یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔
ایسا نہ ہو کہ وه تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے
اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیده کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی
تعبیر) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر
والوں کو بھی، جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم واسحاق
کو بھی بھرپور اپنی نعمت دی، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم واﻻ اور زبردست حکمت واﻻ
ہے
جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیاده پیارے
ہیں حاﻻنکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں
ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں
ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو
پھر جب اسے لے چلے اور سب نے مل کر ٹھان لیا کہ اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں
پھینک دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو
انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وه جانتے ہی نہ ہوں
اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو
ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا پس اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے،
گو ہم بالکل سچے ہی ہوں
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر ﻻئے تھے، باپ نے کہا یوں
نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری
بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی ﻻنے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا
دیا، کہنے لگا واه واه خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے، انہوں نے اسے مال تجارت
قرار دے کر چھپا دیا اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وه کر رہے تھے
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت
واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا
ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی
تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے
ہیں
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وه اپنے
نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کرکے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی
پناه! وه میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا
بھلا نہیں ہوتا
اس عورت نے یوسف کی طرف قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وه اپنے پروردگار کی
دلیل نہ دیکھتے، یونہی ہوا اس واسطے کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں۔ بے
شک وه ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کر
پھاڑ ڈاﻻ اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا، تو کہنے لگی جو شخص
تیری بیوی کے ساتھ برا اراده کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا
اور کوئی دردناک سزا دی جائے۔
یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی، اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے
گواہی دی کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے
والوں میں سے ہے
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا
مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت
بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وه صریح گمراہی میں ہے
اس نے جب ان کی اس پر فریب غیبت کا حال سنا تو انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے ایک
مجلس مرتب کی اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی۔ اور کہا اے یوسف! ان کے سامنے چلے
آؤ، ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے، اور زبان سے
نکل گیا کہ حاشاللہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ
ہے
اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا، یہی ہے جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں،
میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا لیکن یہ بال بال بچا رہا، اور جو کچھ
میں اس سے کہہ رہی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو یقیناً یہ قید کر دیا جائے گا اور بیشک
یہ بہت ہی بے عزت ہوگا
یوسف نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس
سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو
میں تو ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا
اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ
میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ
کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں
آپ اس کی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں
یوسف ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے
پہلے ہی میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا۔ یہ سب اس علم کی بدولت ہے جو مجھے میرے
رب نے سکھایا ہے، میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے
اور آخرت کے بھی منکر ہیں
میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم واسحاق اور یعقوب کے دین کا،
ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں، ہم پر
اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے
ہیں
اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وه سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے
باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں
فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے
کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اے میرے قیدخانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاه کو شراب پلانے پر
مقرر ہو جائے گا، لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سرنوچ نوچ
کھائیں گے، تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا
اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ
اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاه سے ذکر کرنا
بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قیدخانے میں ہی کاٹے
بادشاه نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں جن کو
سات ﻻغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات
بالکل خشک۔ اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے
ہو
اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی
گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالکل سبز خوشے ہیں اور
سات ہی دوسرے بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جاکر ان لوگوں سے کہوں کہ وه سب جان لیں
یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل
کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے
اور بادشاه نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ، جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے
کہا، اپنے بادشاه کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا
ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے، تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے واﻻ میرا
پروردگار ہی ہے
بادشاه نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کر کے یوسف
کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں، انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اللہ ہم نے
یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات
نتھر آئی۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وه سچوں میں سے ہے
(یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ
پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے واﻻ ہی ہے،
مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے واﻻ بڑی بخشش کرنے واﻻ
اور بہت مہربانی فرمانے واﻻ ہے
بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں، پھر
جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے
سہے، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے
جب انہیں ان کا اسباب مہیا کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی ﻻنا
جو تمہارے باپ سے ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں
ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں
اپنے خدمت گاروں سے کہا کہ ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو کہ جب لوٹ کر
اپنے اہل وعیال میں جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ پھر لوٹ
کر آئیں
جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے تو غلہ کا ناپ روک لیا
گیا۔ اب آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیجئے کہ ہم پیمانہ بھر کر ﻻئیں ہم اس کی
نگہبانی کے ذمہ دار ہیں
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا کہ مجھے تو اس کی بابت تمہارا بس ویسا ہی اعتبار ہے
جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا، بس اللہ ہی بہترین حافﻆ ہے اور وه سب
مہربانوں سے بڑا مہربان ہے
جب انہوں نے اپنا اسباب کھوﻻ تو اپنا سرمایہ موجود پایا جو ان کی جانب لوٹا دیا گیا
تھا۔ کہنے لگے اے ہمارے باپ ہمیں اور کیا چاہیئے۔ دیکھئے تو یہ ہمارا سرمایہ بھی
ہمیں واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ ہم اپنے خاندان کو رسد ﻻدیں گے اور اپنے بھائی کی
نگرانی رکھیں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ زیاده ﻻئیں گے۔ یہ ناپ تو بہت آسان ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک
کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول وقرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو
گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لئے جاؤ۔ جب انہوں نے پکا قول قرار دے
دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے
اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی
جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے
ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک
بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
جب وه انہی راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا، گئے۔ کچھ نہ تھا کہ
اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وه اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ
السلام) کے دل میں ایک خیال (پیدا ہوا) جسے اس نے پورا کر لیا، بلاشبہ وه ہمارے
سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کرکے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں
پانی پینے کا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے
والو! تم لوگ تو چور ہو