يشكون أزواجهن، ليس أولئك بخياركم


Tema:

محمد ﷺ کی بیویوں (ازواجِ مطہرات) کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ یہ لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔

عن إياس بن عبد الله بن أبي ذباب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا تضربوا إِمَاءَ الله» فجاء عمر -رضي الله عنه- إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: ذَئِرْنَ النساءُ على أزواجهن، فَرَخَّصَ في ضربهن، فَأَطَافَ بآل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نساءٌ كثيرٌ يَشْكُونَ أزواجهن، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لقد أَطَافَ بآل بيت محمد نساءٌ كثيرٌ يَشْكُونَ أزواجهن، ليس أولئك بِخِيَارِكُمْ».

ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذباب - رضی اللہ عنہ - روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی باندیوں (یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو۔ پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد عمر- رضی اللہ عنہ - رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہو گئیں ہیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی۔ اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کیں کہ وہ ان کو مارتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ ایسے لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ضرب الزوجات، فجاء عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- وقال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: اجترأ النساء على أزواجهن ونشزن، فرخص النبي -صلى الله عليه وسلم- بضربهن ضربًا غير مبرح إذا وجد السبب لذلك كالنشوز ونحوه، فاجتمع نساء عند زوجات النبي -صلى الله عليه وسلم- في اليوم التالي يشكون من ضرب أزواجهن لهن ضربًا مبرحًا، ومن سوء استعمال هذه الرخصة، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: هؤلاء الرجال الذين يضربون نساءهم ضربًا مبرحًا ليسوا بخياركم.
ومن أسباب ذلك أن الله -عز وجل- جعل الضرب آخر مراحل علاج النشوز فقال: (واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن) وهذه الثلاثة على الترتيب وليست للجمع في وقت واحد، فيبدأ بالنصح والوعظ والتذكير فإن أفاد فالحمد لله، وإن لم ينفع يهجرها في المرقد، فإن لم يفد يضربها ضرب تأديب لا ضرب انتقام.
606;بی ﷺ نے بیویوں کو مارنے سے منع فرمایا۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں اور نافرمانی کرنے لگی ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں ہلکا سا مارنے کی رخصت دے دی بشرطیکہ کہ کوئی وجہ پائی جائے جیسے نافرمانی وغیرہ۔ اگلے دن عورتیں نبی ﷺ کی بیویوں کے پاس آ گئیں اورانہوں نے اپنے شوہروں کی شکایت کی کہ وہ سختی کے ساتھ مارتے ہیں اور رخصت کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مرد جو اپنی عورتوں کو تیز مارتے ہیں وہ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔
اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مارنے کو نافرمانی کے علاج کے مراحل میں سے آخری مرحلہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾ ”اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو“۔
ان تینوں طریقوں کا ذکر ترتیب بیان کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس لیے کہ سب کو ایک ہی وقت میں بروئے کار لایا جائے۔ چنانچہ مرد پہلے سمجھائے بجھائے اور نصیحت کرے اگر اس سے کچھ فائدہ ہو تو الحمد للہ اور اگر یہ سود مند نہ ہو تو پھر اسے اس کے بستر میں تنہا چھوڑ دے (اُس کے ساتھ نہ سوئے)، اگر یہ بات بھی کار گر نہ ہو تو پھر اس کی تادیب کے لیے اسے (دھیرے سے) مارے نہ کہ انتقام لینے کے لیے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5821

 
 
Hadith   1037   الحديث
الأهمية: لا تؤذي امرأة زوجها في الدنيا إلا قالت زوجته من الحور العين لا تؤذيه قاتلك الله! فإنما هو عندك دخيل يوشك أن يفارقك إلينا


Tema:

جب کوئی عورت اپنے خاوند کو ایذا دیتی ہے تو (جنت کی) حوروں میں سے اس مرد کی بیوی (حور) کہتی ہے: اللہ تجھے تباہ کرے! اس شخص کو تکلیف نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے جو عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا ہے۔

عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تؤذي امرأةٌ زوجَها في الدنيا إلا قالت زوجته من الحُورِ العِينِ لا تُؤْذِيهِ قاتلك الله! فإنما هو عندك دَخِيلٌ يُوشِكُ أن يفارقَكِ إلينا».

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی عورت اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو (جنت کی) حوروں میں سے اس مرد کی بیوی (حور) کہتی ہے: اللہ تجھے تباہ کرے! اس شخص کو تکلیف نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے جو عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- عن قول الحور العين عن الزوجة التي تؤذي زوجها في الدنيا، فإنما هذا الزوج ضيف ونزيل في الدنيا يوشك أن يرحل منها إلى الآخرة، ويدخل الجنة فيكون من نصيب نساء الآخرة.
606;بیﷺ فرما رہے ہیں کہ جنت کی حور اس بیوی سے کہتی ہے جو دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے کہ یہ شوہر تو دنیا میں مہمان ہے اور عنقریب وہ آخرت کی طرف چل دے گا اور جنت میں داخل ہو جائے گا اور آخرت کی عورتوں (حوروں) کے حصے میں آجائے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5822

 
 
Hadith   1038   الحديث
الأهمية: أنفقي أو انفحي، أو انضحي، ولا تحصي فيحصي الله عليك، ولا توعي فيوعي الله عليك


Tema:

خرچ کرو، گِن گِن کر نہ رکھو کہ پھر اللہ بھی تمہیں گِنْ گِنْ کر دے اور بچا بچا کر نہ رکھو کہ پھر اللہ بھی تم سے بچا بچا کر رکھے۔

عن أسماء بنت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- قالت: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا تُوكِي فيُوكَى عليك». وفي رواية: «أَنْفِقِي أو انْفَحِي، أو انْضَحِي، ولا تُحْصِي فيُحْصِي الله عليك، ولا تُوعِي فيُوعِي الله عليك».

اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: (مال کو) روک روک کر نہ رکھو، کہیں یہ نہ ہو کہ تم سے بھی روک لیا جائے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: خرچ کرو، گِن گِن کر نہ رکھو، کہیں یہ نہ ہو کہ اللہ بھی تمہیں گن گن کر دے اور بچا بچا کر نہ رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ بھی تم سے بچا بچا کر رکھنے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال النبي -صلى الله عليه وسلم- لأسماء بنت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما-: لَا تَدَّخِرِي وَتَشُدِّي مَا عِنْدَكِ وَتَمْنَعِي مَا فِي يدك، فتنقطع مَادَّة الرزق عَنْك، وأمرها بالإنفاق في مرضاة الله -تعالى-، ولا تحسبي خوفًا من انقطاع الرزق؛ فيكون سببا لانقطاع إنفاقك، وهو معنى قوله: (فيحصي الله عليك)، ولا تمنعي فضل المال عن الفقير فيمنع الله عنك فضله ويسده عليك.
606;بی ﷺ نے اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے فرمایا: جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے سینت سینت کر اور بچا بچا کر نہ رکھو اور جو کچھ تمہاری ملکیت میں ہے اسے روک روک کر نہ رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم تک تمہارا رزق آنا بند ہو جائے۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرو، رزق کے منتقطع ہو جانے کے اندیشے کے تحت حساب کر کر کے نہ رکھو اور اس کی وجہ سے خرچ کرنا ہی نہ چھوڑ دو۔ آپ ﷺ کے فرمان ”اللہ بھی تمہیں گن گن کر دے“ کا یہی مفہوم ہے۔ زائد مال کو فقیر سے نہ روکو، کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر اللہ بھی تم سے اپنے فضل کو روک لے اور اس کا سلسلہ بند کردے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5823

 
 
Hadith   1039   الحديث
الأهمية: لتؤدن الحقوق إلى أهلها يوم القيامة، حتى يقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء


Tema:

تمھیں روزِ قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لَتُؤَدُّنَّ الحقوق إلى أهلها يوم القيامة، حتى يُقادَ للشاة الجَلْحَاءِ من الشاة القَرْنَاءِ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمھیں روزِ قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المظلوم يقتص من ظالمه يوم القيامة حتى الشاة التي ليس لها قرن تقتص من التي لها قرن ولا يظلم ربك أحداً.
585;وزِ قیامت مظلوم اپنے ظالم سے بدلہ لے گا حتی کہ بغیر سینگ والی بکری بھی سینگ والی بکری سے بدلہ لے گی اور تہمارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5824

 
 
Hadith   1040   الحديث
الأهمية: لو تعلمون ما لكم عند الله -تعالى-، لأحببتم أن تزدادوا فاقَةً وحاجةً


Tema:

اگر تم جانتے ہوتے کہ تمھارے لیے اللہ کے ہاں کیا کچھ ہے، تو تم چاہتے کہ تمھارا فاقہ اور ضرورت مندی اور بڑھ جاۓ۔

عن فضالة بن عبيد -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا صلى بالناس يَخِرُّ رجال من قامتهم في الصلاة من الخَصَاصَة -وهم أصحاب الصُّفة- حتى يقول الأعراب: هؤلاء مجانين. فإذا صلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- انصرف إليهم، فقال: «لو تعلمون ما لكم عند الله -تعالى-، لأحببتم أن تزدادوا فاقة وحاجة».

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے، تو کچھ لوگ بھوک کی وجہ سے گر جاتے تھے۔ یہ لوگ اصحاب صفہ تھے۔ یہاں تک کہ (ان کی حالت دیکھ کر) اعرابی لوگ کہتے: یہ لوگ پاگل ہیں۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھا چکتے، تو ان کی طرف مڑ کر فرماتے: ”اگر تم جانتے ہوتے کہ تمھارے لیے اللہ کے ہاں کیا کچھ (ثواب) ہے، تو تم چاہتے کہ تمھارا فاقہ اور ضرورت مندی اور بڑھ جاۓ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنه كان رجال يسقطون من قيامهم في الصلاة من الجوع والضعف، وهم من أهل الصُفَّة زهاد من الصحابة فقراء وغرباء وكانوا سبعين ويقلون حيناً ويكثرون حيناً يسكنون صفة المسجد لا مسكن لهم ولا مال ولا ولد، حتى يظن ناس من البادية أنهم مجانين بسبب سقوطهم فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- لهم: لو تعلمون مالكم عند الله من الخير لأحببتم أن تزداد فاقتكم أي فقركم وحاجتكم.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ بھوک اور کمزوری کی وجہ سے کچھ لوگ نماز میں حالت قیام میں گر جاتے۔ یہ زاہد صحابہ، یعنی اہل صفہ تھے جو فقیر اور غریب تھے۔ یہ کل ستر لوگ تھے۔ کبھی کچھ کم ہوجاتے اور کبھی زیادہ۔ یہ مسجد کے چبوترے پر رہا کرتےتھے۔ ان کا کوئی گھر بار نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس مال یا اولاد تھی۔ ان کے گرنے کی وجہ سے بعض دیہاتی انہیں پاگل سمجھتے۔ اس پر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اگر تمھیں علم ہوتا کہ اللہ کے ہاں تمہارے لئے کیا خیر محفوظ ہے، تو تمھیں یہ پسند ہوتا کہ تمھارا فاقہ یعنی تمہاری فقیری اور حاجت مندی اور بڑھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5825

 
 
Hadith   1041   الحديث
الأهمية: لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها


Tema:

اگر میں کسی کو (اللہ کے سوا) کسی اور کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لو كنت آمِرًا أحدًا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو (اللہ کے سوا) کسی اور کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه لو كان آمراً أحداً أن يسجد لأحدٍ لأمر الزوجة أن تسجد لزوجها، وذلك تعظيماً لحقه عليها ولكن السجود لغير الله محرم لا يجوز مطلقاً.
606;بی ﷺ فرما رہے ہیں کہ اگرآپ ﷺ کسی کو کسی اور کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتے تو بیوی کو حکم دیتے کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے کیوں کہ بیوی پر اس کا جو حق ہے اس کی وجہ سے وہ تعظیم کا مستحق ہے۔ لیکن غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے اور بالکل بھی جائز نہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5826

 
 
Hadith   1042   الحديث
الأهمية: أن عبد الله بن عمر طلق امرأته وهي حائض، فذكر ذلك عمر لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فتغيظ منه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حائضہ تھیں، طلاق دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ ﷺاس سے بہت خفا ہوئے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما-: «أنه طلق امرأته وهي حائض، فذكر ذلك عمر لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فَتَغَيَّظَ منه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ثم قال: لِيُرَاجِعْهَا، ثم لِيُمْسِكْهَا حتى تَطْهُرَ، ثم تَحِيضُ فَتَطْهُرَ، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها طاهرًا قبل أن يَمَسَّهَا، فتلك العِدَّةُ، كما أمر الله -عز وجل-».
وفي لفظ: «حتى تَحِيضَ حَيْضَةً مُسْتَقْبَلَةً، سِوَى حَيْضَتِهَا التي طَلَّقَهَا فيها».
وفي لفظ «فحُسِبَتْ من طلاقها، ورَاجَعْهَا عبدُ الله كما أمره رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ اس پر بہت غصہ ہوئے اور فرمایا: ”وہ اس سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لے اور اسے روکے رکھے۔ یہاں تک کہ وہ ماہ واری سے پاک ہو جائے، پھر ماہ واری آئے اور پھر پاک ہوجائے۔ اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھے، تو اس کی پاکی (طہر) کے زمانے میں اس کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دے سکتا ہے۔ بس یہی وہ وقت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) طلاق دینے کا حکم دیا ہے“۔
اور ایک روایت میں ہے: ”یہاں تک کہ اسے اگلا حیض آجائے، اس حیض کے علاوہ جس میں اس نے طلاق دیا ہے“۔
اور ایک روایت میں ہے: ”پس وہ طلاق شمار کی گئی اور عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے بموجب ان سے رجوع کر لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طلق عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- امرأته وهي حائض، فذكر ذلك أبوه للنبي -صلى الله عليه وسلم-، فتغيظ غضبا، حيث طلقها طلاقا محرما، لم يوافق السنة.
ثم أمره بمراجعتها وإمساكها حتى تطهر من تلك الحيضة ثم تحيض أخرى ثم تطهر منها.
وبعد ذلك- إن بدا له طلاقها ولم ير في نفسه رغبة في بقائها- فليطلقها قبل أن يطأها، فتلك العدة، التي أمر الله بالطلاق فيها لمن شاء.
واختلف العلماء في وقوع الطلاق على الحائض ومع أن الطلاق في الحيض محرم ليس على السنة، والقول المفتى به ما دلت عليه رواية أبي داود وغيره لهذا الحديث: (فردها علي ولم يرها شيئا) وأما الألفاظ الواردة في هذه الرواية فليست صريحة في الوقوع ولا في أن الذي حسبها هو رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وفي الحديث المحكم المشهور: (من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد) متفق عليه.
593;بد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حالتِ حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ ان کے والد نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ سخت غصہ ہوئے۔ کیوں کہ انھوں نے حرام طلاق دی تھی، جو سنت کے مطابق نہ تھی۔
آپ نے انھیں رجوع کرنے اور اپنے پاس روکے رکھنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ وہ ماہ واری سے پاک ہو جائیں، پھر ماہ واری آئے اور پھر اس سے پاک ہوجائیں۔
اس کے بعد اب اگر وہ طلاق دینا چاہیں اور اپنے پاس باقی نہ رکھنا چاہیں، تو ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دے سکتے ہیں۔ بس یہی وہ وقت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے والے کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ حالتِ حیض میں طلاق کے وقوع کے متعلق علما کا اختلاف ہے؛ جب کہ حالت حیض میں دی ہوئی طلاق حرام اور غیر مسنون ہے۔ اس مسئلے میں قابل اطمئنان قول وہی ہے، جس پر ابوداؤد وغیرہ کی یہ روایت دلالت کرتی ہے: ”اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے شمار نہیں کیا“۔ جب کہ اس روایت میں وارد الفاظ نہ تو طلاق واقع ہونے کے بارے میں صریح ہیں اورنہ ہی اس بارے میں کہ اس کے شمار کرنے والے رسولﷺ ہیں۔ جب کہ ایک مشہور اور محکم حدیث میں ہے: ”جس نے کوئی ایسا کام کیا، جس کے بارے میں ہمارا حکم موجود نہیں ہے، تو وہ مردود ہے“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5827

 
 
Hadith   1043   الحديث
الأهمية: ليصل أحدكم نشاطه فإذا فتر فليرقد


Tema:

تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو سوجائے۔

عن أنس -رضي الله عنه- قال: دخل النبي -صلى الله عليه وسلم- المسجد فإذا حبل ممدود بين الساريتين، فقال: «ما هذا الحبل؟» قالوا: هذا حبل لزينب، فإذا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ به. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «حُلُّوهُ، لِيُصَلِّ أحدكم نشاطه فإذا فَتَرَ فليرقد».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسّی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اِسے زینب رضی اللہ عنہا نے باندھ رکھا ہے۔ جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے کہ جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو سوجائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دخل النبي -صلى الله عليه وسلم- المسجد فوجد أمامه حبلاً معلقاً بين عمودين من أعمدة المسجد، فتفاجأ وسأل عن سبب تعليقه، فقال له الصحابة -رضي الله عنهم-: إنه حبل لزينب، تصلي النافلة وتطيل، فإذا شعرت بتعب صلت وتمسكت بالحبل، فأمر بإزالة الحبل وحث على الاقتصاد في العبادة والنهي عن التعمق فيها ليكون الإقبال عليها بنشاط.
606;بی ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کو مسجد کے ستونوں میں سے دو ستونوں کے مابین ایک رسّی تنی ہوئی دکھائی دی۔ آپ ﷺ نے اسے لٹکانے کا سبب دریافت کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے جو خوب دیر تک نوافل ادا کرتی ہیں اور جب تکان محسوس کرتی ہیں تو رسی کو تھام لیتی ہیں اور تب بھی نماز پڑھتی رہتی ہیں۔ آپ ﷺ نے رسی کو ہٹانے کا حکم دیا اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دی اور اس میں بہت ہی زیادہ مستغرق ہوجانے سے منع فرمایا تاکہ عبادت پوری بشاشت کے ساتھ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5828

 
 
Hadith   1044   الحديث
الأهمية: كنا نتحدث عن حَجَّةِ الوداع، والنبي -صلى الله عليه وسلم- بين أظهرنا، ولا ندري ما حَجَّةُ الوداع


Tema:

ہم حجۃُ الوداع کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے، جب کہ نبی کریم ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجۃ الوداع کا مفہوم کیا ہے۔

عن ابن عمر -رضي الله عنهما-، قال: كنا نتحدث عن حَجَّةِ الوداع، والنبي -صلى الله عليه وسلم- بين أظهرنا، ولا ندري ما حَجَّةُ الوداع حتى حمد اللهَ رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- وأثنى عليه، ثم ذكر المَسِيحَ الدَّجَالَ، فأَطْنَبَ في ذكره، وقال: «ما بعث الله من نبي إلا أَنْذَرَهُ أُمَّتَهُ، أنذره نوح والنبيون من بعده، وإنه إن يخرج فيكم فما خَفِيَ عليكم من شأنه فليس يخفى عليكم، إن ربكم ليس بأَعْوَرَ، وإنه أَعْوَرُ عَيْنِ اليُمْنَى، كأنَّ عينه عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ. ألا إن الله حرم عليكم دماءكم وأموالكم كحُرْمَةِ يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، ألا هل بلغت؟» قالوا: نعم، قال: «اللهم اشهد» ثلاثا «ويلكم - أو ويحكم -، انظروا: لا ترجعوا بعدي كُفَّارًا يضرب بعضكم رِقَابَ بعض».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم حجۃ الوداع کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے، جب کہ نبی کریم ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجۃ الوداع کا مفہوم کیا ہے۔۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسیح دجال کا تفصیلی ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جتنے بھی نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا، ہر ایک نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، نوح علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے دیگر انبیاء نے بھی اپنی امت کو اس سے ڈرایا اور وہ تم ہی میں سے نکلے گا۔ پس یاد رکھنا کہ تم کو اس کے جھوٹے ہونے کی اور کوئی دلیل نہ معلوم ہو تو یہی دلیل کافی ہے کہ تمہارا پروردگار، کانا نہیں ہے اور وہ مردود اپنی دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ ایسی معلوم ہو گی جیسے ابھرا ہوا انگور کا دانہ!۔خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کر دیے ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت، تمہارے اس شہر اور اس مہینہ میں مسلَّمْ ہے۔ ہاں بولو! کیا میں نے (اپنا ربانی پیغام تم تک) پہنچا دیا؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا۔ پھر فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا، تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ جملہ دہرایا۔ افسوس! (آپ نے ”ويلكم“ فرمایا یا ”ويحكم“، راوی کو شک ہے) دیکھو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان) کی گردنیں مارنے لگو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: كنا نقول والنبي -صلى الله عليه وسلم- حي: ما حجة الوداع؟ ولا ندري ما حجة الوداع. وحجة الوداع هي الحجة التي حجها النبي -صلى الله عليه وسلم- في السنة العاشرة من الهجرة، وودعّ الناس فيها، وذكر المسيح الدجال، وعظّم من شأنه، وبالغ في التحذير منه، ثم أخبر -عليه الصلاة والسلام- أن كل الأنبياء ينذرون قومهم من الدجال، يخوفونهم ويعظمون شأنه عندهم.
وإنه لا يخفى عليكم لأن ربكم ليس بأعور، أما هو فإنه أعور عينه اليمنى كأنها عنبة بارزة.
ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: إن الله حرم عليكم سفك دمائكم وأخذ أموالكم بغير حق، كحرمة يوم النحر وحرمة مكة وحرمة ذي الحجة.
ثم قال -صلى الله عليه وسلم-: هل بلغتكم ما أُمرت بتبليغه إليكم؟ قالوا: نعم، قال: اللهم فاشهد على شهادتهم بالتبليغ إليهم. قالها ثلاث مرات.
ثم أمرهم أن لا يكونوا بعده كالكفار يقتل بعضهم بعضًا.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہم کہا کرتے تھے کہ حجۃ الوداع کیا ہے؟ اور ہمیں پتہ نہیں تھا کہ حجۃ الوداع کیا ہے۔ حجۃُ الوداع، اس حج کو کہا جاتا ہے جو نبی ﷺ نے ہجرت کے دسویں برس کیا۔ جس میں آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنا وداعی پیغام دیا اور اس میں مسیح دجال کا ذکر کرتے ہوئے اس کے معاملہ کو بہت زیادہ تشویشناک قرار دیا اور اس سے بچاؤ اختیار کرنے کی پورے شد و مد کے ساتھ تلقین فرمائی، پھر آپ ﷺ نے یہ خبر دی کہ سارے ہی انبیاء کرام، اپنی اقوام کو دجال سے ڈرایا کرتے تھےاور انھیں اس کا خوف دلایا کرتے اور اسے بہت خطرناک بتاتے تھے اور یہ کہ یقینا اس کا معاملہ تم سے مخفی نہ رہے گا کیوں کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اور اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی دائیں آنکھ سے کانا ہے جو ایسے معلوم ہوتی ہے کہ نمایاں طور پر ابھرا ہوا انگور کا دانہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے اور ناحق اموال ہڑپنے کو، اسی طرح حرام کردیا ہےجس طرح قربانی کے اس دن کی حرمت ہے، شہرِ مکہ کی حرمت ہے اور ماہ ذی الحجہ کی حرمت ہے۔
پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا:کیا میں نے تمہیں(دین اسلام کی) وہ تمام باتیں پہنچادیں جسے تم تک پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی؟ تمام صحابہ کرام نے فرمایا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ! تبلیغِ رسالت کے تئیں، امت کی اس گواہی پر تو گواہ رہنا۔ آپ ﷺ نے اس جملہ کو تین بار دہرایا۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ آپ کی وفات کے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجائیں کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5829

 
 
Hadith   1045   الحديث
الأهمية: ما تركت بعدي فتنة هي أضر على الرجال من النساء


Tema:

ميں نے اپنے بعد كوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا، جو مردوں کے حق میں عورتوں سے زیادہ ضرر رساں ہو۔

عن أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ما تركت بعدي فتنة هي أضر على الرجال من النساء».

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ميں نے اپنے بعد كوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا، جو مردوں کے حق میں عورتوں سے زیادہ ضرر رساں ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم أن النساء سبب عظيم للفتنة، وذلك بإغرائهن وإمالتهن عن الحق إذا خرجن واختلطن بالرجال, وإذا حصلت خلوة بهن، والضرر هنا يكون في الدين والدنيا.
606;بی ﷺ نے خبر دی کہ عورتیں فتنے کا ایک بہت بڑا سبب ہیں؛ کیوںکہ جب وہ باہر نکل کر مردوں کے ساتھ ملتی جلتی ہیں اور ان کے ساتھ تنہائي میں رہتی ہیں، تو (انھیں) فریفتہ کرلیتی ہیں اور حق سے دور ہٹا دیتی ہیں؛ یوں ان سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5830

 
 
Hadith   1046   الحديث
الأهمية: ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه؛ يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده


Tema:

جس مسلمان کے پاس کوئی ایسی شے ہو، جس کے بارے میں وصیت کرنا چاہے، اسے یہ زیب نہیں کہ دو راتیں بھی گزارے، مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه؛ يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده».
زاد مسلم: قال ابن عمر: «ما مرت علي ليلة منذ سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول ذلك، إلا وعندي وصيتي».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جس مسلمان کے پاس کوئی ایسی شے ہو، جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہے، اسے یہ زیب نہیں کہ دو راتیں بھی گزارے، مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو“۔
مسلم شریف کی حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب سے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، تب سے کوئی رات ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت موجود نہ ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ليس من الحق والصواب والحزم لمن عنده شيء يريد أن يوصي به ويبينه، أن يهمله حتى تمضى عليه المدة الطويلة؛ بل يبادر إلى كتابته وبيانه، وغاية ما يسامح فيه الليلة والليلتان.
ولذا فإن ابن عمر رضي الله عنهما- بعد أن سمع هذه النصيحة النبوية- كان يتعاهد وصيته كل ليلة، امتثالا لأمر الشارع، وبيانا للحق.
والوصية قسمان: مستحب، وهو ما كان للتطوعات والقربات، وواجب، وهو ما كان في الحقوق الواجبة، التي ليس فيها بينة تثبتها بعد وفاته لأن "ما لا يتم الواجب إلا به ، فهو واجب"، وذكر ابن دقيق العيد أن هذا الحديث محمول على النوع الواجب.
740;ہ بات درست، ٹھیک اور تقاضائے احتیاط کے مطابق نہیں ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی ایسی شے ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہواور جس کی وہ وضاحت کرنا چاہتا ہو کہ وہ اس میں لاپرواہی برتے، یہاں تک کہ لمبی مدت گزر جائے۔ بلکہ اسے چاہیےکہ وہ فورا اسے لکھ لے اور اسے واضح کر دے۔ زیادہ سے زیادہ مدت جس کی چھوٹ دی جا سکتی ہے، ایک یا دو راتیں ہیں۔
اسی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہما اس نبوی نصیحت کو سننے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی اور بیان حق کے لیس ہر رات اپنی وصیت کو خیال سے رکھا کرتے تھے۔ پھر وصیت کی دو قسمیں ہیں: اول: مستحب، یہ ایسی وصیت ہے، جو نفلی اور اللہ سےقریب کرنے والی چیزوں کے سلسلے میں کی جا   ‎‎
ۓ۔ دوم: واجب، یہ ایسی وصیت ہے، جو ایسے واجب حقوق کے سلسلے میں کی جاۓ، جن کے بارے میں اس کی وفات کے بعد کو   ‎   ئی دلیل نہ رہے۔ کیوں کہ "جس کام کے بغیر واجب کام پورا نہ ہو، وہ بھی واجب ہے"۔ اور ابن دقیق العید بیان فرماتے ہیں کہ یہ حدیث واجب قسم پر ہی محمول ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5831

 
 
Hadith   1047   الحديث
الأهمية: ما من نبي إلا وقد أنذر أمته الأعور الكذاب


Tema:

جو بھی نبی آیا، اس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ضرور ڈرایا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما من نبي إلا وقد أنذر أمته الأعور الكذاب، ألا إنه أعور، وإن ربكم - عز وجل - ليس بأعور، مكتوب بين عينيه ك ف ر»

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو بھی نبی آیا، اس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے (دجال) سے ضرور ڈرایا۔ آگاہ رہو! وہ دجال کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اس دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”ک ف ر“ لکھا ہوا ہوگا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كل نبي أرسله الله أنذر أمته وحذرها من المسيح الدجال؛ لأنهم علموا بخروجه وشدة فتنته, وبينوا لهم شيئاً من صفاته, وذكر في هذا الحديث أنه أعور والله سبحانه منزه عن هذا, ومن صفاته كذلك أنه مكتوب بين عينيه ك ف ر.
575;للہ کے فرستادہ ہر نبی نے اپنی امت کو مسیح دجال سے ڈرایا اور متنبہ کیا ہے۔ کیونکہ انہیں اس کے نکلنے اور اس کی سخت فتنہ پردازی کا علم تھا۔ نیز انہوں نے اپنی امتوں کے لیے اس کی کچھ صفات بھی بیان کی ہیں۔ اس حدیث میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کانا ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے۔ اسی طرح اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے مابین ”ک ف ر“ (کفر) لکھا ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5832

 
 
Hadith   1048   الحديث
الأهمية: ما نقص مال عبد من صدقة، ولا ظلم عبد مظلمة صبر عليها إلا زاده الله عزا، ولا فتح عبد باب مسألة إلا فتح الله عليه باب فقر


Tema:

کسی بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ جس شخص پر ظلم کیا جائے اور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

عن أبي كبشة عمرو بن سعد الأنماري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثة أقسم عليهن، وأحدثكم حديثاً فاحفظوه: ما نقص مال عبد من صدقة، ولا ظلم عبد مظلمة صبر عليها إلا زاده الله عزًا، ولا فتح عبد باب مسألة إلا فتح الله عليه باب فقر -أو كلمة نحوها- وأحدثكم حديثًا فاحفظوه»، قال: «إنما الدنيا لأربعة نفر: عبد رزقه الله مالاً وعلمًا، فهو يتقي فيه ربه، ويَصِلُ فيه رحمه، ويعلم لله فيه حقًا، فهذا بأفضل المنازل. وعبد رزقه الله علما، ولم يرزقه مالاً، فهو صادق النية، يقول: لو أن لي مالا لَعَمِلْتُ بعمل فلان، فهو بنيته، فأجرهما سواء. وعبد رزقه الله مالاً، ولم يرزقه علما، فهو يخبط في ماله بغير علم، لا يتقي فيه ربه، ولا يصل فيه رحمه، ولا يعلم لله فيه حقًا، فهذا بأخبث المنازل. وعبد لم يرزقه الله مالاً ولا علمًا، فهو يقول: لو أن لي مالا لعملت فيه بعمل فلان، فهو بنيته، فوزرهما سواء».

ابو کبشہ عمرو بن سعد انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں ہیں، جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا تاہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جسے تم یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا؛ بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ (دوسری بات یہ کہ) جس شخص پر ظلم کیا جائےاور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے،-یا اسی طرح کی کچھ بات کہی- اور ایک بات میں تم سے کہتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ فرمایا: یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لیے ہے۔ ایک تو وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا۔ پس وہ اپنے مال ودولت کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبے والا ہے۔ دوسرا وہ بندہ ہے، جسے اللہ نے علم دیا۔ مال و دولت محروم رکھا۔ مگر اس کی نیت سچی ہے۔ وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا، تو میں فلاں شخص جیسا کام کرتا۔ ایسے شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا اوران دونوں کا اجر برابر ہوگا۔ تیسرا بندہ وہ ہے، جسے اللہ نے صرف مال دیا اور علم سے محروم رکھا۔ وہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مال کے سلسلے میں نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں موجود اللہ کے حق کا پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ یہ مرتبے کے لحاظ سے سب سے گھٹیا شخص ہے۔ چوتھا شخص وہ ہے، جسے اللہ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح کام کرتا۔ اس کا معاملہ اس کی نیت کے مطابق ہوگا اور ان دونوں کا گناہ برابر ہوگا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ثلاث خصال حلف النبي -صلى الله عليه وسلم- عليها، وحدثهم بحديث آخر, أما الخصال الثلاث فهي:
1- ما نقص مال عبد من صدقة. أي: بركته من أجل إعطاء الصدقة.
2- ولا ظُلِمَ عبد مظْلمَة فصبر عليها إلا زاده الله بها عزاً. أي مظلمة ولو كان متضمناً لنوع من المذلة إلا أعزه الله بها ويذل الظالم.
3- ولا فتح عبد على نفسه باب سؤال الناس لا لحاجة وضرورة بل لقصد غنى وزيادة إلا أفقره الله بأن فتح له باب احتياج آخر أو سلب عنه ما عنده من النعمة.   ثم ذكر أن الدنيا لأربعة أصناف:
1- عبد رزقه الله مالا وعلما، فهو يتقي بأن يصرف هذا المال في مصرفه الصحيح، وبعمل بعلمه، ويَصِلُ رحمه، فهذا بأفضل المنازل.
2- عبد رزقه الله علما، ولم يرزقه مالا، فهو صادق النية، يقول: لو كان لي مال لَعَمِلْتُ مثل عمل العبد الأول، فهو بنيته، فأجرهما سواء.
3- عبد رزقه الله مالا، ولم يرزقه علما، فهو يخبط في ماله بغير علم، لا يتقي فيه ربه، ولا يصل فيه رحمه، ولا يعلم لله فيه حقا، فهذا بأخبث المنازل.
4- عبد لم يرزقه الله مالا ولا علما، فهو يقول: لو كان لي مال لعملت فيه مثل عمل العبد الثالث، فهو بنيته، فوزرهما أي إثمهما سواء.
606;بی ﷺ نے تین خصلتوں پر قسم اٹھائی اور صحابہ کرام کو ایک اور بات بھی بتائی۔ وہ تین خصلتیں یہ ہیں:
1۔ بندے کا مال صدقہ دینے سے کم نہیں ہوتا۔ یعنی صدقہ دینے کی وجہ سے اس کی برکت میں کمی نہیں ہوتی۔
2۔ جب کسی بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر اس ظلم میںک چھ بے عزتی بھی شامل ہو تو اللہ تعالی اسے عزت بخشتا ہے اور ظالم کو ذلیل کرتا ہے۔
3۔ جب کوئی شخص بلا ضرورت لوگوں سے، صرف مال و دولت میں اضافے کے لیے مانگنا شروع کردیتا ہے، تو اللہ تعالی اسے فقر و فاقہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے لیے کسی اور ضرورت کا دروازہ کھول دیتا ہے یا اس سے کوئی نعمت چھین لیتا ہے۔
پھر آپ ﷺ نے بتایا کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے:
1- وہ جسے اللہ تعالی نے مال اور علم دونوں عطا کیا ہے، پس وہ شخص صحیح جگہ اس مال کو خرچ کرنے میں احتیاط کرتا ہے، اپنے علم پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبہ والا ہے۔
2- وہ بدہ جسے اللہ تعالی نے علم تو عطا کیا ہے لیکن مال عطا نہیں کیا، وہ اپنی نیت میں سچا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس پہلي آدمی کی طرح اسے خرچ کرتا، پس وہ اپنی تیت کے مطابق ہی ہوگا، پہلا اور دوسرا شخص اجر وثواب میں برابر ہیں۔
3- تیسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے مال تو عطا کیا ہے لیکن علم نہیں دیا، پس وہ مال کے معاملہ میں بغیر علم کے بھٹک جاتا ہے، اس مال کے سلسلہ میں اپنے رب سے ڈرتا نہیں، نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کا کوئی حق وہ جانا ہے، یہ شخص سب سے بدترین مرتبہ کا ہے۔
4- چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالی نے نہ ہی مال عطا کیا ہے اور نہ ہی اسے علم سے نوازا ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تیسرے شخص کی طرح اسے خرچ کرتا، پس وہ اپنی نیت کے مطابق ہے اور ان دونوں (تیسرے اور چوتھے شخص) کا گناہ برابر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5833

 
 
Hadith   1049   الحديث
الأهمية: مثل البخيل والمنفق، كمثل رجلين عليهما جُنَّتان من حديد من ثديهما إلى تراقيهما


Tema:

بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو لوگوں کی سی ہے جن کے بدن پر چھاتيوں سے ہنسلی تک لوہے کی دو زرہیں ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مثل البخيل والمنفق، كمثل رجلين عليهما جُنتان من حديد من ثُدِيِّهما إلى تَرَاقِيهما، فأمَّا المنفق فلا ينفق إلا سَبَغت -أو وَفَرَت- على جلده حتى تخفي بنانه وتَعْفُو أثره، وأمَّا البخيل فلا يريد أن ينفق شيئاً إلا لزقت كل حلقة مكانها، فهو يوسعها فلا تتسع».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو لوگوں کی سی ہے جن کے بدن پر چھاتیوں سے ہنسلی تک لوہے کی دو زرہیں ہوں۔ خرچ کرنے کا عادی (سخی) خرچ کرتا ہے تو اس کے تمام جسم کو (وہ زرہ) چھپا لیتی ہے یا ( راوی نے یہ کہا کہ ) تمام جسم پر وہ کشادہ ہو جاتی ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہے اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان (زرہ کی لمبے ہونے کی وجہ سے ) مٹتا جاتا ہے۔ لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوپاتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ضرب النبي -صلى الله عليه وسلم- مثلاً للبخيل والمنفق, وصفهما برجلين على كل واحد منهما درع يستره ويقيه من الثدي إلى الترقوة -وهي العظم الذي في أعلى الصدر-, فأمَّا المنفق كلما أنفق سبغت وطالت حتى تجر وراءه وتخفي رجليه وأثر مشيه وخطواته, وأمَّا البخيل فكرجل ضاق عليه درعه حتى غُلت يده إلى عنقه كلما أراد توسيعها اجتمعت ولزمت ترقوته.
606;بی ﷺ نے کنجوس اور خرچ کرنے والے کی مثال دی۔ آپ ﷺ نے انہیں دو ایسے لوگوں سے تشبیہہ دی جن میں سے ہر ایک کے جسم پر ایک زرہ ہو جس نے اسے چھپا رکھا ہو اور سینے سے لے کر ہنسلی تک اسے محفوظ رکھتی ہو۔ 'ترقوہ' سینے کے بالائی حصے میں موجود ایک ہڈی کا نام ہے (ہنسلی کی ہڈی)۔ خرچ کرنے والا جب بھی خرچ کرتا ہے تو یہ زرہ پھیلتی جاتی ہے اور لمبی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی ہے اور اس کے پاؤں، اس کے چلنے اور اس کے قدموں کے نشانات کو چھپا لیتی ہے جب کہ کنجوس شخص کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کی زرہ اس پر تنگ ہوگئی ہے یہاں تک کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھ جائیں اور جب بھی وہ کشادہ ہونے کا ارادہ کرے تو زرہ اس کی ہنسلی کے ساتھ لپٹ جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5834

 
 
Hadith   1050   الحديث
الأهمية: مروه، فليتكلم، وليستظل، وليقعد، وليتم صومه


Tema:

اسے کہو کہ وہ گفتگو کرے، سایہ حاصل كرے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما-، قال: بينما النبي -صلى الله عليه وسلم- يخطب إذا هو برجل قائم فسأل عنه، فقالوا: أبو إسرائيل نذر أن يقوم في الشمس ولا يقعد، ولا يستظل؛ ولا يتكلم، ويصوم، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «مروه، فليتكلم، وليستظل، وليقعد، وليتم صومه».

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ايک دفعہ نبی ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپ ﷺ کی نظر (دھوپ ميں) کھڑے ہوئے ایک شخص پر پڑی۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو لوگوں نے بتلایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ وہ دھوپ ميں کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سا یہ حاصل كرے گا اور نہ گفتگو کرے گا، اور روزہ رکھے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے کہو کہ وہ گفتگو کرے، سایہ حاصل كرے, بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نذر هذا الصحابي ترك الكلام والطعام والشراب وأن يقف في الشمس ولا يستظل وهذا فيه تعذيب للنفس ومشقة عليها وهذا نذر محرم لهذا نهاه النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك, لكن أمره أن يتم صومه لأنه عبادة مشروعة ، وعليه من نذر عبادة مشروعة لزمه فعلها ومن نذر عبادة غير مشروعة فإنه لا يلزمه فعلها.
575;س صحابی نے نذر مانی تھی کہ وہ بات چيت اورکھانا پینا ترک کرديں گےِ, دھوپ میں کھڑے رہیں گے اور سا یہ نہيں حاصل كريں گے۔ چونکہ اس نذرمیں نفس کی ایذا رسانی اوراس کے لیے مشقت تھی، اور اس قسم کی نذر حرام ہے، اسی وجہ سے نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا، ليكن آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا روزہ پورا کریں کیونکہ یہ ایک مشروع عبادت ہے۔ بنابریں جو شخص کسی مشروع عبادت کی نذر مانے تو اس کے لیے اسے انجام دینا ضروری ہے۔ نیزجو شخص کسی غیر شرعی عبادت کی نذر مانے تو اس کے لیے اس کا پورا کرنا لازم نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5835

 
 
Hadith   1051   الحديث
الأهمية: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه


Tema:

جو شخص کوئی غلہ خریدے، اسے چاہیے کہ اس کو پورا پورا لے لینے سے پہلے نہ بیچے۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «من ابْتَاعَ طعاما فلا يَبِعْهُ حتى يَسْتَوْفِيَهُ»، وفي لفظ: «حتى يَقْبِضَهُ».

Esin Hadith Text


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کوئی غلہ خریدے، اسے چاہیے کہ اس کو پورا پورا لے لینے سے پہلے نہ بیچے“۔ ایک اور روایت میں ”حتى يَسْتَوْفِيَهُ“ کے بجائے ”حتى يَقْبِضَهُ“ (اس پر قبضہ کر لینے) کے الفاظ ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان قبض الطعام من متممات العقد، ومكملات الملك، نُهِي المشترى عن بيع الطعام حتى يقبضه ويستوفيه، ويكون تحت يده وتصرفه، وكذلك كل سلعة غير الطعام، ويلتحق بالبيع بعض عقود التي تدخل في حكمه كالإجارة، والهبة على عوض، والرهن، والحوالة، أما فيماعدا البيع وما يجرى مجراه، فيجوز التصرف فيه.
670;وں کہ غلے پر قبضہ عقد کو مکمل اور ملکیت کو پورا کرنے والے امور میں سے ہے، چنانچہ شارع حکیم علیہ الصلاۃ والسلام نے خریدار کو تب تک اسے (آگے) بیچنے سے منع فرمایا، جب تک کہ وہ اسے اپنے قبضے اور تحویل میں نہ لے لے اور اسے اس پر مکمل دسترس اور تصرف نہ حاصل ہو جائے۔
یہی حکم اس سامان کا بھی ہے جو اناج کے علاوہ ہیں، بیع کے متعلق اس حم میں بعض وہ عقود بھی شامل ہوجاتے ہیں جو بیع کے حکم میں ہی آتے ہیں جیسے کرایہ پر دینا، کسی عوض کے بدلے ہبہ کرنا، رہن اور حوالہ، رہے وہ معاملات جو بیع اور اس کے قبیل سے نہیں ہیں تو ان میں تصرف کرنا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5837

 
 
Hadith   1052   الحديث
الأهمية: من أدرك ماله بعينه عند رجل -أو إنسان- قد أفلس؛ فهو أحق به من غيره


Tema:

جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی آدمی یا انسان کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہو؛ تو صاحب مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے.

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من أدرك ماله بعينه عند رجل -أو إنسان- قد أفلس؛ فهو أحق به من غيره».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی شخص کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہو تو صاحب مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من باع متاعه لأحد أو أودعه أو أقرضه إياه ونحوه، فأفلس المشتري ونحوه، بأن كان ماله لا يفي بديونه، فللبائع أن يأخذ متاعه إذا وجد عينه، فهو أحق به من غيره.
580;س نے کسی کو اپنا کوئی سامان بیچا یا پھر اس کے پاس بطورِ امانت رکھوایا یا پھر اسے بطور قرض دیا یا پھر ایسی ہی کوئی اور صورت حال ہوئی اور پھر وہ خریدار دیوالیہ ہو گیا بایں طور کہ اس کا مال اس کے ذمے واجب الاداء رقوم کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو تو اگر اس شخص کو اس دیوالیہ آدمی کے پاس اپنا سامان بعینہ مل جائے تو بائع دوسروں کے مقابلے میں اسے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5838

 
 
Hadith   1053   الحديث
الأهمية: من أصبح منكم آمنا في سربه، معافى في جسده، عنده قوت يومه، فكأنما حيزت له الدنيا بحذافيرها


Tema:

تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان کی طرف سے بے خوف ہو، جسمانی اعتبار سے صحت مند ہو، ایک دن کی خوراک کا سامان اس کے پاس ہو، تو گویا اس کے لیے ساری دنیا جمع کردی گئی۔

عن عبيد الله بن محصن الأنصاري الخطمي -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَنْ أصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا في سربِهِ، مُعَافَىً في جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا بِحَذَافِيرِهَا».

عبیداللہ بن محصن انصاری خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان کی طرف سے بے خوف ہو، جسمانی اعتبار سے صحت مند ہو، ایک دن کی خوراک کا سامان اس کے پاس ہو، تو گویا اس کے لیے ساری دنیا جمع کردی گئی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من أصبح آمناً في نفسه، وقيل بيته وقومه، صحيحاً في بدنه عنده غداؤه وعشاؤه، فكأنما حصل على كل الدنيا بأن ضُمت وجُمعت له الدنيا بجميع جوانبها.
580;س نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بے خوف ہو، ایک قول کی رو سے اپنے گھر اور قوم سے متعلق اسے کوئی خوف لاحق نہ ہو، جسمانی لحاظ سے صحت مند ہو اور اس کے پاس صبح شام کا کھانا ہو، تو اس نے گویا ساری دنیا پالی؛ بایں طور کہ گویا دنیا تمام اطراف سے اکٹھی اور جمع کرکے اس کے سامنے ڈال دی گئی۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5840

 
 
Hadith   1054   الحديث
الأهمية: من باع نخلًا قد أبرت فثمرها للبائع، إلا أن يشترط المبتاع


Tema:

جس نے کھجور کے ایسے درخت بیچے، جن کی تلقیح کی جاچکی ہو، تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والے نے شرط لگا دی ہو۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنه- مرفوعًا: «من باع نخلًا قد أُبِّرَتْ فَثَمَرُهَا للبائع، إلا أن يشترط المُبْتَاعُ».
وفي رواية: «ومن ابْتَاعَ عبدا فمالُه للذي باعه إلا أن يشترط المُبْتَاعُ».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کھجور کے ایسے درخت بیچے، جن کی تلقیح کی جاچکی ہو، تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہوگا، سوائے اس کے کہ خریدنے والے نے شرط لگا دی ہو“۔
اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے اپنا غلام بیچا، اس (غلام) کا مال بیچنے والے کا ہو گا، الا کہ خریدار شرط لگا دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حق التأبير للبائع، وألحق به الثمرة لكونه قد باشر سببها وهو التأبير، إلا أنه متى اشترط المشتري  أن تكون له الثمرة -وإن كان النخل قد لقحت- وقبل البائع ذلك، فهما على ما اشترطا.
وكذلك العبد الذي جعل سيده بيده مالًا، فإن باعه فماله لسيده الذي باعه لأن العقد لا يتناوله، إلا أن يشترطه المشتري، أو يشترط بعضه، فيدخل في البيع.

Esin Hadith Caption Urdu


’تابیر‘ (پیوندکاری) کا حق فروخت کنندہ کو حاصل ہے اور درخت کے پھل پر بھی یہی حکم عائد ہوگا۔ (یعنی وہ بھی فروخت کنندہ کا ہو گا) کیوں کہ اس پھل کے سبب یعنی پیوندکاری کو اسی نے سر انجام دیا ہے۔ سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے کہ پھل اس کا ہو گا۔ اگر کھجوروں کی پیوند کاری ہو چکی ہو اور فروخت کنندہ اس شرط کو قبول کر لے، تو فروخت کنندہ اور خریدار اپنے مابین طے شدہ شرط کے پابند ہوں گے (اور یوں پھل خریدار کا ہو جائے گا)۔ یہی حکم اس غلام کا ہے، جس کے ہاتھ میں اس کے آقا نے کچھ مال تھما رکھا ہو۔ اگر وہ اسے فروخت کر دے، تو اس کے ہاتھ میں موجود مال اس کے آقا کا ہوگا، جس نے اسے بیچا ہے۔ کیوں کہ عقد ِبیع میں یہ مال شامل نہیں۔ الا یہ کہ خریدار اس پورے مال یا اس کے کچھ حصے کی شرط لگا دے (کہ وہ بھی عقد میں شامل ہوگا)، تو وہ عقدِ بیع میں شامل ہو جائے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5842

 
 
Hadith   1055   الحديث
الأهمية: من ظلم قيد شبر من الأرض؛ طوقه من سبع أرضين


Tema:

اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ ظَلَم قِيدَ شِبْرٍ مِن الأرْضِ؛ طُوِّقَهُ مِن سَبْعِ أَرَضِين».

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اگر کسی نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مال الإنسان على الإنسان حرام، فلا يحل لأحد أخذ شيء من حق أحد، إلا بطيبة نفسه، وأشد ما يكون ذلك ظلم الأرض، لطول مدة استمرار الاستيلاء عليها ظلماً.
ولذا فإن النبي صلى الله عليه وسلم أخبر أن من ظلم قليلا أو كثيراً من الأرض جاء يوم القيامة بعذاب شديد، بحيث تغلظ رقبته، وتطول، ثم يطوق الأرض التي غصبها وما تحتها، إلى سبع أرضين، جزاء له على ظلمه صاحب الأرض بالاستيلاء عليها.
ولا يدخل في الوعيد استعمال الأراضي العامة دون تملك واستيلاء.
575;یک انسان کا مال دوسرے انسان پر حرام ہے، لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اور کے حق میں سے اس کی رضامندی و خوش دلی کے بغیر کچھ بھی حصہ حاصل کرے۔ اور ناحق مال لینے کی بدترین شکل کسی کی زمین کو ظلما ہڑپ لینا ہے؛ اس لیے کہ یہ ظالمانہ قبضہ مدت دراز تک قائم رہتا ہے۔
اسی بنا پر نبی ﷺ نے آگاہ فرمادیا کہ جو شخص کسی کی زمین ہڑپ لے؛ کم ہو یا زیادہ، وہ روز قیامت سخت ترین عذاب کے ساتھ حاضر ہوگا۔ چنانچہ اس کی گردن انتہائی موٹی اور دراز تر کردی جائے گی اور پھر غاصبانہ طور پر حاصل کردہ زمین اور اس زمین کے نیچے سات گنا اراضی کا طوق بناکر اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ یہ صاحب کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کے ظالمانہ عمل کا بدلہ ہوگا۔
خیال رہے کہ اس وعید میں ان عام اراضی کا استعمال شامل نہیں، جو بغیر ملکیت اور قبضہ کے استعمال میں لائے جائیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5843

 
 
Hadith   1056   الحديث
الأهمية: إذا أمن الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة: غفر له ما تقدم من ذنبه


Tema:

جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہو جاتی ہے اس کے پچھلےگناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا أَمَّنَ الإمام فأمنوا، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة: غفر له ما تقدم من ذنبه».

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہو جاتی ہے اس کے پچھلےگناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نؤمن إذا أمن الإمام، لأن ذلك هو وقت تأمين الملائكة، ومن وافق تأمينه تأمين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه.
606;بی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب امام آمین کہے تو ہم بھی آمین کہیں کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب فرشتے آمیں کہتے ہیں اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5844

 
 
Hadith   1057   الحديث
الأهمية: مه، عليكم بما تطيقون، فوالله لا يمل الله حتى تملوا، وكان أحب الدين إليه ما داوم صاحبه عليه


Tema:

ٹھہر جاؤ ( سن لو!) تم اتنا ہی عمل کیا کرو، جتنے کی تمھارے اندر طاقت ہے۔ اللہ کی قسم (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ۔ اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے، جس کا کرنے والے اسے ہمیشہ کرے۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- دخل عليها وعندها امرأة، قال: «من هذه؟» قالت: هذه فلانة تذكر من صلاتها. قال: «مَهْ، عليكم بما تطيقون، فوالله لا  يَمَلُّ  الله حتى تَمَلُّوا» وكان أحب الدين إليه ما داوم صاحبه عليه.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے، اس وقت ایک عورت ان کے پاس بیٹھی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟، انھوں نے جواب دیا: یہ فلاں عورت ہے، جو اپنی نماز کا ذکر کر رہی ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ (سن لو!) تم اتنا ہی عمل کیا کرو، جتنے کی تمھارے اندر طاقت ہے۔ اللہ کی قسم (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ۔ اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے، جس کا کرنے والے اسے ہمیشہ کرے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
زارت امرأة عائشة -رضي الله عنها- فذكرت لها كثرة عبادتها وصلاتها, فذكرت عائشة ذلك لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فنهاها عن المبالغة في العبادة وتكليف النفس ما لا تطيق, وأخبرها أن الله لا يعاملكم معاملة الملل حتى تملوا فتتركوا, فينبغي لكم أن تأخذوا ما تطيقون الدوام عليه ليدوم ثوابه لكم وفضله عليكم.
575;م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی۔ اس نے انھیں بتایا کہ وہ بکثرت عبادت کرتی اور نماز پڑھتی ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی، تو آپ ﷺ نے انھیں عبادت میں مبالغہ کرنے اور نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالی تم سے اکتاہٹ کا برتاؤ نہیں کرے گا، بلکہ تم خود اکتا جاؤ اور عبادت چھوڑ دو؛ اس لیے تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم اتنا عمل کرو، جسے ہمیشہ کر سکو؛ تاکہ اس کا ثواب اور اس کا فضل و کرم تمھیں ہمیشہ ملتا رہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5845

 
 
Hadith   1058   الحديث
الأهمية: والذي نفسي بيده، لو تدومون على ما تكونون عندي، وفي الذكر، لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم، لكن يا حنظلة ساعة وساعة


Tema:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو یعنی ذکر میں مشغول ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔

عن أبي ربعي حنظلة بن الربيع الأسيدي الكاتب- رضي الله عنه- أحد كتاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: لقيني أبو بكر -رضي الله عنه- فقال: كيف أنت يا حنظلة؟ قلت: نافق حنظلة! قال: سبحان الله ما تقول؟! قلت: نكون عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم-  يُذَكِّرُنَا بالجنة والنار كأنا رَأْىَ عَيْنٍ فإذا خرجنا من عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عَافَسْنَا الأزواج والأولاد وَالضَّيْعَاتِ نسينا كثيرا، قال أبو بكر -رضي الله عنه-: فوالله إنا لنلقى مثل هذا، فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-. فقلت: نافق حنظلة يا رسول الله! فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «وما ذاك؟» قلت: يا رسول الله، نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كأنا رأي العين فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينًا كثيرًا. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «والذي نفسي بيده، لو تدومون على ما تكونون عندي، وفي الذِّكْر، لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي  طُرُقِكُمْ، لكن يا حنظلة ساعة وساعة» ثلاث مرات.

ابو ربعی حنظلہ بن ربیع اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے حنظلہ تم کیسے ہو میں نے کہا حنظلہ تو منافق ہوگیا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ ﷺ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں اور اولاد اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہے میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا وجہ ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ ﷺ ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہوجاتے ہیں جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو یعنی ذکر میں مشغول ہوتے ہو، تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔ آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر حنظلة أبا بكر الصديق بأنه يكون على حالة غير الحالة التي يكون فيها عند النبي -صلى الله عليه وسلم- وذلك أنهم كانوا في حالة يذكرون الله فيها وإذا خالطوا الأبناء والنساء والدنيا تغيرت أحوالهم فظن أن هذا نفاق إذ حقيقة النفاق إظهار حال غير الحال التى عليها الباطن فلما أخبروا النبي -صلى الله عليه وسلم- بذلك قال لهم لو تستمرون على الحال التي تكونون عليها عندي لسلمت عليهم الملائكة بالأيدي وعلى كل أحوالكم، ولكن لا بد من الاعتدال فساعة لربه وساعة لأهله ودنياه.
581;نظلہ رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ آپ ﷺ کے پاس جس حالت میں ہوتے ہیں دوسرے وقت اُس حالت میں نہیں ہوتے؛ آپ ﷺ کے پاس اس حالت میں ہوتے ہیں کہ اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں، لیکن جب اپنے بچوں، عورتوں اور دنیاوی امور میں پڑ جاتے ہیں تو ان کی حالتیں بدل جاتی ہیں، حنظلہ رضی اللہ عنہ نےاسے نفاق خیال کیا۔ اس لیے کہ نفاق کہتے ہیں کہ ایسی حالت کو ظاہر کرنا جو باطن کے خلاف ہو۔ جب انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو بتایا تو کہا اگر مسلسل اس حال پر قائم رہو جس حال میں میرے پاس ہوتے ہو، تو فرشتے اپنے ہاتھوں تم سے ہر حالت میں سلام کرے۔ لیکن اعتدال ضروری ہے ایک وقت اللہ کے لیے اور ایک وقت گھر والوں اور دنیا کے لیے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5846

 
 
Hadith   1059   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن تتلقى الركبان، وأن يبيع حاضر لباد


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں سے آگے جا کر ملنے اور شہری کا دیہاتی کی طرف سے بیع کرنے سے منع فرمایا

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن تُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، وأن يبيع حاضرٌ لِبَادٍ، قال: فقلت لابن عباس: ما قوله حاضرٌ لِبَادٍ؟ قال: لا يكون له سِمْسَارًا».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں سے آگے جا کر ملنے اور شہری کا دیہاتی کی طرف سے بیع کرنے سے منع فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ شہری کا دیہاتی کی طرف سے بیع کرنے سے آپ ﷺ کی کیا مراد ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کا دلال نہ بنے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث ينهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن أنواع من البيع المحرم، لما فيها من الأضرار العائدة على البائع أو المشتري أو غيرهما:
أولًا: النهي عن تلقى القادمين لبيع سلعهم من طعام وحيوان، فيقصدهم قبل أن يصلوا إلى السوق، فيشتري منهم جَلَبَهمْ، فلجهلهم بالسعر، ربما غبنهم في بيعهم، وحرمهم من باقي رزقهم الذي تعبوا فيه وَطَووْا لأجله المفازات، وتجشموا المخاطر، فصار طعمة باردة لمن لم يكد فيه.
ثانيًا: أن يحمل البدوي أو القروي متاعه إلى البلد ليبيعه بسعرِ يومِه ويرجع أو بالسعر الذي يحتاجه ويكفيه فيأتيه البلديُّ فيقول: ضعه عندي لأبيعه على التدريج بزيادة سعر، وذلك إضرار بأهل البلد.
فجاءت الشريعة بحفظ حق البائع الغريب عن البلد وبحفظ حق أهل البلد.
575;س حدیث میں نبی ﷺ حرام بیع کی کچھ اقسام سے منع فرما رہے ہیں۔ کیوںکہ اس میں بائع و مشتری یا ان کے علاوہ کسی اور کو نقصان ہوتا ہے۔
اول: اشیا خوردنی اور جانور وغیرہ پر مشتمل سامانِ تجارت لے کر (بیرون شہر سے) آنے والے لوگوں سے جا ملنا ممنوع ہے؛ بایں طور کہ آدمی ان کے منڈی تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاس جا کر ان سے سامان تجارت خرید لے۔ اس میں امکان ہے کہ ان کی قیمتوں سے عدم واقفیت کی بنا پر وہ ان سے دھوکہ کرلے اور انھیں ان کے باقی رزق سے محروم کر دے، جس کے لیے انھوں نے اتنی مشقت اٹھائی، صحراؤں اور جنگلات کو عبور کیا اور خطرات برداشت کیے۔ یوں وہ ان لوگوں کے لیے لقمۂ تر بن جائے، جنھوں نے اس کے لیے کچھ بھی کاوش نہیں کی۔
دوم: کوئی دیہاتی یا کسی بستی کا باشندہ شہر میں اپنا سامان تجارت لے کر آئے، تاکہ اسے اس دن کی قیمت پر یا پھر کسی ایسے بھاؤ پر بیچ کر واپس لوٹ جائے، جس کی اسے ضرورت ہو یا جو اس کے لیے کافی ہو۔ ایسے میں اس کے پاس کوئی شہری شخص آ کر کہے کہ اس سامان کو میرے پاس رکھ دو، تا کہ اسے میں تھوڑا تھوڑا کر کے زیادہ دام پر بیچ دوں۔ ایسا کرنے سےشہر کے باشندوں کو نقصان ہوتا ہے۔
چنانچہ شریعت نے شہر میں آنے والے اجنبی فروخت کنندہ اور شہر کے باشندوں دونوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5847

 
 
Hadith   1060   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن المزابنة: أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا: بتمر كيلا، وإن كان كرما: أن يبيعه بزبيب كيلا، أو كان زرعا: أن يبيعه بكيل طعام، نهى عن ذلك كله


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے مزابنہ سے منع فرمایا، یعنی باغ کے پھلوں کو اگر وہ کھجور ہیں تو خشک کھجور کے بدلے میں ناپ کر بیچا جائے۔ اور اگر انگور ہیں تو اسے خشک انگور کے بدلے ناپ کر بیچا جائے اور اگر وہ کھیتی ہے تو ناپ کر غلہ کے بدلے میں بیچا جائے۔ آپ نے ان تمام قسم کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- قال: «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن المُزَابَنَةِ: أن يبيع ثَمَرَ حَائِطِهِ إن كان نَخْلًا: بتَمْرٍ كَيْلًا، وإن كان كَرْمًا: أن يبيعه بزبيب كَيْلًا، أو كان زَرْعًا: أن يبيعه بكَيْلِ طعام، نهى عن ذلك كله».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’بیعِ مزابنہ‘‘ سے منع فرمایا، یعنی باغ کے پھلوں کو اگر وہ کھجور ہیں تو خشک کھجور کے بدلے میں ناپ کر بیچا جائے۔اور اگر انگور ہیں تو اسے خشک انگور کے بدلے ناپ کر بیچا جائے اور اگر وہ کھیتی ہے تو ناپ کر غلہ کے بدلے میں بیچا جائے۔ آپ ﷺ نے ان تمام قسم کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن المزابنة، التي هي بيع المعلوم بالمجهول من جنسه، لما في هذا البيع من الضرر، ولما فيه من الجهالة بتساوي المبيعين المفضية إلى الربا وقد ضُربت لها أمثلة توضحها وتبينها.
وذلك، كأن يبيع ثمر بستانه إن كان نخلا، بتمر كيلا، وإن كان عنبا أن يبيعه بزبيب كيلا، أو إن كان زرعًا أن يبيعه بكيل طعام من جنسه، نهى عن ذلك كله، لما فيه من المفاسد، والأضرار.
606;بی ﷺ نے ’بیع مزابنہ‘ سے منع فرمایا، بیع مزابنہ سے مراد معلوم مقدار والی شے کی مجہول مقدار والی شے سے فروخت ہے۔ اس کی ممانعت اس لیے ہے کیونکہ اس میں ضرر ہوتا ہے اور اس میں دونوں فروخت کردہ اشیاء کی مقدار میں جہالت ہوتی ہے جو ربا کا سبب بنتی ہے۔اس کی کئی مثالیں دی گئی ہیں جو اس کی وضاحت کرتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے پھل کو اگر وہ کھجور ہو تو اسے ٹوٹی ہوئی خشک کھجور کے عوض میں بیچ دے اور اگر انگور ہو تو اسے ناپ کر کشمش کے بدلے بیچ دے اور اگر کھیتی ہو تو اسے ناپ کر اسی جنس کی خوراک سے بیچ دے۔ آپ ﷺ نے ان تمام قسم کی بیوع کو ان میں پوشیدہ مفاسد اور نقصانات کی وجہ سے منع فرمایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5848

 
 
Hadith   1061   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الشغار


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما-: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن الشِّغَارِ».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الأصل في عقد النكاح أنه لا يتم إلا بصداق للمرأة، يقابل ما تبذله من نفسها.
ولهذا فإن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن هذا النكاح الجاهلي، الذي يظلم به الأولياء مولياتهم، إذ يزوجونهن بلا صداق يعود نفعه عليهن، وإنما يبذلونهن بما يُرضي رغباتهم وشهواتهم، فيقدمونهن إلى الأزواج، على أن يزوجوهم مولياتهم بلا صداق.
فهذا ظلم وتصرف في فروجهن بغير ما أنزل الله، وما كان كذلك فهو محرم باطل.
593;قدِ نکاح میں اصل تو یہی ہے کہ یہ عورت کو دیے جانے والے حق مہر کے ساتھ پورا ہوتا ہے جو اس کے نفس کے عوض کے طور پر دیا جاتا ہے۔
اسی لیے نبی ﷺ نے جاہلیت کے اس نکاح سے منع فرمایا جس کے ذریعے اولیاء اپنے زیر پرورش اور زیر نگرانی موجود لڑکیوں پر ظلم کیا کرتے تھے بایں طور کہ وہ بغیر کسی ایسے مہر کے ان کا نکاح کر دیتے جس کا فائدہ انہیں پہنچتا۔ وہ تو اپنی رغبت اور خواہش کے تقاضے کے مطابق انہیں استعمال کرتے ہوئے اس شرط پر انہیں ان کے شوہروں کے حوالے کر دیتے کہ وہ اپنی زیر پرورش موجود لڑکیوں کا بغیر مہر کے ان کے ساتھ نکاح کر دیں گے۔
یہ ظلم ہے اور اللہ کے نازل کردہ حکم کے برخلاف ان کی شرمگاہوں میں تصرف ہے۔ اور اس طرح کا کوئی بھی معاملہ حرام اور باطل ہوا کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5849

 
 
Hadith   1062   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن المنابذة -وهي طرح الرجل ثوبه بالبيع إلى الرجل قبل أن يقلبه، أو ينظر إليه-، ونهى عن الملامسة -والملامسة: لمس الرجل الثوب ولا ينظر إليه


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے منابذہ کی بیع سے منع فرمایا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی بیچنے کے لیے اپنا کپڑا دوسرے شخص کی طرف (جو خریدار ہوتا) پھینکتا اور اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹے پلٹے یا اس کی طرف دیکھے اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بیع ملامسۃ سے بھی منع فرمایا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ (خریدنے والا) کپڑے کو بغیر دیکھے صرف اسے چھو دیتا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن  الْمُنَابَذَةِ-وهي طرح الرجل ثوبه بالبيع إلى الرجل قبل أن يقلبه، أو ينظر إليه-، ونهى عن الْمُلَامَسَةِ -والملامسة: لمس الرجل الثوب ولا ينظر إليه-».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منابذہ کی بیع سے منع فرمایا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی بیچنے کے لیے اپنا کپڑا دوسرے شخص کی طرف (جو خریدار ہوتا) پھینکتا اور اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹے پلٹے یا اس کی طرف دیکھے (صرف پھینک دینے کی وجہ سے وہ بیع لازم سمجھی جاتی تھی) اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بیع ملامسۃ سے بھی منع فرمایا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ (خریدنے والا) کپڑے کو بغیر دیکھے صرف اسے چھو دیتا (اور اسی سے بیع لازم ہو جاتی تھی)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن بيع الغَرَر، لما يحصل فيه من مضرة لأحد المتعاقدين، بأن يغبن في بيعه أو شرائه.
وذلك كأن يكون المبيع مجهولا للبائع، أو للمشتري، أو لهما جميعاً.
ومنه بيع المنابذة، بحيث يطرح البائع الثوب -مثلاً- على المشتري يعقدان البيع قبل النظر إليه أو تقليبه.
و مثله بيع الملامسة، كأن يجعلا العقد على لمس الثوب، مثلا، قبل النظر إليه أو تقليبه.
وهذان العقدان يفضيان إلى الجهل والغرر في المعقود عليه.
فأحد العاقدين تحت الخطر إما غانما أو غارماً، فيدخلان في (باب الميسر) المنهي عنه.
606;بی ﷺ نے بیع غرر (دھوکے کی بیع) سے منع فرمایا کیونکہ اس سے دونوں فریقین عقد میں سے کسی ایک کو نقصان ہوتا ہے بایں طور کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا ہو جاتا ہے۔جیسے اگر سامان تجارت فروخت کنندہ یا خریدار یا دونوں کے لئے مجہول ہو۔ اس کی ایک صورت بیعِ منابذہ بھی ہے بایں طور کہ فروخت کنندہ مثلا کپڑے کو خریدار کی طرف پھینک دے یعنی اسے دیکھ لینے یا الٹ پلٹ کر جانچ لینے سے پہلے ہی وہ اس کی بیع پکی کر لیں۔اس کی ایک مثال بیعِ ملامسہ بھی ہے جس کی صورت یہ ہے کہ خریدار وفروخت کنندہ کے مابین کپڑے کو دیکھ لینے یا الٹ پلٹ کر جانچ لینے سے پہلےمحض اسے چھو لینے سے عقد بیع ہو جائے۔ یہ دونوں عقد، معقود علیہ کے سلسلے میں جہالت اور دھوکہ دہی کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ دونوں فریقین میں سے ایک خطرے میں ہوتا ہے، یا تو وہ فائدے میں رہتا ہے یا پھر نقصان اٹھاتا ہےاور اپنے اس عمل کی وجہ سے بائع اور مشتری جوے بازی کے حدود میں داخل ہو جاتے ہیں جو کہ ممنوع ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5850

 
 
Hadith   1063   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الثمار حتى تزهي. قيل: وما تزهي؟ قال: حتى تحمر. قال: أرأيت إن منع الله الثمرة، بم يستحل أحدكم مال أخيه؟


Tema:

رسول الله ﷺ نے پھلوں کو ” زہو “ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ دریافت کیا گیا کہ زہو کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: پھلوں کا (پک کر) سرخ ہونا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ اگر اللہ (کسی وجہ سے) پھل نہ لگائے تو تمہارے لیے اپنے بھائی کا مال کیسے حلال ہوجائے گا؟

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الثمار حتى تُزْهِي. قيل: وما تُزْهِي؟ قال: حتى تَحمَرَّ. قال: أرأيت إن مَنَعَ اللهُ الثمرة، بِمَ يستحِلُّ أحدُكُم مال أخيه؟».

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے پھلوں کو ” زہو “ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ دریافت کیا گیا کہ زہو کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: پھلوں کا (پک کر) سرخ ہوجانا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم بتاؤ اگر اللہ (کسی وجہ سے) پھل نہ لگائے تو تمہارے لیے اپنے بھائی کا مال (بلا عوض لینا) کیسے حلال ہوجائے گا؟

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانت الثمار مُعَرضة لكثير من الآفات قبل بُدُو صلاحها، وليس في بيعها مصلحة للمشتري في ذلك الوقت.
فنهى النبي -صلى الله عليه وسلم- البائع والمشتري عن بيعها حتى تزهي، وذلك بُدُو الصلاح، الذي دليله في تمر النخل الاحمرار أو الاصفرار.
ثم علل الشارع المنع من تبايعها، بأنه لو أتت عليها آفة، أو على بعضها، فبماذا يحل لك- أيها البائع- مال أخيك المشترى، كيف تأخذه بلا عوض ينتفع به؟
662;کنا شروع ہونے سے پہلے پھلوں پر بہت سی بیماریوں کے آنے کا اندیشہ ہوا کرتا تھا اور اس وقت ان کے بیچنے میں خریدار کا فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فروخت کنندہ اور خریدار کو پھلوں کے 'زہو' سے پہلے ان کی بیع سے منع فرمایا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پھلوں کی پختگی ظاہر ہوجائے۔ کھجور کے معاملے میں اس کی نشانی اس کا سرخ یا زرد ہوجانا ہے۔
نبی ﷺ نے اس قسم کی خرید و فروخت کی ممانعت کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان پھلوں پر کوئی آفت آ جائے یا ان کا کچھ حصہ بیماری کی زد میں آ جائے تو پھر تم یعنی فروخت کنندہ کے لیے یہ کیسے روا ہو گا کہ وہ اپنے خریدار بھائی کا مال لے لے؟۔ تم کسی ایسے بدل کے بغیر کیسے اس کا مال لے سکتے ہو جس سے اس کو کوئی فائدہ ہوا ہی نہیں؟۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5851

 
 
Hadith   1064   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، نهى البائع و المبتاع


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع کیا تھا۔ آپ ﷺ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر- رضي الله عنهما- مرفوعاً: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، نهى البائع و المُبْتَاعَ».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع کیا تھا۔ آپ ﷺ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن بيع الثمار حتى يظهر نضجها، ونهى عن ذلك البائع والمشترى.
606;بی اکرم ﷺ نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5852

 
 
Hadith   1065   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الولاء وعن هبته


Tema:

نبی کریم ﷺ نے ’ولاء‘ کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر- رضي الله عنهما- مرفوعاً: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الوَلاءِ وعن هِبَتِهِ».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ولاء کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الوَلاء لحمَة كلحمَةِ النسب، من حيث إن كلا منهما لا يكتسب ببيع ولا هبة ولا غير هما، لهذا لا يجوز التصرف فيه ببيع ولا غيره.
وإنما هو صلة ورابطة بين المعتق والعتيق يحصل بها إرث الأول من الثاني،  والنهي عن بيعه وهبته لكونه كالنسب الذي لا يزول بالإزالة.
فلو أن إنساناً باع نسبه من أخيه ما يصلح البيع، أو باع نسبه من ولده لم يصح البيع، أو باع نسبه من ابن عمه لا يصح البيع، النسب لا يباع، وهكذا الولاء.

Esin Hadith Caption Urdu


’وَلاء‘ نسب کے رشتے کی طرح ایک رشتہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خرید و فروخت، ہبہ وغیرہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس میں خرید و فروخت وغیرہ کے ذریعے تصرف کرنا جائز نہیں۔یہ آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ شخص کے درمیان ایک رابطہ اور تعلق ہے۔ اس کی وجہ سے پہلا شحض دوسرے کا وارث بنتا ہے۔ اس کی خرید و فروخت اور ہبہ سے ممانعت اس لیے ہے کہ نسب کی طرح اسے ختم کرنے سے یہ ختم نہیں ہوتا۔
اگر ایک انسان اپنے سے بھائی کا نسب بیچے تو اس کا بیچنا درست نہیں یا اگر کوئی اپنے بچے سے اس کا نسب بیچے تو یہ بیچنا بھی درست نہیں یا اگر کوئی اپنے چچازاد بھائی سے اس کا نسب بیچے تو یہ بیع بھی درست نہیں، اس لیے کہ نسب کا بیچنا درست نہیں، اسی طرح ’ولاء‘ کا بیچنا بھی درست نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5853

 
 
Hadith   1066   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع حبل الحبلة


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع حَبَلِ الحَبَلَةِ ،وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية، وكان الرجل يبتاع الجَزُورَ إلى أن تُنتِجَ الناقة، ثم تُنتِج التي في بطنها.   قيل: إنه كان يبيع الشارف -وهي الكبيرة المسنة- بنتاج الجنين الذي في بطن ناقته.

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہو کر جنے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ایک شخص اونچی کوہان والی اونٹنی بیچتا تھا اور وہ بڑی عمر کی ہوتی، اس بچے کے جنم کی شرط پر، جو اس کی اونٹنی کے پیٹ میں ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا بيع من البيوع المحرمة، وأشهر تفاسير هذا البيع تفسيران:
1- أن يكون معناه التعليق، وذلك بأن يبيعه الشيء بثمن مؤجل بمدة تنتهي بولادة الناقة، ثم ولادة الذي في بطنها، ونُهيَ عنه لما فيه من جهالة أجل الثمن، والأجل له وقع في الثمن في طوله وقصره.
2- أن يكون معناه بيع المعدوم المجهول، وذلك بأن يبيعه نتاج الحمل الذي في بطن الناقة المسنة، ونُهي عنه لما فيه من الضرر الكبير والغرر، فلا يعلم: هل يكون أنثى، وهل هو واحد أو اثنان، وهل هو حي أو ميت؟ ومجهولة مدة حصوله- وهذه من البيعات المجهولة، التي يكثر ضررها وعذرها، فتفضي إلى المنازعات.
بمعنى: صارت المسألة لها أربع صور:
الأولى: أن يبيع حمل الناقة.
الثانية: أن يبيع حمل حمل الناقة، وهذا يعود على جهالة المعقود عليه.
الثالثة: أن يؤجل المبيع، أي يؤجل المدة التي يكون فيها الشيء ملكا للمشتري إلى أن تنتج الناقة أو تنتج التي في بطنها.
الرابعة: أن يكون المبيع مؤبدا، لكن الثمن مؤجل بأجل مجهول.
740;ہ بیع ان بیوع میں سے ہے، جو حرام ہیں۔ اس کی مشہور دو تفسیریں ہیں:
1- اس کا معنیٰ تعلیق ہے، یعنی کوئی چیز اس طرح ادھار پر بیچنا کہ جانور کے پیٹ میں موجود بچے کی ولادت، پھر اس کے بچے کی ولادت پر اس کی مدت ختم ہو۔ اس سے منع کیا گیا ہے، اس لیے کہ اس میں قیمت مجہول ہے اور جس مدت کے ساتھ قیمت کو معلق کیاگیا ہے، وہ لمبی بھی ہوسکتی ہے اور مختصر بھی۔
2- اس کے معنی معدوم اور مجہول چیز کو بیچنے کے ہیں۔ یعنی ایک سالہ جانور کے پیٹ میں موجود حمل سے پیدا ہونے والے بچے کو بیچنا۔ اس سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس میں بہت زیادہ ضرر اور غرر (غیریقینی صورتحال) ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ بچہ مادہ ہی ہوگا، ایک ہوگا یا دو، مردہ ہوگا یا زندہ اور کتنے عرصے میں پیدا ہوگا؟ یہ مجہول بیوع میں سے ہے، جس کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے اور جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔
یعنی مسئلے کی چار صورتیں ہیں:
پہلی یہ کہ جانور کے حمل کو بیچنا۔
دوسری یہ کہ جانور کے حمل کے حمل کو بیچنا۔ اس میں بیچی جانے والی چیز مجھول ہے۔
تیسری یہ کہ بیچی جانے والی چیز مؤجل ہو، یعنی جس مدت میں وہ چیز مشتری کی ملکیت ہوگی، وہ جانور کا بچہ ہونے یا اس کے بچے کا بچہ ہونے تک مؤخر ہو۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ مبیع غیر معلق (دستیاب) ہو ،لیکن قیمت مؤجل ہو جس کی مدت مجہول ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5854

 
 
Hadith   1067   الحديث
الأهمية: إن امرأتي ولدت غلاما أسود. فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- هل لك إبل؟ قال: نعم. قال: فما ألوانها؟ قال: حمر. قال: فهل يكون فيها من أورق؟ قال: إن فيها لورقا. قال: فأنى أتاها ذلك؟ قال: عسى أن يكون نزعه عرق. قال: وهذا عسى أن يكون نزعه عرق


Tema:

میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ان کے رنگ سرخ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا کہ کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں، ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر اُسے بھی کسی رگ ہی نے کھینچ لیا ہو گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءه أعرابي فقال: يا رسول الله، إن امرأتي ولدت غلاما أسود، فقال: «هل لك من إبل» قال: نعم، قال: «ما ألوانها» قال: حمر، قال: «هل فيها من أَوْرَقَ» قال: نعم، قال: «فأنى كان ذلك» قال: أراه عرق نزعه، قال: «فلعل ابنك هذا نَزَعَهُ عِرْقٌ»

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ان کے رنگ سرخ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا کہ کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں، ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر اُسے بھی کسی رگ ہی نے کھینچ لیا ہو گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ولد لرجل من قبيلة فزارة غلام خالف لونه لون أبيه وأمه، فصار في نفس أبيه شك منه. فذهب إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- معرضًا بقذف زوجه وأخبره بأنه ولد له غلام أسود.
ففهم النبي -صلى الله عليه وسلم- مراده من تعريفه، فأراد -صلى الله عليه وسلم- أن يقنعه ويزيل وساوسه، فضرب له مثلا مما يعرف ويألف.
فقال: هل لك إبل؟ قال: نعم. قال: فما ألوانها؟ قال: حمر، قال: فهل يكون فيها من أورق مخالف لألوانها؟ قال: إن فيها لورقا.
فقال: فمن أين أتاها ذلك اللون المخالف لألوانها؟.
قال الرجل: عسى أن يكون جذبه عرق وأصل من آبائه وأجداده.
فقال: فابنك كذلك، عسى أن يكون في آبائك وأجدادك من هو أسود، فجذبه في لونه.
فقنع الرجل بهذا القياس المستقيم، وزال ما في نفسه من خواطر.
602;بیلہ بنی فزارہ کے آیک آدمی کے ہاں بچہ پیدا ہوا جس کا رنگ اپنے ماں باپ سے مختلف تھا۔ اس پر اس کے باپ کے دل میں شک پیدا ہو گیا۔ وہ نبی ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر تہمت لگانے کے لیے حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس کے ہاں ایک کالے رنگ کے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔
نبی ﷺ اس کے بتانے سے اس کی مراد سمجھ گئے۔ آپ ﷺ نے اسے قائل کرنے کے لیے اور اس کا وسوسہ دور کرنے کے لیے ایک مثال دی جسے وہ خوب اچھی طرح جانتا اور سمجھتا تھا۔
آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے مزید دریافت کیا کہ ان کے رنگ کیا ہیں؟اس نے جواب دیا: سرخ۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے جس کا رنگ ان اونٹوں سے مختلف ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ان میں خاکستری رنگ کا اونٹ بھی ہے۔
آ پ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اسے یہ رنگ کیسے ملا جو دوسرے اونٹوں سے مختلف ہے؟
اس نے جواب دیا کہ اسے اس کے آبا و اجداد میں سے کسی رگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے بیٹے کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تیرے آبا و اجداد میں سے کوئی کالے رنگ کا شخص گزرا ہو جس نے اسے رنگ میں اپنی طرف مائل کر لیا ہو۔
اس درست قیاس پر وہ شخص مطمئن ہو گیا اور اس کے دل میں جو خیالات آ رہے تھے وہ سب زائل ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5855

 
 
Hadith   1068   الحديث
الأهمية: هو رزق أخرجه الله لكم فهل معكم من لحمه شيء فتطعمونا؟ فأرسلنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منه فأكله


Tema:

وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ! ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔

عن أبي عبد الله جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمَّر علينا أبا عبيدة رضي الله عنه نتلقى عِيرًا لقريش، وزودنا جِرَابًا من تمر لم يجد لنا غيره، فكان أبو عبيدة يعطينا تمرة تمرة، فقيل: كيف كنتم تصنعون بها؟ قال: نمَصها كما يمص الصبي ثم نشرب عليها من الماء، فتكفينا يومنا إلى الليل، وكنا نضرب بعصينا الْخَبَطَ ثم نبله بالماء فنأكله. قال: وانطلقنا على ساحل البحر، فرفع لنا على ساحل البحر كهيئة الكثيب الضخم، فأتيناه فإذا هي دابة تدعى الْعَنْبَرَ، فقال أبو عبيدة: ميتة، ثم قال: لا، بل نحن رسل رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي سبيل الله وقد اضطررتم فكلوا، فأقمنا عليه شهرًا، ونحن ثلاثمئة حتى سَمِنَّا، ولقد رأيتنا نغترف من وَقْبِ عينه بالْقِلاَلِ الدهن ونقطع منه الْفِدَرَ كالثور أو كقدر الثور، ولقد أخذ منا أبو عبيدة ثلاثة عشر رجلاً فأقعدهم في وقب عينه وأخذ ضلعًا من أضلاعه فأقامها ثم رحل أعظم بعير معنا فمر من تحتها وتزودنا من لحمه وَشَائِقَ، فلما قدمنا المدينة أتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرنا ذلك له، فقال: «هو رزق أخرجه الله لكم فهل معكم من لحمه شيء فتطعمونا؟» فأرسلنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منه فأكله.

ابو عبد الله جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ایک چیز ظاہر ہوئی، جب ہم لوگ اس کے قریب آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مچھلی ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ مردار ہے اور ہمارے لیے جائز نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے: نہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور تم مجبور ہو چکے ہو لہٰذا اسے کھاؤ، ہم وہاں ایک مہینہ تک ٹھہرے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم (کھا کھا کر) موٹے تازے ہو گئے، جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ“ ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية وأمَّر عليهم أبا عبيدة أي: جعله عليهم أميراً لأخذ قافلة تحمل البر والطعام لقريش وأعطاهم وعاء من جلد فيه تمر فكان أميرهم يعطي لكل واحد منهم تمرة لقلة الزاد الذي معهم فكانوا يمصونها ويشربون عليها الماء وكانوا يضربون بعصيهم ورق الشجر الذي تأكله الإبل ثم يبلونه بالماء لإذهاب خشونته فلما وصلوا شاطئ البحر رأوا مثل التل من الرمل فأتوه فإذا هي سمكة كبيرة تسمى العنبر فنهاهم أميرهم أبوعبيدة أن يأكلوا منها لأنها ميتة والميتة محرمة بنص الكتاب ثم تغير اجتهاده وأجاز لهم أن يأكلوا منها وذلك أن الميتة يجوز الأكل منها حال الضرورة ولا سيما أنهم في سفر طاعة لله سبحانه، وخفي عليهم أن ميتة البحر حلال، ثم احتجوا بالاضطرار فأكلوا منه وحملوا معهم فلما قدموا المدينة أخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقرهم على فعلهم وأكل منه.
570;پ ﷺ نے ایک سریہ بھیجا۔ اس کا امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بنایا، تاکہ قریش کے اس قافلہ کو پکڑلیں جو اناج اور گیہوں لیے جارہا تھا، آپ ﷺ نے ان کو چمڑے کا ایک برتن دیا جس میں کھجوریں تھیں، ان کا امیر توشہ کم ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو ایک کھجور دیتا، وہ اسے چوستے تھے اور اس پر پانی پیتے تھے، وہ اپنی لاٹھیوں سے پتّے جھاڑتے جنہیں اونٹ کھاتے ہیں، پھر ان پتّوں کو پانی میں بھگوتے، جب ان کی سختی چلی جاتی تو کھاتے تھے، جب وہ لوگ ساحل پر پہنچے تو انہوں نے ریت کے ٹیلے کے برابر کوئی چیز دیکھی، وہ بڑی مچھلی تھی، اسے عنبر کہتے تھے، ان کے امیر ابو عبیدہ نے ان کو وہ کھانے سے منع کیا، اس لیے کہ وہ مُردار ہے اور مُردار قرآن کی صراحت سے حرام ہے، پھر ان کا اجتہاد بدل گیا اور اس کو کھانے کی اجازت دی، اس لیے کہ ضرورت کے موقع پر مُردار کھانا بھی جائز ہے، خاص کر جب اللہ کی اطاعت والے سفر میں ہوں، انہیں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سمندری مُردار حلال ہے۔ پھر انہوں نے مجبوری کو دلیل بنا کر اسے کھایا اور اپنے ساتھ لے گئے، جب وہ مدینے آئے اور آپ ﷺ کو خبر دیا، آپ ﷺ نے انہیں اپنے فعل پر قائم رکھا اور آپ ﷺ نے بھی اس سے کھایا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5856

 
 
Hadith   1069   الحديث
الأهمية: هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة، فلم ير سودة قط


Tema:

اے عبد بن زمعہ! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا، کیونکہ بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر آتے ہیں۔ اور اے سودہ ! تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔ چنانچہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اس لڑکے نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «اختصم سعد بن أبي وقاص، وعبد بن زَمْعَةَ في غلام: فقال سعد: يا رسول الله، هذا ابن أخي عُتْبَة بن أبي وقاص، عهد إلي أنه ابنه، انظر إلى شبهه. وقال عبد بن زَمْعَةَ: هذا أخي يا رسول الله، ولد على فراش أبي من وليدته، فنظر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إلى شبهه، فرأى شبها بينا بعُتْبَة، فقال: هو لك يا عبد بن زَمْعَةَ، الولد للفراش وللعاهر الحجر. واحتجبي منه يا سَوْدَة. فلم ير سَوْدَة قط».

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ خود میرے بھائی سے اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر اس کی باندی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے بچے کی صورت دیکھی تو صاف عتبہ سے ملتی تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے یہی فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا، کیونکہ بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر آتے ہیں۔ اور اے سودہ ! تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔ چنانچہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اس لڑکے نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كانوا في الجاهلية يضربون على الإماء ضرائب يكتسبنها من فجورهن، ويلحقون الولد بالزاني إذا ادعاه.
فزنا عتبة بن أبي وقاص في الجاهلية بأمة لزمعة بن الأسود، فجاءت بغلام، فأوصى (عتبة) إلى أخيه سعد بأن يلحق هذا الغلام بنسبه.
فلمَّا جاء فتح مكة، ورأى سعد الغلام، عرفه بشبهه بأخيه، فأراد استلحاقه.
فاختصم عليه هو وعبد بن زمعة، فأدلى سعد بحجته وهي: أن أخاه أقر بأنه ابنه، وبما بينهما من شبَه.
فقال عبد بن زمعة: هو أخي، ولد من وليدة أبي.
فنظر النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى الغلام، فرأى فيه شبها بيناً بعتبة.
ولكن قضى به لزمعه لأن الأصل أنَّه تابع لمالك الأمة، وقال: الولد منسوب للفراش، وللعاهر الزاني الخيبة والخسار، فهو بعيد عن الولد.
ولكن لما رأى شبه الغلام بعتبة، تورع -صلى الله عليه وسلم- أن يستبيح النظر إلى أخته سودة بنت زمعة بهذا النسب، فأمرها بالاحتجاب منه، احتياطا وتورُعاً.
586;مانۂ جاہلیت میں لوگ اپنی باندیوں پر کچھ رقم دینا لازم کر دیتے تھے جسے وہ بدکاری کرکے کماتی تھیں اور ان سے پیدا ہونے والے بچے کا اگر زانی دعوے دار ہوتا تو بچہ اس کی طرف منسوب کر دیتے تھے۔
عتبہ بن ابی وقاص نے زمانۂ جاہلیت میں زمعہ بن اسود کی باندی کے ساتھ زنا کیا۔ اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ عتبہ نے اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ وہ اس لڑکے کا نسب ان کے ساتھ ملا دیں۔
جب مکہ فتح ہوا اور سعد رضی اللہ عنہ نے اس بچے کو دیکھا تو اپنے بھائی سے مشابہت کی وجہ سے اسے پہچان گئے اور اس کے نسب کو اپنے بھائی کے ساتھ جوڑنا چاہا۔
لیکن اس پر ان کے اور عبد بن زمعہ کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی دلیل پيش کی جو یہ تھی کہ ان کے بھائی نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ ان کا بیٹا ہے اور ان کے مابین موجود مشابہت اس کی دلیل ہے۔
عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے جو میرے باپ کی باندی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
چنانچہ نبی ﷺ نے لڑکے کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کو اس کے اور عتبہ کے مابین صاف مشابہت نظر آئی۔
لیکن آپ ﷺ نے اس کا زمعہ کے حق میں فیصلہ فرما دیا کہ یہ اس کا بیٹا ہے، کیونکہ اصل يہی ہے کہ باندی کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ اس کے مالک کے تابع ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بچہ بستر کی طرف منسوب ہوتا ہے، جب کہ بدکاری کرنے والے زناکار کے حصے میں محض محرومی اور خسارہ آتا ہے اور وہ بچے سے دور رہتا ہے۔
تاہم آپ ﷺ کو اس لڑکے میں جو عتبہ کی مشابہت نظر آئی تھی اس کی وجہ سے آپ ﷺ نے اس بات سے احتراز کيا کہ وہ اس نسب کی بنا پر اپنی بہن سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے کو جائز سمجھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے بطور احتیاط اور ازراہِ تورع سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5858

 
 
Hadith   1070   الحديث
الأهمية: لا تحل لي، يحرم من الرضاع: ما يحرم من النسب، وهي ابنة أخي من الرضاعة


Tema:

وہ میرے لیے حلال نہیں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- «قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بنت حمزة: لا تحل لي، يحرم من الرضاع: ما يحرم من النسب، وهي ابنة أخي من الرضاعة».

Esin Hadith Text


رسول اللہ ﷺ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں فرمایا کہ وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ رضاعت کی وجہ سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں اور وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رَغِبَ على بن أبي طالب -رضي الله عنه- من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يتزوج بنت عمهما حمزة.
فأخبره -صلى الله عليه وسلم- أنها لا تحل له، لأنها بنت أخيه من الرضاعة.
فإنه -صلى الله عليه وسلم- وعمه حمزة رضعا من ثويبة وهى مولاة لأبي لهب، فصار أخاه من الرضاعة، فيكون عم ابنته، ويحرم بسبب الرضاع، ما يحرم مثله من الولادة.
593;لی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے یہ چاہا کہ آپ ﷺ حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرلیں جو ان دونوں کے چچا تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ وہ ان کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ وہ آپ ﷺ کے رضاعی بھائی کی بیٹی ہیں۔ آپ ﷺ اور آپ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ دونوں نے ثویبہ کا دودھ پیا تھا جو ابو لہب کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ چنانچہ اس طرح سے آپ ﷺ حمزہ کے رضاعی بھائی اور ان کی بیٹی کے چچا ہوئے۔ اور (قاعدہ یہ ہے کہ) رضاعت کی وجہ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5859

 
 
Hadith   1071   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يبيت الليالي المتتابعة طاوياً، وأهله لا يجدون عشاء، وكان أكثر خبزهم خبز الشعير


Tema:

رسول الله ﷺ مسلسل کئی راتیں بھوکے گزارتے اور ان کے اہل و عیال کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا اور اکثر ان کے کھانے میں جَو کی روٹی ہوتی۔

عن عبدالله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يبيت الليالي المتتابعة طَاوِياً، وأهلُهُ لا يجِدُون عَشَاءً، وكان أكثر خبزهم خبز الشعير.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے, کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ مسلسل کئی راتیں بھوکے گزارتے اور ان کے اہل و عیال کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا اور اکثر ان کے کھانے میں جَو کی روٹی ہوتی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- ينام الليالي المتتابعة المتوالية من غير أكل، وكذلك زوجاته وعياله؛ لأنهم لا يجدون طعام العَشاء، وكان أكثر خبزهم من الشعير، وهو أقل كلفة من البر وغيره.
606;بی ﷺ مسلسل کئی راتیں بنا کھائے سوتے، اور اسی طرح آپ ﷺ کے اہل و عیال، کیونکہ ان کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا، اور اکثر ان کے کھانے میں جو کی روٹی ہوتی۔ جو گیہوں کے بالمقابل کم مہنگا ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5860

 
 
Hadith   1072   الحديث
الأهمية: كيف وقد زعمت أن قد أرضعتكما؟


Tema:

اب (نکاح) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جب کہ اس عورت کا دعوی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا؟!

عن عقبة بن الحارث -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أنه تزوج أم يحيى بنت أبي إهاب، فجاءت أَمَة سوداء، فقالت: قد أرضعتكما، فذكرت ذلك للنبي -صلى الله عليه وسلم-. قال: فأعرض عني. قال:  فَتَنَحَّيْتُ فذكرت ذلك له. قال: كيف وقد زعمت أن قد أرضعتكما؟!».

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ام یحیی بنت ابی اھاب سے شادی کی تھی ۔ (وہ بیان کرتے ہیں کہ) ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے میری طرف سے منھ پھیر لیا. ميں وہاں سے ہٹ گیا اور پھر آپ کے سامنے جاکر اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب (نکاح) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جب کہ اس عورت کا دعوی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا؟!۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تزوَّج عقبة بن الحارث أم يحيى بنت أبي إهاب فجاءت أمة سوداء فأخبرته أنها قد أرضعته وأرضعت زوجه، وأنهما أخوان من الرضاعة.
فذكر للنبي -صلى الله عليه وسلم- قولها، وأنها كاذبة في دعواها.
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- منكرا عليه رغبته في البقاء معها، مع شهادة هذه الأمة-: كيف لك بذلك، وقد قالت هذه المرأة ما قالت، وشهدت بما علمت؟.
593;قبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ام یحی بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ ایک سیاہ رنگ کی باندی نے آکر انہیں بتایا کہ اس نے انہیں اور ان کی بیوی کو دودھ پلایا تھا اور یہ کہ وہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں۔
انہوں نے نبی ﷺ کو اس باندی کی یہ بات بتائی اور کہنے لگے کہ وہ اپنے اس دعوی میں جھوٹی ہے۔
نبی ﷺ نے اس باندی کی گواہی کے ہونے کے باوجود عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کی رغبت کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اب کیسے اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہو حالانکہ اس عورت کا یہ سب کچھ کہنا ہے اور جو کچھ وہ جانتی ہے اس کی وہ گواہی دے چکی ہے؟!۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5861

 
 
Hadith   1073   الحديث
الأهمية: من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا الطيب، فإن الله يقبلها بيمينه، ثم يُرَبِّيها لصاحبها كما يُرَبِّي أحدُكم فَلُوَّه حتى تكون مثل الجبل


Tema:

جو شخص کھجور برابر حلال کمائی میں سے صدقہ کرے، اور جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پروان چڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا الطيب، فإن الله يقبلها بيمينه، ثم يُرَبِّيها لصاحبها كما يُرَبِّي أحدكم فَلُوَّه حتى تكون مثل الجبل»

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ایک کھجور برابر حلال کمائی میں سے صدقہ کرے، اور جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پروان چڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من تصدق بمثل قيمة تمرة حلالاً خال عن الغش والخديعة, ولا يقبل الله إلا الحلال الطيب, فإن الله يقبلها بيمينه وهذا على ظاهره كما يليق به -سبحانه- من غير تأويل ولا تحريف, والمراد أخذها منه كما في رواية مسلم, فينميها ويضاعف أجرها كما يربي أحدكم مهره وهو ولد الحصان حتى يكبر.
580;و شخص ایک کھجور کی قیمت کے برابر حلال مال سے صدقہ کرتا ہے جس میں کوئی ملاوٹ اور دھوکہ دہی نہیں ہوتی اور اللہ تعالی قبول ہی حلال و پاکیزہ مال کو کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس صدقے کو اپنے داہنے ہاتھ سے وصول کرتا ہے۔ بغیر کسی تاویل و تحریف کے اس کا ظاہری معنی ہی مراد لیا جائے گا جو اللہ تعالی کے شایانِ شان ہو۔ یعنی ’لیتا ہے‘ (ہی مُراد لیا جائے) جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔ پھر اسے اللہ بڑھاتا ہے اور اس کا ثواب کئی گنا زیادہ کر دیتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑا ہوجاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5862

 
 
Hadith   1074   الحديث
الأهمية: يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وجاء


Tema:

اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (بُرائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وِجَاءٌ».

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بما أن التحصن والتعفف واجب، وضدهما محرم، وهو آتٍ من قبل شدة الشهوة مع ضعف الإيمان، والشباب أشد شهوة، خاطبهم النبى -صلى الله عليه وسلم- مرشدا ًلهم إلى طريق العفاف، وذلك أن من يجد منهم مؤنة النكاح من المهر والنفقة والسكن، فليتزوج لأن الزواج يغض البصر عن النظر المحرم ويحصن الفرج عن الفواحش، وأغرى من لم يستطع منهم مؤنة النكاح وهو تائق إليه بالصوم، ففيه الأجر، وقمع شهوة الجماع وإضعافها بترك الطعام والشراب، فتضعف النفس وتنسد مجارى الدم التي ينفذ معها الشيطان، فالصوم يكسر الشهوة كالوجاء للبيضتين اللتين تصلحان المنى فتهيج الشهوة.
670;ونکہ پاکدامنی اور اپنی حفاظت کرنا واجب ہے اور اس کے برعکس ایسا کام کرنا حرام ہے جو کہ شہوت کی زیادتی اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جوانوں میں شہوت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے انہیں مخاطب کرکے پاکدامنی کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی کہ جو شخص نکاح کرنے کے لیے مہر، نفقہ اور رہائش کی طاقت رکھتا ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے، اس لیے کہ شادی نگاہ کو بدنظری اور شرمگاہ کو فُحش کاموں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ اور جو نوجوان نکاح کی طاقت نہیں رکھتا حالانکہ اسے نکاح کا شوق ہو تو اسے روزہ رکھنے کا حکم دیا اس لیے کہ اس میں اجر ہے اور اس میں کھانے، پینے کو چھوڑنے کی وجہ سے جماع کی شہوت ختم ہو جاتی ہے، نفس کمزور ہوجاتا ہے اور خون کی رگیں بند ہوجاتی ہیں جس کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے، روزہ شہوت کو ٹوڑتا ہے جیسے ان دو انڈوں کو ختم کرنا جو منی پیدا کرکے شہوت بڑھاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5863

 
 
Hadith   1075   الحديث
الأهمية: قصة وفاة الزبير بن العوام -رضي الله عنه- ووفاء دينه


Tema:

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی وفات اور ان کے قرض کے ادائیگی کا واقعہ۔

عن أبي خبيب -بضم الخاء المعجمة- عبد الله بن الزبير -رضي الله عنهما-، قال: لما وقف الزبير يوم الجمل دعاني فقمت إلى جنبه، فقال: يا بني، إِنَّهُ لاَ يُقْتَلُ اليوم إلا ظالم أو مظلوم، وإني لا أُرَانِى إلا سأقتل اليوم مظلوما، وإن من أكبر همي لديني، أفترى دَيْنَنَا يُبقي من مَالِنا شيئا؟ ثم قال: يا بني، بِعْ مَا لَنا واقض ديني، وأوصى بالثلث وثلثه لبنيه، يعني لبني عبد الله بن الزبير ثلث الثلث. قال: فإن فَضَلَ من مَالِنَا بعد قضاء الدين شيء فثلثه لبنيك. قال هشام: وكان بعض ولد عبد الله قد وَازَى بعض بني الزبير خُبَيْبٌ وعَبَّادٌ، وله يومئذ تسعة بنين وتسع بنات. قال عبد الله: فجعل يوصيني بدينه ويقول: يا بني، إن عجزت عن شيء منه فاستعن عليه بمولاي. قال: فوالله ما دريت ما أراد حتى قلت: يا أبت من مولاك؟ قال: الله. قال: فوالله ما وقعت في كربة من دينه إلا قلت: يا مولى الزبير اقض عنه دينه فيقضيه. قال: فقتل الزبير ولم يَدَع دينارا ولا درهما إلا أَرَضِينَ ، منها الغابة وإحدى عشرة دارا بالمدينة، ودارين بالبصرة، ودارا بالكوفة، ودارا بمصر. قال: وإنما كان دينه الذي كان عليه أن الرجل كان يأتيه بالمال، فيستودعه إياه، فيقول الزبير: لا، ولكن هو سلف إني أخشى عليه الضَّيْعَةَ ،وما ولي إمارة قط ولا جباية ولا خراجا ولا شيئا إلا أن يكون في غزو مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أو مع أبي بكر وعمر وعثمان -رضي الله عنهم- قال عبد الله: فحسبت ما كان عليه من الدين فوجدته ألفي ألف ومئتي ألف! فلقي حكيم بن حزام عبد الله بن الزبير، فقال: يا ابن أخي، كم على أخي من الدين؟ فكتمته وقلت: مائة ألف. فقال حكيم: والله ما أرى أموالكم تسع هذه. فقال عبد الله: أرأيتك إن كانت ألفي ألف ومئتي ألف؟ قال: ما أراكم تطيقون هذا، فإن عجزتم عن شيء منه فاستعينوا بي، قال: وكان الزبير قد اشترى الغابة بسبعين ومئة ألف، فباعها عبد الله بألف ألف وستمئة ألف، ثم قام فقال: من كان له على الزبير شيء فليوافنا بالغابة، فأتاه عبد الله بن جعفر، وكان له على الزبير أربعمئة ألف، فقال لعبد الله: إن شئتم تركتها لكم؟ قال عبد الله: لا، قال: فإن شئتم جعلتموها فيما تؤخرون إن إخرتم، فقال عبد الله: لا، قال: فاقطعوا لي قطعة، قال عبد الله: لك من هاهنا إلى هاهنا. فباع عبد الله منها فقضى عنه دينه وأوفاه، وبقي منها أربعة أسهم ونصف، فقدم على معاوية وعنده عمرو بن عثمان، والمنذر بن الزبير، وابن زَمْعَةَ ، فقال له معاوية: كم قُوِّمَتِ الغابة؟ قال: كل سهم بمئة ألف، قال: كم بقي منها؟ قال: أربعة أسهم ونصف، فقال المنذر بن الزبير: قد أخذت منها سهما بمئة ألف، قال عمرو بن عثمان: قد أخذت منها سهما بمئة ألف. وقال ابن زمعة: قد أخذت سهما بمئة ألف، فقال معاوية: كم بقي منها؟ قال: سهم ونصف سهم، قال: قد أخذته بخمسين ومئة ألف. قال: وباع عبد الله بن جعفر نصيبه من معاوية بستمئة ألف، فلما فرغ ابن الزبير من قضاء دينه، قال بنو الزبير: اقسم بيننا ميراثنا، قال: والله لا أقسم بينكم حتى أنادي بالموسم أربع سنين: ألا من كان له على الزبير دين فليأتنا فلنقضه. فجعل كل سنة ينادي في الموسم، فلما مضى أربع سنين قسم بينهم ودفع الثلث. وكان للزبير أربع نسوة، فأصاب كل امرأة ألف ألف ومئتا ألف، فجميع ماله خمسون ألف ألف ومئتا ألف.

ابو خُبیب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ رہے گا؟ پھر انہوں نے کہا: بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے میرا قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی وصیت کی اور اس تہائی کے تیسرے حصے کی وصیت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کے تہائی کا تیسرا حصہ تمہارے بچوں کے لیے ہو گا۔ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مولا سے اس کی ادائیگی میں مدد چاہنا۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا (کیونکہ مولا کا لفظ ذومعنی ہے) میں نے پوچھا کہ ابا جان! آپ کے مولا کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ! عبداللہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم! ان کا قرض ادا کرنے میں جب بھی دشواری پیش آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور اللہ قرض کی ادائیگی کی صورت پیدا فرما دیتا۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ (جنگل) کی زمین بھی شامل تھی اس کے علاوہ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے، دو مکان بصرہ میں تھے‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ میں امانت نہیں رکھ سکتا البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے (نہ کہ بطور امانت کیونکہ امانت کی ضمان نہیں ہوتی)۔ اس لیے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ضائع نہ ہو جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ ہی وہ ٹیکس اور خراج وصول کرنے پر کبھی ان کا تقرر ہوا اور نہ کبھی کوئی دوسرا عہدہ ان کے پاس رہا تھا۔ البتہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اور ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہاد میں ضرور شرکت کی تھی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو یہ بائیس لاکھ بنی۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملے تو دریافت کیا: بیٹے! میرے (دینی) بھائی پر کتنا قرض ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ ایک لاکھ۔ اس پر حکیم رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو نہیں سمجھتاکہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر قرض بائیس لاکھ ہو تو پھر آپ کی کیا رائے ہو گی؟ انہوں نے فرمایا پھر تو یہ اسے ادا کرنا تمہاری برداشت سے بھی باہر ہے۔ خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے مدد طلب کرنا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی جائیداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آ کر ہم سے مل لے۔ چنانچہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے جن کا زبیر رضی اللہ عنہ پر چار لاکھ روپیہ قرض تھا۔ انہوں نے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو پیش کش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں۔ لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میرے قرض کو تم آخر میں دے دینا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصے کا قطعہ مقرر کر دو۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ یہاں سے یہاں تک لے لیجئے۔ (راوی کا ) بیان ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس جائیداد کو فروخت کر کے زبیر رضی اللہ عنہ کا سارا قرض ادا کر دیا۔ اور اس میں سے ساڑھ چار حصے پھر بھی بچ رہے۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) تشریف لے گئے۔ وہاں ان کے پاس عمرو بن عثمان ‘ منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائیداد کی قیمت کتنی لگی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ مقرر ہوئی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب باقی کتنے حصے رہ گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے چار حصے۔ اس پر منذر بن زبیر نے کہا کہ میں ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں۔ عمرو بن عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ کے عوض میں لیتا ہوں۔ ابن زمعہ نے کہا کہ ایک لاکھ میں ایک حصہ میں بھی لیتا ہوں۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اب کتنے حصے باقی بچے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ! معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اسے میں ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما قرض کی ادائیگی کر کے فارغ ہو چکے تو زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث ہم میں تقسیم کر دیجیے۔ لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: اللہ کی قسم! میں تب تک تمہارے مابین میراث تقسیم نہیں کروں گا جب تک چار سال تک ایامِ حج میں اعلان نہ کرا لوں کہ جس شخص کا بھی زبیر رضی اللہ عنہ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے، ہم اس کا قرض ادا کریں گے۔ چنانچہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے تو انہوں نے ان کے مابین میراث تقسیم کر دی اور تہائی حصہ ادا کردیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں جن میں سے ہر بیوی کے حصے میں بارہ لاکھ کی رقم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی کل جائیداد پانچ کروڑ دو لاکھ مالیت کی ہوئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال الزبير بن العوام لابنه عبدالله لما كان يوم الجمل وهو قتال جرى بسبب تسليم قتلة عثمان: ما أراني إلا سأقتل شهيدًا مظلومًا، وإنَّ ما يهمني ديوني التي ركبتني، فاقْضِها عني. وكانت ديونُه مستغرقةً لجميع ماله، ومع ذلك أَوْصى لبني ابنه. لأنه كان يَعْلم أنهم ليس لهم في الإِرث نصيبٍ، لكون ابنه حيًا، فجعل لهم ثُلْثَ ثُلُثِ الوصية، وتسع الكل، وكان الناسُ يستودِعون أموالَهم عنده، فيأبى أن يأخذها وديعةً مخافةَ الضياع، ويقول: ليست تلك وديعةً، ولكنها سَلَفٌ وقَرْضُ عليّ، وكان رَجُلا زاهِدًا أمينًا، لم يلِ الإِمارةَ، ولا شيئًا مطلقاً، فلما تُوفي، وقضى عنه ابنُه دَيْنه، وفَضَل مِن ماله فاضل، طلب منه الورثة أن يَقْسِمه بينهم، فأبى أن يفعله، إلا بعد أن يُنادي في موسم الحج، فإِنْ ظهر أنه لم يبق أحدٌ مِمَّن يكون له دينٌ عليه يَقسِمه بينهم، ففعل، ولما لم يَبْقَ من دَيْنه شيءٌ إلا وقد قضاه، أعطى الثَّمن لأزواجه، وذلك نصيبُهنَّ من التركة، وله يومئذٍ أربعُ نسوةٍ.
580;نگ جمل کے موقع پر جو کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرنے کے معاملے پر ہوئی تھی، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "میں سمجھتا ہوں کہ میں مظلوم شہید کر دیا جاؤں گا۔ مجھے جس چیز کی پرواہ ہے وہ میرے قرض ہیں جو میرے اوپر چڑھے ہوئےہیں، لھٰذا تم انھیں میری طرف سے ادا کر دینا۔" زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قرض اتنے زیادہ تھے کہ وہ ان کے سارے مال کو محیط تھے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے بیٹے کے بچوں (پوتوں) کے لیے وصیت کی۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ ان کا بیٹا زندہ ہے۔ اس لیے انہوں نے تہائی مال کی وصیت کا ایک تہائی حصہ ان کے لئے مختص کر دیا جو سارے مال کا نواں حصہ بنتا ہے۔ لوگ اپنا مال ان کے پاس بطور امانت رکھنے کے لیے آتے، تو وہ اس اندیشے کے تحت بطور امانت اسے لینے سے انکار کر دیتے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہو جائے اور فرماتے: "یہ امانت نہیں بلکہ مجھ پر قرض ہے۔" زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ایک زاہد و امانت دار شخص تھے۔ انہوں نے کبھی بھی کسی حکومتی عہدہ یا کسی بھی شے کی ذمے داری نہیں اٹھائی تھی۔ جب ان کی وفات ہو گئی اور ان کے بیٹے نے ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کر دیا اور ان کا کچھ مال بچ بھی گیا تو ورثاء نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ باقی ماندہ کو ان کے مابین تقسیم کر دیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے اسے تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایام حج میں اعلان کرانے کے بعد ہی اسے تقسیم کریں گے۔ اگر یہ بالکل واضح ہو گیا کہ کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جس کا ان کے والد پر قرض ہو تو وہ اسے ان میں تقسیم کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ جب سارا قرض ادا کر چکے تو آٹھواں حصہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی بیویوں کو دے دیا جو ترکے میں ان کا حصہ بنتا تھا۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی اس وقت چار بیویاں تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5864

 
 
Hadith   1076   الحديث
الأهمية: حديث الشفاعة


Tema:

حدیثِ شفاعت

عن حذيفة بن اليمان وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «يجمع الله -تبارك وتعالى- الناس فيقوم المؤمنون حتى تُزْلَفَ لهم الجنة، فيأتون آدم صلوات الله عليه، فيقولون: يا أبانا استفتح لنا الجنة، فيقول: وهل أخرجكم من الجنة إلا خطيئة أبيكم! لست بصاحب ذلك، اذهبوا إلى ابني إبراهيم خليل الله، قال: فيأتون إبراهيم فيقول إبراهيم: لستُ بصاحب ذلك إنما كنت خليلا من وراءِ وراء، اعمدوا إلى موسى الذي كلمه الله تكليما، فيأتون موسى، فيقول: لستُ بصاحب ذلك، اذهبوا إلى عيسى كلمة الله وروحه، فيقول عيسى: لست بصاحب ذلك، فيأتون محمدا -صلى الله عليه وسلم- فيقوم فيؤذن له، وتُرسَلُ الأمانة والرحم فيقومان جَنْبَتَي الصِّرَاطَ يمينا وشمالا فيَمُرُّ أوَّلُكُم كالبَرْقِ» قلتُ: بأبي وأمي، أي شيء كَمَرِّ البرْقِ؟ قال: «ألم تروا كيف يمر ويرجع في طَرْفِة عَيْنٍ، ثم كَمَرِّ الرِّيح، ثم كَمَرِّ الطَّيْرِ، وشَدِّ الرِّجال تجري بهم أعمالهم، ونبيكم قائم على الصراط، يقول: رب سَلِّمْ سَلِّمْ، حتى تعجز أعمال العباد، حتى يجيء الرجل لا يستطيع السير إلا زَحْفَا، وفي حافتي الصراط كَلالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مأمورة بأخذ من أُمِرَتْ به، فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ، ومُكَرْدَسٌ في النار». والذي نفس أبي هريرة بيده، إن قَعْرَ جهنم لسبعون خريفا.

حذیفہ بن یمان اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا۔ مومن کھڑے ہوں گے يہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی۔ چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر ان سے درخواست کریں گے کہ: اے ہمارے باپ! ہمارے ليے جنت کھلوائيے۔ اس پر وہ جواب دیں گے: تمھیں تمہارے باپ کی خطا ہی نے تو جنت سے نکلوایا تھا۔ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ آپ ﷺ نےفرمایا: پس لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ میں تو اس کا اہل نہیں ہوں، میرے خلیل ہونے کا مقام تو اس سے بہت پیچھے ہے۔ تم لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا تھا۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ تو عیسی علیہ السلام جواب دیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ چنانچہ وہ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے۔ آپ ﷺ کھڑے ہوں گے اور آپ ﷺ کو (شفاعت کی) اجازت دے دی جائے گی۔ اور امانت اور صلہ رحمی کو چھوڑ ديا جائے گا تو وہ دونوں پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑے ہو جائیں گے۔ تم میں سے پہلا گروہ بجلی کی طرح گزر جائے گا۔ میں نے دریافت کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کے کیا معنی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے نہيں ديکھا کہ بجلی کیسے پلک جھپکنے میں گزر کر واپس لوٹ آتی ہے۔ پھر (دوسرا گروہ) ہوا کے گزرنے كى طرح، پھر پرندے کے گزرنے کی طرح، پھر پیادہ تیز ڈوڑنے والے مضبوط ترین آدميوں کی طرح (گزريں گے)۔ لوگ اپنے اعمال کے مطابق گزر رہے ہوں گے اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوئے فرما رہے ہوں گے: اے ميرے پروردگار! تو (انہیں جہنم سے) محفوظ رکھ، تو (انہیں ) سلامتی سے گزار دے، يہاں تک کہ بندوں کے اعمال (انہيں تیز رفتاری کے ساتھ گزارنے سے) عاجز آ جائیں گے، حتی کہ آدمی گھسٹتا ہوا آئے گا، اسےچلنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اور پل صراط کے دونوں کناروں پر آنکڑے لٹکے ہوں گے اور جس کے بارے ميں انھیں حکم ہوگا اسے اپنی گرفت ميں لے لیں گے۔ چنانچہ کچھ تو زخمی ہوں گے لیکن نجات پا جائیں گے اور کچھ کو پٹخ کر جہنم میں ڈال دیا جائے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يجمع الله الناس يوم القيامة للحساب والجزاء فيقوم المؤمنون حتى تُقرب لهم الجنة، ولا تفتح لهم لطول الموقف يوم القيامة، فيذهبون لآدم -عليه السلام- يطلبون منه أن يسأل الله أن يفتح الجنة، لهم فيردهم بأنه ليس أهلا لذلك؛ وذلك بسبب ذنبه الذي كان سببا في خروجهم جميعاً من الجنة، فيرسلهم إلى إبراهيم -عليه السلام-؛ لأنه خليل الله والخلة أعلى مراتب المحبة فيذهبون إلى إبراهيم فيقول لهم: لست بتلك الدرجة الرفيعة اذهبوا لموسى فإن الله سبحانه قد كلمه مباشرة من غير واسطة, فيذهبون لموسى -عليه السلام- فيقول لهم: لست أهلاً لذلك اذهبوا لعيسى فإن الله خلقه بكلمة منه, فيذهبون لعيسى -عليه السلام- فيقول لهم: لست أهلاً لذلك, فيذهبون لنبينا -محمد صلى الله عليه وسلم- فيطلبون منه أن يسأل الله أن يفصل بينهم ويفتح لهم الجنة فيجيبهم ويستأذن فيؤذن له، وتأتي الأمانة والرحم فتقفان على جانبي الصراط، وهو جسر ممدود فوق جهنم ويمر الناس عليه على قدر أعمالهم، فمن كان في الدنيا مسارعا للعمل الصالح فهو مسرع على هذا الصراط، وكذلك العكس فمنهم الناجي ومنهم من يسقط في جهنم وإن قعر جهنم لا يصله إلا بعد سبعين  سنة، لبعده والعياذ بالله.
602;یامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو حساب وکتاب اور جزا و سزا کے لیے جمع کرے گا۔ مومن لوگ کھڑے ہوں گے اور جنت کو ان کے قریب کر دیا جائے گا تاہم اسے ان کے لیے کھولا نہیں جائے گا کیونکہ قیامت کے دن میدان حشر میں بہت لمبے وقت کے لیے ٹھہرنا ہو گا۔ چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں کہ وہ ان کے لیے جنت کو کھول دے۔ آدم علیہ السلام انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیں گے کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں کیونکہ ان کی خطا کی وجہ سے ہی تو ان سب کو جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ وہ انہیں ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں اور خلت محبت کا سب سے بلند درجہ ہے۔ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی انہیں یہ جواب دیں گے کہ وہ اس مقامِ بلند کے حامل نہیں ہيں۔ وہ ان سے کہیں گے کہ موسی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ تعالی نے ان سے بغیر کسی واسطے کے براہ راست کلام کیا تھا۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہ بھی ان سے کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے کلمے سے پیدا فرمایا۔ چنانچہ وہ عیسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہ بھی ان سے یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ بالآخر وہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ ﷺ سے گزارش کریں گے کہ آپ ﷺ اللہ سے درخواست کریں کہ اللہ ان کا فیصلہ فرما دے اور ان کے لیے جنت کو کھول دے۔ آپ ﷺ ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے (اللہ سے شفاعت کی) اجازت کے طلب گار ہوں گے۔ آپ ﷺ کو اجازت دے دی جائے گی۔ پھر امانت اور رحم آکر پل صراط کے دونوں اطراف میں کھڑے ہو جائیں گے۔ پل صراط جہنم پر تانا ہوا پل ہو گا جس پر سے لوگ اپنے اعمال کے حساب سے گزریں گے۔ جو شخص دنیا میں نیک اعمال میں جلدی کرتا ہوگا وہ اس پل پر سے تیزی سے گزر جائے گا اور جو اس کے برعکس ہوں گے ان کا معاملہ بالکل الٹ ہوگا۔ ان لوگوں میں سے کچھ تو نجات پا کر نکل جائیں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو جہنم میں گر جائیں گے اور جہنم کے تہ تک ستر سال کے بعد پہنچیں گے کیونکہ جہنم کی تہ بہت دور ہے۔ اللہ کی پناہ!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5865

 
 
Hadith   1077   الحديث
الأهمية: يسروا ولا تعسروا، وبشروا ولا تنفروا


Tema:

آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو ،خوش خبری دو، متنفر نہ کرو۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- مرفوعاً: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو ،خوش خبری دو، متنفر نہ کرو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يحب التخفيف واليسر على الناس فما خير -صلى الله عليه وسلم- بين أمرين قط إلا اختار أيسرهما ما لم يكن محرماً, فقوله: يسروا ولا تعسروا أي: في جميع الأحوال, وقوله: وبشروا ولا تنفروا, البشارة هي الإخبار بالخير عكس التنفير، ومن التنفير الإخبار بالسوء والشر.
606;بی ﷺ لوگوں پر کم بوجھ ڈالنے اوران کے لیے آسانی پیدا کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو جب بھی دو امور کے درمیان اختیار دیا جاتا، تو آپ ﷺ ان میں سے آسان کو چنا کرتے تھے، بشرطے کہ وہ حرام نہ ہوتا۔ آپ ﷺ کا فرمان: ”آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا نہ کرو“۔ یہ تمام حالات کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان:”بشارت دو اور متنفرنہ کرو“ بشارت کے معنی ہیں: کسی اچھی بات کی خبر دینا۔ یہ تنفیر کی ضد ہے۔ اور کسی ناگوار اور بری شے کی خبر دینا بھی تنفیر ہی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5866

 
 
Hadith   1078   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من العَجْزِ وَالكَسَلِ، والبُخْلِ والهَرَمِ، وَعَذابِ القَبْرِ


Tema:

اے الله! میں عاجزی، سُستی، بخیلی، بڑھاپے اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

عن زيد بن أرقم -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم إني أعوذ بك من العَجْزِ وَالكَسَلِ، والبُخْلِ والهَرَمِ، وَعَذابِ القَبْرِ، اللهم آت نفسي تقواها، وزَكِّهَا أنت خير من زكاها، أنت وَلِيُّهَا ومولاها، اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع؛ ومن قلب لا يخشع، ومن نفس لا تشبع؛ ومن دعوة لا يُستجاب لها».

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَکَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا“ اے الله! میں عاجزی، سُستی، بخیلی، بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میری ذات کو تقوی عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر دے، تو ہی اسے بہتر پاکیزگی دینے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی و مالک ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، ایسے دل سے جس میں خوف نہ ہو، ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔
الاستعاذة من العبادات القلبية ولا تصرف إلا لله تعالى، والعجز والكسل قرينان وشقيقان يقطعان سبل الخير الموصلة للدنيا والآخرة، فهما يمثلان العجز والفتور والتهاون، فإن كان المانع  من صنع العبد فهذا هو الكسل .

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
وإذا كان المانع عن الفعل بغير كسب العبد ولعدم قدرته فهو العجز.
"والبخل": هو إمساك المال والشح به عن سبل الخير وطرق النفع، فتميل النفس لحب المال وجمعه، واكتنازه وعدم إنفاقه في الوجوه التي أمر الله بها.
"والهرم": المقصود به أن يرد الإنسان إلى أرذل العمر، ويبلغ من العمر عتيا بحيث تضعف قوته ، ويذهب عقله ، وتتساقط همته ، فلا يستطيع تحصيل خير الدنيا ولا خير الآخرة، قال تعالى: "ومن نعمره ننكسه في الخلق".
" وعذاب القبر" : وعذاب القبر حق ، وعلى ذلك إجماع أهل السنة والجماعة ، قال تعالى: " ومن وراءهم برزخ إلى يوم يبعثون" ، والقبر إما روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النار، ولذا سن للعبد أن يستعيذ من عذاب القبر في كل صلاة ، ولهول هذا العذاب وعظمته كذلك.
" اللهم آت نفسي تقواها: أي: أعط نفسي امتثال الأوامر واجتناب النواهي ، وقيل: تفسر التقوى هنا بما يقابل الفجور كما قال تعالى: " فألهمها فجورها وتقواها".
" وزكها" : أي طهرها من الرذائل .
" أنت خير من زكاها" : أي لا مزكي لها غيرك ، ولا يستطيع تزكيتها أحد إلا أنت يا ربنا.
" أنت وليها": ناصرها والقائم بها.
" ومولاها": أي: مالكها والمنعم عليها.
" اللهم إني أعوذ بك ": أحتمي واستجير بك .
" من علم لا ينفع": وهو العلم لا الذي لا فائدة فيه ، أو العلم الذي لا يعمل به العبد فيكون حجة عليه يوم القيامه ، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" والقرآن حجة لك أو عليك" والعلم الذي لا ينفع هو الذي لا يهذب الأخلاق الباطنة فيسرى منها إلى الأفعال الظاهرة ويحوز بها الثواب الأكمل.
" قلب لا يخشع": أي عند ذكر الله تعالى وسماع كلامه ، وهو القلب القاسي ، يطلب منه أن يكون خاشعا لبارئه منشرحا لمراده ، صدره متأهلا لقذف النور فيه ،فإذا لم يكن كذلك كان قاسيا ، فيجب أن يستعاذ منه ، قال تعالى:" فويل للقاسية قلوبهم"
" ونفس لا تشبع": أي للحرص على الدنيا الفانية، والطمع والشره وتعلق النفس بالآمال البعيدة .
" ومن دعوة لا يستجاب لها" :أي أعوذ بالله من أسباب ومقتضيات رد الدعوة ، وعدم إجابتها من الطرد والمقت ، لأن رد الدعاء علامة على رد الداعي ، بخلاف دعوة المؤمن فلا ترد إما أن تستجاب في الدنيا ، أو يدفع الله عنه من البلاء بمثلها ، أو تدخر له في الآخرة ، فدعوة المؤمن لا تضيع أبدًا بخلاف دعوة الكافر ، يقول تعالى: " وما دعاء الكافرين إلا في ضلال"
662;ناہ مانگنا قلبی عبادات میں سے ہے جس کو صرف اللہ تعالی ہی کے لیے خاص کرنا ہے۔ عاجزی اور سستی دونوں ساتھی ہیں اور بھائی بھائی ہیں جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کی راہ مسدود کردیتے ہیں۔ یہ دونوں عجز، کاہلی، اور لاپرواہی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ اگر رکاوٹ خود بندے کی پیدا کردہ ہو تو اسے "کسل" (سستی) کہا جاتا ہے۔
اگر کام میں رکاوٹ بندے کی طرف سے پیدا نہ کی گئی ہو بلکہ یہ اس وجہ سے ہو کہ اس میں اس کے کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اسے عاجزی کہا جاتا ہے۔
بخل کا معنی ہے مال کو روکے رکھنا اور اسے نیکی کے کاموں اور نفع بخش مصارف میں خرچ کرنے میں تنگدلی برتنا۔ نفس میں مال کی محبت اور اس کو جمع کرنے کی چاہت ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اکٹھا کرے اور ان مصارف میں اسے خرچ نہ کرے جن میں خرچ کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔
" هرِم " کا معنی یہ ہے کہ انسان لاچاری و مجبوری کی عمر تک جا پہنچے اور اتنا بوڑھا ہو جائے کہ اس کی طاقت ختم ہوجائے، عقل سٹھیا جائے اور ہمت جواب دے جائے۔ پھر نہ تو وہ دنیا کی کسی بھلائی کو حاصل کر سکے او نہ ہی آخرت کی بھلائی کو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں ﴿وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ﴾ ”اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں“۔
عذاب قبر برحق ہے، اس پر اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ﴿وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾ ”ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک“۔ قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہو گی یا پھر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ اسی لیے بندے کے لیے مشروع کیا کہ وہ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اور اس کی خوفناکی اور شدت سے پناہ مانگے۔
" اللهم آت نفسي تقواها: یعنی میرے نفس کو احکام کی بجاآوری اور محرمات سے پرہیز کا خوگر بنا۔ ایک قول کی رو سے یہاں تقوی کا معنی وہ ہو گا جو فجور کے بالمقابل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾ ”پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی“۔
”وزكها“ یعنی برائیوں سے اسے پاک فرما۔
”أنت خير من زكاها“ یعنی نفس کو تیرے سوا کوئی اور پاک کرنے والا نہیں ہے اور اے رب نہ ہی تیرے سوا کوئی اور اسے پاک کر سکتا ہے۔
”أنت وليها“ تو ہی اس کا مددگار اور اسے سنبھالنے والا ہے۔
”ومولاها“ یعنی تو ہی اس کا مالک اور اس پر نعمتوں کا نزول کرنے والا ہے۔
”اللهم إني أعوذ بك“۔ یعنی میں تیری حمایت میں آتا ہوں اور تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔
”من علم لا ينفع“ اس سے مراد وہ علم ہے جو بالکل بے سود ہو یا پھر وہ علم جس پر بندہ عمل نہ کرے اور وہ قیامت کے دن اس کے خلاف حجت بنا کھڑا ہو۔ جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ قرآن یا تو تمہارے حق میں حجت ہو گا یا تمہارے خلاف۔ وہ علم جو نفع بخش نہیں ہوتا وہ باطنی اخلاق کو نہیں سنوارتا چنانچہ یہ نہیں ہوتا کہ ان سے سرایت کرتا ہوا ظاہری اعمال تک اس کا اثر پہنچے اوریوں وہ پورا ثواب پا سکے۔
”قلب لا يخشع“ یعنی ایسا نفس جو اللہ کے ذکر کے وقت اور اس کا کلام سن کر ڈر میں مبتلا نہ ہو۔ ایسا دل بہت سخت ہوتا ہے۔ آپ ﷺ اللہ تعالی سے دعا فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے سے ڈرنے لگیں، اس کی چاہت میں ان کی خوشی ہو، ان کا سینہ اس میں ڈالے گئے نور کی بدولت روشن ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو دل سخت ہو جا ئے گا چنانچہ ضروری ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم﴾ ”اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل سخت ہو گئے ہیں“۔
”ونفس لا تشبع“ یعنی دنیائے فانی کی حرص کی وجہ سے اور طمع و لالچ اور لمبی امیدیں پالنے کے بسبب سیر نہیں ہوتا۔
”ومن دعوة لا يستجاب لها“ یعنی میں ایسے اسباب اور مقتضیات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جن کی وجہ سے دعا رد کر دی جاتی ہے۔ دعا کی قبولیت نہ ہونا دھتکارنے اور غضب کی علامت ہے کیونکہ دعا کا رد ہو جانا دراصل دعا مانگنے والے کے رد ہونے کی علامت ہے برخلاف مومن کی دعا کے جو کبھی رد نہیں ہوتی۔ یا تو دنیا ہی میں وہ قبول ہو جاتی ہے یا پھر اس دعا کی بدولت اللہ تعالی اس سے اس کے بقدر مصیبت دور کر دیتا ہے یا پھر یہ آخرت کے لیے رکھ چھوڑی جاتی ہے۔مومن کی دعا کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی برخلاف کافر کی دعا کے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ ”اور کافروں کی دعا محض بے اﺛر اور بےراه ہے“۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5878

 
 
Hadith   1079   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أخذ مضجعه نفث في يديه، وقرأ بالمُعَوِّذَاتِ، ومسح بهما جسده


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنے ہاتھوں میں پھونک مارتے اور معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھتے اور دونوں ہاتھوں کو جسم پر پھیر لیتے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أخذ مَضْجَعَهُ نَفَثَ في يديه، وقرأ بالمُعَوِّذَاتِ، ومسح بهما جسده.
وفي رواية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أَوَى إلى فِرَاشِهِ كل ليلة جَمَعَ كَفَّيْهِ، ثم نَفَثَ فيهما فقرأ فيهما: «قل هو الله أحد، وقل أعوذ برب الفلق، وقل أعوذ برب الناس» ثم مسح بهما ما استطاع من جسده، يبدأ بهما على رأسه ووجهه، وما أَقْبَلَ من جسده، يفعل ذلك ثلاث مرات.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک مارتے اور معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھتے اور دونوں ہاتھوں کو جسم پر پھیر لیتے۔
ایک دیگر روایت میں ہے کہ ہر رات نبی ﷺ جب اپنے بستر پر جاتے تو اپنی ہتھیلیوں کو ملا کر ان میں پھونک مارتے اور ان پر ﴿قل هو الله أحد﴾ ، ﴿قل أعوذ برب الفلق﴾ اور ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ پڑھتے اور پھر دونوں ہاتھوں کو جہاں تک ہو سکتا جسم پر پھیر لیتے۔ آپ ﷺ اپنے سر، چہرے اور جسم کے سامنے کے حصے سے (ہاتھ پھیرنے کی) ابتداء کرتے اور تین دفعہ ایسا کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تروي لنا أم المؤمنين زوجة نبينا -صلى الله عليه وسلم- في الدنيا والآخرة: هذه السنةَ النبوية الشريفة، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كل ليلة إذا أخذ مضجعه يضم كفيه معًا ثم ينفخ فيهما نفخًا لطيفًا بلا ريق، ويقرأ فيهما: "قل هو الله احد" و"قل أعوذ برب الفلق" ، و"قل أعوذ برب الناس"، سواء نفح أولًا ثم قرأ، أو قرأ أولا ثم نفخ لا يضر؛ لأن الحديث لا يدل على الترتيب والتعقيب، ثم يمسح بهما ما استطاع من جسده يبدأ بهما على رأسه ووجهه، وما أقبل من جسده، يفعل ذلك ثلاث مرات من القراءة والنفخ والمسح.
583;نیا اور آخرت میں نبی ﷺ کی زوجہ اُم المومنین (عائشہ ) رضی اللہ عنہا ہمارے لیے اس نبوی سنت مبارکہ کو بیان کر رہی ہیں کہ ہر رات رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنی ہتھیلیوں کو باہم ملا کر ان میں بلا تھوک ہلکی سی پھونک مارتے اور ان میں ﴿قل هو الله أحد﴾ ، ﴿قل أعوذ برب الفلق﴾ اور ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ پڑھتے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ پڑھنے والا پہلے پھونک مار لے اور پھر پڑھے یا پھر پہلے پڑھ لے اور پھر پھونک مارے کیوں کہ حدیث (ان سورتوں کو) ترتیب کے ساتھ یا یکے بعد دیگرے پڑھنے پردلالت نہیں کرتی۔ پھر آپ ﷺ جہاں تک ہو سکتا اپنے ہاتھوں کو اپنے جسم پر پھیر لیتے اور سر، چہرے اور سامنے کے حصے سے آغاز کرتے۔ آپ ﷺ تین دفعہ پڑھتے، تین دفعہ پھونکتے اور تین دفعہ (جسم پر ہاتھ) پھیرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5879

 
 
Hadith   1080   الحديث
الأهمية: إذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن فيهم الضعيف والسقيم وذا الحاجة، وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء


Tema:

جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے، تو ہلکی نماز پڑھے؛ اس لیے کہ ان میں کوئی ناتواں، کوئی بیمار اور کوئی ضروت مند ہوتا ہے۔ البتہ جب تم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھے، تو جتنی چاہے، لمبی کرے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إذا صلى أحدكم للناس فَلْيُخَفِّفْ فإن فيهم الضعيف والسَّقِيمَ وذَا الحاجة، وإذا صلى أحدكم لنفسه فَلْيُطَوِّلْ ما شاء».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے، تو ہلکی نماز پڑھے؛ اس لیے کہ ان میں کوئی ناتواں، کوئی بیمار اور کوئی ضروت مند ہوتا ہے۔ البتہ جب تم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھے، تو جتنی چاہے، لمبی کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- الأئمة أن يخففوا الصلاة على حسب ما جاءت به السنة، وعلل ذلك أن وراءهم ضعيف البنية، وضعيف القوة، وفيهم مريض، وفيهم ذو حاجة، وأما إذا صلوا بمفردهم فلو شاء أحدهم طول ولو شاء خفف.
606;بی ﷺ نے امت کو حکم دیا کہ وہ نماز میں سنت کے مطابق اختصار برتیں۔ آپ ﷺ نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پیچھے کمزورجسم والے اور ناتواں لوگ بھی ہوتے ہیں اور مریض اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو ضروریات زندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔ تاہم جب وہ تنہا نماز پڑھیں، تو پھر اختیار ہے کہ نمازی چاہے تو نماز لمبی کر لے اور چاہے تو مختصر۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5880

 
 
Hadith   1081   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اشترى من يهودي طعاما، ورهنه درعا من حديد


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی ایک زرہ گروی رکھی۔

عن عائشة بنت أبي بكر-رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم اشترى من يهودي طعاما، ورهنه دِرْعًا من حديد.

عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی ایک زرہ گروی رکھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اشترى النبي صلى الله عليه وسلم من يهودي طعاماً من شعير، ورهنه ما هو محتاج إليه للجهاد في سبيل الله، وإعلاء كلمته، وهو درعه الذي يلبسه في الحروب، وقاية -بعد الله تعالى- من سلاح العدو، وكيدهم.
606;بی ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ جو خریدے اور اس کے پاس وہ شے بطور رہن رکھوا دی جس کی آپ ﷺ کو جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ضرورت ہوتی تھی یعنی آپ ﷺ کی زرہ جسے آپ ﷺ جنگوں میں پہنا کرتے تھے تا کہ وہ اللہ تعالی کی ذات کے بعد آپ ﷺ کو دشمن کے اسلحہ اور ان کی چال سے بچائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5881

 
 
Hadith   1082   الحديث
الأهمية: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا، وكفانا وآوانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لا كَافِيَ لَهُ وَلاَ مُؤْوِيَ


Tema:

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، ہماری کفایت کی اور ہمیں ٹھکانہ دیا، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی انہیں ٹھکانہ دینے والا۔

عن أنس -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أوى إلى فراشه، قال: «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا، وكفانا وآوانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لا كَافِيَ له وَلاَ مُؤْوِيَ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَكَفَانَا، وَآوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لاَ كَافِيَ لَهُ وَلاَ مُؤْوِيَ“ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، ہماری کفایت کی اور ہمیں ٹھکانہ دیا، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی انہیں ٹھکانہ دینے والا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا أوى إلى فراشه قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا فكم ممن لا كافي له ولا مؤوي. يحمد الله -عز وجل- الذي أطعمه وسقاه بأنه لولا أن الله -عز وجل- يسر لك هذا الطعام وهذا الشراب ما أكلتَ ولا شربتَ، فتحمد الله الذي أطعمك وسقاك، قوله: أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا كفانا يعني يسر لنا الأمور، وكفانا المؤونة وآوانا أي جعل لنا مأوى نأوي إليه فكم من إنسان لا كافي له ولا مأوى أو ولا مؤوي، فينبغي لك إذا أتيت مضجعك أن تقول هذا الذكر.
606;بی ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو فرماتے: ”الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَكَفَانَا، وَآوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لاَ كَافِيَ لَهُ وَلاَ مُؤْوِيَ“، آپ ﷺ اللہ عز و جل کی حمد بیان کرتے جس نے آپ کو کھلایا اور پلایا بایں طور کہ اگر اللہ عز و جل آپ کو نہ کھلاتا اور نہ پلاتا تو نہ آپ کچھ کھا سکتے اور نہ پی سکتے۔ چنانچہ آپ اس اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں جس نے آپ کو کھلایا اور پلایا۔ یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، جو ہمارے لیے کافی ہو گیا اور جس نے ہمیں ٹھکانہ دیا۔ یعنی جس نے تمام امور کو ہمارے لیے آسان کردیا اور ان کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی اور ہمارے لیے ٹھکانہ بنایا جس میں ہم رہتے ہیں۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جن کی نہ کوئی کفایت کرتا ہے اور نہ کوئی ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے یا جنہیں کوئی بھی ٹھکانہ مہیا نہیں کرتا چنانچہ آپ کو چاہیے کہ جب آپ اپنے بستر پر آئیں تو یہ ذکر (دعا) پڑھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5882

 
 
Hadith   1083   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من الجوع، فإنه بِئْسَ الضَّجِيعُ، وأعوذُ بِكَ منَ الخِيَانَةِ، فَإنَّهَا بِئْسَتِ البِطَانَةُ


Tema:

اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یہ بہت بری ہم نشیں ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں، یہ بہت بری ہم راز ہے

عن أبي هريرة-رضي الله عنه مرفوعاً: «اللهم إني أعوذ بك من الجوع، فإنه بِئْسَ الضَّجِيعُ،وأعوذُ بِكَ منَ الخِيَانَةِ، فَإنَّهَا بِئْسَتِ البِطَانَةُ».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ؛ فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ؛ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ“ اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یہ بہت بری ہم نشین ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں، یہ بہت بری ہم راز ہے۔ (یعنی بہت بری باطنی خصلت ہے۔)

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
استعاذ النبي -صلى الله عليه وسلم- من الجوع؛ فإنه بئس المصاحب لأنه يمنع استراحة النفس والقلب، واستعاذ من خيانة أمانة الخلق والخالق؛ فإنها بئست خاصة المرء.
606;بی ﷺ نے بھوک سے پناہ مانگی کیوں کہ بھوک بہت بری ساتھی ہے؛ اس لیے کہ یہ دل و جان کے چین کو سلب کر لیتی ہے اور اسی طرح آپ ﷺ نے انسانوں اور اللہ کی امانت میں خیانت سے بھی پناہ مانگی؛ کیوںکہ یہ آدمی کی بہت ہی بری خصلت ہوتی ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5883

 
 
Hadith   1084   الحديث
الأهمية: ألا أُعَلِّمُكَ كَلِماتٍ عَلَّمَنِيهنَّ رسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلٍ دَيْنًا أدَّاهُ اللهُ عَنْكَ؟ قُلْ: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، وأغنني بفضلك عمن سواك


Tema:

کیا میں تمہیں کچھ ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھائے تھے۔ اگر تمہارے اوپر پہاڑ برابر بھی قرض ہوگا تو اللہ تمہاری طرف سے اس کی ادائیگی کے اسباب میسر کر دے گا؟ یوں کہا کرو: ”اللَّهُمَّ اكْفِني بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِواكَ“۔

عن علي - رضي الله عنه-: أن مُكَاتَبًا جاءه فقال: إني عَجَزْتُ عن كتابتي فَأَعِنِّي، قال: ألا أعلمك كلمات عَلَّمَنِيهِنَّ رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- لو كان عليك مثلَ جبلٍ دَيْنًا أَدَّاهُ الله عنك؟ قل: «اللهم اكْفِنِي بحلالك عن حرامك، وأَغْنِنِي بفضلك عَمَّنْ سِوَاكَ».

علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مکاتب غلام ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ: میں اپنا ’مالِ کتابت‘ دینے سے عاجز آ گیا ہوں، میری کچھ مدد کریں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" کیا میں تمہیں کچھ ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھائے تھے۔ اگر تمہارے اوپر پہاڑ برابر بھی قرض ہوگا تو اللہ تمہاری طرف سے اس کی ادائیگی کے اسباب مہیا کر دے گا؟ یوں کہا کرو: ”اللَّهُمَّ اكْفِني بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِواكَ“ اے اللہ! جن اشیاء کو تو نے حرام کیا ان سے بچاتے ہوئے اپنی حلال کردہ اشیاء کو میرے لیے کافی کر دے اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا ہر کسی سے بے نیاز کردے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يأتي مكاتب، وهو شخص قد كاتب سيده على أن يشتري حريته منه بمبلغ من المال مقسَّطًا، ولكن هذا العبد لم يجد مالًا لكي يسدد سيده؛ فلجأ إلى علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- يسأله أن يساعده في قضاء دينه، فأرشده -رضي الله عنه- إلى العلاج الرباني، وهو دعاء علمه إياه النبي -صلى الله عليه وسلم-، إذا قاله مخلصًا قضى الله عنه دينه ولو كان مثل الجبل، فقال له: قل: «اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، وأغنني بفضلك عمن سواك».
والمعنى: اجعل لي كفاية في الحلال، تغنيني بها عن الحاجة للحرام، واجعل لي رزقًا من فضلك تغنيني به عن سؤال الناس.
575;س حدیث میں ایک مکاتب غلام کا ذکر ہے۔ مکاتب وہ شخص ہوتا ہے جس نے اپنے آقا سے کچھ قسط وار ادا کیے جانے والے مال کے عوض اپنی آزادی خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہو۔ لیکن اس غلام کے پاس اپنے آقا کو قرض ادا کرنے کے لیے مال نہیں تھا چنانچہ اس نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ قرض کی ادائیگی میں اس کی مدد کریں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک ربانی علاج کی طرف رہنمائی فرمائی جو ایک دعا تھی جسے نبی ﷺ نے انہیں سکھایا تھا کہ اگر وہ پورے اخلاص سے یہ دعا مانگے تو اس کی طرف سے اللہ اس کا قرض ادا کر دے گا اگرچہ وہ پہاڑ برابر ہی کیوں نہ ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے فرمایا کہ یوں کہا کرو: ”اللَّهُمَّ اكْفِني بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِواكَ“ اے اللہ! جن اشیاء کو تو نے حرام کیا ان سے بچاتے ہوئے اپنی حلال کردہ اشیاء کو میرے لیے کافی کر دے اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا ہر کسی سے بے نیاز کردے۔ یعنی اے اللہ میرے لیے حلال روزی میں کفایت شعاری عطا فرما، جو مجھے حرام کی ضرورت سے بے نیاز کردے، اور میرے لیے اپنے فضل وکرم سے رزق مہیا فرما جو مجھے لوگوں سے مانگنے سے بے نیاز کردے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5884

 
 
Hadith   1085   الحديث
الأهمية: إنك لن تُخلَّف فتعمل عملاً تبتغي به وجه الله إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام، ويُضَرَّ  بك آخرون


Tema:

یقیناً یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے، اللہ کی رضا کی نیت سے، تو اس سے تمھارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں (مسلمانوں) کو تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں (کفار و مرتدین) کو نقصان۔

عن سعد بن أبي وقاص -رضي الله عنه- قال: جاءني رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَعُودُنِي عام حَجَّةِ الوداع من وَجَعٍ اشْتَدَّ بي، فقلت: يا رسول الله، قد بلغ بي من الوَجَعِ ما ترى، وأنا ذو مال، ولا يَرِثُنِي إلا ابنةٌ أَفَأَتَصَدَّقُ بثلثي مالي؟ قال: لا، قلت: فالشَّطْرُ يا رسول الله؟ قال: لا، قلت: فالثلث؟ قال: الثلث، والثلث كثير، إنك إن تَذَرَ وَرَثَتَكَ أغنياء خيرٌ من أن تَذَرَهُم عالَةً يَتَكَفَّفُونَ الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أُجِرْتَ بها، حتى ما تجعل في فِيْ امرأتك.
قال: قلت: يا رسول الله أُخَلَّفُ بعد أصحابي؟ قال: إنك لن تُخَلَّفُ فتعمل عملا تبتغي به وجه الله إلا ازْدَدْتَ به درجة ورِفْعَةً، ولعلك أن تُخَلَّفَ حتى ينتفع بك أقوام، ويُضَرُّ بك آخرون.
اللهم أَمْضِ لأصحابي هجرتهم، ولا تَرُدَّهُم على أَعْقَابِهِم، لكنِ البَائِسُ سعد بن خَوْلَةَ (يَرْثِي له رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن مات بمكة).

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے۔ میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے، جو وارث ہو گی۔ تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: آدھا؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بہت ہے۔ تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مال دار چھوڑ جائے، یہ اس سے بہتر ہو گا کہ تو انھیں اس طرح محتاجی کی حالت میں چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یاد رکھو، جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے، اس پر تمھیں ثواب ملے گا، حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی، جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے چھوٹ جاؤں گا؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے، تو اس سے تمھارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں (مسلمانوں) کوتم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں (کفار و مرتدین ) کو نقصان۔
(پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی:) اے اللہ ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کی تکمیل فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے (رسول اللہ ﷺ نے ان کے مکہ میں وفات پا جانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مرض سعد بن أبي وقاص -رضى الله عنه- في حجة الوداع مرضًا شديدًا خاف من شدته الموت، فعاده النبي -صلى الله عليه وسلم- كعادته في تفقد أصحابه ومواساته إياهم، فذكر سعد للنبي -صلى الله عليه وسلم- من الدواعي، ما يعتقد أنها تسوغ له التصدق بالكثير من ماله، فقال: يا رسول الله، إنني قد اشتد بي الوجع الذي أخاف منه الموت، وإني صاحب مال كثير، وإنه ليس من الورثة الضعفاء الذين أخشى عليهم العيلة والضياع إلا ابنة واحدة، فبعد هذا هل أتصدق بثلثي مالي، لأقدمه لصالح عملي؟ فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لا. قال: فالشطر يا رسول الله؟ قال: لا. قال: فالثلث؟ فقال: لا مانع من التصدق بالثلث مع أنه كثير. فالنزول إلى ما دونه من الربع والخمس أفضل. ثم بين له النبي -صلى الله عليه وسلم- الحكمة في النزول في الصدقة من أكثر المال إلى أقله بأمرين:
1- وهو أنه إن مات وقد ترك ورثته أغنياء منتفعين ببره وماله فذلك خير من أن يخرجه منهم إلى غيرهم، ويدعهم يعيشون على إحسان الناس.
2- وإما أن يبقى ويجد ماله، فينفقه في طرقه الشرعية، ويحتسب الأجر عند الله فيؤجر على ذلك، حتى في أوجب النفقات عليه وهو ما يطعمه زوجه.
ثم خاف سعد بن أبي وقاص أن يموت بمكة التي هاجر منها وتركها لوجه الله تعالى، فينقص ذلك من ثواب هجرته، فأخبره النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه لن يخلف قهرا في البلد التي هاجر منها، فيعمل فيه عملا ابتغاء ثواب الله إلا ازداد به درجة، ثم بشره -صلى الله عليه وسلم- بما يدل على أنه سيبرأ من مرضه، وينفع الله به المؤمنين، ويضر به الكافرين، فكان كما أخبر الصادق المصدوق، فقد بريء من مرضه، وصار القائد الأعلى في حرب الفرس، فنفع الله به الإسلام والمسلمين، وفتح الفتوح وضر به الله الشرك والمشركين، ثم دعا النبي -صلى الله عليه وسلم- لعموم أصحابه أن يحقق لهم درجتهم، وأن يقبلها منهم، وألا يردهم عن دينهم أو إلى البلاد التي هاجروا منها، فقبل الله منه ذلك، وله الحمد والمنة، والحمد لله الذي أعز بهم الإسلام.
ثم ذكر سعد بن خولة، وهو من المهاجرين الذين هاجروا من مكة ولكن الله قدر أن يموت فيها؛ فمات فيها، فرثى له النبي -عليه الصلاة والسلام-؛ أي: توجع له أن مات بمكة؛ وقد كانوا يكرهون للمهاجر أن يموت في الأرض التي هاجر منها.
581;جۃ الوداع کے موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہوگئے۔ مرض اس قدر شدید تھا کہ انھیں موت کا ڈرہوگیا۔ نبی ﷺ اپنے اصحاب کی مزاج پرسی اور اظہار ہم دردی کے عام معمول کے مطابق ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے ایسے اسباب بیان کیے، جن کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ان کی بنا پر ان کے مال کے بڑے حصے کو صدقہ کرنا جائز ہو جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے سخت تکلیف ہے، جس کی وجہ سے موت کا خوف لاحق ہے۔ میں مالِ کثیر کا مالک ہوں اور سوائے ایک بیٹی کے میرے ایسے کمزور ورثا بھی نہیں ہیں، جن کے بارے میں مجھے گداگری و ضائع ہونے کا ڈر ہو۔ ایسی حالت میں کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کرسکتا ہوں؛ تاکہ نیک عمل کے طور پر اسے پیشگی بھیج سکوں؟ نبی ﷺ نے جواب دیا:نہیں! انھوں نے کہا: آدھا اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں! انھوں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تہائی صدقہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، جب کہ یہ بھی بہت ہے۔ چنانچہ اس سے کم جیسے ایک چوتھائی یا پانچواں حصہ زیادہ افضل ہے۔ پھر نبی ﷺ نے ان سے زیادہ مال کی بہ نسبت کم مال صدقہ کرنے کی حکمت کے طور پر دو باتیں بتائيں:
1- اگر وہ اس حال میں فوت ہو ئے کہ ان کے ورثا مال دار رہیں، ان کے مال سے فائدہ اٹھاتے رہیں، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ مال و دولت ان کے قبضے سے نکال کر دوسروں کے حوالے کر کے اورانھیں لوگوں کے کرم واحسان پر زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ کر جائیں۔
2- اور اگر وہ زندہ رہے اور مال ان کے پاس رہا، تو اسے شرعی طریقے سے خرچ کریں گے اور اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھیں گے، تو انھیں اجر ملے گا۔ یہاں تک کہ اس کے اوپر واجب تریں نفقہ،   ‎
یعنی اپنی بیوی کو کھلانے پر بھی اجر وثواب ملے گا۔
پھر سعد رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ شاید ان کی موت مکے ہی میں ہو جائے، جہاں سے انھوں نے اللہ کی رضا کے لیے ہجرت کی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی ہجرت کے ثواب میں کمی آجائے۔ اس لیے نبی ﷺ نے انھیں بتایا کہ جس شہر سے انھوں نے ہجرت کی تھی، وہاں اگر بطور مجبوری رہ جاتے ہیں اور وہاں رہ کر بھی کوئی نیک عمل کرتے ہیں، تو اس سے ان کے درجے بلند ہوں گے۔ پھر نبی ﷺ نے انھیں بشارت دی، جو اس بات پر دلالت کرتی تھی کہ وہ اپنی بیماری سے اچھے ہوں گے اوراللہ ان سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گا اور کفار کو نقصان۔ پھر ویسا ہی ہوا جیسا صادق و مصدوق ﷺ نے خبر دی تھی۔ وہ اپنی بیماری سے اچھے ہوئے اور جنگ فارس کے قائد اعلیٰ قرار پائے۔ اللہ نے ان سے اسلام اور مسلمانوں کو نفع پہنچایا؛ انھوں نے بہت سی فتوحات کیں اور اللہ نے ان سے شرک و مشرکین کو ضرر پہنچایا۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے عمومی دعا فرمائی کہ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے اعمال قبول فرمائے۔ انھیں ان کے دین سے نہ پھیرے اور جہاں سے انہوں نے ہجرت کی تھی اس طرف نہ لوٹائے۔ چنانچہ اللہ نے آپ ﷺ کی دعا قبول فرمالی۔ ساری تعریف واحسان اسی کے لیے ہے اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے ان (صحابہ) کے ذریعے اسلام کو سربلندی عطا فرمائی۔ پھر سعد بن خولہ کا ذکر فرمایا۔ وہ ان مہاجرین میں سے ہیں، جنھوں نے مکہ سے ہجرت کی تھی؛ لیکن اللہ نے ان کی موت مکہ ہی میں لکھ دی تھی اور وہیں ان کی موت ہوئی۔ نبیﷺ نے ان کے لیے غم کا اظہار کیا۔ یعنی اس تکلیف کا اظہار کیا کہ ان کی موت مکہ میں ہوئی؛ کیوں کہ صحابۂ کرام ایک مہاجر کے لیے ہجرت کی ہوئی سرزمین میں موت کو ناپسند کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5885

 
 
Hadith   1086   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يستحب الجوامع من الدعاء، ويدع ما سوى ذلك


Tema:

رسول اللہ ﷺ جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور اس کے علاوہ کی دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے۔

عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يَسْتَحِبُّ الجَوَامِعَ من الدعاء، ويَدَعُ ما سوى ذلك.

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور اس کے علاوہ کی دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا دعا يختار من الدعاء أجمعه، فيختار كلمات جامعة عامة ويختار كذلك دعاء قليل اللفظ كثير المعنى، وهذا ليس عاما في كل الأحوال، وإنما أخبر الراوي بما علمه، ووردت أدعية أخرى فيها تفصيل وإسهاب، وكلا الأمرين مشروع.
606;بی ﷺ جب دعا مانگتے تھے تو جامع ترین دعا کا انتخاب کرتے۔ آپ ﷺ جامع و عام الفاظ کا انتخاب کرتے اور اسی طرح ایسی دعا کا انتخاب فرماتے جس کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں۔ تاہم تمام احوال میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اور راوی نے اسی چیز کی خبر دی ہے جو اس کے علم میں تھی۔ اور ایسی دعائیں بھی وارد ہیں جن میں بہت تفصیل اور طوالت ہے۔ اور دونوں ہی صورتیں مشروع ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5886

 
 
Hadith   1087   الحديث
الأهمية: ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر


Tema:

میراث کے حصے جو (قرآن کریم میں) متعین کیے گیے ہیں ان کے حصہ داروں کو دو پھر جو کچھ بچے وہ میت کے قریب ترین مرد رشتہ داروں (عصبہ) کا حق ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بأهلها، فما بَقِيَ فهو لأَوْلَى رجل ذَكَرٍ».
وفي رواية: «اقْسِمُوا المالَ بين أهل الفَرَائِضِ على كتاب الله، فما تَرَكَتْ؛ فلأَوْلَى رجل ذَكَرٍ».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میراث کے حصے جو (قرآن کریم میں) متعین کیے گیے ہیں ان کے حصہ داروں کو دو پھر جو کچھ بچے وہ میت کے قریب ترین مرد رشتہ داروں (عصبہ) کا حق ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ”مال کو ان لوگوں میں تقسیم کر دو جن کے حصے کتاب اللہ کی رو سے متعین ہیں۔ جو بچے وہ میت کے قریب ترین مرد رشتہ داروں کا ہو گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر النبي -صلى الله عليه وسلم- القائمين على قسمة التركة أن يوزعوها على مستحقيها بالقسمة العادلة الشرعية كما أراد الله -تعالى-، فيعطى أصحاب الفروض المقدرة فروضهم في كتاب الله، وهي الثلثان والثلث والسدس والنصف والربع والثمن، فما بقى بعدها، فإنه يعطى إلى من هو أقرب إلى الميت من الرجال، ويسمون العصبة.
606;بی ﷺ میت کا ترکہ تقسیم کرنے والوں کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ انہیں اس کے حق داروں میں مبنی بر انصاف طریقے سے اور شرعی طور پر اللہ کی منشاء کے عین مطابق تقسیم کریں۔
چنانچہ وہ ورثاء جن کے حصے اللہ کی کتاب کی رو سے معین ہیں انہیں ان کے حصے دیے جائیں گے۔ اور وہ حصے یہ ہیں: دو تہائی، ایک تہائی، چھٹا حصہ، آدھا، چوتھائی اور آٹھواں حصہ۔
اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اسے میت کے قریبی مرد رشتہ داروں کو دے دیا جائے گا جنہیں عصبہ کہا جاتاہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5887

 
 
Hadith   1088   الحديث
الأهمية: إياكم والدخول على النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أرأيت الحمو؟ قال: الحمو الموت


Tema:

عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔ ایک انصاری شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ! شوہر کے قریبی رشتہ دار (بھائی، چچا زاد وغیرہ) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا قریبی رشتہ دار تو موت ہے۔

عن عقبة بن عامر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إياكم والدخولَ على النساء، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أرأيتَ الحَمُو؟ قال: الحَمُو الموتُ».
ولمسلم: عن أبي الطاهر عن ابن وهب قال: سمعت الليث يقول: الحمو: أخو الزوج وما أشبهه من أقارب الزوج، ابن عم ونحوه.

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو“۔ ایک انصاری شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ! شوہر کے قریبی رشتہ دار (بھائی، چچا زاد وغیرہ) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شوہر کا قریبی رشتہ دار تو موت ہے“۔
مسلم شریف میں ابو طاہر سے اور ان کے واسطے سے ابن وہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے لیث رحمۃ اللہ علیہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ”حمو“ سے مراد شوہر کا بھائی اور اس کے جیسے شوہر کی طرف سے دیگر قریبی رشتہ دار ہیں مثلاً چچا زاد بھائی وغیرہ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحذر النبي -صلى الله عليه وسلم- من الدخول على النساء الأجنبيات، والخلوة بهن، فإنه ماخلا رجل بامرأة، إلا كان الشيطان ثالثهما فإن النفوس ضعيفة، والدوافع إلى المعاصي قوية، فتقع المحرمات، فنهى عن الخلوة بهن ابتعادا عن الشر وأسبابه.
فقال رجل: أخبرنا يا رسول الله، عن الحمو الذي هو قريب الزوج، فربما احتاج، إلى دخول بيت قريبه الزوج وفيه زوجته، أما له من رخصة؟
فقال -صلى الله عليه وسلم-: الحمو الموت، لأن الناس قد جروا على التساهل بدخوله، وعدم استنكار ذلك، فيخلو بالمرأة الأجنبية، فربما وقعت الفاحشة وطالت على غير علم ولا ريبة، فيكون الهلاك الديني، والدمار الأبدي، فليس له رخصة، بل احذروا منه ومن خلواته بنسائكم.
606;بی ﷺ اجنبی عورتوں کے پاس جانے اور ان سے تنہائی میں ملنے سے ڈرا رہے ہیں۔ جب بھی مرد و زن تنہا ہوتے ہیں تو شیطان ان دونوں کے مابین تیسرا ہوتا ہے۔ نفس بہت کمزور ہوتا ہے جب کہ گناہ پر اُسے برانگیختہ کرنے والے ذرائع بہت مضبوط ہوتے ہیں اس وجہ سے حرام کردہ اشیاء واقع ہوجایا کرتی ہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے برائی اور اس کے اسباب سے دور رہنے کے لیے ان کے ساتھ تنہائی میں ملنے سے منع فرمایا۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں شوہر کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں بتائیں کیونکہ اسے اپنے قریبی رشتہ دار کے گھر آنا جانا پڑتا ہے اور گھر میں اس کی بیوی ہوتی ہے۔ کیا اس کے لیے کچھ رخصت نہیں؟۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’شوہر کا قریبی رشتہ دار تو موت ہے‘‘ کیونکہ اس کے آنے جانے کے معاملے میں لوگ تساہل برتتے ہیں اور اسے برا نہیں جانتے چنانچہ اس کی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ملاقات ہو جاتی ہے اور پھر بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ زنا کا ارتکاب ہو جاتا ہے اور بغیر کسی کو خبر اور شک ہوئے لمبے عرصے تک جاری رہتا ہے۔اس میں دینی تباہی اور ابدی بربادی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس میں کوئی رخصت نہیں بلکہ (اگر تم غیرت مند ہو تو) اُس (قریبی رشتے دار) کے تمہاری بیویوں کے ساتھ تنہائی میں ملنے کے معاملے میں محتاط رہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5888

 
 
Hadith   1089   الحديث
الأهمية: الذهب بالذهب ربا، إلا هاء وهاء، والفضة بالفضة ربا، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء. والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء


Tema:

سونا سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ چاندی چاندی کے بدلے اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتی ہے۔ گیہوں گیہوں کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ جَو جَو کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے ۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- مرفوعاً: «الذهب بالذهب رِباً، إلا هَاءَ وَهَاءَ، والفضة بالفضة ربا، إلا هَاءَ وهَاءَ، والبُرُّ بالبُرِّ ربا، إلا هاء وهاء. والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء».

عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔چاندی چاندی کے بدلے اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتی ہے۔ گیہوں گیہوں کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ جَو جَو کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث، كيفية البيع الصحيح بين هذه الأنواع، التي يجرى فيها الربا، فمن باع شيئًا ربويًا بجنسه، كالذهب بالذهب أو البر بالبر، فيجب أن يكونا متساويين وبلا تأجيل، ولو كانا مختلفين في الجودة أو النوع، ومن باع ذهبًا بفضةٍ فلا بد من الحلول والتقابض في مجلس العقد، وبدونه لا يصح العقد، لأن هذه مصارفة يشترط لصحتها التقابض، ولا يشترط التساوي لاختلاف الجنس.
كما أن من باع برا بشعير فلابد من التقابض بينهما في مجلس العقد لاتفاق البدلين في علة الربا.
الخلاصة: إذا اتفق الجنس فلا بد من التقابض والمساواة كالذهب بالذهب، ولو اختلفت الجودة.
وإذا اختلف الجنس واتفقت العلة فلا بد من التقابض ولا تشترط المساواة كالذهب بالعملات النقدية.
وإذا اختلفت العلة أو لم يكن المال ربويا فلا يشترط شيء، ويجوز التأجيل والمفاضلة.
606;بی ﷺ اس حدیث میں خرید و فروخت کی ان انواع میں سے جن میں سود کا عنصر ہوتا ہے، اُن میں خرید و فروخت کی صحیح صورت کی وضاحت فرما رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص چاندی کے بدلے میں سونے کو بیچتا ہے یا سونے کے بدلے میں چاندی بیچتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مجلس عقد ہی میں ان کا نقد لین دین ہو جائے ورنہ عقد درست نہیں ہو گا۔ کیوں کہ بیع کی یہ صورت ’بیع صرف‘ کہلاتی ہے جس کے صحیح ہونے کے لیے دونوں اطراف سے قبضہ کرنا ضروری نیز جنس کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان میں برابری کی شرط نہیں لگائی جائے گی۔جیسے کوئی شخص گیہوں کو جَو کے بدلے میں خریدتا ہے یا اس کا برعکس کرتا ہے تو اس صورت میں مجلس عقد ہی میں دونوں اطراف سے قبضہ کرنا ضروری ہے کیوں کہ ان اشیاء میں علت ربا پائی جاتی ہے جس سے عقد فاسد ہو جاتا ہے جب کہ قبضہ کرنے سے پہلے ہی فریقین عقد ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔جب جنس ایک ہو تو اس صورت میں باہمی طور پر قبضہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان میں برابری بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ سونے کی سونے کے بدلے کی تجارت میں، اگرچہ عمدگی کے لحاظ سے ان میں فرق ہی کیوں نہ پایا جائے۔
اگر جنس مختلف ہو لیکن علت ایک ہو تو اس صورت میں صرف باہمی طور پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ اس میں دونوں اطراف کے سامان تجارت کا برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔جیسے سونے کی كرنسی نوٹوں کے بدلے میں خرید و فروخت۔ جب علت مختلف ہو یا پھر مال تجارت ربوی نہ ہو تو اس صورت میں کوئی شرط نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس میں ادھار کرنا اور باہم دگر اضافہ کر کے بیچنا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5889

 
 
Hadith   1090   الحديث
الأهمية: تحريم الكبر والخيلاء وبيان سوء عاقبته


Tema:

تکبر اور اترانا حرام ہے، اور ان کے برے انجام کا بیان

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «بينما رجل يمشي في حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ رأسه، يَخْتَالُ في مَشْيَتهِ، إذ خَسَفَ اللهُ به، فهو يَتَجَلْجَلُ في الأرض إلى يوم القيامة".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(بنی اسرائیل میں) ایک شخص ایک جوڑا پہن کر کبر و غرور میں سر مست ، سر کے بالوں میں کنگھی کیے ہوئے اکڑ کر اتراتا ہوا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔ اب وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن رجلاً كان يمشي متكبرًا وهو يلبس ثياباً حسنة، وممشط شعره، فخسف الله به الأرض، فانهارت به الأرض وانغمس فيها، واندفن فهو يتجلجل فيها إلى يوم القيامة؛ لأنه -والعياذ بالله- لما صار عنده هذا الكبرياء وهذا التيه وهذا الإعجاب خسف به.
وقوله: "يتجلجل في الأرض"، يحتمل أنه يتجلجل وهو حي حياة دنيوية، فيبقى هكذا معذباً إلى يوم القيامة، معذباً وهو في جوف الأرض وهو حي، فيتعذب كما يتعذب الأحياء، ويحتمل أنه لما اندفن مات كما هي سنة الله عز وجل، مات ولكن مع ذلك يتجلجل في الأرض وهو ميت فيكون تجلجله هذا تجلجلاً برزخياً لا نعلم كيفيته، والله أعلم المهم أن هذا جزاؤه والعياذ بالله.
606;بی ﷺ نے بتایا کہ ایک آدمی خوب صورت لباس میں ملبوس بالوں کو سنوارے ہوئے متکبرانہ انداز میں چل رہا تھا کہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔ چنانچہ زمین اس کے لیے پھٹ گئی، وہ اس میں گھس گیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ چنانچہ قیامت تک وہ اس میں دھنستا رہے گا؛ کیوں کہ اس نے کبر و غرور اور گھمنڈ کیا تو اسے دھنسا دیا گیا۔
آپ کے فرمان: ”وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا“ کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دنیون زندگی کی طرح زندہ حالت میں دھنستا رہے گا، اسی طرح قیامت تک عذاب دیا جاتا رہےگا، زمین کے اندر زندہ حالت میں عذاب ک سامنا کرتا رہے گا اور زندوں کی طرح اس کا دکھ جھیلتا رہے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب وہ زمین کے اندر چلا گیا، تو مرگیا، جیسا کہ اللہ عزّ وجلّ کی عام سنت ہے۔ لیکن وہ مرنے کے باوجودزمین میں دھنستا رہے گا اور اس کا یہ دھنسنا عالم برزخ کا ایک حصہ ہے، جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ بلکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کی یہ اس کے عمل کا بدلہ ہے۔ العیاذ باللہ!

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5905

 
 
Hadith   1091   الحديث
الأهمية: بينما نحن في سفر مع النبي -صلى الله عليه وسلم- إذ جاء رجل على راحلة له


Tema:

ایک وقت ہم سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص اپنی سواری پر سوار ہوکر آیا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: بينما نحن في سفرٍ مع النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- إذ جاء رجلٌ على رَاحِلةٍ له، فجعلَ يَصرِفُ بصرَه يمينًا وشمالًا، فقال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: "من كان معه فَضْلُ ظَهرٍ فَليَعُدْ به على من لا ظَهرَ له، ومن كان له فضلٌ من زادٍ، فَليَعُدْ به على من لا زادَ له"، فذكرَ من أصنافِ المالِ ما ذكر حتى رأينا أنه لا حقَّ لأحدٍ منَّا في فضلٍ.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت ہم سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص اپنی سواری پر سوار ہوکر آیا اور دائیں بائیں اپنی نگاہ پھیرنے لگا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کے پاس ضرورت سے زائد کوئی سواری ہو تو چاہیے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو، اور جس کے پاس ضرورت سے زائد توشہ ہو تو چاہیے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس توشہ نہ ہو“۔ اس طرح آپ نے مختلف قسم کے مالوں کا ذکر فرمایا، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ ہم میں سے کسی شخص کا زائد از ضرورت چیز میں کوئی حق نہیں ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر أبو سعيد الخدري -رضي الله عنه- أنهم كانوا في سفر مع النبي -صلى الله عليه وسلم-، فجاء رجل على ناقة ينظر يمينا وشمالا ليجد شيئا يدفع به حاجته، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: من كان معه زيادة في المركوب فليتصدق به على من ليس معه، ومن كان معه زيادة في الطعام فليتصدق به على من ليس معه.
يقول الراوي: حتى ظننا أنه لا حق لأحدنا فيما هو زائد عن حاجته.
575;بو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ اتنے میں ایک شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا تاکہ کوئی چیز پائے اور اس کے ذریعہ اپنی ضرورت پوری کر سکے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس ضرورت سے زائد کوئی سواری ہو تو اسے وہ ایسے شخص کو دے دینا چاہیے جس کے پاس سواری نہ ہو، اور جس کے پاس ضرورت سے زائد کھانا ہو تو اسے وہ ایسے شخص کو دے دینا چاہیے جس کے پاس کھانا نہ ہو۔
راوی کا بیان ہے کہ: یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سےکسی کو اس کی ضرورت سے زائد چیز کا کوئی حق نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5906

 
 
Hadith   1092   الحديث
الأهمية: تعاهدوا هذا القرآن، فوالذي نفس محمد بيده لهو أشد تفلتا مِنَ الإبلِ فِي عُقُلِهَا


Tema:

اس قرآن کی حفاظت (نگہداشت) کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، یہ قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں اس اونٹ سے زیادہ تیز ہے جو رسی میں بندھا ہوا ہو۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «تعاهدوا هَذَا القُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَهُوَ أشَدُّ تَفَلُّتاً مِنَ الإبلِ فِي عُقُلِهَا». .

ابوموسی اشعری رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اس قرآن کی حفاظت (دیکھ بھال) کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں اس اونٹ سے زیادہ تیز ہے جو رسی میں بندھا ہوا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
"تعاهدوا القرآن" أي: حافظوا على قراءته وواظبوا على تلاوته، وقوله: "فوالذي نفس محمد بيده لهو أشدّ تفلتاً" أي تخلصاً، "من الإبل في عقلها" جمع عقال، وهو حبل يشد به البعير في وسط الذراع، شبه القرآن في كونه محفوظاً عن ظهر القلب بالإبل النافرة وقد عقل عليها بالحبل، واللّه تعالى بلطفه منحهم هذه النعمة العظيمة فينبغي له أن يتعاهده بالحفظ والمواظبة عليه، فيجعل له حزباً معيناً يتعاهده كل يوم، حتى لا ينساه، وأما من نسيه بمقتضى الطبيعة فإنه لا يضر، لكن من أهمل وتغافل عنه بعد أن أنعم الله عليه بحفظه فإنه يخشى عليه من العقوبة، فينبغي الحرص على القرآن بتعاهده بالقراءة وتلاوته ليبقى في الصدر، وكذلك أيضا بالعمل به؛ لأن العمل بالشيء يؤدي إلى حفظه وبقائه

Esin Hadith Caption Urdu


”تعاھدوا القرآن“ کا مطلب ہے قرآن کے پڑھنے کی پابندی کرو اور ہمیشہ اس کی تلاوت کرتے رہو، ”فوالذي نفس محمد بيدہ لھو أشد تفلتا“ میں تَفَلُّتاً کا معنی ہے نکل جانا (جلدي بھول جانا) ”من الإبل في عقلھا“ عقل عقال کی جمع ہے اس رسی کو کہتے ہيں جس سے اونٹ کے اگلے پير کے درمیانی حصے کو باندھ ديا جاتا ہے (تاکہ وہ اٹھ نہ سکے)۔ سينے ميں محفوظ قرآن کی تشبيہ بھاگنے والے اس اونٹ سے دی گئی ہے جو مضبوطی کے ساتھ بندھا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے انھیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے، لھٰذا انہيں چاہيے کہ اس کے حفظ کا خیال رکھيں اور اس کی پابندی کریں۔ چنانچہ اس کا ايک حصہ متعين کرکے روزانہ اس کی تلاوت کرتے رہيں تاکہ اسے بھوليں نہ، ليکن اگر کوئی طبعی طور پر بھول جائے تو کوئی مضايقہ نہيں، مگر جسے اللہ نے حفظ قرآن کی نعمت سے نوازا اور اس کے بعد اس نے سستی و کاہلی برتی اور قرآن کو بھلا ديا تو اس کے متعلق عقوبت کا خدشہ ہے۔ اس ليے ہميں چاہيے کہ ہم قرآن کی بلا ناغہ تلاوت کرتے رہيں تاکہ وہ ہمارے سينوں ميں باقی رہے، نيز اس کے احکامات پر عمل کرتے رہيں کیوں کہ کسی چيز پر عمل کرنا اس کے ياد رکھنے اور اس کے باقی رہنے کا باعث ہوتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5907

 
 
Hadith   1093   الحديث
الأهمية: تعرض الأعمال يوم الإثنين والخميس فَأحِبُّ أَنْ يعْرَض عملي وأنا صائم


Tema:

سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعًا: «تُعْرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنين والخميس، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَملي وأنا صائم».
وفي رواية: «تُفْتَحُ أبوابُ الجَنَّةِ يومَ الاثنين والخميس، فَيُغْفَرُ لكلِّ عبد لا يُشْرِكُ بالله شيئا، إِلا رجلا كان بينه وبين أخيه شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنظِروا هذيْن حتى يَصْطَلِحَا، أنظروا هذين حتى يصطلحا».
وفي رواية: «تُعْرَضُ الأَعْمَالُ في كلِّ اثْنَيْنِ وَخَميسٍ، فَيَغْفِرُ اللهُ لِكُلِّ امْرِئٍ لا يُشْرِكُ بالله شيئاً، إِلاَّ امْرَءاً كانت بينه وبين أخِيهِ شَحْنَاءُ، فيقول: اتْرُكُوا هذَيْنِ حتى يَصْطَلِحَا».

ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں“۔
اور ايک دوسری روايت ميں ہےکہ: ”پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں، اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان کوئی عداوت ہو، چناں چہ کہا جاتا ہے کہ: ان دونوں کو مہلت دے دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں، ان دونوں کو مہلت دے دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں“۔
اور ايک دوسری روايت ميں ہے کہ: ”ہر سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں بندوں کے) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، تو اللہ ہر اس بندے کو بخش دیتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان کوئی عداوت و دشمنی ہو، اور اللہ کہتا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو يہاں تک کہ يہ آپس ميں صلح کر ليں“۔

Esin Hadith Caption Urdu


"تعرض الأعمال" أي: على الله -تعالى-، "يوم الاثنين والخميس فأحب أن يعرض عملي، وأنا صائم"، أي: طلباً لزيادة رفعة الدرجة، وحصول الأجر.
واللفظ الآخر: "تفتح أبواب الجنة في كل يوم اثنين وخميس" حقيقة؛ لأن الجنة مخلوقة، قوله: "فيغفر فيهما لكل عبد لا يشرك بالله شيئاً" أي: تغفر ذنوبه الصغائر، وأما الكبائر فلابد لها من توبة، قوله: "إلا رجل" أي: إنسان، "كان بينه وبين أخيه" أي: في الإسلام، "شحناء" أي عداوة وبغضاء "فيقال: انظروا" يعني: يقول الله للملائكة: أخروا وأمهلوا، "هذين" أي: الرجلين الذي بينهما عداوة، زجراً لهما أو من ذنب الهجران "حتى" ترتفع الشحناء و"يصطلحا" أي: يتصالحا ويزول عنهما الشحناء، فدل ذلك على أنه يجب على الإنسان أن يبادر بإزالة الشحناء والعداوة والبغضاء بينه وبين إخوانه، حتى وإن رأى في نفسه غضاضة وثقلاً في طلب إزالة الشحناء فليصبر وليحتسب؛ لأن العاقبة في ذلك حميدة، والإنسان إذا رأى ما في العمل من الخير والأجر والثواب سهل عليه، وكذلك إذا رأى الوعيد على تركه سهل عليه فعله

Esin Hadith Caption Urdu


”اعمال پيش کیے جاتے ہيں“ یعنی اللہ کے یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ ”سوموار اور جمعرات کو، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں“ یعنی بلندیٔ درجات میں کثرت و زیادتی طلب کرنے اجر و ثواب کے حصول کے لیے۔ اس حديث کے دوسرے الفاظ اس طرح ہيں: ”ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں“ جنت کا کھلنا حقیقت پر مبنی ہے کیوں کہ جنت مخلوق ہے۔ اور آپ ﷺ کا یہ فرمان: ”ان دو دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شريک نہيں کرتا“ یعنی بندے کے صغیرہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، اور رہے کبیرہ گناہ تو اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور آپ ﷺ کا یہ فرمان: ”سوائے اس آدمی کے“ یعنی اس انسان کے سوا۔ ”کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درميان“ یعنی مسلمان بھائی کے درمیان، ”شحناء“ یعنی عداوت و دشمنی، ”چناں چہ کہا جاتا ہے کہ: ان دونوں کو مہلت دے دو“ یعنی اللہ فرشتوں سے کہتا ہے ان کے معاملے کو مؤخر کر کے انہیں مہلت دے دو، ”یہ دونوں“ یعنی یہ دونوں آدمی جن کے درمیان عداوت و دشمنی ہے اور ایسا ان کی سرزنش اور قطع تعلقی کے گناہ کی وجہ سے کہا جاتا ہے، يہاں تک کہ دشمنی رفع دفع ہو جائے اور دونوں آپس ميں صلح کر ليں یعنی آپسی تعلق کو قائم کر لیں کہ جس سے دشمنی ختم ہو جائے، یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ عداوت و دشمنی اور آپسی بغض و نفرت کو جلدی ختم کرنے کی کوشش کرے، بھلے ہی وہ نفرت و عداوت کو ختم کرنے کی درخواست کرنے میں ذلت محسوس کرے۔ لھٰذا اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اجر و ثواب کی امید رکھے کیوں کہ اس سے متعلق انجام کار قابلِ ستائش ہے، اور انسان جب کسی عمل سے متعلق خیر و بھلائی اور اجر و ثواب کو جان لیتا ہے تو وہ عمل اس کے لیے آسان ہوتا ہے، ایسے ہی انسان جب کسی کام کے ترک کرنے پر وعید کو جان لیتا ہے تو اس کام کا کرنا اس کے لیے سہل و آسان ہو جاتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5908

 
 
Hadith   1094   الحديث
الأهمية: ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن دعوة المظلوم


Tema:

تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، مظلوم کی دعا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثُ دَعواتٍ مُستجابات لا شك فِيهن: دعوةُ المظلومِ، ودعوةُ المسافرِ، ودعوةُ الوالدِ على وَلدِه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں؛ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنے بچے کے خلاف کی جانے والی دعا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ثلاث دعوات من ثلاثة أصناف من الداعين لا شك أن الله يستجيب لها: دعوة من مظلوم؛ حتى ولو كان المظلوم كافرًا وظُلِمَ، ثم دعا الله، فإن الله يستجيب دعاءه، ودعوة المسافر إذا دعا الله -عز وجل- حال سفره ودعوة الوالد؛ سواء كان الأب أو الأم؛ وسواء دعا لولده أو عليه.
578;ین قسم کے دعا کرنے والوں کی تین دعاؤں کی اللہ کی طرف سے قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ ایک مظلوم کی دعا، اگرچہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اس پر ظلم کیا گیا اور اس نے اللہ سے دعا کی تو اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔ دوسری مسافر کی دعا جب وہ حالت سفر میں اللہ سے دعا کرتا ہے اور تیسری والدین میں سے کسی کی دعا، چاہے وہ باپ ہو یا ماں اور چاہے وہ اپنے بچے کے حق میں دعا کرے یا اس کے خلاف دعا کرے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5909

 
 
Hadith   1095   الحديث
الأهمية: ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولا ينظر إليهم


Tema:

تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ثلاثةٌ لا يُكلمهم الله يوم القيامة، ولا يُزَكِّيهم، ولا يَنظُر إليهم، ولهم عذابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ، ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِل مُسْتكبر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور تکبر کرنے والا مفلس“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ثلاثة أصناف من الناس لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يطهرهم من ذنوبهم، ولهم عذاب أليم:
رجل كبير طعن في السن يزني، وإمام يكذب، وفقير يستكبر ويحتقر غيره.
575;للہ تعالی روز قیامت تین قسم کے لوگوں سے نہ تو کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ ایک عمر رسیدہ شخص جو زنا کرتا ہے، دوسرا وہ حکمران جو جھوٹ بولتا ہے اور تیسرا وہ غریب و فقیر جو تکبر کرتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5910

 
 
Hadith   1096   الحديث
الأهمية: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: إني مجهود


Tema:

ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں بھوکا ہوں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: جاء رجلٌ إلى النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- فقال: إني مجهودٌ، فأرسل إلى بعضِ نسائِه، فقالت: والذي بعثك بالحقِّ ما عندي إلا ماءٌ، ثم أرسل إلى أخرى، فقالت مثلَ ذلك، حتى قُلْنَ كلهن مثلَ ذلك: لا والذي بعثك بالحقِّ ما عندي إلا ماءٌ. فقال النبيُّ -صلى الله عليه وسلم-: "من يُضيفُ هذا الليلةَ؟"،  فقال رجلٌ من الأنصار: أنا يا رسولَ اللهِ، فانطلقَ به إلى رحلِه، فقال لامرأته: أكرِمِي ضيف رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
وفي رواية قال لامرأته: هل عندك شيءٌ؟، فقالت: لا، إلا قوتَ صِبيَاني، قال: فعَلِّليهم بشيءٍ، وإذا أرادوا العشاءَ فنوّمِيهم، وإذا دخلَ ضيفُنا فأطفِئي السِّراجَ، وأرِيهِ أنَّا نَأكلُ، فقعدوا وأكلَ الضيفُ، وباتا طاويين، فلمَّا أصبحَ غدا على النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- فقال: "لقد عَجِبَ اللهُ من صَنِيعِكما بضَيفِكما الليلةَ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں بھوکا ہوں۔ آپ نے کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس اس کی خبر بھیجی، تو انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ نے دوسری بیوی کے پاس خبر بھیجی تو انھوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔ حتی کہ ہر ایک کے پاس سے جواب آیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آج رات ان کی کون مہمانی کرے گا؟“ ایک انصاری صحابی بولے: اے اللہ کے رسول! میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ:رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کرو۔
اور ایک روایت میں ہے کہ: اپنی بیوی سے کہا: کیا تمھارے پاس کچھ ہے؟ بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: بچوں کو کسی چیز میں مشغول کردو اور اگر وہ کھانا مانگیں، تو انھیں سلا دو۔ جب مہمان حاضر ہوجائے، تو چراغ بجھا دینا اور مہمان پر ظاہر کرنا کہ گویا ہم بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں۔ چنانچہ وہ بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھا لیا۔ ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقے سے گزار دی۔ صبح جب وہ صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:”تم دونوں میاں بیوی کے مہمان کے ساتھ رات والےنیک عمل کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا“۔

جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، فقال: إني أجد مشقة وجوعا، فأرسل النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى بعض أزواجه فقالت: والله ليس عندي إلا ماء، فأرسل إلى أخرى فقالت مثلها، وفعل ذلك مع أزواجه كلهن فقلن كما قالت، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: من يضيف هذا الرجل الليلة؟ فقال رجل من الأنصار: أنا أضيفه يا رسول الله، ثم انطلق به إلى منزله، وقال لامرأته: هل عندك شيء نقدمه للضيف، فقالت: لا إلا طعام الصبيان، فقال: اشغليهم بشيء، وإذا أرادوا العشاء فنوميهم، وأمرها بإطفاء المصباح، وظن الضيف أنهما يأكلان، فشبع الضيف وباتا غير متعشيين إكرامًا لضيف رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فلما أصبح وغدا إلى النبي -صلى الله عليه وسلم-، أخبره الرسول -صلى الله عليه وسلم- أن الله قد عجب من صنيعهما تلك الليلة، والعجب على ظاهره لأنه فعل غريب يتعجب منه، وهو من الصفات الفعلية التي يثبتها أهل السنة والجماعة من غير تشبيهٍ ولا تمثيلٍ، وهو عجب استحسان لا استنكار، استحسن عز وجل صنيعهما تلك الليلة.

575;یک آدمی نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں شدت کی بھوک محسوس کررہا ہوں۔ نبی ﷺ نے اپنی ایک بیوی کے پاس خبر بھیجی، تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ نے اپنی دوسری بیوی کے پاس خبر بھیجی۔ انھوں نے بھی ایسا ہی جواب دیا۔ آپ نے اپنی تمام بیویوں کے پاس خبر بھیجی اور سب نے اسی طرح کا جواب دیا۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: آج رات ان کی مہمان نوازی کون کرے گا ؟ ایک انصاری صحابی بولے: اے اللہ کے رسول! میں ان کی مہمان نوازی کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا: کیا تمھارے پاس مہمان کو پیش کرنے کے لیے کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا: نہیں، بچوں کی خوراک کے سوا کچھ نہیں ہے! انھوں نے کہا: بچوں کو کسی چیز میں مشغول کردو اور جب وہ کھانا مانگیں، تو انھیں سلادو۔ انھوں نے اپنی بیوی کو چراغ بجھانے کا حکم دے دیا اور مہمان نے سمجھا کہ وہ دونوں بھی کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان شکم سیر ہوگئے اور ان دونوں نے رسول اکرم ﷺ کے مہمان کی خاطر داری میں رات کا کھانا کھاۓ بغیر رات گزار دی۔ صبح کے وقت جب وہ صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے، تو آپ ﷺ نے انھیں خبر دی کہ تم دونوں میاں بیوی کے رات والے نیک عمل کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔ حدیث میں وارد لفظ ”عجب“ اپنے ظاہری معنی میں مستعمل ہے؛ کیوں یہ ایک انوکھا عمل ہے، جو تعجب پیدا کرتا ہے۔ تعجب کرنا در اصل اللہ تعالی کی ان فعلی صفات میں سے ہے جنہیں اہل سنت وجماعت تشبیہ اور تمثیل کے بغیر مانتے اور ثابت کرتے ہیں۔ یہاں مراد تعجب انکار نہیں، تعجب استحسان ہے۔ یعنی اللہ نے اس رات تمھارے طرز عمل کو پسند کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5911

 
 
Hadith   1097   الحديث
الأهمية: يا أبَا الحَسَنِ، كيفَ أَصْبَحَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-؟ قالَ: أَصْبَحَ بِحَمدِ اللهِ بَارِئًا


Tema:

اے ابو الحسن! آج رسول اللہ ﷺ نے کیسے صبح کی ہے؟۔ انھوں نے جواب دیا: الحمد للہ، آج رسول اللہ ﷺ نے صحت یابی میں صبح کی ہے۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما-: أن عليَّ بنَ أبي طالبٍ -رضي الله عنه- خَرَجَ من عندِ رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- في وَجَعِهِ الذي تُوُفِّيَ فيه، فقالَ الناسُ: يا أبَا الحَسَنِ، كيفَ أَصْبَحَ رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-؟ قالَ: أَصْبَحَ بِحَمدِ اللهِ بَارِئًا.

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس مرض میں رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، اس میں علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے ہاں سے باہر آئے۔ لوگ پوچھنے لگے: اے ابو الحسن! آج رسول اللہ ﷺ نے صبح کیسے کی ہے؟۔ انھوں نے جواب دیا: الحمد للہ، آج رسول اللہ ﷺ نے صحت یابی میں صبح کی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- خرج من عند النبي -صلى الله عليه وسلم- في مرضه الذي مات فيه، وكان علي بن أبي طالب صهر رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وابن عمه، فسُئل علي -رضي الله عنه-: كيف أصبح النبي -صلى الله عليه وسلم-؟ وهذا حرص ومحبة واهتمام من الصحابة بالنبي عليه الصلاة والسلام، قال علي: أصبح بحمد الله معافى.
575;بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ہاں سے باہرآئے، جب کہ آپ ﷺ اس مرض میں مبتلا تھے، جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے داماد اور چچا زاد تھے۔ علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ: آج نبی ﷺ نے کیسے صبح کی ہے؟۔ یہ سوال صحابۂ کرام کی نبی ﷺ کےساتھ چاہت و محبت اور آپ ﷺ کےلیے ان کی فکرمندی کی بنا پر تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: الحمد للہ، آج رسول اللہ ﷺ نے صحت یابی میں صبح کی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5912

 
 
Hadith   1098   الحديث
الأهمية: خيركم من تعلم القرآن وعلمه


Tema:

تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔

عن عثمان بن عفان -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ».

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
"خيركم من تعلم القرآن وعلمه" هذا الخطاب عام للأمة، فخير الناس من جمع بين هذين الوصفين من تعلم القرآن وعَلَّمَ القرآن، تعلمه من غيره وعلمه غيره؛ لأن تعلم القرآن من أشرف العلوم، والتعلم والتعليم يشمل التعلم اللفظي والمعنوي، فمن حفظ القرآن يعني: صار يعلم الناس التلاوة، ويحفظهم إياه فهو داخل في التعليم، وكذلك من تعلم القرآن على هذا الوجه فهو داخل في التعلم، والنوع الثاني: تعليم المعنى يعني: تعليم التفسير أن الإنسان يجلس إلى الناس يعلمهم تفسير كلام الله -عز وجل- كيف يفسر القرآن، فإذا علم الإنسان غيره كيف يفسر القرآن وأعطاه القواعد في ذلك فهذا من تعليم القرآن.

578;م میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے"، يہ خطاب امت کے ليے عام ہے، پس لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس ميں يہ دونوں صفتيں قرآن سيکھنے اور سکھلانے کي پائی جائیں يعنی اس نے دوسرے سے سيکھا ہو اور پھر اسے دوسرے کو سکھلائے، کيوں کہ قرآن کا سيکھنا سب سے افضل علم ہے، سيکھنا اور سکھلانا يہ قرآن کے لفظي ومعنوي دونوں تعليم کو شامل ہے، پس جو قرآن تحفيظ کروائے يعنى لوگوں کو ناظره وحفظ قرآن کی تعلیم دے، تو اس کا شمار سکھانے والوں ميں ہوگا، اور اسی طرح اگر کسی نے اسى طريقے پر قرآن سيکھا ہو تو اس کا شمار سيکھنے والوں ميں ہو گا، اور دوسری قسم: قرآن کے معنی کی تعليم ہے یعنی تفسیر کی تعلیم کہ انسان لوگوں کے پاس بیٹھ کر انھیں اللہ عز و جل کے کلام کی تفسیر سکھائے،اور قرآن کی تفسیر کرنے کا طریقہ بتلائے۔ اگرانسان نے دوسرے کو قرآن کی تفسير کرنے کا طریقہ سکھادیا اور اسے اس کے قواعد سے روشناس کرادیا تو اس کا شمار قرآن کو سکھلانے والوں ميں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5913

 
 
Hadith   1099   الحديث
الأهمية: اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، وَالجُبْنِ، والهَرَمِ، والبخل، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات


Tema:

اے اللہ! میں عاجز ہونے ، سستی، بزدلی، بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم إني أعوذ بك من العَجْزِ، والكَسَلِ، وَالجُبْنِ، والهَرَمِ، والبخل، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات».
وفي رواية: «وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا کرتے تھے:”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ“ اے اللہ! میں عاجز ہونے، سستی، بزدلی، بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
ایک روایت میں ہے: ”قرض کے بوجھ اور لوگوں کے قہر اور غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث يعد من جوامع الكلم، وهي أن النبي -صلى الله عليه وسلم- يأتي بالمعاني الجامعة في كلمات يسيرة؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- استعاذ فيه من جملة آفات وشرور تعوق حركة سير العبد إلى الله، فتعوذ النبي -صلى الله صلى الله عليه وسلم- من:
"العجز والكسل": وهما قرينان من معوقات الحركة؛ وعدم الفعل إما ان يكون بسبب ضعف الهمة وقلة الإراده فهو: الكسل، فالكسلان من أضعف الناس همة، وأقلهم رغبة، وقد يكون عدم الفعل لعدم قدرة العبد فهو: العجز.
و"الجبن والبخل": وهما من موانع الواجب والإحسان، فالجبن يضعف قلب الإنسان فلا يأمر بالمعروف ولا ينهى عن المنكر لضعف قلبه وتعلقه بالناس دون رب الناس.
والبخل يدعو صاحبه للإمساك في موضع الإنفاق، فلا يعطى حق الخالق من زكوات، ولا حق المخلوق من النفقات، فهو مبغوض عند الناس وعند الله.
"والهرم": هو بلوغ الشخص أرذل العمر، فالإنسان إذا بلغ أرذل العمر فقد كثيرا من حواسه، وخارت قواه، فلا يستطيع عبادة الله -تعالى-، ولا يجلب لأهله نفعا.
ثم استعاذ النبي -صلى الله عليه وسلم- من عذاب القبر، وعذاب القبر حق، ولذا شرع لنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نستعيذ بالله من عذابه في كل صلاة.
ثم التعوذ من فتنة المحيا والممات ليشمل الدارين، ففتنة المحيا مصائبها وابتلاءاتها، "وفتنة الممات" بأن يخشى على نفسه سوء الخاتمة وشؤم العاقبة، وفتنة الملكين في القبر وغيرهما.
وفي رواية :" وضلع الدين وغلبة الرجال" فكلاهما من القهر، فضلع الدين شدته وثقله ولا معين له فيه، فهو قهر للرجل ولكن بحق، و"غلبة الرجال" أي: تسلطهم، وهو القهر بالباطل.
740;ہ حدیث جوامع الکلم میں شمار ہوتی ہے، جوامع الکلم سے مُراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کم الفاظ میں زیادہ معانی بیان کریں، اس لیے کہ آپ ﷺ نے اس میں ان تمام آفات اور شرور سے پناہ مانگی جو اللہ کی طرف بندے کے متوجہ ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
آپ ﷺ نے عجز اور سستی سے پناہ مانگی، یہ دونوں کام نہ کرنے اور حرکت کرنے میں ایسی رکاوٹیں ہیں جو قریب قریب ہیں۔ یاتو ہمت کمزور ہونے کی وجہ سے یا ارادے کی کمی کی وجہ سے، یہ سستی ہے۔ سست لوگ سب سے کم ہمت اور کم رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور کبھی کام نہ کرنا بندے کے قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے اسے عاجز کہتے ہیں۔
’’بزدلی‘‘ اور ’’بخل‘‘ سے آپ ﷺ نے پناہ مانگی۔ یہ دونوں چیزیں واجب کی ادائیگی اور احسان کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بزدلی انسان کے دل کو کمزور کرتی ہے، پھر وہ دل کے کمزور ہونے اور اللہ کے سوا لوگوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے نہ امر بالمعروف کر سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر کر سکتا ہے۔
’’بخل‘‘ انسان کو خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ کرنے سے روکتا ہے، بخیل شخص اللہ تعالیٰ کا حق زکوٰۃ نہیں دیتا اور مخلوق پر خرچ کرنے سے باز رہ کر ان کا حق ادا نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ اللہ اور لوگوں دونوں کے ہاں مبغوض رہتا ہے۔
" ھَرِم" یعنی انسان کا ارذلِ عمر (کھوسٹ بڑھاپا) کو پہنچ جانا۔ جب انسان انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اپنے اکثر حواس کو وہ کھو بیٹھتا ہے، اس کے قُویٰ کمزور ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ وہ اللہ کی عبادت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
پھر آپ ﷺ نے عذابِ قبر سے پناہ مانگی، عذاب قبر برحق ہے۔ اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ہم ہر نماز میں اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگے۔
پھر آپ ﷺ نے زندگی اور موت کی آزمائشوں سے پناہ مانگی جو کہ دونوں جہانوں کو شامل ہیں، ’’زندگی کی آزمائشوں‘‘ سے مراد دنیوی مصائب اور امتحانات ہیں اور ’’موت کی آزمائشوں‘‘ سے مراد برا خاتمہ اور بُری عاقبت اور قبر میں منکر نکیر کے سوالات وغیرہ ہیں۔
ایک روایت میں ہے”قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ یہ دونوں ظلم وستم ہیں، قرض کا بوجھ اس کی سختی، بار گراں اور اس حال میں کوئی مدد گار کا نہ ہونا یہ آدمی کے لیے ظلم وستم کی حالت ہے جو کہ بجا ہے (یعنی ایسا ہونا قرض دینے والے کی طرف سے کوئی ناحق ظلم نہیں ہے)، ’’غلبة الرجال‘‘ یعنی لوگوں کا تسلط یہ ظلم وستم ناجائز اور باطل ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5914

 
 
Hadith   1100   الحديث
الأهمية: قل: اللهم اهدني وسددني


Tema:

یہ دعا کرو کہ اے اللہ! مجھے ہدایت اور راست روی عطا فرما۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- قال: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «قل: اللهم اهْدِنِي، وسَدِّدْنِي». . وفي رواية: «اللهم إني أسألك الهُدَى والسَّدَادَ».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ یہ دعا کرو ”اللَّهُمَّ اهْدِني، وسَدِّدْنِي“ اے اللہ! مجھے ہدایت اور راست روی عطا فرما۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”اللَّهمَّ إنِّي أسْألُكَ الهُدَى والسَّدَادَ“ اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت اور راست روی کا طلب گار ہوں۔

هذا الحديث من جوامع كلم النبي صلى الله عليه وسلم، ففي هذا الحديث مع قلة العبارة عظيم الفائدة والأثر، حيث جمع هذا الحديث جماع الخير كله ، وقد أمر النبي صلى الله عليه وسلم عليًّا رضي الله عنه أن يدعو به ، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم «قل: اللهم اهدني، وسددني». 
"اهدني": دعاء ورجاء أن ينال الهداية، أي الرشاد ، فكأنه سأل الله تعالى كمال الهداية والرشاد.
"وسددني": أي: وفقني واجعلني مصيبا في كل أموري وشؤوني الدينية والدنيوية، ففي اللفظ معنى تقويم الخطأ، وتعديل الخلل، ولذا فقد جمع هذا الدعاء بين أمرين:
أ‌- التوفيق للهداية
ب‌- طلب الاستمرار على الهداية والرشد، وعدم الخروج عنهما بالزيغ والضلال.
فمن وفقه الله تعالى لهذا الدعاء فهو على الهداية ثابت، وعلى طريقها سائر، وعن الزيغ والضلال بائن.

740;ہ حدیث نبی ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے۔ اس حدیث میں باوجود کم عبارت کے بہت زیادہ فائدہ اور اثر ہے کیونکہ یہ حدیث اپنے اندر سارے خیر سموئے ہوئے ہے۔ نبیﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا، آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ یوں کہو: ”اے اللہ! مجھے ہدایت اور راست روی عطا فرما“۔
”اهْدِني“ یہ اس بات کی دعا اور امید کا اظہار ہے کہ انہیں ہدایت حاصل ہو یعنی راست روی۔ گویا کہ انہوں نے اللہ تعالی سے کامل ہدایت اور راست روی کا سوال کیا۔
”وسَدِّدْنِي“ یعنی مجھے توفیق دے اور میرے تمام دینی و دنیوی امور و معاملات میں مجھے راستگی عطا فرما۔ اس لفظ میں یہ معنی ہے کہ غلطی کو درست فرما اور خلل کو ٹھیک کر دے۔ اس لیے اس دعا میں دو امور موجود ہیں:
ا۔ ہدایت کی توفیق۔
ب۔ ہدایت اور راستگی پر مسلسل قائم رہنے کی دعا اور کجی و گمراہی کی وجہ سے اس سے نکل نہ جانے کی دعا۔ پس جسے اللہ تعالی یہ دعا مانگنے کی توفیق دے دیتا ہے وہ ہدایت پر ثابت قدم اور راہ ہدایت پر گامزن رہتا ہے اور کجی و گمراہی سے دور رہتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5915

 
 
Hadith   1101   الحديث
الأهمية: ألم تري أن مجززا نظر آنفا إلى زيد بن حارثة وأسامة بن زيد، فقال: إن بعض هذه الأقدام لمن بعض


Tema:

تمہیں معلوم ہے، مجزز (ایک قیافہ شناس) نے ابھی ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو (چادر اوڑھے لیٹے ہوئے) دیکھا تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- دخل عليَّ مسرورًا تبرُقُ أسارِيرُ وجهه. فقال: ألم تَرَيْ أن مُجَزِّزًا نظر آنفًا إلى زيد بن حارثة وأسامة بن زيد، فقال: إن بعض هذه الأقدام لمن بعض».
 وفي لفظ: «كان مجزِّزٌ قائفًا».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اس حال میں کہ آپ بہت خوش تھے، آپ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، مجزز (قیافہ شناس) نے ابھی ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو (چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے) دیکھا تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ مجزز قیافہ شناس تھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان زيد بن حارثة أبيض اللون، وابنه أسامة أسمر، وكان الناس  يرتابون فيهما -من أَجْلِ اختلاف لونيهما-، ويتكلمون في صحة نسبة أسامة إلى أبيه، بما يؤذى رسول الله صلى الله عليه وسلم.
فمرَّ عليهما (مجزِّز المدلجي) القائف، وهما قد غَطَّيَا رَأسيْهما في قطيفة -أي رداء-، وبدت أرجلهما.
فقال إن بعض هذه الأقدام لَمنْ بعض، لما رأى بينهن من الشبه.
وكان كلام هذا القائف على سمع من النبي صلى الله عليه وسلم، فسُرَّ بذلك سرورا كثيرا، حتى دخل على عائشة وأسارير وجهه تَبْرق، فرحًا واستبشارًا للاطمئنان إلى صحة نسبة أسامة إلى أبيه، ولِدحْض كلام الذين يطلقون ألسنتهم في أعراض الناس بغير علم.
586;ید بن حارثہ کا رنگ گورا تھا جب کہ ان کے بیٹے اسامہ گندمی رنگ کے تھے۔ لوگ ان کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں شک کیا کرتے تھے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی اپنے والد کی طرف نسبت کی صحت میں باتیں کیا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو بہت اذیت پہنچتی تھی۔
ایک دفعہ مجزز مدلجی کا جو قیافہ شناس تھا ان کے قریب سے گزر ہوا۔ ان دونوں نے اپنے سروں کو ایک چادر سے ڈھانپ رکھا تھا لیکن ان کے پاؤں باہر نظر آرہے تھے۔
اس نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں کیونکہ اسے ان کے مابین مشابہت نظر آئی تھی۔
نبی ﷺ اس قیافہ شناس کی بات کو سن رہے تھے۔ آپ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس حال میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے کہ آپ کا چہرہ اس بات پر خوشی و اطمئنان کی وجہ سے دمک رہا تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کی اپنے والد کی طرف نسبت درست ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے ان لوگوں کی باتوں کا رد ہو گیا تھا جو بلا کچھ جانے لوگوں کی عزتوں میں اپنی زبانیں چلاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5916

 
 
Hadith   1102   الحديث
الأهمية: نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن المخابرة والمحاقلة، وعن المزابنة، وعن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، وأن لا تباع إلا بالدينار والدرهم، إلا العرايا


Tema:

نبی ﷺ نے مخابرہ، محاقلہ، اور مزابنہ سے منع فرمایا، اسی طرح پھل کو پختہ ہونے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا اور یہ کہ میوہ یاغلہ جو درخت پر لگا ہو، اسے دینار و درہم ہی کے بدلے بیچا جائے۔ البتہ عرایا کی اجازت دی ہے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن المُخَابَرَةِ والمُحَاقَلَةِ، وعن المُزَابنة، وعن بيع الثَّمَرَة حتى يَبدُو صَلاحُها، وأن لا تبُاع إلا بالدينار والدرهم، إلا العَرَايَا.

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:نبی ﷺ نے مخابرہ، محاقلہ، اور مزابنہ سے منع فرمایا، اسی طرح پھل کو پختہ ہونے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا، اور یہ کہ میوہ یاغلہ جو درخت پر لگا ہو، دینار و درہم ہی کے بدلے بیچا جائے۔ البتہ عرایا کی اجازت دی ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن أنواع من البيوع التي تتعلق بالثمار؛ لما فيها من الضرر على جانب واحد أو جانبين، ومن ذلك: المخابرة، وهي تأجير الأرض بنتاج جزء محدد من الأرض، وليس بنسبة عادلة، وكذلك نهى عن بيع الحنطة بسنبلها بحنطة صافية من التبن، وكذلك نهى أن يباع التمر على رؤوس النخل بتمر مثله، وعن أن تباع الثمرة حتى يبدو صلاحها، ولكنه رخص في الرطب فيها بعد أن يخرص ويعرف قدره بقدر ذلك من الثمر، -والخرص معرفة قدره بالتخمين وغلبة الظن-، بشرط أن يكون خمسة أوسق فأقل، لما ورد في أحاديث أخرى.
606;بی ﷺ نے خرید و فروخت کی کچھ انواع سے منع فرمایا، جن کا تعلق پھلوں کے ساتھ ہے۔ کیوںکہ اس سے ایک فریق کو یا دونوں فریق کو نقصان ہوتا ہے۔ ان صورتوں میں سے کچھ یہ ہیں: مخابرہ، اس کے معنی ہیں: زمین کو، اس کے کسی معین حصے کی پیداوار کے بدلے میں کرایے پر دینا نہ کہ اوسط کے حساب سے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے بالیوں میں موجود گیہوں کی اس گیہوں کے بدلے میں بیع سے منع فرمایا ہے، جسے بھوسہ سے الگ کر لیا گیا ہو۔ اسی طرح آپ ﷺ نے درختوں پر لگی کھجور کو اس کے بقدر ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا اور پھل کے پختہ ہونے سے پہلے اسے بیچنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ تاہم آپ ﷺ نے بعدازاں تازہ کھجور کو بیچنے کی رخصت دے دی جب کہ اس کا تخمینہ لگاکر اس کی مقدار معلوم کر لی جائے اور اسے اسی کے برابر پھل کے ساتھ فروخت کیا جائے۔ ”الخرص“ کے معنی ہیں: پھل کی مقدار کو اندازے اور غالب گمان کے ذریعےجاننا بشرطےکہ یہ بیع پانچ یا پانچ وسق سے کم میں ہو۔ کیوںکہ دیگر احادیث میں ایسے ہی آیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5917

 
 
Hadith   1103   الحديث
الأهمية: لا تلقوا الركبان، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم


Tema:

(تجارتی) قافلوں سے آگے جاکر نہ ملاکرو ( بلکہ ان کو منڈی میں آنے دیا کرو ) کسی کی بیع پر بیع نہ کرو اور نہ ہی (خریداری کی نیت کے بغیر)محض ریٹ بڑھانے کے لئے بولی لگاو اور کوئی شہری شخص (دلال بن کر) کسی دیہاتی کی طرف سے نہ بیچے اور (بیچنے کے لیے) اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم-: «لا تَلَقَّوُا الرُّكبان، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تَنَاجَشُوان ولا يبع حَاضِرٌ لِبَادٍ، ولا تُصَرُّوا الإبلَ والغنم، ومن ابتاعها فهو بخير النَّظَرَين بعد أن يحلبها: إن رَضِيَهَا أمسكها، وإن سَخِطَها رَدَّهَا وَصَاعا ًمن تمر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”(تجارتی) قافلوں سے آگے جاکر نہ ملاکرو ( بلکہ ان کو منڈی میں آنے دیا کرو ) کسی کی بیع پر بیع نہ کرو اور نہ ہی (خریداری کی نیت کے بغیر)محض ریٹ بڑھانے کے لئے بولی لگاو اور کوئی شہری شخص (دلال بن کر) کسی دیہاتی کی طرف سے نہ بیچے اور (بیچنے کے لیے) اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے(دھوکہ میں آکر ) کوئی ایسا جانور خریدلیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں یعنی چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدلے دے دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهى النبي صلى الله عليه وسلم عن خمسة أنواع من البيع المحرم، لما فيها من الأضرار العائدة على البائع أو المشتري أو غيرهما.
1 - فنهى عن تلقي القادمين لبيع سلعهم من طعام وحيوان، فيقصدهم قبل أن يصلوا إلى السوق، فيشترى منهم، فلجهلهم بالسعر، ربما غبنهم في بيعهم، وحرمهم من باقي رزقهم الذي تعبوا فيه.
2- كما نهى أن يبيع أحد على بيع أحد، ومثله في الشراء على شرائه.
وذلك بأن يقول في خيار المجلس أو الشرط: أعطيك أحسن من هذه السلعة أو بأرخص من هذا الثمن، إن كان مشتريا، أو أشتريها منك بأكثر من ثمنها، إن كان بائعا، ليفسخ البيع، ويعقد معه.
وكذا بعد الخيارين، نهى عن ذلك، لما يسببه هذا التحريش من التشاحن والعداوة والبغضاء ؛ ولما فيه من قطع رزق صاحبه.
3- ثم نهى عن النجش، الذي هو الزيادة في السلعة لغير قصد الشراء، وإنما لنفع البائع بزيادة الثمن، أو ضرر المشتري بإغلاء السلعة عليه ونهى عنه، لما يترتب عليه من الكذب والتغرير بالمشترين، ورفع ثمن السلع عن طريق المكر والخداع.
4- وكذلك نهى أن يبيع الحاضر للبادي سلعته لأنه يكون محيطاً بسعرها ؛ فلا يبقى منه شيئاً ينتفع به المشترون. والنبي صلى الله عليه وسلم يقول: "دعوا الناس، يرزق الله بعضهم من بعض" .
5- النهي عن بيع المصراة من بهيمة الأنعام، فيظن المشتري أن هذا عادة لها فيشتريها زائداً في ثمنها مالا تستحقه، فيكون قد غش المشتري وظلمه.
فجعل الشارع له مدة يتدارك بها ظلامته ، وهي الخيار ثلاثة أيام له أن يمسكها، وله أن يردها على البائع بعد أن يعلم أنها مصراة.
فإن كان قد حلب اللبن ردها ورد معها صاع تمر بدلا منه.
606;بی ﷺ بیع کی پانچ حرام صورتوں سےمنع فرما رہے ہیں کیونکہ ان سے فروخت کنندہ یا خریدار یا ان کے علاوہ کسی اور شخص کو نقصان ہوتا ہے:
1- جو لوگ اپنے سامان تجارت جیسے اشیائے خوردنی اور جانور بیچنے کے لئے آ رہے ہوں ان کے منڈی تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاس جا کر ان سے خریداری کرنے سےمنع فرمایا کیونکہ ان کو ریٹ کا علم نہیں ہوتاہے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ یہ شخص فروخت میں انہیں دھوکہ دے کر انہیں ان کے رزق سے محروم کر دے جس کے لئے انہوں نےاتنی مشقت اٹھائی ہوتی ہے۔
2- اسی طرح نبی ﷺ نے کسی کی فروخت پر فروخت اور اسی طرح اس کی خریداری پر خریداری کرنے سے منع فرمایا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شخص خیارِ مجلس یا خیارِ شرط کے دوران خریدار کو یہ کہے کہ میں تمہیں اس سامان تجارت سے زیادہ عمدہ سامان اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں یا پھر یہ دوسرا شخص اگر فروخت کنندہ ہو تو اس سے کہے کہ اس کی جو قیمت لگ چکی ہے میں اس سے زیادہ میں تم سے یہ خریدتا ہوں اور ایسا کرنےسے اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ شخص بیع کو فسخ کرکے اس کے ساتھ عقد کر لے۔ اسی طرح دونوں قسم کی اختیار ختم ہو جانے کے بعد بھی آپ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔ کیونکہ (فروخت کنندہ یا خریدارکو) اس طرح سے اکسانا باہمی بغض و عداوت اور نفرت کا سبب بنتا ہےاوراس سے اس آدمی کو اس کے رزق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
3- آپ ﷺ نے بیعِ ”نجش“ سے منع فرمایا جس کا معنی یہ ہے کہ سامان تجارت کو خریدنے کی نیت کے بغیر ہی اس کا ریٹ بڑھا دیا جائے جس کا مقصود فروخت کنندہ کو زیادہ قیمت دلا کر اسے نفع پہنچانا یا پھر سامان تجارت کا بھاؤ بڑھا کر خریدار کو نقصان پہنچانا اور اسے اس کے خریدنے سےروکنا ہو۔ اس کی ممانعت اس لئے ہے کیونکہ اس میں خریداروں کے ساتھ کذب بیانی ہوتی ہے اور انہیں دھوکہ دیا جاتا ہے اور مکر فریب کے ذریعے سے سامان تجارت کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔
4- اسی طرح آپ ﷺ نے شہری شخص کو دیہاتی شخص کا سامان ِتجارت بیچنے سے منع فرمایا کیونکہ اس کو اس کے ریٹ کا پوری طرح سے علم ہوتا ہے اور وہ اس میں کوئی گنجائش چھوڑتا ہی نہیں کہ خریدار فائدہ اٹھا سکیں۔ جب کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: ”لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ ان میں سے کچھ کو کچھ کے ذریعے رزق پہنچاتا ہے“۔
5- چوپایوں میں سے مُصَرّاۃ (یعنی ایسا جانور جسے بیچنے کے لئے اس کے دودھ کو کچھ عرصے کے لئے اس کے تھنوں میں ہی رہنے دیا جائے) کی بیع کرنے کی ممانعت جس سے خریدار کو یہ لگے کہ اتنا دودھ دینا اس جانور کا معمول ہے اور اس خیال سے وہ جانور کو زیادہ قیمت پر خرید لے حالانکہ وہ حقیقت میں اتنے کا نہ ہو۔ ایسا کرنے پر وہ شخص خریدار کو دھوکہ دینے اور اس پر ظلم کرنے کا مرتکب ہو گا۔ اسی لئے شارع علیہ السلام نے خریدار کے لئے اتنی مدت متعین کر دی جس میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا تدارک کر سکتا ہے جو کہ تین دن کا اختیار ہے چاہے وہ اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے یا پھر یہ پتہ لگنے کے بعد کہ وہ مصراۃ ہے، اسے فروخت کنندہ کو واپس کر دے۔ اگر اس نے دودھ دھو لیا ہو تو جانور کے ساتھ ساتھ اس دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور بھی دے دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5918

 
 
Hadith   1104   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يبيع حاضر لباد، ولا تناجشوا، ولا يبع الرجل على بيع أخيه، ولا يخطب على خطبته


Tema:

نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال و اسباب بیچے، اور یہ کہکوئی (سامان خریدنے کی نیت کے بغیر اصل خریداروں سے) بڑھ کر بولی نہ لگائے، کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہکوئی شخص (کسی عورت کو) دوسرے کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يبيع حاضرٌ لباد، ولا تناجشوا. ولا يبَعِ ِالرجل على بيع أخيه، ولا يخطب على خطبته ، ولا تسأل المرأة طلاق أختها لتِكْفَأَ ما في صَحفَتِهَا».

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال و اسباب بیچے اور یہ کہ کوئی (سامان خریدنے کی نیت کے بغیر اصل خریداروں سے) بڑھ کر بولی نہ لگائے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے۔ کوئی شخص (کسی عورت کو) دوسرے کے پیغام نکاح ہوتے ہوئے اپنا پیغام نہ بھیجے اور کوئی عورت اپنی کسی دینی بہن کو اس نیت سے طلاق نہ دلوائےکہ جو اس کے برتن میں ہے اُسے اپنے میں انڈیل لے (اس کے حصہ کو خود حاصل کر لے)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحرص الشرع الحنيف على إزالة كل ما يسبب العداوة والبغضاء بين أبناء المجتمع المسلم، ويظهر هذا جليًّا من خلال هذا النص، ففيه النهي عن الزيادة في السلعة لغير قصد الشراء، وإنما لنفع البائع بزيادة الثمن، أو ضرر المشتري بإغلاء السلعة عليه، ونهى عنه لما يترتب عليه من الكذب والتغرير بالمشترين، ورفع ثمن السلع عن طريق المكر والخداع.
وكذلك نهى أن يبيع الحاضر للبادي سلعته لأنه يكون محيطًا بسعرها؛ فلا ينقص منه شيئًا ينتفع به المشترون. والنبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: "دعوا الناس، يرزق الله بعضهم من بعض"، وإذا باعها صاحبها بما يكفيه حصل فيها شيء من السعة على المشترين.
تحريم خطبة النكاح على خطبة أخيه، حتى يعلم أن الخاطب رُد عن طلبه، ولم يُجَبْ، لما تسبب الخِطْبة على خِطبةْ الغير من العداوة والبغضاء، والتعرض لقطع الرزق.
تحريم سؤال المرأة زوجها أن يطلق ضرتها، أو توغير صدره عليها، أو الفتنة بينهما، ليحصل بينهما الشر، فيفارقها، فهذا حرام، لما يحتوى عليه من المفاسد الكبيرة، من توريث العداوات، وجلب الإحن ، وقطع رزق المطلقة، الذي كنى عنه بِكَفْءِ ما في إنائها من الخير الذي سببه النكاح وما يوجبه من نفقة وكسوة وغيرها من الحقوق الزوجية.
588;ریعت ہر اس چیز کو ختم کرنے پر زور دیتی ہے جو اسلامی معاشرے کے افراد کے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ نص اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس سامان کی قیمت بڑھانے سے منع فرمایا ہے، جس کے خریدنے کی نیتنہ ہو، بلکہ ارادہ قمیت بڑھا کر بیچنے والے کو فائدہ پہنـچانا ہو یا سامان مہنگا کرکے خریدار کو نقصان پہنچانا۔ آپ ﷺ نے اس سے اس لیے منع کیا کہ یہ جھوٹ، خریداروں کے حق میں دھوکہ اور مکر و فریب کے ذریعے سامان کی قیمت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کا سامان بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ کیوں کہ شہری قیمت کنٹرول کر لیتا ہے۔ اسے گھٹنے نہیں دیتا، جو خریداروں کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں: ”لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے رزق دے گا“۔ جب سامان کا مالک سامان بیچتا ہے، تو خریدنے والوں کو کچھ آسانی فراہم ہو جاتی ہے۔
مسلمان بھائی کے پیغامِ نکاح پر پیغام بھیجنا حرام ہے۔ جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ پہلے پیغام بھیجنے والے کا پیغام نامنظور ہو گیا ہے۔ دوسرے کے پیغامِ نکاح پر نکاح کا پیغام بھیجنے سے اس لیے منع فرمایا کہ یہ دشمنی، بغض اور رزق کو روکنے کا سبب ہے۔
عورت کا اپنے شوہر سے سوکن کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا، اسے اس کے خلاف بھڑکانا یا ان کے درمیاں فتنہ پیدا کرنا؛ تاکہ ان کے درمیان ناچاقی پیدا ہو اور شوہر بیوی کو الگ کر دے۔ یہ سب حرام ہے۔ اس لیے کہ یہ بڑے بڑے مفاسد پیدا کرتا ہے، جیسے دشمنی، کینہ، مطلقہ کا رزق ختم کرنا_جسے اس کے برتن کی خیر کو اپنے برتن میں انڈیل لینے سے تعبیرکیاگیا ہے_ یعنی وہ رزق جس کا سبب نکاح ہے۔ اس کے علاوہ یہ طرزِ عمل نفقہ، کپڑے وغیرہ اور دوسرے حقوقِ زوجیت کو بھی ختم کرنے کا سبب ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5919

 
 
Hadith   1105   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن بيع الذهب بالورق دَينًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے سونے کے بدلے چاندی اُدھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

عن أبي المنهال قال: «سألت البراء بن عازب، وزيد بن أرقم، عن الصَّرْفِ؟ فكل واحد يقول: هذا خير مني. وكلاهما يقول: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن بيع الذهب بالوَرِقِ دَيْنَاً».

ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے بیع صرف کے بارے میں براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر ہیں (اس لیے ان سے پوچھ لو)۔ ان دونوں ہی کا کہنا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کے بدلے چاندی اُدھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل أبو المنهال، البراء بن عازب، وزيد ين أرقم، عن حكم الصرف، الذي هو بيع الأثمان بعضها ببعض.
فمن ورعهما -رضي الله عنهما-، أخذا يتدافعان الفتوى، ويحتقر كل واحد منهما نفسه بجانب صاحبه.
ولكنهما اتفقا على حفظهما: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن بيع الذهب بالفضة دَيناً، لاجتماعهما في علة الربا، فحينئذ لابد فيهما من التقابض في مجلس العقد، وإلا لما صح الصرف، وصار ربا بالنسيئة.
تنبيه:
الربا معاملة مالية محرمة، وتنقسم إلى قسمين: الأول ربا الديون، وهي أن يزيد في مقدار الدين الثابت مسبقًا مقابلة الزيادة في الأجل، والثاني ربا البيوع، وهي الزيادة أو التأجيل في أصناف معينة، تسمى الأصناف الربوية، مثل الذهب بالذهب والبر بالبر.
575;بو المنہال نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے بیع صرف کا حکم دریافت کیا۔ بیع صرف سے مراد ثمن (سونا، چاندی) کو ایک دوسرے کے ساتھ بیچنا ہے۔ اپنے تقوی کی بنا پر ان (دونوں صحابہ) میں سے ہر ایک فتوی کو دوسرے کی طرف ریفر کرنے لگا (کہ اس سے پوچھ لیا جائے۔) اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے مقابلے میں اپنے آپ کو کم تر سمجھ رہا تھا۔ تاہم یہ حدیث دونوں ہی کو یاد تھی کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے سونے کے بدلے چاندی ادھار بیچنے سے روکا ہے۔ کیونکہ ان میں علتِ ربا پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس صورت میں ضروری ہے کہ مجلسِ عقد ہی میں ان پر قبضہ کیا جائے ورنہ بیع صرف درست نہیں ہو گی اور یہ ربا النسیئہ بن جائے گی۔
نوٹ: ’ربا‘ لین دین کی ایک حرام صورت ہے جس کی دو قسمیں ہیں:
اول: ربا الدیون: اس سے مراد یہ ہے کہ قرض کی پہلے سے موجود مقدار میں قرض کی ادائیگی کی مدت میں بڑھوتری کی وجہ سے اضافہ کردیا جائے۔
دوم: ربا البیوع: اس سے مراد کچھ اشیاء میں بڑھوتری کرنا یا پھر ان کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ہے۔ ان اشیاء کو ربوی اشیاء کہا جاتا ہے مثلاً سونے کی سونے کے بدلے میں بیع اور گندم کی گندم کے بدلے میں بیع۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5920

 
 
Hadith   1106   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الفضة بالفضة، والذهب بالذهب، إلا سواء بسواء، وأمرنا أن نشتري الفضة بالذهب، كيف شئنا، ونشتري الذهب بالفضة كيف شئنا


Tema:

رسول الله ﷺ نے چاندی کی چاندی اور سونے کی سونے کے ساتھ خرید و فروخت سے منع فرمایا ماسوا اس کے کہ دونوں برابر سرابر ہوں اور ہمیں اجازت دی کہ ہم چاندی کو سونے کے بدلے میں جیسے چاہیں اور سونے کو چاندی کے بدلے میں جیسے چاہیں خرید سکتے ہیں۔

عن أبي بكرة -رضي الله عنه- قال: «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الفضة بالفضة، والذهب بالذهب، إلا سَوَاءً بسوَاءٍ، وأمرنا أن نشتري الفضة بالذهب، كيف شئنا. ونشتري الذهب بالفضة كيف شئنا، قال: فسأله رجل فقال: يدا بيد؟ فقال: هكذا سمعت».

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے چاندی کی چاندی اور سونے کی سونے کے ساتھ خرید و فروخت سے منع فرمایا ماسوا اس کے کہ دونوں برابر سرابر ہوں اور ہمیں اجازت دی کہ ہم چاندی کو سونے کے بدلے میں جیسے چاہیں اور سونے کو چاندی کے بدلے میں جیسے چاہیں خرید سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سوال کیا کہ: نقد بہ نقد؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: میں نے ایسے ہی سنا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان بيع الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، متفاضلا ربًا، نهى عنه ما لم يكونا متساويين، وزنًا بوزن، أما بيع الذهب بالفضة، أو الفضة بالذهب، فلا بأس به، وإن كانا متفاضلين، على أنه لابد في صحة ذلك من التقابض في مجلس العقد، وإلا كان ربا النسيئة المحرم، لأنه لما اختلف الجنس جاز التفاضل، وبقي شرط التقابض، لعلة الربا الجامعة بينهما.
670;وں کہ سونے کی سونے اور چاندی کی چاندی کے ساتھ زیادتی کے ساتھ خرید و فروخت سود ہوتی ہے اس لیے نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا اِلاّ یہ کہ دونوں کا وزن برابر نہ ہو (دریں صورت دونوں کا تبادلہ جائز ہے)۔ تاہم سونے کی چاندی اور چاندی کی سونے کے بدلے میں خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں اگرچہ یہ (وزن میں) زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
تاہم اس خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مجلس عقد ہی میں دونوں اطراف كا قبضہ ہو جائے بصورت دیگر یہ ربا النسیئہ بن جائے گا جو کہ حرام ہے کیونکہ جنس کے مختلف ہونے کی وجہ سے مقدار میں زیادتی تو جائز ہے تاہم (مجلس عقد ہی میں) باہمی طور پر قبضہ میں لینے کی شرط ہنوز باقی ہے کیونکہ دونوں میں ربا کی علت پائی جاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5921

 
 
Hadith   1107   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن نكاح المتعة يوم خيبر، وعن لحوم الحمر الأهلية


Tema:

نبی کریم ﷺ نے خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن نكاح المتعة يوم خيبر، وعن لحوم الحُمُرِ الأهلية».

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قصد الشرع من النكاح الاجتماع والدوام والألفة، وبناء الأسرة وتكوينها، وحرم بعض الصور التي تخالف مقصود الشرع من النكاح، ولهذا  حرم النبي صلى الله عليه وسلم زمن خيبر نكاح (المتعة)، وهو أن يتزوج الرجل المرأة إلى أجل، بعد أن كان مباحًا في أول الإسلام لداعي الضرورة، وكذلك نهى عن أكل الحمر المملوكة التي لها أهل ترجع إليهم ويرجعون إليها ضد الوحشية.
606;کاح سے شریعت کا مقصد اجتماعیت، دائمی بقا، محبت اور خاندان کی تعمیر و ترقی ہے۔ اسی لیے نکاح کی بعض صورتیں جو شریعت میں مقصدِ نکاح کے خلاف ہیں ان کو حرام قرار دیا گیا ہے۔بنابریں آپ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعۃ کو حرام کردیا۔ نکاحِ متعۃ یہ ہے کہ کوئی مرد کسی عورت سے ایک خاص وقت تک کے لیے شادی کرے۔ شروعِ اسلام میں یہ ضرورت کے پیشِ نظر جائز تھا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ان گدھوں کو کھانے سے بھی منع فرمایا جس کے مالک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہیں، برخلاف وحشی گدھوں کے کہ ان کو کھانا جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5922

 
 
Hadith   1108   الحديث
الأهمية: إن ثلاثة من بني إسرائيل: أَبْرَصَ وأَقْرَعَ وأَعْمَى، فأراد الله أن يَبْتَلِيَهم، فبعَث إليهم مَلَكًا


Tema:

بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک نابینا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بندوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم-، يقول: "إنّ ثلاثة من بني إسرائيل: أبرص وأقرع وأعمى، فأراد الله أن يَبْتَلِيَهم، فبعث إليهم ملَكًا، فأتى الأبرص؛ فقال: أيُّ شيء أحب إليك؟
قال: لون حسن، وجلد حسن، ويذهب عني الذي قد قَذِرَني النَّاس به.
قال: فمسحه فذهب عنه قَذَرُه، فأُعْطِيَ لوناً حسناً وجلداً حسناً.
قال: فأي المال أحب إليك؟
قال: الإبل أو البقر -شك إسحاق-. فأُعْطي ناقة عُشَرَاءَ، وقال: بارك الله لك فيها.
قال: فأتى الأقرع؛ فقال: أي شيء أحب إليك؟
قال شعر حسن، ويذهب عني الذي قد قَذِرَني الناس به. فمسحه فذهب عنه، وأُعْطِيَ شعراً حسناً.
فقال: أي المال أحب إليك؟
قال: البقر أو الإبل. فأُعْطِيَ بقرة حاملاً، قال: بارك الله لك فيها.


فأتى الأعمى؛ فقال: أي شيء أحب إليك؟ قال: أن يَرُدَّ الله إليَّ بصري فأبصر به الناس. فمسحه فردَّ الله إليه بصره.
قال: فأي المال أحب إليك؟
قال: الغنَم، فأُعْطِي شاة والدًا.
فأُنْتِجَ هذان، ووَلَّد هذا، فكان لهذا وادٍ مِن الإبل، ولهذا وادٍ مِن البقر، ولهذا وادٍ من الغنم.
قال: ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين قد انقطعت بي الحِبال في سفري، فلا بلوغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك بالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا أَتَبَلَّغُ به في سفري.
فقال: الحقوق كثيرة.
فقال: كأني أعرفك، ألم تكن أبرص يَقْذَرُك الناس، فقيرًا فأعطاك الله المال؟
فقال: إنما ورثت هذا المال كابرًا عن كابرٍ.
فقال: إن كنت كاذباً فصيَّرك الله إلى ما كنت.
وأتى الأقرعَ في صورته فقال له مثل ما قال لهذا، وردَّ عليه مثل ما ردَّ عليه هذا.
فقال: إن كنت كاذباً فصيّرك الله إلى ما كنت.
 قال: وأتى الأعمى في صورته، فقال: رجل مسكين وابن سبيل قد انقطعت بي الحِبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك بالذي ردَّ عليك بصرك شاة أَتَبَلَّغُ بها في سفري.
فقال: قد كنت أعمى فردَّ الله إليَّ بصري، فخُذْ ما شِئْت ودَعْ ما شِئْت، فوالله لا أَجْهَدُك اليوم بشيء أخذته لله.
فقال: أَمْسِكْ مالك؛ فإنما ابتُلِيتُم؛ فقد رضِيَ الله عنك، وسَخِط على صاحبيك".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے؛ ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک نابینا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بندوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ سب سے پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیاچیز پسند ہے؟ اُس کوڑھی نے جواب دیا کہ اچھا رنگ، اچھی جلد اور یہ کہ مجھ کو لاحق یہ مرض دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔
آپ ﷺ کہتے ہیں کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی، اس کا رنگ خوبصورت ہوگیا اور جلد بھی اچھی ہوگئی۔فرشتے نے پوچھا: کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرتے ہو؟۔ اس نے جواب دیا اونٹ یا پھر اس نے کہا گائے، اس بارے میں راوی اسحاق کو شک ہے۔ اُسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور فرشتے نے اسے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے۔
پھر فرشہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا عمدہ بال اور یہ کہ میرا یہ عیب ختم ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔
فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جس سے اس کا یہ عیب جاتا رہا اور اس کے عمدہ بال آگئے۔
فرشتے نے پوچھا کہ کس طرح کا مال تمہیں زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے یا اونٹ۔ چنانچہ اُسے حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے اس سےکہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے۔
پھر فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اندھے شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹادی۔
فرشتے نے پوچھا کہ کس طرح کا مال تمہیں زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بکریاں۔ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی۔
کوڑھی اور گنجے نے (اونٹ اور گائے کی) افزائش نسل کی اور اندھے نے بھی بکری کے بچے جنوائے۔ کوڑھی کے اونٹوں سے ایک وادی بھر گئی، گنجے کے گائے بیل سے ایک وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے ایک وادی بھر گئی۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتہ دوبارہ اپنی اُسی شکل وصورت میں کوڑھی کے یہاں گیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان واسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پھر تمہاری مدد کے بنا میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا، میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، اچھی جلد اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر میں اپنا سفر طے کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ حقوق بہت زیادہ ہیں ( اس لیے تمہارے لیے گنجائش نہیں)۔ فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے نفرت کیا کرتے تھے اور کیا تم فقیر نہیں تھے اور پھر تمہیں اللہ نے مال عطا کیا۔ اس نے کہا کہ یہ سارا مال و دولت تو مجھے اپنے آباء اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔
پھر فرشتہ اپنی اُسی شکل وصورت میں گنجے کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی کچھ کہا جو کوڑھی سے کہا تھا۔ اس گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو کوڑھی نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔
آپ ﷺ کہتے ہیں کہ اس کے بعد فرشتہ اپنی اُسی شکل وصورت میں اندھے کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور مسافر آدمی ہوں، سفر کے تمام اسباب ووسائل ختم ہوچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پھر تمہاری مدد کے بنا میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں۔اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بینائی عطا فرمائی۔ جتنی چاہو بکریاں لے لو اور جتنی چاہو چھوڑ دو۔اللہ کی قسم! آج اللہ کے لیے جو چیز بھی تم لو گے اسے لینے سے میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ یہ تو صرف تم لوگوں کا امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُ -صلى الله عليه وسلم- عن ثلاثة من بني إسرائيل أُصِيب كلٌّ منهم بعَاهَةٍ في الجسم، وفقر من المال، وهم: أبرص: به مرض ولون مختلف في جلده، وأقرع: ذهب شعر رأسه أو بعضه، وأعمى؛ فأراد الله أن يختبرهم ويمتحن إيمانهم وشكرهم؛ فأرسل إليهم ملكاً في صورة إنسان.
فأتى الملك إلى الأبرص، وقدَّم الأبرص لأن داءه أقبح وأشنع وأعظم، فقال له: أي شيء أحبّ إليك؟ قال: لون حسن وجلد حسن، وأن يذهب عني الداء الذي قد تباعد عني الناس بسببه، ولم يقتصر على طلب اللون الحسن؛ لأن جلد البرص يحصل له من التقلص والتشنج والخشونة ما يزيد به قبح صاحبه وعارِهِ. قال: فأي المال أحب إليك؟ قال: الإبل أو قال البقر. شك الراوي هل سمع الإبل أو البقر، والمرجح الإبل لكونه اقتصر عليها في قوله: فأعطي ناقة حاملًا أتى عليها من حملها عشرة أشهر من يوم أحملها، وهي من أنفس الإبل، وقال: بارك الله لك فيها. وقد استجيب دعاؤه كما في تتمة الحديث.
قال: فأتى الأقرع فقال: أيّ شيء أحبّ إليك؟ قال: شعر حسن، ويذهب عني هذا القرع الذي قد كرهني الناس بسببه. قال: فمسحه الملك، إما محل الداء فقط وهو الأقرب، أو جميع بدنه لتعمه بركته؛ فذهب عنه القرع وأعطى شعراً حسناً، قال الملك له: فأيّ المال أحب إليك؟ قال: البقر. فأعطي بقرة حاملاً. وقال: بارك الله لك فيها. وقد استجيب دعاؤه كما في تتمة الحديث.
قال: فأتى الأعمى فقال: أيّ شيء أحبّ إليك؟ قال: أن يرد الله إليّ بصري فأُبصربه الناس، قال: فأمرّ يده على عينيه، ويحتمل على جميع بدنه، والأول أقرب كما تقدم، فردّ الله إليه بصره. قال: فأي المال أحب إليك؟ قال: الغنم. فأعطي شاة ذات ولد، وقيل حاملاً، فتولى صاحبا الإبل والبقر ولادتها، وكذلك صاحب الغنم.
فكان لهذا واد مليءٌ من الإبل، ولهذا واد من البقر، ولهذا واد من الغنم.
قال: ثم إن الملك أتى الأبرص متصوراً في صورته التي كان عليها، وهيئته من رذالة الملبس ونحوها، فجاءه بعد أن صار معافى غنياً في الصورة التي قد جاءه فيها أول مرة، فقال: رجل مسكين محتاج، قد انقطعت بي الأسباب والوسائل في طلب الرزق في سفري؛ فلا وصول لي للمكان الذي أريده اليوم إلا بالله ثم بك لكونك مظهراً للخير غنيًّا، وهذا من الملك من المعاريض التي يقصد بها التوصل إلى إفهام المقصود من غير أن يراد حقيقتها. وقال: أقسم عليك مستعطفاً بـالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعد الابتلاء بالفقر والمرض بعيراً واحدًا أكتفي به في سفري. فقال الأبرص: الحقوق كثيرة عليَّ، فلا يوجد فاضل عن الحاجة لأعطيك إياه فانظر غيري. فقال الملك: كأني أعرفك، ألم تكن أبرص يكرهك الناس؛ فعافاك الله، فقيراً فأعطاك الله -عز وجل- المال؟ فقال: إنما ورثت هذا المال عن أبي وجدي. وحاصله إنكار تلك الحال السيئة ودعوى أنه نشأ في تلك الأحوال الحسنة، فهي غير متجددة عليه، وهذا من إنكار النعم وكفر المنعم، حمله عليه البخل. فقال الملك: إن كنت كاذباً في دعواك فصيَّرك الله وردك إلى الحالة التي كنت عليها.
قال: وأتى الأقرع في صورته التي يقذرها الناس وهيئته التي يحقرونها لرثاثتها، فإنه مع كونه أتى له في صورته وهيئته التي أتاه عليها أولاً وحصل له منه ما حصل من الشفاء والغنى أنكر معرفته وتجاهل به وتفاخر عليه بأنه إنما جاءه المال من أبيه، فضم إلى كذبه قبائح تنبىء عن أنه انتهى في اللؤم والحمق إلى غاية لم يصلها غيره. فقال له الملك مثل ما قال للأبرص وردّ الأقرع عليه مثل ما ردّ الأبرص. فقال الملك: إن كنت كاذباً فصيرك الله إلى ما كنت عليه من القرع والفقر.
قال: وأتى الأعمى متشكلاً في صورة آدمي أعمى وفي هيئته الأولى، فقال الملك: رجل مسكين وابن سبيل -أي: مسافر- انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك بالذي ردّ عليك بصرك شاةً أتبلغ -أي: أكتفي- بها في سفري. فقال ذلك الرجل متذكراً نعم الله -تعالى- عليه وحسن حاله بعد بؤسه: قد كنت أعمى فردّ الله إليّ بصري فخذ ما شئت من المال ودع ما شئت منه، فوالله لا أشق عليك اليوم في ردّ شيء أخذته، فقال الملك: أمسك مالك فإنما امتحنتم وعاملكم الله العالم بجميع الأمور معاملة المختبِر؛ ليترتب على عملكم أثره، إذ الجزاء إنما جعله الله مرتباً على ما يبدو في عالم الشهادة لا على ما سبق في علمه، فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك الأبرص والأقرع.
606;بی ﷺ بنی اسرائیل کے تین اشخاص کے بارے میں بتا رہے ہیں جن میں ہر ایک کو کوئی نہ کوئی جسمانی بیماری لاحق تھی اور وہ مالی طور پر تھی دست تھا۔ ان میں سے ایک کوڑھی تھا جو ایک بیماری میں مبتلا تھا اور اس کی جلد کا رنگ بدل چکا تھا۔ دوسرا گنجا تھا جس کے سر کے سارے یا کچھ بال اڑ چکے تھے اور تیسرا اندھا تھا ۔ اللہ تعالی نے انہیں پرکھنا چاہا اور ان کے ایمان اور شکر کا امتحان لینے کا ارادہ فرمایا۔ چنانچہ انسانی صورت میں ان کی طرف ایک فرشتہ بھیج دیا۔
فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا ۔ وہ سب سے پہلے کوڑھی کے پاس اس لیے آیا کیونکہ اس کی بیماری زیادہ قبیح، گندی اور بڑی تھی۔ فرشتے نے اس کوڑھی سے پوچھا کہ اسے کون سی شے زیادہ پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھی رنگت اور خوبصورت جلد اور یہ کہ میری یہ بیماری جاتی رہے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے دور رہتے ہیں۔ اس نے صرف اچھے رنگ پر ہی اکتفاء نہیں کیا کیونکہ کوڑھ زدہ جلد سکڑ اور اینٹھ جاتی ہے اور اس میں کھردرا پن آ جاتا ہے جس سے اس بیماری میں مبتلا شخص کی بد صورتی اور عیب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ فرشتے نے پوچھا تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟۔ اس نے جواب دیا: اونٹ یا پھر اس نے کہا کہ گائے۔ اس میں راوی کو شک ہے کہ آیا اس نے اونٹ سنا تھا یا گائے۔ راجح یہ ہے کہ یہ اونٹ ہی ہو کیونکہ اپنے اس قول میں اس نے صر ف اونٹنی کا ہی ذکر کیا ہے کہ: فأعطى ناقة حاملًا یعنی اُسے ایک ایسی حاملہ اونٹنی دے دی گئی جس کے حمل کو دس ماہ ہو چکے تھی۔ اونٹوں میں اس قسم کی اونٹنی سب سے قیمتی ہوتی ہے۔ پھر فرشتے نے دعا کی کہ اللہ تمہارے لیے اس میں برکت دے۔ فرشتے کی دعا قبول ہو ئی جیسا کہ بقیہ حدیث میں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور پوچھا: تمہیں کون سی شے سب سے زیادہ پسند ہے؟۔ اس نے جواب دیا: اچھے بال اور یہ کہ میرا یہ گنجا پن دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کہتے ہیں کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ یا تو صرف اس جگہ پر ہاتھ پھیرا جو بیماری زدہ تھا اور اسی کا زیادہ احتمال ہے یا پھر اس کے سارے بدن پر ہاتھ پھیرا تاکہ برکت اس کے سارے بدن کو عام ہو جائے۔ چنانچہ اس کا گنجا پن ختم ہوگیا اور اسے خوبصورت بال دے دیے گئے۔ پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ کون سا مال تمہیں زیادہ محبوب ہے؟ ۔ اس نے جواب دیا کہ گائے۔ اس پر اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے اسے دعا دی اللہ تعالی تمہارے لیےاس میں برکت دے۔ فرشتے کی دعا قبول ہوئی جیسا کہ بقیہ حدیث میں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کون سی شے زیادہ پسند ہے؟۔ اس نے جواب دیا یہ کہ اللہ تعالی مجھے میری بینائی واپس لوٹا دے اور میں لوگوں کو دیکھنا شروع کر دوں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں پر پھیرا ۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس کے سارے بدن پر ہاتھ پھیرا ہو تاہم پہلی بات کا زیادہ امکان ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے اسے اس کی بینائی لوٹا دی۔ پھر فرشتے نے دریافت کیا کہ تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ ۔اس نے جواب دیا بھیڑ بکریاں۔ اسے بچے والی ایک بکری دے دی گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک حاملہ بکری دے دی گئی۔ اونٹ اور گائے والے دونوں اشخاص نے ان کی افزائش نسل کی اور اسی طرح بکری والے نے بھی اس کی نسل آگے بڑھائی۔
چنانچہ کوڑھی کے اونٹوں سے پوری ایک وادی بھر گئی، گنجے کی گایوں سے ایک وادی بھر گئی نیز اندھے کی بھیڑ بکریوں سے بھی پوری ایک وادی بھر گئی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: پھر فرشتہ کوڑھی کے پاس اس کی سابقہ شکل اور ہیئت میں آیا بایں طور کہ اس نے گھٹیا قسم کے کپڑے پہن رکھے تھے وغیرہ ۔ صحت مند اور امیر ہو جانے کے بعد وہ فرشتہ اس کے پاس اسی شکل میں آیا جس شکل میں وہ پہلی دفعہ آیا تھا اور کہنے لگا کہ میں مسکین اور ضرورت مند آدمی ہوں، اپنے اس سفر کے دوران حصول رزق کی تلاش میں میرے تمام اسباب و وسائل منقطع ہو چکے ہیں ۔ میں آج اپنی منزل مقصود تک صرف اللہ کے سہارے اور اس کے بعد تمہارے تعاون سے پہنچ سکتا ہوں کیونکہ تم بھلے آدمی دکھائی دیتے ہو اور امیر ہو۔ فرشتے کی طرف سے یہ محض ایک توریہ تھا جس کا مقصد بات سمجھانا ہوتا ہے، ان باتوں کا حقیقی مفہوم مراد نہیں تھا۔ فرشتے نے کہا کہ میں اس ذات کی قسم دے کر تم سے رحم کی درخواست کرتا ہوں جس نے فقر وبیماری میں مبتلا رکھنے کے بعد تجھے خوش نما رنگ، خوبصورت جلد اور مال عطا کیا کہ مجھے ایک اونٹ دے دو جس سے میں اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔کوڑھی نے جواب دیا: میرے اوپر بہت سے حقوق ہیں۔ زائد از ضرورت کچھ ہے ہی نہیں کہ وہ میں تمہیں دے دوں ا س لیے میرے علاوہ کسی اور کو ڈھونڈو۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ کیا تم کوڑھی نہیں تھے جس سے لوگ گھن کھاتے تھے اور بعدازاں اللہ تعالیٰ نے تجھے صحت عطا فرمائی اور کیا تم فقیر نہیں تھے اور پھر اللہ عزّ و جلّ نے تمہیں مال سے نوازا؟۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے تو یہ مال اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس نے اپنی اس خستہ حالی کا بالکل انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ تو اچھے حالات ہی میں پلا بڑھا ہے اور یہ اس کے لیے نئے نہیں ہیں۔ یہ نعمت کا انکار اور اس ذاتِ منعم کی ناشکری تھی جس پر اسے بخل نے آمادہ کیا۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ اگر تم اپنے دعوے میں جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اسی حالت پر لوٹا دے جس پر تم پہلے تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی اس شکل و ہیئت میں آیا جس سے لوگ نفرت کھاتے تھے اور اس کی خستہ حالی کی وجہ سے اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ باجود اس کے کہ وہ اس کے پاس وہ اسی شکل و ہیئت میں آیا تھا جس پر وہ پہلی دفعہ آیا تھا اور جب اس کو صحت اور مال و دولت ملا تھا لیکن وہ اسے پہچاننے سے انکار کر بیٹھا اور اس سے انجان بن گیا اور یہ کہہ کر اس پر اظہار فخر بھی کیا کہ اسے تو یہ مال اس کے باپ کی طرف سے ملا ہے۔ اس نے اپنے جھوٹ کے ساتھ بہت سی دیگر بری باتوں کو بھی ملا لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھٹیاپن اور حماقت میں ایسی انتہاء کو پہنچ چکا تھا جہاں تک کوئی دوسرا نہیں پہنچا تھا۔فرشتے نے اس سے بھی وہی کچھ کہا جو کوڑھی سے کہا تھا اور گنجے نے اسے وہی جواب دیا جو کوڑھی نے دیا تھا۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پھر سے گنجا اور فقیر کر دے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ فرشتہ ایک اندھے آدمی کا روپ دھار کر پہلی والی ہیئت میں اس اندھے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں ۔ دورانِ سفر میرے تمام وسائل منقطع ہو چکے ہیں اور اب اللہ کے بعد تمہارے ہی ذریعے میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہوں۔ میں اس ذات کا واسطہ دے کر تم سے ایک بکری مانگتا ہوں جس نے تمہیں تمہاری بینائی لوٹائی تاکہ اس سے میں اپنی ضروریاتِ سفر پوری کر سکوں۔ اس آدمی نے اپنے اوپر ہو نے والی اللہ کی نعمت اور بد حالی کے بعد ملنے والی اپنی خوشحالی کو یاد کر تے ہوئے کہا کہ میں اندھا تھا پھر اللہ تعالی نے میری بینائی واپس لوٹا دی۔ تم جتنا مال چاہو لے لو اور جتنا چاہو چھوڑ دو۔ اللہ کی قسم! آج تم جو کچھ بھی لو گے اس کے سلسلے میں میں تجھے بالکل بھی تنگ نہیں کروں گا۔ فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ تم لوگوں کو پرکھا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے جو تمام امور سے باخبر ہے تمہارا امتحان لیا تھا، تا کہ تمہارے عمل پر اس کا اثر مرتب ہو سکے کیونکہ عمل کی جزا اسی شے پر مرتب ہوتی ہے جو عالم شہود میں ظہور پذیر ہو نہ کہ اللہ کے پیشگی علم پر۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں یعنی کوڑھی اور گنجے سے ناراض۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5926

 
 
Hadith   1109   الحديث
الأهمية: الله أكبر، إنها السُّنَنُ! قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو إسرائيل لموسى


Tema:

اللہ اکبر! یہی تو (گمراہی اور سابقہ قوموں کے) راستے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کہہ دی جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی۔

عن أبي واقد الليثي -رضي الله عنه- قال: خَرَجْنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إلى حُنَيْنٍ ونحن حُدَثاءُ عَهْد بكُفْرٍ، وللمشركين سِدْرَةٌ يَعْكُفُون عندَها، ويَنُوطُون بها أسلحتهم، يُقَالُ لها: ذاتُ أَنْوَاطٍ، فمَرَرْنا بسِدْرَةٍ فقلنا: يا رسول الله، اجعل لنا ذاتَ أَنْوَاطٍ كما لهم ذاتُ أَنْواطٍ؛ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «الله أكبر، إنها السُّنَنُ! قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو إسرائيل لموسى: {اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ} لتَرْكَبُنَ سُنَنَ من كان قَبْلَكم».

ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ حنین کے لیے نکلے اور ہم کفر کے زمانے سے ابھی بہت قریب سے گزرے تھے، کفار کا ایک بیری کا درخت تھا جہاں وہ جا کر رُکتے تھے اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، اسے ”ذات انواط“ کہا جاتا تھا چنانچہ راستے میں ہم لوگ ایک بیری کے درخت سے گزرے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! (ﷺ) ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اللہ اکبر! یہی تو (گمراہی اور سابقہ قوموں کے) راستے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کہہ دی جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلٰھًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾ کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجیے جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے. پھر نبی ﷺ نے فرمایا تم بھی پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُ أبو وَاقِد الليثي رضي الله عنه عن واقعة فيها عَجَبٌ ومَوْعِظَة: وهي أنهم غَزَوْا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبيلة هَوازِنَ، وكان دخولهم في الإسلام قريبًا؛ فخَفِيَ عليهم أمرُ الشرك، فلما رَأَوْا ما يَصْنَعُ المشركون مِن التَبَرُّك بالشجرة طلبوا مِن الرسول صلى الله عليه وسلم أن يَجْعَلَ لهم شجرة مثلَها؛ فكبَّر النبي صلى الله عليه وسلم استنكارًا، وتعظيمًا لله، وتَعَجُّبًا من هذه المقالة، وأخبَر أن هذه المقالة تُشْبِهُ مقالةَ قوم موسى له لـمَّا رَأَوْا مَن يَعْبُدُ الأصنام: {اجعل لنا إلها كما لهم آلهة}، وأن هذا اتباعٌ لطريقتهم، ثم أخبَر صلى الله عليه وسلم أن هذه الأمة ستَتَّبِع طريقة اليهود والنصارى، وتَسْلُك مناهجهم، وتَفْعَلُ أفعالهم، وهو خبر معناه الذَّمُّ والتحذير من هذا الفعل.
575;بو واقد لیثی رضی اللہ عنہ ایک واقعہ کی خبر دے رہے ہیں جو تعجب خیز بھی ہے اور نصیحت آموز بھی۔ وہ یہ ہے کہ انھوں نے آپ ﷺ کے ساتھ قبیلہ ھوازن سے جہاد کے لیے نکلے۔ ان کے اسلام لانے کا زمانہ قریب تھا جس کی وجہ سے ان پر شرک کا معاملہ ابھی مخفی تھا، جب انھوں نے دیکھا کہ مشرکین درخت سے تبرّک حاصل کررہے ہیں تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے بھی اسی طرح ایک درخت مقرر کردیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اس بات پر انکار اور تعجب کرتے ہوئے اللہ کی بڑائی کے طور پر تکبیر کہی اور فرمایا کہ یہ جملہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے جملے کی طرح ہے کہ جب انھوں نے بتوں کو دیکھا تو کہا ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلٰھًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ ”ہمارے لیے بھی اسی طرح کا خدا بنادیں جیسا کہ ان کا ہے“۔ یہ لوگ ان کی اتباع کر رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ امت عنقریب یہود و نصاریٰ کے راستے پر چلے گی، ان کا راستہ اختیار کرکے ان جیسے کام کرے گی۔ یہ خبریہ انداز میں کہا جارہا ہے جس کا مطلب اس کام سے روکنا اور مذمت بیان کرنا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5927

 
 
Hadith   1110   الحديث
الأهمية: أن رجلًا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: ما شاء الله وشئت، فقال: أجعلتني لله نِدًّا؟ ما شاء الله وَحْدَه


Tema:

ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا‘ کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا دیا؟! (ایسا نہیں بلکہ یوں کہا کرو کہ) جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رجلا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: ما شاء الله وشِئْتَ، فقال: «أجعلتني لله نِدًّا؟ ما شاء الله وَحْدَه».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا دیا؟!“ (ایسا نہیں بلکہ یوں کہا کرو کہ) جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا ابن عباس -رضي الله عنهما-: أن رجلًا جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- في أمر له فقال: ما شاء الله وشئت يا رسول الله، فأنكر عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا القول، وأخبره أن عَطْف مشيئة المخلوق على مشيئة الله بالواو شرك، لا يجوز للمسلم أن يتلفظ به، ثم أرشده إلى القول الحق، وذلك بأن يُفْرِد الله في مشيئته، ولا يَعْطِف عليه مشيئة أحد بأي نوع من أنواع العَطْف.
575;بنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ ﷺ نے اسے ایسا کہنے سے منع فرمایا کہ مخلوق کی مشیّت کا عطف ”واو“ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر کرنا شرک ہے، کسی مسلمان کے لیے ایسا کہنا جائز نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے حق بات کی طرف رہنمائی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی مشیّت میں یکتا جانو اور اس کی مشیّت کے ساتھ کسی اور کی مشیّت کو کسی طرح سے بھی نہیں جوڑا جا سکتا۔   --  [اس حديث کی سند حَسَنْ ہے۔]+ +[اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5928

 
 
Hadith   1111   الحديث
الأهمية: احرِصْ على ما يَنْفَعُكَ، واستَعِنْ بالله ولا تَعْجَزَنَّ، وإن أصابك شيءٌ فلا تَقُلْ: لو أنني فَعَلْتُ لكان كذا وكذا، ولكن قل: قَدَرُ الله، وما شاء فَعَلَ، فإن «لو» تَفْتَحُ عَمَلَ الشيطانِ


Tema:

جو چیز تمھیں نفع پہنچانے والی ہو، اس کی حرص رکھو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور عاجز نہ بنو۔ اگر تمھیں کوئی مصبیت آن پہنچے، تو یوں نہ کہوکہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا، تو ایسا اور ایسا ہوجاتا، بلکہ یوں کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے؛ کیوںکہ لفظِ اگر شیطان کی در اندازی کا دروازہ کھولتا ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «احرِصْ على ما يَنْفَعُكَ، واستَعِنْ بالله ولا تَعْجَزَنَّ، وإن أصابك شيء فلا تقُلْ: لو أنني فعلت لكان كذا وكذا، ولكن قل: قَدَرُ الله، وما شاء فعل، فإن «لو» تفتح عمل الشيطان».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو چیز تمھیں نفع پہنچانے والی ہو، اس کی حرص رکھو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور عاجز نہ بنو۔ اگر تمھیں کوئی مصبیت آن پہنچے، تو یوں نہ کہوکہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا، تو ایسا اور ایسا ہوجاتا، بلکہ یوں کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے؛ کیوںکہ لفظِ اگر شیطان کی در اندازی کا دروازہ کھولتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الإسلام يدعو إلى عُمران الكَوْن وإصلاح المجتمع أَمَر رسول الله صلى الله عليه وسلم كل مسلم بالعمل الجاد والتحصيل مستعينا على تحقيق ذلك بالله عزوجل، متجنبا للعجز ومواطنه، وأن لا يفتح على نفسه باب اللَّوْم والنَّدَم إذا فاته المطلوب؛ لأن ذلك يَجُرُّه إلى السَّخَط والجَزَع، وإنما يُفَوِّض أمره إلى الله، ويُعَلِّل نَفْسَه بالقضاء والقدر حتى لا يكون للشيطان عليه سبيلٌ، فيَسْتَفِزُّه ويُزَعْزِع إيمانه بالله عزوجل وبقضائه وقدره.
670;وں کہ اسلام اس کرہ ارضی کو آباد کرنے اور معاشرے کی اصلاح کی دعوت دیتا ہے؛ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کو اللہ کی مدد کا طالب رہتے ہوئے پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں عجزو بے کسی اور اس کے اسباب سے دور رہنے کا حکم فرمایا اور یہ کہ اگر مقصد حاصل نہ ہو سکے، تو اپنے آپ پر ملامت و ندامت کا دروازہ نہ کھولے؛ کیوں کہ اس سے ناراضگی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ اس صورت میں مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کر دے اور قضا و قدر پر ایمان کے ساتھ اپنے آپ کو تسلی دے؛ تاکہ کہیں یہ نہ ہو کہ شیطان کو در آنے کا موقع مل جائے اور وہ اسے بھڑکا کر اللہ عز وجل اور اس کی قضا و قدر پر اس کے ایمان کو متزلزل کر دے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5929

 
 
Hadith   1112   الحديث
الأهمية: إن أَخْنَعَ اسمٍ عندَ الله رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاك، لا مالك إلا الله


Tema:

اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس شخص کا ہے، جو 'مَلِکَ الاَمْلاک' (شہنشاہ) نام رکھے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (حقیقی) مالک نہیں۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن  أَخْنَعَ اسم عند الله رجل تسمى ملك الأملاك، لا مالك إلا الله».
 وفي رواية: «أَغْيَظُ رجل على الله يوم القيامة، وأخبثه وأَغْيَظُه عليه، رجل كان يسمى ملك الأملاك، لا مَلِكَ إلا الله».
قال سفيان: «مثل شَاهَانْ شَاهْ»، وقال أحمد بن حنبل: سألت أبا عمرو عن أَخْنَع؟ فقال: «أَوْضَع».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین نام اس شخص کا ہے،جو 'مَلِکَ الاَمْلاک' نام رکھے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (حقیقی) مالک نہیں“۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:”قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ ناراضگی کا سزاوار اور سب سے زیادہ خبیث وہ شخص ہوگا، جس کو دنیا میں 'مَلِکَ الاَمْلاک' کہا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں“۔
سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”جیسے شاہان شاہ“۔
احمد بن حنبل فرماتے ہیں میں نے ابو عَمرو سے اَخْنَع کے معنی دریافت کیے تو انھوں نے اس کے معنی”سب سے زیادہ گھٹیا“ بتلائے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخبر -صلى الله عليه وسلم- أن أوضع وأحقر الناس عند الله -عز وجل- من تسمى باسم يحمل معنى العظمة والكبرياء التي لا تليق إلا بالله -تعالى-، كملك الملوك؛ لأن هذا فيه مضاهاة لله، وصاحبه يدعي لنفسه أو يُدَّعى له أنه ند لله؛ فلذلك صار المتسمي بهذا الاسم أبغض الناس إلى الله وأخبثهم عنده، ويحتمل المعنى أنه من أبغض الناس.
ثم بيّن -صلى الله عليه وسلم- أنه لا مالك حقيقة للكون وما فيه من مالك ومملوك إلا الله -عز وجل-، ولعل في هذا الحديث موعظة وذكرى للذين يطلقون الأسماء والألقاب على الأشخاص؛ من غير أن يفهموا معناها ومدلولها، حتى لا يقعوا فيما حذر منه هذا الحديث، والله المستعان.
606;بی کریم ﷺ اس حدیث مبارک میں اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے کم تر اور حقیر وہ لوگ ہیں، جنھیں ایسے نام سے پکارا جاتا ہو، جس میں عظمت اور کبریائی کا معنی و مفہوم ہو، جوصرف اللہ تعالیٰ ہی کے ل لائق و زیبا ہے۔ جیسے 'ملک الاملاک' یعنی شہنشاہ؛ کیوںکہ اس طرح کے ناموں سےاللہ تعالیٰ سے مقابلہ آرائی کی بو آتی ہے۔ ایسے نام رکھنے والا یا تو خود اپنے حق میں یا دوسرے اس کے حق میں اللہ تعالی کے مد مقابل ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نام سے موسوم شخص، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس کے نزدیک سب سے زیادہ خبیث قرار پاتا ہے۔ اس حدیث میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ ومکروہ لوگوں میں سے ہے۔
پھر آپ ﷺ نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ کائنات اور اس میں پائے جانے والے ہر قسم کے مالک و مملوک کا حقیقی مالک اللہ تبارک و تعالی ہی ہے۔ اس حدیث میں ان افراد کے لئے بھی موعظت اور نصیحت کا سامان ہے، جو مخصوص افراد کے لیے اسما اور القاب کا استعمال ان کے معانی اور تقاضوں کو سمجھے بغیر کرتے رہتے ہیںکہ کہیں وہ اس حدیث میں مذکور وعید کے مستحق و سزاوارنہ ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مددگار ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5930

 
 
Hadith   1113   الحديث
الأهمية: أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يومَ القيامة الذين يُضَاهِئُون بخَلْقِ الله


Tema:

قیامت کے دن سے سے سخت عذاب ان لوگزں کو ہوگا جو اللہ تعالی کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں۔

عن عائشة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يومَ القيامة الذين يُضَاهِئُون بخَلْقِ الله».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن سے سے سخت عذاب ان لوگزں کو ہوگا جو اللہ تعالی کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- خَبَرًا معناه النَّهْيُ والزَّجْرُ: أن أولئك الـمُصَوِّرين لذوات الأرواح، الذين في تصويرهم مُشَابَهَة الله في خَلْقه، هم أَشَدُّ النَّاس عَذَابًا يوم القيامة، وأَعْظَمُهم عُقُوبةً؛ لأنهم أَقْبَحُ النَّاس أَدَبًا مع الله، وأَجْرَأهم على مَحَارِم الله؛ لذا استَحَقُّوا ما ذُكِرَ مِن العذاب جَزَاءً وِفَاقًا.
606;بی ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں جو در حقیقت منع کرنے اور ڈانٹنے کے معنی میں ہے کہ ذی روح (جاندار) اشیاء کی تصویر بنانے والے لوگ، جن کی تصویر کشی میں اللہ تعالی کی تخلیق سے مشابہت پائی جاتی ہے قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب دیے جانے والے اور سب سے سخت سزا پانے والے ہوں گے، اس لیے کہ یہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کی بے ادبی کرنے والے ہیں اور اس کی حرام کردہ اشیاء کے مرتکب ہونے کی جرءت کرنے والے ہیں۔ چنانچہ پورا پورا بدلہ دیے جانے کے اعتبار سے یہ لوگ مذکورہ عذاب کے مستحق ٹھہرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5931

 
 
Hadith   1114   الحديث
الأهمية: مَن نزَل مَنْزِلًا فقال: أعوذ بكلمات الله التَّامَّات من شرِّ ما خلَق، لم يَضُرَّه شيءٌ حتى يَرْحَلَ مِن مَنْزِله ذلك


Tema:

جو شخص کسی جگہ ٹھہرے اور یہ دعا پڑھے: ”أَعُوذُ بِكَلِمات اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ“ (میں اللہ تعالی کی مخلوق کے شر سے اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں) تو اس کے وہاں سے روانہ ہونے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔

عن خولة بنت حكيم -رضي الله عنها- مرفوعًا: «مَن نزَل مَنْزِلًا فقال: أعوذ بكلمات الله التَّامَّات من شرِّ ما خلَق، لم يَضُرَّه شيءٌ حتى يَرْحَلَ مِن مَنْزِله ذلك».

خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی جگہ ٹھہرے اور یہ دعا پڑھے: ”أَعُوذُ بِكَلِمات اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ“ (میں اللہ تعالی کی مخلوق کے شر سے اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں) تو اس کے وہاں سے روانہ ہونے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أُمَّتَه إلى الاستعاذة النافعة التي يندفع بها كل محذور يخافه الإنسان عندما ينزل بقعة من الأرض سواء في سفر أو نزهة أو غير ذلك: بأن يستعيذ بكلام الله الشافي الكافي السالم من كل عيب ونقص؛ لِيَأْمَنَ في منزله ذلك ما دام مقيمًا فيه مِن كل ما يؤذي.
606;بیﷺ اپنی امت کو بہترین اور نفع بخش استعاذہ سکھا رہے ہیں جس کے ذریعہ ہر اس چیز کو دور کیا جاسکتا ہے جس سے انسان خوف کھاتا ہے، جبکہ وہ سفر یا تفریح وغیرہ کے دوران کسی جگہ پڑاؤ کرتا ہے۔ بایں طور کہ انسان اللہ تعالی کے اس کلام کے ذریعہ پناہ چاہے جو کہ شافی وکافی ہے اور ہر عیب ونقص سے پاک ہے کہ وہ اپنی اس جگہ میں جب تک ٹھہرے رہے تمام اذیت رساں اشیاء سے امن وامان میں رہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5932

 
 
Hadith   1115   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمَّر أميرًا على جَيْش أو سَرِيَّة أَوْصَاه بتَقْوَى الله، ومَن معه مِن المسلمين خيرًا


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ خیر و بھلائی کی وصیت فرماتے۔

عن بُرَيْدَة بن الحُصَيب الأَسْلَمِيّ -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمَّر أميرًا على جَيْش أو سَرِيَّة أَوْصَاه بتَقْوَى الله، ومَن معه مِن المسلمين خيرًا، فقال: "اغْزُوا بسم الله في سبيل الله، قاتِلُوا مَن كَفَر بالله، اغْزُوا ولا تَغُلُّوا ولا تَغْدِروا ولا تُـمَثِّلُوا ولا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وإذا لَقِيتَ عَدُوَّك مِن المشركين فادْعُهم إلى ثلاث خِصال -أو خِلال-، فأيَّتُهُنَّ ما أجابوك فاقْبَلْ منهم وكُفَّ عنهم، ثم ادْعُهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقْبَلْ منهم.
ثم ادْعُهم إلى التَّحَوُّل مِن دارهم إلى دار المهاجرين، وأَخْبِرْهم أنهم إن فَعَلُوا ذلك فلهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين، فإن أَبَوْا أن يَتَحَوَّلُوا منها فأَخْبِرْهم أنهم يكونون كأَعْرَاب المسلمين يَجْرِي عليهم حُكْمُ الله تعالى، ولا يكون لهم في الغَنِيمَة والفَيْء شيءٌ إلا أن يُجَاهِدُوا مع المسلمين، فإن هم أَبَوْا فاسْأَلْهم الجِزْيَةَ، فإن هم أجابوك فاقْبَلْ منهم وكُفَّ عنهم، فإن هم أَبَوْا فاستَعِن بالله وقَاتِلْهم.

وإذا حاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فأرادُوك أن تَجْعَلَ لهم ذِمَّةَ الله وذِمَّةَ نَبِيِّه، فلا تَجْعَلْ لهم ذِمَّةَ الله وذِمَّةَ نَبِيِّه، ولكن اجْعَلْ لهم ذِمَّتَك وذِمَّةَ أصحابك؛ فإنكم أن تُخْفِرُوا ذِمَمَكم وذِمَّةَ أصحابكم أَهْوَنُ مِن أن تُخْفِرُوا ذِمَّةَ الله وذِمَّةَ نَبِيِّه، وإذا حاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فأرادُوك أن تُنْزِلَهم على حُكْم الله فلا تُنْزِلْهم، ولكن أَنْزِلْهم على حُكْمِك، فإنك لا تَدْرِي أَتُصِيبُ فيهم حُكْمَ الله أم لا".

بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ خیر و بھلائی کی وصیت کرتے اور فرماتے: ’’اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کےساتھ قتال کرو۔ جہاد کرو لیکن خیانت نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ اور جب مشرک دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو اسے تین میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کی دعوت دو۔ وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کر لیں، تم اسے ان کی طرف سے تسلیم کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ سب سے پہلے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم بھی اسے قبول کرلو
پھر انہیں اپنے علاقے سے دارالمہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو مہاجرین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر وہ ہجرت سے انکار کر دیں (اور اپنے علاقے ہی میں رہنے کو ترجیح دیں) تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی (بدوی) مسلمانوں کی مانند شمار ہوں گے اور ان پر اللہ کا حکم جاری ہوگا، اور مالِ غنیمت و مالِ فے میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوں۔ اگر وہ اس سے (یعنی اسلام لانے سے) انکار کر دیں تو انہیں جزیہ دینے کے لیے کہو۔ اگر وہ اسے تسلیم کرلیں تو تم اسے ان کی طرف سے قبول کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کر دیں تو پھر اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی شروع کرو۔
اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرلو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ (امان کا عہد) طلب کریں تو تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ (امان کا عہد) نہ دو، بلکہ تم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ (امان کا عہد) دو۔ کیوں کہ تمہارا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑنے سے بہت ہلکا ہے۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرلو اور اس قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم (فیصلے) پر ہتھیار ڈالنے دو تو تم ایسا نہ کرنا، بلکہ انہیں اپنے حکم (فیصلے) پر ہتھیار ڈالنے دینا، کیوں تمہیں نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں تم اللہ کے فیصلے کو پہنچتے ہو یا نہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر بريدة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أرسل جيشًا أو سريةً لقتال الكفار أمر عليهم أميرًا يحفظ وحدتهم ويصلح شؤونهم، ثم أوصاه بتقوى الله وبمن معه خيرًا، وأرشدهم إلى ما يجب أن يسلكوه مع الأعداء، وأن يتجنبوا الغلول والغدر والتمثيل وقتل غير المكلفين، وأن عليهم أن يبدؤوا المشركين بالدعوة إلى الإسلام، فإن استجابوا لذلك فليحثوهم على الهجرة إلى المدينة ويعلموهم أن لهم ما للمهاجرين السابقين وعليهم ما على المهاجرين من الحقوق والواجبات، فإن أبوا الهجرة فإنهم يعاملون معاملة أعراب المسلمين، فإن أبوا الإسلام فليطلبوا منهم الجزية، فإن أبوا دفعها فليستعينوا بالله وليقاتلوهم، وإذا حاصروا أهل حصن فلا يعطوهم عهد الله وعهد رسوله، وإنما يعطونهم عهدهم، فإن تعريض عهدهم للنقض أخف إثمًا من تعريض عهد الله وعهد رسوله لذلك، وإذا طلبوا منهم أن يحكموا فيهم بحكم الله فلا يحكمون بحكمٍ ويجعلونه حكم الله، فإنهم قد لا يصيبون فيهم حكم الله -تعالى-، وإنما يعاملونهم على حكم أنفسهم واجتهادهم.
576;ریدہ رضی اللہ عنہ خبردے رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر یا سریہ (فوجی دستہ) کو کفار سے جہاد کرنے کے لیے روانہ فرماتے تو ان کا ايک امیر مقرر فرماتے جو ان کی وحدت و اجتماع کی حفاظت کرتا اور ان کے معاملات کو درست رکھتا۔ پھر اسے اللہ سے ڈرنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت فرماتے، اور ان کی اس بات کی طرف رہنمائی کرتے کہ انھیں دشمنوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا چاہیے، اور انھیں خیانت، عہد شکنی، مثلہ کرنے اور غیر مکلف لوگوں کو قتل کرنے سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے، اور انھیں یہ ہدایت دیتے کہ مشرکين کو سب سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کریں. اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دیں اور انہیں بتائیں کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے لیے وہی حقوق و واجبات ہوں گے جو پہلے ہجرت کرنے والوں کے ہیں، اگر وہ ہجرت سے انکار کر دیں تو ان کے ساتھ دیہاتی مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کردیں تو ان سے جزیہ طلب کریں۔ اگر وہ لوگ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو اللہ کی مدد کے بھروسے ان سے جہاد و قتال کریں۔ اور اگر وہ کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کریں تو انہیں اللہ کا عہد اور اس کے رسول کا عہد و پیمان نہ دیں، بلکہ انہیں اپنا عہد و پیمان دیں، کیوں کہ اپنے عہد کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑنے کے مقابلے میں کم گناہ کا باعث ہے۔ اور جب وہ اپنے لیے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کا مطالبہ کریں تو وہ کسی حکم کے ذریعہ فیصلہ کرکے اسے اللہ کا حکم نہ بنائیں۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں اللہ کے حکم کو نہ پہنچ سکیں۔ بلکہ ان کے ساتھ خود اپنے فیصلے اور اجتہاد کے مطابق معاملہ کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5933

 
 
Hadith   1116   الحديث
الأهمية: ألا أَبْعَثُك على ما بَعَثَني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أن لا تَدْعَ صُورَةً إلا طَمَسْتَها، ولا قَبْرًا مُشْرِفًا إلا سَوَّيْتَه


Tema:

کیا میں تمہیں اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کام کے لیے مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا؟ (وہ یہ ہے کہ) کوئی بھی مجسمہ نہ جھوڑنا مگر اسے مٹا دینا، اور نہ کوئی اونچی قبر چھوڑنا مگر اسے زمین کے برابر کر دینا۔

عن أبي الهياج الأسدي قال: قال لي علي -رضي الله عنه-: «ألا أَبْعَثُك على ما بَعَثَني عليه رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ أن لا تَدْعَ صُورَةً إلا طَمَسْتَها، ولا قَبْرًا مُشْرِفًا إلا سَوَّيْتَه».

ابوالھیاج اسدی سے روات ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس کام کے لیے مجھے رسول اللہﷺ نے بھیجا تھا؟ (وہ یہ ہے کہ) کوئی بھی مجسمہ نہ جھوڑنا مگر اسے مٹا دینا، اور نہ کوئی اونچی قبر چھوڑنا مگر اسے زمین کے برابر کر دینا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الإسلام حريص على سَدِّ كلِّ باب يُؤَدِّي إلى الشرك خَفِيًّا أو ظاهرًا، وقد أخبرنا عليٌّ -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أَرْسَله وأَمَرَه بأن يَمْحُوَ كلَّ صُورَة وَجَدَها؛ لما فيها من الـمُشابهة لخَلْق الله -تعالى-، والافتِتَان بها بتعظيمها؛ مما يَؤُول بأصحابها إلى الوَثَنِيَّة.
وأن يَهْدِم كلَّ بِنَاءٍ بُنِيَ على قَبْرٍ أو رفع أكثر من القدر المشروع؛ لما في تَعْلِيَتها من الافتتان بأصحابها، واتخاذهم شركاء لله في العبادة والتعظيم.
608;ذلك ليَبْقَى للمسلمين إسلامُهم، وتَصْفُوَ عقيدتُهم؛ وذلك لأن تصوير الصُّوَر والبِنَاءَ على القَبْر يُؤَدِّي إلى تعظيمها وتقديسها ورَفْعها فوق مَنْزِلَتها، وإعطائها حقًّا مِن حُقُوق الله -تعالى-.

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5934

 
 
Hadith   1117   الحديث
الأهمية: اتقوا الله في هذه البهائم المُعْجَمة، فاركَبُوها صالحة، وكُلُوها صالحة


Tema:

ان بے زبان جانوروں کے سلسلے میں الله سے ڈرو۔ لہٰذا مناسب طریقے سے ان پر سواری کرو اور معروف طریقے سے ان کو کھاؤ۔

عن سهل بن عمرو -رضي الله عنه- قال: مرَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ببعير قد لَحِق ظَهْرُه ببَطْنِهِ، فقال: «اتقوا الله في هذه البهائم المُعْجَمة، فاركَبُوها صالحة، وكُلُوها صالحة».

سہل بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ کا ایک اونٹ کے پاس سے گزر ہوا، جس کا پیٹ (بھوک کی وجہ سے) اس کی پشت سے مل گیا تھا، آپ ﷺ نے (اس کی یہ حالت دیکھ کر) فرمایا: ”ان بے زبان جانوروں کے سلسلے میں الله سے ڈرو۔ لہٰذا مناسب طریقے سے ان پر سواری کرو اور معروف طریقے سے ان کو کھاؤ“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- بعيرًا قد لصق ظهرُه ببطنه من شدة الجوع، فأمَر -صلى الله عليه وسلم- بالرِّفْق بالبهائم، وأنه يجب على الإنسان أن يعاملها معاملة حسنة فلا يُكَلِّفها ما لا تستطيع، ولا يُقَصِّر في حقِّها في أَكْل أو شُرْب، فإن ركبها بعد كانت صالحة للركوب، وإن أكلها كانت صالحة للطعام.
606;بی کریم ﷺ نے ایک اونٹ کو دیکھا جس کی کمر شدتِ بھوک کی وجہ سے اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ تو آپ ﷺ نے جانوروں کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم فرمایا۔ لہذا ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ اور ان کے کھانے پینے میں کوتاہی نہ کرے۔ اس (ان کا خیال رکھنے) کے بعد اگر وہ ان پر سواری کرے گا تو وہ سواری کے لائق ہوں گے اور اگر ان کو کھائے گا تو وہ کھانے کے لائق ہوں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5935

 
 
Hadith   1118   الحديث
الأهمية: الحَلِفُ مَنْفَقَةٌ للسِّلْعة، مَمْحَقَةٌ للكَسْب


Tema:

قسم کھانا‘ سامان تجارت کی فروخت کا ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «الحَلِفُ مَنْفَقَة للسلعة، مَمْحَقَة للكسب».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”قسم کھانا‘ سامان تجارت کی فروخت کا ذریعہ تو ہے مگر اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُحَذِّر -صلى الله عليه وسلم- من التّهاون بالحَلِف، وكثرة استعماله؛ لترويج السِلع، وجلب الكسب؛ فإن البائع إذا حلف على سلعة وهو كاذب؛ فقد يظنه المشتري صادقا فيما حلف عليه، فيأخذها بزيادة على قيمتها تَأَثُّرًا بيمين البائع،  فيُعَاقَب بمحق البركة، وربما ذهب رأس المال والربح معا؛ فإن ما عند الله لا يُنَالُ بمعصيته، والإكثار من الحلف تنقص لتعظيم الله، وذلك ينافي التوحيد.
606;بی ﷺ قسم کھانے کو معمولی سمجھنے اور سامانِ تجارت کو بیچنے اور کمائی کرنے کی خاطر کثرت سے قسم کھانے سے ڈرا رہے ہیں۔ اس لیے کہ بائع جب کسی سامان پر جھوٹی قسم کھاتا ہے تو خریدنے والا بائع کی قسم کھانے کے سبب اسے اپنی قسم میں سچا سمجھتے ہوئے اس سامان کو زائد قیمت میں خرید لیتا ہے، چنانچہ اس کی پاداش میں برکت ختم ہو جاتی ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ منافع کے ساتھ ساتھ حقیقی قیمت بھی ضائع ہو جائے۔ یقیناً جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے اسے اس کی نافرمانی کے ذریعہ حاصل نہیں کرسکتے۔ بکثرت قسم کھانا اللہ تعالی کی تعظیم میں کمی کرتی ہے جو کہ توحید کے منافی ہے۔   --  [صحیح]+ +[حدیث متفق علیہ اور یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5936

 
 
Hadith   1119   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا سافر يَتَعَوَّذ مِن وَعْثاء السَّفَر، وكآبة الـمُنْقَلَب، والحَوْر بعد الكَوْن، ودعوة المظلوم، وسُوء الـمَنْظَر في الأهل والمال


Tema:

اللہ کے رسول ﷺ جب سفر کرتے، تو سفر کی دشواری، لوٹنے کے وقت کے رنج و غم، خوش حالی کے بعد بدحالی، مظلوم کی بد دعا اور گھر بار اور مال میں بری صورت حال سے پناہ مانگتے تھے۔

عن عبد الله بن سَرْجِس -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا سافر يَتَعَوَّذ مِن وَعْثاء السَّفَر، وكآبة الـمُنْقَلَب، والحَوْر بعد الكَوْن، ودعوة المظلوم، وسُوء الـمَنْظَر في الأهل والمال.

عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ جب سفر کرتے، تو سفر کی دشواری، لوٹنے کے وقت کے رنج و غم، خوش حالی کے بعد بدحالی، مظلوم کی بد دعا اورگھر بار اور مال میں بری صورت حال سے پناہ مانگتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يتعوذ بالله من شِدَّة السَّفَرِ، أو أن يعود من سفره حزينًا قد أصابه مكروهٌ في أهله أو ماله، ويتعوذ بالله كذلك من فساد الأحوال، ويدعو الله أن يُنَجِّيَهُ الله من دعوة المظلوم.
606;بی ﷺ سفر کی سختی اور سفر سے ایسی واپسی سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے کہ خود غم زدہ ہوں اور اپنے مال یا اولاد کو ناپسندیدہ حالت میں پائیں۔ اسی طرح بری صورت حال سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور اللہ سے مظلوم کی بددعا سے بچنے کی دعا مانگتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5937

 
 
Hadith   1120   الحديث
الأهمية: الراكب شيطان، والراكبان شيطانان، والثلاثة رَكْب


Tema:

اکیلا سوار ایک شیطان ہے، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ہوں تو قافلہ بنتا ہے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما مرفوعًا: «الراكب شيطان، والراكبان شيطانان، والثلاثة رَكْب».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اکیلا سوار ایک شیطان ہے ، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ہوں تب قافلہ بنتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث التنفير من سفر الواحد، وكذلك من سفر الاثنين، وهذا في الأماكن الخالية التي لا يمر عليها أحدٌ، والترغيب في السفر في صُحْبة وجماعة، أما الواحد فظاهر، وذلك حتى يجد من يساعده إذا احتاج أو إذا مات وحتى لا يصيبه كَيْدُ الشَّيْطانِ، وأما الاثنين فربما أصاب أحدهما شيء فيبقى الآخر منفردًا، وأما في زماننا فالسفر بالسيارة ونحوها في الطرق السريعة المأهولة بالمسافرين فلا يعد السفر فيها وحدة ولا يكون الراكب شيطانًا؛ لأنَّ هؤلاء المسافرين كالقافلة، مثل الطريق بين مكة والرياض أو مكة وجدة، ولكن في الطرق المنقطعة غير المعمورة بالمسافرين يعد وحدة ويكون داخلًا في هذا الحديث.
575;س حدیث میں اکیلے ایک شخص کو اور دو اشخاص کو سفر پر جانے سے ڈرایا گیا ہے ۔ تاہم اس کا تعلق اس سفر سے ہے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔ اس حدیث میں کسی کے ساتھ یا پھر گروہ کی شکل میں سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ انسان شیطان کی چالوں سے محفوظ رہے۔ جہاں تک تنہا سفر نہ کرنے کی بات ہے تو یہ جگ ظاہر ہے، بوقتِ ضرورت انسان کو دوسرے کی مدد در پیش ہوتی ہے، یا ہوسکتا ہے کہ راستے ہی میں اس کا انتقال ہوجائے (اور وہ بے یارومددگار ہوجائے) نیز تاکہ وہ شیطان کی چالبازی کا شکار نہ ہوجائے۔ جہاں تک صرف دو لوگوں کے سفر پر نکلنے کی ممانعت ہے تو اس میں علت یہ ہوسکتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کوئی راستے میں کام آجائے (یا بیمار ہوجائے) تو دوسرا شخص تنہا ہوسکتا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں کسی (شخص کا تنہا) موٹر کار میں سفر کرنا ایسے راستوں (روٹس) پر جو چالو ہو (بیابان نہ ہو) تو وہ تنہا سفر کرنے کی ممانعت میں شامل نہیں نہ ہی اُس اکیلے سوار مسافر کو شیطان کہا جائے گا، اس لیے کہ اپنی اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والے گویا قافلے کی شکل میں ہوتے ہیں، مثال کے طور پر جیسے مکہ اور ریاض یا مکہ اور جدہ کے مابین کے راستے ہیں، تاہم ایسے راستے جو غیر آباد (چالو نہ) ہوں، اُن پر گاڑی میں بھی سفر کرنا اکیلے سفر کرنے کی ممانعت کے ضمن میں آئے گا اور وہ سوار اِس حدیث کے حکم میں داخل ہوگا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5938

 
 
Hadith   1121   الحديث
الأهمية: إذا رَفَعَ رَأْسَه مِن الرُّكوع في الركعة الأخيرة مِن الفَجْر قال: اللهمَّ الْعَنْ فُلانًا وفُلانًا، بعدَما يقول: سَمِعَ الله لمن حَمِدَه رَبَّنا ولك الحَمْدُ، فأنزل الله: (لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ)


Tema:

جب آپ ﷺ فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے تو ”سَمِعَ الله لمن حَمِدَه“ اور”رَبَّنا ولك الحَمْدُ“ کہنے کے بعد فرماتے:”اللهمَّ الْعَنْ فُلانًا وفُلانًا“(اے اللہ فلاں اور فلاں پر لعنت فرما)۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ...﴾

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إذا رَفَعَ رَأْسَه مِن الرُّكوع في الركعة الأخيرة مِن الفَجْر: «اللهمَّ الْعَنْ فُلانًا وفُلانًا». بعدَما يقول: «سَمِعَ الله لمن حَمِدَه رَبَّنا ولك الحَمْدُ». فأنزل الله: (لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ ...) الآية.
وفي رواية: يَدْعُو على صَفْوَانَ بنِ أُمَيَّةَ، وسُهيْلِ بن عَمْرٍو، والحارث بن هشام، فنَزَلَتْ: (لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ).

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انھوں نےرسول اللہ ﷺ کو سنا کہ جب آپ ﷺ فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے تو ”سَمِعَ الله لمن حَمِدَه“ اور”رَبَّنا ولك الحَمْدُ“ کہنے کے بعد فرماتے:”اللهمَّ الْعَنْ فُلانًا وفُلانًا“(اے اللہ فلاں اور فلاں پر لعنت فرما)۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ...﴾ ”اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں...“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: آپ ﷺ صفوان بن امیہ، سہیل بن عَمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بد دعا کرتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ...﴾۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُنا عبدُ الله بن عمرَ -رضي الله عنهما- في هذا الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا رفَع رَأْسَه مِن الرُّكوع في الركعة الأخيرة مِن الفَجْر، وبعدَ قوله: «سمِع اللهُ لمن حَمِده»، يقنت على بعضَ رُؤَساء المشركين، ورُبَّما سمَّاهم بأسمائهم، آذَوْه يومَ أُحُدٍ، ويلعنهم بأسمائهم؛ فأَنْزَل الله عليه مُعَاتِبًا له آيةً تَمْنَعُه من ذلك: {ليس لك من الأمر شيء}؛ وذلك لما سَبَقَ في علم الله مِن أنهم سيُسْلِمُون، وسيَحْسُن إسلامُهم.
593;بد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر کو اٹھاتے، تو ”سمع الله لمن حمده“ کہنے کے بعد مشرکین کے کچھ سرکردہ افراد کے خلاف دعا کرتے۔ بسا اوقات آپ ﷺ ان کے نام بھی لیتے۔ ان لوگوں نے جنگ احد میں آپ ﷺ کو اذیت دی تھی۔ آپ ﷺ ان کا نام لے کر ان پر لعنت کرتے۔ اس پر اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی سرزنش کرتے ہوئے ایک آیت نازل فرمائی، جس میں آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ﴾ ”اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں“۔ منع اس لیے کیا گیا، کیوںکہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ لوگ عنقریب اسلام قبول کر کے بہت اچھے مسلمان بن جائیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5940

 
 
Hadith   1122   الحديث
الأهمية: اللهم بارك لأمتي في بُكُورها


Tema:

اے اللہ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصے میں برکت دے۔

عن صَخْر بن وَدَاعَة الغامدي -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «اللهم بارك لأمتي في بُكُورها» وكان إذا بعَث سَرِيَّةً أو جيشًا بعَثَهم من أوَّل النهار، وكان صَخْر تاجرًا، وكان يبعث تِجارته أوَّل النهار، فأَثْرَى وكثُر مالُه.

صخر بن وداعہ غامدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصے میں برکت دے“۔ آپ ﷺ جب کسی سریہ یا لشکر کو روانہ کرتے تو اُسے دن کے ابتدائی حصے میں روانہ کرتے۔ صخر ایک تاجر آدمی تھے۔ جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے تو انہیں دن کے ابتدائی حصے میں روانہ کرتے چنانچہ وہ مال دار ہوگئے اور ان کے پاس مال کی کثرت ہو گئی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يدعو النبي -صلى الله عليه وسلم- لأمته أن يبارك الله -تعالى- لهم في صباحهم وأول نهارهم؛ ليتسع هذا الوقت لأعمالهم التي يقومون بها، وليكون العمل نفسه في نماء وزيادة؛ سواء كان ذلك في طلب الكسب، أو طلب العلم، أو طلب النصر على العدو، أو أي عمل من الأعمال؛ لذا كان يرسل الجيش للغزاة في أول النهار، وكما حصل ذلك لصخر بن وداعة -رضي الله عنه- الذي صار صاحب مال كثير؛ لدعاء النبي -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی ﷺ اپنی امت کے لیے دعا فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے صبح کے وقت اور ان کے دن کے ابتدائی حصے میں ان کے لیے برکت رکھ دے تاکہ یہ وقت ان کے ان کاموں کے لیے کشادہ ہو جائے جنہیں ان کو کرنا ہے اور بذات خود عمل میں بھی بڑھوتری اور اضافہ ہو، چاہے ایسا تلاشِ معاش میں ہو یا تلاشِ علم میں یا پھر دشمن پر فتح یاب ہونے کے لیے یا پھر کسی بھی دوسرے عمل میں ہو۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ جنگ کے لیے لشکر کو دن کے ابتدائی حصے میں روانہ کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ خود صخر بن وداعہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا جو نبی ﷺ کی اس دعا کی بدولت بہت زیادہ مال دار ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5941

 
 
Hadith   1123   الحديث
الأهمية: ألا هل أُنَبِّئُكم ما العَضْهُ؟ هي النَّمِيمَةُ القَالَةُ بينَ النَّاس


Tema:

کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ ”عَضْہ“ کیا چیز ہوتی ہے؟ اس سے مراد وہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کر دے۔

عن ابن مسعود -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألا هل أُنَبِّئُكم ما العَضْهُ؟ هي النَّميمة القَالَةُ بين النّاس».

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ ”عَضْہ“ کیا چیز ہوتی ہے؟ اس سے مراد وہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کر دے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أراد النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يحذِّر أُمَّتَه مِن الـمَشْي بينَ النَّاس بالنَّمِيمَة، بنَقْل حديث بعضهم في بعض على وَجْه الإفساد بينَهم، فافتتح النبي -صلى الله عليه وسلم- حديثه بصيغة الاستفهام والسؤال؛ ليكون أَوْقَع في النُّفُوس، وأَدْعَى للانتباه، فسألهم: «ما العَضْهُ» أي: ما الكذب والافتراء؟ وفُسر أيضا بالسحر.
ثم أجاب عن هذا السؤال: بأن العَضْهَ هو نَقْلُ الخُصُومة بين الناس؛ لأن ذلك يَفْعَلُ ما يَفْعَلُه السِّحْرُ مِن الفساد، والإضرار بالناس، وتَفْريق القُلُوب بين الـمُتَآلِفَيْنِ، وقَطْع الصِّلَة بين الـمُتَقَارِبَيْنِ، ومَلْء الصُّدُور غَيْظًا وحِقْدًا، كما هو الـمُشَاهَدُ بين النَّاس.
570;پ ﷺ نے اپنی امت کو لوگوں میں ایک دوسرے کی بات کو غلط طریقے سے نقل کرکے لوگوں کی چغلی کھانے سے ڈرانے کا ارادہ فرمایا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی بات کو استفہام اور سوال کے صیغے سے شروع فرمایا تاکہ دلوں پر زیادہ اثر کرے اور متنبہ کرنے کا باعث بنے۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے سوال کیا: العَضْه کیا ہے؟ یعنی جھوٹ اور افترا کیا ہے؟ اس کی تشریح جادو کے ساتھ بھی کی گئی ہے۔
پھر آپ ﷺ نے خود اس سوال کا جواب دیا کہ العَضْه لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے پیدا کرنے کا نام ہے۔ اس لیے کہ یہی فساد، لوگوں کو تکلیف دینا، محبت کرنے والوں کے دلوں میں تفرقہ ڈالنا، رشتے ختم کرنا اور دلوں کو غصے اور کینہ سے بھرنا جادو کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کا لوگوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5942

 
 
Hadith   1124   الحديث
الأهمية: كتب عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- أن اقتُلُوا كلَّ ساحر وساحرة


Tema:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا: ہر جاوگر مرد اور عورت کو قتل کردو۔

عن بَجَالَةَ بن عَبَدة قال: كتب عمر بن الخطاب: «أن اقتُلُوا كلّ ساحر وساحرة». قال: فقتلنا ثلاث سواحر.
وعن ابن عمر-رضي الله عنه-: «أن حفصة سَحَرَتْها جاريتها فاعتَرَفَتْ بسِحْرها، فأمرت عبد الرحمن بن زيد فقتلها».
وعن أبي عثمان النهدي: «أنه كان عند الوليد رجل يلعب فذبح إنسانًا، وأبان رأسه؛ فعَجِبْنا، فأعاد رأسه، فجاء جُنْدُبٌ الْأَزْديّ فقتله».

بحالہ بن عبدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا: ”ہر جاوگر مرد اور عورت کو قتل کردو“۔ بحالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تین جادوگرنیوں کو قتل کیا۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے انہیں جادو کردیا، تحقیق پر اس باندی نے اقرار کرلیا تو انہوں نے عبد الرحمن بن زید کو اسے قتل کردینے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا۔
ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ولید کے پاس ایک آدمی کرتب دکھایا کرتا تھا، اس نے ایک آدمی کو ذبح کردیا اور اس کے سر کو دھڑ سے الگ کردیا، اس پر ہمیں بہت تعجب ہوا، اس نے سر کو دوبارہ جوڑ دیا؛ چنانچہ جندب ازدی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان السِّحْر مِن أخطر الأمراض الاجتماعية؛ لـما يَنْجُم عنه من المفاسد الـمؤكّدة والنتائج الخبيثة: من القتل، وأخذ الأموال بالباطل، والتفريق بين الـمَرْء وزوجه، وكان بعضه كفرًا، وذلك فيما فيه استعانة وتقرب للشياطين: جعل الله له علاجا شافيًا باستِئْصَاله جملة واحدة بقتل الساحر حتى يستقيم المجتمع بفضائله وطهارته واستقامته، وهذا ما فعله هؤلاء الصحابة -رضي الله عنهم-.
670;ونکہ جادو اپنے یقینی مفاسد و برے نتائج یعنی قتل، باطل طریقے سے مال ہتھیانے اور میاں بیوی کے مابین تفریق پیدا کرنے کے اعتبار سے خطرناک ترین معاشرتی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، اس کا کچھ حصہ تو کفر ہے اس لیے کہ اس میں شیطانوں سے استعانت اور ان کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے جادو گر کو قتل کر دینے کا حکم دے کر اس کی مکمل طور پر بیخ کنی کے لیے ایک شافی علاج فراہم کر دیا تاکہ معاشرہ اپنے فضائل وپاکیزگی اور راست روی کے ساتھ صحیح ڈگر پر چل سکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم پر عمل کیا۔   --  [یہ حدیث اپنی تمام روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔]+ +[اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5946

 
 
Hadith   1125   الحديث
الأهمية: إن تَفَرُّقَكم في هذه الشِّعاب والأَوْدِية إنما ذلكم من الشيطان


Tema:

بے شک تمہارا ان گروہوں اور وادیوں میں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔

عن أبي ثَعْلَبَة الخُشَني -رضي الله عنه- قال: كان الناس إذا نزلوا منزلًا تفرقوا في الشِّعابِ والأَوْدِيَةِ، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إن تَفَرُّقَكم في هذه الشِّعاب والأَوْدِية إنما ذلكم من الشيطان». فلم ينزلوا بعد ذلك منزلاً إلا انضم بعضهم إلى بعض.

ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لوگ جب سفر میں کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو مختلف گروہوں اور وادیوں میں بکھر جاتے۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک تمہارا ان گروہوں اور وادیوں میں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے“۔ اس کے بعد جب بھی پڑاؤ ڈالتے تو سب ایک دوسرے سے مل جل کر اکٹھے رہتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الناس إذا نزلوا مكانا أثناء السفر تفرقوا في الشعاب والأودية، فأخبرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تفرقهم هذا من الشيطان؛ ليخوف أولياء الله ويحرك أعداءه، فلم ينزلوا بعد ذلك في مكان إلا انضم بعضهم إلى بعض، حتى لو بُسط عليهم كساء لوسعهم من شدة تقاربهم.
604;وگ جب سفر میں کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو مختلف گروہوں اور وادیوں میں بکھر جاتے ۔ تو نبئ کریم ﷺ نے انھیں بتلایا کہ ان کا یوں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، کہ وہ اللہ کے دوستوں کو ڈرائے اور اس کے دشمنوں کو بھڑکائے پھر اس کے بعد وہ جب بھی کہیں پڑاؤ ڈالتے تو سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اکٹھے رہتے، یہاں تک کہ اگر ان پر چادر ڈال دی جائے تو ان کی شدید قربت کی بناء پر چادر بھی کشادہ ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5948

 
 
Hadith   1126   الحديث
الأهمية: تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَار، تَعِسَ عَبْدُ الدِّرْهَم، تَعِسَ عَبْدُ الخَمِيصَة، تَعِسَ عَبْدُ الخَمِيلَة، إن أُعْطِىَ رَضِيَ، وإن لم يُعْطَ سَخِطَ؛ تَعِسَ وانْتَكَسَ، وإذا شِيكَ فلا انتَقَشَ


Tema:

دینار کا بندہ ہلاک ہو، درہم کا بندہ ہلاک ہو، نقشے دار ریشمی کپڑے کا بندہ ہلاک ہو، مخملی چادر کا بندہ ہلاک ہو، جسے دیا گیا تو خوش اور نہیں دیا گیا تو ناراض۔ ایسا آدمی ہلاک و نامراد ہو اور اگر اسے کانٹا لگے، تو کوئی نکالنے والا نہ ملے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "تَعِسَ عَبْدُ الدينار، تَعِسَ عَبْدُ الدرهم، تَعِسَ عَبْدُ الخَمِيصَة، تعس عَبْدُ الخَمِيلَة، إن أُعْطِيَ رَضِيَ، وإن لم يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وانْتَكَسَ، وإذا شِيكَ فلا انتَقَشَ، طُوبَى لعبد آخذ بعِنَانِ فرسه في سبيل الله، أشعث رأسه، مُغْبَرَّةً قدماه، إن كان في الحِرَاسَةِ كان في الحِرَاسَةِ، وإن كان في السَّاقَةِ كان في السَّاقَةِ، إن استأذن لم يُؤْذَنْ له، وإن شَفَعَ  لم يُشَفَّعْ".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "دینار کا بندہ ہلاک ہو، درہم کا بندہ ہلاک ہو، نقشے دار ریشمی کپڑے کا بندہ ہلاک ہو، مخملی چادر کا بندہ ہلاک ہو، جسے دیا گیا تو خوش اور نہیں دیا گیا تو ناراض۔ ایسا آدمی ہلاک و نامراد ہو اور اگر اسے کانٹا لگے، تو کوئی نکالنے والا نہ ملے۔ ایسے بندے کے لیے جنت کا مژدہ ہے، جو اللہ کے راستے میں گھوڑے کی لگام تھام کر کھڑا ہو۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے ہوں اور پاوں غبار آلود ہوں۔ اگر اسے پہرے داری میں لگا دیا جائے تو اسی میں لگا رہے اور اگر فوج کے پچھلے حصے میں رکھ دیا جائے تو وہیں رہ جائے۔ اگر اجازت طلب کرے تو اسے اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيَّن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن من الناس من تكون الدنيا أكبر همه، ومبلغ علمه، وهدفه الأول والأخير، وأن من كانت هذه حالته سيكون مصيره الهلاك والخسران، وعلامة هذا الصنف من الناس حرصه الشديد على الدنيا، فإن أُعْطِيَ منها رَضِيَ، وإن لم يُعْطَ منها سَخِطَ.
ومنهم من هدفه رضا الله والدار الآخرة، فلا يتطلع إلى جاه ولا يطلب شهرة، إنما يقصد بعمله طاعة الله ورسوله، وعلامة هذا الصنف من الناس عدم الاهتمام بمظهره، ورضاه بالمكان الذي يوضع فيه، وهوانه على الناس، وابتعاده عن ذوي المناصب والهيئات، فإن استأذن عليهم لم  يُؤْذَنْ له، وإن شفع عندهم لم يُشَفِّعُوه، لكن مصيره الجنة، ونَعِمَ الثواب.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ کچھ لوگوں کی سوچ کی معراج، منتہائے علم اور پہلا اور آخری مقصد دنیا ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ اس طرح کے لوگوں کا انجام ہلاکت اور بربادی ہے۔ اس قسم کی لوگوں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے شدید حریص ہوتے ہیں۔ اگر دنیا مل گئی تو خوش اور نہیں ملی تو ناراض۔
جب کہ کچھ لوگوں کا مقصد اللہ کی رضامندی کا حصول اور آخرت کی زندگی کو سنوارنا ہوتا ہے۔ انھیں نہ جاہ و منصب کی طلب ہوتی ہے، نہ شہرت کی تمنا۔ ان کے ہر نیک کام کے پیچھے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ وہ دکھاوے سے مطلب نہیں رکھتے۔ جہاں رکھ دیے جائیں اسی پر راضی اور خوش۔ ایسے لوگ، لوگوں کے سامنے بے وقعت ہوتے ہیں اور عہدہ و منصب والے لوگوں سے دور رہتے ہیں۔ اگر ان کے پاس داخل ہونے کی اجازت مانگیں، تو اجازت نہ ملے اور ان کے پاس کسی کی سفارش کریں، تو سفارش قبول نہ کی جائے۔ لیکن ان کا ٹھکانہ جنت ہے جو ایک بہترین بدلہ ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5949

 
 
Hadith   1127   الحديث
الأهمية: ثلاثة لا يَدْخُلُون الجَنَّة: مُدْمِنُ الخَمْر، وقاطع الرَّحِم، ومُصَدِّقٌ بالسِّحْر


Tema:

تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے؛ شراب ہمیشہ پینے والا، رشتے ناتے کو کاٹنے والا اور جادو کو سچ ماننے والا

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ثلاثة لا يدخلون الجنة مُدْمِنُ خمر، وقاطع الرحم، ومُصَدِّق بالسِّحْر».
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے؛ شراب ہمیشہ پینے والا، رشتے ناتے کو کاٹنے والا اور جادو کو سچ ماننے والا"۔
يُخْبِرُنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث: أن ثلاثة أصناف مِن الناس لن يدخلوا الجنة؛ وذلك لما يرتكبونه من كبائر الذنوب التي تعود بالضرر على الفرد والمجتمع:

فأولها: المداومة على شُرْب الخمر؛ وذلك لما فيه من ذهاب العقل، ومسخ إنسانية الشخص، وسقوط مُرُوءَته.
وثانيها: عدم صلة الأقارب؛ وذلك لما يترتب عليه من العداوة والفُرْقة بين أفراد الأُسْرة، الأمر الذي قد يجعل الإنسان يعيش منفردًا مَنْبُوذًا من أقرب الناس إليه.
وثالثها: التصديق بالسِّحْر؛ وذلك لما فيه من تشجيع الشَّعْوَذَة والتدجيل، وابتزاز أموال الناس بالباطل، والمصدق بما يخبر به السحرة من علم الغيب يشمله الوعيد هنا، وأما المصدق بأن للسحر تأثيرًا، فلا يلحقه هذا الوعيد إذ لا شك أن للسحر تأثيرا، وكذلك من صدق بأن السحر يؤثر في قلب الأعيان بحيث يجعل الخشب ذهبًا أو نحو ذلك فلا شك في دخوله في الوعيد؛ لأن هذا لا يقدر عليه إلا الله -عز وجل-.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں کہ تین قسم کے لوگ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ ایسے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو فرد اور سماج کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں :
پہلی قسم کے لوگ ہيں ہمیشہ شراب پینے والے، کیونکہ شراب عقل کو زائل کرتی، آدمی کی انسانیت کو مسخ کرتی اور اس کی مروت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔
دوسری قسم کے لوگ ہیں رشتے داروں کے حقوق ادا نہ کرنے والے، کیونکہ اس سے پریوار کے افراد کے بیچ دشمنی اور تفرقہ پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں کبھی کبھی انسان قریب کے لوگوں سے بھی الگ تھلگ پڑ جاتا ہے۔
تیسری قسم کے لوگ ہیں جادو کی تصدیق کرنے والے، کیوں کہ اس سے شعبدہ بازی، فریب کاری اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال ہڑپنے کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں جو وعید بیان کی گئی ہے، اس کے اندر جادوگروں کی بتائی ہوئی علم غیب سے متعلق باتوں کی تصدیق کرنے والا بھی آتا ہے۔ جہاں تک اس بات کو ماننے کی بات ہے کہ جادو کی تاثیر ہوتی ہے، تو ایسا ماننے والا اس وعید کے اندر نہیں آتا، کیونکہ جادو کی تاثیر ہوتی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی اگر یہ مانے کہ جادو سے چیزوں کی ماہیت بدل جاتی ہے، مثال کے طور پر یہ مانے کہ جادو لکڑی کو سونا بنادیتا ہے یا اس طرح کى کسی اور بات کو مانے، تو اس کے اس وعید میں داخل ہونے میں کوئی شک نہيں ہے، کیوں کہ یہ کام اللہ عز وجل کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5951

 
 
Hadith   1128   الحديث
الأهمية: ثلاثة لا يُكَلِّمُهم الله، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم: أُشَيْمِط زَانٍ، وعائل مُسْتَكْبِر، ورجل جعل الله بضاعته: لا يشتري إلا بيمينه، ولا يبيع إلا بيمينه


Tema:

تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف (نظرِ رحمت سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک بوڑھا زانی، دوسرا ایسا غریب آدمی جو متکبر ہو اور تیسرا وہ شخص جس نے اللہ کو ہی اپنا سامان تجارت بنا لیا ہو بایں طور کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر خریداری کرے اور اس کی قسم کے ساتھ ہی فروخت کرے۔

عن سلمان الفارسي -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ثلاثة لا يُكَلِّمُهم الله، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم: أُشَيْمِط زَانٍ، وعائل مُسْتَكْبِر، ورجل جعل الله بضاعته: لا يشتري إلا بيمينه، ولا يبيع إلا بيمينه».

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک بوڑھا زانی، دوسرا ایسا غریب آدمی جو متکبر ہو اور تیسرا وہ شخص جس نے اللہ کو ہی اپنا سامان تجارت بنا لیا ہو بایں طور کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر خریداری کرے اور اس کی قسم کے ساتھ ہی فروخت کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُ -صلى الله عليه وسلم- عن ثلاثة أصناف مِن العُصَاة، يُعَاقَبُون أشدَّ العُقُوبة؛ لشَنَاعَة جرائمهم.
أحدهم: مَن يَرْتَكِبُ فاحشة الزِّنا مع كِبَر سِنِّه؛ لأن داعيَ المعصية ضعيفٌ في حقِّه؛ فدلَّ على أن الحامل له على الزِّنا محبَّةُ المعصية والفُجُور، وإن كان الزِّنا قبيحًا مِن كل أحد، فهو من هذا أشدُّ قُبْحًا.
الثاني: فقير يَتَكَبَّرُ على الناس، والكِبْرُ وإن كان قبيحًا مِن كل أحد، لكنَّ الفقير ليس له من المال ما يَدْعُوه إلى الكِبْر، فاستكباره مع عدم الداعي إليه يَدُلُّ على أن الكِبْر طبيعةٌ له.
الثالث: من يَجْعَلُ الحَلِف بالله بضاعةً له، يُكْثِرُ مِن استعماله في البيع والشراء، فيَمْتَهِنُ اسم الله، ويَجْعَلُه وسيلةً لاكتساب المال.
606;بی ﷺ فرما رہے ہیں کہ تین قسم کے گنہ گار ایسے ہیں جنہیں سخت سزا دی جائے گی کیونکہ ان کے جرائم بہت بھیانک ہوں گے:
ایک : تو وہ شخص جو باوجود اپنے بڑھاپے کے زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے حق میں گناہ پر ابھارنے والے عنصر (ہارمونس) کمزور پڑ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے زنا پر صرف معصیت اور گناہ کی چاہت نے آمادہ کیا ہے۔ زنا کسی سے بھی صادر ہو، یہ برا ہی ہوتا ہے تاہم ایسے شخص سے زنا کا ظہور بہت ہی برا ہے۔
دوسرا : وہ شخص جو ہو تو فقیر لیکن پھر بھی لوگوں پر بڑائی جتانے۔ اورتکبر کا اظہار چاہے کسی سے بھی ہو، یہ برا ہی ہوتا ہے لیکن فقیر شخص کے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہوتا جو اسے تکبر پر آمادہ کرے۔ بلا وجہ اس کا تکبر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تکبر اس کی فطرت بن چکا ہے۔
تیسرا: وہ شخص جو اللہ کی قسم کو سامان تجارت بنا لے۔ خرید و فروخت میں کثرت کے ساتھ قسم اٹھائے اور یوں اللہ کے نام کی بے قدری کرے اور اسے مال کمانے کا ذریعہ بنا لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5952

 
 
Hadith   1129   الحديث
الأهمية: لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالَدِه، والناس أجمعين


Tema:

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

عن أنس وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين».

انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث: أنه لا يَكْمُل إيمانُ المسلم، ولا يَتَحَصَّل على الإيمان الذي يَدْخُلُ به الجَنَّة بلا عذاب، حتى يُقَدِّم حُبَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على حُبِّ وَلَدِه ووالده والناس أجمعين، وذلك أن حُبَّ رسول الله يعني: حُبَّ الله؛ لأن الرسول هو المبلِّغ عنه، والهادي إلى دينه، ومحبَّة الله ورسوله لا تَصِحُّ إلا بامتثال أوامر الشرع واجتناب نواهيه، وليس بإنشاد القصائد، وإقامة الاحتفالات، وتلحين الأغاني.
585;سول اللہ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اور نہ اسے وہ ایمان حاصل ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ بغیر عذاب جنت میں داخل ہو جائے گا، جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کو اپنے بچوں، اپنے والدین اور تمام انسانوں کے محبت پر مقدم نہ رکھے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کے معنی ہیں اللہ کی محبت؛ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیام بر اور اس کے دین کی طرف راہ نمائی کرنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت صرف اسی وقت درست ہوتی ہے، جب شریعت کے احکامات کو بجا لایا جائے اور اس کی حرام کردہ اشیا سے اجتناب کیا جائے۔ صرف قصیدے پڑھنا، جلسے اور محفلیں منعقد کرنا اور نغمے پڑھنا کافی نہیں ہے۔۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5953

 
 
Hadith   1130   الحديث
الأهمية: لو أنفقت مثل أُحُد ذَهَبًا ما قَبِلَه الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك، وما أخطأك لم يكن ليصيبك، ولو مُتَّ على غير هذا لكنت من أهل النار


Tema:

اگر تم احد کے برابر سونا بھی، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ تعالیٰ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گیے تو ضرور جہنمیوں میں سے ہوگے۔

عن ابن الدَّيْلَمِي قال: أتيتُ أُبَيَّ بن كعب فقلتُ: في نفْسي شيء من القدر، فحَدِّثْني بشيء لعل الله يُذْهِبَه مِن قلبي. فقال: «لو أنفقتَ مثل أُحُد ذَهَبًا ما قَبِلَه الله منك حتى تؤمن بالقدَر، وتعلمَ أنَّ ما أصابك لم يكن ليُخطِئك، وما أخْطأك لم يكن لِيُصِيبَك، ولو مُتَّ على غير هذا لكنتَ مِن أهل النار».
قال: فأتيتُ عبد الله بن مسعود، وحذيفة بن اليمان، وزيد بن ثابت، فكلهم حدَّثني بمثل ذلك عن النبي -صلى الله عليه وسلم-.

ابن دیلمی کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ تعالیٰ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، انھوں نے فرمایا: اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا بھی، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ تعالیٰ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ تمہیں نہیں پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گیے تو ضرور جہنمیوں میں سے ہوگے۔ابن دیلمی کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ بن یمان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم اجمعین کے پاس آیا تو ان سب نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم ﷺ کی مرفوع روایت بیان کی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخْبِرُ عبد الله بن فَيْرُوز الدَّيْلَمِي -رحمه الله-: أنه حدَث في نفسه إشكالٌ في أمر القدر، فخَشِيَ أن يُفْضِيَ به ذلك إلى جُحُوده، فذهب يسأل أهل العلم من صحابة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؛ لحَلِّ هذا الإشكال، وهكذا ينبغي للمؤمن أن يسأل العلماء عما أُشْكِلَ عليه، عملًا بقول الله تعالى: {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون}، فأفتاه هؤلاء العلماء كلهم بأنه لا بُدَّ من الإيمان بالقضاء والقدر، وأن إنفاق القدر العظيم لا يقبل من الذي لا يؤمن بالقدر، وأن مَن مات وهو لا يؤمن به كان من أهل النار.
593;بداللہ بن فیروز دیلمی رحمہ اللہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ان کے دل میں تقدیر کے مسئلہ میں کچھ اشکال و اشتباہ پیدا ہوگیا اور انھیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ اشکال انھیں تقدیر کے انکار تک نہ پہنچادے، چنانچہ اس اشکال کو دور کرنے کے لیے وہ اہلِ علم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے مسئلہ کا حل دریافت کرنے لگے۔ لہذا اسی طرح ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ ”پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو“ پر عمل کرتے ہوئے، اپنے مشتبہ و مشکل مسائل کے بارے میں علمائے کرام سے حل دریافت کرے۔ چنانچہ ان سارے علماء نے ابن فیروز دیلمی کو یہی فتویٰ دیا کہ قضاء و قدر پر ایمان لانا لازمی ہے اور عظیم کمیت پر مبنی انفاق فی سبیل اللہ کو اس شخص سے قبول نہیں کیا جائے گا جس کا تقدیر پر ایمان نہ ہو اور جو اس حال میں مرجائے کہ تقدیر پر اس کا ایمان نہ ہو تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5954

 
 
Hadith   1131   الحديث
الأهمية: خير الصحابة أربعة، وخير السرايا أربعمائة، وخير الجيوش أربعة آلاف، ولن يغلب اثنا عشر ألفا من قلة


Tema:

بہترین ساتھی چار ہیں، بہترین فوجی دستہ چار سو کا ہے، بہترین فوج چار ہزار کی ہے اور بارہ ہزار کی فوج محض تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگی۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «خير الصحابة أربعة، وخير السَّرَايَا أَرْبَعُمِائة، وخير الجيوش أربعة آلاف، ولن يُغْلَبَ اثنا عشر ألفا مِنْ قِلَّةٍ»

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین ساتھی چار ہیں، بہترین فوجی دستہ چار سو کا ہے، بہترین فوج چار ہزار کی ہے اور بارہ ہزار کی فوج محض تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المعنى: هو أن أحسن الصُّحْبة أربعة، وأن أفضل سرية هي الـمُكوَّنة من أربعمائة، وأن أنفع الجنود الذين بلغوا أربعة آلاف، وأن الجيش إذا بلغ عدده اثنا عشر ألف جندي، والمراد فصاعدا، فإنه لا يُهْزم، وإذا هُزِم فإنه لا يُهْزم بسبب قلة عدده، وإنما قد يهزم لأسباب أخرى: مثل قلة الدين، أو الإعجاب بالكثرة، أو الوقوع في المعاصي، أو عدم الإخلاص لله -تعالى-، ونحو ذلك.
581;دیث کا معنی یہ ہے کہ: سب سے اچھی رفاقت چار افراد کی ہوتی ہے اور سب سے بہتر فوجی دستہ وہ ہے جو چار سو افراد پر مشتمل ہو اور سب سے مفید لشکر وہ ہے جس کی تعداد بارہ ہزار تک پہنچ چکی ہو اور جب فوج کی تعداد بارہ ہزار یا اس سے زیادہ ہو جائے تو اسے شکست نہیں ہوتی اور اگر شکست ہو جائے تو وہ تعداد کی کمی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس صورت میں شکست کے کچھ اور اسباب ہوتے ہیں جیسے دین کی کمی، تعداد کی کثرت پر اترانا یا گناہوں میں مبتلا ہونا یا پھر اللہ کے لیے اخلاص کا فقدان وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5956

 
 
Hadith   1132   الحديث
الأهمية: إذا سافرتم في الخِصْب، فأَعْطُوا الإبل حظَّها من الأرض، وإذا سافرتم في الجَدْب، فأَسْرِعوا عليها السَّيْر، وبادروا بها نِقْيَها


Tema:

جب تم ہریالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان اونٹوں کو زمین میں سے ان کا حق دو ( یعنی گھاس چرنے دو) اور جب تم خشک سالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان پر جلدی سفر کرو ( یعنی سفر کے دوران راستہ میں تاخیر نہ کرو) اور ان کی سکت ختم ہونے سے پہلے (منزلِ مقصود تک) پہنچنے کی کوشش کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إذا سافرتم في الخِصْب، فأَعْطُوا الإبل حظَّها من الأرض، وإذا سافرتم في الجَدْب، فأَسْرِعوا عليها السَّيْر، وبادروا بها نِقْيَها، وإذا عَرَّسْتُم، فاجتنبوا الطريق؛ فإنها طُرُق الدَّوَابِّ، ومَأْوَى الهَوَامِّ بالليل»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم ہریالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان اونٹوں کو زمین میں سے ان کا حق دو ( یعنی گھاس چرنے دو)اور جب تم خشک سالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان پر جلدی سفر کرو ( یعنی سفر کے دوران راستہ میں تاخیر نہ کرو) اور ان کی سکت ختم ہونے سے پہلے (منزلِ مقصود تک) پہنچنے کی کوشش کرو اور اگر رات کو پڑاؤ ڈالو تو راستے سے ہٹ کر پڑاؤ ڈالو کیونکہ یہ جانوروں کے گزرنے کا راستہ اور رات کو نکلنے والے حشرات الارض کی آماجگاہ ہوتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث مراعاة مصالح الإنسان والبهائم، حيث أرشد -صلى الله عليه وسلم- المسافرين إلى هذه الآداب:
فأمر المسافر إذا سافر على راحلة بهيمة: من الإبل، أو الحمر أو البغال، أو الخيل؛ فإن عليه أن يراعي مصلحتها في الرعي والسير؛ لأنه مسؤول عنها: فإذا سافر في أيام كثرة الزرع والعلف؛ فإن عليه أن يتأنى ولا يسرع في السير حتى يعطي الدوابَّ حقها من الرعي، وأنه إذا سافر في أيام قلة الزرع والعلف؛ فإن عليه أن يُسرع في حدود طاقة الدابة؛ حتى لا يُجْهِد الدابَّة ويُتْعِبها.
وكذلك أمر -صلى الله عليه وسلم- المسافر: إذا نزل في الليل ليستريح وينام؛ فإنه لا يفعل ذلك في الطريق، لأنها طرق دوابِّ المسافرين، يترددون عليها، فلا يمنعها عن طُرُقها ويُسَبِّب لها الضرر، وكذلك لأنها مأوى الحشرات ودواب الأرض من ذوات السموم والسباع، تمشي في الليل على الطرق؛ لسهولتها، ولأنها تلتقط منها ما يسقط من مأكول ونحوه.
581;دیث میں انسان اور چوپایوں دونوں ہی کے مصالح کا خیال رکھا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے مسافروں کو ان آداب کے ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی۔
مسافر جب کسی چوپائے مثلاً اونٹ، گدھے، خچر یا گھوڑے پر سوار ہو کر سفر کر رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ چرنے اور چلنے میں اس کی سہولت کا خیال رکھے کیوں کہ وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ اگر وہ ایسے وقت میں سفر کر رہا ہو جس میں کھیتی اور چارے کی کثرت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ آہستہ آہستہ سفر کرے اور جلدی نہ کرے تاکہ چوپائے اتنا چر سکیں جتنا ان کا حق ہے۔ اور جب وہ ایسے وقت میں سفر کرے جس میں کھیتی اور چارے وغیرہ کی قلت ہو تو پھر چوپائے کی طاقت کے لحاظ سے تیزی کے ساتھ سفر کرے تاکہ چوپائے کو تھکا نہ دے۔
اسی طرح نبی ﷺ نے مسافر کو حکم دیا کہ رات کو جب وہ آرام اور نیند کے لئے قیام کرے تو راستے میں پڑاؤ نہ ڈالے کیوں کہ راستے مسافروں کے جانوروں کی گزرگاہ ہیں جن پر وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔چنانچہ راستے میں پڑاؤ کر کے وہ ان کی آمد و رفت کو نہ روکے اور نہ ہی ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور اس ممانعت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ زہریلے کیڑے مکوڑے اور درندے رات کو راستوں میں چلتے پھرتے ہیں کیوں کہ ان پر چلنے میں سہولت ہوتی ہے اور وہ وہاں گری پڑی کھانے وغیرہ کی اشیاء کو اٹھاتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5961

 
 
Hadith   1133   الحديث
الأهمية: عليكم بالدُّلْجَة، فإن الأرض تُطْوَى بالليل


Tema:

رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات کے وقت زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔

عن أنس -رضي الله عنه- مرفوعاً: «عليكم بالدُّلْجَة، فإن الأرض تُطْوَى بالليل».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات کے وقت زمین لپیٹ دی جاتی ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أُمَّته إلى أن يسيروا في الليل، وأخبر أن الأرض تُطْوَى للمسافر إذا سافر في الليل؛ فيقطع في الليل ما لا يقطعه في النهار؛ لأن الدابة بالليل أقوى على المشي، إذا كانت قد نالت قوتها واستراحت في النهار تضاعف مشيها، وكذلك الإنسان يكون في الليل أقدر على المشي لعدم الحر، وكذلك بالنسبة للسيارات تخف الحرارة عليها بالليل.
606;بی ﷺ اپنی امت کی رہنمائی فرما رہے ہیں کہ وہ رات کو سفر کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسافر جب رات کو سفر کرتا ہے تو زمین کو اس کے لیے لپیٹ دیا جاتا ہے چنانچہ وہ رات کو اتنی مسافت طے کر لیتا ہے جتنی دن کو نہیں کرسکتا۔ کیونکہ رات کو چوپائے میں چلنے کی زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ اگر دن میں آرام کر کے وہ تازہ دم ہوچکا ہو تو اس کی چال میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی رات کے وقت زیادہ آسانی سے چلتا ہے کیونکہ گرمی نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح گاڑیوں پر بھی رات کے وقت گرمی کی شدت کم ہوجاتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5966

 
 
Hadith   1134   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كان في سفر، فعَرَّس بليل اضطجع على يمينه، وإذا عَرَّس قُبَيْل الصُّبْح نصَب ذراعه، ووضَع رَأْسه على كَفِّه


Tema:

رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے اور رات کو کہیں ٹھہرتے تو دائیں کروٹ پر لیٹتے اور جب صبح صادق سے کچھ دیر پہلے ٹھہرتے تو اپنا (داہنا) بازو کھڑا کرلیتے اور اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیتے۔

عن أبي قتادة الأنصاري -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا كان في سفر، فعَرَّس بليل اضطجع على يمينه، وإذا عَرَّس قُبَيْل الصُّبْح نصَب ذراعه، ووضَع رَأْسه على كَفِّه.

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے اور رات کو کہیں ٹھہرتے تو دائیں کروٹ پر لیٹتے اور جب صبح صادق سے کچھ دیر پہلے ٹھہرتے تو اپنا (داہنا) بازو کھڑا کرلیتے اور اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیتے۔'

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هديه -صلى الله عليه وسلم- أنه إذا نزل في أول الليل لينام وليستريح وضع جنبه على الأرض على يمينه، وإذا نزل قُرْب طُلُوع الفجر اتكأ ونصب يده واتكأ عليها؛ لأنه إذا كان في أول الليل ينام على اليمين؛ ليعطي النفس حظها من النوم، وأما إذا كان قُرْب الفجر فكان ينصب يده -صلى الله عليه وسلم- وينام عليها؛ لئلا يستغرق في النوم فتَفُوته صلاة الفجر.
570;پ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں آرام فرمانے کے لیے کہیں ٹھہرتے تو دائیں پہلو پر زمین پر لیٹا کرتے تھے اور جب طلوع فجر کے قریب ٹھہرتے تو اپنے ہاتھ کو کھڑا کرکے اس پر ٹیک لگا کر (سویا کرتے تھے)۔ رات کے ابتدائی حصے میں داہنی کروٹ اس لیے سویا کرتے تھے تاکہ نفس کو نیند کا پورا حصہ دیں۔ البتہ جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو اپنے ہاتھ کو کھڑا کرکے اس پر سویا کرتے تھے تاکہ اتنی گہری نیند نہ سو جائیں کہ نماز فجر ہی فوت ہوجائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5968

 
 
Hadith   1135   الحديث
الأهمية: إذا خرج ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم


Tema:

جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔

عن أبي سعيد وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إذا خرج ثلاثة في سفر فَلْيُؤَمِّرُوا أحدهم».

ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يأمر الرسول -صلى الله عليه وسلم- المسافرين أن يُؤَمِّروا عليهم واحدا منهم، يكون أفضلهم، وأجودهم رأياً؛ ليتولى تدبير شؤونهم؛ لأنهم إذا لم يُؤَمِّروا واحدًا صار أمرهم فوضى.
585;سول اللہ ﷺ نے مسافروں کو حکم دیا کہ وہ اپنے میں سے اس ایک شخص کو امیر بنا لیا کریں جو ان میں سے سب سے افضل اور رائے کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو تاکہ وہ ان کے امور کا انتظام کر سکے کیوں کہ اگر وہ کسی کو امیر نہیں بنائیں گے تو ان کا معاملہ افراتفری کا شکار رہے گا۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5970

 
 
Hadith   1136   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَخَلَّف في الـمَسِير، فيُزْجِي الضعيف، ويُرْدِف ويدعو له


Tema:

رسول الله ﷺ سفر کے دوران پیچھے رہتے، کمزور (کی سواری کو) کو آگے ہانکتے، (اگر وہ پیدل ہوتا تو اسے) اپنے پیچھے سوار کرتے اور اس کے لیے دعا کرتے۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَتَخَلَّف في الـمَسِير، فيُزْجِي الضعيف، ويُرْدِف ويدعو له.

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ سفر کے دوران پیچھے رہتے، آپ ﷺ کمزور (کی سواری کو) کو آگے ہانکتے، (اگر وہ پیدل ہوتا تو اسے) اپنے پیچھے سوار کرتے اور اس کے لیے دعا کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
المعنى: أن الرسول -صلى الله عليه وسلم- كان يكون في آخر الناس في السفر؛ ليرى حال الناس والمحتاجين لمساعدة في السفر كالعاجز ومن ليس لديه دابة يركبها، وكان يَسُوق الضعيف، ويحمله خلفه ويدعو له.
581;دیث کا مفہوم: رسول اللہ ﷺ سفر دوران لوگوں میں سب سے پیچھے ہوا کرتے تھے؛ تاکہ آپ ﷺ عام لوگوں اور ضرورت مندوں کے حال سے واقف رہیں، بے کس اور سواری سے محروم لوگوںکی مدد کرسکیں۔ آپ ﷺ کمزور کو آگے بڑھاتے، اسے اپنے پیچھے سوار کرتے اور اس کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5971

 
 
Hadith   1137   الحديث
الأهمية: لا تَسَبُّوا الرِّيح، فإذا رأيتم ما تكرهون فقولوا: اللهم إنا نَسْأَلُكَ مِن خير هذه الريح، وخير ما فيها، وخير ما أُمِرَتْ به، ونعوذ بك من شر هذه الريح، وشر ما فيها، وشر ما أُمِرَتْ به


Tema:

ہوا کو گالی مت دو، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو: اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کی شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے۔

عن أُبَيُّ بن كَعْبٍ -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا تَسُبُّوا الرِّيحَ، فإذا رأيتم ما تكرهون فقولوا: اللهم إنا نَسْأَلُكَ مِن خير هذه الريح، وخير ما فيها، وخير ما أُمِرَتْ به، ونعوذ بك من شر هذه الريح، وشر ما فيها، وشر ما أُمِرَتْ به» .

اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ہوا کو گالی مت دو، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو: ”اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ“ اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کی شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ينهى -صلى الله عليه وسلم- عن سب الريح؛ لأنها مخلوقة مأمورة من الله، فسَبُّها سبٌّ لله، وتَسَخُّطٌ لقضائه، ثم أرشد -صلى الله عليه وسلم- إلى الرجوع إلى خالقها بسؤاله من خيرها والاستعاذة به من شرها؛ لما في ذلك من العبودية لله -تعالى-، وذلك هو حال أهل التوحيد.
570;پ ﷺ نے ہوا کو گالی دینے سے منع فرمایا، کیونکہ وہ اللہ کی پیدا کردہ ہے اور اس کے حکم کی پابند ہے، اس کو گالی دینا اللہ کو گالی دینا اور اس کے فیصلے پر ناراض ہونا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اس کی بھلائی کا خواستگار ہونا اور اس کی شر سے پناہ مانگنا سکھایا، اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت پنہاں ہے اور یہ اہلِ توحید کا وطیرہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5976

 
 
Hadith   1138   الحديث
الأهمية: لا يَقُلْ أحدُكم: اللهم اغفِرْ لي إن شِئْتَ، اللهم ارحمني إن شِئْتَ، لِيَعْزِمِ المسألةَ، فإن الله لا مُكْرِهَ له


Tema:

تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔ اسے چاہیے کہ یقین کے ساتھ سوال کرے، اس لئے کہ اللہ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «لا يَقُلْ أحدُكم: اللهم اغفِرْ لي إن شِئْتَ، اللهم ارحمني إن شِئْتَ، لِيَعْزِمِ المسألةَ، فإن الله لا مُكْرِهَ له».
ولمسلم: «وَلْيُعَظِّمِ الرَّغْبَةَ، فإن الله لا يَتَعَاظَمُه شيءٌ أعطاه».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔ اسے چاہیے کہ یقین کے ساتھ سوال کرے، اس لئے کہ اللہ کو کوئی مجبور کرنے والا نھیں ہے“۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ: ”اور رغبت کا خوب اظہار کرے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز دینا مشکل نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان كل العباد مفتقرون إلى الله عزوجل، والله هو الغني الحميد الفَعَّال لما يريد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم مَن أرادَ الدعاء عن تعليق طلب المغفرة والرحمة من الله على المشيئة، وأمره بعَزْم الطلب دون تعليق؛ لأن تعليق الطلب مِن الله على المشيئة يُشْعِرُ بأن الله يُثْقِلُه شيءٌ مِن حوائج خَلْقِه، أو يَضْطَرُّه شيء إلى قضائها، وهذا خلاف الحق، كما يُشْعِرُ ذلك بفُتُور العبد في الطلب واستغنائه عن ربه، وهو لا غِنًى له عن الله طَرْفَةَ عَيْنٍ، وذلك ينافي الافتقار الذي هو رُوحُ عبادة الدعاء، ولأن التخيير لا يَلِيقُ بالله عزوجل؛ إذ لا مُكْرِهَ له حتى يُخَيَّرَ.
ثم أمر صلى الله عليه وسلم الداعيَ بالإلحاح في الدعاء وأن يَسْأَلَ الله ما أراد مِن الخير كبُر أو صغًر؛ فإن الله لا يَعْسُرُ عليه شيءٌ أراد إعطاءه، ولا يَكْبُرُ عليه حاجةُ سائل؛ فإنه مالك الدنيا والآخرة، المتصرف فيهما التصرُّف المطلق، وهو على كل شيء قدير.
670;ونکہ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، اور اللہ تعالیٰ غنی اور تعریفوں والا ہے، جو چاہے کرتا ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے دعا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کو اس کی مشیّت پر موقوف کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسے یقین کے ساتھ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ سے کسی چیز کی طلب کو اس کی مشیّت پر موقوف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہے یا کوئی چیز اسے ان کے پورا کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ جب کہ یہ درست نہیں۔ اسی طرح یہ بندے کے مانگنے میں سردمہری اور اپنے رب سے بے نیاز ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ حالانکہ بندہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ اس محتاجگی کے بھی منافی ہے جو دعاء کی عبادت کی روح ہے۔ مزید یہ کہ انتخاب اور چننا اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں، اس لئے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے کہ اسے انتخاب کا حق دیا جائے۔پھر آپ ﷺ نے دعا مانگنے والے کو دعا میں اصرار کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ جو چاہے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز دینا مشکل نہیں اور نہ ہی اس پر کسی سائل کی ضرورت کو پورا کرنا گراں ہے، کیوںکہ وہ دنیا و آخرت کا مالک ہے، ان میں مطلق تصرف کرنے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5978

 
 
Hadith   1139   الحديث
الأهمية: إن أول ما خلق الله القلم، فقال له: اكتب. فقال: رب، وماذا أكتب؟ قال: اكتب مقادير كل شيء حتى تقوم الساعة


Tema:

اللہ نے سب سے پہلے جس شے کو پیدا کیا وہ قلم ہے اور اس سے فرمایا: لکھ۔ اس نے پوچھا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ۔

عن عبادة بن الصامت -رضي الله عنه- قال: يا بُنَيَّ، إنك لن تجد طعم الإيمان حتى تعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك، وما أخطأك لم يكن ليصيبك، سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إن أول ما خلق الله القلم، فقال له: اكتب. فقال: رب، وماذا أكتب؟ قال: اكتب مقادير كل شيء حتى تقوم الساعة». يا بني سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «من مات على غير هذا فليس مني».
وفي رواية لأحمد: «إن أول ما خلق الله تعالى القلم، فقال له: اكتب، فجرى في تلك الساعة بما هو كائن إلى يوم القيامة».
وفي رواية لابن وهب قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «فمن لم يؤمن بالقدر خيره وشره أحرقه الله بالنار».

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! تم اس وقت تک ایمان کی حلاوت محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں (اچھا یا برا) ملنا ہے وہ تمہیں مل کر ہی رہے گا اور جو تمہیں نہیں ملا وہ تمہیں مل ہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ نے سب سے پہلے جس کو پیدا کیا وہ قلم ہے اور اس سے فرمایا: لکھ۔اس نے پوچھا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟۔ اللہ تعالی نے فرمایا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ“۔
اے میرے بیٹے! میں ںے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”جو شخص اس عقیدے کے بجائے کسی اور عقیدے پر مر گیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں“۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ”اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اسے فرمایا: لکھو ۔ چنانچہ قلم اسی وقت وہ سب کچھ لکھنے لگ گیا جو قیامت تک ہونا ہے“۔
ابن وہب سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لایا اسے اللہ (دوزخ کی) آگ میں جلاے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن عُبَادة بن الصَّامِت -رضي الله عنه- يُوصي ابنه الوليد بالإيمان بالقدر خيره وشره، ويبيِّن له ما يَتَرَتَّبُ على الإيمان به من الثمرات الطيبة والنتائج الحسنة في الدنيا والآخرة، وما يترتب على إنكار القدر من الشرور والمحاذير في الدنيا والآخرة، ويستدل على ما يقول بسنة الرسول -صلى الله عليه وسلم- التي تُثْبِتُ أن الله قدَّر المقادير وأمَر القلم بكتابتها قبل وجود هذه المخلوقات، فلا يقع في الكون شيء إلى قيام الساعة إلا بقضاء وقَدَر.
593;بادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے ولید کو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانے کی نصیحت کر رہے ہیں اور تقدیر پر ایمان لانے سے دنیا و آخرت میں جو پاکیزہ پھل اور اچھے نتائج ملتے ہیں اور تقدیر کے انکار پر جو دنیا و آخرت کی برائیاں اورآفات جنم لیتی ہیں ان کی وضاحت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں جس کے مطابق اللہ تعالی نے مخلوقات کے وجود میں آنے سے پہلے ہی تقدیر متعین کر دی ہے اور قلم کو اس کے لکھنے کا حکم فرما دیا ہے۔ چنانچہ قیامت آنے تک اس کائنات میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہو گا وہ قضاء و قدر کے مطابق ہی ہوگا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ وھب نے اپنی کتاب ”القدر“ میں روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5979

 
 
Hadith   1140   الحديث
الأهمية: ليس منا من تَطَيَّر أو تُطُيِّر له، أو تَكَهَّن أو تُكِهِّن له، أو سحَر أو سُحِر له؛ ومن أتى كاهنا فصدَّقه بما يقول؛ فقد كفر بما أنزل على محمد -صلى الله عليه وسلم-


Tema:

جو فال نکالے یا جس کے لیے فال نکالا جائے، یا جو کاہنوں کا پیشہ اختیار کرے یا جو کاہن کے پاس جائے یا جو جادو کرے یا کروائے یہ ہم میں سے نہیں۔ جو کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے، اس نے محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین سے کفر کیا۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنه- وابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «ليس منا من تَطَيَّر أو تُطُيِّر له، أو تَكَهَّن أو تُكِهِّن له، أو سحَر أو سُحِر له؛ ومن أتى كاهنا فصدَّقه بما يقول؛ فقد كفر بما أنزل على محمد -صلى الله عليه وسلم-».

عمران بن حصین اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو فال نکالے یا جس کے لیے فال نکالا جائے، جو کہانت کا پیشہ اختیار کرے یا جو کاہن کے پاس جائے یا جو جادو کرے یا کروائے، وہ ہم میں سے نہیں۔ جو کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی، اس نے محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین سے کفر کیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يقول -صلى الله عليه وسلم-: لا يكون من أتباعنا المتبعين لشرعنا من فعل الطِّيَرَةَ أو الكهانة أو السحر، أو فُعِلَت له هذه الأشياء؛ لأن فيها ادعاء لعلم الغيب الذي اختص الله به، وفيها إفساد للعقائد والعقول، ومن صدَّق من يفعل شيئا من هذه الأمور؛ فقد كفر بالوحي الإلهي الذي جاء بإبطال هذه الجاهليات ووقاية العقول منها، ويلحق بذلك: ما يفعله بعض الناس من قراءة ما يسمى بالكف والفنجان، أو ربط سعادة الإنسان وشقائه وحظه بالبروج ونحو ذلك.
وقد بيَّن كل من الإمامين البغوي وابن تيمية معنى العرَّاف والكاهن والمنجِّم والرَّمَّال بما حاصله: أن كل من يدعي علم شيء من المغيَّبات فهو إما داخل في اسم الكاهن أو مشارك له في المعنى فيلحق به، والكاهن هو الذي يخبر عما يحصل في المستقبل ويأخذ عن مُسْتَرِق السمع من الشياطين.
570;پ ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ بدفالی لینے والا، کہانت اور جادو کرنے یا کروانے والا ہماری شریعت کا اتباع کرنے والوں میں سے نہیں۔ اس لئے کہ اس میں علمِ غیب کا دعویٰ کرنا ہے جو کہ اللہ کے ساتھ خاص ہے، اس میں عقائد اور عقلوں کا بگاڑ ہے، جس نے ان میں سے کسی چیز کی تصدیق کی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اس وحی سے کفر کیا جس نے جاہلیت کے رسوم کو باطل کیا اور عقلِ انسانی کو ان جیسے تصورات سے بچایا۔ بعض لوگ جو کف و فنجان کے نام سے کچھ پڑھتے ہیں یا انسان کی نیک بختی و بدبختی اور اس کی قسمت کو بُرجوں کے ساتھ ملاتے ہیں وغیرہ اسی قبیل سے ہے۔ امام بغوی اور امام ابن تیمیہ نے عرّاف، کاہن، نجومی اور رمّال کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک علمِ غیب کا دعویٰ کرتا ہے یہ یا تو کاہن میں داخل ہوگا یا اس کے کسی مشترک معنیٰ میں چنانچہ اسے بھی کاہن کے حکم ہی سے جورا جائے گا۔ کاہن وہ ہے جو شیاطین کے چوری چھپے سنی ہوئی باتیں سن کر مستقبل کی خبریں بتائے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بزّار نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5981

 
 
Hadith   1141   الحديث
الأهمية: من أتَى عرَّافًا فسأله عن شيء، فصدَّقه لم تُقْبَلْ له صلاةٌ أربعينَ يومًا


Tema:

جو کسی عرّاف (غیبی امور کے جاننے کے دعوے دار) کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے متعلق پوچھے اور اس کو سچ مانے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی۔

عن حفصة بنت عمر بن الخطاب -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "من أتَى عرَّافًا فسأله عن شيء، فصدَّقه لم تُقْبَلْ له صلاةٌ أربعينَ يومًا".

ام المؤمنین حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کسی عرّاف (غیبی امور کے جاننے کے دعوے دار) کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے متعلق پوچھے اور اس کو سچ مانے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبرنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أن من جاء إلى عرّاف من العرافين -وهو من يدعي معرفة المغيبات- فسأله عن شيء من أمور الغيب، وصدّقه بما يقول فإن الله سيحرمه من ثواب صلاته أربعين يومًا، وذلك عقوبة له على ما أقدم عليه من الإثم والذنب الكبير، وأما من صدّقهم فقد كفر بما أنزل على محمد -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، كما جاء في الحديث الآخر، وإذا كان هذا جزاءُ من أتى الكاهن فكيف بجزاء الكاهن نفسه! نعوذ بالله من ذلك ونسأل الله العافية.
575;س حدیث میں رسول اللہ ﷺ ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ جو کوئی کسی عرّاف (غیبی امور کے جاننے کے دعوے دار) کے پاس آئے اور اس سے کسی غیبی بات کی بابت پوچھے اور اس کی کہی ہوئی بات کو سچ جانے تو ایسے شخص کو اللہ تعالی چالیس دن نماز کے ثواب سے محروم کردے گا، اس لیے کہ اس نے اتنا بڑا گناہ کا کام کیا ہے۔ اور جو شخص ان غیبی امور کے جاننے کے دعوے داروں کی تصدیق کرے انھیں سچا جانے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے۔ یہ سزا تو اس شخص کی ہے جو کسی کاہن کے پاس جائے تو پھر کاہن کی کیا سزا ہو سکتی ہے ذرا غور کیجئے! ہم ایسے گناہوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اور اس سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5986

 
 
Hadith   1142   الحديث
الأهمية: من اقتَبَس شُعْبَة من النُّجوم؛ فقد اقتَبَسَ شُعْبة من السِّحْر، زاد ما زاد


Tema:

جس نے علم نجوم کا کوئی حصہ سیکھا تو اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا، وہ جتنا زیادہ علمِ نجوم سیکھے گا اتنا ہی زیادہ جادو سیکھے گا۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "من اقتَبَس شُعْبَة من النُّجوم؛ فقد اقتَبَسَ شُعْبة من السِّحْر، زاد ما زاد".

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے علم نجوم کا کوئی حصہ سیکھا تو اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا، وہ جتنا زیادہ علمِ نجوم سیکھے گا اتنا ہی زیادہ جادو سیکھے گا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كان الغيب من الأشياء التي استأثر الله -تعالى- بها أبطل النبي -صلى الله عليه وسلم- كل محاولة للاستكشاف والاطلاع على أسراره، ومن ذلك التنجيم الذي هو الاستدلال بالأحوال الفلكية على الحوادث الأرضية، فقد بين -صلى الله عليه وسلم- أن تعلم هذا ضرب من السحر، وأنه كلما أكثر الإنسان منه فقد أكثر من السحر.
670;ونکہ علم غیب ان چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کر رکھا ہے نبیﷺ نے ہر اس کوشش کو باطل قرار دیا جو علم غیب کا انکشاف کرنے اور اس کے رازوں سے مطلع اور آگاہ ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ علم نجوم بھی اسی قبیل سے ہے، علم نجوم سے مراد وہ علم ہے جس میں فلکی احوال کی مدد سے زمین پر رونما ہونے والے واقعات پر استدلال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے یہ بتایا کہ علم نجوم سیکھنا جادو سیکھنے کے قبیل سے ہے اور یہ کہ جتنا زیادہ انسان علم نجوم سیکھے گا وہ اتنی ہی زیادہ جادو سیکھے گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5989

 
 
Hadith   1143   الحديث
الأهمية: كنا إذا نَزَلْنا مَنْزِلًا، لا نُسَبِّحَ حتى نَحُلَّ الرِّحال


Tema:

جب ہم کسی جگہ پڑاؤ کرتے، تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتے، جب تک کجاؤں کو نہ اتار دیتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن أنس -رضي الله عنه- قال: كنا إذا نَزَلْنا مَنْزِلًا، لا نُسَبِّحَ حتى نَحُلَّ الرِّحال.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کسی جگہ پڑاؤ کرتے، تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتے، جب تک کجاؤں کو نہ اتار دیتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
معنى الحديث: أنَّا مع حِرْصنا على الصلاة فإنَّا لا نُقَدِّمها على وضع الأمتعة عن ظهور الدَّوَابِّ؛ لإراحتها.
581;دیث کا مفہوم: ہم (صحابہ) باوجود اس کے کہ نماز کے بہت حریص ہوتے، چوپایوں کی پیٹھ سے سامان اتارنے سے پہلے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تا کہ چوپایوں کو آرام دیا جا سکے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 5999

Open بادئة     End خاتمة
       





© EsinIslam.Com Designed & produced by The Awqaf London. Please pray for us